Encyclopedia of Muhammad

نبی اکرمﷺکا سالِ وِلادَت

رسول مکرم کا سالِ پیدائش جہان والوں کے لیے باعث افتخار اور سکون و اطمینان تھاکیونکہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ تمام ترمخلوقات پر حضور سیّدنا محمد رسول اللہ کےسالِ ولادت سے ہی انعام و اکرام کا سلسلسہ تواتر کےساتھ رونما ہوا ۔ آپ کی پیدائش سے متعلق ایک موضوع "سالِ ولادت ِرسالتِ مآب "بھی ہے اور یہاں اسی موضوع کے حوالہ سے تفصیلی کلام درج ہے جس سے یہ بات واضح ہوجائیگی کہ رسول اکرم کا سال و لادت جمہور آئمہ سیر اور مؤرخین کے نزدیک "عام الفیل" ہے۔

رسول اکرم کے سالِ ولادت کا معاملہ ہو یا تاریخ و یومِ ولادت کا معاملہ ان سب میں ایک بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ ان میں اختلافِ اقوال کا ہونا قرین ِقیاس ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں تاریخوں اور واقعات کو ذہنی یاد داشتوں میں محفوظ کرنے کی عادت تھی، انہیں لکھنے اور قلمبندکرنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔اسی وجہ سے تاریخی واقعات میں تاریخوں اور دنوں کا فرق مروی ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔البتہ بعد میں جب ہجری سال کی بنیاد پڑی تب سے تاریخی واقعات کو باقاعدہ تاریخوں سے محفوظ کیا جانے لگا۔بہر کیف اکثر مؤرخین کے نزدیک رسول اکرم کی ولادتِ باسعادت کا سال وہی ہے جس کو اہلِ مکّہ "عام الفیل"1کہا کرتے تھے یعنی ہاتھیوں والا سال کیونکہ اس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے کعبۃ اللہ کو ڈھانے کےلیے مکّہ مکرّمہ میں پڑاؤ کیا تھا لیکن آپ کی ولادت با سعادت کی برکت سے2 نامراد و برباد ہوکر واپس لوٹا اورا س کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدمیں بھی بیان فرمایا ہے۔3 رسول اکرم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں ہونے کا قول حضرت ابن عباس کا بھی ہے۔ 4 مشہور یہ ہے کہ آپ واقعہ فیل والے سال ہی پیدا ہوئے 5چنانچہ اسی حوالہ سے سیرت ابن ہشام میں منقول ہے:

  ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفیل.6
  رسول اللہ عام الفیل(ہاتھیوں والے سال) میں پیدا ہوئے۔7

اسی طرح امام ابن اسحاق رسول اللہ کی ولادت با سعادت کے بارے میں اپنی سند کے ساتھ روایت کو نقل کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  عن قیس بن مخرمة قال ولدت انا و رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفیل وكنا لدین.8
  قیس بن مخرمہ سے مروی ہےآپ فرماتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ عام الفیل کو ہی پیدا ہوئے ہیں اور ہم دونوں ہم عمر ہیں۔

اسی طرح ابن حبان تحریر فرماتےہیں:

  ولد النبى صلى الله عليه وسلم عام الفيل.9
  نبی کریم عام الفیل کو پیدا ہوئے۔

اسی حوالہ سے مزید توضیح کے ساتھ بیان کرتے ہوئے علامہ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

  وقد اختلف فى عام ولادته صلى الله عليه وسلم فالاكثرون على انه عام الفيل وبه قال ابن عباس ومن العلماء من حكى الاتفاق علیه وقال كل قول یخالفه وھم.10
  آپ کے سالِ ولادت میں اختلاف 11 کیا گیا ہے جبکہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ آپ کی ولادت عام الفیل کو ہوئی ہے۔یہی ابن عباس کا قول ہے۔بعض اہلِ علم نے اس پر علماء کے اتفاق کو بھی نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر وہ قول جو اس کے مخالف ہے وہ در حقیقیت وہم ہے(اور کچھ نہیں )۔

اب رہی یہ بات کہ عام الفیل میں آپ کی ولادت باسعادت واقعۂ فیل سے پہلے ہوئی ہے یا بعد میں تو علماء سیر کا کہنا ہے کہ آپ عام الفیل میں واقعۂ فیل کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔چنانچہ اسی حوالہ سےوضاحت کرتے ہوئے شیخ علی بن ابراہیم تحریر فرماتے ہیں:

  ولادته صلى الله عليه وسلم قيل كانت فى عام الفيل، قيل فى يومه فعن ابن عباس قال: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفيل...وقد يراد باليوم مطلق الوقت فيصدق بالعام، كما يقال يوم الفتح ويوم بدر...وقيل ولد بعد الفيل بخمسين يوما، كما ذھب إليه جمع منھم السھيلى قال بعضھم: وھو المشھور.12
  رسول اللہ کی ولادت ِ با سعادت کے بارےمیں کہا گیا ہے کہ وہ عام الفیل کوہوئی تھی ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوم الفیل کو ہوئی تھی پس ابن عباس سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ کی ولادت یوم الفیل کو ہوئی ہے۔۔۔اور کبھی یوم سے مطلقاً وقت بھی مراد لیا جاتا ہے لہذا یوں یہ لفظ سال پر بھی صادق آئے گا جس طرح (فتح مکّہ اور بدر والے سال کو)یوم الفتح اور یوم البدرکہا جاتا ہے ۔۔۔یہ بھی کہا گیاہے کہ آپ کی ولادت واقعۂ فیل کے پچاس (50) دن بعد ہوئی ہے جیسا کہ اس بات کی طرف ایک مکمل جماعت گئی ہے اور بعض نے تو یہاں تک کہاہے کہ یہی مشہور ہے۔

یعنی معتبر روایات کی بناء پر مؤرخین و علمائے سیر کا عموماً اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت کی ولادت سالِ فیل میں واقعۂ اصحابِ فیل کے پچاس (50) دن بعد ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ دوشنبہ (پیر)کے دن صبح کے وقت ہوئی ہے۔البتہ اس کے ہر جزو میں اختلاف ہے جس کو تفصیل سے علامہ قسطلانی نےاپنی کتاب "مواہب اللدنیہ"13 میں درجِ ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے:

  مشہور روایت یہ ہے کہ آنحضرت سالِ فیل میں پیدا ہوئے تھے، یعنی اس سال جبکہ یمن کے عیسائی بادشاہ ابرہہ نے مکّہ فتح کرنے اور کعبے کو ڈھانے کے لیے ہاتھیوں کی ایک فوج کے ساتھ مکے پر چڑھائی کی تھی اور خدا کی قدرت سے یہ اصحابِ فیل ابابیلوں کے کنکریاں پھینکنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔14 معروف بات ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی بڑا واقعہ پیش آجاتا ہے تو وہاں کے رہنے والے مختلف باتوں کا حساب اسی واقعہ سے شمار کرتے ہیں ، مثلاً ہندوستان میں پیدائش و وفات وغیرہ بہت سی چیزوں کا حساب سنہ غدر سے لگاتے ہیں۔اسی طرح مکّہ معظّمہ میں چونکہ اصحابِ فیل کا ہلاک ہونا ایک عجیب واقعہ تھا جس کی یا د مدتوں تک قائم رہی اسی وجہ سے وہاں ہر واقعہ کا حساب اسی سال سے کیا کرتے تھے، اس کے بعد سال ہجرت سے حساب ہونے لگا۔ غرضیکہ آنحضرت کی ولادت کا حساب بھی سالِ فیل سے لگایا گیا ہے اور اس بارےمیں حسب ِذیل مختلف روایتیں وارد ہیں ۔
(الف)......بعض کہتے ہیں سالِ فیل ہی میں ولادت ہوئی ہے۔
(ب).......بعض کہتے ہیں سالِ فیل کے بعد کسی اور سال میں آپ متولد ہوئے۔
(ج )........بعض کہتے ہیں کہ سالِ فیل سے پیشتر کسی سال میں آپ پیدا ہوئے۔15
مگر جیسا کہ اوپر لکھا جاچکاہے کہ ان تمام روایتوں میں صرف ایک ہی روایت عموماً صحیح خیال کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی ولادت سالِ فیل ہی میں واقعہ فیل کے پچاس (50) دن بعد ہوئی16

ایک روایت جس کو بیہقی نے ذکر کیاہے اس میں بھی مذکور ہے آپکی ولادت عام الفیل کو ہوئی ہےچنانچہ مروی ہے:

  وسأل عثمان بن عفان قباث بن أشيم، أخا بني يعمر بن ليث: أنت أكبر أو رسول اللّٰه، صلى الله عليه وسلم؟ فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم أكبر منى وأنا أقدم منه فى الميلاد...وفى روایة ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل ووقفت بى أمى على روث الفيل محيلا أعقله.17
  حضرت عثمان ابن عفان نےقباث بن اشیم سے پوچھا جو بنی یعمر بن لیث کے بھائی تھے، کیا آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ بڑے ہیں ؟ انہوں نے کہاکہ رسول اللہ مجھ سے بڑے ہیں جبکہ میری پیدائش ان سے پہلے ہوئی ہے۔۔۔ایک روایت میں یہ زیادتی ہے کہ حضور عامُ الفیل میں پیدا ہوئے تھے جبکہ میری امی نے مجھے ہاتھی کے گوبر پر کھڑا کردیا تھااس وقت مجھے اسکی سمجھ تھی۔

اسی طرح ابن کثیر رسول اللہ کی ولادت کے سال کے بارے میں ایک روایت اوراس بارےمیں علماء کامؤقف بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:

  قال إبراھيم بن المنذر الحزامي: وھو الذى لا يشك فيه أحد من علمائنا أنه عليه الصلاة والسلام ولد عام الفيل...وعن محمد بن جبير بن مطعم قال: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل، وكانت بعده عكاظ بخمس عشرة سنة، وبنى البيت على رأس خمس وعشرين سنة من الفيل، وتنبأ رسول الله صلى الله عليه وسلم على رأس أربعين سنة من الفيل.18
  ابراہیم بن المنذر لحزامی کہتے ہیں کہ وہ قول جس میں ہمارےعلماء میں سے کسی نے شک نہیں کیا یہ ہےکہ رسول اللہ عام ُالفیل میں پیدا ہوئے تھے ۔ ۔۔ اسی طرح جبیر بن مطعم سے مروی ہے وہ کہتےہیں کہ حضور عام الفیل میں پیدا ہوئےتھے اور عکاظ کا واقعہ ہاتھی والے سال کے پندرہ (15) سال بعد ہوا تھا اور کعبہ کی تعمیر عامُ الفیل سے پچیسویں (25) سال کے آغاز پرہوئی تھی اور رسول اللہ کی بعثت چالیسویں (40) سال کے آغاز پر ہوئی تھی ۔

ان مذکورہ بالا تمام روایات اور علماء سیر مؤرخین کے اقوال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اکرم کی ولادت ِ باسعادت کا سال وہی ہے جس میں واقعۂ فیل پیش آیا تھا اور آپ کی ولادت کی برکت کی وجہ سے تمام اہلِ مکّہ کو اس عظیم آزمائش سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات دلائی تھی۔

عام الفیل میں مولود ہونے کی حکمت

آپ عام الفیل میں پیدا ہوئے کیونکہ ہاتھی کا واقعہ آپ کی نبوت کا مقدمہ اور آغاز تھا جس سے اہلِ مکّہ کو آئندہ اس بات کی طرف توجہ دلانی تھی کہ رسول اکرم کی ولادت سے ہی ان کی معاشرت میں کئی طرح سے خوشحالی اور آسودگی میسر آئی ہیں چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن قیم تحریر فرماتے ہیں:

  لا خلاف أنه ولد صلى الله عليه وسلم بجوف مكة وأن مولده كان عام الفيل وكان أمر الفيل تقدمة قدمھا الله لنبيه وبيته، وإلا فأصحاب الفيل كانوا نصارى أھل كتاب، وكان دينھم خيرا من دين أھل مكة إذ ذاك لأنھم كانوا عباد أوثان فنصرھم الله على أھل الكتاب نصرا لاصنع للبشر فيه، إرھاصا وتقدمة للنبى صلى الله عليه وسلم الذى خرج من مكة، وتعظيما للبيت الحرام.19
  اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ مکّہ مکرّمہ میں متولد ہوئے اور واقعۂ فیل ایک نشانی تھی جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی اور اپنے گھر(بیت اللہ)کی تعظیم کے طور پر پیش فرمادیا تھاورنہ اصحاب فیل نصاریٰ یعنی اہل کتاب تھے اور اس وقت اہلِ مکّہ کے دین کی بنسبت ان کا دین بہتر تھا کیونکہ اہلِ مکّہ بتوں کی پوجا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان (اہلِ مکّہ) کی اہل کتاب کے خلاف ایسی مددفرمائی کہ جسں میں کسی بندہ کا ذرہ برابر دخل نہیں تھا ۔یہ صرف اس نبی کریم کی آمد کی خبر تھی جو مکّہ مکرّمہ میں پیدا ہوئے ۔نیز عزت والے شہر (مکّہ مکرّمہ) کی تعظیم کی وجہ سے ایسا ہوا۔ 20

یعنی واقعۂ فیل اور پھر اس سے اہل مکّہ کو بناکسی تباہی و بربادی کے نجات دینا درحقیقت ولادت نبوی کی برکت کا ظہور اور نبی آخر الزماں کی ولادت کی خبر تھی ۔یہی وجہ ہے کہ اربابِ سیر نے دیگر کئی واقعات کی طرح متفقہ طور پرواقعۂ فیل کو ولادت نبوی کی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ اس حوالہ سے شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی تحریر فرماتے ہیں:

  وقال الامام الماوردى ولما دنا مولد رسول الله صلى الله عليه وسلم تقاطرت آیات نبوته و ظھرت آیات بركته فكان من اعظمھا شانا واظھرھا برھانا واشھرھا عیانا وبیانا قصة اصحاب الفیل.21
  امام ماوردی فرماتے ہیں:جب رسول اللہ کی ولادت کا زمانہ قریب آیاتو نبوت کی نشانیاں مسلسل اور اس کی برکتیں ظاہر ہونے لگیں۔ان میں سے عظیم الشان اور سب سے بڑی نشانی جو مشہور اور زبان زد عام ہے وہ واقعہ فیل ہے۔ 22

اسی طرح اسی عظیم الشان واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں مکمل سورت نازل فرمائی ہےچنانچہ باری تعالی کا ارشادمقدس ہے:

  اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ1 اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَھمْ فِى تَضْلِيْلٍ2 وَّاَرْسَلَ عَلَيْھمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ3 تَرْمِيْھمْ بِحِـجَارَة مِّنْ سِجِّيْلٍ4 فَجَــعَلَھمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ523
  کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، کیا اس نے ان کے مکر و فریب کو باطل و ناکام نہیں کر دیا، اور اس نے ان پر (ہر سمت سے) پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو ان پر کنکریلے پتھر مارتے تھے، پھر (اﷲ نے) ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح (پامال) کر دیا۔

درج بالا تمام اقوال سے یہ رائے معتبر ہوجاتی ہے کہ رسول کریم کی ولادت باسعادت متفقہ طور پر عام الفیل کو ہوئی ہے اور وہ بھی واقعۂ فیل کے معاً پچاس (50) دن بعد۔اس پر تمام آئمہ سیر اورمؤرخین کا اتفاق ہےاور دیگر اقوال انتہائی قلیل اور نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ وہم ہیں۔جیساکہ ما قبل میں تفصیلی طور پر شواہد و دلائل کی روشنی میں ذکر کردیا گیا ہے۔بالخصوص واقعۂ فیل جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے اور علماء سیر نے اس واقعۂ کو رسول کریم کی ولادت کا پیش خیمہ اور آپکی نبوت کی اعلی ترین نشانی قرار دیا ہے۔ آنحضرت کی ولادت کی برکت کی وجہ سے ہی ابرہہ کہ لشکر کے خوفناک حملہ سے اہلِ مکّہ کو بچایا گیا تھا۔

 


  • 1 عربی میں عام ، سال کو کہتے ہیں اور فیل ہاتھی کو چنانچہ عام الفیل یعنی ہاتھیوں والے سال سے مراد وہی اہم واقعہ ہے جو قرآن پاک میں سورۃ الفیل میں مذکورہے۔ اس سے عرب تاریخوں کا حساب کرنے لگے تھے چنانچہ آنحضرت ﷺکی پیدائش کا حساب بھی اسی سال سے لگایا جاتا ہے۔( شیخ احمد بن محمد قسطلانی ،المواہب الدنیۃ بالمنح المحمدیۃ (مترجم:محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ : فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان، 2004ء،ص:87)
  • 2 شمس الدین محمد بن ابی بکرابن قیم الجوزیۃ، زاد المعاد فی ھدی خیر العبادﷺ،ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م،ص:74
  • 3 القرآن،سورۃ الفیل 105: 1-5
  • 4 شيخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:73
  • 5 جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ آپﷺ واقعہ فیل کے سال میں پیدا ہوئے اس کے بارے میں علامہ حافظ ابن کثیر نے کہا ہے کہ یہ اکثر علماء کے نزدیک مشہور ہے۔ امام بخاری ﷫کے استاذ علامہ ابراہیم ابن منذر نے کہا ہے کہ اس قول کے درست ہونے کے متعلق علماء میں سے کسی کو بھی شک نہیں ہے، اس کے علاوہ بہت سے حضرات نے لکھا ہے کہ اس پر علماء کا اتفاق و اجماع ہے اور اس کے خلاف جتنے بھی دوسرے قول ہیں وہ سب وہم ہیں ۔(علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی ، سیرت حلبیہ،(مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ،دارالاشاعت، کراچی ،پاکستان، 2009ء،ص:197)
  • 6 ابو محمد عبد الملک بن ہشام ،السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:128
  • 7 ابو محمد عبد الملک بن ہشام،سیرۃ النبیﷺ(مترجم:قطب الدین احمد)،ج-1،مطبوعہ:الفیصل ناشران کتب،لاہور،پاکستان،2006ء،ص:177
  • 8 امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:99
  • 9 ابو حاتم محمد بن حبان التمیمی الدارمی، السیرۃ النبویۃ واخبار الخلفاء،ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص:33
  • 10 شيخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:73
  • 11 ایک قول یہ ہے کہ آپﷺ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے پچپن(55) دن بعد ہوئی ہے، دوسروں کے علاوہ دمیاطی کا بھی یہی نظریہ ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ واقعہ فیل کے ایک مہینہ یا چالیس دن بعد آپﷺ کی ولادت ہوئی۔ کسی نے کہا کہ اس واقعہ کے دس سال بعد آپﷺپیدا ہوئے۔ (مغلطائی کہتے ہیں یہ قول صحیح نہیں ہے) یہ بھی کہا گیا کہ ولادت مبارکہ واقعہ فیل سے پندرہ سال پہلے ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔اصح ترین قول وہی ہے جو متن میں منقول ہے۔ (احمد بن محمد قسطلانی، المواہب الدنیۃ بالمنح المحمدیۃ (مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ : فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان، 2004ء،ص:87)
  • 12 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:86
  • 13 شيخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:73
  • 14 یہ ابابیلیں چمکادڑوں کی مثل تھیں جو سمندر کی جانب سے حملہ آور ہوئی تھیں اور ہر ایک اپنی چونچ اور پنجوں میں چنے برابرایک ایک کنکری اٹھا لائی تھیں جو ان کی چونچ اور پنجوں میں سے چھٹ کر ان ہاتھی والوں پر جاگریں اور ان کنکریوں کے لگنے سے بہت سے سپاہی مرگئے۔ باقی ماندہ اس واقعہ کو کعبے کا معجزہ سمجھ کر الٹے پاؤں بھاگ گئے۔ابرہہ کے جسم پر بھی یہ کنکریاں گریں جس وجہ سے اسے یہ مرض لاحق ہوا کہ اس کے جسم کا گوشت پورے برابر جھڑنا شروع ہوگیا اور اس سے خون وپیپ بہنا شروع ہوگئی اور اسی مرض میں وہ ہلاک ہوگیا۔(ابو محمد حسین بن مسعود البغوی، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، ج-5، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:307 )
  • 15 پہلے قول کے متعلق تین روایتیں ہیں :
    (1) واقعہ فیل کے ایک مہینے بعد ، ......(2)چالیس دن بعد...... (3)پچاس دن بعد۔
    دوسرے قول کے متعلق پانچ روایات ہیں:
    (1) ایک سال بعد ، ......(2)دو برس بعد ، ......(3) تین برس بعد ،...... (4)چار برس بعد،...... (5) پانچ برس بعد۔
    تیسرے قول کی صرف دو شاخیں ہیں ۔
    (1)سنین کا تعین نہیں کیا جاسکتا مگر واقعہ فیل سے پیشتر تولد ہوئے ۔ (2) واقعہ فیل سے پندرہ برس پیشتر پیدا ہوئے ۔( علی شبیر، تاریخ مولد النبی،مطبوعہ:دکن لارپورٹ ، دکن، انڈیا، 1930ء،ص:26-28)
  • 16 علی شبیر، تاریخ مولد النبی،مطبوعہ:دکن لارپورٹ ، دکن،ا نڈیا، 1930اء، ص:26-28
  • 17 ابو ابكر احمد بن حسين البيهقى،دلائل النبوة،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص:77-78
  • 18 ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،1998م، ص:321
  • 19 شمس الدین محمد بن ابی بکرابن قیم الجوزیۃ، زاد المعاد فی ھدی خیر العبادﷺ،ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م،ص: 74 -75
  • 20 ایضاً(مترجم: سیّداحمد جعفری)، ج-1/2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی،کراچی، پاکستان،1990ء،ص:99
  • 21 شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلینﷺ،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان ،2005م،ص:170
  • 22 اىضا (مترجم:ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور، پاکستان،2013ء،ص:370-371
  • 23 القرآن،سورۃ الفیل 105: 1- 5