(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، علامہ محمد حسیب احمد، سیرۃ النبی انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:36، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 1044-1055)
شبِ میلاد پورے عالمِ اسلام میں مختلف انداز سے خوشی اور فرحت کااظہار کیاجاتا ہے۔اکثر اہم قومی،تاریخی اور مذہبی مقامات پر چراغاں اوربرقی قمقمےمختلف انداز اور شکلوںمیں روشن کیے جاتےہیں۔بعض اونچی عمارات جو ہر قومی تہوارپر سجائی اور برقی قمقموں سے روشن کی جاتی ہیں انہیں لازماً اس بابرکت رات میں اسی جذبۂ ایمانی سے رنگ ونور سے منور و مزین کیا جاتا ہےتاکہ آج ٹیکنالوجی زدہ دنیا کویہ پیغام دیاجاسکے کہ مسلمان جس طرح اپنے قومی تہوار منانے سے غافل نہیں ہیں ویسے ہی زندگی کے اس دینی ،مذہبی او رروحانی یومِ تجدیدِ عہدِ وفاکے دن کو یاد رکھنے سے بھی وہ غافل نہیں ہیں۔اس لیے گھروں، دفاتر، اہم عمارات، مساجد، مدارس اورجامعات سمیت اہم شاہراہوں، گزرگاہوں،باغات، چورنگیوں اور گاڑیوں کو مخصوص روشنیوں سے بقعۂ نور بنادیا جاتاہے۔
ہر دور میں موجود سامان مسرت کے ذریعے خوشی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ کسی دورمیں چراغ روشن ہوتے تھے، کسی دور میں فانوس روشن کیے جاتے تھے، کسی دور میں قندیلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں مشعلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں شمعیں روشن کی جاتی تھیں اور موجودہ دور میں بجلی موجود ہے لہٰذا ہر مقام پر چراغاں کے ذریعہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر میں مساجد پر لائٹنگ کی جاتی ہے، تکمیل ِقرآن کی محافلوں میں بڑی بڑی لائٹیں لگائی جاتی ہیں، مذہبی، سیاسی اور سماجی اجتماعات کے مواقع پر لائٹیں لگائی جاتی ہیں، منگنی اور شادی کے موقع پر گھر کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے، ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر خوب روشنی کی جاتی ہے، شادی کے موقع پر شادی ہال، گلیوں اور عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور یہ سب خوشی کے اظہار کے لیے کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ہر نعمت پر شایانِ شان طریقہ سے شکر ادا کرنا اسلامی روایت رہی ہے۔شکر کے انداز میں زبانی شکر،فعل وعمل سے شکر،صدقات وعطیات سے شکر اور اظہارِ فرحت کے ذریعہ شکر شامل ہے۔اس لیےہر مذہبی تہواراوررسم کے موقع پر روشنی اور چراغاں کرناتمام مذہبی وغیر مذہبی اقوام اور تہذیبوں میں یکساں صدیوں سے مروّج ہے۔ہر نعمت،نعمتِ خداوندی ہے جبکہ ذاتِ مصطفیٰ اصلِ نعمتِ الہٰی ہیں۔ اس نعمتِ کبریٰ کی آمد کی خوشی اور یاد میں چراغاں کی حقیقت و ضرورت کیا ہے اس کو بیان کرتےہوئے عبداﷲ حطاب مالکی لکھتے ہیں:
ابن عباد، فقد قال فى رسائله الكبرى ما نصه: وأما المولد فالذى یظھر لى أنه عید من أعیاد المسلمین وموسم من مواسمھم، وكل مایفعل فیه مایقتضیه وجود الفرح والسرور بذلك المولد المبارك من إیقاد الشمع، وإمتاع البصر والسمع، والتزین بلبس فاخر الثیاب، وركوب فاره الدواب، أمر مباح لاینكر على أحد قیاسا على غیره من أوقات الفرح، والحكم بكون هذه الأشیاء بدعة فى هذا الوقت الذى ظھر فیه سر الوجود، وارتفع فیه علم الشھود، وانقشع فیه ظلام الكفر والجحود، وادعاء أن هذا الزمان لیس من المواسم المشروعة لأهل الإیمان، ومقارنة ذلك بالنیروز والمھرجان أمر مستثقل تشمئز منه القلوب السلیمة، وتدفعه الآراء المستقیمة.1
ابن عباد نے اپنے رسائل کبریٰ میں بیان کیا ہے کہ حضور کی پیدائش کا دن مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید ہے اور تقاریب میں سے ایک تقریب ہے اور وہ چیز جو فرحت وسرور کا باعث ہو آپ کی ولادت کے دن مباح اور جائز ہے مثلاً روشنی کرنا ،اچھا لباس پہننا، جانوروں کی سواری کرنا، اس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ان امور کے بدعت ہونے کا حکم اس وقت ہے جبکہ کفر وظلمت اور خرافات وغیرہ ظاہر ہونے کا خوف ہو۔ یہ دعویٰ کرنا مناسب نہیں کہ عید ِمیلاد اہل ایمان کی مشروع تقریبوں میں شامل نہیں ہے۔ اور اس کو نیروزومہرجان سے ملانا ایک ایسا امر ہے جو سلیم الطبع انسان کو منحرف کرنے کے برابر ہے۔
اسی طرح حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت کی خوشی کے موقع پر چراغاں کرنا جائز زینت میں داخل ہے اور زنیت اختیار کرنا اصلاً مستحب ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ322
فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟
"تزین"کا معنی ہے زینت اختیار کرنااور زینت لغت میں ایسا جامع اسم ہے جوعمدگی کی ہر چیز کو شامل ہے چنانچہ "الموسوعۃ الفقہیۃ" میں ہے:
اسم جامع لكل شىء یتزین به.3
"تزین" ایسا جامع اسم ہے جو زینت کی ہر چیز کو شامل ہے۔
کسی فعل کی ممانعت اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے نہ ہو تو ایسے فعل کو عمل میں لانامباح ہے اور ظاہر ہے کہ روشنی سےزینت حاصل کرنے کی نہی نصوصِ شرعیہ سے ثابت نہیں ہے ورنہ صحابہ کرام ہرگز ایسا نہ کرتے کیونکہ انہوں نے مسجد میں سب سےپہلے چراغاں کیا تھا۔4
عند الشرع یہ بات بطور اصول مقرر ہوچکی ہے کہ جس زینت کی نہی شرع سے ثابت نہیں وہ خالص مباح ہے اور آیۃ کریمہ "قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَۃَ اللہِ الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ"کے حکم میں داخل ہے چنانچہ امام فخر الدین رازی اس آیۃ کریمہ کے بارے میں مفسرین کرام رحمۃ اللہ علیھم کے ایک قول کو نقل کرنے کے بعد دوسرے قول کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:
والقول الثانى: إنه یتناول جمیع أنواع الزینة فیدخل تحت الزینة جمیع أنواع التزیین ویدخل تحتھا تنظیف البدن من جمیع الوجوه ویدخل تحتھا المركوب ویدخل تحتھا أیضا أنواع الحلى لأن كل ذلك زینة ولولا النص الوارد فى تحریم الذهب والفضة والإبریسم على الرجال لكان ذلك داخلا تحت هذا العموم.5
قولِ ثانی یہ ہے کہ آیۃ کریمہ میں زینت سے مراد تمام انواع واقسام کی زینت ہے پس جس قدر اقسام اور انواع زینت کی ہیں وہ سب اس آیت میں داخل ہیں۔ بدن کی صفائی بھی اس میں داخل ہے تمام وجوہ سے (یعنی خواہ صابن کے ساتھ ہو یا کسی دوسری چیز کے ساتھ) سواریاں بھی اس میں داخل ہیں (یعنی دورِ قدیم وجدیدکی جملہ سواریاں ) اور زیوارت کی کل اقسام بھی آیت میں داخل ہیں۔کیونکہ یہ سب چیزیں زینت ہیں حتیٰ کہ چاندی ،سونا ،ریشم مردوں پر شرعاً حرام نہ ہوتے اور ان کی حرمت میں کوئی نص واردنہ ہوتی تو وہ بھی مردوں کے لیے حلال ہوتے۔
لیکن چونکہ سونا چاندی ریشم مردوں پر حرام ہے اسی لیے وہ اس آیۃ کریمہ میں سے مستثنیٰ کردئیے گئے اس سے معلوم ہوا کہ اس آیۃ کریمہ میں جملہ اقسام کی زینت مراد ہے اور جب تک شارع کی جانب سے کسی خاص قسم کی زینت کی نہی وارد نہ ہو اس وقت تک وہ خالص مباح ہے اور اس کو حرا م وبدعت کہنا شریعت میں تصرف ودست اندازی کرنا ہے۔ پھر یہی امام فخر الدین رازی ایک طویل حدیث نقل فرماکر حدیث کے مستدل کوبیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
واعلم أن هذا الحدیث یدل على أن هذه الشریعة الكاملة تدل على أن جمیع أنواع الزینة مباح مأذون فیه إلا ما خصه الدلیل فلھذا السبب أدخلنا الكل تحت قوله: قل من حرم زینة اللّٰه.6
جان لو کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ شریعت کاملہ میں تمام انواع زینت مباح خالص ہیں ان کے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن زینت کی وہی قسم ممنوع وناجائز ہے جو کسی دلیل شرعی کے ساتھ خاص ہوگئی ہے۔ پس اس وجہ سے تمام اقسام زینت (یعنی ہرقسم کی سواریاں، ہر قسم کے اسباب، صفائی بدن کے، ہر قسم کے کھانےکی چیزیں، جو منجانب شریعت ممنوع نہیں ہیں) اس آیت کریمہ"قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَۃَ اللّٰه الَّتِيْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ"کے تحت داخل ہیں۔
مذکورہ بالادلائل سے ثابت ہوگیا ہے کہ کل انواع واقسام زینت مباح وجائز ہیں لیکن زینت کی جس قسم کو شارع نے حرام کردیا وہ حرام وناجائز ہے اور جن کو شارع نے حرام نہیں کیا توبندوں کو اس کے اختیار کرنے کی اجازت ہے 7 اور اسی وجہ سے صدرِ اول کے اصحاب مساجد میں چراغاں کیا کرتے تھے چنانچہ اس حوالہ سے امام نور الدین حلبیلکھتے ہیں:
ذكر أن المسجد كان إذا جاءت العتمة یوقد فیه بسعف النخل، فلما قدم تمیم الدارى المدینة صحب معه قنادیل وحبالا وزیتا وعلق تلك القنادیل بسوارى المسجد وأوقدت، فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم نوّرت مسجدنا نوّر اللّٰه علیك، أما واللّٰه لو كان لى ابنة لأنكحتكھا.8
کہا جاتا ہے کہ رات کو جب مسجدِ نبوی میں اندھیرا پھیل جاتا تو مسجد میں روشنی کرنے کے لیے کھجور کی شاخیں جلائی جایا کرتی تھیں۔ پھر جب حضرت تمیم داری مدینہ آئے تو وہ اپنے ساتھ قندیلیں اور رسیاں اور زیتون کا تیل لائے انہوں نے یہ قندیلیں مسجد کے احاطے میں لٹکادیں اور رات کو ان کو جلادیا یہ دیکھ کر آنحضرت نے فرمایا:تم نےہماری مسجد روشن کردی اﷲ تعالیٰ تمہارے لیے بھی روشنی کا سامان فرمائے۔ خدا کی قسم اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کو تم سے بیاہ دیتا۔9
اسی طرح اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے امام حلبی تحریر فرماتے ہیں:
ثم رأیت فى أسد الغابة عن سراج غلام تمیم الدارى قال قدمنا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ونحن خمسة غلمان لتمیم الدارى، فأمرنى یعنى سیده فأسرجت المسجد بقندیل فیه زیت وكانوا لا یسرجون فیه إلا بسعف النخل، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من أسرج مسجدنا؟ فقال تمیم: غلامى هذا، فقال: ما اسمه؟ فقال فتح فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بل اسمه سراج، فسمانى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم سراجا.10
تمیم داری کے غلام سراج کی ایک روایت کتاب اسد الغابہ میں ہے کہ ہم لوگ رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تمیم داری کے ہم کُل پانچ (5) غلام تھے (اور اپنے آقا کے ساتھ مدینہ آئے تھے) یہاں تمیم داری کے حکم پرمیں نے مسجدِ نبوی میں قندیل جلاکر اسے روشن کیا اور قندیلوں میں زیتون کا تیل جلایا گیا۔ اس سے پہلے مسلمان مسجد ِنبوی میں صرف کھجور کی شاخیں جلاکر اسے روشن کیا کرتے تھے آنحضرت نے مسجد کو روشن دیکھا تو فرمایا:ہماری مسجد کو کس نے روشن کیا ہے؟تمیم داری نے کہا کہ میرے اس غلام نے۔ آپ نے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا فتح ہے آپ نے فرمایا:نہیں اس کا نام سراج ہے۔اس طرح رسول اﷲ نے میرا نام سراج رکھ دیا۔11
اور یہ بات واضح رہے کہ عربی میں سراج کے معنی چراغ کے ہیں چونکہ حضرت تمیم داری کے اس عمل سے آپ خوش ہوئے تو آپ نے چراغاں کرنے والے غلام کا نام ہی سراج یعنی روشن کرنے والا رکھدیا۔اسی طرح حضرت ابوہریرہ سے مروی ایک روایت ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
أول من أسرج فى المسجد تمیم الدارى.12
سب سے پہلے مسجد میں چراغ حضرت تمیم داری نے جلایا۔
معلوم ہوا کہ روشنی جواَز قسمِ زینت ہے شرعاً ممنوع نہیں بلکہ حضور انور کے زمانہ میں خود حضور کے سامنے تمیم داری نے قنادیل روشن کیں اس پر حضور نے تمیم داری کو دعادی اوراس عمل سے خوشنودی کا اظہاریہ کہتے ہوئے فرمایا کہ اگر میری کوئی لڑکی ہوتی تو تجھ سے شادی کردیتا ۔اہل اسلام فی زمانہ خصوصی طور پر اپنی مساجد ومدارس و محلّوں کو اسی بنا پر سجاتے ہیں کہ یہ ایک جائز اور مباح کام ہے اور جب نبی مکرم کی تعظیم و توقیر کے سبب اس کام کو سرانجام دیا جائے تو یہ کام مستحب و مستحسن شمار کیا جاتا ہے اور ویسے بھی مساجد میں قنادیل لٹکانا مستحب ہے اور سب سے پہلے یہ کام حضرت عمر نے کیا تھا چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے امام نور الدین حلبی لکھتے ہیں:
وفى كلام بعضھم: أول من جعل فى المسجد المصابیح عمر بن الخطاب ویوافقه قول بعضھم: والمستحب من بدع الأفعال تعلیق القنادیل فیھا: أى المساجد وأول من فعل ذلك عمر بن الخطاب فإنه لما جمع الناس على أبى بن كعب فى صلاة التراویح علق القنادیل، فلما رآها على تزهر قال: نورت مساجدنا نور اللّٰه قبرك یابن الخطاب، ولعل المراد تعلیق ذلك بكثرة، فلا یخالف ما تقدم عن تمیم الدارى.13
اوربعض علماء کےاقوال کے مطابق سب سے پہلے جس نے مسجد نبوی میں چراغ جلائے وہ حضرت عمر فاروق ہیں چنانچہ بعض دوسرے علماء کے اس قول سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے وہ قول یہ ہے کہ مسجدوں میں قندیل جلانا نئی باتوں میں مستحب بات ہے اور سب سے پہلے جس نے یہ نئی بات کی وہ حضرت ابن خطاب ہیں (مراد یہ ہے کہ قندیل روشن کرنے کی جدت انہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں کی) یعنی جب تروایح کی نماز کے لیے لوگ حضرت ابی بن کعب کے پاس جمع ہوئے تو فاروق اعظم نے مسجد میں قندیل لٹکوادئیے۔ حضرت علی نے جب یہ دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور کہا: آپ نے ہماری مسجدوں کو روشن کردیا۔ اے ابن خطاب! اﷲ تعالیٰ تمہاری قبر کو روشن فرمائے۔یہاں غالباً حضرت عمر کے پہلی بار قندیل جلانے سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے کثرت سے قندیل جلاکر مسجد کو روشن اور منور کیا۔ لہٰذا پیچھے تمیم داری کے متعلق جو روایت گزری ہے اس میں اور اس قول میں کوئی اختلاف نہیں پیدا ہوتا۔ 14
اس روایت کو امام ابوبکر الاجری نے بھی روایت کیا ہے 15جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کا خوش ہونا اور دعا دینا مساجد میں روشنی کرنا یہ محبوب عمل ہے ۔اسی حوالہ سے ایک اور ر وایت میں یوں بھی منقول ہے:
خرج على بن أبى طالب فى أول لیلة من رمضان والقنادیل تزهر فى المساجد وكتاب اللّٰه یتلى فجعل ینادى: نور اللّٰه لك یا ابن الخطاب فى قبرك كما نورت مساجد اللّٰه بالقرآن.16
رمضان کی پہلی شب کو حضرت علی مسجد نبوی میں تشریف لائے تو وہاں قندیلیں جگمگارہی تھیں اور قرآن کی تلاوت ہورہی تھی تو آپ نے فرمایا اے عمر ابن خطاب اﷲ تعالیٰ تمہاری قبر کو ایسے ہی روشن کرے جیسے تم نے اﷲ کی مسجدوں کو قرآن سےروشن کردیاہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مساجد میں روشنی کرنا جیساکہ فی زمانہ مختلف مواقع پر کیا جاتا ہے اور خصوصاً میلاد النبی کے موقع پرمزید جوش وخروش سے چراغاں کیا جاتا ہے وہ محمود ہے اور اس کی اصل صحابہ کرام کے دور سے ثابت ہے البتہ طریقہ مرورِزمانہ کےساتھ بدلتا رہتا ہے جس سے اصولیات میں قطعا ًکوئی فرق رونما نہیں ہوتا۔
ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ کیا اوائل دورِ اسلام میں بھی اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ دقتِ نظر سے دیکھا جائے تو یہ عمل ثقہ روایات کے مطابق خود رب ذوالجلال کی سنت ہے۔خالق کائنات نے اپنے محبوب مکرم کو لامکاں کی سیر کرائی، آپ سدرہ پر پہنچے تو اس کی چمک دمک میں اضافہ فرمادیا اورارشاد فرمایا:
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى1617
جب نورحق کی تجلیات سدرۃ المنتہیٰ کو بھی ڈھانپ رہی تھیں جوکہ اس پرسایہ فگن تھیں۔
اسی حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
لما أسرى برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم انتھى به إلى سدرةالمنھى وهى فى السماء السادسة، وإلیھا ینتھى ما عرج به من تحتھا وإلیھا ینتھى ما أهبط به من فوقھا حتى یقبض منھا قال: (إذ یغشى السدرة ما یغشى) قال: فراش من ذهب.18
(معراج کی شب)جب رسول اللہ کو لے جایا گیا تو حضرت جبرائیل آپ کو لے کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، یہ چھٹے آسمان پر ہے ۔جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے آیت کریمہ"إذ یغشی السدرۃ ما یغشی" (جب نورحق کی تجلیات سدرۃ المنتہی کو بھی ڈھانپ رہی تھیں جوکہ اس پرسایہ فگن تھیں)پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے)کہا: وہ سونے کے پروانے تھے۔
یعنی سدرۃ المنتہیٰ کی چمک دمک اور آرائش وزیبائش میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے سونے کے پروانوں سے سجادیا گیا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس روز سدرۃ المنتہی کو خاص طور سے سجایا گیا تھا، جس میں آنے والے مہمان یعنی نبی کریم کے لیے اعزاز تھایعنی یہ سب کچھ "مہمانِ خصوصی"کی آمدپر کیا جارہا تھا۔ جس سے واضح ہے کہ "مہمانِ خصوصی" کی آمد پرچیزوں کی آرائش وسجاوٹ کرنا سنت الٰہی ہے 19 اور اسی کو اپناتے ہوئے اہل ایمان میلاد النبی کے موقع پر اوائل دور سے ہی چراغاں کرتے آرہے ہیں۔
حضور نبی اکرم کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت عبداﷲ ثقفیہ حضور کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ کے پاس تھیں۔ آپ شب ولادت کی بابت فرماتی ہیں:
فلما ولدته خرج منھا نور أضاء له البیت الذى نحن فیه والدار، فما شىء أنظر إلیه إلا نور.20
پس جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیّدہ آمنہ کے جسمِ اطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا کمرہ جس میں ہم تھے اورگھر جگمگااٹھا اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نورنظر آیا۔
اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں منقول ہے کہ جب صحابہ کرام نے نبی مکرم سے آپ کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں آپ نے حضرت ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسٰی کی بشارت کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ خصوصی طور سے اپنی والدہ محترمہ کے اسی نورانی خواب کا تذکرہ بھی فرمایاچنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:
انى عند اللّٰه مكتوب بخاتم النبيين، وان آدم لمنجدل فى طينته وساخبركم باول ذلك: دعوة ابى ابراهيم وبشارة عيسى ورؤيا امى التى رات حين وضعتنى انه خرج منھا نور اضاءت لھا منه قصور الشام.21
بلا شبہ مجھے اللہ تبارک کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت خاتم النبیین لکھا گیا تھا جس وقت حضرت آدم مٹی میں گوند ے ہوئے تھےاور عنقریب میں تمہیں اس معاملہ کی ابتداء کی خبر دیتا ہوں۔میں حضرت ابراہیم کی دعا ،حضرت عیسی کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کاوہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے موقع پر دیکھا تھا کہ ان کے بطن ِ مبارک سے ایسا ایک نور نکلا جس سے ملک ِشام کے محلات جگمگا اٹھے۔
اس روایت میں ایک خاص بات یہ ہے کہ نبی مکرم نے اپنی والدہ ماجدہ کے دیکھے گئے نورانی خواب کو خودبیان فرماکر اس کو ناقابلِ تردید یقین میں تبدیل کردیا ہے کیونکہ دیکھے گئے اس نورانی خواب کو نبی مکرم نے خود اپنی طرف منسوب فرماکر اس خواب کو موثوق ومؤید کردیا ہے ۔
انسان جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں، قمقے جلاتے ہیں، اپنے گھروں،گلیوں، محلوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین ومنور کرتے ہیں، لیکن وہ خالقِ کائنات جو شر ق وغرب کا مالک ہے اس نے جب چاہا کہ اپنے حبیب کے میلاد پرچراغاں ہو تو نہ صرف شرق تاغرب زمین کو منور کردیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بناکر زمین کے قریب کردیا۔اسی کو بیان کرتے ہوئے حضرت عثمان بن ابی العاص کی والدہ حضرت فاطمہ بنت عبداﷲ ثقفیہ فرماتی ہیں:
حضرت ولادة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فرأیت البیت حین وضع قد امتلأ نورا، ورأیت النجوم تدنو حتى ظننت أنھا ستقع على.22
جب آپ کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں مجھ پر نہ گرپڑیں۔
یعنی نبی اکرم کی ولادت مبارکہ پر باری تعالیٰ نے دنیا و آسمان اور پوری کائنات کو منور کردیا اور ساتھ ہی ساتھ حضرت سیّدہ آمنہ کو بھی اس نورانیت سے حصہ عطا کرتے ہوئے دورانِ ولادت شام کے محلّات تک دکھائے اور حضرت فاطمہ بنت عبداﷲ ثقفیہ جو دورانِ ولادت نبی مکرم کی والدہ ماجدہ کے پاس موجود تھیں انہیں بھی خاص منظر دکھایاگیا۔ان سب سے معلوم ہوا کہ ولادت کے موقع و مناسبت سے چراغاں کرنا سنت الہیہ ہے اور اہل ایمان اسی کو اپناتے ہوئے شب ولادت چراغاں کرتے ہیں۔
مکّہ مکرّمہ نہایت برکتوں والا شہر ہے کہ وہاں بیت اﷲ بھی ہے اور مولد رسول اﷲ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ اس شہر کی قسمیں اٹھاتاہے 23 اور یہ چیزاہل مکّہ کے لیے ایک اعزاز ہے۔ عید میلاد النبی کے موقع پر امت مسلمہ میں اولین دور سے منائے جانے والے جشن اور اس میں کیے جانے والے چراغاں میں دیگر ممالک اسلامیہ کے ساتھ ساتھ اہل مکّہ بھی شامل تھے جو ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ اہل حرمین میلاد پاک کی خوشی میں مختلف محافل کے ساتھ چراغاں کرتے اور جلوس نکالتے تھے۔اس میں بعض لوگوں کے ہاتھوں میں فانوس ہوتےاور بعض کے ہاتھوں میں جھنڈے ہوتے۔یہ جلوس مسجد حرام سے شروع ہوتا اور سڑکوں اور شاہراہوں سے گزرتا ہو محلہ بنی ہاشم میں مولد پاک پر جاتا چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے علامہ قطب الدینلکھتے ہیں:
فيجتمع الفقھاء والأعيان على نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمكة المشرفة بعد صلاةالمغرب بالشموع الكثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفھم بالأعلام الكثيرة ويخرجون من المسجد إلى سوق الليل ويمشون فيه إلى محل المولد الشريف.24
(تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور نبی کریم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔
اسی طرح امام ابن ظہیرہ مولد النبی کے حوالے سے اہل مکّہ کا معمول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جرت العادة بمكة فى لیلة الثانى عشر من ربیع الأول فى كل عام أن قاضى مكة الشافعى یتھیاء لزیارة هذا المحل الشریف بعد صلوة المغرب فى جمع عظیم منھم الثلاثة القضاة وأكثر الأعیان من الفقھاء والفضلاء وذوى البیوت بفوانیس كثیرة وشموع عظیمة.25
ہر سال مکّہ معظّمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات کو اہل مکّہ کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ قاضی مکّہ جو کہ شافعی ہیں مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے آئمہ، اکثر فقہاء، اور اہل شہر شامل ہوتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔
یعنی دنیا میں بسنے والے تمام ہی مسلمانوں سمیت اہل مکّہ اور بالخصوص مکی علماء ومشائخ شب ولادت چراغاں کرتے ہوئے جلوس میں شریک ہوتے تھے اور باقاعدہ ایک محفل کی صورت میں نبی مکرم کے روضہ انور پر حاضری دیتے ہوئے مجلس میلاد النبی منعقد کرتے تھے گویا کہ یہ مشعل بردار جلوس ہوتا تھا۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اہل مکّہ دیگر مسلمانان عالم کے ساتھ شریک ہوتے ہوئے شب ولادت چراغاں کیا کرتے تھے اور آج بھی مسلمانانِ عالم اس عمل میں باہم شریک ہوتے ہیں اور امت مسلمہ کے جلیل القدر علماء و مشائخ بھی اس فعل خیر کو سرانجام دیتے ہوئے اپنی مساجد ومدارس اور اپنے اداروں میں شب ولادت چراغاں کر کے خوشی و مسرت کا اظہا ر کرتے ہیں کیونکہ یہ نعمت عظمیٰ ملنے کی وجہ سے خوشی کا موقع ہے اور اسی خوشی کے موقع پر چراغاں کرنا بھی سنتِ الٰہیہ ہے26 لہٰذا بحث ونزاع میں پڑنے کے بجائے سنتِ الٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے جشنِ میلاد النبی کے موقع پر حسبِ استطاعت چراغاں کا اہتمام کیاجانا مباح وجائز ہے جس میں شرعی طور پر کسی بھی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ تو آج کی ضرورت ہے جسےاہلِ ایمان بنظرِ تحسین دیکھتے ہیں۔