Encyclopedia of Muhammad

قبل اَز وِلادَت معجزات کا ظہور

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر موقع پر اس بات کا خصوصی طور سے اظہار فرمایا ہے کہ نبی آخرالزماںہی وہ ذات عالیہ ہیں جن کے طفیل رب العالمین کی بیکراں رحمت مخلوق پر باران ِرحمت کی طرح برستی ہے۔ 1یہی وجہ ہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل چند ایسے واقعات ومعجزات رونما ہوئے جو باطل کے لیے باعثِ زوال اور حق کے لیے نوید رحمت ثابت ہوئے۔2

ان واقعات ومعجزات کے ظہور میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ جن اہلِ کتاب کو اپنے انبیاء کرامکی زبانی آخری نبی کی نشانیاں بتائی گئیں تھیں ان کا ظہور ہوجائے اور ان نشانیوں کو دیکھ کر وہ لوگ حق کا ساتھ دے سکیں۔

آسمان و زمین میں اعلان ِولادت

ربُّ العزّت نے رسول اکرم کی ولادت سے قبل ہی آپ کی آمد کی نشانیاں مخلوقات پر ظاہر کرنا شروع فرمادی تھیں تاکہ لوگ ان نشانیوں کو دیکھتے ہوئے اس نبی مکرم کی دعوت پر لبیک کہیں اور ان پر حجتِ خداوندی کااتمام ہوجائے ۔ان معجزات و واقعات کے حوالہ سے علامہ ابن حجر ہیتمی تحریر فرماتے ہیں:

  وفى خبر آخر لما اراد اللّٰه عزوجل أن یظھر خیرته من خلقه، وصفوته من عباده، وأن ینیرالارض بعد ظلامھا، وأن یغسلھا من دنسھا وآثامھا، ویزیل طواغیتھا وأصنامھا، نادى طاوس الملائکة جبریل الأمین علیه السلام فى السموات وعند حملة العرش وعند سدرة المنتھى وفى جنة المأوى، الا وإن اللّٰه الکریم قدتمت كلمته ونفذت، حکمته وان وعده الذى وعد به من إظھار البشیر النذیر السراج المنیر، الشافع المشفع فى الیوم العسیر الذى یأمر بالمعروف وینھى عن المنکر، صاحب الأمانة والدیانة والصیانة، والمجاھد فى سبیل اللّٰه حق جھاده، وخیرة اللّٰه من عباده ونور اللّٰه فى بلاده، قد ختم اللّٰه به النبیین وجعله رحمة للعالمین، وسماه احمدا ومحمدا وطه ویس، وأعطاه الشفاعة فى المذنبین، ونسخ بدینه وشریعته كل دين، صلى اللّٰه علیه وعلى آله وصحبیه أجمعین، قال فعند ذلک ضجت الملائکة بالتسبیح والثناء لرب العالمین وفتحت أبواب الجنان وأغلقت أبواب النیران وأینعت أشجار الجنة وأزھرت بالنباتات وتعطرت الحور والولدان، وغنت الأطیار باللغات وانتفقت الأنھار بالخمور والا عسال والالبان، وترنمت الأطیار على الأغصان موحدة بتقدیس الملک الرحمن، وضجت الاملاک بالاستبشار بمحمد المصطفى المختار صلى اللّٰه علیه وسلم مادام الملک للّٰه العزیز الغفار، ورفعت الججب والأستار، وتجلى لھم علام الغیوب، لا اله الا اللّٰه وحده لاشریک له كشاف الکروب، قال فلما فرغ جبرائیل علیه السلام من أھل السموات أمرہ اللّٰه ان ینزل إلى الأرض فى مائة ألف من الملائکة فیتفرقون فى الأرض وعلى رؤس الجبال والجزائر والبحار وسائر الأقطار حتى بشروا أھل الأرض السابعة السفلى ومستقر الحوت فمن علم اللّٰه منه القبول، جعله تقیا نقیاطاھرًازكيا.3
  چنانچہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اراد ہ فرمایا کہ اپنی مخلوق میں سب سے افضل و عظیم ترین بندے کومبعوث فرمائے، زمین کو ظلمت و تاریکی کے بعد روشن فرمائے ،نافرمانی و عصیان سے مصفّٰی فرمائے اور سرکش شیاطین اور بتوں کو تباہ و برباد فرمائے تو سردارِ ملائکہ حضرت سیّد نا جبریل امین کو اعلان کرنےکا حکم دیا۔حضرت جبریل امین نے آسمانوں میں ، عرش کو اٹھائے ہوئے فرشتوں کے پاس، سدرۃ المنتھٰی اور جنت الماویٰ میں اعلان فرمایا : خبردار ! اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو عظمت والا ہے اس کا فرمان پورا ہوگیا اور اس کی حکمت نافذہو چکی اور اب اس عہد الٰہی کے پورے ہونے کا وقت آگیا ہے جو اس نے بشیر و نذیر ،سراجِ منیر کے ظہور کے بارے میں فرمایا تھا۔وہ سخت ترین قیامت کے دن امت کی شفاعت فرمانے والے اور مقبول الشفاعۃ ہوں گے، جو نیکی کا حکم دیں گے اور برے کاموں سے منع کریں گے، جوامین ،دیانت دار اور منجانب اللہ محفوظ ہوں گے،اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا حق ادا فرمانے والے مجاہد ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے بہترین اور اس کے بنائے گئے شہروں میں سب سے زیادہ منورہیں،جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ختم نبوت کے تاج سے سرفراز فرمایا ہے اور تمام جہان والوں کے لیےعظیم ترین رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے احمد ، محمد ، طہٰ اورادریس جیسے ناموں سے موسوم فرمایا ہے ۔ گناہ گاروں کے معاملے میں انہیں شفاعت کاحق عطا فرمایا ہے اور جن کے دین و شریعت کےذریعہ سابقہ تمام ادیان و شرائع کو منسوخ فرمادیا ہے۔ حضرت جبریل امین کے اعلان ولادتِ رسالت مآب کو سن کر تمام فرشتے اللہ رب العالمین کی حمد و ثناءمیں مشغول ہوگئے ،بہشت کے دروازے کھول دیے گئے اور جہنم کے دروازے بند کردیے گئے ۔ جنت کے درخت تروتازہ ہوکر بیل بوٹیوں سے سج گئے، حور و غلمان خوشبوؤں سے معطرہوگئے ، جنتی پرندےاپنی نرالی بولی میں خوشیوں کے گیت گانے لگے، جنت کی نہریں پاکیزہ شراب و شہد اور دودھ سے بھر گئیں اور بہنے لگیں ۔ جنتی درختوں کی شاخوں پر بیٹھے سنہرے پرندےباہم مل کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاکیزگی ترنم میں بیان کرنے لگے،مملکتِ خداوند باہم جناب محمد مصطفیٰ مختار ِکائنات کی ولادت کی خوشخبری سن کر جھومنے لگی۔ تمام حجابات اٹھادیے گئےاور پنہائیاں ختم کردی گئیں۔ علام الغیوب جل جلالہ نے انہیں اپنی تجلیات سے مشرف فرمایا تو ملائکہ یوں گویا ہوئے: اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی وحدہ لاشریک ہے اور وہی سختیوں کو دور کرنے والا ہے۔ جبریل جب آسمان والوں کوخوشخبری دینے سے فارغ ہوئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں ایک ہزار ملائکہ کی فوج لے کر زمین پرجانے کا حکم فرمایا اوراس کا بھی حکم فرمایا کہ فرشتے زمین کے مختلف مقامات اور پہاڑوں کی بلندیوں، جزیروں اور سمندروں میں پھیل جائیں یہاں تک کہ ساتوں زمین کے مکینوں اور مچھلیوں کورسول کریم کی آمد کی خوشخبری دیں اور اس کی بھی کہ جو جواس خوشخبری کا خیرمقدم کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے مزکّٰی و مصفّٰی اور مقرَّب بنالےگا۔

یعنی کہ رسول اکرم کی ولادت سے قبل ہی مذکورہ بالا احکامات جاری کیے گئے اور یوں نبی اکرم کی ولادت کی خوشخبری مخلوقات کو دی گئی اور ساتھ ہی اس پر یہ انعام و اکرام بھی کیا گیا کہ جو اس خوشخبری کا خیر مقدم کرے تو یہ اس کے لیے قرب الہی اور تزکیہ و تصفیہ کا باعث ہے۔

طلوعِ ستارۂ احمدی ﷺ

اسی طرح حضرت حسان بن ثابت کی درج ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم کی ولادت سے قبل ایک ستارہ افق پر طلوع ہوا تھا جو فی الحقیقت آپ کی ولادت کی نشانی تھا ۔یہ نشانی کتبِ سابقہ میں ہی بیان کی گئی تھی جس کا اظہار ایک یہودی عالم نے صبح ِ ولادت کیاچنانچہ حضرت حسان بن ثابت سے اس نشانی کے بارے میں روایت میں منقول ہے:

  عن حسان بن ثابت قال: إنى لغلام يفعة ابن سبع سنين أو ثمان، أعقل ما رأيت وسمعت إذا بيھودى فى يثرب يصرخ ذات غداة: يا معشر يھودفاجتمعوا إليه وأنا أسمع فقالوا ويلك مالك؟ قال: قد طلع نجم أحمد الذى يولد به فى ھذه الليلة.4
  حسان بن ثابت سے مروی ہے:فرماتے ہیں کہ میں سات(7) یا آٹھ(8) سال کاتھا اور ہر بات سمجھ سکتاتھا،یثرب میں صبح سویرے ایک یہودی نے چلا کر کہا،اے یہودیوں!(اور میں سن رہا تھا)سب اس کے پاس چلے آئے،انہوں نے پوچھا ویلک (تو ہلاک ہو) !کیا بات ہے تو ا س نے کہا :احمد کا ستارہ طلوع ہو چکا ہےجو آج رات پیدا ہوچکا۔ 5

اس روایت کو ابن ہشام نے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ 6 ا س سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کچھ ایسی نشانیاں بھی کتب سابقہ میں ذکر کی گئی تھیں جن کے ظہور سے اہل کتاب کو اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا کہ نبی موعود کو مذکور نشانیوں کے ذریعہ پہچان کر ان پر ایمان لے آئیں جیساکہ قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔7

یوشع کی پیش گوئی بابتِ ولادت

رسول اکرم کی ولادت سے قبل یوشع نامی ایک یہودی نے آپ کی ولادت کی نشانیاں لوگوں سےبیان کی تھیں اوران نشانیوں کو بعض لوگوں نے ذہن نشین کرلیا تھا تاکہ ان کی صحت و غلطی کا معلوم ہو سکے۔پھر جب رسول اکرم کی ولادت ہوئی تو انہیں ان نشانیوں کا یقین ہوگیا اور وہ جان گئے کہ یوشع کی بتائی گئی نشانیاں غلط نہیں تھیں۔چنانچہ ان نشانیوں کے بارے میں منقول روایت کو ذکر کرتے ہوئے ابو نعیم اصبہانی تحریر فرماتے ہیں:

  أبى مالك بن سنان، يقول سمعت يوشع اليھودى يقول: أظل خروج نبى، يقال له أحمد يخرج من الحرم، فقال له خليفة بن ثعلبة الأشھلى كالمستھزى به: ما صفته؟ قال: رجل ليس بقصير، ولا بالطويل، فى عينيه حمرة، يلبس الشملة، ويركب الحمار، سيفه على عاتقه، وھذا البلد مھاجره. قال: فخرجت إلى قومى بنى خدرة، وأنا يومئذ أتعجب مما قال، فأسمع رجلا يقول: ويوشع يقول ھذا وحده، كل يھود يثرب تقول ھذا؟ قال أبى مالك بن سنان: فخرجت حتى جئت بنى قريظة، فأجد جمعا، فتذاكروا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم، فقال الزبير بن باطا: قد طلع الكوكب الأحمر الذى لم يطلع إلا بخروج نبى وظھوره، ولم يبق أحد إلا أحمد، وھذه مھاجره قال أبو سعيد: فلما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم المدينة أخبره أبى ھذا الخبر، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لو أسلم الزبير وذووه من رؤسائھم كلھم له تبع.8
  ابو مالک بن سنان کہتے ہیں میں نے یوشع یہودی کو کہتے سنا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ احمد نام کا ایک نبی مکّہ میں پیدا ہونے والا ہے۔یہ سن کر بنی اشہل کے ایک شخص خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے یوشع سے کہا:تو مذاق تو نہیں کررہا؟ اچھا بتا کہ اس نبی کے اوصاف کیا ہوں گے؟یوشع بولا:اس کا ظہور حرم کی طرف سے ہوگا، اس کا قد نہ چھوٹا ہوگا نہ بہت طویل، اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ہوں گے، اون کا لباس پہنے گا،اکثر دراز گوش پر سواری کرے گا،اس کے شانہ پر تلوار آویزا ں ہوگی اور یہ شہر یعنی مدینہ منورہ اس کی ہجرت کامقام ہوگا۔جب خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے اپنے قبیلے میں واپس جاکر یوشع یہودی کی زبان سے سنی ہوئی یہ باتیں سنائیں تو اس کے قبیلے والے یک زبان ہوکر بولے: تم ایک یوشع کی بات کرتے ہو، کل سے یثرب (مدینۃ النبی کا پہلا نام) کے تمام یہودی یہی باتیں کررہے ہیں۔اس کے علاوہ مالک بن سنان بتاتے ہیں کہ وہ اس روز اپنے گھر سے نکل کر اتفاقاً قبیلہ بنی قریظہ میں چلے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں بہت سے لوگ جمع ہوکر ایک نبی کی ولادت کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں اور زبیر بن باطا کہہ رہا ہے کہ آسمان پر ایک سرخ ستارہ نمودار ہوا ہے اور ایسا ستارہ صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب کہیں کوئی نبی پیدا ہوتا ہے۔آج جو نبی پیدا ہوا ہے اس کا نام احمد ہے جو آخری نبی کا نام ہے اور وہ ہجرت کرکے یہیں آئے گا۔جب آنحضرت سے کسی شخص نے زبیر بن باطا کی یہ باتیں بیان کیں تو آپ نے فرمایا:اگر زبیر بن باطا اپنی زندگی میں مسلمان ہوجاتا تو اس کی ساری قوم ایمان لے آتی کیونکہ وہ بھی اس کی اتباع کرتی۔9

اس بارے میں حضرت مجاہد کہتےہیں کہ میں نے حضرت ابنِ عباس سے پوچھا تو آپ نے فرمایا یہ حقیقت ہے کہ حضور نبی کریم کی ولادت کی خبر اللہ کی سار ی مخلوق خصوصاً جن و انس کو پہلے سے ہی دی گئی تھی ۔جب حضور کا نور حضرت آمنہ کے پاس منتقل ہوا توزمین کے گوشے گوشے اور آسمانوں کے طبقوں پر اللہ کے منادی نے آواز دی: اے معاشر خلائق! یہ محمد ابن عبد اللہ ہیں وہ مبارک مائیں ہوں گی جو میرے محبوب کو دودھ پلائیں گی،وہ مبارک ہاتھ ہوں گے جو اسے کھلائیں گے ۔ بادلوں نے آسمانوں سے آواز دی کہ ہم اللہ کے محبوب کو اپنی گود میں کھلائیں گے، میوہ دار درختوں نے کہاکہ ہم حضور کی پرورش کے لیے شاخیں پھیلائے ہوئے ہیں، میٹھے اور ٹھنڈے چشموں نے آپ کو پانی پلانے کااعلان کیا ،بارش کے قطروں نے عرش الٰہی کے سایہ سے غذا بہم پہنچانے کا عہد کیا۔ تو اللہ رب العزّت نے ارشاد فرمایا کہ ان تمام کی خدمات مجھےپسند ہیں مگر میرا فیصلہ یہ ہے کہ میرا محبوب انسانی دودھ سے پرورش پائے۔10

شیطان کی قید و بند

رسول اکرم کی ولادت سے قبل شیطان اور اس کے چیلے آسمانوں پر جاتے اور ملائکہ کی گفتگو سے زمینی کاہنوں کے ذریعہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے غیبی خبریں بتاتے۔یہ سلسلہ رسول اکرمکی ولادت سے قبل روک دیاگیا۔چنانچہ اس حوالہ سے صاحب الخمیس تحریر فرماتے ہیں:

  فى لیلة میلاده صلى اللّٰه عليه وسلم صارت الشیاطین وكبيرھم ابلیس محجوبة من السماء مرمیة بالشھب الثواقب وكانت قبل تصعد فتسترق السمع .11
  رسول اللہ کی ولادت کی رات میں شیاطین اور ان کے بڑے ابلیس کو آسمان سے(خبروں کو سننےسے) روک دیا گیا(اگر سننے کی کوشش کرتے بھی تو )بھڑکتے ہوئے انگارو ں کے ذریعہ انہیں دورپھینک دیا گیا۔جبکہ آپ کی ولادت سے پہلے یہ سب آسمانوں کی طرف بلند ہوتے اور (فرشتوں کے کلام کو) چوری چھپےسننے کی کوشش کرتے تھے۔

یعنی کہ رسول کریم کی ولادت سے قبل ہی شیطان کو اور اس کے چیلوں کو آسمان کی طرف پرواز کرنے سے روک دیا گیا جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اب باقاعدہ ایک نظام کے ذریعہ سے انسانیت کو منجانب اللہ ہدایت پہنچا کریگی اور اس میں کسی کو بھی رخنہ اندازی کی جر أ ت نہیں ہوگی۔بالفرض اگر کوئی کرنا بھی چاہے گا تو شہابِ ثاقب کے ذریعہ سے اس پر آگ کے انگارے پھینکے جائیں گے تاکہ آئندہ وہ ایسی کسی بھی قسم کی جرات نہ کرسکے اور اس پابندی کے سبب سے انسانیت کو گمراہی کے ایک بہت بڑے ذریعہ سے محفوظ کردیا گیا کیونکہ شیطان اور اس کے چیلے آسمانوں پر چڑھ کر ملائکہ کی باتیں سن کر پھر اس میں اپنی کچھ باتیں خلط ملط کر کے زمین میں موجود کاہنوں کو بتایا کرتے تھے تاکہ انسانوں کو وہ اپنامطیع بنا کر رکھیں۔

خواب میں ولادت کی بشارت

رسول اکرم کی ولادت سے قبل ہی بعض حضرات کو خواب میں آپ کی ولادت کی خبر دی گئی تھی اور اس طرح کے کئی خواب کتب سیر میں منقول ہیں چنانچہ امام ابن جوزی انہی خوابوں میں سے ایک خواب نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  عن خالد بن سعيد قال كنت ذات ليلة نائماقبل ان يبعث رسول اللّٰه فقال رايت كانه غشيت مكة ظلمة حتى لايبصرامرؤ كفه فبينما ھو كذلك اذ خرج نور من زمزم ثم علا فى السماء فاضاى فى البيت ثم اضائت مكة كلھا ثم الى نخل يثرب فاضاى بھا حتى كانى انظر البسر فى النخل فاستيقظت فقصصتھا على اخى عمرو بن سعيد و كان جزل الراى فقال يا اخى ان ھذا الامر يكون فى بني عبد المطلب الا ترى انه خرج من حفرةابيھم. قال خالد فانه لما ھدانى اللّٰه به للاسلام قالت ام خالد فاول من اسلم ابني وذلك انه ذكر روياه لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه واله وسلم فقال يا خالد انا واللّٰه ذلك النوروانا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه واله وسلم فقص عليه ما بعثه اللّٰه به فاسلم خالد واسلم عمرو بعده.12
  حضرت خالد بن سعید سے منقول ہے کہ میں ایک رات سویا ہوا تھا جبکہ ابھی رسول مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ میں نے خواب دیکھا کہ مکّہ مکرّمہ کو سخت ظلمت و تاریکی نے ڈھانپ لیا ہے اور تاریکی اتنی شدید تھی جس میں کوئی شخص اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میں یہ حالت دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک چاہ زمزم سے ایک نور نکلا اور فضا میں بلند ہوا جس سے اولاً بیت اللہ شریف منور ہوا پھر اس نے پورے مکّہ شریف کو منور کردیا ،پھر وہ مدینہ منورہ کے نخلستان کی طرف مائل ہوا اور اس کو بقعۂ نور بنادیا حتیٰ کہ میں نے اس نور کی ضیا پاشیوں کی بدولت کھجوروں کو اپنے درختوں پر موجود دیکھ لیا۔خواب سے بیدار ہوا تو اپنے بھائی عمرو بن سعید سے ساری حالتِ رؤیا بیان کی، وہ پختہ رائے اور صائب الفکر شخص تھا۔ اس نے کہا کہ میرے بھائی ایک عظیم ہستی کا ظہور ہونے والا ہے اور ہوگا بھی بنی عبد المطلب میں کیونکہ اس نور کا ظہور انہیں کے مورثِ اعلیٰ کے چاہِ زمزم سے ہوا ہے۔حضرت خالد فرماتے ہیں کہ اسی خواب کی بدولت اللہ ربُّ العزّت نےمجھے مشرف با اسلام فرمایا:حضرت خالد کی والدہ فرماتی ہیں سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں میرا فرزند ارجمند بھی داخل ہے اور وجہ اس کی یہی خواب تھا جب اس نے رسول اکرم کو وہ خواب سنایا تو سرکار دو عالم نے فرمایا :اے خالد وہ نور میں ہی ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اپنی تعلیمات اور احکامِ خدا وند ی اس کو بتلائے تو خالد فوراً مشرف با اسلام ہوگئے اور ان کے بعد بھائی عمرو بھی دولت اسلام سے مالا مال ہوگئے۔ 13

اس کے علاوہ بھی ایک واقعہ حضرت عبد المطلب کے ساتھ پیش آیا تھا جس خواب کی تعبیر یہ کی گئی تھی کہ آپ کی اولاد میں سے ایک ایسا لڑکا پیداہوگا جو عرب و عجم پر حاکم ہوگا۔اس خواب کےواقعہ کو صاحب روض الانف 14اور صاحب شواہد النبوۃ 15 نے بھی نقل کیا ہےچنانچہ روایت میں منقول ہے:

  عن عبد المطلب، قال: "بينا أنا نائم، فى الحجر، إذ رأيت رؤيا ھالتنى، ففزعت منھا فزعا شديدا، فأتيت كاھنة قريش وعلى مطرف خز وجمتى تضرب منكبى، فلما نظرت إلى عرفت فى وجھى التغير، وأنا يومئذ سيد قومى، فقالت: ما بال سيدنا قد أتانا متغير اللون ھل رأيت من حدثان الدھر شيئا؟ فقلت: بلى، وكان لا يكلمھا أحد من الناس، حتى يقبل يدھا اليمنى، ثم يضع يده على أم رأسھا يبدو بحاجته، ولم أفعل، لأنى كنت كبير قومى، فجلست، فقلت: إنى رأيت الليلة وأنا نائم فى الحجر، كان شجرة نبتت قد نال رأسھا السماء، وضربت بأغصانھا المشرق والمغرب، وما رأيت نورا أزھر منھا أعظم من نور الشمس سبعين ضعفا، ورأيت العرب والعجم ساجدين لھا وھى تزداد كل ساعة عظما ونورا وارتفاعا، ساعة تزھر، ورأيت رهطا من قريش قد تعلق بأغصانھا، ورأيت قوما من قريش يريدون قطعھا، فإذا دنوا منھا أخرھم شاب لم أرقط أحسن منه وجھا، ولا أطيب منه ريحا، فيكسر أضلعھم فقال: النصيب لھؤلاء الذين تعلقوا بھا وسبقوك إليھا، فانتبھت مذعورا فزعا، فرأيت وجه الكاھنة قد تغير، ثم قالت: لئن صدقت رؤياك ليخرجن من صلبك رجل يملك المشرق والمغرب، ويدين له الناس، ثم قال لأبى طالب: لعلك تكون ھذا المولود، فکان أبو طالب يحدث بھذا الحديث والنبى صلى اللّٰه عليه وسلم قد خرج، ويقول: كانت الشجرة.16
  حضرت عبد المطلب سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں:میں حرم کعبہ میں محو خواب تھا،میں نے ایک دہشت ناک خواب دیکھا اور نہایت خوف میں مبتلا ہوگیا۔میں قریش کی ایک کاہنہ عورت کے پاس گیا۔میں نے کمبل اوڑھ رکھا تھا اور میری زلفیں کندھوں تک لٹک رہی تھیں(پراگندہ حال تھیں)۔کاہنہ نے میرے چہرہ سے افسردگی محسوس کرلی جبکہ میں ان دنوں اپنی قوم کا سردار تھا۔کہنے لگی ہمارے سردار کا کیا حال ہےاور چہرہ کا رنگ کیوں بدلا ہوا ہے،کوئی حادثہ تو نہیں ہوگیا؟میں نے کہا:ہاں!ان دنوں لوگوں کی عادت یہ ہوتی تھی کہ ہر آنے والا شخص سوال کرنے سے قبل اس کاہنہ کا دایاں ہاتھ چومتااور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنا مدعا بیان کرتا۔مگر میں نے اپنے مقام و مرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئےایسا نہیں کیا اور سیدھا بیٹھ گیا۔میں نے کہا آج رات میں نے حرم کعبہ میں سوتے ہوئےخواب دیکھا کہ زمین سے ایک درخت نمودار ہواجس کا سر آسمان تک جا پہنچااور ٹہنیاں مشرق و مغرب تک پھیل گئیں۔وہ درخت سورج سے ستر گنا زیادہ روشن و منور تھا۔پھر کیا دیکھتا ہوں کہ سب عرب و عجم اسے سجدہ کر رہے ہیں اور اس کا نور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔میں نے دیکھا کہ قریش کے کچھ لوگ اس کی ٹہنیوں سے لٹک گئےاور قریش ہی کے کچھ لوگ اس کو کاٹنے کے لیے لپکےلیکن جب قریب ہوئے تو ایک نہایت حسین نوجوان نے جس سے بڑھ کر میں نے خوبصورت اور بہتر خوشبو والا کوئی نوجوان نہیں دیکھا،انہیں مار بھگایا،ان کی پسلیاں توڑ دیں اور آنکھیں باہر نکال دیں۔میں نےبھی ہاتھ بڑھایا کہ اس کی کسی ٹہنی کو تھام لوں مگر اس نوجوان نے مجھے روک دیا۔میں نے کہا کس کا نصیب ہے؟کہنے لگا انہیں کا نصیب ہے جو اس سے لٹک گئے ہیں اور تم سے سبقت لے جا چکے ہیں۔میں گھبراکر خواب سے بیدار ہوگیا۔یہ سنتے ہی کاہنہ کا چہرہ زرد پڑنے لگا اور وہ یوں گویاہوئی:اگر تمہارا خواب سچا ہےتو تمہاری پشت سے وہ شخص پیدا ہوگاجس کی حکومت مشرق ومغرب تک ہوگی اور لوگ اس کے دین پر چلیں گے۔آپ نے یہ سن کرحضرت ابو طالب کے متعلق کہا کہ شاید وہ ہو۔جب نبی کریم نے اعلان نبوت فرمایاتو حضرت ابو طالب کہا کرتے تھےکہ قسم بخداوہ درخت ابو القاسم الامین()کی شکل میں نمودار ہواہے۔ 17

یعنی رسول کریم کی ولادت سے قبل ہی لوگوں کو مختلف طریقوں سے اس بات کی طرف توجہ دلائی جارہی تھی کہ یہ زمانہ کسی ذات مقدس کے ظہور کا ہے جس کی شان و عظمت ارفع و اعلی ہے اور جو تمام ہی لوگوں پر حاکم ہوگا۔

بتوں کی گواہی

رسول اکرم کی ولادت سے قبل کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ذکر کی گئی ہے کہ بتوں نے بھی گواہی دی کہ نبی آخر الزماں متولد ہونے والے ہیں۔چنانچہ اس حوالہ سے امام جلال الدین السیوطی نےایک واقعہ اپنی خصائص میں نقل کیا ہے جس میں بتوں کی گواہی کے ساتھ ساتھ شاہ حبشہ کا خواب بھی مذکور ہےچنانچہ امام جلال الدین سیوطی اس وقعہ کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  واخرج الخرائطى من طريق ھشام بن عروة عن أبيه عن جدته اسماء بنت ابى بكرقالت كان زيد بن عمرو بن نفيل وورقة بن نوفل يذكران انھما اتيا النجاشى بعد رجوع أبرھة من مكة قالا فلما دخلنا عليه قال أصدقانى أيھا القرشيان ھل ولد فيكم مولود أراد أبوه ذبحه فضرب عليه بالقداح فسلم ونحرت عنه جمال كثيرة قلنا نعم قال فھل لكما علم به ما فعل قلنا تزوج امرأة يقال لھا آمنة تركھا حاملا وخرج قال فھل تعلمان ولدت أم لا قال ورقة اخبرك ايھا الملك انى ليلة قد بت عند وثن لنا إذ سمعت من جوفه ھاتفا يقول
ولد النبي فذلت الأملاك
ونأى الضلال وأدبر الإشراك
ثم انتكس الصنم على رأسه فقال زيد عندى كخبره ايھا الملك إنى فى مثل ھذه الليلة خرجت حتى اتيت جبل ابى قبيس إذ رأيت رجلا ينزل من السماء له جناحان أخضران فوقف على أبى قبيس ثم اشرف على مكة فقال ذل الشيطان وبطلت الأوثان وولد الأمين ثم نشر ثوبا معه وأھوى به نحو المشرق والمغرب فرأيته قد جلل ما تحت السماء وسطع نور كاد يخطف بصرى وھالني مارأيت وخفق الھاتف بجناحيه حتى سقط على الكعبة فسطع له نور أشرقت له تھامة وقال زكت الارض وأدت ريعھا وأومى إلى الأصنام التة كانت على الكعبة فسقطت كلھا قال النجاشى ويحكما أخبركما عما أصابنى إنى لنائم فى الليلة التى ذكرتما فى قبتى وقت خلوتى إذ خرج على من الأرض عنق ورأس وھو يقول حل الويل بأصحاب الفيل رمتھم طيرأبابيل بحجارة من سجيل ھلك الأثرم المعتدى المجرم ولد النبى الامى الحرمى المكى من أجابه سعد ومن أباه عند ثم دخل الأرض فغاب فذھبت أصيح فلم أطق الكلام ورمت القيام فلم أطق القيام فأتانى اھلى فقلت احجبوا عنى الحبشة فحجبوهم عنى ثم اطلق عن لسانى ورجلي.18
  خرائطی نے بہ طریق ہشام بن عروہ روایت کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنی دادی اسماء بنت ابو بکر سے روایت کی کہ زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل دونوں بتایا کرتے تھے کہ اصحاب ِفیل کے واقعہ ہلاکت کے بعد ہم دونوں نجاشی شاہِ حبشہ کے پاس پہنچے تو اس نے ہم سے کہا: اے قرشی بزرگو، مجھے بتاؤ، کیا تم لوگوں میں کوئی ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جس کے باپ کو خداکے نام پر ذبح ہونا تھا پھر قرعہ کے بعد وہ بچ گئے اور ان کے عوض بہت سے اونٹ بطور دیت قربان کردیے گئے۔ہم نے جواب دیا کہ ہاں! ایسا ہوا، تواس نے پوچھا: پھروہ (یعنی بچہ کے والد) کہاں ہیں؟ہم نے بتایا :انہوں نے زہری قبیلہ کی ایک شریف زادی آمنہ سے نکاح کیا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد اپنی بیوی کو حاملہ چھوڑ کر فوت ہوگئے۔اس نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ اس عورت کے فرزند پیدا ہوا، یا نہیں؟ورقہ نے جواب دیا: اے بادشاہ میں ایک شب کا واقعہ عرض کرتا ہوں کہ ہم اپنے مخصوص بت کے قریب ہی بیٹھے تھےکہ اس کے اندر سے غیبی طور پر سنایا گیا کہ وہ کہہ رہا تھا:
نبی (آخر) متولد ہو گئے اور بادشاہان دنیا رسوا ہو گائے
گمراہی دور ہو گئی اور شرک ختم ہو گیا
اس کے بعد وہ بت سر کے بل گر پڑا ۔پھر زید نے کہا :اے عزت مآب بادشاہ، اسی نوعیت کی ایک اطلاع میرے پاس بھی ہے۔ میں اس رات گھر سے نکل کر جبل ابو قبیس پر آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آسمان سے اتر رہاہے اس کے دو سبز بازو ہیں وہ ابوقبیس پر اتر کر ٹھہرا۔ پھراس نے مکّہ کی سمت رخ کیا اور کہا ۔ شیطان رسوا ہوا، بت پرستی کا بطلان ہوگیا اور الامین آج پیدا ہوگیا۔ پھر اس نے اپنے کپڑے کو پھیلادیا جو اس کے ساتھ ہی تھا اور وہ از مشرق تا مغرب محیط ہوگیا اور پھر میں نے ایک ایسا تیز نور دیکھا کہ میں ڈرا، کہیں یہ میری بصارت نہ سلب کرلے، میں نے جو کچھ مشاہدہ کیا میں اس سے خوف زدہ ہوگیا۔ پھر وہ شخص اپنے بازو پھیلا کر اڑا اور خانہ کعبہ پر اترا اور وہاں سے بھی روشنی اور نور پھیلا جس سے تہامہ کا وسیع علاقہ منور ہوگیا۔ پھر اس نے کہاکہ کرۂ ارض پاک ہوگیا اور اس کی تاریکی اور ظلمت دور ہوگئی اور کعبہ میں جس قدر بت تھے، اس نے ان کی طرف اشارہ کرکے دیکھا، وہ سب کے سب گر پڑے۔نجاشی نے کہا تمہارا بھلا ہو ، جو کچھ مجھے اس رات در پیش آیا،اب اس کو میں تم سے بیان کرتا ہوں۔ اس رات جس کا تم ذکر کررہے تھے، میں محل کے ایک کمرے میں بیٹھا تھا کہ دفعتاً میرے سامنے زمین کی طرف سے ایک سرگردن کے مقام تک ابھرا، اور کہا، اصحابِ فیل پر ہلاکت نازل ہوئی، ان کو ابابیل نے "حجارۃ من سجیل" سے ہلاک کردیا ا شرم جو مجرم و سرکش تھا، مرگیا اور وہ نبی امی جو مکی ہے پیدا ہوگیا۔ پس جس کسی نے اس کی دعوت کو قبول کیا وہ نجات یافتہ ہوا اور جس نے انکار کیا وہ سراسر نقصان و زیاں میں ہے۔ اس کے بعد وہ سر غائب ہوگیا۔پھر دوسرے دن کی صبح ہوئی اور میں نے بات کرنے کی کوشش کی مگر میں نے محسوس کیا کہ "قوت ِناطقہ" مفقود ہے۔ میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر نہ ہوسکا۔اس کے بعد میرے پا س گھر والے آئے۔ میں نے ان سے کہا: حبشہ کے باشندوں کو میرے پاس نہ آنے دو تو انہوں نے لوگوں کو آنے سے روکا۔ اس کے بعد میری قوت ِگویائی اور قوتِ رفتار از خود بحال ہوگئے۔19

یہ نشانیاں صرف مکّہ ہی میں ظہور پذیر نہیں ہوئیں بلکہ مکّہ کے علاو ہ دیگرمقامات پر بھی ان کا ظہور ہوا جیساکہ مذکورہ روایت میں ہے کہ نجاشی نے حبشہ میں مذکورہ نشانی کو دیکھا۔ان روایات سے بخوبی معلوم ہورہا ہے کہ آپ کی ولادت مبارک سے چند لمحات قبل ہی مذکورہ بالا نشانیوں کا ظہور ہوچکا تھا تاکہ مخلوقِ خداوندی تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ آخری نبی جن کا انتظار کیا جارہا تھا وہ متولد ہوگئےہیں ۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں یحیٰ بن عروہ اپنےو الد سے نقل کرتےہوئے بیان کرتے ہیں:

  أن نفرا من قريش منھم ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى بن قصى وزيد بن عمرو بن نفيل وعبد اللّٰه وعبيد اللّٰه بن جحش بن رئاب وعثمان بن الحويرث كانوا عند صنم لھم يجتمعون إليه قد اتخذوا ذلك اليوم كل سنة عيدا وكانو ا يعظمونه وينحرون له الجزر ثم يأ كلون ويشربون الخمر ويعكفون عليه فدخلوا عليه فى الليل فرأوه مكبوبا على وجھه فأنكروا ذلك فأخذوه فردوه إلى حاله فلم يلبث أن انقلب انقلابا عنيفا فأخذوه فردوه إلى حاله وانقلب الثالثة فلما رأوا ذلك منه اغتموا له وأعظموا ذلك فقال عثمان بن الحويرث ما له قد أكثر التنكس إن ھذا الأمر قد حدث وذلك فى الليلة التى ولد فيھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.20
  ایک جماعت قریش جن میں ورقہ بن نوفل ، زید بن عمرو بن نفیل، عبید اللہ بن حجش اور عثمان بن حویرث تھے ان لوگوں کا ایک مشترکہ بت تھا جس کے پاس یہ جمع ہوتے تھے۔ہر سال اس رات میں وہ خوشی کرتے ، اس کی تعظیم کرتے ، اس کے لیے اونٹ ذبح کیا کرتے ،پھر کھانا کھاتے، شراب پیتے ، اس کے پاس ہی بیٹھے رہتے تھے۔ ایک رات یہ اس بت کے پاس گئے تو دیکھاکہ وہ منہ کے بل اوندھا پڑا ہے۔ انہوں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی اور بت کو سیدھا کرکے اس کے مقام پر درست کردیا۔ کچھ دیر گزری ہوگی کہ وہ بت پھر منہ کے بل گر گیا۔ انہوں نے دوبارہ پھر سیدھا کرکے درست کردیا۔ تیسری مرتبہ پھراسی طرح گر پڑا۔ اب عثمان نے کہاکہ خاص بات معلوم ہوتی ہے۔ یہ وہی رات تھی جس میں حضور کی ولادت ہوئی تھی۔

اسی طرح کی ایک دوسری روایت جس کو امام سیوطی نے نقل کیا ہے اس میں اس واقعہ کے ذکر کرنے کے بعد یہ بھی منقول ہے کہ جس وقت بت زمین پر تیسری بارگرا توعثمان نے درجِ ذیل اشعار پڑھے:

  أيا صنم العيد الذي صف حوله
صناديد وفد من بعيد ومن قرب
تنكس مقلوبا فما ذاك قل لنا
أأذاك شيء أم تنكس للعب
فإن كان من ذنب أسأنا فإننا
نبوء باقرار ونلوي عن الذنب
وإن كنت مغلوبا تنكست صاغرا
فما أنت في الأوثان بالسيد الرب 21
  اے خوشی اور انبساط کے صنم، جس کے طواف کے لیے قریب و بعید سے بڑے بڑے لوگ آتے ہیں،تو ‏منہ کے بل اوندھا ہوا تو ہمیں اس کی وجہ بتا، کیا یہ کسی خاص بات کی وجہ سے ہے یا یوں ہی تفریحِ طبع کے ‏طور پر ہے؟ اگر تو ہمارے معاصی سے بیزار ہوکر اوندھا گیاہے تو ہم اعترافِ قصور کرتے ہیں اور ‏مصیبت سے اجتناب کا اقرار کرتے ہیں۔ اگر تو مغلوب ہوگیا اور ذلت و رسوائی نے تجھے منہ کے بل گرایا ‏ہے تو تب تو بتوں میں سرداری اور معبود ہونے کے لائق نہیں ہے۔ ‏ 22

راوی کا بیان ہے کہ انہوں نے پھر اس بت کو اٹھا کر اس کی جگہ پر قائم کردیا۔ جب وہ سیدھا ہوا تو بحکمِ خداوندی بت کی جانب سے یہ کہتے سنا گیا:

  تردى لمولود أنارت بنوره
جميع فجاج الأرض بالشرق والغرب
وخرت له الأوثان طرا وأرعدت
قلوب ملوك الأرض طرا من الرعب
ونار جميع الفرس باخت وأظلمت
وقد بات شاه الفرس في أعظم الكرب
وصدت عن الكهان بالغيب جنها
فلا مخبر منهم بحق ولا كذب
فيالقصي ارجعوا عن ضلالكم
وهبوا إلى الإسلام والمنزل الرحب .23

  میرا گرنا اس مولود کی وجہ سے ہے جس کے نور کے طفیل کرّۂ زمین کے مشرق و مغرب کے تمام راستے ‏منور اور درخشاں ہوگئے ہیں۔ اس مولود کی وجہ سے تمام بت گر پڑے ہیں اور جہان آباد کے تمام ‏بادشاہوں کے دل اس کے رعب سے لرزہ براندام ہوگئے ہیں۔ اور فارس کے تمام آتش کدے بجھ کر ‏تاریک ہوگئے ہیں اور فارس کے اعلیٰ مرتبت بادشاہ کو شدید درد و تکلیف کا سامنا ہے۔ کاہنوں کے پاس ‏غیبی خبریں لانے والے جنات کو روک دیا گیا ، ان کے پاس اب سچی خبر ہے نہ جھوٹی۔تو اے اولادِ قصی! تم ‏اپنی راہ ضلالت اور کجروی سے لوٹ کر اسلام کی راہ اور کشادہ منزل کی طرف دوڑ کر پہنچو۔ ‏ 24

ان روایات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہےکہ جس نبی مکرم کی آمد کی نشانیاں ظہور پذیر ہورہی تھیں اس نبی مکرم کا مقصد ہی شرک و کفر مٹاکر توحید و اسلام کا پرچار تھا ۔

مذکورہ بالا تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی ولادت سے قبل کچھ نشانیوں کو ظاہر فرمایا تھا جن کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ جو نبی آخر الزماں کی ولادت کے منتظر تھے وہ ان نشانیوں کو دیکھ کر ان پر ایمان لے آئیں اور ان کی مدد و نصرت کریں۔ان نشانیوں کے ظہور میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ لوگوں میں اہل کتاب کے ذریعہ آپ کی ولادت سے قبل او ربعد اس نومولود کی ولادت کا تذکرہ بمع چند اوصاف کے مشہور ہوجائے تا کہ اہل مکّہ جو اہل کتاب کی ہر بات کو نظریاتی طور پر درست جان کر ان سے متاثر تھے و ہ بھی اس موعود و منتظر نبی کریم کے بارے میں پہلے سے آگاہ ہوجائیں ۔پھر جب وہ نبی ان میں اپنے چالیس سال کے شب وروز گزار کر اللہ کے حکم کے ساتھ اعلان نبوت کریں تو یہ لوگ ان ظہور پذیر نشانیوں اور چالیس سالہ زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی دعوت کو قبول کرلیں اور یوں خداوندی حجت کا اتمام ہوجائے۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ الانبیاء107:21
  • 2 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دا رالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:350
  • 3 شھاب الدین احمد بن حجر ہیتمی،النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سید ولد اٰدمﷺ،مطبوعۃ:مکتبہ الحقیقیۃ، استنبول، ترکی،2003م،ص:14
  • 4 ابو الفداء اسماعیل ا بن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص:38
  • 5 ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر دمشقی،سیرۃ النبیﷺ(مترجم:مولانا ہدایت اللہ ندوی)،ج-1،مطبوعہ:مکتبہ صدوسیہ، لاہور، پاکستان،2014ء،ص:150
  • 6 ابو محمد عبد الملک بن ہشام،السیرۃ النبویۃ،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان،2009م،ص:129
  • 7 القرآن، سورۃ البقرۃ146:2
  • 8 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی،دلائل النبوۃ للاصبھانی،ج-1،مطبوعۃ:دار النفائس،بیروت،لبنان،1986م،ص:79
  • 9 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصفہانی،دلائل النبوۃ(مترجم:مولانا محمد طیب )،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:96
  • 10 ابو سعید عبد الملک ، شرف النبیﷺ (مترجم:اقبال احمد فاروقی)، مطبوعہ: احمد جاوید فاروقی پبلشرز، لاہور ، پاکستان، 2004ء،
  • 11 شیخ حسین بن محمد بن الحسن الدیار بکری،تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیسﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:368
  • 12 ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی، الوفا باحوال المصطفیﷺ، ج-1، مطبوعۃ:مؤسسۃ السعیدیۃ، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:138
  • 13 ابو الفرج عبد الرحمان جوزی، الوفا باحوال المصطفیٰ ﷺ (مترجم: علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ: حامد اینڈ کمپنی ، لاہور، پاکستان،2002ء،ص:104
  • 14 ابو القاسم عبدالرحمن بن عبد اللہ بن احمد السھیلی،الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ج-2، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی ، بیروت، لبنان، 2000م،ص:95
  • 15 علامہ نور الدین عبد الرحمٰن جامی، شواہد النبوۃ(مترجم:بشیر حصین ناظم)،مطبوعہ :مکتبہ نبویہ ،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:46-47
  • 16 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:54
  • 17 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانی،دلائل النبوۃ(مترجم:مولانا محمد طیب)،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء، ص:112-113
  • 18 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الخصائص الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 89 -90
  • 19 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی ، الخصائص الکبریٰ (مترجم:مفتی سیّد غلام معین الدین نعیمی)، ج-1،مطبوعہ: زاویہ پبلیشرز، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص :124-125
  • 20 ابو القاسم علی بن حسن الشھیر بابن عساکر،تاریخ ِ دمشق،ج-3،مطبوعۃ:دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع،بیروت، لبنان، 1995 م، ص:423
  • 21 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الخصائص الکبری،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008ء، ص:88
  • 22 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی ، الخصائص الکبریٰ (مترجم:مفتی سیّد غلام معین الدین نعیمی)، ج-1،مطبوعہ: زاویہ پبلیشرز، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص :123-124
  • 23 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبری، ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:89
  • 24 علامہ جلال الدین عبد الرحمٰن سیوطی، الخصائص الکبریٰ(مترجم:مفتی سیّد غلام معین الدین نعیمی)، ج-1،مطبوعہ: زاویہ پبلیشرز، لاہور، پاکستان، 2014ء، ص:125