Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبیﷺکی خوشی اور ابو لہب کے عذاب میں تخفیف

ابو لہب جس کا شمار حضور نبی کریم کے مخالفین میں سرِفہرست ہوتا ہے ،یہ ایسا بدبخت شخص تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی مذمت میں پوری سورت نازل فرمائی ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ِمبارک ہے:

  تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَھبٍ وَّتَبَّ1 مَآ اَغْنٰى عَنْه مَالُه وَمَا كَسَبَ2 سَيَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَھبٍ3وَّامْرَاَتُه حَمَّالَة الْحَطَبِ4 فِيْ جِيْدِها حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ51
  ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)۔اسے اس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اس کی کمائی نے۔ عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا۔ اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لیے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)۔ اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا (وہی) رسّہ ہوگا(جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی ہے)۔

حضور نبی کریم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالے سے کتب احادیث وسیرت میں مذکور ہے کہ ابو لہب کو اس کی باندی ثویبہ نے نبی مکرم کی ولادت کی خوشخبری دی توابولہب نے خوش ہوکرحضرت ثویبہ کو آزاد کردیاچنانچہ صاحب "روض الانف "اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد يوم الاثنين وكانت ثويبة قد بشرته بمولده فقا لت له أشعرت أن آمنة ولدت غلاما لأخيك عبد اللّٰه؟ فقال لها: اذهبي، فأنت حرة فنفعه ذلك.2
  بلا شبہ رسول اللہ پیر کے دن متولد ہوئے اور حضرت ثویبہ نےابو لہب کو آپ کی ولادت کی خوشخبری دی۔ انہوں نے ابو لہب سے کہا:کیا تمہیں معلوم ہے کہ حضرت سیّدہ آمنہ کے ہاں تمہارے بھائی حضرت عبد اللہ کاایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوا ہے؟تو ابو لہب نے حضرت ثویبہ سے کہا جاؤ کہ تم آزاد ہو۔اس فعل نے ابو لہب کو(تخفیف ِ عذاب کا)نفع دیا۔

حضرت ثویبہ نے آزادی کے بعد سب سے پہلے 3 نبی مکرم کو دودھ پلایا تھا 4 اور نبی مکرم آپ کی تعظیم وتکریم کے ساتھ ساتھ آپ کی ضروریات کابھی خیال رکھاکرتے تھے۔5

حضرت عباس کا خواب

حضرت عباس سے مروی ہے کہ جب ابو لہب مرگیا توایک سال کے بعد میں نے خواب میں بہت برے حال میں دیکھا اور یہ کہتے ہوئے پایاکہ تمہاری جدائی کے بعد میں نے آرام نہیں پایا بلکہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے۔یہ عذاب میں تخفیف کس عمل کی بنیاد پر تھی تو حضرت عباس تخفیف کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  أن النبی صلى اللّٰه عليه وسلم ولد یوم الاثنین وكانت ثویبة بشرت أبا لھب بمولدہ فأعتقھا.6
  نبی کریم پیر کے دن دنیا میں تشریف لائے تو ابو لہب نے اس خوشی میں اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کردیا کیونکہ اس نے آپ کی ولادت کی اطلاع دی تھی۔

لہٰذا جب پیر کا دن آتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس خوشی میں عذاب میں تخفیف فرمادیتا ہے۔اسی حوالہ سےابن قیم الجوزیہ تحریر فرماتے ہیں:

  ولما ولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم بشرت به ثویبة عمه أبا لھب وكان مولاها وقالت قد ولد اللیلة لعبد اللّٰه ابن فأعتقھا أبو لھب سرورا به فلم یضیع اللّٰه ذلک له وسقاہ بعد موته فى النقرة التى فى أصل إبھامه.7
  جب حضور نبی کریم کی ولادتِ مبارکہ ہوئی تو ثویبہ نے اپنے مالک ابو لہب کو خوشخبری دی اور کہا کہ آج رات عبداﷲ کے ہاں بیٹا ہوا ہے۔ ابو لہب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزاد کردیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل ضائع نہیں فرمایا اور موت کے بعد اس کے اس انگوٹھے سے اسے پانی دیا جاتاہے۔

یعنی ابو لہب کو صرف اپنے بھتیجے کی ولادت کی خوشی میں کیے گئے ایک عمل کی بنا پر خالق کائنات نے یہ فائدہ پہنچایا کہ اسے ایک قسم کی راحت میسر آگئی جبکہ وہ رسول مکرم کا سب سے بڑا گستاخ تھا ۔

امام بخاری کی حدیث میں بعض الفاظ کا سقوط

اسی حدیث کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے لیکن اس میں بعض الفاظ موجود نہیں ہیں چنانچہ امام بخاری حضرت عروہ سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں:

  ثویبة مولاة لابی لھب كان ابو لھب اعتقھا فارضعت النبی صلى اللّٰه عليه وسلم فلما مات ابو لھب ارىه بعض اھله بشرحیبة قال له ماذا لقیت قال ابو لھب لم الق بعدكم غیر انی سقیت فى ھذہ بعتا قتی ثوبیة.8
  ثویبہ ابو لہب کی باندی تھی اور ابولہب نے اس کو آزاد کردیا تھا، پھر اس نے نبی کو دودھ پلایا پس جب ابولہب مرگیا تو اس کو اس کے بعض گھر والوں نے خواب میں برے حال میں دیکھا پوچھا کیا گزری ابولہب بولا کہ تم سے علیحدہ ہوکر مجھے کوئی خیر نصیب نہ ہوئی۔ ہاں مجھے اِس انگلی سے پانی ملتا ہے۔ کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو(ولادتِ مصطفیٰ کی خوشی میں اس انگلی کے اشا رے سے ) آزاد کیا تھا۔

صحیح بخاری کے متن حدیث میں کسی راوی کے وہم سے بعض الفاظ ساقط ہوگئے ہیں جو یہ ہیں:

  1. ابولہب نے بتایا مجھے تمہارے بعد کوئی راحت نہیں ملی۔
  2. ابو لہب نے کہا البتہ مجھے اس سے پلایا جاتا ہے اور اس نے اپنے انگوٹھے کے نیچے سوراخ کی طرف اشارہ کیا۔

جبکہ امام عروہ بن زبیر اور امام زہری رحمۃ اللہ علیہم سے منقول روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں چنانچہ امام بیہقی لکھتے ہیں:

  ھذا حدیث عروة ابن الزبیر فى اعتاق ابی لھب ثوبیة وارضاعھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فلما مات ابو لھب اریه بعض اھله فى النوم بشر خیبة فقال له ما لقیت فقال ابو لھب لم نر بعدكم انی سقیت فى ھذہ منی بعتاقتی ثوبیة واشار الى النقیرة التی بین الابھام ملکا تلیھا.9
  یہ عروہ بن زبیر کی حدیث ہے جس میں ابو لہب کی طرف سے رسول اﷲ کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کرنا اور ثوبیہ کا رسول اﷲ کو دودھ پلانا مذکور ہے۔ جب ابو لہب کا انتقال ہوگیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی ایک کو وہ خواب میں دکھایا گیا کہ بڑی بری حالت اور ناکامی میں تھا۔ اس نے اس سے پوچھا تیرے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ ابو لہب نے کہا کہ میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مکمل مایوسی دیکھی، امید کی کہیں کوئی صورت نہیں تھی۔ ہاں ثوبیہ کو آزاد کرنے کے بدلے میں مجھے اتنا سا گھونٹ پلایا گیا ہے۔ (یعنی تھوڑا سا) اس نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان جو فاصلہ یا سوراخ بنتا ہے اسی کا اشارہ کرکے دکھایا.10

اسی طرح امام زہری سے مروی روایت میں یوں منقول ہے:

  أن أبا لھب أعتق جاریه یقال لھا: ثویبة، وكانت أرضعت النبی صلى اللّٰه عليه وسلم ، فرأى أبا لھب بعض أهله فى النوم فسأله، فقال: ما وجدت بعدكم راحة، غیر أنی سقیت فى هذہ، وأشار إلى النقرة التی تحت إبھامه، بعتقى ثویبة.11
  ابو لہب نے اپنی باندی کو آزاد کردیا جس کا نام ثویبہ تھا اوراس نے نبی کریم کو دودھ پلایا تھا، پھر مرنے کے بعد ابولہب کو اس کے بعض رشتہ داروں نے خواب میں دیکھا تو اس کے حال کے متعلق سوال کیا تو ابولہب نے بتایا مجھے تمہارے بعد کوئی راحت نہیں ملی البتہ مجھے اس سے پلایا جاتا ہے اور اس نے اپنے انگوٹھے کے نیچے سوراخ کی طرف اشارہ کیا کیونکہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔

امام ابن بطال مالکی بخاری شریف کے متنِ حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

  فبان بروایة معمر أنه سقط من روایة البخارى فى هذا الحدیث: راحة، بعد قوله: لم ألق بعدكم؛ لأنه لا یتم الکلام على ما رواہ البخارى، وكذلک سقط منه: وأشار إلى النقرة التی تحت إبھامه، ولا یقوم معنی الحدیث إلا بذلک، ولا أعلم ممن جاء الوهم فیه.12
  معمر کی روایت سے ظاہر ہوا کہ اس حدیث سے یہ قول ساقط ہے کہ ابولہب نے کہا مجھے تمہارے بعد کوئی راحت نہیں ملی کیونکہ اس کے بغیر امام بخاری کی حدیث مکمل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس حدیث سے یہ قول بھی ساقط ہے کہ ابولہب نے اس سوراخ کی طرف اشارہ کیا جو اس کے انگوٹھے کے نیچے تھا کیونکہ اس کے بغیر حدیث کا معنی مکمل نہیں ہوتا اور مجھے نہیں معلوم کہ کس کے وہم سے حدیث کے یہ الفاظ ساقط ہوئے۔

ابو لہب کو یہ سکون صرف نبی مکرم کی جلال و عظمت کی بنا پر نصیب ہوا چنانچہ اسی حوالہ سے امام بغوی لکھتے ہیں:

  هذا خاص به اكراماً له صلى اللّٰه عليه وسلم .13
  ابولہب کے عذاب میں تخفیف آپ کے اکرام کی وجہ سے ہے۔

بہر کیف ابولہب سخت کافر تھا مگر اس لونڈی کو آزاد کرنے کی برکت سے اﷲ نے اس پر یہ کرم کیا کہ جب دوزخ میں وہ پیاسا ہوتا ہے تو اپنی اس انگلی کو چوستا ہے پیاس بجھ جاتی ہے حالانکہ وہ کافر تھا۔غور طلب بات یہ ہے کہ ابو لہب جوکہ کافر تھا اور اس نے ساری زندگی حضور کی عداوت میں گزاری اور خوشی بھی اﷲ کا نبی سمجھ کر نہیں بلکہ عبداﷲ کا بیٹا یعنی اپنا بھتیجا سمجھ کر منائی مگر اﷲ تعالیٰ نے اسے حضور کی میلاد کے صدقے وخیرات سے محروم نہ کیاتو جب مسلمان جو حضور کی ذات بابرکات سے عقیدت رکھنے والے ہیں میلاد النبی مناتے ہیں وہ بھی حضور کواﷲ تعالیٰ کا رسول اور محبوب سمجھ کرتو ان کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ محروم نہیں فرمائےگا اور ابن جوزی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جب ابولہب جیسے کافر پر میلاد کی خوشی کی وجہ سے رحم فرتا ہے تو مومن کو تو اس خوشی منانے پر جنت میں داخل فرمائےگا۔ 14

روایت پر کیے جانے والے اعتراضات

اس مذکورہ بالا روایت پر معترضین چند قسم کے اعتراضات کرتے ہیں جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ یہ روایت قرآنی نصوص کے مخالف ہے جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کفار کے عذاب میں تخفیف کرنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے۔15 دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ بحالتِ کفر دیکھے گئے خواب کا بیان ہے جو ناقابل اعتبار ہے۔ 16تیسرا اعتراض یہ ہے کہ بوقتِ ولادت حضرت ثویبہ کو آزاد نہیں کیاگیا بلکہ ہجرت کے بعد کیا گیا ہے اور چوتھا یہ کہ چونکہ روایت مرسل ہے لہذا ناقابل قبول ہے۔17 ذیل میں انہیں چار اعتراضات کے تفصیلی جوابات درج کیے گئے ہیں تاکہ اس روایت کی ثقاہت و سالمیت واضح طور پر سامنے آجائے ۔

پہلے اعتراض کا جواب

قرآن وحدیث کا مسلّمہ اصول اور اجماعِ امت ہے کہ کافر کی کوئی نیکی اسے آخرت میں فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اس کے امور خیر کے صلہ میں اسے جنت دی جائے گی نہ اس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ بلکہ اس کے اچھے اعمال کے صلہ میں اسے دنیا میں ہی کشادگی عطا کردی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

  لَا يُخَفَّفُ عَنْھمُ الْعَذَابُ 18
  ان پر سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔

اس آیت مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے جو یہ کہا جاتا ہے کہ ابولہب قطعی کافر تھا 19 تو اس کے حق میں تخفیف عذاب والی روایت کیونکر قبول کی جاسکتی ہے ؟تو پہلی توبات یہ ہے کہ ابو لہب کی تخفیفِ عذاب کی روایت اس لیے فرمانِ باری تعالیٰ کےخلاف نہیں ہے کیونکہ یہ تخفیف رسول مکرم کی خصوصیت کی بنا پر صرف ابو لہب کے ساتھ خاص ہے20 اور کسی کافر کے عذاب میں تخفیف نا ممکن ہے سوائے اس کے جس کے حق میں کوئی نص وارد ہو ۔دوسری بات یہ ہےکہ کسی کافر کو اس کے عمل پر محض بطورِ فضلِ خداوندی فائدہ پہنچانا عقلاً بھی محال نہیں ہے 21 اورابو لہب کے عذاب میں تخفیف بھی اس قبیل سے ہے جو فقط رسول مکرم کے اکرام کے کاخاطر کی گئی ہے۔22

محدثین کرام اس کا یہی جوا ب دیتے ہیں کہ کافر کا وہ عمل جس کا تعلق رسول اﷲ سے ہے وہ رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ اس پر اسے اجر و ثواب ملے گا جیسے حضرت ابو طالب 23 نے آپ کی خدمت کی تو کسی نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ! کیا آپ کی خدمت کے صلہ میں ابو طالب کو کچھ نفع ہواکیونکہ انہوں نے آپ کی خاطر اپنی ذات پر لوگوں کے ظلم برداشت کیےاورآپ کےلیےغصہ ہوجاتےتھے تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:

  نعم، هو فى ضحضاح من النارلولا ذلك لكان هو فى الدرك الأسفل من النار.24
  ہاں(انہیں فائدہ ملا) اگر ایسا نہ ہوتا،تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔

یعنی چونکہ انہوں نے میری خدمت کی ہےاسی لیے انہیں یہ فائدہ نصیب ہوا۔اسی حوالہ سے امام کرمانی لکھتے ہیں کہ اگر تم یہ سوال کرو کہ اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ کافر کو اس کے نیک عمل سے ثواب ہوتا ہے حالانکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

  وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰه هبَاۗءً مَّنْثُوْرً31 25
  اور (پھر) ہم ان اعمال کی طرف متوجہ ہوں گے جو (بزعمِ خویش) انہوں نے (زندگی میں) کیے تھے تو ہم انہیں بکھرا ہوا غبار بنا دیں گے۔

تومیں (یعنی امام کرمانی )کہتا ہوں کہ کافروں کو اس کے نیک عمل فائدہ نہیں پہنچتا اور اس حدیث میں خواب کا ذکر ہے اور خواب دلیل نہیں ہے۔ بر تقدیر تسلیم ہوسکتا ہے کہ جب نیک عمل کا تعلق رسول اﷲ کے ساتھ ہو تو آپ کی خصوصیت کی وجہ سے اس کے عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے جیسا کہ ابو طالب کے نبی کے ساتھ حسنِ عمل کی وجہ سے اس کے عذاب میں تخفیف ہوئی.26

اسی حوالہ سے امام بدر الدین عینی لکھتے ہیں :

  العمل الصالح والخیر الذى یتعلق لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مخصوصا، كما أن أبا طالب أیضا ینتفع بتخفیف العذاب.27
  یعنی کافر کا عمل اور بھلائی جس کا تعلق رسول اﷲ کے ساتھ ہو، اس پر کافر کو اجر وثواب دیا جاتا ہے جیسا کہ ابو طالب کے عذاب میں کمی اس لیے ہوئی کہ انہوں نے آپ کی خدمت کی تھی۔

امام ابن حجر عسقلانی حديث ابی لہب کے فوائد ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  ما یتعلق بالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم مخصوصا من ذلك بدلیل قصة أبى طالب حیث خفف عنه فنقل من الغمرات إلى الضحضاح.28
  وہ اعمال جن کا تعلق بالخصوص ذاتِ رسول اﷲ سے ہو، ان میں ابوطالب کا واقعہ بطوردلیل ہے، جیسے ابو طالب کوجہنم کےہولناک عذاب کے طبقہ سے اوپروالےہلکےدردناک طبقہ میں منتقل کردیاگیا۔

نیز حافظ ابن حجر عسقلانی نے اکثر اقوال نقل فرماکر قابلِ وثوق مسلک نقل کیا ہے اورآخر میں اپنے قول سے اس کی تائید فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وتتمة هذا أن یقع التفضل المذكور إكراما لمن وقع من الكافر البر له ونحو ذلك.29
  اوراس کا خلاصہ یہ ہےکہ اﷲ تعالیٰ اس ہستی کے اکرام کی خاطر فضل فرمادیتا ہے، جس کے لیے کافر وہ عمل کرتا ہے۔

اسی حوالہ سے امام بیہقی لکھتے ہیں:

  وھذا ایضاً لان الاحسان كان مرجعه الى صاحب النبوة فلم یضیع واللّٰه اعلم.30
  یہ بات بھی ایسی ہی ہے اس لیے کہ اس واقعہ میں بھی احسان کا مرجع وہی ذات رسالت ہے لہٰذا وہ نیکی ضائع نہ کی گئی۔ 31

نیز آیت کریمہ میں عدم تخفیف کے معنی کو واضح کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

  ما ورد من بطلان الخیر لكفار فمعناه أنھم لا یكون لھم التخلص من النار ولا دخول الجنة ویجوز أن یخفف عنھم من العذاب الذى یستوجبونه على ما ارتكبوه من الجرائم سوى الكفر بما عملوه من الخیرات.32
  کافر کے بارے میں جو وارد ہے کہ اس کا عملِ خیر باطل ہے اس کا معنی یہ ہے کہ کافر دوزخ سے نجات پاکر جنت میں داخل نہ ہوگا البتہ ممکن ہے کہ وہ اپنے اچھے اعمال کی وجہ سے کفر کے علاوہ باقی جرائم کے عذاب میں تخفیف پالے۔

اسی طرح اس قضیہ کو بیان کرتے ہوئے امام صالحی شامی امام ابن منیر کے حوالے سے لکھتے ہیں:

  هما قضیتان إحداهما محال، وهى اعتبار طاعة الكافر مع كفره، لأن شرط الطاعة أن تقع بقصد صحیح، وهذا مفقود من الكافر. الثانیة: إثبات ثواب على بعض الأعمال تفضلاً من اللّٰه تعالى وهذا لا یحیله العقل، فإذا تقرر ذلك لم یكن عتق أبی لھب لثویبة قربة معتبرة، ویجوز أن یتفضل اللّٰه تعالى علیه بما شاء كما تفضل على أبى طالب.33
  یہ دو قضیے ہیں۔ جن میں سے ایک محال ہے۔ وہ کافر کی اطاعت کا اعتبار اس کے کفر کے ہوتے ہوئے محال ہے۔ کیونکہ اطاعت کے لیے شرط ہے کہ وہ صحیح قصد سے واقع ہو۔ کافر میں یہ مفقود ہوتی ہے۔دوسرا قضیہ یہ ہے کہ اس کے بعض اعمال پر ثواب کا اثبات کیا جائے یہ رب تعالیٰ کی طرف سے مہربانی ہے۔ عقل اسے محال نہیں سمجھتی۔ جب یہ امر ثابت ہوگیا تو پھر ابولہب کا ثویبہ کو آزاد کرنا کسی معتبر قربت کی وجہ سے نہ تھا۔ بلکہ یہ اس طرح کی عنایت ہے جس طرح رب تعالیٰ نے ابو طالب پر مہربانی کی تھی۔

ابو لہب کو راحت وسکون ملنے کے حوالہ سے شیخ عیثمین نجدی لکھتے ہیں:

  ابولہب کو اپنے انگوٹھے کے سوراخ سے دوزخ میں پانی پلایا گیا اور یہ نبی کی برکت ہے ورنہ ابو لہب کافر اس کاکب مستحق تھا کہ اس کو دوزخ میں انگوٹھے سے پانی پلایا جاتا ہے اور اس کے عذاب میں تخفیف نبی کی خصوصیت ہے۔34

اسی حوالہ سے شیخ سلیم ﷲ خان لکھتے ہیں:

  اور اس کو خصوصیت بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس واقعہ کا تعلق حضور کے ساتھ تھا جس کی وجہ سے ابولہب کے ساتھ یہ خصوصی رعایت کی گئی۔ 35

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:

  لما قضى اللّٰه الخلق كتب فى كتابه فھو عنده فوق العرش إن رحمتى غلبت غضبى.36
  جب اﷲ تعالیٰ نے عرش کے اوپر اپنی کتاب میں مخلوق کی تقدیر لکھی تو اس میں لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔

اس حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ دوزخ میں دائمی عذاب میں ہیں ان سے بھی اﷲ تعالیٰ کی رحمت منقطع نہیں ہوتی کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت میں ہے کہ ان کے لیے ایسا عذاب پیدا کرے جس میں ان کے لیے دوسرے عذاب کی بہ نسبت تخفیف اور رحمت ہو۔ اور حضرت ابو سعید خدری کی حدیث میں ہے کہ جب کافر اسلام لے آئے تو اس کے لیے اطاعت گزاروں کے نیک اعمال کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے اور نبی کریم نے فرمایا جب کافر اسلام لے آئے اور اسلام میں نیک عمل کرے تو اس کا ہر نیک عمل لکھ دیا جاتاہے، اس کا ہر گناہ مٹادیا جاتا ہے اور نبی نے حضرت حکیم بن حزام سے فرمایا:

  أسلمت على ما سلف من خیر.37
  تم اپنی ان تمام نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے گزر چکی ہیں۔

خلاصۂ بحث یہ ہے کہ اس حدیث کی ثقاہت اور قبولیت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس روایت پر اعتماد کرتے ہوئے امام بخاری نے "صحیح البخاری " میں، 38 امام بخاری کے استاد امام عبد الرزاق نے "مصنف عبد الرزاق " میں، 39امام ابو عوانہ نے"مستخرج ابی عوانۃ" میں،40 امام طبرانی نے "مسند الشامیین"میں، 41 امام مروزی نے "السنۃ"میں،42 امام بیہقی نے اپنی پانچوں کتابوں "البعث والنشور"43 "السنن الصغیر"44 "السنن الکبری"45 "شعب الایمان" 46 اور "دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ " میں،47 امام ابو القاسم حنائی نے میں"الحنائیات"، 48 امام ابن اثیر نے "جامع الاصول"میں، 49 امام ابن سعد نے "طبقات ابن سعد"میں، 50امام دارقطنی نے "الموتلف والمختلف" میں، 51 امام ابن کثیر نے"البدایۃ والنہایۃ" میں ،52 امام بغوی نے "شرح السنۃ"میں، 53 امام سہیلی نے"الروض الانف" میں، 54 امام ابن جوزی نے"صفوۃ الصفوۃ" میں،55 امام ابن عساکر نے میں"تاریخ دمشق الکبیر"، 56 امام ذہبی نے"سیر اعلام النبلاء" میں57 اور امام ابن حسام الدین ہندی نے "کنز العمال"میں روایت کیا ہے۔ 58 اگر یہ روایت قابل حجت نہ ہوتی تو یہ اجل ائمہ ومحدثین یہ روایت اپنی اپنی کتب میں کیوں بیان فرماتے؟ ان اجل ائمہ ومحدثین نے نہ صرف اسے روایت کیا ہے بلکہ اس سے استنباط کرتے ہوئے اس کی ماقبل مذکورہ شرح بیان بھی کی ہے جس سے اس روایت کی ثقاہت واضح ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی آیت کریمہ کے ساتھ مطابقت بھی واضح ہوجاتی ہے۔

دوسرا اعتراض اور اس کا جواب

اس روایت کے حوالہ سے کیا جانے والا دوسرا شبہ کہ ابولہب کے بھائی حضرت عباس جنہوں نے یہ خواب دیکھا وہ اس وقت کافر تھے اور ایک کافر کے خواب سے کوئی مسئلہ نہ ثابت ہوتا ہے اورنہ ہی شرعاً معتبر ہوتاہے۔ 59 تو اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ واقعہ بطور تائید ہے نہ کہ مستقل دلیل کیونکہ اس مسئلہ ءِ میلاد النبی پر بنیادی دلائل قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ اعمال صحابہ اور امت کا تعامل ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ان سے کسی حقیقتِ واقعہ پر بطور استنباط روشنی تو پڑسکتی ہے جس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ قرآن مجید نے فی الجملہ غیر مسلم کے خواب کا سچا ہونا اور اس سے بعض حقائق کا پتہ چلنا بیان کیا ہے جیسا کہ سورۃ یوسف میں اس کا ذکر موجود ہے کہ فی الجملہ کفار کے خواب کا سچا ہونا ایک حقیقت ہےجس کا انکار قرآن کا انکار ہےکیونکہ قیدخانے میں حضرت یوسف کو جب دوکافر ساتھیوں نے خواب بیان کیے اور آپ نے ان کا شرعاً اعتبار کیا اور اس کی تعبیر فرمائی تو ان کے خواب سچ ثابت ہوئے۔ 60

تیسری بات یہ ہے کہ یہاں دوباتیں ہیں ایک یہ کہ حضرت عباس کو خواب میں نظر آیا کہ ابولہب نے کہا کہ ثویبہ کی آزادی کی برکت سے پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور دوسری یہ کہ حضرت عباس نے بیداری کی حالت میں فرمایا:

  وذالك أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ولد یوم الاثنین وكانت ثویبة بشرت أبا لھب بمولده فأعتقھا.61
  اور یہ راحت و سکون اس وجہ سے تھا کہ نبی کریم پیر کے دن دنیا میں تشریف لائے تو حضرت ثویبہ نے ابو لہب کو آپ کی ولادت کی اطلاع دی تھی تو ابو لہب نے (اس خوشخبری کی وجہ سے ) حضرت ثویبہ کو آزاد کردیا تھا ۔

یعنی حضرت عباس نے خواب میں جس واقعہ کو دیکھا تو اس کی علت آپ نے حالتِ بیداری میں بیان کی تویہ صرف خواب نہیں بلکہ صحابی رسول کا ایک قول ہے جو غیر قیاسی واجتہادی ہونے کی وجہ سے مرفوع کا درجہ رکھتا ہے۔

چوتھی بات یہ کہ اگر معاذاﷲ یہ غلط قسم کا خواب تھا تو حضرت عباس اسے بیان ہی نہ کرتے اور اگر انہوں نے بیان کرہی دیا تھا تو دیگر صحابہ کرام وتابعین کرام رحمۃ اللہ علیہم اس کی تردید کرتے حالانکہ ایسی کوئی بات کتب احادیث میں نہیں بلکہ سبھی نے اسے نقل کرکے اس سے مسائل کا استنباط کیا ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ صرف خواب والا واقعہ نہیں ہے بلکہ ابو لہب کی دی جانے والی راحت کی علت کو حضرت عباس نے بذاتِ خود حالتِ بیداری میں بیان کیا ہےجو کہ قول صحابی کا درجہ رکھتا ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب

یہاں ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ حضرت عباس کی بات اس لیے قابل اعتبار نہیں کہ اس وقت وہ حالت کفر میں تھے۔یہ واقعہ اگرچہ حضرت عباس کے اسلام لانے سے پہلے کا ہے لیکن اسے روایت کرتے وقت ان کا مشرف بہ اسلام ہونا شک وشبہ سے بالاتر ہے کیونکہ یہ روایت انہوں نے شرف صحابیت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منوّرہ میں بیان کی تھی۔ لہٰذا آپ کی یہ روایت اسلام لانے کے بعد کی ہے اور ہر طرح سے قابل لحاظ ولائق استناد ہے۔

اس وقت حضرت عباس اسلام لاچکے تھے کیونکہ خواب کا واقعہ بدر کے تقریباً دو سال بعد کا ہے اس لیے کہ ابو لہب بدر کے ایک سال بعد مرا۔ پھر ایک سال بعد خواب میں حضرت عباس سے اس کی ملاقات ہوئی حالانکہ جب حضرت عباس بدر میں شرکت کے لیے آئے تو رسول اﷲ نے صحابہ کرام سے یہ فرمادیا تھا:

  ومن لقى العباس بن عبد المطلب فلا یقتله فإنه أخرج كرها.62
  جو عباس بن عبد المطلب کو پائے وہ اسے قتل نہ کرے کیونکہ وہ مجبوراً شریک ہوئے ہیں۔

اس کی تائید امام احمد بن حنبل کی اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے جسےوہ حضرت ابن عباس سے یوں روایت کرتے ہیں :

  كان الذى اسر العباس بن عبدالمطلب ابااليسر بن عمرو وهو كعب بن عمرو احد بنى سلمة فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم كیف اسرته یا ابا اليسر قال لقد اعانتى علیه رجل ما رأیته بعد ولا قبل ھیئته كذا هیئته كذا قال فقال رسول اللّٰه لقد اعانك علیه ملك كریم وقال للعباس یا عباس افد نفسك وابن اخیك عقیل بن ابی طالب ونوفل بن الحارث وحلیفك عتبة بن جحدم احد بنى الحارث بن فھر قال فابى وقال انى قد كنت مسلماً قبل ذلك وانما استكرهونى قال اللّٰه اعلم بشانك ان یك ماتدعى حقا فاللّٰه یجزیك بذلك واما ظاھر أمرك فقد كان علینا فافد نفسك وكان رسول اللّٰه قد اخذ منه عشرین اوقیة ذهب فقال یارسول اللّٰه احسبھا لى من فداى قال لا ذاك شیى اعطاناه اللّٰه منك قال فانه لیس لى مال قال فاین المال الذى وضعته بمكة حیث خرجت عند ام الفضل ولیس معكما احد غیركما فقلت ان اصبت فى سفرى هذا فللفضل كذا ولقثم كذا ولعبداللّٰه كذا قال فوالذى بعثك بالحق ما علم بھذا احد من الناس غیرى وغیرھا وانى لاعلم انك رسول اللّٰه.63
  جس شخص نے (جنگ بدرمیں) عباس بن عبدالمطلب کو گرفتار کیا وہ ابوالیسر کعب بن عمرو تھے۔ ان کا تعلق بنو سلمہ سے تھا۔ ان سے رسول اﷲ نے پوچھا ابوالیسر تم نے ا س کو کیسے گرفتار کیا تھا؟ انہوں نے کہا اس معاملہ میں ایک ایسے شخص نے میری مدد کی تھی جس کو میں نے اس سے پہلے دیکھا تھانہ اس کے بعد، اس کی ایسی ایسی ہیئت تھی۔ تب رسول اﷲ نے فرمایا تمہاری مدد ایک مکرم فرشتہ نے کی تھی۔ اور عباس سے فرمایا: اے عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن الحارث کا فدیہ بھی دو اور اپنے حلیف عتبہ بن جحدم کا فدیہ بھی دو جن کا تعلق بنو الحارث بن فہر سے ہے۔ عباس نے ان کا فدیہ دینے سے انکار کیا اور کہا میں اس غزوہ سے پہلے اسلام قبول کرچکا تھا یہ لوگ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لائے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اﷲ تمہارے معاملہ کو خوب جاننے والا ہے اگر تمہارا دعویٰ برحق ہے تو اﷲ تم کو اس کی جزا دے گا۔ لیکن تمہارا ظاہر حال یہ ہے کہ تم ہم پر حملہ آور ہوئے ہو سو تم اپنا فدیہ ادا کرو۔ اور رسول اﷲ ان سے بیس اوقیہ سونا (بطور مال غنیمت) وصول کرچکے تھے۔ عباس نے کہا یارسول اﷲ! اس بیس اوقیہ سونے کو میرے فدیہ میں کاٹ لیجئے۔آپ نے فرمایا :نہیں! یہ وہ مال ہے جو اﷲ نے ہمیں تم سے لے کر دیا ہے۔ عباس نے کہا میرے پاس اور مال تو نہیں ہے۔ حضور نے فرمایا: وہ مال کہاں ہے جو مکّہ سے روانگی کے وقت ام الفضل کے پاس رکھا تھا اس وقت تم دونوں کے پاس اور کوئی نہیں تھا اور تم نے یہ کہا تھا کہ اگر میں اس مہم میں کام آگیا تو اس مال میں سے اتنا فضل کو دینا اتنا قثم کو دینا اور اتنا عبداﷲ کو دینا ۔تب عباس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میرے اور ام الفضل کے سوا اس کو اور کوئی نہیں جانتا اور اب مجھے یقین ہوگیا کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں۔

اسی طرح امام ابن حبان لکھتے ہیں:

  فقال العباس... قال والذى بعثك بالحق ما علم بھذا احد من الناس غیرى وغیرهما وانى اعلم انك رسول اللّٰه.64
  حضرت عباس نے عرض کیا ۔۔۔ مجھے اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اس مال کو میرے اور آپ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور نہ کسی کو اس کا علم تھا میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔

اسی طرح ا مام سیوطی لکھتے ہیں:

  فقال العباس واللّٰه انى لاعلم انك رسول اللّٰه واللّٰه ان هذا شى ماعلمه احد غیرى آ وغیرام الفضل .65
  حضرت عباس بولے! اللہ کی قسم مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ بخدا اس معاملے کا میرے اور ام الفضل کے سوا کسی کو قطعا علم نہ تھا۔

پھر دوسری بات یہ ہے کہ اگر ان کو حالتِ کفر پر تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر بھی یہ روایت قابل قبول ہے کیونکہ وقت تحمل اسلام شرط نہیں بلکہ وقت ادا شرط ہے اور جب تابعین نے آپ سے یہ بات سنی تو اس وقت یقیناً آپ مسلمان تھے اور محدثین نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ اگر کسی شخص نے حالت کفر میں حضور سے بات سنی پھر اس نے اسے حالت اسلام میں بیان کیا خواہ حضور کا وصال ہوچکا ہو تب بھی وہ مقبول ہے۔ ہاں اگر اس نے ظاہری حیات میں اسلام قبول کرلیا تو صحابی بھی قرار پائے گا ورنہ وہ تابعی ہوگا۔ چنانچہ شیخ احمد محمد شاکر شرح الفقیہ میں لکھتے ہیں:

  أن من سمع من النبى صلى اللّٰه عليه وسلم شيئاً قبل إسلامه ثمَّ أسلم بعد وفاة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فإنه وإن كان تابعياً إلا أن حديثه موصول ليس بمرسل لاخلاف فى الاحتجاج به لأن العبرة بالرواية عنه صلى اللّٰه عليه وسلم وهذا قد روى عنه وھو وإن كان غير عدل حال التحمل لكنه صار عدلًا عند الأداء.66
  وہ شخص جس نے رسول اﷲ سے اسلام لانے سے قبل کوئی بات سنی اور پھر آپ کے وصال کے بعد وہ اسلام لایا (مثلاً ثنوخی ہرقل کا قاصد) تو اب وہ اگرچہ تابعی ہے مگر حدیث اس کی متصل ہوگی کیونکہ اعتبار روایت کا ہے یعنی اس نے وہ روایت حضور سے کی ہے اگرچہ وہ بوقت تحمل(مسلمان)عادل نہ تھا لیکن بوقت ادا توعادل تھا۔

ان تمام مذکورہ بالا عبارات کا خلاصۂ یہ ہے کہ حضرت عباس کا مذکورہ بالا بیان کردہ واقعہ اگرچہ کہ خواب کا ہے لیکن انہوں نے اس کو حالتِ ایمان میں بیان کیا ہے اور ساتھ ہی اس میں موجود سکون و راحت کی علت بھی حالتِ بیداری میں بیان کی ہے جو کہ ایک صحابی کے قول کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کو ائمہ محدثین و ائمہ فقہاء نے قابل استدلال جانتے ہوئے کئی مختلف نوعیتوں کے مسائل مستنبط کر کے موثوق گردانا ہے ۔

تیسرا اعتراض اور اس کاجواب

اسی مذکورہ روایت پر کیے جانے والا تیسرا اعتراض جو درحقیقت اس واقعہ کا انکار کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ ابولہب نے اپنی لونڈی حضرت ثویبہ کو"ولادت نبوی" کے موقع پر آزاد نہیں کیا تھا بلکہ نبی مکرم کی ہجرت کے بعد آزاد کیا تھا۔یہ سوال انتہائی لاعلمی کی بنیاد پر کیاجاتاہے جس کا مقصد صرف اور صرف اس روایت کو جھٹلانے کے سواکچھ نہیں کیونکہ اسی روایت کو امام صالحی شامی نے بھی نقل کیا ہے اور پھر اس کو ضعیف قراردیا ہے۔ چنانچہ امام صالحی شامی تحریر کرتے ہیں:

  واختلفوا متى أعتقھا فقيل: أعتقھا حين بشّرته بولادة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وهو الصحيح وقيل إن خديجة سألت أبا لھب فى أن تبتاعھا منه ليعتقھا فلم يفعل فلما هاجر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى المدينة أعتقھا أبو لھب وهو ضعيف.67
  حضرت ثویبہ کی آزادی کے بارے میں اختلاف کیاگیا ہےتو ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ ابو لہب نے آپ کو اس وقت آزاد کیا تھا جب آپ نے اس کو آپ کی ولادت کی خوشخبری دی تھی اور یہی قول صحیح ہے اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبری نے ابو لہب سے حضرت ثویبہکو بیچنےکا کہا تھا تا کہ وہ انہیں آزاد کرسکیں لیکن ابو لہب نے آپ کو نہیں بیچا۔پھر جب رسول اللہ مدینہ منوّرہ ہجرت فرماگئے تو اس وقت ابو لہب نے آپ کو آزاد کیاحالانکہ یہ قول ضعیف ہے۔

یعنی یہ اعتراض ہی غلط ہے کہ حضرت ثویبہ کو ہجرت کے بعد آزاد کیاگیا تھا بلکہ صحیح قول یہی ہے کہ آپ کی ولادت کی بشارت کے معاً بعد ہی ابو لہب نے آپ کو آزاد کردیا تھا۔

ایک اہم ترین بات

صحیح بخاری کی روایت میں ابو لہب کے سکون وراحت پانے کا جو سبب بیان کیا گیا ہے وہ حضرت ثویبہ کی آزادی ہے۔ 68 اگر یہ آزادی ہجرت کے بعد عمل میں آئی تھی تو پھر اسے علت بنانے کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟حضرت ثویبہ کی آزادی کے وقت کو بیان کرتےہوئے امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

  وكانت ثویبة بشرت أبا لھب بمولده فأعتقھا.69
  اور ثویبہ نےابولہب کو آپ کی ولادت کی خوشی کی خبرسنائی تواس نےخوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کردیا۔

اسی طرح ابن قیم الجوزیہ لکھتے ہیں:

  فأعتقھا أبو لھب سرورا به.70
  ابو لہب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزاد کردیا۔

امام عبد الرحمن سہیلی لکھتے ہیں:

  فقال لھا: اذهبى، فأنت حرة فنفعه ذلك .71
  اس (ابولہب)نے اسے کہا جا تو آزاد ہے۔ اس چیز نے اسے (دوزخ کی آگ میں تخفیف کی صورت میں ) نفع دیا۔ 72

ابن کثیر لکھتے ہیں:

  أعتقھا من ساعته فجوزى بذلك لذلك.73
  ابو لہب نے اس (ثویبہ) کو اسی وقت آزاد کردیا جس کی وجہ سے اسےاس کی جزا دی گئی۔

امام ابن حجر مکی ہیتمی کے میلاد شریف پرلکھے ہوئے رسالہ "مولد النبی " میں آپ لکھتے ہیں:

  فخفف اللّٰه عنه من عذابه كل لیلة اثنین جزاء لفرحه فیھا بمولده صلى اللّٰه عليه وسلم .74
  پس اﷲ تعالیٰ نے ہر سوموار کی رات ابولہب کے عذاب میں تخفیف کردی اس لیے کہ اس نے حبیب خدا کی ولادت کا سن کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔

امام زرقانی نے بھی باقی اقوال کا رد کرتے ہوئے اسی موقف کو صحیح قرار دیا ہے:

  أعتقھاأبو لھب حین بشرته بولادته صلى اللّٰه عليه وسلم على الصحیح.75
  صحیح قول کےمطابق ابولہب نے اسے(ثویبہ)کوآزاد کردیاجب اس نے اسےآپ کی ولادت کی خبرسنائی۔

اسی طرح عبداﷲ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی لکھتے ہیں:

  وارضعته ثویبة عتیقة ابى لھب اعتقھا حین بشرته بولادته صلى اللّٰه عليه وسلم .76
  رسول اﷲ کو ثویبہ نے دودھ پلایا جو ابو لہب کی آزاد کردہ تھی ۔ابو لہب نے ثویبہ کو اس وقت آزاد کیا تھا جب اس نے ابو لہب کو آپ کی ولادت کی بشارت دی تھی۔

اسی قول کو نقل کرتے ہوئےرشید احمد لدھیانوی لکھتے ہیں کہ ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے جب آنحضور کی ولادت کی خبر ابولہب کو پہنچائی تو اس نے خوشی میں ثویبہ کو آزاد کردیا۔ 77

ان تمام مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت ثویبہ کی آزادی اصلاً ضعیف قول کےمطابق ہجرت کے بعد78نہیں بلکہ اس صحیح قول کےمطابق اس وقت وقوع پذیر ہوئی جب انہوں نے ابو لہب کو نبی مکرم کی ولادت کی خوشخبری دی ۔79

چوتھا اعتراض اور اس کا جواب

اس روایت پر کیا جانے والا چوتھا اور آخری اعتراض یہ ہے کی یہ روایت مرسل ہے جو کہ ناقابل اعتبار ہے چنانچہ امام صالحی شامی نے اس اعتراض کو یوں نقل کیا ہے:

  والخبر مرسل ارسله عروة ولم یذكر من حدثه به.80
  یہ (مذکورہ بالا)روایت مرسل ہے جس کو حضرت عروہ نے مرسلاً روایت کیا ہے اور ان کا ذکر نہیں کیا جس سے یہ حدیث مبارکہ روایت کی ہے۔

یعنی مرسل حدیث اس کو کہتے ہیں جس حدیث کی اخیر سند سے تابعی کے بعد کوئی راوی ساقط ہوجیسے کوئی تابعی حدیث روایت کرتے ہوئے کہے کہ قال رسول اﷲ ۔ اس بحث میں حدیثِ مرسل سے مراد ایسی حدیث ہے کہ جس حدیث کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد راوی حذف ہو جیسا کہ مذکورہ بالا امام شامی کی عبارت سے واضح ہوتا ہے۔

اس اعتراض کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کو مرسل کہنا تو درست ہے لیکن اس کو ضعیف کہہ کر ناقابلِ حجت کہنا درست نہیں اس لیے کہ مرسل روایت بھی قابلِ حجت ہوتی ہےبالخصوص آئمہ ثلاثہ یعنی امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مرسل ہر حال میں مقبول ہے چنانچہ اس اصول کو بیان کرتے ہوئے امام ابن جریر اپنی کتاب میں تحریر فرماتےہیں:

  إجماع التابعین على قبول المرسل وأنه لم یأت عن أحد منھم إنكاره ولا عن أحد من الأئمة إلى رأس المئتین الذین هم من أهل القرون الفاضلة، المشھود لھم من المشرع صلوات اللّٰه وسلامه علیه بالخیریة.81
  حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اجماع ہے اور کسی بھی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں اور نہ ہی اس کے بعد دو سو سال تک آئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا ہے اور یہی وہ قرون فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی شہادت رسول اﷲ نے دی ہے۔

تاہم امام شافعی بھی کچھ شرائط کے ساتھ مرسل حدیث کو قبول کرتے ہیں چنانچہ صاحب تیسیر اس کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  قبوله بشروط: أى یصح بشروط، وهذا عند الشافعى، وبعض أهل العلم.82
  تیسرا قول یہ ہے کہ مرسل شرائط کے ساتھ مقبول ہوگی یہ امام شافعی اور بعض دوسرے اہل علم کی رائے ہے۔

یعنی ان عبارات سے یہ ثابت ہوا کہ یہ اعتراض کرنا کہ مرسل روایت ناقابل اعتبار ہے تو یہ غلط بات ہے کیونکہ ائمہ مجتہدین ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک یہ مرسل روایت قابل اعتبار و استناد ہے لہذا اعتراض رفع ہوا۔پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت اگرچہ مرسل ہے لیکن مقبول ہے اس لیے کہ امام بخاری نے اسے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء وحفّاظِ حدیث نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے اِستشہاد واِستناد کیا ہے چنانچہ امام عبد الرحمن سہیلی لکھتے ہیں:

  قال ما لقیت بعدكم راحة غیر أنى سقیت فى مثل هذه وأشار إلى النقرة بین السبابة والإبھام بعتقى ثویبة، وفى غیر البخارى أن الذى رآه من أهله هو أخوه العباس قال مكثت حولا بعد موت أبى لھب لا أراه فى نوم ثم رأیته فى شر حال فقال ما لقیت بعدكم راحة إلا أن العذاب یخفف عنى كل یوم اثنین وذلك أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد یوم الاثنین وكانت ثویبة قد بشرته بمولده فقالت له أشعرت أن آمنة ولدت غلاما لأخیك عبد اللّٰه؟ فقال لھا: اذهبى، فأنت حرة فنفعه ذلك.83
  (ابولہب) نے کہا میں نےتمہارے بعد کوئی آرام نہیں پایا بجز اس کے کہ مجھ پرہر پیرکےدن عذاب ہلکا کردیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اﷲ کی ولادتِ باسعادت پیرکےدن ہوئی اور ثویبہ نے اسے آپ کی ولادت باسعادت کی خوشخبری دی تھی اور اسے کہا تھا :کیا تجھے پتہ چلا کہ حضرت آمنہ ()کے ہاں تیرے بھائی حضرت عبداﷲ()کا بیٹا پیدا ہوا ہے؟ اس نے اسے کہا جا تو آزاد ہے۔ اس چیز نے اسے (دوزخ کی آگ میں) نفع دیا. 84

اسی حوالہ سے امام القراء حافظ شمس الدین ابن الجزری اپنی کتاب "عرف التعریف بالمولد الشریف"میں لکھتے ہیں:

  قد رئى أبو لھب بعد موته فى النوم فقیل له: ما حالك؟ فقال: فى النار إلا أنه یخفّف عنى كل لیلة اثنین وأمصّ من بین إصبعى هاتین ماء ً بقدر هذا وأشار لرأسى إصبعیه وإن ذلك بإعتاقى لثویبة عند ما بشّرتنى بولادة محمد صلى اللّٰه عليه وسلم وهإرضاعھا له فإذا كان أبو لھب الكافر الذى نزل القرآن بذمّه جوزى فى النار لفرحه لیلة مولد محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فما حال المسلم الموحّد من أمة محمد صلى اللّٰه عليه وسلم ببشره بمولده وبذل ما تصل إلیه قدرته فى محبته؟ لعمرى إنما یكون جزاؤه من اللّٰه الكریم أن یدخله بفضله جنة النعیم.85
  ابولہب کے مرنے کے بعد اس کو کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: تیرا حال کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ جہنم میں جل رہا ہوں لیکن ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے اور اس انگلی کے سرے سے اشارہ کر کے کہا کہ اتنی مقدار انگلیوں سے پانی ملتا ہے جسے میں چوستا ہوں ۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ جب میری لونڈی ثویبہ نے مجھے نبی کریم کی ولادت کی خوشخبری سنائی تو میں نے اسے آزاد کردیا، اور اس نے آپ( ) کو دودھ پلایا۔ ابولہب جیسا کافر جس کی مذمت قرآن پاک نے فرمائی ہے، وہ بھی حضور نبی کریم کی ولادت کی خوشی منانے کی وجہ سے جہنم میں راحت وسکون پائے تو آپ کے مومن وموحد غلام کا کیا کہنا۔ یقینا ًاللہ تعالیٰ اسے خلد برین میں داخل فرما کر اس کا بدلہ عطا فرمائے گا۔

اسی کو بیان کرتے ہوئے حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی اپنی کتاب"مورد الصادی فی مولد الھادی صلى اللّٰه عليه وسلم" میں لکھتے ہیں:

  قد صح ان ابا لھب یخفف عنه عذاب النارفى مثل یوم الاثنین لاعتاقه ثویبة سرورا بمیلاد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ثم انشد:
إذا كان هذا كافرٌ جاء ذمّه
وتبّت یداه فی الجحیم مخلّدا
أتی أنّه فی یوم الاثنین دائماً
یخفّف عنه بالسّرور بأحمدا
فما الظّنّ بالعبد الذى كان عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا.86

  یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ابو لہب پر ہر پیر کے دن عذاب کی تخفیف کی جاتی ہے کیونکہ اس نے نبی کریم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کیا تھا، اس کے بعد انہوں نے یہ شعر کہے: یہ کافر تھا جبکہ اس کی مذمت کتاب اللہ میں آئی ہے کہ ٹوٹ گئے اس کے دونوں ہاتھ اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا لیکن حدیث میں آیا ہے کہ ہر پیر کے دن اس سے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہےکہ اس نے حضور نبی کریم کی ولادت کی خوشی کی تھی۔ کیا خیال ہے اس بندہ مومون کے بارے میں جو حضور نبی کریم کی ولادت کی خوشیان مناتا رہا اور توحید وایمان کی حالت میں جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی"مدارج النبوۃ " میں حضور کی رضاعت کے وصل میں اسی ابو لہب کے واقعہ کو نقل فرمانے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

  دراینجاسند است مراهل موالید راكه درشب میلاد آنحضرت صلى اللّٰه عليه وسلم سرور سرور كنند وهذل نمایند یعنى ابولھب كه كافر بود وقرآن بمذمت وے نازل شدہ چوں بسرور میلاد آنحضرت جزا داده شد تا حال مسلمان كه مملوست بمحبت وسرور و بذل مال در وے چه باشد ولیكن باید كه ازبدعتھاكه عوام احداث كرده انداز تغنى وآلات محرمه و منكرات خالى باشد تا موجب حرمان از طریقه اتباع نگردد.87
  اس واقعہ میں میلاد مصطفیٰ منانے والوں کے لیے بڑی دلیل ہے۔ جو حضور کی شب ولادت میں خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں یعنی ابولہب جو کافر تھا جب حضور کی ولادت کی خوشی اور لونڈی کے دودھ پلانے کی وجہ سے اسے انعام دیا گیا تو اس مسلمان کا کیا ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرا ہوا ہے اور مال خرچ کرتا ہے لیکن چاہئیے کہ محفلِ میلاد شریف عوام کی بدعتوں یعنی گانے اور حرام باجوں وغیرہ سے خالی ہو کیونکہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہوجاتا ہے۔

اسی واقعہ کےنقل کے بعد علامہ عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں کہ پس جب ابو لہب جیسے کافر پر آپ کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہوگئی تو جو کوئی امتی آپ کی ولادت کی خوشی کرے اور اپنی قدرت کے موافق آپ کی محبت میں خرچ کرے کیوں کرنہ اعلیٰ مرتبہ کو پہنچے گا ۔ 88

اسی طرح عبداﷲ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی لکھتے ہیں:

  وارضعته ثوبیه عتیقة ابی لھب اعتقھا حین بشرته بولادته صلى اللّٰه عليه وسلم وقد رؤى ابو لھب بعد موته فى النوم فقیل له ما حالك؟ فقال فى النار الا انه خفف عنى كل اثنین وأمص من بین اصبعى هاتین ماء واشار برأس إصبعه وإن ذلك باعتاقى لثوبیة عندما بشر تنى بولادة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وبإرضاعھا له.89
  رسول اﷲ کو ثویبہ نے دودھ پلایا جو ابو لہب کی آزاد کردہ تھی۔ ابو لہب نے ثویبہ کو اس وقت آزاد کیا تھا جب اس نے ابو لہب کو آپ کی ولادت کی بشارت دی تھی۔ موت کے بعد ابو لہب کو خواب میں دیکھا گیا اور اس سے پوچھا گیا تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے کہا جہنم میں ہوں لیکن ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے اور اس نے اپنی انگلی کے سَر کی طرف اشارہ کرکے کہا :میں اس کو چوستا ہوں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو اس وقت آزاد کیا تھا جب اس نے نبی کی ولادت کی بشارت دی تھی اور آپ کو دودھ پلایا تھا۔

ان محدثین کرام اور اسلاف کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبداﷲ کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول اﷲ کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا؟ بلکہ ابن ِجوزی نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا۔ 90

مذکورہ اعتراض کے جواب میں تیسری بات یہ ہے کہ یہ روایت فضائل ومناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال وحرام میں اور جمہور محدثین کا متفقہ اصول ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی قابل عمل ہوتی ہے چنانچہ امام نووی لکھتے ہیں:

  انھم قد یروُون عنھم احادیث الترغیب والترهیب وفضائل الاعمال والقصص واحادیث الزھد ومكارم الاخلاق ونحو ذلك ممّا لا تتعلق بالحلال والحرام وسائرالاحكام ھذا الضرب من الحدیث یجوز عنداھل الحدیث وغیرھم التساھل فیه وروایة ماسوى الموضوع منه والعمل به لان اصول ذلك صحیحة مقررة فى الشروع معروفة عند اھله.91
  حضراتِ محدثین ضعیف راویوں سے ترغیب، ترہیب، فضائل اعمال، قصص، زہداورمکارم اخلاق میں احادیث روایت کرتے ہیں لیکن حلال وحرام کے احکام سے تعلق رکھنے والی احادیث ایسے راویوں سے بالکل روایت نہیں کرتے، اس قسم کی احادیث ضعیف راویوں سے روایت کرنا اور ان پر عمل کرنامحدثین کے نزدیک جائز ہے کیونکہ یہ اصول شریعت میں صحیح ومقرر اور اہل شریعت کے ہاں معروف ہے۔

خلاصۂِ کلام یہ ہے کہ اس حدیث کے قابلِ استناد واستدلال ہونے کی دلیل حضرت عباس کا اسے بیان کرنا، امام بخاری کا بطور حدیث اسے قبول کرنا اور درجنوں ائمہ حدیث کا اپنی اپنی کتب میں اسے شرعی قواعد وضوابط کے طور پر درج کرکے اس سے میلاد النبی منانے کی شرعی اباحت کا استدلال واستنباط کرنا اس روایت کے قابلِ قبول اور حجت ہونے کے لیے کافی ہے اور اس پر کیے جانے والے مذکورہ بالا اعتراضات در حقیقت اشکالات ہیں جن کا حل بیان کیا جا چکا ہے ۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ اللہب 111: 1-5
  • 2 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:99
  • 3 ابو الفتح محمد بن محمدالشھیر بابن سیّدالناس،عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-1، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1993م، ص:40
  • 4 ابوبکر احمد بن حسین البیھقی، دلائل النبوۃ للبیھقی، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1988م، ص:184
  • 5 ابو الفضل عیاض بن موسی السبتی، الشفاء بتعریف حقوق المصطفیﷺ ، ج-1، مطبوعۃ:دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:261
  • 6 ٔابو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-9، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1379ھ، ص: 145
  • 7 شمس الدین محمد بن أبی بکر ابن قیم الجوزیۃ، تحفۃ المودود بأحکام المولود، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، دمشق، السوریۃ، 1971م، ص: 28
  • 8 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:5101 ، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 912
  • 9 أبو بکر أحمد بن الحسین البیہقی، ،شعب الایمان، حدیث: 277، ج-1،مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، 2003م، ص: 244 -245
  • 10 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی ،شعب الایمان (مترجم: قاضی محمد ملک اسماعیل)، ج-1، مطبوعہ: دار الاشاعت ،کراچی ،پاکستان،2007ء، ص:250
  • 11 أبو الحسن علی بن خلف ابن بطال، شرح صحیح البخاری لابن بطال، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية،2003 م، ص: 195
  • 12 ایضاً
  • 13 أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی، شرح السنۃ،ج- 9، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1983م، ص: 76
  • 14 نور الدين علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی المولد النبوی ﷺ ، مطبوعۃ: منھاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011 م، ص:137
  • 15 القرآن،سورۃ آل عمران88:3
  • 16 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:5101 ، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 912
  • 17 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت لبنان،2013 م، ص:376
  • 18 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 162
  • 19 القرآن، سورۃ اللہب 111: 1-5
  • 20 أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی، شرح السنۃ،ج- 9، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی ، بیروت، لبنان، 1983 م، ص: 76
  • 21 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:377
  • 22 أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی، شرح السنۃ، ج- 9، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1983م، ص: 76
  • 23 حضرت ابو طالب کے بارے میں عدمِ ایمان کا موقف متقدمین ائمہ حدیث کا ہے اور یہاں پر انہی کے اقوال کے تناظر میں یہ موقف نقل کیا گیا ہے جبکہ متاخرین ائمہ نے حضرت ابو طالب کے عدمِ ایمان والی روایات پر شدید جرح کرتے ہوئے روایت و درایت سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو طالب مومن تھے یا کم از کم اپنے والد حضرت عبد المطلب کی ملت پر یعنی مو حد تھے۔(ادارہ)
  • 24 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:1789، ج- 3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:308
  • 25 القرآن، سورۃ الفرقان23:25
  • 26 شمس الدين محمد بن یوسف الکرمانی، الکواکب الدراری في شرح البخاری، ج-19، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت لبنان،1401 ھ، ص: 79
  • 27 أبو محمد محمود بن أحمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج-20، مطبوعۃ: دار احیاء التراث، بیروت، لبنان، ص: 55
  • 28 أبو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-9، مطبوعۃ: دار المعرفۃ ،بیروت لبنان، 1379ھ، ص:145
  • 29 ایضاً، ص:146
  • 30 أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، شعب الایمان، حدیث: 281، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجوداً)، ص:261
  • 31 ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی ،شعب الایمان (مترجم: قاضی محمد ملک اسماعیل)، ج-1، مطبوعہ: دار الاشاعت ،کراچی ،پاکستان،2007ء، ص:250
  • 32 أبو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری ، ج-9، مطبوعۃ: دار المعرفۃ،بیروت، لبنان، 1379ھ، ص:145
  • 33 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993 م، ص: 376 -377
  • 34 شیخ محمد بن صالح العثیمین النجدی، شرح صحیح البخاری، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ الطبری، القاهرۃ، مصر، 1429ھ، ص: 456
  • 35 شیخ سلیم اﷲ خان، کشف الباری شرح صحیح البخاری ، ج-8، مطبوعہ: مکتبہ فاروقیہ، کراچی، پاکستان، 1426ھ، ص: 194
  • 36 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3194، مطبوعۃ: دارالسلام لللنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:532
  • 37 ایضًا، حدیث:1436، ص:232
  • 38 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3194، مطبوعۃ: دارالسلام لللنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:532
  • 39 أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی، المصنف، حدیث: 13955، ج-7، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ، ص: 477-478
  • 40 أبو عوانۃ یعقوب بن إسحاق الإسفرایینی، مستخرج أبی عوانۃ، حدیث:4403، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:112
  • 41 أبو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانى، مسند الشامیین، حدیث: 3114، ج-4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1984م، ص: 207-208
  • 42 أبو عبد اللہ محمد بن نصر المَرْوَزِی ،السنۃ، حدیث: 290، مطبوعۃ: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان،1408 ھ، ص: 82
  • 43 أبو بکر أحمد بن الحسین البیہقی، البعث والنشور، حدیث: 16، مطبوعۃ: مرکز الخدمات والأبحاث الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 63
  • 44 أبو بکرأحمد بن الحسین البیہقی، السنن الصغیر،حدیث: 2439، ج-3، مطبوعۃ: جامعۃ الدراسات الإسلامیۃ، کراتشی، باکستان، 1989م، ص: 40-41
  • 45 أبو بکرأحمد بن الحسین البیہقی، السنن الکبری، حدیث: 13923، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 262-263
  • 46 أبو بکر أحمد بن الحسین البیہقی، شعب الایمان، حدیث: 277، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودية، 2003م، ص:244-245
  • 47 أبو بکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 149
  • 48 أبو القاسم الحسین بن محمد الحنائی، الحنائیات (فوائد أبی القاسم الحنائی)، حدیث: 68، مطبوعۃ: أضواء السلف، الریاض، السعودية، 2007م، ص: 430
  • 49 أبو السعادات المبارک بن محمد الجزری، جامع الأصول فی أحادیث الرسول، حدیث: 9036، ج-11، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، بیروت، لبنان، 1972م، ص: 476 -477
  • 50 أبو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، ابن سعد، الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 87
  • 51 أبو الحسن علی بن عمر الدارقطنی، المؤتلف والمختلف، ج-1، مطبوعۃ: دار الغرب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1986م، ص:240
  • 52 أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص:332
  • 53 أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی، شرح السنۃ، ج-9، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1983م، ص:76
  • 54 أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السہیلی،الروض الأنف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-5، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،2000 م، ص: 122-123
  • 55 أبو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی، صفۃ الصفوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث، القاہرۃ، مصر، 2000م، ص:26
  • 56 أبو القاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج-67، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 172-173
  • 57 أبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث،القاہرۃ،مصر، 2006م، ص: 162
  • 58 علاء الدین علی بن حسام الدین الہندی،کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، حدیث:15725، ج-6، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،1981م، ص:283
  • 59 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:5101 ، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 912
  • 60 القرآن، سورۃ یوسف41:12
  • 61 أبو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-9، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1379ھ، ص: 145
  • 62 أبو الحسن علی بن أبی الکرم عز الدين ابن الأثیر، الکامل فی التاریخ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 23
  • 63 أبو عبداﷲ أحمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 3310، ج-5، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001 م، ص: 334
  • 64 أبوحاتم محمد بن حبان الدارمي، الثقات، ج-1، مطبوعۃ: دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد الدكن، الهند،1393ھ، ص:182
  • 65 جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی ، الخصائص الکبریٰ، ج-1،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان،2008م، ص:341
  • 66 شیخ محمد ابن العلامۃ علی الأثیوبی، اسعاف ذوی الوطر بشرح نظم الدرر فی علم الأثر، مطبوعۃ: مکتبۃ الغرباء الأثریۃ، المدینۃ المنورۃ، السعودية،1414 ھ، ص: 129
  • 67 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:376
  • 68 أبو عبد الله محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:5101، مطبوعۃ: دارالسلام لللنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:912
  • 69 أبو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-9، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1379ھ، ص: 145
  • 70 شمس الدین محمد بن أبی بکر ابن قیم الجوزیۃ، تحفۃ المودود بأحکام المولود، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، دمشق، السورية،1971ء، ص: 28
  • 71 أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السہیلی ،الروض الأنف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-5، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،2000 م، ص: 122ـ123
  • 72 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السہیلی ،الروض الأنف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام(مترجم: ادارہ ضیاء المصنفین، بھیرہ شریف)،ج-3، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2005ء،ص:192ـ193
  • 73 أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1988 م، ص:332
  • 74 شھاب الدین احمد بن حجر الہیتمی، مولد النبی ﷺ ، مطبوعۃ: مرکز تحقیقات اسلامیۃ، لاہور، باکستان، 1980م، ص: 27
  • 75 ٔابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 259
  • 76 عبداﷲ بن محمد بن عبد الوہاب النجدی، مختصر سیرۃ الرسول ﷺ ، مطبوعۃ، المطبعة السلفیۃ ومكتبتها، القاهرة، مصر ، 1396ھ، ص: 13
  • 77 مولانارشید احمد لدھیانوی ،احسن الفتاویٰ، ج-1، مطبوعہ: ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی،پاکستان،1425ھ، ص: 347-348
  • 78 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:376
  • 79 أبو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 259
  • 80 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:376
  • 81 أبو شُہبۃ محمد بن محمد، الوسیط فی علوم ومصطلح الحدیث، مطبوعۃ: دار الفکر، العربی، بیروت، لبنان، ص: 283
  • 82 أبو حفص محمود بن أحمد الطحّان، تیسیر مصطلح الحدیث، مطبوعۃ: مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع، الرياض، السعودية،1417ھ،ص: 73
  • 83 أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السہیلی، الروض الأنف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-5، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،2000 م، ص: 122 -123
  • 84 أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السہیلی، الروض الأنف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام(مترجم: ادارہ ضیاء المصنفین بھیرہ شریف)،ج-3، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 2005ء،ص:192-193
  • 85 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 196-197
  • 86 ایضا، ص: 197
  • 87 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ، ج-2، مطبوعہ: نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی،لاہور، پاکستان،1997 ء، ص: 19
  • 88 عبد الحئی محمد فرنگی محلی لکھنوی، مجموعۃ الفتاویٰ، ج-2، مطبوعہ: ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی، کراچی،پاکستان، ص: 282
  • 89 عبداﷲ بن محمد بن عبد الوہاب النجدی، مختصر سیرۃ الرسول ﷺ ، مطبوعۃ، المطبعة السلفیۃ ومكتبتها، القاهرة، مصر ، 1396ھ، ص: 13
  • 90 نور الدين علی بن سلطان القاری، الورد الروی فی المولد النبوی ﷺ ، مطبوعۃ: منھاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م، ص:137
  • 91 أبو زکریا یحییٰ بن شرف النووی، المنہاج شرح صحیح مسلم، ج-1، مطبوعۃ:دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1392ھ، ص: 125