Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺصوفیاء کی نظر میں

امت مسلمہ کے ہر طبقہ نے مولود النبی کو باعث سرور وشادمانی سمجھا ہے اور اس پر خوشی و مسرت کے اظہار کو شکر خداوندی گردانا ہے، بالخصوص امت کے مشائخ وصوفیاء کرام جن کا علم و تقوی ،خلوص وللہیت ،دین پر استقامت مسلمہ ہے انہوں نے بھی مولود النبی کے موقع پر خوشی کرنے کو قربِ الٰہی کا سبب تسلیم کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مولود النبی پر خوشی کا اظہار کرناامت مسلمہ کا اجتماعی، معاشرتی و تہذیبی عمل ہے جس کا انکار محض لا علمی و کم فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

<>میلاد النبی کبار صوفیاء کرام کی نظر میں</>

امت کے قدیم ترین مشائخِ کرام جن کا نام و مقام صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کی جماعت میں "شیخ الشیوخ "کے منزل و مرتبہ پر آتا ہے انہوں نے بھی میلاد النبی پر خوشی کے اظہار کو باعثِ نجاتِ اخروی اور قرب الٰہی کا وسیلہ بتایا ہے چنانچہ شیخ ابن حجر الہیتمی قدیم صوفیاء کرامرحمۃ اللہ علیہم کے حوالہ سے بیان کرتےہوئے تحریر فرماتےہیں:

  وقال حسن بصرى قدس اللّٰه سره وددت لوكان لى مثل جبل احد ذھبا فانفقته على قراءة مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وقال جنید بغدادى قدس اللّٰه سره من حضر مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم وعظّم قدره فقد فاز بالایمان وقال معروف كرخى قدس اللّٰه سره من ھیأ طعامالاجل قراءة مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم وجمع اخوانا واوقد سراجا ولبس جدیدا وتبخر وتعطرتعظیما لمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم حشره اللّٰه یوم القیامة مع الفرقة الاولى من النّبّیین وكان فى اعلى علّیّین...وقال السَّرِى السَّقطى قدس اللّٰه سره من قصد موضعا یقرأفیه مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقد قصد روضة من ریاض الجنة لانه ماقصد بذلك الالمحبة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وقد قال صلى اللّٰه عليه وسلم1 من احبنى كان معى فى الجنة.2
  حضرت امام حسن بصریفرماتے ہیں: میں اس کو محبوب رکھتا ہوں کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابرسونا ہو تو میلاد شریف کے پڑھوانے پر صرف کردوں۔حضرت جنید بغدادیفرماتے ہیں کہ جو میلاد شریف میں شامل ہوا اور اس کےمقام و مرتبہ کی تعظیم کی تو تحقیق وہ ایمان کے ساتھ ابدی فلاح پا گیا۔حضرت معروف کرخیفرماتے ہیں کہ جس نے میلاد شریف کے پڑھوانے کے لیے کھانا تیار کیا، مسلمانوں کو جمع کیا ، میلاد کی تعظیم کے لیے روشنی کی، نیا لباس پہنااور خوشبو وعطر لگایا تو اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اس کا حشر انبیاء کرام کے ساتھ کرے گا اور وہ اعلیٰ علیین میں ہوگا۔حضرت سری سقطیفرماتے ہیں کہ جس نے کسی ایسی جگہ کا قصد کیا جہاں میلاد شریف پڑھا جاتا ہے تو اس نے گویا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کا قصد کیا کیونکہ اس نے حضور نبی کریم کی محبت ہی میں ایسا کیا۔

ان مذکورہ بالا اقوالِ مشائخ و صوفیاء ِ کباررحمۃ اللہ علیہم سے واضح ہوجاتا ہے کہ میلاد النبی باعثِ قرب ِالہٰی اور قرب ِ رسول ہونے کے ساتھ ساتھ دنیوی شان وشوکت کے لیے بھی باعثِ ترقی ہے اوررسول اکرم کے میلاد کی خوشی کااظہار کرنا ایمان و اخلاص اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کا سبب ہے۔

میلاد النبی ﷺشیخ عبد القادر جیلانیکی نظر میں

نبی مکرم حضور اکرم کی ولادت کےمتعلق شیخ سیّد عبد القادر جیلانی المعروف غوث الاعظم نےانتہائی فصیح وبلیغ اندازمیں ایک کتاب بطرزِ رسالہ تحریر فرمائی ہے جو"مولد الجیلانی"کے نام سے معروف ہے۔اس مولد شریف میں آپاللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدو ثناء کرنےکےبعد رسول اکرم کی رسالت کی گواہی دیتےہوئے صاحبِ رسالت کی عظمت واجلال کےبارےمیں تحریرفرماتےہیں:

  فھو المختار للكرامة قبل خلق الأشيآء والمصطفى للرسالة قبل إيجاد الوجود والإنشآء...3
  ۔۔۔ پس کرامتوں(عزتوں) کےلیےتمام اشیاء کی تخلیق سے پہلے وہ چنیدہ ہوئے اوروجود کی ایجاد وپرورش سے پہلےانہیں رسالت لے لیےمنتخب کرلیاگیا۔۔۔

پھر شیخ عبد القادر جیلانی نے آپ کی شبِ اسراء میں لقائے رب العالمین کےلمحات میں باری تعالیٰ کےحضور شرفِ باریابی کا تذکرہ فرمایا ہے کہ جب نبی مکرم کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں لب کشائی کا موقع ملاتو آپ نے اس وقت بھی اپنی امت کو یاد رکھا چنانچہ آپتحریرفرماتےہیں:

  وذكرھم حيث ينسى الذاكر نفسه ولم ينسھم فى مقام انفراده بالفرد ومناجاته للرب، فقال: السلام علينا وعلى عباد اللّٰه الصالحين...4
  ۔۔۔اور انہیں یاد رکھا جبکہ ایسے وقت میں ذکرکرنیوالا خوداپنی ذات کو بھول جاتاہے، مگرآپ نے مقام انفرادیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں مناجات کرتے ہوئے اپنی امت کو نہ بھلایااورعرض کیا:ہم پر اوراللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔۔۔

نبی مکرم کی مدح و نعت تحریر فرمانے کے بعد آپ نےحضور اکرم کے استقرارِ حمل اور ولادت سمیت اس سےقبل پیش آنےوالے واقعات کا تذکرہ فرمایا ہے چنانچہ آپ کے استقرارِ حمل اور آپ کی ولادت سے قبل پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ عبد القادر جیلانی تحریر فرماتے ہیں:

  وأعظم الناس قدرا لديه صلوا وسلموا عليه، حمل بمحمد فى ليلة الجمعة من رجب ولم يوجد لحمله ثقل ولا تعب، العجائب الظاھرة فى حمله أدل دليل على تفرده فى فضله، زخرقت له الجنان ابتھجت له الأكوان اغلقت أبواب النيران رخصت حجة الشيطان ذلت الأوثان والأصنام تساقطت لمولده شرفات الإيوان....واختفت الكواكب حياء من طلوع نجم يثرب وانطفت الشھب بتبلج شھاب مكة واندرجت الأنوار فى شعاع نور محمد وجليت عروس أحمد على كرسى حسنه المفرد وولد صلى اللّٰه عليه وسلم.5
  اور وہ اس(اللہ تبارک وتعالیٰ )کےنزدیک نہایت عظمت ومنزلت والےہیں ان پردرودوسلام پڑھو، حضرت محمد مصطفیٰ جمعہ کے روزماہ ِرجب میں استقرارحمل میں تشریف لائے، آپ کی اس آمد پر(والدہ ماجدہ کو) نہ کوئی بوجھ محسوس ہوا اورنہ تھکاوٹ، آپ کے حمل کےواقعات آپ کی انفرادی عظمت وفضیلت پرسب سے بڑی دلیل ہیں۔ آپ کےلیے جنت کو مزیّن کردیاگیا، تمام کائنات ان کےآنے پرمسرورہوگئی، جہنم کے دروازے بندکردیےگئے،شیطان کی قوت کو پسپاکردیاگیا، بتوں کوذلیل کردیاگیا، (کسریٰ کے)بلند وبالا کنگرے آپ کی ولادت کےموقع پر اوندھے گرپڑے۔۔۔ یثرب کے تارےکےطلوع ہونے سے تمام ستارےحیاء کے مارے چھپ گئے اور مکّہ کےشہاب کی نورانیت کے آگےدیگر کواکب بجھ گئے،سارےانوار نورِمحمدی کی شعاعوں میں ڈھل گئےاوران کے حسن وجمال کی مسند پر (سیّد نا)احمد کی خوشی خوب واضح ہوگئی اورآپ پیداہوئے۔

یہ تمام مذکورہ بالا اقتباسات شیخ عبد القادر جیلانیکے مولود النبی کے حوالہ سے لکھے گئے رسالہ سے ماخوذ ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولود النبی کاتذکرہ بطور وعظ و تصنیف حضرت کا معمول تھا جواس بات کابین ثبوت ہے کہ آپنہ صرف میلاد شریف کا تذکرہ فرماتے بلکہ ان جمیع روایات کو صحیح مانتے تھے جو اس حوالہ سے منقول ہیں۔یہی وجہ تھی کہ آپان کا تذکرہ اپنے وعظ و ملفوظات میں فرماتے جو ان کے میلاد منانے پر ہی دلالت کرتا ہے۔

میلاد النبیﷺشیخ اکبر ابن ِ عربیکی نظرمیں

حضرت شیخ محی الدین ابن عربی ان عظیم و بزرگ خاصان ِ خدا میں سے ہیں جو شریعت کے ظاہر و باطن کے جامع اور مجمع البحرین ہونے کے ساتھ ساتھ بندگانِ خدا کو خلوص و للہیت سکھانے میں بھی بے مثل و بے نظیر رہے ہیں۔آپ اپنے دور کے مقامِ غوثیت کے بلند مقام و مرتبہ پر فائز تھے اور قرآن ِ مجید کے علوم میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے جس کا اندازہ آپکی دو معرکۃ الآراء کتب "الفتوحات المکیۃ" اور "فصوص الحکم"سے لگایاجاسکتا ہے۔امت کے اتنے بڑے عالم وصوفی نےبھی مولود النبی کے مضمون پر ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے جس میں آپ کی ولادت ِ باسعادت کے مختلف گوشوں اور تفصیلات کو رقم فرمایا ہے ۔آپکے اس رسالۂ مولد سے چند اقتباسات نقل کیے جارہےہیں جن کو پڑھ کر اندازہ ہوجائےگا کہ نبی کریم کی ولادت باسعادت کوآپ نے منفرد انداز سے ذکر کیا ہے چنانچہ نبی مکرم کے ظہورِنور کے حوالہ سے آپتحریر فرماتےہیں:

  لما أراد اللّٰه سبحانه وتعالى إيجاد الخلق بتقديره أبرز الحقيقة المحمدية من الأنوار الصمدية بتدبيره، وذلك لما سبق فى علمه وتعيّن فى مشيئته، فاطلع شمس الكمال المحمدى سراجا منيرا...6
  جب اللہ تعالیٰ نےاپنی قدرت سےمخلوق کو پیداکرنے کاارادہ فرمایاتو اپنی حکمت کےساتھ حقیقتِ محمدیہ کو انوارِصمدیت سے ظاہر فرمادیا اوریہ سب اس کے علم ومشیئت میں متعین تھا،پس کمال ِمحمدی کا سورج روشن و منورہوکرچمکا۔۔۔

شیخ ابن عربی اس کے بعد آگے چل کر نبی مکرم کی ولادت کاذکر کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وولد صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الإثنين فى شھر ربيع الأول ليلة الثانى عشر منه ووقع حين ولدته أمه معتمدا على يديه رافعا رأسه إلى السماء نظيفا طيبا ما به من دم ولا أذى، كما يولد الأولاد ودنت النجوم السماء حتى كادت تقع على الأرض مستمدة من نوره الوضاح...7
  اورنبی کریم بروزپیرماہ ربیع الاول کی بارہ (12)راتیں گزرجانے پرپیداہوئےاور جب آپ کی ولادت ہوئی توآپ ہاتھوں کے بل آسمان کی جانب نگاہ اٹھائے ، سربلندکیے،پاک وصاف زمین پر تشریف لائے۔آپ کے بدنِ اقدس پر نہ کوئی خون تھا اور نہ کوئی غلاظت جیسا کہ دیگر بچے (غلاظت کے ساتھ )پیداہوتے ہیں۔آسمان کے ستارےاس قدر قریب ہوگئے کہ گویا ابھی آپ کے روشن نورسےمنورہوکر زمین پرگرپڑیں گے۔۔۔

اس سے آگے آپ کےرخِ انور پر جوعلاماتِ نبوت ظاہر تھیں ان کا ذکر کرتےہوئے آپ کی دُرّ یتیمی کی وجہ بیان کرتے ہوئے شیخ اکبر مزیدتحریر فرماتے ہیں:

  ولما بلغ صلى اللّٰه عليه وسلم سبع سنين ماتت أمه ومات أبوه وھو حمل كل ذلك لتحقق الكفالة الإلھية له وتجرده من الوسائل الكونية فأخذه جده عبد المطلب إليه وأكرمه وأعزه على جميع اولاده لسرٍّ قد بشره به علماء زمانه ولما قارب البلوغ، خرج مع عمه أبو طالب إلى الشام، فرأته رھبان النصارى فأقروا له بالنبوة واعترفوا بفضله وقالوا: ھذا سيد المرسلين، ھذا يبعثه اللّٰه رحمة للعالمين...8
  ۔۔۔اور جب آپ سات برس کے ہوئے تو(اس سے پہلے ہی چونکہ) آپ کے ماں باپ وفات پاگئے تھےتوانہوں نے یہ تمام بوجھ برداشت فرمایاتاکہ کفالتِ الہیہ متحقق ہوسکےاورآپ کائنات کے ظاہری اسباب سے بےنیازہوں لہذا آپ کے داداآپ کواپنے پاس لےگئے۔ آپ کا اپنی اولاد سےزیادہ عزت واکرام کیاکیونکہ ان کو ان کے زمانہ کے علماء نے آپ کے متعلق بشارات دیں تھیں۔ اور جب آپ بلوغت کے قریب ہوئےتو اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوئے، پس نصاری کے راہبوں نے آپ کی فضیلت وعظمت کا اعتراف کرتےہوئے آپ کی نبوت کی تصدیق کی اورکہا: یہ رسولوں کے سردارہیں اوران کو اللہ تعالیٰ نے جہانوں کےلیے رحمت بناکربھیجا ہے۔۔۔

ان مذکورہ بالا تمام اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ محی الدین ابنِ عربینے نبی مکرم کی ولادتِ باسعادت کےموضوع پر منفرد انداز سے کلام کیا ہے اور اس مشرف وقت میں ہونے والے منجانب اللہ انعامات کا تذکرہ فرما یاہے اور مولد النبی کا مطلب ومفہوم بھی یہی ہے اور شیخ اکبرکا اس موضوع کے حوالہ سے ایک رسالہ علیحدہ سے تحریر کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شیخ اکبرکے نزدیک رسول اکرم کی ولادت باسعادت عظیم الشان عطیۂ خداوندی ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کےلیے اس کا چرچا خواہ مجلس و محفل کی صورت میں ہو یا تصنیف و تالیف کی صورت میں نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور درجات کی بلندی کا باعث ہے۔

میلاد النبیﷺ شیخ عمر بن محمد المَلّا کی نظر میں

چھٹی(6) صدی ہجری کے ممتاز عالم وصوفی ابو حفص شیخ معین الدین عمر بن محمد جو عراق کے شہر موصل کے رہنے والے تھے اور لوگوں میں"المَلّا"کے لقب سے معروف تھے ۔ نہایت صالح، زاہد و عالم شخصیت تھےاور شہرِ موصل میں سب سے پہلے آپ نےہی محفلِ میلاد کو بڑے اہتمام کے ساتھ شروع کیا تھا اور پھر اس کے بعد لوگو ں نے آپ کی اقتداء میں محفل ِ میلاد کو جاری کیا۔اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے امام یوسف صالحی شامی اپنی مایہ ناز کتاب ِ سیرت"سبل الہدیٰ"میں تحریر فرماتے ہیں:

  وكان أول من فعل ذلك بالموصل الشيخ عمر بن محمد الملاّ أحدا لصالحين المشھورين وبه اقتدى فى ذلك صاحب إربل وغيرھم.9
  موصل میں سب سے پہلے شیخ عمر بن محمد الملا نے محفل میلاد کا انعقاد کیا۔ یہ مشہور صالح و متقی شخص تھے۔ اربل کے بادشاہ نے میلاد النبی کے عمل میں انہی کی اتباع کی تھی۔

اس مذکورہ بالااقتباس سے واضح ہوا کہ موصل میں سب سے پہلے مجلس ِ مولود منعقد کرنے والے صوفی شیخ عمر الملا تھے اور آپکی اقتداء میں بادشاہانِ وقت نے محفلِ مولود کواپنی ثقافت کے لحاظ سے جاری کیا۔شیخ عمر الملا کی مجلسِ مولود منعقد کرنے میں اقتداء نہ صرف عوام و سربراہِ مملکت نے کی بلکہ آپکے ہمعصر علماء ومشائخ وصوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم نے بھی کی چنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئےشیخ ناصر الدین دمشقی فرماتے ہیں:

  ولقد بلغنا عمن رأى تلك الولیمة السنیة انه كان مرة على لمائدة...مائة الف اناء من الطعام...وكان فیما بلغنا ان اھل تلك النواحى والبلاد كالجزیرة وسنجار ونصیبین والموصل وبغداد من الفقھاء والوعاظ والقراء والصوفیة والرؤساء والشعراء یسعون فى كل سنة الى اربل لحضور ذلك الوقت المفضل من مستھل المحرم الى اوائل شھرربیع الاول.10
  ہر سال منعقد ہونے والی اس سالانہ دعوت میں حاضر ہونے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ دستر خوان پر دیگر چیزوں کے ساتھ انواع و اقسام کےسو(100) کھانے چنے گئے تھے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس شہر اور اس کے ارد گرد کے شہروں مثلاًجزیرہ،سنجار،نصیبین،موصل اور بغداد کے فقہاء،خطباء، قراء ،صوفیا،عمائدین اور شعراءاربل بادشاہ کی طرف اس محفل مبارکہ میں شریک ہونے کے لیے ہر سال آیا کرتے اورمحرم الحرام کی ابتداء سے ربیع الاوّل کے شروع تک جمع ہوتے تھے۔

اس مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہواکہ محفلِ مولود سجانا اور آپ کی دنیامیں تشریف آوری کا تذکرہ اور اس خوشی کے موقع پُر مسرت کا اظہار کرنا امت کے متقدمین علمائے اعلام،ومشائخ عظام اورصوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کا وطیرہ چلا آرہا ہے اوراسی وجہ سے آج تک اس محفل مولود کو تمام امت نے بارگاہِ الٰہی کا مقبول ترین عمل سمجھ کر اپنایا ہوا ہے۔

میلادالنبیﷺ شاہ عبد الحق کی نظر میں

امت مسلمہ کے ایک اور عظیم شیخ وصوفی جن کی علمی ثقاہت بھی مسلمہ ہے اور مشائخ و صوفیاء میں بھی ان کا مقام بلند و بالا ہے یعنی شیخ محقق شاہ عبد الحق ، آپ کا تقوی وورع کا یہ عالم ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی اپنی کتاب میں آپ کی بارگاہ ِ رسالت میں شرفِ باریابی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  بعض اولیاء اﷲ ایسے بھی گزرے ہیں کہ خواب یا حالتِ غیب میں روزمرہ ان کو دربار نبوی میں حاضری کی دولت نصیب ہوتی تھی۔ایسے حضرات صاحبِ حضوری کہلاتے ہیں اورانہی میں سے ایک حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلوی ہیں کہ یہ بھی اس دولت سے مشرّف تھے اور صاحبِ حضوری تھے۔11

اتنے عظیم و جلیل القدر حقیقی صوفی کے نزدیک بھی میلاد النبی کی محافل و مجالس اور اس پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں مذکور ابو لہب کا وہ واقعہ جس میں اس نے حضرت ثویبہ کو نبی مکرم کی ولادت کی خوش خبری دینے کی بنا پر آزاد کیا تھا اور اس آزادی کی بدولت اسے ملنے والے انعام کو نقل کرتے ہوئے امام بخاری روایت کرتے ہیں:

  ثویبة مولاة لابى لھب كان ابو لھب اعتقھا فارضعت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فلما مات ابو لھب اریه بعض اھله بشرحیبة قال له ماذا لقیت قال ابو لھب لم الق بعدكم غیر انى سقیت فى ھذہ بعتا قتى ثوبیة.12
  ثویبہ ابو لہب کی باندی تھی اور ابولہب نے اس کو آزاد کردیا تھا، پھر اس نے نبی کو دودھ پلایا پس جب ابولہب مرگیا تو اس کو اس کے بعض گھر والوں نے خواب میں برے حال میں دیکھا پوچھا کیا گزری ابولہب بولا کہ تم سے علیحدہ ہوکر مجھے کوئی خیر نصیب نہ ہوئی۔ ہاں مجھے اِس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو(ولادتِ مصطفیٰ کی خوشی میں اس انگلی کے اشارے سے ) آزاد کیا تھا۔

اس واقعہ کو مدار ج النبوۃ میں نقل کرنے کے بعد شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی ا س پر تبصرہ کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  دراینجاسند است مراھل موالید راكه درشب میلاد آنحضرت صلى اللّٰه عليه وسلم سرور سرور كنند وبذل نمایند یعنی ابولھب كه كافر بود وقرآن بمذمت وے نازل شدہ چوں بسرور میلاد آنحضرت جزا دادہ شد تا حال مسلمان كه مملوست بمحبت وسرور و بذل مال در وے چه باشد ولیكن باید كه ازبدعتھاكه عوام احداث كرده انداز تغنى وآلات محرمه و منكرات خالى باشد تا موجب حرمان از طریقه اتباع نگردد.13
  اس واقعہ میں میلاد مصطفیٰ منانے والوں کے لیے بڑی دلیل ہے۔ جو حضور کی شب ولادت میں خوشیاں مناتے اور مال خرچ کرتے ہیں یعنی وہ ابولہب جو کافر تھا جب حضور کی ولادت کی خوشی اور لونڈی کے دودھ پلانے کی وجہ سے انعام کا مستحق ٹھہرا تو اس مسلمان کا کیا ہوگا جو محبت اور خوشی سے لبریز ہوکر اور مال خرچ کرتا ہے لیکن چاہیےکہ محفل میلاد شریف عوام کی بدعتوں یعنی گانے اور حرام باجوں وغیرہ سے خالی ہو کیونکہ انسان اس کے باعث میلاد کی برکات سے محروم ہوجاتا ہے۔

شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپبھی میلادالنبی منانے کو جائز و مستحسن سمجھتے ہیں اور اس کے لیے حدیث مبارکہ کو بطورِ استشہاد اپنی معرکۃ الآراء کتاب"مدارج النبوۃ"میں ذکر کرکے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتےہیں تاکہ کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔

اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی ایک دوسری کتاب "ما ثَبَت بالسُّنّۃ فی ایّام والسَّنَۃ" میں ہر مہینہ کے خاص خاص شب و روز کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اَعمال مفصل بیان کیے ہیں۔ اْنہوں نے ماہِ ربیع الاول کے ذیل میں میلاد شریف منانے اور شبِ قدر پر شبِ ولادت کی فضیلت کو بھی ثابت کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بارہ(12) ربیع الاول کو حضور نبی اکرم کی ولادت کا جشن منانا بہ طورِ خاص ثابت کیا ہے چنانچہ وہ شبِ میلاد کی شبِ قدر پر فضیلت کو بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں :

  فتلك اللیلة افضل من لیلة القدر بلا شبھة لان لیلة المولد لیلة ظھوره صلى اللّٰه عليه وسلم ولیلة القدر معطاة له وما شرف بظھور ذات المشرف من اجله اشرف مما شرف بسبب ما اعطیه ولان لیلة القدر شرف بنزول الملائکة فیھا ولیلة المولد شرف بظھوره صلى اللّٰه عليه وسلم لان لیلة القدر وقع التفضل فیھا على امة محمد صلى اللّٰه عليه وسلم ولیلةالمولد الشریف وقع التفضل فیھا على سائر الموجودات فھو الذى بعثه اللّٰه تعالى رحمة للعالمین وعمت به نعمته على جمیع الخلائق من اھل السموٰت والارضین.14
  پس بلا شبہ وہ(مولود)کی رات شبِ قدر سے افضل ہے کیونکہ مولد کی رات آپ کی ولادت کی رات ہے اور شبِ قدر آپ کو عطا کی گئی ہے اور جومبارک ذات کے ظہور کی وجہ سے مشرف ہوئی ہے وہ زیادہ فضیلت والی ہے بنسبت اس رات کے جو عطا کیے جانے کی وجہ سے مشرف ہوئی ہے۔(اورمولد کی رات اس لیے بھی فضیلت والی ہےکہ)بلا شبہ شبِ قدر مشرف ہوئی ہے، اس میں ملائکہ کے نزول کی وجہ سے اور مولد کی رات مشرف ہوئی ہے نبی کریم کی ولادت کی وجہ سے۔(اورمولد کی رات اس لیے بھی فضیلت والی ہےکہ)شبِ قدر میں فضلِ خداوندی صرف امت محمدیہ پر واقع ہوا ہے اور مولد کی رات میں فضلِ خداوندی تمام کائنات پر واقع ہوا ہے کہ آپ ہی وہ ذات ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے اور آپ ہی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں آسمان و زمین والوں کی تما م مخلوق پر عام ہوئیں ۔

اس مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی آپ کی ولادت کی رات انتہائی متبرک مانتے ہیں اور اس کو شبِ قدر سے افضل بھی قرار دیتے ہیں۔اس کو بیان کرنے کے بعد آپنبی کریم کے یومِ ولادت کے حوالہ سے منائے جانی والی تقاریب ومجالس کا ذکرکرتے ہیں اور اس میں مسلمانوں کی عید کا بھی ذکر کرتے ہیں اور ابن جزریکا درج ذیل اقتباس بلا نکیر نقل کرتےہیں:

  اذاكان ابو لھب الكافر الذى نزل القرآن بذمه جوزى فى الناربفرحة مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فما حال المسلم الموحد من امة محمد صلى اللّٰه عليه وسلم الذى یسر بمولده ویبذل ماتصل الیه قدرته فى محبته صلى اللّٰه عليه وسلم لعمرى انما یكون جزاء من اللّٰه الكریم ان یدخله بفضله جنات النعیم.15
  جب ابو لہب، ایساکافرجس کی مذمت میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس کو شب میلاد النبی کی خوشی میں یہ جزا دی گئی ہےتوسیّد نا محمد کی امت کے اس مسلمان موحد کا کیا عالم ہوگا جو آپ کی ولادت کی خوشی مناتا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق آپ کی محبت میں خرچ کرتا ہے ۔مجھے میری عمر کی قسم اللہ کریم کی طرف سے اس کی جزاء صرف یہی ہوگی کہ اللہ اسے اپنے فضل وکرم سے نعمت والی جنت میں داخل فرمادے۔

اس مذکورہ بالا اقتباس کو نقل کرنے کے بعد شیخ قسطلانی کے درج ذیل اقتباس کو بھی بعینہ نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  لا زال أھل السلام يحتفلون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ويعملون الولائم، ويتصدقون فى لياليه بأنواع الصدقات، ويظھرون السرور، ويزيدون فى المبرات ويعتنون بقراءة مولده الكريم، ويظھر عليھم من بركاته كل فضل عميم ومما جرب من خوّاصه انه امان فى ذلك العام وبشرى عاجلة بنیل البغیة والمرام فرحم اللّٰه امرأاتخذ ليالى شھر مولده المبارك أعيادا....فاللّٰه یثیبه على قصده الجلیل ویسلك بناسبیل السنة.16
  ہمیشہ سے اہل اسلام رسول اکرم کی ولادت کے مہینہ میں محافل کا انعقادکرتے اور دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔اس ماہ کی راتوں میں کئی اقسام کے صدقات دیتے ہیں ۔خوشی کا اظہا رکرتے ہیں اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں۔مولد النبی کے پڑھنےکا اہتمام کرتے ہیں تو ان پر ہر قسم کی برکتوں اور انعامات کا ظہور ہوتا ہے۔ میلاد النبی کے خواص میں سے مجرب یہ ہے کہ یہ عمل جس سال میں منعقد ہواس منعقدہ مکمل سال کے لیے امن کا باعث ہے۔ مقاصد کی فوری بار آوری کے لیے خوشخبری ملتی ہے۔پس اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اُس شخص پر جو مولود مبارک کے مہینہ کی راتوں کو عید کی طرح مناتےہیں ۔ پس اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو ان کے عظیم مقصد پر اجر عطا فرمائےاور ہمیں سنت کے راستہ پہ چلائے۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوینے ابن جزری و شیخ قسطلانی کے مذکورہ بالا اقتباسات کو بعینہ نقل کرکے اس بات کو واضح کیا ہے کہ مولود النبی کے پُر مسرت موقع پر خوشی کا اظہار کرنا یہ مسلمانوں کا طریقہ ہے اور مسلمانانِ عالم اس موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمت ملنےپر خوشی کااظہار کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی حاجات ونیک مقاصد کو پورا کرنے کاسامان کرتے ہیں۔17

میلاد النبی ﷺ امام مجدّد الف ثانیکی نظر میں

امت کے کبار اور محقَّق صوفیائے عظام رحمۃ اللہ علیہم میں سے ایک عظیم شخصیت جو متاخرین کے نزدیک متفقہ طور پر"مجدِّد الف ثانی"کے مایہ ناز و منفرد لقب سے ملقب وممتاز ہے یعنی امام ربانی شیخ احمد سرہندی فاروقیجو اپنے ہمعصروں اور بعد کے افراد کے لیے مقتدااور پیشوا کی حیثیت رکھتے ہیں، آپبھی میلاد النبی کے جواز کے قائل ہیں البتہ انتہائی احتیاط کو مدِ نظر رکھنے کی پر جوش تلقین فرماتےہیں چنانچہ جب ان سے مولود خوانی کی محافل کی بابت سوال کیا گیا کہ جائز ہیں یا نہیں تو آپنے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

  در باب مولود خوانى اندراج یافته بود، در نفس قرآن خوانی بصورت حسن در قصائد و منقبت خواندن چه مضائقه است؟ممنوع تحریف و تغیر حروف قرآن است والتزام رعایت مقامات نغمه وتردید صوت مآن طریق الحان بالتفصیق مناسب آن در شعر نیز غیر مباح است اگر به نھجے خوانند كه تحریفے در كلمات قرآنى واقع نشدد ودر قصائد خواندن شرائط مذكوره متحقق نگردد وآنراھم بغرض صحیح تجویز نمایند چه مانع است؟ .18
  اس خط میں مولود خوانی کے متعلق بھی لکھا تھا،اچھی آواز سے صرف قرآن مجید اور نعت ومنقبت کے قصائد پڑھنے میں کیا حرج ہے۔منع تو یہ ہے کہ قرآن کے حروف کو تبدیل و تحریف کی جائے ،مقامات نغمہ کا التزام کرنا ،الحان کے طریقہ سے آواز کو پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں (بھی)جائز نہیں ہے(تو تلاوت میں کیونکر ہوگا)اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو،قصائد پڑھنے میں شرائطِ مذکورہ متحقق نہ ہوں اور اس کو بھی صحیح غرض سے تجویز کریں تو پھر(جوازمیں) کونسی رکاوٹ ہے۔19

اس مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ امام ربانی شیخ احمد سرہندی فاروقیبھی میلاد النبی کے جائز واستحسان کے قائل ہیں البتہ احتیاط کے پیشِ نظر شرعی دائرہ کار کی پابندی کو لازمی قرار دیتے ہیں جیساکہ دیگرعلماء ومشائخ اس پابندی کو ضروری گردانتے ہیں۔اس ا قتباس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیخ ربانی کے نزدیک فی نفسہ مولود النبی جائز ہے البتہ غیر شرعی حرکات کی بنا پر اس کو ممنوع قراردیا ہے نہ کہ مولود النبی منانا اور ا س پر خوشی کا اظہار کرنا ہی ممنوع ہے جیساکہ بعض حضرات شیخ مجددکے دوسرے مکتوب کی عبارات میں موجود سماع کی ممانعمت خواہ بصورت مولود ہو کا غلط مطلب سمجھ بیٹھے ہیں ۔20

میلاد النبی ﷺشاہ عبد الرحیم دہلوی کی نظر میں

امت مسلمہ کے ایک اور عظیم صوفی جنہوں نے خود بھی دین رسول اللہ کی خدمت کی اور ان کی آل و اولاد کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس خدمت کا امین بنایا یعنی حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی بھی صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کی جماعت کے اعلیٰ فرد ہیں اور آپبھی مولود النبی کے منانے اور اس پر خوشی کے اظہار کے جواز کے نہ صرف قائل تھے بلکہ خود بھی اس پُر مسرت موقع پر عظیم الشان دعوتِ طعام کا بندوبست کیا کرتے تھے چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویاپنے والد محترم حضرت شاہ عبد الرحیم دہلویکا قصہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  اخبرنى سیّد ى الوالد(شاه عبد الرحیم الدھلوى)كنت اصنع فى ایام المولد طعاما صلة للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم فلم یفتح لى سنة من السنین شئى اصنع به طعاما فلم اجد الا حمصا مقلیافقسمتة بین الناس فرأیته صلى اللّٰه عليه وسلم وبین یدیه ھذا الحمص متبھحا بشاشا.21
  مجھے میرے سردار والدِ محترم (شاہ عبدالرحیم دہلوی)نےخبردی:فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ ایام مولود شریف میں میلاد شریف کی خوشی کرتا اورنبی پاک کی نیاز کا کھانا تیار کیا کرتا تھا ۔ پس ایک سال بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ آیا، میں نے وہی چنے لوگوں میں تقسیم کروائے تو رسول اللہ کی زیارت نصیب ہوئی اور دیکھا تو وہی چنے حضور کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ خوش اور مسرور ہیں۔

اس اقتباس سے جہاں یہ واضح ہوا کہ شاہ عبد الرحیم دہلویمولود النبی کی محفل ومجلس سجاتے اور اس میں کھانے کا بندوبست کیا کرتے تھے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مجلس ومحفلِ میلاد النبی خود رسول مکرم کی خوشنودی کا باعث اور بارگاہ ِ رسالت کی مقبول مجلس ہے۔

میلاد النبیﷺ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی نظر میں

اسی طرح برصغیر کی ایک ایسی عظیم شخصیت جنہوں نے مسلمانوں کے دورِ تنزلی میں ان کو سنبھالا اور اصلاحی و تربیتی تحریک کا باعث بنے جس کی بدولت بے شمار لوگ دینِ اسلام کے قریب آئے یعنی حضرت شاہ عبد الرحیم دہلویکے فرزندِ ارجمند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ان عظیم صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم میں سے ایک ہیں جو آج بھی مرجعِ خلائق ہیں اور امت مسلمہ کے اکثر مکاتبِ فکر آپکو اپنا مقتداء و پیشوا مانتے ہیں۔ آپکے نزدیک بھی مولود النبی کے پُر مسرت موقع پر خوشی کا اظہار کرنا نہ صرف جائز ومستحسن ہے بلکہ اس پر خوشی کے اظہار سے انوارِ الہیہ بھی حاصل ہوتے ہیں ۔اس حوالہ سے آپ کا واقعہ انتہائی مشہور ومعروف ہے جس میں انہوں نے نبی اکرم کی ولادت کے موقع پر انوارات کا مشاہدہ کیاچنانچہ وہ اس حوالہ سے رقمطراز ہیں:

  وكنت قبل ذلك بمکة المعظمة فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى یوم ولادته والناس یصلون على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ویذكرون ارھاصاته التى ظھرت فى ولادته ومشاھده قبل بعثته فرأیت انواراسطعت دفعة واحدة لااقول انى ادركتھا ببصر الجسد ولا اقول ادركتھا ببصر الروح فقط واللّٰه اعلم كیف كان الامرین ھذاوذلك فتأملت لتلك الانوار فوجدتھا من قبل الملائكة المتوكلین بأمثال ھذه المشاھد وبأمثال ھذه المجالس ورأیت یخالطه انوار الملائكةانوار الرحمة.22
  اس سے پہلے میں مکّہ معظّمہ میں مولد النبی کے مقام ولادت پر حاضر ہوا تھا۔یہ دن آپ کی ولادت مبارکہ کا دن تھااور لوگ وہاں جمع تھے اور درود وسلام بھیج رہے تھے۔آپ کی ولادت پر آپ کی بعثت سے پہلےجو معجزات اور خوارق ظاہر ہوئے تھےان کا ذکر کررہے تھے۔میں نے دیکھا کہ اس موقع پر یکبارگی انوار روشن ہوئے،میں نہیں کہہ سکتا کہ ان انوارات کو میں نے جسم کی آنکھ سے دیکھایا ان کا روح کی آنکھ سے مشاہدہ کیا۔بہر حال اس معاملہ کو اللہ ہی جانتا ہے کہ جسم کی آنکھ اور ر وح کی آنکھ کے بین بین کون سی حس تھی جس سے میں نے ان انوارات کو دیکھا۔پھر میں نے ان انوارات پر مزید توجہ کی تو مجھے ان فرشتوں کا فیض نظر آیاجواس قسم کے مقامات ا ور اس نوع کی مجالس پر مؤکل ہوتے ہیں۔الغرض اس مقام پر میں نے دیکھا کہ فرشتوں کے انوار بھی انوارِ رحمت سے خلط ملط ہیں۔23

مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویکے نزدیک مولود النبی کے پُر مسرت موقع پر خوشی کااظہار کرنا خیر و سعادتمندی کا سبب ہے اور اس موقع پر مقامِ مولد مبارک پر انواراتِ الہیہ کا بکثرت نزول ہوتا ہے جن سے حاضرین منور ومشرف ہوتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اسی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ آپ جیسی عظیم نعمت کے ملنے پر خوشی کے اظہا رکرنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا وخوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔

میلاد النبی ﷺ شاہ عبد العزیز دہلوی کی نظر میں

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزند ارجمند یعنی حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویبھی ان مشائخ کی فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے مولد النبی کے موقع پراس کے انعام الہٰی ہونے کی وجہ سے خوشی و مسرت کے اظہار کو مستحسن قراردیاہے اور آپاس مسئلہ میں اپنے والدِ محترم حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویاور اپنے داد امحترم حضرت شاہ عبد الرحیم دہلویکے ہم نظر و ہم فکر ہیں ۔

شاہ عبد العزیز دہلوینے اپنے فتاوی میں اسلامی مہینوں کی فضیلت و وجہ فضیلت کو بیان کیا ہےاور اسی مقام پر ماہِ ربیع الاول کی برکات و رحمتوں کا تذکرہ بھی کیا ہے چنانچہ آپماہِ ربیع الاول کی فضیلت و سببِ فضیلت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:

  وبركة ربيع الأول بمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فيه ابتداء وبنشر بركاته صلى اللّٰه عليه وسلم على الأمة حسب ما يبلغ عليه من ھدايا الصلٰوة والإطعامات معا.24
  اور ماہِ ربیع الاول کی برکت حضور نبی اکرم کی میلاد شریف کی وجہ سے ہے جتنا اُمت کی طرف سے آپ کی بارگاہ میں ہدیۂ درود و سلام اور طعاموں کا نذرانہ پیش کیا جائے اُتنا ہی آپ کی برکتوں کا اُن پر نزول ہوتا ہے۔

یعنی شیخ عبدالعزیز دہلویکے اس مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں یہ واضح ہوا کہ ماہ ِ ربیع الاول کی فضیلت کی وجہ آپ کی ولادتِ مبارکہ ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی ولادت کی خوشی میں صدقہ کیا جانے والا کھانا آپ کے قرب اور آپ کی عنایات کا سبب بنتا ہے ۔اس سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ شاہ عبد العزیز دہلویبھی مولود النبی کے موقع پر خوشی کے اظہار کو اور صدقات و خیرات کرنے کو مستحسن سمجھتے ہیں۔

میلاد النبی ﷺخواجہ احمد الرفاعیکی نظر میں

امتِ مسلمہ کے ایک اور عظیم صوفی ابوالعباس احمد الرفاعی بھی ان صوفیاء میں سے ہیں جنہوں نے مولدالنبی کے موضو ع سے متعلق ایک رسالہ تحریرفرمایا ہے جس میں آپنےولادت ِخیر الخلق کی عظمت ورفعت، واقعاتِ ولادت اورحیاتِ مبارکہ میں پیش آنے والےمعاملات کو نہایت نفیس عبارات سے مزین کرکے"مولدالنبی "میں جمع کیا ہے۔آپ حبیب مکرم کی تعریف ومدح کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:

  إن ھذا المولود فھو النبى المبعوث الذى لأجله خلق اللّٰه الدنيا والآخرة، فتحت أبواب الجنان والسماء ليلة مولده وسبح الحوت والوحش والطير الذى أودع فكرا وظھرت الشھب وحشرت الشياطين حشرا وقالت الكھان قد ولد فى ھذه الليلة سيد ولد عدنان الذى شرف اللّٰه به ظھرا وبطنا وانھز البيت الحرام وأشرق الصفا والمقام وظھر عروس الجمال بدرا ووضعته مكحولا مدھونا مطيبا مختونا...25
  ۔۔۔بلاشبہ یہ پیداہونےوالا بچہ وہ نبی مبعوث ہےجس کےلیے اللہ تعالیٰ نے دنیا وآخرت کوتخلیق فرمایا،اس کی ولادت کی رات جنت اورآسمان کے دروازےکھل گئے،سمندرکی مچھلیوں،چرند اورپرند جن کو سوجھ بوجھ عطاہوئی نےتسبیح بیان کی،کواکب ظاہرہوئےشیاطین جلاکررکھ دیےگئے، کاہنوں نے کہا:بےشک اس رات میں عدن کی اولادمیں سردار پیداہواہےجس کی بدولت اللہ تعالیٰ نےان کو ظاہری وباطنی عزتیں نصیب فرمائیں،بیت حرام جھوم اٹھا، صفاومقام (ابراہیم )منور ہوااورحسن وجمال کی خوشیاں چاندکی مانندظاہرہوئیں،ان کی والدہ نے انہیں سرمہ ڈلاہوا،تیل مَلاہوا،خوشبومیں بساہوااورختنہ شدہ متولدکیا۔۔۔

اسی طرح شیخ احمد الرفاعیمولد شریف کے موضوع پر تحریر کردہ اپنے رسالہ میں نبی اکرم کی ولادت سےقبل واقعات کا ذکر کرتےہوئے اور آپ کی ولادت کی خوشی منانے والوں پر ہونے والے انعاماتِ الٰہیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید تحریر فرماتےہیں:

  وناداه الفيل يا عبد المطلب أنت جد من لم يأت الزمان بمثله فخرا وظھرت لأجله زمزم وحفرھا عبد المطلب حفرا ومر على أحبار اليھود فقالوا: أنت أبو لمنتظر الذى لم ياتى الزمان بمثله وبه يغفر اللّٰه لأمته ذنوبا ووزرا، فسبحان من جعل ھذا النبى سلطان الأنبياء ورفع له ذكرا وجعل مولده الشريف لمن عمله حجابا وسترا وكان له المصطفى شفيعا فى الدنيا والآخرة...26
  ۔۔۔اورایک ہاتھی نے انہیں پکارا اے عبد المطلب! تم اس کے دادا ہو جس کی مثل زمانےمیں کبھی کوئی نہ آیا،اس کی وجہ سے زمزم ظاہر ہوا اورعبد المطلب نے اسے کھودا،عبد المطلب یہودی علماء کے پاس سے گزرےتوانہوں نے دیکھ کرکہا:تم اس منتظَرکےوالدہوجس کی مثال زمانہ میں نہیں ملتی اوراس کی بدولت اللہ اس کی امت کے گناہ معاف فرمادےگا، پس پاک ہے وہ ذات جس نے اس نبی مکرم کوانبیاء کرامکا سردار بنایا،اس کاذکر بلند کیا،اس(نبی مکرم )کی ولادت کی خوشی منانے والےکےلیے جہنم سےحفاظت اورپردہ بنایا اوراس(نبی مکرم )کو اس(خوشی منانےوالے) کےلیے دنیا وآخرت میں شفاعت کرنےوالابنایا۔۔۔

شیخ احمد الرفاعی کے مذکورہ بالا اقتباسات سے بھی یہی واضح ہوا کہ شیخ رفاعی کے نزدیک نبی مکرم کی ولادت کی خوشی کرنا جائز و مستحسن تو ہےہی ، اس کے ساتھ ساتھ جہنم سے حفاظت اور آپ کی شفاعت کا سبب بھی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے انعامات میں سے بہت بڑے انعامات ہیں۔

میلاد النبیﷺ شیخ جعفربرزنجیکی نظر میں

امت مسلمہ کے ایک اور عظیم صوفی جو صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کی جماعت کے ایک تابندہ ماہتاب ہیں یعنی شیخ جعفربرزنجیانہوں نے بھی مولد النبی کے متعلق ایک رسالہ تحریر کیا ہے جس میں شیخ برزنجینے آپ کی ولادت کا ذکر اور ا س دوران رونما ہونے والے واقعات کا تذکرہ کیاہے چنانچہ شیخ برزنجی حضور کی ولادت باسعادت کےواقعات، عظمت ورفعت کا تذکرہ کرنے سے پہلے آپ کی عظمت کے ایک انفرادی پہلو کواپنی کتاب "مولد البرزنجی"میں بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  حفظ الإله كرامة لمحمد آباءه الأمجاد صونا لاسمه، تر كوا السفاح فلم يصبھم عاره من آدم وإلى أبيه وأمه...27
  ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم کی کرامت کی خاطر آپ کے آباؤاجداد کی حفاظت فرمائی تاکہ آپ کے نام پاک پر قدغن نہ لگے،ان سب نے بدکاری کو نزدیک تک نہیں آنے دیا اور حضرت آدم سے لےکرآپ کے والدین کریمین تک کسی کو بدکاری کی تہمت نہ لگائی گئی۔۔۔

یعنی نبی کریم کی عظمت وبلندی کے سبب آپ کے آباء و امہات کو ہر قسم کے عیب اور بد دیانتی سے محفوظ کردیا گیا اور اسی طرح حضور کےصدقے اللہ تعالیٰ نے آپ کے والدین اوراہل زمین پر بھی کرم فرمایاجس کےبارےمیں شیخ برزنجی تحریر فرماتےہیں:

  وخصھا القريب المجيب بأن تكون أماً لمصطفى ونودى فى السموات والأرض بحملھا لأنوار الذاتية وصبا كل صب لھبوب صبا وكسيت الأرض بعد ملول جذبھا من النبات حللا سندسية وأينعت الثمار وأدنى الشجر للجانى جنا نطقت بحمله كل دابة لقريش بفصاح الألسن العربية...28
  ۔۔۔اللہ تعالیٰ نےسیّد ہ آمنہ طاہرہکو یہ خصوصیت عطا فرمائی کہ آپ کی والدہ ہونے کا شرف پایا اورآسمانوں میں اعلان کیاگیاکہ سیّدہ آمنہ نے اللہ تعالیٰ کے انوارذاتیہ کواپنے اندرجگہ دی اوربادبہاری نے ہر طرف اس خبر کو پھیلادیا۔ زمین کو عرصہ دراز تک خشک رہنے کےبعد نباتات کی سندسی پوشاک عطاکی گئی،پھل درختوں پر لگے اوردرختوں نے پھل چننے والوں کےلیے اپنی ٹہنیاں جھکادیں، قریش کےہر چار پائےنے فصیح عربی زبان میں آپ کے شکمِ مادر میں تشریف لانے کی خوشخبری دی۔۔۔

گویہ مولود اور قیام و سلام آج سےتقریباًدو سو پینتالیس( 245) سال پہلے سر زمینِ مدینہ پرلکھا گیا ہے جسے امام یوسف نبہانی نے اپنی کتاب"جواہر البحار"میں مکمل نقل کیاہے اور ابتدا میں اس بارے میں یوں تحریر فرمایا ہے:

  ھذا المولود الشھیر الذى لیس له نظیر وھو مخترعلة فیما أعلم.29
  یہ مولود مبارک مشہورو معروف ہے اس کی کوئی مثل نہیں اوریہ میرےعلم کےمطابق ایجادکیاہواہے ۔

اس"مولد البرزنجی" میں شیخ برزنجی مزید آپ کےنسب مبارک کی طہارت وعظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:

  نسب تحسب العلا بحلاه
قلدتها نجومها الجوزاء
حبذا عقد سؤدد و فخار
أنت فيه التيمة العصماء .30

  حضور نبی کریم کا نسب شریف وہ ہے جس کی بلندی آپ کی خوبصورتی کی وجہ سے ہے۔ وہ عظیم نسب ہے جس کے ستاروں کو جوزاءنے گلےکا ہار بنایا، بہت ہی شان داروہ مالاہےجس کے سارےموتی سردار اورقابل فخر ہیں اور اس مالامیں"دُرّیتیم"آپ کی شخصیت ہے۔

شیخ برزنجی نےمولد النبی کے جواز کے بعد آخر میں محفل ِ میلاد میں کیے جانے والے قیام کو مستحسن قرار دیا ہے چنانچہ وہ اس کو بیان کرتے ہوئےتحریر فرماتےہیں:

  وقد استحسنه القيام عند ذكر مولده الشريف أئمة ذو رواية وروية فطوبى لمن كان تعظيمه صلى اللّٰه عليه وسلم غاية مرامه ومرما...31
  ۔۔۔حضور کی ولادت باسعادت کے تذکرہ کے وقت قیام کرنامستحسن ہے اسے صاحبان روایت اورعقلمندوں نے بنظر استحسان دیکھاہےلہذا خوش قسمت ہے وہ شخص جس کے مقاصداورمطالب کی انتہاء یہی ہےکہ آپ کی تعظیم ہو۔۔۔

اس مذکورہ بالاعبارت کی شرح کرتے ہوئے شیخ عبد الرحیم السیوطی اپنی کتاب"شرح المولد البرزنجی"میں لکھتے ہیں:

  أى عده حسنا وحكم باستحبابه شرعا.32
  یعنی انہوں نے اسے حسن شمارکیا اورشرعی طورپرمستحب ہونےکا حکم دیا۔

اسی طرح شیخ برزنجی نےچارسو( 400) سے زائد اشعار پر مشتمل ایک مبارک قصیدہ لکھا ہے جس کا نام"محل القیام"رکھا ہے اور اس میں یہ شعرکہاہے:

  وقد سن أھل العلم والفضل والتقی
قیاماً علی الأقدام مع حسن إمعان.33

  ا ہل علم وفضل وتقوی نے حسن سماعت کےساتھ پیروں پرکھڑےہونےکوایجادکیاہے۔

شیخ برزنجی کے مذکورہ بالا تمام اقتباسات اور خصوصاً آپکے آخری اقتباس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ شیخ برزنجی کے نزدیک مولود النبی ایک پُر مسرت موقع ہے اور ا س پر خوشی کااظہار کرنا آپ کی تعظیم و توقیر کے سبب انتہائی عظیم و رفیع کام ہے اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی مکرم کی ولادت کے تذکرہ کے وقت قیام کرنا مشائخ وصوفیاء کی نظر میں مستحسن امر ہے اور یہ رسول اکرم کی تعظیم وتوقیر میں شامل ہے۔

میلاد النبی ﷺ شاہ احمد سعید مجددی دہلویکی نظر میں

شاہ احمد سعید مجددی دہلویہندوستان کی معروف علمی و روحانی شخصیت تھے۔ آپامام ربانی شیخ احمد سرہندی کےعظیم خانوادےسے تعلق رکھتے ہیں اور شیخ سرہندیکی علمی وروحانی امانتوں کے وارث ِ کامل اور دینِ مصطفٰی کےعظیم داعی ہونے کے ساتھ ساتھ تمام علوم کےجامع بھی تھے اور آپاپنے عصر کے یکتا صوفی شمار کیے جاتے تھے۔ آپ نے مدینہ منورہ میں وفات پائی اور سیّدنا عثمان غنی کے پہلو میں مدفون ہوئے۔آپنے محفلِ مولود کے حوالہ سے دو رسائل تحریر کیے ہیں جن میں آپنے اس کے جواز و استحسان اور اس کو منانے سے قربِِ الہٰی پانے کے حوالہ سے کلام کیا ہے چنانچہ آپاپنے ایک رسالہ "اثبات المولد والقیام" میں محفلِ مولود کے جواز کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  أيھا العلماء السائلون عن دلائل مولد الشريف لنبينا وسيدنا صلى اللّٰه عليه وسلم ! فاعلموا أن محفل المولد الشريف يشتمل على ذكر الآيات والأحاديث الصحاح الدالة على جلالة قدره وأحوال ولادته ومعراجه ومعجزاته ووفاته صلى اللّٰه عليه وسلم كلما ذكره الذاكرون وكلما غفل عن ذكره الغافلون فإنکاركم مبني على عدم استماعه.34
  ہمارے نبی و آقا کے میلاد شریف کے دلائل کے بارے میں پوچھنے والے اے علماء! جان لو کہ محفلِ میلاد شریف ایسی آیات و صحیح احادیث کے بیان پر مشتمل ہوتی ہے جن میں آپ کی کمالِ شان پر دلالت ہوتی ہے اور آپ کی ولادت باسعادت، معراج، معجزات اور وصال کے واقعات کا بیان ہوتا ہے۔ آپ کا ذکر کرنا ہمیشہ سے بزرگانِ دین کی سنت رہی ہے اور صرف غافلین نے آپ کے ذکر سے غفلت برتی ہےپس تمہارا اِنکار ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔

اسی طرح آپاپنے دوسرے رسالہ میں محفلِ مولود کے حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

  جائے غور ومحل انصاف ہے کہ تمام اہلِ جہاں اپنی ذات ، اولاد اورعزیز واقارب کی خوشی میں اس قدر دھوم دھام کرتے ہیں اگر آنحضرت کی ولادت کی خوشی کریں تو اس خوشی سے ہزار مرتبہ بہتر ہے۔جو مسلمان کاملِ ایمان والاہوگا وہ آنحضرت کی ولادت کی خوشی کرنے کو سب خوشیوں سے بہتر جانے گا اور جو اس خوشی کو بہتر نہ جانےاس کا ایمان ناقص ہے ۔ فی الحقیقت مسلمانوں کو اس خوشی سے زیادہ کوئی خوشی نہیں اور اس میں جس قدر خوشی کی جائے وہ کم ہے ۔ ہزار افسوس اس شخص پر جو یہ خوشی نہ کرے اور لاکھ حسرت اس پر جو اس خوشی کا مانع ہو، ایسے لوگوں سے خدا پناہ میں رکھے کہ ان کے واسطے دنیا میں رسوائی ہے ۔ 35

اس اقتباس سے واضح ہوا کہ حضرت شاہ احمد سعید مجددی دہلویبھی ماقبل صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کے مسلک کے مطابق ہی مجلسِ مولود کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہیں اور اس کے انکار کرنے والے افراد کو ایما نِ کامل سے محروم و مہجور مانتے ہیں۔

میلاد النبی ﷺ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیکی نظر میں

انہی صوفیاء کرام کی جماعت کے فردِ بے نظیر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے نزدیک بھی مولود النبی کے موقع پر خوشی کااظہار کرنا جائز و مستحسن ہے چنانچہ آپاس حوالہ سے کلام کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

  ہمارے علماء مولد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں۔ جب جواز کی صورت موجود ہے پھرکیوں ایساتشدد کرتے ہیں ؟ہمارے واسطے (اقتداء کے لیے)اتباعِ حرمین کافی ہے۔ البتہ قیام کے وقت اعتقاد تولد کا نہیں کرنا چاہیےاور اگر احتمال(مجلسِ مولود میں آپ کی) تشریف آوری کا کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ عالم ِخلق مقید بزمان و مکان ہےلیکن عالم ِامر دونوں سے پاک ہے۔پس ذات بابرکات کا (مجلسِ مولود میں)قدم رنجہ فرمانا بعید (از قیاس )نہیں ۔36

اسی طرح شیخ مہاجرمکی اپنی ایک اور کتاب میں مولود النبی کے متعلق اپنا عمل بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتا ہوں۔ 37

شیخ مہاجر مکیکے مذکورہ بالا دونوں اقتباسات سے واضح ہوا کہ مولود النبی کی محفل کا انعقاد کرنا جائز ومستحسن ہونے کے ساتھ ساتھ متبرک بھی ہے اور اس کے ذریعہ ایمانی حلاوت نصیب ہوتی ہے۔

میلاد النبیﷺ خواجہ پیر مہر علی شاہکی نظر میں

انہی صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کی جماعت کے نمایاں فرد جوپندرہویں صدی کے مجدد اور فاتحِ قادیانیت ہیں یعنی حضرت پیر مہر علی شاہ جو مجمع البحرین تھے اورعلمِ شریعت و طریقت میں اپنے دور کے تمام تر افراد سے فائق و بالا تھے نیز آج بھی آپمرجع خاص و عام ہیں، آپبھی محفلِ مولود کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہیں اور اس کے منانے کو جائز قراردیتے ہیں چنانچہ فتاویٰ مہریہ میں میلاد النبی کے حوالہ سے ایک استفتاء منقول ہے جو بمع جواب ذیل میں پیش کیا جار ہا ہے:

  محمد اسماعیل صاحب ساکن کیتھو بازار شملہ دریافت کرتےہیں کہ دو سال قبل یہاں گروہ در گروہ جشنِ عید میلاد النبی منائے گئےاور جلو س و جھنڈابارہ (12) ربیع الاول کو جامع مسجد سے عیدگاہ تک لےجایا گیا۔اس سال امام احمد حسن صاحب نے جلوس روک دیا اور کہا کہ رسول کی شانِ ولادت میں ایسی تقریب منانا منع ہے۔اس کے جواب میں حضور قبلۂ عالم پیر مہر علی شاہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے میلاد شریف کی خوشی منانا جائز ہے۔38

مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے نزدیک بھی مولود النبی کی خوشی کرنا اور اس کے لیے جلسہ و جلوس نکالنا جائز ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔

اس مقالہ میں ذکر کیے گئے امت مسلمہ کے متقدمین و متاخرین کبار مشائخ وصوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کے علاوہ بھی کئی مشائخ و صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم ایسے ہیں جو محفل ومجلسِ مولود کے نہ صرف جواز واستحسان کے قائل تھے بلکہ ان محافل و مجالس کو بذاتِ خود منعقد بھی کیا کرتے تھے اور ان تمام مذکورہ صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کی طرح اس محافل ِ میلاد کے انعقاد اور اس موقع پر خوشی کے اظہار کو اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی کا باعث قرار دیتے تھے لیکن یہاں صرف چند کبار صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کا ذکر کر کے اس بات کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ محافلِ میلاد ومجالسِ مولود کا انعقاد اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا امت مسلمہ کے تمام طبقات خواہ وہ کسی بھی شعبۂ زندگی سے وابستہ ہوں ان کے نزدیک مستحسن ہے اور اس پر خوشی کااظہارکرنا کامل ایمان کی نشانی ہے کیونکہ آپ کی ولادتِ باسعادت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑی نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ تمام مخلوق کومنجانب اللہ عطا ہونے والی تمام نعمتوں کی جامع ہے لہٰذا ایسی ذات ِمکرم کی ولادت پر خوشی کا اظہار کرنا سنتِ رسول ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا بھی ہے جو لازمی وضروری ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مولود النبی کی محافل ومجالس کو منعقد کرنے اور اس موقع پر خوشی کے اظہار کرنے کو صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم متبرک سمجھتے ہیں اور صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک تبرک سے مراد انوارِ نبوت کا حصہ وصول کرنا ہوتا ہے جو خاصانِ خدا کو ہی نصیب ہوتا ہے اور اسی طرح مولود النبی پر خوشی منانے سے جہنم سے آزادی اور حضور اکرم کی شفاعت بھی نصیب ہوتی ہے۔

 


  • 1 ابو القاسم سلیمان بن احمد اللخمی الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث: 9439، ج-7، مطبوعۃ: بروکریسوبکس، لاہور، باکستان، 2015م، ص:285
  • 2 شھاب الدین احمد بن حجر الہیتمی، النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سیّد ولد آدمﷺ ، مطبوعۃ:مکتبۃ الحقیقیۃ، استنبول ،ترکی، 2003م،ص: 6 -7
  • 3 شيخ محى الدين عبد القادر الجيلانى، مولد الجيلانى، مخطوط، جامعة الملك الفیصل، الریاض، السعودية ، رقم اللوحة:1
  • 4 ایضا ً، رقم اللوحة:4
  • 5 ایضا ً، رقم اللوحة:6
  • 6 شيخ الأكبر محى الدين محمد بن عربى الأندلسى، مولد ابن العربى، مخطوط، جامعة الملك الفیصل، الریاض، السعودية، رقم اللوحة:1
  • 7 ایضا ً، رقم اللوحة:5-6
  • 8 ایضا ً، رقم اللوحة:7
  • 9 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:365
  • 10 ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ ابن ناصر الدمشقی، جامع الآثار فی سیرۃ مولد المختار ﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الفلاح للبحث العلمی وتحقیق التراث، بیروت، لبنان، 2010م،ص: 64 -65
  • 11 مولانا اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ، ج-7، مطبوعہ : اشرف المطابع، یوپی، بھارت، 1941ء، ص: 6
  • 12 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:5101 ، مطبوعۃ: دار السلام للنشر و التوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999 م، ص: 9 -10
  • 13 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ، ج-2، مطبوعہ: نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی،لاہور، پاکستان،1997 ء، ص: 19
  • 14 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ما ثبت باالسُنّۃ فی الایام والسَّنَۃ، مطبوعۃ: مجتبائی دھلی، دھلی، الھند، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:78
  • 15 ابو الخیرمحمد بن محمد ابن جزری، عرف التعریف بالمولد الشریف، مطبوعۃ: دار الحدیث الکتانیۃ، طنجۃ، المملکۃ المغربیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:21
  • 16 شیخ احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃبالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 78 -79
  • 17 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ما ثبت باالسُنّۃ فی الایام والسَّنَۃ، مطبوعۃ: مجتبائی دھلی، دھلی، الھند، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:79
  • 18 امام ربانی شیخ احمد سرہندی فاروقی،مکتوبات امام ربانی،ج-3،مطبوعہ: منشی نول کشور،لکھنؤ، انڈیا،(سن اشاعت ندارد)،ص:116
  • 19 امام ربانی شیخ احمد سرہندی فاروقی،مکتوبات امام ربانی،(مترجم:محمد سعید احمد نقشبندی)،ج-3،مطبوعہ: پروگریسوبکس،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:165
  • 20 امام ربانی رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات میں سے دفتر اول کے حصہ پنجم کے مکتوب نمبر دوسو تہتر(273)کی عبارت سے بعض حضرات کو یہ مغالطہ ہوا کہ امام ربانی﷫نفسِ مولود کو ناجائز سمجھتے ہیں حالانکہ متن میں موجود مکتوب میں امام ربانی ﷫نے خود اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ اگر مولود خوانی میں ناجائز امور نہ ہوں اور صرف قرآن کی تلاوت ،نعت رسول اور منقبت اولیاء پڑھی جائے تو اس میں کسی قسم کا کوئی مضائقہ نہیں ہے۔رہی بات دفتر اول کے حصہ پنجم کے مکتوب نمبر دوسو تہتر(273)کی تو اس میں سماع میں استعمال کئے جانے والے آلات اور حرام افعال کی بنا پر اس طرز کے مولود کو ممنوع قراردیا ہے لیکن فقط مولود کو ممنوع نہیں کہا۔اس کی تفصیل و وضاحت خود دفتر اول کے حصہ پنجم کے مکتوب نمبر دوسو تہتر(273)میں موجود آئندہ عبارت سے ہوتی ہے جس میں امام ربانی﷫نے خواجۂ نقشبند ﷫کے قول کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت خواجۂ نقشبند ﷫نےارشاد فرما یا ہے کہ "میں نہ یہ کام کرتا ہوں اور نہ ہی انکارکرتا ہوں"(امام ربانی﷫ اس قول کو نقل کرنے کے بعداس کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں )یعنی یہ کام(مولود خوانی)ہمارے خاص (نقشبندی)طریق کے منافی ہے اس لیے نہیں کرتا اور چونکہ اس کام(مولود خوانی) کو دوسرے مشائخ کرتے ہیں اس لیے انکار بھی نہیں کرتا لکل وجھۃ ھو مولیھاہر ایک کے واسطے ایک نہ ایک جہت ہے جس کی طرف وہ اپنا منہ کرنے والا ہے(امام ربانی شیخ احمد سرہندی فاروقی،مکتوبات امام ربانی(مترجم:محمد سعید احمد نقشبندی)،ج-2،مطبوعہ: پروگریسوبکس،لاہور،پاکستان، 2012ء، ص:656) اس مذکورہ عبارت سے واضح ہوا کہ خواجۂ نقشبند کے قول میں مولود کی ممانعت صرف نقشبندی طریق کی مخالفت کی بنا پر ہے نہ کہ شرعی طریق کی اور یہ ایسا ہی ہے جیساکہ ہر سلسلہ کے اوراد و وظائف ومشاغل کی خاص ترکیب ،خاص طرزا ور خاص تعداد کی اس سسلسلہ میں پابندی کی جاتی ہے اور اس کی مخالفت سے احتراز برتا جاتا ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دیگر سلاسل کے اوراد ووظائف و ==مشاغل کی خاص ترکیب ،خاص طرزا ور خاص تعداد ممنوع ہیں بلکہ صرف اپنے سلسلہ کے طریقہ کی پابندی کرنے کی بنا پر ایسا کیا جاتا ہے۔مولود النبی ﷺکی بھی بعینہ یہی صورتحال ہے جس کی وضاحت خود امام ربانی﷫نے نفس جواز کو بیان کرکے فرمادی ہے البتہ طریق کی مخالفت کی بنا پر احتیاطا احترا ز کا قول فرمایا ہے نہ کہ ممنوع و حرام ہونے کی بنا پر اسی وجہ سے آج کل اور ماضی قریب کے کم و بیش تمام ہی نقشبندی حضرات بھی مولود النبیﷺ کو اپنے اپنے انداز سے مناتے ہیں اور یہ امر اب خود نقشبندیوں کے نزدیک بھی مختلف فیہ نہیں رہا ۔(ادارہ)
  • 21 شاہ ولی اللہ محدث دھلوی، درالثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ ، حدیث:22، مطبوعۃ:مطبع احمدی، الہند، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:8
  • 22 شاہ ولی اللہ محدث دھلوی، فیوض الحرمین، مطبوعۃ: دار النعیمی للنشر والتوزیع، کراتشی، باکستان، 2011م، ص:272
  • 23 شاہ ولی اللہ محدث دھلوی، فیوض الحرمین (مترجم: پروفیسر محمد سرور)، مطبوعۃ: دار النعیمی للنشر والتوزیع، کراتشی، باکستان، 2011م، ص:115
  • 24 شیخ عبد العزیز محدث دہلوی، فتاوی عزیزی، ج-1، مطبوعۃ: مجتبائی دھلی، دھلی، الھند، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:163
  • 25 شیخ أحمد بن على الرفاعي، مولد الرفاعي، مخطوط، معهد دراسة الثقافية الشرقية جامعة طوكيو، طوكيو، اليابان، رقم اللوحة:6
  • 26 ایضا، رقم اللوحة:7
  • 27 شیخ جعفربن عبد الكريم البرزنجي، عقد الجوهر فى مولد النبى الأزهر( مولد البرزنجي)، مخطوط، معهد دراسة الثقافية الشرقية جامعة طوكيو، طوكيو، اليابان، رقم اللوحة:11
  • 28 ایضاً، ص:12-14
  • 29 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواھر البحار فی فضائل النبی المختار ﷺ ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م،ص:535
  • 30 شیخ جعفربن عبد الكريم البرزنجي، عقد الجوهر فى مولد النبى الأزهر( مولد البرزنجي)، مخطوط، معهد دراسة الثقافية الشرقية جامعة طوكيو، طوكيو، اليابان، رقم اللوحة:10
  • 31 ایضاً، ص:19
  • 32 شیخ عبد الرحیم السیوطی، تلحین الصنج شرح مولد الإمام البرزنجی، مطبوعۃ: مطبعۃ الھلال، الفجالۃ، مصر ، 1903م، ص: 22
  • 33 شیخ سیّدجعفر بن حسن برزنجی المدنی، مولد البرزنجی، مطبوعۃ: مطبعۃ السلفی، أبو ظہبی، دولۃ الإمارات العربیۃ المتحدۃ، 2008م، ص:134-174
  • 34 شاہ احمد سعید مجددی فاروقی، اثبات المولد والقیام، مطبوعۃ: مکتبۃ مجددیۃ ، لاہور، باکستان، 2015م، ص: 21
  • 35 شاہ احمد سعید مجددی فاروقی، سعید البیان فی مولد الانس والجان،(مترجم: محمد رشید بندیالوی) مطبوعہ: شاہ احمد نورانی ریسرچ سینٹر، سرگودھا، پاکستان، 2013ء، ص: 9-10
  • 36 شیخ امداد اللہ مہاجر مکی، شمائمِ امدایہ،مطبوعہ: مدنی کتب خانہ ،ملتان، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)،ص:47
  • 37 شیخ امداد اللہ مہاجر مکی، کلیات امدادیہ فیصلہ ہفت مسئلہ ، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان،(سن ا شاعت ندارد)، ص: 80
  • 38 شیخ پیر مہر علی شاہ گیلانی،فتاویٰ مہریہ، مطبوعہ: پرنٹنگ پروفیشنلز، لاہور، پاکستان، 2010ء، ص: 13