Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺ اور قرآن و حدیث

میلاد النبی ﷺکا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے جس کی تفصیل پہلے ابواب میں بیان ہوچکی ہے 1جس میں قرآن وحدیث سے پيش كيے گئے دلائل سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ میلاد النبی ﷺکی اصل قرآن مجید،2 حدیث نبوی ﷺ،3 اور صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے4جوخیر القرون میں ہیں 5لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ کاموں کے کرنے اور برتنے کی کیفیت و انداز تبدیل ہوتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے میلاد النبی ﷺکاموجودہ اندازمحل ِّاختلاف بن گیا ہے اور بعض اہل علم نے اس کو ممنوع قرار دے دیاہے حالانکہ یہ اعتراض کہ میلاد شریف کی اصل قرآن و حدیث میں نہیں ہے اس کو امام فاکہی نے بھی اپنی کتاب کے ابتداء میں درج کیا ہے چنانچہ امام فاکہی لکھتے ہیں:

  فانه تكرر سوال جماعة من المباركین عن الاجتماع الذى یعمله بعض الناس فى شھر ربیع الاول ویسمونه المولد ھل له اصل فى الشرع او ھو بدعة وحدث فى الدین؟وقصدوا الجواب عن ذلك مبینا والایضاح عنه معینا فقلت وباللّٰه التوفیق لا اعلم لھذا المولد اصلا فى كتاب ولاسنة ولا ینقل عمله عن احد من علماء الائمة الذین ھم القدوة فى الدین المتمسكون با آثار المتقدمین.6
  مبارک جماعت کی جانب سے ماہِ ربیع الاول میں اس اجتماع کے بارے میں مسلسل سوال پوچھا گیا جس میں بعض لوگ کچھ افعال سر انجام دیتے ہیں اور اس کو"میلاد النبی ﷺ" کا نام دیتے ہیں کیا اس کی اصل شرع میں موجو دہے یا پھر یہ اُمور بدعت اور دین میں نئے کام کااضافہ کرنا ہیں ؟ نیز انہوں نے اس کا تفصیلی اور واضح جواب طلب کرنے کا ارادہ کیا ہے لہذا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق سے کہتا ہوں:اس میلاد کی اصل کا مجھے علم نہیں ہے نہ قرآن کریم ، نہ ہی سنتِ رسول ﷺمیں اور نہ ہی یہ عمل اُن اکابر علماء سے منقول ہے جو دینی لحاظ سے معتبر اور اپنے متقدمین علماء کے آثار کو تھامے ہوئے ہیں۔

اس سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی مکرم ﷺکے میلاد کی اصل شریعتِ اسلامیہ میں نہیں ہے لہذا یہ بدعت ہے جو ممنوع ہے اور مسلمانوں کو ایسی بدعات سے احتراز لازم ہے۔ امام جلال الدین سیوطی نے اس سوال کو اپنے رسالہ "حسن المقصد فی عمل المولد "میں نقل کرنے کے بعد اس کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے :

  واقول اما قوله لا اعلم ھذا المولد اصلا فى كتاب ولا سنة فیقال علیه نفى العلم لایلزم منه نفى الوجود وقد استخرج له امام الحفاظ ابوالفضل احمد بن حجر اصلا من السنة واستخرجت له انا اصلا.7
  میں(امام سيوطی) کہتا ہوں:امام فاکہانی کا یہ کہناکہ" میرے علم کے مطابق اس میلاد کی کتاب وسنت میں کوئی اصل نہیں ہے " تو اس پر ان کا رد کرتےہوئے کہاجائے گا کہ (اصل کے)علم نہ ہونے سے لازم نہیں ہے کہ اصل موجود ہی نہ ہو۔تحقیق امام حافظ ابوالفضل احمد بن حجر نے اس کی اصل کو ایک حدیث مبارکہ سے ثابت فرمایا ہے اور میں نے اس کی ایک مزید اصل کا استخراج کیا ہے۔

یعنی امام فاکہانی کے اعتراض کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ میلاد النبیﷺ کی اصل اگر ان کے علم میں نہیں ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی اصل ہے ہی نہیں بلکہ اس کی اصل اپنی جگہ قائم ہے لیکن امام فاکہانی کو اس کا علم نہیں ہوسکا۔

ابن حجر کی تخریج کردہ اصل

مذکورہ بالا عبارت میں امام جلال الدین سیوطینے حافظ ابنِ حجر عسقلانی کی تخریج کردہ جس حدیث کا تذکرہ کیا ہے اس کو ابن حجر کے حوالہ سے ہی نقل کرتے ہوئے امام محمد بن یوسف صالحی شامیتحریر فرماتے ہیں:

  قال: وقد ظھر لى تخريجھا على أصل ثابت وھو ما ثبت فى الصحيحين من أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قدم المدينة فوجد اليھود يصومون يوم عاشوراء فسألھم فقالوا: ھو يوم أغرق اللّٰه فيه فرعون ونجى موسى فنحن نصومه شكرا للّٰه تعالى فقال صلى اللّٰه عليه وسلم: أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْھمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ 8 فيستفاد منه فعل الشكر للّٰه على ما من به في يوم معين من إسداء نعمة أو دفع نقمة ويعاد ذلك في نظير ذلك اليوم من كل سنة والشكر للّٰه يحصل بأنواع العبادة كالسجود والصيام والصدقة والتلاوة وأي نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي نبي الرحمة في ذلك اليوم؟ وعلى هذا فينبغي أن يتحرى اليوم بعينه حتى يطابق قصة موسى في يوم عاشوراء ومن لم يلاحظ ذلك لا يبالي بعمل المولد في أي يوم من الشهر، بل توسع قوم فنقلوه إلى يوم من السنة وفيه ما فيه فهذا ما يتعلق بأصل عمله وأما ما يعمل فيه فينبغي أن يقتصر فيه على ما يفهم الشكر للّٰه تعالى من نحو ما تقدم ذكره من التلاوة والإطعام والصدقة وإنشاد شيء من المدائح النبوية والزهدية المحركة للقلوب إلى فعل الخير والعمل للآخرة وأما ما يتبع ذلك من السماع واللهو وغير ذلك فينبغي أن يقال: ما كان من ذلك مباحا بحيث يقتضي السرور بذلك اليوم لا بأس بإلحاقه به وما كان حراما أو مكروها فيمنع وكذا ما كان خلاف الأولى.9
  (ابن حجر) فرماتے ہیں میں نے اس کا استخراج صحیحین میں مذکور ایک اصل سے ثابت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺنے یہودیوں کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ ﷺنے اس کی بابت دریافت فرمایا تو یہودیوں نے کہا کہ اسی دن فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوا تھا اور حضرت موسیٰ نےاس کے ظلم سے نجات پائی تھی، اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر روزے رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معین دن میں نعمت کے حصول یا مصیبت سے چھٹکارا پانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جانا چاہیے اور سال میں اس دن کے مثل ونظیر کی جب آمد ہو شکرکا اعادہ ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر عبادت کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے یعنی نماز، روزہ، صدقہ اور تلاوت وغیرہ سے۔ نبی مکرم رحمت عالمﷺ کی اس دن میں ولادت سے بڑھ کر کون سی نعمت ہوسکتی ہے؟ لہٰذا مناسب اور بہتر یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺکی پیدائش کے دن ہی میلاد منایا جائے تاکہ یوم عاشورہ میں حضرت موسیٰ کے قصّےسےمطابقت رہے، اور اگر اس واقعہ سے قطع نظر کرتے ہوئے اس ماہ میں کسی دن بھی میلاد منعقد کرلیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں، بلکہ کچھ لوگوں نے اس میں توسیع کرتے ہوئے صراحت کی کہ سال میں کسی دن بھی میلاد کرسکتے ہیں، لیکن اس میں یوم عاشورہ سے مطابقت نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا کلام صرف انعقاد میلاد سےمتعلق تھا۔ رہا سوال کہ اس میں کیا کرنا چاہیے تو مناسب یہی ہے کہ یہ ایسے افعال اور کاموں تک ہی محدود رہے جن سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا سمجھا جائے ۔ جیسے: تلاوت کرنا، کھانا کھلانا، صدقہ کرنا اور سرکار دوعالمﷺ کی شان میں نعتیں پڑھنا اور ایسے قصائد پڑھنا جن سے دل دنیا سے دور ہو ،اچھے کاموں اور آخرت کے لیے اعمال کرنےکی طرف متوجہ ہوجائے۔رہا سماع یا لہو ولعب یا اس کے علاوہ افعال تو مناسب بات یہی ہے کہ جو ان افعال میں سے مباح ہو اور وہ تفریح جو اس خوشی کے موقع کے مناسب ہو تو اس کو اس مولود کے ساتھ ملانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ کام جو حرام یا مکروہ ہو تواس سے بچنا ضروری ہے اسی طرح خلافِ اولی افعال کا حکم ہے۔10

امام ابن حجرکے مذکورہ بالا استخراج کو شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے بھی اپنی کتاب "جواھر البحار"میں نقل کیا ہے11جس سے امام فاکہانی کے اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ انہیں اصل کا معلوم نہ ہونے سے اصل کے وجو دکی نفی نہیں ہوتی 12بلکہ میلاد النبی ﷺکی اصل تو کئی احادیث سے ثابت ہے۔

امام سیوطی کی تخریج کردہ اصل

امام فاکہانی کے مذکورہ بالا اعتراض کے جواب میں امام سیوطی نے ابن حجر کی اصل ذکر کرنے کے بعد اپنی جس اصل کا ذکر کیا ہے اس کو نقل کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں:

  وقد ظھر لى تخريجه على أصل اخر وھو ما رواه البيھقى عن أنس أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة 13مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عقّ عنه فى سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيجعل ذلك على أن الذى فعله النبى صلى اللّٰه عليه وسلم إظھاراً للشكر على إيجاد اللّٰه إياه رحمةً للعالمين صلى اللّٰه عليه وسلم وتشريعاً لأمته صلى اللّٰه عليه وسلم كما كان يصلى على نفسه لذلك، فيستحب لنا أيضاً إظھار الشكر بمولده صلى اللّٰه عليه وسلم بالاجتماع وإطعام الطعام ونحو ذلك من وجوه القربات واظھارالمسرّات.14
  تحقیق میرے لیے میلاد کی اصل ایک اور حدیثِ مبارکہ کی تخریج سے ظاہر ہوئی ہے۔وہ حدیث امام بیہقی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺنے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا حالانکہ آپ ﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب نے آپ ﷺکی پیدائش کے ساتویں دن آپﷺ کا عقیقہ فرمایا تھا اور عقیقہ دوبارہ نہیں ہوتاتو یہ اسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ ﷺنےاپنا دوبارہ عقیقہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے فرمایا کہ اس نے آپ ﷺکو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہےاور(اس میں یہ تعلیم بھی ہے کہ ) امت کے لیے ولادت پاک پر شکر خداوندی بجا لائےجیسا کہ آپ ﷺبنفس نفیس اپنے اوپر درود پڑھا کرتے ، لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم میلاد پاک میں اجتماع کر کے، لوگوں کو کھانا کھلا کے اور دیگر جائز طریقوں سے خوشی ومسرت کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔

یعنی امام سیوطیکے نزدیک میلاد النبی ﷺکی اصل اس مذکورہ بالا حدیث سے بھی ثابت ہوتی ہے جس بنا پر میلاد النبی ﷺکو بدعت نہیں کہا جاسکتا۔

حافظ ابنِ رجب کی تخریج کردہ اصل

اسی طرح میلاد النبی ﷺکی تیسری اصل جو در حقیقت اپنی اہمیت کے لحاظ سے سب سےپہلی ہے اسے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے حافظ ابن رجبکے حوالہ سے اپنی کتاب"جواھر البحار " میں نقل کیا ہے اور اپنی دوسری کتاب "حجۃ اللہ علی العالمین" میں بھی نقل کیا ہے چنانچہ وہ اس اصل کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  قلت سبقه الى نحوه الحافظ ابن رجب فى كتاب لطائف المعارف وعبارته وفى قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لماسئل عن صیام یوم الاثنین ذلك یوم ولدت فیه وأنزلت على فیه النبوة.15 اشارة الى استحباب صیام الأیام التى تجدد فیھا نعم اللّٰه تعالى على عباده فان أعظم نعم اللّٰه على ھذه الأمة اظھار محمد صلى اللّٰه عليه وسلم لھم وبعثته وارساله الیھم كما قال تعالٰى: لقد من اللّٰه على المؤمنین اذ بعث فیھم رسولًا من أنفسھم.16 فان النعمة على الأمة بارساله صلى اللّٰه عليه وسلم أعظم من النعمة علیھم بایجاد السماء والأرض والشمس والقمر والریاح واللیل والنھار وانزال المطر واخراج النبات وغیر ذلك فان هذه النعم كلھا قد عمت خلقاً من بنى آدم كفروا باللّٰه وبرسله وبلقائه فبدلوا نعمة اللّٰه كفراً وأما النعمة بارسال محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فان بھا تمت مصالح الدنیا والآخرةوكمل بسببھا دین اللّٰه الذى رضیه لعباده وكان قبوله سبب سعادتھم فى دنیاهم وآخرتھم فصیام یوم تجددت فیه النعم من اللّٰه على عباده حسن جیل وهو من باب مقابلة النعم فى أوقات تجددها بالشكر ونظیر هذا صیام یوم عاشوراء، حیث نجى اللّٰه فیه نوحاً من الغرق ونجى فیه موسى وقومه من فرعون وجنوده وأغرقھم فى الیم فصامه نوح وموسی علیھم السلام شكراً فمامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم متابعة لأنبیاء اللّٰه وقال للیھود نحن أحق بموسى منكم وصامه وأمر بصیامه.17
  میں کہتا ہوں اس جیسی مزید اصل کی طرف علامہ ابن رجب اپنی کتاب لطائف المعارف میں بھی گئے ہیں۔ان کی عبارت یہ ہے:حضور پر نور ﷺہر سوموار کو روزہ رکھتے تھے جب اس کے بارے میں آپ ﷺسے پوچھا گیا تو آپ ﷺنے جواب ارشاد فرمایا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ان ایام کو جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خاص نعمت سے نوازا ہو روزہ رکھنا مستحب ہے بلاشبہ اس امت کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت آپ ﷺکی ذات ہے۔ حضور اکرم ﷺکی بعثت اور اس امت مرحومہ میں آپ ﷺکو نبی بناکر مبعوث کرنا بلاشبہ ایک عظیم الشان نعمت ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : "یقیناً بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہی میں سے"۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اس امت مرحومہ میں حضور ﷺکو مبعوث کرنے کی نعمت زمین، آسمان، سورج، چاند، ہوا اور لیل و نہار جیسی نعمتوں سے عظیم الشان ہے۔ یہ نعمتیں تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں۔ ان میں کافر بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسل کا انکار کیا اللہ کی نعمت کی ناشکری کی لیکن بعثت محمدی ﷺوہ نعمت کبریٰ ہے جس سے دنیا اور آخرت کی مصلحتیں مکمل ہوگئیں۔ اسی کی وجہ سے اللہ کا وہ دین بھی مکمل ہوا جس کو اس نے اپنے بندوں کے لیے منتخب فرمایا: اس کی قبولیت ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا سبب ہے۔ اس دن ، جس دن بندوں پر اللہ تعالیٰ عظیم احسان فرمائے، روزہ رکھنا اچھا عمل ہے گویا کہ یہ اچھا عمل اس دن ہونے والی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔عاشورہ کے دن کا روزہ بھی اسی وجہ سے رکھا جاتا ہے۔ اس دن حضرت نوح کو غرق ہونے سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون کو سمندر میں ہلاک کیا گیا، حضرت موسیٰ اور حضرت نوح نے اس دن اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور آپ ﷺنے انبیاء کرام کی اتباع کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا اور آپ ﷺنے یہودیوں سے فرمایا ہم تم سے زیادہ اس بات کے حق دار ہیں کہ ہم اس دن روزہ رکھیں جب حضرت موسیٰ نے روزہ رکھا تھا۔ حضور اکرم ﷺنے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ 18

مذکورہ تمام عبارات سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ میلاد النبی ﷺکی اصل قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیثِ مبارکہ میں بھی موجود ہے اور ائمہ سلف و خلف نے بھی کئی دوسری جہتوں سے اس کی اصلیت کو بیان کیا ہے لہذا یہ اعتراض کرنا کہ میلاد النبی ﷺکی اصل شریعتِ اسلامیہ میں موجود نہیں ہے یہ لا علمی کی وجہ سے ہے نہ کہ حقیقی وجہ سے۔

اسی طرح اپنے رسالہ میں امام فاکہانی نے ایک اور بات کہی ہے جس کا جواب دیتےہوئے امام جلال الدین سیوطی تحریر فرماتے ہیں:

  وقوله ولا مندوبا لان حقیقة المندوب ما طلبه الشرع یقال علیه ان الطلب فى المندوب تارة یكون بالنص وتارة یكون بالقیاس وھذا وان لم یرد فیه نص ففیه القیاس على الاصلین.19
  امام فاکہانی کا یہ کہناکہ" یہ میلادمستحب بھی نہیں ہے کیونکہ مستحب کی حقیقت یہ ہے کہ اسے شریعت طلب کرے" تو اس پر ان کا رد کرتے ہوئے کہا جائےگا کہ بلا شبہ مستحب عمل میں طلب کبھی نص کے ذریعہ ہوتی ہے اور کبھی قیاس کے ذریعہ سے لہٰذااگرچہ میلاد النبیﷺمنانے میں کوئی صریح نص وارد نہیں ہوئی لیکن اس میں دو اصلوں پر قیاس موجود ہے۔

یعنی امام سیوطی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میلاد النبیﷺ فرض یا واجب نہیں ہے کہ اس پر کوئی قطعی دلیل کو طلب کیا جائے بلکہ یہ ایک مستحب امر ہے20 اور استحباب کے ثبوت کے لیے ظنی دلیل کے علاوہ تعاملِ ائمہ سلف اگر چہ کہ غیر مجتہد ہوں21 تب بھی حجت شمار ہوتا ہے 22 اور میلاد النبیﷺ کے استحباب کے لیے تو ظنی دلائل بکثرت موجود ہیں اور تعامل ائمہ بھی تواتر کے ساتھ منقول ومتوارث ہے لہذا یہ کہنا کہ میلاد النبیﷺ مستحب نہیں ہے کسی طور پر درست نہیں ہے۔

ابن الحاج کا ہم مثل اعتراض

امام فاکہانی کے اعتراض کے ہم مثل ایک اعتراض امام ابن الحاج نے اپنی کتاب"المدخل "میں بھی بیان کیا ہےچنانچہ وہ اس اعتراض کو بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

  ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادھم أن ذلك من أكبر العبادات وإظھار الشعائر ما يفعلونه فى شھر ربيع الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة فمن ذلك استعمالھم المغانى ومعھم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابة وغير ذلك مما جعلوه آلة للسماع ومضوا فى ذلك على العوائد الذميمة فى كونھم يشتغلون فى أكثر الأزمنة التى فضلھا اللّٰه تعالى وعظمھا ببدع ومحرمات ولا شك أن السماع فى غير هذه الليلة فية ما فية. فكيف بة إذا انضم إلى فضيلة هذا الشھر العظيم الذى فضله اللّٰه تعالى وفضلنا فيه بھذا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم على ربه عز وجل...فآلة الطرب والسماع أى نسبة بينھا وبين تعظيم هذا الشھر الكريم الذى من اللّٰه تعالى علينا فيه بسيد الأولين والآخرين فكان يجب أن يزاد فيه من العبادات والخير شكرا للمولى سبحانه وتعالى على ما أولانا من هذه النعم العظيمة...وهذه المفاسد مركبة على فعل المولد إذا عمل بالسماع فإن خلا منه وعمل طعاما فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من كل ما تقدم ذكره فھو بدعة بنفس نيته فقط إذ أن ذلك زيادة فى الدين وليس من عمل السلف الماضين واتباع السلف أولى بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما كانوا عليه لأنھم أشد الناس اتباعا لسنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظيما له ولسنته صلى اللّٰه عليه وسلم ولھم قدم السبق فى المبادرة إلى ذلك ولم ينقل عن أحد منھم أنه نوى المولد ونحن لھم تبع فيسعنا ما وسعھم.23
  من جملہ لوگوں کی ایجاد کردہ بدعتوں میں سے ایک ماہ ربیع الاول میں میلاد پاک منانا ہے جسے وہ عظیم عبادت سمجھتے ہیں اور شعائر ِ اسلامی کا اظہار گردانتے ہیں حالانکہ یہ میلاد بہت سے نت نئےحرام اورناجائز افعال پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان حرام اشیاء میں سےآلاتِ طرب ہیں جیسےطار، مصرصر اور شبابہ وغیرہ جنہیں لوگ آلاتِ سماع کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برائی میں مشغول ہوتے ہیں۔بالخصوص جن اوقات کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے، ان میں بدعتوں اور حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ سماع توبلاشبہ اس رات کے علاوہ بھی جائز نہیں ہےتو اس رات میں کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ جو رات اس مہینہ کی عظمت وفضیلت کو متضمن ہے کہ جس میں باری تعالی نے نبی سرور ﷺکو مبعوث فرمایا۔۔۔ لہذا واضح ہوا کہ آلات طرب وسماع کی اس بزرگ مہینے سے کوئی ادنی سی بھی نسبت نہیں جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اولین و آخرین کے سردار ﷺکو پیدا فرماکر ہم پر احسان فرمایا لہٰذا ضروری ہے کہ اس مہینہ میں عبادات اور نیکیاں بکثرت سرانجام دی جائیں۔ اس عظیم نعمت پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے۔۔۔ یہ مذکورہ برائیاں فعلِ میلاد پر اس وقت مرتب ہوتی ہیں جب اس میں سماع وغیرہ شامل ہو اور اگر سماع سے خالی ہو، میلاد کی نیت سے لوگوں کو بلاکر کھانا کھلایا جائے اور تمام ماقبل مذکورہ خرافات سے یہ فعلِ میلاد سالم ہو تو بھی یہ صرف اپنی نیتِ مولد کی وجہ سے بدعت ہے کیونکہ یہ دین میں زیادتی ہے اور یہ گزشتہ سلف صالحین کے عمل سے بھی ثابت نہیں ہے حلانکہ سلف صالحین کی اتباع لازمی ہے۔ ان حضرات ِصالحین میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس طرح فعلِ مولد کی نیت کی ہو(اور یہ فعل سرانجام دیاہو) لہٰذا جو انہوں نے کیا ہمیں بھی وہی کرنا چاہیے۔

امام ابن الحاج کے مذکورہ بالا اعتراض کا بغور جائزہ لینے سے یہ سمجھ آتا ہے کہ انہوں نےمیلاد النبی ﷺمیں ہونے والی خرافات کو ہدفِ تنقید بنایاہے جو کہ ائمہ سلف نے بھی واضح کیا ہے۔ نفسِ میلاد کے بارے میں ان کی رائے وہ نہیں ہے جو فی زمانہ چند افراد ابن الحاج کی مذکورہ بالا عبارت سے ثابت کرتے ہیں کہ یہ میلاد ممنوع ہے کیونکہ ابن الحاج کے اعتراض والی عبارت میں یہ بھی موجود ہے کہ ہمیں اس ماہِ ولادت کی اہمیت کے پیشِ نظر اس میں عبادات کے ساتھ ساتھ بکثرت نیکیاں بھی کرنی چاہیئں ۔البتہ مذکورہ بالا اعتراض میں اور امام فاکہانی کے اعتراض میں مماثلت یہ ہے کہ جس طرح امام فاکہانی نے فعلِ میلاد کو بدعت کہا ہے اسی طرح مذکورہ بالا عبارت کے آخر میں امام ابن الحاج نے بھی یہی لکھا ہے۔ مذکورہ بالا اعتراض کا حرف بحرف جواب امام سیوطی نے اپنے رسالہ "حسن المقصد" میں دیا ہے چنانچہ اس کا جواب دیتے ہوئے امام سیوطی تحریر فرماتے ہیں:

  وحاصل ما ذكره أنه لم يذم المولد بل ذم ما يحتوى عليه من المحرمات والمنكرات، وأول كلامه صريح فى أنه ينبغى أن يخص هذا الشھر بزيادة فعل البر وكثرة الخيرات والصدقات وغير ذلك من وجوه القربات، وھذا هو عمل المولد الذى استحسناه، فإنه ليس فيه شىء سوى قراءة القرآن وإطعام الطعام، وذلك خير وبر وقربة.24
  ابن الحاج کی عبارت جس کو انہوں نے ذکر کیا اس کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے میلاد شریف کی برائی نہیں کی بلکہ ان حرام اور فحش افعال کی برائی کی جو اس میں شامل ہوگئے ہیں اور ان کا ابتدائی کلام اس بات میں واضح ہے کہ اس ماہ مبارک کو بکثرت نیکیوں اورزیادہ خیرات وصدقات کے ساتھ خاص کیا جائےاورقربِ الہی کے دیگر طریقوں کے ساتھ مخصوص کیا جائے۔ یہی وہ میلاد ہے جسے ہم اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں تلاوت قرآن اور کھانا کھلائے جانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہی افعال بھلے، نیکی اور قربِ الہٰی کا ذریعہ ہیں۔

امام ابن الحاج نے اپنے اعتراض کے آخر میں میلا النبی ﷺکے بدعت ہونے کے حوالہ سے خاص زاویہءِ نگاہ سے ایک بات کہی ہے کہ نیتِ مولد کے ساتھ فعلِ مولد میں لوگوں کو دعوت دے کر صرف کھانا کھلانا بھی بدعت ہے اور اس نیت کے ساتھ یہ کام گزشتہ صالحین سے ثابت نہیں ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے حالانکہ ماقبل سطور میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ میلاد النبی ﷺبدعت نہیں ہے بلکہ اس کی اصل شریعتِ اسلامیہ میں موجود ہے اور خود رسول اکرم ﷺ25 اور ان کے صحابہ کرام سے اصلِ میلاد ثابت ہے26بہر حال اس اعتراض کے آخری حصہ کا جواب دیتےہوئے امام سیوطی تحریر فرماتے ہیں:

  وأما قوله آخرا: إنه بدعة، فإما أن يكون مناقضا لما تقدم أو يحمل على أنه بدعةحسنةكما تقدم تقريره فى صدر الكتاب أو يحمل على أن فعل ذلك خير، والبدعة منه نية المولد كما أشار إليه بقوله: فھو بدعة بنفس نيته فقط، وبقوله: ولم ينقل عن أحد منھم أنه نوى المولد، فظاهر ھذا الكلام أنه كره أن ينوى به المولد فقط، ولم يكره عمل الطعام ودعاء الإخوان إليه، وھذا إذا حقق النظر لا يجتمع مع أول كلامه؛ لأنه حث فيه على زيادة فعل البر وما ذكر معه على وجه الشكر للّٰه تعالى؛ إذ أوجد فى هذا الشھر الشريف سيد المرسلين صلى اللّٰه عليه وسلم، وهذا هو معنى نية المولد، فكيف يذم هذا القدر مع الحث عليه أولا؟ وأما مجرد فعل البر وما ذكر معه من غير نية أصلا، فإنه لا يكاد يتصور، ولو تصور لم يكن عبادة ولا ثواب فيه؛ إذ لا عمل إلا بنية، ولا نية هنا إلا الشكر للّٰه تعالى على ولادة هذا النبى الكريم فى هذا الشھر الشريف، وهذا معنى نية المولد، فھى نية مستحسنة بلا شك، فتأمل.27
  رہا آخرمیں ان کا یہ کہنا کہ (بنیتِ مولد کھانا کھلانا) "یہ بھی بدعت ہے" تو یہ بات ان کی ماقبل مذکور پہلی بات کے مخالف ہے یا اس (بدعت کے قول) کوبدعتِ حسنہ پر محمول کیا جائےجیساکہ ابتداءِ کتاب میں اس کا ذکر (مع الدلائل) گزر چکا یا پھر اس کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ یہ کام تو نیک ہے البتہ میلاد کی نیت سے کرنا بدعت ہے جیساکہ اس کی طرف انہوں نے اپنے قول "میلاد کی نیت بدعت ہے" سے اشارہ فرمایاہے۔ نیز ان کے اس قول سے کہ" ان حضرات میں سے کسی سے بھی میلاد کی نیت کرنا منقول نہیں ہے" تو اس کلام سے ظاہر یہ ہے کہ انہوں نے صرف میلاد کی نیت کرنے کو مکروہ جانا ہے نہ کہ کھانے اور لوگوں کی دعوت کرنے کو ۔پھر بھی بنظرِ غائر یہ بات ان کے پہلے کلام کے موافق نہیں(بلکہ مخالف) ہےکیونکہ انہوں نے خوداس ماہِ مبارک میں بکثرت نیکی کرنےپر ابھارا ہے اوراس کی بھی وضاحت کردی کہ یہ بکثرت نیکیاں اس ماہ میں سیّد المرسلین ﷺ کی ولادت ِمبارکہ کی خوشی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے شکر اداکرنےکے طور پر ہوں۔ آخر میلاد کی نیت کے بھی تو یہی معنی ہیں پھر وہ اس پر ابھارنے کے باوجود اس کی مذمت کیسے کرسکتے ہیں؟ رہا بغیر کسی نیت کے نیک کام کرنا تو اولا یہ متصور ہی نہیں کیاجا سکتا، اگر مان بھی لیا جائے تو نہ یہ عبادت کہلائے گی نہ ہی اس پر کوئی ثواب ہوگا کیونکہ نیت کے بغیر عمل نہیں اور یہاں نیت بھی صرف یہی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں نبی کریمﷺ کی ولادتِ مبارکہ پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اور بلاشبہ یہ نیت مستحسن ومحمود ہے لہذااس مسئلہ میں (ناقدین کو)مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔

امام جلال الدین سیوطی کا مذکورہ جواب امام ابن الحاج کے اعتراض کا تسلی بخش جواب ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ابن الحاج نے نیت کے ساتھ فعل مولد کو بدعت قراردیا ہے لیکن پھر بھی یہ قول ان کے ماقبل مذکورہ قول ہی کے مخالف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اس ماہِ مبارک میں نبی کریمﷺ کی ولادت کی وجہ سے بکثرت نیکیاں سر انجام دینی چاہیے۔28

ایک تقویتی روایت

امام ابن الحاج کا یہ کہنا "نیت مولد کے ساتھ فعل مولد بدعت ہے " اولا یہ قول ان کے اپنے ہی قول کے مخالف ہے اور ثانیاً یہ قول کسی طور پر درست نہیں ہے کیونکہ ذیل میں ایک ایسی روایت نقل کی جارہی ہے جس میں واضح ہوجائے گا کہ نیت مولد کے ساتھ فعل مولد یعنی میلادالنبی ﷺ منانا درست ہے اور گزشتہ صالحین سے ثابت ہے چنانچہ صاحبِ "دجیز الصراط" اس روایت کو "تو ضیح الھدی "کے حوالہ سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

  ورأیت فى بعض الكتب انه لما توفى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم اطعم عنه كل یوم واحدة من امھات المؤمنین واٰخرهن عائشة رضى اللّٰه عنھا ثم اطعم ابوبكر الصدیق رضى اللّٰه عنه اكثر اهل المدینة وكان ذلك ثانى عشرة من شھر ربیع الاول.29
  (صاحب توضیح فرماتے ہیں)میں نے کسی کتاب میں پڑھا کہ جب نبی کریم ﷺکا وصالِ مبارک ہوا تو آپﷺ کی طرف سے ہر دن کوئی ایک ام المؤمنین کھانا صدقہ فرماتی تھیں جن میں آخری سیّد تنا ام المؤمنین حضرت عائشہ الصدّیقہ تھیں۔پھر حضرت ابو بکر صدیق نے مدینہ میں رہنے والوں کی اکثریت کو کھانا کھلایا اور یہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوا۔

اسی طرح ایک روایت علامہ عابد سندی نےاسی حوالے سے نقل کی ہے چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  ویوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ذبح ابو بكر الصدیق مائة ناقة وتصدق بھا وتصدق ابو هریرة فى ذلك بثلٰثة اقراص من شعیر.30
  رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت کے دن حضرت سیدنا ابو بکر صدیق نے سو اونٹ ذبح کیے اور تمام کو صدقہ کردیا اور اسی دن حضرت ابو ہریرہ نے کشمش کے تین اقراص(ایک بڑاپیمانہ) صدقہ کیے۔

ان مذکورہ با لا دونوں روایات اور گزشتہ مذکور عبارات واقوالِ ائمہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بنیتِ مولد فعلِ مولد سر انجام دینا بدعت نہیں ہے کیونکہ اس کا ثبوت قرآن کریم،31حدیثِ رسولﷺ،32 آثارِ صحابہ کرام 33اور ئمہ سلف و صالحین ﷭34 سے منقول اور بالتواتر ثابت ہےلہذا یہ کہنا کہ" میلاد النبیﷺ کا ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں "انتہائی خطا ہے اور غیر صحیح ہے نہ صرف اتنا بلکہ میلاد النبیﷺ منانا مستحب اور مستحسن ہے کیونکہ اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عظیم نعمت کے حصول پر شکرِ خداوندی بجالانا ہے جو کہ اہل ایمان سے ہر نعمت پرمطلوب ہےجبکہ ولادت مصطفیٰ ﷺتو ہر نعمت کی اصل ہے۔

 


  • 1 پہلے باب کی فصل"تاریخ ِ میلاد اور عصرِ حاضر" اور چھٹے باب کی فصل"میلاد النبیﷺ منانےکی شرعی حیثیت" میں جواز و استحابِ میلاد النبیﷺ پر قرآن و حدیث و تعاملِ صحابہ اور آئمہ سلف و خلف ﷭کے دلائل بالتفصیل رقم کردیے گئے ہیں۔(ادارہ)
  • 2 القرآن،سورۃ یونس10: 58
  • 3 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 4 ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:16835، ج-28، مطبوعة:مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،2001م،ص:49
  • 5 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2533، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:1110
  • 6 تاج الدین عمر بن علی الفاکہانی، المورد فی عمل المولد، مطبوعۃ: دار العاصمۃ، الریاض،السعودية،1998م، ص: 8 -9
  • 7 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 181
  • 8 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح بخاری، حدیث:3397، مطبوعۃ:دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:569
  • 9 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:366
  • 10 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز،لاہور، پاکستان،2012 ء،ص:327-329
  • 11 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:394
  • 12 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: .181
  • 13 ابوبکر احمد بن حسین البیھقی ، السنن الکبری حدیث :19273، ج-9،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان ،2003م،ص:505
  • 14 جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکر سیوطی،الحاوی للفتاوٰی، ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م ، ص:188
  • 15 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:1162، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 16 القرآن ، سورۃآل عمران3: 164
  • 17 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلینﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 177-178
  • 18 شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلینﷺ (مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:384-385
  • 19 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 184
  • 20 اسی باب کی پہلی فصل"میلاد النبیﷺ منانےکی شرعی حیثیت" میں جواز و استحابِ میلاد النبیﷺ پر وافر دلائل ذکر کیےگئے جا چکے ہیں ۔(ادارہ)
  • 21 شیخ عبد العلی محمد بن نظام الدین الانصاری، فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت، ج-2، بمطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص:436
  • 22 شیخ مولوی محب اللہ بہاری، مسلّم الثبوت، ج-2، مطبوعۃ:مکتبۃ حسینیۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:354
  • 23 ابو عبد الله محمد بن محمدالمالكی الشھیر بابن الحاج، المدخل، ج-2، مطبوعۃ:دار التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2
  • 24 جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م،ص: 187
  • 25 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 26 ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:16835، ج-28، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001م، ص:49
  • 27 جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م،ص: 187
  • 28 ابو عبد الله محمد بن محمدالمالكی الشھیر بابن الحاج، المدخل، ج-2، مطبوعۃ:دار التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2
  • 29 قاضی محمد فیض عالم ہزاروی، وجیز الصراط فی مسائل الصدقات والاسقاط، مطبوعۃ: مکتبۃقادریۃ، لاہور، باکستان، 2002م، ص:66
  • 30 شیخ محمد عابد السندی الانصاری، حکم اطعام الطعام فی مناسبات الفرح او الترح ، مطبوعۃ: دار النعیمی للنشر و التوزیع، کراتشی، باکستان، 2011 م، ص:276
  • 31 القرآن،سورۃ یونس10: 58
  • 32 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:1162، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:477
  • 33 ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:16835، ج-28، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001م،ص:49
  • 34 شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:78