سیدنا محمدرسول اللہ ﷺہی وہ ذات قدسی ہیں جن کے طفیل مخلوقِ خدا سکون و اطمینان میں ہے اور جنہیں اللہ ربُّ العزّت نے تمام عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے چنانچہ اللہ ربُّ العزّت کا فرمانِ عالیشان ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَة لِّلْعٰلَمِيْنَ107 1
اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔
اسی بابرکت ذات کی رحمت کا صدقہ ہے کہ آج دنیا میں نباتات وجمادات،حیوانات واشجار الغرض ہر مخلوق لباسِ وجود میں جلوہ گر ہے۔ 2 بلا شبہ جو ذات عالمین کے لیے رحمت ہو اس ذات عالیہ کی ولادت کی خوشی موجب فرحت ، سکون اورطمانیت ہی ہے۔جس مقدس ہستی کی ولادت کے موقع پر خود رب کائنات نے اس دنیا میں ہر سو رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمایا ہو کہ اس سال کا نام ہی سنۃ الفتح والابتھاج (یعنی خوشی اور شادمانی والا سال) 3 مشہور ہوجائے،جس متبرک وجود کی جلوہ گری کے باعث اس موقع پر دنیا میں ممتا کا شرف پانے والیوں کو لڑکوں سے نوازا جائے 4 تا کہ کہیں بھی روئے زمین پر بچیوں کاقتل نہ ہو ،جن کی ولادت باسعادت کے طفیل ان کی والدہ محترمہ کو ہر قسم کی تکلیف و پریشانی سے دور کر کے5 انہیں سکون واطمینان کی خوشخبریاں دی گئیں ہوں،6 جن کے طفیل انسانیت کوراہِ ہدایت اور رضائے الٰہی نصیب ہوئی ہو،جو جنت ودوزخ کی پہچان کروانے والے ہوں،آخرت و بعثت کی حقیقت سمجھانے والےہوں،انسانوں کو انسانیت کا مقصد سمجھانے والےہوں،تمام مخلوقات اور انسانوں کے حقوق کے محافظ بلکہ جانی دشمنوں کو حقوق عطا فرمانے والےہوں،ایسی ہستی کی ولادت مبارکہ کی خوشی کا اظہار کرنا اوران کا تذکرہ کرنے کے لیے محفل میلاد النبی ﷺمنعقد کرنا ایک ضروری امر ہے تاکہ انسانوں کو ان کی تخلیق کا مقصد از سرِ نو یادکرایا جائےاور بھلایا ہوا سبق دوبارہ ان کے گوش گزار کر کےان کو مقصدِ زندگی سے غافل نہ ہونے دیا جائے۔روحانی ومذہبی طور پر ہر وہ محفل جو ذکر اللہ یا ذکرِ رسول ﷺکے عنوان سےمنعقد کی جائے ا س کے با برکت ہونے میں کیا شک ہوسکتا اور کیا جاسکتا ہے؟ اس کے انعقاد سےفوائددنیوی و اخروی اور رضائے خداوندی کا حصول ہونا ہر شک وشبہ سے بالا تر ہے7۔
اس مقالہ میں اسی موضوع پر تفصیلات کو پیش کیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوجائیگی کہ علمائے اسلام ہمیشہ ہی سے اس بابرکت میلاد النبی ﷺکے منانے کو موجبِ قربِ خداوندی اور باعثِ قربِ رسول اکرم ﷺسمجھتے رہے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کے میلاد النبی ﷺمنانے سے کئی طرح کی برکات و فوائد حاصل ہوتے ہیں۔انہی میں سےایک فائدہ یہ ہے کہ میلادالنبی ﷺمنانا اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت پر عمل کرنا ہے۔قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر اس بات کا واضح ثبوت موجود ہےچنانچہ ایک مقام پر باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰه عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِه وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَة وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 1648
بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (ﷺ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالی نے حضور ﷺکی آمد و بعثت کا ذکر بڑے ہی منفرد انداز سے کیا ہے۔حروفِ تاکید کا ذکر بھی مضمونِ آیت کی اہمیت کو فزوں تر کرنے کے لیے کیا گیاہے اور پھر آپ ﷺکی بعثت کو مؤمنین پر اپنا احسان جتلایاہے۔یہ ساری چیزیں اسی طرف مشیر ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بھی اپنے محبوب و مکرم ﷺکا ذکرِ بعثت پسند فرماتا ہے اور یہ ذکر کرنا سنتِ الہیہ ہے۔مزید اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد مقدس ہے:
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰه مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَة ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِه وَلَتَنْصُرُنَّه قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰھدِيْنَ 819
اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (ﷺ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
اس آیت ِ مذکورہ میں اگرچہ سیاقِ کلام یہ واضح کررہاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام کی جماعت سے یہ وعدہ لیا کہ ہر پہلے آنے والا نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی تائید و توثیق اور مدد ونصرت کرےگا 10 لیکن امام قرطبی نے حضرت علی اور حضرت عباس کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں رسول سے مراد حضور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺہیں 11اور صاحب نسفی نے بھی اس سے رسول اکرم ﷺکا مصداق ہونا ہی بیان کیا ہے 12۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں جلال الدین سیوطیرقمطراز ہیں:
وأخرج ابن جرير عن على بن أبى طالب قال: لم يبعث اللّٰه نبيا آدم فمن بعده إلا أخذ عليه العهد فى محمد صلى اللّٰه عليه وسلم لئن بعث وهو حى ليؤمنن به ولينصرنه ويأمره فيأخذ العهد على قومه.13
ابن جریر نے حضرت علی بن ابی طالب سے روایت کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جن سے نبی اکرم ﷺکے بارے میں وعدہ نہ لیا ہو کہ اگر رسول اللہ ﷺکی بعثت اس نبی کے زمانہ میں ہوجائے تو وہ ضرور بالضرور آپ ﷺپرایمان لائیں گےاور آپ ﷺکی مدد ونصرت بھی کریں اور اس کا وعدہ ہر نبی نے اپنی قوم سے لیا۔
مذکورہ اقوال اس بات کی نشاندہی کے لیے کافی ہیں کہ رسول اکرم ﷺکا ذکرِ بعثت اللہ تبارک وتعالی نےمجمع انبیاء کرام میں فرمایاہے۔لہذٰا ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺکی بعثت وولادت کا ذکر مجمع میں کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کی سنت ہے اور میلاد النبی ﷺمنانے سے اس سنت الہیہ پر عمل کرنے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے جو سراسر خیر و برکت کا باعث ہے۔اسی طرف حافظ ابو نعیم نے اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
ومن فضائله , صلى اللّٰه عليه وسلم اخذ اللّٰه المیثاق على جمیع انبیائه ان جاءھم رسول آمنوا به ونصروه فلم یکن لیدرک احد منھم الرسول الا وجب علیه الایمان به والنصرة له لاخذ المیثاق منه فجعلھم كلھم اتباع له یلزمھم الانقیاد والطاعة له لو ادركوه.14
رسول اللہ ﷺکے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام سے مضبوط وعدہ لیا کہ اگر ان کے دور میں رسول اللہ ﷺتشریف لے آئیں تو انہیں آپ ﷺپر ایمان لانا ہوگااور آپ ﷺکی مدد کرنا ہوگی۔پس اگر کوئی بھی نبی آپ ﷺکا زمانہ پالیتا تو آپ ﷺپر ایمان لانا اور آپ ﷺکی مدد کرنا اس پر ضروری ہوجاتاکیونکہ اس سے یہ وعدہ لیا جا چکا تھا۔گویا اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو آپ ﷺکا پیروکاربنادیاہے جن پر آپ ﷺکی فرمانبرداری اور اطاعت لازم ہے15۔
مذکورہ مضمون کی تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوجاتی ہے :چنانچہ حضرت جابر سے مروی ہے:
أن عمر بن الخطاب، أتى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بكتاب أصابه من بعض أھل الكتب، فقرأه على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فغضب وقال:أمتھوكون فيھا يا ابن الخطاب، والذى نفسى بيده لقد جئتكم بھا بيضاء نقية، لا تسألوھم عن شىء فيخبروكم بحق فتكذبوا به، أو بباطل فتصدقوا به، والذى نفسى بيده لو أن موسى كان حيا، ما وسعه إلا أن يتبعنى.16
ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطاب نبی ﷺکی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے جو انہیں کسی اہل کتاب سے ہاتھ لگی تھی اور اسے آپ ﷺ کے سامنے پڑھنا شروع کردیااس پر نبی ﷺکو جلال آگیا اور آپ ﷺنے فرمایا:اے ابنِ خطاب کیا تم اس میں گھسنا چاہتے ہو؟اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، میں تمہارے پاس ایک ایسی شریعت لے کر آیا ہوں جو روشن اور صاف ستھری ہے۔تم ان اہل کتاب سے کسی چیز کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ تمہیں صحیح بات بتائیں اور تم اس کی تکذیب کردو یا غلط بتائیں اور تم اس کی تصدیق کردو۔اس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔17۔
اس روایت کویوسف قرطبی نے بھی کچھ متغیرالفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔18مذکورہ روایت سے ایک طرف تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺکی اتباع ہر نبی پر واجب و لازم تھی بشرطیکہ زمانہ نبوی ﷺکو پاتےجبکہ دوسری طرف یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم ﷺکی بعثت و ولادت کا تذکرہ سنتِ الٰہیہ پر عمل کرنا ہے اور باعث بلندی درجات ہے۔
میلاد النبی ﷺپر خوشی کا اظہار کرنے کی سب سے پہلی برکت یہ ہے کہ انسان عین حکم ِباری تعالیٰ پر عمل پیرا ہوتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ5819
فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی ﷺ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔
میلاد النبی ﷺپر خوشی کااظہار بھی اسی حکم پر عمل ہوتا ہے جو عین منشأِ باری تعالیٰ کےموافق ہے۔
اس آیت مبارکہ میں مذکور لفظ فضل و رحمت کے مرادی معنی کی تفسیر میں کثیر مفسرین کرام نے کئی اقوال نقل فرمائے ہیں ۔ عمومی رائے یہ ہے کہ ان دونوں سے مراد اسلام اور قرآن ہیں ۔ تاہم بعض کی رائے میں ایمان بھی ہے۔ ان مفسرین میں صاحب تفسیرقرطبی، 20 بیضاوی ،21 نسفی، 22 روح البیان،23 اور مظہری 24 شامل ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کریمہ کے مصداقی معنی میں کئی اقوال منقول ہیں۔
اسی طرح امام جلال الدین سیوطینے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مذکورہ اقوال نقل کرنے کے ساتھ ساتھ مزید دو اقوال بھی نقل کیے ہیں چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
وأخرج أبو الشيخ عن ابن عباس فى الآية قال: فضل اللّٰه العلم ورحمته محمد صلى اللّٰه عليه وسلم قال اللّٰه تعالى (وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَة لِّلْعٰلَمِيْنَ... وأخرج الخطيب وابن عساكر عن ابن عباس (قل بفضل اللّٰه) قال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم (وبرحمته) قال: على بن أبى طالب .25
ابو الشیخ نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ابن عباس سے نقل کیا ہے: وہ فرماتے ہیں کہ فضل اللہ سے مراد العلم ہے اور رحمت سے مراد (سیدنا)محمد(رسول اللہ) ﷺہیں جیساکہ باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان بھی ہے:وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةلْعٰلَمِيْنَ 26 ( اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر)اسی طرح خطیب و ابن عساکر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ فضل اللہ سے مراد نبی کریم ﷺہیں اور رحمت سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔
مذکورہ بالا حوالہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض مفسرین کرام نے اس آیت مبارکہ میں فضل او ررحمت سے مراد رسول اکرم ﷺ کی ذات قدسی مراد لی ہے۔اس مؤقف پر ایک استشہاد تو ماقبل میں ہی گزر چکا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اکرم ﷺکو رحمۃ للعالمین مبعوث فرمایا ہے لہٰذا اس آیت میں لفظ رحمت کا مصداق بدرجۂ اَتم رسول اللہ ﷺ ہی ہیں لہٰذااگر کوئی آپ ﷺکی تشریف آوری پر خوشی کا اظہار کرتا ہے تو وہ اس حکمِ ربی پر عمل کرتا ہے۔27
باری تعالیٰ کے فرمانِ مقدس ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ 28 کے مطابق میلادالنبی ﷺپر خوشی کا اظہار کرنا دنیوی مال ومتاع کے جمع کرنے کے مقابلہ میں انتہائی بابرکت عمل ہے۔یعنی قرآن کریم میں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ رحمتِ خداوندی پہ خوش ہونا مادی ساز وسامان کے ڈھیر جمع کرنےسے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
میلاد النبی ﷺمیں بھی رحمتِ خداوندی یعنی رسول مکرم ﷺکی تشریف آوری پر خوشی کا اظہار ہوتا ہے لہٰذا یہ عمل سر انجام دینے سے اس فرمانِ مقدس کے بموجب جمع شدہ دنیوی مال واسباب اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے نام پر خرچ کرناکئی گنا زیادہ اجر وثواب اور برکات و انعامات کا موجب و باعث ہوتا ہے۔
نبی اکرم ﷺکی ولادت پر خوشی کا اظہا رکرنا رسول اللہ ﷺکی تعظیم و تکریم میں داخل ہے۔جس تعظیم و تکریم کا حکم دیتے ہوئے رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاھدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا 8 لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰه وَرَسُوْلِه وَتُعَزِّرُوْه وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَه بِّحُوْه بُكْرَة وَّاَصِيْلًا929
بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے، تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو۔
اس کی تفسیر میں صاحبِ روح البیان تحریر فرماتے ہیں:
ومن تعظيمه صلى اللّٰه عليه وسلم عمل المولد إذا لم يكن فيه منكر .30
اور آپ ﷺکی تعظیم میں میلاد النبی ﷺکا عمل سرانجام دینا شامل ہے بشرطیکہ اس میں کوئی منکر(مخالفِ شریعت)کام نہ ہو۔
اہل اسلام ہمیشہ سے ہی میلاد النبی ﷺپر خوشی کے اظہار کو موجبِ رحمت سمجھتے آرہے ہیں۔ذیل میں اجل متقدمین علماء کے حوالہ سے اس بات کو براہین و دلائل سے واضح کیا گیا ہے چنانچہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی اس حوالہ سے رقمطراز ہیں:
قال الامام ابو شامة شیخ النووى ومن احسن ما ابتدع فى زماننا ما یفعل كل عام فى اليوم الموافق ليوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم من الصدقات والمعروف واظھار الزینة والسرور فان ذلک مع مافیه من الاحسان للفقراء مشعر بمحبة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیمه فى قلب فاعل ذلک وشکر اللّٰه على مامنّ به من ایجاد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الذى ارسله رحمة للعالمین.31
امام نووی محی الدینکے استاد محترم امام ابو الشامہفرماتے ہیں کہ ہمارے دور کا نیا مگر مستحسن اختراع حضور ﷺکے یومِ ولادت کی مناسبت سے صدقات و نیکیوں کی کثرت،زیب وزینت اور خوشی کا اظہارکرنا ہے کہ اس میں فقراء کے لیے فائدہ اور نبی کریم ﷺسے محبت کا اظہار اور ساتھ ہی اس عمل کے سر انجام دینے والے کے دل میں جو تعظیم رسول مکرم ﷺہے کا اظہار بھی ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ کا اس احسان پر جو اس نے اپنے رسول مکرم ﷺکو مبعوث فرماکر اور عالمین کے لیے رحمت بنا کر کیاہے اس پر شکر ادا کرنا بھی ہے۔
یعنی میلادِ مصطفی ﷺپر خوشی کی مناسبت سے صدقہ خیرات کیا جاتا ہے جس سے فقراء و مساکین کی مدد ہے۔محفلوں کی زیبائش و آرائش اور اظہارِ مسرت کیا جاتا ہے جس سے حضور ﷺکے محبّین کا پتہ چلتا ہے۔ان مبارک تقریبات سے اُمتیوں کی سرورِ کائنات ﷺسے والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار ہوتا ہے۔اس طرح اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت کا شکر ادا ہوتا ہے اور اہل محفل کے دل میں آپ ﷺکی فضیلت و عظمت پختہ ہوتی ہے 32 ۔
میلاد النبی ﷺکی تعظیم و توقیر کرنے سے اور اس پر خوشی کا اظہار کرنے سے دینی و دنیوی اور خصوصی طور سے اُخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔اس حوالہ سے خلفائے راشدین کے اقوال کئی تصانیف میں موجود ہیں جس میں ان برکات و ثمرات و فوائد کا ذکر ملتا ہےچنانچہ علامہ ابن حجر 33 ہیتمی تحریر فرماتے ہیں:
قال ابو بکر الصدیق رضى اللّٰه عنه من انفق درھما على قراءة مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم كان رفیقى فى الجنة وقال عمر رضى اللّٰه عنه من عظم مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقد احیا الاسلام وقال عثمان رضى اللّٰه عنه من انفق درھما على قراءة مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فکانما شھدغزوة بدر و حنین وقال على رضى اللّٰه عنه وكرم اللّٰه وجھه من عظم مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وكان سببا لقراءته لا یخرج من الدنیا الا بالایمان وید خل الجنة بغیر حساب. 34
حضرت صدیق اکبر فرماتے ہیں:جس نے بھی( بصورت محفل میلاد) مولد النبی ﷺکے پڑھنے پر ایک درہم بھی خرچ کیا تووہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں:جس نے بھی میلاد النبی ﷺکی صدق دل سے تعظیم کی تو اس نے گویا اسلام کو زندہ کیا۔حضرت عثمان غنی فرماتے ہیں: جس نے بھی( بصورت محفل میلاد) مولد النبی ﷺکے پڑھنے پر ایک درہم بھی خرچ کیا توگویا کہ وہ بدر وحنین میں شریک ہوا۔حضرت علی المرتضیٰ وکرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:جس نے بھی میلاد النبی ﷺکی تعظیم کی اور قراءت مولدالنبی ﷺکے لیے سبب بنا تو وہ دنیا سے ایمان کی حالت میں جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا۔
مذکورہ حوالہ سے اس امر کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ رسول اکرم ﷺکی ولادت کی خوشی کا اظہار کرنا باعثِ سعادتِ دارین ومحافظتِ ایمان ہے اور اخروی درجات کی بلندی اور دخولِ جنت کاباعث ہے۔
اسی طرح کئی محققین کبار علماء نےمشائخ وصوفیاء کرام کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ میلاد النبی ﷺ باعثِ قرب ِالہی و رسول ﷺہونے کے ساتھ ساتھ دنیوی شان وشوکت کے لیے بھی باعثِ ترقی ہےچنانچہ روایت میں مذکور ہے:
وقال حسن بصرى قدس اللّٰه سره وددت لوكان لى مثل جبل احد ذھبا فانفقتة على قراءة مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وقال جنید بغدادى قدس اللّٰه سره من حضر مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم وعظّم قدره فقد فاز بالایمان وقال معروف كرخى قدس اللّٰه سره من ھيأ طعامالاجل قراءة مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم وجمع اخوانا واوقد سراجا ولبس جدیدا وتبخر وتعطرتعظیما لمولد النبى حشره اللّٰه یوم القیامة مع الفرقة الاولى من النّبّیین وكان فى اعلى علّیّین...وقال السَّرِى لسَّقطى قدس اللّٰه سره من قصد موضعا یقرأفیه مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقد قصد روضة من ریاض الجنة لانه ماقصد بذلک الالمحبة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وقد قال35من احبنی كان معى فى الجنه.36
حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں: میں اس کو محبوب رکھتا ہوں کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابرسونا ہو تو میلاد شریف کے پڑھوانے پر صرف کردوں۔حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ جو میلاد شریف میں شامل ہوا اور اس کےمقام کی و مرتبہ کی تعظیم کی تو تحقیق وہ ایمان کے ساتھ ابدی فلاح پا گیا۔حضرت معروف کرخی فرماتے ہیں کہ جس نے میلاد شریف کے پڑھوانے کے لیے کھانا تیار کیا، مسلمانوں کو جمع کیا ، میلاد کی تعظیم کے لیے روشنی کی، نیا لباس پہنااور خوشبو وعطر لگایا تو اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اس کا حشر انبیاء کرام کے ساتھ کرے گا اور وہ اعلیٰ علیین میں ہوگا۔حضرت سری سقطی فرماتے ہیں کہ جس نے کسی ایسی جگہ کا قصد کیا جہاں میلاد شریف پڑھا جاتا ہے تو اس نے گویا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کا قصد کیا کیونکہ اس نے حضور نبی کریم ﷺکی محبت ہی میں ایسا کیا۔
ان اقوالِ مشائخ سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم ﷺکے میلاد کی خوشی کااظہار کرنا ایمان و اخلاص اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کا سبب ہے۔
جس طرح ابن حجر مکی نے صوفیاء کےاقوال ذکر کیے ہیں اسی طرح محققین علماء کے اقوال کو بھی ذکر کیا ہے۔چنانچہ آپ امام فخر الدین رازی کے حوالہ سے رقمطراز ہیں:
قال وحید عصره وفرید دھره الامام فخر الدین الرازى مامن شخص قرأمولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم على ملح او بر او شى آخر من المأ كولات لا ظھرت فیه البر كة وفى كل شئى وصل الیه من ذلک الماكول فانه يضطرب ولا يستقر حتى یغفر اللّٰه لاكله وان قرى مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم على ماء فمن شرب من ذلک الماء دخل قلبه الف نور ورحمة وخرج منه الف غلة وعلة ولایموت ذلک القلب یوم تموت القلب ومن قرأ مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم على درھم مسکوكة فضة كانت او ذھبا وخلط تلک الدراھم بغیرھا وقعت فیه البركة ولایفتقر صاحبھا ولا تفرغ یده ببركة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم.37
امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے نمک، گیہوں یا کھانے کی ایسی ہی کسی اور چیز پر حضور ﷺکا میلاد شریف پڑھوایا تو اُس شئے میں برکت ظاہر ہوگی اور ہر اس چیز میں بھی جس تک یہ کھانے کی اشیاء پہنچیں گی ۔ یہ برکت رکے گی نہیں بلکہ مسلسل رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے کھانے والے کی مغفرت کردے گا۔اگر پانی پر میلاد شریف پڑھوایا جائے تو جو اس پانی کو پئے گاتو اُس کے قلب میں ہزار انوار ورحمت داخل ہوں گے اور اس کے دل سے ہزار کینے اور بیماریاں نکل جائیں گی۔ جس دِن دِل مریں گے اُس دن اس کا دِل نہیں مرے گا۔جس نے چاندی یا سونے میں ڈھلے درہم پر میلاد پڑھوایا اور اس درہم کو دوسرے درہم میں ملایا تو اس میں برکت واقع ہوگی اور یہ شخص محتاج بھی نہیں ہوگا اور نہ اس کا نبی اکرم ﷺکی برکت سے ہاتھ خالی ہوگا ۔
اسی طرح میلاد النبی ﷺکے حوالہ سے ابن حجر ہیتمی چند کبار علماء کے اقوال کو قلمبند کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
قال الامام الشافعى رحمة اللّٰه عليه من جمع لمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم اخوانا وھیأ طعما واخلى مکاناو عمل احسانا وصار سببا لقرأته بعثه اللّٰه یوم القیامة مع الصدیقین والشھداء و الصالحین ویکون فى جنات النعیم...وقال سلطان العارفین الامام جلا ل الدین السیوطى قدس اللّٰه سره ونور ضریحه فى كتابه المسمى الوسائل فى شرح الشمائل ما من بیت او مسجد او محلة قرى فیه مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الا حفت الملائکة ذلک البیت اوالمسجداو المحلة وصلت الملائکة على اھل ذلک المکان وعمهم اللّٰه تعالى بالرحمة والرضوان واما المطوقون بالنوریعنی جبرائیل ومیکائیل واسرافیل وعزرائيل عليھم السلام فانھم یصلون على من كان سببا لقراءة مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم وقال ایضا مامن مسلم قرء فى بیته مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم الارفع اللّٰه سبحانه وتعالى القحط والوباء والحرق والغرق والآفات والبلیات والبغض والحسد وعین السوءواللصوص عن اھل ذلک البیت فاذا مات هون اللّٰه علیه جواب منکر ونکیرویکون فى صدق عند ملیک مقتدر38 .
امام شافعی فرماتے ہیں کہ جس نے مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم کے پڑھنے کے لیے احباب و اخوان کوجمع کیا اور کھانے کا انتظام کیا اپنے گھر کو اس کےلیے سازوسامان سے خالی کیا اور اچھے اعمال کیےاور اس کی قراءت کے لیے سبب بنا تو قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص کو صدیقین و شہداء وصالحین کے ساتھ اٹھائے گااور یہ جنات النعیم میں ہوگا۔امام جلال الدین سیوطی (اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی قبر کو منور فرمائے)اپنی کتاب میں جس کا نام" الوسائل فی شرح الشمائل" ہے میں فرماتے ہیں: جس گھر ، مسجد یا محلہ میں میلاد شریف پڑھا جائے گا تو فرشتے اس گھر ،مسجداور محلہ پر چھا جائیں گے اور ان کے حاضرین پر دعائے رحمت کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت و خوشنودی سے نوازے گا۔نوری مخلوق یعنی جبرائیل ومیکائیل واسرافیل وعزرائیل یہ سب اس شخص کے لیے دعاء رحمت کرتے ہیں جو مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم کے پڑھے جانے کے لیے سبب بنتا ہے۔آپنے مزید کہا ہے: جو مسلمان اپنے گھر میں میلاد شریف پڑھوائے گا اللہ تعالیٰ اس گھر کو قحط و وباء، جلنے ڈوبنے اور آفات و بلیات اور بغض و حسد اور بدنظری اور چوری سے محفوظ رکھے گا اور جب وہ مرجائے گا تو اللہ اس پر منکر نکیر کے جواب آسان کرے گا اور وہ سچائی کی جگہ میں حضورِ الٰہی میں رہے گا۔
مذکورہ تمام اقوال علماء محققین و مشائخ کاملین سے یہ بات واضح تر ہوجاتی ہے کہ رسول اکرم ﷺکے میلاد النبی ﷺکی خوشی کا اظہارکرنا ہر لحاظ سے برکات وثمرات کاباعث ہے۔ابن حجر مکی ان مذکورہ اقوال کو نقل کرنے کےبعد اپنا مدعا وموقف تحریر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
فمن اراد تعظیم مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم یکفیه ھذالقدرولم یکن عنده تعظیم مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لوملأت له الدنیا فى مدحه لم یحرک قلبه فى محبة له صلى اللّٰه عليه وسلم جعلنا اللّٰه واياكم ممن یعظمه ویعرف قدره .39
جس شخص کا میلاد النبی ﷺکی تعظیم کا ارادہ ہو تو اس کے لیے مذکورہ دلائل کافی ہیں اورجس کا میلاد النبیﷺ کی تعظیم کا ارادہ نہ ہواگر اُس کے لیے میلاد النبی ﷺکی تعریف میں دنیا بھرجائے تو بھی اُس کا دل محبت نبوی ﷺ میں متحرک نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اُن میں رکھے جو تعظیم کرنے اور قدر پہچاننے والے ہیں۔
انہی اقوال کی طرح حضرت علامہ قسطلانی بھی میلاد النبی ﷺکی برکات کے بارے میں رقمطراز ہیں:
لا زال أھل السلام يحتفلون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ويعملون الولائم، ويتصدقون فى لياليه بأنواع الصدقات، ويظھرون السرور، ويزيدون فى المبرات. ويعتنون بقراءة مولده الكريم، ويظھر عليھم من بركاته كل فضل عميم...فرحم اللّٰه امرأاتخذ ليالى شھر مولده المبارك أعيادا...فاللّٰه یثیبه على قصده الجلیل ویسلک بناسبیل السنة.40
ہمیشہ سے اہل اسلام رسول اکرم ﷺکی ولادت کے مہینہ میں محافل کا انعقادکرتے اور دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔اس ماہ کی راتوں میں کئی اقسام کے صدقات دیتے ہیں ۔خوشی کا اظہا رکرتے ہیں اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں۔مولد النبی ﷺکے پڑھنےکا اہتمام کرتے ہیں تو ان پر ہر قسم کی برکتوں اور انعامات کا ظہور ہوتا ہے۔۔۔پس اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اُس شخص پر جو مولود مبارک کے مہینہ کی راتوں کو عید کی طرح مناتےہیں ۔ پس اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو ان کے عظیم مقصد پر اجر عطا فرمائےاور ہمیں سنت کے راستہ پہ چلائے۔
اس كی شرح میں علامہ زرقانی مالکی تحریر فرماتے ہیں:
فاللّٰه يثيبه على قصده الجميلالجنة ونعيمھا ويسلك بنا سبيل السنة أى: الطريق الموصلة إليھا من فعل الطاعات واجتناب المعاصى، والمراد: طلب الھداية إلى ذلك.41
پس اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو ان کے عظیم مقصد پر اجر عطا فرمائے یعنی جنت اور ا سکی نعمتیں،اور ہمیں سنت کے راستہ پہ چلائےیعنی ایسا راستہ جو نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی طرف لیجانے والا ہو اور اس سے مراد اس کی طرف منجانب اللہ ہدایت کا حصول ہے۔
امام قسطلانی کی عبارت سے ثابت ہوا کہ ماہِ ربیع الاوّل میں میلاد کی محفلوں کو منعقد کرنا، ذکر میلاد کرنا ،کھانے پکا کر دعوتیں کرنا، قسم قسم کے صدقہ و خیرات کرنا، خوشی و مسرت کا اظہار کرنا، نیک کاموں میں زیادتی کرنا ہمیشہ سے اہل اسلام کا طریقہ رہا ہے اور ان اُمور کی بدولت ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل عمیم اور اس کی برکتوں کا ظہور ہوتا ہے۔ محفل میلاد کی برکتوں سے سارا سال امن و امان سے گزرتا ہے اور دِلی مرادیں پوری ہوتی ہیں ۔ ماہِ میلاد کی راتوں کو عید منانے والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہوتی ہیں۔ربیع الاوّل شریف کی یہ خوشیاں اور عیدیں ان لوگوں کے لیے سخت مصیبت ہیں جن کے دلوں میں نفاق کا مرض اور عداوت رسول ﷺکی بیماری ہے ۔42
اس عبارت سے مزید درج ذیل ا مور واضح ہوتے ہیں:
اسی حوالہ سے امام یوسف بن صالحی شامی نے بھی کچھ سطور قلمبند فرمائی ہیں چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
وقال امام الحافظ ابو الخیر ابن جزرى رحمه اللّٰه تعالىٰ شیخ القراء: من خواصه أنه أمان فى ذلك العام، وبشرى عاجلة بنيل البغية والمرام.44
امام حافظ ابو الخیر ابن جزری فرماتے ہیں:مولود شریف کے خواص و برکات میں سے ایک یہ بھی مجرب چیز ہےکہ میلاد شریف سے سال بھر امن و امان قائم رہتا ہے اور میلاد کرنے والے کی حاجتیں، مرادیں پوری ہوتی ہیں۔
معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺکی ولادت پر خوشی کا اظہار کرنا اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بھی مجرب عمل ہےیعنی اگر کوئی فرد اس محفلِ میلاد کا انعقاد کرے تو وہ بمع اہلِ خانہ،اگر چند افراد مل کراس کا انعقاد کریں تو تمام شرکاء بمع اہل خانہ اور اگر والی ،گورنر،صدر اور وزیرِ اعظم ریاستی سطح پر خلوصِ نیت اور بغیرکسی دنیاوی و مادّی منفعت کے محفلِ میلادمنعقد کریں تو یقیناً اس کی برکتوں سے کوئی بھی محروم نہیں رہےگا کیونکہ محفلِ میلاد تلاوتِ قرآنِ کریم،نعتِ رسولِ مقبول ﷺا ورذکرِ رسول ﷺکا مجموعہ ہے اور یہ سب چیزیں بنفسہ عبادات ہیں لہذاان کا مجموعۂ عبادات محفلِ میلاد کی صورت میں منعقد کیا جاتا ہے جس پر نزولِ رحمت کی نوید قرآن وسنت کی روشنی میں ایک بدیہی امر ہے۔
میلاد النبی ﷺکی خوشی میں اظہارِ سرورکرنا انتہائی خوش نصیبی اور سعادت کی بات ہےجس سے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے اور روح کو سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے چنانچہ اسی حوالہ سے علامہ ابن جوزی تحریر فرماتے ہیں:
و جعل لمن فرح بمولده حجابا من النار و سترا. ومن انفق فى مولده درھما كان المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم له شفعا و مشفعا و اخلف اللّٰه علیه بکل درھم عشرافیا بشرى لکم امة محمد لقد نلتم خیرا كثيرا فى الدنیا و فى الاخرى.45
ہر وہ شخص جو آپﷺ کی ولادت کے باعث خوش ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آگ سے محفوظ رہنے کے لیے حجاب اور ڈھال بنادی۔جس نے مولد مصطفیٰ ﷺکے لیے ایک درہم خرچ کیا تو آپ ﷺاس کے لیے شافع و مشفع ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ہر درہم کے بدلہ دس درہم معاوضہ دے گا۔ اے امت محمدیہ ﷺتجھے بشار ت ہو کہ تو نے دنیا و آخرت میں خیر کثیر حاصل کرلی۔
آپ مزیدکلام کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
جو احمد مجتبیٰ ﷺکی ولادت کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو وہ سعادتمند ہے اور خوشی، عزت اور خیر و فخر کو پالے گا۔ جنّتِ عدن میں موتی سے مرصّع تاج اور سبز لباس کے ساتھ داخل ہوگا۔اس کو محل عطا کیے جائیں گے جو بیان کرنے والے کے لیے شمار نہیں کیے جائیں گے، ہر محل میں کنواری حور ہے۔ خیرالانام ﷺپر صلوٰۃ بھیجو، یقیناً آپ ﷺکی ولادت کے باعث بھلائی عام پھیلائی گئی اور جس نے بھی آپ ﷺپر ایک دفعہ صلوٰۃ بھیجی ہمارا رب کریم اس کو دس مرتبہ جزا دے گا۔ 46
اسی طرح میلاد النبی ﷺکے عمل کو سر انجام دینے سے انسان کے اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہوتا ہے اور وہ اجر وثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے چنانچہ کتابِ سیرت، سبل الھدٰی والرّشادمیں مذکور ہے:
و قال الإمام العلامة ظھير الدين جعفر...ھى بدعة حسنة إذا قصد فاعلھا جمع الصالحين والصلاة على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وإطعام الطعام للفقراء والمساكين، وھذا القدر يثاب عليه بھذا الشرط فى كل وقت .47
امام علامہ ظہیر الدین جعفر کہتے ہیں کہ۔۔۔ میلاد النبی ﷺکا عمل بدعت حسنہ میں شامل ہے بشرطیکہ جب اس عمل کو سر انجام دینے والےکا مقصد صرف صالحین کو جمع کرنا ، نبی کریمﷺ پر درود پڑھنا اور فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا ہو۔اتنے عمل پرہر وقت اس کے عامل کو ثواب دیا جائےگا۔
صاحب سبل الھدٰ ی مزید ایک اور محقِّق کا قول مذکورہ حوالہ سے نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
قال الشيخ نصير الدين أيضاً: ليس ھذا من السّنن، ولكن إذا أنفق فى ھذا اليوم وأظھر السرور فرحاً بدخول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى الوجود واتخذ السماع الخالى عن اجتماع المردان وإنشاد ما يثير نار الشھوة من العشقيات والمشوّقات للشھوات الدنيويّة كالقدّ والخدّ والعين والحاجب، وإنشاد ما يشوّق إلى الآخرة ويزھد فى الدنيا فھذا اجتماع حسن يثاب قاصد ذلك وفاعله عليه، إلا أن سؤال الناس ما فى أيديھم بذلك فقط بدون ضرورة وحاجة سؤالٌ مكروہ، واجتماع الصّلحاء فقط ليأكلوا ذلك الطعام ويذكروا اللّٰه تعالى ويصلّوا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يضاعف لھم القربات والمثوبات.48
شیخ نصیرالدین نے لکھا ہے :یہ میلاد النبی ﷺکا عمل سنت تو نہیں ہے لیکن اس نیت سے اس روز خرچ کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا کہ اس دن حضور ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی، ایسا سماع منعقد کرنا جو بے ریش لڑکوں سے خالی ہو اور ایسے نغمات سے خالی ہو جن میں عشقیہ اور دنیاوی خواہشات کو ابھارنے والے اشعار ہوں جیسے کہ قدر، رخسار، آنکھوں اور آبرو کی تعریف کرنا، بلکہ ایسے اشعار پڑھنا جو آخرت کی رغبت دلائیں اور دنیا سے زہد پیدا کریں تو یہ ایک عمدہ اجتماع ہے۔ اس کے انعقاد کرنے والے کو عمدہ ثواب ملے گا لیکن اس میں لوگوں کا بلا ضرورت مانگنا مکروہ ہے۔ البتہ پاکباز افراد کا ایسا اجتماع اور اس میں جو کھانا کھائیں، رب تعالیٰ کا ذکر کریں، حضور ﷺپر درود پاک پڑھیں تو اس سے اس شخص کے ثواب و اجر میں کئی گنا اضافہ ہوگا49۔
مذکورہ قول صاحبِ سبل نے شیخ نصیر الدین کے حوالہ سے نقل کیا تھا ۔اس حوالہ سے اما محمد بن یوسف الصالح الشامی اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلھا والاستحباب لھا ورجاء الثواب لمن حسنت نيته فيھا...ومن أحسن ما ابتدع فى زماننا هذا من هذا القبيل ماكان يفعل بمدينة إربل... كل عام فى اليوم الموافق ليوم مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم من الصدقات والمعروف وإظھار الزينة والسرور، فإن ذلك مع ما فيه من الإحسان إلى الفقراء مشعر بمحبة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظيمه وجلالته فى قلب فاعله وشكر اللّٰه تعالى على من منّ به من إيجاد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الذى أرسله رحمةً للعالمين صلى اللّٰه عليه وسلم.50
بدعتِ حسنہ کے جواز پر اتفاق ہے۔ یہ مستحب ہے۔ اس میں اس شخص کو ثواب ملتا ہے جس کی نیت عمدہ ہوتی ہے۔ اس طرح ہمارے زمانہ کی بدعت حسنہ جو اربل کے شہر میں منعقد ہوتی ہے یہ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے جوعمدہ بھی ہے ۔ یہ محفل ہرسال ولادت باسعادت کے روز منائی جاتی ہے۔ صدقات دیے جاتے ہیں، بھلائی کی جاتی ہے ،زینت اور سرور کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں فقراء کے ساتھ احسان بھی ہے جو اس امر کا شعور دلاتا ہے کہ محفلِ میلاد کا انعقاد کرنے والے کے دل میں حضور ﷺکی محبت، تعظیم اور شان ہے۔ وہ رب تعالیٰ کا شکر ادا کررہا ہے۔ جس نے حضور ﷺکو رحمتہ للعالمین ﷺبناکر مبعوث فرمایا51۔
اسی طرح اس موضوع کے حوالے سے اما م جلال الدین السیوطی رقمطراز ہیں:
ھو من البدع الحسنة التى يثاب عليھا صاحبھا لما فيه من تعظيم قدر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وإظھار الفرح والاستبشار بمولده الشريف. 52
میلاد النبی ﷺکا عمل بدعت حسنہ ہے ۔اس عمل کو سرانجام دینے والا ثواب کا مستحق ہوگا کیونکہ اس میں نبی کریم ﷺکی تعظیم و شان ہے اور آپ ﷺکی پیدائش پر مسرت و خوشی کا اظہار ہے۔
اسی طرح امام سخاوی کے حوالہ سے شیخ نبھانی نے تحریر کیا ہے کہ مسلمان آپ صلى اللّٰه عليه وسلم میلاد کی خوشی میں صدقہ وخیرات کرتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ دعوتوں اور محافل کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ مزید شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی نے امام سخاوی کا یہ جملہ بھی نقل کیا ہے:
ویظهرعليھم من بركاته كل فضل عمیم.53
ان مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا عمومی فضل اور اس کی برکتوں کا ظہور ہوتا ہے۔
علامہ سخاوی کے مذکورہ بالا قول کو صاحب روح البیان نے بھی نقل کیا ہے54اوراسی طرح کا قول شیخ قسطلانی نے بھی اپنی کتاب میں تحریر فرمایا ہے55 جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضلِ عمیم کا ایک ذریعہ حضور اکرم ﷺکے میلاد پر خوشی منانا اور اس کا تذکرہ کرنا بھی ہے۔
میلاد النبی ﷺکی برکات میں سے یہ بھی ہے کہ جو شخص اس عمل کو اخلاص کے ساتھ قرب الہی کے لیے سرانجام دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ایسےشخص کو اجر ِعظیم عطا فرماتا ہےاورساتھ ہی ساتھ اس شخص کو جہنم سے آزادی کاپروانہ بھی عطافر مادیتا ہےچنانچہ اس حوالہ سے علامہ یوسف شامی رقمطراز ہیں:
قال الشيخ الإمام العلامة نصير الدين المبارك الشهير بابن الطبّاخ في فتوى بخطه: إذا أنفق المنفق تلك الليلة وجمع جمعاً أطعمهم ما يجوز إطعامه وأسمعهم ما يجوز سماعه ودفع للمسمع المشوّق للآخرة ملبوساً، كلّ ذلك سروراً بمولده صلى اللّٰه عليه وسلم فجميع ذلك جائز ويثاب فاعله إذ أحسن القصد.56
شیخ امام علامہ نصیر الدین ابن الطبا خ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے: جب کوئی خرچ کرنے والا اس رات میں خرچ کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو جمع کرتا ہے۔ انہیں وہ جو کچھ کھلاتا ہے جس کا کھانا حلال ہے۔ وہ سناتا ہے جس کا سننا حلال ہے اور لوگوں کو ایسے امور بتاتا ہے جو انہیں آخرت کا شوق دلاتے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ حضور ﷺکی ولادت مبارک پر خوشی مناتے ہوئے کرتا ہے تو یہ سب کچھ جائز ہے اوراس کو ثواب ملے گابشرطیکہ اس کی نیت صاف ہو57 ۔
آپ اس حوالہ سے مزید تحریر فرماتے ہیں:
وقال الشيخ الإمام جمال الدين بن عبد الرحمن الكتانى رحمه اللّٰه تعالى مولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مبجّل مكرّم، قدّس يوم ولادته وشرّف وعظم، وكان وجوده صلى اللّٰه عليه وسلم مبدأ سبب النجاة لمن اتبعه وتقليل حظّ جھنم لمن أعدّ لھا لفرحه بولادته صلى اللّٰه عليه وسلم وتمّت بركاته على من اھتدى به، فشابه ھذا اليوم يوم الجمعة من حيث أن يوم الجمعة لا تسعّر فيه جھنم، ھكذا ورد عنه صلى اللّٰه عليه وسلم فمن المناسب إظھار السرور وإنفاق الميسور وإجابة من دعاه ربّ الوليمة للحضور.58
شیخ امام جمال الدین بن عبدالرحمن الکتانی نےفرمایا:حضور ﷺکا میلاد پاک منانا باعث عزت و تکریم ہے۔ آپ ﷺ کی ولادت کا دن بڑا عظیم اور مقدس ہے۔ آپ ﷺکا وجود مسعود اس کی نجات کے لیے سبب کا مبداء ہے جو آپ ﷺکی اتباع کرتا ہے۔ جو آپ کی ولادت پر خوشی مناتا ہے اسے جہنم کی آگ سے آزاد کردیا جاتا ہے۔ اس کی برکات اس شخص کے لیے مکمل ہوجاتی ہیں جو اس سے ہدایت پاتا ہے۔ یہ دن روز جمعہ کے مشابہ ہے جس میں جہنم کو بھڑکایا نہیں جاتا۔ اس کے لیے مسرت کا مناسب اظہار کرنا، خرچ کرنا اور اس شخص کی دعوت پر جانا جو محفل میلاد کراتاہے یہ مناسب ہے59۔
اسی طرح اس حوالہ سے علامہ سید احمد دمشقی نے بھی چند سطور رقم فرمائی ہیں جس میں انہوں نے میلاد النبی ﷺپر خوشی کا اظہار کرنے کے حوالہ سےچند سطور قلمبند کی ہیں چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
فعسى ان یدخل بشفاعته مع السابقین الاخیار فان سرت محبته فى جسده لایبلى ولمتحصل مرتبة الشفاعة لأھلھا الا بواسطة حبھم لجنابه الاعلى. 60
ایسا کرنے والے کے لیے ممکن ہے کہ وہ بہت جلد نبی کریم ﷺکی شفاعت سے ان حضرات میں شامل کردیا جائے جو سابقین اور بہترین لوگ ہوئے۔ اس لیے کہ جس شخص کے جسم میں حضور نبی کریم ﷺکی محبت رچ بس جاتی ہے وہ کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا۔ کل قیامت کو جو لوگ بھی مرتبہ شفاعت پائیں گے، انہیں یہ مرتبہ حضور نبی کریم ﷺسے محبت کی وجہ سے ہی ملے گا۔ 61
آپ مزید اس موضوع کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
عسى ان يدخل الجنة مع الابرار بفضل الصلاة والتسلیم على انسان عین. 62
ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ نیک لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے۔ اور اس ذات پر صلوٰۃ و سلام کی برکت سے اسے جنت میں داخلہ مل جائے جو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگوں کی آنکھ کی پتلی ہیں ۔
یعنی میلاد النبی ﷺکی برکات میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تبار ک وتعالیٰ ایسے شخص کو جو رسول اکرم ﷺکی ولادت کی خوشی کرتا اور اس کا تذکرہ کرتا ہے اسے جنت میں اپنے مقرب بندوں کے ساتھ داخل فرمادے۔
میلاد النبی ﷺانتہائی بابرکت عمل ہے جس کی وضاحت درج بالا سطور سے ہوچکی ہے۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے منانےسے اور بھی بے شمار و بے حساب برکات و انوارات کا ظہور ہوتا ہے۔اس حوالہ سے کئی علماء نے اپنے واقعات تحریر فرمائے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میلاد النبی ﷺکے عمل کو سرانجام دینے سے صرف قربِ رسول مکرم ﷺہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ نبی مکرم ﷺکی زیارت بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی برکت حاصل ہوتی ہےکہ رسول اکرم ﷺکی اپنے سر کی آنکھوں سے بیداری کی حالت میں بھی زیارت نصیب ہوجاتی ہے ۔ جیساکہ نبی مکرم ﷺکا فرمان ذی وقار ہے:
من رآنى فى المنام فسيرانى فى اليقظة، ولا يتمثل الشيطان بى.63
جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو عنقریب وہ مجھے بیداری کی حالت میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری مثل اختیار نہیں کر سکتا۔
اس روایت کوطبرانی نے معجم میں بھی نقل کیا ہے64۔ اس مذکورہ حدیث مبارکہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم ﷺکی خواب میں زیارت، بیداری میں بھی زیارت کا باعث ہے۔بہر کیف علماء ذی احتشام نےمیلاد النبی ﷺکی برکات کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بیان کیا ہے کہ رسول اکرمﷺکی ولادت باسعادت کی خوشی کرنے کی بنا پر آپ ﷺکی زیارت بھی نصیب ہوجاتی ہے اور آپ ﷺاس بات پر خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں چنانچہ اس حوالہ سے امام محمد بن یوسف الصالح الشامی رقمطراز ہیں:
وممن عمل ذلک على قدر وسعه یوسف الحجاروقد رأ النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو یحرض یوسف المذكور على عمل ذلک.65
اور میلاد النبی ﷺکے عمل کو اپنی حیثیت کے مطابق سرانجام دینے والوں میں سے یوسف الحجار ہیں اور تحقیق انہوں نے نبی مکرم ﷺکی خواب میں زیارت کی ہےا ور اس میں یہ دیکھا کہ آپ ﷺان کو اس عمل کی ترغیب فرمارہے تھے۔
اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مزید آپ کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
قال: وسمعت يوسف بن على بن زريق الشامى الأصل المصرى المولد الحجّار بمصر فى منزله بھا حيث يعمل مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم يقول: رأيت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى المنام منذ عشرين سنة وكان لى أخ فى اللّٰه تعالى يقال له الشيخ أبو بكر الحجّار فرأيت كأننى وأبا بكر ھذا بين يدى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم جالسين، فأمسك أبو بكر لحية نفسه وفرقھا نصفين وذكر للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم كلاماً لم أفھمه فقال النبى صلى اللّٰه عليه وسلم مجيباً له: لولا ھذالكانت ھذه فى النار ودار إلى وقال: لأضربنك...حتى لا تبطل المولد ولا السّنن قال يوسف: فعملته منذ عشرين سنة إلى الآن66.
(علامہ ابن مظفرنے)کہا:میں نے یوسف بن علی مصری کو سنا وہ اپنے گھر میں محفل میلاد کا انعقاد کرتے تھے ، وہ فرماتے ہیں میں نے خواب میں حضور اکرم ﷺکو دیکھا۔ اس خواب کو بیس سال گزرچکے ہیں۔ میرا ایک دینی بھائی تھا۔ اس کا نام شیخ ابوبکر حجار تھا۔ میں نے دیکھا کہ گویا کہ میں اور شیخ ابوبکر حجار حضور ﷺکے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابوبکر نے اپنی داڑھی پکڑلی اور اسے دو حصوں میں بانٹ دیااور حضور ﷺسے ایسا کلام کیا جسے میں نہ سمجھ سکا۔حضور اکرم ﷺنے انہیں جواب ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا : اگر یہ نہ ہوتا تو یہ آگ میں ہوتی۔ پھر آپ ﷺنے میری طرف رخ انور کیا اور آپ ﷺنے فرمایا: میں تمہیں ماروں گا۔۔۔ تاکہ تو میلاد پاک منانا اور سنتیں ترک نہ کرے۔ یوسف نے کہا: بیس سال سے میں محفل میلاد کرارہا ہوں.67
اسی حوالہ سے آپ اسی طرح کےمزید دو واقعات قلمبند کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
قال: وسمعت يوسف المذكور يقول: سمعت أخى أبا بكر الحجّار يقول: سمعت منصوراً النشّار يقول: رأيت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى المنام يقول لى: قل له لا يبطله يعنى المولد ما عليك ممن أكل وممن لم يأكل. قال: وسمعت شيخنا أبا عبد اللّٰه بن أبى محمد النّعمان يقول: سمعت الشيخ أبا موسى الزّرھونى يقول: رأيت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى النوم فذكرت له ما يقوله الفقھاء فى عمل الولائم فى المولد فقال صلى اللّٰه عليه وسلم :من فرح بنا فرحنا به.68
(ابن مظفر نے)کہا:میں نے اس مذکورہ شخص یوسف کو سنا کہ وہ کہ رہے تھےمیں نے اپنے بھائی ابوبکر حجار سے سنا، انہوں نے کہا : میں نے منصور نشار سے سنا۔ انہوں نے کہا : میں نے خواب میں حضور اکرم ﷺکی زیارت کی اور آپ ﷺنے مجھ سے ارشاد فرمایا:اس سے کہو کہ میلاد النبی ﷺکے عمل کو ترک نہ کرے۔تم پر کوئی حرج نہیں ہے اس شخص کے بارے میں جو(نیاز) کھائے اور جو نہ کھائے۔(ابن مظفر نے)کہا:میں نے اپنے شیخ ابو عبد اللہ بن ابی محمد نعمان سے سناکہ وہ فرماتے ہیں:میں نے شیخ ابو موسی زرہونی سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں:میں نے نبی اکرم ﷺکی خواب میں زیارت کی میں نے وہ قول عرض کیا جو فقہاء محافل میلاد کے بارے 69 کرتے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا : جو ہم سے خو ہوتا ہے، ہم اس سے خوش ہوتے ہیں70 ۔
اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنے والد محترم کا قصہ بیان کیاہےچنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
اخبرنى سیدى الوالد (شاہ عبد الرحیم الدھلوى )كنت اصنع فى ایام المولد طعاما صلة للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم فلم یفتح لى سنة من السنین شى اصنع به طعامافلم اجد الا حمصا مقلیا فقسمة بین الناس فرأیته صلى اللّٰه عليه وسلم وبین یدیه ھذا الحمص متبھحا بشاشا.71
مجھے میرے سردار والد محترم (شاہ عبدالرحیم دہلوی)نےخبردی:فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ ایام مولود شریف میں میلاد شریف کی خوشی کرتا اورنبی پاک ﷺکی نیاز کا کھانا تیار کیا کرتا تھا ۔ پس ایک سال بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ آیا، میں نے وہی چنے لوگوں میں تقسیم کروائے تو رسول اللہ ﷺکی زیارت نصیب ہوئی اور دیکھا تو وہی چنے حضور ﷺکے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ ﷺخوش اور مسرور ہیں۔
اسی طرز کا ایک واقعہ علامہ ابن جوزینے اپنی کتاب "مولد العروس" میں بھی ذکرکیا ہے جس کو تلخیصا ً علامہ محمد عابد سندی انصاری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
قال: روى انه كان رجل فى بغداد أو فى مصر، وكان یصنع فى كل سنة مولد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم، ویجمع الناس على تلاوة القرآن التماساً ببركة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم، وكان بجواره رجل یھودى فقالت له زوجته: ما بال جارنا المسلم یبذل مالاً جزیلاً وینفق أمولاً كثيرة ویتصدّق على الفقرآ ى و المسکین ویطعم بأنواع الطعام فى كل عامٍ فى مثل ھذا الشھر دون سائر الشھور؟ فقال لھا زوجھا: یزعم أن نبیه ولد فیه فهو یفعل ذلک كرامة له، فناما لیتھما وكان فیقلب الزوجة اشتیاق المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم فرأت فى المنام كان رجلاً جمیل الوجه كثيرا ا لأنوار قد دخل بیت جارھم المسلم، وحوله جماعة من أصحابه كالا قمار، وھم یعظمونه ویبجلونه، فقالت لواحد منھم: من ھذا جمیل الوجه كثيرا لأنوار؟ فقال لها: هذا محمد المختار صلى اللّٰه عليه وسلم قد دخل بیت جارک المسلم یزورلفر حهم به، قالت: ھل یکلمنى إذاكلمة؟ فقالوا: نعم إنّه لیس بمتکبر ولا متجبر فاتت إلیه، فقالت: یا محمد، فقال: لبیک یا أمة اللّٰه فبکت، وقالت: یا رسول اللّٰه أتجیب مثلى بالتلبیة وأنا على غیر دینک ومن أعدائک؟!! فقال لھا: والذى بعثنى بالحق نبیاً ماأجبتُ ندائک حتّى علمتُ أن اللّٰه تعالى قد ھداکِ، فقالت له: إنک لنبى كريم وإنک لعلى خلق عظیم، تَعِسَ من خالف أمرک، وخاب من جھل قدرک، فإنى أشھد أن لا إله إلاّ اللّٰه وأنّ محمّداً رسول اللّٰه، فاستیقظت فرحة مسرورة بھذا المنام، حیث رأت سیّد الأنام، ودخلت فى ملة الإسلام، فعاھدت اللّٰه تعالى فى سرّھا أنھا إذا أصبحت تتصدّق بجمیع ماتملکه، وتعمل مولد النبى فرحة بإسلامھا، وشکراً للرؤیا التى رأتھا فى منامھا، فلما أصبحت رأت زوجھا قد تھیّأللولیمة بھمة عظیمة، وشّمر عن ساعدیه بنیّة رفیعة، ووضع القدور على النار، وھوبخدمھا بنفسه، وعلیه أثر الفرح والاستبشار، فقالت له: مالى أراک فى ھمّة عظیمة صالحة؟!! فقال:مِن أجل الذى أسلمتِ على یدیه البارحة، قالت له: من كشف لک عن ھذالسرالمصون وأطلعک علیه؟فقال لها:الذى أسلمتُ أنا من بعدکِ على یدیه، فقالت: الحمدللّٰه الذى جمعنى وإیاک على دین الإ سلام، وأنقذنا من الکفر والظلام ببركة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم. 72
ایک روایت مشہور ہے کہ بغداد یا مصر میں ایک شخص تھا جو ہر سال میلادالنبی ﷺکی محفل کرتا تھا اور اس کے پڑوس میں ایک یہودی مرد رہتا تھا ۔ایک دن اس یہودی کی بیوی نے تعجب سے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمارے مسلمان پڑوسی کو کیا ہوگیا ہے جو ہمیشہ اس مہینہ میں بہت زیادہ دولت اور اپنا مال و زر فقیروں اور مسکینوں پر خرچ کیا کرتا ہے اور قسم قسم کے کھانے تیار کرکے کھلاتا ہے ۔ اس عورت کے شوہر نے کہا:غالبا مسلمان یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کے نبی ﷺاس مہینہ میں پیدا ہوئے ہیں تو یہ ان کی پیدائش کی خوشی میں یہ سب کچھ کرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس سے اس کے نبی ﷺمسرور اور خوش ہوتے ہیں لیکن یہودی عورت نے اس کا انکار کیا ۔جب یہودی عورت رات ہونے پر سوگئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ ان کے مسلمان پڑوسی کے گھر میں کافی حسین چہرہ اورنورانی شخصیت والے شخص تشریف لائے اور ان کے ارد گرد ان کی تعظیم وتکریم کرنے والے ساتھیوں کی جماعت بھی ہے جو کہ چاند کے مثل خوبصورت ہیں۔ اس عورت نے یہ دیکھ کر تعجب کیا اور ان کے کسی ساتھی سے پوچھا یہ کون شخص ہیں جنہیں تم لوگوں میں سب سے زیادہ معززومحتشم دیکھ رہی ہوں؟ انہوں نے کہا: یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺہیں تو اس نے کہا کیا یہ مجھ سے بات کریں گے اگر میں ان سے کچھ کہوں تو؟اس ساتھی نے فرمایا ہاں! تو اس نے حضور اکرم ﷺکی طرف بڑھنے کا قصد کیا اور سامنے آکر سلام عرض کرکے کہا یارسول اللہ! حضور نے فرمایا اے اللہ کی بندی لبیک (میں موجود ہوں)۔ اس پر یہودیہ عورت رونے لگی کہ آپ مجھے کیوں جواب دیتے ہیں اور کیوں لبیک فرماتے ہیں حالانکہ میں آپ کے دین پر نہیں ہوں؟ اس پر حضور اکرم ﷺنے فرمایا میں نے تجھے جواب ہی اس وقت دیا ہے جبکہ میں نے جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت دینے والا ہے ۔پھر اس عورت نے عرض کیا کہ اب میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ پھر اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ اپنے اس خواب سے بےحد مسرور اور خوش تھی کہ اس نے سیدالانام ﷺکی زیارت کی اور ملّتِ اسلام میں داخل ہوئی۔ چونکہ اس نے خواب ہی میں عہد کرلیا تھا کہ اگر میں صبح جاگی تو رسول اللہ ﷺپر اپنا تمام مال وزر صدقہ کردوں گی اور آپ ﷺکی محفل میلاد منعقد کروں گی پھر جب اس نے صبح کی اور اپنے عہد کو پورا کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر بھی نہایت ہشاش بشاش ہے اور اپنا تمام مال و زر قربان کرنے پر آمادہ ہے۔ اس وقت اس نے اپنے شوہر سے کہا کیا بات ہے کہ میں تمہیں ایک نیک ارادے میں راغب دیکھ رہی ہوں یہ کس کے لیے ہے؟ اس نے اپنی بی بی سے کہا یہ تصدق اس ذات کے لیے ہے جس کے دست مبارک پر تم آج رات اسلام لاچکی ہو۔ اس عورت نے کہا اللہ تم پر رحم کرے تمہیں کس نے میری باطنی حالت پر مطلع کردیا؟ اس نے کہا اس ذات کریم نے جس کے دست اقدس پر تمہارے بعد میں اسلام لایا ۔اس عورت نے کہا اللہ ہی کے لیے حمد سزاوار ہے جس نے مجھے اور تجھے دین اسلام پر جمع فرمایا اور ہم دونوں کو شرک و گمراہی سے نجات دے کر امت محمدیہﷺ میں شامل فرمایا۔ 73
رسول اکرم ﷺکے میلاد کی برکت کی وجہ سے غیر مسلم کو اسلام کی دولت میسر آگئی تو جو مومن ہو اور اپنے رسول ﷺکی ولادت کی خوشی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنےکے لیے آپ ﷺکے میلاد کی محفل سجاتا ہے اور اس میں تذکرۂ مولود کرتا ہے تو ایسے شخص کے ایمان و اعمال اور تقوٰی میں ترقیاں ہی ہوں گی اور مزید قربِ الہی اور قربِ رسول ﷺسے نوازا جائے گا۔
آپ ﷺکے میلاد کی خوشی کرنے میں جہاں کئی طرح کی برکات اور کئی اقسام کے ثمرات ہوتے ہیں وہیں یہ بھی منقو ل ہے کہ ایسے مقامات پر فرشتوں کا نزول بھی ہوتا ہے جو در حقیقت رحمتِ باری تبارک وتعالیٰ کی نوید ہوتی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا واقعہ انتہائی مشہور ومعروف ہے جس میں انہوں نے نبی اکرم ﷺکی ولادت کے موقع پر انوارات کا مشاہدہ کیاچنانچہ وہ اس حوالہ سے رقمطراز ہیں:
وكنت قبل ذلک بمکة المعظمة فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى یوم ولادته والناس یصلون على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ويذكرون ارهاصاته التى ظھرت فى ولادته ومشاھده قبل بعثتة فرأیت انواراسطعت دفعة واحدة لااقول ان ادركتھا ببصر الجسد ولااقول ادركتھا ببصر الروح فقط واللّٰه اعلم كيف كان الامرین ھذاوذلک فتأملت لتلک الانوار فوجدتھا من قبل الملائکة المتوكلين بأمثال ھذه المشاھد وبأمثال ھذه المجالس ورأیت یخالطه انوار الملائکة انوار الرحمة.74
اس سے پہلے میں مکہ معظمہ میں مولد النبی ﷺکے مقام ولادت پر حاضر ہوا تھا۔یہ دن آپ ﷺکی ولادت مبارکہ کا دن تھااور لوگ وہاں جمع تھے اور درود وسلام بھیج رہے تھے۔آپ ﷺکی ولادت پر آپ ﷺکی بعثت سے پہلےجو معجزات اور خوارق ظاہر ہوئے تھےان کا ذکر کررہے تھے۔میں نے دیکھا کہ اس موقع پر یکبارگی انوار روشن ہوئے،میں نہیں کہہ سکتا کہ ان انوار کو میں نے جسم کی آنکھ سے دیکھایا ان کا روح کی آنکھ سے مشاہدہ کیا۔بہر حال اس معاملہ کو اللہ ہی جانتا ہے کہ جسم کی آنکھ اور ر وح کی آنکھ کے بین بین کون سی حس تھی جس سے میں نے ان انوارات کو دیکھا۔پھر میں نے ان انوارپر مزید توجہ کی تو مجھے ان فرشتوں کا فیض نظر آیاجواس قسم کے مقامات ا ور اس نوع کی مجالس پر مؤکل ہوتے ہیں۔الغرض اس مقام پر میں نے دیکھا کہ فرشتوں کے انوار بھی انوارِ رحمت سے خلط ملط ہیں۔75
شاہ ولی اللہ محدث دہلویکے قول 76 سے واضح ہوتا ہے کہ محافلِ میلاد میں بھی اس قسم کے انوار و تجلیات کا ظہور ہونا نفس الامر میں ثابت ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی بات کے آخرمیں اس طرف نشاندہی فرمائی ہے۔اسی حوالہ سےعلامہ شامی کے بھانجے علامہ سید احمد دمشقی رقمطراز ہیں:
واما من شھد ظھور نعمة ربه الکبرٰى من ایجاده صلى اللّٰه عليه وسلم فى مثلھا واحیاھا على ھذا الشھود فلا بد ان یحصل له فضل لایحصٰى ورقى لایستقصٰى. 77
بہرحال وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یعنی حضور نبی کریم ﷺکی تشریف آوری کی مناسبت سے کسی محفل میلاد کے اندر شرکت کرتا ہے اور رات بھر ذکر و اذکار میں مشغول رہتا ہے تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ اس محفل کی برکت سے اسے ان گنت فضل و کرم حاصل ہو اور ایسے درجات ملیں جو بےشمار ہوں۔
اسی حوالہ سےروشنی ڈالتے ہوئے علامہ عمر بن کثیر رقمطراز ہیں:
ہمارے لیے ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکی ولادت کی شب، اہل ایمان کے لیے بڑی شرافت، عظمت، برکت اور سعادت کی شب ہے۔ یہ رات پاکی و نظافت رکھنے والی، انوار کو ظاہر کرنے والی، جلیل القدر رات ہےاور اللہ تعالیٰ نے اس رات میں وہ محفوظ و پوشیدہ جوہر ظاہر فرمایا، جس کے انوار کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں۔78
میلاد شریف کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے سال بھر تک امن و عافیت رہتی ہے اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں اور اسی طرح ہرجائز حاجت وخواہش میں فوری کامیابی وکامرانی کا سبب بنتا ہےچنانچہ اس حوالہ سے حضرت علامہ شیخ احمد قسطلانی رقمطراز ہیں:
ومما جرب من خوّاصه انه امان فى ذلک العام وبشرى عاجلة بنیل البغیة والمرام. فرحم اللّٰه امرأ اتخذ لیالى شھر مولده المبارک اعیادا .79
میلاد النبی ﷺکے خواص میں سے مجرب یہ ہے کہ یہ عمل جس سال میں منعقد ہواس منعقدہ مکمل سال کے لیے امن کا باعث ہے۔ مقاصد کی فوری بار آوری کے لیے خوشخبری ملتی ہے۔پس اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص پررحم کرے جو میلاد النبی ﷺکے مہینہ کی راتوں کوعید یں مناتا ہے۔
مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ نیک مقاصد میں کامیابی کے لیے میلاد شریف کروانا علمائے متقدین کا پسندیدہ عمل رہا ہے۔نیک مقاصد کے حصول کے لیے بھی یہ مناسب طریقہ ہے چنانچہ اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید احمد دمشقی رقمطراز ہیں:
فالاجتماع لسماع قصة مولد صاحب المعجزات على افضل الصلاة واكمل التحیات من اعظم القربات لما یشتمل علیه من المبرات والصلات وكثره الصلاه علیه والتحیات بسبب حبه الموصل الى قربه وقد صرح الاعلام بان عمل المولد امان فى ذلک العام وبشرى عاجلة لنیل البغیة والمرام كما صرح به ابن الجزرى ونقل عنه الحلبى فى سیرته وكذا المؤلف یعنى ابن حجر الھیتمى والقسطلانى فى المواھب وحکى بعضھم انه وقع فى خطب عظیم فرزقه اللّٰه النجاة من اھواله بمجرد ان خطر عملالمولد بباله...واذا كان الشفعاء الابرار اورثھم حبه صلى اللّٰه عليه وسلم قبول شفاعتھم فى الاغیار فلااقل ان یورث عمل المولد الشفاعة فى صاحبه وان نزلت مرتبة محبته عن محبتھم فى المقدار ومصداقه قول الحبیب المختار صلى اللّٰه عليه وسلم ’المرأ مع من احب فرحم اللّٰه امرأ اتخذلیالى شھر مولده المبارک اعیادا فانه اذالم یکن من ذلک فائدة الاكثرة الصلاة والتسلیم علیه صلى اللّٰه عليه وسلم لکفى وفضلھما لایخفى واللّٰه سبحانه اعلم بالمرام وانما الاعمال بالنیات والسلام.80
حضور نبی کریم ﷺکی ولادت باسعادت کا واقعہ سننے کے لیے لوگوں کا جمع ہونا اعظم قربات میں سے ہے۔ اس لیے کہ اس میں نیک کام، درود و سلام، دعائیں وغیرہ بکثرت ہوتی ہیں اور یہ سب باتیں حضور نبی کریم ﷺکی محبت کی وجہ سے ہوتی ہیں اور آپ ﷺکی محبت ، آپ ﷺکے وصل اور قرب کا ذریعہ ہے۔ بڑے بڑے علماء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ محفل میلاد النبی ﷺکا انعقاد اس سال امن کا ضامن ہوتا ہے اور مقاصدو مطالب کے جلد حصول کی خوشخبری ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس کی علامہ ابن جزرینے صراحت فرمائی ہے پھر ان سے امام حلبی نے اپنی سیرت میں نقل فرمایا۔ اسی طرح مؤلف یعنی علامہ ابن حجر ہیتمی نے اور علامہ قسطلانی نے مواہب اللدنیہ میں ذکر فرمایا ہے۔ بعض اپنا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ بہت بڑے خطرے میں گھر گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے صرف اس بات پر نجات عطا فرمادی کہ میرے دل میں نبی کریم ﷺکےمیلاد کے انعقاد کا خیال گزرا تھا۔۔۔ جب نیک لوگ جو شفاعت کریں گے انہیں یہ مقام حضور نبی کریم ﷺسے محبت کی بنا پر ملا اور ان کی شفاعت سے اغیار بخشے جائیں گے تو کم از کم یہ بات ضرور ہوگی کہ محفل میلاد کا انعقاد اوروں کے لیے نہ سہی صرف اس محفل کو منعقد کرنے والے کے لیے سبب شفاعت بن جائے گا ۔اگرچہ اس کی محبت کا مرتبہ و مقام ان حضرات کی محبت کے برابر نہیں جو دوسروں کے لیے شفاعت کریں گے اور ایسا شخص حضور نبی کریم ﷺکے قول مبارک المرء مع من احب81 (آدمی کل قیامت میں اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اسے محبت ہوگی) کے مصداق تو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہر مسلمان پر اپنی خصوصی رحمت نازل فرمائے جو حضور نبی کریم ﷺکے ولادت باسعادت کے مہینہ میں راتوں کو محفل میلاد منعقد کرتا ہےاور اسے عید کی طرح مناتا ہے۔ اس سے اگر یہی فائدہ ہو کہ اس طرح حضور نبی کریم ﷺکی ذات مقدسہ پر صلوٰۃ و سلام کی کثرت ہوتی ہے تو یہی فائدہ کافی ہوتا۔ صلوٰۃ و سلام کی فضیلت کوئی چھپی بات نہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ مقاصد کو زیادہ جاننے والا ہے اور اعمال کے ثواب کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔ 82
مذکورہ بالا حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ میلاد النبی ﷺکی برکات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کیونکہ ان برکات کا مشاہدہ خواص مسلمین کو تو ہوتا ہی ہے لیکن عام مسلمان بھی اس کی برکات و انعامات سے محروم نہیں ہوتے۔عمومی طور پر مسلمان اس موقع پر کثرت سے نیکیاں کرتے ہیں جو ایک طرف بلندئِ درجات کا سبب بنتا ہے تو دوسری طرف قرب الہی اور قرب رسول ﷺکا باعث بھی ہے۔
میلاد النبیﷺ کی برکات اور اس کے ثمرات مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلمین کے لیے بھی مفید ہوتے ہیں جیساکہ ابن جوزی کے بیان کردہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے بلکہ رسول اکرم ﷺکی ولادت پر خوشی کااظہار نہ صرف غیر مسلم کے لیے فائدہ بخش ہے بلکہ دشمن ِ اسلام و دشمنِ صاحبِ اسلام ﷺکو بھی اس سے فائدہ نصیب ہوتا ہےجیساکہ ابو لہب جس کی مذمت میں قرآن مجید کی مکمل ایک سورت (سورۃ اللہب) نازل کی گئی ہے 83اس کو بھی نبی اکرم ﷺکی ولادت کی خوشی میں ایک باندی کو آزاد کرکے84 فائدہ حاصل ہوا۔یہی وہ خاتون تھیں جنہوں نے آزاد ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺکو دودھ پلانے کی سعادت اور آپ ﷺکی رضاعی والدہ بننےکا شرف حاصل کیا ۔جیساکہ ابن ہشام کی روایت میں مذکور ہے :
وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وحمزة وأبو سلمة بن عبد الأسد إخوة من الرضاعة أرضعتھم مولاة لأبى لھب.85
رسول اللہ ﷺ،حمزہ اور ابو سلمہ بن عبد الاسد رضاعی بھائی ہیں جن کو ابو لہب کی (آزاد کردہ) باندی نے دودھ پلایا۔
چنانچہ اس کی تفصیل میں حدیث مبارکہ منقول ہے:
قال عروة: وثويبة مولاة أبي لهب كان أبو لهب أعتقها فأرضعت رسول اللّٰه فلما مات أبو لهب أريه بعض أهله في النوم بشر حيبة فقال له: ماذا لقيت؟ فقال أبو لهب: «لم نر بعدكم رجاء غير أني سقيت في هذه مني بعتاقتي ثويبة وأشار إلى النقيرة التي بين الإبھام والتي تليھا.86
عروہ کہتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی باندی ہیں اورابو لہب نے آپ کو آزاد کیا تھا ۔آپ نے رسول اللہ ﷺکو دودھ پلایا ہے۔جب ابولہب مرگیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے خواب میں دیکھا تو اس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟تو اس پرابو لہب نے جواب دیا تم سے بچھڑنے کے بعد میں نے کوئی فرحت نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ جو میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا مجھے اس وجہ سے کچھ پینے کو دیا جاتا ہے اور اس نے اس حصہ کی طرف اشارہ کیاجو انگوٹھے اور اس سے متصل انگلی کے درمیان ہے۔
اس روايت كو معمولی الفاظ کے تغیر کے ساتھ امام بخاری نے بھی نقل کیا ہے 87 اور اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے صاحب فتح الباری اور صاحب عمدۃ القاری نے تفصیلی طور پر اس بارے میں کلام کیا ہے پھر اس پر نقد و جرح بھی کی ہے۔ تاہم دونوں محدثین88 نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ تخفیف اگرچہ معمولی سی ہے لیکن رسول اللہ ﷺکی برکت وخصوصیت کے باعث ابو لہب کو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔89
اس واقعہ کی تفصیل علامہ سہیلی نے نقل کی ہے اور یہ بھی بیان کیاہے کہ جس نے ابو لہب کو خواب میں دیکھا تھا وہ رسول اللہ ﷺکے عم محترم حضرت عباس تھے چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
أن الذى رآه من أھله ھو أخوه العباس قال مكثت حولا بعد موت أبى لھب لا أراه فى نوم ثم رأيته فى شر حال فقال ما لقيت بعدكم راحة إلا أن العذاب يخفف عنى كل يوم اثنين وذلك أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد يوم الاثنين وكانت ثويبة قد بشرته بمولده فقالت له أشعرت أن آمنة ولدت غلاما لأخيك عبد اللّٰه؟ فقال لھا: اذھبى، فأنت حرة .90
بلا شبہ جس نے ابو لہب کو دیکھا تھا وہ اس کے بھائی حضرت عباس تھے۔ا ٓپ فرماتے ہیں :ابو لہب کے مرنے کے بعد ایک سال تک میں نے اسے نہیں دیکھا۔ پھر میں نے اسے اپنےخواب میں بری حالت میں دیکھا تواس نے کہا:میں نے تم سے بچھڑنے کے بعد کوئی راحت نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ ہر پیر کے دن مجھ سے میرے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے۔(حضرت عباس اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:)اس کی وجہ یہ ہے کہ (حضرت) ثویبہ نے ابو لہب کو رسول اللہ ﷺکی ولادت کی بشارت دی تھی۔انہوں نے ابو لہب سے کہا تھا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ حضرت آمنہ کے ہاں آپ کے بھائی حضرت عبد اللہ کے صاحبزاہ کی ولادت ہوئی ہے؟تو ابو لہب نے حضرت ثویبہ سے کہا: جاؤ آج سے تم آزاد ہو۔
اس مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابولہب کا اپنے عالی صفت بھتیجے کی ولادت کی خوشی میں کیا گیا اچھا عمل اس کے عذاب میں تخفیف کا باعث بن گیا۔اگر کوئی مومن شخص صرف اس وجہ سے خوشی کا اظہار کرتا ہے کہ اس دن رسول اللہ ﷺپید اہوئے جن کی بدولت تمام تر نعمتیں مخلوق کے حصہ میں آئیں تو اس پر ہونے والی برکتوں اوررحمتوں کااندازہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟
کئی علماء کرام نے اس حدیث کے فوائد میں اس بات کو بیان کیا ہے کہ جب ایک کافر کو آپ ﷺکی ولادت کی خوشی میں یہ فائدہ نصیب ہوا کہ اس کے عذا ب میں تخفیف ہوئی تو اہل اسلام اگر یہ عمل قرب الہی وقرب رسول ﷺکے لیے سر انجام دیں گے تو ان پر باران رحمت و انعام اس سے بڑھ کر ہوگا۔چنانچہ علامہ ابن جزری دمشقی تحریرفرماتے ہیں:
وقد روى ان ابالھب بعد موته رؤى فى النوم فقیل له ما حالک؟فقال: فى النار الا انه یخفف عنى كل لیلة اثنین وامص من بین اصبعى ماء بقدر ھذا واشارالى نقرة ابھامه وان ذلک باعتاقى لثویبة عند مابشرتنى بولادة محمد صلى اللّٰه عليه وسلم وبارضاعھا له صلى اللّٰه عليه وسلم.91
روایت کیا گیا کہ ابو لہب کو اس کے مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تمھارا کیا حال ہے؟اس نے کہا کہ آگ میں ہوں ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب میں تخفیف ہوتی ہےاور میں اپنی انگلی کے درمیان سے اپنے انگھوٹے کے گڑھےجتنی مقدار میں پانی چوستا ہوں اور یہ تخفیف اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو (سیدنا)محمد(ﷺ)کی ولادت کی خوشخبری دینے اورپھر آزاد شدہ ثویبہ کے آپ(ﷺ)کو دودھ پلانے کی وجہ سے آزاد کیا تھا ۔
علامہ ابن جزری دمشقی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس پر اپنا تبصرہ درج ذیل الفاظ میں تحریر کیا ہے چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
اذاكان ابو لهب الکافر الذى نزل القرآن بذمه جوزى فى الناربفرحة مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فما حال المسلم الموحد من امة محمد صلى اللّٰه عليه وسلم الذى یسر بمولده ویبذل ماتصل الیه قدرته فى محبته صلى اللّٰه عليه وسلم لعمرى انما یکون جزاءمن اللّٰه الکریم ان یدخله بفضله جنات النعیم.92 .
جب ابو لہب، ایساکافرجس کی مذمت میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس کو شب میلاد النبی ﷺکی خوشی میں یہ جزا دی گئی ہےتو سیدنا محمد ﷺکی امت کے اس مسلمان موحد کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺکی ولادت کی خوشی مناتا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق آپ ﷺکی محبت میں خرچ کرتا ہے ۔مجھے میری عمر کی قسم اللہ کریم کی طرف سے اس کی جزاء صرف یہی ہوگی کہ اللہ اسے اپنے فضل وکرم سے نعمت والی جنت میں داخل فرمادے۔
علامہ محمدبن یوسف الصالحی الشامی نے بھی ابن جزری کے مذکورہ بالا واقعہ اور تبصرہ کو بیان کیا ہے اور اس کے بعد اس موضوع کے مطابق شیخ ناصر الدین دمشقی کے اشعار تحریر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
ذكر نحوه الحافظ شمس الدين محمد بن ناصر الدين الدمشقي ثم أنشد:93
مذکورہ واقعہ حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی نے بھی بیان کیاہے اور اس کے بعد یہ اشعار پڑھے ہیں: جب ابولہب جیسا کافر جس کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے اور جس کی مذمت میں قرآن مجید کی سورت تبت یدا نازل ہوئی۔ باوجود اس کے جب سوموار کا دن آتا ہے حضور کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے ہمیشہ سے اس کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے۔ پس کیا خیال ہے اس بندے کے بارے میں جس نے تمام عمر حضور کی ولادت کی خوشی میں جشن منانے میں گزاری اور توحید کی حالت میں اسے موت آئی۔94
ويرحم اللّٰه تعالى القائل:
والقائل أيضاً:95
ربّ تعالیٰ اس شاعر پر رحم کرے جس نے یہ اشعار کہے ہیں:
حضور ﷺ کے میلاد پاک کا جلال ہے۔ آپﷺ کی وجہ سے کائنات جمال سے لبریز ہوگئی ہے۔ اے مخلص! ان راتوں میں حضور ﷺ کے لیے چاند طلوع ہوا۔ ہم پر یہ فرض ہے کہ آپﷺ کی قدر اورتعظیم کریں تاکہ ہمارے افعال اور احوال بہتر ہوسکیں۔ ہم محتاج کو کھانا کھلائیں، عریاں کو لباس دیں اور صاحب اولاد کو عطیات دیں۔ یہ آپ ﷺکے افعال اور خلال ہیں تمہارے لیے آپﷺ کے افعال اور خلال کافی ہیں۔ بھلائی کے فعل میں آپﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اس کے علاوہ آپﷺ کا اور کوئی میدان نہیں ہے۔
دوسرے شاعر نے کہا ہے:
اے حضور اکرم ﷺ کے میلاد پاک! تو ہماری بہار ہے۔ تیرے ساتھ ارواح اور جسموں کو راحت نصیب ہوتی ہے۔ اے میلاد پاک جو شرف میں سارے میلادوں سے فوقیت لے گیا ہے اور سرداروں کا سردار بن گیا ہے۔ کائنات میں تیرا نور پھیلتا جارہا ہے اور اس ماہِ مبارک میں یہ عیدوں کی طرح ہورہا ہے ہر سال دلوں کو مسرت نصیب ہوتی ہے۔ وہ ان روایات کو سنتے ہیں جو ہم میلاد پاک کے بارے روایت کرتے ہیں اس سے محب کو شوق آلیتا ہے۔ وہ اس دن حاضر ہونے کے لیے خواہش رکھتا ہے۔ 96
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
دریں جا سند است مر اھل مولید را كه درشب میلاد آنحضرت صلى اللّٰه عليه وسلم سرور كنندو بذال اموال نمایند، یعنی ابولھب كه كافر بود قرآن بمذمت وے نازل شده چوں بسرور میلاد آنحضرت صلى اللّٰه عليه وسلم وبذل شیر جاریه وے بجهت آنحضرت صلى اللّٰه عليه وسلم جزاداده شد تاحال مسلمان مملواست به محبت و سرور بذل مال دروے چه باشد و لیکن باید كه ازبد عتھا كه عوام احداث كرده اندازتغنى وآلات محرمه و منکرات خالى باشد.97
اس حدیث میں میلاد شریف پڑھوانےوالوں کے لیے حجت ہےکہ حضورﷺ کی ولادت کی رات میں خوشی و مسرت کا اظہار کریں اور خوب مال و زر خرچ کریں۔مطلب یہ کہ باجوداس بات کے کہ ابو لہب کافر تھا اور ا س کی مذمت قرآن کریم میں نازل ہوچکی ہے لیکن جب اس نے حضور ﷺکے میلاد کی خوشی کی اور اس نے اپنی باندی کوحضور اکرم ﷺکی رضاعت کےخاطر آزاد کیاتو حضور ﷺکی طرف سے حق تعالیٰ نے اسے اس کا بدلہ عنایت فرمایا ۔98
مذکورہ بالا معروضات اور اس خواب و مضمون کی تائید و تقویت اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے علامہ علی بن حسام الدین نے کنز العمال 99 میں اور امام دیلمی نے مسند الفردوس میں نقل کیا ہے چنانچہ امام دیلمی نقل فرماتے ہیں:
عن جَابر بن عبد اللّٰه (مرفوعاً)أَنا أشرف النَّاس حسبا وَلَا فَخر وَأكْرم النَّاس قدرا وَلَا فخرا أَيھا النَّاس من أَتَانَا أتيناه وَمن أكرمنا أكرمناه وَمن كاتبنا كاتبناه وَمن شيع مَوتَانا شيعنا موتاه وَمن قَامَ بحقنا قمنا بِحقِّهِ أَيھا النَّاس جالسوا النَّاس على قدر أحسابھم وخالطوا النَّاس على قدر أديانھم وأنزلوا النَّاس على قدر مرؤاتھم وداروا النَّاس على قدر عُقُولھمْ.100
حضرت جابر بن عبداللہ سے مرفوعاً روایت ہے (کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:)میں حسب و نسب کے اعتبار سے لوگوں میں اشرف ہوں، کوئی فخر کی بات نہیں ہے اور میں لوگوں میں سب سے زیادہ معزز اور قدر والا ہوں مگر کوئی فخر نہیں۔اے لوگو! جو ہماری موافقت کرے گا ہم اس کی موافقت کریں گے۔ جو ہماری عزت کرے گا ہم اسے عزت دیں گے۔ جو ہمارے ساتھ نبھائےگا ہم اس کے ساتھ نبھائیں گے۔ جو ہمارے جنازوں میں شامل ہوگا ہم اس کے جنازوں میں شامل ہوں گے اور جو ہمارے حقوق کا تحفظ کرے گا ہم اس کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔اے لوگو!لوگوں کو ان کے مرتبہ و مقام کے لحاظ سے بٹھایا کرو ۔ لوگوں سے میل جول رکھو ان کی دینداری کے مطابق ،لوگوں سے برتاؤ کرو ان کی مروت کے مطابق اور لوگوں سے خاطر مدارات کرو ان کی عقلوں کے مطابق۔
مذكوره روایت سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو بھی رسول اکرمﷺ کی طرف میلانِ قلبی و دل جمعی کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے اور آپ ﷺکی یاد میں مستغرق ہوتا ہے تو اس کے لیے بارگاہِ رسالتِ مآب ﷺکی طرف سے لطف واکرام کی نوید سنائی جاتی ہے۔اسی حوالہ سے علامہ عبد الغنی تحریر فرماتے ہیں:
فینبغى لکل صادق فى حبه صلى اللّٰه عليه وسلم ان یستبشر بھذا الشهر السار ویعقد فيه محفلا یقرأفیه ماصح فى مولده صلى اللّٰه عليه وسلم من الآثار.101
ہر وہ شخص جو حضور نبی کریم ﷺکی محبت میں صادق ہے اس کے لیے مناسب ہے کہ حضور نبی کریم ﷺکی ولادت باسعادت کے مہینہ میں خوشی کا اظہار کرے اور اس ماہ میں محفل میلاد النبیﷺ منعقد کرے جس میں ایسے آثار و ایسی روایات صحیحہ پڑھی و سنائی جائیں جو ولادت باسعادت کے موضوع پر ہیں۔102
یعنی آپ ﷺکے میلاد کی خوشی کرنے اور اس اس کا تذکرہ کرنے کے لیے محافل و مجالس کا انعقاد کرنے والے اشخاص و افراد کے لیے مناسب یہ ہے کہ ایسی روایات کا انتخاب ہو جو درجۂ صحت تک پہنچی ہوئی ہوں اور ان روایات میں تذکرۂ میلاد کے ساتھ ساتھ علم و عمل کی باتیں بھی ہوں جس سے اطاعت رسولﷺ کا داعیہ قوی سے قوی تر ہوجائے جو کہ تمام ہی برکات و انعامات کا منبع و ماخذ ہے۔
مولود النبی ﷺپر خوشی کے اظہار کرنے اور اس دن صدقہ و خیرات کرنے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ مزید درجِ ذیل حوالہ سے لگایاجاسکتاہے چنانچہ صاحبِ وجیز الصراط توضیح الھدی کے حوالہ سے تحریر فرماتےہیں:
ورأیت فى بعض الکتب انه لما تو فى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم اطعم عنه كل یوم واحدة من امھات المؤمنین واٰخرھن عائشة ثم اطعم ابوبکر الصدیق رضى اللّٰه عنه اكثراھل المدینة وكان ذلک ثانى عشرة من شھر ربیع الاول.103
(صاحب توضیح فرماتے ہیں)میں نے کسی کتاب میں پڑھا کہ جب نبی کریمﷺ کا وصالِ مبارک ہوا تو آپ ﷺکی طرف سے ہر دن کوئی ایک ام المؤمنین کھانا صدقہ فرماتی تھیں جن میں آخری سیدتنا ام المؤمنین حضرت عائشہ الصدّیقہ تھیں۔پھر حضرت ابو بکر صدیق نے مدینہ میں رہنے والوں کی اکثریت کو کھانا کھلایا اور یہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوا۔
اسی طرح ایک روایت علامہ عابد سندینےاسی حوالے سے نقل کی ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
ویوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ذبح ابو بکر الصدیق مائة ناقة وتصدق بھا وتصدق ابو ھریرة فى ذلک بثلٰثة اقراص من شعیر.104
رسولِ اکرم ﷺکی ولادت باسعادت کے دن حضرت سیدنا ابو بکر صدیق نے سو اونٹ ذبح کیے اور تمام کو صدقہ کردیا اور اسی دن حضرت ابو ہریرہ نے کشمش کے تین اقراص(ایک بڑاپیمانہ) صدقہ کیے۔
مذکورہ روایت سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اکرم ﷺکی ولادتِ با سعادت کی خوشی میں صدقہ وخیرات کرنا صحابہ کرام کا طریقہ مبارک ہے ۔اسی وجہ سے امت مسلمہ میں شرقاً و غرباً یہ طریقہ رائج و مسلم ہے۔نبی اکرم ﷺکی محبت میں کیا گیا بظاہر چھوٹا عمل بھی انسان کے لیے بلندئِ درجات کا حامل و ضامن ہوتا ہے جیسا کہ ماقبل یہ بات واضح کی گئی ہے۔مقالہ کے آخر میں ایک روایت نظرِ قارئین کی جارہی ہے جو حضرت موسیٰکی قوم کے ایک فرد کے حوالہ سے نقل ہوئی ہے۔ جس میں فقط تعظیم اسم محمد ﷺکی بنیاد پر اس بندے کی مغفرت کردی گئی ہےچنانچہ روایت میں مذکور ومنقول ہے:
أنه كان فى بنى إسرائيل عبد مسرف على نفيه فلما مات رموا به فأوحى اللّٰه إلى نبيه موسى عليه السلام أن غسله وصل عليه فانى قد غفرت له، قال يارب وبم ذلك قال أنه فتح التوارة يوماً فوجد فيھا اسم محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فصلى عليه وقد غفرت له بذلك .105
بنی اسرائیل میں ایک شخص اللہ تعالیٰ کا نافرمان تها۔ جب وہ مرگیا تو قوم نے اسے (حقارت سے) کوڑے کرکٹ پر پھینک دیا۔تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے نبی حضر ت موسیٰ پر وحی نازل فرمائی کہ اسے غسل دیں اور اس کی نماز جنازہ ادا کریں کیونکہ میں نے اس کی بخشش کردی ہے۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا کہ اے میرے رب کس سبب کی وجہ سے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اس نے ایک بار تو رات کھولی اور اس میں اسم محمد ﷺلکھا پایاتواس پر درود پڑھا تھا لہٰذا میں نے اس کو اس وجہ سے معاف کردیا ہے۔
اس حکایت کو امام سیوطینے بھی درج ِ ذیل اضافہ کے ساتھ نقل کیا ہے:
قال يا رب بنو اسرائيل شھدوا انه عصاك مائتى سنة فأوحى اللّٰه إليه ھكذا كان إلا أنه كان كلما نشر التوراه ونظر إلى اسم محمد صلى اللّٰه عليه وسلم قبله ووضعه على عينيه وصلى عليه فشكرت له ذلك وغفرت ذنوبه وزوجته سبعين حوراء.106
حضرت موسی نےعرض کی کہ اے میرے رب بنی اسرائیل اس بندے کے دو سو سال میں کیے گئے گناہوں پر گواہ ہیں (تو اس کی مغفرت کیسے ہوئی؟) اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسی کی طرف وحی فرمائی کہ بات تو یہی ہے مگر جب بھی یہ تورات کھولتا اور اس کی نظر نام ِمحمد(ﷺ)پر پڑتی تو یہ اس نام مبارک کو چومتا اور اور اپنی آنکھوں پہ ملتا پھر درود شریف پڑھتا تو میں نے اس کا یہ عمل قبول کیا، اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیا اور اس کا نکاح جنت کی سترحوروں سے کردیا۔
مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عظیم الشان کرم نوازی کا ربط اس گنہگار شخص کی ذات سے کس طرح بے اختیار قائم ہوگیا؟ یہاں تک کہ اس کے گناہوں کا نام و نشان مٹ گیا اور اس کا ٹھکانہ شقاوت سے سعادت کی طرف منتقل ہوگیا۔ اس عظیم عطاء کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس نے امام الانبیاء ﷺکے نامِ مبارک کی تعظیم کی اور اپنی محبت و عقیدت بھری آنکھوں سے اسے مَس کیا اور کمال اشتیاق و مودت سے اس پر درود پڑھا۔جب صرف نام رسول ﷺکی تعظیم کرنے والے کو یہ مقام ملا تو اس کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺکی محبت میں اپنا کثیر مال و زر صرف کرے، اپنی تمام عمر آپ ﷺکی اطاعت و پیروی میں بسر کرے، کثرت سے آپ ﷺکی ذات پر صلوٰۃ و سلام پڑھے ،آپ ﷺکے اہل بیت و قرابت سے عقیدت رکھے اورآپ ﷺکی ذات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رکھنے والی ہر چیز کو محترم سمجھے تویقینا اور بلا شبہ وہ قرب الٰہی کے مقامِ عظیم نیزرسول اکرم ﷺ کی اتباع و محبت میں اعلیٰ منازل پر براجمان ہوگا۔
مذکورہ بالا تمام معروضات سے روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم ﷺکا میلاد منانا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا یقینی طور پر باعث اجر و ثواب ہونےکے ساتھ ساتھ دینی و اخروی طور پر بھی فائدہ مند ہے۔اسی طرح آپﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار اور اس کے تذکرہ کرنے کے لیے محافل و مجالس کا انعقاد بھی ترقی و قربِ الٰہی کا سبب ہے اور ساتھ ساتھ ہی انوارات و تجلیات ِالہیہ کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔نہ صرف اتنا بلکہ جس طرح ابولہب جیسے ِاسلام وصاحبِ اسلام علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کے جانی دشمن کو آپ ﷺکی ولادت پر ایک باندی کو آزاد کرنے کا یہ صلہ ملا کہ اس کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے تو جو شخص رسول اکرم ﷺکو اللہ تبارک وتعالیٰ کا رسول اور نبیﷺ مانتا ہے اور ان کی اتباع و محبت میں آپ ﷺکی تشریف آوری کی نعمتِ عظمیٰ کا شکر ادا کرنے اور اس نعمت سےمزید فیضیاب ہونے کے خاطر آپ ﷺکے میلاد پر خوشی کااظہار کرتا ہے اور محفل منعقد کر کے آپ ﷺکا تذکرہ کرتا ہے تو ایسے شخص پر اور ان محافل میں شریک ہونے والوں پر رب کی رحمتوں اور برکتوں کا کس قدر نزول ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانا عام انسان کے فہم وادراک سے ماوراء ہے۔محفلِ میلاد کا انعقاد رب کی رضا،بلا شبہ جہنم سے آزادی اور جنت میں دخول کا عظیم سبب ہے ۔107