Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺعہد قریب کے علماء کی نظر میں

نبی اکرم کے یوم ولادت روزہ رکھ کر باری تعالیٰ کاشکر ادا فرمانے1 اور آپ کی سنت کے مطابق2 صحابہ کرام کے آپ کے احوالِ ولادت بیان کرنے3 کی بنا پر امت مسلمہ کے بعد میں آنے والے افراد نے ان کی پیروی کرتے ہوئے ولادت رسول کا تذکرہ کرنے کے لیے محافلِ میلاد کوانتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ اپنی اپنی ثقافت کے لحاظ سے منعقد کیا ہے اورانتہائی عقیدت سے ان مجالس ومحافل کو مناتے چلے آئے ہیں۔اسی طرح عام مسلمان محافل ومجالس کا انعقاد کر کے اس میں تذکرۂ ولادت کرتے اورسنتے ہیں اور خواص مسلمین یعنی علمائےامت اورمفتیان دین اپنی اپنی تصنیفات میں جشن عید میلاد النبی کے فضائل وبرکات کو بیان کرتے اور اس کے جواز واستحسان کی بابت تفصیلی کلام کرتے ہوئے امت کو ان محافل میلاد کو جاری وساری رکھنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ محافلِ میلاد امت میں رسول مکرم کی تعظیم وتوقیر اور اطاعت کے جذبات کو دوام عطا کرتی ہیں ۔علمائے اسلاف کی طرح عہدِ حاضر کے علمائے کرام بھی میلاد النبی منانے کو باعث اجر وثواب گردانتے ہیں اور اس حوالہ سے انہوں نے کئی کتب ورسائل میں میلاد النبی کے جواز واستحسان کو بیان کیا ہے۔ذیل میں عہدِ قریب کے چند جید علمائے کرام کی آراء کو درج کیا جارہا ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ امتِ مسلمہ میلاد النبی منانے کو نہ صرف جائز اور مستحسن سمجھتی ہے اور بلکہ ہی ساتھ قربِ الہٰی پانے اور رسول اکرم کی تعظیم کا سبب گردانتی ہے۔

میلاد النبی ﷺشیخ زینی دحلان مکی کی نظر میں

ميلاد النبی رسول اکرم کی تعظیم وتوقیر میں شامل ہے جس کو کرنے کا حکم مسلمانوں کا دیاگیا ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اکرم کی بعثت کے مقصد کو بیان کرتےہوئے ارشاد فرمایا:

  اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاھدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا8 لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰه وَرَسُوْلِه وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہ ۭ وَتُسَـبِّحُوْہُ بُكْرَة وَّاَصِيْلًا9 4
  بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو۔

اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیاگیا ہے کہ ایمان کے ساتھ ساتھ نبی مکرمکی تعظیم و توقیر بھی لازمی وضروری ہے اور اسی حکم باری تعالیٰ کے تحت علمائے امت نے میلاد النبی کو جائزومستحسن قراردیا ہے۔ان علماء میں ماضی قریب کے معتبر عالم دین شیخ احمد بن زینی دحلان مکی ہیں جن کی ولادت بارہ سو بتیس( 1232ھ) مکّہ مکرّمہ میں ہوئی۔ آپ اپنے وقت کے انتہائی بلند پایہ عالم دین تھے اورآپ امام احمد رضاخان القادری کے اساتذہ میں شامل ہیں۔5آپ نے بھی میلاد النبی کو نبی اکرم کی تعظیم وتوقیر میں شامل ماناہے اور اس کو مستحسن قراردیا ہے چنانچہ شیخ زینی دحلان مکی شافعی اپنی کتاب میں اس حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وكان ھؤلاى المانعین للتوسل والزیارة یعتقدون انه لایجوز تعظیم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فحیثما صدر من احد تعظیم له صلى اللّٰه عليه وسلم حكموا على فاعله بالكفر والاشراك، ولیس الامر كما یقولون فان اللّٰه تعالٰى عظم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى القرآن الكریم باعلى انواع التعظیم فیجب علینا ان نعظم من عظمه اللّٰه تعالٰى وامر بتعظیمه، نعم یجب علینا ان لا نصفه بشئى من صفات الربوبیة ورحم اللّٰه البوصیرى حیث قال:
دع ماادّعتہ النصاری فی نبیھم
واحکم بما شئت مدحا فیہ واحتکم
فلیس فى تعظیمه بغیر صفات الربوبیة شئى من الكفر والاشراك بل ذلك من اعظم الطاعات والقربات وھكذا كل من عظمھم اللّٰه تعالٰى كالانبیاء والمرسلین صلوات اللّٰه وسلامه علیه وعلیھم اجمعین كالملائكة والصدیقین والشھداء والصالحین قال تعالى "وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاىِٕرَ اللّٰه فَاِنَّھا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ" وقال تعالى " وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰه فَھوَخَيْرٌ لَّه عِنْدَ رَبِّه"ومن تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم الفرح ھلیلة ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم واطعام الطعام وغیر ذلك مما یعتاد الناس فعله من انواع البر فان ذلك كله من تعظیمه صلى اللّٰه عليه وسلم وقد افردت مسالة المولد وما یتعلق بھابالتالیف واعتنى بذلك كثیر من العلماء فالفوا فى ذلك مصنفات مشحونة بالادلة والبراھین فلاحاجةلنا الى الاطالة بذلك.6
  اور یہ توسل وزیارتِ قبور سے منع کرنے والے افراد اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی کریم کی حددرجہ تعظیم جائز نہیں ہے لہذا جس طرح بھی کسی ایک سے تعظیم رسول صادر ہوتی ہے یہ لوگ اس تعظیم کرنے والے پر کفر وشرک کرنے کا حکم لگادیتےہیں جبکہ در حقیقت معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح یہ لوگ کہتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نےقرآن کریم میں نبی کریم کو تعظیم کے اعلیٰ انداز سے عظمت عطا فرمائی ہے لہذا ہم سب پر لازم و ضروری ہے کہ ہم اس ذاتِ مقدسہ کی تعظیم کریں جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عظمت عطا فرمائی ہے اور ان کی تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ہاں البتہ ہم پر یہ بھی لازمی ہے کہ نبی اکرم کو صفات باری تعالیٰ میں سے کسی صفت کے ساتھ متصف نہ کریں اور امام بوصیری پر اللہ تبارک وتعالیٰ رحم فرمائے کہ انہوں نے کہا:
"جو نصاری نے اپنے نبی کے بارے میں الوہیت کا دعوی کیا اس کو چھوڑدےاس کے علاوہ نبی کریم کی جو تعریف بھی کرنا چاہے وہ کر اور اس پر پختہ رہ"
پس نبی کریم کی تعظیم میں علاوہ صفات ربوبیت کے ذرہ برابر کفر و شرک نہیں ہے بلکہ یہ تعظیم اعلیٰ ترین نیکیوں اور قربتوں میں سے ہے۔۔۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا"اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقوٰی میں سے ہے"ایک اور جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا"اور جو شخص اﷲ (کی بارگاہ) سے عزت یافتہ چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو وہ اس کے رب کے ہاں اس کے لیے بہتر ہے" ۔اور آپ کی تعظیم کےامور میں سے آپ کی شبِ ولادت پر خوشی کا اظہار کرنا ،دعوت میں لوگوں کو کھانا کھلانا اور اس کے علاوہ وہ افعال سرانجام دینا شامل ہیں جنہیں لوگ نیک اعمال شمار کرتےہیں پس یہ تمام افعال نبی کریم کی تعظیم میں سے ہیں۔ اور تحقیق مجلسِ میلاد اور اس کے متعلقات کا مسئلہ ایسا ہے جس میں مستقل کتابیں تصنیف ہوئیں ، بکثرت علمائے دین نے اس کا اہتمام فرمایا اور دلائل وبراہین سے بھری ہوئی کتابیں اس میں تالیف فرمائیں ہیں لہذا ہمیں اس مسئلہ میں تطویل کلام کی حاجت نہیں۔

شیخ زینی دحلان مکی کی مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کی تعظیم یقیناً واجب و لازم ہے جس کے مختلف طریقے امت میں رائج و نافذ ہیں اور انہیں افعالِ تعظیمِ رسول میں آپ کی شبِ ولادت پر خوشی کا اظہار کرنا اور اس خوشی میں لوگوں کو دعوت دے کر کھانا کھلانا اور مختلف افعالِ حمیدہ جو شبِ ولادت سرانجام دیے جاتےہیں یہ تمام افعال و اعمال آپ کی تعظیم کے سبب ہیں لہذا میلاد النبی منانے اور اس پر خوشی کے اظہار کے شرعی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مختلف طرق وانداز اپنانےمیں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ شریعتِ مطہرہ میں تو آپ کی تعظیم مطلوب ومحمود فعل ہے لہذا میلاد النبی بھی محمود ومطلوب ہے۔

میلاد النبی ﷺامام احمد رضا خان القادری کی نظر میں

عالمِ اسلام کے نامور عالم دین، امام احمد رضا خان القادری نےمیلاد النبی کے جوازو استحسان کے حوالہ سے ایک رسالہ تحریر کیا ہے جس میں قرآن وحدیث اور علمائے امت کے اقوال کی بنا پر میلاد النبی کو مستحسن قراردیاہے چنانچہ ایک مقام پر وہ مجلس میلاد کے بارےمیں تحریر کرتے ہیں:

  حضور اکرم کی تشریف آوری سب نعمتوں سے اعلیٰ نعمت ہے،یہ تشریف آوری ہے جس کے طفیل دنیا، قبر،حشر،برزخ،آخرت،غرض ہر وقت، ہر جگہ اورہر آن ہم سب ظاہری وباطنی نعمتوں سے بہرمند ہیں۔اپنے رب کی نعمتوں کا چرچا مجلس میلاد میں ہوتا ہے اورمجلس میلاد وہی شئی ہے جس کا حکم رب العزت دے رہا ہے۔ مجلس مبارک کی حقیقت مجمع المسلمین کو حضور اقدس کی تشریف آوری و فضائل جلیلہ وکمالات جمیلہ کا ذکر سنانا ہے۔۔۔یہ مجلس آج سے نہیں آدم نے خود کی اورکرتے رہے ،ان کی اولا د میں برابر ہوتی رہی،کوئی دن ایسا نہ تھا کہ آدم حضور اکرم کا ذکر نہ کرتے ہوں ۔اول روز سے آدم کو تعلیم ہی یہ فرمائی گئی کہ میرے ذکر کے ساتھ میرے حبیب و محبوب کا ذکرکیا کرو۔اس کے لیے عملی کاروائی یوں کی گئی کہ جب روح ِالہٰی آدم کے پتلے میں داخل ہوئی اور آنکھ کھلی تو عرش پر نگاہ گئی جہاں کلمۂ طیبہ "لاالہ اللہ محمد رسول اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم"لکھا دیکھا تو عرض کی الہٰی یہ کون ہیں جن کا نام پاک تو نے اپنے نام اقدس کے ساتھ لکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ اے آدم! یہ تیری اولاد میں سے آخری پیغمبر ہے،اسی کے طفیل میں نے تجھے پیدا کیا اگر وہ نہ ہوتا تو نہ تجھے پیداکرتا اور نہ زمین و آسمان بناتالہذا تو اپنی کنیت" ابو محمد()" رکھ۔یعنی آنکھ کھلتے ہی نام پاک بتایا گیا اور پھر ہر وقت ملائکہ کی زبان سے ذکر اقدس سنایا گیا،وہ مبارک سبق عمربھر یاد رکھا کہ ہمیشہ ذکر اور چرچا کرتے رہے۔ جب زمانہ وصال شریف کاآیا توشیث سے ارشاد فرمایا: اے فرزند! میرے بعد تو خلیفہ ہوگا عمادِ تقویٰ و عروۂِ و ثقیٰ کو نہ چھوڑنا او "العروۃ الوثقی "(یعنی) محمد کا ذکر ضرور کرنا کیونکہ میں نے فرشتوں کو دیکھا ہر گھڑی ان کی یاد میں مشغول ہیں۔اسی طور پرآنحضرت کا چرچا ہوتا رہا اور پہلی انجمن روزِ میثاق جمائی گئی جس میں حضوراکرم کا ذکر تشریف آوری ہوا چنانچہ باری تعالیٰ کاارشادمقدس ہے:

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰه مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِه وَلَتَنْصُرُنَّه ۭ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْھدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰھدِيْنَ (81) فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (82)7
ترجمہ:....اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول () تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں، (اب پوری نسل آدم کے لیے تنبیہاً فرمایا:) پھر جس نے اس (اقرار) کے بعد روگردانی کی پس وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔

مجلسِ میثاق میں ربُّ العزّت نے حضور اکرم کی تشریف آوری کا ذکر بیان فرمایا اور تمام انبیائے کرام نے سنا اور حضوراکرم کی انقیاد و اطاعت کا وعدہ دیا، ان کی نبوت ہی حضوراکرم کے مطیع و امتی بننے پر مشروط تھی۔اس سے معلوم ہواکہ ذکر پاک کی سب سے پہلی مجلس ، مجلسِ انبیاء ہے جس میں پڑھنے والا اللہ تبارک وتعالیٰ اور سننے والے انبیاء کرامہیں۔غرض اسی طرح ہر زمانے میں حضوراکرم کا ذکر ولادت و تشریف آوری ہوتا رہا۔ ہر قرن میں انبیاء و مرسلین سے لےکر ابراہیم و موسیٰ و داؤد وسلیمان و زکریا تک تمام نبی و رسول اپنے اپنے زمانے میں مجلسِ مولودِ حضور اکر ترتیب دیتے رہے یہاں تک کہ وہ سب سے آخرمیں ذکرِ شریف سنانے والا،کنواری، ستھری، پاک بتول کا بیٹا جسے اللہ نے بن باپ کے پیدا کیا، جو سارے جہان کے لیے نشانی تھا یعنی سیدنا عیسیٰ ، جب آپ تشریف لائے تو حضور اکرم کی تشریف آوری کی بشارت دیتے ہوئے تشریف لائےچنانچہ باری تعالیٰ کا ارشادِ مقدس ہے:

وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِى اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّى رَسُوْلُ اللّٰه اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَى يمِنَ التَّوْرٰیة وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِى مِنْۢ بَعْدِى اسْمُه اَحْمَدُ ۭ فَلَمَّا جَاۗءَھمْ بِالْبَيِّنٰتِ قَالُوْا ھذَا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ(6)8
ترجمہ:....اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسٰی بن مریم () نے کہا: اے بنی اسرائیل! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ معظّم () کی (آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد () ہے، پھر جب وہ (رسولِ آخر الزماں ) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔

یہ ہے مجلس میلاد النبی جو مسلمان آج منعقد کرتے ہیں۔اسی طرح جب زمانہ ولادت شریف کا قریب آیا توملک و ملکوت میں محفل میلاد تھی، فرش پر محفل میلاد تھی اور ملائکہ میں مجلس میلاد ہورہی تھی جیساکہ حضرت سیدہ آمنہ سے منقول روایات میں تفصیلات مذکورہیں۔ 9

اسی طرح امام احمد رضاخان القادری نےمیلادالنبی کے حوالہ سے دو رسائل تحریر کیے ہیں پہلا رسالہ بنام"اقامۃ القیامۃ علی طاعن القیام للنبی تھامۃ" بارہ سو اٹھانوے(1298ھ) میں تحریر فرمایا ہے جس میں اختتامِ محفلِ میلاد میں ہونے والے قیامِ تعظیمی کے جواز و استحسان کے ساتھ ساتھ میلاد النبی کے استحسان کو بھی بیان کیا ہےاور اس کو تعظیم وتوقیر ِنبی کاسبب ہونے کی وجہ سے مستحسن قراردیا ہے ۔ 10دوسرا رسالہ بنام"نطق الہلال بارخ ولاد الحبیب والوصال"تیرہ سو سترہ (1317ھ) میں تحریر فرمایا ہےجس میں مختلف دلائل وبراہین کی روشنی میں رسول اکرم کی تاریخِ ولادت اور تاریخِ وصالِ مبارک کو واضح کیا ہے اور یہ دونوں رسائل ان کے فتاویٰ میں موجود ہیں۔11 اسی مذکورہ فتاویٰ کے ایک دوسرے مقام پر میلاد النبی کے بارے میں کیے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ مولود شریف یعنی خاص بیان ولادت رسول جو کہ منکرات شرعیہ سے خالی ہو جائز ہے۔12 ان مذکورہ بالا اقتباسات سے واضح ہوا کہ امام احمد رضا خان القادری نےمیلاد النبی کو تعظیم رسول کا سبب قراردیتے ہوئے اس کو مستحسن قراردیاہے اور اپنے فتاوی کے مختلف مقامات پر میلاد النبی کےجواز و استحسان کو ماقبل اسلاف کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث کے دلائل سے واضح کرکے اس کو کرتے رہنے کی تلقین کی ہے۔

میلادالنبیﷺشیخ صدیق حسن بھوپالی کی نظر میں

اسی طرح چودہویں(14)صدی کے نامور عالم دین شیخ نواب صدیق حسن خان بھوپالی بھی میلاد النبی کے جواز واستحسان کے قائل ہیں اور انہوں نے رسول اکرم کےمیلاد شریف کے حوالہ سے مکمل ایک رسالہ تحریر فرما یا ہے جس کانام"الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ صلى اللّٰه عليه وسلم"ہے جس میں انہوں نے نبی اکرم کے حالاتِ ولادت ، واقعاتِ ولادت اور آپ کی ولادت کے موقع پر رونما ہونے والے اہم معجزات کو قلمبند کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے سفرِ ِمعراج اور چند معجزات کو تحریر فرمایا ہے۔اسی رسالہ میں ایک مقام پر آپ نبی اکرم کی ولادت کی خوشی کے اظہار کےحوالہ سے شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی وہ عبارت جس میں انہوں نے ابن الحاج کا اقتباس ذکر کرکے اپنی رائے قلمبند کی ہے کو نقل کرتے اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  ولقد اطنب ابن الحاج فى المدخل فى الانكار على مااحدثه الناس من البدع والاھواء والغناء بالآلات المحرمة عند عمل المولد الشریف فاللّٰه تعالٰى یثیبه على قصده الجمیل ویسلك بنا سبیل السنة فنه حسبنا ونعم الوكیل.13
  ابن الحاج نے(اپنی کتاب) "المدخل"میں میلاد شریف کے عمل میں لوگوں کی گھڑی گئیں بدعات ونفسانی خواہشات کا رد وانکار کرنے میں کافی مبالغہ کیا ہے۔پس اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے اس نیک کام پر انہیں جزا عطا فرمائے اور ہمیں (ہر کام میں)سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ وہ ہی ہمارے لیے کافی اور بہترین کارساز ہے۔

اس عبارت سے شیخ عبد الحق دہلوی حنفی کاعملِ مولد میں صاف انکارِ ضمِ منکرات نکلتا ہے اور عبارت سابقہ سے میلاد نبوی پر اظہارِ فرح پایا جاتا ہے سو جس کو حضرت(رسول کرم )کے میلاد کا حال سن کر فرحت حاصل نہ ہواور اس نعمت کے حصول پر خد ا کا شکر نہ کرے وہ مسلمان نہیں۔14

اسی طرح شیخ نواب صدیق حسن بھوپالی اسی رسالہ کے ایک اور مقام پر میلاد النبی کی محافل ومجالس کے انعقاد کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:

  اللہ تبارک وتعالیٰ ہم کو اور جملہ اہلِ اسلام کو ایسی توفیقِ خیر رفیقِ حال(عطا) کرےکہ ہم ہر روز کسی قدر ذکرِ میلاد شریف کتبِ معبترہ سے خود پڑھیں یا کسی محبِّ صادق متبعِ واثق سے سن لیا کریں اور فقط کسی یوم، ماہ اور تاریخِ معین پر قصر(حد بندی)نہ کریں۔15

شیخ نواب صدیق حسن خان بھوپالی کے مذکورہ بالا دونوں اقتباسات سے واضح ہوا کہ میلاد النبی کی خوشی کرنا اہلِ ایمان کا طریقہ وشیوہ ہے اور جس کو بھی نبی کریم کی ولادتِ باسعادت کے احوال سن کر خوشی وفرحت نہ ہو تو وہ اہلِ ایمان میں شمار نہیں کیا جاسکتا کہ اہلِ ایمان کے لیے تو بالخصوص نبی کریم کی تشریف آوری سب سے بڑی نعمتِ خداوندی ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کے لیے اور اس کی یاد دہانی کے خاطر محافل ومجالسِ میلاد کا انعقاد بغیر کسی تعیین کے ہر روز ہی کیا جانا چاہیے۔

میلاد النبی ﷺمولانا رشید احمد گنگوہی کی نظر میں

مولانا رشید احمد گنگوہی جن کا بر صغیر پاک وہند کے بڑے علماء میں شمار کیاجاتا ہے ان کے نزدیک بھی میلاد النبی کی محفل جائز ومستحب ہے چنانچہ اپنے ایک فتوی میں جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اپناقول یہ ہے کہ ہمارے لیے اگر مولود شریف کریں تو جائز بلکہ مستحب ہے۔ 16

میلاد النبیﷺمولانا قاسم نانوتوی کی نظر میں

بانیِ دارالعلوم دیوبندمولانا قاسم نانوتوی جو اپنے دور کے مشہور عالم ہیں انہوں نے بھی میلاد النبی کو جائز ومستحسن سمجھا ہے چنانچہ سوانحِ قاسمی میں مولانا مناظر احسن گیلانی آپ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نے میرٹھ میں مولانا سےدریافت کیا کہ مولوی عبد السمیع صاحب تو مولود شریف کرتے ہیں تو آپ کیوں نہیں کرتے؟نانوتوی صاحب نے فرمایا کہ انہیں حضور سے محبت زیادہ معلوم ہوتی ہے مجھے بھی اللہ تعالیٰ نصیب کرے۔17اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا قاسم نانوتوی کی ایک حکایت بیان کرتےہوئے لکھا ہے کہ سیوہارہ میں ایک جماعت جس میں مسئلۂِ مولود نزاع کا سبب بنا ہوا تھا تو اس میں مولانا محمد قاسم صاحب سے، کہ اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے، مولود کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ بھائی نہ تو اتنا برا ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں اور نہ اتنا اچھا ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔18

میلاد النبی ﷺشیخ یوسف نبہانی کی نظر میں

شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی فلسطین کے ایک نامور عالم و صوفی گزرے ہیں جن کی بے شمار کتب ان کے تبحر علمی اور ثقاہتِ نظری کی گواہ ہیں۔آپ نے اپنی تالیف جو "جواہر البحار فی فضائل النبی المختار صلى اللّٰه عليه وسلم"کے نام سے منصہ شہو د پر موجود ہے اس میں مختلف علمائے کبار کے رسائل ِ مولود کو بھی جمع کیا ہے مثلا شیخ ابن حجر الہیتمی کے "مولد ابن حجر " کواس کی شرح سمیت جو شیخ ابن حجر کے بھتیجے سید احمد بن عبد الغنی نے "نثر الدرر علی مولد ابن حجر" کے نام سے کی ہے۔اسی طرح شہاب احمد مقری،شیخ عبد الغنی نابلسی،شیخ محمد مغربی،سید جعفر بن حسن برزنجی،شیخ احمد دردیر اور دیگر کئی کبار علماء ومشائخ کے مولد النبی کے موضوع پر لکھے گئے رسائل کو ذکر کیا ہے۔اسی طرح اپنی دوسری کتاب "حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینصلى اللّٰه عليه وسلم"جو انتہائی معروف ومشہور ہےاس میں بھی شیخ نبہانی نے رسول اکرم کے میلاد کی بابت تفصیلاً کلام کیا ہے اور مولد النبی کے جواز و استحسان سمیت اس کی تاریخ اور امت مسلمہ کے نامور علماء ومشائخ و فقہاء کے اقتباسات سے یہ واضح کیا ہے کہ امت مسلمہ رسول اکرم کا میلاد اجماعی طور پر مناتی چلی آرہی ہے چنانچہ شیخ نبہانی ابن کثیر سے نقل کرتے ہوئے میلادالنبی کی بابت تحریر فرماتےہیں:

  قال ابن كثیروھو المشھور عن الجمھور وعلیه اھل مکة قدیماوحدیثا فى زیارتھم موضع مولده صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذالوقت لان السلف والخلف مطبقون علغ عمل المولد فغ الیوم المذكور ولیلته وعلى تسمیة مولده بیوم المولد فى سائر الامصار حتى فى حرم مكة التى ھى محل مولد المختار صلى اللّٰه عليه وسلم.19
  ابن کثیر نے کہا: جمہور سے(ولادت نبوی کی تاریخ کےبارےمیں) یہی(بارہ ربیع الاوّل کا) قول مشہور ہے اور قدیم و جدید اہل مکّہ اسی پر متفق چلے آرہے ہیں۔ وہ اسی تاریخ کو حضور نبی کریم کی جائے ولادت کی زیارت کرنے جاتے ہیں۔ اس لیے سلف و خلف سب اس پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ وہ محفل میلاد بارہ ربیع الاوّل کو ہی منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور بارہ ربیع الاوّل کی رات کو ہی عمل مولد کرتے آرہے ہیں اور اس تاریخ کو میلاد النبی کی تاریخ کہتے چلے آرہے ہیں۔ تمام شہروں میں یہی معمول ہے حتیٰ کہ حرم مکّہ میں بھی یہی معمول ہے جو آپ کی جائے ولادت ہے۔

اسی طرح میلاد النبی کی خوشی کےاظہار کے حوالہ سے کلام کرتے ہوئے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی، امام کمال ادفوی کےحوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  وقال المال الادفوى فى الطالع السعید حكى لناصاحب العدل ناصر الدین محمود بن العماد ان اباالطیب محمد بن ابراھیم السبطى السبطى نزیل قوص احد العلماء العاملین كان یجوز فى المکتب فى الیوم الذى ولد فیه النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فیقول یا فقیه ھذا یوم سرور اصرف الصبیان فیصرفنا، وھذا منه دلیل على تقریره وعدم انمارت و ثذا الرجل كان فقیھامالكیا مفننافى العلوم متورعا اخذ منه ابو حیان و غیرہ ومات سنة خمس وتسعین وستمائة.20
  کمال ادفوی نے"الطالع السعید"میں تحریر کیاہے کہ ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن حماد نے بتایا کہ ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی جو قوص کے رہنےوالے تھے اور باعمل علماء میں سے تھے وہ اپنے دارالعلوم میں نبی مکرم کی ولادت مقدسہ کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسہ میں پڑھائی کی چھٹی کرتے اور اساتذہ سے کہتے :اے فقیہ آج خوشی و مسرت کا دن ہے بچوں کو چھوڑدو! تو ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد النبی کے جواز و اثبات اور عدم جواز پر انکار کی دلیل ہے۔یہ عالم مالکیوں کےبہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فن گزرے ہیں جو انتہائی تقوی و پرہیزگار ی کے مالک تھے۔علامہ ابو حیان اور دیگر علماء کرام نے ان سے اکتساب علم و فیض کیا ہے اور انہوں نے695ھ میں وفات پائی۔ 21

ان دونوں اقتباسات سے واضح ہوا کہ شیخ نبہانی رسول اکرم کی ولادت کی خوشی کرنے کو جائز سمجھتے تھے اورامت مسلمہ میں رائج مولد النبی کی خوشی کو بنظر استحسان دیکھتے تھے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ احادیث سے اصلِ میلاد کو ثابت کرنے کا سہرا ابن حجر عسقلانی کے سر ہےلیکن شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے تحریر فرمایا ہےکہ حافظ ابن رجب نے ابن حجر عسقلانی سے پہلے اصلِ میلاد کو مزید ایک حدیثِ مبارکہ سے استخراج کیاہے۔22 جس کو نقل کرتے ہوئے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی تحریر فرماتے ہیں:

  وفى قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لماسئل عن صیام یوم الاثنین ذلك یوم ولدت فیه وأنزلت على فیه النبوة.23 اشارة الى استحباب صیام الأیام التى تجدد فیھا نعم اللّٰه تعالى على عباده فان أعظم نعم اللّٰه على ھذه الأمة اظھار محمد صلى اللّٰه عليه وسلم لھم وبعثتة وارساله الیھم كما قال تعالى: لقد من اللّٰه على المؤمنین اذ بعث فیھم رسولًا من أنفسھم.24 فان النعمة على الأمة بارساله صلى اللّٰه عليه وسلم أعظم من النعمة علىھم بایجاد السماء والأرض والشمس والقمر والریاح واللیل والنھار وانزال المطر واخراج النبات وغیر ذلك فان ھذه النعم كلھاقد عمت خلقاً من بنی آدم كفروا باللّٰه وبرسله وبلقائه فبدلوا نعمة اللّٰه كفراً وأما النعمة بارسال محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فان بھا تمت مصالح الدنیا والآخرة وكمل بسببھا دین اللّٰه الذى رضیه لعباده وكان قبوله سبب سعادتھم فى دنیاھم وآخرتھم فصیام یوم تجددت فیه النعم من اللّٰه على عباده حسن جیل وهو من باب مقابلة النعم فى أوقات تجددھا بالشكر ونظیر ھذا صیام یوم عاشوراء، حیث نجى اللّٰه فیه نوحاً من الغرق ونجى فیه موسى وقومه من فرعون وجنوده وأغرقھم فى الیم فصامه نوح وموسى علیھم السلام شكراً فصامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم متابعة لأنبیاء اللّٰه وقال للیھود نحن أحق بموسى منكم وصامه وأمر بصیامه.25
  اورحضور پر نور ہر سوموار کو روزہ رکھتے تھے جب اس کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ان ایام میں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خاص نعمت سے نوازا ہو روزہ رکھنا مستحب ہے اور بلاشبہ اس امت کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت آپ کی ذات ہے۔ حضور اکرم کی بعثت اور اس امت مرحومہ میں آپ کو نبی بناکر مبعوث کرنا بلاشبہ ایک عظیم الشان نعمت ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : یقیناً بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہی میں سے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اس امت مرحومہ میں حضور کو مبعوث کرنے کی نعمت زمین، آسمان، سورج، چاند، ہوا اور لیل و نہار جیسی نعمتوں سے عظیم الشان ہے۔ یہ نعمتیں تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں اور ان میں کافر بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رُسُل کا انکار کیا اوراللہ کی نعمت کی ناشکری کی لیکن بعثت محمدی وہ نعمت کبریٰ ہے جس سے دنیا اور آخرت کی مصلحتیں مکمل ہوگئیں۔ اسی کی وجہ سے اللہ کا وہ دین بھی مکمل ہوا جس کو اس نے اپنے بندوں کے لیے منتخب فرمایا: اس کی قبولیت ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا سبب ہے۔ اس دن ، جس دن بندوں پر اللہ تعالیٰ عظیم احسان فرمائے، روزہ رکھنا اچھا عمل ہے گویا کہ یہ اچھا عمل اس دن ہونے والی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔عاشورہ کے دن کا روزہ بھی اسی وجہ سے رکھا جاتا ہے۔ اس دن حضرت نوحکو غرق ہونے سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت موسیٰ اور آپکی قوم نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون کو سمندر میں ہلاک کیا گیا، حضرت موسیٰ اور حضرت نوح نے اس دن اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور آپ نے انبیاء کرام کی اتباع کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا اور آپ نے یہودیوں سے فرمایا ہم تم سے زیادہ اس بات کے حق دار ہیں کہ ہم اس دن روزہ رکھیں جب حضرت موسیٰ نے روزہ رکھا تھا۔ حضور اکرم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔26

اس کے علاوہ شیخ نبہانی نے شاہِ اربل اور شاہ ِتلمسان کے محفل میلاد اور اس میں ہونے والے تمام تر معاملات کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اورآپ نے بذاتِ خود ایک نظم نبی کریم کی ولادت کےبارے میں کہی ہے جس کا نام"النظم البدیع فی مولد الشفیع"رکھا ہے اور اس کو اپنی کتاب"حجۃ اللہ علی العالمین "میں تحریر فرمایا ہے۔27مذکورہ بالا اقتباسات اور تفصیلات سے واضح ہواکہ شیخ نبہانی میلاد النبی کی محافل و مجالس کے انعقاد اور اس پر خوشی کے اظہار کرنے کو جائز و مستحسن سمجھتے تھے اور اس کا تذکرہ آپ نےاپنی تالیفات وتصنیفات میں جابجا کیا ہے۔

میلاد النبیﷺعلامہ وحید الزماں کی نظر میں

اسی طرح ایک اور نامور عالم دین جن کے بارے میں سید محمد نذیر حسین دہلوی اجازتِ حدیث دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں اپنی تمام مرویاتِ حدیثہ یعنی صحاحِ ستہ وغیرہ کی اجازت مولوی وحید الزماں کو دیتا ہوں جو بڑے زیرک،نہایت روشن دماغ، اور صائب الرائے آدمی ہیں۔یہ علامہ وحید الزماں اپنی ایک کتاب میں میلاد النبی کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  نبی کریمکے جشنِ ولادت کے اظہار کے لیے محفلِ میلاد قائم کرنے میں اختلاف ہے اگر بدعات ومحرمات سے خالی ہوں تو جائز ہے جیساکہ ابن جوزی، ابنِ حجر، سخاوی، سیوطی،قسطلانی اور ابو شامہ نے بیان کیا اور اس کی اصل انہوں نے پیر اور عاشورہ کے روزے رکھنے والی حدیثوں سے نقل فرمائی ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ سیوطی نے اس کی اصل حدیث سے نکالی ہے۔۔۔جس طرح عیسیٰ کا کرسمس ڈے منایا جاتا ہے اسی طرح نبی کریم کا یومِ میلاد بھی منایا جاتا ہے اور ہم کافروں کی نسبت زیادہ حق دار ہیں کہ حضرت عیسیٰ وموسیٰ اور تمام انبیاء کرام کا یوم(ولادت اور اس جیسے دیگر ایام)منائیں۔28

شیخ وحید الزماں کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ میلاد النبی کی محافل کو ائمہ اسلاف نے جائز قراردیا ہے اور مسلمانوں کو انبیاءکرام کے ایام منانے چاہیے۔

میلاد النبی ﷺمولانا اشرف علی تھانوی کی نظر میں

اسی طرح ایک اور معروف عالمِ دین مولانا محمداشرف علی تھانوی کے نزدیک بھی میلاد النبی کی خوشی کا اظہار کرنا جائز و مستحسن ہے۔آپ کے مختلف مقامات پر دیے گئے میلاد النبی کے موضوع پر خطبوں پر مشتمل ایک کتاب کو "میلاد النبی "کے نام سے چھاپا گیا ہے جس میں ہر ایک مقام کی تفصیلات بھی رقم ہیں۔اس کے ایک خطبہ میں جس کے متعلق سببِ خطبہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھاگیا ہے کہ" اس سال عید میلاد النبی کا جابجا چرچا"اس میں مولانا محمد اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:

  اس وقت(ماہِ ربیع الاول میں)یہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہوئی ؟تو اول تو یہ سوال ہوہی نہیں سکتا کیونکہ حضور کا ذکر مبارک ایسا نہیں کہ اس پر یہ سوال ہوسکے مگر یہ سوال ہمارے کم سمجھ مدعیان محبت اخوان کی بدولت پید ا ہوا ہے اور وہ ،وہ لوگ ہیں جو آج کل مولد میں تخصیصات کے پابند ہیں سو ان حضرات نے حضور کے ذکر کو خاص خاص ازمنہ کے ساتھ مختص کردیا ہے ۔۔۔عجب نہیں کے میرے اس وقت کے اس بیان سے کسی کہ ذہن میں یہ بات آئی ہو کہ یہ بیان بھی شاید اسی وجہ سے ہورہا ہے کہ یہ مہینہ اس بیان کا ہے اور اس کے ذہن میں آنے سے دو قسم کے لوگوں کو دو تعجب پیدا ہوئے ہوں۔متخصصین کو تو یہ تعجب ہے کہ یہ لوگ تو اس تخصیص پر کلام کرتے ہیں پھر خود اس کا ارتکاب کرنے کی کیا وجہ؟کیا ان کے قول وفعل مطابق نہیں ہوتے اور مانعین تخصیصات کو یہ تعجب کہ اس (مولانا محمد اشرف علی تھانوی) نے محققین کا مسلک کیوں چھوڑا؟بہر حال چونکہ ایک خاص جماعت نے ذکر رسول کو خاص اوقات کے ساتھ خاص کردیا ہے اسی لیے اس وقت میرے اس بیان پر یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے(جو بلا وجہ ہے کہ ذکر رسول کے لیے کوئی تخصیصِ وقت نہیں)ورنہ یہ سوال بالکل لایعنی تھا اور یہ کسی مسلمان کے دل میں پید اہو ہی نہیں سکتا۔کیا حضور کا ذکر مبارک ایسی چیز ہے کہ اس کی نسبت یہ سوال ہوسکے کہ اس وقت اس ذکر(مولد) کو کیوں اختیار کیا گیا(کہ یہ زمانہ تو ماہ ربیع الاول یعنی ولادتِ مصطفی کاہے)حضور کا ذکر مبارک تو ایسی چیز ہے کہ ہر وقت ہر انسان کے رگ وپے میں جاری وساری ہو بلکہ دوسرے اذکار بھی اسی ذکر کی طرف راجع ہوجایا کریں اور اس کو ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے انسان ہر ذکر سے اسی کا ذکر نکال لیتا ہےاور گفتگو کا خاتمہ اسی کے تذکرہ اور یاد پرہوتا ہے۔29

اسی طرح ایک مقام پر قیامِ میلا د کے بارے میں کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  اگر کسی عمل میں عوارضِ غیر مشروع لاحق ہوں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہئے نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کردیا جائے کیونکہ ایسے امور سے انکار کرنا خیرِ کثیر سے باز رکھنا ہےجیسے قیام مولد شریف۔ اگر آنحضرت کےنام کی تعظیم کی وجہ سے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ جب کوئی آتا ہے تو لوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہوجاتے ہیں اگر اس سردارِ عالم و عالمیان (روحی فداہ) کے اسم گرامی کی تعظیم کی گئی تو کیا گناہ ہوا۔ 30

اسی طرح مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے اپنے ایک فتاوی میں ذکر کیا ہے کہ ذکرِ ولادت نبوی شریف بھی مثل دیگر اذکارِ خیرکے ثواب اور افضل ہے اور اگر بدعات سے خالی ہو تو اس سے بہتر کیا ہے۔31ان تینوں اقتباسات سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا محمد اشرف علی تھانوی خود ذکر ِمولد کیا کرتے تھے اور اس کے لیے منعقد کی جانے والی محافل میں شریک ہوا کرتے تھے البتہ تخصیص کے قائل نہیں تھے جو ان کی نظر میں "تخصیص شرعی "تھی اور مقابل کی نظر میں "تخصیص عرفی"اور اس اختلاف رائے کے سبب تخصیص میں تنازع تھا بہر حال نفسِ میلاد میں کوئی کلام نہیں تھا اور اسی وجہ سے قیامِ میلاد کے جواز کو بیان کرتے ہوئے اس کے مستحسن ہونے کو بیان کیا ہے۔

میلاد النبیﷺمفتی احمد یار خان نعیمی کی نظر میں

مفتی احمد یار خان نعیمی نامور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قد آور مفسر قرآن اور حنفی فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور آپ کا شمار بر صغیر کے کبار علماء میں کیا جاتا ہے ۔آپ بھی رسو ل اکرم کے میلاد کی خوشی و مسرت کو بنظراستحسان دیکھتے ہیں ۔اس حوالہ سے آپ نے اپنی مشہور کتاب"جاء الحق"میں ایک بحث محفل میلاد کے بارےمیں رقم فرمائی ہے جس کے چند اقتباسات یہاں درج کیے جارہے ہیں ۔ان اقتباسات سے واضح ہوجائےگا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی کے نزدیک محافل ِ میلاد جائز ومستحسن ہیں چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی محفل میلاد کی حقیقت کو بیا ن کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  میلاد شریف کی حقیقت یہ ہے کہ حضور کی ولادت پاک کا واقعہ بیان کرنا،حمل شریف کے واقعات، نورِ محمدی کی کرامات، نسب نامہ ،شیر خوارگی، حضرت حلیمہ کے یہاں پرورش حاصل کرنے کے واقعات بیان کرنا اور حضور اکرم کی نعت پاک نظم یا نثر میں پڑھنا سب اس کے تابع ہیں۔اب واقعہ ولادت خواہ تنہائی میں پڑھو یا مجلس جمع کرکے، نظم میں پڑھو یا نثر میں کھڑے ہوکر ، بیٹھ کریا جس طرح بھی ہو اس کو میلاد شریف کہا جائے گا۔ محفلِ میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادت پاک کی خوشی منانا، اس کے ذکرکے موقعہ پر خوشبو لگانا،گلاب چھڑکنا،شیرینی تقسیم کرنا غرضیکہ ولادت رسولکی خوشی کا اظہار جس جائز طریقہ سے ہو وہ مستحب اور بہت ہی باعث برکت اور رحمت الہٰی کے نزول کا سبب ہے۔32

اسی طرح مفتی احمد یار خان نعیمی میلاد شریف کی اصل کو قرآن وحدیث اور کبار علماء کے اقوال کی روشنی میں ثابت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  میلاد شریف(کی اصل) قرآن و احادیث،اقوالِ علماء ،ملائکہ اور پیغمبروں کے فعل سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:

وَاذْكرُوْا نِعْمَة اللّٰه عَلَيْكمْ733
ترجمہ:.....اور اﷲ کی (اس) نعمت کو یاد کرو جو تم پر (کی گئی) ہے۔

حضور اکرم کی تشریف آوری اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور میلاد پاک میں اسی نعمت کا تذکرہ ہوتا ہےلہذا محفل میلاد کرنا اس آیت پر عمل ہے۔اسی طرح ایک اور مقام پر اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشادمقدس ہے:

وَاَمَّا بِنِعْمَة رَبِّكَ فَحَدِّثْ1134
ترجمہ:.....اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔

حضور کی دنیا میں تشریف آوری تمام نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے کہ رب تعالیٰ نے اس پر احسان جتایا ہے ،اس کا چرچا کرنا اسی آیت پر عمل ہے۔ آج کسی کے فرزند پیدا ہو تو ہر سال تاریخ پیدائش پر سالگرہ کا جشن کرتا ہے، و کسی کو سلطنت ملی تو ہر سال اس تاریخ پر جشن جلوس مناتا ہے تو جس تاریخ کو دنیا میں سب سے بڑی نعمت آئی اس پر خوشی منانا کیوں منع ہوگا؟ خود قرآن کریم نے حضور کا میلاد جگہ جگہ ارشاد فرمایا چنانچہ ایک جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ جَاۗءَكمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكمْ128 35
ترجمہ:.....بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول () تشریف لائے۔

اس آیت کریمہ میں تو ولادت کا ذکر ہوا پھر فرمایا "من انفسکم"حضور کا نسب نامہ بیان ہوا کہ وہ تم میں سے یا تمہاری بہترین جماعت میں سے ہیں۔ "حریص علیکم"سے آخر تک حضور کی نعت بیان ہوئی، آج میلاد شریف میں یہ ہی تین باتیں بیان ہوتی ہیں۔ 36

مفتی احمد یار خان نعیمی نے مذکورہ آیات ِقرآنی کے علاوہ دیگر آیات ِ قرآنی اور احادیث مبارکہ سے بھی یہ واضح کیا ہے کہ میلا د النبی کے پُر مسرت موقع پر خوشی کا اظہارکرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے اور اس کی عظیم نعمت ملنے پر اس کا شکریہ ادا کرنا ہے۔میلاد النبی کے جواز ہی کے حوالہ سے اجماعِ امت کو بیا ن کرتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں:

  ہر زمانہ اور ہر جگہ میں علماء ،اولیاء ،مشائخ اور عامۃ المسلمین اس میلاد شریف کو مستحب جان کر کرتے رہے اوراب بھی کرتے ہیں۔ حرمین شریفین میں بھی نہایت اہتمام سے یہ مجلس پاک منعقد کی جاتی ہے۔ آدمی جس ملک میں بھی جائے مسلمانوں میں یہ عمل ضرور پائےگا۔ اولیاء اﷲ اورعلماء امت نے اس کے بڑے بڑے فائدے اور برکات بیان فرمائی ہیں اور اس تعامل کے حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا:
  مارآہ المسلمون حسناً فھو عنداللّٰه حسن.37
  جس چیز کو مسلمان اچھاسمجھیں وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔

۔۔۔ لہٰذا محفل میلاد پاک مستحب ہے۔ حضرت ملاعلی قاری موردالروی میں دیباچہ کے متصل فرماتے ہیں:

  لا زال أھل الإسلام یحتفلون فى كل سنته جدیدة ویعتنون بقراءة مولده الكریم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عظیم.38
  اہل اسلام آج تک ہرنئےسال میں محفلیں کرتےہیں اورنبی کریم کی ولادت کاذکر کرتےہیں جس کےتمام فضائل وبرکات ان پرظاہر ہوتےہیں۔

ان عبارات سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ مشرق ومغرب کے مسلمان اس کو اچھا عمل جان کر کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ بڑے بڑے علماء، فقہاء، محدثین ،مفسرین اورصوفیاءنے اس کو اچھا جانا ہے جیسے امام سیوطی، علامہ ابن حجر ہیتمی، امام سخاوی، ابن جوزی، حافظ ابن حجر وغیرہ۔ تیسری یہ کہ میلاد پاک کی برکت سے سال بھر تک گھر میں امن، مراد پوری ہونا، مقاصد بر آنا حاصل ہوتا ہے۔ عقل کا بھی تقاضا ہے کہ میلاد شریف بہت مفید محفل ہے۔39

مفتی احمد یار خان نعیمی کے تمام تر اقتباسات سے واضح ہواکہ رسو ل اکرم کے میلاد پر خوشی کااظہار کرنا قرآن و حدیث کےمطابق ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ سمیت علمائے امت کا مجموعی معمول رہا ہے اور اس کے کرنے سے باری تعالیٰ کی عظیم نعمت ملنےکا شکریہ بھی ادا ہوتا ہے۔

میلاد النبی ﷺمفتی عبد الرحیم لاجپوری کی نظر میں

اسی طرح اپنے دو رکے ایک فقیہ مفتی عبد الرحیم لاجپوری نے بھی میلاد النبی کے جواز کو بیان کیا ہے چنانچہ جب ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا:

  آنحضرت کی ولادت شریفہ کا ذکر اور آپ کے موئے مبارک،لباس،نعلین شریف اور آپ کی نشست وبرخاست،سونا جاگنا اور دیگر معاملاتِ نبویہ کا حال بیان کرنا اور سننا مستحب اور نزولِ رحمت وبرکت کا موجب ہے بلکہ آنحضرت کی ذات والاصفات کے ساتھ جس چیز کوبھی تھوڑی بہت مناسبت ہو جیساکہ آپ کے نعلین شریفین کی خاک اور آپ کا بول وبراز بلکہ آپ کی سواری کے گدھے کا پیشاب وپسینہ کا ذکر بھی ثواب سے خالی نہیں جبکہ احادیثِ صحیحہ اور روایاتِ معتبرہ سے ثابت ہو اور طریقۂ ذکر بھی سنت کے مطابق ہو۔40

مذکورہ علمائے عہدِ قریب کے علاوہ بھی کئی علمائے برصغیر ایسے ہیں جنہوں نے میلاد النبی کے پُرمسرت موقع پر خوشی کے اظہار کو جائز و مستحسن قراردیا ہےا ور ان کا عمل بھی مولود شریف کی محافل میں شریک ہونے کا تھا۔ذیل میں برصغیر کے ایک عظیم ادارہ دار العلوم دیوبند کی طرف سے شائع کی جانے والی متفقہ طور پر ایک کتاب جس کو علمائے عرب کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات میں متفقہ طور پر شائع کیا گیا تھا اس کا ایک اقتباس درج کیا جارہا ہے جو اس حوالہ سے مختوم مہر کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کتاب کی تصدیقات کرنے والوںمیں دار العلوم دیوبند کے اکابر علماء شامل ہیں جن میں مولانا محمود حسن، مولانا احمد حسن امروہوی ،مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمن،مولانا محمد اشرف علی تھانوی، مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری،مہتمم دار العلوم دیوبندمولانا محمد احمد قاسمی،مفتی کفایت اللہ صاحب،مولانا عاشق الہٰی میرٹھی سر فہرست ہیں اور ان کے علاوہ بھی کئی اکابر علماءجن کی مکمل تعداد چوبیس(24) بنتی ہے ان سب علماء نے اس کتاب میں دیے گئے سوالات کے جوابات کی تصدیق فرمائی ہے چنانچہ اس کتاب میں علمائے عرب کی طرف سے میلاد النبیکے حوالہ سےکیے گئے سوال کو نقل کرتے اور پھر اس کا جواب دیتے ہوئےصاحب المہند تحریرفرماتے ہیں:

  السوال الواحد والعشرون: أتقولون أن ذكر ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم مستقبح شرعًا من البدعات السیئة المحرمة أم غیر ذلك؟ الجواب: الحاشا أن یقول أحد من المسلمین فضلاً أن نقول نحن أن ذكر ولادته الشریفه علیة الصلاة والسلام، بل وذكر غبار نعاله و بول حماره صلى اللّٰه عليه وسلم مستقبح من البدعات السئیة المحرمة. فالأ حوال التى لھا أدنى تعلق برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ذكرھا من أحب المندوبات وأعلى المستحبات عندنا سواء، كان ذكر ولادته الشریفة أو ذكر بوله وبزاره وقیامه وقعوده ونومه ونبھته، كماھو مصرح فى رسالتنا المسماة بالبراھین القاطعة فى مواضع شتى منھا وفى فتاوى مشائخنا رحمھم اللّٰه تعالى كما فى فتوى مولانااحمد على المحدث السھارنفورى تلمیذ الشاه محمد اسحٰق الدھلوى ثم المھاجر المكى ننقله مترجما لتکون نمونة عن الجمیع سئل رحمه اللّٰه تعالى عن مجلس المیلاد باى طریق یجوز وباى طریق لایجوز فاجاب بان ذكر الولادة الشریفة لسیدنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بروایات صحیحة فى أوقات خالیة عن وظائف العبادات الواجبات وبكیفیات لم تكن مخالفة عن طریقة الصحابة وأھل القرون الثلاثة المشھود لھا بالخیر، وبالاعتقادات التى موھمة بالشرك والبدعة وبالآداب التى لم تكن مخالفة عن سیرة الصحابة التى ھى مصداق قوله صلى اللّٰه عليه وسلم : ماأنا علیه وأصحابى وفى مجالس خالیة عن المنكرات الشرعیة موجب للخیر والبركة بشرط أن یكون مقروناً بصدق النیة والإخلاص واعتقاد كونه داخلاً فى جملة الأذكار الحسنة المندوبة غیر مقید بوقت من الأوقات فإذا كان كذلك لانعلم أحد من المسلمین أن یحكم علیه یكونه غیر مشروع أوبدعة...الى آخر الفتوى فعلم من ھذا انا لاننكر ذكرولادته الشریفة بل ننكر على الامورالمنكرة التى انضحت معھا كما شھدتموھافى المجالس المولودیة التى فى الھند من ذكر الروایات الواھیات الموضوعة واختلاط الرجال والنساء و الاسراف فى ایقاد الشموع والتنزیینات و اعتقاد كونه واجباً بالطعن والسب و التكفیر علٰى من لم یحضر معھم مجلسھم و غیرھا من المنكرات الشرعیة التى لایكاد یوجد خالیامنھا فلوخلامن المنكرات حاشا ان نقول ان ذكرالولادة الشریفة منكروبدعة وكیف یظن بمسلم ھذا القول الشنیع فھذاالقول علینا ایضا من افتراءات الملاحدة الدجالین الكذابین خذلھم اللّٰه تعالى .41
  اکیسواں(21)سوال:کیا تم اس کے قائل ہو کہ حضور کی ولادت کا ذکر شرعاً قبیح، سیئہ، حرام (معاذاللہ) ہے یا اور کچھ؟جواب:حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ کے نعلین اور آپ کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح و بدعت سئیہ یا حرام کہے۔ وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلیٰ درجہ کا مستحب ہے: خواہ ذکر ولادت شریف کا ہو یا آپ کے بول و براز، نشست و برخاست اور بے داری و خواب کا تذکرہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے رسالہ "براہین قاطعہ" میں متعدد جگہ بالصراحت مذکور ہے اور ہمارے مشائخ کے فتوی میں مسطور ہے چنانچہ شاہ محمد اسحاق صاحب دہلوی مہاجر مکی کے شاگرد مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کا فتوی عربی میں ترجمہ کرکے ہم نقل کرتے ہیں تاکہ سب کی تحریرات کا نمونہ بن جائے۔مولانا سے کسی نے سوال کیا تھا کہ مجلسِ میلاد شریف کس طریقہ سے جائز ہے اور کس طریقہ سے ناجائز تو مولانانے اس کایہ جواب لکھاکہ سیدنا رسول اللہ کی ولادت شریف کا صحیح روایت سے ان اوقات میں ذکر کرنا جو عباداتِ واجبہ سے خالی ہوں، ان کیفیات سے جو صحابہ کرام اور ان اہلِ قرونِ ثلاثہ کے طریقے کے خلاف نہ ہوں جن کے خیر ہونے کی شہادت حضرت (رسول اکرم )نے دی ہے، ان عقیدوں سے جو شرک و بدعت کے موہم نہ ہوں، ان آداب کے ساتھ جو صحابہ کرام کی اس سیرت کے مخالف نہ ہوں جو حضرت(رسول اکرم ) کے ارشاد"ماأنا علیہ وأصحابی"کی مصداق ہے، ان مجالس میں جو منکراتِ شریعہ سے خالی ہوں سببِ خیر و برکت ہے بشرطیکہ صدقِ نیت اور اخلاص اور اس عقیدہ سے کیا جائے کہ یہ بھی منجملہ دیگر اَذکارِ حسنہ کے ذکرِ حسن ہے اور کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ پس جو اجتماع ایسا ہوگا تو ہمارے علم میں کوئی مسلمان بھی اس کے ناجائز یا بدعت ہونے کا حکم نہ دے گا۔۔۔الخ۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ہم ولادتِ شریفہ کے منکر نہیں بلکہ ان ناجائز امورکے منکر ہیں جو ان کے ساتھ مل گئے ہیں جیسا کہ ہندوستان کے مولود کی مجلسوں میں آپ نے خود یکھا ہے کہ واہیات موضوع روایات بیان ہوتی ہیں، مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، چراغوں کے روشن کرنے اور دوسری آرائشوں میں فضول خرچی ہوتی ہے اوراس مجلس کو واجب سمجھ کر جو شامل نہ ہوں اس پر طعن و تکفیر ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ اور منکرات شرعیہ ہیں جن سے شاید ہی کوئی مجلسِ میلاد خالی ہو۔پس اگر مجلسِ مولود منکرات سے خالی ہو تو حاشا کہ ہم یوں کہیں کہ ذکر ولادت شریفہ ناجائز اور بدعت ہے اور ایسے قول شنیع کا کسی مسلمان کی طرف کیوں کر گمان ہوسکتا ہے پس ہم پر یہ بہتان جھوٹے ملحد دجالوں کا افتراء ہے۔ خدا ان کو رسوا کرے ۔۔۔

مذکورہ بالا اقتباس دار العلوم دیوبند کی متفقہ شائع کردہ کتاب"المہند علی المفند"سے ماخوذ ہےاس میں موجود مذکورہ بالا سوال وجواب سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان علمائے اعلام کا میلاد النبی کے بارے میں متفق علیہ قول جواز و استحسان کا ہے البتہ ان کے نزدیک دیگر علمائے امت کی طرح منکرات و محرمات سے اجتناب لازمی وضروری ہے۔

میلاد النبی ﷺاحمد سعید شاہ کاظمی کی نظر میں

حضرت احمد سعید شاہ کاظمی جوعہدقریب کے مایہ ناز عالم دین اور اہل علم ودانش میں "رازیِ دوراں"کے لقب سے مشہو رو معروف ہیں آپ نے بھی محفل میلاد النبی کے منانے اورا س پر خوشی کے اظہار کو جائز ومستحسن گردانا ہے اور اس حوالہ سے آپ نے ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے جس میں رسول مکرم کے ابتدائی تخلیقی مراحل اور احوالِ ولادت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے بچپن ولڑکپن،جوانی وکہولت کے چند واقعات بیان کرنے کے بعد آپ کی ولادت کی خوشی میں منعقد کی جانے والی محافل میلاد النبی کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور اس پر قرآن و حدیث سے دلائل دیے ہیں نیزاس کے جواز و استحسان کو بیا ن کرتے ہوئے علمائے امت کے اقوال کو بھی بیان کیاہےچنانچہ شیخ احمد قسطلانی کی عبارت کو نقل کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:

  بعض لوگ میلاد شریف کی محفل کو منعقد کرنے اور ربیع الاول میں خیرات وصدقات واظہارِ فرحت وسرور کو بدعت سمجھتے ہیں جبکہ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ شارح ِبخاری شیخ قسطلانی اپنی کتاب "مواہب اللدنیہ"میں مسلمانوں کی میلادالنبیکی خوشی کو یوں بیان کیا ہے:

ولا زال أھل الاسلام یحتفلون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ویعلمون الولائم ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظھرون السرور ویزیدون فى المبرات و یعتنون بقراءة مولده الكریم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم ومما جرب من خوّاصه انه امان فى ذلك العام وبشرى عاجلة بنیل البغیة والمرام فرحم اللّٰه امرأ اتخذ لیالى شھر مولده المبارك اعیادا.42

ترجمہ:..... ہمیشہ سے اہل اسلام نبی کریم کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد کا اہتمام کرتے آئے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں اور ربیع الاوّل کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اظہار مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں ،میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں اور ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہرحال فیض یاب ہوتا ہے۔میلاد النبی کے خواص میں سے مجرب یہ ہے کہ یہ عمل جس سال میں منعقد ہواس منعقدہ مکمل سال کے لیے امن کا باعث ہے۔ مقاصد کی فوری بار آوری کے لیے خوشخبری ملتی ہے۔پس اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص پررحم کرے جو میلاد النبی کے مہینہ کی راتوں کوعید یں مناتا ہے۔

شیخ قسطلانی کی عبارت نقل کرکے علامہ سعید احمد شا ہ کاظمی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں:شیخ قسطلانی کی عبارت سے حسبِ ذیل امور ثابت ہوئے:

  1. ماہ ربیع (ربیع الاول شریف) میں انعقادِ محفلِ میلاد اہل ِاسلام کا طریقہ رہا ہے۔
  2. کھانے پکانے کا اہتمام، انواع واقسام کے خیرات وصدقات ماہِ میلاد کی راتوں میں اہلِ اسلام ہمیشہ سے کرتے رہے ہیں۔
  3. ماہِ ربیع الاول میں خوشی ومسرت وسرور کا اظہار شعار ِمسلمین ہے۔
  4. ماہِ میلاد کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنا مسلمانوں کا پسندیدہ طریقہ چلا آیا ہے۔
  5. ماہِ ربیع الاول میں میلاد شریف پڑھنا اور قرأت میلادِ پاک کااہتمامِ خاص کرنا مسلمانوں کا محبوب طرز عمل رہا ہے۔
  6. میلاد کی برکتوں سے میلاد کرنے والوں پر اﷲ تبارک وتعالیٰ کا فضلِ عمیم ہمیشہ سے ظاہر ہوتا چلا آیا ہے۔
  7. محفلِ میلاد کے خواص سے یہ مجرب خاصہ ہے کہ جس سال میں محافل میلاد منعقد کی جائیں تووہ تمام سال امن وامان سے گزرتا ہے۔
  8. انعقاد ِمحافل ِمیلاد مقصود ومطلب پانے کے لیے بشریٰ عاجلہ (جلد آنے والی خوشخبری) ہے۔
  9. میلاد پاک کی راتوں کو عید منانے والے مسلمان اﷲ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کےاہل ہیں۔43

اس کے علاوہ علامہ احمد سعید شاہ کاظمی نے اپنے اسی رسالہ میں محفل میلاد میں ہونے والے قیام کے جواز کو دلائل اور اقوال علماء کے ذریعہ سے ثابت کیا ہے اور آخر میں اس بات کی نشاندہی فرمائی ہے کہ رسول اکرم کی ولادت کی خوشی کا اظہار کرنا اور اس کے تذکرہ کے لیے محفلِ میلاد سجانا اور اس میں قیام کرنا یہ نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور امت کے علماء وزعماء اس کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہیں۔

میلاد النبی ﷺپیر کرم شاہ الازہری کی نظر میں

عہدِ قریب کے ایک اور مایہ ناز مفسر وسیرت نگار جن کا علمی وعملی دنیا میں ایک قد آور نام ہے یعنی جسٹس پیر کرم شاہ الازہری جنہوں نے تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ سیرت طیبہ پر بھی بہترین کتاب بنام" ضیاء النبی " تحریر کی ہے جو کہ اہل نظر و فکر اور عوام الناس میں یکساں مقبول ہوئی ۔آپ نے اس میں رسول اکرم کی ولادت کے حوالہ سے منائی جانے والی خوشی کے اثبات پر بھی کلام کیا ہے اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ نبی اکرم کی ولادت کی خوشی کرنا ملت ِ اسلامیہ کا ابتداء ہی سے طرز و شیوہ رہا ہے چنانچہ وہ نبی مکرم کے میلاد کی بابت کلا م کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  غلام ِمصطفی ہر زمانہ میں اپنے رب کریم کی اس نعمت کبریٰ کا شکر ادا کرتے آئے ہیں۔ زمانے کے تقاضے کے اعتبار سے شکر کے انداز گومختلف تھے لیکن جذبۂتشکر ہر عمل کا روح رواں رہا اور جو خوش بخت اس نعمت کی قدر وقیمت سے آگاہ ہیں وہ تا ابد اپنی فہم اور استعداد کے مطابق اپنے رحیم وکریم پروردگار کا شکر ادا کرتے رہیں گے۔یہ ایک بدیہی امر ہے کہ جب کسی کو کسی انعام سے بہرہ ورکیا جاتا ہے تو اس کا دل مسرت وانبساط کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے۔ اس کی نگاہ میں اس نعمت کی جتنی قدر وقیمت اور اہمیت ہوگی، اسی نسبت سے اس کی مسرت وانبساط کی کیفیت ہوگی لیکن جس چیز کے ملنے پر خوشی کے جذبات میں تلاطم پیدا نہیں ہوتا تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس چیز کی اس شخص کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ اگر یہ چیز اسے نہ ملتی تب بھی اسے افسوس نہ ہوتا، مل گئی ہے تو اسے کوئی خوشی نہیں، شمع جمال مصطفوی کے پروانے ایسے قدر ناشناس نہیں۔ نبوت کا ماہِ تمام طلوع ہوا تو ان کی زندگی کے آنگن میں مسرتوں اور شادمانیوں کی چاندنی چٹکنے لگی، ان کے دلوں کے غنچے کھل کر شگفتہ پھول بن گئے۔ وہ یہ جانتے ہوئے اور تسلیم کرتے ہوئے کہ وہ اس احسان عظیم پر شکر کا حق ادا نہیں کرسکتے پھر بھی وہ اپنی سمجھ کے مطابق بارگاہ ِرب العزت میں سجدہ شکر میں گرگئے، اس کی حمد وثنا کے گیت گانے لگے اور اس کے محبوب کریم کے حسنِ سرمدی پر اپنے دل وجان کو نثار کرنے لگے۔بعض مدعیانِ علم ودانش فرزندانِ اسلام کے ان مظاہرِ تشکر ومسرت کو دیکھ کر غصہ سے بے قابو ہوجاتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے ان شکر گزار بندوں پر طعن وتشنیع کے تیروں کی موسلا دھار بارش شروع کردیتے ہیں۔ کیا ان حضرات نے کبھی اس فرمان الہٰی کا بدقتِ نظر مطالعہ فرمایا ہے؟ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِك فَلْيَفْرَحُوْاھوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ58 44
ترجمہ:.....فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

اس آیت کریمہ میں حکم دیا جارہا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہو تو منہ بسور کر نہ بیٹھ جایا کرو اوراپنی ہانڈیوں کو اوندھانہ کردیا کرو، جو چراغ جل رہا ہے اس کو بھی نہ بجھا یا کرو کیونکہ یہ اظہارِ تشکر نہیں بلکہ کفرانِ نعمت ہے۔ ایسا نہ کرو بلکہ "فلیفرحوا" یعنی خوشی اور مسرت کا مظاہرہ کیا کرو۔ یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ اظہارِ مسرت کا کیا طریقہ ہوتا ہے کیونکہ جب دل میں سچی خوشی کے جذبات امڈ کر آتے ہیں تو اپنے ظہور کے لیے وہ خود راستہ پیدا کرلیتے ہیں۔امت اسلامیہ صدیوں سے اﷲ تعالیٰ کی اس نعمتِ عظمیٰ پر اپنے جذبات تشکر وامتنان کا اظہار کرتی رہی ہے۔ ہر سال ہر اسلامی ملک کے ہر چھوٹے بڑے گاؤں اور شہر میں عید میلاد النبی منانے کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ ان راتوں اور ان دنوں میں ذکر وفکر کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کی شانِ کبریائی اور اس کے محبوبِ مکرم ،شفیع المذنبین کی شان رفعت ودلربائی کے تذکرے کیے جاتے ہیں، سامعین کو اس دینِ قیم کے احکامات سے آگاہ کیا جاتا ہے، علماء تقریریں کرتے ہیں، ادباء مقالے پڑھتے ہیں، شعراء اپنے منظوم کلام سے اظہارِ عقیدت ومحبت کرتے ہیں ،صلوٰۃ وسلام کی روح پرور صداؤں سے ساری فضا معطر اور منور ہوجاتی ہے، اہلِ خیر کھانے پکاکر غرباء ومساکین میں تقسیم کرتے ہیں، صدقات و خیرات سے ضرورت مندوں کی جھولیاں بھردیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گلشن اسلام میں از سرِنو بہار آگئی ہے۔45

اس مذکورہ بالا اقتباس میں پیر کرم شا ہ الازہری نے رسول اکرم کی ولادت کی خوشی کے حوالہ سے آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نبی اکرم کی ولادت کی خوشی کرنا ہی شکرانِ نعمت ہے اور ناشکری یہ ہے کہ حضور اکرم کی ولادت باسعاد ت پر کسی قسم کی کوئی خوشی ومسرت کا اظہار نہ کیا جائے۔

میلاد النبی ﷺڈاکٹر مسعود احمد کی نظر میں

اسی طرح عہدِ قریب کے ایک اور عالمِ دین جن کے علم و فضل اور تحقیقاتِ علمیہ کوبرّ ِ صغیر ہند و پاک میں ایک نمایاں مقام حاصل ہےیعنی ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی۔ آپ کے علمی تبحرو برتری کا اندازہ مجد الف ثانی کے حوالہ سے کی جانےو الی آپ کی خدمات سے کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی درجنوں تصانیف کئی ملکوں سے مستقل شائع ہو رہی ہیں جو ہمہ جہت موضوعات کو محیط ہیں اوران میں قرآنیات، سیرت، سائنس،اصلاح اور تصوف شامل ہیں۔ آپ نے بھی میلاد النبی کے جواز و استحسان کو مختلف رسائل وجرائد میں بیان کیا ہے چنانچہ ایک رسالہ میں آپ میلاد النبی کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  جس دن اﷲ کے محبوبوں کی زندگی میں کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے اس دن کو "ایام اﷲ "میں شمار کرلیا جاتا ہے اورواقعہ کو "شعار اﷲ" قرار دے دیا جاتا ہے۔ظہور قدسی پانچ سو انہتر(569ء) میں پیر کے روز ہوا،جب یہ خوشخبری آپ کے چچا ابولہب کو اس کی کنیز ثویبہ نے سنائی تو ابولہب نے خوشخبری سنتے ہی اس کو آزاد کردیا۔۔۔ جب ہم قرآن حکیم کو دیکھتے ہیں تو وہاں آپ کی تشریف آوری پر بطور خاص احسان جتایا جارہا ہے۔ اﷲ کی نعمتیں توبہت ہیں بے حدو بےشمار مگر جان نعمت آپ ہی ہیں اسی لیے احسان جتایا جارہا ہے۔امام ابن جوزی کے حوالے سے لکھتے ہیں:یہ عمل(مولود) ہمیشہ سے حرمین شریفین مکّہ ومدینہ میں مصر ویمن وشام، تمام بلاد عرب اور مشرق ومغرب میں ہر جگہ کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری وساری ہے اور وہ میلاد النبی کی محفلیں قائم کرتے ہیں اور لوگ جمع ہوتے ہیں اور ماہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں، غسل کرتے ہیں، عمدہ عمدہ لباس پہنتے ہیں ،زیب وزینت اور آراستگی اور عطر وگلاب چھڑکتے ہیں،ان دنوں خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں اور جو کچھ میسر ہوتا ہے نقد و جنس وغیرہ میں سے خوب دل کھول کر لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔میلاد مبارک کے سننے اور پڑھنے پر زیادہ تزک واحتشام کرتے ہیں اور اس اظہار مسرت وخوشی کی بدولت خوب اجروثواب اور خیر وبرکت، سلامتی وعافیت، کشادگی رزق،مال ودولت، اولاد، پوتوں،نواسوں ،میں زیادتی ہوتی ہے اور آباد شہروں میں امن وامان اور سلامتی اور گھروں میں سکون وقرار نبی کریم کی محفل میلاد کی برکت سے رہتا ہے۔46یہ تھے اس محدث وقت کے تاثرات جو عالم ِاسلام میں آج سے تقریباً نوسو (900)سال پہلے پیدا ہوئے۔ سچ یہ ہے کہ محفل میلاد النبی اب ایک عالمی حقیقت بن چکی اور متفقہ طور پر ملت اسلامیہ کا اس پر عمل ہے عملاً پوری دنیا ئےاسلام میں اس روز خوشی اور مسرت کا سماں ہوتا ہے۔آج تمام اسلامی دنیامیں جشن عید میلاد النبی متفقہ طور پر منایاجاتا ہے۔47

اسی طرح ڈاکٹر مسعود احمد نقشبندی اپنی ایک اور کتاب جس میں انہوں نے علیحدہ عنوانات قائم کر کے میلاد النبی کی محافل ومجالس،اس کے جشن منانے اور اس کی خوشی و مسرت کے اظہار کے سلسلے کے حوالہ سے تفصیلات رقم کی ہیں نیز قرآن وحدیث ،تعاملِ صحابہ اورامتِ مسلمہ کے مشائخ وعلماء کے اقتباسات سے تاریخ میلاد کو اور اس کے استحسان کو بیا ن کیا ہے۔ اس کتاب کے ایک مقام پرنبی اکرم کی ولادت کی خوشی کے اظہار کے جواز کو بیان کرتےہوئے تحریر فرماتےہیں:

  اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں پر بہت سے احسانات فرمائے،بہت سے انعامات فرمائے،پھر فرمایا کہ ان کو گنتے گنتے تھک جاؤگے لیکن گن نہیں سکوگے مگر اتنے احسانات میں،اتنے سارے انعامات میں صرف ایک انعام کو جتایا گیا جس میں کوئی توبات تھی ،کوئی تو راز تھا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰه عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھمْ يَتْلُوْا عَلَيْھمْ اٰيٰتِه وَيُزَكيْھمْ وَيُعَلِّمُھمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكمَة ۰ۚوَاِنْ كانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِى ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ16448
ترجمہ:.....بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول () بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

ان کا آنا محض ایک بشر کا آنا نہ تھا بلکہ پیکرِ بشری میں ایک نور کا آنا تھا،صادق وامین کا آنا تھا،رؤوف رحیم کا آنا تھا،خاتم النبیین کا آنا تھا،شافع ِ محشر کا آنا تھا جب ہی تو قرآنِ حکیم نے آپ کے یومِ ولادت کو یادگار بنا دیا ، آپ کی آمد پر خوشیاں منانے اورشادیاں رچانے کاحکم فرمایا چنانچہ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّھا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكمْ مَّوْعِظَة مِّنْ رَّبِّكمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِى الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَھدًى وَّرَحْمَةلِّلْمُؤْمِنِيْنَ57قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِك فَلْيَفْرَحُوْا ۭ ھوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ5849
ترجمہ:..... اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لیے رحمت (بھی)۔فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

بے شک سرکارِ دوعالم کی تشریف آوری ایک ایسی نعمت ہے جس کی کوئی قیمت نہیں،جو انمول ہے، جوبےبہا ہے، ساری کائنات ایک طرف اور یہ نعمت ایک طرف۔50

اس مذکورہ بالا اقتباس میں ڈاکٹر مسعود احمد نے قرآن مجید کی روشنی میں نبی اکرم کی ولادت کی خوشی کے اظہار کے جوا زکو بیان کیا ہے اور اس سے آگے مزید احادیث اور مشائخ وعلمائےکبار کے حوالوں سے اس بات کو تفصیل سے لکھا ہے کہ نبی اکرم کی ولادت کی خوشی قرآن وسنت اور امت مسلمہ کے اجماعی طرزِ عمل کے موافق ومطابق ہے اور اس پُر مسرت موقع پر خوشی کا اظہار کرنا مستحسن اور امرِ الہٰیہ کے مطابق ہے نیز شکر ِ باری تعالیٰ کا ایک اجماعی طریقہ بھی ہے۔

میلاد النبیﷺغلام رسول سعیدی کی نظر میں

عہدِ قریب کے ایک اور نامور مفسر ومحدث و فقیہ جن کی لکھی گئی تفسیر و شروحاتِ حدیث سے ان کی فقاہتِ نظری اور تبحرِ علمی واضح ہوتی ہے یعنی علامہ غلام رسول سعیدی، آپ کے نزدیک بھی میلاد النبی کے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا یہ قرآنی احکامات کے موافق عمل ہے البتہ اس میں راہ پاجانے والی خرافات کو ختم کیا جانا چاہیے نہ کہ نفسِ میلاد ہی کو ناجائز سمجھ کر اس سے روکنا چاہیے چنانچہ اس حوالہ سے وہ تفصیل سے وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  میلاد میں نبی کی ولادت کا ذکر ہوتا ہے، آپ کے فضائل ومناقب اور آپ کے شمائل وخصائل کا بیان ہوتا ہے اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا کوئی انکار کرسکے کیونکہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت یحییٰ اور دیگر انبیاء کے فضائل اور خصائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور خود نبی کریم کی تشریف آوری اور آپ کے محامد ومحاسن کا بھی بکثرت ذکر ہے۔مسلمانوں کے نزدیک رسول اﷲ کی ولادت کی خوشی منانا اور سال کے تمام ایام میں عموماً اور ماہ ربیع الاول میں خصوصاً آپ کی ولادت کا ذکر کرنا، آپ کے فضائل ومناقب اور آپ کے شمائل وخصائل کو مجالس اور محافل میں بیان کرنا جائز اور مستحب ہے ۔اسی طرح صدقات وخیرات کے ہدایا کا آپ کی جناب عالی میں ایصالِ ثواب کرنا اہل اسلام اور بزرگان دین کا معمول ہے۔عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ہر اچھے کام میں بعض دنیا دار برائی اورفسق وفجور کے پہلو نکال لیتے ہیں، مثلاً عید الفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کی اجتماعی عبادات اور خوشی کے ایام ہیں لیکن ان ایام کو میلہ کی شکل دے دی گئی ہے اور پارکوں اور تفریح گاہوں میں عورتوں اور مردوں کا مخلوط اجتماع ہوتا ہے ۔۔۔ ان تمام جگہوں پر بلند آواز سے لاؤڈ اسپیکر پر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے، جگہ جگہ میلہ لگتا ہے جس میں ناچ گانا اور تمام خرافات ہوتی ہیں، ان ناجائز امور اور غیر شرعی حرکات کی بناء پر کوئی مسلمان شخص یہ نہیں کہتا کہ چونکہ عیدین کے ایام میں یہ غیر شرعی امور ہوتے ہیں اس لیے عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز بندکر دی جائے یا عید کے دن خوشی نہ منائی جائے۔لوگ نہادھوکر ،نئے کپڑے بدل کر ،عیدگاہوں میں نہ جائیں کہ اس سے ان خرافات کا دروازہ کھلتا ہے ۔عید کی نماز سنت مؤکدہ ہے اور اگر کسی سنت پر عمل کرنے سے بے شمار حرام کاموں کا دروازہ کھلتا ہو تو اس سنت کو ترک کردینا چاہیے۔ ۔۔اسی طرح نکاح میں بالعموم گانے باجے عورتوں اور مردوں کے مخلوط اجتماعات اور دیگر خرافات ہوتی ہیں لیکن اس کی بناء پرنکاح کو مذموم یا ممنوع نہیں کہا جاتا، اس لیے اگر بعض جگہ محافلِ میلاد میں کوئی خرابی ہوتی ہے تو اس سے محفل ِمیلاد کو بند نہیں کیا جائے گا۔ 51

اس مذکورہ بالا اقتباس میں علامہ غلام رسول سعیدی نے محفلِ میلاد کی اصل کو بیان کرتے ہوئے اس میں ہونے والی خرافات کے سد باب کیے جانے کا ذکر کیا ہے اور اس طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے کہ محافلِ میلاد کو خرافات کی وجہ سے بند نہیں کیا جاسکتا البتہ ان خرافات کو ختم کرنا ہی ضروری ہے اور محافلِ میلاد کا انعقاد بھی لازمی ہے جس سے مسلمانوں کی علمی وعملی ونظری تربیت کا سامان میسر آتا ہے۔

میلاد النبی ﷺسید محمد علوی مالکی کی نظر میں

اسی طرح عہد قریب کے متبحر عالم شیخ علامہ سید محمد علوی مالکی بھی ان علماء میں شامل ہیں جو میلاد النبی کو مستحسن قراردیتے ہیں اورآپ نے اس اور اس جیسے دیگر مسائل کے حوالہ سے ایک تصنیف "مفاھیم یجب ان تصحّ"تحریر فرمائی ہے جس میں آپ نےمیلاد النبی کے صحیح مفہوم اور اس کے جواز و استحسان کو بیان کیاہے چنانچہ میلاد النبی کےصحیح مفہوم اور اس حوالہ سے بعض حضرات کے مغالطے کو دور کرتے ہوئے شیخ علوی مالکی تحریر فرماتے ہیں:

  ومن التصورات الفاسدة التى تقع فى اذھان بعض الناس انھم یظنون: اننا ندعو الة الاحتفال بالمولد فى لیلة مخصوصة دون سائر العام ومادرٰى ھذا المغفل ان الاجتماعات تعقد لاجل لاجل المولد المولد النبوى فیه مكة والمدینة بشكل منقطع النظیر فى كل الایام العام...وھذه مجالس المولد النبوى تنعقد بفضل اللّٰه تعالى فى جمیع لیالى السنة ولایكاد یمر یوم او لیلة الاوھںا مجلس وھناك محفل ونحن ننادى بان تخصیص الاجتماع بلیلة واحدة دون غیرھا ھو الجفوة الكبرى لرسول صلى اللّٰه عليه وسلم...ان ینصحوھم ویرشدوھم الى الخیر والفلاح ویحذروھم من البلاء و البدع والشر والفتن.52
  لوگوں کے ذہنوں میں یہ فاسد تصورات پائے جاتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق ہم سال بھر میں صرف ایک مخصوص رات میں میلاد النبی کی محافل منعقد کرتے ہیں، اس غافل شخص کو معلوم نہیں کہ مکّہ مکرّمہ اور مدینہ طیّبہ میں میلاد النبی کے سلسلے میں سال بھر ایسے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جو بے مثال ہوتے ہیں۔حرمین شریفین میں جب بھی کوئی خوشی کا موقع آتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم صرف ایک رات میں سرکار دو عالم کا ذکر کرتے ہیں اور تین سو انسٹھ (359)راتوں میں اس ذکر سے غافل ہوجاتے ہیں وہ ہم پر افتر اءپردازی کررہا ہے اور واضح جھوٹ بولتا ہے۔ یہ مجالسِ میلاد، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دن رات منعقد ہوتی ہیں اور کوئی دن یا رات ایسےنہیں گزرتے جس میں یہاں یا وہاں محفل ِ میلادمنعقد نہ ہوتی ہو۔ ہم ببانگ ِ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان محافل کو ایک وقت چھوڑ کر کسی رات کے ساتھ خاص کرنا یہ رسول کریم کی ساتھ انتہاء درجہ کی زیادتی ہے۔اور یہ اجتماعات دعوت الی اللہ کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ مبلغین اور علماء کا فرض ہے کہ وہ ان اجتماعات کے ذریعے امت مسلمہ کو سرکار دو عالم کے اخلاق و آداب، احوال و سیرت اور معاملات و عبادات سے آگاہ کرتے رہیں، انہیں نصیحت کریں اور خیر و فلاح کی طرف بلائیں اورمصیبتوں ، بدعتوں اور شر وفتنوں سے انہیں ڈرائیں۔

یعنی شیخ علوی مالکی ان مجالس ومحافل میلاد النبی کو تزکیہ و طہارتِ قلبی کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے ہیں اور ا س کو امت کے لیے نبی امتسے تعلق استوار کرنے کا سبب گردانتےہیں۔اسی طرح شیخ علوی مالکی نے شیخ ملا علی قاری کی مولد النبی پر لکھی گئی"المورد الروی فی المولد النبوی صلى اللّٰه عليه وسلم"نامی کتاب کے مقدمہ میں میلاد النبی کے جواز واستحسان کوبیان کیا ہے چنانچہ وہ اس کتاب کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں:

  الأول إننا نقول بجواز الاحتفال بالمولد الشریف والاجتماع لسماع سیرته والصلاة والسلام علیه وسماع المدائح التى تقال فى حقه وإطعام الطعام وإدخال السرور على قلوب الأمة.الثانیة: إننا لا نقول بسنیة الاحتفال بالمولد المذكور فى لیلة مخصوصة بل من اعتقد ذلك فقد ابتدع فى الدین لأن ذكره صلى اللّٰه عليه وسلم والتعلق به یجب أن یكون فى كل حین ویجب أن تمتلأ به النفوس نعم إن فى شھر ولادته یكون الداعى أقوى لاقبال الناس واجتماعھم وشعورھم الفیاض بارتباط الزمان بعضه ببعض فیتذكرون بالحاضر الماضى وینتقلون من الشاھد إلى الغائب.الثالثة: إن ھذا الاجتماعات ھى وسیلة كبرى للدعوة إلى اللّٰه وھى فرصة ذھبیة ینبغى أن لا تفوت بل یجب على الدعاة والعلماء أن یذكروا الأمة بالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم بأخلاقه وآدابه وأحواله وسیرته ومعاملته وعبادته وأن ینصحوھم ویرشدوھم إلى الخیر والفلاح ویحذروھم من البلاء والبدع والشر والفتن وإننا دائما بفضل اللّٰه ندعو إلى ذلك ونشارك فى ذلك ونقول للناس لیس المقصود من ھذه الاجتماعات مجرد الاجتماعات والمظاھر بل إن ھذه وسیلة شریفة إلى غایة شریفة وھى كذا وكذا ومن لم یستفد شیئا لدینه فھو محروم من خیرات المولد الشریف.53
  اول: ہم اس کے قائل ہیں کہ محفل میلاد شریف منعقدکرنا، سیرت نبوی سننے،صلوٰۃ وسلام پڑھنے اور آپ کی نعتیں سننے کے لیے اجتماع کرنا،اس موقع پر کھانا کھلانا، اور امت کے قلوب میں مسرت پیدا کرنا بلاشبہ جائز ہے۔دوم:کسی ایک ہی مخصوص شب میں جلسۂِ میلادِ مذکور کو ہم سنت نہیں کہتے ہیں بلکہ جو اس کا اعتقاد رکھے اس نے دین میں ایک نئی بات پیدا کی۔ کیونکہ نبی کریم کے ذکر وفکر اور آپ کی محبت سے دلوں کا ہمہ وقت اور ہر لمحہ لبریز رہنا ضروری ہے۔ ہاں ! آپ کی ولادت کے مہینے میں لوگوں کی توجہ اور چھلکتے ہوئے جذبات و احساسات کے اسباب ودواعی زیادہ مضبوط اورقوی ہوتے ہیں کیونکہ زمانہ ایک دوسرے سے مربوط ہوتا ہے۔ موجودہ موقع کو دیکھ کر لوگ گزشتہ کو یاد کرتے ہیں اور حاضر کو پاکر غائب کی طرف توجہ کرتے ہیں۔سوم: یہ محافل واجتماعات،دعوت الی اﷲ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں اور یہ ایک سنہرا موقع ہے جس کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے بلکہ علماء ومبلغین پر فرض ہے کہ نبی کریم کے اخلاق وآداب،احوال وکردار اور عبادات ومعاملات کے ذریعہ امت کو یاد دلاتے رہیں، انہیں نصیحت کریں، انہیں خیر وفلاح کی دعوت دیں اور بلاء و آزمائش، منکر وبدعت اور شرور وفتن سے ڈراتے رہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ ہم مسلمانوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں، اس میں حصہ لیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ: اے لوگو! ان اجتماعات سے محض اجتماعات ومظاہر مقصود نہیں بلکہ یہ ایک نہایت اچھے مقصود کے لیے ایک بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور وہ مقاصد فلاں اور فلاں ہیں۔ اور جو اس سے اپنے دین کے لیے کچھ نہ حاصل کرے وہ میلاد مبارک کی برکتوں سے محروم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ محفل میلاد النبی کی کوئی مخصوص کیفیت نہیں کہ صرف اسی کا التزام کیا جائے اور اسی کو لوگوں پر لازم قرار دیا جائے بلکہ ہر کام جو لوگوں کو دعوت خیردے، ہدایت پر جمع کرے، اور انہیں دینی و دنیوی منفعت کی راہ دکھلائے اس سے میلاد النبی کامقصود پورا ہوجاتا ہے۔مدائح سننے کے لیے بھی اگر ہم جمع ہوں جن میں ذکر ونعتِ حبیب ، آپ کے غزوات اور فضائل وخصائلِ حمیدہ سنے اور سنائے جائیں اور واقعاتِ میلاد النبی نہ بھی پڑھیں جنہیں لوگ پسندیدہ اور رائج سمجھ کر عام طور پر پڑھتے ہیں (یہاں تک کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر میلاد النبی کی محفل نامکمل رہ جاتی ہے) ان مذکورہ چیزوں کے ساتھ خطیبوں اور واعظوں کے مواعظ وارشادات اور قراء کی تلاوت قرآن حکیم بھی سنیں تو یہ سبھی میلادالنبی شریف میں داخل ہے اور میلاد النبی کا مفہوم اس سے بھی پورا ہوجاتا ہے میرا خیال ہے کہ اس سے کسی کو اختلاف نہ ہوگا۔54

ان مذکورہ بالا قتباسات سے واضح ہوجاتا ہے کہ سید محمد علوی مالکی کے نزدیک بھی میلادالنبی جائز ومستحسن امر ہے اور اس کے ذریعہ سے امتِ مسلمہ کی علمی ونظریاتی بنیادوں کومضبوط کیاجاسکتا ہے اور امت کا تعلق رسول اکرم سے مزید پختہ کیاجاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ میلاد النبی کے اجتماعات کو قرب الہٰی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی طرف دعوت کا سبب قراردیتے ہیں اوراسی طرح علمائے کرام امتِ مسلمہ کو رسول اکرم کی سیرت طیبہ سے روشناس کروانے کی ذمہ داری سے عہدہ براہونے کےلیے ان اجتماعات کوایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔

میلاد النبیﷺڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نظر میں

اسی طرح عہد حاضر کی ایک اور مایہ ناز شخصیت جن کا علمی تبحر ،ثقاہتِ نظری اور علمی وعملی میدان میں ان کی خدمات مسلمہ ہیں یعنی ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب، ان کے نزدیک بھی میلاد النبی مسلمانانِ عالم کےلیے انتہائی خوشی کا موقع ہے جس سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہوسکتی اورمیلاد النبی کے موقع پر خوشی کے اظہار کےسلسلے میں منعقد کی جانے والی محافل ِمیلاد مسلمانانِ عالم کی علمی و عملی ،نظری وفکری، ایمانی واعتقادی اور انقیاد ی واطاعتی تربیت کے لیے لازمی وضروری ہیں جن کے ذریعہ مسلمانانِ عالم کا رسول اکرم سےپختہ قلبی تعلق پید اہوتا ہے ۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے میلاد النبی کے مضمون پر ایک ضخیم کتاب بھی تصنیف کی ہے جس میں اس موضوع کے اکثر پہلوؤں کی تفصیلا ت پر روشنی ڈالی ہے اور بالخصوص میلاد النبی کی معاشرتی حیثیت کو تفصیل کے ساتھ رقم کیا ہے چنانچہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری میلاد النبی کے موقع پر خوشی کے اظہارکے حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  جشنِ میلاد النبی حضور نبی اکرم کی ولادت باسعادت کی تاریخی خوشی میں مسرت وشادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر ابو لہب جیسے کافر کو میلاد النبی کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے تو اس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔حضور سرور کائنات خود بھی اپنے یوم ولادت کی تعظیم فرماتے اور اس کائنات میں اپنے ظہورِ وجود پرسپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے۔ آپ کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم وتکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کے طور پر شکر بجا لانا حکمِ خداوندی تھا کیونکہ حضور نبی اکرم ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق وتوسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔جشنِ میلاد النبی کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم پر درود وسلام جیسے اہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب ونظر میں ذوق وشوق کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ صلوٰۃ وسلام بذات خودشریعت میں بے پناہ نواز شات وبرکات کا باعث ہےاس لیے جمہور امت نے میلاد النبی کا انعقاد مستحسن سمجھا ہے۔سیرت طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبۂِ محبتِ رسول کے فروغ کے لیے محفل میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے، اِسی لیے جشن میلاد النبی میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین کا تذکرہ اور اسوۂ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔جشن میلاد النبی کا ایک اہم مقصد محبت وقربِ رسول اﷲ کا حصول وفروغ اور آپ کی ذات گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا احیاء ہے اور یہ احیاء منشاءِ شریعت ہے۔حضور نبی اکرم کے فضائل وکمالات کی معرفت ایمان باﷲ اور ایمان بالرسالت میں اضافہ کا محرک بنتی ہے۔ آپ کی تعظیم وتوقیر ایمان کا پہلا بنیادی تقاضا ہے اور میلاد النبی کے سلسلہ میں مسرت وشادمانی کا اظہارکرنا، محافل ذکر و نعت کا انعقاد کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا اﷲ تعالیٰ کے حضور شکر گزاری کے سب سے نمایاں مظاہر میں سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم کو ہمارے لیے مبعوث فرما کر ہمیں اپنے بے پایاں احسانات وعنایات اور نوازشات کا مستحق ٹھہرایا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس احسانِ عظیم کو جتلایا ہے۔جس طرح ماہِ رمضان المبارک کو اﷲ رب العزت نے قرآن حکیم کی عظمت وشان کے طفیل دیگر تمام مہینوں پر امتیاز عطا فرمایا ہے اسی طرح ماہ ربیع الاول کے امتیاز اور انفرادیت کی وجہ بھی اس میں صاحب قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ماہ مبارک حضور نبی اکرم کی ولادت باسعادت کے صدقے جملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز کا حامل ہے۔ ۔۔قرآن مجید نے بڑے بلیغ انداز سے جملہ نوع انسانی کو اس نعمت اور فضل ورحمت کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے جو محسنِ انسانیت پیغمبر رحمت حضور نبی اکرم کی صورت میں انہیں عطا ہوئی اور جس نے ان اندھیروں کو چاک کردیا جو صدیوں سے شبِ تاریک کی طرح ان پر مسلط تھے اور نفرت وبغض کی وہ دیواریں گرادیں جو انہیں قبیلوں اور گروہوں میں منقسم کیے ہوئے تھیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاذْكرُوْا نِعْمَتَ اللّٰه عَلَيْكمْ اِذْ كنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه اِخْوَانًا10355
ترجمہ:.....اور اپنے اوپر (کی گئی) اﷲ کی اس نعمت کو یادکرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔

ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو پھر سے جوڑنا اور گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کورشتۂِ اخوت ومحبت میں پرودینا اتنا بڑا واقعہ ہے جس کی کوئی نظیر تاریخِ عالم پیش کرنے سے قاصر ہےلہٰذا میلاد مصطفی پر خوشی منانا اور شکرِ الہٰی بجا لانا امت مسلمہ پر سب خوشیوں سے بڑھ کر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔56

ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ میلاد النبی کے موقع پر خوشی کے اظہار کے سلسلے میں محافلِ میلاد کے انعقاد کی معاشرتی اہمیت بہت زیادہے جو مسلمانانِ عالم کی علمی و نظریاتی تربیت کے لیے لازمی ہے اور ان محافل سے مسلمانانِ عالم کا رسول اکرم سے قلبی تعلق استوار ہوکر مضبوط ہوتا ہے جس سے دینِ الہٰی پر عمل کرنا آسان تر ہوجاتا ہے۔

میلاد النبﷺشیخ محمد عبدہ یمانی کی نظر میں

عہد قریب ہی کے ایک عرب عالم شیخ محمد عبدہ یمانی جو کئی کتابوں کے مصنف اور کئی اداروں کے سربراہ تھے جن کی کتابوں سے ان کے تبحر علمی کا اندازہ ہوجاتا ہے انہوں نے میلاد النبی کے موضوع پر ایک کتاب"الاحتفال بالمولد النبوی الشریف صلى اللّٰه عليه وسلم "کے نام سے تحریر فرمائی ہے اور اس میں اس کے جوازو استحسان کو بیان کیا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سید الانبیاء والمرسلین کی سیرت طیبہ کو سننے کے لیے اجتماع منعقد کرنا ایک محبوب و پسندیدہ امر ہے اور اسلامی فضا میں اختراعات و انحرافات کے بغیر ان مجالسِ سیرت کے انعقاد میں بہت سی فضیلتیں ہیں ۔ حضور اکرم کی سیرت کا ذکر ہر وقت ہو رہاہے اور سیرت طیبہ سننے کے ساتھ لوگوں کا تعلق برابر بڑھ ر ہا ہے ۔ صرف ربیع الاول کا مہینہ ہی اس کے لیے خاص نہیں اگر چہ یہی وہ ماہ مبارک ہے جس میں حضور نے جنم لیا۔ آپ کی ولادت کے مقدس مہینے میں ایک دعوت دینے والا، لوگوں کو قریب لانے ، ان کو جمع کرنے ، ان کی توجہ مبذول کرانے اور ان کے ذہنوں کا زمانے کے ساتھ تعلق جوڑنے کے زیادہ قابل ہوتا ہے چنانچہ لوگ زمانۂِ حال کے ذریعے ماضی کو یاد کرتے ہیں اور حاضرینِ مجلس علم کو ان لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو موجود نہیں ہوتے ۔ حقیقت تو یہی ہے ۔ اگرچہ میلاد نبوی کے استقبال کے ساتھ ربیع الاول کے مہینے میں مسلمانوں کا یہ تعلق قائم ہے ، تاہم اہل علم کسی مخصوص رات کو میلاد نبوی کا جشن منانے کو سنت نہیں سمجھتے اور اس فعل کو ایک ایسی بدعت شمار کرتے ہیں جس کا ارتکاب رسول اللہ کے صحابہ نے نہیں کیا مگر میلاد نبوی کا استقبال ہر وقت اور ہر جگہ واجب ہے ، ہم حضور پر درود سلام بھیجتے ہیں کیونکہ خدائے عزوجل کا فرمان ہے :

اِنَّ اللّٰه وَمَلٰۗىِٕكتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِى ۭ يٰٓاَيُّھا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْه وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا5657
ترجمہ:.....بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔

بے شک رسول اللہ کی محبت اور آپ کی سیرت سے فرحت و مسرت حاصل کرنا ایک مسلمان کے لیے بہت سی بھلائیوں کا موجب ہے اس لیے کافر بھی آپ کی ولادت باسعادت سے فیض یاب ہوا تھا او روہ کافر ابو لہب تھا۔۔۔ حضور اکرم اپنے یومِ ولادت کو بڑی اہمیت دیتے تھے، اس دن آپ اس نعمتِ کبریٰ اور وجودِ مسعود کا شکر بجا لاتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایاتھا جس سے ہر شے فیض یاب ہوئی تھی۔ اس تعظیم کا اظہار آپ روزہ رکھ کر فرماتے جیسا کہ حضرت ابو قتادہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ سے پیر کے روزے کے متعلق ہوچھا گیا تو آپ نے فرمایا "اس دن میری ولادت ہوئی تھی اور مجھ پر وحی کا نزول ہوا تھا"58۔۔ ۔آپ کے یوم ولادت منانے کے یہی معنی ہیں لیکن اس کی صورتیں مختلف ہیں مگر اس کا معنی موجود ہے، خواہ اس کا مطلب روزہ رکھنا ہو یا کھانا کھلانا، آپ کے ذکرِ خیر کی مجلس منعقد کرنا ہو یا نبی اکرم پر درودو سلام بھیجنا ہو یا آپ کی عادات و اطوار کے بارے میں سننا ہو (سب اس میں شامل ہیں) ۔آپ کی ولادت پر خوشی کا اظہار پسندیدہ اور مطلوب ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِك فَلْيَفْرَحُوْاھوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ58 59
ترجمہ:..... فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

لہذااللہ تعالیٰ۔۔۔نے ہمیں رحمتِ الہٰی پر خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور نبی کریم ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَة لِّلْعٰلَمِيْنَ10760
ترجمہ:.....اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔61

ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی کے مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہو اکہ رسول اکرم کی ولادت کی خوشی کرنا اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا مسلمانوں کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے اور اس طرح کرنے سے رسول اکرم کی سیرت طیبہ کو جاننے اور سمجھنےکے ذریعہ اس پر عمل پیرا ہونے کے ذرائع میسر آتے ہیں۔

مذکورہ بالا عہد ِقریب کے تمام علمائے اسلام کے اقتباسات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم کا میلاد منانااور اس پر خوشی کا اظہار کرتےہوئے محافل ومجالسِ میلاد کا انعقادکرنا جائز ومستحسن ہےا ور امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر اس پُرمسرت موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمت ملنے پر حکمِ الہٰیہ کے تحت خوشی کرتی ہے اور اس کو شکرِ خداوندی کے طور پر مناتی ہے جس میں عوام تو عوام امت مسلمہ کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام شامل ہوتے ہیں اور اس کو بنظرِ استحسان دیکھتےہوئے مسلمانانِ عالم کےدلوں میں سرورِ عالم کی محبت واطاعت کے جذبہ کی پختگی کا مظبوط سبب سمجھتےہیں جس سے ان کی علمی و عملی تربیت ہوتی ہے۔

 


  • 1 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 2 ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی، جامع الترمذی، حدیث:3607، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:1069
  • 3 ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:16835، ج-28،مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان، 2001م،ص:49
  • 4 القرآن،سورۃ الفتح8:48-9
  • 5 امام احمد رضا خان القادری نے اپنے پہلے حج کے موقع پر شیخ الحرم شیخ زینی دحلان شافعی سے حدیث،فقہ و اصول، تفسیر اور دیگر علوم میں سندِ اجازت حاصل کی تھی اور آپ اپنے استاذ گرامی کا ذکر والہانہ انداز میں کیاکرتے تھے۔شیخ الحرم کا وصال مبارک تیرہ سو چار( 1304ھ) میں ہوا اور مدینہ منورہ کےجنت البقیع میں دفن ہوئے۔( امام احمد رضا خان القادری،فتاوی رضویہ،ج-1،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان،2005ء، ص:12)
  • 6 شیخ سید احمد بن زینی دحلان مکی، الدرر السَّنیۃ فی الرد علی الوھّابیۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ الاحباب، دمشق، السوریۃ، 2003م، ص:50-51
  • 7 القرآن، سورۃ آل عمران 3: 81 - 82
  • 8 القرآن،سورۃالصّف61: 6
  • 9 امام احمد رضا خان القادری،المیلاد النبویۃ فی الالفاظ الرضویۃ،مطبوعہ:قادری رضوی کتب خانہ،لاہور،پاکستان،2010ء،ص:28-31
  • 10 امام احمد رضا خان القادری،فتاوی رضویہ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان،2005ء، ص:495-553
  • 11 ایضاً، ص:405-428
  • 12 امام احمد رضا خان القادری،فتاوی رضویہ،ج-29،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان،2005ء، ص:205
  • 13 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ما ثبت باالسُنّۃ فی الایام والسَّنَۃ، مطبوعۃ: مجتبائی دھلی، دھلی، الھند، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:79
  • 14 شیخ نواب صدیق حسن خان بھوپالی، الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃﷺ(رسائلِ میلادِ رسول عربیﷺ)، مطبوعہ: مکتبہ حنفیہ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص:11-12
  • 15 ایضاً، ص:105
  • 16 مولانا رشید احمد گنگوہی ، باقیاتِ فتاویٰ رشیدیہ، مطبوعہ: دار الکتاب ،لاہور،پاکستان، 2012ء، ص:578
  • 17 مولانا مناظر احسن گیلانی، سوانحِ قاسمی،ج-1، مطبوعہ:مکتبہ رحمانیہ،لاہور،پاکستان،1373ھ، ص:471
  • 18 مولانا محمد اشرف علی تھانوی ، ارواحِ ثلاثہ، ج-1، مطبوعہ:مکتبہ عمر فاروق،کراچی،پاکستان،2009ء، ص:213
  • 19 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:421
  • 20 ایضا، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید الرسلینﷺ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:177
  • 21 شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان،2013ء،ص:383-384
  • 22 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:394
  • 23 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری،جامع صحیح مسلم، حدیث:1162، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:477
  • 24 القرآن ،سورۃآل عمران3: 164
  • 25 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2005، ص: 177 -178
  • 26 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان،2013ء،ص:384-385
  • 27 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005، ص: 178
  • 28 شیخ وحید الزماں ، ہدیۃ المہتدی، مطبوعہ: میو پریس، دہلی،ہند،(سنِ اشاعت ندارد)،ص:46
  • 29 مولانا محمد اشرف علی تھانوی، میلاد النبیﷺ، مطبوعہ: مکتبہ ابو بکر عبد اللہ، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص:14-15
  • 30 ایضا ، امداد المشتاق، مطبوعہ: ممتاز اکیڈمی ،لاہور،پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)، ص: 88
  • 31 ایضا ، امداد الفتاویٰ، ج-5،مطبوعہ: مکتبہ سید احمد شہید ،لاہور،پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)، ص: 230
  • 32 مفتی احمد یار خان نعیمی، جاء الحق، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ ، لاہور، پاکستان،2011ء، ص:230
  • 33 القرآن، سورۃ المائدہ 5: 7
  • 34 القرآن، سورۃ الضحیٰ 93 :11
  • 35 القرآن، التوبۃ9: 128
  • 36 مفتی احمد یار خان نعیمی، جاء الحق، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ ، لاہور، پاکستان،2011ء، ص:231
  • 37 ابو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4465، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، 1990م، ص:83-84
  • 38 نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی المولد النبوی، مطبوعۃ: مرکز تحقیقات اسلامیۃ، لاہور، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً)،ص: 21
  • 39 مفتی احمد یار خان نعیمی، جاء الحق، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ ، لاہور، پاکستان،2011ء، ص:234-236
  • 40 مفتی عبد الرحیم لاجپوری دیوبندی، فتاویٰ رحیمیہ، ج-2، مطبوعہ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص:72
  • 41 مولانا خلیل احمد سہارنبوری، المہند علی المفند، مطبوعۃ: نفیس منزل، لاہور، باکستان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:60-63
  • 42 شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:78
  • 43 سيد احمد سعید کاظمی،میلاد النبیﷺ( رسائل میلاد النبیﷺ)، مطبوعہ: قادری رضوی کتب خانہ، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص :191-194
  • 44 القرآن، سورۃ یونس 10: 58
  • 45 جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2013ء،ص:45-47
  • 46 ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی،مولد النبیﷺ(مترجم:مفتی غلام معین الدین) ،مطبوعہ:مکتبہ حنفیہ،لاہور،پاکستان،2011ء، ص:70
  • 47 ڈاکٹر محمد مسعود احمد،جشن بہاراں( رسائل میلاد النبیﷺ)، مطبوعہ: قادری رضوی کتب خانہ، لاہور،پاکستان، 2008ء، ص:229-238
  • 48 القرآن، سورۃ آل عمران164:3
  • 49 القرآن ، سورۃ یونس10: 58
  • 50 ڈاکٹر محمد مسعود احمد، جانِ جاناںﷺ، مطبوعہ: ادارہ مسعودیہ، کراچی ، پاکستان،1998ء، ص:63-64
  • 51 علامہ غلام رسول سعیدی، شرح صحیح مسلم، ج-3، مطبوعہ: فرید بک اسٹال ، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص:169-170
  • 52 الدکتور محمد بن علوی المالکی الحسنی، مفاہیم یجب ان تُصحح، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 309 -310
  • 53 الدکتور محمد بن علوی المالکی الحسنی، مقدمۃ المورد الروی فی المولد النبوی للملا علی القاری، مطبوعۃ: مرکز تحقیقات اسلامیۃ، لاہور، باکستان،(لیس التاریخ موجوداً)،ص: 21
  • 54 الدکتور محمد بن علوی المالکی الحسنی، رسائل میلاد النبی ﷺ (مترجم: یٰسین اختر مصباحی عظمی) ، مطبوعہ: قادری رضوی کتب خانہ، لاہور،پاکستان، 2008ء، ص:202-214
  • 55 القرآن، سورۃ آل عمران3: 103
  • 56 ڈاکٹر محمد طاہر القادری، میلاد النبیﷺ ، مطبوعہ:منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور،پاکستان، 2007ء، ص:35-50
  • 57 القرآن، سورۃ الاحزاب56:33
  • 58 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 59 القرآن، سورۃ یونس 10: 58
  • 60 القرآن، سورۃ الانبیاء107:21
  • 61 ڈاکٹر محمد عبدہ الیمانی، الاحتفال بالمولد النبوی الشریفﷺ(مترجم: محمد طفیل ضیغم)، مطبوعہ: ہجویری بک شاپ، لاہور، پاکستان، 2012ء، ص:21-23