امت مسلمہ کے ہر دور میں مختلف طریقوں سے حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار انفرادی سطح پر کسی نہ کسی صورت میں چلا آرہا تھاالبتہ حکومتی سطح پر جس حاکم نے دھوم دھام سے اسے منایا ان کا اسم گرامی ابو سعید مظفر الدین احمد بن علی کوکبری (متوفی 630ھ) ہے۔ اس پر تمام مؤرخینِ اسلام کا اتفاق ہے کہ یہ حاکم نہایت ہی صالح،بہادر،سخی اور عادل تھا۔ کتب تاریخ میں ان کے افعالِ حسنہ اور خصائلِ حمیدہ کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
میلاد کی خوشی کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے امت مسلمہ میں جاری رہاہے اور تاریخِ اسلام کے اوراق میں ہر دور کے علماء ومحدثین اور بزرگوں کا کثیر تعداد میں یہ معمول ملتا ہے۔رسول اکرم کی ولادت پر خوشی کا اظہار خود رسول مکرم کا معمول تھا 1 جس کو دیکھتےہوئے مختلف مواقع پر انفرادی 2اور اجتماعی سطح پر صحابۂ کرام کا بھی معمول رہا۔3 شیخ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ حضور سرور کائنات کی امت کے پسندیدہ لوگوں میں آپ کے وصال کے بعد تقریباً پانچ صدیوں سے یہ کام ہرزمانہ میں بنظر استحسان دیکھا جاتا رہا ہے۔ 4 اسی طرح ڈاکٹر حسن ابراہیم کے حوالہ سے منقول ہے کہ چوتھی صدی میں امام ابو الحسن عبیدﷲ کرخی میلاد شریف کی محفل سجاتے تھے چنانچہ آپ اس کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
روى عن الامام الزاهد الكرخى وهو امن زھاد القرن الرابع الھجرى انه كان یولى یوم مولد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم ما هو خلیق به من تعظیم وتقدیس وقد احتفل المسلمون منذ ذلك الحین یلیلة مولد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم.5
امام زاہد کرخی کے بارے میں ہے جو چوتھی صدی ہجری کے نہایت ہی صاحب تقویٰ عالم ہیں کہ وہ حضور کی ولادت کے دن کی خوب تعظیم اور اس کے شایانِ شان اہتمام کرتے ، اس وقت سے مسلمان محفل میلاد سجاتے ہیں۔
یاد رہے کہ امام زاہد کرخی بادشاہ،حاکم،وزیر،گورنر یا کوئی اورحکومتی عہدیدار نہیں تھے بلکہ عالمِ ربّانی اور ولی اللہ تھے اور اس بزرگ کا سن وصال 340ھ ہے یعنی مصر میں فاطمی حکومت سے اٹھارہ (18)سال پہلے ان کا وصال ہوگیا تھا۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ میلاد فاطمی حکومت کی ایجاد بھی نہیں ہے۔
ان مذکورہ بالاعبارات سے واضح ہوجاتا ہے کہ میلاد النبی کی محفل امت مسلمہ کے اوائل دور سے ہی جاری و ساری ہے البتہ اس محفل ِمیلاد النبی کودوبارہ 6سرکاری سطح سے شان وشوکت کے ساتھ منانے کاسہرا شاہ اربل کے سر ہے۔
شاہ اربل ابو سعید مظفر الدین احمد بن علی کوکبری کے والد زین الدین علی کوجک جب فوت ہوئے تو ملک مظفر الدین کی عمر چودہ(14) سال تھی۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس چلے گئے، وہاں انہوں نے اہم خدمات کی وجہ سے اپنا خوب مقام بنالیا چنانچہ امام عبد الحئی حنبلی لکھتے ہیں:
ولى مظفر الدین مملكة إربل بعد موت أبیه فى سنة ثلاث وستین، وله أربع عشرة سنة، فتعصب علیه أتابكه مجاهد الدّین قیماز وكتب محضرا أنه لا یصلح للملك لصغره، وأقام أخاه یوسف، ثم سكن حران مدة، ثم اتصل بخدمة السلطان صلاح الدین، وتمكن منه، وتزوج بأخته ربیعة واقفة مدرسة الصاحبة بشرقى الصالحیة، وشھد معه عدة مواقف أبان فیھا عن شجاعة وإقدام، وكان حینئذ على إمرة حران والرها، فقدم أخوه یوسف منجدا لصلاح الدین، فاتفق موته على عكا، فأعطى السلطان صلاح الدّین لمظفر الدین إربل وشھرزور، وأخذ منه حران والرها، ودامت أیامه إلى هذا العام.7
مملکتِ اربل کے مظفر الدین اپنے والد کے مرنے کے بعد سن 563ھ میں چودہ سال کی عمر میں والی بنے۔ اس پر اتابک مجاہد الدین قیماز نے تعصب برتا اور خلیفہ کو لکھا :یہ صغر سنی کی وجہ سے سربراہ مملکت کے اہل نہیں۔ لہٰذا ان کے بھائی یوسف کو سربراہ بنادیا گیا تو یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تو سلطان نے اپنی بہن ربیعہ کا نکاح ان کے ساتھ کیا۔ اس خاتون نےصالحیہ کے مشرقی جانب مدرسہ صاحبہ وقف کیا تھا۔ یہ سلطان کے ساتھ کئی جنگوں و معرکوں میں شریک ہوئے جن میں انہیں اپنی شجاعت اور دشمن کے خلاف جو ہر دکھانے کا موقع ملا۔ اس وقت وہ حران اور الرھا کے گورنر بھی تھے۔ ان کے بھائی یوسف مقام عکا میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی معاونت کے لیے آئے ہوئے تھے تو سلطان مظفر الدین کو اربل وشہرِزور حوالے کرکے ان سےحران والرھان لے لیے تاکہ یہ اپنے والد کی جگہ سنبھال سکیں تو اب اس سال (630ھ) تک وہی حکمران ہیں۔
یہ حکمران عادل،بہادر، سخی، خوب صورت وسیرت،عمدہ کردار، ماہر سیاستدان، رعایا پرانتہائی مہربان وشفیق، بہت زیادہ صدقات اور فلاحی کام کرنے والے تھے چنانچہ امام ذہبی لکھتے ہیں:
وكان متواضعا خیرا.8
اور یہ بادشاہ نہایت ہی متواضع اور صالح حکمران تھے۔
اسی طرح امام ابن کثیر لکھتے ہیں:
وكان مع ذلك شھما شجاعا فاتكا بطلا عاقلا عالما عادلا رحمه اللّٰه وأكرم مثواه.9
اور اس کے ساتھ ساتھ وہ نہایت ہی زیرک ،بہادر،مرد حر،بطل حریت،عاقل، عالم وعادل تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان پر رحمتوں کا نزول فرمائے اور ان کا ٹھکانہ جنت میں اعلیٰ علّیین ہو۔
اسی طرح اس بادشاہ کی سوانح کے حوالہ سے کلام کرتےہوئے امام ابن خلکان لکھتے ہیں:
وأما سیرته الذاتیة فلقد كان له فى فعل الخیرات غرائب لم یسمع أن أحدا فعل فى ذلك ما فعله.10
اور اب رہی اس کی سیرت کی بات تو کارہائے خیر میں اس کے ایسے عجیب وغریب واقعات ہیں کہ کسی نے سنا نہ ہوگا کہ اس نے جو کیا ہے کسی نے کیا ہو.11
اسی طرح امام عبد الحئی حنبلی اس کی نیک سیرت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكان من أدین الملوك وأجودهم وأكثرهم برا ومعروفا على صغر مملكته.12
یہ بادشاہوں میں نہایت ہی دیندار نیک و صالح، سب سے سخی، کثرت کے ساتھ نیک کام کرنے والے اور چھوٹی سلطنت کے باوجود نہایت ہی مشہور ہیں۔
یہ بادشاہ نیک اور صالح تھا اور انہوں نے ہی میلاد النبی کو پھر سےسرکاری سطح پر منانے کا آغاز کیا تھا چنانچہ امام جلال الدین سیوطی اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأول من أحدث فعل ذلك صاحب إربل الملك المظفر أبو سعید كوكبرى بن زید الدین على ابن بكتكین أحد الملوك الأمجاد والكبراء الأجواد وكان له آثار حسنة وھو الذى عمر الجامع المظفرى بسفح قاسیون.13
سب سے پہلے آغاز کرنے والا شخص اِرْبِلْ کا بادشاہ مظفر ابوسعید کوکبری بن زین الدین بن بکتکین تھا، جو عظیم بادشاہوں اور فیاض افراد میں سے ایک ہے، اس کے بہت سے اچھے کارنامہ ہیں اور یہ وہی بادشاہ ہے جس نے قاسیون کی ڈھلان میں جامع مظفری کو تعمیر کروایا تھا۔ 14
ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہواکہ شاہ اربل مظفر الدین ایک نہایت صالح اور نیک بادشاہ تھا اور مؤرخین نے اس بادشاہ کے آثارِ حسنہ کو اپنی تاریخ کی کتب میں قلمبند کیا ہے تاکہ آئندہ آنے والے اس بادشاہ کے خوبصورت کردار کوجان سکیں ۔
محسنِ انسانیت کی ذات اور آپ کا مرتبہ ومقام اس قدر بلند ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جتنا بھی مال خرچ کیا جائے وہ کم ہےاور جہاں تک اسراف یعنی فضول خرچی کا تعلق ہے تو اس حوالہ سے یہ بات قابل توجہ ہے کہ جو کام کسی نیک مقصد کے لیے کیا جائے وہ اسراف نہیں ہوتا۔حضور کے میلاد کی خوشی میں خرچ کرنا اسراف نہیں کیوں کہ یہ ایک اَمر خیر ہے اور ائمہ وفقہاء کے نزدیک اُمور خیر اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت میں اسراف نہیں ہوتا 15جیساکہ عربی مقولہ ہے کہ "لا اسراف فی الخیر"یعنی خیرکے کاموں میں کوئی اسراف نہیں ہے خواہ کتنا ہی زیادہ خرچ کردیا جائے بلکہ اس میں تو زیادتی مطلوب و ممدوح ہوتی ہے۔
میلاد شریف پر جو سخاوت وغیرہ کی جاتی ہے یہ تعظیم میں سے ہے اور تعظیم اسراف نہیں مثلاً خانہ کعبہ پر کروڑوں ریال کا غلاف ڈالا جاتا ہے جو تعظیم ورفعت کی وجہ سے جائز ومستحسن ہے ۔اسی طرح کئی ممالکِ اسلامیہ کی بڑی بڑی مساجد میں مختلف موقعوں پر چراغاں کیا جاتا ہے جو ان موقعوں کی مناسبت کے سبب جائز ہے۔ اسی طرح جشن آزادی میں لاکھوں روپے کے جھنڈے اور جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں جوحب الوطنی کے سبب جائز ہے اور کوئی بھی اسے ناجائز یا اسراف نہیں کہتا۔ جب یہ تمام امور اسراف نہیں تو میلاد النبی پر خرچ کرنا بھی اسراف نہیں کیونکہ حضور نبی کریم کی محبت اور آپ کی ولادت کی خوشی کے اظہارکے لیے خرچ کرنا ایک نیک کام ہے جس میں اسراف کا کوئی تعلق نہیں۔
شرعی طور پر اسراف کا معنی جاننا بے حد ضروری ہیں تاکہ اس اعتراض کے جواب کو سمجھنے میں آسانی ہوسکےچنانچہ اسراف کا معنی بیان کرتے ہوئے صاحب الموسوعۃ الفقہیۃتحریر فرماتے ہیں:
من معانى الإسراف فى اللغة: مجاوزة القصد، یقال: أسرف فى ماله أى أنفق من غیر اعتدال، ووضع المال فى غیر موضعه وأسرف فى الكلام، وفى القتل: أفرط. وأما السرف الذى نھى اللّٰه تعالى عنه فھو ما أنفق فى غیر طاعة اللّٰه، قلیلا كان أو كثیراأما فى الاصطلاح الشرعى، فقد ذكر القلیوبى للإسراف المعنى اللغوى نفسه، وھو: مجاوزة الحدوخص بعضھم استعمال الإسراف بالنفقة والأكل یقول الجرجانى فى التعریفات: الإسراف تجاوز الحد فى النفقة وقیل: أن یأكل الرجل ما لا یحل له، أو یأكل ما یحل له فوق الاعتدال ومقدار الحاجة وقیل: الإسراف تجاوز الكمیة فھو جھل بمقادیر الحقوق والسرف: مجاوزة الحد بفعل الكبائر ومنه قوله تعالى: (ربنا اغفر لنا ذنوبنا وإسرافنا فى أمرنا).16
لغت میں اسراف کا ایک معنی اعتدال سے تجاوز کرنا ہے، کہا جاتا ہے "اسرف فی مالہ''یعنی اس نے اعتدال سے زیادہ خرچ کیا اور مال کو غیر محل میں خرچ کیا، اور کہا جاتا ہے "اسرف فی الکلام وفی القتل'' یعنی کلام اور قتل میں افراط وزیادتی کی۔ جس اسراف سے ﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے وہ اﷲ کی نافرمانی میں خرچ کرنا ہے خواہ کم ہو یا زائد۔اصطلاح شرع میں قلیوبی کے بیان کے مطابق اسراف کے اصطلاحی معنی وہی ہیں جو اس کے لغوی معنی ہیں یعنی حد سے تجاوز کرنااور بعض فقہاء نے اسراف کے استعمال کو نفقہ اور کھانے کے لیے خاص کیا ہے۔ التعریفات میں جرجانی لکھتے ہیں کہ اسراف نفقہ میں حد سے تجاوز کرنا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسراف یہ ہے کہ انسان وہ چیز کھائے جو اس کے لیے حلال نہ ہو، یا حلال چیز کو اعتدال ومقدارِ ضرورت سے زائد کھائے۔یہ بھی ایک قول ہے کہ اسراف مقررہ مقدار سے تجاوز کرنا ہے، لہٰذا اسراف حقوق کے معیار سے ناواقفیت کا نام ہےاور اسرف کبائر کا ارتکاب کرکے حد سے تجاوز کرناہے اور اس بارے میں اﷲ تبارک وتعالیٰ کایہ فرمان ہے: اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہوں کو اور اپنے معاملہ میں ہماری زیادتی کو بخش دے۔
لفظ "اسراف"کے ہم معنی اور مترادف لفظ "تبذیر" ہے جس کا معنی ہے گناہ کے کاموں میں مال کو خرچ کرنا چنانچہ "الموسوعۃ الفقہیۃ"میں ہے:
هو تفریق المال فى غیر قصد، ومنه البذر فى الزراعة وقیل: هو إفساد المال وإنفاقه فى السرف قال تعالى: (وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیرً26)17وخصه بعضھم بإنفاق المال فى المعاصى، وتفریقه فى غیر حق ویعرفه بعض الفقھاء بأنه: عدم إحسان التصرف فى المال، وصرفه فیما لا ینبغى، فصرف المال إلى وجوہ البر لیس بتبذیر، وصرفه فى الأطعمة النفیسة التى لا تلیق بحاله تبذیر.18
تبذیر بے اعتدالی سے مال کو خرچ کرنا کہلاتا ہے اسی سے کھیتی بونے کے لیے لفظ "بذر" بولا جاتا ہےاور کہا گیا ہے کہ تبذیر مال کو خراب کرنا اور فضول خرچ کرنا ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے"وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیرًا" (یعنی اور مال کو فضولیات میں نہ اڑا) بعض لوگوں نے کہا کہ تبذیر صرف معاصی میں ناحق خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔بعض فقہاء تبذیر کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ تبذیر مال کے حق میں اچھا معاملہ نہ کرنا اور نامناسب جگہوں میں صرف کرنا ہے لہٰذا نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرنا تبذیر نہیں ہےاور ایسے نفیس کھانوں میں خرچ کرنا جو اس کے حسب حال نہ ہوں تبذیر ہے۔
ان مذکورہ بالا عبارات کا خلاصہ یہ ہوا کہ نیکی، خیر اور بھلائی کے کاموں میں مال کے زیادہ خرچ کرنے کو اسراف نہیں کہا جاتااور اسی وجہ سے اس کی ممانعت بھی نہیں ہے البتہ معاصی ،سرکشی اورنامناسب امور میں مال کو صرف کرنا اسراف کہلاتا ہے جو کہ ممنوع ہے خواہ قلیل مال ہی کیوں نہ صرف کیا جائے۔ چنانچہ امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
وأما السرف الذى نھى اللّٰه عنه فھو ما أنفق فى غیر طاعة اللّٰه قلیلا كان أو كثیرا.19
جس اسراف سے ا ﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے وہ ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کرنا ہے، خواہ کم ہو یا زیادہ۔
اسی طرح اس حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے امام ابن جوزی لکھتے ہیں:
حدثنى بعض ولد الحسن بن سھل أنه رأى سقاء یمر فى دارہ فقال له: ما حالك؟ فشكى إلیه ضیقه وذكر أن له بنتا یرید زفافھا فأخذ لیوقع له بألف درهم فأخطأ فوقع له بألف ألف درهم فأتى بھا السقاء وكیله فأنكر ذلك وتعجب أهله منه وهابوا أن یراجعوه فأتوا غسان بن عباد وكان من الكرماء فأخبروه، فأتاه فقال له: أیھا الأمیر، إن اللّٰه لا یحب المسرفین فقال له الحسن: لیس فى الخیر إسراف ثم ذكر له السقاء فقال: واللّٰه لا رجعت عن شىء خطته یدى فصولح السقاء على جملة منھا ودفعت إلیه.20
حسن بن سہل کے بیٹے سے روایت ہے کہ حسن بن سہل نے کسی پانی پلانے والے کو اپنے گھر میں دیکھا تو اُس کا حال پوچھا۔ سقہ نے اپنے زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ ظاہر کیا۔ حسن بن سہل نے اس کی حالتِ زارپر رحم کرتے ہوئے اسے ایک ہزار درہم دینے کا عندیہ دیا لیکن غلطی سے اسے دس لاکھ درہم دے دیے۔ حسن بن سہل کے اہل خانہ نے اس عمل کو پسند نہ کیا اور حسن بن سہل کے پاس جانے سے خوف زدہ ہوئے۔ پھر وہ رقم کی واپسی کے لیے غسان بن عباد کے پاس گئے جو خود بھی سخی ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ اس نے کہا:اے امیر! بے شک ﷲ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس پر حسن نے کہا:خیر میں کوئی اسراف نہیں۔پھر حسن نے سقہ کے حال کا ذکر کیا اور کہا: اﷲ رب العزت کی قسم! میں اپنے ہاتھوں سے ادا کردہ جملہ دراہم میں سے کچھ بھی واپس نہیں لوں گا۔پس سقہ کو ان تمام دراہم کا حق دار ٹھہرادیا گیا۔
امام ابن ابی حاتم نے امام مجاہد سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
لو أنفقت مثل أبى قبیس ذهبا فى طاعة اللّٰه لم یكن إسرافا ولوا أنفقت صاعا فى معصیة اللّٰه تعالى كان إسرافا.21
اگر تم ابو قبیس (مکّہ مکرّمہ کا ایک پہاڑ) کے برابر سونا بھی اﷲ کی اطاعت میں خیرات کردو تو یہ اسراف نہیں ہے اور اگر تم ایک صاع (چار کلو) بھی اﷲ کی معصیت میں خرچ کرو تو یہ اسراف ہے۔
اسی طرح حضرت عبد اﷲ بن عباس فرماتے ہیں:
لیس فى الحلال إسراف، وإنما السرف فى ارتكاب المعاصى.22
حلال میں کوئی اسراف نہیں اسراف صرف نافرمانی کے ارتکاب میں ہے۔
امام ابو نعیم اصفہانی نے امام ثوری سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
الحلال لا یحتمل السرف.23
حلال کام میں اسراف کا احتمال نہیں ہوتا۔
امام جلال الدین سیوطی نےحضرت عمر سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
لیس شىء أنفقته فى طاعة اللّٰه اسرافا.24
کوئی شے اسراف نہیں ہے جسے تو نےا ﷲ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کیا۔
مذکورہ اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جتنا بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور خرچ کیا جائے اس کا شمار اسراف میں نہیں ہوتا ،اس کی تائید درج ذیل اقوال سے بھی ہوجاتی ہے جس کوامام ابوبکر الدمیاطی نقل کرتےہوئے لکھتے ہیں:
قال الحسن البصرى قدس اللّٰه سره: وددت لو كان لى مثل جبل أحد ذهبا لأنفقته على قراءة مولد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم قال الجنیدى البغدادى رحمه اللّٰه: من حضر مولد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم وعظم قدره فقد فاز بالإیمان قال معروف الكرخى قدس اللّٰه سره: من هیأ لأجل قراءة مولد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم طعاما وجمع إخوانا وأوقد سراجا ولبس جدیدا وتعطر وتجمل تعظیما لمولدہ حشره اللّٰه تعالى یوم القیامة مع الفرقة الأولى من النبیین وكان فى أعلى علیین.25
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو تو میں میلاد رسول پڑھنے پر خرچ کردوں۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں جو میلاد شریف میں حاضر ہوا اس کی عظمت وقدر کی تو اس کا مرتے وقت ایمان سلامت رہے گا۔ حضرت معروف کرخی نے فرمایا جو میلاد شریف پڑھتے وقت کھانا پیش کرے، اس کی تعظیم میں مسلمانوں کو اکٹھا کرے، چراغ روشن کرے، نئے کپڑے پہنے، عطر لگائے، زیبائش اختیار کرے، اﷲ عزوجل اس کا حشر قیامت والے دن انبیاء کے پہلے گروہ کے ساتھ کرے گااور وہ جنت میں اعلیٰ علیین میں ہوگا۔
ان عبارات سے بھی واضح ہوا کہ نیکی کے کاموں میں اور خصوصاً میلاد النبی میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا بھی اسراف کے زمرہ میں نہیں آتا۔اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس عظیم بادشاہ کے میلاد النبی کا اسراف سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ عظیم بادشاہ نیک کاموں میں خرچ کیا کرتے تھے نہ کہ شر اور برائی کے کاموں میں چنانچہ کہتے ہیں( جب ان کو منصب حکومت ملا ):
لما أخذت إربل آلیت على نفسى أن أقسم مغلھا ثلاثة أقسام قسم أنفقه فى أبواب البر وقسم للجند وما یخصنى وقسم أدخره لعدو یقصدنى.26
جب میں اربل کا سربراہ بنا تو میں نے اپنے بارے میں تین حلف اٹھائےکہ اس کے خزانہ کو تین مصارف پر ہی خرچ کرونگا۔ نیک وفلاحی کاموں پر، لشکر اورمیری ضروریات پراور دشمن کے خلاف تیاری پر۔
معلوم ہوا کہ اس عظیم بادشاہ کا کثرت سے مال خرچ کرنا نیک کاموں میں تھا نہ کہ معاصی کے کاموں میں اور نیک کام میں اسراف نہیں ہوتاکیونکہ تمام اہل علم نے یہ تصریح کی ہے کہ شاہ اربل کو دنیا میں ہر شے سے بڑھ کر صدقات سے محبت تھی چنانچہ قاضی ابن خلکان اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وكان محبا للصدقة له كل یوم قناطیر خبز یفرقھا.27
یہ صدقہ سے محبت کرتے اور ہر روز روٹیوں کے انبار لوگوں میں تقسیم کرواتے۔
ان کے صداقات ونیکیوں کادائرہ حرمین شریفین تک پھیلا ہوا تھا۔ چنانچہ امام ابن کثیراس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكانت صدقاته فى جمیع القرب والطاعات على الحرمین وغیرهما.28
ان کے تمام نیک کاموں میں صدقات کا دائرہ حرمین اور دیگر مقامات تک پھیلا ہواتھا۔
ان کا مال فضول کاموں میں خرچ نہ ہوتا بلکہ محدثین اور فقہاءرحمۃ اللہ علیہم پر خرچ کرتے کیونکہ وہ ان علماء سے محبت کرتے تھے۔ چنانچہ امام ذہبی لکھتے ہیں:
یحب الفقھاء والمحدثین.29
وہ فقہاء اور محدثین سے محبت کرتے۔
چونکہ یہ بادشاہ فقہاء و علماء سے محبت کیا کرتے تھے تو ان پر خرچ بھی کیا کرتے تھے ۔اسی حوالہ سے امام ذہبی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
لا ینفق عنده سوى الفقھاء والمحدثین، وكان قلیل الإقبال على الشعر وأهله.30
وہ فقہاء اور محدثین پہ ہی خرچ کرتے اور اشعار اور شعراء کی طرف کم ہی متوجہ ہوتے۔
اسی طرح یہ بادشاہ نیکیوں کے ساتھ ساتھ برائی سے خود بھی اجتناب کرتے اور اپنے شہریوں کو بھی اس سے دور رکھتے چنانچہ امام ذہبی ان کے بارے میں اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإنه كان لا یتعاطى المنكر، ولا یمكن من إدخاله البلد.31
یہ برائی کو کبھی تقویت نہ دیتے اور نہ ہی برائی کو اپنے علاقہ میں داخل ہونے دیا کرتے۔
نیز امام ذہبی اپنی دوسری کتاب میں اسی حوالہ سے لکھتے ہیں:
وكان یمنع من دخول منكر بلده.32
وہ اپنے علاقہ میں کسی برائی کو داخل نہ ہونے دیا کرتا تھا۔
معلوم ہوا کہ ان کا کثرت مال کا خرچ کرنا اسراف نہیں بلکہ صدقہ تھا جو اﷲ تعالیٰ کے لیے کیا جاتا تھا اور نیک کاموں میں خرچ ہوتا تھا ۔انہی نیک کاموں میں سے ایک محفلِ میلاد النبی بھی ہے جس میں خرچ کرنے کا اسراف جیسے گناہ سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ شاہ اربل اپنی آمدنی کو جہاں خرچ کیا کرتے تھے وہ مواقع یہ تھے:
ان تمام مذکورہ کاموں میں سے کوئی بھی کام اسراف کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ تمام کام خیرو بھلائی کے ہیں لہذا ان افعال میں کیے جانے والے اخراجات کو اسراف کہنا انتہائی غلط ہے کیونکہ اسراف گناہ کے کاموں میں خرچ کرنے کو کہاجاتا ہے نہ کہ خیر اور نیکی کے کاموں میں خرچ کیے جانے والے مال کو۔
صاحب اربل کو اپنے علاقے کے علماء، صوفیاء، قراء ، خطباء او ردیگر اہل اسلام کی تائید بھی حاصل ہے۔ جب انہوں نے حکومتی سطح پر محافل میلاد منانے کا اہتمام کیا تو اس میں صرف عوام ہی شریک نہ ہوتے بلکہ شہر اربل اور اس کے قرب وجوار کے تمام محدثین،فقہاء،مفسرین اور صوفیہ بھی شریکِ محفل ہواکرتے تھے جیسا کہ امام ابن خلکان جو ان محافل کے چشم دید گواہ ہیں خود اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما احتفاله بمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فإن الوصف یقصر عن الإحاطة به، لكن نذكر طرفا منه وهو أن أهل البلاد كانوا قد سمعوا بحسن اعتقاده فیه، فكان فى كل سنة یصل إلیه من البلاد القریبة من إربل. مثل بغداد والموصل والجزیرة وسنجار ونصیبین وبلاد العجم وتلك النواحى خلق كثیر من الفقھاء والصوفیة والوعاظ والقراء والشعراء، ولا یزالون یتواصلون من المحرم إلى أوائل شھر ربیع الأول.33
اب رہی بات اس کےحضور نبی کریم کے جشن میلاد کرنے کی تو تعریف اس کا احاطہ نہیں کرسکتی لیکن پھر بھی ہم اس کا کچھ حال بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ شہر والوں نے محفل میلاد کےبارے میں شاہ اربل کاحسن اعتقاد سن رکھا ہے تو اربل کے نزدیکی شہروں مثلاً بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین، بلاد عجم اور ان کے نواح سے فقہاء، صوفیاء واعظین قراء اور شعراء کی بہت سی تعداد اس کے پاس پہنچ جاتی ہےاور وہ محرم سے ماہ ربیع الاول کے اوائل تک مسلسل آتے رہتےہیں.34
نیز امام ابن کثیرنے بھی شرکائے محفل میلاد کےبارے میں یوں لکھا ہے:
أعیان العلماء والصوفیة.35
بڑے بڑے علماء اور صوفیہ (اس محفل میلاد میں)تشریف لاتے ۔
اسی طرح اس حوالہ سے امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
وكان یحضر عنده فى المولد أعیان العلماء والصوفیة فیخلع علیھم.36
شاہِ اربل کی محفلِ میلاد میں کبار علمائے کرام اورصوفیائے عظام شامل ہوتے جنہیں شاہی خلعتیں عطا کی جاتیں۔
ملک مظفر کو کبری نے جس انداز سے محفل میلاد کا انعقاد کیا وہ اپنی مثال آپ تھا اوراس محفلِ میلاد کی ہیئت کو مختصر الفاظ میں بیان کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں :
أحد الأجواد والسادات الكبراء والملوك الأمجاد، له آثار حسنة…وكان یعمل المولد الشریف فى ربیع الأول ویحتفل به احتفالا هائلا، وكان مع ذلك شھما شجاعا فاتكا بطلا عاقلا عالما عادلا رحمه اللّٰه وأكرم مثواه.37
بہت بڑا سخی بہت بڑا سردار بزرگ بادشاہ تھا اس کے سب کام اچھے تھے اوروہ ربیع الاول میں میلاد شریف کی حیران کن محفل کا انتظام کرتا تھا، وہ بہترین حاکم، بہادر، دلیر ،نڈر ، دانا ، عالم اور عادل تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کے پھول برسائے اور اس کو بڑی عزت والا ٹھکانہ عطا فرمائے۔
اسی طرح امام ذہبی لکھتے ہیں:
وكان یضرب المثل بما ینفقه كل عام فى المولد.38
ہر سال میلاد پر خرچ کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔
ان علماء،فقہاء،محدثین، واعظین، صوفیہ اور پاکیزہ لوگوں کی شرکت بتارہی ہے کہ جواز محافل میلاد پر امت کا اجماع ہے۔اگر یہ عمل اسلام کی تعلیمات کے منافی ہوتا تو اس قدر اہل علم وفضل اس محفل میں شریک نہ ہوتے بلکہ اس کے خلاف عملاً تحریک چلاتے۔
اس دور کے چشم دید گواہ امام ابو شامہ مقدسی نےنہایت ہی واضح اور د و ٹوک انداز میں شاہ اربل کے اس عمل کو پسندیدہ اور بدعت حسنہ لکھنے کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہےکہ یہ صالحین کا عمل ہے اور شاہ اربل نے ان صالحین کی پیروی کی۔ چنانچہ ابو شامہ مقدسی اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
ومن أحسن ما ابتدع فى زماننا من هذا القبیل ما كان یفعل بمدینة إربل جبرها اللّٰه تعالى كل عام فى الیوم الموافق لیوم مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلممن الصدقات والمعروف واظھار الزینة والسرور فإن ذلك مع ما فیه من الإحسان إلى الفقراء مشعر بمحبة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیمه وجلالته فى قلب فاعله وشكرا للّٰه تعالى على ما من به من إیجاد رسوله الذى أرسله رحمة للعالمین صلى اللّٰه عليه وسلم . 39
ہمارے دور میں اسی قبیل سے سب سے زیادہ خوبصورت عمل وہ ہے جو شہر اربل (ﷲ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے) میں ہر سال میلاد پاک کے موقع پر صدقات ،بھلائی،اظہار زینت سرور کی صورت میں ہوتا ہے اس میں فقراء پر احسان اور انعقاد کرنے والے کے دل میں حضور سے محبت اور آپ کی تعظیم وعزت کا اظہار اور ﷲ تعالیٰ کا اس پرشکر ہے کہ اس نے اپنے عظیم رسول کو بصورت تمام جہاں والوں کے لیے رحمت بناکر پیدا فرمایا۔
اس کے بعد اس مقدس عمل پر یوں تائید لائے ہیں کہ شہر موصل میں سب سے پہلے یہ عمل نہایت ہی کامل بزرگ اور عالمِ ربانی نے شروع کیا چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
وكان أول من فعل ذلك بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبه اقتدى فى ذلك صاحب أربل وغیره رحمھم اللّٰه تعالى.40
سب سے پہلے یہ عمل شہر موصل میں شیخ عمر بن محمد ملا نے کیا جو نہایت ہی مشہور صالح بزرگ تھے۔صاحب اربل اور دیگر لوگوں نے ان کی پیروی میں یہ عمل شروع کیا۔
اسی میلاد شریف کو بڑی شان وشوکت سے منانے کی وجہ سے امام ملا علی قاری نے اس بادشاہ کی تعریف بھی کی ہے چنانچہ آپ تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وكان للملك المظفر صاحب إربل رحمه اللّٰه بذلك فیھا أتم العنایة واھتمامھا ما بشأنه جاوز الغایة اثنى علیه به العلامة أبو شامة أحد شیوخ النووى السابق فى الاستقامة فى كتابه الباعث على إنكار البدع والحوادث.41
ریاست (اربل) کےبادشاہ مظفر نے اس سلسلہ میں ہمیشہ کامل ترشایانِ شان اور حد سے بڑھ کر اہتمام کیا۔ جس کی بناء پر امام نووی کے شیخ علامہ ابو شامہ (جو صاحب استقامت تھے) نے اپنی کتاب"الباعث علی البدع والحوادث"میں اس بادشاہ کی تعریف کی۔
سب سے زیادہ اس بادشاہ کے بارے میں معلومات رکھنے والی شخصیت نامور مورخ امام ابو العباس قاضی شمس الدین احمد بن محمد ابن خلکان کی ہے۔ انہوں نے اس عادل حاکم کے بارے میں جو لکھا ہے وہ نہایت ہی اہم اور قابل توجہ اس لیے بھی ہے کہ انہوں نے جو لکھا وہ کسی سے سناہوا نہیں بلکہ وہ ان کا مشاہدہ ہے جس کی تصریح وہ خود اپنے درج ذیل الفاظ میں یوں کرتے ہیں:
ولو استقصیت فى تعداد محاسنه لطال الكتاب، وفى شھرة معروفه غنیة عن الإطالة ولیعذر الواقف على هذه الترجمة ففیھا تطویل، ولم یكن سببه إلا ما له علینا من الحقوق التى لا نقدر على القیام بشكر بعضھا، ولو عملنا مھما عملناه، وشكر المنعم واجب، فجزاه اللّٰه عنا أحسن الجزاء فكم له علینا من الأیادى، ولأسلافه على أسلافنا من الإنعام، والإنسان صنیعة الإحسان، ومع الاعتراف بجمیله فلم أذكر عنه شیئا على سبیل المبالغة، بل كل ما ذكرته عن مشاهدة وعیان، وربما حذفت بعضه طلبا للإیجاز.42
اور اگر میں نے اس کے محاسن کا احاطہ کیاتو کتاب طویل ہوجائے گی اور اس کی نیکیوں کی شہرت، طوالت سے بے نیاز کرنے والی ہے اور اس ترجمہ میں طوالت کی وجہ سے ٹھہرنے والے سے معذرت ہے کیونکہ اس کا سبب ہم پر اس کے وہ حقوق ہیں جن کے بعض کا ہم شکریہ ادا نہیں کرسکتےاور منعم کا شکر واجب ہے جزاہ ﷲ عنا احسن الجزاء۔ اس کے ہم پر کتنے ہی احسان ہیں اور اس کے اسلاف کے ہمارے اسلاف پر کتنے ہی انعام ہیں اور انسان احسان کا پروردہ ہے اور اس کی نیکیوں کے اعتراف کے باوجود میں نے اس کے متعلق ازراہِ مبالغہ کوئی بات بیان نہیں کی بلکہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے سب کا سب دیکھا بھالا ہے اور بسا اوقات میں نے اختصار کی خاطر اس کا کچھ حصہ حذف کردیا ہے.43
ان مذکورہ بالا علمائےاسلاف کی عبارات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان علماء نے اس بادشاہ کے محفل میلادمیں کیے جانے والے اعمال اور دیگر بھلائی کے افعال پر اس کی مدح سرائی کی ہے بالخصوص ابن خلکان نے تو واشگاف الفاظ میں اس کے محاسن کا اعتراف کیا ہے جس سے یہ سمجھنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری یا ابہام باقی نہیں رہتا کہ شاہ اربل ایک صالح بادشاہ تھا جو کہ خیر و بھلائی پر مشتمل کاموں کو سرانجام دینے والا تھا اور انہی کاموںمیں سے خیر پر مشتمل ایک کام اس کا سرکاری سطح پرمحفل میلاد النبی سجانا تھا جس میں عمائدین شہر کے ساتھ شہر بھر سے علماء و مشائخ و صوفیاء شریک محفل ہواکرتے تھے اور نبی مکرم کی آمد کی خوشی کے اظہار میں بادشاہ کے اس عمل میلاد میں شریک ہوا کرتے تھے جس سے اس بات کی توثیق ہوجاتی ہے کہ شاہ اربل فضول خرچی نہیں کرتا تھا بلکہ خیر و بھلائی کے کاموں میں اپنا مال و متاع صرف کیا کرتا تھا۔
شاہ اربل فضول خرچ نہیں تھا بلکہ معذور،نابینا، یتامی اورمساکین کے لیے اس نے چار مراکز قائم کیےجو معذور اور نابینا لوگوں سے بھرے ہوتے تھے جہاں ان کی دیکھ بھال انتظام و انصرام کیا گیا تھا۔ چنانچہ امام ابن سبط جوزی لکھتے ہیں:
وكان یركب كل یوم بكرة فیدخل الیھم یعقد الیتیمة والمسكینة على فخذ ویقول ایش تریدى تكسبین فمھما طلبت احضره واذا كبرت الیتیمة زوجھا واقام لكل واحد من الزمنا قائدا یخدمه.44
ہر روزبوقت صبح یتامیٰ ومساکین اور معذوروں کے پاس خود جاتا ،ہر یتیم ومسکین بچی کو گود میں اٹھاکر پیار کرتے ہوئے پوچھتا کیا کھاؤ گی؟ کیا پہنوگی؟ جو تم چاہو میں وہی پیش کروں گا۔ جب یتیم بچی جوان ہوجاتی تو اس کی شادی کا اہتمام کرتا اور ہر اپاہج کے لیے ایک ملازم ہوتا جو اس کی خدمت میں مصروف رہتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ شاہ اربل ایک رحمدل شخص ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ضروریات کا خیال کرنے والا اور ان کی حاجات کو پورا کرنے والا تھا۔
اسی طرح شاہ اربل کے صالح اور علم دوست ہونے پر یہ بھی گواہی موجود ہے کہ انہوں نے دو دا رالعلوم، مہمان خانہ اور بےسہاروں کے لیے کفالت خانہ بھی بنوائےچنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے امام ذہبی لکھتے ہیں:
وله مدرستان وأربع خوانك ودار الأرامل ودارالأیتام ودار اللقطاء ومارستان وغیر ذلك توفى فى رابع عشر رمضان.45
انہوں نے خدمت دین کے لیے دو مدارس قائم کیے، چار مہمان خانے، بیوگان اور یتامی کے لیے الگ الگ دار الکفالہ ،گمشدہ لاوارثوں اور بوڑھوں کے لیے مراکز وغیرہ بنائے۔شاہ اربل کا وصال چودہ رمضان میں ہوا۔
اسی طرح امام جلال الدین سیوطی اس کے دیگر صدقات کے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكان يستفك من الفرنج فى كل سنة أسارى بمائتى ألف دينار، وكان يصرف على الحرمين والمياه بدرب الحجاز فى كل سنة ثلاثين ألف دينار، هذا كله سوى صدقات السر.46
اور شاہِ اربل ہرسال فرنگیوں سے قیدیوں کو دو لاکھ دینار خرچ کرکے خریدکر آزاد کرتا تھا ۔اسی طرح حرمین شریفین اور اس کے راستوں میں فراہمیِ آب کے لیے تیس ہزار دینار سالانہ خرچ کرتا تھا۔یہ مذکورہ تمام صدقات پوشیدہ صدقات کے علاوہ تھے۔
آپ کی بے شمار دینی خدمات ہیں ،جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے فتح بیت المقدس میں بڑی شجاعت کا مظاہرہ کیا اور صلیبیوں کا سرتوڑ مقابلہ کیا۔ حضرت صلاح الدین ایوبی سے مل کر ان کو دندان شکن شکست سے دوچار کیا اور بیت المقدس کو آزاد کیا چنانچہ امام زکریا قزوینی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
كان ملكاً شجاعاً جواداً غازیاًله نكایات فى الفرنج یتحدث الناس بھا.47
شاہ اربل بہادر،سخی اور غازی حاکم تھے انہوں نے انگریزوں کا جو قلع قمع کیا لوگ انہیں بیان کرتےرہتے ہیں۔
اسی طرح امام ابن خلکان لکھتے ہیں:
شھد مظفر الدین مع صلاح الدین مواقف كثیرة وأبان فیھا عن نجدة وقوة نفس وعزیمة، وثبت فى مواضع لم یثبت فیھا غیرہ على ما تضمنته تواریخ العماد الأصبھانى وبھاء الدین بن شداد وغیرهما وشھرة ذلك تغنى عن الإطالة فیه، ولو لم یكن له إلا وقعة حطین لكفته.48
مظفر الدین، صلاح الدین کے ساتھ بہت سے معرکوں میں شامل ہوا اور ان میں بہادری او العزمی اور قوتِ نفس کا اظہار کیا اور کئی مقامات پر ثابت قدم رہا جن میں کوئی دوسرا ثابت قدم نہ رہا جیسا کہ العماد اصبہانی اور بہاؤ الدین شداد وغیرہ کی تواریخ میں بیان ہوا ہے۔ اس بات کی شہرت اس کو طول دینے سے کفایت کرتی ہے اور اگر صرف اس کا معرکہ حطین ہی کا ذکر ہوتا تو اسے کفایت کرجاتا.49
اسی طرح امام ابو شامہ مقدسی لکھتے ہیں:
وهى سنة كسرة حطین وفتح الساحل والأرض المقدسة للمسلمین.50
یہی وہ سال ہے جس میں مقام حطین میں کفار کی شکست، فتح ساحل اور مسلمانوں کے لیے بیت المقدس فتح ہوا۔
امام ابو شامہ مقدسی فرماتے ہیں کہ اگر اس دن کے علاوہ شاہ اربل کی کوئی اور فضیلت نہ بھی ہو توپھر بھی یہ سابقہ بادشاہوں سے منفرد اور آئیندہ حکمرانوں سے بلند اور عظمت والے ہیں۔پھر اس کے بعد مزید بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
أن هذه النوبة المباركة كانت للفتح القدسى مقدمة.51
یہ واقعہ مبارک، فتح بیت المقدس کی آزادی کا پیش خیمہ تھا۔
اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام صلاح الدین صفدی لکھتے ہیں:
وأضرم مظفر الدین النار فى الزرع وباتوا طول اللیل والمسلمون حولھم فلما طلع الفجر یوم السبت قاتلوا إلى الظھر وصعدوا إلى تل حطین والنار تضرم حولھم فھلكوا وتساقطوا من التل وكان القومص معھم فحمل وفتح له السلطان دربا فصعد إلى صفد وعملت سیوف المسلمین فى الفرنج قتلا وأسرا.52
مظفر الدین بن زین الدین (جو لشکر کے سربراہ تھے) نے گھاس میں آگ لگوادی اور رات کفار نے اس حال میں بسر کی کہ مسلمان ان کے ارد گرد تھے جو ہفتہ کے روز صبح طلوع ہوئی تو کفار سے ظہر تک جنگ ہوئی۔ کفار نے حطین پہاڑ کا سہارا لیا لیکن آگ نے ان کا گھیراؤ کرلیا ،وہ ہلاک ہوئے اور اس پہاڑ سے گرے،ان کا سربراہ قومص بھی ساتھ تھا۔سلطان نےحیلہ سے اس کےلیے راستہ کھول دیااوروہ قید کرلیاگیا۔ پھر فرنگیوں پہ مسلمانوں کی تلواریں چلیں اوروہ قتل و گرفتار ہوئے۔
ان تمام عبارات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ شاہ اربل ایک دیندار،صالح، رحمدل،مجاہد اور علماء وصلحاء سے محبت کرنے والا بادشاہ تھا نہ کہ فضولیات اور عیاشیوں میں رہنے والا حکمران کہ اس کی سرکاری سطح پر منائی جانے والی محفلِ میلاد النبی جس میں شہر و مضافاتِ شہر سے علماء ومشائخ و صلحاء شریک ہوتے تھے اس محفل کو فضول خرچی کا نام دے کر غلط و اسراف کہاجائے بلکہ یہ محفل میلاد ایک صالح و متقی گروہ کی زیرِ سرپرستی منعقد ہونے والی محفل تھی جس کو منعقد کرنے والا ایک دیندار ، مجاہداور رعایا کا خیال رکھنے والا بادشاہ تھا۔
ایسا بادشاہ جو اس دور میں بھی مغربی افواج سے برسر پیکار ہو اس پر کسی قسم کی بہتان درازی عالم ِاسلام کے مقابلہ میں عالم کفر اور صلیبیوں کی مدد ہے۔ایک باکردار مسلمان اس جیسے سچے فرزند اسلام پر الزام اور تہمت لگانےکا سوچ بھی نہیں سکتا چہ جائیکہ کوئی شخص باقاعدہ تاریخ مسخ کرکے سلطان مظفر الدین کو بدکردار اور بدعمل لکھے،یہ ایسا ہی ہے کہ اپنے کو مسلمان کہنے والا کوئی شخص سلطان صلاح الدین ایوبی کو نعوذ باللہ فاسق،فاجر اور بدکردار ثابت کرنے کی گھٹیا کوشش کرے۔ میلاد النبی اس کا ذاتی عمل نہیں تھا بلکہ قرآن، حدیث اورعملِ صحابہ واہل اسلام سے ثابت ہے۔بالفرض اگر وہ بادشاہ برا بھی ہوتاتو کیا گنہگار کا کوئی اچھاعمل قبول نہیں ہوتااور کیا اس کی نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں؟ جبکہ فرمان خداوندی ہے :
.اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا30 53
یقیناً ہم اس شخص کا اجر ضائع نہیں کرتے جو نیک عمل کرتا ہے۔
اگربالفرض وہ گنہگار بھی تھا تو اس عملِ میلاد کی وجہ سے اس کی بخشش ہوجائے گی کیونکہ نبی مکرم کی آمد پر خوشی کرنے سے تو ابولہب جیسے دشمن ِرسول پر بھی نرمی ہوسکتی ہے تو کوئی گناہگار مومن تو اس کرم و احسان کا زیادہ مستحق ہے جبکہ حقائق وشواہد اس کے برعکس ہیں ۔صاحب اربل ایک متقی،پرہیزگار اور صالح شخص تھے اورعلی سبیل التنزل اگر وہ بادشاہ غلط بھی تھا تو تب بھی رسول مکرم نےارشاد فرمایا:
إن اللّٰه لیؤید هذا الدین بالرجل الفاجر.54
بے شک اﷲ تعالیٰ اس دین کی مدد فاجر آدمی سے (بھی) فرمادیتاہے۔
پھر معترضین اس حدیث کو بھی پیشِ نظر رکھیں جس میں نبی مکرم نے ارشاد فرمایا:
من سن سنة خیر فاتبع علیھا فله أجره ومثل أجور من اتبعه غیر منقوص من أجورهم شیئا.55
جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی)اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو)اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے)جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا۔
یعنی اسلام میں جو شخص بھی اچھا طریقہ شروع کرے تو اس کو اپنا اور اس پر عمل کرنے والے کا بھی اجر ملے گااوریہاں کام شروع کرنے والے کے لیے متقی ہونا ضروری قرار نہیں دیا گیا جس سے واضح ہوا کہ اگر برا آدمی بھی کوئی اچھا عمل شروع کرتا ہے تب بھی اسے اس کا ثواب عنایت کیا جائےگا۔
شاہ اربل پر اعتراض کرنے والے ان کی بے داغ شخصیت پر یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ یہ حکمران ظالم تھا کیونکہ رعایا سے من مانی کرتے ہوئے مال وصول کرتا تھااور دلیل میں امام یاقوت حموی کی درج ذیل عبارت نقل کرتے ہیں جس میں امام یاقوت حموی نے اس بادشاہ کی چند نیکیوں پر مدح سرائی کرتے ہوئے اس کو ظالم وجابر کہاہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
وطباع هذا الأمیر مختلفة متضادة فإنه كثیر الظلم عسوف بالرعیة راغب فى أخذ الأموال من غیر وجھھا وهو مع ذلك مفضل على الفقراء كثیر الصدقات على الغرباء یسیّر الأموال الجمّة الوافرة یستفك بھا الأسارى من أیدى الكفار.56
اس حکمران کی طبیعت میں تضاد ہے یہ بہت زیادہ ظلم اور رعایا سے من مانی کرتے ہوئے مال غصب کرنے والا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ فقراء پر شفقت کرنے والا، مسافروں پر کثیر رقم خرچ کرنے والا اور کثیر اموال خرچ کرکے کفار سے مسلمان قیدیوں کو آزاد کروانے والا تھا۔
یعنی شیخ یاقوت حموی کے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بادشاہ اگرچہ کہ نیکیوں پر خرچ کرنے والا تھا لیکن تھا ظالم جو رعایاپر ظلم و ستم کر کے مال پر قبضہ کرتا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ در حقیقت یہ ظالم تھا ۔
شیخ یاقوت حموی نےتو خود بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ حکمران مساکین، یتامی اور مسافروں کی خوب خدمت کرتا اور مسلمان قیدیوں کی آزادی کے لیے کثیر رقم خرچ کرتا۔رہاان کا یہ کہنا کہ رعایا پر ظلم کرتا ہےدرج ِ ذیل وجوہ کی بناپر محلِّ نظر ہے:
اسی طرح اس بادشاہ کے کردار کے چشم دید گواہ شیخ ابو العباس ابن خلکان اس کے کردار کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
ولو استقصیت فى تعداد محاسنه لطال الكتاب، وفى شھرة معروفه غنیة عن الإطالة.59
اور اگر میں نے اس کے محاسن کا استقصاء کیا، تو کتاب طویل ہوجائے گی اور اس کی نیکیوں کی شہرت، طوالت سے بے نیاز کرنے والی ہے.60
اگر یہ ظالم حکمران ہوتے تو محدثین ان کے بارے میں ایسے کلمات نہ لکھتے جبکہ ان سب نے اور مؤرخوں نے اتفاقی طور پر اس بادشاہ کو دیندار،متقی،صالح اور باعظمت لکھا ہے اور کسی ایک نے بھی شیخ یاقوت حموی والی بات کا ذکر تک نہیں کیا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس بارے میں شیخ کو تسامح ہوا ہے کیونکہ شیخ سبطِ ابن جوزی نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بعض لوگوں نے ان عظیم المرتبت بادشاہ پر تہمتیں لگائی ہیں چنانچہ آپ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ومع هذه المناقب فما سَلِمَ من ألسنة الناس ويقولون: هذا يصادر ديوانه ودواوينه وكتابه، ويستأصلھم، ولعله اطلع منھم على خيانات، فرأى أخذ الأموال وإنفاقھا فى أبواب البر والقربات أولى، وذكروا أشياء أُخر، ومن ذا من ألسنة الناس يسلم، اللّٰھم غفرًا.61
میں کہتا ہوں ان تمام اوصاف و مناقب کے باوجود لوگوں کی زبانوں سے یہ بھی محفوظ نہیں رہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اپنے وزراء، دو اوین اور ملازمین سے ظلماً مال وصول کرتاتھا۔۔۔اس کے علاوہ اور بھی چیزیں لوگوں نے کہی ہیں مگر لوگوں کی زبانوں سے کون بچا ہے؟ اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے۔
اس عبارت میں شیخ سبط ابن جوزی نے حقیقی صورتحال کو واضح کردیا ہے کہ نیک نامی کی بنا پر حاسدین ایسی تہمتیں لگاتے رہتے ہیں اور لوگوں کی زبانوں سے کوئی بھی نہیں بچتا۔جس سے اس بات کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ یہ اور اس جیسی دیگر خبریں فقط افواہ اور تہمت کا درجہ رکھتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس حوالہ سے کچھ معروضات امام جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتاب میں تحریر کی ہیں چنانچہ وہ امام فاکہانی کو جواب دیتےہوئےتحریر فرماتے ہیں:
وقوله"بل هو بدعة أحدثھا الباطلون" إلى قوله"ولا العلماء المتدینون" یقال علیه: قد تقدم أنه أحدثه ملك عادل عالم وقصد به تقرب إلى اللّٰه تعالى وحضر عنده فیه العلماء والصلحاء من غیر نكیر.62
اور اس کا قول : بلکہ بدعت ہے جسے باطلوں نے ایجاد کیا ہے اس کے قول دیندار علمانے نہیں تک پر کہا جائے گا: بلاشبہ گزرچکا ہے کہ اس کو عادل و عالم بادشاہ نے حصول تقرب الہٰی کی غرض سے ایجاد کیا اور اس میں کسی کو انکار نہیں کہ اس کے حضور علما اور صالحین موجود رہے ۔ 63
ان تمام ابحاث سے معلوم ہوا کہ معترضین نے محض میلاد النبی کی مخالفت میں ایک نیک،صالح،عادل اورپرہیزگار بادشاہ پر انتہائی نا مناسب الزام لگائے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
شاہِ اربل عید میلاد النبی کی خوشی میں ہر سال محفل منعقد کرتا تھا جس میں وقت کے علماء ومشائخ، سرکاری ملازمین اور ہزاروں دیگر افراد شامل ہوا کرتے تھے۔پھر قرآن خوانی، نعت خوانی، درود شریف پڑھا جاتا، پھر آپ کی سیرت، معجزات اور میلاد کا بیان ہوتا ، لوگوں کو اطاعت رسول کی طرف راغب کیاجاتا،پھر حاضرین کو کھانا کھلایا جاتا تھا اور اس کے بعدانہیں انعامات سے نوازاجاتا تھا۔ان میں سے کوئی ایک کام بھی فضولیات کے زمرہ میں نہیں آتالہذا شاہ اربل کو عیاش اور مسرف سلطان کہنا صریح جھوٹ ،بدگمانی اور مردِ مومن پرالزام تراشی کے سوا کچھ نہیں۔
شاہ اربل علماء وصلاحاء سے محبت کرنے والا اور علم دوست بادشاہ تھا،ساتھ ہی رعایا کی خبر گیری کرنے والا اور محتاجوں کی ضروریات کو پورا کرنے والا بھی تھا لیکن ذاتی طور پر خود سادگی پسند تھا اور نمود نمایش سے اعراض کرنے والا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی قمیص کی قیمت پانچ (5)درہم سے بھی کم ہوتی تھی چنانچہ امام سیوطی اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
وحكت زوجته ربیعة خاتون بنت أیوب أخت الملك الناصر صلاح الدین أن قمیصه كان من كرباس غلیظ لا یساوى خمسة دراهم قالت: فعاتبته فى ذلك فقال: ألبس ثوباً بخمسة دراهم وأتصدّق بالباقى خیر من أن ألبس ثوباً مثمناً وأدع الفقیر والمسكین.64
شاہِ اربل کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب جو مشہور سلطان صلاح الدین ایوبی کی بہن تھی اس نے نقل کیا ہےکہ اس کی قمیص کھدر کے کپڑے کی ہوتی تھی جس کی مالیت پانچ(5) درہم کی بھی نہیں تھی۔ شاہِ اربل کی بیوی کہتی ہے کہ ایک بار میں نے اس بارے میں بادشاہ سے سخت باتیں کہیں تو وہ کہنے لگا میں پانچ(5) درہم کی قمیص پہنتاہوں اور بقیہ مال صدقہ کر دیتا ہو یہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں قیمتی لباس پہنوں اور فقراء ومساکین کو بے یار ومددگارچھوڑدوں۔
معلوم ہوا کہ شاہ اربل ایک درویش منش، خداترس اور فقیروں ومسکینوں سے محبت کرنے والے بادشاہ تھے۔
معترضین نے اس بادشاہ پر یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ محفل ِمیلاد النبی کو ایجاد کرنے والا یہ پہلا بادشاہ تھااور اس سے پہلے کسی نے ایسی محفل نہیں سجائی تھی۔معترضین کا یہ کہنادرست نہیں ہے کیونکہ میلاد النبی مختلف ممالک کے علاوہ شہر اربل میں بھی اس بادشاہ سے پہلے منایا جاتا تھاچنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے امام ابو شامہ مقدسی لکھتے ہیں:
وكان أول من فعل ذلك بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبه اقتدى فى ذلك صاحب إربل وغیره رحمھم اللّٰه تعالى.65
سب سے پہلے یہ عمل شہر موصل میں شیخ عمر بن محمد الملا نے کیا جو نہایت ہی مشہور صالح بزرگ تھے صاحب اربل اور دیگر لوگوں نے ان کی پیروی میں یہ عمل شروع کیا۔
اس عبارت میں امام ابوشامہ نے شاہ اربل کو محفل میلاد النبی ایجاد کرنے والا نہیں بلکہ پیروی کرنے والا بتایا ہے اور پیروی کرنے والوں میں بھی ان کے ساتھ کئی دوسرے مسلمان شریک ہیں جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ شاہ اربل سے قبل بھی یہ کارِ خیر سرانجام دیا جاتا تھاجس کو سرانجام دینے والے شیخ صوفی عمر بن محمد الملا تھے۔ان بزرگ شیخ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ انتہائی پرہیزگار اورنیک و صالح عالم تھےچنانچہ امام ابن سبط جوزی لکھتے ہیں:
وكان عمر المَلَّاء من الصالحين، وإنما سُمى المَلَّاء لأنَّه كان يملأ تنانير الآجُرّ، ويأخذ الأُجرة فيتقوَّت بھا، وكان ما عليه من الثِّياب مثل القميص والعِمامة ما يملك غيره وكان لا يملك من الدُّنيا شيئًاوكان عالمًا بفنون العلوم....وجمیع الملوك والعلماء والأعیان یزورونه (لأجل صلاحه) ویتبركون به وصنف كتاب سیرة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم....وكان یعمل مولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم كل سنة ویحضره عند صاحب الموصل والأكابر....كان السلطان نور الدین یحبه ویكاتبه.66
شیخ عمر ملّا صالح عالم ہیں الملاء کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اینٹوں سے تنور بھرتے اور اس پر اجرت و مزدوری حاصل کرکے گزارہ کرتے۔ صرف قمیض اور عمامہ کے مالک تھے اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہ ہوتا اور دنیا میں کسی شے کے مالک نہ تھے اور وہ کئی علوم وفنون کے ماہر تھے۔۔۔ تمام حکمران،اہل علم اور کبار لوگ ان کی زیارت کرتے اور ان سے تبرک حاصل کرتے۔ انہوں نے سیرت نبوی پر ایک کتاب بھی لکھی۔۔۔یہ ہر سال حضور کا میلاد مناتے اور اس میں موصل کا سربراہ اور دیگر اکابرین شریک ہوتے۔۔۔اورسلطان نورالدین (زنگی )ان سے محبت کرتے اور ان سے خط وکتابت رکھتےتھے۔
اسی طرح سلطان نور الدین زنگی نے شیخ موصوف کے حوالہ سے اپنے امراء کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ جو بھی یہ کہیں تو ان کی بات کو مانا جائے اور اس پر عمل در آمد کیاجائے چنانچہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئےامام ابن کثیر لکھتے ہیں:
فما أمرهم به من شیء امتثلوه وكان من الصالحین الزاهدین وكان نور الدین یستقرض منه فى كل شھر رمضان ما یفطر علیه وكان یرسل إلیه بفتیت ورقاق فیفطر علیه جمیع رمضان.67
اس نے انہیں جو بھی حکم دیا وہ بجالائے اور یہ نہایت ہی صالح اور زاہد بزرگ تھے۔ سلطان نور الدین ان سے افطاری کے لیے اشیاء مانگا کرتا تو یہ اس کی طرف کچھ خوراک اور روٹی کے ٹکڑے بھیجتے جن سے تمام رمضان کے دوران وہ افطار کیا کرتا تھا۔
یعنی محفل میلاد النبی کو شہر اربل میں شاہ اربل نہیں بلکہ اس سے پہلے شیخ صوفی عمر نے منعقد کیا جو کہ ایک صالح، عالم اور پرہیزگار صوفی تھے جن کی پیروی کرتے ہوئے شاہ اربل نے محفل میلاد النبی کو سرکاری سطح پر منعقد کیا تھا ۔اس کی ایجاد نہیں کی تھی جیساکہ معترضین کاگمان ہے کیونکہ مسلمانان عالم تو مختلف بلاد وامصار میں اس محفل میلاد کو منعقد کرتے رہتے تھےچنانچہ امام قسطلانی اس حوالہ سے بیا ن کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولا زال أهل السلام یحتفلون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم.68
آپ کے میلاد کے مہینہ میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفل میلاد منعقد کرتے رہے ہیں۔
اسی حوالہ سے امام سخاوی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
لا زال أهل الإسلام فى سائر الأقطار والمدن الكبار یحتفلون فى شھر مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم.69
مسلمان ہمیشہ سے تمام علاقوں اور بڑے بڑے شہروں میں آپ کی ولادت مبارکہ کے مہینہ میں محفلیں سجا رہے ہیں۔
اسی طرح حرمین شریفین اور مختلف ممالک اسلامیہ کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے امام ابن جوزی لکھتے ہیں کہ یہ عملِ حسن ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ ومدینہ ،مصر،یمن،شام،تمام بلاد عرب اور مشرق ومغرب میں ہر جگہ رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے۔ 70 اسی حوالہ سے ملا علی قاری اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
وأما ملوك الأندلس والغرب فلھم فیه لیلة تسیر بھا الركبان یجتمع فیھا أئمة العلماء الأعلام فمن یلیھم من كل مكان وعلوا بین أهل الكفر كلمة الایمان، وأظن أهل الروم لا یتخلفون عن ذلك، اقتفاء بغیرهم من الملوك فیما هنالك.71
اندلس اور مغرب کے بادشاہ اس رات کو شاہسواروں کے ساتھ محفل میلاد النبی میں شامل ہوتے، اس محفل میں بڑے بڑے علماء، ائمہ اور ان کے ساتھی ہر جگہ سے جمع ہوتے اور کافروں کے درمیان کلمہ ایمان بلند کرتے ہیں۔ میرے خیال میں رومی بھی اس سے پیچھے نہیں رہتے تھے اور باقی بادشاہوں کے ساتھ قدم بقدم چلتے تھے۔
اس کے علاوہ شیخ احمد مقری نے بھی ابو سعید ملک مظفر باشاہ کی طرح تلمسان کےایک اور بادشاہ کا ذکر کیا ہے جومذکورہ طرز پر مولود النبی کی محفل منعقد کیاکرتا تھا چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں:
وكان السلطان أبو حمو يقوم بحق ليلة مولد المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم ويحتفل لھا بما هوفوق سائر المواسم، يقيم مدعاة يحشر لھا لأشراف والسوقة،....وما من ليلة مولد مرت فى أيامه إلا ونظم فيھا قصيداً فى مديح مولد المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلمأول ما يبتدى المسمع فى ذلك الحفل العظيم بإنشاده.72
سلطان ابو حمو شب میلاد النبی کے شایان شان محفل منعقد کرتا تھا اور اس کے لیے ایسی مجلس سجاتاتھا جو سال بھر کی تمام مجالس سے بڑھ کرہوتی تھی۔جس میں تمام عمائدین اور رعایا کو مدعو کیا کرتا تھا۔۔۔اور جتنی بھی شب میلاد اس کی بادشاہت میں گزری ان سب میں وہ رسول اللہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا کرتا تھا جس کو ترنم سے پڑھ کر اس محفل ذی شان کا آغاز کیا جاتا تھا۔
ان تمام مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوجاتاہے کہ مسلمانان عالم ہمیشہ سےمختلف بلاد وامصار میں اپنی ثقافت و تہذیب کے حوالہ سے شرعی دائرہ کار میں رہتے ہوئے محفل میلاد النبی مناتے آرہے ہیں اور اس کو ایجاد کرنے والا شاہ اربل نہیں ہے بلکہ وہ تو شیخ صوفی عمر کی پیروی کرنے والا ہے.73
اس مقام پر ایک اہم مغالطہ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ شاہ اربل نے اگرچہ کہ میلاد کی محفل ایجاد نہیں کی تھی لیکن حکومتی سطح پر سب سےپہلے اس محفل میلاد کو سجانےکاسہرا انہی کے سر ہے۔اور ان سےپہلے کسی نے بھی اس محفل کو سرکاری سطح پر نہیں منایا۔اس مغالطہ کا سبب امام جلال الدین سیوطی کی درج ذیل عبارت ہے جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
وأول من أحدث فعل ذلك صاحب إربل الملك المظفر أبو سعید كوكبرى بن زید الدین على ابن بكتكین أحد الملوك الأمجاد والكبراء الأجواد.74
اس فعل میلاد کا سب سے پہلے ایجاد کرنے والاصاحب اربل، بادشاہ مظفر ابوسعید کوکبری بن زین الدین علی ابن بکتکین ہےجو معزز ترین ، بڑےبادشاہوں اورکافی سخی افراد میں سے ایک ہے۔
اس مذکورہ بالا عبارت سے یہ مغالطہ پیدا ہوا ہے کہ شاہ اربل نے سب سے پہلے سرکاری سطح پر محفل میلاد النبی سجائی ہے جبکہ اس بادشاہ سے پہلے بھی سرکاری سطح پر میلاد منانا ثابت ہے ۔
سب سے پہلے سرکاری محفلِ میلاد کا انعقاد دور فاطمی میں ہوا تھا چنانچہ ڈاکٹر علی الجندی مختلف سلاطین کے دورمیں ہونے والی مبارک تقریباتِ میلاد کے حوالہ سے تفصیلی کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ امام سیوطی کےبقول سب سے پہلے جشن میلادالنبی شاہِ اربل ابو سعید بن زین الدین علی نے منایالیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس تقریبِ سعید کا آغاز فاطمی دور سے ہوچکا تھا۔فاطمی حکومت کے بعد ایوبیہ دورِ حکومت آیا تو سرکاری سطح پر تمام تقریبات کا اہتمام ختم کردیا گیالہٰذا یہ تقریب چھوڑ دی گئی لیکن مصری عوام نے اسے اپنے طور پر جاری رکھا کیونکہ یہ بات ناممکن ہے کہ مصری دین دار حضرات اپنے آقا کی یاد میں محافل میلاد کا انعقاد نہ کرتے۔ ایوبیہ حکومت کی عدم توجہ کے باوجودموصل کے حکمرانوں میں سے ایک اربل کے حکمران مظفر الدین نے میلادالنبی کے جشن کا اہتمام کیااور نہایت اچھے طریقے سے اسے منایا۔75
ڈاکٹر علی الجندی کی اس عبارت سے واضح ہوا کہ امام جلال الدین سیوطی کی عبارت مغالطہ کی اصل وجہ بنی کیونکہ امام جلال الدین سیوطی نے بغیر وضاحت کیے یہ لکھا کہ سب سےپہلے اس کو سرانجام دینے والا شاہ اربل ہے حالانکہ بات یہ ہے کہ فاطمی حکومت کے بعد ایوبی دور حکومت میں سرکاری سطح پر صلیبیوں سے بر سر پیکار رہنے کی بنا پر تقریب ِمیلاد سرکاری سطح پر منانا ختم کردیا گیا تھا لیکن شاہ اربل نے دوبارہ سے اس کومنانا شروع کیا۔
شیخ محمد جزری نے اپنی کتاب"الکامل"میں سن 484ھ کے تحت باقاعدہ اس سلطان کا ذکر بھی کیا ہے جنہوں نے محفل میلاد کاشاندار آغاز کیا تھا ،چنانچہ اس حوالہ سےوضاحت کرتے ہوئے وہ تحریر فرماتےہیں:
فى هذه السنة فى شھر رمضان وصل السلطان إلى بغداد وھى المرة الثانية ونزل بدار المملكة ونزل أصحابه متفرقين ووصل إليه أخوه تاج الدولة تتش وقسيم الدولة آقسنقرصاحب حلب وغيرهما من زعماء الأطراف وعمل الميلاد ببغداد وتأنقوا فى عمله فذكر الناس أنھم لم يروا ببغداذ مثله أبدا.76
اس سال یعنی 484ھ کے رمضان کے مہینہ میں سلطان(ملک شاہ سلجوقی)دوسری دفعہ بغداد آئے اور دار الحکومت میں ٹہرے جبکہ ان کے رفقاء دوسرے مختلف مقامات پر ٹھہرے۔ان کے پاس ان کے بھائی تاج الدولہ تتش، حلب کے امیر قسیم الدولہ آقسنقر اور دیگر آس پاس کے معززین پہنچے۔انہوں نےبغداد میں میلاد النبی کا عمل سرانجام دیا اور ان کے اس عملِ میلاد سے لوگ بہت محظوظ ہوئے اور پھر لوگوں میں یہ چرچا ہوگیا ہے کہ انہوں نے بغداد میں اس جیسی شاندار محفل کبھی نہیں دیکھی۔
یعنی سب سےپہلے سرکاری سطح پر پُرتپاک اور شاندار طریقہ سے میلاد النبی منانے والا بادشاہ سلطان ملک شاہ سلجوقی ہے جنہوں نے انتہائی اعلی حکومتی طرز پر بغدا د میں دھوم دھام سے محفلِ میلاد منعقد کی تھی جس کے چرچے لوگوں میں ایک زمانے تک رہے لیکن فاطمی دور کے بعد ایوبی دور حکومت میں صلیبیوں سے جہاد کی وجہ سے یہ تقریب ختم ہوگئی تھی جس کو بعد میں شاہ اربل نے دوبارہ منعقد کیا تھا تو ممکن ہے کہ اسی بنا پر امام جلال الدین سیوطی نے اپنامذکورہ بالا مؤقف ذکر کیا ہو۔77 بہر حال سب سے پہلے سلطان ملک شاہ نے اس محفل کا سرکاری سطح پر آغاز کیا جس کے ختم ہونے کے بعدشاہ اربل نے اور پھر اس کے بعد اس محفلِ میلاد کو سرکاری سطح پر منانا عام ہوگیا جیساکہ شیخ احمد مقری نے سلطان ابو حمو کے حوالہ سے بیان کیا کہ وہ بھی سرکاری سطح پر اس محفل کا انعقاد کیا کرتے تھے.78
شاہ اربل کے بعد سرکاری سطح پر دیگر سلاطین اسلام نےمحفلِ میلاد دوبارہ منانا شروع کردیا چنانچہ ڈاکٹر علی الجندی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ مغربِ بعید میں سلطان شیخ ابوالعباس احمد المضور الغرفی جو صاحبِ سبتہ کہلاتے تھے جنھوں نے دسویں(10) صدی ہجری کے آخر میں زمامِ حکومت سنبھالی ۔ انھوں نے اس بہترین عمل کو رواج دیااور حکومت کی سرپرستی میں جوش و خروش سے جشن میلاد النبی منایا۔آل زیان کے حکمران نہایت عمدہ طریقے پر اس محفل کا اہتمام کرتے تھے۔ بالخصوص ان میں سے ایک حکمران ابو حمو موسیٰ بن یوسف زیانی نے تو اس سلسلے میں تمام حکمرانوں سے سبقت حاصل کرلی ۔ یہ بادشاہ بارہ(12) ربیع الاوّل کی رات کو ایک عظیم الشان عمومی اجتماع منعقد کرتا تھا(12)جس میں دعوتِ عام ہوتی اور امیر و غریب، غنی و فقیر، شاہ و گدا سب جمع ہوتے تھے .79
اس مقام پر اگر کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو کہ شاہ ملک سلجوقی کیسا حکمران تھا تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ حکمران بھی شاہ اربل کی طرح نہایت صالح اور عادل حکمران تھا۔ ان کا لقب جلال الدولہ ہے اور یہ کافی زیادہ وسیع مملکت کے سلطان تھےچنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے امام ابن خلکان لکھتے ہیں:
وملك ما لم یملكه أحد من ملوك الإسلام بعد الخلفاء المتقدمین فكان فى مملكته جمیع بلاد ما وراء النھر وبلاد الھیاطلة وباب الأبواب والروم ودیار بكر والجزیرة والشام وخطب له على جمیع منابر الإسلام سوى بلاد المغرب، فإنه ملك من كاشغر وهى مدینة فى أٌقصى بلاد الترك إلى بیت المقدس طولاً، ومن القسطنطینیة إلى بلاد الخزر وبحر الھند عرضاً، وكان قد قدر لمالكه ملك الدنیا.80
خلفائے متقدمین کے بعد شاہان اسلام میں سے کوئی ایک بھی اتنے علاقے کا مالک نہیں ہوا جتنے کا یہ مالک ہوا ۔اس کی مملکت میں ماوراء النہر کے تمام شہر، بلاد ھیاطلہ،باب الابواب، روم، دیاربکر، جزیرہ اور شام شامل تھے اور بلاد مغرب کے سوا اس کے تمام منابر پر اس کا خطبہ دیا گیا اور یہ کاشغر (جو ترک علاقے کا ایک بعید شہر ہے) اس سے بیت المقدس تک طولاً اور قسطنطنیہ سے بلاد خزر اور بحر ہند تک عرضاً بادشاہ بنا اور اس کے زیرنگیں علاقے کو تقریباً دنیا کی حکومت کے برابر کہاجاسکتاہے.81
اس بادشاہ کے حسن کردار کے بارے میں امام ذہبی یوں لکھتے ہیں:
وكان حسن السیرة.82
اور ان کا کردار نہایت اعلیٰ تھا۔
اسی طرح اس حوالہ سے امام عماد الدین مؤیدبیان کرتے ہوئےیوں تحریر فرماتےہیں:
وكان من أحسن الناس صورة ومعنى... وكانت أیامه أیام عدل وسكون وأمن.83
یہ ظاہر وباطن میں نہایت ہی اعلیٰ انسان تھے ۔۔۔اور ان کا دور عدل،سکون اور امن کا دور تھا۔
اسی طرح شمس الدین الذہبی اس بادشاہ کے عمدہ کردار اور عدل و انصاف کے بارے میں بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وكان من أحسن الملوك سیرة حتى كان یلقب بالسلطان العادل.84
اور یہ سیرت کے لحاظ سے بہت اچھا بادشاہ تھا حتیٰ کہ اسے سلطان عادل کا لقب دیا گیا۔
ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ سلطان ملک شاہ سلجوق جس نے محفل میلاد النبی سرکاری سطح پر منانا شروع کی تھی وہ نہایت صالح اور عادل حکمران تھا۔پھر جب دور فاطمی کےبعد دور ایوبی میں یہ تقریب جہاد کی وجہ سے معطل ہوگئی تو ایک بار پھر شاہ اربل نے اس کو اعلی حکومتی طرز پر منعقد کیا جس کے بعد اس کا رواج عام ہوگیا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شاہ اربل ایک صالح اور متقی،سادہ مزاج،علم ، علماءو صلحاءسے محبت رکھنے والا ،عوام الناس کی ضروریات کا خیال کرنےوالا اور رعایا پر انتہائی شفقت کرنے والا تھا۔اس پر لگائے گئے الزمات بہتان کے سوا کچھ نہیں ہیں۔اس کے علاوہ محفل میلاد النبی کی ابتداء شاہ اربل نے نہیں بلکہ سلجوقی بادشاہ نے کی ہے اور وہ بھی انتہائی صالح اور عادل حکمران تھا لہذا یہ کہنا کہ یہ محفلِ میلاد النبی ایک مسرف وظالم بادشاہ کی ایجاد ہے قطعی طور پرتاریخی حقائق کا انکار ہے جس کا تاریخی طور پر ثابت شدہ حقائق سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر بالفرض ایسا ہوتا بھی تو اس عمل پر کوئی طعن نہیں ہوسکتاتھا کیونکہ شریعت میں جائز و ناجائز کا مدار کسی بادشاہ کے شروع کرنے یا نہ کرنے پر نہیں بلکہ شرعی دلائل پر ہے اور یہ واضح کیاجا چکا ہے کہ ذکر میلاد، جشن میلاد النبی پر شکر اور اس پرخوشی و مسرت کا اظہار کرنا نہ صرف جائز بلکہ قرآن وسنت سے ثابت ہے۔