Encyclopedia of Muhammad

نبی اکرم ﷺکا ماہ وِلادَت

یہ مقالہ نبی کریم ﷺکی ولادت ِبا سعادت کے ماہِ مبارکہ کے بارے میں ہے۔ بلا مبالغہ وہ مہینہ جس میں آپ ﷺکی ولادت اقدس ہوئی ہے وہ مہینہ انتہائی شرف و عظمت کا حامل ہے۔ارباب سیر نے اس موضوع پر اور ساتھ ہی اس کے متعلقات مثلاً اس ماہ کی عظمت ، اس کے لغوی معنی اور اہل عرب کے ہاں یہ ماہ کس موسم میں آتا تھاوغیرہ پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

سرکارِ دو عالم ﷺکی ولادت اکثرو بیشتر علماء سیر کے نزدیک ماہ ربیع الاوّل میں ہوئی ہے اگرچہ بعض ارباب سیر اور مؤرخین کا اس میں اختلاف ہے لیکن مشہور یہی ہے کہ آپ ﷺکا ماہِ ولادت ر بیع الاوّل ہی ہے ۔ جمہور علماء کا بھی یہی قول ہے1 اور ابن جوزی نے تو اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔2

اسی حوالہ سے امام حلبی نے سعید ابن مسیب والی روایت کو نقل کیا ہےکہ نبی کریم ﷺدن کے اوّل(صبح صادق)کے وقت متولد ہوئے اس روایت کی تشریح کرتےہوئے آپتحریر فرماتے ہیں:

  وكان ذلک فى فصل ربیع الاول...وحکى الاجماع علیه وعلیه العمل الاٰن اى فى الامصار خصوصاً اھل مکة فى زیارتھم موضع مولده صلى اللّٰه عليه وسلم.3
  اور رسول اکرم ﷺکی ولادت ربیع الاوّل کے مہینہ میں ہوئی تھی ۔۔۔اور اس پر اجماع کو نقل کیا گیا ہے۔اسی قول پر اب تک شہر والوں کا عمل ہے خصوصاً اہل مکّہ کا نبی کریم ﷺکے مقام ِ مولد کی زیارت کرنے میں ۔

یعنی اسلامی ممالک میں اسی قول پر آج تک عمل ہے کہ وہ ماہ ربیع الاوّل میں ہی نبی کریم ﷺکی ولادت کےحوالہ اور اس کی مناسبت سے آپ ﷺاور آپ ﷺکے مولد مبارک کا تذکرہ کرتےہیں ۔ خصوصاً اہل مکّہ تو اسی ماہ میں مقام مولد النبی ﷺکی زیارت سےمشرف ہوتے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماہ ربیع الاوّل میں ولادت نبوی ﷺمتفق علیہ امر ہے۔اسی حوالہ سے امام ابن ہشا منقل کرتے ہیں:

  قال ابن اسحاق ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول عام الفیل. 4
  ابن اسحاق کہتےہیں کہ رسول اللہ ﷺپیر کے دن ماہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو عام الفیل کو پیدا ہوئے۔

اسی طرح مولد رسول ﷺکے ماہ کو بیان کرتے ہوئے صاحب ِمواہب اللدنیہ تحریر فرماتے ہیں:

  والمشھور انه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد فى شھر ربیع الاوّل وھو قول جمھور العلماء وقال ایضا فى شھر ربیع الاوّل على الصحیح .5
  ربیع الاوّل میں ولادت شریف ہونا یہ جمہور علماء کا قول ہے پھرمزید کہا کہ صحیح قول کے مطابق ولادت ربیع الاوّل میں ہے ۔

اس كی شرح کرتے ہوئے علامہ زرقانی تحریر کرتے ہیں:

  قال ابن كثير ھو المشھور عند الجمھوروعلیه العمل. 6
  ابنِ کثیر نے کہاجمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے اور اسی پر عمل ہے ۔

اسی حوالہ سے امام احمد رضا خان القادری تحریر فرماتے ہیں :

  رسول اللہ ﷺکی ولادت باسعاد ت کے ماہ کے بارے میں رجب ، صفر، ربیع الاوّل ، محرم ، رمضان سب کچھ کہا گیا جبکہ صحیح و مشہورا ور قول جمہور ماہ ربیع الاوّل ہے۔7چنانچہ مدارج میں شاہ عبد الحق محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں :
  مشھور آنست كودر ربیع الاوّل بود.8
  مشہور یہ ہے کہ ولادت مبارکہ ماہ ربیع الاوّل شریف میں ہوئی۔

اسی طرح شرح الہمزیہ میں ہے:

  الاصح فى شھر ربیع الاول. 9
  اصح یہ ہے کہ ماہ ربیع الاوّل میں آپ ﷺکی ولادت ہوئی۔

اس بات کے باوجود کہ علماء اقوال مذکورہ سے آگاہ تھے انہوں نے محرم ،رمضان اوررجب میں رسول کریم ﷺکی ولادت کی نفی فرمائی ہے۔ واضح رہے کہ بعض علماء نےماہِ ولادت کے حوالہ سے محرم الحرام،رجب اور رمضان المبارک کے مہینوں کا بھی ذکر کیا ہےلیکن ان کی یہ رائے جمہور ائمہ کرام کی کے بر عکس ہونے کی وجہ سے کبھی بھی مسلمانوں کے ہاں قبولیت کا درجہ نہیں پاسکی۔بعض ائمہ سیرت وحدیث کے ان تواریخ پر حقائق و اعداد کی روشنی میں علمی نقد نے ان آراء کی ثقاہت کو ساقط الاعتبار کردیا ہے۔مثلا شیخ احمد بن محمد قسطلانی کی درجِ ذیل رائے کے ساتھ ساتھ دوسرے ائمہ کرام کی آراء بھی ان آراء کا رد کرتی ہیں: چنانچہ مواہب اللدنیہ میں ہے:

  لم یکن فى المحرم ولا فى رجب ولا فى رمضان.10
  ولادت مبارکہ نہ تو محرم میں ہوئی اور نہ ہی رجب میں اور نہ ہی رمضان میں۔

اسی طرح شرح ام القرٰی میں ہے:

  لم یکن فى الاشھرالحرم او رمضان.11
  حرمت والے مہینوں یا رمضان میں ولادت مبارکہ نہ ہوئی۔

حُرمت والے مہینوں یارمضان میں ولادت مبارک نہیں ہوئی یہاں تک کہ علامہ ابن الجوزی و ابن جزار نے اسی پر اجماع نقل کیا ہےجيساكہ ابن جوزی کی صفوہ میں ہے ۔ 12 پس اس کا انکار اگر ترجیحات علماء و اختیار جمہور کی ناواقفی سے ہو تو جہل ورنہ مرکب کہ اس سے بدتر۔13

ماہ ِولادت اور علمائے اسلام

ابن ِکثیر نے لکھا ہے کہ جمہور علماء کا قول ہے کہ آپ ﷺربیع الاوّل کے مہینہ میں اس دنیا میں تشریف لائے۔14

امام سہیلی نے لکھا ہے کہ یہی بات معروف ہےاوربعض نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔15

اسی طرح ابنِ حجر مکی نے آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کی تاریخ کو اپنےدرجِ ذیل شعر میں قلمبند فرمایاہے:

  وفى ربیع الاول ولد النبى المرسل صلى اللّٰه عليه وسلم.16
  نبی مرسل ﷺماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے۔

اسی طرح شیخ القسطلانی نے بھی اس حوالہ سے ان اشعار کو نقل کیا ہے۔

  یقول لنا لسان الحال منه
وقول الحق یعذب للسمیع
فوجھی والزمان وشھر وصغی
ربیع فی ربیع فی ربیع.17

  آپ زبان سےہمیں حکم فرماتے ہیں اور سچی بات سننے والے کو میٹھی لگتی ہے۔میرا چہرہ،میرا زمانہ ‏اور ولادت کا مہینہ بہارمیں بہار میں بہار ہے۔18

انہی اشعار کو اما م حلبی نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ 19 اس سے معلوم یہ ہوا کہ رسول اکرم ﷺکی ولادت کےماہ میں دیگر اقوال منقول تو ہیں لیکن غیر موثوق ہیں اور ا س کے بر عکس ماہ ربیع الاوّل میں ولادتِ رسول ﷺکا ہونا جمہور علمائےاسلام، خواہ محدثین ہوں یا مؤرخین و اہل ِ سیر،تمام کے نزدیک متفق علیہ ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب

رسول اکرم ﷺکا ماہ ولادت جمہور علماء امت کے ہاں ماہ ربیع الاوّل ہی ہےالبتہ اس قو ل کی بنا پر ایک صریح اشکال وارد ہوتا ہے جس کو امام احمد رضا خاں القادری نے بھی اس مقام پر ذکر کر کے اس کا جواب دیا ہےچنانچہ وہ اشکال اور اس کاجواب ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  البتہ ماہ ربیع الاوّل میں ولادت رسول ﷺہونے کی صورت میں ماہ ذی الحجہ میں استقرارِ حمل ہونے میں صریح اشکال وارد ہوتا ہے کہ دوبارہ حمل چھ مہینے سے کم مدت میں عادۃً محال ہے جبکہ مدتِ حمل شریف نو ماہ ہونا اصح الاقوال ہے تو یہ تینوں اقوال آپس میں کیونکر مطابق ہوں گے؟اس کا جواب یہ ہے کہ مہینے زمانۂ جاہلیت میں معین نہ تھے اہلِ عرب ہمیشہ شہر ِحرم کی تقدیم و تاخیر کرلیتے جس کے سبب ذی الحجہ ہر ماہ میں دورہ کرجاتاجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کا مہینے پیچھے ہٹانا نہیں مگر کفر میں اور بڑھنا، اس سے کافر بہکائے جاتے ہیں کہ ایک برس اسے حلال ٹھہراتے ہیں اور دوسرے برس اسے حرام مانتے ہیں کہ اس گنتی کے برابر ہوجائیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمائی۔20 یہاں تک کہ صدیق اکبر و مولیٰ علی نے جو ہجرت سے نویں سال حج کیا وہ مہینہ واقع میں ذیقعدہ تھا ۔سال دہم میں ذی الحجہ اپنے ٹھکانے سے آیا چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے حج فرمایا اور ارشادفرمایا:
  ان الزمان قد استسدار كھیاته یوم خلق اللّٰه السموات والارض.21
  یعنی زمانہ دورہ کرکے اسی حالت پر آگیا جس پر روز ِتخلیقِ زمین و آسمان تھا ۔

امام مسلمنے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ 22اس دن سے رسمِ نسئی، نسیاً منسیا ہوئی اور یہی بارہ(12) ماہ کا دورہ قیامت تک رہا تو کچھ بعید نہیں کہ اس ذی الحجہ سے ربیع الاوّل تک نو مہینے ہوں ۔شاید شیخ محقق اسی نکتہ کی طرف مشیر ہیں کہ زمانہ استقرار مبارک کو ایامِ حج سے تعبیر کیا نہ کہ ذی الحج سے ، اگرچہ اس وقت کے عرف میں اسے ذی الحجہ بھی کہنا تھا۔ جاہلیت کا دور نسئی اگر منتظم مانا جائے یعنی علی التوالی ایک ایک مہینہ ہٹاتے ہوں تو سال استقرار حمل اقدس ذی الحجہ، شعبان میں پڑتا ہے نہ کہ جمادی الآخر میں کہ ذی الحجہ حجۃ الوداع شریف جب عمر اقدس حضور پُر نور ﷺسے تریسٹھواں (63)سال تھا ذی الحجہ میں آیا توبارہ بارہ ( 12،12)کے اسقاط سے ذی الحجہ میں ہوا اوردوسرا سال ذی القعدہ اور پہلا سال شوال، ولادت شریفہ رمضان اور سال استقرار حمل مبارک، شعبان میں۔ لیکن ان نامنتظموں کی کوئی بات منظم نہ تھی جب جیسی چاہتے کرلیتے ، لٹیرے لوگ جب لوٹ مار چاہتے اور مہینہ ان کے حسابوں میں اشہرِحرم سے ہوتا تو اپنے سردار کے پاس آتے اور کہتے اس سال یہ مہینہ حلال کردے، وہ حلال کردیتاجیسا کہ اس کو جریر، منذر، مردویہ اور ابو حاتم کے بیٹوں نے سیّدنا ابن عباس سے روایت کیا ہے تو اس سال جمادی الآخرہ میں ذی الحجہ ہونا کچھ بعید نہیں ۔ 23علامہ شامی لکھتے ہیں: بعض علماء کا قول ہے کہ آنحضرت ﷺکا حمل رجب کے مہینے میں ہوا تھا۔ اس کو ماننے کی صورت میں یہ مشہور قول درست ہوجائے گا کہ آپ ﷺکی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی۔ 24 ( کیونکہ اس طرح سے ربیع الاول تک نو مہینے ہوجاتے ہیں ) ۔25

ربیع الاوّل میں ولادت با سعادت کی حکمت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک ایسے مہینہ کو رسول اکرم ﷺکی ولادت کے لیے منتخب فرمایا جس کی شرف و عظمت اس سے پہلے لوگوںمیں متعارف نہیں تھی۔البتہ جب سے اس ماہ میں رسول اکرم ﷺکی ولادت مبارکہ ہوئی ہے تب سے آپ ﷺکی ولادت کے ساتھ تعلق پاکر یہ مہینہ بھی عظمت و رفعت کا حامل ہوگیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺتمام عزتوں اور مرتبوں کے حامل ہیں اور آپ ﷺکے ساتھ تعلق پاکر اشیاء کو عزو شرف نصیب ہوتے ہیں چنانچہ ذوات ومقامات کی طرح زمانے کو بھی آپ ﷺسے نسبت کی وجہ سے شرف حاصل ہوا۔

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ نبی کریم ﷺکی ولادت با سعادت "ربیع الاول "میں ہوئی ہے تو اس میں کیا حکمت ہے ؟ جبکہ "اشہر ُالحرام" باقی مہینوں سے افضل ہیں لیکن ا ن میں آپ ﷺکی ولادت نہ ہوئی اور نہ ہی "سیّدالشہور"یعنی رمضان المبارک میں ہوئی ؟تو اس میں کئی حکمتیں ہیں:

پہلی حکمت یہ ہے کہ اس سےایک وہم کو دور کرنا تھا کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حضور نبی کریم ﷺکو شرافت و کرامت کسی "خاص زمانہ"کی وجہ سے ملی ہے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺبذاتہ مشرف و مکرم تھے اور آپ ﷺسے زمانہ نے شرافت و بزرگی پائی جیسا کہ مختلف مکانات و مقامات کوآپ ﷺکی وجہ سے شرف ملا ۔اسی طرح مدینہ منورہ میں دفن ہونے میں بھی یہی حکمت تھی کیونکہ مکّہ مکرّمہ کی توپہلے سےہی فضیلت تھی وہاں دفن ہونے کی صورت میں ایک تو مدینہ منورہ کو اعزاز نہ ملتا اور دوسرا یہ سمجھا جاتا کہ مکّہ کی وجہ سے آپ ﷺکو شرف ملا ہے۔ 26

یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر حضوراکرم ﷺرمضان یا حرمت والے مہینوں یا شعبان مبارک میں پیدا ہوتے تو بعض ناسمجھ اس سے بے بنیاد وہم کا شکار ہوجاتے کہ آپ ﷺکو جو عظمت و شان حاصل ہے ، وہ ان مہینوں کی فضیلت اور قدر و منزلت کی وجہ سے ہےلیکن خالق حکیم جل جلالہ نے چاہا کہ آپ ﷺکی ولادت ماہِ ربیع الاول میں ہو تاکہ وہ آپ ﷺکے وجودِ مسعود کی برکت سے شرف و بزرگی حاصل کرے اور نبی کریم ﷺاور جشنِ میلاد نبوی ﷺکی بدولت خدائے اعلی و قدیر کی عنایات و نواز شات کا اظہار ہو۔ 27

دوسری حکمت یہ ہےکہ یہ آپ ﷺکی شریعتِ مطہرہ میں بھی عمدہ مہینہ ہے۔ فصلِ ربیع سب سے اچھا اور معتدل موسم ہے۔ اس میں کپکپادینے والی سردی ہوتی ہے نہ جھلسا دینے والی گرمی۔ اس کی نہ رات لمبی ہوتی ہے ، نہ دن اور یہ موسمِ خزاں، جاڑے اور گرمیوں کے موسموں کی تمام بیماریوں سے پاک ہوتا ہے بلکہ لوگ اس میں نئی زندگی اور جوش و ولولہ پاتے ہیں۔ ان کی راتیں یادِالٰہی میں قیام اور ان کے دن روزے کے لیے ساز گارہوتے ہیں۔ یہ فضل ورحمت و شفقت کی شریعت کے مطابق ہے جسے حضور اکرم ﷺلے کر تشریف لائے۔ 28

اسی حوالہ سے حضرت ابو عبد اللہ بن الحاج نے "المدخل" میں ایک مذکورہ بالا اشکال کے مماثل ایک اشکال لکھا ہے اور ا سکے جوابات بھی تحریر کیےہیں چنانچہ وہ اشکال وجوابات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  فإن قال قائل ما الحكمة فى كونه صلى اللّٰه عليه وسلم خص مولده الكريم بشھر ربيع الأول وبيوم الاثنين منه على الصحيح والمشھور عند أكثر العلماء ولم يكن فى شھر رمضان الذى أنزل فيه القرآن وفيه ليلة القدر واختص بفضائل عديدة ولا فى الأشھر الحرم التى جعل اللّٰه لھا الحرمة يوم خلق السموات والأرض ولا فى ليلة النصف من شعبان ولا فى يوم الجمعة ولا فى ليلتھا فالجواب من أربعة 29 أوجه: الوجه الأول: ماورد فى الحديث من أن اللّٰه تعالى خلق الشجر يوم الاثنين وفى ذلك تنبيه عظيم، وھو أن خلق الأقوات والأرزاق والفواكه والخيرات التى يتغذى بھا بنو آدم ويحيون ويتداوون وتنشرح صدورھم لرؤيتھا وتطيب بھا نفوسھم وتسكن بھا خواطرھم عند رؤيتھا لاطمئنان نفوسھم بتحصيل مايبقى حياتھم على ماجرت به العادة من حكمة الحكيم سبحانه وتعالى فوجوده صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذا الشھر فى ھذا اليوم قرة عين بسبب ما وجد من الخير العظيم والبركة الشاملة لأمته صلوات اللّٰه عليه وسلامه. الوجه الثانى أن ظهوره صلى اللّٰه عليه وسلم فى شھر ربيع فيه إشارة ظاهرة لمن تفطن إليھا بالنسبة إلى اشتقاق لفظة ربيع إذ أن فيه تفاؤلا حسنا ببشارته لأمته صلى اللّٰه عليه وسلم والتفاؤل له أصل أشار إليه صلى اللّٰه عليه وسلم وقد قال الشيخ الإمام أبو عبد الرحمن الصقلى لكل إنسان من اسمه نصيب ھذا فى الأشخاص وكذلك فى غيرھا وإذا كان كذلك ففصل الربيع فيه تنشق الأرض عما فى باطنھا من نعم المولى سبحانه وتعالى وأرزاقه التى بھا قوام العباد وحياتھم ومعايشھم وصلاح أحوالھم فينفلق الحب والنوى وأنواع النبات والأقوات المقدرة فيھا فيبتھج الناظر عند رؤيتھا وتبشره بلسان حالھا بقدوم ربيعھا وفى ذلك إشارة عظيمة إلى الاستبشار بابتداء نعم المولى سبحانه وتعالى...فمولده صلى اللّٰه عليه وسلم فى شھر ربيع فيه من الإشارات ما تقدم ذكر بعضه وذلك إشارة ظاھرة من المولى سبحانه وتعالى إلى التنويه بعظيم قدر ھذا النبى الكريم صلى اللّٰه عليه وسلم وأنه رحمة للعالمين وبشرى للمؤمنين وحماية لهم من المھالك والمخاوف فى الدين وحماية للكافرين بتأخير العذاب عنھم فى الدنيا لأجله صلى اللّٰه عليه وسلم لقوله تعالى {وَمَا كَانَ اللّٰه لِيُعَذَِّبَھم وَأَنتَ فِيھم} 30 وكيف لا يكون ذلك والخير كله فى الاتباع، وإدرار نعم المولى سبحانه وتعالى إنما يكثر عند الامتثال لأمره واتباع سنن أنبيائه ومخالفة العدو اللعين وجنوده ألا ترى أنه صلى اللّٰه عليه وسلم حين خروجه إلى ھذا الوجود لم يقدر اللعين إبليس وجنوده على القرار فى ھذه الأرض ولا فى الثانية ولا فى الثالثة إلى أن نزلوا إلى الأرض السابعة فخلت الأرض منھم ببركة وجوده صلى اللّٰه عليه وسلم فيھا...وفى ھذاإشارة عظيمة دالة على كرامته صلى اللّٰه عليه وسلم عند ربه والاعتناء به وبمن تبعه.31
  اگر کوئی اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرے کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ آپ ﷺکی ولادت کو ربیع الاوّل کے مہینہ کےساتھ مختص کیا گیا جیساکہ صحیح اور اکثر علمائے کرام کے نزدیک مشہو روایت یہی ہےاورآپ ﷺرمضان المبارک میں پیدا نہ ہوئے جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا، جس میں شب قدر بھی ہے جو کئی فضائل کے ساتھ مختص ہے ،نہ ہی آپ ﷺاشہرِ حرم میں پیدا ہوئےجن کو رب تعالیٰ نے اس دن سے حرمت والا بنایا ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کی تھی۔اسی طرح نہ ہی آپ ﷺشعبان کی پندرہ( 15 )تاریخ کو پیدا ہوئے، نہ ہی جمعۃ المبارک کےروز یا دن کوپیدا ہوئے ؟ تو اس کے چار جوابات ہیں: پہلاجواب یہ ہے جو حدیث میں وارد ہوا ہے کہ" بلا شبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نےپیر کے دن درختوں کوپیدا فرمایا "اور اس میں ایک عظیم تنبیہ ہے ۔وہ یہ ہے کہ بلا شبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوتیں ،رزق کی اشیاء،پھل اور مال کو پید ا فرمایا جن سے بنی آدم غذا ء حاصل کرتے ہیں ، زندہ رہتےہیں اور علاج کرتےہیں،جن کو دیکھ کر ان کے سینے کھل جاتے ہیں اور ان کے دل خوش ہوجاتے ہیں۔ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے دلوں کے خوش ہونے کی وجہ حکیم سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت کے مطابق چلنے والے نظام کے تحت ان چیزوں کا حصول ہے جن پر ان کی زندگی کی بقاء کا دارو مدار ہے ۔لہذا اس ماہ کے اس دن میں رسول کریم ﷺکی ولادت آنکھوں کی ٹھنڈ ک ہے بسبب خیرِ عظیم اور تمام امت محمدیہ ﷺکو شامل ہونے والی برکت کے مل جانے کی وجہ سے۔دوسری حکمت یہ ہے کہ ربیع الاول میں آپ ﷺکی ولادتِ شریف میں اس شخص کے لیے ایک واضح اشارہ ہے جو اسے اس ماہ کی کلمہ ربیع کے مصدر سے نسبت کے حوالے سے سمجھتا ہےکیونکہ اس میں امت مسلمہ کے لیے نیک شگونی، بھلائی اور خوشخبری پائی جاتی ہے اور نیک شگونی کی اصل موجود ہے جس کی طرف رسول اللہ ﷺنے اشارہ بھی فرمایا ہے۔شیخ الامام ابوعبدالرحمن الصقلی ﷫فرماتے ہیں: ہر آدمی اپنے نام سے حصہ رکھتا ہے۔ اس اصول کا اطلاق اشخاص پر بھی ہوتا ہے اور دوسری چیزوں پر بھی۔ چنانچہ موسم ربیع میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتیں زمین کا سینہ چیر کر باہر نکل آتی ہیں اور رزق کے ذخائر جن پر انسانوں کی زندگی اور معیشت اور ان کے احوال کی بہتری کی بنیاد ہوتی ہے، میسر آجاتے ہیں۔ اس میں بیج اور گٹھلیاں اور انواع و اقسام کے پودے پھوٹ پڑتے ہیں۔ چنانچہ یہ منظر ہر دیکھنے والے کو خوشی بخشتا ہے اور زبان حال سے ان کھیتوں کے پکنے کی خوشخبری دیتا ہے۔ اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتوں کے آغاز پر مسرت و شادمانی کی طرف ایک بہت بڑا اشارہ مضمر ہے۔۔۔چنانچہ اس مہینے میں حضورِ اکرمﷺ کی ولادت کئی اشارے لیے ہوئے ہے جن میں سے بعض کا ذکر ہوچکا ہے ۔ خدائے تبارک و تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرمﷺکی عظیم الشان قدر و منزلت کی تعریف و توصیف کی طرف یہ ایک اشارہ ہے اور حضورِ اکرم ﷺکی ذاتِ اقدس کائنات کے لیے ایک خوشخبری ہے اور مومنین کے لیے بشارت اور دین میں خطرات کے مقابلے میں ایک رحمت ہے۔کافروں کےلیے حمایت ہے کہ دنیا میں ان سے عذاب کی تاخیر آپ ﷺکی وجہ سے ہوئی باری تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ (اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کو یہ شان نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں)اور ایسا کیوں نہ ہو کہ تمام خیر آپ ﷺکی اتباع میں ہی تو ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں کے مسلسل ملنے کی کثرت، آپ ﷺکے حکم بجا لانے، اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء کرام﷨کے طریقوں کی اتباع کرنے اور شیطان مردود اور اس کے لشکر کی مخالفت کرنے سے ہوتی ہے ۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺکے اس عالم وجود میں ظہور کے دوران ابلیس اور اس کا لشکر اس زمین پر رہنے پر قادر نہیں ہوسکے اور نہ ہی دوسری ،تیسری میں یہاں تک کہ ساتویں زمین تک چلے گئے اور اس طرح زمین اپنے اوپر آپ ﷺکے وجود اقدس کی برکت کی وجہ سے شیطان اور اس کے لشکر سے خالی ہوگئی۔۔۔۔اور اس میں عظیم اشارہ ہے جواللہ رب العزت کے ہاں آپ ﷺکے احترام،آپ ﷺاور آپ ﷺکے متبعین پر عنایات خداوندی پر دلالت کرتا ہے ۔

درج بالا تحریر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول مکرم ﷺکا ماہ ولادت ربیع الاوّل ہے جس میں امت مرحومہ کے لیے کئی برکات و ثمرات موجود ہیں اور کئی طرح کی برکات کا اظہار مزید ہوا ہے۔ساتھ ہی مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ علماء اسلام کے ہاں متفق علیہ ماہ ِولادتِ رسول ﷺماہِ ربیع الاوّل ہے اوردیگر تمام اقوال کمزور ہیں۔ان عبارات سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے رسول مکرم ﷺکو عظمت و رفعت کی اعلی بلندیوں پر فائز فرمایا ہے اور اس کا اظہار ہر طریقہ سے فرمایا ہے یہاں تک کہ ماہ ولادت کا انتخاب بھی اس طرح فرمایاکہ رسول مکرم ﷺہی کی وجہ سے اس ماہ کو شرف وعظمت نصیب ہوئی۔

 


  • 1 شیخ احمد بن محمدالقسطلانی، المواھب ا للدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:74
  • 2 ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی، صفۃ الصفوۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الحدیث، القاھرۃ، مصر،2000م،ص:22
  • 3 ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃالامین المامونﷺ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:84
  • 4 ابو محمد عبد الملک بن ہشام الحمیری، السیرة النبویة لابن ہشام، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:128
  • 5 شیخ احمد بن محمدالقسطلانی، المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:74
  • 6 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقى الزرقانى المالكى، شرح الزرقانى على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،ج-1 ،مطبوعۃ: دار الكتب العلمية،بیروت، لبنان، 1996م، ص: 248
  • 7 امام احمد رضاخاں القادری، فتاوٰی رضویہ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن ، لاہور،پاکستان،2004ء،ص: 408
  • 8 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ،ج-2،مطبوعہ:نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی،لاہور،پاکستان،1997،ص: 14
  • 9 امام احمد رضاخاں القادری، فتاوٰی رضویہ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن ، لاہور،پاکستان،2004ء،ص: 408
  • 10 شیخ احمد بن محمدالقسطلانی، المواھب ا للدنیہ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 75
  • 11 امام احمد رضاخاں القادری، فتاوٰی رضویہ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن ، لاہور،پاکستان،2004ء،ص: 408
  • 12 ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی، صفۃ الصفوۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الحدیث ،القاھرۃ، مصر،2000م،ص:22
  • 13 امام احمد رضاخاں القادری، فتاوٰی رضویہ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن ، لاہور،پاکستان،2004ء،ص: 408
  • 14 ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر دمشقی، البدایہ والنھایہ (مترجم:پروفیسر کوکب شادانی)،ج-2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ، کراچی،پاکستان،1987ء،ص: 161
  • 15 عبد الرحمن بن عبد الله بن أحمد السهيلى، الروض الأنف فى شرح السيرة النبوية، ج-2، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 1412ھ، ص: 159
  • 16 ابو العباس احمد بن محمد الشھیر بابنِ حجر مکی، النعمۃ الکبریٰ علی العالم فی مولد سید ولد آدم، مطبوعۃ:زاویۃ ببلیشرز، لاہور، باکستان، 2014م، ص: 174
  • 17 شیخ احمد بن محمد القسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص: 77
  • 18 شیخ احمد بن محمد قسطلانی، المواہب الدنیۃ(مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ :فرید بک اسٹال، لاہور،پاکستان، 2004ء،ص: 91
  • 19 ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃالامین المامونﷺ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:84
  • 20 القران ،سورۃ التوبۃ9: 37
  • 21 أبو عبدالله محمد بن إسماعيل البخارى صحیح بخاری، حدیث: 4662، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع،الرياض، السعودية، 1999م، ص:800
  • 22 أبو الحسن مسلم بن الحجاج القشيرى، صحیح مسلم، حدیث: 1679،مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع،الرياض، السعودية، 2000م،ص:743
  • 23 امام احمد رضا خاں القادری،، فتاوٰی رضویہ،ج-26، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور ، پاکستان، 1921ء، ص : 405-411
  • 24 علی بن ابراہیم بن احمد الحلبی ،سیرت حلبیہ(مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت، کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:194
  • 25 یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ صفر کے مہینے میں پیدا ہوئے ۔ ایک روایت ہے کہ ربیع الثانی میں پیدا ہوئے ۔ ایک روایت کے مطابق محرم میں اور ایک قول کے مطابق دسویں محرم کو ولادت ہوئی، جیسا کہ حضرت عیسیٰ دسویں محرم کو پیدا ہوئے ، ایک روایت میں ہے کہ محرم کی پچیس کو پیدا ہوئے الخ۔۔۔۔ علامہ ذہبی ﷫نے لکھا ہے کہ یہ قول یعنی دس محرم کی پیدائش اس روایات کے مطابق نہیں ہوگا جس میں ہے کہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہانے ایام تشریق میں آنحضرت ﷺ کو حمل میں لیا اور یہ کہ آپ ﷺ پورے نو مہینے اپنی والدہ کے پیٹ میں رہے۔ (کیونکہ ایام تشریق یعنی ذی الحجہ کی نویں سے تیرہویں تاریخ تک کے دورانِ حمل ہوا تو محرم کی دس تاریخ تک صرف ایک مہینہ بنتا ہے اور اگر اگلا محرم مراد لیا جائے تو تیرہ مہینے بنتے ہیں جبکہ روایت میں ہے کہ آپ ﷺ پورے نو مہینے حمل کی صورت میں رہے مگر اسی طرح کا اشکال دوسرے اقول میں بھی پیدا ہوتا ہےچنانچہ کہتے ہیں ) یہ بہتان یعنی جھوٹ صرف اسی قول ( یعنی دسویں محرم کو پیدائش ماننے) پر ہی نہیں پڑتا بلکہ دوسرے اقوال اور روایتوں کو ماننے کی صورت میں بھی پیدا ہوتا ہے مثلا ً رمضان کے مہینے میں پیدائش ماننے پر بھی یہی اشکال ہوتا ہے۔علی بن ابراہیم بن احمد الحلبی ،سیرت حلبیہ(مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت، کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:193-194
  • 26 شیخ یوسف بن اسماعیل بن یوسف نبھانی ،جواھر البحار فی فضائل النبی المختارﷺج-1،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 319
  • 27 ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی،الاحتفاء بالمولد النبوی الشریف(مترجم:محمد طفیل ضیغم)،مطبوعہ:ہجویری بک شاپ ، لاہور، پاکستان، 2012ء،ص:25-28
  • 28 ایضاً
  • 29 دو جوابات یہاں ذکر کیے جارہے ہیں کیونکہ بقیہ دو جو صاحبِ مدخل نےبیان کیے ہیں وہ پہلے ذکر کردیے گئے ہیں۔(ادارہ)
  • 30 القرآن، سورۃ الانفال33:8
  • 31 ابو عبد اللہ محمد بن محمد المعروف بابن الحاج،کتاب المدخل،ج-2، مطبوعۃ:دار احیاءالتراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداّ)، ص: 26 -28