پہلی وحی نازل ہونے کے بعد دوسری وحی نازل ہونے کے درمیان کچھ وقفہ آیا جسکو علمِ حدیث کی اصطلاح میں "فترۃ الوحی " کہا جاتا ہے۔ اس وقفہ سے متعلق مؤرخین و محدّثین نے مختلف اقوال اور وجوہات بیان کی ہیں۔ امام عبد الرحمٰن ابن عبداللہ سہیلی نے ڈھائی سال کا وقفہ بیان کیا ہے۔1امام صالحی الشامی نے ابن عباس، ابن سعد اور امام البیھقی کو نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پہلی اور دوسری وحی کے درمیان چالیس (40) روز کا وقفہ تھا جبکہ ابن جوزی امام فرّا اور امام زجاج نے کہاہے کہ یہ وقفہ پندرہ (15) دنوں کا تھا جو زیادہ قرین قیاس ہے۔2
وہ مؤرخین جنہوں نے نزول وحی کا درمیانی وقفہ دو (2) سے تین (3) سال لکھا ہے وہ اس کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حضور کے صبر و استقلال کا امتحان تھا ۔ جن کے نزدیک وقفہ دس (10) سے پندرہ (15) ایام پر مشتمل تھا ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ وقفہ اس لیے دیا گیا تاکہ حضور ظاہری طور پر دوسری وحی کے نزول کے لیے تیار ہوجائیں۔ مزید یہ کہ وقفہ سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ حضرت جبرائیل حضور کے پاس تشریف نہیں لاتے تھےبلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ اس وقفہ میں قرآن نازل نہیں ہوتا تھا اور ایک قول کے مطابق اس دوران میں حضرتِ اسرافیل آپ کے پاس باکثرت تشریف لاتے اور مختلف امور میں آپ کی مدد اور رہنمائی فرمایا کرتے تھے ۔ 3
دوسری وحی کے متعلق کئی اقوال بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں دوسری وحی"سورۃ الضحٰی" تھی اور بعض کہتے ہیں کہ یہ "سورۃ القلم" تھی لیکن اہل ِعلم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ دوسری وحی "سورۃ المدثر" کی ان آیات پر مشتمل تھی:
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ1قُمْ فَأَنذِرْ2وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ3وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ4وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ54
اے بالا پوش اوڑھنے والے! کھڑے ہوجاؤ پھر ڈر سناؤ اور اپنے رب ہی کی بڑائی بولو اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور بتوں سے دور رہو۔
یہ پہلا موقع تھا جب حضور کو پیغمبرانہ ذمہ داری باقائدہ ادا کرنے کا حکم اس شہر میں دیا گیا جو شرک کا گڑھ تھا۔ ایسی صورتحال میں یہ ذمہ داری خطرے سے بھرپورتھی جس کے لیے بہت زیادہ دلیری اور ہمت کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہےکہ حضور کو حکم دیا گیا تھاکہ آپ اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کریں اور کسی سے بھی خوف زدہ نہ ہوں۔ اللہ کی جانب سے آپ کے تحفظ کی یقین دہانی آپ کے لیے دینِ اسلام کی نشرو اشاعت اور دعوت وتبلیغ میں معاون بنی۔