بعض لوگ ربیع الاوّل کے مبارک مہینے میں بارہ ( 12) ربیع الاوّل کے دن خوشیاں منانے والوں پر ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں جس کو بالفاظ دیگر امام سیوطی نے امام فاکہانی کے حوالہ سے بھی نقل کیا ہے کہ ماہِ ربیع الاوّل اگر حضورنبی کریم ﷺکی ولادت کا مہینہ ہے تو یہ آپ ﷺکے وصال کا بھی مہینہ ہے لہٰذااس میں خوشی کرنا غمگین ہونے سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ 1 یعنی جب نبی کریم ﷺ کی ولادت پاک اور وصال مبارک ایک ہی دن اور ایک ہی ماہ میں ہوئے ہیں تو ولادت باسعادت کی خوشی منانے کی بجائے ان کے وصال فرماجانے کے غم میں سوگ منانا چاہیے۔ جن مؤرخوں نے بارہ ( 12)ربیع الاوّل کو یوم ولادت لکھا ہے، اگر ان کی بات تسلیم کربھی لی جائے پھر بھی بارہ ( 12)ربیع الاوّل میں خوشیاں نہیں منائی جاسکتیں، محفلیں منعقد نہیں کی جاسکتیں، اس کو خوشی کا دن نہیں شمار کیا جاسکتاکیوں کہ اکثر محققین بلکہ جمہور کی رائے بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ کا بارہ ( 12) ربیع الاوّل کو وصال ہوا تھا اور اس دن صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رورو کر بے ہوش ہورہے تھے، پورا مدینہ سوگ اور غم کا اظہار کررہا تھا، لوگ اپنے آپ سے بے خبر ہوگئے تھے،مدینہ میں قیامت صغریٰ بپا تھی ،اس لیے یہ غم کا مہینہ اور بالخصوص ربیع الاوّل کی بارہ ( 12)تاریخ غم کا دن ہے، اس لیے اس دن خوشی نہیں منانی چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺکی تاریخِ ولادت کے حوالے سے محققین میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے کہ حضور اکرم ﷺکی تاریخِ ولادت بارہ ( 12) ربیع الاوّل ہے ہی نہیں بلکہ یوم ِغم اور یومِ وصال ہے اور اس لیے اس دن خوشی منانا درست نہیں ہے۔
حضور اکرم ﷺکی تاریخ ولادت میں اگرچہ کہ محققین کا اختلاف ہے مگر جس تاریخ پر جمہور علماء متفق ہیں وہ تاریخ بارہ ( 12) ربیع الاوّل ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تمام امت مسلمہ کے نزدیک تاریخِ ولادت بارہ ( 12) ربیع الاوّل ہے۔
یہاں چند حوالہ پیش کیےجارہے ہیں جس سے اندازہ ہوجائےگا کہ تاریخ ولادت بارہ ( 12) ربیع الاوّل ہے چنانچہ صحابی رسول حضرت جابر بن عبداﷲ اور حضرت ابن عباس رسول مکرمﷺ کی تاریخ ولادت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانى عشر من ربیع الأول.2
رسول کریم ﷺ کی ولادت مبارکہ عام الفیل پیر کے دن بارہ ( 12) ربیع الاوّل کو ہوئی۔
اولین سیرت نگار حضرت محمد بن اسحاق تحریرفرماتے ہیں:
ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین، لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الأول.3
رسول ا ﷲ ﷺکی ولادت پیر کے روز ربیع الاوّل کی بارہ ( 12) راتیں گزرنےپرہوئی۔
امام صالحی شامی لکھتے ہیں:
وعلیه العمل.4
اور اس(بارہ ( 12) ربیع الاول) پر عمل ہے۔
امام زرقانی لکھتے ہیں:
قال ابن كثیر: وهو المشھور عند الجمھور.5
ابن کثیر کہتے ہیں: جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے۔
مفتی محمد شفیع نے بھی اسی قول کو نقل کیا ہے چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ مشہور قول بارہویں ( 12) تاریخ کا ہےیہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کردیا اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے۔ 6
ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم ﷺکی ولادت ِ مبارکہ بارہ ( 12) ربیع الاوّل ہی ہے اور اس سے یہ اعتراض بھی رفع ہوجاتا ہے کہ تاریخ ولادت میں محققین کا زبردست اختلاف ہے کیونکہ یہ اختلاف قلیل ائمہ کا ہے اور وہ بھی جمہور کے برعکس ہونے کی بنا پر ناقابل قبول ہے۔
رہی بات نبی مکرم ﷺکے وصال مبارک کی وجہ سے بارہ ( 12) ربیع الاوّل کے دن صحابہ کرام کے غم کی تو حضور ﷺکی وفات مبارکہ پر صحابہ کرام کی حالت غیر، آہ وبکا، شدت سے گریہ وزاری کے ساتھ رونا وغیرہ تو ان تمام چیزوں کے وقوع کی وجہ صرف یہ تھی کہ جب صحابہ کرام کو اچانک آپ ﷺکے وصال کی خبر ملی تو وہ اس کی چوٹ برداشت نہ کرسکے اور ظاہری جدائی اور سرِعام زیارت کے فقدان کے اس عظیم حادثے نے دل پر سخت اثر کیا۔ صحابہ کرام کے ہوش اُڑگئے،وہ حواس کھو بیٹھے اور شدیدی گریہ وزاری کے ساتھ رونے لگےیہاں تک کہ کسی پر سکتے اور بے ہوشی کا عالم تک طاری ہوگیا۔ حضرت فاروق اعظم پراس حادثے کی اتنی زبردست چوٹ لگی کہ آپ نے ننگی تلوار ہاتھ میں تھام لی اور تلوار لہرا لہرا کے کہنے لگے جس نے کہا کہ حضور ﷺوفات پاگئے ہیں میں اس کا سرقلم کردوں گالہذاخبردار یہ لفظ منہ سے نہ نکالنا کیونکہ حضور ﷺکو موت نہیں آسکتی۔الغرض یہ اوراس طرح کے دوسرے واقعات اس شدت غم میں نڈھال ہونے کی وجہ سے رونما ہوئے تھےجن پر شرعی طور پرکسی قسم کاکوئی مواخذہ بھی نہیں ہےکیونکہ حضرت علی نے حضرت عمر سے فرمایا:
أن القلم رفع عن ثلاثة: عن المجنون حتى یفیق، وعن الصبى حتى یدرك، وعن النائم حتى یستیقظ .7
تین آدمی شرعی حکم سے خارج (معذور) ہیں ایک وہ جس کی عقل پر غلبہ ہوگیا یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہوجائے، دوسرا بچہ یہاں تک کہ بالغ ہوجائےاور تیسرا سویاآدمی یہاں تک کہ بیدار ہو۔
اور صحابہ کرام کا یہ غیر اختیاری عمل امت کے لیے پیروی کے لائق نہیں کیونکہ اس واقعہ کے بعد کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے وفات کا غم یا سوگ منایا البتہ وقتی طور پر اظہارِ افسوس یا آنکھوں سے آنسوؤں کا نکل آنا ایک طبعی امر اور فطری چیز ہے جس کی پیروی نہیں کی جاتی۔
اسی طرح رسول مکرم ﷺنے بھی اپنے بیٹے حضرت ابراہیم کی وفات کے وقت اور بعد میں بھی غم یا سوگ نہیں منایابلکہ آپ ﷺکی مبارک آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل پڑےتھےجن کو دیکھ کر صحابہ کرامنے عرض کیا، حضور! یہ کیاہے؟تو آپ ﷺنےارشاد فرمایا یہ رحمت وشفقت ہے جوا ﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ڈالی ہے اور پھر آپ ﷺنے فرمایا:
وإنا بفراقك یا إبراهیم لمحزونون.8
اے ابراہیم! ہم تیری جدائی کی وجہ سے غمگین ہیں۔
لیکن کسی کتاب میں یہ موجود نہیں کہ حضور ﷺنے اپنے صاحبزادے کی وفات پر ہر سال اسی دن و تاریخ میں دُکھ ، غم یا سوگ منایا ہو ،یا صحابہ کرام نے حضور ﷺکی تاریخِ وفات کو سال بسال منایا اور اس پر غم یا سوگ کا اظہار کیا ہو۔صحابہ کرام کے اس عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وفات کا غم یا سوگ منانا اسلام میں مشروع نہیں ہے البتہ غم میں نڈھال ہونا یہ غیر اختیاری کیفیت ہے جو مرفوع القلم ہے کیونکہ یہ ایک فطری اور بدیہی امر ہے کہ انسان ہر قسم کے نقصان پر رنجیدہ ہوجاتاہے اور اگر نقصان کسی قریبی عزیز یا دوست کا ہو تو غم سے اس کی ظاہری و باطنی کیفیت بالکل بدل جاتی ہے۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اپنے نبی ﷺکے وصال کے دن یعنی بارہ ( 12) ربیع الاوّل کو جشن منایا جائے اور سرور و شادمانی کا مظاہرہ کیا جائے؟تو اس اعتراض کے جوا ب میں اولاً یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بارہ ( 12) ربیع الاوّل حضور ﷺکی متفق علیہ تاریخِ وصال نہیں ہے بلکہ علماء کے نزدیک تاریخ وصال میں اختلاف بھی موجود ہے اورتاریخ وصال کے بارے میں یکم(1) ربیع الاوّل اوردو (2)ربیع الاوّل کے اقوال بھی ملتے ہیں چنانچہ امام طبری لکھتے ہیں:
حدثنا الصقعب بن زهیر، عن فقھاء أهل الحجاز، قالوا: قبض رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم نصف النھار یوم الاثنین، للیلتین مضتا من شھر ربیع الأول. 9
ہمیں صقعب بن زبیر نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے کہا فقہاء اہل حجاز کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺکا وصال شریف پیر کے دن دو (2)ربیع الاوّل کو بارہ(12)بجے کے قریب ہوا۔
اسی طرح امام محمد بن قیس لکھتے ہیں:
توفى یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول.10
نبی کریم ﷺکا وصال شریف پیر کے دن دو(2) ربیع الاوّل کو ہوا۔
اسی قول کوامام سلیمان تیمی نےبھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے 11 جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کہنا کہ بارہ ( 12) ربیع الاوّل متفق علیہ تاریخِ وصال ہے غلط ہے اگرچہ کہ مشہور ومتعارف جمہور کا قول یہی ہے کہ تاریخِ وصال بارہ ( 12) ربیع الاوّل ہی ہے لیکن پھر بھی اس سے یہ قطعا ًلازم نہیں ہوتا کہ اس روز غم یا سوگ منانا چاہیے۔
پھربالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضور ﷺکا یوم وفات بارہ ( 12) ربیع الاوّل ہے تو پھر بھی خوشی منانے کی شریعت میں کوئی ممانعت اور رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک پیدائش کی خوشی سالہا سال منائی جاسکتی ہے جیساکہ نبی مکرم ﷺنے اپنی ولادت کے دن زندگی بھر روزہ رکھا 12 اور اسی طرح مدینہ منورہ پہنچنے کےبعد اپنا عقیقہ فرمایا13 جبکہ آپ ﷺکا عقیقہ حضرت عبد المطلب نے کردیا تھا۔ 14 اسلام میں خوشی کے برعکس وفات کا غم صرف تین دن تک کرنے کاحکم ہے اور صرف وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے اس کے لیے سوگ کی اجازت(4) چار ماہ اور دس(10) دن ہےجبکہ وصال مبارک کے متعلق حزن کی وضاحت خود حضور نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے چنانچہ امام ترمذی روایت کرتے ہیں:
قالت زینب: فدخلت على زینب بنت جحش حین توفى أخوها، فدعت بطیب، فمست منه، ثم قالت: واللّٰه ما لى فى الطیب من حاجة، غیر أنى سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یقول: لا یحل لامرأة تؤمن باللّٰه والیوم الآخر أن تحد على میت فوق ثلاث لیال، إلا على زوج أربعة أشھر وعشرا.15
حضرت زینب کہتی ہیں: میں زینب بنت جحش کے پاس آئی جس وقت ان کے بھائی کا انتقال ہوا تو انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے(عطر) لگایا پھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ہے: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے شوہر کے، وہ اس پر چار(4) ماہ دس(10) دن سوگ کرے گی۔
نیز جماعتِ محدثین اسانید صحیحہ ومعتبرہ کے ساتھ جماعت صحابہ کے حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداﷲ بن عمر ،امہات المؤمنین عائشہ صدیقہ، ام سلمہ، زینب بنت حجش، ام حبیبہ، حفصہ، نیز ام عطیہ الانصاریہ، فریعہ بنت مالک بن سنان اخت ابو سعید خدری سے مرفوعاً بالفاظ مختلفہ ایک ہی مضمون روایت فرماتے ہیں:
نھینا أن نحد أكثر من ثلاث إلا بزوج.16
خاوند کےعلاوہ(کسی میت) پرتین روز سےزیادہ سوگ منانےسے ہمیں منع کیا گیاہے۔
اب اگر بارہ ( 12) ربیع الاوّل کو سوگ منائیں کہ حضور ﷺکے وصال کا دن ہے تو فرمانِ خدا اور فرمانِ رسول ا ﷲ ﷺکے خلاف ورزی ہوگی کیونکہ ولادت کی خوشی نہ مناکر اﷲ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ کا شکر ادا نہ کیا اور سوگ مناکر حدیث رسول ﷺکی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔اس روایت سے مذکورہ بالا سوگ کے متعلق اسلامی حکم سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بارہ ( 12) ربیع الاوّل اگرچہ کہ وصال مبارک کا دن ہے لیکن سوگ منانا شرعاً جائز نہیں ہے البتہ نعمتِ خداوندی کے شکرانہ کے طور پر خوشی کا اظہار کرنا ممدوح ہے جیساکہ نبی مکرمﷺ نے روزہ رکھ کر 17 اور اپنا دوبارہ عقیقہ فرماکر18 اپنی ولادت پر خوشی کااظہار کیااور اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ 19
بارہ ربیع الاوّل یومِ وصال ہونے کےساتھ ساتھ امت کے لیے خیر ورحمت الہٰی کا ذریعہ ہے لہذا اس یومِ وصال پر کسی بھی طرح سے غم وسوگ کا اظہار کرنا روا نہیں ہے چنانچہ اس حوالہ سے حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
حیاتى خیر لكم تحدثون ویحدث لكم فإذا أنا مت كانت وفاتى خیرا لكم تعرض على أعمالكم.20
میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے (کہ) تم باتیں کرتے ہو اور تمہارے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے۔ پس اگرمیں فوت ہوجاؤں تو میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور حدیثِ مبارکہ میں اسی حوالہ سے مزید ارشاد فرمایا:
إن اللّٰه عز وجل إذا أراد رحمة أمة من عباده، قبض نبیھا قبلھا، فجعله لھا فرطا وسلفا.21
جب اﷲ تعالیٰ کسی اُمت پر رحمت کا ارادہ کرتا ہے تو (ان کے) نبی کو اُمت سے پہلے وفات دیکر امت کے لیے بخشش اور شفاعت کا سامان کردیتا ہے۔
اس حدیث پاک میں نبی کریم ﷺنے اپنے وصال کو نہ صرف رحمت قرار دیا ہے بلکہ اپنے ظاہری وصال کو امت کی شفاعت کا ذریعہ بھی قرار دیا ہے پس حضور نبی کریم ﷺکی ولادت پاک اور وصال مبارک دونوں مسلمانوں کے لیے رحمت ہیں جس پر سوگ وغم کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اسی طرح نبی مکرم ﷺکا یوم وصال امت کے لیے خیر کا دن بھی ہے چنانچہ حضرت اوس بن ابی اوس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:
من أفضل أیامكم یوم الجمعة، فیه خلق آدم، وفیه قبض.22
جمعہ کا دن تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی۔
ایک روایت میں یوں ارشاد منقو ل ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:
یا معشر المسلمین إن هذا یوم جعله اللّٰه عیدا.23
اے گروہ مسلمین! بے شک اﷲ تعالیٰ نے اس دن کو عید بنادیا ہے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن بیک وقت حضرت آدم کی ولادت ووفات کا دن ہے لیکن اس کے باوجود اﷲ تعالیٰ نے وفات کے غم کو ترک کرتے ہوئے میلاد النبی کی خوشی کو باقی رکھا ہے اور ہر جمعۃ المبارک کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن قرار دیا ہے۔ جس سے واضح ہوگیا کہ اگر ولادت اور وفات ایک ہی دن میں واقع ہوتو وفات کی غمی کو تین دن کے بعد ختم کردیا جاتا ہے اور میلاد کی خوشی کو ہمیشہ کے لیے جاری رکھا جاتا ہے۔
رسول مکرم ﷺکا وصال مبارک خیر اور رحمت ہونے کی وجہ سے باعث غم اور سوگ نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انبیاء کرام اور غیر انبیاءکی وفات میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ انبیاء کرام کے اجسام وصال کے بعد بھی محفوظ رہتے ہیں کیونکہ وہ زندہ ہوتے ہیں چنانچہ ایک موقع پر نبی مکرم ﷺنے صحابہ کرام سے جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنے کا ارشاد فرمایا جس ارشاد کو نقل کرتے ہوئے ابن ماجہ یوں روایت کرتے ہیں:
أكثروا الصلاة على يوم الجمعة، فإنه مشھود تشھده الملائكة وإن أحدا لن يصلى على إلا عرضت على صلاته حتى يفرغ منھا قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت، إن اللّٰه حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء فنبى اللّٰه حى يرزق.24
مجھ پر جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ یہ ملائکہ کی حاضری کادن ہے جس میں وہ حاضر ہوتےہیں اور کوئی بھی ایک شخص مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر اس کے فارغ ہوتےہی اس کا درود مجھ پر پیش کیاجاتا ہے۔راوی نے کہا کہ میں نے عرض کیا اور آپ ﷺکے وصال کے بعد(بھی یہی معاملہ ہوگا)؟تو نبی مکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ میرے وصال کے بعد بھی(یہی معاملہ ہوگا) کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے اجسام کو کھاناحرام کردیا ہے لہذا اللہ تبارک وتعالیٰ کا نبی(وصال کے بعد بھی) زندہ ہوتا ہے۔
اس حدیث مبارکہ کو کئی مختلف طرق کے ساتھ سنن ابی داؤد، 25 سنن نسائی،26 مسند البزار، 27 معجم الاوسط، 28 سنن دارمی29 اور مصنف ابن ابی شیبہ 30میں بھی نقل کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آپ ﷺوصال کے بعد بھی حیات ہیں لہذا یہ کہنا کہ بارہ ( 12) ربیع الاوّل یوم ِغم وحزن ہے درست نہیں ہے اوراس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام بالخصوص نبی مکرم ﷺاپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں لہذا جب حضوراکرم ﷺحیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کرنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا کیونکہ غم اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی چیز ختم ہوجائے ،اس سے حاصل ہونے والے فوائد بھی ختم ہوجائیں اور اس کے اثرات وتنائج کا سلسلہ بھی بند ہوجائے لیکن حضور نبی کریم ﷺ اپنے ظاہری وصال کے بعد بھی اسی طرح اپنا فیض تقسیم فرمارہے ہیں جس طرح حیات دنیوی میں تقسیم فرمایا کرتے تھے۔
حیات النبی ﷺپرایک اور شاہد مسلمانوں کا کلمہ طیبہ ہےجس کے الفاظ ہی اس حقیقت پر پختہ شہادت دیتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺکی نبوت جاری وساری ہے اور قیامت تک اسی طرح رہے گی جس طرح حیات ظاہری میں تھی کیونکہ کلمہءِ طیبہ کے کلمات" لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ"یعنی" اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اﷲ کے رسول(ﷺ)ہیں"اس کلمہءِ طیبہ میں "رسول ہیں"کے الفاظ حیات النبی ﷺکو واضح کررہے ہیں لہذا اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ محمد ﷺﷲ کے رسول تھے تووہ بالاتفاق کافر ہوجاتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺکے ماضی میں رسول سمجھنے کے عقیدہ کو سرے سے ختم کردیا اور حضور کی بابت کوئی بھی کلام "تھے" یعنی ماضی کے صیغے میں کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جس سےواضح طور پر یہ سمجھ آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺکی نبوت تاحال اور قیامت تک رہے گی۔ البتہ ان دونوں حیات میں فرق صرف اتنا ہے کہ تریسٹھ(63)برس تک آپ ﷺکا دیدار سر کی آنکھوں سے ممکن تھا اور وصالِ مبارک کے بعد دل کی آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں، پہلے حالتِ بیداری میں ہر کسی کو نظر آتے تھے اب کسی خوش بخت کو خواب میں اور بہت ذیادہ خوش بخت کو جاگتے میں نظر آتے ہیں اورخصوصااس شخص کو جو ان کی یاد اور محبت میں دل کو زندہ کرلے تو اس کا یہ دیدار نہ صرف خواب کی حد تک رہتا ہے بلکہ یہ خوش نصیب شخص بھی بیداری میں حضور اکرم ﷺکو سَرکی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ ﷺنے ارشادفرمایا:
من رانى فى المنام فسیرانى فى الیقظة ولا یتمثل الشیطان بى.31
جس نے مجھے خواب میں دیکھا سو وہ عنقریب مجھ کو بیداری میں دیکھے گا اور شیطان میری مثل نہیں بن سکتا۔
اس روایت کوطبرانی نے معجم میں بھی نقل کیا ہے۔32 نبی مکرمﷺ کی حیات ظاہری کے بعد امت کے کئی افراد آپ ﷺکی زیارت سے مستفیض ہوئے چنانچہ تفسیر ِروح البیان میں اس حوالہ سے یہ عبارت درج ہے کہ امام غزالی نے کہا:
والرسول له الخیار فى طواف العالم مع أرواح الصحابة لقد رآہ كثیر من الأولیآء.33
حضور اکرم ﷺکو اپنے صحابہ کرام کی روحوں کے ساتھ دنیا میں سیر فرمانے کا اختیار ہے اورآپ ﷺکو بہت سے اولیاء اﷲ نے دیکھا بھی ہے۔
یعنی آپ ﷺکی عنایات میں بعد از وصال بھی کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی لہذاجب معاملہ ایسا ہے تو غم و حزن کا تو امکان ہی نہیں ۔حضور ﷺنے جو ظاہری دنیا سے پردہ فرمایا ہے تو عام انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے ہیں لیکن خواص تو آج بھی حضوراکرم ﷺکو عالم بیداری میں دیکھتے ہیں چنانچہ امام شعرانی امام جلال الدین سیوطی کے بارے میں لکھتے ہیں:
و قد اخبرنى الشیخ الصالح عطیة الابناسى والشیخ الصالح قاسم المغربى المقیم فى تربة الامام الشافعى والقاضى زكریا الشافعى أنھم سمعوا الشیخ جلال الدین السیوطى رحمه اللّٰه تعالى یقول: رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى الیقظة بضعا وسبعین مرة وقلت له فى مرة منھا هل انا من اھل الجنة یارسول اللّٰه؟ فقال:نعم! فقلت من غیر عذاب یسبق فقال:لك ذلك قال الشیخ عطیة وسألت الشیخ جلال الدین مرة أن یجتمع بالسلطان الغورى فى ضرورة وقعت لى فقال لى: یاعطیة أنا اجتمع بالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم یقظة وأخشى ان اجتمعت بالغورى ان یحتجب صلى اللّٰه عليه وسلم عنى.34
اور مجھے شیخ صالح عطیہ الابناسی اور امام شافعی کی تربت میں مقیم شیخ صالح قاسم المغربی اور قاضی زکریا الشافعی نے بتایا کہ انہوں نے شیخ جلال الدین السیوطی کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے بیداری میں رسول پاک ﷺ کی کچھ اوپر ستر(70) مرتبہ زیارت کی ہے۔ اور ان میں سے ایک دفعہ میں نے آپ سے عرض کی۔ یا رسول اﷲ! کیا میں اہل جنت سے ہوں؟ فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کی: پہلے کوئی سزادیے بغیر؟ فرمایا: تیرے لیے یہی ہے۔ شیخ عطیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر شیخ جلال الدین سیوطی سے عرض کی کہ سلطان غوری کے پاس تشریف لے چلیں تو آپ نے مجھے فرمایا: اے عطیہ! میں بیداری میں حضور ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوتاہوں۔ ڈرتا ہوں کہ اگرغوری کے پاس چلاجاؤں تو کہیں(اس زیارت سے) حجاب لاحق نہ ہوجائے۔
اسی حوالہ سے یہی امام شعرانی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
رأیت ورقة بخط الشیخ جلال الدین السیوطى عند أحد أصحابه وھو الشیخ عبدالقادر الشاذلى مراسلة لشخص سأله فى شفاعة عند السلطان قأیتبا ى رحمه اللّٰه تعالى إعلم یا أخى إننى قد أجتمعت برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى وقتى هذا خمسا وسبعین مرة یقظة ومشافھة ولولا خوفى من احتجابه صلى اللّٰه عليه وسلم عنى بسبب دخولى للولاة لطلعت القلعة وشفعت فیك عند السلطان وإنى رجل من خدام حدیثه صلى اللّٰه عليه وسلم وأحتاج إلیه فى تصحیح الأحادیث التى ضعفھا المحدثون من طریقھم ولاشك أن نفع ذلك أرجح من نفعك.35
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ میں نے امام سیوطی کے خط کا ایک ورقہ اس کے اصحاب میں سے ایک صاحب یعنی شیخ عبدالقادر شاذلی کے پاس دیکھا جومراسلہ تھا اس شخص کے لیے جس نے آپ سے بادشاہ قایتبائی کے پاس سفارش کا سوا ل کیا تھا (وہ مراسلہ جوابیہ اس مضمون پرمشتمل تھا): جان لے اے بھائی کہ اس وقت تک میں ۷۵ مرتبہ عالم بیداری میں بالمشافہ حضور ﷺکی زیارت سے مستفیض ہوا۔ اگرحاکموں کے پاس جانے کی وجہ سے حضور کی زیارت کی محرومی کاخوف نہ ہوتا تومیں قلعہ شاہی میں داخل ہوتا اور بادشاہ کے ہاں تیرے حق میں سفارش کرتا اور میں خدّامِ حدیث سے ایک ہوں۔ ان احادیث کی تصحیح کے بارہ میں حضور ﷺکامحتاج ہوں۔ جن کو محدثین نے اپنے طریقہ میں ضعیف کردیا اوربے شک یہ نفع تیرے نفع سے بہت زیادہ ہے۔
سیّد انورشاہ کشمیری آپ ﷺکی بیدار ی میں زیارت کی بابت کلام کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ویمكن عندى رؤیته صلى اللّٰه عليه وسلم یقظة لمن رزقه اللّٰه سبحانه كما نقل عن السیوطى رحمه اللّٰه تعالى أنه رآه صلى اللّٰه عليه وسلم اثنین وعشرین مرة وسأله عن أحادیث ثم صححھا بعد تصحیحه صلى اللّٰه عليه وسلم الخ 36
میرے نزدیک آپ ﷺکو عالمِ بیداری میں دیکھنا ان حضرات کیلیے جن کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے مشرف فرمائے جائز ہے۔ جیسا کہ امام سیوطی سے نقل کیا گیا کہ انہوں نے بائیس(22) مرتبہ جاگتے ہوئے حضور ﷺکی زیارت کی اور حضور ﷺسے بہت سی حدیثوں کے متعلق پوچھاپھر حضور کے صحیح فرمانے کے بعد امام سیوطی نے ان احادیث کی تصحیح کی۔
ایک اور مقام پر اسی حوالہ سے آپ مزید تحریر فرماتے ہیں:
والشعرانى رحمه اللّٰه تعالى أیضا كتب أنه رآه صلى اللّٰه عليه وسلموقرأ علیه البخارى، فالرؤیه یقظة متحققة وإنكا رها جھل.37
امام شعرانی قدس سرہ نے لکھا کہ آپ نے حضور ﷺکو دیکھا اور آپ ﷺکے سامنے بخاری شریف پڑھی پس آپ ﷺ کا بیداری میں دیدار کرنا حق اور ثابت ہے اور اس کا انکار جہالت ہے۔
امام یوسف نبہانی لکھتے ہیں کہ شیخ جلال الدین سیوطی کی اس بات کی تائید وہ مشہور واقعہ بھی ہے کہ محمدبن زین مدّاحِ رسول ﷺحضوراقدس ﷺکی حالتِ بیداری میں بالمشافہ زیارت کرتے تھے اورجب وہ حج کے لیے تشریف لےگئے تو سرکاراقدس ﷺنے قبر کے اندر سے ان سے بات کی۔ 38
اسی طرح آپ ﷺکے وصال کے بعد شیخ عبد القادر جیلانی کوآپ ﷺکی زیارت ہوئی جس کو بیان کرتے ہوئے علامہ آلوسی بغدادی تحریر فرماتے ہیں:
وجوز أن يكون ذلك بالاجتماع معه عليه الصلاة والسلام روحانية ولا بدع فى ذلك فقد وقعت رؤيته صلى اللّٰه عليه وسلم بعد وفاته لغير واحد من الكاملين من هذه الأمة والأخذ منه يقظة، قال الشيخ سراج الدين بن الملقن فى طبقات الأولياء: قال الشيخ عبد القادر الكيلانى قدس سره: رأيت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قبل الظھر فقال لى: يا بنى لم لا تتكلم؟ قلت: يا أبتاه أنا رجل أعجم كيف أتكلم على فصحاء بغداد فقال: افتح فاك ففتحته فتفل فيه سبعا وقال: تكلم على الناس وادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة. فصليت الظھر وجلست وحضرنى خلق كثير فأرتج على فرأيت عليا كرم اللّٰه تعالى وجھه قائما بإزائى فى المجلس فقال لى: يا بنى لم لا تتكلم؟ قلت: يا أبتاه قد أرتج على فقال: افتح فاك ففتحته فتفل فيه ستا فقلت: لم لا تكملھا سبعا قال: أدبا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ثم توارى عنى فقلت: غواص الفكر يغوص فى بحر القلب على درر المعارف فيستخرجھا إلى ساحل الصدر فينادى عليھا سمسار ترجمان اللسان فتشترى بنفائس أثمان حسن الطاعة فى بيوت إذن اللّٰه أن ترفع، وقال أيضا فى ترجمة الشيخ خليفة بن موسى النھر ملكى: كان كثير الرؤية لرسول اللّٰه عليه الصلاة والسلام يقظة ومناما فكان يقال: إن أكثر أفعاله يتلقاه منه صلى اللّٰه عليه وسلم يقظة ومناما ورآه فى ليلة واحدة سبع عشرة مرة قال له فى إحداهن: يا خليفة لا تضجر منى فكثير من الأولياء مات بحسرة رؤيتى، وقال الشيخ تاج الدين بن عطاء اللّٰه فى لطائف المنن: قال رجل للشيخ أبى العباس المرسى يا سيدى صافحنى بكفك هذه فإنك لقيت رجالا وبلادا فقال: واللّٰه ما صافحت بكفى هذه إلا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: وقال الشيخ لو حجب عنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم طرفة عين ما عددت نفسى من المسلمين، ومثل هذه النقول كثير من كتب القوم جدا.39
رسول اﷲ ﷺسے ملاقات اور استفادہ جائز ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ اس امت کے بے شمار کاملین نے حضور ﷺکی بیداری میں زیارت کی ہے اور آپ ﷺسے علم حاصل کیا ہے۔ شیخ سراج الدین ابن ا لملقن طبقات اولیاء میں لکھتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے فرمایا میں ظہر سے پہلے حضور ﷺکی زیارت سے مشرف ہوا۔ آپ ﷺنے فرمایا :اے بیٹے تم وعظ کیوں نہیں کرتے۔ میں نے عرض کیا اے اباجان میں ایک عجمی شخص ہوکر فصحاء بغداد کے سامنے کس طرح لب کشائی کروں؟ آپ ﷺنے فرمایا: اپنا منہ کھولو میں نے اپنا منہ کھولا آپ ﷺنے میرے منہ میں سات بار اپنا لعاب دہن مبارک ڈالا اور فرمایا اب وعظ کرو اور لوگوں کو محبت و حکمت کےساتھ اﷲ کے دین کی طرف بلاؤ۔ میں نے ظہر کی نماز پڑھی اور بیٹھ گیا۔ میرے پاس خلقت کا ایک اژدھام جمع ہوگیا اور مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی میں نے دیکھا کہ میرے سامنے مجلس میں حضرت علی تشریف فرما ہیں۔ فرمانے لگے اے بیٹے وعظ کیوں نہیں کرتے ؟میں نے کہا اے ابا جان مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی ہے آپ نے فرمایا منہ کھولو میں نے منہ کھولا تو آپ نے چھ بار میرے منہ میں اپنا لعاب دہن مبارک ڈالا میں نے عرض کیا آپ نے سات بار مکمل کیوں نہیں کیا۔ فرمایا رسول اﷲ ﷺکے ادب کے پیش نظر۔ اس کے بعد آپ میری نظر سے غائب ہوگئے۔ میں نے محسوس کیا کہ فکر کا غوطہ زن میرے دل کے سمندر کی گہرائیوں میں غوطے لگارہا ہے اور تہ سے حقائق و معارف کے موتی نکال کر میرے سینہ کے ساحل پر رکھ رہا ہے اور زبان اور سینہ کے درمیان کھڑا ایک سفیر ترجمان زبان سے کہہ رہا ہے اچھی عبادت کی نفیس قیمت ادا کرکے ان موتیوں کو خریدلو۔ خلیفہ بن موسیٰ انہر ملکی نے شیخ کی سوانح میں لکھا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رسول اﷲ ﷺ کی نیند اور بیداری میں بکثرت زیارت کیا کرتے اور شیخ نیند اور بیداری میں رسول ﷲ ﷺسے بکثرت وظائف حاصل کرتے تھے۔ ایک بار صرف ایک رات میں شیخ کو سترہ(17) مرتبہ رسول اﷲ ﷺکی زیارت ہوئی۔ اس رات کی زیارتوں میں سے ایک زیارت میں سرکار دوعالم ﷺنے فرمایا اے خلیفہ میری زیارت کے لیے زیادہ بے قرار نہ ہوا کرو۔ نہ جانے کتنے اولیاء اﷲ میری زیارت کی حسرت میں ہی فوت ہوگئے اور شیخ تاج الدین بن عطاء اﷲ"لطائف المنن" میں لکھتے ہیں ایک شخص نے شیخ ابو العباس مرسی سے کہا اے میرے سردار اپنے اس ہاتھ سے میرے ساتھ مصافحہ کیجئے کیونکہ آپ بہت سے شہروں میں گئے ہیں اور آپ نے بہت سے نیک لوگوں سے ملاقات کی ہے۔ ابو العباس مرسی نے کہا قسم بخدا میں اس ہاتھ سے رسول اﷲ ﷺکے سوا کسی سے مصافحہ نہیں کرتا۔ اور شیخ مرسی نے کہا کہ اگر میں پلک جھپکنے کی مقدار بھی اپنے آپ کو رسول اﷲ ﷺسے اوجھل پاؤں تو اس ساعت اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتا۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کتابوں میں اس قسم کی عبارتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
رسول اللہ ﷺکے وصال کے بعد آپ ﷺکی زیارت کے حوالہ سے مختلف النوع واقعات تحریر کرنے کےبعد شیخ علامہ آلوسی مزید بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وقد ذكر عن السلف والخلف وهلم جدا ممن كانوا رواه صلى اللّٰه عليه وسلم فى النوم وكانوا ممن یصدقون بھذا الحدیث فرأوه بعد ذلك فى الیقظة وسألوه عن اشیاء كانوا منھا متشوشین فاخبرهم بتفریجلھا ونص لھم على الوجوه التى منھا یكون فرجھا فجاء الامر كذلك بلا زیارة ولا نقص انتھى المراد منه.40
سلف اور خلف سے یہ بات مسلسل منقول چلی آرہی ہے کہ جو لوگ سرکار دو عالم ﷺکو نیند میں دیکھتے ہیں ، انہیں اس حدیث کی تصدیق ہوتی ہے (جو مجھے نیند میں دیکھے گا وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا) وہ اس کے بعد رسول ﷲ ﷺکو بیداری میں بھی دیکھتے ہیں اورحضور ﷺسے ان چیزوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، جن میں ان کو تردد اور پریشانی رہتی ہے۔ اور حضور ﷺان کے لیے مسئلہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ان کا تردد ختم اور پریشانی دور ہوجاتی ہے۔ اور بغیر کسی زیادتی اور کمی کے فی الواقع ایسا ہی ہے۔
ان مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم ﷺکے وصال کے بعد بھی آپ ﷺاپنی رحمت و برکت اور انوارو تجلیات سے امت کو مستفیض فرماتے رہے ہیں جو کہ ہنوز بھی جاری و ساری ہے اور حضوراقدس ﷺامت کے اخیار افراد کو آج تک نیند اور بیداری میں علم و حکمت سے نواز رہے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس کی بابت خود باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمادیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هوَالَّذِ ى بَعَثَ فِى الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھمْ يَتْلُوْا عَلَيْھمْ اٰيٰتِه وَيُزَكيْھمْ وَيُعَلِّمُھمُ الْكتٰبَ وَالْحِكمَة وَاِنْ كانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِى ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ۲ۙ وَّاٰخَرِيْنَ مِنْھمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِھمْ وَهوَالْعَزِيْزُ الْحَكيْمُ341
وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (ﷺ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول ﷺکو تزکیہ و تعلیم کے لیے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے (جو اس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔
اس آیت میں جو دوسرے غیر موجود افراد کے تزکیہ و تربیت کی بات بیان فرمائی گئی ہے اس کی تفسیر میں امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں:
وقال آخرون إنما عنى بذلك جمیع من دخل فى الإسلام من بعد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم كائنا من كان إلى یوم القیمة.42
اور دیگرمفسرین نے کہا کہ اس سےان کی مراد حضور ﷺکے بعد قیامت تک اسلام لانے والے لوگ مراد ہیں خواہ وہ کوئی بھی ہوں۔
اس کے بعد اس کے ثبوت میں حدیث ذکر کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:
قال ابن زید فى قول اللّٰه عن وجل "آخرین منھم لما یلحقوا بھم" قال: هؤلآء كل من كان بعد النبى صلى اللّٰه عليه وسلمإلى یوم القیمة كل من دخل فى الإسلام من العرب والعجم.43
ابن زید نے اﷲ تعالیٰ کے فرمان"و آخرین منھم لما یلحقوا بھم"کی تفسیر میں فرمایا: یہ وہ قیامت تک کے لوگ ہیں جو حضور ﷺکے بعد ایمان لائے خواہ عربی ہو ں یا عجمی۔
اسی طرح اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام قرطبی تحریر فرماتے ہیں:
أى یعلمھم ويعلم آخرين من المؤمنين، لأن التعليم إذا تناسق إلى آخر الزمان كان كله مسندا إلى أوله فكأنه هو الذى تولى كل ما وجد منه. (لما يلحقوا بھم) أى لم یكونوا فى زمانھم وسيجيئون بعدهم. قال ابن عمرو سعيد بن جبير: هم العجم....مجاھد: هم الناس كلھم، يعنى من بعد العرب الذين بعث فيھم محمد صلى اللّٰه عليه وسلم. وقاله ابن زيد ومقاتل ابن حيان. قالا: هم من دخل فى الإسلام بعد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم إلى يوم القيامة.44
(یعنی حضور ﷺ) مؤمنوں کو بھی تعلیم دیتے ہیں اور ان مؤمنوں کو بھی جو بعد میں آئیں گے کیونکہ جب آپ ﷺکی تعلیم آخری زمانہ تک قائم رہے گی تو وہ آپ ﷺہی کی طرف منسوب ہوگی۔ " لما یلحقوا بھم"سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ ﷺکے زمانہ میں نہ تھے اور آپ ﷺکے بعد آئیں گے۔۔۔ حضرت عبداﷲ بن عمر اور سعید بن جبیر نے کہا کہ وہ عجمی لوگ ہیں اور مجاہد نے کہا اس سے مراد عرب کے بعد وہ تمام لوگ جو حضور ﷺپر ایمان لائے اور ابن زید اور مقاتل نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حضور ﷺکے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے۔
اسی حوالہ سے علامہ آلوسی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
أى لم یلحقوا بھم بعد و سیلحقون وهم الدین جاؤا بعد الصحابة إلى یوم الدین.45
یعنی جو لوگ ابھی تک صحابہ کرام کے ساتھ لاحق نہیں ہوئے اور عنقریب لاحق ہوں گے یہ لوگ صحابہ کے بعد سے لے کر قیامت تک کے مسلمان ہیں۔
ان کے علاوہ ابن کثیراس آیت کی تفسیر میں یوں لکھتے ہیں:
كل من صدق النبى صلى اللّٰه عليه وسلم من غیر العرب .46
یہ وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے عربوں کے سوا حضور ﷺکی تصدیق کی۔
معلوم ہوا کہ حضور ﷺقیامت تک کے مسلمانوں کے لیے معلم ہیں جیسا کہ ان کتب تفسیر کی صراحت سے ظاہر ہوا۔ عوام کے لیے کتاب و سنت کے واسطے سے معلم ہیں اور خواص (ائمہ مجتہدین اولیاء کاملین) کے لیے بلاواسطہ معلم ہیں۔ ان کو نیند اور بیداری میں بالمشافہ تعلیم دین سے نواز تے ہیں جیسا کہ محی الدین عربی، علامہ ابن حجر مکی، علامہ سیوطی، علامہ عبدالوہاب شعرانی، علامہ سیّد محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہم اوردوسرے معتبر علمائے کرام کے حوالوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہے۔
نبی کریم ﷺوصال کے بعد بھی اپنی زیار ت سے مشرف فرماتے اورساتھ ہی داد رسی بھی فرماتے ہیں چنانچہ شیخ یوسف شامی نے اسی طرح کے چند واقعات 47اپنی کتاب"سبل الھدی" میں ،48شاہ ولی اللہ محدث دہلوینےاپنے والد محترم شاہ عبد الرحیم کا اسی طرح کا واقعہ "الدر الثمین"میں 49اورابن جوزی کے حوالہ سے اسی قبیل کا ایک واقعہ شیخ عابد سندی نے بھی اپنی کتاب"حکم اطعام الطعام" میں قلمبند کیا ہے۔50اسی طرح کا مزید واقعہ شاہ عبد الرحیم کے حوالے سےیوں بھی بیان کیا جاتا ہےکہ وہ فرماتے تھے کہ ایک بار مجھ کو بخار نے گھیرلیا اور وہ بڑھتا ہی گیا تاآنکہ امید حیات منقطع ہوگئی۔ ایک دن اسی حالت میں غنودگی طاری ہوئی اور حضرت شیخ عبد العزیز شکر بار یہ فرماتے ہوئے ظاہر ہوئےکہ اے لڑکے حضرت پیغمبر ﷺتمہاری عیادت کے لیے تشریف لارہے ہیں اور شاید اس طرف سے تشریف لائیں جس طرف تمہارے پلنگ کی پائنتی ہے لہٰذا اپنی چار پائی کو اس طرح بچھواؤ کہ تمہارے پاؤں دوسری طرف کو ہوجائیں ۔یہ سن کر میں کچھ دیر کے لیے ہوش میں آگیالیکن قوت تکلم میرے اندر بالکل نہیں تھی تو میں نے حاضرین کو اشارہ کیا کہ میری چارپائی گھمادیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ پھر میرے اوپر پہلی والی کیفیت دوبارہ طاری ہوئی تو اتنے میں آنحضرت ﷺتشریف لائے اور فرمایا :کیف حالک یا بنیَّ (یعنی اے بیٹے کیا حال ہیں؟) اس وقت ایک عجیب وجد اور گریہ و اضطراب میرے اوپر طاری ہوا تو آنحضرت ﷺنے مجھ کو اپنی آغوش مبارک میں اس طرح لے لیا کہ آپ ﷺکی ریش مبارک میرے سر کے اوپر تھی۔ میں اس قدر رورہا تھا کہ آنحضرت ﷺکا پیر ہن مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ آہستہ آہستہ یہ کیفیت ختم ہوگئی پھر میرے دل میں یہ بات آئی کہ مدتوں سے موئے مبارک کی تمنا رکھتا ہوں کس قدر کرم ہوگا اگر اس وقت موئے مبارک مجھے عنایت فرمادیں۔ اس آرزو پر آنحضرت ﷺمطلع ہوگئے اورریش مبارک پر اپنا دست مقدس پھیرا اور دو موئے مبارک مجھے عطا فرمائے۔ معاً میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ عالم شہادت (یعنی دنیا) میں بھی یہ دو موئے مبارک باقی رہیں گے یا نہیں؟ میرے اس خطرہ پر بھی آنحضرت ﷺمطلع ہوئے اور فرمایا کہ ہاں یہ عالم ِشہادت میں بھی باقی رہیں گے۔ اس کے بعد آپ ﷺنے مجھے صحت کلی اور درازی عمر کی بشارت عطا فرمائی توپھر میں ہوش میں آگیا۔ میں نے چراغ منگوایا اور ان دونوں موہائے مبارک کو اپنے ہاتھ میں نہ پاکر روحانیت میں آنحضرت ﷺکی جانب متوجہ ہواجس کی وجہ سے مجھ پر ایک بیہوشی طاری ہوئی۔ آنحضرت ﷺمتمثل ہوئے اور ارشاد فرمایا اے لڑکے آگاہ ہوجاؤ کہ میں نے وہ دونوں بال ازروئے احتیاط تمہارے تکیے کے نیچے رکھ دیے ہیں وہیں تم کو مل جائیں گے۔ پھر مجھے ہوش آیا اور تکیے کے نیچے ہی وہ موئے مبارک میں نے رکھے پائے۔ اس کے بعد ایک دم بخار رخصت ہوگیا مگر ساتھ ہی ساتھ ضعف کا بے حد غلبہ ہوا جس سے اقربا نے سمجھا کہ یہ موت کی کیفیت ہے اورسب کے سب رونے لگے۔چونکہ میں بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا توسر سے اشارہ کرتا تھا پھر کچھ دنوں بعد قوت بحال ہوئی اور صحت کلی بھی پائی۔51
اس مذکورہ بالا واقعہ اور دیگر واقعات سے واضح ہوگیا کہ نبی کریمﷺ بعد از وصال بھی امت کے اخیار کو اپنی زیارت سے مشرف فرمانے کے ساتھ ساتھ دادرسی بھی فرماتے ہیں لہذا آپ ﷺکا وصال ایسا نہیں جو اُمت سے آپﷺ کاتعلق ختم کردے بلکہ آپ ﷺکا فیضان نبوت تاقیامت جاری رہےگا اور آپ ﷺبرزخی زندگی میں دنیاوی زندگی سے بڑھ کر حیات کے مالک ہیں چنانچہ حضرت ملاعلی قاری نے آپ ﷺکے وصال کے بارے میں یوں بیان کیا ہے:
لیس هناك موت ولا فوت بل انتقال من حالى إلى حال.52
یہاں نہ موت ہے اور نہ وفات بلکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا ہے۔
لہذا ان تمام تفصیلات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم ﷺکا وصال مبارک اگرچہ کہ بارہ(12) ربیع الاوّل کو ہی ہے لیکن کسی طور پر بھی اس کو یوم غم وحزن منانا درست نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺکا وصال امت کے لیے خیر و رحمت ہی ہے ۔
بارہ (12)ربیع الاوّل کے دن سرور وخوشی اور غم وحزن منانے کے حوالہ سے امام فاکہانی نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ماہِ ربیع الاوّل اگر حضورنبی کریم ﷺکی ولادت کا مہینہ ہے تو یہ آپ ﷺکے وصال کا بھی مہینہ ہے لہٰذااس میں خوشی کرنا غمگین ہونے سے بہتر نہیں ہے تو اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
إن ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم أعظم النعم علینا ووفاته أعظم المصائب لنا، والشریعة حثّت على أظھار شكر النعم والصبر والسّكون والكتم عند المصائب وقد أمر الشرع بالعقیقة عند الولادة وهى إظھار شكر وفرح بالمولود ولم یأمر عند الموت بذبح ولا غیره، بل نھى عن النّیاحة وإظھار الجزع، فدلّت قواعد الشریعة على أنه یحسن فى هذا الشھر إظھار الفرح بولادته صلى اللّٰه عليه وسلم دون إظھار الحزن فیه بوفاته صلى اللّٰه عليه وسلم. وقد قال ابن رجب رحمه اللّٰه تعالىٰ فى كتاب اللطائف فى ذمّ الرافضة حیث اتخذوا یوم عاشوراء مأتماً لأجل قتل الحسین لم یأمر اللّٰه تعالى ولا رسوله صلى اللّٰه عليه وسلم باتخاذ أیام مصائب الأنبیاء وموتھم مأتماً فكیف بمن هو دونھم .53
حضورنبی کریم ﷺکی ولادت مبارکہ ہم پر عظیم نعمت ہے اور آپ ﷺکی وفات ہمارے لیے سب سے بڑی تکلیف ہے لیکن شریعت نے نعمت پر شکر وحمد اور مصیبت پر صبر ورضا اور اخفاء کی تلقین فرمائی ہے جیسا کہ ولادت کے وقت عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے، یہ کسی کی پیدائش پر خوشی و شکر کے اظہار کا نام ہے لیکن کسی کی موت کے وقت اظہار غم کی محفل منعقد کرنے اور کھانا وغیرہ کھلانے کا حکم نہیں دیا بلکہ آہ وفغاں اور نوحہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اس مہینہ میں سرکار دوعالم ﷺکی ولادت باسعادت پر خوشی کا ظہار کرنا مستحسن ومحمود ہے نہ کہ آپ ﷺکے وصال پر اظہار حزن وملال کرنا۔ابن رجب نے اپنی کتاب "اللطائف" میں رافضیوں کی مذمت کی ہے کیونکہ انہوں نے امام عالی مقام کی شہادت کی وجہ سے یوم عاشورہ کو ماتم کرنا شروع کر دیا جبکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺنے انبیاء کرام کے وصال کی تاریخوں میں ماتم کی اجازت نہیں دی تو جو حضرات ان سے عظمت ورفعت میں ادنی ہیں ان کے وصال وشہادت کی تاریخ کو ماتم کا دن کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
امام جلال الدین سیوطی کے جواب سے بھی وضاحت ہوگئی ہے کہ بارہ(12) ربیع الاوّل یوم شکر منانے کے لیے مناسب ہے لیکن سوگ وغم منانے کے حوالہ سے کسی طور پر درست نہیں ہے کہ اسلام میں شکرانِ نعمت کے طور پر خوشی کا ااظہار کرنا تو مطلوب وممدوح ہے لیکن کسی مصیبت پر جز ع وفزع کرنا جائز نہیں ہے اور بیوی کےعلاوہ تین دن سے زیادہ سوگ کرنا بھی غیر مشروع ہے۔54
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کیا تیس(30)، پینتیس(35) سال پہلے ہمارے بھائی بارہ(12) ربیع الاوّل کو عید میلاد النبی ﷺکے بجائے بارہ(12) وفات قرار نہیں دیتے تھے؟جس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ امت میں بارہ(12) ربیع الاوّل کے دن خوشی کرنے کارواج نیا ہے۔یہ اعتراض لاعلمی کی بنیاد پر ہے کیونکہ امت کے اکابرین بارہ(12) ربیع الاوّل کے لیے لفظِ میلاد ہی استعمال کرتے آرہے ہیں 55اور کسی نے بھی اس تاریخ کو بطور وفات نہ ذکر کیا ہے اور نہ ہی لکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے تعلیمی نصاب میں اسلامیات کے باب میں "میلاد النبی ﷺ"کے نام سے باب موجود ہے نہ کہ "بارہ(12) وفات" کے نام سے ۔البتہ یہ سچ ہے کہ چند بوڑھے حضرات لاہور شہر میں اس تاریخ کو بارہ (12)وفات کہا کرتے تھے جو کسی عقیدہ کی بناء پر نہ تھا بلکہ مسلمانوں کی غفلت اور سستی سے مشہور ہوگیا تھاچنانچہ علامہ نور بخش توکلی نے فی الفور دار العلوم انجمن نعمانیہ لاہور میں ایک اجلاس بلوایا جس میں چند علماء جن میں حضرت پیرسیّد جماعت علی شاہ محدث علی پوری ، حضرت مولانا اصغر علی روحی ، مولانا محمد بخش مسلم کے علاوہ کئی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا ایجنڈہ یہ تھا کہ بارہ( 12) ربیع الاوّل شریف کو" بارہ وفات "کہنے کی بجائے عید میلاد النبی ﷺکہا جائے اور سرکاری کاغذات میں "عید میلاد النبی ﷺ"کا نام اور اس دن عام سرکاری تعطیل منظور کروائی جائے۔ تمام علماء کرام اور مشائخ عظام نے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے گورنمنٹ کے گزٹ( Gazette (اور سرکاری کاغذات میں "بارہ (12)وفات" کی عوامی غلطی کو "عید میلاد النبی ﷺ"سے تبدیل کروایاچنانچہ دسمبر انیس سو نواسی( 1989ء)کے ماہنامہ "ضیائے حرم" میں ہے کہ انجمن معین الاسلام نے جس کا قیام انیس سو تیس( 1930ء) میں عمل میں آیا تھا ۔سرکار ِانگلشیہ سے درخواست کی کہ کیلنڈروں اورڈائریوں میں "بارہ (12)وفات" کا جو لفظ لکھا جاتا ہے وہ غلط ہےلہذا اس کے بجائے "عید میلاد النبی ﷺ"کا لفظ لکھا جاناچاہیےچنانچہ گورنمٹ نے انجمن کی اس تجویز کو منظور کرلیا اور پھر اس وقت سے اس تعطیل کو بھی" تعطیل عید میلاد النبی ﷺ" لکھا جانے لگا۔56
بہر حال مذکورہ بالا تمام عبارات سے واضح ہوگیا کہ نبی کریم ﷺکی تاریخ ولادت یعنی بارہ(12) ربیع الاوّل کو یومِ سرور وخوشی کے طور پر منانا یہ مطلوب وممدوح ہے کہ آپ ﷺکی بعثت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور نعمت پر ملنے پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے ۔رہی بات اسی دن یوم وصال کی تو اول اس میں بھی اختلاف ہے اور اگر اس تاریخ کو یوم وصال تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی آپ ﷺکا یوم وصال امت کے حق میں خیر و رحمت ہے اور آپ ﷺبعد از وصال بھی حیات ہیں لہذا کسی طور پر اس دن یعنی بارہ (12)ربیع الاوّل کو یومِ سوگ وغم منانا روا نہیں ہے کیونکہ اسلام میں خوشی کرنے کا حکم ہے اور مصیبت پر جزع وفزع کرنا ناجائز ہے خصوصاً جب ایک ہی دن گزشتہ خوشی وغم اکھٹےہوجائیں تب بھی خوشی تو کی جاسکتی ہے لیکن غم و سوگ نہیں منایاجاسکتاہے۔