Encyclopedia of Muhammad

عید میلاد النبی ﷺ اورغلوّفی الدین

مسلمانوں میں سےبعض جشن عید میلاد النبی کو"غلوّفی المدح اور"غلوّفی الدین" قراردیتے ہیں اور اس پر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیتِ مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں:

  قُلْ يٰٓاَھلَ الْكتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِى دِيْنِكمْ.771
  فرما دیجئے : اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق حد سے تجاوز نہ کیا کرو۔

اس کا مطلب یہ لیاجاتا ہے کہ دین میں چونکہ غلوّکرنے کی اجازت نہیں ہے لہذا رسول اکرم کا میلاد منانا گویا کہ بعض افراد کے نزدیک العیاذ باللہ دین میں غلوّکرنا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔اس مسئلہ کو سمجھنے کےلیے پہلے چند بنیادی باتیں علم میں لانا از بس ضروری ہے تاکہ حقیقت کو سمجھنے میں التباس سے بچا جاسکے۔

ادیان ِعالم میں اسلام ہی اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ 2 تمام انبیاء کو اسی دین کی نشرواشاعت کے لیے بھیجا گیااور خَاتِمُ النَّبین حضرت سیّدنا محمد رسول اللہ کو بھی یہی دینِ اسلام عنایت فرماکر انسانیت کی رشد وہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا۔ 3 دین اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے جو دین فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر مسئلہ کا حل بھی مہیا کرتا ہے اورزندگی کے کسی پہلوکو تشنہءِ تکمیل نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دینِ فطرت میں خوشی کے اِظہار کرنے کے بھی اصول واضح کردیے گئے ہیں تاکہ اس دین کے متبعین انہی اصولوں کے مطابق اپنی خوشی کا اِظہار کرسکیں۔نبی کریم کے میلاد کی خوشی کے اِظہار کرنے کے بھی دین میں اصول وقوانین موجود ہیں جن کو ائمہءِ سلف نے وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے لیکن میلاد النبی مناناکسی بھی لحاظ سے اسلام کی تعلیمات اور روح کے منافی نہیں اور نہ ہی "غلوّفی الدین" ہے۔

دین اسلام اپنی تکمیل کی وجہ سے کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی طرف سے اس میں کوئی ترمیم واضافہ روا رکھےکیونکہ رسول اﷲ نے اپنی تریسٹھ( 63)سالہ مبارک زندگی میں اسلام کے تمام قوانین وضوابط بیان فرمادئیے ہیں یعنی ہر قسم کی حلت و حرمت اور صحیح و غلط کو بیان فرمادیا ہے کہ ان میں کسی بھی قسم کا ابہام باقی نہیں رکھا۔ البتہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اجتہاد کرتے ہوئے ارباب علم نے معاملات کو فرائض وواجبات، سنن ونوافل، محرمات ومنکرات، مکروہات وبدعات کے ذریعہ بالکل واضح فرمادیا ہے تاکہ ان پر عمل کرنے والے کسی عمل سے پہلے اس کے حکم سے ضرور آگاہ رہیں۔

دین میں غلوّسے بچنے کا حکم

یہ کہنا کہ دین میں غلوّکرنے سے روکا گیا ہے بالکل بجا ہے اور قرآن و حدیث میں جابجا غلوّکی ممانعت موجود ہےچنانچہ دین اسلام میں غلوّکرنے والوں کو اس سے منع کیےجانے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:

  قُلْ يٰٓاَھلَ الْكتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِى دِيْنِكمْ 774
  فرما دیجئے : اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق حد سے تجاوز نہ کیا کرو۔

اسی طرح اس غلوّکی مذمت وہلاکت کو بیان کرتے ہوئے حضور نبی کریم نے فرمایا:

  ایاكم والغلوّ فى الدین، فإنما ھلك من كان قبلكم "بالغلوّفى الدین".5
  دین میں غلوّکرنے سے بچو پہلے لوگ غلوفی الدین کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے تھے۔

لیکن بات یہ ہے کہ "غلوّفی الدین" سے مراد کیا ہے اور کیا میلاد النبی اس میں شامل ہے یا سرے سے اس کا "غلوّفی الدین" سے تعلق ہی نہیں ہے ؟

غلوّفی الدین کی اصل

چنانچہ اس بارے میں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ قرآن و حدیث کے احکامات میں من مانی اور سینہ زوری کرنا "غلوّفی الدین" کہلاتا ہے۔ یعنی کسی فرض کو نفل کہنا، سنت کو بدعت کہنا اور ناجائز کام کو جائز کہنا سراسردین میں زیادتی اور دخل اندازی ہے البتہ اگر کسی کام کو شریعت نے شرک، کفر اور بدعت نہیں کہا تو جو آدمی اس پر یہ حکم لگاتا ہے تو وہ آدمی مبالغہ آرائی اور "غلوّفی الدین" سے کام لیتا ہے نہ کہ ایسے جائز کام کو سرانجام دینے والا۔

غلوّفی الدین تفاسیر کی روشنی میں

ائمہءِ تفسیر نے "غلوّفی الدین" سے جو مفہوم مراد لیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجائےگی کہ میلاد النبی پر خوشی کا اِظہار کرنا "غلوّفی الدین" نہیں ہے چنانچہ تفہیمِ مسئلہ کے لیے چند عبارات پیش خدمت ہیں:

مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ سیّدمحمود آلوسی غلوّکے مرادی معنی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  الغلوّ أى مجاوزة الحد والإفراط المنھى عنه.6
  حد سے بڑھنے کا نام غلوّہے اور جس کام سے روکاگیا ہو اس میں کمی کرنے کا نام ہے۔

اسی حوالہ سے امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں:

  والغلوّ نقیض التقصیر ومعناه الخروج عن الحد، وذلك لأن الحق بین طرفى الإفراط والتفریط، ودین اللّٰه بین الغلوّوالتقصیر.7
  غلوّتقصیر (گٹھانے) کی ضد ہے۔ اس کا معنی ہے حد اور قید سےتجاوزکرنا۔ کیونکہ حق تو افراط و تفریط کے درمیان ہے اور اﷲ کا دین غلوّ(زیادتی) اور تقصیر (کمی) کے درمیان ہے۔

اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی اس لفظِ غلوّکا معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  الغلوّ فھو المبالغة فى الشىء والتشدید فیه بتجاوز الحد.8
  غلوّکہتے ہیں کسی چیز میں مبالغہ کرنا اور اس میں شدت کرتے ہوئے حد سے گزرجانا۔

ان تمام مذکورہ بالا عبارات سے درجِ ذيل نكات بالکل واضح ہوجاتے ہیں:

  1. شریعت کی کسی حد سے بڑھنا اور کسی قید کو توڑنا "غلوّفی الدین" ہے۔
  2. شریعت نے جس کام سے روکا ہے اس سے نہ رُکنے کو بھی "غلوّفی الدین" کہا جاتا ہے۔
  3. کسی شے کو اس کے مرتبہ ومقام سے گھٹانے یا بڑھانے کو بھی "غلوّفی الدین" کہا جاتا ہے۔

لہذا ان سب کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اگر شریعت نے کسی کام کو حرام، مکروہ، ناجائز اور غلط نہیں کہا تو ایسے امور پر مذکورہ احکام لگانا "غلوّفی الدین" ہوگا بلکہ ایسے جائز کام کو قربِ الٰہی کی نیت سے کرنے والوں پر مذکورہ حکم لگانا دراصل "غلوّفی الدین" ہے یعنی جو جائز کام ہے اس کو حرام قراردینا ہی شریعتِ اسلامیہ کی مقررہ حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میلاد النبی کو"غلوفی الدین" میں شامل کرنا سراسر زیادتی، مبالغہ آرائی اور بذاتِ خود "غلوّفی الدین" ہے۔

میلاد النبیﷺمشروع عمل ہے

میلاد النبی جائز طریقہ سے منانے سے قرآن کریم یا حدیث شریف کی قائم کردہ کسی حد یا قید کےخلاف ورزی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی حکم کی مخالفت ہوتی ہے بلکہ یہ عین ِ حکمِ الٰہی کی اتباع واطاعت ہے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا ہے:

  قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِك فَلْيَفْرَحُوْا ۭ ھوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ58 9
  فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

اس مذکورہ بالا آیتِ کریمہ سےیہ بات واضح ہے کہ فضلِ الٰہی پر خوشی و مسرت کا اِظہار کرنا حکمِ الٰہی کے مطابق و موافق عمل کرنا ہے لہذا میلاد النبی کو ناجائز اور غلوّفی الدین کہنا ایک طرف تو جائز کام کو اپنے تئیں حرام وممنوع قراردینا ہے جو در حقیقت غلوّفی الدین کا مصداق ہے اور دوسری طرف خود شارع کے منصب پر فائز ہونے کی نادانستہ کوشش ہے جس کی تحسین کسی بھی صور ت میں ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح حدیثِ مبارکہ سے بھی اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ رسول مکرم کی آمد پر خوشی کااِظہارکرنا اور اس کے شکرانہ کے طور پر عبادتِ الٰہی کو بجا لانا بذاتِ خود رسول اکرم کی سنت مبارکہ ہے چنانچہ ایک حدیثِ مبارکہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ نے اپنی ولادت کی ابتداء و انتہاء کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

  انى عند اللّٰه مكتوب بخاتم النبيين، وان آدم لمنجدل فى طينته وساخبركم باول ذلك: دعوة ابى ابراھيم وبشارة عيسى ورؤيا امى التى رات حين وضعتنى انه خرج منھا نور اضاءت لھا منه قصور الشام .10
  بلا شبہ مجھے اللہ تبارک کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقتخَاتِمُ النَّبینلکھا گیا تھا جس وقت حضرت آدم مٹی میں گوند ھے ہوئے تھےاور عنقریب میں تمہیں اس معاملہ کی ابتداء کی خبر دیتا ہوں۔میں حضرت ابراہیم کی دعا ،حضرت عیسی کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کاوہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے موقع پہ دیکھا تھا کہ ان کے بطن ِ مبارک سے ایسا ایک نور نکلا جس سے ملک ِشام کے محلات جگمگا اٹھے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ نے نہ صرف اپنےابتدائے امر کو بیان فرمایابلکہ ساتھ ساتھ اپنی آمدِبا کرامت کا ذکر بھی فرمایا اور خصوصًا اپنی والدہ ماجدہ سیّدہ آمنہ کے اس خواب کو بیان فرمایا جو انہوں نے آپ کی پیدائش کے موقع پہ دیکھا تھا ۔اس سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ نبی مکرم کو اپنی ولادت کا تذکرہ کرنابالفاظ دیگرمیلاد النبی منانا پسند تھااور یہ عمل نبی نے ایک دفعہ فقط جواز کے لیے نہیں فرمایا بلکہ متعدد روایات سے متعدد واقعات میں اس کا ثبوت ملتا ہے جس کی تفصیل اسی جلد میں اپنے مقام پر موجود ہے ۔ آپ کی اسی سنتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام بھی آپ کی ولادت کا تذکرہ آپس میں کیا کرتے تھے۔ اسی حوالہ سے ایک حدیثِ مبارکہ میں منقول ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ تمام ایک حلقہ کی صورت میں بیٹھے ہوئے تھے تو رسول کریم نے ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی چنانچہ اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل روایت فرماتے ہیں:

  إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم خرج على حلقة من أصحابه، فقال: ما أجلسكم؟ قالوا: جلسنا نذكر اللّٰه عز وجل ونحمده على ما ھدانا للإسلام، ومن علينا بك، قال: آللّٰه ما أجلسكم إلا ذالك؟ قالوا: واللّٰه ما أجلسنا إلا ذالك، قال: أما إنى لم أستحلفكم تھمة لكم، ولكنه أتانى جبريل عليه السلام فأخبرنى، أن اللّٰه عز وجل يباھى بكم الملائكة.11
  ایک دن رسول خدا ایک حلقۂ صحابہ میں تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا کہ تم لوگ کیسے بیٹھے ہوئے ہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ ہم اللہ تعالیٰ کویاد کرتے اور اس کی کی تعریف بیان کرتے ہیں کہ جواس نے اسلام کی طرف ہدایت دی اور آپ کی بعثت کے ذریعہ ہم پر احسان فرمایا ۔تب آپ نے فرمایا: قسم خدا کی کیا تم محض اسی لیے بیٹھے ہو؟صحابہ کرام نے عرض کیا: قسم اللہ تعالیٰ کی ہم اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے تم کو قسم اس لیےنہیں دی کہ مجھے تم پر جھوٹ کا گمان تھا بلکہ میرے پاس ابھی جبریل آئے تھے اور یہ خبر لائے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے درمیان تم پر فخر فرماتاہے۔

اس روایت سے یہ واضح ہے کہ نبی مکرم کے میلاد کا تذکرہ کرنا اور اس پر خوشی کا اِظہار کرنا قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے لہذا میلاد النبی منانا حکم الہٰی کی اطاعت،رسول مکرم کی سنت کی ابتاع اور صحابہ کرام کے طریقہ کی پیروی ہے جو ممدوح وماجور ہے نہ کہ "غلوّفی الدین" جیساکہ معترضین کا کہنا ہے۔

غور طلب امورِمہمّہ

میلاد النبی رسول اکرم کے احوال وواقعاتِ ولادت کاتذکرہ ہے جس کو قرآنِ مجید اور احادیثِ صحیحہ سے مزین کرکے ایک اجتماعی محفل کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے۔12 قرآن پاک میں آمد و بعثتِ رسول 13 کا ذکر "غلوّفی الدین" نہیں ہوسکتا۔اسی طرح حضور کا قریشِ مکّہ کے ہفوات کے جواب میں اپنا میلاد بیان کرنا14 "غلوّفی الدین" شمار کیا جاناکسی طور پر درست نہیں ۔ صحابہ کرام کا حضور کی آمد سے متعلق جلسہ کرنا 15 اور اسی طرح آپ کے ابتدائی حالات کے متعلق سوال کرنا16 "غلوّفی الدین" نہیں ہے اورحضرت حسان بن ثابت کا اجتماعِ صحابہ میں آپ کی تخلیق کو بیان کرنا، 17حضرت عبد اللہ بن رواحہکا آپ کا میلاد بیان کرنا،18 حضرت عباس کو رسول مکرم کا دعا کے ساتھ مشرف فرماتے ہوئے قصیدہ پڑھنے کی اجازت عطا فرمانا 19 پھر اجازت مل جانے کے بعد حضرت عباس کا مجمعِ صحابہ کرام میں نبی کرم کے سامنے آپ کی ولادت کے احوال اور واقعات بیان کرنا20ممکن نہیں ہے کہ اس کو "غلوّفی الدین" کے زمرے میں شمار کیا جائے بلکہ قطعی طور پر ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ سب تو جواز و استحباب و استحسان ِمیلاد النبی پر دلالت کرتے ہیں لہذاان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جائز طریقے سے محافلِ میلاد منعقد کرنا اور ان میں رسول مکرم کی ولادت کے احوال و واقعات بیان کرنا"غلوّفی الدین" نہیں بلکہ اس کے برعکس اس میلاد شریف کو حرام وناجائز کہنا خود" غلوفی الدین "ہے۔

جشن عید میلاد النبی ﷺغلوّفی المدح بھی نہیں

قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیتِ مبارکہ سے میلاد النبی کی خوشی و جشن کو "غلوّفی المدح"کہنا جس میں اﷲ تعالیٰ نے پہلے یہود و نصاریٰ کے باطل عقائد بیان کرکے ان کارد فرمایا اور پھر دونوں فریقوں کو خطاب کرکےارشادفرمایا:

  قُلْ يٰٓاَھلَ الْكتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِى دِيْنِكمْ.7721
  فرما دیجئے : اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق حد سے تجاوز نہ کیا کرو۔

تو اس آیتِ مبارکہ سے اصل مقصد ان دونوں گروہوں کے تجاوزات و منہیات پر عمل پیرا ہونے سے ان دونوں کو تنبیہ کرنا ہے کیونکہ یہود نے انبیاء کی شان میں کمی کی حتیٰ کہ ان کی طرف العیاذ باللہ زنا کو منسوب کیا ،22ان کی تکذیب کی اور ان کو قتل کیا 23 اور عیسائیوں نے انبیاء کی تعظیم میں غلوّکیاحتیٰ کہ حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا24 تو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا یہ خود بھی گمراہ ہیں اور انہوں نے لوگوں کوبھی گمراہ کیا اور یہ بہت بڑی گمراہی ہے ۔ اہل کتاب کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ تم اپنے احبار اور رہبان کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ گمراہ ہوچکے ہیں اور تم کو بھی گمراہ کردیں گے لیکن اس آیتِ مبارکہ میں کسی طور پر بھی میلاد النبی کو"غلوّفی المدح"میں شمار کرنےکی دلیل واشارہ نہیں ہے جبکہ رسول اللہ کی مدح میں غلوّ تو خود مقصود بالذات ہے کیونکہ"ورفعنا لک ذکرک" اور "ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی"کا مطلب اور تقاضہ یہی ہے کہ انسان شریعت کی متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے حضور سے والہانہ محبت کا اِظہار ان پر درود سلام اور مدح سرائی کرتے ہوئے کرے ۔

قرآنِ مجید میں کئی مقامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول مکرم کی بے حد تعظیم و توقیر کرنے کا حکم دیا ہے 25 اورباری تعالیٰ نے نہ صرف مخلوق کو اس تعظیم و توقیر کا حکم دیا ہے بلکہ خود بھی اپنے نبی مکرم کی تعظیم و توقیر کی نشاندہی کرتے ہوئے مکمل وحیِ الٰہی میں اس بات کا اہتمام فرمایا ہے کہ دیگر انبیاء کرام مثلاً حضراتِ آدم 26 و نوح 27 وابراہیم 28 و موسی29 وعیسی 30 کی طرح آپ کو ان کے نام کے ساتھ مخاطب نہیں فرمایا اور جب بھی مخاطبت فرمائی ہے تو صفاتِ عالیہ 31کے ذریعہ ہی سے مخاطبت فرمائی ہے۔اس سے واضح یہ ہوا کہ نبی مکرم کی تعظیم و تکریم حد درجہ کرنی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی تحدید نہیں ہے۔چونکہ میلاد النبی بھی اسی حد درجہ تعظیم وتکریم کے معمولات کو شامل ہے اور رسول مکرم کی مدح و ثناء میں " غلوّ فی المدح"کا تصور ہی نہیں ہے تو میلاد النبی کو "غلوّ فی المدح"سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔

ایک شبہ اور اس کا جواب

اس مقام پر ایک شبہ وارد ہو سکتا ہے کہ نبی کریم کی تعظیم و توقیر کو"غلوّ فی المدح"سے مستثنٰی قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ رسول مکرم نے بذاتِ خود اپنی تعظیم وتوقیر کرنے میں حد درجہ مبالغہ آرائی سے منع فرمایاہے چنانچہ حضرت ابن عباس ایک حدیثِ مبارکہ کو نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

  سمعت عمر، یقول على المنبر: سمعت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یقول: لا تطرونی، كما أطرت النصارى ابن مریم، فإنما أنا عبده، فقولوا عبد اللّٰه ورسوله.32
  میں نے حضرت عمر سے سنا وہ منبر پر بیان کررہے تھے کہ میں نے نبی کریم سے سنا ہے کہ آپ فرمارہے تھے: میری شان میں غلوّنہ کرو جس طرح نصاریٰ نے حضرت ابن مریم کی شان میں غلوّکیا ہے پس میں صرف اﷲ کا بندہ ہوں تو یوں کہا کرو اﷲ کے بندے اور اس کے رسول۔

اس حدیثِ مبارکہ میں یہ واضح ہے کہ نبی کریم نے بذاتِ خود اپنی مدح وثناء میں مبالغہ آمیزی سے منع کرتے ہوئے اس بات کاحکم دیا ہے کہ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو اور میری شان میں مبالغہ نہ کرو لہذا اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ نبی کریم کی مدح وثناء میں بھی غلوّ ممکن ہے اور میلاد النبی منانا بھی ایک طرح سے" غلو فی المدح "کے زمرے میں شامل ہے۔

مذکورہ بالا شبہ اس حدیث کوسرسری طور پر پڑھنے کی وجہ سے پیدا ہوتاہے ورنہ حدیثِ مبارکہ کا سیاق ہی اس شبہ کے جواب میں کافی ہے جس سے بدرجہ اتم یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عید میلاد النبی " غلوّفی المدح " نہیں بلکہ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت ہی سر انجام دیا گیا ایک عمل ہے۔اس کی وضاحت یہ ہے کہ نبی کریم کی درج ذیل حدیثِ مبارکہ میں جس مدح و ثناء کی ممانعت کی گئی ہے وہ ایک خاص قسم کی مدح ہے جس کو سمجھنے کے لیے پہلے حدیثِ مبارکہ کے الفاظ پر غور کرناضروری ہےچنانچہ رسول کریم نے مدح میں مبالغہ آرائی سے ممانعت کرتےہوئے ارشاد فرمایا:

  لا تطرونى، كما أطرت النصارى ابن مریم، فإنما أنا عبده، فقولوا عبد اللّٰه ورسوله.33
  میری شان میں غلوّنہ کرو جس طرح نصاریٰ نے حضرت ابن مریم کی شان میں غلوّکیا ہے ، پس میں صرف اﷲ کا بندہ ہوں، تو یوں کہا کرو اﷲ کے بندے اور اس کے رسول۔

اس حدیث مبارکہ میں جو الفاظ قابلِ غو رہیں وہ "لاتطرونی"کے الفاظ ہیں۔یہ "لاتطرونی "نہی کا صیغہ ہے جو لفظ"اطراء"سے بنا ہے اوراس کا ایک معنی ہے"کسی کی مدح میں حد سے تجاوز کرنا" اوردوسرامعنی ہے "باطل صفت کے ساتھ مدح کرنا" یعنی کسی کی تعریف باطل صفت کےساتھ کرنا ممنوع ہے جس کی وضاحت نبی مکرم نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں نصارٰی کی کی ہوئی مدح کے ذریعہ فرمائی ہے یعنی جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کے متعلق کہا کہ وہ خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں تو اس طرح کی مدح ممنوع ہے ہاں اس کے بدلے اللہ کا بندہ ، اس کا رسول،کلمۃ اللہ یا روح اللہ کہنا یہ مدح بالکل درست ہے کیونکہ رسالت سب سے بڑا شرف ہے باقی تمام عظمتیں اور رفعتیں اس سے کم درجہ کی ہیں۔

اس حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے ملا علی قاری تحریر فرماتے ہیں:

  وهو المبالغة فى المدح والغلوّفى الثناء…(كما أطرت النصارى ابن مریم ) أى: مثل إطرائھم إیاه، مفھومه أن إطراء ه من غیر جنس إطرائھم جائز.34
  الاطراکا مطلب ہوتا ہے : حمدوثنا میں مبالغہ اور غلو کرنا۔۔۔۔"کما اطرت انصاری ابن مریم" سے مفہوم مخالف کے طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا اطراجائز ہے جو نصاری ٰ کے الاطرا کی جنس سے نہ ہو۔

یعنی یہ خود حدیثِ مبارکہ نے واضح کردیا کہ اس طرح کامبالغہ کرنا جس سے توحید باطل ہوتی ہو یہ ممنوع ہے البتہ اس کے علاوہ جائز ہے بلکہ مطلوب ہے اور میلاد النبی سے تو رسول اکرم کی عبودیت ثابت ہوتی ہے اور توحید باری تعالیٰ واضح ہوجاتی ہے کہ جو ذات متولد ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔

اسی طرح امام بغوی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  ذلك أن النصارى أفرطوا فى مدح عیسى وإطرائه بالباطل، وجعلوه ولدا، فمنعھم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم من أن یطروه بالباطل.35
  نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کی مدحت میں افراط برتا اور ان کی مدح سرائی میں مبالغہ سے کام لیا اور ان کو اﷲ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا تو آنحضرت نے اپنے اس ارشاد گرامی کے ذریعے سے واضح فرمادیا کہ تم لوگ میری مدح و تعریف میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے باطل کی حدوں کو مت چھونا(کہ مجھے اللہ کے ساتھ شریک یا اس کا بیٹا بنا ڈالو)۔

ان عبارات سے معلوم ہوا کہ کسی کی تعریف میں وہ غلوّمنع ہے جو نصاریٰ نے کیا تھا یعنی کسی کو خدا یا خدا کابیٹاکہنایا پھر کسی کو معبود سمجھ کراس کی عبادت کرنا ۔ الحمدﷲ دنیا بھر کے مسلمان جو نبی کی ولادت کی خوشی کا اِظہار کرتے ہوئے میلاد النبی مناتے ہیں اس میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو حضور نبی کریم کو خدا یا خدا کا بیٹا کہتا ہو بلکہ اس کے برعکس میلاد النبی منانے سے اس مذکورہ حدیثِ مبارکہ پر عمل ہوتا ہے کہ نبی مکرم کا میلاد منانا اس بات کی دلیل ہے کہ عالم اسلام کے مسلمان آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا بندہ اور رسول مانتے ہیں نہ کہ نصاریٰ کی طرح العیاذ باللہ خدا یا اس کا بیٹا۔ اس لیےمیلاد النبی منانا" غلوفی المدح"نہیں ہے بلکہ یہ تو قرآن وحدیث اور اقوالِ ائمہ سلف سے ثابت مسلمہ حقیقت ہے۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ المائدۃ5: 77
  • 2 القرآن، سورۃآلِ عمران19:3
  • 3 القرآن، سورۃالشورٰی13:42
  • 4 القرآن، سورۃ المائدۃ5: 77
  • 5 أبو بکر أحمد بن عمرو الشیبانی، السنۃ، حدیث:98، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1400ھ، ص: 46
  • 6 شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الألوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ج۔3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 199
  • 7 أبو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدين الرازی، التفسیر الکبیر، ج-12، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420 ھ، ص: 411
  • 8 أبو الفضل أحمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-13 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1379ھ، ص: 278
  • 9 القرآن، سورۃ یونس 10: 58
  • 10 ابو حاتم محمد بن حبان الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث:6404، ج-14، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:313
  • 11 ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:16835، ج-28، مطبوعة:مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،2001م، ص:49
  • 12 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الحاوی للفتاوی، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 181 -182
  • 13 القرآن، سورة الجمعة62: 5-2
  • 14 ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، جامع الترمذی،حدیث:3607، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:1069
  • 15 ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانی، مسند الامام احمد بن حنبل،حدیث:16835، ج-28، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،2001م، ص:49
  • 16 ابو حاتم محمد بن حبان الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث:6404، ج-14، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:313
  • 17 الدکتور محمد سعید رمضان بوطی، مختارات من اجمل الشعر فی مدح الرسولﷺ، مطبوعہ: دارالمعرفۃ، دمشق، سوریا، 1408ھ، ص:10
  • 18 محمد أحمد درنيقۃ، معجم اعلام شعراء المدح النبوىﷺ، مطبوعۃ: دار ومكتبۃ الهلال، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:277
  • 19 ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح زرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:102
  • 20 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدٰی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:70
  • 21 القرآن، سورۃ المائدۃ5: 77
  • 22 کتاب مقدس،پیدائش،باب19،آیت نمبر:30-36،مطبوعہ:ببلیکا،کولاروڈو، یو-ایس- اے،2005ء
  • 23 القرآن، سورۃالنساء155:4
  • 24 القرآن، سورۃ التوبۃ30:9
  • 25 القرآن، سورۃ الفتح9:48
  • 26 القرآن، سورۃالبقرۃ33:2
  • 27 القرآن، سورۃھود46:11
  • 28 القرآن، سورۃالصافّات104:37
  • 29 القرآن، سورۃالاعراف144:7
  • 30 القرآن، سورۃآل عمران55:3
  • 31 القرآن سورۃ المائدۃ67:5
  • 32 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3445، مطبوعۃ: دالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 580
  • 33 ایضاً
  • 34 نور الدین علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، حدیث:4897، ج-7، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،2002 م، ص: 3071
  • 35 أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی، شرح السنۃ، حدیث:3681، ج-13، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، 1983م، ص:246