رسول اکرم کے میلاد کو امتِ مسلمہ میں دور اوّل ہی سے بنظر استحسان دیکھا جاتا رہا ہے کیونکہ اس کی اصل قرآن مجید میں موجود ہونے کےساتھ ساتھ،1نبی مکرم کی سنتِ متواترہ میں بھی موجود ہے2 نیز مدینہ منورہ آنے کے بعد اپنا عقیقہ ہوجانےکے باوجود3دوبارہ عقیقہ کرنا بھی اس کی اصل ہے۔4 یہی وجہ ہے کہ یوم میلاد النبی میں صحابہ کرام صدقہ وخیرات کیاکرتے تھے ۔پھر امت میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس عمل میلاد میں تغیر و تبدل بھی آتا رہا اور ہر کسی نے اپنی ثقافت کے لحاظ سے اس کو شایان شان منایا۔امت مسلمہ کے علمی طبقہ نے اس پر کئی کتب لکھیں اور اس کے جواز و استحسان پر کئی دلائل پیش کیے ۔ان لکھنے والوں میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات اکابر ہیں ۔یہاں چند مفسرین کا خصوصی طور سے ذکر کیا جارہا ہے جنہوں نے اس میلاد النبی کو جائز ومستحسن لکھا ہے۔
ان جلیل القدر علمائے تفسیر میں عظیم مفسر امام فخر الدین رازی ہیں جنہوں نے"مفاتیح الغیب"کے نام سے ایک عظیم تفسیر لکھی ہے جو آپ کے تبحّرِ علمی کا شاندار مرقّع ہے۔آپنے بھی میلاد النبیکے باعثِ برکت ہونےکا بڑی شد ومد سے ذکر کیا ہے اور اس پر صدقہ وخیرات کرنے پر اجر و فضل کا ذکر کیا ہے چنانچہ ابن حجر ہیتی امام فخر الدین رازیکے حوالہ سے رقمطراز ہیں:
قال وحید عصره وفرید دھره الامام فخر الدین الرازى مامن شخص قرأمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على ملح اوبر او شى آخر من المأكولات الا ظھرت فیه البركة وفى كل شى وصل الیه من ذلك المأكول فانه یضطرب ولا یستقر حتى یغفر اللّٰه لآكله وان قرى مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم على ماء فمن شرب من ذلك الماء دخل قلبه الف نور ورحمة وخرج منه الف غلة وعلة ولایموت ذلك القلب یوم تموت القلب ومن قرأ مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على درھم مسكوكة فضة كانت او ذھبا وخلط تلك الدراھم بغیرھا وقعت فیه البركة ولایفتقر صاحبھا ولا تفرغ یدہ ببركة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم . 5
امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے نمک، گیہوں یا کھانے کی ایسی ہی کسی اور چیز پر حضور کا میلاد شریف پڑھوایا تو اُس شئے میں برکت ظاہر ہوگی اور ہر اس چیز میں بھی جس تک یہ کھانے کی اشیاء پہنچیں گی ۔ یہ برکت رکے گی نہیں بلکہ مسلسل رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے کھانے والے کی مغفرت کردے گا۔اگر پانی پر میلاد شریف پڑھوایا جائے تو جو اس پانی کو پئے گاتو اُس کے قلب میں ہزار انوار ورحمت داخل ہوں گے اور اس کے دل سے ہزار کینے اور بیماریاں نکل جائیں گی۔ جس دِن دِل مریں گے اُس دن اس کا دِل نہیں مرے گا۔جس نے چاندی یا سونے میں ڈھلے درہم پر میلاد پڑھوایا اور اس درہم کو دوسرے درہم میں ملایا تو اس میں برکت واقع ہوگی اور یہ شخص محتاج بھی نہیں ہوگا اور نہ اس کا ہاتھ نبی اکرم کی برکات سے کبھی محروم ہوگا ۔
اس عبارت سے معلو م ہوا کہ امام فخر الدین رازی بھی نبی مکرم کے میلاد کومستحب قرار دیتے تھے اور اس پر خرچ کرنے والے کے لیے عظیم انعامات کا ذکرکرکے اس طرف اشارہ کرتے تھے کہ نبی مکرم کے میلاد منانے سے نعمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں اوریہ مستحب کام ہے۔
ساتویں (7)صدی ہجری کے جلیل القدر مفسرجو اپنے دور کے مسلمہ امام، قاضی القضاۃ اورشیخ الاسلام بھی تھے یعنی تقی الدین أبو الحسن علی بن عبد الکافی سبکی شافعی بھی ان علمائے عظام کی جماعت میں سر فہرست ہیں جو محفل ِ میلاد منعقد کرتے اور اس میں اپنے ہمعصر علمائے کرام و مشائخ عظام کو مدعو کیا کرتے تھے۔آپ کے بحرالعلوم ہونے پر سب کا اتفاق ہے چنانچہ امام ابن حجر مکی لکھتے ہیں:
الإمام المجمع على جلالته واجتھاده.6
امام (سبکی وہ ہیں )جن کی جلالتِ علمی و اجتہاد پر اجماع ہے۔
اتنے بڑے عالم نے بھی آپ کے تذکرۂ مولود کو باعث برکت سمجھا ہے اور آپ کے ولادت کے تذکرہ کے وقت سب سے پہلے تعظیما ًکھڑے ہونے کا سہرا بھی آپ کے سر ہے چنانچہ امام برہان الدین الحلبی لکھتے ہیں:
ومن الفوائد انه جرت عادةكثیر من الناس بذكر وضعه صلى اللّٰه عليه وسلم أن یقوموا تعظیما له صلى اللّٰه عليه وسلم وھذا القیام بدعة لا أصل لھا أى لكن ھى بدعة حسنة لأنه لیس كل بدعة مذمومة.....قال إمامنا الشافعى قدس اللّٰه سره ما أحدث و خالف كتابا أوسنة أو إجماعا أو أثرھا فھو البدعة الضلالة وما أحدث من الخبر......لم یخالف شیئا من ذلك فھو البدعة المحمودة وقد وجد القیام عند ذكر اسمه صلى اللّٰه عليه وسلم من عالم الأمة ومقتدى الأئمة دینا وورعا الإمام تقى الدین السبكى وتابعه على ذلك مشایخ الإسلام فى عصر وفقد حكى بعضھم أن الإمام السبكى اجتمع عنده جمع كثیر من علماء عصره فانشد منشد قول الصرصرى فى مدحه صلى اللّٰه عليه وسلم :
قلیل لمدح المصطفی الخط بالذھب
علی ورق من خط أحسن من کتب
وأن ینھض الأشراف عند سماعہ
قیاما صفوفا أو جثیا علی الرکب
فعند ذلك قام الإمام السبكى رحمه اللّٰه وجمیع من فى المجلس فحصل أنس كبیر بذلك المجلس ویكفى مثل ذلك فى الاقتداء . 7
اور فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کی یہ عادت جاری ہوگئی ہے کہ جب حضور کی پیدائش مبارک کا ذکر سنا فوراً حضور کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور یہ قیام بدعت ہے جس کی کوئی اصل نہیں یعنی بدعت حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعت مذمومہ نہیں ہوتی۔۔۔ ہمارے امام شافعی نے فرمایا جو چیز کتاب، سنت، اجماع یا اقوالِ صحابہ کے خلاف ہو وہ بدعتِ ضلالہ ہے اور جو نیک کام ایجاد کیا جائے اور وہ ان (اصول شرعیہ) کے خلاف نہ ہو بدعتِ محمودہ ہے۔۔۔حضور کے ذکر مبارک کے وقت (آسمانی مخلوقات اور ملائکہ کا)قیام پایا گیا ہے۔ امت محمدیہ کے جلیل القدر عالم امام تقی الدین سبکی جو دین اور تقویٰ میں ائمہ کے مقتداء ہیں ،اس پر ان کے دور کے ہمعصر تمام علماء و مشائخ اسلام نے ان کی اتباع کی چنانچہ منقول ہے کہ امام سبکی کے پاس ان کے ہمعصر علماء کرام بکثرت جمع ہوئے۔ ایک مداح رسول نے حضور کی مدح میں امام صرصری کے یہ اشعار پڑھے: اگر چاندی پر سونے کے حروف سے بہترین کاتب حضور کی مدح لکھے تب بھی کم ہے۔ بیشک عزت و شرف والے لوگ حضور کا ذکر جمیل سن کر صف بستہ قیام کرتے ہیں یا گھٹنوں پر دوزانو ہوجاتے ہیں۔یہ اشعار سن کرامام سبکی اور تمام اہل مجلس مشائخ وعلماء بھی کھڑے ہوگئے اور اس وقت بڑا انس حاصل ہوا۔ مجلس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس قسم کے واقعات مشائخ علماء کی اقتداء کے بارے میں کافی ہوتے ہیں۔
اس مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں یہ واضح ہواکہ نبی مکرم کی ولادت کے تذکرہ کے وقت قیام مستحب ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مولود النبی کے لیے جمع ہوکر محافل و مجالس کا انعقاد کرنا نہ صرف جائز و مستحسن فعل ہے بلکہ امت کہ مقتدر مشائخ و مایہ ناز مفسرین جن میں شیخ تقی الدین سبکی جیسے متبحّر مفسر بھی شامل ہیں اس مبارک محفل ومجلس کو منعقد کرتےاور بارگاہِ رسالت سے اس پر انعامات وصول کرتے آئے ہیں۔
ان مفسرین کرام میں ایک بلند پایہ مفسر و عالم مصرو شام کے قاضی القضاۃ اور اپنے ہمعصر فقیہ علماء میں جو بمنزلہ شیخ کےہیں یعنی برہان الدین بن جماعہ بھی ان مفسرین میں شامل ہیں جو مولود النبی کو نہ صرف جائزو بنظر استحسان دیکھتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر مولود النبی کے موقع پر باقاعدہ محفلِ میلاد کا اہتمام کرتے تھے اور اس میں حاضر ہونے والوں کو کھانا بھی کھلایا کرتے تھے۔آپ کا پورا نام ابو اِسحاق اِبراہیم بن عبد الرحیم بن اِبراہیم بن جماعہ الشافعی ہے اور آپ نے دس جلدوں پر مشتمل قرآن حکیم کی تفسیر بھی لکھی ہے جس کے خود مصنف کے ہاتھوں سے لکھے گئے ایک نسخہ کو شیخ ابن حجر نے دیکھا ہے اور اس کی افادیت کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں کئی قسم کے نکات و رموز اور فوائد ہیں ۔ 8
شیخ ابن جماعہ کے میلاد منانے کے حوالہ سے امام ملا علی قاری اپنی مایہ ناز کتاب"المورد الروی فی مولد النبی صلي الله عليه وسلم" میں آپ کے معمولاتِ میلاد شریف کو بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:
فقد اتصل بنا ان الزاھد القدوة المعمر ابا اسحاق ابراھیم بن عبدالرحیم بن ابراھیم جماعة لماكان بالمدینة النبویة، على ساكنھا افضل الصلاوة اكمل التحیة، كان یعمل طعاماً فى المولد النبوى، ویطعم الناس، ویقول: لوتمکنت عملت بطول الشھر كل یوم مولداً.9
ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ بزرگ ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی (اس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو) میں تھے تو میلاد نبوی کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے اور فرماتے کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔10
ملا علی قاری کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ شیخ ابن جماعۃ جو مایہ ناز مفسر ہیں وہ بھی مدینہ منورہ میں مولود النبی کی محافل کا انعقاد کیا کرتے تھے اور لوگوں کو رسول مکرم کی ولادت کی خوشی میں کھانا بھی کھلایا کرتے تھے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی ولادت کی خوشی کرنا اور اس خوشی کے اظہار کے خاطر کھانا کھلانا جائز ومستحسن ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔
مفسّرقرآن شیخ امام جلال الدین سیوطی نے مولد النبی کے حوالہ سے انتہائی وقیع رسالہ بنام"حُسْنُ الْمَقْصَد فِیْ عَمَلِ الْمَوْلَد" لکھا ہے جس میں میلاد النبی منانے کی شرعی حیثیت اور اس پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات بیان کیے گئے ہیں اور اس ضمن میں بدعت کی اقسام ، مروّجہ طرز کی محافل میلاد کے انعقاد کا آغاز،آغاز کرنے والے بادشاہ، معترضین میلاد کے اعتراضات مع جوابات، میلاد منانے اور اُس پر خوشی کرنے کا ذکر ، سرکار دوعالم کے پیر کے روز پیدا ہونے کی حکمت کے ساتھ ساتھ میلاد میں غلط رسموں اورناجائز امور پر بھی مفصّل کلام کیا ہے ۔ان کا ایک اقتباس یہاں پیش کیاجارہا ہے جس سے اندازہ ہوجائےگا کہ امام جلال الدین سیوطی میلاد کے نہ صرف جواز کے قائل ہیں بلکہ آپ نےاس کے استحسان کے دلائل دینے کے ساتھ ساتھ اس میلاد النبی کی اصل کی تخریج بھی خود فرمائی ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
أن أصل عمل المولد الذى ھو اجتماع الناس وقرآء ة ما تیسر من القرآن وروایة الأخبار الواردة فى مبدأ أمر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وما وقع فى مولده من الآیات ثم یمدّ لھم سماط یأكلونه وینصرفون من غیر زیادة على ذلك ھو من البدع الحسنة التى یثاب علیھا صاحبھا، لما فیه من تعظیم قدر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وإظھار الفرح والاستبشار بمولده الشریف.11
محفل میلاد در اصل لوگوں کا اکٹھے ہونا، بسہولت تلاوت قرآن کرنا اور ان احادیث کا بیان کرنا اور سننا ہے جو آپ کی ابتدائی حیاتِ طیّبہ کے بارے میں اور آپ کی ولادت کے موقع پر پیش آنےوالے واقعات کے حوالہ سے منقول ہیں۔ پھر طعام کے لیے خوانِ طعام بچھایا جاتاہے جس پہ وہ کھانا تناول کرتے ہیں اور بغیر کسی اور زیادتی کیے واپس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔یہ نئے اچھے اعمال میں سے ہیں جن پر ثواب عطا کیاجائےگا کیونکہ اس میں رسالت مآب کی قدر و منزلت اور آپ کی آمد پر اظہارِ خوشی ہے۔
اسی طرح امام سیوطی نے اس رسالے میں امام ابن الحاج کے سوال کو نقل کیا ہے اور پھر اس کا جواب تحریر کیا ہے چنانچہ امام سیوطی اس اعتراض کو بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:
ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه فى شھر ربيع الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة فمن ذلك استعمالهم المغانى ومعهم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابة وغير ذلك مما جعلوه آلة للسماع ومضوا فى ذلك على العوائد الذميمة فى كونھم يشتغلون فى أكثر الأزمنة التى فضلها اللّٰه تعالى وعظمها ببدع ومحرمات ولا شك أن السماع فى غير هذه الليلة فيه ما فيه. فكيف به إذا انضم إلى فضيلة هذا الشهر العظيم الذى فضله اللّٰه تعالى وفضلنا فيه بھذا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم على ربه عز وجل...فآلة الطرب والسماع أى نسبة بينھا وبين تعظيم هذا الشهر الكريم الذى من اللّٰه تعالى علينا فيه بسيد الأولين والآخرين فكان يجب أن يزاد فيه من العبادات والخير شكرا للمولى سبحانه وتعالى على ما أولانا من هذه النعم العظيمة... وهذه المفاسد مركبة على فعل المولد إذا عمل بالسماع فإن خلا منه وعمل طعاما فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من كل ما تقدم ذكره فهو بدعة بنفس نيته فقط إذ أن ذلك زيادة فى الدين وليس من عمل السلف الماضين واتباع السلف أولى بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما كانوا عليه لأنھم أشد الناس اتباعا لسنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظيما له ولسنته صلى اللّٰه عليه وسلم ولهم قدم السبق فى المبادرة إلى ذلك ولم ينقل عن أحد منھم أنه نوى المولد ونحن لهم تبع فيسعنا ما وسعهم.12
من جملہ لوگوں کی ایجاد کردہ بدعتوں میں سے ایک ماہ ربیع الاول میں میلاد پاک منانا ہے جسے وہ عظیم عبادت سمجھتے ہیں اور شعائر ِ اسلامی کا اظہار گردانتے ہیں حالانکہ یہ میلاد بہت سے نت نئےحرام اورناجائز افعال پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان حرام اشیاء میں سےآلاتِ طرب ہیں جیسےطار، مصر صر اور شبابہ وغیرہ جنہیں آلات سماع کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برائی میں مشغول ہوتے ہیں۔بالخصوص جن اوقات کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے، ان میں بدعتوں اور حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ سماع توبلاشبہ اس رات کے علاوہ بھی جائز نہیں ہےتو اس رات میں کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ جو رات اس مہینہ کی عظمت وفضیلت کو متضمن ہے کہ جس میں باری تعالی نے نبی سرور کو مبعوث فرمایا۔۔۔ لہذا واضح ہوا کہ آلات طرب وسماع کی اس بزرگ مہینے سے کوئی ادنی سی بھی نسبت نہیں جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اولین و آخرین کے سردار کو پیدا فرماکر ہم پر احسان فرمایا لہٰذا ضروری ہے کہ اس مہینہ میں عبادات اور نیکیاں بکثرت سرنجام دی جائیں۔ اس عظیم نعمت پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے۔۔۔ یہ مذکورہ برائیاں فعلِ میلاد پر اس وقت مرتب ہوتی ہیں جب اس میں سماع وغیرہ شامل ہو اور اگر سماع سے خالی ہو، میلاد کی نیت سے لوگوں کو بلاکر کھانا کھلایا جائے اور تمام ماقبل مذکورہ خرافات سے یہ فعلِ میلاد محفوظ ہو تو بھی یہ صرف اپنی نیتِ مولد کی وجہ سے بدعت ہے کیونکہ یہ دین میں زیادتی ہے اور یہ گزشتہ سلف صالحین کے عمل سے بھی ثابت نہیں ہے حالانکہ سلف صالحین کی اتباع لازمی ہے۔ ان حضرات ِصالحین میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس طرح فعلِ مولد کی نیت کی ہو(اور یہ فعل سرانجام دیاہو) لہٰذا جو انہوں نے کیا ہمیں بھی وہی کرنا چاہیے۔
جس طرح امام فاکہانی نے فعلِ میلاد کو بدعت کہا ہے13 اسی طرح مذکورہ بالا عبارت کے آخر میں امام ابن الحاج نے بھی یہی لکھا ہے اور اس مذکورہ بالا اعتراض کا جواب امام سیوطی نے اپنے رسالہ "حُسْنُ الْمَقْصَد فِیْ عَمَلِ الْمَوْلَد" میں دیا ہے چنانچہ اس کا جواب دیتے ہوئے امام سیوطی تحریر فرماتے ہیں:
وحاصل ما ذكره أنه لم يذم المولد بل ذم ما يحتوى عليه من المحرمات والمنكرات، وأول كلامه صريح فى أنه ينبغى أن يخص ھذا الشھر بزيادة فعل البر وكثرة الخيرات والصدقات وغير ذلك من وجوه القربات، وهذا هو عمل المولد الذى استحسناه، فإنه ليس فيه شىء سوى قراءة القرآن وإطعام الطعام، وذلك خير وبر وقربة.14
ابن الحاج کی عبارت جس کو انہوں نے ذکر کیا اس کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے میلاد شریف کی برائی نہیں کی بلکہ ان حرام اور فحش افعال کی برائی کی جو اس میں شامل ہوگئے ہیں اور ان کا ابتدائی کلام اس بات میں صریح ہے کہ اس ماہ مبارک کو بکثرت نیکیوں اورزیادہ خیرات وصدقات کے ساتھ خاص کیا جائےاورقربِ الہی کے دیگر طریقوں کے ساتھ مخصوص کیا جائے۔ یہی وہ میلاد ہے جسے ہم اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں تلاوت قرآن اور کھانا کھلائے جانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہی افعال بھلے، نیکی اور قربِ الہی کا ذریعہ ہیں۔
یعنی امام ابن الحاج نے عمل مولد میں ہونے والی خرافات کو غلط کہا تھا جس کا جواب سطور بالا میں دیاگیا ہے اور امام فاکہانی کے سوال کے جواب میں امام جلال الدین سیوطی نے میلاد النبی کی اصل کو کئی احادیث سے ثابت کیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جلیل القدر مفسر بھی نبی مکرمکے میلاد کو مستحسن جانتے تھے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات بھی آپ نے اسی وجہ سے دیے تھے ۔
امام ابن کثیر جو ایک مفسر کی حیثیت سے بھی مسلمانوں کے درمیان جانے جاتے ہیں انہوں نے بھی مولد رسول اﷲ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی لکھتے ہیں:
ابن کثیر کے اس مختصر رسالے کا ذکر ان کے کسی سوانح نگار نے نہیں کیا ہے۔ اس کا سبب رسالے کا حجم بھی ہوسکتا ہے اور اس کی کامیابی بھی۔ اس قیمتی اور نایاب کتاب کی تلاش کا سہرا ڈاکٹر صلاح الدین المنجد کے سر ہے۔ انہیں اس کا مخطوطہ ریاستہائے متحدہ امریکا کے شرہ برنسٹن کی یونیورسٹی کی لائبریری میں دستیاب ہوا۔ جو مجموعہ یہودا کے ضمن میں قلمی رسائل نمبر چار ہزار اٹھانوے( 4098 )کے مجموعے میں شامل ہے۔ اس مجموعے میں کل سترہ رسائل ہیں اور یہ رسالہ ورق نوّے( 90) سےسو( 100) تک پر مشتمل ہے۔ اس مخطوطے کوسات سو چھیاسی( 786ھ) میں لکھا گیا ہے یعنی ابن کثیر کی وفات کے محض بارہ (12) سال بعد۔ ڈاکٹر منجد نے اسے پہلی بارانیس سو انہتر( 1969ء) میں دار الکتاب الجدید، بیروت سے شائع کروایا۔ لیکن اس میں احادیث کی تخریج بالکل نہیں کی گئی ہے اور صرف البدایہ والنہایہ سے اس کے نصوص کا مقابلہ کیا گیا ہے۔15
ابن کثیر نے اپنی کتاب"البدایۃ والنہایۃ" میں ایک مقام پر شاہ اربل کی تعریف کی ہے اور ان کے نیک کام تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے:
وكانت صدقاته فى جمیع القرب والطاعات على الحرمین وغیرھما.16
ان کے تمام نیک کاموں میں صدقات کا دائرہ حرمین اور دیگر مقامات تک پھیلا ہوا تھا۔
ان میں ایک نیک کام جامع مسجد مظفری کا بنانا بھی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی تحریر فرماتے ہیں:
وھو الذى عمر الجامع المظفرى بسفح قاسیون.17
اسی بادشاہ نے قاسیون کی وادی میں جامع مظفری کو تعمیر کرایا تھا ۔
ان کی بنائی ہوئی مسجد مظفری کے مؤذن کے حکم پر امام ابن کثیر نے مولد رسول اﷲ کے نام سے یہ رسالہ لکھا جو بیروت سے کئی بار شائع ہوچکا ہے۔ غالباً اس مسجد کے مؤذن نے مسجد میں منعقد ہونے والی میلاد کی محفلوں میں پڑھنے کے لیے ابن کثیر سے یہ کتاب لکھوائی ہوگی۔ یہ کتاب اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ابن کثیر ان محفلوں کے انعقاد کو جائز سمجھتے تھے۔ 18
اس"مولد رسول اللہ صلي الله عليه وسلم"نامی نبی مکرم کے میلاد پر لکھے گئے رسالہ میں ابن کثیر لکھتے ہیں:
حضور کی ولادت شریفہ کی شب عظمت وشرافت والی اور مومنین کے لیے برکت وسعادت والی شب ہے۔پاک وطاہر شب تھی، جس کے انوار ظاہروعیاں تھے اور جو بڑی بزرگی اور قدر ومنزلت والی شب تھی۔ اس شب میں اﷲ تعالیٰ نے اس محفوظ وپوشیدہ جوہر کو (اس خاکدان گیتی میں) ظاہر فرمایا جس کے انوار ہمیشہ سے نکاح کے ذریعہ نہ کہ بے حیائی کے ذریعے شریف صلب سے طاہر وعفت والے رحم میں منتقل ہوتے رہے اور یہ سلسلہ ابو البشر آدم سے چلتا ہوا عبداﷲ بن عبد المطلب پر ختم ہوا۔ اور حضرت عبداﷲ سے یہ نور جناب آمنہ بنت وہب کی جانب منتقل ہوا۔ اور اسی شرف وعزت والی رات میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کی ولادت شریفہ کے جو حسی ومعنوی اور ظاہری وباطنی انوار ظاہر ہوئے ان سے عقلیں حیران، اور نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔19
اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسر کی نظر میں میلاد النبی جائز و مستحسن ہے اور انہوں نے خود بھی اس کے جواز واستحسان پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا ترجمہ پاکستان سے بھی شائع ہوچکا ہے۔
انہی مفسرین کرام میں سے ایک مفسرِ جلیل شیخ امام اسماعیل حقی بھی ہیں جنہوں نے میلاد النبی کو نبی مکرم کی تعظیم میں شامل کیا ہے اور ربیع الاوّل کے ماہ کو ولادت رسول کی وجہ سے عظیم الشان تحریر کیا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں:
إنه قد اتفق أھل العلم على أفضلیة شھر رمضان لأنه أنزل فیه القرآن ثم شھر ربیع الأول لأنه مولد حبیب الرحمن وأما أفضل اللیالى فقیل لیلة القدر لنزول القرآن فیھا وقیل لیلة المولد المحمدى لولاه ما أنزل القرآن ولا تعینت لیلة القدر فعلى الأمة تعظیم شھر المولد ولیلة كى ینالوا منه شفاعته ویصلوا إلى جواره.20
اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ ماہ رمضان تمام مہینوں سے افضل ہے اس کے بعد ربیع الاول شریف کو باقی تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہےکیونکہ اس میں حبیبِ رحمن پیداہوئے،البتہ فضیلت والی رات شب قدرہےاس لیےکہ اس میں قرآن نازل ہوااورکہاگیا کہ شب ولادت محمدی افضل رات ہےکیونکہ اگروہ نہ ہوتےتوقرآن بھی نازل نہ ہوتااورنہ ہی شب قدرمتعین ہوتی پس امت پرلازم ہےکہ اس ماہ اورشب ولادت کی تعظیم کریں تاکہ آپ کی شفاعت وقرب حاصل کرسکیں۔
بعض کے نزدیک تمام راتوں سے لیلۃ القدر افضل ہے لیکن بعض نے لیلۃ القدر سمیت تمام راتوں پر شبِ میلاد کو افضل کہا اس لیے کہ اگر حضور تشریف نہ لاتے تو نہ لیلۃ القدر ہوتی اور نہ کوئی اور شے۔امت پر لازم ہے کہ وہ ماہِ میلاد شریف کے دنوں اور راتوں کی تعظیم وتکریم میں جدوجہد کرے تاکہ حضور نبی پاک کی شفاعت نصیب ہو اور آپ کے قرب کریمانہ سے نوازے جائیں۔21
نیزاسی طرح میلاد النبی کو نبی مکرم کی تعظیم کے افعال میں شامل قراردیتے ہوئے امام اسماعیل حقی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
ومن تعظیمه عمل المولد إذا لم یكن فیه منكر قال الإمام السیوطى قدس سره یستحب لنا اظھار الشكر لمولده انتھى.22
آپ کی تعظیم میں ہے آپ کا میلاد منانا جبکہ اس میں خلاف شرع کوئی امر نہ ہو امام سیوطی نے فرمایا کہ ہمارے لیے میلاد کے ذریعے اظہار تشکر ضروری ہے۔ 23
اسی طرح نبی مکرم کی ولادت کی محفل میں ساعتِ میلاد کے وقت کھڑے ہوکر درود وسلام کے اثبات پر امام تقی الدین سبکی کی عبارت نقل کرنے کے بعد اس کے جواز کے بارے میں اپنی رائےدیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ویكفى ذلك فى الاقتداء.24
تو ان کی اقتداء کی دلیل کافی ہے۔
ان مذکورہ بالا عبارات سے بھی واضح ہواکہ شیخ اسماعیل حقی جو کہ بلند پایہ مفسر ہیں انہوں نے بھی میلاد النبیکو مستحسن قراردیا ہے اور اس کو نبی مکرمکی تعظیم میں شامل کیا ہے۔
ان مذکورہ بالا مفسرین کے اقتباسات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم کا میلاد منانا ایک مستحسن امر ہے اور نبی مکرم کی تعظیم میں شامل ہے اور اس کےمنانے والے پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا خصوصی فضل واحسان ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو اکہ امت کے اکابر علماء اس میلاد النبی کو بنظر استحسان دیکھتےہیں ۔