Encyclopedia of Muhammad

حضرت محمد کے رضاعی بھائی اور بہنیں

اسلامی تعلیمات میں رضاعی بھائی اور بہنیں وہ رشتہ دار ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی بھی شخص کے ساتھ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے ایک ہی خاتون کا دودھ پیا ہوتا ہے اور وہ خاتون مدت رضاعت میں دودھ پلانے کی وجہ سے اب ان دودھ پینے والوں کی رضاعی ماں بن جاتی ہے ۔ حدیث مبارکہ کے مطابق رضاعت ان تمام رشتوں کو حرام کردیتی ہے جن کو ولادت حرام کر دیتی ہے ۔ 1کیونکہ نبی کو بھی مختلف خواتین نے دودھ پلایا تھا، اس لیے آپ کے متعدد رضاعی بھائی اور بہنیں تھیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

حضرت ثویبہ کےتوسط سے:

  1. حمزہ بن عبدالمطلب : جوآپ کے چچا بھی تھے لیکن چونکہ انہوں نے بھی حضرت ثویبہ کادودھ پیا تھا اس لیے وہ آپ کے رضاعی بھائی بھی بنے۔
  2. ابو سلمہ بن عبدالاسد: جو رسول اللہ کی پھوپھی کے بیٹے تھے اور حضرت ثویبہ سے رضاعت پائی تھی، اس لیے وہ آپ کے رشتے دار اور رضاعی بھائی بھی ہوئے۔
  3. مسروح: جو حضرت ثویبہ کےاپنے بیٹے تھےوہ بھی نبی کریم کے رضاعی بھائی بنے۔ 2
  4. جعفر ابن ابو طالب: وہ بھی آپ کے رشتے دار اور رضاعی بھائی تھے۔
  5. عبداللہ بن جحش: یہ بھی رسول اللہ کے پھوپی زاد 3اور رضاعی بھائی تھے جو حضرت ثویبہ کےتوسط سے اس عظیم رشتے سے منسلک ہوئے ۔

حضرت ثویبہ کے علاوہ کچھ اشخاص حلیمہ سعدیہ کےتوسط سے بھی آپ کے رضاعی بھائی بہن بنے:

  1. عبداللہ بن حارث: جو حلیمہ سعدیہ کے اپنے بیٹے تھے وہ بھی رسول اللہ کے رضاعی بھائی بنے۔
  2. انیسہ بنت حارث اور شیما بنت حارث : حلیمہ سعدیہ کی بیٹیاں تھیں جو رسول اللہ کی رضاعی بہنیں بنیں۔
  3. ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب : جو رسول اللہ کے دور کے چچازاد بھائی تھے، حلیمہ سعدیہ کے توسط سے آپ کے رضاعی بھائی بنے۔ 4

اسلامی تعلیمات میں کیونکہ رضاعی والدہ کا مقام سگی والدہ ہی کی طرح ہوتا ہے اس لیے رضاعی بہن بھائیوں سے شادی بیاہ و نکاح وغیرہ کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ ان کے ساتھ وہی عزت و محبت کا تعلق اور رشتہ ہوتا ہے جو سگے بہن بھائیوں کے ساتھ قائم رکھا جاتا ہے اسی لیے آپ نہ صرف اپنی تمام رضاعی ماؤں کا ادب فرمایا کرتے بلکہ ان کی خصوصی دیکھ بھال اور ان کے ساتھ نہایت ہی محبت اور شفقت کا رویہ قائم رکھا کرتے تھے ۔ اسی طرح آپ کا تعلق اور آپ کی شفقت اپنی رضاعی بہنوں و بھائیوں کے ساتھ بھی مثالی تھی جو کہ آپ کے حسنِ خلق اور آپ کی محبت و عنایات کا ایک سنہری باب ہے ۔

 


  • 1 محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2646، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 428
  • 2 شمس الدين محمد بن أبي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-1، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2005م، ص:81
  • 3 أحمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-11، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 190
  • 4 شمس الدين محمد بن أبي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-1، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2005م، ص:81