حضرت محمد اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے بطن مبارک میں بارہ (12) ذوالحجہ بروز جمعۃ المبارک کو تشریف فرما ہوئے ۔ 1وہ نور جو حضرت آدم سے چلا تھا ، پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا ہوا حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب تک پہنچا اور وہاں سے حضرت آمنہ کے بطن اطہر میں منتقل ہوا ۔ آپ کے تمام آباؤاجداد کبھی بھی کسی بھی قسم کے شرک یا ایسی عادات و اطوار میں مبتلا نہیں رہے جو کہ معروف انسانی معاشرت میں قابل نفرت یا نا پسندیدہ رہی ہوں جن میں بالخصوص زنا اور بدکاری جیسے عیوب شامل ہیں۔ جب آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں قرار پایا تو آپ کی والدہ ماجدہ کو کئی قسم کے روحانی تجربات و مشاہدات ہوئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ آپ نبیوں کے سردار اور خاتم الانبیا ء کی والدہ بننے والی ہیں ۔
حضرت عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ کے نکاح سے قبل ایک خواب دیکھا تھا جس کے مطابق ان کی نسل میں ایک ایسے بچے کی ولادت ہونے والی تھی جو عرب و عجم کا سردار بننے والا تھا اور عرب و عجم کے لوگ اس کے مطیع و فرمانبردار ہو رہے تھے ۔ اسی وجہ سے وہ اپنے پوتے کے حوالے سے نہایت ہی مثبت و محبت بھرے احساسات کے حامل تھے ۔ احمد بن محمد القسطلانی تحریر فرماتے ہے :
كان عبد المطلب قد رأى فى المنام كأن سلسلة من فضة قد خرجت من ظهره …ثم عادت كأنها شجرة، على كل ورقة منها نور وإذا أهل المشرق والمغرب كأنهم يتعلقون بهافقصها فعبرت له بمولود يكون من صلبه يتبعه أهل المشرق وأهل المغرب، ويحمده أهل السماء وأهل الأرض. 2
عبدالمطلب نے اپنی پشت سے ایک چاندی کی زنجیر کو نکلتے ہوئے دیکھا ۔ وہ زنجیر درخت میں تبدیل ہو گئی۔ اس درخت کا ہر پتہ چمکتا دمکتا نظر آتا تھا اور مشرق و مغرب کے تمام لوگ اس سے اپنے تعلق کو قائم کر رہے تھے ۔ عبدالمطلب نے جب اپنا خواب اہل علم کو بیان کیا تو اس کی تعبیر اس طرح کی گئی کہ ان کی صُلب سے ایک بچہ ( یعنی پوتے ) کی ولادت ہو گی جس کی اطاعت مشرق و مغرب کے تمام لوگ کریں گے اور زمین و آسمان کی ساری مخلوقات اس کی مدح سرائی میں رطبُ اللسان ہوگی ۔
اس روایت کو امام زرقانی ، 3ابو نعیم ، 4عبدالرحمٰن جامی 5اور امام سہیلی 6نے بھی نقل کیا ہے ۔ یہ خواب اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نبی کی ولادت سے ماقبل بھی اس بات پر آگاہی رکھتے تھے کہ ان کی نسل میں ایک ایسے بچے کی ولادت ہونے والی ہے جو پوری دنیا کی امامت اور سیادت کے فرائض سر انجام دے گا ۔
حضرت عبداللہ کی ولادت سے قبل حضرت عبدالمطلب کی پیشانی ہمیشہ ایک منفرد اور یکتا قِسم کے نور سے جگمگاتی رہتی تھی اور لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ ان کے جسم سے مشک کی خوشبوآتی تھی حالانکہ اکثر اوقات آپ عطریات وغیرہ کا استعمال بھی نہیں فرماتے تھے ۔ علماءِ سیرت کا اس بات پر اتفاق رہا ہےکہ حضرت عبدالمطلب میں پائی جانے والی مشک کی وہ خوشبو اور پیشانی پر چمکنے والا وہ نور"نورِ محمد ی "تھا اور یہ نورآپ تک آپ کے آباؤ اجداد سے منتقل ہو کر پہنچا تھا ۔ جب حضرت عبدالمطلب کے ہاں آپ کے بیٹے حضرت عبداللہ کی ولادت ہوئی تو وہ نور حضرت عبداللہ میں منتقل ہو گیا جس کی بابت امام قسطلانی فرماتے ہیں :
وكان عبد المطلب يفوح منه رائحة المسك الإذفر ونور رسول الله صلي الله عليه وسلم يضىء فى غرته، وكانت قريش إذا أصابها قحط تأخذ بيد عبد المطلب فتخرج به إلى جبل ثبير فيتقربون به إلى الله تعالى، ويسألونه أن يسقيهم الغيث فكان يغيثهم ويسقيهم ببركة نور محمد صلي الله عليه وسلم غيثا عظيما. 7
حضرت عبدالمطلب کے بطنِ اطہر سے مشکِ اذفرکی خوشبوآیا کرتی تھی اور آپ کی پیشانی ہمیشہ نورِ محمدی سے چمکا کرتی تھی ۔جب بھی قریش قحط سالی کا شکار ہوتے تو وہ عبدالمطلب کا ہاتھ پکڑ کر انہیں جبلِ ثبیر پر لے جاتے اور ان کے توسل سے اللہ کی بارگاہ میں تقرب پاتے (یعنی دعا کرتے )۔ وہ اللہ کی بارگا ہ میں عبدالمطلب کو بطور وسیلہ کے پیش کرتے اور اللہ رب العزت نورِ محمدی کی برکات کی وجہ سے ان کے استغاثوں کو قبول فرماتا اور بارانِ رحمت کا نزول فرماتا۔
حضرت عبداللہ ایک خوبصورت اور وجیہ نوجوان تھے ۔ 8جب آپ اٹھارہ (18) سال کے ہوئےتو اپنے ظاہری حسن و جمال اور باطنی کمالات کی وجہ سے اکثر و بیشتر خواتین کی طرف سے نکاح کے پیغام کے لیے منتخب کیے جاتے مگر آپ ان پیغامات کو قبول نہ فرماتے بلکہ احسن طریقے سے ان پیغامات سے انکار فرما دیا کرتے تھے۔ جو خواتین ان کے ظاہری حسن و جمال سے متاثر ہوتیں ان کی طرف سے نکاح کے پیغام کا آنا تو ایک عمومی بات تھی لیکن جو خواتین یا خاندان تورات اور انجیل کی تعلیمات سے آشنا تھے وہ خاص طور پر آپ کی ذاتِ بابرکت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ وہ نور جو آپ کی پیشانی مبارک پر چمکتا تھا اس کو سوائے نکاح کے بابرکت طریقے کے کسی اور انداز میں حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ 9جو نور حضرت عبداللہ کی پیشانی مبارک پر چمکتا تھا اس کی وجہ، آپ کے نور کا ،آپ کی پشتِ مبارک میں موجود ہونا تھا۔ آپ کے بابرکت وجود کا یہ نور ایک نسل سے دوسری نسل میں، حضرت آدم کے دور ِمبارک سے ہی منتقل ہوتاچلا آ رہا تھا جو کہ مختلف صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتا ہوا حضرت عبداللہ تک پہنچا تھا اور آپ کی پیشانی مبارک پر چمکتا رہتا تھا ۔ اسی تناظر میں موسی الخطیب العمری ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
وذكر الحافظ النيسابوري:......ونام في الحجر فانتبه مكحولاً مدهونا قد كسي حلل المهابة، والجمال، فتحير ولم يدر من فعل به ذلك، فانطلق به أبوه إلى كهنة قريش، فقالوا: إن إله السموات قد أذن لهذا الغلام أن يتزوج، ونام مرة أخرى في الحجر فرأى رؤيا فقصها على الكاهن، فقالوا: لئن صدقت رؤياك ليخرجن من ظهرك من يؤمن به أهل السموات والأرض، وليكونن للناس علماً مبينا. 10
حافظ نیشاپوری نے ذکر کیاکہ: ۔ ۔ ۔ایک موقع پر آپ مقامِ حجر میں سوئےہوئے تھے کہ اچانک اس حال میں بیدا ر ہوئے کہ آپ کی آنکھوں میں سرمہ اور بالوں میں تیل لگاہوا تھا،جاذبِ نظر اور خوبصورت لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھے، آپکو یہ سب کرنے والےکاعلم بھی نہیں تھا، جس کی وجہ سےآپحیرا ن ہوگئے ۔آپاپنے والد محترم حضرت عبد المطلب کے ساتھ قریش کے کاہنوں کے پاس گئے اور انہیں تما م ماجرا بتایا۔انہوں نے جواب دیا کہ بلا شبہ آسمانوں کا رب اس نوجوان کوشادی کرنے کا حکم دیتا ہے۔اسی طرح آپایک اور موقع پر مقامِ حجر میں سو رہے تھے تو آپ نے ایک خواب دیکھا اور کسی کاہن کو بتایا ۔اس نے جواب دیا اگر آپ کا خواب سچا ہے تو آپ کی پشتِ مبارک سے ایک ایسی ذات اقدس کا ظہور ہوگاجس پر آسمانوں و زمین والے ایمان لائیں گے اور وہ لوگوں کے لیے واضح عَلَمِ ہدایت(نشانی) ہوگا۔
ایسے خواب و واقعات کے بعد حضرت عبدالمطلب نے آپ کے نکاح کا فیصلہ فرمایا اور آپ کے لیے ایک عمدہ و بہتر لڑکی کی تلاش شروع کر دی جس سے آپ کا نکاح کیا جا سکے ۔ ان کو وہ لڑکی مدینہ کے قریب موجود بنو زہرہ قبیلہ میں حضرت آمنہ کی صورت میں جا ملی۔
حضرت عبدالمطلب اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو لے کر مدینہ کی جانب چل پڑے یہاں تک کہ ان کی ملاقات حضرت آمنہ کے چچا سے ہوئی جو کہ ان کے سرپرست اور دیکھ بھال کرنے والے تھے ۔ حضرت عبدالمطلب نے ان سے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کے لیے حضرت آمنہ کا ہاتھ مانگا جس کو انہوں نے بخوشی قبول فرما لیا ۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے محمد بن سعد البصری روايت كرتے ہیں:
كانت آمنة بنت وهب بن عبد مناف بن زهرة بن كلاب في حجر عمها وهيب بن عبد مناف بن زهرة فمشى إليه عبد المطلب بن هاشم ابن عبد مناف بن قصي بابنه عبد الله بن عبد المطلب أبي رسول الله صلي الله عليه وسلم فخطب عليه آمنة بنت وهب فزوجها عبد الله بن عبد المطلب وخطب إليه عبد المطلب بن هاشم في مجلسه ذلك ابنته هالة بنت وهيب على نفسه فزوجه......لما تزوج عبد الله بن عبد المطلب آمنة بنت وهب أقام عندها ثلاثا وكانت تلك السنة عندهم إذا دخل الرجل على امرأته في أهلها. 11
سیّدہ آمنہ بنت وہب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب اپنے چچا وہیب بن عبدمناف بن زہرہ کی تربیت میں تھیں۔ عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصّی اپنے بیٹے حضرت عبداللہ یعنی ابوالنبی کو لے کر ان کے ہاں گئے اور ان کے لیے سیّدہ آمنہ بنت وہبکی خواستگاری کی،چنانچہ نکاح ہوگیا۔اسی مجلس میں خود اپنے لیے حضرت عبدالمطلب بن ہاشم نے وہیب کی بیٹی ہالہ کی خواستگاری کی اور یہ نکاح بھی ہوگیا۔۔۔عبداللہ بن عبدالمطلب نے جب سیّدہ آمنہ بنت وہبسے نکاح کیا تو وہیں تین دِن بسر کیے کیونکہ ان لوگوں میں یہ قاعدہ تھا کہ نکاح کے بعد بیوی کے پاس جاتے تو تین دِن تک اسی گھر میں رہتے۔ 12
حضرت آمنہ کے گھر تین روز قیام کرنے کے بعد حضرت عبداللہ انہیں اپنے گھر لے آئےجس کو انہوں نے حضرت آمنہ کی ملکیت میں دیدیا ۔ ابھی اس گھر میں آئے ہوئے حضرت آمنہ کو چند روز ہی گزرے تھے کہ آپ کو اس بات کی خوشخبری ملی کہ آپ خاتم النبین کی والدہ ماجدہ بننے کے شرف سے مشرف ہونے والی ہیں ۔ 13حدیث طیبہ کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب داروغۂِ جنت کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ جنت کے تمام دروازے کھول دےاور ایک فرشتہ کو اللہ کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ وہ زمین و آسمان کی ساری مخلوقات میں یہ اعلان کر دے کہ آج خاتم النبین محمد رسول اللہ اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں قرار پذیر ہو گئے ہیں ۔14امام اصبہانی اس وقت ہونے والے کئی روحانی واقعات و مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہے :
قال ابن عباس: فكان من دلالات حمل النبي صلي الله عليه وسلم أن كل دابة كانت لقريش نطقت تلك الليلة وقالت: حمل برسول الله صلي الله عليه وسلم ورب الكعبة وهو أمان الدنيا وسراج أهلها ولم يبق كاهنة من قريش ولا قبيلة من قبائل العرب إلا حجبت عن صاحبتهاوانتزع علم الكهنة ولم يكن سرير ملك من ملوك الدنيا إلا أصبح منكوسا والملك مخرسا لا ينطق يومه ذلك ومرت وحوش المشرق إلى وحوش المغرب بالبشارات وكذلك البحار يبشر بعضهم بعضا به في كل شهر من شهوره نداء في الأرض ونداء في السماء: أن أبشروا، فقد آن لأبي القاسم أن يخرج إلى الأرض ميمونا مباركا. 15
حضرت ابن عباس سے مروی ہے اس رات قریش کا ہر جانور پکار اٹھا: ربّ کعبہ کی قسم! (سیّدنا)محمد حمل میں آگئے ہیں۔ وہ دنیا کے امام اور اہل دنیا(کے لیے ہدایت کا)چراغ ہیں۔ اسی لیے قریش کے تمام کاہنوں اور عرب کے تمام قبائل سے اسے مخفی رکھا گیا اور ان کے علمِ کہانت کو ان سے چھین لیا گیا اور اس دن تمام بادشاہوں کے تخت الٹ دیے گئے اور اس دن کی صبح ہر بادشاہ کو گونگا کردیا گیاحتیٰ کہ وہ پورا دن کچھ بھی نہ بول سکے اور مشرق کے پرندے مغرب کے پرندوں کو بشارت دینے گئے، اسی طرح سمندروں کی مخلوقات نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔حضور نبی کریم کے حمل کےمہینوں میں سے ہر مہینے میں زمین و آسمان میں ندا کی جاتی کہ خوش خبریاں سناو! عنقریب ابو القاسمزمین پر سعادت و برکت کے ساتھ تشریف لارہے ہیں۔
استقرارِ حمل کے حوالے سے مشہور ترین قول بارہ (12) ذوالحجہ کا ہے ۔ ابن عساکر نے بعض اہلِ علم کی رائے کو نقل کیا ہے جس کے مطابق آپ کا قرارِ حمل رجب یا محرم کے مہینے میں وقوع پذیر ہوا لیکن آئمۂِ سیر ت کی تصریحات کے مطابق حتمی قول بارہ (12) ذوالحجہ ہی کا ہے ۔ اس تاریخ کا تعین ابن عساکر کی بیان کردہ اس روایت سے ہوتا ہے جس میں خثیمہ نامی ایک کاہنہ نے حضرت عبداللہ سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ حضرت عبداللہ نے اس کے پیغامِ نکاح کو یہ کہہ کر منع فرما دیا تھا کہ وہ ابھی رمی جمار کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں ۔ بعد میں وہ اپنی زوجہ حضرت آمنہ کے پاس گئے اور ان سے مقاربت کو اختیار فرمایا جس کے نتیجہ میں نبی کا نور آپ کی صُلب مبارک سے حضرت آمنہ کے بطنِ مبارک میں منتقل ہوگیا ۔ جب آپ واپس تشریف لا رہے تھے تو اسی خثیمہ نے آپ کو دیکھ کر آپ سے دریافت کیا : کیا آپ نے نکاح کر لیا؟ حضرت عبداللہ نے جواب دیا: ہاں۔ خثیمہ نے جب آپکا جواب اثبات میں سنا تو کہنے لگی وہ نور جو میں نے آپ کی پیشانی میں چمکتا ہو ادیکھا تھا اب وہ وہاں موجود نہیں ہے گویا کہ آپ کی زوجہ میں منتقل ہو گیا ہے۔ پھر وہ غمزدہ لہجے میں کہنے لگی کہ میری طرف سے آمنہ کو مبارکباد دینا کہ وہ کائنات کی عظیم ترین ہستی کی ماں بننے والی ہے ۔ 16اس روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رمی جو ایام حج میں کی جاتی ہے انہی ایام میں حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کی مقاربت ہوئی اور استقرارِ حمل وجود میں آیا ۔ شیخ محدث حق دہلوی نے بھی اسی روایت کی تصدیق کی ہے اور استقرار حمل کی تاریخ کو ایام تشریق میں سے قرار دیا ہے اور جمعہ کے دن کا تعین فرمایا ہے ۔ 17
آپ کا اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں بصورت حمل مبارک کے وقوع پذیر ہونا تقریباًنو (9) ماہ کے عرصے کے لیے ہی تھا ۔ 18اسی حوالہ سے صاحبِ مواہب اللدنیہ تحریر فرماتے ہیں:
وعن أبى زكريا يحيى بن عائذ: بقى صلي الله عليه وسلم فى بطن أمه تسعة أشهر كملا، لا تشكو وجعا ولا مغصا ولا ريحا ولا ما يعرض لذوات الحمل من النساء، وكانت تقول: والله ما رأيت من حمل هو أخف منه ولا أعظم بركة منه. 19
ابوزکریا یحییٰ بن عابد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں پورے نو (9) مہینے تشریف فرما رہے۔ اس دوران سیّدہ آمنہ کے سر یا پیٹ میں کوئی درد اور کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی اور حاملہ عورتوں کو جو تکالیف ہوتی ہیں، آپ ان سے محفوظ رہیں۔ آپ فرماتی تھیں: اللہ کی قسم! میں نے اس سے بڑھ کر ہلکا اور زیادہ بابرکت حمل نہیں دیکھا۔
امام زرقانی نے بھی اس روایت کی تصدیق کی ہے ۔ 20یہ روایات واضح طور پر مدتِ حمل کے دورانیہ کا تعین کرتی ہے اور بلا اختلاف اس کے مکمل نو (9) ماہ ہونے کو ثابت کرتی ہے۔
اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کی ولادت ماہ ربیع الاول میں ہوئی تا ہم اگر مذکورہ بالا اقوال کو ذہن میں رکھا جائے جس کے مطابق استقرارِ حمل بارہ (12) ذوالحجہ کو وقوع پذیر ہوا تو اس کے مطابق مدتِ حمل فقط تین (3) ماہ ٹھہرتی ہے جو کہ عرف اور عادت کے خلاف ہے کیونکہ عام طور پر مدت حمل آٹھ (8) سے دس (10) ماہ کے درمیان ہوتی ہے21اور کم از کم مدت حمل چھ (6) ماہ کی لگ بھگ متعین کی گئی ہے۔ 22اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں میں "نسئی"کی روایت عام تھی جس کے مطابق وہ اپنے عام مہینوں کو مقدس مہینوں سے تبدیل کرتے رہتے تھے ۔ یہاں تک کہ جب بھی ان کو دشمن قبائل سے جنگ لڑنا ہوتی اور وہ وقت، مقدس مہینوں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، محرّم یا رجب کا ہوتا، تو وہ ان مہینوں کو نام کی تبدیلی کے ساتھ اپنے لیے جائز قرار دے دیتے اور اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کر لیتے کہ یہ ایّام اور مہینے جنگ وجدل کے بعد اطمینان اور سکون سے منائے جائیں گے۔ اسی وجہ سے قرآن حکیم میں سورۃالتوبہ کے اندر اللہ رب العزت نے باقاعدہ اس عمل کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔23
اب جب کہ یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ عربوں میں" نسئی" کا رواج عام تھا تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ استقرارِ حمل شعبان یا جمادی الآخرۃ کے مہینے میں ہوا تھا جیسا کہ ابن جریراور مردویہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔ امام شامی کے مطابق بھی وہ مہینہ رجب کا تھا لیکن اس وقت کی رائج شدہ تقویم (calendar) کے مطابق وہ ذوالحجہ کا مہینہ چل رہا تھا جس میں لوگ حج اور اس سے متعلقہ امور کےلیے سفر کر رہے تھے۔ گویا آپ کی ولادت با سعادت جو کہ ربیع الاول میں وقوع پذیر ہوئی رجب یا شعبان سے لے کر ماہ ربیع الاول تک پورے8سے 9 ماہ کا عرصہ بنتا ہے جو کہ معروف مدتِ حمل ہے لیکن رائج شدہ جنتری کے مطابق وہ ذوالحجہ کا مہینہ تھا۔