Encyclopedia of Muhammad

حضور اکرم ﷺکا یوم وِلادَت

پیر کا دن وہ بابرکت دن ہےجس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول مکرم کی ولادت کے لیے منتخب کیا اور رسول اللہ اس دنیا میں پیر کے دن تشریف لائے۔ 1

رسول مکرم کی زندگی میں بھی پیر کے دن کی اہمیت کافی زیادہ تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سكتا ہے کہ نبوی زندگی کے کئی ایک اہم واقعات اسی دن رونما ہوئے مثلاً آپ کی ولادت ،اعلانِ نبوت ،2آبائی وطن سے ہجرت اور اسی طرح کے دیگر اہم واقعات بھی اسی پیر کے دن رونما ہوئے۔ 3البتہ یہاں صرف یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ آپ پیر کے دن متولد ہوئے ۔

بروزِ پیر ولادت ِ رسول

رسول اکرم کی ولادت بروز پیر ہوناائمہ سیر و تاریخ کے ہاں اصح ترین قول شمار کیا جاتا ہے۔4 انتہائی قلیل تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس کا انکار کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کے بر عکس رائے پر جمہور اہلِ علم نےدلیل و برہان کی روشنی میں شدید گرفت کرکے ان کی رائے کو غیر صائب ثابت کیا ہے۔ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول اکرم سے روزوں کے متعلق مختلف سوالات کیے گئے اورانہی سوالوں میں ایک سوال پیر کے دن روزوں کے متعلق بھی تھا۔چنانچہ حدیث مبارکہ میں منقول ہے:

  عن أبى قتادة الأنصارى رضى اللّٰه عنه قال: سئل عن صوم يوم الاثنين؟ قال: ذاك يوم ولدت فيه، ويوم بعثت أو أنزل على فيه.5
  حضرت ابو قتادۃ انصاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سے پیر کے روزہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا ہے یا اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔

مصنف ابن اسحا ق نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ دو شنبہ بارہ(12) ربیع الاوّل کو سید عالم کی ولادت ہوئی۔6اسی طرح ابن اسحاق کے حوالہ سے امام ابن ہشام نے سیرت ابنِ ہشام میں یوں نقل کیا ہے:

  قال ابن اسحاق ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول عام الفیل.7
  ابن اسحاق نے کہا کہ رسول اللہ بروز پیر بارہ (12)ربیع الاول کو عام الفیل میں پید اہوئے۔

اسی حوالہ سے طبقات الکبریٰ میں ایک روایت یوں مذکور ہے :

  عن ابى جعفر محمد بن على قال: ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین . 8
  ابوجعفر محمد بن علی فرماتے ہیں:رسول اللہ بروز پیر اس دنیا میں تشریف فرماہوئے۔

اسی طرح کی ایک اور روایت ابن عباس سے درج ذیل الفاظ میں مروی ہے:

  عن ابن عباس رضى اللّٰه تعالى عنھما قال: ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الاثنين واستنبى يوم الاثنين، وتوفى يوم الاثنين، ورفع الحجر الأسود يوم الاثنين. 9
  حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور پیر کے دن پیدا ہوئے۔ پیر کے روز آپ کےسر پر نبوت(نزول وحی) کا تاج سجایا گیا۔ پیر کے روز آپ کا وصال ہوا اور پیر کے روز ہی آپ نے حجر ِاسو داٹھایا۔

بہرکیف اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آنحضرت کی ولادت باسعادت دوشنبہ کے دن ہوئی تھی۔اسی قول کو امام ابن ِ کثیر الدمشقی نےالبدایۃ والنھایۃمیں، 10 امام صالحی شامی نےزبیر بن بکار اور ابن ِعساکرکے حوالہ سےسبل الھدٰی میں،11امام یوسف نبہانی نے انوارِ محمدیہ میں 12اورامام احمد رضا خان القادری نے اپنےفتاوٰی میں بھی نقل فرمایا ہے اورساتھ ہی انہوں نےاس کی بھی تصریح کی ہے کہ امام ابن حجر نے بھی اسی قول کو صحیح قرار دیا ہے۔13ان مذکورہ بالا روایات اور حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم بروز پیر اس دنیا میں تشریف لائے اور یہ وجہ تھی کہ آپ اس دن روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنی پیدائش پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔

یومِ ولادت میں منقول اختلاف

آپ کے یومِ ولادت کے بارے میں بھی بعض افراد سے اختلافِ رائے منقول ہے لیکن اس اختلاف ميں ايك منفرد بات یہ ہے کہ اس میں عینیت کا نہیں بلکہ تعیین کا اختلاف ہے۔یعنی علمائے سیر میں سے جنہوں نے اس میں اختلاف کیا ہے انہوں نے تعیین میں اختلاف کیا ہے لیکن وہ بھی جمہور کے بر عکس۔ چنانچہ اس حوالہ سے علامہ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

  وكذا اختلف أيضا فى أى يوم من الشهرفقيل إنه غير معين، إنما ولد يوم الاثنين من ربيع الأول من غير تعيين.14
  اور اسی طرح اختلاف کیا گیا ہے کہ مہینہ کے کس دن میں (ولادت رسول ہوئی) تو اس بارے میں کہا گیا کہ وہ غیر معین ہے البتہ ربیع الاول کے کسی پیر کے دن رسول کریم پیدا ہوئے نہ کہ معین پیر میں۔

البتہ ایک قول ہے جس میں دن کا بھی اختلاف منقول ہے اور اس کو شیخ نور الدین علی سمہودی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہےچنانچہ رسول اکرم کی ولادت کو پیر کے دن بیان کرنے کے بعد وہ اس قو ل کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  وقیل یوم الجمعة.15
  اور(آپ کے یومِ ولادت کے متعلق)کہا گیا ہے کہ وہ جمعہ کے دن ہوئی۔

لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایک تو یہ اختلاف قلیل تعداد کی حامل جماعتِ علماء کا ہے اور وہ بھی ان علماء نے اس اختلاف کولفظِ "قیل" سے تعبیر کر کے اس کے ضعف کی طرف ہی اشارہ کیا ہے۔دوسری یہ بات ذہن نشین رہے کہ قطع نظر اس اختلاف کے ضعف کے جمہور علماء کی رائے اس کے بر عکس ہے۔چنانچہ اس اختلاف کو ذکر کرنےکے بعد جمہور علماء کی رائے بیان کرتےہوئے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

  والجمھور على أنه يوم معين منه.16
  جبکہ جہور علمائے امت اس بات پر(متفق) ہیں کہ وہ معین (عام الفیل کے بارہ(12) ربیع الاول والے پیرکا)دن ہے۔

اسی طرح مؤرخِ مدینہ شیخ نور الدین علی سمہودی اپنے قدیم عربی مخطوطہ میں جمعۃ المبارک کے دن ولادت رسول ہونے کے کمزور قول کو درج کرنے کے بعد رسول اکرم کے یوم ِپیدائش کے حوالے سے صحیح ترین قول ذکر کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں :

  فاصبح (رسولاللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم) صبیح الوجه یوم الاثنین مولودًا لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول على الصحیح الذى علیه القول. 17
  رسول مکرم بروز پیر بارہ(12)ربیع الاوّل کو صبح کے وقت اس دنیا میں جلوہ گرہوئے اس صحیح مؤقف کے مطابق جس پر کلام کیا گیاہے۔

یہاں تک کہ یوم ولادت رسول کو بروز پیر کے علاوہ کسی اور دن کہنے والے شخص کے لیے غلطی کے اور خطا کے لفظ تک لکھے گئے ہیں۔چنانچہ یومِ ولادتِ رسول کو بیان کرتے ہوئے اور اس کے اختلافی قول کو ذکر کرتے ہوئے امام حلبی تحریر فرماتے ہیں:

  ولد (الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم) یوم الاثنین قال بعضھم لاخلاف فیه واللّٰه اعلم بل اخطا من قال ولد یوم الجمعة. 18
  (رسول اللہ )بروز پیر متولد ہوئے،بعض محققین نے لکھا ہے کہ پیر کے دن ولادتِ رسول اکرم میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ اس نے غلطی کی جو یہ کہتا ہے کہ آپ جمعہ کے دن پیدا ہوئے۔19

بہر کیف ان تمام مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ رسول اکرم کی ولادت پیر کے دن ہوئی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ تعیینِ پیرمیں اختلاف ہے جو کہ جمہور کے بر عکس ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتناء ہے۔

نبوی زندگی میں پیر کے دن کی اہمیت

رسول اکرم کی زندگی میں بھی پیر کے دن کی کافی زیادہ اہمیت تھی جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ایک تو یہ کہ رسول کریم کی ولادت کا دن بھی پیر کا دن ہے اور اس میں نبی اکرم اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنےکے لیے روزہ رکھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت قتادہ سے امام مسلم نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔20دوسری وجہ یہ ہے کہ کئی ایک ایسے اہم واقعات جن کی بنا پر نبی اکرم کی زندگی میں یکسر تغیر و تبدل ہوا وہ واقعات بھی پیر کے دن ہی رونما ہوئے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحق نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں مذکور ہے:

  أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال لبلال: ألا لا يغادرك صيام الإثنين، وأوحي لى يوم الإثنين، وهاجرت يوم الإثنين، وأموت يوم الإثنين.21
  بلاشبہ رسول اللہ نے حضرت بلال سے ارشاد فرمایا:خبردار کہ تم سے پیر کا روزہ نہ چھوٹنے پائے کہ مجھ پر پیر کے دن ہی وحی کی گئی اور پیر کے دن ہی میں نے ہجرت کی اور پیر کے دن ہی میرا وصال ہوگا۔

ا س مذکورہ روایت میں نبی اکرم نے اپنی زندگی مبارک کے تین اہم واقعات کا ذکر فرمایا ہے: ایک وحیِ الہی کے آغاز کا ،دوسراپنےآبائی وطن مکّہ مکرّمہ سے مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کرنے کا اور تیسرا اپنے وصال ِ مبارک کا جو فی نفسہ کئی دوسرے اہم واقعاتِ نبوی کا پیش خیمہ ہیں ۔اسی طرح حضرت ابن عباس نے بھی اس حوالہ سے درجِ ذیل روایت میں مذکورہ واقعات کاتذکرہ کیاہے اور مدینہ منورہ پہنچنے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے:

  ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الاثنين فى أول شھر ربيع الأول، وأنزلت عليه النبوة فى يوم الاثنين فى أول شھر ربيع الأول. ودخل المدينة فى يوم الاثنين فى أول شھر ربيع الأول، وتوفى الاثنين فى أول شھر ربيع الأول.22
  رسول اللہ پیر کے دن ربیع الاوّل کےمہینے کے ابتداءمیں پیدا ہوئے اور آپ پرربیع الاوّل کے مہینے کی ابتداء میں پیر کے دن ہی نبوت(وحی) اتری اور آپ نے پیر کے دن ربیع الاوّل کے مہینے کی ابتداء میں مدینے میں داخل ہوئے اور پیر کے دن ماہِ ربیع الاوّل کی ابتداءمیں آپ کاوصال مبارک ہوا۔

اسی طرح ایک اور روایت میں پیر کے دن ہی کے دیگر اہم واقعات کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:

  ولد نبيكم صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الإثنين، ونبى يوم الإثنين، وخرج من مكة يوم الإثنين، وفتح مكة يوم الإثنين، ونزلت سورة المائدة يوم الإثنين، اليوم أكملت لكم دينكم، وتوفى يوم الإثنين.23
  تمہارے نبی پیرکے دن پیدا ہوئے اور پیر کے دن ہی وحی الہی سے نبی ہوئے اور مکہ سے پیر کے دن نکلے ، پیر کے دن ہی مکہ کو فتح فرمایا ، سورۃ المائدۃ بھی پیر ہی کے دن نازل ہوئی یعنی "الیوم اکملت لکم دینکم" (کی آیت)اور وصال مبارک بھی پیر کے دن ہوا۔

ان مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم کی زندگی میں بھی اس پیرکے دن کی اہمیت کافی زیادہ رہی ہے کیونکہ کئی ایک ایسے اہم واقعات جو دیگر واقعات کا پیش خیمہ بنے وہ تمام اسی پیر کے دن وقوع پذیر ہوئے ۔ اس دن رسول اکرم روزہ بھی رکھا کرتے تھے جس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ میں اس دن متولد ہوا اور اسی دن وحی الٰہی کی ابتداء ہوئی۔24

پیر کے دن پیدا ہونے کی حکمتیں

رسول اکرم کی ولادت با سعادت پیر کے دن ہونےکی حکمت کے بارے میں علمائے سیر نے کلام کیا ہے اور خصوصًا آپ کے سن و ماہِ ولادت اورتاریخ و یومِ ولادت کے اختصاص کو بیان کیاہے۔یہاں پر یومِ ولادت کی خصوصیت کے حوالہ سے صاحبِ مدخل کا اس بارے میں تحریر کردہ کلام ذکر کیا جارہا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  فإن قال قائل ما الحكمة فى كونه صلى اللّٰه عليه وسلم خص مولده الكريم بشھر ربيع الأول وبيوم الاثنين منه على الصحيح والمشھور عند أكثر العلماء ولم يكن....فى ليلة النصف من شعبان ولا فى يوم الجمعة ولا فى ليلتھا....فانه ما ورد فى الحديث من أن اللّٰه تعالى خلق الشجر يوم الاثنين وفى ذلك تنبيه عظيم، وھو أن خلق الأقوات والأرزاق والفواكه والخيرات التى يتغذى بھا بنو آدم ويحيون ويتداوون وتنشرح صدورھم لرؤيتھا وتطيب بھا نفوسھم وتسكن بھا خواطرھم عند رؤيتھا لاطمئنان نفوسھم بتحصيل مايبقي حياتھم على ما جرت به العادة من حكمة الحكيم سبحانه وتعالى فوجوده صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذا الشھر فى ھذا اليوم قرة عين بسبب ما وجد من الخير العظيم والبركة الشاملة لأمته صلوات اللّٰه عليه وسلامه.25
  اگر کوئی اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرے کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ آپ کی ولادت کو ربیع الاوّل کے مہینہ میں اس کے پیر کے دن کے ساتھ مختص کیا گیا جیساکہ صحیح اور اکثر علمائے کرام کے نزدیک مشہو روایت یہی ہےاورآپ ۔۔۔شعبان کی پندرہ( 15 )تاریخ کو پیدا ہوئے، نہ ہی جمعۃ المبارک کےروز یا دن کوپیدا ہوئے ؟ تو (اس کا جواب) یہ ہے جو حدیث میں وارد ہوا ہے کہ" بلا شبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نےپیر کے دن درختوں کوپیدا فرمایا " 26 اور اس میں ایک عظیم تنبیہ ہے ۔وہ یہ ہے کہ بلا شبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوتیں ،رزق کی اشیاء،پھل اور مال کو پید ا فرمایا جن سے بنی آدم غذا ء حاصل کرتے ہیں ، زندہ رہتےہیں اور علاج کرتےہیں،جن کو دیکھ کر ان کے سینےکھل جاتے ہیں اور ان کے دل خوش ہوجاتے ہیں۔ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے دلوں کے خوش ہونے کی وجہ حکیم سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت کے مطابق چلنے والے نظام کے تحت ان چیزوں کا حصول ہے جن پر ان کی زندگی کی بقاء کا دارو مدار ہے ۔لہذا اس ماہ کے اس دن میں رسول کریم کی ولادت آنکھوں کی ٹھنڈ ک ہے بسببِ خیرِ عظیم اور تمام امت محمدیہ کو شامل ہونے والی برکت کے مل جانے کی وجہ سے۔

اسی مضمون کو من و عن امام صالحی شامی نے بھی سبل الھدی میں نقل کیا ہے۔27اس مذکورہ عبارت کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اکرم کے پیر کے دن متولد ہونے میں خیر عظیم اور انتہائی برکات کے حصول کی طرف اشارہ ہے۔اس کے علاوہ شیخ قسطلانی نے بھی پیر کے دن میں ولادت رسول ہونے کے حوالہ سے ایک خاص پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے چنانچہ وہ اس بارے میں کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وإذا كان يوم الجمعة الذى خلق فيه آدم خص بساعة لا يصادفھا عبد مسلم يسأل اللّٰه فيھا خيرا إلا أعطاه إياه، فما بالك بالساعة التى ولد فيھا سيد المرسلين صلى اللّٰه عليه وسلم ولم يجعل اللّٰه تعالى فى يوم الاثنين يوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم من التكليف بالعبادات ما جعل فى يوم الجمعة المخلوق فيه آدم من الجمعة والخطبة وغير ذلك إكراما لنبيه صلى اللّٰه عليه وسلم بالتخفيف عن أمته بسبب عناية وجوده قال تعالى: وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين.28 ومن جملة ذلك: عدم التكليف.29
  جب جمعۃ المبارک کا یہ عالم ہے کہ اس دن حضرت آدم کی ولادت مبارکہ ہوئی اور اس میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں کوئی مسلمان بندہ بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے تو اس وقت کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس میں تمام مرسلین کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم کی ولادت باسعادت کے دن یعنی سوموار کو وہ عبادات نہیں رکھیں جو جمعہ کے دن رکھیں جس میں حضرت آدم پیداہوئے یعنی جمعہ کی نماز اور خطبہ وغیرہ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کے احترام و اکرام کے طور پر آپ کے وجودِ مسعود کی وجہ سے سوموار کے دن آپ کی امت پر تخفیف رکھی، ارشاد ربانی ہے: اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کراور اس رحمت میں سے ایک بات یہ ہے کہ آپ کی ولادت کے دن کسی خاص عبادت کا مکلف نہیں بنایا۔ 30

یعنی کہ جمعۃ المبارک میں حضرت آدم کی ولادت کے سبب مخلوقات کے لیے ایک ایسی ساعت رکھدی گئی ہے کہ جس میں دعائیں جلد قبول کی جاتی ہیں تو اس دن میں دعا کی قبولیت کا کیا عالم ہوگا جس میں رسول اکرم کی ولادت ہوئی لیکن پیر کے دن جمعۃ المبارک کی طرح عبادات کا مکلف صرف اس لیے نہیں بنایا گیا کہ امتِ محمدیہ کسی مشقت میں مبتلا نہ ہوجائے۔

درج بالا تمام تحریرات وعبارات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ پیر کا دن ہی یوم ولادت رسول ہے اور اس کی اہمیت بھی کافی زیادہ ہے۔رسول مکرم کی زندگی میں بھی اس دن کئی ایک اہم واقعات رونما ہوئے اور رسول مکرم اللہ تبارک وتعالی کا شکرادا فرمانے کے لیے اس دن روزہ بھی رکھا کرتے اور اس بات کا اظہار بھی فرماتے کہ میں اس دن میں روزہ اس وجہ سے رکھتا ہوں کیونکہ یہ میری ولادت کا دن ہے ۔

 


  • 1 أبو عبد الله محمد بن سعد ،الطبقات الكبرى، ج-1،مطبوعة: دار الكتب العلمية ،بيروت ،لبنان، 1990م،ص:100
  • 2 شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی،الانوار المحمدیہ،مطبوعہ:مکتبہ نبویہ،لاہور،پاکستان،2017ء ،ص:43
  • 3 ابو محمد عبد الملک بن ہشام ، السیرۃ النبویة، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:128
  • 4 شیخ نو رالدین علی بن احمد سمہودی،الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعۃ:زاویۃببلشرز،لاہور،باکستان، 2015م،ص:111
  • 5 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2747،مطبوعة:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 6 امام محمدبن اسحاق المطلبی ،سیرت رسولِ پاکﷺ(مترجم:محمد اطہر نعیمی)،مکتبہ نبویہ ، لاہور،پاکستان،1421ھ،ص:140
  • 7 ابو محمد عبد الملک بن ہشام ، السیرۃ النبویۃ، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:128
  • 8 أبو عبد الله محمد بن سعد البصری، الطبقات الكبرى، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1990م، ص:100
  • 9 امام محمد بن يوسف الصالحی الشامي، سبل الهدى والرشاد فى سيرةخیر العبادﷺج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،2013م،ص:333
  • 10 ابوالفداءاسماعیل ا بن کثیر الدمشقی،البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص:259
  • 11 امام محمد بن يوسف الصالحی الشامي،سبل الهدى والرشاد فى سيرةخیر العبادﷺ،ج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:333
  • 12 شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی،الانوار المحمدیہ،مطبوعہ:مکتبہ نبویہ،لاہور،پاکستان،2017ء ،ص:43
  • 13 امام احمد رضاخان القادری، فتاوٰی رضویہ ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان،2004ء،ص:408
  • 14 شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:75
  • 15 شیخ نو رالدین علی بن احمد سمہودی،الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعۃ:زاویۃببلشرز،لاہور،باکستان، 2015م،ص:111
  • 16 شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:75
  • 17 شیخ نو رالدین علی بن احمد سمہودی،الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعۃ:زاویۃببلشرز،لاہور،باکستان، 2015م،ص:111
  • 18 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:84
  • 19 ابو الفرج علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی، سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت، کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:192
  • 20 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2747، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،2000م، ص:477
  • 21 امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ ،ج-1،مطبوعۃ: دا رالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:174
  • 22 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت،لبنان،2012م،ص:87
  • 23 ابو بکر احمد بن حسین البیھقی، دلائل النبوۃ، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،2008م، ص:233
  • 24 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2747، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،2000م، ص:477
  • 25 ابو عبد اللہ محمد بن محمد المعروف بابن الحجاج،کتاب المدخل،ج-2، مطبوعۃ:دار احیاءالتراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 26 -27
  • 26 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2789، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:1216
  • 27 امام محمد بن يوسف الصالحی الشامي، سبل الهدى والرشاد فى سيرةخیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:337
  • 28 القرآن،سورۃ ا لانبیاء21: 107
  • 29 شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:75
  • 30 شیخ احمد بن محمد قسطلانی، المواہب الدنیۃ بالمنح المحمدیۃ(مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ :فرید بک اسٹال، لاہور،پاکستان ،2004ء،ص:89