قدیم انسانی معاشروں میں نسب کی طہارت و پاکیزگی کو شخصیت کی طہارت اور پاکیزگی پر دلیل سمجھا جاتا تھا۔اس حوالہ سے قدیم اہلِ عرب بالخصوص نسب اور رشتہ داری کے بارے میں گہرا علم رکھتے تھے اور اس بنیاد پر شخصیات کے حسن و قبح کا تعین بھی کرتے تھے۔ وہ خون کی پاکیزگی اور نیک نسب ہونے پر فخر و مباہات کا اظہار کرتےاور شجرہ نسب کے حفظ اوراس کی چھان بین کا خوب اہتمام کرتے۔ 1یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عربوں کے علاوہ کسی قوم نے نسب کو اتنے باوقار انداز میں کبھی یاد کرنے کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ 2
حضرت محمد کو زندگی کے ہر پہلو میں انسانیت کے لیے بہترین نمونہ بنا کر بھیجا گیاہے، 3اس لیے آپ کا سلسلۂِ نسب بھی ہر لحاظ سے بے مثال اور لاثانی تھا۔ 4آپ کا سلسلہ نسب اپنی سچائی، امانت داری، ہمدردی اور رحمدلی کی صفات کے لئے پورے جزیرہ نما عرب میں مشہور اور منفرد تھا 5جس کا ذکر ، خود احادیث طیّبہ میں نبی نے مختلف مقامات پر فرمایا ہے۔
نبی اکرم کا تعلق حضرت اسماعیل کی نسل سے تھاجنہیں عام طور پر بنو اسماعیل (اسماعیل کی اولاد) کہا جاتا ہے۔ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ایک بیٹے کا نام قدیر (کیدار) تھا جن کی نسل میں سے حضرتِ عدنان مشہور ہوئے جو عرب کے تمام عدنانی قبیلوں کےجد اعلیٰ تھے۔ 6رسول اللہ کا تعلق بھی عدنانیوں کی ایک شاخ سے تھا جو "قریش" کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ شاخ فہر بن مالک کی اولاد میں سےتھی۔ 7
سیرت نگاروں اور ماہرینِ انساب کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ حضرت محمد کا سلسلۂِ نسب ان کے جد ِامجد حضرتِ عدنان تک نہایت ہی صداقت اور درستگی کے ساتھ درج ہے۔ 8حضرتِ عدنان تک حضور کا شجرہ نسب ناقابل تردید طور پر واضح ہے جو بیس (20) واسطوں سے ہوتا ہوا ان تک پہنچتا ہے۔ اس حوالہ سے ابن ہشام فرماتے ہیں:
محمد بن عبد الله ابن عبد المطلب ( شيبة) بن هاشم، (عمرو) بن عبد مناف (المغيرة) بن قصي (زيد) بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر (قریش) بن مالك بن النضر (قیس) ابن كنانة بن خزيمة بن مدركة، (عامر) بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان بن أد (أدد). 9
محمد بن عبد الله ابن عبد المطلب ( شيبہ) بن ہاشم (عمرو) بن عبد مناف(المغيرہ) بن قصی (زيد) بن كلاب بن مرہ بن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر (قریش) بن مالك بن النضر (قیس) بن كنانہ بن خزيمہ بن مدركہ (عامر) بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان بن أد (أدد)۔
ایک اندازے کے مطابق حضرتِ عدنان کی پیدائش ایک سو بائیس (122) قبل مسیح میں ہوئی تھی جبکہ فہر بن مالک دوسو آٹھ (208) عیسوی میں پیدا ہوئے تھے۔ 10مؤرخین کے اندازہ کے مطابق حضرت ابراہیم اور اسماعیل کا دور دوہزار (2000) سال قبل مسیح کا تھا۔ 11اس طرح حضرت محمد اور حضرت ابراہیم کے درمیان ایک اندازے کے مطابق پچیس(25)صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ عدنان اور ابراہیم کے درمیان تقریباً اٹھارہ (18) صدیوں کا فاصلہ ہے۔
ابن سعد کی بیان کردہ روایت کے مطابق، ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے نسب کا ذکر کرتے ہوئے حضرتِ عدنان پر رک جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھےکہ”كذب النسابون“ یعنی ماہرینِ انساب نے اس سےآگے نسب کے حوالہ سے جھوٹ بولا ہے 12لیکن ایک اور روایت کے مطابق جس کو امام احمد بن حنبل ، 13امام دولابی 14اور امام ترمذی نے نقل کیاہے، اس میں حضور نے فرمایا:
إن الله خلق الخلق فجعلني من خيرهم. 15
اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تشکیل کی اور مجھے ان کے بہترین گروہ میں رکھا۔
اسی کی مثل ایک حدیث امام بخاری نے بھی نقل کی ہے 16اورمذکورہ بات اتنے وثوق سے تب ہی کہی جا سکتی ہے جب کہنے والے کا نسب معلوم ہو اور اس نسب کے تمام لوگ بھی اس کے نزدیک معروف ہوں۔
رسول اللہ کے سلسلہءِ نسب کی تفصیلات کے حوالے سےمؤرخین نےحضرتِ عدنان اور ابراہیم کے درمیان 10، 20 اور 25 واسطوں کا ذکر کیا ہے تاہم سب سے مناسب روایت یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرتِ عدنان اور ابراہیم کے درمیان 40 واسطےتھے۔ ابراہیم اور حضرتِ عدنان کے درمیان تقریباً 1800 سال کا فرق ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ان کے درمیان صرف 10، 15 یا 20 آباؤ اجداد ہوں۔حضرتِ عدنان سے آدم تک مکمل سلسلہ نسب جسکو طبری نے بیان کیا ہے درجِ ذیل ہے:
عدنان بن أدد بن هميسع، وهميسع هو سلمان وهو أمين، ابن هميتع، وهو هميدع وهو الشاجب ابن سلامان، وهو منجر، وهو نبيت بن عوص، وهو ثعلبة ابن بورا، وهو بوز ابن شوحا وهو سعد رجب، ابن يعمانا، وهو قموال ابن كسدانا، وهو محلم ذو العين، ابن حرانا، وهو العوام، ابن بلداسا، وهو المحتمل، ابن بدلانا، وهو يدلاف، وهو رائمه، ابن طهبا، وهو طالب، وهو العيقان، ابن جهمي، وهو جاحم، وهو علة، ابن محشي، وهو تاحش، وهو الشحدود، ابن معجالي، وهو ماخي، وهو الظريب خاطم النار، ابن عقارا، وهو عافي، وهو عبقر أبو الجنابن عاقاري، وهو عاقر، وهو إبراهيم جامع ابن بيداعى، وهو إسماعيل ذو المطابخ، ابن ابداعي، وهو عبيد وهو يزن الطعان، ابن همادي وهو حمدان، وهو إسماعيل ذو الأعوج ابن بشماني، وهو بشين وهو المطعم في المحل، ابن بثراني، وهو بثرم، وهو الطمح، ابن بحرانى، وهو يحزن، وهو القسور، ابن نلحانى، وهو يلحن، وهو العنود، ابن رعواني، وهو رعوي، وهو الدعدع، ابن عاقاري، وهو عاقر، ابن داسان، وهو الزائد، ابن عاصار، وهو عاصر، وهو النيدوان ذو الأندية، بن القادور إلى بني جاوان، ابن القادور ثم رجع إليهم ثانية، ابن قنادي، وهو قنار، وهو إيامة بن ثامار، وهو بهامي، وهو دوس العتق، وهو دوس أجمل الخلق، بن فالج وقطورا، ابن مقصر، وهو مقاصري، وهو حصن، ابن سمي، وهو سما، وهو المجشر ابن مزرا، ويقال مرهر، ابن صنفا، وهو السمر، وهو الصفي ابن جعثم، وهو عرام، وهو النبيت، وهو قيذر، ابن إسماعيل صادق الوعد، ابن ابراهيم خليل الرحمن بن تارخ ابن ناحور بن ساروع بن ارغوا ابن بالغ فهو فالج بن عابر بن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح ابن لمك بن متوشلخ بن أخنوخ، وهو إدريس ابن يرد ابن مهلائيل بن قينان بن انوش ابن شيث وهو هبه الله ابن آدم. 17
عدنان بن أدد بن ہميسع اورہميسع سلمان ہے ا وروہ امين ہے، بن ہميتع ا وروہ ہميدع ہے اور وہ الشاجب ہے۔بن سلامان، اور وہ منجرہےاور وہ نبيت بن عوص ہے، اور وہ ثعلبہ بن بورا ہے، اور وہ بوز بن شوحاہے اور وہ سعد رجب ہے، بن يعمانااور وہ قموال بن كسداناہے، اور وہ محلم ذو العين بن حرانا ہے، اور وہ العوام بن بلداسا ہے، اور وہ المحتمل بن بدلانا ہے، اور وہ يدلاف ہے، اور وہ رائمہ بن طہبا ہے، اور وہ طالب ہے، اور وہ العيقان بن جہمی ہے، اور وہ جاحم ہے، اور وہ علہ بن محشی ہے، اور وہ تاحش ہے، اور وہ الشحدودبن معجالی ہے، اور وہ ماخی ہے، اور وہ الظريب خاطم الناربن عقارا ہے، اور وہ عافی ہے، اور وہ عبقر أبو الجنابن عاقاری ہے، اور وہ عاقر ہے، اور وہ ابراہيم جامع بن بيداعی ہے، اور وہ اسماعيل ذو المطابخ بن ابداعی ہے، اور وہ عبيد ہے ، اور وہ يزن الطعان بن همادی ہے، اور وہ حمدان ہے، اور وہ اسماعيل ذو الأعوج بن بشمانی ہے، اور وہ بشين ہے ، اور وہ المطعم فی المحل بن بثرانی ہے، اور وہ بثرم ہے، اور وہ الطمح بن بحرانی ہے، اور وہ يحزن ہے ، اور وہ القسور بن نلحانی ہے، اور وہ يلحن ہے، اور وہ العنود بن رعوانی ہے، اور وہ رعوی ہے، اور وہ الدعدع بن عاقاری ہے، اور وہ عاقربن داسان ہے، اور وہ الزائدبن عاصار ہے، اور وہ عاصرہے، اور وہ النيدوان ذو الأندیہ بن القادور ہے جن کی طرف حکومت گئی اور وہ ہی بنی جاوان بن القاد ہےاور پھر حکومت واپس انکی طرف لوٹ آئی پھر ابن قنادی ہے ، اور وہ قنار ہے، اور وہ إيامہ بن ثامارہے، اور وہ بہامی ہے، اور وہ دوس العتق ہے، اور وہ دوس (خوبصورت ترین ہے) پھر ابن فالج وقطورا ہے پھر ابن مقصر ہے، اور وہ مقاصری ہے، اور وہ حصن ابن سمی ہے، اور وہ سما ہے ، اور وہ المجشر ابن مزراہے جو مرہربن صنفا بھی کہلاتا ہے اور وہ السمر ہے، اور وہ الصفی ابن جعثم ہے، اور وہ عرام ہے ، اور وہ النبيت ہے، اور وہ قيذربن إسماعيل() صادق الوعدبن ابراہيم خليل الرحمن () بن تارخ بن ناحور بن ساروع بن ارغوا بن بالغ ہے، اور وہ فالج بن عابر بن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح() بن لمك بن متوشلخ بن أخنوخ () ہے، اور وہ إدريس() بن يرد بن مہلائيل بن قينان بن انوش بن شيث () ہے، اور وہ ہبۃ الله ابن آدم () ہیں۔
اگرچہ حضرتِ عدنان کے سلسلۂِ نسب کے بارے میں مؤرخین اور سیرت نگاروں نے مختلف بیانات قلمبند کئے ہیں لیکن کم از کم درجہ میں یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ عدنان حضرت اسماعیل کی نسل میں سے ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے اور ان کا سلسلۂِ نسب متعدد آباء و اجداد سے ہوتا ہوا حضرت اسماعیل تک پہنچتا ہے۔ ان کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ناموں کا ترجمہ مختلف زبانوں سے کیا گیا ہے اور مختلف مترجمین نے ان اسما کے مختلف انداز میں تراجم کئے ہیں جس کی وجہ سے بعض مقامات پر ابہام پایا جاتا ہے۔
پیغمبرِ اسلام کے نسبِ مبارک کا یہ سلسلہ اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں میں فراہم کیا ہے، اور قدیم اہل عرب کے اشعار سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مزید برآں، اس نسب کی تائید عرب قبائل کے لوگوں کے ایک بڑے گروہ نے بھی کی ہے18جو نسب کے میدان میں حقیقی ماہر اور اس فن کے اصل علمبردار تھے۔ امام الصحاری العوتبی کے قول کے مطابق سلسلۂِ نسب اس صورت میں معتبر سمجھا جاتا ہے جب وہ بادشاہوں کے پاس محفوظ دستاویزات، ان کے کارناموں اور قدیم لوگوں کے اشعار سے ثابت ہو، جیسا کہ اہلِ یمن کا طریقہ تھا۔ 19
مذکورہ بالا شواہد سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت محمد کا نسب دنیا میں آئے ہوئے یا آنے والےتمام انسانوں میں سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ مزید اس بات کی بھی تصدیوق ہوجاتی ہے کہ حضرت محمد حضرت ابراہیم کی اولاد تھے، اور ان کے بیٹے اسماعیل کی اولاد میں سے حضرتِ عدنان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ اسماعیل اور حضرتِ عدنان کے درمیان ناموں اور اولاد کی تعداد میں ابھی تک اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن اس بات پر مؤرخین اور علماء کا اتفاق ہے اور اہل عرب میں یہ بات مشہورہے کہ حضرتِ عدنان ابراہیمی نسب سے ایک معزز شخص تھے۔ حضرتِ عدنان کی اولاد زیادہ تر شمالی عرب میں مقیم تھی، جن میں ثقیف، تمیم، کنانہ اور خاص طور پر قریش جیسے مشہور قبائل بھی شامل ہیں۔ 20
انبیاء کرام کا تعلق ہمیشہ اعلیٰ خاندانوں اور پاک انساب سے رہا ہے۔ جعفر ابن ابو طالب نے حبشی بادشاہ نجاشی کے ساتھ اپنی گفتگو میں اس کا ذکر کیا تھا۔ حضور پر ایمان لانے کی ایک وجہ بتاتے ہوئے انہوں نےفرمایا:
بعث الله إلينا رسولا منا، نعرف نسبه وصدقه وأمانته وعفافه. 21
اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان ایک ایسا رسول مبعوث کیا جس کے نسب، سچائی، دیانت اور پاکیزگی کو ہم جانتے ہیں۔
یعنی اہل عرب میں یہ بات عام تھی کہ جو شخص بھی کسی منصب یا فضیلت کا اپنے لئے دعویٰ کرتا ہےاسے سب سے پہلے اپنا حسب و نسب اور اپنا شجرہ لوگوں کے درمیان واضح کرنا پڑتا تھا جس سے اس کی شخصیت کے حسن وقبح کا اندازہ کیا جاتا تھا۔ شاید اسی لئے رسول اللہ نے اپنے نسب شریف کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں خود بھی ارشاد فرمایا:
إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل، واصطفى قريشا من كنانة، واصطفى هاشما من قريش، واصطفاني من بني هاشم ۔22
بے شک اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل میں سے کنانہ کو چن لیا، پھر کنانہ میں سے قریش کو چن لیا، پھر قریش میں سے قبیلہ ہاشم کو چن لیا، پھر قبیلہ ہاشم میں سے مجھے چن لیا۔
یعنی میں (محمد) اپنے حسب و نسب کے اعتبار سے اعلیٰ ہوں اور عربوں کے عمدہ ترین خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔
آپ کے تمام آباء و اجداد، اپنی اقوام میں کردار، شرافت، وقار اور تقویٰ میں سب سے بہتر تھے۔ حضرت ِعلی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے اپنا نسب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ "تمام نسلوں میں میرے تمام آباء و اجداد نے صرف شرعی نکاح سے اپنے تعلقات استوار کیے ہیں،آدم سے لے کر عبداللہ تک ان میں سے کسی نے بھی بدکاری، زنا یا کسی اور قسم کا ناجائز فعل یا تعلق قائم نہیں کیا۔" 23نبی اکرم نے اس بات کی تصدیق کی کہ آپ کی قوم، قبیلہ، خاندان اور گھر تمام مخلوقات میں بہترین ہیں۔ امام ترمذی نے رسول اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
الخلق فجعلني من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم تخير القبائل فجعلني من خير قبيلة، ثم تخير البيوت فجعلني من خير بيوتهم، فأنا خيرهم نفسا، وخيرهم بيتا 24
بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تخلیق کی، پھر مجھے ان میں سے بہترین گروہ میں رکھا۔پھر ان کو دو گروہوں میں تقسیم کیا، پھر مجھے ان میں سے بہترین گروہ میں رکھا، پھر ان کو قبیلوں کی شکل دی، پھر مجھے ان میں سے بہترین قبیلہ میں رکھا ۔ پھر ان کوخاندان کی شکل دی، اور مجھے ان میں سے بہترین خاندان میں رکھا ، پھر اس نے مجھے رشتہ داری اور نسب میں ان میں سب سے بہتر رکھا۔
مذکورہ حدیث اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے کہ حضرت محمد کے نسب میں تمام آباء و اجداد اپنے دور کے توحید پرست، مومن اور عظیم انسان تھے۔ اس کی تائید امام زرقانی نے بھی ایک روایت نقل کرتے ہوئے کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "نبی اکرم ہمیشہ پاک مردوں سے پاک عورتوں کے رحموں میں منتقل ہوتےرہےتھے"۔ 25قاضی عیاض اس حدیث کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کا نور ہمیشہ شریف اور پاکیزہ انسانوں میں رہتا تھا۔ آپ ابن عمر سے روایت نقل کرتےہیں کہ جب آپ زمین پر تشریف لائے تو آپ کا نور آدم کی صلب میں موجود تھا۔ پھر کئی نسلیں گزرنے کے بعد یہ نور صُلبِ ادریس تک پہنچا اور پھرصُلبِ نوح تک پہنچا۔ نوحسے یہ سام میں منتقل ہوا اور پھر ابراہیمتک پہنچا۔ اس نورنے ہر نسل و زمانےمیں پاک پشتوں اور پاکیزہ رحموں کے ذریعے اپنا سفر جاری رکھا۔ اس طرح محمد کا یہ نور آدم و حوا سے عبداللہاور آمنہ تک پہنچا۔26یہ اس بات کی گواہی ہے کہ رسول اللہ کے تمام آباء و اجداد اپنے وقت کے بزرگ اور معزز ترین لوگ تھے۔ ان کی شرافت اور بزرگی کی وجہ سے آس پاس کے لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔
حضرت محمد کے نسب کی عظمت اور شرافت عرب میں اس قدر مشہور و معروف تھی کہ مخالفین نے بھی اس کی عظمت کو تسلیم کیا۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت ابو سفیان بن حرب نے رومی شہنشاہ ہرقل کے دربار میں اس بات کا اقرار کیا تھاکہ محمد ان میں سب سے معزز ہیں۔ ہرقل نے حضرت ابو سفیان بن حرب سے رسول اللہ کے نسب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ محمد پاکیزہ اور بہترین نسب والے ہیں۔ روایت ہے کہ ہرقل نے ابو سفیان سے رسول اللہ کے بارے میں بہت سے سوالات کیے تھے۔ جب اس نے ابو سفیان کے تمام جوابات سن لیے تو اس نے تمام سوال و جواب پر تبصرہ کیااور حضور کے سلسلہ نسب کے بارے میں فریا :
إني سألتك عن نسبه فيكم فزعمت أنه ذو نسب، وكذلك الرسل تبعث في نسب قومها. 27
بے شک! میں نے تم سے ان کے نسب کے بارے میں اس لیے پوچھا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ نسب میں سب سے زیادہ بزرگ و برتر ہوں گے اور یہ اس لیے تھا کیونکہ انبیاءقوم کے معززترین لوگوں میں(سے) بھیجے جاتے ہیں۔
حضور کا ایک اور مخالف عتبہ بن ربیعہ جو قبیلہ قریش کے نامور سرداروں میں سے ایک تھا، اسے جب قریش کی طرف سے اسلام کی دعوت کے ابتدائی مرحلے میں بھیجا گیا تو اس نے اسلام کی دعوت کو ترک کرنے کے بدلے میں حضور کومتعدد پیش کشیں کیں۔ جب وہ آنحضرت کے پاس پہنچا اور گفتگو شروع کی تو اس نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا تھاکہ بلا شبہ محمد قریش میں اپنے حسب، نسب اور کردار کے اعتبار سے بزرگی والے ہیں۔ 28