Encyclopedia of Muhammad

رسولُ اللہ ﷺکا وقتِ وِلادَت

جمہور سیرت نگاروں کی رائے کے مطابق رسول اکرم طلوع صبح صادق سے چند لمحات پہلے اس دنیا میں تشریف لائے۔رسول اکرم کی ولادت کے وقت کے تعیّن میں علماءِ سیر وتاریخ کی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ آپ اس دنیا فانی میں اللہ رب العزت کی طرف سے انس و جن کے لیے ہدایات کا سر چشمہ بن کر1بارہ (12)ربیع الاوّل کی رات کے آخری پہر اور صبح صادق سے چند لمحات قبل مکّہ میں متولد ہوئے۔2نبی کریم کی ولادت کے وقت پر آئمہ سیر کے حوالہ سے اس مقالہ میں تفاصیل ذکر کی گئی ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ آپ طلوع فجر کے وقت پیداہوئے۔

آپ کی پیدائش کے وقت کے بارے میں زبیر ابن بکار اور حافظ ابن ِعساکر نے لکھا ہے کہ آپ کی پیدائش کا وقت صبح سویرے یعنی طلوع فجر کے وقت تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے صاحبِ سیرت حلبیہ تحریر فرماتے ہیں:

  أن ذلك كان حين طلوع الفجر ويدل له قول جده عبد المطلب: ولد لى الليلة مع الصبح مولود.3
  بلا شبہ آپ کی پیدائش کا وقت صبح سویرے یعنی طلوع فجر کے وقت تھا اس بات کا ثبوت آپ کے دادا عبد المطلب کا یہ قول ہے کہ میرے یہاں رات اور صبح کے ملنے کے وقت ایک لڑکا پیدا ہوا۔ 4

اسی حوالہ سے جواہر البحار میں موجود رسالہ مولد البرزنجی میں شیخ جعفر برزنجی تحریر فرماتے ہیں:

  والراجح انھا قبیل فجر یوم الاثنین ثانى عشر ربیع الاول.5
  اور راجح قول یہ ہے کہ نبی اکرم بروز پیر بارہ (12)ربیع الاوّل کوصبح صادق سے تھوڑی دیر پہلے متولد ہوئے۔

بہر حال اس کے علاوہ بھی کئی علماء ِسیرنے اسی قول کو راجح قرارد یا ہے کہ نبی اکرم کی ولادت کا وقت دن نہیں ہے بلکہ رات کا آخری پہر اور صبح صادق کا وقت ہے۔

آخرِشب اور صبح صادق کے درمیان ولادت رسولﷺ

ولادتِ رسول کے رات کے آخری پہر اور صبح صادق کے پہر میں ہونے کے حوالہ سے ذیل میں کئی ایک آئمہ سیر کے حوالہ جات ذکر کیے جارہےہیں جن سے اندازہ ہوگا کہ رسول اللہ کی ولادت مبارکہ شب کے آخری حصہ میں اورصبح صادق میں ہوئی ۔چنانچہ اس حوالہ سے صاحب سبل الھدی تحریر فرماتےہیں:

  وروى الزبیر بن بکار وابن عساكر عن معروف بن حزبوذ قال: ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین حین طلع الفجر.6
  زبیر بن بکار اور ابن عساکر نے معروف بن حزبوذ سے روایت کیا کہ رسول اللہ پیر کے دن طلوع فجر کے وقت پیدا ہوئے۔

اسی طرح عیص نامی راہب کے جواب میں حضرت عبد المطلب نے اس سے کہا:

  ولد لى اللیلة مع الصبح مولود.7
  طلوع صبح کے وقت میرے ہاں ایک بچہ کی پیدائش ہوئی ہے۔

اسی طرح اس حوالہ سے صاحبِ سیرت حلبیہ تحریر فرماتے ہیں:

  ويدل لكون ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم كانت ليلا قول بعض اليھود ممن عنده علم الكتاب لقريش ھل ولد فيكم الليلة مولود؟ قالوا: لا نعلم قال: ولد الليلة نبى ھذه الأمة الأخيرة.8
  اور آپ کی ولادت مبارکہ کے رات کے وقت ہونے پر اس یہودی عالم کا جس کے پاس اپنی کتاب کا علم بھی تھا قریش سے کہا گیا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ" کیا تم میں گزشتہ رات کوئی لڑکا متولد ہوا ہے تو انہوں نےجواب میں کہا کہ ہمیں تو نہیں معلوم ۔پھر اس نے کہا اس آخری امت کا نبی گزشتہ رات میں متولد ہوچکا ہے"۔

اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہسے مروی ہے کہ جس رات رسول اللہ پیدا ہوئے تو ایک مکّہ میں بسنے والےیہودی تاجر نے قریش کی ایک محفل میں اعلان کیا جوبیہقی کی "دلائل النبوۃ" میں یوں مذکور ہے:

  ولد فيكم ھذه الليلة نبى ھذه الأمة الأخيرة.9
  گزشتہ رات اس آخری امت کا نبی پید اہو چکا ہے۔

ان تمام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ دن کو نہیں بلکہ رات کے آخری وقت طلوع ِصبح کے پہر متولد ہوکر اس دنیا میں تشریف لائے۔ نبی اکرم کی ساعتِ ولادت کے شرف ومنزلت کےحوالہ سے کسی شاعر نے کیا خوب لکھا ہے:

  یا  ساعة   فتح  الھدى  ارفادھا        لطفا    وقد    منح     الجزا    سعاد
لاحت  بشھر  ربیع  الزاكى  الذى        فاق   الشھور   جلالة    اذ   سادھا
حیث    النبوة    اشرقت    بماثر        كالشھب  لا  یحصى  الورى  عدادھا
حیث    الامانة   والرسالة   قد        یعلى   لمکة   غورھا   و  نجادھا.10

     اے وہ ساعت! جس میں ہدایت نے اپنے عطیات کے دروازے کھول دیے جب ثواب نے اسے ‏سعادت مندی عطا کی۔ یہ عطیات اس ربیع الاوّل میں چمکے جو سارے مہینوں سے اس وقت فضیلت پا گیا ‏جب سیادت کا تاج اس کے سر پر سجادیا گیا، نبوت اتنی علامات کے ساتھ واضح ہوئی جتنے آسمان پرستارے ‏ہوتے ہیں۔ لوگ جن کی تعداد گن نہیں سکتے۔ جب امانت اور رسالت کا اظہار ہواتو آپ نے مکہ مکرمہ ‏کے نشیب و فراز پر غلبہ پالیا۔ ‏ 11

رسولِ مکرم نہ صرف خود بلکہ آپ سے نسبت پاجانے والے اوقات بھی عظمت و رفعت کی چوٹیوں کے حامل ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے نزدیک بھی اس ساعتِ مولود کی اہمیت و منزلت کافی زیادہ ہے۔

وقتِ ولادت میں منقول اختلاف

لوگ آپ کی ولادت وقت ِ شب تصور کرتے ہیں ان میں یہ بھی بحث ہے کہ آیا یہ رات افضل ہے یا لیلۃ القدر لیکن عام طور پر صبح ِصادق کے وقت آپ کی ولادت مسلمہ ہے۔ 12 البتہ ایک روایت میں منقول ہے کہ آپ سے پیر کے دن کے متعلق استفسا ر کیا گیا تو آپ نے فرمایاکہ یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں مذکور ہے:

  سئل عن صوم يوم الاثنين؟ قال: ذاك يوم ولدت فیه.13
  رسول کریم سے پیر کے روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:یہ وہ دن ہے جس میں مجھے پیدا کیا گیا ہے۔

اس روایت کی بناء پربعض علماء سیرت اور بالخصوص حافظ ابو الفضل عراقی نے لکھا ہے کہ صحیح مؤقف یہ ہے کہ آپ دن کے وقت پیدا ہوئے تھے۔ 14 لیکن اکثر ارباب سیر نے اس کے بر عکس رائے دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ آپ کی ولادت کا وقت رات ہے اور پہر صبح صادق ہے۔رہی مذکورہ بالا روایت کی بات تو یہاں پر یوم کا لفظ اپنے مطلق معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اہل عرب کی عادت ہے۔اسی طرح آنحضرت کی پیدائش کے وقت میں جو اختلاف اور تردد ہے کہ آیا رات کے وقت ہوئی یا دن کے وقت ہوئی اس کی طرف قصیدہ ہمزیہ کے شاعر نے درجِ ذیل شعروں میں بھی اشارہ کیا ہے:

  ليلة   المولد   الذي   كان  للد        ين     سرور     بيومه    وازدهاء
فهنيئا     به     لآمنة     الف        ضل   الذي    شرفت    به   حواء
يوم  نالت  بوضعه  ابنة  وهب        من  فخار  ما لم  تنله  النساء.15

  آپ کی پیدائش کی رات( یعنی پیدائش) جو دین اسلام کے لیے خوشی و مسرت تھی اور اس دن میں سرور شادمانی تھی۔ پس مبارک باد ہے حضرت آمنہ کے لیے اس عظیم فضیلت پر جو ان کو آنحضرت کی ولادت سے حاصل ہوئی ایسی فضیلت جو حضرت حواء کو بھی حاصل ہوئی ۔وہ شرف اور اعزاز جو حضرت آمنہکو آنحضرت کی ولادت سے حاصل ہوا ایسا ہے جو دوسری کسی عورت کو حاصل نہیں ہوا۔ 16

اس کی شرح کرتے ہوئے صاحب سیرت حلبیہ تحریر فرماتے ہیں:

  أى ليلة المولد الذى وجد فيه الفرح والافتخار للدين بيومه، وقد أضاف كلا من الليل واليوم للولادة مراعاة للخلاف فى ذلك، فھنيئا لآمنة الفضل الذى حصل لھا بسبب ولادتھا له صلى اللّٰه عليه وسلم أى لا يشوب ذلك الفضل كدر ولا مشقة الذى شرفت بذلك الفضل حواء التى ھى أم البشر...يوم أعطيت آمنة بنت وھب بسبب وضعه من الفخار، وھو مايتمدح به من الخصال العلية، والشيم المرضية، مالم يعطھا غيرھا من النساء.17
  یعنی وہ رات جس میں آنحضرت کی ولادت ہوئی اس کا دن مذہب اسلام کے لیے زبردست خوشی اور مسرت کا دن ہے، چونکہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ ولادت دن میں ہوئی یا رات میں اس لیے شاعر نے دن اور رات دونوں کا تذکرہ کیا ہےچنانچہ آنحضرت کی پیدائش کی وجہ سے حضرت آمنہ کو جو اعزاز اور شرف حاصل ہوا اس پر حضرت آمنہ مبارکباد کی مستحق ہیں ، اس اعزاز اور شرف میں کوئی تکلیف اور مشقت نہیں ہوئی جیسا کہ انسانوں کی ماں حضرت حواء حمل کی تکلیف سے دوچار ہوئیں۔۔۔حضرت آمنہ کو اس دن یہ فخر و شرف حاصل ہوا جس دن انہوں نےآنحضرت کو جنم دیا کیونکہ یہ وہ عظیم خصوصیت اور زبردست اعزاز ہے جو دنیا کی کسی دوسری عورت کو حاصل نہیں ہوا۔18

بہر کیف مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کے وقتِ ولادت میں اختلاف ہے۔لیکن اس اختلاف کو دیگر آئمہ سیر نے اس طرح نہیں ذکر کیاجس طرح آپ کے ماہ و تاریخ ِولادت کو ذکر کیا ہے کیونکہ اکثر آئمہ سیر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کی ولادت صبح صادق سے چند لمحات پہلے رات کے آخری پہر میں ہوئی ہے۔

نومولود گی اور عربی رسم

اہل عرب کی ایک عادت جس کو آئمہ تاریخ و سیر نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے اس سے بھی اسی بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ رسول اکرم کی ولادت اسی مذکورہ بالا پہر میں ہوئی ہے۔اس عربی رسم کو بیان کرتے ہوئے ابن عباس کے حوالہ سے صاحب سیرت حلبیہ تحریر فرماتے ہیں:

  كان فى عھد الجاھلية إذا ولد لھم مولود من تحت الليل وضعوه تحت الإناء لا ينظرون إليه حتى يصبحوا، فلما ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وضعوه تحت برمة (اى القدر). فلما أصبحوا أتوا البرمة، فإذا هى قد انفلقت ثنتين وعيناه إلى السماء، فتعجبوا من ذلك.19
  دور جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جب عربوں کے رات کے حصہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اس کو برتن (نما ہانڈی)کے نیچے رکھا کرتے تھے اور صبح تک اس کی طرف توجہ نہیں کیا کرتے تھے پس جب رسول اللہ پیدا ہوئے تو گھر والوں نے ان کو بھی ایک ہانڈی نما برتن کے نیچے رکھ دیا۔پھر جب وہ صبح ہانڈی کے پاس آئے تو وہ دو ٹکڑے ہو چکی تھی اور آپ کی آنکھیں مبارک آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں تو اس طرح دیکھنے والے حیران ہوگئے۔20

یعنی یہ روایت بھی واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ کی ولادتِ مبارکہ رات میں ہوئی اوررسول اللہ کی ولادت مقدسہ کے وقت حضور اکرم پر پیالہ رکھا گیا جیسا کہ اہل عرب کی عادت تھی مگر وہ پیالہ خود بخود دو حصوں میں منقسم ہوگیاتھا اور آپ اپنا مبارک انگوٹھا چوس رہے تھے۔ 21 یہ مضمون من وعن ابو نعیم کی دلائل النبوۃ22 میں، بیھقی کی دلائل النبوۃ23 میں، خصائص الکبری24 میں اور سبل الھدی25 میں بھی مذکور ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ رات میں اس دنیا میں تشریف لائے نہ کہ بقول حافظ عراقی اور دیگر روایات کے جن میں آپ کی ولادت کا وقت دن بتایا گیا ہے۔

اسی طرح صاحب سیرت حلبیہ نے سورۃ الضحٰی میں موجودلفظِ"اللیل" کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ ا س رات سے مراد رسول اکرم کی شب ولادت بھی لی جاسکتی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں آنحضرت کی ولادت کی رات کی قسم کھائی ہے:

  وَالضُّحٰى1 وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى2 26
  قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔ اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔27

بہر حال مذکورہ بالا عبارات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم کی ولادت دن میں نہیں بلکہ رات کے آخری پہر صبح صادق میں ہوئی ہے۔ ارباب سیر نے اپنی اپنی کتابوں میں نبی اکرم کی پیدائش کا وقت رات ہی کالکھاہےاور حضرت سیّد ہ آمنہ سے جتنی بھی روایات ہیں ان میں بھی رات کے وقت کا ہی ذکر ہےجس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ رات ہی کے وقت آغازِ فجر سے پہلے دنیا میں تشریف لائے۔

 


  • 1 القرآن،سورۃ النساء174:4
  • 2 شیخ سیّد جعفر بن حسن البرزنجی، مولد البرزنجی، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م،ص:538
  • 3 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:84
  • 4 ابو الفرج علی بن ابراہیم بن احمد الحلبی، سیرت حلبیہ(مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:192
  • 5 شیخ سیّد جعفر بن حسن البرزنجی، مولد البرزنجی، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م،ص:538
  • 6 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدی والرشاد فی سیرت خیر العباد ﷺ ،ج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیہ،بیروت، لبنان،2013م،ص:333
  • 7 شیخ احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:76
  • 8 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:84
  • 9 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقئ، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ،ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية ، بيروت،لبنان،2008م،ص:108
  • 10 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرت خیر العبادﷺ،ج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیہ، بیروت ، لبنان،2013م،ص:333
  • 11 ایضا (مترجم:پروفیسرذولفقار علی ساقی )،ج-1،مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز،لاہور، پاکستان،2012ء،ص:293
  • 12 علی شبیر، تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن، انڈیا،1930ء،ص:30-31
  • 13 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری،صحیح مسلم،حدیث:1162،مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:477
  • 14 حافظ ابو الفضل عبد الرحیم بن حسین عراقی،المورد الھنی فی المولد النبیﷺ،مطبوعة:دار السلام للطباعۃ والنشر والتوزیع، القاہرۃ، مصر،2010م،ص:245
  • 15 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی،انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ،ج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:86
  • 16 ابو الفرج علی بن ابراہیم بن احمد الحلبی، سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:194
  • 17 ایضاً،انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ،ج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:86
  • 18 ایضاً، سیرت حلبیہ (مترجم،اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی،پاکستان، 2009ء،ص :195
  • 19 ایضاً، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،2013م، ص:98
  • 20 جبکہ نومولود کی آنکھیں اولاً تو اس طرح کھلتی نہیں ہيں اور اگر کھل بھی جائیں تب بھی عموما روشنی کے سامنے بند ہوجایا کرتی ہیں۔اسی طرح اندھیرے کے بعد صبح کے اجالے میں آسمان کو صحیح طور پردیکھنا بڑی اور پختہ عمر والے افراد کے لیےانتہائی مشکل ہوتا ہے کیونکہ آنکھیں چندھیاتی ہیں جبکہ نبی مکرم ﷺکی آنکھیں مبارک نومولودگی کی حالت میں وہ بھی صبح کے وقت آسمان کی طرف متوجہ تھیں جو کہ اس عمر ميں ايك منفردعمل تھا۔یہی وجہ تھی کہ دیکھنے والوں کو تعجب ہوا کہ اس طرح نومولودگی کی حالت میں آسما ن کی طرف نظر کرنا یقینی طور پر کسی خاص شان کی طرف غماض ہے ۔(ادارہ)
  • 21 سیّد احمد بن زینی دحلان،السیرۃ النبویۃ، ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2014ء،ص:56
  • 22 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ، مطبوعة:مکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م،ص:78
  • 23 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008م،ص:113
  • 24 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج-1، مطبوعة: دار الکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 2008 م، ص:85
  • 25 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعة: دار الکتب العلمیة، بیروت ، لبنان،2013م،ص:346
  • 26 القرآن،سورۃ الضحیٰ93 : 1- 2
  • 27 ابو الفرج علی بن ابراہیم بن احمد الحلبی، سیرت حلبیہ(مترجم:اسلم قاسمی)، ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی،پاکستان، 2009ء،ص :195