Encyclopedia of Muhammad

قدیم وجدید تاریخِ مولَدالنبی ﷺ

رسول اکرم کی تخلیق اور آپ کا وجود اقدس فی الحقیقت خلقِ باری تعالیٰ کے لیے ان راستوں کی بازیابی کا انتظامِ خداوندی ہے جن پر گامزن ہو کر انسانیت اپنے اعلی ترین مقام و مرتبہ پر جلوہ گر ہوئی اور آئندہ بھی ہو سکتی ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر ایک پہلو اپنے اندر انسانیت کی بقاءِ سرمدی کے لیے کئی کئی طُرُق و اسباب رکھتا ہے جن کی بازیابی وقت و زمانہ کی تمام تر پریشانیوں ، مشکلات اور پیش آمدہ و آئندہ مسائل کا حل ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ روح افزا و جاں گداز ہونے کے ساتھ ساتھ خلق خدا کے لیے رحمت و برکت وہدایت و تجلیات کا مھبطِ اکمل و اجل ہے۔ آپ سے منسوب اشیاء میں بھی ان رحمتوں اور برکتوں کا پَرتُو کامل طور سے واضح و جلی نظر آتا ہے اوران ہی با برکت منسوب اشیاء میں سے ایک انتہائی اہمیت کی حامل شئ مکان ولادتِ سرورِ رسالت ہے۔

اس مکان کے مکیں وہ ذات قدسی ہیں جن کا نام عرش پر رب العالمین کے نام کے ساتھ مکتوب ہے۔ 1 اس مکانِ مولد النبی کو ہر اس حیثیت سے امتیاز حاصل ہے جس کے ذریعہ کسی بھی مقام کو دوسرے مقام سے شرف و عظمت حاصل ہوسکتی ہےکیونکہ اس میں وہ عالی ہستی انجمن آرا ہوئی جو خود وجہ ِتخلیقِ عالم ہیں۔2 جن کی وجہ سے اس مکان و مقام کی تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت مسلَّمہ ہے۔دینی و ملی و مذہبی حیثیت میں بھی اس کو ایک گونہ گو مرتبہ حاصل ہے۔تواتر علمی و محلی بھی اس پر شاہد ہیں۔ 3 الغرض یہ وہ مقام ہے کہ جو مرکز و محور اورسرورِ کائنات سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر انتہائی اہمیت وافضلیت و اکملیت و اعلی مقام و مرتبہ کا حامل ہےاور مکۃ المکرمۃ میں بیت اللہ کے بعدشرف و عظمت میں بلند و بالا ہے۔ 4

مولد النبی ﷺکے معنی ومفہوم

مولدکا لفظ " وَلَدَ یُوْلَدُ" سے مشتق ہے جسے اصطلاح میں اسم ظرف کہا جاتا ہے۔اس کا معنی " مکانِ ولادت" اور "زمانِ ولادت" دونوں ہیں۔ عام طور پر مولد کے لفظ سے حضور اکرم کا زمانہ ولادت مراد لیا جاتا ہے اور متعارف ومشہور بھی یہی ہےجبکہ اس مقام پر لفظ ِمولد کو مکان ِ ولادت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کیونکہ یہاں رسول اکرم کی جائے ولادت کی تاریخ اور اسی سے متعلقہ چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائےگی ۔یہاں اولاً اُس مکان کی تاريخ مذکور ہے جومکہ معظمہ میں حضور سرورعالم کی جائے ولادت خیال کیاجاتاہے پھراس کے بعد مولد النبی کے مقامِ وقوع کے بارے میں جو اختلافات وارد ہوئے ہیں ان کا ذکر ہے۔

موجودہ " مکتبۃ مکۃ المکرمۃ" مقامِ ولادتِ نبی اکرم ہے جومسجد حرام کی مشرقی جانب مکہ مکرمہ کےمشہور، تاریخی اورقدیم محلّوں میں سے شعب بنی ہاشم یعنی

سوق اللیل
والےمحلہ میں واقع ہے۔طلوع اسلام سےلےکربرسوں اورصدیوں کے بیت جانےتک اس محلہ کی تاریخ عظیم واقعات سےپُرہے۔اسلام سےقبل اوربعداس محلہ کی ایک امتیازی شان تھی۔اس محلہ میں جواہم واقعات رونماہوئے ان میں حضرت سیدنا محمد رسول اللہ کی ولادت باسعادت اور قریش کا بنی ہاشم کا محاصرہ کرنےکےعلاوہ امتِ اسلام کی تاریخ اورجہادکےدیگر اہم واقعات بھی شامل ہیں۔"مکتبۂ مکہ مکرّمہ"حضوراکرم کی پیدائش گاہ !دراصل شعب بنی ہاشم میں حضور کے والدعبداللہ بن عبد المطلب کاگھرہے جہاں قبیلہ بنی ہاشم نےمسجد حرام کےشرقی جانب کو اپنی رہائش کے لیےمخصوص کیاتھا۔ قبل ازاسلام مکہ مکرمہ میں عادت تھی کہ ہرقبیلہ مسجد حرام کے اردگرد مکہ مکرمہ کی جوانب میں سےکوئی ایک جانب اپنے لیےمخصوص کرلیتاتھا۔مسجد حرام جوروزاول سے قیامت تک شہر مقدس کا مرکزتھااوررہےگااس کی جس جانب جوقبیلہ رہائش پذیرہوتاتھاوہ اسی سےموسوم ہوتا تھاپس بنوسہم مسجد حرام کی شمالی جانب اوربنوحجم جنوبی جانب،اس طرح قبائل جہتوں میں بٹ جاتے اوراسی سےمشہورہوتےتھے۔صدیاں بیتیں شعب بنی ہاشم(شعب علی) کی نشوونماہوئی،یہ رہائشیوں اورگھروں سے بھرگئے۔ مکہ مکرمہ کا یہ وہ محلہ ہےجس کے ساکنین ،پڑوسی اوراس کی جانب ہجرت کرنے والے اس کےمسجدِ حرام کے قریب ہونےکےسبب اس کو محبوب رکھتےہیں۔6

مولدالنبی ﷺکا مقام ِوقوع

مکہ مکرمہ میں حضور کا مقام ولادت ایک معروف مکان ہے جو حرمِ کعبہ کے نزدیک سوق اللیل میں واقع ہے۔ اب سوق اللیل کا پورا" محلۂ بنی ہاشم" منہدم کردیا گیا ہے ،صرف یہی مکان ِمولد النبی موجود ہے۔ اب اس جگہ پر ایک پبلک لائبریری " مکتبۃ مکۃ المکرمۃ" کے نام سے تعمیر شدہ ہے ۔ بہر حال یہی وہ مقام ہے جومکہ معظمہ میں مسلّمہ طور پر مولدالنبی تسلیم کیا جاتاہے ۔مکہ معظمہ میں بیت اللہ کی جانب جنوب ومشرق میں باب السلام سے کوئی تین سوگزکے فاصلہ پر محلہ سوق اللیل کے متصل آنحضرت کے والد ماجد حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کا مکان واقع تھا۔بحیثیت مولدالنبی اس پر جو عمارت تعمیر ہوئی اُس کا ذکرتفصیل کے ساتھ آگے کیا جاتاہے۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہے:

جانب مشرق............... مکانات
جانب مغر ب............... کوچہ نافذہ وبازار
جانب جنوب............... کوچہ نافذہ و

درخت حمر

جانب شمال............... کوچہ نافذہ .8

امام فاسی المکی مولدالنبی کی مکانیت اور محل وقوع کی تفصیلات کو بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں :

  فإنه بيت مربع وفيه أسطوانة عليھا عقدان، وفي ركنه الغربي ممايلي الجنوب زاوية كبيرة قبالة بابه الذي يلي الجبل وله باب آخر في جانبه الشرقي أيضا، وفيه عشرة شبابيك، أربعة في حائطه الشرقي، وهو الذي فيه باباه المتقدم ذكرهما، وفي حائطه الشمالي ثلاثة، وفي الغربي واحد وفي الزاوية اثنان، واحد في جانبھا الشمالي، وواحد في جانبھا اليماني، وفيه محراب وبقرب المحراب حفرة عليھا درابزين من خشب، وذرع تربيع الحفرة من كل ناحية: ذراع وسدس، الجميع بذراع الحديد المتقدم ذكره وفي وسط الحفرة رخامة خضراء، وكانت هذه الرخامة مطوقة بالفضة على ما ذكره ابن جبير، وذكر أن سعتھا مع الفضة ثلثا شبروهذا الموضع جعل علامة للموضع الذي ولد فيه النبي صلى اللّٰه عليه وسلم من هذا المكان، وذرع هذا المكان طولا: أربعة وعشرون ذراعا وربع ذراع وذلک من الجدار الشمالى الى الجدار المقابل له وھو الجنوبی الذى یلى الجبل وذرعه عرضا احد عشر ذراعا وثمن ذراع وذلک من الشرقى الذى فیه بابه الى جدارہ الغربی المقابل له وطولاالزاویة المشار الیھاثلاثة عشر ذراعا ونصف وعرضھا ثمانیة ونصف الجمیع بذراع الحدیدوكان تحرير ذلك بحضوري.9
  یہ ایک مربع شکل کا گھر ہے جس میں ایک ستون ہے جس کے اوپر دو ریت کے تودہ ہیں۔ اس کی جنوب مغربی سمت میں ایک بڑا زاویہ ہے۔ اس دروازہ کے بالمقابل جو پہاڑ کے ساتھ ملا ہوا ہے، اس مکان کے مشرقی حصے میں ایک اور دروازہ ہے۔اس گھر میں دس کھڑکیاں ہیں جن میں سے چار اسی مذکورہ مشرقی دیوار میں ہیں جن میں دو دروازےہیں ، تین شمالی دیوار میں اور ایک مغربی دیوار میں ہے جبکہ دوکھڑکیاں کونے میں ہیں جن میں سے ایک شمالی سمت اور دوسری دائیں طرف واقع ہے ۔اس گھر میں ایک محراب ہے جس کے قریب ایک گڑھا ہے جس پر لکڑی کا جنگلا لگا ہوا ہے۔ اس گڑھے کی پیمائش ساڑھے تین مربع فٹ ہے۔ہر کونے سے اس کی پیمائیش ایک گز اور چھٹا حصہ ہے۔یہ مذکورہ تمام پیمائیش لوہے کے گز سے ہوئی ہے۔اس گڑھے کے درمیان ایک سبز پتھر ہے جو پہلے چاندی میں لپٹا ہوا تھا جیسا کہ ابن جبیر نے بیان کیا ہے اور انہوں نے ذکر کیا ہے کہ اس پتھر کی وسعت تین بالشت ہے۔ یہ جگہ اس گھر میں مقامِ مولد النبی کی نشانی کے طور پر بنائی گئی ہے ۔ اس گھر کی لمبائی سواچوبیس گز ہے اور یہ پیمائیش شمالی دیوار سے اس کے بالمقابل جنوبی دیوار تک ہےجو پہاڑ کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔یہ چوڑائی کے حساب سے گیارہ گز اور اسکا آٹھواں حصہ بنتا ہے اور یہ پیمائیش اس شرقی دیوار سے جس میں دروازہ ہے اس کے بالمقابل غربی دیوار تک ہے۔مذکورہ دونوں زاویوں کی لمبائی ساڑھے تیرہ گز ہے اور چوڑائی ساڑے آٹھ گز ہے۔یہ مکمل پیمائیش لوہے والے گز سے ہوئی ہے۔یہ ساری پیمائش میرے سامنے ہی کی گئی ہے۔

امام فاسی کی مذکورہ تفصیلات کو انہی کے حوالہ سے صاحبِ" تحصیل المرام"10اور صاحبِ "افادۃ الانام"نے بھی ذکر کیا ہے۔11

مولد النبی کی پیمائش کو قدیم علماء نے اپنی کتابوں میں اس دور کے مروّجہ طریقوں کے مطابق بیان کیا ہے۔فی زمانہ چونکہ پیمائش کا طریقہ یکسر بدل گیا ہے چنانچہ فی زمانہ طریقۂ پیمائش کے مطابق مولود النبی کا موجودہ حصہ سامنے سے اڑتیس(38) فٹ پانچ (5)انچ ہے اور عقبی حصہ چوڑائی میں انتالیس (39)فٹ اور لمبائی میں انہتّر(69)فٹ پر مشتمل ہے۔12

سفر نامہ ابن جبیر میں مولد النبی کے طول و عرض کے حوالہ سےبیان کرتے ہوئے ابن جبیر تحریر فرماتے ہیں:

  ومولده صلى اللّٰه عليه وسلم صفة صهريج صغير سعته ثلاثة أشبار وفي وسطه رخامة خضراء سعتھا ثلثا شبر مطوقة بالفضة فتكون سعتھا مع الفضة المتصلة بھا شبرا ومسحنا الخدود في ذلك الموضع المقدس الذي هو مسقط لأكرم مولود على الأرض وممس لأطهر سلالة وأشرفها صلى اللّٰه عليه وسلم ونفعنا ببركة مشاهدة مولده الكريم وبازائه محراب حفيل القرنصة، مرسومة طرته بالذهب.13
  مقامِ ولادت نبی چھوٹےحوض کی مانندہےجس کی وسعت تین(3) بالشت ہے۔اس کےدرمیان میں چاندی میں لپٹاہوابالشت بھر کا پتھرہے۔ہم نے اپنے گالوں کوروئے زمین کے مکرّم ترین اورسب سےزیادہ عز ت مندنسب والے نومولودکی جائےولادت سے مس کیااوران کی جائےولادت کی زیارت سے مستفید ہوئے۔اس کے سامنے سونےکی موٹی تہ سےمنقش محراب ہے۔

البتہ وہ خاص مقام جس کی نشاندہی چاندی میں لپٹے ہوئے پتھر سے کی گئی تھی زیارت کے لیے اب مکمل طور پر بند ہے ۔بہر حال عام طورپریہ یقین کیاجاتاہے کہ آنحضرت اسی مذکورہ پیمائش والے مکان میں پیدا ہوئے تھے اور اسی مکانِ مولد کی وجہ سے اس کانام

زقاق المولد
مشہورہوگیاہے۔15

مولدالنبی ﷺکے مقامِ وقوع میں اختلاف

مذکورہ حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولد النبی کا محل ِّوقوع مکہ میں موجود سوق اللیل نا می محلّہ میں "زقاق المولد"ہے مگربعض مؤرخین ومحدثین کو " مکان ِمولد"کے محل وقوع میں اختلاف بھی ہے مثلاً صاحبِ کتاب "مواہب الّلدنیۃ"شیخ قسطلانی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  وولد صلى اللّٰه عليه وسلم فى الدار التى كانت لمحمد بن يوسف أخى الحجاج ويقال بالشعب، ويقال بالردم ويقال بعسفان. 16
  آپ کی ولادت اس گھرمیں ہوئی جو حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کا تھا اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ مقام ولادت شعب(بنی ہاشم)ہے،
ردم
کے متعلق بھی یہی کہاجاتاہے اور
عسفان
کےبارےمیں بھی کہا گیا ہےکہ وہ جائے ولادت ہے۔

اسی طرح مقامِ ولادت کے متعلق اختلاف کا ذکر سیرتِ شامیہ کے مؤلف محمد بن یوسف الصالحی الشامی نے بھی کیا ہےچنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریرفرماتے ہیں:

  اختلف هل وُلد بمكة أو غيرها؟ والصحيح الذي عليه الجمهور هو الأول وعليه فاختلف في مكانه من مكة على أقوال:احدها: في الدار التي في الزقاق المعروف بزقاق المولد في شعب مشهور بشعب بني هاشم وكانت بيد عقيل...الثاني:أنه صلى اللّٰه عليه وسلم وُلد في شعب بني هاشم حكاه الزبيرالثالث: أنه وُلد صلى اللّٰه عليه وسلم بالردم الرابع: بعُسفان.19
  اختلاف کیا گیا کہ آپ مکہ میں پیدا ہوئے یاکہیں اور؟ صحیح وہ قول ہے جس پر جمہورہیں اور وہ پہلا قول (مکّہ مکرمہ میں پیداہونےکا)ہے۔پھراس میں بھی اختلاف ہےکہ مکّہ میں کس مقام پرولادت ہوئی اس میں مختلف اقوال ہیں۔ایک قول یہ ہےکہ اس گھرمیں پیداہوئے جو مشہوروادیِ بنی ہاشم کی مشہور گلی " زقاق المولد" میں ہے ۔دوسراقول: حضور وادی بنی ہاشم میں پیداہوئے،اس کو زبیر نے نقل کیاہے ۔تیسراقول: حضور ردم میں پیداہوئے۔چوتھاقول: عُسفان میں پیداہوئے۔

علی شبیر نے بھی اس مقامِ وقوع کے اختلافِ روایت کو احسن طریقہ سے بمع تفصیلات ذکر کیا ہےچنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:

(۱) کوئی کہتاہے کہ آنحضرت کی ولادت بمقام مکہ اس مکان میں ہوئی جو محمدبن یوسف ثقفی کا کہلاتاہے اورجو زقاق (یعنی کوچۂ)مولد میں واقع ہے ۔(۲)بعض کہتے ہیں کہ آپ شعب بنی ہاشم میں تولد ہوئے ۔(۳)بعض نے مکان محمدبن یوسف ثقفی کو (کوہ)صفاکے قریب بتایاہے اورکہتے ہیں کہ اُسکو

زبیدہ خاتون
زوجہ ہارون الرشید نے بنوایا تھا جب وہ حج کرنےآئی تھی ۔ صفااورشعب کے درمیان بہت فاصلہ ہے ،شعب مکہ مکرمہ کے مشرق میں ہے اورلوگ اسکی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔(۴)بعض کے نزدیک آپ کا مولد" مقام رَدَم" مکہ میں و اقع ہے ۔(۵)یہ بھی روایت ہے کہ آپ کی ولادت بمقام عُسفان ہوئی ۔ مذکورہ بالا پانچوں مقامات کے محلِّ وقوع ملاحظہ ہوں:

(ا) پہلا مقام مکانِ محمد بن یوسف الثقفی واقع زقاقِ مولد تووہی مکان ہے جو اصلی مولد تصور کیاجاتا ہےجس کا محلِّ وقوع پیشتر تحریر کیاجاچکاہے۔ یعنی بیت اللہ کے جنوب ِ مشرق میں باب السلام سے کوئی تین سو گز کے فاصلے پر واقع ہے۔
(ب) دوسرا مقام شعبِ بنی ہاشم ہے ۔یہ جگہ زقاق مولد یعنی مسلمہ مولد سے کوئی ڈیڑھ کوس پر مکہ معظمہ کے جنوبی مشرقی گوشہ میں واقع ہے۔ شعبِ بنی ہاشم کا دوسرا نا م شعبِ ابی طالب بھی ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں آنحضرت اور ابتدائی مسلمان

کفّار ِقریش کے مظالم سے تنگ آکرٹھہرگئے تھے
۔
(ج) تیسرامقام وہی مکانِ محمد بن یوسف ہے مگر اس کا محلِّ وقوع بجائے زقاق المولد کے صفا قرار دیا ہے۔
صفا
اورزقاق المولد کے درمیان کوئی آدھ کوس کا فاصلہ ہے۔
(د) چوتھی جگہ جہاں مولد کی نشاندہی کی گئی ہے وہ
مقام رَدَم
ہے۔ یہ مقام مسلّمہ مولد النبی سے کوئی ایک کوس پر
قبرستانِ معلیٰ
کے قریب ہے۔
(ھ) عسفان مکہ معظمہ سے اٹھارہ کوس مدینے کے راستے میں تیسری منزل ہےاور یہ چھوٹی سی آبادی ہے۔25

ابن عیاشی جنہوں نےایک سو انسٹھ(159ھ)ا ورایک سوچونسٹھ( 164ھ) میں سفرِ حج کیا تھا انہوں نے بھی اپنے سفر نامے میں مذکورہ بالا اختلافات تحریر کیے ہیں چنانچہ اس حوالہ سے ابن عیاشی لکھتے ہیں:

  قد علم من كتب السير ما وقع من الاختلاف في مولده صلى اللّٰه عليه وسلم هل هو بمكة أو بالأبواء، وعلى أنه بمكة فقيل بالشعب، وقيل بالمحصّب إلى غير ذلك من الأقوال.26
  جائے ولادت نبی کےبارےمیں اختلاف سیرت کی کتب سے معلوم ہواہے کہ وہ مکہ میں ہے یا ابواء میں، اسی طرح کہاگیا کہ وہ مکہ میں شِعب(ابی طالب)میں ہےاورکہاگیا کہ وہ محصّب میں ہےاسی طرح دیگراقوال ہیں۔

جمال الدین محمد جار اللہ مکی نے مکان دارِ یوسف واقع سوق اللیل کو اصلی مولد النبی تسلیم کرتے ہوئے بحوالہ مغلطائی یہ لکھا ہے کہ مقام ِشعب، ردم اور عسفان بھی مولد النبی بیان کیے گئے ہیں چنانچہ جامع اللطیف میں مذکورہ پہلو پر بات کرتے ہوئے ابن ظہیرہ رقمطراز ہیں:

  وقد ذكر السهيلي أنه صلى اللّٰه عليه وسلم وُلد بالشعب، وقيل بالدار التي عند الصفا التي كانت لمحمد بن يوسف أخي الحجاج...وهو غريب ونقل مغلطائی...ويقال ولد بالردم، ويقال بعسفان... وهو اغرب .27
  امام سہیلی نے ذکر کیا ہے کہ بلا شبہ آپ شعب بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔اور یہ بھی منقول ہو اہے کہ اس گھر میں پیدا ہوئے جو صفا کے ساتھ ہے جو حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کا ہے۔۔۔اور یہ روایت غریب ہے۔امام مغلطائی نے نقل کیاہے کہ ۔۔۔آپ ردم یا عسفان نامی جگہ کے پاس پیدا ہوئےا ور یہ روایت بھی کافی غریب ہے۔

مذکورہ مختلف فیہ اقوال کے ساتھ ساتھ وہ تمام اقوال جو اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مولد النبی مکہ کے علاوہ کسی اور جگہ ہے تو ایسے اقوال کو علماء سیر و تاریخ نے ضعیف مانا ہے اور مستغرب کہا ہے۔اس حوالہ سے تو کم از کم یہ بات متفقہ طور پر کہی جا سکتی ہے کہ آپ مکہ ہی میں پیدا ہوئے ہیں چنانچہ امام فاکہی نے تو ایک روایت نقل کی ہے جس میں آپ نے خود اس مضمون کے متعلق اشاد فرمایا ہےچنانچہ امام فاکہی اپنی سند سےروایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا:

  مولدي مكة ومهاجري المدينة.28
  میری جائےولادت مکہ اورہجرت مدینہ ہے۔

یہ امر ملحوظ رہے کہ مکانِ محمد بن یوسف کے سوا جو زقاق المولدمیں سوق اللیل سے متصل واقع ہے ردم و عُسفان میں واقع مکان کی نسبت ایسی کوئی روایت نہیں ہےکہ لوگ ان مقامات پر مولد النبی کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے یا وہاں کوئی عمارت مولد کی یادگار میں کبھی بنائی گئی تھی۔ البتہ وہ مکان جو شعب بنی ہاشم میں واقع ہے اس کی نسبت علامہ زرقانی شرح مواہب اللدنیہ میں لکھتے ہیں کہ

وہاں لوگ زیارت کے واسطے جاتے ہیں
۔ یہ کیفیت گیارہویں صدی ہجری کی ہے لیکن اب ہمارے زمانے میں اس محلہ میں کوئی مکان مولد النبی کے نام سے موسوم نہیں ہے۔ 30

ایک شبہ اور اس کا جواب

مکہ معظمہ کے سب سے پہلے مؤرخ ازرقی، 31مشہور مؤرخ ابن اثیر 32 اورابن ظہیرہ 33 دار محمد بن یوسف الثقفی ہی کو اصل مکانِ مولد حضور تسلیم کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اہل مکہ کے نزدیک اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے اورسلف سے خلف تک یہی مکان ولادتِ گاہ ِنبیکے طور پرمشہور چلا آرہاہے۔لیکن صاحبِ " رحلۃ العیاشیۃ" نے اپنے سفر نامہ میں مکانِ مولودِ آنحضرت کی بابت شبہ کا ذکر کیا ہے۔پہلے اس شبہ کو پیش کرتے ہیں پھر اس کی بابت علمائے سیر کے حوالہ سے اس کی تحقیق پیش کریں گے کہ مولدالنبی مکہ میں شعب بنی ہاشم کے زقاق المولد میں ہی ہے۔اگرچہ مولد النبی کی نسبت مختلف مقامات پر نشاندہی کرنے سے ہر شخص کو مسلّمہ مولد النبی کی نسبت اسی طرح شبہ ہوسکتا ہےجس طرح اب سے کوئی تین سو برس قبل ایک عرب سیاح کو اس بارے میں شک ہو اتھاجس کا ذکر کرنا یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ بات بالکل واضح ہوجائے۔ عیاشی جنہوں نےایک ہزار انسٹھ(1059ھ) میں اورایک ہزار چونسٹھ (1064ھ)میں حج کیا تھا اپنے سفر نامے میں مکان مولد النبی واقع سوق اللیل کی نسبت جو اصلی ولادت گاہِ حضور سمجھا جاتا ہے شبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

  والعجب أنھم عينوا محلاً من الدار مقدار مضجع، وقالوا: موضع ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم!ويبعد كل البُعد تعيين ذلك من طريق صحيح أوضعيف، لما تقدم من الخلاف في كونه في مكة أو غيرها، وعلى القول بأنه فيھا ففي أيّ شعابھا؟ وعلى القول بتعيين هذا الشعب ففي أي الدور؟ وعلى القول بتعيين الدار فيبعد كل البُعد تعيين الموضع من الدار، بعد مرور الأزمان والأعصار، وانقطاع الآثار. والولادة وقعت في زمن الجاهلية، وليس هناك من يعتني بحفظ الأمكنة، سيّما مع عدم تعلق غرض لهم بذلك، وبعد مجيء الإسلام فقد علم من حال الصحابة وتابعيھم ضعف اعتنائھم بالتقيد بالأماكن التي لم يتعلق بھا عمل شرعي، لصرفهم اعتنائھم ، لما هو أهم من حفظ الشريعة، والذّب عنھا بالسنان واللسان، وكان ذلك هو السبب في خفاء كثير من الآثار الواقعة في الإسلام، من مساجده عليه السلام، ومواضع غزواته، ومدفن كثير من أصحابه، مع وقوع ذلك في المشاهد الجليلة، فما بالك بما وقع في الجاهلية، لا سيّما ما لا يكاد يحضره أحد إلا من وقع له، كمولد علي ومولد عمر، ومولد فاطمة رضي اللّٰه عنھم ، فهذه أماكن مشهورة عند أهل مكة، فيقولون: هذا مولد فلان، هذا مولد فلان، وفي ذلك من البُعد أبعد من تعيين مولده صلى اللّٰه عليه وسلم، لوقوع كثير من الآيات ليلة مولده صلى اللّٰه عليه وسلم فقد يتنبه بعض الناس لذلك بسب ما ظهر من الآيات، وإن كانوا أهل جاهلية وأما مولده فمن ولد في ذلك العصر فتكاد العادة أن تقطع بعدم معرفته إلا أن يرد خبر عن صاحب الواقعة بتنبھه أو أحد من أهل بيته.34
  تعجب ہے کہ اس مکان میں آنحضرت کی جائے ولادت ظاہر کرنے کے لیے ایک پلنگ کی برابر جگہ کا تعین بھی کردیا گیا ہے اور اسے موضع ولادت رسول اللہ کہتے ہیں ،میرے نزدیک اس اختلاف کے لحاظ سے کہ آنحضرت کی ولادت مکہ میں ہوئی یا بیرون مکہ اس قسم کا تعین بہت ہی بعید از قیاس ہے۔ اوّل تو یہ امر ہی تصفیہ طلب ہے کہ آیا آپ مکہ میں تولد ہوئے یا کسی اور جگہ۔ اگر مکہ میں پیدا ہوئے تو کس محلے میں اور اس محلے کے کس مکان میں ۔ جب مکان کا تعین ہوجائے تو پھر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ اس مکان کے کس حصے میں ولادت ہوئی؟ مدت دراز گزر جانے ،زمانے کے پلٹا کھانے اور آثار کے معدوم ہوجانے کے بعد ان باتوں کا معلوم ہونا غیر ممکن ہے۔ اس کی ساتھ یہ بات بھی خصوصیت کے ساتھ قابل غور ہے کہ آنحضرت کی ولادت زمانہ جاہلیت میں ہوئی تھی ۔ اس وقت ان ممکنہ آثار کی حفاظت کرنے والا کون تھا اور کس کو غرض تھی کہ ان کی حفاظت کرتا؟ یہ تو جاہلیت کی کیفیت تھی اب اسلام کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔ صحابہ و تابعین کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزرگوار ، ان مکانات و مقامات کے تعین و تحفظ میں جن کا تعلق عملِ شرعی سے نہ ہوتا تھا مطلق توجہ نہیں فرماتے تھے۔ البتہ حفاظت شریعت میں وہ جان لڑادیتے تھے اور زبان و سنان سے ہر طرح کوشش فرماتے تھے، یہی سبب ہے کہ زمانہ اسلام کے واقعات کے آثار یعنی آنحضرت کی مسجدیں، وہ مقامات جہاں آنحضرت نے جہاد کیا، بہت سے صحابہ کی قبریں اور بہت سی بڑی بڑی یادگاریں سب مٹ گئیں ۔خاص طور پرتو اس وقت ان مکانوں سے کسی کو کوئی دلچسپی بھی نہ تھی مثلاً مولد ِ علی، مولدِ عمر اور مولد فاطمہ حالانکہ یہ سب مکان اہل مکہ کے نزدیک مشہور ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ فلاں کا مولد ہے اور وہ فلاں کا مولد ہے۔ آنحضرت کے مولد کی نسبت تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی ولادت کی رات کو اس مکان میں معجزات ظاہر ہوئے تھے اور بعض اہل جاہلیت کو بھی ان کی اطلاع ہوئی تھی مگر یہ قیاس ان لوگوں کی ولادت گاہوں کی نسبت نہیں کیا جاسکتا جو وقت ولادت مشہور و معروف نہ تھے، ہاں صاحب واقعہ یا اس کے گھر والوں کی اس بارے میں اگر کوئی روایت ہو تو اور بات ہے۔

مذکورہ بالا شبہ فقط مولود النبی کی جگہ کے تعین کے بارے میں تو قابلِ اعتناء ہوسکتا ہے اور اس کا جواب بھی آئندہ سطور میں مذکور ہےلیکن بنفسہ محلِّ مولود النبی کے بارے میں نا قابلِ اعتناء ہے کیونکہ ا س محل مولود النبی کے بارے میں تواتر منقول ہے۔رہی بات کہ صحابہ و تابعین نے اس مقام کی طرف توجہ نہیں دی تو اس کی وجہ ظاہر ہے کہ قرونِ اول و ثانی و ثالث کے افراد دینِ متین کی اعلی اقدار اور فرائض کی طرف متوجہ تھےجس کی وجہ سے ان مقامات کی اس طرح حفاظت کرنا ان کے لیے نا ممکن تھا۔

محلِّ مولد النبیﷺاور تواتر

تواترلغت میں اشیاء کا کچھ وقفہ کےساتھ یکےبعددیگرےایک دوسرےکےپیچھےمشابہ ہونا کہلاتا ہے اور اصطلاح میں تواترکسی گروہ کی ایسی خبر کو کہتے ہیں جو اس گروہ کے جھوٹ پر جمع ہونے کو ان کی کثرت کی بنا پرمحال ٹھہرائے ۔35 اس عظیم واقعۂ ولادتِ مصطفی میں،آپ کے مکانِ ولادت اور بوقتِ ولادت جائے سجدہ کے بارے میں تواتر کثرت سے منقول و متوارث ہے۔36 تواترکا حکم یہ ہے کہ یہ علمِ یقینی کا فائدہ دیتاہےاوریہ تمام اہلِ علم کا متفقہ قول ہے۔37

اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ کےسرداروں کی جائےولادت کا پتہ لگانا مشکل کام نہیں ہے۔اسلامی تاریخ کے مسلمات میں سےہےکہ رسول اللہ کاخاندان قریشی خاندانوں میں سب سےعظمت والااوراعلی منزلت والاہے۔مکہ مکرمہ میں شعب بنی ہاشم کی رہائش گاہ قدیم وجدید زمانہ میں مشہورومعروف مقام ہے کیونکہ حضور کےخاندان بنی ہاشم کو قریش میں سرداری حاصل تھی لہٰذا ان کےمقامات ولادت کی خاص اہمیت ہےاور ان میں سرفہرست سیدنا حضور اکرم ہیں۔ آپﷺکاخاندان نمایاں اورمرتبہ میں اعلی خاندان ہے اور اسی طرح قدرومنزلت کے اعتبارسے ہرگزغیرمعروف نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضورِ اکرم کی ولادت ِ با سعادت معروف و مشہور ہےجو رسالت کے اختتام کے لیے مختارِ الہٰیہ ہے۔ ہاں اس کے برعکس عام اوربےنام لوگ جن کی معاشرہ میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی ان کی جائےولادت نظراندازہوجایا کرتی ہے۔اسی لیے عقلاء، عوم الناس اورمحققین کےنزدیک مقامِ ولادت ِرسول اللہ کوجاننے میں ادنی شک بھی نہ تھا۔تواترِعلمی اورمحلّی اوران کی مطابقت نے یہ ثابت کردیاہے۔ 38

مولد النبیﷺاور علمائے سیر

مولد النبی ﷺکےبارے میں علمائے سیر کی تحقیق ذیل میں درج کی جارہی ہے جس سے معلوم اور واضح ہوجائےگا کہ مولد النبیﷺکے محلّ وقوع میں مذکورہ بالا شبہ فقط ایک بے دلیل شبہ ہے بلکہ اس کے برعکس محلِّ مولود النبیﷺمتعین ہے اورامت میں اس کا محلّ وقوع تواتر کے ساتھ منقول ہےچنانچہ رسول اکرمﷺکے مقام مولد کا محلّ وقوع بیان کرتے ہوئے امام ازرقی تحریرفرماتےہیں:

  مولد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم أي البيت الذي ولد فيه النبي صلى اللّٰه عليه وسلم وهو في دار محمد بن يوسف أخي الحجاج بن يوسف كان عقيل بن أبي طالب أخذه حين هاجر النبي صلى اللّٰه عليه وسلم.39
  مکانِ ولادت ِنبی ﷺیعنی وہ گھر جس میں نبی ﷺپیدا ہوئے،وہ حجاج بن یوسف کے بھائی محمدبن یوسف کے گھرمیں ہے۔ نبی اکرم ﷺکی ہجرتِ مدینہ کے وقت اسے عقیل بن ابی طالب نے لےلیا تھا۔

امام فاسی متعلقہ پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

  الموضع الذي يقال له: مولد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم بالموضع الذي يقال له سوق الليل، وهو مشهور عند أهل مكة. 40
  وہ مقام جسے مقام ولادت نبی ﷺکہتے ہیں اس مقام پر ہے جسے رات کا بازارکہتےہیں۔مکہ والوں کے یہاں یہ مشہورہے۔

اسی حوالہ سے عبد الکریم القطبی تحریر فرماتے ہیں:

  وكذا فى مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم وھو موضع مشھوربشعب بنی ھاشم.41
  اسی طرح مولد النبیﷺمیں( بھی دعاء قبول ہوتی ہے)اور یہ مشہور جگہ ہے شعب ِبنی ہاشم میں۔

ابن القیم الجوزیہ نےنبی اکرم ﷺکی جائے ولادت کے متعلق یوں بیان کیا ہے:

  لا خلاف أنه ولد صلى اللّٰه عليه وسلم بجوف مكة، وأن مولده صلى اللّٰه عليه وسلم كان عام الفيل، وكان أمر الفيل تقدمة قدّمها اللّٰه لنبيه صلى اللّٰه عليه وسلم وبيته. 42
  اس میں اختلاف نہیں کہ حضور ﷺمکّہ مکرمہ میں پیداہوئے۔آپ ﷺکا سالِ ولادت (واقعۂ)فیل کاسال ہے۔واقعۂ فیل کو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پیارے نبی مکرم ﷺکےلیے اوراپنے مقدّس گھرکے لیےپیش خیمہ بنایا۔

مولد النبی ﷺکے متعلق ابی سرحان الفاسی تحریرفرماتےہیں:

  ولد صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة أعني شعب بني هاشم على الأصح، بمولده المشهور الآن، وهو مكن معروف عند أهل أمكة.43
  حضور ﷺمکہ میں پیدا ہوئے، میرا مطلب ہے کہ شعب بنی ہاشم صحیح روایت کے مطابق جو مقامِ ولادت حالیاً مشہورہے۔ یہ مقام اہل مکہ کے نزدیک متواتراورمشہورہے۔

اسی ضمن میں ابن سید الناس زبیر بن بکاّرکی ایک روایت بیان کرتے ہیں:

  حملت به أمه صلى اللّٰه عليه وسلم في أيام التشريق في شعب أبي طالب عند الجمرة الوسطى، وولد صلى اللّٰه عليه وسلم التي تدعى لمحمد بن يوسف أخي الحجاج.44
  شعب ابی طالب میں جمرۂ وسطی کےپاس ایام تشریق کے دوران آپ ﷺکی والدہ حاملہ ہوئیں اور آپﷺاس گھرمیں پیدا ہوئے جو حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کاکہلاتاتھا۔

مذکورہ روایت کو اما م حافظ عراقی نے "المورد الھنی "میں بھی نقل کیا ہے۔45 ابن عبد البرنےبھی گذشتہ روایت ذکرکرنے کےبعد آپ ﷺکی جائےولادت کے متعلق ایک روایت بیان کی ہےچنانچہ آپ اس حوالہ سے رقمطراز ہیں:

  وقيل: إنه ولد فى شعب بني هاشم.46
  اورکہاگیاہےکہ آپ ﷺوادئ بنی ہاشم میں پیداہوئے۔

"انوارمحمدیہ "میں علامہ نبہانی تحریرفرماتےہیں:

  ووُلد صلى اللّٰه عليه وسلم في مكة في الدار التي كانت لمحمد بن يوسف. 47
  حضور ﷺمکہ مکرمہ میں اس گھرمیں پیداہوئے جومحمد بن یوسف کا گھرکہلاتاہے۔

مقام ولادت رسول کے متعلق محمد عبدالرؤف المناوی تحریر فرماتے ہیں:

  وُلد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة داخل الزقاق المعروف بزقاق المدكك.48
  حضوراکرم ﷺکی ولادت باسعادت مکہ مکرمہ کے مشہورمحلہ میں ہوئی جو" زقاق المدکک"کے نام سے سےجانا جاتاہے۔

مولد النبیﷺ شعبِ بنی ہاشم میں ہے ۔اس شعب کا دوسرا نام شعبِ علی بھی ہےاور " سوق اللیل" بھی چنانچہ اس حوالہ سے عبد اللہ محمد ابکر رقمطراز ہیں:

  تقع دار مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم فى شعب بنی ھاشم قدیما ویسمى بشعب على كما یسمى سوق اللیل وھو مکان شرقى الحرم الشریف. 49
  رسول اکرمﷺکا گھر قدیم" شعب بنی ہاشم" میں واقع ہے اور اس کو" شعبِ علی " کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے جیساکہ اس کو" سوق اللیل" کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔یہ وہ مکان ہے جو حرم شریف کے مشرقی کنارہ کی طرف واقع ہے۔

اسی حوالہ سے شیخ علی بن عبد القادر طبری تحریر فرماتے ہیں:

  مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم بفم شعب على وھو معروف مشھور. 50
  نبی کریمﷺکی جائے ولادت شعب ِ علی کے دہانہ پر ہےجو معروف و مشہور ہے۔

اسی طرح مقام ِ مولد النبیﷺکے محلِ وقوع کے حوالہ سے شیخ محمد بن احمد مکی روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:

  الموضع الذى یقال له مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم وھو مشھور فى الموضع الذى یقال له سوق اللیل وفى حاشیة شیخنا على مولد الدردیر ولد بسوق اللیل على الصحیح فى الدار التی كانت لمحمد بن یوسف اخى الحجاج وكانت قبل ذلک بید عقیل ابن ابی طالب. 51
  وہ جگہ جس کومولد النبیﷺکہا جاتا ہے اور وہ مشہور بھی ہےاُس جگہ میں واقع ہے جس کو" سوق اللیل" کہا جاتا ہے اور" مولد الدردیر "پر لکھے گئے ہمارے شیخ کے حاشیہ میں ہے کہ صحیح ترین روایت کی بنا پر آپﷺ" سوق اللیل"کے اسی گھر میں متولد ہوئے جو حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کا تھا۔اس سے پہلےیہ گھر حضرت عقیل بن ابی طالب کی ملک میں تھا۔

مذکورہ بالا عبارت کو شیخ محدث عبد اللہ الغازی نے بھی اپنی کتاب میں اسی طرح درج کیا ہے۔52اسی حوالہ سے امام ابن ظہیرہ اس پر مہر ثبت چسپاں کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

  وكون هذا المكان مولده صلى اللّٰه عليه وسلم مشهور متوارث يأثره الخلف عن السلف.53
  اس مقام کاحضورﷺکی جائےولادت ہونا مشہورہے آنے والوں نے گزرجانےوالوں سے ورثہ میں (اس کے علم کو)پایاہے۔

امام فاکہی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہےچنانچہ آپ تحریرفرماتےہیں:

  وهو أصح الآثار عند أهل مكة، يحقق ذلك مشايخهم.54
  اہل مکہ کےنزدیک وہ(گھر)سب سے درست آثارمیں سے ہے۔یہ ان کے بزرگوں سےمتحقق ہے۔

امام ازرقی نے بھی اسی طرح کی بات تحریر فرمائی ہےچنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  حدثني أبو الوليد سمعت جدي ويوسف بن محمد يثبتان أمر المولد وأنه ذلك البيت لا اختلاف فيه عند أهل مكة. 55
  ابو الولید نے مجھ سےبیان کیاکہ اس نے اپنے دادا اورمحمد بن یوسف سے مقامِ ولادت کے متعلق ثابت کرتے ہوئےسنا کہ اس گھرکے متعلق اہل مکہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ مقامِ ولادت ہے۔

ابن ظہیرہ نے بھی اسی طرح کا قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہےچنانچہ آپ اس حوالہ سے رقمطراز ہیں:

  والمعروف المشهور في مولده صلى اللّٰه عليه وسلم هو الاوّل الذي بسوق الليل، ولا اختلاف فيه عند أهل مكة.56
  نبی کریم ﷺکی جائے ولادت کے متعلق پہلےہی مشہورومعروف ہےکہ وہ " سوق اللیل"میں ہے اوراہل مکہ کےہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

مقامِ ولادت باسعادت نبی مکرم ﷺکے متعلق امام ابن حجر الہیثمی فرماتےہیں:

  والصواب أنه ولد بمكة ولا يجوز اعتقاد غيره والأشھر أنه محل مولده المشهور بسوق الليل . 57
  اور درست یہ ہےکہ آنحضرت ﷺمکہ میں پیداہوئے اوراس کے علاوہ کا اعتقادبھی جائز نہیں۔مشہوریہ ہےکہ مقامِ ولادت سوق اللیل(رات کا بازار)ہے۔

اسی حوالہ سے عبد اللہ محمد ابکر تحریر فرماتے ہیں:

  وھذہ الدار معروفة و مشھورة عند اھل مکة لایختلف فیھا اثنان. 58
  یہ مذکورہ گھر اہل مکہ کے ہاں معروف و مشہور ہے جس میں کسی دو کو بھی آپس میں اختلاف نہیں ہے۔

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئےڈاکٹرناصر بن علی رقمطراز ہیں:

  ان ما ترجح لدى كتاب السیرة النبویة وجمھرة المؤرخین ان الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم ولد فى دار جدہ العبد المطلب التی كانت تقع بمدخل شعب بنی ھاشم الذى ارتبط بحصار مشركى قریش للمسلمین من بنی ھاشم وغیرھم وھذہ الروایة تناقلھا المؤرخون بالتواتر جیلا بعد اٰخر بما لا یدع مجالا للشک فى صحتھا...ان ھذہ الدار التی ولد فیھا الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم كانت فى الاصل داراً لعبد المطلب جدّ الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم فلما عمى فى آخر حیاته قسم تركته بین ابنائه فکان نصیب عبد اللّٰه والد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم ھذہ الدار ومن البدھى ان یلد الابن فى بیت ابیه غالباً كما جرت به العادة فى الجاھلیة. 59
  بلا شبہ کتب سیر اور جمہو رمؤرخین کے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ رسول کریمﷺاپنے جدِّامجد حضرت عبد المطلب کے اس گھر میں متولد ہوئے جو شعبِ بنی ہاشم کے اندر واقع ہے ۔وہی شعب جہاں مکہ کے ہاشمی و غیر ہاشمی قریشیوں نے مسلمانوں کو محصو رکرنے پر اتفا ق کرلیا تھا۔اس(مذکورہ) روایت کومؤرخین نے یکے بعد دیگرے تواتر و تسلسل کے ساتھ نقل کیا ہے بایں طور کہ اب اس کی صحت کے بارے میں شک کے لیے ذرّہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے۔۔۔وہ گھر جس میں رسول کریمﷺمتولّد ہوئے وہ در اصل رسول کریمﷺکے جدّامجد حضرت عبد المطلب کا گھر ہے۔پھر جب آپ اپنی آخری عمرمیں نابینا ہوگئے تو اپنے مال و متاع کو اپنے بیٹوں کے درمیان تقسیم فرمادیا۔تو حضرت عبد اللہ جو رسول اکرمﷺکے والد ہیں ان کے حصہ میں یہ مذکورہ گھر آیا۔یہ بات تو واضح تر ہے کہ اکثر طور پر بیٹا اپنے والد کے گھر میں ہی پیدا ہوتا ہے جیسا کہ دورِ جاہلیت میں بھی یہی رواج جاری و ساری تھا۔

اسی طرح شیخ ابو سلیمان نے بھی مقامِ مولد النبی ﷺکے ثبوت میں مکی مؤلفین کی ایک فہرست بمع ان کی عبارات کے نقل کی ہے جن میں سے بعض مؤلفین کا ذکر ماقبل میں کردیا گیا ہے اوردیگر بعض مکی مؤلفین کا ذکر کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:

  حظى التاریخ المکى بالتدوین الدقیق من قبل مؤلفین مکیین ومن حسن الحظ انه دونه المحدثون الفقھاء القضاة الذین لا یقیمون وزنًا الاللمعلومة الصحیحة التی تثبت على المعاییر العلمیة الدقیقة ،ان قراءة آثار ھؤلاءخیر شاھد ودلیل على واقعھم العلمى والاجتماعى ومن ھذہ المؤلفات كتاب " اخبار مکة وما جاء فیھا من الآثار" تالیف شیخ المؤرخین المکیین ابی الولید محمد بن عبد اللّٰه بن احمد الازرقى(ت223ھ )...وكتاب " اخبار مکة فى قدیم الدھر وحدیثه" تالیف ابی عبد اللّٰه محمد بن اسحاق الفاكھى(ت245ھ)....وكتاب" شفاء الغرام باخبار البلد الحرام" تالیف الحافظ ابی الطیب تقى الدین محمد بن احمد بن على الفاسی المکى المالکى(ت775ھ)...وكتاب" الجامع اللطیف فى فضل مکة واھلھا وبناء البیت الشریف" تالیف جمال الدین محمد جار اللّٰه بن محمد نور الدین بن ابی بکر ابن على ابن ظھیرة القرشی المخزومى(ت986ھ)...وكتاب" الاعلام باعلام بیت اللّٰه الحرام فى تاریخ مکةالمشرفة" تالیف محمد قطب الدین بن احمد علاء الدین بن محمد النھروانی المکى الشھیر بالقطبی (ت917ھ)...وكتاب" الارج المسکى فى التاریخ المکى وتراجم الملوک والخلفاء "تالیف على بن عبد القادر الطبرى(1070ھ)...وكتاب " منائح الکرم فى اخبار مکة والبیت وولاة الحرم" تالیف على بن تاج الدین بن تقى الدین السنجارى (ت 1057ھ)...وكتاب" تحصیل المرام فى اخبار البیت الحرام والمشاعر العظام ومکة والحرم وولاتھا الفخام" تالیف محمد بن احمد بن سالم بن عمر المکى المالکى المعروف بابن صباغ (ت1321ھ)...وكتاب " العقد الثمین فى فضائل البلد الامین" تالیف العلامة المؤرخ المحدث احمد بن محمد الحضراوى (ت1327ھ)...وكتاب" افادة الانام بذكر اخبار بلد اللّٰه الحرام" تالیف العلامة المحدث عبداللّٰه بن محمد الغازى المکى الحنفى(ت1365ھ)...وكتاب" دلیل الآثار المطلوبة فى مکة المحبوبة" تالیف المربی العلامة الشیخ عبد المالک بن عبد القادر بن على المعروف بالطرابلسی(1417ھ)...وكتاب" معالم مکة التاریخیة والاثریة" تالیف المورخ الشیخ عاتق بن غیث البلادى(ت1431ھ)...لاشک ان ھذہ المجموعة من المؤلفین الثقات ومعظمھم من المحدثین والفقھاء والقضاة ورجال العلم من مکة المکرمة عاشوھا منذ الطفولة ان كانو من اھلھا او شیوخًا ان كانوا من المجاورین او المقیمین حدیثھم عن مکان ولادة النبی صلى اللّٰه عليه وسلم حدیث موثق النقل یتحقق به التواتر العلمى بمعناہ الاصطلاحى فى اجلى صورہ وادق معانیه ولاحاجة للاستزادة من النقول . 60
  مکی مؤلفین کی جانب سے مکی تاریخ نے تحقیق وتدوین کے اعتبار سےبہت منزلت پائی۔حسنِ اتفاق یہ ہےکہ اس کو اُن محدثین، فقہاءاور قضاۃ نےلکھاجو دقیق علمی معیارپرپورااترنےوالی صحیح معلومات کے علاوہ کسی قسم کی معلومات کوکوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ بےشک ان کے علمی شہ پاروں کا مطالعہ ان کے علمی ومعاشرتی معیارپربہترین دلیل وگواہ ہے۔ان مؤلفات میں مکی مؤرخوں کے شیخ ابوالولید محمد بن عبد اللہ بن احمد الازرقی متوفی دوسو تئیس(223ھ)کی کتاب ," اخبار مکۃ وما جاء فیھا من الآثار" ۔۔۔ابو عبداللہ محمد بن اسحاق الفاکہی متوفی دوسو پینتالیس(225ھ)کی کتاب," اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ" ۔۔۔حافظ ابو الطیب تقی الدین محمد بن احمد بن علی الفاسی المکی المالکی متوفی سات سو پچھتر(775ھ)کی کتاب," شفاء الغرام باخبار البلد الحرام" ۔۔۔جمال الدین محمد جار اللہ بن محمد نور الدین بن ابی بکر ابن علی ابن ظھیرۃ القرشی المخزومی متوفی نو سو چھیاسی(986ھ)کی کتاب," الجامع اللطیف فی فضل مکۃ واھلھا وبناء البیت الشریف"۔۔۔ محمد قطب الدین بن احمد علاء الدین بن محمد النہر وانی المکی المعروف قطبی متوفی نوسو سترہ(917ھ) کی کتاب" الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ" ۔۔۔علی بن عبد القادر الطبری متوفی ایک ہزار ستر(1070ھ)کی کتاب," الارج المسکی فی تاریخ المکی وتراجم الملوک والخلفاء"۔۔۔علی بن تاج الدین بن تقی الدین السنجاری متوفی ایک ہزار ستاون(1057ھ)کی کتاب," منائح الکرم فی أخبارمکۃ والبیت وولاۃ الحرم" ۔۔۔محمد بن احمد بن سالم بن عمر المکی المالکی العروف ابن صباغ متوفی تیرہ سو اکیس(1321ھ)کی کتاب ," تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعر العظام ومکۃ والحرم وولاتھا الفخام"۔۔۔علامہ مؤرخ محدث احمد بن محمد الحضراوی متوفی تیرہ سو ستائیس(1327ھ)کی کتاب," العقد الثمین فی فضائل البلد الامین" ۔۔۔علامہ محدث عبد اللہ بن محمد الغازی المکی الحنفی متوفی تیرہ سو پینسٹھ(1365ھ)کی کتاب," افادۃ الانام بذکر اخبار البلد الحرام" ۔۔۔مربی علامہ شیخ عبد المالک بن عبد القادر بن علی المعروف الطرابلسی متوفی چودہ سو سترہ(1417ھ)کی کتاب " دلیل الآثار المطلوبۃ فی مکۃ المحبوبۃ" ۔۔۔اور مؤرخ شیخ عاتق بن غیث البلادی متوفی چودہ سو اکتیس(1431ھ)کی تالیف "معالم مکۃ التاریخیۃ والاثریۃ" شامل ہیں(جن کے مطابق نبی کریم کی جائے ولادت محلّۂ "بنی ہاشم" کی"سوق اللیل" نامی گلی میں واقع محمد بن یوسف الثقفی کا گھر ہے)۔۔۔اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتبِ مذکورہ کا مجموعہ ان معتبر مؤلفین ،عظیم محدثین ،فقہاء،قاضیوں اور مکہ مکرمہ کے ان اہل علم حضرات کاہےجنہوں نے بچپن ہی سے مکہ مکرمہ میں زندگی گزاری ہے یا وہ ایسے بزرگ ہیں جو اس کے مضافات کے باسی اور رہائشی ہیں۔ان تمام کی نبی کریمﷺکی جائے ولادت کے بارے میں کوئی بھی بات لائق اعتبار ونقل ہے جس سے تواتر علمی اپنے اصطلاحی معنی کے ساتھ اجلی صورتوں اور لطیف معنوں میں آشکار ہوجاتا ہے۔اب کوئی حاجت باقی نہیں رہی ہے کہ مزید نقول پیش کی جائیں۔

اسی طرح اس تواتر علمی و نقلی کے حوالہ سے اور اس کی ثقاہت کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن قیم تحریر فرماتے ہیں:

  وأما نقل الأعيان وتعيين الأماكن فكنقلهم الصاع والمد وتعيين موضع المنبر وموقفه للصلاة والقبر والحجرة ومسجد قباء وتعيين الروضة والبقيع والمصلى ونحو ذلك، ونقل هذا جار مجرى نقل مواضع المناسك كالصفا والمروة ومنى ومواضع الجمرات ومزدلفة وعرفة ومواضع الإحرام كذي الحليفة والجحفة وغيرهما. 61
  البتہ عینی شاہدین کی نقل اور ان کاجگہوں کا تعیّن کرنا ایسےہےجیسےان کا ناپ تول کے اوزان،منبرکےمقام کی جگہ، حضورﷺکی نمازکےلیےکھڑےہونےکی جگہ،قبرمبارک، حجرہ مبارکہ، مسجد قبا،ریاض الجنۃ کا تعیّن، جنت البقیع کا اورجائےنماز وغیرہ کا تعین ہےاور اس طرح کی نقل اماکنِ مناسک جیسےصفا مروہ، منی،جمرات کی جگہیں،مزدلفہ،عرفات، اِحرم کی جگہیں(میقات)جیسے ذی الحلیفہ اورجفعہ وغیرہ کے نقل طرح جاری وساری ہیں۔

ان تمام بالا حوالہ جات سے بدرجہ اتم واضح ہوجاتا ہے کہ مولود النبیﷺکے محل وقوع میں شبہ کرنا بعید از قیاس ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہوگیا کہ مولد النبیﷺکا محل وقوع متواتراًمنقول ومتوراث ہے جس کو علماء سیر و تاریخ نے وضاحت کے ساتھ تحریر کیا ہے اور مکی افراد اسی مقام مولد النبیﷺکو نسل در نسل وراثت کے طور پر اسی مقام کو مولد النبیﷺکے طور پر نقل کرتے آرہے ہیں۔

عینِ مولدالنبیﷺکا مقام

رسول اکرمﷺکے مقام مولد میں ایک خاص مقام وہ بھی ہے جہاں ولادت ہوتے ہی آپﷺکا جسد اقدس اس روئے زمین سے مس ہوا تھا۔ مقام مولد النبی ﷺمیں اس جگہ کا تعین کرنا ضرور ایک مشکل امر ہے جہاں آنحضرتﷺبعد از ولادت سب سے پہلے مَسْ ہوئے لیکن بعض علماء نے اس کو بھی بطورِ خاص ذکر فرمایا ہےمثلاًاس عینِ مقام ولادت کے حوالہ سےابن جبیرنے اپنی کتاب" الرّحلۃ" (سفر نامہ) میں ذکر کیا ہےچنانچہ وہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے اور اس خاص متعین جگہ کا بتاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  " ومن مشاهدها الكريمة أيضا مولد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم والتربة الطاهرة التي هي اوّل تربة مست جسمه الطاهر بنى عليه مسجد...والموضع المقدس الذي سقط فيه صلى اللّٰه عليه وسلم ساعة الولادة السعيدة المباركة التي جعلها اللّٰه رحمة للأمة أجمعين محفوف بالفضة. 62
  اور اسی طرح شہر مکہ کے مقامات مقدسہ میں سے مولد النبیﷺاور وہ خاک مطہرہ ہے جسے سب سے پہلے حضورﷺکے جسد اقدس کو چھونے کا شرف نصیب ہوا۔ اس مقام پر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔۔۔ اور وہ مقام خاص بھی جہاں ولادت سعیدہ کی گھڑی میں حضورﷺتشریف فرماہوئے تھے، جس گھڑی کو اللہ تعالیٰ نے پوری امت کے لیے ساعت رحمت بنادیا ہے، اس جگہ کومکمل طور پر چاندی کے ساتھ مزین کیا گیا ہے۔

اسی متعین جگہ کے بارے میں صاحبِ تحصیل المرام تحریر فرماتے ہیں:

  وموضع مسقط رأسه الشریف فى ھذ المحل المعروف الى الآن وھو موضع مثل التنور.63
  اس مقامِ مولد النبیﷺمیں جو اب تک مشہور ہے ا ٓپﷺکی (بعد ِولادت)
جائے سجدہ
تندور کی مثل ہے ۔

عینِ مقام ِ مولد النبیﷺکے حوالہ سے شیخ اولیاء چلپی نے اپنے سفرنامہ میں تفصیل بیان کی ہے جس کو بیان کرتے ہوئے شیخ ابو سلیمان تحریر فرماتے ہیں:

  وفى المکان الذى تشرف بنزول صاحب الرسالة من رحم الأم الطاھرة، قد وضعوا حجراً مباركاً، داخل الحفرة الصفراء وقد أثر جسدہ الشریف فى ھذا الحجر وھو منخفض یتسع لجلوس رجل فى داخله جلوساً متربعاً، وعند حفر ھذا المنخفض المبارک كانت تشع من ھذا الحجر روائح الورد، والکافور، ومملوء بماء القاضى.65
  وہ مقام جو صاحب رسالتﷺکے اپنی پاکباز والدۂ محترمہ کے شکم سے جلوہ گر ہونے کی وجہ سے مشرف ہوا ہے، اس میں موجود پیلے گڑھے کے اندر ایک مبارک پتھر رکھا ہوا ہے جس پرنبی مکرمﷺکے جسدِا قدس کے نشان وقوع پذیر ہوئے۔یہ ایک گہرا گڑھا ہے جس میں ایک آدمی کے آلتی پاتی بیٹھنے کےلیے کشادگی ہے۔اس مبارک گڑھے کو کھودتے وقت اس گڑھے میں سے پھول اور کافور کی خوشبو پھوٹتی تھیں اور یہ(معطر پانی) ماء القاضی سے بھرا رہتا ہے۔

اسی حوالہ سے علی شبیر ،خان بہادر کے سفرنامہ میں عینِ مقامِ ولادت کے متعلق درج شدہ معلومات کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اس مقام کے درمیان میں ایک چکورکٹہرا بنا ہے جس پر ایک مختصر قبہ بنا ہے اور لوگ اسی کوجائے ولادتِ رسولِ خدا بتلاتے ہیں۔ 66

مذکورہ بالا حوالہ جات کافی و وافی ہیں جن سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ مولود النبی کا محل وقوع معلوم و معروف ہونے کے ساتھ ساتھ تواتر کے ساتھ منقول ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مؤلفین کا یہ گروہ موثوقین کا ہےاوران میں اکثرمحدثین ، فقہاء، قضاۃاورمکہ مکرمہ کے علماء ہیں جواس میں بچپن سےرہےخواہ وہ اس کے ساکنین میں سےتھےیا ان مشائخ میں سے جواس کے پڑوسی تھے، یا رہائشی تھے۔حضور اکرم کی جائےپیدائش کے متعلق ان کی حدیث نقل کے اعتبارسےمعتبرہے اوراس سےتواترعلمی اپنے اصطلاحی معنی میں واضح ہوجاتاہے اورنقول اوراقتباسات کےاضافہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ 67 البتہ اسی حوالہ سے مزید تفصیلات کا تذکرہ کتاب الاستیعاب فی أسماء الاصحاب ،68 الروض الانف ، 69 امتاع الاسماع ، 70سألنامۃ العربیۃ 71 اور معالم مکۃ التاریخیۃ والاثریۃ میں واضح موجود ہے۔72

مولد النبی ﷺآنحضرت ﷺکے عہد میں

تاریخوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺکا زمانۂ شیر خوارگی و طفولیت یعنی تقریباً چھ سال قبیلہ بنی سعد میں حضرت حلیمہ سعدیہ

کے پاس گزرا
۔ اس کے بعد دو سال آنحضرتﷺاپنے دادا حضرت عبد المطلب کے پاس رہے پھر آٹھ سال کی عمر سے جوانی تک آنحضرت ﷺاپنے چچا حضرت ابو طالب کے مکان میں سکونت پذیر رہے جس کا وقوع محلہ شعب بنی ہاشم بیان کیاجاتا ہے ۔ حضرت خدیجہ سے عقد کے بعد آپ ﷺنے انہی کے مکان74 واقع محلہ زقاق الحجر 75 میں سکونت76 اختیار فرمالی اور پچیس سال کی عمر سے ہجرت تک جب سن ِ شریف( 52) سال کا تھا آپﷺاسی مکان میں تشریف فرمارہے ۔ مذکورہ اس تمام مدت میں یعنی وقت ِ ولادت سے ہجرت تک مکانِ مولد النبیﷺکا بحیثیت زیارت گاہ کے کوئی ذکر احادیث یا تواریخ میں نہیں پایا جاتا۔ ہجرت کے بعد چار مرتبہ آنحضرتﷺکا مکہ معظمہ تشریف لانا ہوا ایک تو چھ(6ھ) میں بغرض ادائیگیِ عمرہ ،مگر کفار قریش نے آپﷺکو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا اور مقام حدیبیہ 77پر جو مکہ سے نو میل کے فاصلہ پر ہےآپﷺقیام فرماکر بلا عمرہ واپس 78 ہوگئے ۔ دوسری مرتبہ سات( 7 ھ) میں بغرض ادائیگئِ عمرۂ قضا 79 تشریف لائے اور صرف تین دن مکہ میں قیام فرمایا مگر اس دفعہ بھی کسی مکان میں قیام کرنے کا پتہ نہیں چلتا۔ تیسری مرتبہ آٹھ( 8 ھ) میں بحیثیت "فاتحِ مکہ" آپﷺتشریف لائے مگر اس موقع پر بھی مکہ کے کسی مکان میں قیام نہ کیا8081 چنانچہ اس بارے میں فاضل ازرقی لکھتے ہیں :

  أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بعد ما سكن المدينة كان لا يدخل بيوت مكة. 82
  ہجرت کے بعد آنحضرت ﷺنے مکہ کے گھروں میں داخل ہونا ترک فرمادیا تھا۔

قیام نہ کرنےکی وجہ یہی تھی کہ آپﷺکا مکانِ ولادت حضرت عقیل بن ابی طالب کے قبضہ میں آگیا تھا۔

مولد النبیﷺکی ملکیت کی منتقلی

مولد النبیﷺپر ہجرت کے بعد حضرت عقیل بن ابی طالب نے قبضہ کرلیا تھا جس کو اکثرمؤرخین اور اصحابِ سیر نے تحریر فرمایاہے۔تاہم ابن اثیر اندلسی نے اس کے بارے میں ایک اوررائے بھی قلمبند فرمائی ہےچنانچہ اس حوالہ سے ابن ِ اثیر اندلسی تحریر فرماتے ہیں:

  قيل: ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وهبھا عقيل بن أبي طالب فلم تزل في يده حتى توفي.83
  یہ بھی کہا گیا ہے کہ بے شک رسول اللہﷺنے یہ گھر حضرت عقیل بن ابی طالب کو تحفہ میں عنایت فرمایا تھا تو وہ ان کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔

اس عبارت کو شیخ محدث عبد اللہ غازی نے بھی نقل کیاہے۔84 اسی حوالہ سے امام دیار بکری تحریر فرماتے ہیں:

  وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ورث تلك الدار فوهبھا لعقيل بن أبى طالب زمن الهجرة. 85
  اس گھر کے وارث رسول اللہ ﷺتھے پھر آپﷺنے اس کو حضرت عقیل بن ابی طالب کو ہجرت کے دوران تحفہ کے طور پر عنایت فرمادیا تھا۔

اسی طرح اس بات کو بھی اکثرمؤرخین اور اصحابِ سیرنے تحریر فرمایا ہے کہ اس گھر کو محمد بن یوسف نے حضرت عقیل بن ابی طالب کی اولاد میں سے کسی ایک سے خریدا تھا۔86تاہم اس حوالہ سے شیخ محمد بن احمد مکی نے ایک اور قول بھی ذکر فرمایا ہےچنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  وقیل ان عقیلا باعھا بعد الھجرة تبعا لقریش حین باعوا دور المھاجرین. 87
  یہ بھی کہا گیا ہے بلا شبہ حضرت عقیل نے س مکان کو ہجرت کے بعد قریش کی تابعداری کرتے ہوئے اس وقت بیچ دیا تھا جب انہوں نے مہاجرین کے گھر بیچے تھے۔

مذکورہ بالا عبارت کو شیخ محدث عبد اللہ الغازی نے بھی اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے۔88 اس حوالہ سےاما م دیار بکری تحریر فرماتے ہیں:

  وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ورث تلك الدار فوهبھا لعقيل بن أبى طالب زمن الهجرة فلم تزل فى يد عقيل حتى توفى وبعد وفاته باعها أولاده من محمد ابن يوسف الثقفى أخى الحجاج بن يوسف وأدخل ذلك البيت أى مولد النبىّ صلى اللّٰه عليه وسلم فى داره التى يقال لها البيضاء.89
  یہ مکان وراثت میں حضورﷺکو ملا تھا پھر آپﷺنے زمانہ ہجرت میں حضرت عقیل بن ابی طالب کو ہبہ فرما دیا۔ چنانچہ یہ مکان حضرت عقیل بن ابی طالب اور ان کی اولاد کی ملکیت اور قبضہ تولیت میں رہا۔بعد ازاں ان سے حجاج کے بھائی محمد بن یوسف الثقفی نے ایک لاکھ دینار کے ہدیہ سے خرید لیا اور اس جگہ کو اپنے مکان میں شامل کرلیا جسے"البیضاء" (سفید عمارت) کہا جاتاتھا۔ اسے عرصہ دراز تک " دارابن یوسف" بھی کہا جاتا رہا۔

اسی حوالہ سے ایک حدیثِ مبارکہ کتب ِ احادیث میں بھی منقول ہوئی ہے چنانچہ اس کو روایت کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل نقل فرماتے ہیں:

  عن اسامة بن زید أنه قال: يا رسول اللّٰه، أين تنزل غدا إن شاء اللّٰه؟ وذلك زمن الفتح، فقال: " هل ترك لنا عقيل من منزل؟" .90
  حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر آپﷺسے عرض کی کہ آپﷺکل کہاں نزول اجلال فرمائیں گے ان شاء اللہ!تو آپﷺنےارشاد فرما یا:کیا عقیل (بن ابی طالب ) نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا بھی ہے؟

اسی طرح یہ حدیث باہم متغیر الفاظ کے ساتھ شرح مشکل الآثار، 91المسند المستخرج، 92مرقاۃ المفاتیح 93اورکتاب الشافی میں بھی منقول ہوئی ہے۔ 94

جبکہ سنن نسائی میں" من منزل " کے بجائے" من رباع او دور"کے الفاظ ہیں جن کا معنی رہنے کی جگہ یا گھر"کے ہیں۔95 اس کی مزید تفصیل درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہےجسےابو داؤد نے نقل کیا ہےکہ حضرت اسامہ بن زید کے سوا ل کے جواب میں آپﷺنے اس طرح ارشاد فرمایا :

  ثم قال: نحن نازلون بخيف بني كنانة، حيث قاسمت قريش على الكفر. 96
  پھر آپ ﷺنے جوابا ارشاد فرمایا: ہم بنو کنانہ کی وادی میں پڑاؤ کریں گے جس طرح کفر کی حالت میں قریش نے اسی قسم کی تقسیم کی تھی۔

ازرقی نے حدیث ذیل نقل کی ہے جس سے ظاہر ہے کہ فتح مکہ کے وقت آنحضرت ﷺمقام حجون 97 میں تشریف فرما ہوئے تھےچنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  قيل للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الفتح: ألا تنزل منزلك بالشعب؟ قال:"وهل ترك لنا عقيل منزلا؟" قال وكان عقيل بن أبي طالب قد باع منزل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ومنازل إخوته من الرجال والنساء بمكة حين هاجروا، ومنزل كل من هاجر من بني هاشم، فقيل لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فانزل في بعض بيوت مكة في غير منزلك فأبى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وقال:"لا أدخل البيوت" فلم يزل مضطربا بالحجون لم يدخل بيتا، وكان يأتى المسجد من الحجون. 98
  یوم فتح لوگوں نے آنحضرت ﷺسے عرض کیا کہ آپ ﷺاپنے مکان واقع شعب میں قیام فرمائیں گے ؟ آپ ﷺنے فرمایا عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا بھی ہے؟کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی ہجرت کے بعد حضرت عقیل بن ابی طالب نے آنحضرت ﷺکا مکان اور اپنے بھائی بندوں کے مکانات اور بنی ہاشم میں سے جن جن لوگوں نے ہجرت کی ان سب کے گھر فروخت کردیے تھے، پھر اصحاب نے عرض کیا کہ آپ ﷺکے مکان کے سوا مکہ کے دوسرے مکان موجود ہیں ان میں قیام فرمائیے ۔ آنحضرتﷺنے انکار فرمادیا اور آپﷺ مقام حجون میں ٹھہرے اور کسی مکان میں نہیں بلکہ اسی میں ڈیرے ڈال کر مقیم ہوئے ۔ اور حجون سے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تھے۔

ایک اور حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے دن آنحضرتﷺحجون میں ٹھہرے تھے اور ہر نماز کو ادا کرنے کے لیے وہاں سے تشریف لاتے تھے۔ 99چوتھی مرتبہ 10 ھ میں آنحضرت ﷺحجۃ الوداع100 میں مکہ معظمہ تشریف لائے تھے۔ اس دفعہ بھی مکہ معظمہ میں آپ ﷺنہ اپنے مکان میں ٹھہرے اور نہ کسی اور کے مکان میں ۔101 اس مرتبہ کے قیام کی نسبت ایک حدیث اسامہ بن زید سے وارد ہوئی ہے :

  عن أسامة بن زيد، قال: قلت: يا رسول اللّٰه، أين منزلك غدا؟ قال: وذلك في حجته قال: وهل ترك لنا عقيل منزلاً؟ قال: ونحن نازلون غدا إن شاء اللّٰه بخيف بني كنانة(يعني المحصب). 102
  اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حج کے موقع پر میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺکل آپ کس جگہ قیام فرمائینگے؟ آپ نے فرمایا: عقیل نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا بھی ہے؟ ان شاء اللہ کل ہم خیف بنی کنانہ (یعنی محصب) میں قیام کرینگے۔

مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہے کہ ہجرت کے بعد سے وقتِ وفات تک مکانِ مولد النبیﷺسے آنحضرتﷺکو کوئی خصوصیت یا کوئی تعلق کسی قسم کا باقی نہیں رہا تھا 103 اور آپﷺجب بھی ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مختلف مقامات پر قیام فرمایا۔

مولد النبیﷺخلفائے راشدین کے زمانہ میں

حضرت ابو بکر کے سوا دو(2.25)سالہ دورِ خلافت میں مذہبی عمارات ( مسجد الحرام و مسجد نبویﷺ) کی تعمیر واصلاح تقریباً نہیں ہوئی، ایسی حالت میں مولد النبیﷺکی تعمیر و ترمیم کا کوئی موقع نہ تھا۔ حضرت عمر کے ساڑھے دس(½.10)سالہ زمانۂ خلافت میں حجرہ شریف کی تعمیرہوئی جس میں آنحضرت ﷺمدفون ہیں چنانچہ (17ھ) میں حضرت عمر نےمسجد نبوی ﷺکی توسیع فرمائی اور حجرہ شریف کی دیواروں کو کچی اینٹوں سے بنوایا جس میں آنحضرتﷺمدفون ہیں ۔مسجد الحرام کی بھی توسیع ہوئی 104 اور مکہ مدینے میں بعض اور عمارتیں بھی بنائی گئیں مگر اب بھی مولد النبیﷺپر کوئی عمارت تعمیر نہیں ہوئی ۔ حضرت عثمان کا عہد خلافت جو بارہ (12)برس پر محیط ہے اگرچہ توسیعِ مسجد نبوی و توسیعِ مسجد الحرام کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کی تعمیر بڑے پیمانےپر ہوئی ، جو ربیع الاوّل انتیس( 29ھ) سے شروع ہوکر محرم تیس(30ھ) میں ختم ہوئی مگر مولد النبیﷺکی تعمیر و ترمیم و تحفظ کی جانب یہ بھی متوجہ نہ ہوئے ۔ حضرت علی المرتضیٰ کی خلافت کا پر آشوب105 زمانہ بھی یوں ہی گزرگیا۔ 106

مولد النبی ﷺزمانۂ بنی امیہ میں

خلافتِ راشدہ کے بعداکتالیس(41ھ) سے ساٹھ(60ھ) تک بیت الحرام میں سب سے پہلا ممبر رکھا گیا،غلاف کعبہ کا بھی انتظام ہوا مگر مکانِ مولد النبیﷺمعلوم نہیں کس حالت میں رہا۔ حضرت عبد اللہ ابن زبیر نے اپنی نو سال کی خلافت میں کعبہ از سرِ نو تعمیر107 کیا۔ تیارئِ کعبہ کی خوشی میں بڑی دھوم دھام سے عمرہ کیا جس کی یادگار میں اب تک ہر سال ماہ رجب میں اہل مکہ تزک و احتشام کے ساتھ رسم عمرہ بجا لاتے ہیں مگر اس وقت بھی مولد النبی ﷺکی تعمیر کی طرف نشاندہی نہیں ہوتی۔عبد الملک بن مروان جس کا زمانہ پیسنٹھ(65ھ) سے پچیاسی(85ھ) تک تھا ،اس عرصہ میں اس نے حضرت عبد اللہ بن زبیر کے بنائے ہوئے کعبے کو منہدم کرکے حجاج بن یوسف کے زیرِ اہتمام نیا کعبہ تعمیر کروایا،سنگ ِ مرمر کے ستونوں پر طلائی کاکام کیا گیا مگرمولد النبیﷺکی عمارت میں کوئی خوشنمائی پیدا نہیں کی گئی ۔ ولید108 بن عبد الملک کے زمانے میں مسجدِ نبوی کی تعمیر بڑے وسیع پیمانے پر کی گئی،روم سے عیسائی بلوائے گئے ، جس مقام پر آفتابِِ رسالت غروب ہوا اسکی زیبائش و آرائش ہوئی مگر جس برج سے اس آفتاب نے طلوع فرمایا تھا اس طرف نظر نہیں ڈالی گئی ۔

مولد النبیﷺزمانۂ عباسیہ میں

خاندانِ عباسیہ کا دوسرا خلیفہ ابو جعفر جس کا زمانہ ایک سو بتیس(132ھ)تا ایک سو چھتیس(136ھ)تک تھا،اس عرصہ میں اس نے حرمِ کعبہ کی ترمیم و تعمیر کروائی، حرم کی عمارتوں میں اضافہ کیا مگر مولد النبی ﷺکو اس درجے پر نہیں پہنچا یا گیا کہ وہ زائرین کو اپنی طرف کھینچے ۔ اس کے بعد خلیفہ مہدی کا زمانہ آیا،اس نے حج کیااور کعبے کی طرف توجہ دی ، حرمِ بیت اللہ میں توسیع کراوائی، حرم کے دروازے بنوائے ، منارے قائم کیےگئےمگر مولد النبیﷺہنوزسابقہ حالت میں رہا ۔

ملکہ خیز ران اور مولد النبیﷺکی تعمیر

ہارون الرشید جس کا زمانہ ایک سو ستر(170ھ) تا ایک سو ترانوے(193ھ) ہے،اس کی ماں ملکہ خیزران109 بھی بڑی نیک ، بافیض اور مخیر بی بی تھی۔ اس کو حضور ﷺسے زبردست عقیدت تھی اوراس نے روضہ شریف کے لیے غلاف بھی بھیجا تھا۔ایک سو ا کتہر (171ھ)میں یہ حج کو آئی تھی تومدینے میں روضہ شریف کی اس نے بڑی تعظیم و حرمت کی ، حجرہ شریف کی دیواروں سے عطر ملنے کی رسم اسی کی ایجاد ہے۔110 مکہ میں بھی اس ملکہ نے مکانِ مولد النبیﷺکے ساتھ اظہارِ عقیدت کیا جو ہمیشہ یادگار رہےگا۔ 111

جیساکہ پہلے وضاحت کی گئی ہےکہ یہ مکان آنحضرت ﷺکی ہجرت کے بعد حضرت عقیل بن ابی طالب نے اپنے قبضے میں لے لیاتھااور اُن کے کسی فرزند نے محمدبن یوسف الثقفی کے ہاتھ فروخت کردیاتھا، یہ مکان کتب تاریخ واحادیث میں دارِمحمد بن یوسف کے نام سے مشہور ہے۔ 112امام ابن دحیہ کہتے ہیں ہارون الرشید کی والدہ خیز ران جب حج کرنے کے لیے مکہ معظمہ آئیں تو انہوں نے حضورﷺکے مولد مبارک کا حصہ دار ابن یوسف سے نکال لیا اور اس پر مسجد تعمیر کردی 113چنانچہ اس میں نماز پڑھی جانے لگی۔114

مولد النبیﷺپر مسجد کی تعمیر

جب ملک ہارون الرشید کی والدہ ملکہ خیزران نے سب سے پہلے مقامِ مولد النبیﷺکی تعمیر کی طرف توجہ دیتے ہوئے مولد النبیﷺکے مخصوص حصہ کو ابن یوسف کے گھر سے علیحدہ کر کےا س پر مسجد بنائی تواس کے بعد ہارون الرشید کی اہلیہ نے یہاں مسجد تعمیر کروائی۔اسی حوالہ سے امام سہیلی بیان کرتے ہیں کہ جب زبیدہ خاتون (ہارون الرشید کی زوجہ محترمہ) مکہ معظمہ آئیں تو انہوں نے مولد النبیﷺپر از سرِ نومسجد تعمیر کروائی۔115 اس تعمیر کے حوالہ سے علامہ ازرقی اخبار مکہ میں بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  البیت الذى ولد فیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وھو فى دار محمد ابن یوسف اخى الحجاج بن یوسف كان عقیل ابن ابی طالب اخذہ حین ھاجر النبی صلى اللّٰه عليه وسلم...فلم يزل بيده وبيد ولده حتى باعه ولده من محمد بن يوسف، فأدخله في داره التي يقال لها البيضاء، وتعرف اليوم بابن يوسف، فلم يزل ذلك البيت في الدار حتى حجت الخيزران أم الخليفتين موسى وهارون، فجعلته مسجدا يصلى فيه، وأخرجته من الدار، وأشرعته في الزقاق الذي في أصل تلك الدار، يقال له زقاق المولد. 116
  وہ گھر جس میں رسول اللہﷺکی ولادت ہوئی وہ حجاج جن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کے گھر میں ہے جس کو عقیل بن ابی طالب نے اس وقت قبضہ میں لےلیا تھا جس وقت نبی کریمﷺنےہجرت فرمائی تھی۔ پس یہ حضرت عقیل کےبعدان کے بیٹے کےپاس رہا یہاں تک کہ محمد بن یوسف نے ان سےخریدلیااوراسے اپنے بیضاء نامی گھرمیں شامل کرلیاجوآج ابن یوسف کے نام سے جاناجاتاہے۔وہ مقام اس گھر میں رہا یہاں تک کہ دوخلفاء(موسی، ہارون) کی ماں خیزران جب حج کرنے آئی تو اس نے اسے مسجدبنادیا جس میں نماز پڑھی جانےلگی اوراسے گھر سے خارج کردیا اوربڑھاکر اس کوچہ سے ملادیا جواس کی اصل تھی۔اسے کوچۂ مولد کہتےہیں۔

ابو الحسن ابنِ اثیر نے مقامِ مولود النبیﷺ کی ملکیت کے حوالے سے ذکرکرنے کے بعد اس کی خرید و فروخت اور پھر اس کی تعمیر کےحوالے سےیوں تحریر فرمایا ہے:

  فباعها ولده من محمد بن يوسف أخي الحجاج، فبنى داره التي يقال لها دار ابن يوسف، وأدخل ذلك البيت في الدار، حتى أخرجته الخيزران فجعلته مسجدا يصلى فيه. 117
  پھر اس گھر کو آپ (یعنی حضرت عقیل )کے بیٹے نے حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کو بیچ دیا تھا۔پھر اس نے وہاں از سر نَو ایک گھر تعمیر کروایا جس کو دار ابن یوسف کہا جاتا ہے اور اس مولد النبیﷺکے مقام کو اس گھر میں داخل کیا یہاں تک کہ اس کو دوبارہ خیزران نے نکالا اور اس کو مسجد بنادیا جس میں نماز پڑھی جانے لگی۔

اسی طرح "نفائس الدرر" میں اس تعمیر کی تفصیل کچھ یوں مرقوم ہے:

  وكان ذلك الموضع يدعى لمحمد بن يوسف الثقفي أخي الحجاج بن يوسف، وكانت قبله بيد عقيل بن أبي طالب إلى أن توفي فباع أولاده الدار التي احتوت عليه لمحمد المذكور بمئة ألف دينار قاله الفاكهاني فأدخلها في داره وسماها البيضاء، ثم أخرجت زبيدة البيت من الدار، وجعلته مسجداً يشرع بابه في زقاق المولد، فصلى الناس فيه رجاء بركته صلى اللّٰه عليه وسلم. 118
  یہ مقام حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کےنام سے جاناجاتاتھا اوران سےقبل یہ عقیل بن ابی طالب کی مِلک تھا یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی تو ان کی اولاد نے ایک لاکھ دینار کے عوض محمدبن یوسف مذکورکے ہاتھ فروخت کردیا۔فاکہانی نے ایسا کہاہے۔پس اس نے اسےاپنےگھر میں شامل کرکے اس کا نام البیضاء رکھا۔پھر زبیدہ خاتون نے اسے گھرسے نکال کرمسجد بنادیا۔اس کا دروازہ مولدکے محلہ میں کھلتاہے۔تبرک کی نیت سے لوگوں نے اس میں نمازیں ادا کیں۔

اسی مکان ولادت کی کچھ تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے عبداللہ محمد ابکر تحریر فرماتے ہیں:

  وقد اشترتھا الخیزران زوجة المھدى العباسی ووالدة ھارون الرشید من ورثة محمد ابن یوسف الثقفى وھو اخ للحجاج اكبر منه سنا كان یسکن بمکة بشعب بنی ھاشم وكانت له دار تسمى البیضاء ملاصقة لدار عبد المطلب وھی الدار التی تزوج فیھا عبد اللّٰه بآمنة والدة الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم وفیھا كانت ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم ... وكان محمد بن یوسف اشترى ھذہ الدار من عقیل بن ابی طالب الذى تأخر اسلامه الى عام فتح مکة فباع كل الدور التی كانت ملکا لوالدہ ابی طالب وكذلک ماھو راجع لشقیق والدہ عبد اللّٰه بن عبد المطلب والد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم لذالک قال صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الفتح "وھل ترک لنا عقیل من منزل" اشترى ھذہ الدار محمد بن یوسف الثقفى وبقیت فى عقبه الى ان اشترتھا الخیزران وجعلتھا مسجدا وسمتھادار المولد ومن ذلک التاریخ الى ھذاالوقت وھی معروفة بھذ الاسم.119
  تحقیق اس مکان مولود النبیﷺکو عباسی خلیفہ مہدی کی زوجہ اور ہارون رشید کی والدہ محترمہ نے حجاج بن یوسف کے بڑے بھائی محمد بن یوسف کے کسی وارث سے خریدا تھا۔جومکہ میں شعب بنی ہاشم میں رہتے تھے اور اس کا ایک گھر بھی تھا جس کو " البیضاء" کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔یہ گھر حضرت عبد المطلب کے گھر سے متصل ہی تھا۔یہی وہ گھر ہے جس میں حضرت عبد اللہ کی شادی حضرت آمنہ رسول اللہﷺکی والدہ محترمہ سے ہوئی تھی اور اسی میں آپﷺکی ولادت ِباسعادت ہوئی تھی...اس گھر کو محمد بن یوسف نے حضرت عقیل بن ابی طالب سے خریدا تھا جن کا اسلام لانا فتح مکہ تک مؤخر رہا۔تو انہوں نے ان تمام گھروں کو جو ان کے والد حضرت ابوطالب کی ملکیت میں تھے اوراسی طرح حضرت ابو طالب کے سگے بھائی حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب جو رسول اللہﷺکے والدِ محترم ہیں ان کی ملکیت میں تھے ان سب کو بیچ دیا تھا۔اسی وجہ سے فتحِ مکہ کے دن آپﷺنے ارشاد فرمایا تھا:کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا بھی ہے؟اس گھر کو محمد بن یوسف الثقفی نے خریدا اور یہ گھر ان کے زیرِ تسلط رہا یہاں تک کہ اس کو خیزران نے خریدا اور مسجد بنادیا اوراس کا نام " دار المولد" رکھ دیا۔اس تاریخ سے اب تک یہ مقام اسی نام کے ساتھ مشہور ہے۔

اسی حوالہ سےعبد الرؤف مناوی تحریر کرتے ہیں:

  ولد صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة... فى دار كانت بيد عقيل بن أبي طالب ثم باعها ولده من أخي الحجاج ثم جعلتھا الخيزران أو زبيدة حليلة الرشيد مسجداً وهو المشهور الآن بمسجد المدكك.120
  حضور ﷺمکہ میں پیدا ہوئے ...اس گھرمیں جو عقیل بن ابی طالب کے پاس تھا۔پھر ان کے بیٹے نے حجاج بن یوسف کے بھائی کو فروخت کردیا۔ اس کے بعد خیزران یا زبیدہ ،رشید کی بیوی نے اسے مسجد بنا دیا۔وہ آج کل مسجد مدکک سے معروف ہے۔

اسی طرح متعلقہ موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے ابن حجر مکی رقمطراز ہیں:

  وهو الآن مسجد للّٰه تعالى وقفته مسجداً الخيزران أم الرشيد. 121
  وہ جگہ اب مسجدہے۔خلیفہ رشید کی ماں خیزران نے اسے فی سبیل اللہ مسجدکے لیے وقف کیا تھا۔

مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس مقامِ مولد النبیﷺکی سب سے پہلی تعمیر ام الخلیفتین خیزران نے کی کہ اس کو خرید کر مسجد بنادیا اور پھر ہارون الرشید کی اہلیہ نے از سرِ نو وہاں مسجدتعمیر کروائی۔

سلاطینِ مصر و یمن کی تعمیر ِمولدالنبیﷺ

ملکہ خیزران کے بعد بھی مقامِ مولد النبیﷺکی تعمیر و توسیع کا کام مزید بڑھتا رہا۔اس حوالہ سے متفقہ طور پر مؤرخین و اصحابِ سیر نے اس کے متعلق روشنی ڈالی ہےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ تقی الدین الفاسی تحریر فرماتے ہیں:

  وقد خفى علینا كثير من خبر عمارته والذى علمته من ذلک ان الناصر العباسی عمرہ فى سنة ست وسبعین وخمسمائة ثم الملک المظفر صاحب الیمن فى سنة ست و ستین وستمائة ثم حفیدہ المجاھد فى سنة اربعین وسبعمائة وفى سنة ثمان وخمسین وسبعمائة من قبل الامیر شیخون احد كبارالدولة بمصر وفى دولةالملک الاشرف شعبان صاحب مصر باشارة مدیر دولته یلبغا الخاصکى سنة ست وستین وسبعمائة وفى آخر سنة احدى وثمانمائة اوفى التى بعدھا من المال الذى انفذہ الظاھربرقوق صاحب مصر لعمارة المسجد الحرام وغیرہ بمکة وكانت عمارة ھذاالمولد بعد موته . 122
  تحقیق مقامِ مولد النبیﷺکی تعمیرو توسیع کی اکثر خبریں مخفی ہیں ۔مجھے ان خبروں میں سے یہ پتہ ہے کہ عباسی خلیفہ الناصر نے پانچ سو چھیتر(576ھ) میں مولد النبیﷺکی تعمیر کی تھی بعد ازاں یمن کے والی بادشاہ المظفر نےچھ سو چھیاسٹ( 666ھ )میں، پھر اس کے پوتے المجاہد نے سات سو چالیس(740ھ) میں کی۔ پھر سلطنتِ مصر کے ایک بڑے عہدیدار امیر شیخون کی طرف سےسات سو اٹھاون(758ھ) میں تعمیر ہوئی۔ پھر مصر کے شاہ الاشرف شعبان کے عہدِ حکومت میں مصری سلطنت کے گورنریلبغا الخاصکی کے ایماء پر سات سو چھیاسٹ( 766ھ )میں اس کی تعمیر ہوئی، اور آٹھ سو ایک(801ھ) کے آخر میں یا اس کے بعد مصر ہی کے شاہ الظاہر برقوق کے اس مال سے تعمیرات ہوئیں جس کو ا س نے مکہ میں مسجد الحرام اور دیگر اشیاء کی تعمیر کے لیے خرچ کرنے کے لیے مختص کیا تھا۔ اس مولد النبیﷺکی تعمیر اس کے انتقال کے بعد ہی ہوئی تھی۔

اسی حوالہ سےمزید روشنی ڈالتے ہوئے علی بن عبد القادر الطبری رقمطراز ہیں:

  وكان عمرہ الناصر العباسی ثم الاشرف شعبان صاحب مصر ثم الناصر فرج بن برقوق ثم الملک المظفر الغسانی صاحب الیمن ثم السلطان سلیمان خان...وذلک فى عام خمسة وثلاثین وتسعمائةثم عمرہ سلطان الاسلام ومرجع الخاص والعام مولانا السلطان الغازى محمد خان ابن مولانا المقدس السلطان مراد خان رحمھما اللّٰه تعالىٰ وذلک فى سنة تسع بعد الالف وكانت ھذہ العمارة على ید شخص من اكابر الدولة العثمانىة یقال له غضنفیر آغاوانفق على ذلک اموالا عظیمة ورفع جدران المحل المذكور. 123
  اس مقام ِ مولد النبیﷺکی تعمیر ناصر عباسی نے کی پھر محترم شعبان والیِ مصر نے کی پھر ناصر فرج بن برقوق نے اورپھر بادشاہ مظفر غسانی والیِ یمن نے کی۔ پھر سلطان سلیمان خان نے بھی اس کی تعمیرکی۔۔۔اور یہ تعمیر نو سو پینتیس(935ھ) میں ہوئی۔اس کے بعد اس مقام کی تعمیر سلطان الاسلام عام و خاص کے مرکز مولانا سلطان غازی محمد خان بن مولانا مکرم سلطان مراد خان نے کی۔یہ تعمیر ایک ہزار نو(1009ھ)میں ایسے شخص کے ہاتھوں ہوئی جو دولتِ عثمانیہ کے بڑوں میں سے تھےجن کو غضنفیر آغا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ انہوں نے اس تعمیر پر کافی خطیر مال خرچ کیا اور مذکورہ مقام کے احاطہ کو مزید بلند کیا۔

شیخ احمد بن محمد مکی نے بھی مذکورہ تعمیرات کی تفصیلات کو تحریر فرمایا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس کی تعمیرچند دیگرافراد نے بھی کی ہےچنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  قلت:وممن عمرہ محمد على باشا صاحب مصر حین كان والیا على مکة وذلک فى نیف وثلاثین بعد المائتین بعد الالف وممن عمر فیه السلطان عبد المجید خان وھو الان عمار. 124
  اس مقامِ مولد النبیﷺکی تعمیر کرنے والوں میں سے محمد علی پاشا والیِ مصر بھی ہیں جنہوں نے اس کی تعمیر اس وقت کراوئی تھی جب وہ مکہ کےحاکم تھےاور یہ تعمیر بارہ سو تیس(1230ھ) کےبعد والی دہائی میں ہوئی تھی۔ اسی طرح اس مقام کی تعمیر کرنے والوں میں سلطان عبد المجید خان بھی ہیں اور اب بھی وہ اس کی تعمیر میں مصروف ہیں۔

یعنی ملکہ خیزران کی تعمیر کے بعد مقام مولد النبیﷺکی تعمیر میں محفوظ و منقول روایت یہ مروی ہے کہ عباسی خلیفہ الناصر نے 576ھ میں اس مقام کی باقاعدہ تعمیر کی ۔

مولد النبیﷺپر تعمیرِ قبہ

جب ملک حجاز سلاطین آل ِ عثمان کے قبضے میں آیا تو نو سو پینتیس(935ھ) میں سلطان سلیمان خان نے مقام ولادت پر قبہ تعمیرکرایا۔ شیخ علی بن عبد القادر نے سلطان سلیمان کی تعمیرِ مولد النبیﷺکو بیان کیا ہے چنانچہ وہ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  فعمرہ قبة ومسجدا یصلى فیه وذلک فى عام خمسة وثلاثین وتسعمائة. 125
  پس سلطان سلیمان نے مولدالنبیﷺپرایک قبہ اور ایک مسجد تعمیر کی جس میں نماز پڑھی جاتی ہے اور یہ تعمیر نو سو پینتیس(935ھ) میں ہوئی۔

یہ تعمیرِ قبہّ سلطان سلیمان کی اپنی نوعیت کی منفرد کاوش تھی جس کو بعد کے لوگوں نے مزید سنہرا کر کے تعمیر میں شامل کیا اور نت نئی اشیاء کو اس تعمیر کاحصہ بنایا۔

مولد النبی ﷺپر بڑا گنبد اور مینار

سلطان سلیمان کے مولد النبیﷺپر تعمیرِ قبہ کے بعد ایک ہزار نو (1009ھ) میں سلطان محمد خان ابن سلطان مراد خان نے مولد الرسول ﷺکی تعمیر کا حکم دیا اور اس پر بڑا گنبد اور مینار تعمیر کیا گیا۔اس حوالہ سےمرآۃ الحرمین میں یوں مذکور ہے:

  وفي سنة 1009ھ أمر السلطان محمد خان ابن السلطان مراد خان بعمارة مولد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم وبنى في أعلاه قبة عظيمة ومنارة. 126
  ایک ہزار نو (1009ھ) میں سلطان محمد خان بن سلطان مراد خان نے مقامِ ولادت رسول ﷺکی عمارت بنانے کا حکم دیااوراس کے اُوپربلندمنارہ اورگنبدبنایا۔

اس حوالہ سے شیخ علی بن عبد القادر تحریر فرماتے ہیں:

  وجعل علیه قبة عظیمة ومنارة واوقف علیه وقفا بالدیار الرومیة. 127
  سلطان محمد خان نے مقامِ مولد النبیﷺپر ایک عظیم گنبد اور ایک بڑا مینارہ تعمیر کروایا اور اس کے لیے رومی شہروں سےخرچ کووقف کیا۔

اسی حوالہ سے شیخ احمد بن محمد المکی تحریر فرماتے ہیں:

  وفى شرح ابن الجمال على الایضاح قال: وعلیه الان قبة عالیة بناھا السلطان محمد خان بن السلطان مراد. 128
  ایضاح نامی کتاب پرابن جمال کی شرح میں شارح نےکہا:مقامِ مولد النبیﷺاب بھی ایک بلند و بالا گنبد شریف ہے جس کو سلطان محمد خان بن سلطان مراد نے تعمیر کروایا تھا۔

اس بات کو صاحب منائح الکرم نے بھی ذکر فرمایا ہے۔129اسی طرح ترکی محقق ابراہیم رفعت پاشا نے مذکورہ بالا بیان کی مزید تفصیلات کا تذکرہ یوں کیا ہے:

  وقد جدد القبة التي على موضع الولادة لسلطان سليمان خان سنة 935ھ... وفي سنة 1009ھ امر السلطان محمد خان ابن السلطان مراد خان بعمارة مولد الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم وبنى في أعلاه قبة عظيمة ومنارة .130
  نو سو پینتیس(935ھ )میں سلطان سلیمان خان نے مولد النبیﷺپر واقع گنبد کی از سر نو تعمیر کی...پھر ایک ہزار نو(1009ھ) میں سلطان محمد خان ابن سلطان مراد خان نے از سرنو مولد النبیﷺکی تعمیر کا حکم دیا۔ اس کے اوپر ایک بہت بڑا گنبد اور مینار بنایا گیا۔

مذکورہ تفصیلات کو صاحب منائح الکرم نے131 اورشیخ علی بن عبد القادر نے بھی اپنی کتاب میں اسی طرح ذکر کیا ہے۔ 132 ان سب کا ما حصل یہ ہے کہ مولد النبیﷺکی تعمیر چھٹی(6) صدی ہجری میں نئے اور منفرد انداز پر وقوع پذیر ہوئی اور پھر مرورِ زمانہ کے ساتھ مزید تعمیرات کا سلسلہ چل نکلا۔

مولد النبیﷺکے لیے سونے کی قندیل

چھٹی (6)صدی ہجری میں مقام مولد النبیﷺپر جو تعمیرات کا سلسلہ منفرد انداز سے شروع ہوا تھا وہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک آپہنچا کہ دسویں(10) صدی ہجری میں اس کی تعمیر میں سونے کو بھی ایک خاص انداز سے استعمال کیا گیا چنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے ابراہیم رفعت پاشا تحریر فرماتے ہیں:

  وفي سنة 963ھ أهدى هو أيضاً ثلاثة قناديل ذهباً منھا اثنان للكعبة والثالث يعلق بالمولد، وقد علقت بيد الشريف أبي نمّى.133
  نوسو تریسٹھ (963ھ)میں سلطان سلیمان نے سونے کے تین فانوس بھی ہدیہ کیے۔ جن میں سے ایک مولد النبیﷺمیں اور دو بیت اللہ شریف میں لٹکائے گئے۔ جنہیں معلّق کرنے کی سعادت میرے والد "نمی" کو حاصل ہوئی۔

ان مذکورہ بالا روایات سےواضح ہوتا ہے کہ اس مقام ِ مولد النبیﷺکی تعمیر ابتدائی ادوار میں نہیں ہوئی اور سب سے پہلے ملکہ خیزران نے اس مقام پر مسجد تعمیر کروائی اور پھر تعمیرات کا سلسلہ چل نکلا یہاں تک کے اس کی تعمیر میں دسویں صدی ہجری میں سونے کی قندیلیں بھی استعمال کی گئیں۔

مولد النبیﷺگیارہ صدی ہجری میں

سردار حسین پاشا اور ان کے ساتھ اولیاء چلپی نے گیارہویں(11) صدی ہجری میں اسی مقام ِمولد النبیﷺکی زیارت کی اور اولیاء چلپی نے اس کے مناظر ومحلّ وقوع کو اپنے ایک سفرنامہ میں بالتفصیل بیان بھی کیاہےچنانچہ ان کے سفر نامہ میں بیان کردہ معلومات و مناظر کو ان کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے شیخ ابو سلیمان تحریر فرماتے ہیں:

  قبة عالیة مغطاة بالرصأص، داخل وادى أمینة، لھا باب یطل على الناحیة الشمالیة ، یُنزل الیھا بسلالم مکونة من عشر درجات تقع وسط مکان منخفض. ھی قبة منیرة، وما أن تدخل من الباب حتی تجد حرماً مریعاً، ھو أیضاً یقع تحت القبة، وبعدہ یوجد باب آخر فى الداخل، ھوباب الأعتاب السعیدة، الباب مکشوف على الناحیة الشرقیة، والحرم مفروش بسجاد حریرى قیم،كماأنه میدان رحب، بحیث تصل رحابته الى خمسمائة خطوة، مسجد لطیف واسع، والقبة مزینة بمختلف النقوش والألوان بحیث أنھا تحاكى قبة الأفلاک، ومن میدان المحبة وحتی وسط القبة،ترى منیراً بدیعاً، وفوقه قبة منیرة. وجوانبه الأربعة مسطورة بالزخارف والدیباج...، وله باب صغیر مرصع، ومطعم بالذھب طبقة فوق طبقة، وله قفل، ومفتاح من المجوھرات من خیرات السلف الصالح من السلاطین، وبجوار ھذا المنبر المنیف، وعقب الباب سجادة حریریة مطرزة، یجلس فوقھا خدام بیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وھم الدین یقومون بفتح الباب الشریف بالمفتاح المجوھر عند قدوم الحجاج والزوار... وفى المکان الذى تشرف بنزول صاحب الرسالة من رحم الأم الطاھرة، قد وضعوا حجراً مباركا، داخل الحفرةالصفراء وقد أثر جسدہ الشریف فى ھذا الحجر وھو منخفض یتسع لجلوس رجل فى داخله جلوساً متربعاً، وعند حفر ھذا المنخفض المبارک كانت تشع من ھذا الحجر روائح الورد، والکافور، ومملوء بماء القاضى... وجمیع الخدم ینشرون من المباخر الذھبية، والفضیة الخالصةروائح المسک، والعنبر، والعود، وبحیث تتعطر رؤوس كل الزوار فى ھذه القبة المنیرةالمعطرة، وقد قام افندینا حسین باشا بنفسه باحراق العنبر الخام لمدة ساعة كاملة، وبحیث أفعمت القبة بالأدخنة الطیبة، والروائح الفواحة...وھذه القبة الطیبة مزدانة بالثریات، والنجف البدیع الصنع، والمزین بشتی انواع المجوھرات القیمة، وكذا بالقنادیل الرائعه، وكلھا توقد، وتُضاء لیلاً، وتجعل المکان كله نوراً على نور، وفى الركن الواقع على یمین ھذا المقام یوجد منبر خشبی رائع الصنع، بدیع النقش، انه منبر صغیر، ولکنه نموذٖ بدیع، وفى الجھة التی تقع على یسار ھذہ القبة یوجد محراب صغیر. وكل انسان یحرص على صلاة ركعتىن فى ھذا المحراب... ویُستحب فیه الدعاء للوالدین، وعلى الجدران الأربعة لھذہ القبة لوحات متنوعة للخطاطین المبدعین، ومحبی رسول اللّٰه، صلى اللّٰه عليه وسلم والعاشقین له...و من بین ھذہ اللوحات قصائد مدح نبوى، و (لا اله الااللّٰه محمد رسول اللّٰه)( صلى اللّٰه عليه وسلم) وقد قمت أنا العبد الحقیر أیضاً بتسطیر الاسم المحمدى علیه السلام على الطراز، والشکل القرہ حصارى، وعلى شمال ھذہ القبة، وعلى علو قامة رجلین توجد نوافذ، وبعض الناس وھم یمرون من الطریق العام ینظرون الى العتبة الشریفة من ھذہ النوافذ، ویتوجھون بالدعاء الخیر، ویحرصون على ذلک عند عبورھم، لأن ھذہ العتبة المباركة قع على الطریق العام، ولھذا المسجد منارة ذات شرفة واحدة من الأعمال القدیمة، ھوجامع شامخ ، ولکن لم یثبت أن اقیمت فیه صلاةالجمعة، لأن منبرہ صغیر، ولأنه لا یجوز، ولا یصح أن تقام صلاةالجمعة فى ھذہ المدینة المباركة الا فى المسجد الحرام فقط . 134
  سیسہ سےڈھکا ہوا بلند گنبد، وادی امینہ کے اندر واقع، جس کا ایک دروازہ شمالی رخ پرکھلتاہے،دس درجات والی سیڑھیوں کےذریعے اتراجاتاہے جونچلی جگہ کےوسط میں اترتی ہیں۔یہ روشن گنبدہے۔جیسےہی دروازہ سےداخل ہوتے ہیں چوکورحرم پاتےہیں وہ بھی اسی گنبدکےنیچےہے۔اس کےبعد ایک دروازہ اندرونی جانب ہے۔ "باب اعتاب سعیدہ" یہ دروازہ شرقی جانب کھلتاہےاورحرم قیمتی مخملی قالینوں سےسجاہواہے گویا کہ وہ استقبالیہ کا ایسا وسیع مقام ہے جس کی وسعت پانچ سو(500)قدم ہے۔مسجد کھلی اورخوبصورت ہےاورگنبد مختلف رنگوں اورنقش ونگارسےمزیّن ہے گویا کہ آسمانی گنبد سےباتیں کرتاہے۔اسی استقبالیہ کے مقا م سے گنبد کے درمیان تک ایک نئی طرز کا ممبر تمہیں نظر آئے گا جس کے اوپر روشن گنبد ہے اور جس کے چاروں اطراف کندہ کاری اور ریشم سے مزین ہیں۔۔۔اس کا ایک موتی جڑا ہواچھوٹا دروازہ ہے جو سونے سے تہ در تہ رنگا ہوا ہے ۔گزشتہ صالح سلاطین کے تحائف میں اس ممبر کا جواہرات میں سے ایک تالا اور چابی بھی شامل ہے ۔اس منفرد ممبر کے قریب اور دروازہ کے عقب میں ریشم کی مسند بچھی ہوئی ہے جس پر رسول اللہﷺکے گھر کے خادمین تشریف فرماہوتےہیں اور وہ افراد بھی تشریف فرماہوتےہیں جو حجاج اور زائرین کے آنے کے وقت اس مقام کے دروازہ کو جواہرات سے بنی چابی سے کھولتے ہیں۔۔۔وہ مقام جو صاحب رسالتﷺکے اپنی پاکباز والدۂ محترمہ کے شکم سے جلوہ گر ہونے کی وجہ سے مشرف ہوا ہے، اس میں پیلےگڑھے کے اندر ایک مبارک پتھر رکھا ہوا ہے جس پرنبی مکرمﷺکے جسدِا قدس کے نشان وقوع پذیر ہوئے۔یہ ایک گہرا گڑھا ہے جس میں ایک آدمی کے آلتی پاتی بیٹھنے کےلیے کشادگی ہے۔اس مبارک گڑھے کو کھودتے وقت اس میں سے پھول اور کافور کی خوشبو پھوٹتی تھیں اور یہ(معطر پانی) ماء القاضی سے بھرا رہتا ہے۔۔۔تمام خادمین خالص سونے اور چاندی کی بخور دانیوں سے مشک،عنبر اور عود کی خوشبوئیں اس طرح بکھیرتےہیں کہ اس منور و معطر گنبد کے تمام زائرین کے دماغ اس سے معطر ہوجاتےہیں۔اس موقع پر ہمارے سردار حسین پاشا نے مکمل ایک گھنٹہ کھڑے ہو کر بذات خود اس کو خام عنبرسے ا س طرح دھونی دی کہ سارا گنبد پاکیزہ اور اور پھوٹنے والی خوشبوؤں سے معطر ہوگیا۔۔۔یہ پاکیزہ گنبد خوبصور ت فانوسوں، نت نئے طرز کے قمقموں اور مختلف اقسام کے قیمتی جواہرات سے مزین ہے۔اسی طرح خوبصورت قندیلوں سے مزین ہے جو سب کی سب روشن رہتی ہیں اور رات بھر جلتی ہیں اور پورے گھر کو نور علی نور کردیتی ہیں۔اس مقام کے دائیں جانب واقع ستون میں ایک لکڑی کا ممبر ہے جومنفرد طرز پر، جدیدنقش و نگار سے مزین ہے ۔یہ ممبر چھوٹا ہے لیکن انمول اورجدید نمونہ پر ہے۔اس گنبد کے بائیں جانب واقع جہت میں ایک چھوٹا محراب بھی پایا جاتا ہے اور ہر انسان اس محراب میں دو رکعت نماز پڑھنے کا خواہشمند ہے۔۔۔اس میں والدین کے لیے دعا کرنا بھی مستحب ہے۔اس گنبد کے چاروں دیواروں پر ماہرینِ خطّاط کے قلم فیضِ رسا سے،رسول اللہﷺکے محبین و عاشقین کی جانب سے ہدیہ کی گئیں مختلف اقسام کی تختیاں آویزاں ہیں ۔۔۔ان تختیوں کے درمیان میں مدحتِ نبویﷺاور کلمہ طیبہ" لاالہ اللہ محمد رسول اللہ(ﷺ)" مرقوم ہے۔میں حقیر بندہ(اولیاء چلپی)بھی خوبصورتی کے ساتھ آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے والی خوبصورت شکل میں نبی کریمﷺکا اسم گرامی(سیدنا) محمد(ﷺ) لکھنے والوں میں شامل ہوا۔اس گنبد کے بائیں جانب تقریبا دو آدمیوں کے قامت جتنی اوپر کھڑکیاں پائی جاتی ہیں جن کی چوکھٹ کو بعض لوگ شارع عام پر چلتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اس طرف دعاء خیر کے لیے متوجہ اوراس شارع عام کو عبور کرتےہوئے اس کے حریص رہتے ہیں کیونکہ یہ کھڑکیوں کی چوکھٹ شارع عام کی طرف واقع ہے۔اس (مقام میں موجود)مسجد کے عظیم الشان مینارہ اب بھی قائم ہیں جو ماقبل دور کی یادگاروں میں سے ہیں اور انتہائی مضبوط ہیں لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے کہ اس میں نمازِ جمعہ قائم کیا گیا ہو کیونکہ اس کا ممبر چھوٹا ہے اور یہاں نماز جمعہ جائز بھی نہیں ہے۔اس مبارک شہر میں نمازِ جمعہ کا قیام سوائے مسجد الحرام کے کسی اور مسجد میں جائز نہیں ہے۔

مذکورہ بالا بیان میں جن تختیوں کا ذکر کیا گیا ہے اس میں مولد النبیﷺکی عمارت کی جھلک بھی دکھائی گئی ہےچنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے الدکتور ناصر بن علی تحریر فرماتے ہیں:

  ومن خلال ھذہ الوحة النادرة فقد تبینت فیھا المعالم الخارجیة للمبنی حیث یقوم على ربوة ویتکون من كتل معماریة متلاصقة الاولى مربعة الشکل تطل واجھة من واجھاتھا على ما یبدو ثلاثة شبابیک باعلى الجدار ویحیط بسطحھا سترة معمولة بالآجر الملون على الارجح فیما یعرف فى المصطلح المعمارى المکى بالشابورة الوسطى فتقدم الکتل المعماریة وھى مغطاة بقبة كبيرة یتوسط سرتھا من الخارج الى اعلى سنجق نحاسی متعدد الانبعاجات ینتھى فى راسه بھلال... وھذہ الکتلة المغطاة بقبة تمثل الموضع الذى ولد فیه الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم ویتقدم ھذہ الکتلة والکتلة السابقة بناء صغیر مغطاة بقبة صغیرة وله شباک معقود فى الواجھة الامامیة ویصعد الى ھذہ الکتلة المعماریة الثلاث من خلال عشر درجات صاعدة ثم مصطبة مستطیلة ثم ینزل منھا بواسطة درج الى ممر فى نھایته یتجه المار الى الیسار فى ممر بین الکتلتین الواقعتین جنوبًا وبین مبنی المولد ویدخل السالک الى المبنی الاخیر من باب على یسارہ... ویدخل الیه من بوابة تقع على یسار مبنی المولد معقودة بعقد منفوخ تبدو فیه التاثیرات المغربیة كما یتمیز ھذ المبنی بوجود روشن صغیر بمشربیة فى واجھته یعمتد على اربعةكرادى خشبیة ذو سطح مائل الى الامام لکى تتسرب منه میاہ الامطار علی سطح مبنی المولد ومنه الى الزقاق وھذہ اللوحة تتفق مع وصف اولیاء جلبی للمولد النبوى صلى اللّٰه عليه وسلم عند مازار مکة المکرمة فى القرن الحادى العشر الھجرى بعد عمارة السلطان محمد خان ابن السلطان مراد خان العثمانی.135
  اس نایاب تختی کے درمیان عمارت کے اردگردکےآثار اس طرح نمایاں کیےگئےہیں گویا کہ عمارت بلندٹیلےپرتعمیراتی موادکےذریعہ ٹکڑوں میں بنی ہوئی ہے۔پہلاٹکڑا چوکورشکل میں ہے اور اس کےرخوں میں سےایک رخ کی جانب ہےجودیوار میں موجود اونچی کھڑکیوں میں ظاہر ہو رہاہےاورا س کی چھت کورنگین اینٹوں سےبنے ہوئے ایک پردہ نما شئی نے گھیراہواہےجسے معماری اصطلاح میں شابورکہتے ہیں۔درمیانی ٹکڑا آگے کی جانب مائل ہےجو ایک بڑے گنبدسےڈھکا ہو اہےجس کابیچوں بیچ باہر کی طرف سےتانبےکےجھنڈے کےاوپربنےہوئےچاندپرختم ہوتاہے۔۔۔یہ ٹکڑا ایک گنبد سے ڈھانپاہواہےجومقام ولادت ﷺکوظاہر کرتاہے۔یہ اوراس سےپہلا ٹکڑاایک چھوٹے سےگنبد سےڈھکی ہوئی چھوٹی عمارت کو ظاہر کرتےہیں۔سامنے کی جانب اسکی ایک کھڑکی ہے، اس ٹکڑےکی جانب دس درجات والی سیڑھی کےذریعہ جاسکتے ہیں۔پھر ایک مستطیل مچان ہےجس کے آخر میں ایک سیڑھی کےذریعہ نیچے اتراجاتاہے۔گزرنےوالا دونوں ٹکڑوں کے درمیان جنوبی سمت اورمقام ولادت میں واقع راہداری سےبائیں سمت کومتوجہ ہوتاہےاوربائیں جانب موجود دروازہ سےآخری عمارت میں داخل ہوتاہے۔۔۔ مولد مبارک کی عمارت کے بائیں جانب معلق دروازہ سےاس میں داخل ہواجاتاہےجس پرمغربی طرزکےاثرات ظاہرہیں ۔چارلکڑیوں پرمشتمل چھوٹاپرنالہ نمااس عمارت کے سامنے اسے منفرد بناتاہے جس سےبارش کا پانی مولد مبارک کی چھت سےگلی میں گرتاہے۔یہ تختی ان تمام صفات کےموافق ہے جو اولیاء چلپی نے سلطان محمد خان بن سلطان مراد خان عثمانی کے زمانہ گیارہویں صدی میں مکہ مکرمہ کی زیارت کےبعد بیان کی تھیں۔

مقامِ مولد النبیﷺکی یہ مذکورہ حالت گیارہ(11) صدی ہجری کے نویں(9) عشرہ کے ابتداء کی تھی جس میں تعمیرو تزیین اپنے جدّتِ طرز، جاذبِ نظر اور شایان شان انداز سے وقوع پذیر ہوگئی تھی اور ا س میں مولد النبیﷺکی عمارت کی جھلک کو باقاعدہ ایک تختی میں دیکھنے کے لیے آویزاں کیا گیا تھا لیکن اس وقت تک کسی کو بھی اس مقامِ مولد النبیﷺکو تعلیمی حیثیت دینے کا خیال تک نہیں گزرا تھا اور اس مقام کو اب تک کوئی تعلیمی اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔پھر جب عثمانی سلطنت کا زمانہ آیا تو اس سلطنت نےمقامِ مولد النبیﷺکو تعلیمی اہمیت دیتے ہوئے یہاں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔

مولد النبی ﷺمیں مدرسہ اور اس کے مصارف

سلطان سلیمان نے مولد النبی ﷺکے اخراجات کے لیے علاقہ روم میں املاک وقف کی اور مؤذن ، امام و خدّام مأمور کیے جن کی تنخواہیں ہر سال روم سےآیا کرتی تھیں۔اب تک صرف اس کو ایک مسجد کی حیثیت حاصل تھی لیکن ہنوز تعلیمی سطح کا کوئی خاطر خواہ انتظام یہاں نہیں کیا گیا تھا۔ مقام مولد النبیﷺکو تعلیمی مقام دینے کی سب سے پہلی کاوش سلطنتِ عثمانیہ کے سر ہے ۔سلطان سلیمان کے بعد سلطنت ِ عثمانیہ نے یہاں ایک مدرسہ قائم کیا جس میں بچے تعلیم پاتے تھے اور اس کے مصارف بھی سرکار سے مقرر شدہ تھے ۔ چنانچہ اس حوالہ سے مرآۃ الحرمین میں یوں مذکور ہے:

  ووقف عليه وقفا بالديار الرومية ورتب له مؤذنا وخادما وإماما، وجعل لكل شيء معيّن يحمل إليه كل عام ثم جعلت له السلطنة العثمانية مدرسا يدرس فيه .136
  اس کے لیے رومی شہروں سے سالانہ آمدنی وقف کی گئی۔ یہاں ایک موذن،خادم اور امام کا تقرر کیا گیا ان میں سے ہر ایک کے لیے اعزاز یہ مقرر تھاجو ہر سال ان کی طرف بھیجا جاتا تھا۔پھر سلطنت عثمانیہ نے یہاں ایک مدرسہ قائم کیاجس میں درس وتدریس کی جاتی تھی۔

شیخ علی بن عبد القادر نے بھی مذکورہ تفصیلات کو تحریر فرمایا ہے اور مدرسہ کے حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  جعلت له السلطنة الشریفة مدرسا بمعلوم یدرس فى یومین من ایام الاسبوع بالمحل المذكور. 137
  سلطنتِ (عثمانیہ)شریفہ نے یہاں ایک مشہور مدرسہ بنادیا ہے۔ہفتہ کے سات(7) دنوں میں سے دو (2)دن مذکورہ مقام پر درس و تدریس کی جاتی ہے۔

اسی طرح مذکورہ بالا تفصیلات کا ذکر صاحبِ منائح الکرم نے بھی کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آپ تحریر فرماتے ہیں:

  وامام ذلک المحل فى زمننا ھذا مولانا السید احمد العزى ومدرسه الافندى عبد اللّٰه بن عتاقى . 138
  ہمارے زمانہ میں اس جگہ کے امام مولانا سید احمد العزی ہیں اور اس کے مدرس محترم عبد اللہ بن عتاقی ہیں۔

شیخ عبد اللہ غازی المکی نے بھی مذکورہ تمام تر تفصیلات کو بیان کیا ہےاور اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  ومدرس زماننا الشیخ عبد اللّٰه بن سالم البصرى بطریق النیابة...لان القاضى عبد اللّٰه بن عتاقى آل الیه المولدالمذكور فى حدود الثمانین بعد الالف.139
  ہمارے زمانہ میں اس مدرسہ کےنائب استاذ شیخ عبد اللہ بن سالم البصری ہیں ۔۔۔کیونکہ قاضی عبد اللہ بن عتاقی نے مذکورہ مولد النبی ﷺکو ایک ہزار اسّی(1080ھ) میں ان کے سپرد کردیا تھا ۔

اس طرح سلطنتِ عثمانیہ کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے سب سےپہلے اس مقام مولد النبیﷺکو بطورِ تعلیمی ادارہ کے لوگوں میں متعارف کروایا اور سلطنت کی طرف سے اس کے تمام تر تعلیمی اخراجات کا انتظام و انصرام کیا۔

مذکورہ تعمیرات کا خلاصہ

مذکورہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مولد النبیﷺکی تعمیر کی ابتداء ملکہ خیزران نے کی ۔جس کے بعد اس مقام کی تعمیرات کا سلسلہ جاری و سار ی رہا اور وقتاً فوقتاً مولد النبی ﷺکی تعمیر و ترمیم بعض سلاطینِ مصر و یمن وغیرہ نے بھی کرائی ہے جن کی اجمالی کیفیت یہ ہےکہ عباسی خلیفہ الناصر نےپانچ سو چھیتر (576ھ) میں مولد النبیﷺکی تعمیر کی تھی،پھرچھ سو چھیاسٹ(666ھ)میں صاحبِ یمن ملک مظفر نے مولد النبیﷺکی درستگی و تعمیر کروائی ، پھر اس کے پوتے ملک مجاہد نے سات سو چالیس(740ھ)میں ترمیم و تعمیر کروائی۔ اس کے بعد سلطنتِ مصر کے ایک بڑے عہدہ دار امیرشیخون کی جانب سےسات سو ستاسی(787ھ)میں مرمت ہوئی ۔ اس کے بعد معزز ناصر الدین شعبان بن حسین سلطان ِ مصر نے اپنے مدیر سلطنت یلبغا الخاصکی کی تحریک پر پھرسات سو چھیاسٹ(766ھ)میں درستی کرائی۔آٹھ سو ایک(801ھ) میں ملک الظاہر برقوق سلطان ِمصر نے مسجد الحرام وغیرہ کی تعمیر کے لیے کچھ روپیہ روانہ کیا تھا۔ اسی آٹھ سو ایک(801ھ) کے آخر اور آٹھ سو دو(802ھ) کے اوائل میں مولد النبیﷺکی بھی تعمیر ہوئی جس کی تکمیل سلطان مذکور کی وفات کے بعد عمل میں آئی ۔ پھر سلطان سلیمان خان نے نو سو پینتیس(935ھ)میں تعمیر کروائی۔اس کے بعد سلطان محمد خان نے ایک ہزار نو(1009ھ) میں سلطنتِ عثمانیہ کے بڑے غضنفر آغا نامی شخص کے ذریعہ تعمیرات کراوئی۔اس کے بعد بارہ سو تیس(1230ھ) میں محمد علی پاشا والئِ مصر نے اس کی تعمیر کراوئی اور ا س کے بعد سلطان عبد المجید خان نے اس کی تعمیر کروائی۔اسی مقامِ مولد النبیﷺپر دسویں(10) صدی ہجری میں ایک بڑا گنبد تعمیر ہوا اورپھر یہاں دولتِ عثمانیہ نے ایک مدرسہ قائم کیالیکن ا ن تعمیری سلسلوں کا تسلسل بالآخر ٹوٹ جاتا ہے اور امت کی بارہ (12)سو سالہ تاریخ میں پہلی بار مقامِ مولد النبیﷺکو یہ کہ کر منہدم کردیا گیا کہ اس کی کوئی حیثیت اسلام و تاریخ ِ اسلام میں نہیں ہے۔140

مولد النبیﷺکا پہلا انہدام و تعمیر

جب اہل نجد نے بسر کردگئِ امیر سعود بن عبد العزیز بارہ سو اٹھارہ (1218ھ) میں مکہ معظمہ فتح کیا تو اس وقت انہوں نے بعض دوسری زیارت گاہوں کے ساتھ عمارتِ مولد النبی ﷺکو بھی منہدم کردیا۔ اس کے بعد جب ترکوں نے ان سے حجاز واپس لے لیا تو مولد النبی ﷺکی عمارت بھی مثلِ سابق بنوادی ۔ حجاز کا مشہور فرنگی سیاح جے-ایل- بر کہا رٹ (J.L. Burckhardt)141اٹھارہ سو چودہ(1814ء)میں مکہ معظمہ گیا ہوا تھا اس وقت یہ لوگ مکہ معظمہ پر قابض ہوچکے تھے اس زمانے میں مولد النبیﷺکی حالت کی بابت وہ لکھتا ہے:

  میرے قیام کے زمانے میں کاریگر بڑی پھرتی سے اس عمارت کے بنانے میں جو مولد پر بنی ہوئی تھی مصروف تھے اور اسی شکل میں بنارہے تھے جیسی پہلے تھی۔142 اس میں ایک جنگلا ہے جو گلی کی سطح سے پچیس فٹ نیچا ہے اس میں اترنے کے لیے سیڑھیاں بنی ہیں ۔ یہاں ایک ذرا سی جگہ دکھلائی گئی ہے جہاں آنحضرت ﷺتولد ہوئے تھے ۔ 143

مولد النبیﷺچودہویں صدی میں

چودہویں(14) صدی ہجری کے سیاحان ِ حجاز نے مولد النبیﷺکی جو کیفیت اپنے سفر ناموں میں تحریر کی ہے اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مقام مولد النبیﷺپہلی مرتبہ انہدام کے بعد مثلِ سابق دوبارہ تعمیر کردیا گیا تھاچنانچہ اس بات کو ذکر کرتے ہوئے صاحبِ رحلۃ الحجازیۃ اس طرح تحریر فرماتےہیں:

  وهو مكان قد ارتفع الطريق عنه نحو متر ونصف، وينزل إليه بواسطة درجات من الحجر توصل إلى باب يفتح إلى الشمال يدخل منه إلى فناء يبلغ طوله نحو اثني عشر متراً في عرض ستة أمتار، وفي جدار الأيمن(الغربي)باب يدخل منه إلى قبة في وسطها (يميل إلى الحائط الغربي) مقصورة من الخشب، داخلها رخامة قد يقعر جوفها لتعيين مولد السيد الرسول عليه الصلاة والسلام وهذه القبة والفناء الذي خارجها لا يزيد مسطحهما عن ثمانين متراً مربعاً، وهما يكوّنان الدار التي ولد فيھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.144
  مقامِ مولد النبیﷺسےسڑک دو گز اونچی واقع ہے، پتھر کی سیڑھیوں کے ذریعہ سے اتر کر ایک دروازے پر پہنچتے ہیں جو شمالی جانب ہے ،اس میں ہوکر صحن میں داخل ہوتے ہیں ۔ یہ بارہ (12) گز لمبا اور کوئی چھ(6) گز چوڑا ہے۔صحن کے دائیں جانب دیوار غربی میں ایک دروازہ ہے اس میں سے ہوکر ایک قبے میں پہنچتے ہیں۔ اس قبے کے اندر بیچ میں سنگِ مرمر کا چوکا بچھا ہوا ہے جس کے بیچ میں گہرائی سی کردی ہے اسی کو آنحضرت ﷺکی ولادت گاہ بیان کیا جاتا ہے۔ صحن اور قبّہ دونوں مل کر مکان ِ ولادتِ رسول ﷺکو مکمل کرتےہیں اور ان کی وسعت اسّی(80)مربّع میٹر زیادہ نہیں ہوگی۔

اسی طرح خان بہادر حاجی عبد الرحیم جنہوں نےتیرہ انتیس(1329ھ)میں مکہ مکرمہ کا سفر کیا ہےانہوں نے بھی مولد النبیﷺکی ہیئت کو بیان کیا ہےچنانچہ ان کے سفرنامہ" سفر حرمین الشریفین" کے حوالہ سے تفصیلات کو بیان کرتےہوئے علی شبیر لکھتے ہیں:

  یہاں ایک بڑا قبہ بنا ہوا ہے جو اس وقت زیر مرمت تھا۔ امید ہے کہ بعد اختتامِ حج قبہ مبارک از سرِ نو مرمت کیا جائیگا۔ قبہ کے درمیان ایک چوگوشیہ کٹہرا بنا ہے جس پر ایک مختصر قبہ بنا ہے اور اسی کو جائے ولادتِ رسولِ خداﷺبتایا جاتا ہے۔ یہاں ایک استنبولی قالین بچھا ہے گو کہ بہت پرانا ہے تاہم حالت اچھی ہے اور مرمت ہوجانے کے بعد قبہ بھی بہت عمدہ ہوگا۔ جہاں آپﷺکی ولادت ہوئی اس جگہ ایک سبز غلاف پڑا ہوا ہے اور اس پر آیتِ ذیل زردوزی حروف میں کشیدہ ہے:145
  لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْه مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ128 146
  بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔

یعنی نبی مکرمﷺکہ جائے ولادت کو ایک مخصوص طریقہ سے سبز کپڑے میں لپیٹا گیا ہے تاکہ اس عینِ مقامِ مولد کی نشاندہی ہوسکے۔

مولد النبی ﷺکا دوسری مرتبہ انہدام

تیرہ سو تینتالیس(1343ھ) میں وہابیوں نے سلطان عبد العزیز ابن عبد الرحمن آلِ فیصل ابن سعود کی زیرِ قیادت جب حجاز پر قبضہ کیا تو حسبِ سابق انہوں نے بعض دوسری زیارت گاہوں کے ساتھ مولد النبیﷺکو بھی منہدم کردیا۔ وفدِ مجلِس خلافت انیس سو چھبیس(1926ء) کی دستاویز سے یہ واضح ہے کہ ابتدا ًمکان مولد النبیﷺکا وہ حصہ جو ولادت گاہ تصور کیا جاتا تھا ، جس کا قبہ ڈھایا گیا تھا اور جو حصہ بطور مسجد استعمال ہوتا تھا، وہ محفوظ تھا ۔ اس کے بعد تیرہ سو چوالیس(1344ھ)میں وہابی علما ءکے فتوے پر یہ حصہ بھی منہدم کردیا گیا۔ تیرہ سو پینتالیس(1345ھ)میں جب صاحبِ سفرنامہ " سفرحرمین شریفین "حج سے مشرف ہوئے تو انہوں نےاس مقام کو معمولی زمین دیکھا تھااور اس وقت مولد کا کوئی نشان باقی نہ تھا۔ 147

مولد النبیﷺپر مکتبۂ مکہ مکرمہ بنانے کی اجازت

شیخ ابو سلیمان نے مولد النبیﷺکی قدیم و جدید تاریخ رقم فرمائی ہےجس میں انہوں نے اس کے مولد النبیﷺہونے پر کافی تحقیق فرمائی ہے اور یہ واضح و ثابت کردیاہے کہ جو مقام لوگوں کے درمیان رسول اکرمﷺکی جائے ولادت معروف و مشہور ہے ، فی الحقیقت اور فی الواقع بھی اسی طرح ہے۔انہی دلائل میں سے بطورِ دلیل انہوں نے سعودی عدالتِ عظمی کا ایک فیصلہ نقل کیا ہےجس میں مولد النبیﷺپر مکتبۂ مکہ مکرمہ بنانے کی اجازت مانگی گئی ہےچنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  ومن النماذج التی تؤكد التواتر المحلى فى الوقت الحاضر توثیق المحکمة الشرعیة الکبرٰى بمکة المکرمة لھذا المکان الشریف توثیقا شرعیا بالصک رقم 140 بالمجلد الرابع تاریخ 25 جمادى الاٰخر1373 ھ/1 فبرایر1954 فیما یخص المولد النبوى الشریف لدى رئیس المحکمة الشرعیة الکبرٰى انذاک فضیلة الشیخ عبد اللّٰه بن عمر بن دھیش رحمه اللّٰه تعالىٰ وصدق الصک من قبل رئاسة القضاة. لدى أنا عبداللّٰه بن عمر بن دھیش، رئیس المحکمة الشرعیة الکبرى بمکة المکرمة حضر أمین بن الشیخ عباس قطان الوكيل عن عمته المصونة فاطمة بنت یوسف قطان بموجب صک التوكيل الصادر من كاتب عدل مکة برقم 192 فى 23/2/1371ھ المخول له ذلک. وقرر على طریق الانھاء قائلاً: ان موكلتى الامذكورة كانت تقدمت بطلب من الحکومة السنیة السماح لھا بانشاء مکتبة بالموضع المعروف بمولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم بشعب على بمحلة سوق اللیل. الشھیر فى محله شھرة تامة تغنی عنع تحدیدہ ووصفه، وبعد الاجراءات الرسمیة صدر قرار الرئاسة برقم 525/23 فى 14/4/1370ھ بالموافقة على الطلب المذكور: لأنه عمل خیرى، على أن یجرى تسجیل الوقضیة بالمحکمة الکبرى عند تمام النباء، وأن یکون مکتبة عمومیة موقوفة بجمیع أبنیتھا، ومحتویاتھا لجمیع المسلمین، وقد حاز القرار المذكور موافقة صاحب السمو الملکى نائب جلالة الملک المعظم المبلغ الى أمانة العاصمة برقم 3068 وتاریخ 11/5/1370ھ، وصورة من ذلک الى مقام رئاسة القضاء... وقد اشترطت بوقفتیھا شروطاً، منھا: أنھا لا تؤجر الدار المذكورة، ولا تباع، ولا توھب، ولا یستبدل بھا، بل تبقى قائمة على أصولھا. كماأنھا اشترطت أن الکتب التی فیھا لا تخرج عنھا، وشرطت عدم الاستغلال حاضراً، ومستقبلاً اذا اندثر البناء فى غیر ما منح من أجله، ولا من ورثته، ولا أى أحد، فعلى مقتضى البینیة المعدلة حسب الأصول، ثبت لدى أن فاطمة بنت یوسف قطان أنشأت بمالھا المبانی المذكورة بعالیه، فقد أجزت الوقفیة المذكورة على الشروط المذكورة، وأمضیته، وأمرت بتنظیم صک بھا تحریراً فى الیوم الخامس والعشرین من شھر جمادى الثانیة، عام الثالث والسبعین بعد الثلاثمائة والألف من ھجرة من له العز والشرف، صلى اللّٰه عليه وسلم لابد من وقفات عند ھذا الصک الأولى: ھذا الصک یثبت التواتر المحلى لھذا المکان المأثور: حیث أقر القاضى الشیخ عبداللّٰه بن دھیش رحمه اللّٰه تعالى تحدید وصف المکان فى صک الوقفیة، بأنه: " المعروف بمولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم بشعب على بمحلة سوق اللیل. الشھیر فى محله شھرة تامة تغنی عن تحدیدہ ووصفه" دون احضار شھود بذلک.الثانیة: أقدم جلالة الملک عبدالعزیز رحمه اللّٰه تعالى على الخطوة المباركة باقامة مکتبة علمیة عامة لھذا المکان المبارک بعد استشارة كبار العلماء، وھو ما سجله له التاریخ توثیقاً، وحقیقة قائمة، وسیأتی نقل نصوص بعض علماء السلف فى العصر الحاضر.الثالثة: أن قرار المحکمة حاز موافقة صاحب السمو الملکى نائب جلالة الملک المعظم المبلغ الى أمانة العاصمة الرابعة: ھذہ العبارة الصادقة "الشھیر فى محله شھرة تامة تغنی عن تحدیدہ ووصفه" تقبلھاالحاكم الشرعى، فھى تثبت شرعاً التواتر المحلى، بتوارث ھذا النقل جیلاً بعدجیل.كثىر من ھذہ الاماكن المأثورة ظل ظاھراً مشاھداً حتی الربع الأخیر من القرن الرابع عشر الھجرى، قبل أن تمتد ید التطویر والتوسعة الى الحرم الشریف، كثىر من معالم مکة المکرمة ظل باقیاً كحاله فى القرون الأولى، وقد شاھد ھذا الجیل المخضرم من أبناء مکة المکرمة والعالم الاسلامى الذین حضروا مکة المکرمة فى تلک الفترة قبل عام375 ھ .شهدوا كثيراً من المعالم المعرانیة : ولمشاعر الدینیة كما كان یتحدث عنھا المؤرخون المکیون السابقون فى القرون الاسلامیة الأولى.ھکذا یتضح جلیًا من خلال تطابق التواترین: العلمى والمحلى أن مکتبة مکة المکرمة فى مکانھا الحالى ھو المکان الذى ولد فیه أشرف الخلق سیدنا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.148
  موجودہ دورمیں جومثالیں تواترِمحلی کی تاکیدکرتی ہیں ان میں سے ایک مکہ مکرمہ میں محکمۂ شرعی عدالتِ عظمیٰ کی اس مکانِ مبارک کی شرعی توثیق کرنا ہےجو پچیس(25) جمادی الآخر تیرہ سو تہتر(1373ھ) بمطابق یکم (1)فرور انیس سو چوّن (1954ء)دستاویز نمبر ایک سو چالیس(140)کی چوتھی جلد میں ہے۔جس میں شرعی عدالتِ عظمیٰ کےاس وقت کے چیف جسٹس شیخ عبد اللہ بن عمربن دھیش مقام ولادت نبوی شریف کومخصوص کرتےہیں اوردستاویزکی تصدیق مجلس قضاۃ کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔(پھر ڈاکٹر عبد الوہاب نے اس دستاویز کی عبارت یوں نقل کی ہے)میں عبد اللہ بن عمر بن دھیش جومکہ مکرمہ کی شرعی عدالتِ عظمی کا قاضی القضاۃ(چیف جسٹس) ہے،میرےپاس مؤرخہ 23/02/1371ھ میں دستاویزنمبر ایک سو بانوے(192) جوکاتبِ عدالتِ مکہ سے جاری ہوا،اس کےتحت وکیل کی حیثیت سے امین بن شیخ عباس قطان اپنی پھوپھی فاطمہ بنت یوسف قطان کی جانب سےحاضرہوئے۔انہوں نے اختصارکرتےہوئے کہا: میری مؤکلہ مذکورہ نےحکومت عالیہ کو درخواست پیش کی کہ انہیں شعب علی، محلہ سوق اللیل میں موجود مولد النبیﷺ(مقام ولادت) کی معروف ومشہورجگہ جوکسی وصف یا احاطہ کرنے کی محتاج نہیں ہے ،اس پرمکتبہ(لائبریری) قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔قانونی کارروائیوں کے اجراء کےبعدحکومت نےمؤرخہ14/04/1370ھ میں دستاویزنمبر 23/525میں درخواست پراجازت نامہ صادرکردیا، کیونکہ یہ عملِ خیرہے ۔ عمارت کی تعمیر مکمل ہونے پرعدالتِ عظمی میں وقف کا اندراج ہوگا۔مکتبہ اپنے تمام مشتملات کے ساتھ تمام مسلمانوں کے لیے عام اوروقف ہوگا۔مذکورہ حکم نامہ کو بادشاہ عالی مقام کےنائب، دار الحکومت کےادارہ امانات میں دستاویز نمبر تین ہزار ارسٹھ(3068) کی حیثیت میں،مؤرخہ 11/05/1370ھ اجازت مل چکی ہےجس کاایک نسخہ عدالتِ عظمی کوبھیج دیا گیا ہے۔۔۔اس کےوقف ہونےمیں، میں نےچندشرائط رکھی ہیں جن میں ہےکہ مذکورہ گھر نہ کرایہ پردیاجائیگا،نہ فروخت کیاجائیگا،نہ ہبہ کیاجائیگا اورنہ تبدیل کیاجائے گابلکہ اپنی اصلی حالت پرقائم رہےگا۔اسی طرح شرط ہےکہ جوکتب اس میں ہیں وہ اس سےنکالی نہ جائیں گی۔یہ بھی شرط رکھی گئی ہےکہ حال اوراستقبال میں عمارت اگر خستہ حال ہوجائےتو اسے اس کے مقصد کےعلاوہ کسی مقصد کے لیے استعمال نہ کیاجائےگا۔نہ اس کےورثاءکی جانب سے اورنہ کسی اورکی جانب سے۔پس اصول کے مطابق اتفاقیات سےمیرےنزدیک ثابت ہواکہ فاطمہ بن یوسف قطان نے اپنے مال سے مذکورہ عمارت کو اس کی منزلوں سمیت تعمیرکروایاہے۔پس میں نے مذکورہ شرائط کےساتھ مذکورہ وقف عمارت کی اجازت دی ہےاوردستخط کردیےہیں اور مؤرخہ پچیس (25) جمادی الثانی تیرہ سو تہتر(1373ھ)کو اس کےتحریری دستاویز کا حکم دیاہےجوباعث عزت وافتخارہے ۔(اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الوہاب فرماتے ہیں)اوّلاًیہ دستاویز اس مقام مقدس کےلیےتواتر محلی کو ثابت کرتاہے۔ جیسا کہ قاضی القضاۃ شیخ عبد اللہ بن دھیش نے اس کاتعیّن اوروصف بیان کیا۔انہوں نے کہاکہ: یہ مقام جائےولادتِ رسولﷺکے نام سے شعب علی میں سوق اللیل محلہ میں مشہورومعروف ہےکہ گواہوں کےبغیر ہی اس کاتعیّن وتمیّز شہرت کا حامل ہے۔ثانیاً:بادشاہ عالی مرتبت جناب عبد العزیز صاحب نے بزرگ علماء سے مشاورت کے بعد اس مقدس مقام پرعلمی کتب خانہ قائم کرنےکا ایک مبارک قدم اٹھایا جوتاریخ نے ان کےنام سے محفوظ رکرلیاہے۔ثالثا: عدالت کے اس فیصلہ پربادشاہ عالی جناب کے نائب کی تائیدحاصل ہوئی جودار الحکومت کے ادارہ امانات تک پہنچانےوالےہیں۔رابعاً:یہ سچی عبارت" اپنی جگہ پرمکمل شہرت حاصل کرنےوالی جگہ جس کے تعیّن اوراوصاف بیان کرنے کی ضرورت نہیں " حاکم شرعی قبول کرتاہے۔پس یہ عبارت نسل درنسل توارث نقل پرتواترمحلی کوثابت کرتی ہے۔بہت سی مقدس جگہیں چودہویں صدی کے آخری چوتھائی تک حرم شریف میں ترقیاتی اموراورتوسیعات سےقبل اپنی صحیح حالت پرقائم رہیں۔ مکہ مکرمہ کےکئی آثارشروع کی صدیوں میں اپنی اصلی حالت پرباقی رہے،مکہ مکرمہ اورعالمِ اسلام کی اس درمیانی نسل کے بیٹوں نےان کو دیکھاہے جو تیرہ سو پچھتر(1375ھ)سےقبل کےعرصہ میں وہاں موجودتھے۔انہوں نے تمدّنی اوردینی شعارکے بہت سے آثار دیکھےجن کا ذکر قدیم مکی مؤرخین ابتدائی اسلامی صدیوں میں کیا کرتےتھے۔اس طرح نہایت واضح طورپردونوں تواتروں علمی ومحلی کی مطابقت سےثابت ہوجاتاہےکہ مکتبۂ مکہ مکرمہ اپنی موجودہ جگہ پرہےجہاں اشرف الخلق سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی۔

یعنی دوسری مرتبہ انہدام مولد النبیﷺکے بعد مذکورہ بالا دستاویزی طریقہ کے ذریعہ حکومتِ سعودیہ کی شرعی عدالت سے اجازت مانگی گئی کہ یہاں پر مکتبہ بنانے کی اجازت مرحمت کرے اور ان سے اجازت مل جانے کے بعد یہاں پر مکتبہ تعمیر کیا گیا۔

رسول اکرمﷺکے مقام ولادت کی تعمیر مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے یہاں تک کہ شیخ عباس قطان نے اس مکان کی حفاظت و صیانت کے خاطر حکومتِ وقت سےتعمیر کی اجازت لینے کے بعد بہت تیزی کے ساتھ یہاں تعمیراتی کام شروع کردیا۔ اندرون ملک و بیرون ملک کے کبار علماء کرام سے مشورہ کرنے کے بعدملک عبد العزیز آل سعود نے ان مقدس تاریخی مقامات کو اسلامی طریقہ کے مطابق بغیر کسی تغیر و تبدل کےآباد کرنے کا فیصلہ صادر کیا۔ان کی مبارک نشانیوں میں سے ہے کہ انہوں نے مولود النبیﷺکے مقام مبارک پر مکتبہ بنانے کی،ام المؤمنین حضرت سیدتنا خدیجۃ الکبرٰی کےمکان پرحفظِ قرآن کے لیے اور دارا رِقم پر حدیث نبویﷺکے لیے مدرسہ بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔جس سے ان مقامات کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہوگیا اوریہ مبارک مقامات مکۃ المکرمۃ میں اس زمانہ کے علم و معرفت کے مینارہ ثابت ہوئے۔149 اس مقام مولد النبیﷺپر مکتبۂ مکہ مکرمہ بنائے جانے کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے شیخ ابو سلیمان تحریر فرماتے ہیں:

  ولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم بمحلة شعب على المعروفة بمکة المركة، والتی تسمى فى الوقت الحاضر سوق اللیل وكان الشیخ عباس قطان یتمنی أن یقیم فى ھذا المکان مکتبة عامة واتفق مع أصھارہ آل الکردى أن یشترى منھم مکتبة المرحوم الشیخ ماجد كردى الشھیرة بالمکتبة الماجدیة، وھى من أثمن المکتبات الخاصة، وینقل محتویاتھا الى ھذہ الدار صیانة للموضع الذى ولد فیه الرسول الکریم صلوات اللّٰه وسلامه علیه من أن یبقى معروضاً للاھمال، وتکریماً له باقامة عمل نافع للناس فیه ، وكانت العقبات التی واجھها الشیخ عباس قطان لتحقیق ھذہ الأمنیة الکبیرة كثیرة ، ولکنه استمر فى محاولاته تلک دون كلل، أو ملل، فاستطاع بعد سنوات طویلة من الصبر، وتصید الفرص المناسبة أن یحظى بوافقة جلالة المغفور له الملک عبدالعزیز للسماح له باقامة المبنی الذى یرید، وما أن حصل على الاذن من جلالته باقامة المبنی حتی سارع باتخآز الاجراءات اللازمة لذلک عامه 1970ھ ، وكان یشرف على النباء بنفسه فى كل یوم، راغباً فى سرعة انجازہ، وتحقیق الأمانیة التی كان ینشدھا برؤیة المکتبة العامة مشیدة فى موضع مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم.وفى یوم من أیام شھر رجب 1370ھ ، ذھب كعادته لرؤیة العمارة مصطحباً بعض أصدقائه، ولکنه شعر بألم مفاجئ وھو واقف فى الموقع، فقد فاجأته نوبة قلبیه حادة، فأمسک به الحاضرون من أبنائه وأصدقائه، واستدعى له أھد الأطلباء، ثم نقل الى بیته، وفى الیوم التالى فارق الحیاة، فکانت ھذہ العمارة التى تمنى أن ینشھا فى الخاتمة السعیدة لحیاته، ولقد قام أبناؤہ من بعدہ باكمال العمل الطیب الذى بدأہ والدھم العطیم، كما نقلوا الیھا المتکبة الماجدیة، وسلمت الى وزارة الحج والأوقاف، وھى مفتوحة للجمیع...ان ھذا العمل العظیم الذى قام به المرحوم الشیخ عباس قطان ھومن الأعمال الجلیلة دون شک، فعلاوة على ما بذله من المال فى تشیید المکتبة، والمدرسة وافتتاحهما للافادة منھما فانه صان بذلک المکان الذى ولد فیه النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ، كما صان المکان الذى نزل فیه القرآن على قلبه صلى اللّٰه عليه وسلم، ولقد كانت معاولة الحصول على الاذن ببناء ھذین المکانین فى حد ذاتھا تتسم بالاخلاص، والشجاعة... ولم یکن من السھل على غیر الشیخ عباس قطان فى ذلک الزمن الوصول الى ما وصل الیه ، وقد أعانه اللّٰه على ذلک، فکانت له ھذہ الحسنة الجاریة فى بلد اللّٰه الأمین. 150
  یہ مکتبہ سوق اللیل میں مشہور محلہ شعب والی گلی میں واقع ہے جو آج " مکتبۃ مکۃ المکرمۃ" کے نام سے مشہور ہے اور اس مقام ہی میں حضور اکرم ﷺمتولد ہوئے ۔ شیخ عباس قطان اس مبارک مقام کے لیے چاہتے تھے کہ یہ کتب خانہ بنے اس لیے وہ اپنے دامادوں کے ساتھ متفق ہوئے جو آل ِکُر د تھے تاکہ ان کے مرحوم شیخ ماجد کردی کا کتب خانہ جو" مکتبہ ماجدیہ" کہلاتا تھا خرید سکیں کیونکہ یہ قدیم اور انتہائی مہنگا کتب خا نہ تھا۔ اس طرح مقامِ ولادت پاک فراموش ہونے سے محفوظ ہو جائے گا کیونکہ اس کتب خانہ کی تمام اشیاء مقامِ ولادتِ رسول کریمﷺپر تعمیرہونے والے کتب خانہ میں منتقل کردی جائیں گی تاکہ آئندہ یہ مقام گرنے سے محفوظ رہے اور اس مقام کی مزید تکریم ہو سکے کہ اس میں لوگوں کے نفع والے کام (یعنی مکتبہ کی تعمیر)کوسرانجام دیاگیا ہے۔ اس ہدف کو پورا کرنے میں ان کوکئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر عزم و استقلال کے ساتھ اس کی جستجو میں لگے رہے ۔ کئی سالوں کے لمبے انتظار کے بعد مناسب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک عبد العزیز مغفور کی موافقت اور مکتبہ کی اجازت سے باریاب ہوئے جس کو وہ بنانا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ شیخ عباس نے شاہ عبدالعزیز کی جانب سے تیرہ سو ستر (1370ھ)میں مکتبہ بنانے کا قانونی اجازت نامہ حاصل کرلیا اور انہوں نے دیگر قانونی کاروائیاں اسی سال یعنی تیرہ سو ستر (1370ھ)میں جلد از جلد مکمل کرنا شروع کردیں ۔ اس کے بعد انہوں نے تعمیراتی امور کو تیزی سے مکمل کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ بنفس نفیس روز جا کر تعمیراتی امور کی نگرانی کرتے تاکہ منصوبہ جلد از جلد مکمل ہوجائے اور اس آرزو کو بھی حقیقت کا جامہ مل جائے جو مولد النبیﷺپر مکتبہ عامہ بنانے کی پیدا ہوئی تھی ۔ تیرہ سو ستر (1370ھ)میں ماہِ رجب کے ایک دن حسب معمول صبح کے وقت اپنے چند دوستوں کے ساتھ تعمیرات کا جائزہ لینے پہنچےتھے کہ اپنی جگہ کھڑے کھڑےانہیں اچانک ایک شدید درد کا احساس ہوا جو در حقیقت دل کا دورہ تھا توآس پاس موجود دوستوں اور بیٹوں نے انہیں سہارا دے کر سنبھالا اور کسی ڈاکٹر کو بلایا گیا پھر انہیں ان کے گھر منتقل کر دیا گیا اگلے روز وہ جانبر نہ ہو سکے اور دنیا سے رحلت کر گئے ۔ اوران کا خاتمہ اس عظیم کا رِخیر پر ہوا ۔ ان کے بعد ان کے بیٹوں نے اس مقدس کام کو مکمل کیا جو ان کے والد نے شروع کیا تھا جیساکہ انہوں نے مکتبۃ الماجدیۃ کو اس میں منتقل کردیااور اس مکتبہ کو وزارت اوقاف کے حوالے کر دیا جو کہ تمام افراد کے لیے کھلا ہوا ہے۔بلا شبہ یہ عظیم کام جس کو مرحوم شیخ عباس قطان نے سرانجام دیا یہ مقدس کاموں میں سے تھا ۔ کتب خانہ بنا کر مقام ولادت پاک کو محفوظ کرنے،اس کتب خانہ کو عام لوگوں کے لیے وقف کرنےتک یہ امور اس کے علاوہ تھے جن میں انہوں نے مال و دولت کے علاوہ ذاتی کوششیں بھی صرف کیں ۔ بلاشبہ ان کے اس کا رخیر میں شاہ عبدالعزیز کے اجازت نامہ کی مدد بھی شامل تھی کیونکہ اجازت نامہ حاصل کرنا بذات خود ایک کٹھن کام تھا جسے شیخ عباس قطان ہی حاصل کر سکتے تھے ۔۔۔اس دور میں شیخ عباس قطان کے علاوہ کسی کے لیے بھی وہ کام اتنا آسان نہیں تھا جو کہ شیخ نے مکتبہ کو قائم کرکے کیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی خصوصی مدد فرمائی اور اس امن والے شہر میں یہ کام شیخ کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگیا۔

مذکورہ بالا عبارت کو ڈاکٹر ناصر بن علی نے بھی اپنی کتاب میں اسی طرح بیان کیا ہے 151اور اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ شیخ عباس قطان نے مقامِ مولد النبیﷺپر مکتبہ بنائے جانے کے لحاظ سے حکومت ِسعودیہ سے جو اجازت نامہ حاصل کیا وہ بلاشبہ انہی کے حصہ کاکام تھا جس کو انہوں نے بحسنِ خوبی سر انجام دیا۔

مولد النبیﷺپر مکتبۂ مکّہ مکرّمہ

جب سعودی حکومت نے مولد النبیﷺپر تعمیرات اور مکتبۂ مکہ مکرمہ بنانے کا اجازت نامہ دے دیاتو امین شیخ عباس بن یوسف القطان نے تیرہ سو ستر (1370ھ) میں اس مقام کی تعمیر مکتبہ عامہ(پبلک لائبریری) کے طور پر اپنے خرچ سےکروائی۔چنانچہ اس حوالہ سے شیخ طاہر الکردی تحریر فرماتے ہیں:

  ان موضع ولادة النبی صلى اللّٰه عليه وسلم بمکة بسوق اللیل وھو شعب على قد بنیت فیه الان عمارة لطیفة بناھا الامین العاصمة الاسبق الشیخ عباس بن یوسف القطان الذى توفى فى 16 رجب سنة الف وثلاثمائة وسبعین رحمه اللّٰه رحمة الابرار فقد بناھاعلى حسابه الخاص لتکون مکتبة عامة یتردد الیھا العلماء والطلبة وقد ابتدأ فى عمارة ھذہ الدار قبل وفاته بشھرین فلما مات اتمھا ابنه الفاضل الشیخ امین وقد اتفق الشیخ العباس المذكورقبل وفاته مع المرحوم الشیخ كامل بن ماجد الکردى واخوانه على نقل مکتبھم الماجدیة المعروفة الى عمارته التى جعلھا مکتبة عامة" اى دار الکتب" وان شاء اللّٰه تعالى عما قریب سیعمل الشیخ امین المذكورعلى انجاز ھذہ المکتبة على احسن حال تنفیذا لوصیة والده ورغبة فى احیاءذكره جزاہ اللّٰه تعالىٰ خیر الجزاء.152
  بلا شبہ نبی کریم ﷺکی جائے ولادت مکہ میں سوق اللیل میں واقع ہےا ور وہ شعبِ علی ہے جہاں اب ایک انتہائی خوبصورت عمارت بنادی گئ ہےجسے سابق امین العاصمۃ شیخ عباس بن قطان نے بنوایا ہے اوران کا انتقال سولہ (16)رجب تیرہ سو ستر (1370ھ)میں ہوا، اللہ تعالی ان پر رحم فرمائے۔ تحقیق انہوں نےاپنے ذاتی خرچہ پر اس عمارت کو بنوایا ہے تاکہ یہ ایک عام کتب خانہ ہو جس کی طرف علماء اور طلباء کھنچے چلے آئیں۔اس عمارت کی تعمیری ابتداء ان کی وفات سے دو مہینہ پہلے ہوئی تھی اور جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے بیٹے فاضل شیخ امین نے اس کی تعمیر کی تکمیل کی۔شیخ عباس قطان نے اپنی وفات سے پہلے مرحوم شیخ کامل بن ماجد الکردی اور ان کے بھائیوں سے اس بات پر اتفاق کرلیا تھاکہ وہ اپنا مشہور مکتبہ " الماجدیۃ" اس عمارت میں منتقل کردیں گے جس کو انہوں نے عام کتب خانہ کے طور پر بنایا تھا۔ عنقریب شیخ فاضل امین جن کاذکر ابھی ہوا وہ اس مکتبہ کو بہترین حال پر بنائیں گے اپنے والد کی وصیت کو پورا کرتے ہوئے اور ان کے تذکرہ کو زندہ رکھنے کے لیے دلچسپی رکھتے ہوئے۔اللہ تعالی ان کو بہترین جزا عطا فرمائے۔

مولد النبی ﷺکی اس تاریخِ جدید کو تفصیلاً ذکر کرنے سے پہلے مناسب معلو م ہوتا ہے کہ تاریخی مقامات کے حوالہ سے چند سلفی علماءِ عرب کے ایسے حوالہ ذکر کردیے جائیں جن سے ا س بات کا اندازہ ہوجائے کہ علمائےدین عمومی طور پر اور خصوصاً علماء عرب میں سے بعض سلفی علماء بھی تاریخی مقامات کی حفاظت و صیانت کے حوالہ سے اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے اس بات کا بر ملا اپنی تحریر وں میں اظہار کرتے ہیں کہ ان مقامات کو یکسر زائل و مسمار کرنے کے بجائے یہاں ایسی تعمیرات کردی جائیں کہ علمی طور پر فوائد بھی حاصل ہوجائیں اور جہالت کے اندھیروں سے ان مقامات کو محفوظ و مامون بھی کردیا جائے۔

تاريخی مقامات کی حفاظت

رسول اکرمﷺکی جائے ولادت بلا شبہ ایک تاریخی جگہ ہے جس سے اہل اسلام کی وابستگی ہر دور میں واضح رہی ہے۔جس کا اندازہ ا س بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر دور کے علمائے اعلام نےاس مقدس مقام کے حوالہ سے اپنی اپنی تصانیف میں جا بجا تحریرات رقم کی ہیں ۔عرب کے ایک عالم نے مولود النبیﷺکی تاریخ کے حوالہ سے ایک کتاب عربی میں تحریر کی ہے۔وہ اس کتاب میں مولود النبی ﷺپر مکتبہ مکہ مکرمہ بنانے کے حوالہ سے اور عمومی طور پر اس جیسے مقدس مقامات کے حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ علمائے اسلام مأثور تاریخی مقامات کی حفاظت و صیانت کے حوالہ سے باہم متفق ہوں کیونکہ ان تاریخی مقامات سے عمومی طور پر اور مولود النبیﷺسے خصوصی طور پر نبی کریم ﷺکی زندگی میں رونما ہونےوالے واقعات و حوادثات کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ ذہن امتِ محمدیہﷺ کی شاندار تاریخ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جس سے قوتِ ایمانی مزید طاقتور ہوتی ہے۔ان مقدس مقامات کے ساتھ جو غیر اسلامی طریقہ اور جاہلوں کی طرف سے وضع کردہ اشیاء مل جاتی ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ایسے وسائل اپنائے جائیں جو ان مقامات سے خرافات و شنیعیّات کو بھی یکسر ختم کردیں اور ان مقامات کو بعینہ برقرار بھی رکھا جاسکے۔اس کی صورت یہی ہے کہ ان مقامات پر ایسی تعمیرات کی جائیں جن سے ان کی حفاظت بھی ہوجائے اورخرافات بھی ختم ہوجائیں نہ یہ کہ ان مقامات کو گرانے اور نشانیوں کے مٹانے یا ان کی نسبت شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اس طرح تو حق کا ابطال لازم آئے گا ۔جبکہ اہل باطل تو ویسے بھی اپنے باطل مؤقفات پر دلائلِ باطلہ کے ذریعہ کاربند ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے سلفی کبارعلماء میں سے چند علماء کی رائے بھی نقل فرمائی ہےجن میں مکہ مکرمہ کے امام شیخ ابو السمح علامہ محمد عبد الظاہر ،حرمین شریفین کے امام شیخ محدث علامہ محمد عبد الرزاق اور مشہور مفکر شیخ علامہ سید محمد رشید رضا شامل ہیں. 153

علامہ شیخ سید محمد رضا نے اس حوالہ سے یوں کہا ہے کہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ مولود النبیﷺاور بیت ِ ام المؤمنین سیدتنا خدیجۃ الکبرٰی کو مدرسہ بنا دیا جائے تا کہ ان میں سے محدثین اور داعیِ اسلام تیار ہو کر نکلیں۔ساتھ ہی ساتھ ان کی زیارت کے لیے صرف ان حضرات کو مدعو کیا جائے جو جاننے والے ہوں یا پھر اس بات کو جاننے والے ہو ں کہ اللہ تبارک وتعالی کے سوا کسی سے بھی کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچتا۔154 اسی طرح مسعود عالم ندوی اور شیخ عبد الرزاق حمزۃ کی رائےان مقامات کی محافظت کے بارےمیں ماقبل مذکور رائے کی طرح ہی ہے155 اور یوں مقام مولد النبیﷺپر مکتبہ مکہ مکرمہ کی تعمیر ہوئی جس میں شیخ ماجد کردی کا کتب خانہ جو مکتبہ ماجدیہ کہلاتا تھا وہ بھی شامل کردیا گیا۔

مولدا لنبی ﷺکی جدید تاریخ

مقام مولد النبیﷺکی جدید تعمیر اور اس پر مکتبہ بنانے کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ناصر حارثی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

  وتجدر الاشارة الى ان ھذا المکان اشار الیه ایضا الرحالة الذین زاروا مکة المکرمة وقد لوحظ ان الرحالة الاجانب تركزحدیثھم عنه على وصف ما شاھدوه ومن ممارسات تتنا فى مع تعالیم الاسلام وبخاصة فى العصر العثمانى. وھذا ما حدا بالملک عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل آل سعود رحمه اللّٰه تعالىٰ بالموافقة على مارفعه امین العاصمة المقدسة الشیخ عباس قطان باعادة توظیف ھذا المبنى توظیفا یتسق مع تعالیم الاسلام بما یعمل على المحافظة علیه والقضاء على البدع والانحرافات الدینیة التى كانت تمارس فیه فھذا رشده الى اعادة بنائه وتحویله الى مکتبة یؤمھا الباحثون والزوارسمیت " مکتبة مکة الکرمة" . 156
  اس بات کی طرف اشارہ کرنامناسب ہے کہ یہ وہی مکان ہے جس کی طرف ان سیاحوں نے بھی اشارہ کیا ہے جنہوں نے مکہ مکرمہ کی زیارت کی ہے۔یہ بھی ملاحظہ کیا گیا ہے بیرونی سیاحوں کی اس مقام کے حوالہ سے باتیں اسی کے مطابق ہوتی ہیں جو انہوں نے یہاں مشاہدہ کیا ہے اور بعض ان اشیاء کے متعلق بھی جو تعلیماتِ اسلامیہ کے مخالف ہیں بالخصوص دولتِ عثمانیہ میں۔یہی چیز ہے جس نے ملک بن عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل آلِ سعود کو معزز والیِ عاصمۃ شیخ عباس بن قطان کے ساتھ اس مقام کی تعمیر کو از سرِ نو بلند کرنے پر بر انگیختہ کیا ۔ایسی تعمیر جو شریعت کے مطابق ہو اور ایسا کام ہو جس سے اس مقام کی حفاظت بھی ہوجائے اور بدعت و دینی انحراف کا فیصلہ بھی ہوجائے جو اس مقام کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔پس یہ رہنمائی ہے اس مقام کی دوبارہ تعمیر کرنے کی طرف اور اس کو ایسے کتب خانہ میں تبدیل کرنے کی طرف جس کی طرف محققین و زائرین آئیں اور اب اس کا نام مکتبۃ مکۃ المکرمۃ رکھا گیا ہے۔

یعنی انہدام کے بعد یہاں پر مکتبہ بنا کر اس مقام کو محفوظ کردیا گیا اور یہ مکتبہ اپنے محلّ وقوع کے لحاظ سے دیگر مکتبوں کی بنسبت کافی زیادہ اہمیت کا حامل ہوا۔

اسی طرح مولدالنبی ﷺپر مکتبہ مکہ مکرمہ کی تعمیر کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے شیخ ابو سلیمان اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

  اصبح اسم (مکتبة مکة المکرمة) واحدًا من الاسماء التى تطلق على مکان المولد النبوى الشریف منذ عام 1370ھ ... یسجل التاریخ فى صفحاته المشرفة ماثرة جلیلة للملک عبد العزیز آل سعود رحمه اللّٰه لیجعل منه محرابًا للعلم والعلماء فیبقى على ھذا الاثر الخالد ویوظفه توظیفًا شرعیًا یتلائم وقدره فى نفوس المسلمین لیصبح مکتبة عامة یقصدھا الباحثون من جمیع الاقطار الاسلامیة... ھذه المرحلة فى تاریخ المکتبة ھى العصر الحدیث لھذا لموقع المبارک فى الوقت الحاضر اصبح منبى مکتبة مکة المکرمة منارة علمیة تعتز بھا اجیال المملکة العربیة السعودیة یسعد ویسر ببقائھا العالم الاسلامى حیث تستنطق الامة تاریخھا الماضى تستوحى منه قوة الایمان وصفاء العقیدة...ان مکتبة مکة المکرمة بموقعھا-اثراً حضاریاً ومعلما تاریخیاً شھد اعظم حدث فى تاریخ البشریة _ برھان قائم للعیان یشھد للدولة السعودیة منذ عھد مؤسسھا حتى ھذاالعھد الزاھر_ عھد خادم الحرمین الشریفین الملک عبد اللّٰه بن عبد العزیز آل سعود_حرصھا على الحفاظ على كل ماله علاقة بتاریخ الاسلام وامجاده...سجل التاریخ للسیدة فاطمة بنت یوسف قطان اخت الشیخ عباس قطان بما بذلت من مالھالاعادة الاعتبارلھذا المکان الطاھر المبارک وذلک باعادة بناء مکان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بشعب على لیکون مکتبة یؤمھا العلماء وطلاب العلم والباحثون...وخرجت بھذا صکوک صادرة من المحکمة الشرعیة الکبرى بمکة المکرمة حفاظاً على المعالم الاسلامیة التاریخیة وتوظیفھا بما یحقق المقاصد الشرعیة وقد كان للسیدة فاطمة بنت الشیخ یوسف قطان واخیھا الشیخ عباس قطان رحمھما اللّٰه تعالىٰ الفضل فى المحافظة على هذه الاماكن التاریخیة وتوظیفھا بما یتناسب ومکانتھا الاسلامیة والتاریخیة .157
  " مکتبۃ مکۃ مکرمۃ" یہ نام بھی تیرہ سو ستر (1370ھ)سے ان ناموں میں سے ایک ہوگیا ہے جن کا اطلاق مقامِ ولادت نبوی ﷺپر ہوتا ہے ۔۔۔یہ عہد آل سعود کی تاریخ کے درخشاں صفحات میں عظیم شخصیت ،بادشاہ عبدالعزیز کے نام سے عظیم اور ہمیشہ رہنے والی یادگار ہے جس کو انہوں نے عالم اسلام کے تمام علماء محققین کے لیے علم کا گہوارہ بنایا ۔۔ ۔وقتِ حاضر میں اس مبارک مقام کے لیے یہ مرحلہ نیا ہے کہ جس میں اس کتب خانہ کو مملکت سعودیہ کہ وجہ سے چار چاند لگ گئے ہیں اور سعودیوں کی نسلیں اس پر فخر محسوس کرتی ہیں ۔ تمام عالم اسلامی اس کے وجود سے مسرور اور اس طرح خوش ہے کہ ساری امت اس کے ماضی کے حقائق بیان کرتی ہے جس سے عقیدہ میں پختگی اور ایمانی قوت میں نئی روح بھر جاتی ہے ۔ مکۃ المکرمۃ کا کتب خانہ اپنے محلِّ وقوع کی حیثیت سے (ثقافتی اور تاریخی یادگار کہ جس نے تاریخِ انسانیت کے بڑے بڑے واقعات دیکھے ہیں ) یہ اپنے بنانے والے شاہ عبدالعزیز کے زمانہ سے لے کر دورِحاضر تک سعود ی حکومت کے افراد کے لیے مشعل راہ ہے ۔ خادم حرمین شریفین شاہ عبدالعزیز ہر اس تاریخی یادگار کی حفاظت میں حریص تھے جس کا تعلق اسلامی تاریخ یا واقعات سے رہا ہے ۔۔ مکۃ المکرمۃکے کتب خانہ کو قائم کرنے میں شیخ عباس قطان کی بہن فاطمہ یوسف قطان نے جو مال خرچ کیا تاریخ نے اسے تحریر کر لیا ہے۔ حضور پرنورﷺکی ولادت باسعادت کے مقام مقدس جو کہ شعب علی میں واقع ہے کو کتب خانہ بنایا جسے علما ء ،طالب علم اور محققین آباد رکھتے ہیں ۔۔۔ اور اس کی تعمیر کےلیے مکہ مکرمہ کی شرعی عدالت عظمی سے سرکاری حکم نامہ جاری کیا گیا کہ اسلامی تاریخی مقامات کی ایسی حفاظت و تعمیر ہو جو مقاصد شرعیہ کے موافق ہو۔ محترمہ فاطمہ یوسف قطان اور ان کے بھائی شیخ عباس قطان ان تاریخی مقامات کی محافظت اور ان کی ایسی تعمیرات میں کافی زیادہ حریص تھے جو تعمیرات مناسب ہوں اور اسلامی مقامات کے شایان شان ہوں۔

یعنی فاطمہ بنت یوسف اور ان کے بھائی شیخ عباس قطان اصل محرک ہیں جن کی تحریک سے مقامِ مولد النبیﷺکی حفاظت کچھ اس طرح سے ہوئی کہ اس مقام پر ایک مکتبہ قائم کردیا گیا جو کہ فی زمانہ ایک علمی مینارہ ثابت ہوا۔

مکتبۂ مکہ مکرمہ کی عمارت

رسول اکرمﷺکی ولادت کے مقام پر تعمیر ہونے والے مکتبہ مکہ مکرمہ کی اندرونی عمارت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے شیخ ناصر حارثی تحریر فرماتے ہیں:

  ولاتزال ھذه الدار المکتبة فى مکانھا خارج الساحة الشرقیة للمسجد الحرام اذ لم تمتد الیه التوسعة كانت ھذه الدار تقع فى مدخل شعب بنى ھاشم وقد اقیمت المکتبة على مساحة مستطیلة الشکل تمتد باستطالة من الشرق الى الغرب بطول21م للجدار الشمالیة و80 و 12م للجدار الجنوبى وارتفاع 10م ویدخل الیھا من مدخلین مدخل رئیس فى منتصف الجدار الغربى (الواجھة الرئیسة) مما یلى المسجد الحرام اتساعه 80، 1م وارتفاعه 23،2م والمدخل الآخر فى الجدار الشمالى من الناحیة الشرقیة حیث یدلف الداخل من المدخل الرئیس غیر مصطفة اتساعھا 02، 3 م وعرضھا05، 1 م الى ممر مرتفع عن قاعة المبنى بمقدار68 م ثم ینزل بواسطة 3 درجات عرض كل واحدة 02، 3م وارتفاعھا 17 سم الى ممر صغیر عرضه92، 1 م ومنه الى قاعة كبيرة مستطیلة الشکل تمتد باستطالة من الشمال الى الجنوب بطول 60، 11م وعرض 9م وتطل على ھذه القاعة من اركانھا الثلاثة الشمالى الغربى الجنوبى الغربى والجنوبى الشرقى ثلاث غرف مستطیلة الشکل متساویة الابعاد طول كل واحدة 30، 4م وعرضھا80، 3م تفتح كل واحدة على القاعة بواسطة باب اتساعه. 158
  یہ دار المکتبہ ہمیشہ اسی جگہ رہا جہاں تھا یعنی مسجدِ حرام کے شرقی کنارہ سے باہر کیونکہ اس کو وسعت نہیں دی گئی۔یہ دار المکتبہ شعبِ بنی ہاشم کے اندر واقع ہے اور اس گھر پر کتب خانہ مستطیل شکل میں قائم کیا گیا ہے۔شمالی دیوار کی مشرق تا مغرب لمبائی اکیس(21)میٹر ، جنوبی دیوار کی اسّی(80)اوربارہ(12) میٹر ہے اور اس کی بلندی دس(10) میٹر ہے۔اس مکتبہ میں دو دروازوں سے داخل ہوا جاتا ہے۔مرکزی دروازہ مغربی دیوار کے درمیان میں ہے جو مسجدِ حرام سے ملا ہوا ہے ۔جس کی وسعت(1.80)میٹر ہے اور بلندی(2.23)میٹر ہے۔دوسرا دروازہ شرقی کنارہ کی شمالی دیوار میں اس طرح ہے کہ مرکزی دروازہ سے داخل ہونے والا اس کی سیدھ( میں داخل نہیں ہوگا بلکہ سیدھ)کے بغیر داخل ہوگا۔اس دروازہ کی وسعت (3.02)میٹر ہے اور اس کی چوڑائی (1.05)میٹر ہے ۔اس راہداری تک جو مکتبہ کے احاطہ سے ارسٹھ(68)میٹر بلند ہے۔پھر تین (3)سیڑھیوں کے واسطہ سے جن میں سے ہر ایک کی چوڑائی (3.02)میٹر اور بلندی سترہ(17)سینٹی میٹر ہے، نیچے اتراجاتا ہے اس چھوٹی راہداری کی طرف جس کی چوڑائی (1.92)میٹر ہے۔یہاں سے اس بڑے مستطیل شکل کےاحاطہ کی طرف شمال سے جنوب تک کی لمبائی (11.60)میٹر ہے اور چوڑائی نو(9) میٹر ہے۔اس بڑے احاطہ کے شمالی مغربی،جنوبی مغربی اور جنوبی مشرقی تین ستونوں سے مستطیل شکل کے تین کمرے طولاً وعرضاً ایک جیسے اس کی طرف بنے ہوئے ہیں۔ہر ایک کی لمبائی (4.30)میٹر اور چوڑائی (3.80)میٹر ہے۔ان میں سے ہر ایک اس بڑے احاطہ کی طرف اپنے وسیع دروازہ کے ذریعہ سے کھلتا ہے۔

اسی حوالہ سے شیخ ابو سلیمان اپنی کتاب میں یوں تحریر فرماتے ہیں:

  یتکون مبنى المکتبة فى الوقت الحاضر من دورین متواضعین فى شکل مستطیل، طول الواجھة الغربیة 13.26 متراً، وطول الجھة الجنوبیة 20.18 متراً. المدخل الرئیس للمبنى من الجھة الغربیة، وله مدخل آخر فرعى من الجھة الشمالیة فى نھایة المبنى من جھة سوق الغزة.للمکتبة حرم من جھاتھا الأربع الشرقیة، والغربیة، ولشمالیة، والجنبوبیة، وللمبنى واجھات ثلاث:الجھة الأمامیة الغربیة فى الواجھة الرئیسة مواجھة الساحة الشرقیة للحرم المکى الشریف، یوجد بھا الباب الرئیس للمکتبة، ولا توجد نافذة بالدور الأرضى، توجد سبع نوافذ خشبیة فى الدور الأعلى منه. تشرف ھذه الجھة على جملة من أبواب الحرم التاریخیة: باب السلام، باب النبى، باب العباس، باب على.الجھة الشمالیة تطل على سوق الغزة توجد بھا نافذة واحدة بالدور الأرضى وسبع نوافذ بالدور الأعلى. الجھة الجنوبیة: لا یوجد فى الدور الأرضى نافذة، وتطل بسبع نوافذ خشبیة فى الدور الأعلى علیا لساحة الممھدة من جبل أبى قبیس (شعب على)، أما الجھة الخلفیة الشرقیة فلا توجد بھا نافذة بتاتاً. شید سقف المبنى الحالى بالاسمنت المسلح فى بدایة عھد البلاد به، الجدار مبنیة بالحجر والطوب المحلى الأحمر (الآجور) مطلى فى الداخل والخارج بالطلاء الأبیض .مستوى مدخل مبنى المکتبة مرتفع عن مستوى الجھة الأمامیة، حرم المکتبة، وبھا الساحة الشرقیة للحرم المکى الشریف، الواقعة أمامھا، الوصول الى المکتبة من ھذه الجھة بدرج مرتفع بخمس درجات، تؤدى الى داخلھا نزولاً، حیث ینخفض المستوى بقدر ست درجات، یلیھا بسطة، بعدھا باب ینفذ منه الداكل الى صحن المکتبة ، طول الصحن من الشرق الى الغرب 9.47 أمتار، وعرضه من الشمال الى الجنوب 118 متراً.شیدت ثلاث غرف فى جانبین من صحن المبنى فى الدور الأرضى تطل بأبوابھا على صحن المبنى الداكلى: اثنتان غربیتان، احداھما فى الجھة الغربیة الشمالیة، ولأخرى فى الجھة الغربیة الجنوبیة، تبلغ مساحة كل منھما 3.85 x 4.16، 4.16 متراً مربعاً، یتوسطھما الباب الرئیس، والثالثة فى الجھة الشرقیة الجنوبیة، مساحتھا (6.08 x 4.33) متراً مربعاً. یتوسط الجدار الأمامى فى الجھة الشرقیة من صحن المکتبة باب فى وسط الحائط، خلفه بسطة طولھا 6.50 أمتار، یوجد فى الداخل من جھتھا الأمامیة خزان ماء، على الجھة الیمنی منھا صنبور واحد، تؤدى ھذه البسطة الى سلّم الدرج للصعود الى الدور الأعلى، وفى الجھة الیسرى منھا قبل صعود الدرج توجد قاعة مخصصة لبعض المکتبات مساحتھا (3.56 x3.76) متراً مربعاً، وفى أقصى الجھة الیسرى من البسطة الباب الفرعى للمبنى فى الجھة الشمالیة منه، المؤدى الى شارع الغزة، بعرض قدرہ 2.10 متر. المبنى منذ القدم خال من دورات المیاہ، احتراماً وتقدیراً لھذه البقعة المباركة التى ولد على تربتھا الطاھرة أشرف الخلق المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم، ولذا بنیت دورات المیاه فى مبنى منفصل فى الطرف الثانى من الزقاق الجانبى فى الجھة الشمالیة للمکتبة قدیماً، وقبل تطویر المنطقة. 159
  کتب خانہ کی شرقی،غربی، شمالی، جنوبی چاروں سمتوں میں حرم ہے، اور عمارت کی تین جانب ہیں۔سامنے کی غربی جانب مرکزی جہت ہے جو حرمِ مکی کے شرقی صحن کے سامنے ہے۔ اس میں کتب خانہ کا مرکزی دروازہ ہے اور نیچے والی منزل میں کوئی کھڑکی نہیں جبکہ اوپر والی منزل میں لکڑی کی سات ( 7)عدد کھڑکیاں ہیں۔ یہ جانب حرم کے تمام تاریخی دروازوں باب السلام ، باب النبیﷺ، باب العباس اور باب علی سے بلند ہے۔شمالی جانب بازارِ غزہ سے بلند ہے اس کی نچلی منزل میں ایک کھڑکی اور اوپری منزل میں سات ( 7)عددکھڑکیاں ہیں۔ جنوبی جانب کی نچلی منزل میں کھڑکی نہیں جبکہ اوپری منزل میں بھی سات ( 7)عدد کھڑکیاں ہیں جو جبل ابی قبیس (شعب علی) کے صحن سے بلند ہیں جبکہ پچھلی مشرقی جانب میں کوئی بھی کھڑکی نہیں ہے۔موجودہ عمارت کی چھت کو شہر کے ابتدائی زمانہ میں کنکریٹ سے مضبوط بنایا گیا ہے اور دیوار سرخ اینٹوں کی ہے جس پر سفید پلاستر کیا گیا ہے۔سامنے والی جانب کی نسبت کتب خانہ کے دروازہ کی سطح اونچی ہے ۔ کتب خانہ کا حرم جس کے ساتھ حرم مکی کا صحن بالمقابل ہے اس جانب سے کتب خانہ کی طرف پانچ(5) سیڑھیاں چڑھ کر جاسکتے ہیں جو اندر چھ (6)سیڑھیوں تک پہنچاتی ہے ،جس کے بعد دروازہ ہے اور اس سے داخل ہونے والا کتب خانہ کے صحن میں پہنچ جاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک صحن کی لمبائی نو سو سینتالیس(947) میٹر جبکہ شمال سے جنوب کی چوڑائی ایک سو سترہ(117) میٹر ہے۔ عمارت کی نچلی منزل کے صحن کے دونوں جانب تین(3) کمرے بنائے گئے ہیں جو اپنے دروازوں سمیت اندرونی عمارت سے بلند ہے ۔ دو (2)کمرے مغربی سمت میں ہیں ایک شمالی مغربی جانب اور ان میں دوسرا جنوبی مغربی جانب ان دونوں کا احاطہ (X4.16 3.85)مربع میٹر ہے ۔مرکزی دروازہ ان دونوں کے درمیان ہے جبکہ تیسرا (3)کمرہ جنوب مشرقی سمت میں ہے اور اس کا احاطہ (6.03X4.33) ۔ کتب خانہ کے صحن کی مشرقی سمت کے درمیان دیوار ہے جس کے بیچ میں دروازہ ہے۔ اس کے پیچھے چھ ہزار پانچ سو بیس(6520)میٹر جگہ خالی ہے اور اس کے مقابل پانی کا ٹینک ہے جس کے دائیں جانب نکاسی کی نالی ہے ۔ اس خالی جگہ سے سیڑھی تک پہنچا جاتا ہے ۔ اوپری منزل کو جانے کے لیے اس خالی جگہ کے بائیں جانب اوپر چڑھنے سے پہلے ایک ہال ہے جو بعض مکاتب کے لیےخاص کیا گیا ہے اور اس کا احاطہ (3.56 X 3.76) مربع میٹر ہے۔ خالی جگہ کی اندرونی بائیں جانب عمارت کا ایک چھوٹا دروازہ شمالی سمت میں ہے جو شارع غزہ تک پہنچاتا ہے جس کی چوڑائی (2.10)میٹرہے ۔ احترام اور تقدیس کے پیشِ نظر اس عمارت میں ابتداء سے ہی بیت الخلا ء نہیں بنائے گئے کیونکہ یہ وہ مقدس مٹی والی زمین ہے جس پر تمام مخلوقات سے افضل و اعلیٰ مخلوق حضرت محمد مصطفیٰﷺ پیدا ہوئے ۔ اس لیے بیت الخلاء اس عمارت سے متصل مکتبہ کی قدیم عمارت کی شمالی جانب گلی کی طرف بنائے گئے ہیں۔

یعنی فی زمانہ مقامِ مولد النبیﷺپر مکتبہ مکہ مکرمہ کی موجودہ عمارت مذکورہ بالا طرز پر ہے جس میں چند مخصوص کمرے ہیں اور اس میں موجودالماریوں میں کتب اورعلم کا ذخیرہ ہے۔

مکتبہ مکہ مکرمہ کا اندرونی منظر

شیخ ابو سلیمان نے اس مکتبہ مکہ مکرمہ میں موجود کتب علم اور مجلد و مطبوع کتب کے ساتھ ساتھ چند مخطوطات کا بھی ذکر کیا ہےچنانچہ وہ اس حوالہ سےبیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  أضحت مکتبة مکة المکرمة بعد تأسیسھا، ونقل مکتبة الشیخ محمد ماجدكردى الى أروقتھا، وفتح أبوابھا منارة علمیة ، ومعلماً حضاریاً من معالم البلد الأمین، ومقصداً للباحثین والدارسین، یعرف عموم المثقفین داخل البلاد وخارجھا تاریخھا: ماضیاً، وحاضراً، أصبحت حدیث الصحافة المحلیة، والاسلامیة، خصوصاً أن تاریخھا یتصل مباشرة بتاریخ بده حیاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ونشاة الاسلام، لھذا وجه المؤرخون قدیماً وحدیثاً اھتمامھم به... فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بمکة المکرمة یرتفع بناء متواضع، ولکنة متسامق فى شموخه، لأنه یشیر فى صمت الى مسقط رأس النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الذى جاء بالدین السلامى، فبعث أضخم حضارة عرفھا تاریخ الانسان من جھة، ولأنه یضم تراثاً قیماً من ھذه الحضارة من جھة أخرى، یضم كثيرا من عصارة أفکار الانسان، تتمثل فى ثلاثة عشر ألف وثلاث مائة وأربعین كتاباً بین مخطوط ومطبوع. دلفت الى داكل ھذا النباء الذى انسکب على جوانبه تاریخ الانسانیة فى مولد النبى الکریم فخلتنى أعیش بین أربعة عشر قرناً، تتضوع بین مسقط رأس آخر نبی للانسان، وبین التراث الذى قدمه هذا النبى الأمى لحضارة الانسان، وبین الفکرة التى خامرت رأس انسان لیصنع من ھذا التراث رمزاً خالداً یبقى مایبقى على الأرض تاریخ الانسان. وفى غرفة حجبت جدارھا دوالیب الکتب المصفوفة وجدت الشیخ عبداللّٰه المزروع، والشیخ محمد قاسم حریرى منھ مکین فى عمل (فھارس) للکتب، وتصنیف أنواعها تمکیناً لجمھور القراء من الاستفادة من ھذه الأسفار الضخمة... ان ھذه المکتبة التى اشتراھا الشیخ عباس قطان بمبلغ عشرة آلاف جنیه من ماله تعود فى الأساس الى الشیخ ماجد كردى أحد علماء مکة المکرمة الأفذاذ، ولکنھاكانت بعیدة عن التداول. فأراد الشیخ عباس قطان أن یعم نفعھا كل من تتوق نفسه الى التزود من المعارف فاشتراھا، وأقام لھا ھذا البناء لیضمھا وقضًا علیھا، ثم تسلمتھا المدیریة العامة للاذاعة والصحافة والنشر من ورثتة، وجندت لھا بعض موظفیھا من قلم المطبوعات بمکة: لعمل بیانات افرادیة بھا، وصیائتھا، تمھیداً لاتاحة تداولھا بین أیدى القراء فى صالة المطالعة التى ستجھز بما یلزمھا من أثاث، فعملت مبدئیاً على ادخال الماء والنور، وعمل المرافق الضروریة، ورفع مداخل المبنى من الانخضاض الى مستوی الشارع، وھى فى سبیل اكمال ما بدأته لتصبح المکتبة نموذجاً متکاملاً بعد اضافة بعض الکتب العصریة، والصحف، والمجلات المحلیة، والخارجیة.وسألت الشیخ عبداللّٰه المزروع عن انطباعاته وھو منھمک بین ھذه الأزاھیر المتفتحة، وھذا عمل یتلائم مع حبه للکتب، والمطالعة، لاسیما المخطوطات الأثریة، وخصوصاً ما كان منھا متصلاً بالتاریخ، حتى تحول ھذا الحب الى شغف عرفه عن الناس، فجاءنى الرد الذى كنت أنتظره: (وافق شن طبقه) ثم أضاف سیادته قائلاً: ان السرور الذى یخامر نفسى وأنا أقلب بین صفحات ھذہ الکتب لا یضارعه شىء، حتى ولو تحول ھذا الورق الى (بنکنوت) ولو خیرت بین ورق ھذه الکتب الصفراء وبین الأوراق الخضراء لزھدت فى الثانیة واخترف الأول غیر نادم. وأمّن على حدیثه الشیخ محمد حریرى الذى كان یرافقنى، وأنا أتفقد ھذه الثروة الفکریة العظمیة وأتجول بینھا، ویعرفنى على الکتب المخطوطة التى تبل حوالى تسعمائة كتاب مخطوط، من مجموع الکتب، ومن بین المطبع والمخطوط نسخ مکررة، والشیخ الحریرى ھوالذى یقوم على جرد، وترتیب الکتب، وفھرستھا، ویعتبر بحق الجندى المجھول.وأمسکت بمخطوط یرجع تاریخه الى سنة 738ہ، من تألیف عیسی ابن أبی الفرج بن طاووس بن محمد الرادوردى فى شرح ھیاكل النور والحکمة، وطفقت أقلب صفحاته، وكانما أقلب بین یدى سبعین قرناً انداحت بین أمواج الزمن. وكتب التفسیر، والحدیث، والفقه، والفلسفة، والتوحید، والتاریخ، والطب، والفتاوى، ھى معظم ما اشتملت علیه ھذه الأسفار المخطوطة منھا: تذكرة القطبی، وعجائب الوجود، ومعجم النبات، وذكر الجبال، والجزر، وشرح فصول أبى قراط، والموجز فى الطب، ومجموعة فى الطب مکتوبة بخط الشیخ عبدالستار الدھلوى من علماء مکة، وأدب الکاتب والشاعر لابن الأثیر، وقد كتب بخط مغربى جمیل سنة 1211ھ، وسراج الملوک لأبى بکر الولید الفھرى الأندلسى، وقد كتب بخطه سنة 1064ھ.160
  مکتبہ مکہ مکرمہ بننے اور شیخ محمد ماجد کردی کا کتب خانہ اس میں منتقل ہونے کے بعد یہ علمی مینار ہ ثابت ہوا ہے اور بلدالامین کی موجودہ درس گاہوں میں بہترین درس گاہ ہے اورمحققین اور مدرسین کی آماجگاہ ہے۔ شہر کے اندرونی اور بیرونی محققین اس کی ماضی اور حال کی تاریخ جانتے ہیں خصوصاً اس کی وہ تاریخ جو رسول اللہ ﷺکی ابتدائی زندگی کی تاریخ ہے اور اسلام کی نشأۃ سے ملی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے قدیم و جدید مؤرخین اس کی طرف اہتمام کرتے ہوئے متوجہ ہوئے ہیں۔ اب یہ مکتبہ محققین اور مدرسین کے بہت سے فوائد کے لیے توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔۔۔ مجلہ الاذاعۃ السعودیۃ میں بھی اس مکتبہ کے حوالے سے کئی ایک تفصیلات مذکور ہوئی ہے چنانچہ اس میں مجلہ نگار اس حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مولدالنبی ﷺایک خوبصورت عمارت پر مشتمل ہے اور اپنی بلندی کے حساب سے انتہائی قد و کاٹھ والی ہے کیونکہ اس میں نبی کریم ﷺکی جائے ولادت کا مخصوص مقام ہے جو دین اسلام لے کر مبعوث ہوئے ۔انسانی تاریخ میں یہ مقام اس وجہ سے شہرت کی بلند چٹان پر فائز ہے۔ یہ مکتبہ تیرہ ہزار (13000) تین سو چالیس(340) کتابوں پر مشتمل ہے جن میں مطبوعہ کتب اور مخطوطہ کتب دونوں شامل ہیں۔اس کے ایک کمرے میں ترتیب وار لگی کتب کی الماریوں کے خانوں نے اس کمرہ کی دیواروں کو ڈھکا ہوا ہے۔ میں نے اس کے مشاہدے کے دوران شیخ عبداللہ مزروع اور شیخ محمد قاسم حریری کو کتب کی فہرست تیار کرنے میں مشغول پایا ۔اس طرح کے دیگر کاموں میں بھی وہ مصروف عمل تھے۔۔۔ شیخ عباس بن قطان نے ایک جید عالم شیخ ماجد کردی سے ان کے مکتبہ کو دس(10) ہزار مصری پاونڈمیں خریدا تھا تب شیخ نے ارادہ کیا کہ اس مکتبہ کو خرید کر اس کے نفع کو عام کیا جائے اور ہر وہ شخص جو اپنے علمی معارف کو زیادہ کرنا چاہتا ہے اس سے مزید علمی معارف کشید کرسکے۔ساتھ ہی مکتبہ کی موجودہ عمارت کو اس طرح بنایا کہ ماجدی کتب خانہ کو اس کے ساتھ ملادیا جائے۔ اس طرح یہ مکتبہ بعض عصری کتب و صحف اور اندرونی اور بیرونی مجلوں کے ساتھ ایک کامل نمونہ بن گیا۔ شیخ عبداللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا :ان صفحات کی ورق گردانی سے جو سکون و سرور مجھے حاصل ہوتا ہے وہ کسی اور چیز سے نہیں ہوتا چاہے یہ صفحات پیسوں میں ہی کیوں نہ تبدیل ہوجائیں۔ میرے ساتھ شیخ محمد حریری بھی میری مدد کرتے ہیں۔ وہ مجھے مخطوطہ کتب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جن کی تعدادمجموعہ کتب میں میرے سامنے نوسو(900)کے قریب ہے۔ مطبوعہ اور مخطوطہ نسخوں میں کئی متکرر نسخے ہیں جنہیں شیخ حریری علیحدہ کرتے ہیں اور ترتیب دیتے ہیں اس کے ساتھ ان کی فہرست بھی بناتے ہیں۔ مجلہ نگار لکھتا ہے کہ میری نظر ایک مخطوطہ پر ٹھہر گئی جو عیسی ابن ابولفرج بن طا ؤ س بن محمد الر دوردی کا لکھا ہوا ہےجس کی تاریخ سات سو اڑتیس(738ھ)بنتی ہے۔ اس مکتبہ میں کتبِ تفسیر ، حدیث، فقہ، فلسفہ ، توحید،تاریخ، طب اور فتاوٰی ہیں اور یہ مخطوطات میں کثیر تعداد میں موجود ہیں جن میں تذکرۃ القطبی عجائب الوجود، معجم النبات،ذکر الجبال والجزر، شرح فصول ابی قراط ،الموجز فی الطب اور مکہ کے عالم شیخ عبدالستار دہلوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی مجموعہ فی الطب شامل ہیں ۔اس طرح ابن اثیر کی ادب الکاتب و الشاعر ہے اور انھوں نے اس کو بارہ سو گیارہ(1211ھ) میں خوبصورت لکھائی سے لکھا ہے۔ ابو بکر ولید فہری اندلسی کی سراج الملوک بھی ہے جو انھوں نے اپنے ہاتھ سے ایک ہزار چونسٹھ (1064ھ) میں لکھی ہے۔

متذکرہ بالا تمام تر کلام سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرمﷺکی جائے ولادت کے ساتھ مسلمانوں کی ایک غیر معمولی وابستگی رہی ہے اور ایسا ہونا ایک فطری امر ہے کہ یہ جائے ولادتِ رسول مکرمﷺسیدنا محمد رسول اللہﷺہے۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں اس مقام کی تعمیرات کا سلسلہ جب شروع ہوا تو رکا نہیں سوائے دو (2)موقعوں کے جوکہ معدودے افراد کی کم علمی کی بنا پر انہدام کا شکار رہا وگرنہ اس کے بعد آج تک یہ سلسلہ جاری وساری ہےاور اب بھی اس کی شان و شوکت مثلِ سابق قائم ودائم ہے۔

مولدالنبیﷺپر انوارو تجلیات کا ظہور

امت مسلمہ کی اسی وابستگی کی بنا پر مقام مولد النبیﷺمزید چند امور کے حوالہ سے بھی اہمیت کا حامل رہا ہے اور علمائے سیر نے ان امور کو اپنی اپنی تحریروں میں بھی جگہ دی ہے۔ مولد النبیﷺچونکہ رسول اللہﷺسے قوی نسبت رکھتا ہے جس کی وجہ سے اہل ایمان کا اس کی طرف مائل ہونا ایک فطری امر ہے۔یہ مقام رسول اکرمﷺکی ولادت کی وجہ سے انوار وتجلیاتِ ربانی کا مہبط ہےجس کو دیگر علمائے سیر کے ساتھ ساتھ خصوصًاحضرت شاہ ولی اللہ دہلوینےبیان کیا ہےاور اس حوالہ سے آپ کا ایک واقعہ مشہور ومعروف ہے ۔ منقول ہےکہ انہوں نے نبی اکرمﷺکے یومِ ولادت کے موقع پر جب اس کی زیارت کی تو اس مقام کے انوارات کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان برکات سے مستفیض ہوئے جو اس مقام کاہی خاصہ تھیں چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی مقام مو لد النبیﷺکی زیارت کے دوران دیکھے جانے والے انوارات کا تذکرہ کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:

  وكنت قبل ذلک بمکة المعظمة فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى یوم ولادته والناس یصلون على النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ويذكرون ارھاصاته التى ظھرت فى ولادته ومشاھده قبل بعثتة فرأیت انواراسطعت دفعة واحدة لااقول انى ادركتھا ببصر الجسد ولااقول ادركتھا ببصر الروح فقط واللّٰه اعلم كيف كان الامرین ھذاوذلک فتأملت لتلک الانوار فوجدتھا من قبل الملائکة المتوكلىن بأمثال ھذه المشاھد وبأمثال ھذه المجالس ورأیت یخالطه انوار الملائکة انوار الرحمة. 161
  اس سے پہلے میں مکہ معظمہ میں مولد النبیﷺکے مقام ولادت پر حاضر ہوا تھا۔یہ دن آپﷺکی ولادت مبارکہ کا دن تھااور لوگ وہاں جمع تھے اور درود وسلام بھیج رہے تھے۔آپﷺکی ولادت پر آپﷺکی بعثت سے پہلےجو معجزات اور خوارق ظاہر ہوئے تھےان کا ذکر کررہے تھے۔میں نے دیکھا کہ اس موقع پر یکبارگی انوار روشن ہوئے،میں نہیں کہہ سکتا کہ ان انوار کو میں نے جسم کی آنکھ سے دیکھایا روح کی آنکھ سے مشاہدہ کیا۔بہر حال اس معاملہ کو اللہ ہی جانتا ہے کہ جسم کی آنکھ اور ر وح کی آنکھ کے بین بین کون سی حس تھی جس سے میں نے ان انوارات کو دیکھا۔پھر میں نے ان انوارپر مزید توجہ کی تو مجھے ان فرشتوں کا فیض نظر آیاجواس قسم کے مقامات ا ور اس نوع کی مجالس پر مؤکل ہوتے ہیں۔الغرض اس مقام پر میں نے دیکھا کہ فرشتوں کے انوار بھی انوارِ رحمت سے خلط ملط ہیں.162

چونکہ یہ مقام رسول اکرمﷺکی جائے ولادت ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ یہاں انوارات و تجلیات ربانیہ کاظہور و نزول ہوتا رہتا ہے اورامت کے بعض خوش نصیب افراد ان انوارات سے فیضیاب بھی ہوتےہیں۔

مولد النبیﷺباعثِ برکات

اسی طرح مولد النبیﷺنبی اکرمﷺکی جائے ولادت ہونے کی بناء پر باعث برکات اور مظہر ِ تجلّیات و انوارات ہے۔اس مقام پر آپﷺکی برکت کی وجہ سے برکات وثمرات کا نزول بھی کافی زیادہ ہوتا ہےچنانچہ امام تقی الدین محمد بن احمد الفاسی المکیاس مقام مولد النبیﷺکی برکات کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وروى الازرقى بسنده عن بعض من كان یسکن ھذا الموضع قبل ان تخرجه الخیزران من الدارالبیضاء انھم قالوا: لا واللّٰه ما أصابتنا فيه جائحة، ولا حاجة، فأخرجنا منه، فاشتد الزمان علينا. 163
  کہ جب خیز ران نے مولد النبیﷺکو الدارالبیضاء سے الگ کیا اور اس مقام پر مسجد تعمیر کرادی تو اس سے قبل جو لوگ اس مکان میں رہائش پذیر تھے ان کا بیان ہے: " اللہ کی قسم وہاں ہمیں کبھی کوئی پریشانی، مشکل یا ضرورت نہیں پیش آئی لیکن جب ہمیں وہاں سے نکالا گیا تو ہمارے اوپر مشکلات آنے لگیں"۔

مذکورہ روایت کےراوی کی تفصیل کے متعلق امام فاکہی رقمطراز ہیں:

  زعم بعض المكيين أن رجلا من أهل مكة، يقال له: سليمان بن أبي مرحب، كان يذكر أن ناسا سكنوا هذا البيت، ثم انتقلوا منه، قالواھذا. 164
  بعض اہل مکہ کا خیال ہےکہ اہلِ مکہ میں سے ایک شخص جسے سلیمان بن ابی مرحب کہاجاتاتھا ذکرکرتاتھاکہ کچھ لوگ اس گھرمیں سکونت پذیر ہوئے، پھریہاں سے نقل مکانی کرگئےانہوں نےیہ(مذکورہ)بات کی۔

یعنی رسول اکرمﷺکی ولادت کی برکات کی وجہ سے مولد النبیﷺکے مقام میں رہائش ہونے کی وجہ سے ان خوش نصیبوں کو کسی قسم کی تکالیف وپریشانی کا سامنا نہیں ہوتا تھا اور جیسے ہی اس مکان سے منتقل ہوکر کہیں اور بسے تو حالات و معاملات بدل گئے اور پریشانیوں سے دوچار ہوگئے۔

مولد النبیﷺافضل ترین مقام

رسول اکرمﷺکا مقام مولد ایک افضل ترین مقام ہےچنانچہ اس ضمن میں علامہ نبہانی اپنی کتاب جواہر البحار میں علامہ داؤدی کا قول نقل فرماتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وهو أفضل بقعة في مكة بعد المسجد الحرام، وهو المسجد المشهور الآن بالمولد عند أهل مكة. 165
  مسجد حرام کے بعد مکہ مکرمہ میں سب سےبہترین قطعہ ارض یہ مقام ہے۔آج کل اہل مکہ کےہاں یہ مسجدِ مولد کےنام سے مشہورہے۔

اس مقام کو یہ فضیلت اس لیے حاصل ہوئی ہے کہ نبی اکرمﷺاس مقام میں متولد ہوکر اس دنیامیں تشریف فرماہوئے ہیں اور یہ بات مسلمہ ہے کہ جو بھی چیز نبی کریمﷺسے متعلق ہو تو وہ افضلیت کے اعلی درجہ کی حامل بن جاتی ہے۔

مولد النبیﷺپردعا کی قبولیت

مولد النبیﷺمیں دعاء کے مقبول و مستجاب ہونے کا ذکر کئی علماء تاریخ نے کیا ہے۔مقامِ ولادت نبی کریمﷺکےمتعلق امام قطب الدین النہروانی نےاپنی کتاب" کتاب الإعلام بأعلام بیت اللّٰه الحرام"میں نہایت وثوق سے تحریر کیاہےکہ سوق اللیل میں جوجگہ مقامِ ولادت مشہورہےیہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور یہی جائے ولادتِ نبی اکرم ﷺبھی ہے چنانچہ مؤرخ صاحب الاعلام اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  ویستجاب الدعاء فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو موضع مشھور یزار 166 إلى الان ومن لحفه مسجد یصلى فیه ویکون فى كل لیلة اثنین فیه جمعیة يذكرون اللّٰه تعالى ویزار فى الیلة الثانیة عشر من شھر ربیع الاول فى كل عام. 167
  مولد النبیﷺمیں دعاء مقبول ہوتی ہے اور یہ مشہور جگہ ہے جس کی آ ج تک زیارت کی جاتی ہے۔اس کے متصل ہی ایک مسجد ہے جس میں حصولِ برکت کے لیے نماز پڑھی جاتی ہے۔ہر پیر کی رات یہاں ایک محفل منعقد ہوتی ہے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اور ہر سال ماہ ِ ربیع الاوّل میں بارہ تاریخ کو اس مقام کی زیارت بھی کی جاتی ہے۔

اسی حوالہ سے علامہ عبد الکریم القطبی تحریر فرماتے ہیں:

  وقد قال بعض العلماء باجابة الدعاء فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عند الزوال. 168
  البتہ تحقیق بعض علماء نے مولد النبی ﷺمیں زوال کےوقت دعاء کی قبولیت کا کہا ہے۔

اسی حوالہ سے صاحبِ شفاء الغرام تحریر فرماتے ہیں:

  وقال النقاش: يستجاب الدعاء...فى مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الاثنين عند الزوال.169
  نقاش نے کہا کہ مولد النبیﷺمیں پیر کے دن زوال کے وقت دعا قبول کی جاتی ہے۔

چونکہ اس مقام کا تعلق رسول اکرمﷺکی ذاتِ متبرکہ سے ہے اسی وجہ سے آپﷺکی برکات کا اثر اس مقام میں موجود ہے اور یہاں اللہ تبارک وتعالیٰ سے کی گئی دعائیں جلد مقبول ہوتی ہیں۔

مولد النبیﷺاور جشنِ ولادت

رسول اکرمﷺکے مکانِ ولادت پرہر ربیع الاوّل کے مقدس مہینہ میں باقاعدہ ایک عظیم الشان محفل منعقد ہوتی تھی جو عید کے اجتماعات سے بھی زیادہ بڑی اور پر رونق ہوتی تھی۔اسی حوالہ سے کئی ایک کتب سیر نے اس بات کی نشاندہی فرمائی ہے کہ اس مقدس ماہ میں حضور ِ اکرمﷺکی ولادت کے موقع پر جلسہ و جلوس منعقد کیے جاتے تھے اور ہر طرح کی خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا تھا۔اسی طرح جوق در جوق لوگ اس موقع پر آپﷺکی جائے ولادت کی زیارت کیا کرتے تھے اورطرح طرح کی برکات حاصل کیا کرتے تھے۔مولد النبیﷺپر ماہ ربیع الاوّل میں زیارت و محافل کے انعقاد کاذکر کئی علماء اعلام نے اپنی کتب میں فرمایاہے۔ علامہ قطب الدین نہروانی نے بھی اہل مکہ کا اس مقامِ مبارک کی زیارت اورہرسال ان کے وہاں کے معمولات مثلا محفلِ میلاد کا انعقاد،کبار علماء کی ا س میں شرکت،عامۃ الناس کا اس میں جوش وخروش،مشعل بردار جلوس وغیرہ کو تفصیل سے بیان بھی کیاہے۔ 170 مولود النبیﷺکے مقام و محل پر ہر ماہ ربیع الاوّل میں جو جشن منعقد کیا جاتا تھا اس سےبھی اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ رسول اکرم ﷺکی جائے ولادت یہی مقام ہے جہاں ہر سال ماہ ربیع الاوّل میں مسلمان جمع ہوتے اور خوشی کااظہار کرتے ہیں۔171

یہ اَمْرِواقعہ ہے کہ اہل مکہ جملہ اماکن مقدسہ کی زیارت اور دیگر عبادات اور اعمال صالحہ کی کثرت کے لیے بھی ہمیشہ سے یوم میلاد النبیﷺکو خاص اہمیت دیتے ہیں قدیم زمانوں اور صدیوں سے ان کا یہی معمول چلا آرہا ہےچنانچہ مولد النبیﷺپر انعقادِ محفلِ میلاد و جلوس کا ذکر کرتے ہوئے عبد الکریم القطبی تحریر فرماتے ہیں:

  ویزار فى الليلة الثانية عشرة من شھر ربیع الاوّل فى كل سنة فتجتمع الفقھاء والاعیان على قاضى مکة المشرفة بعد صلوةالمغرب ویحضر جمیع مشائخ الصوفیة بأعلامھم ویخرج القاضى الشمع من حاصل المسجد والزیت ویسرج الشموع ویسیر القاضى ومعه جمیع من ذكرمن المسجد الى سوق اللیل الى ان یصلوا الى المحل المذكور فیدخلون فیه ویخطب ویدعوا للسلطنة الشریفة ثم یعودون الى المسجد الحرام ویجلسون صفوفا فى وسط المسجد ویقف رئیس المؤذنین بین یدى القاضى ویدعوا للسلطنة الشریفة نصرھا اللّٰه تعالى. 172
  ماہ ِ ربیع الاول کی بارہ (12)تاریخ کو ہر سال اس مقام(مولد النبیﷺ)کی زیارت کی جاتی ہے۔پس فقہاء اور معززین قاضی ِمکہ مشرفہ کے پاس مغرب کی نماز کے بعد جمع ہوتے ہیں اور تمام مشائخ بھی اپنےاپنے جھنڈوں کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔مسجد کے اندر سے قاضیِ مکہ ایک شمع اور تھوڑا زیتون کا تیل لے کر دیگر شمعوں کو جلاتا ہے۔قاضی کے ساتھ تمام مذکورہ افراد مسجد سے سوق اللیل تک چلتے ہیں یہاں تک کہ مذکورہ مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔پھر سب اس جگہ میں داخل ہوتے ہیں اور قاضیِ مکہ خطاب فرماتے ہیں اور سب مل کر خصوصا سلطنت ِعزیزہ کے لیے دعا کرتے ہیں۔پھر مسجد الحرام واپس لوٹتے ہیں اور مسجد کے درمیان میں صف بنا کر بیٹھ جاتےہیں اور رئیس المؤذنین قاضیِ مکہ کے سامنےکھڑا ہوتا ہے اور پھر سب سلطنتِ عزیزہ کے لیے دعا کرتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی مددو نصرت فرمائے۔

چنانچہ اس حوالہ سے ابن جبیر اپنے سفرنامہ میں رقمطراز ہیں:

  يفتح ھذا الموضع المبارك فيدخله الناس كافة متبركين به فى شھر ربيع الاوّل ويوم الإثنين منه لأنه كان شھر مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وفى اليوم المذكور ولد صلى اللّٰه عليه وسلم وتفتح المواضع المقدسة المذكورة كلھا وھو يوم مشھور بمكة دائما. 173
  مولد النبیﷺکا مقام مبارک زیارت عام کے لیے ماہ ربیع الاوّل میں اور پیر کے دن کھول دیا جاتاہے۔ تمام لوگ اس میں داخل ہوتے اور اس سے برکت حاصل کرتے ہیں، کیونکہ یہ مہینہ حضورﷺکی ولادت مقدسہ کا مہینہ ہے اور یہ دن آپﷺکے میلاد کا دن ہے اور اس دن خاص طور پر شہر مکہ کے دیگر تمام مقامات مقدسہ بھی کھول دیے جاتے ہیں، اور یہ دن (یوم میلاد النبیﷺ) مکہ معظمہ میں ہمیشہ سے نہایت مشہور دن چلا آرہا ہے۔

اس کی تائید اور تصدیق ابن بطوطہ کے درج ذیل بیان سے بھی ہوتی ہے:

  وباب الكعبة المعظمة فى الصفح الذى بين الحجر الاسود والركن العراقى... ويفتح الباب الكريم فى كل يوم جمعة بعد الصلاة، ويفتح فة يوم مولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم تسليما. 174
  اور کعبہ معظمہ کا دروازہ جو حجر اسود اور رکن عراقی کی سمت میں ہے۔۔۔ یہ بابرکت دروازہ ہر یوم جمعہ کو بعد نماز جمعہ اور یوم میلاد النبیﷺکو کھول دیا جاتا ہے۔

اسی طرح ابن بطوطہ نے اذکار میں احوال اہل مکہ کے ضمن میں قاضیِ مکہ امام نجم الدین محمد الطبری کے بارے میں لکھا ہے :

  وخصوصا فى مولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم تسليما فإنه يطعم فيه شرفاء مكة وكبراءھا وفقراءھا.175
  وہ یوم میلاد النبیﷺکو بڑی عظیم الشان ضیافت کرتے ہیں جس میں شرفائے مکہ سے فقرائے مکہ تک تمام لوگ کثرت کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔

یہ دعوت بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ ابن بطوطہ نے آج سے سات سو سال قبل کے مشاہدات بیان کیے ہیں۔

اسی حوالہ سے صاحب نفائس الدرر تحریر فرماتے ہیں:

  يذھبون فى كل عام ليلة المولد ويتبركون به ويحتفلون بذلك أعظم من احتفالھم بالعيد.176
  وہ ہرسال شبِ ولادت میں اس مقام کوجاتےہیں اوراس سے تبرک حاصل کرتےہیں۔اس جگہ پروہ عید کی محفلوں سے بھی زیادہ بڑی محفل سجاتےہیں۔

مذکورہ کلام یوسف بن اسماعیل نبھانی نے بھی جواہر میں نقل کیا ہے۔ 177اسی طرح امام محمد جار اللہ ابن ظہیرہ المخزومی مولد النبیﷺکے حوالے سے اہل مکہ کا معمول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  وجرت العادة بمكة في ليلة الثانى عشر من ربيع الاوّل فى كل عام أن قاضى مكة الشافعى يتھيأ لزيارة ھذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب فى جمع عظيم منھم الثلاثة القضاة وأكثر الأعيان من الفقھاء والفضلاء، وذوى البيوت بفوانيس كثيرة، وشموع عظيمة وزحام عظيم، ويدعى فيه للسلطان ولأمير مكة، وللقاضى الشافعى بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام.178
  ہر سال مکہ معظمہ میں بارہ(12) ربیع الاوّل کی رات کو اہل مکہ کا یہ معمول چلا آرہا ہے کہ قاضی مکہ جو کہ شافعی ہیں مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں ان لوگوں میں تینوں مذاہب فقہ کےآئمہ،اکثر فقہاء، اور اہل شہر شامل ہوتے ہیں۔ اس کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں پھرو ہاں مولدشریف کے موضوع پر خطبہ ہوتا ہے۔

اسی حوالہ سے شیخ علامہ علی بن تاج الدین تحریر فرماتے ہیں:

  ولما جاء عید المولد احتفل للناس احتفالا كليا وجعل سماطا مده فى مدرسة قایتباى یناھز الالف صحن وذبح نحو مائة خروف من الضأن وفرقت رباعا قرئت تحت المدرسة الى ان ھھیىء السماط بعد صلوة الظھروقسم من الحلوى شیئا كثيرا.179
  اور جب عید میلاد النبیﷺآتی تو مفتئِ سلطنت افراد کی ایک بڑی محفل کا انعقاد کرتےاور مدرسہ قائیتبائی میں کھانے کی صفیں بچھائی جاتیں جو تقریباً ہزار(1000) تھالوں پر مشتمل ہوتیں ۔اندازاًسو (100)بکرے ذبح کرکے بھونے جاتے جن کو مدرسہ کے نیچے ظہرانے کے طور پر چار(4) چار(4) کر کے تقسیم کیا جاتا۔یہاں تک کہ نمازِ ظہر کے بعد کھانے کے لیے صفیں بنائی جاتیں ۔اسی طرح میٹھے میں بھی بہت کچھ تقسیم کیا جاتا۔

متذکرہ بالا تمام عبارات سے واضح ہوا کہ مولد النبیﷺکے مقام پر اہلِ مکہ بارہ ربیع الاول اور اس کے علاوہ جمعۃ المبارک میں اس مقام پر جمع ہوتے ہیں اور دعوت و جلوس اورمحفل میلاد کا اہتمام بھی کرتےہیں جس کا ذکرمتعدد علماء نےکیاہےچنانچہ حافظ ابنِ جزری،180 ابن ِظہیرہ،181 ابنِ جبیر،182 ملّا علی القاری،183قطب الدین حنفی،184 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 185اور دیگر علماء کرام نے تفصیلا ان سب کو اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔

مقامِ مولد النبیﷺسے مسلمانوں کی دلی وابستگی ہونا ایک فطری امر ہے اور اپنے نبی مکرمﷺکی جائے ولادت کی تعمیر و ترقی ،آرائش و زیبائش اور خاص نسبت کی بناپر اس مقام پرنبی اکرمﷺکے میلاد کا تذکرہ کرنا اور اپنی تاریخ میں اس مقام کے ساتھ جڑے رہنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مسلمانانِ عالم اس مقامِ مولد سے انتہائی گہری عقیدت رکھتے ہیں اور یہ وابستگی کوئی نیا امر نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ ابتدائی دور سے ہی اس مقام مولد النبیﷺپر مسلسل تعمیرات میں مصروف رہی ہے۔ملکہ خیزران نےجب اس مقام کو پہلی مرتبہ خصوصی توجہ سے اور حفاظت کی غرض سے تعمیر فرمایا تو ماسوا ایک دو موقعوں کے آج تک اس کی تعمیر و تزیین ہوتی چلی آرہی ہے یہاں تک کہ فی زمانہ مقام مولد النبیﷺپر ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کردیاگیا ہے جس میں مطبوعہ و مخطوطہ دونوں ہی اقسام کی کتب موجود ہیں اور جو علمی ونظری لحاظ سے ایک محفوظ و مضبوط ماخذ کا درجہ رکھتی ہے۔اس مقام مولد النبیﷺسے امت کا یہ ناطہ فقط اس وجہ سے ہے کہ نبی مکرم ﷺکی محبت اور ان کی اطاعت و اتباع پر مسلمان ہمیشہ مداومت اختیار کریں اور آپﷺسے منسوب اشیاء کے ساتھ وابستگی کا بھی یہی مطلب و مقصد ہو تا ہے جو ہر عقیدت مند اور ناقد کے ذہن میں بھی مستحضر رہنا چاہیے۔

 


  • 1 ابو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النیسابوری، المستدرك على الصحيحين،حديث:4228، ج-2، مطبوعة: المكتبة العصرية، بيروت، لبنان،1427ھ، ص:672
  • 2 شیخ أحمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنيةبالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 34 -35
  • 3 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم،مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماً و حدیثاً،مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ، 2012م، ص:38
  • 4 شیخ یوسف بن إسماعيل النبهانى، جواهر البحار فى فضائل النبى المختارﷺ، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2010م، ص:428
  • 6 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم، مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماً و حدیثاً، مطبوعۃ: مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ، 2012م،ص: 35 -36
  • 8 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء،ص:2
  • 9 محمد بن احمد تقي الدين الفاسى، شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1421ھ، ص:357
  • 10 شیخ محمد بن احمد المالکی المکی،تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعرالعظام،ج-1،مکتبۃ الاسدی،مکۃ المشرفۃ،السعودیۃ،2004م،ص: 538 -539
  • 11 شیخ محدث عبد اللہ الغازی المکی،افادۃ الانام بذکر اخبار بلد اللہ الحرام،ج-2،مطبوعۃ:مکتبۃ الاسدی للنشر والتوزیع،المکۃ الکرمۃ،السعودیۃ،2009م،ص: 68 -69
  • 12 ڈاکٹر محمد طاہر القادری،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:منہاج القرآن،پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،1994ء،ص:12
  • 13 محمد بن احمد جبير الاندلسى، رحلة ابن جبير، مطبوعة: دار ومكتبة الهلال، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 125 -126
  • 15 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا، 1930ء،ص:2
  • 16 شیخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،ج-1، مطبوعة: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:77
  • 19 امام محمد بن يوسف الصالحى الشامی، سبل الهدى والرشاد فى سيرة خير العباد، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2013م، ص:338
  • 25 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا، 1930ء،ص:3-5
  • 26 ابو سالم عبد الله بن محمد العياش، الرحلة العياشية، ج-1، مطبوعة: دار السويدى للنشر والتوزيع، أبو ظھبى، الإمارات العربية المتحدة،2006م، ص:358
  • 27 محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف فى فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ، ص:286
  • 28 أبو عبد الله محمد بن اسحاق الفاكهي، أخبار مكة فى قديم الدهر وحديثه، ج-4، مطبوعة: مكتبة الأسدى، مكة المكرمة، السعودية،1430ھ، ص:6
  • 30 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا، 1930ء،ص:6
  • 31 محمد بن عبد الله الازرقى، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م، ص:811
  • 32 ابو الحسن علی بن محمد الشھیر بابن اثیر،الکامل فی التاریخ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص:416
  • 33 محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف فى فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ، ص:258
  • 34 ابو سالم عبد الله بن محمد العياش، الرحلة العياشية، ج-1، مطبوعة: دار السويدى للنشر والتوزيع، ابو ظھبى، الامارات العربية المتحدة،2006م، ص: 358 -359
  • 35 بدر الدین محمد بھادر الشافعی،البحر المحیط فی اصول الفقہ،ج-4،مطبوعۃ:وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیۃ، الکویت،1988م،ص:231
  • 36 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم، مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماً و حدیثاً، مطبوعۃ: مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ، 2012م،ص:39
  • 37 ابو البرکات عبد السلام بن تیمیۃ،المسودۃ فی اصول الفقہ، مطبوعۃ: دار الفضیلۃ للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2001م، ص:467
  • 38 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم، مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماً و حدیثاً، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ،2012ء،ص:38
  • 39 محمد بن عبد الله الأزرقى، أخبارمكة وما جاء فيها من الأثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:811
  • 40 محمد بن أحمد تقي الدين الفاسى، شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1421ھ، ص:356
  • 41 عبد الکریم القطبی،اعلام العلماء الاعلام ببناء المسجد الحرام، مطبوعۃ:دار الرفاع للنشر والطباعۃ و التوزیع، الریاض، السعودیۃ،1983م،ص:154
  • 42 شمس الدین محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیۃ ، زادالمعادفی ھدی خیر العباد،ج-1، مطبوعۃ : موسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،1425ھ،ص:74
  • 43 ابو سرحان مسعود بن محمد الفاسى، نفائس الدرر من اخبار سيد البشرﷺ،ج-1، مطبوعة: مركز الدراسات والابحاث وإحياء التراث، الرباط، المغرب، 1431ھ، ص: 107 -108
  • 44 محمد بن محمد ابن سيد الناس، عيون الاثر فى فنون المغازى والشمائل والسير، ج-1، مطبوعة: دار القلم، بيروت، لبنان،1414ھ، ص:33
  • 45 عبد الرحيم بن الحسين العراقى، المورد الهنى فى المولد السنى، مطبوعة: دار السلام للطباعة والنشر والتوزيع والترجمة، القاهرة، مصر،1431ھ، ص:248
  • 46 يوسف بن عبد الله القرطبي، الاستيعاب فى معرفة الاصحاب، ج-1، مطبوعۃ: دار الجيل، بيروت، لبنان،1412ھ، ص:30
  • 47 شیخ یوسف بن إسماعيل النبهانى، الانوار المحمدية من المواهب اللدنية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م، ص:20
  • 48 محمد عبد الرؤف المناوى، العجالة السنية على الفية السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1424 ھ، ص:28
  • 49 عبد اللہ محمد ابکر،صور من تراث مکۃ المکرمۃ،مطبوعة: مؤسسۃ علوم القرآن،بیروت، لبنان، 2004م،ص:38
  • 50 شیخ علی بن عبد القادر الطبری،الارج المسکی فی التاریخ المکی،مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ،المکۃ المشرفۃ،السعودیۃ، 1996م،ص:65
  • 51 شیخ محمد بن احمد المالکی المکی،تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعرالعظام،ج-1،مطبوعۃ: مکتبۃ الاسدی،مکۃ المشرفۃ،السعودیۃ،2004م،ص:536
  • 52 شیخ محدث عبد اللہ الغازی المکی،افادۃ الانام بذکر اخبار بلد اللہ الحرام،ج-2،مطبوعۃ:مکتبۃ الاسدی للنشر والتوزیع،المکۃ الکرمۃ،السعودیۃ،2009م،ص: 67 -68
  • 53 محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف فى فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ ، ص:258
  • 54 أبو عبد الله محمد بن اسحاق الفاكهي، أخبار مكة فى قديم الدهر وحديثه، ج-4، مطبوعة: مكتبة الأسدى، مكة المكرمة، السعودية،1430ھ، ص:5
  • 55 محمد بن عبد الله الازرقى، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:812
  • 56 محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف فى فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ، ص:286
  • 57 شهاب الدين احمد بن حجر الهيثمى،مولد ابن الحجر الهيثمى، مخطوط جامعة الملك الفيصل، مملكة العربية السعودية، رقم اللوحة:11
  • 58 عبد اللہ محمد ابکر،صور من تراث مکۃ المکرمۃ، مطبوعة:مؤسسۃ علوم القرآن، بیروت، لبنان، 2004م، ص:38
  • 59 الدکتور ناصر بن علی الحارثی،الآثار الاسلامیۃ فی مکۃ المکرمۃ،مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد،الریاض،السعودیۃ،2009م، ص: 349 -350
  • 60 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم،مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیما و حدیثا، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک الفھد،الریاض، السعودیۃ، 2012م،ص: 42 -51
  • 61 شمس الدين محمد بن ابى بكر ابن قيم الجوزية، اعلام الموقعين عن رب العالمين، ج-2،مطبوعة:دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1991م، ص:282
  • 62 محمد بن احمد جبير الاندلسى، رحلة ابن جبير، مطبوعة: دار ومكتبة الهلال، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا) ص: 92
  • 63 شیخ محمد بن احمد المالکی المکی،تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعرالعظام،ج-1،مکتبۃ الاسدی،مکۃ المشرفۃ،السعودیۃ،2004م،ص:537
  • 65 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم،مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیما وحدیثا، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک الفھد،الریاض، السعودیۃ، 2012م،ص:66
  • 66 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء، ص:23
  • 67 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم،مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماً و حدیثاً،مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ،2012م،ص:50-51
  • 68 ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن عبد البر،الاستیعاب فی اسماء الاصحاب،ج-1،مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ، بیروت، لبنان، 1939م،ص:13
  • 69 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی،الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،ج-1،مطبوعۃ:مطبعۃ الجمالیۃ،القاہرۃ، مصر،1941م،ص:107
  • 70 شیخ تقی الدین احمد بن علی المقریزی،امتاع الاسماع بما لنبی ﷺ من الاموال والحفدۃ والمتاع،ج-1،مطبوعۃ:لجنۃ التالیف والترجمۃ والنشر،القاھرۃ،مصر،1972م،ص:408
  • 71 احمد زینی دحلان،سالنامۃ العربیۃ المأثورۃ فی شأن الدول العثمانیۃ، مطبوعۃ:مطبعۃ المیریۃ،مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 1885م، ص:148
  • 72 شیخ عاتق بن غیث البلادی، معالم مکۃ التاریخیۃ والاثریۃ، مطبوعۃ: دار مکۃ للنشر والتوزیع، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 1983ء،ص:69
  • 74 حضرت خدیجہ کا مکان مولدِ فاطمہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ ۔۔محلہ زقاق الحجر میں یہ مکان سر ِراہ واقع ہے۔ چھ سیڑہیاں اتر کر اس میں داخل ہوتے ہیں ، سامنے صحن ہے جس کے بائیں جانب ایک چبوترہ ہے، یہاں مکتب ہے بچے قرآن شریف پڑھتے ہیں ، اس چبوترہ کے بائیں جانب ایک دروازے میں سے تین سیڑھیاں چڑھ کر دو گز چوڑے رستے میں پہنچتے ہیں۔اس کے تین دروازے ہیں ، بائیں جانب کا دروازہ ایک کوٹھری میں کھلتا ہے جو کوئی تین گز لمبی اور اس سے بھی کم چوڑی ہے۔ یہاں آنحضرتﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس کے بائیں جانب ایک جگہ ہے وہ آنحضرت ﷺکا وضو خانہ کہلاتا ہے ، صحن کے سامنے ایک بڑا دروازہ اس مکان میں کھلتا ہے جس میں حضرت خدیجہ سکونت رکھتی تھیں ۔ اس کی لمبائی چھ گز، چوڑائی چار گز ہے، اس کے دائیں جانب ایک دروازہ اس کوٹھری کا ہے جو حضرت ِفاطمہ کا مولد کہلاتا ہے، اس کی لمبائی سات گز چوڑائی چار گز ہے، یہاں ایک قبہ بنا ہوا ہے جہاں حضرت فاطمہ پیدا ہوئی تھیں ۔ ایک گول پتھر چکی کے پاٹ کے مانند اس قبے کے اندر نصب ہے۔ کہتے ہیں کہ یہی جائے ولادت حضرت فاطمہ الزہرا ہے ، بائیں جانب ایک کمرہ بڑا اور ہے جو مردانہ نشست گاہ کا کام دیتا تھا، صحن میں سے اس مکان میں پہنچتے ہیں جہاں حضرت خدیجہ کا سامانِ تجارت رکھا جاتا تھا۔تیرہ سو پینتالیس( 1345 ھ) میں حضرت خدیجہ کا مکان میں نے منہدم پایا ۔ (علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء،ص:10)
  • 75 زقاق کے معنی گلی کے ہیں ، اس گلی میں ایک پتھر حضرت خدیجہ کے مکان میں لگا ہوا تھا جس کی نسبت یہ مشہور ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو سلام کیا کرتا تھا ، اس وجہ سے اس گلی کا یہ نام ہوگیا۔ (علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء، ص:10)
  • 76 شفاء الغرام میں اس حوالہ سےمذکورہے: دار خديجة بنت خويلد أم المؤمنين رضى الله عنها بالزقاق المعروف بزقاق الحجر بمكة، ويقال له أيضا: زقاق العطارين على ما ذكره الأزرقى، وتعرف هذه الدار بمولد فاطمة ، لكونها ولدت فيها هى وإخوتها أولاد خديجة من النبىﷺ على ما ذكره الأزرقى، وذكر أن النبى ﷺ بنى بخديجة فيها، وأنها توفيت فيها، ولم يزل النبىﷺ ساكنا فيها حتى هاجر إلى المدينة۔( محمد بن أحمد تقي الدين الفاسى، شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1421ھ، ص:360)ترجمہ:ام المؤمنین حضرت خدیجہ کا گھر مکہ کےمشہورمحلہ زقاق حجرمیں ہےجسے زقاق عطارین بھی کہاجاتاہےجیساکہ امام ازرقی نے ذکرکیاہے۔یہ گھر حضرت فاطمہ کی جائے پیدائش سے جاناجاتاہےکیونکہ آپ اورآپ کے بھائیوں کی پیدائش اس میں ہوئی جیساکہ امام ازرقی نے ذکرکیا ہے۔انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہےکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجہ سےنکاح بھی اسی گھر میں کیا اورآپ نے اسی میں وفات پائی ، نبی پاک ﷺ بھی اسی گھر میں ساکن رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
  • 77 جدہ سے مکہ جاتے وقت دائیں جانب حدیبیہ کا مقام ہےجہاں ایک سنگین مسجد اور پختہ کنواں سلطان محمود خان کا تعمیر کردہ موجود ہے۔ اس مسجد کو مسجد الشجرہ اور مسجدِ بیعت کہتے ہیں ۔ مسجدِ بیعت اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ اس جگہ تعمیر کی گئی ہے جہاں وہ درخت تھا جس کے نیچے بیٹھ کر آنحضرت ﷺنے مسلمانوں سے مرنے پر بیعت لی تھی۔ اس وجہ سے مسجد الشجرہ بھی اس کا نام ہے۔ )( محمد بن احمد تقى الدين الفاسى، شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1421ھ ، ص:268)اس درخت کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں آیا ہے ۔لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ(القرآن،سور ۃ الفتح18:48) یعنی اللہ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جنہوں نے آپﷺ سے اس درخت کے نیچے بیعت کی۔ مسلمان اس درخت اور اس مقام کو بڑا مبارک سمجھنے لگے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ان کی نسبت اظہارِ خوشنودی فرمایا تھا۔ بعض لوگ آتے جاتے ہوئے یہاں بیٹھ جاتے اور دو رکعت نماز نفل پڑھ لیتے تھے۔ حضرت عمر نے اس خیال سے کہ آئندہ چل کر مسلمان شجر پر ست نہ بن جائیں اور اس کے پتے پھل ، پھول ، چھال اور بیج تبرک بنا بناکر نہ لے جانے لگیں اسکو کاٹ ڈالا۔ (محمد بن صالح العثيمين، القول المفيد على كتاب التوحيد، ج-1، مطبوعة: دار ابن الجوزى، الرياض، السعودية، 1424ھ، ص:196)
  • 78 اس وقت آنحضرت ﷺ کے ساتھ کوئی ڈیڑھ ہزار مسلمان تھے اور انہوں نے ایک درخت کے نیچے جو حدیبیہ میں تھا ، آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر مرنے مارنے کیلئے بیعت کی تھی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا مژدہ عطا کیا اور اس وجہ سے یہ بیعت "بیعت رضوان" کہلاتی ہے یعنی بیعت ِخوشنودئِ خدا مگر اس وقت کفار سے لڑنے کی نوبت نہ آئی اور صلح کے بعد آنحضرت ﷺ مدینے واپس تشریف لے گئے ۔ (ادارہ)
  • 79 صلح نامہ حدیبیہ کی ایک شرط یہ تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ نہ کریں بلکہ سال آئندہ آئیں مگر تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں چنانچہ آنحضرت ﷺ دوسرے سال عمرہ کےلیے تشریف لائے تھے یہ عمرہ "عمرۃ القضا "کہلاتا ہے۔ (محمد الغزالى السقا، فقه السيرة، مطبوعة: دار القلم، دمشق، السورية، 1427ھ، ص:332)
  • 80 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء، ص:9-12
  • 81 چوتھی مرتبہ کا ذکر اگلے صفحات پر تفصیلاً آرہا ہے اور یہ آپﷺ کا مکہ کی طرف آخری سفر مبارک تھا۔( ادارہ)
  • 82 محمد بن عبد الله الازرقى، اخبارمكة وما جاء فيها من الأثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:744
  • 83 ابو الحسن علی بن محمد الشھیر بابن الاثیر،الکامل فی التاریخ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م،ص:416
  • 84 شیخ محدث عبد اللہ الغازی المکی، افادۃ الانام بذکر اخبار بلد اللہ الحرام، ج-2، مطبوعۃ:مکتبۃ الاسدی للنشر والتوزیع،المکۃ الکرمۃ،السعودیۃ،2009م،ص:68
  • 85 حسين بن محمد الديار بكرى، تاريخ الخميس فى احوال انفس النفيس، ج-1، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م، ص:364
  • 86 محمد بن عبد الله الازرقى، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدي، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:811
  • 87 شیخ محمد بن احمد المالکی المکی،تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعرالعظام،ج-1،مکتبۃ الاسدی،مکۃ المشرفۃ،السعودیۃ،2004م،ص:536-537
  • 88 شیخ محدث عبد اللہ الغازی المکی،افادۃ الانام بذکر اخبار بلد اللہ الحرام،ج-2،مطبوعۃ:مکتبۃ الاسدی للنشر والتوزیع،المکۃ الکرمۃ،السعودیۃ،2009م،ص:68
  • 89 حسين بن محمد الديار بكرى، تاريخ الخميس فى احوال انفس نفيس، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م،ص:364
  • 90 ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی،مسند الامام احمد بن حنبل،حدیث:21752،ج-36،مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001م،ص:84
  • 91 ابو جعفر احمد بن محمدالمصری الشھیر بالطحاوی،شرح مشکل الآثار،حدیث:2504، ج-6، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،1994م،ص:310
  • 92 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی،المسند المستخرج علی صحیح الامام المسلم، حدیث:3145،ج-4،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996م،ص:30
  • 93 ابو الحسن علی بن سلطان الھروی الشھیر بملا علی قاری،مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح،حدیث:2664،ج-5، مطبوعۃ:دار الفکر، بیروت، لبنان،2002 م،ص:1839
  • 94 ابو السعادات مبارک بن محمدالجزری،الشافی فی شرح مسند الشافعی لابن الاثیر،ج-4،مطبوعۃ:مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ،2005م،ص:145
  • 95 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی،السنن الکبریٰ ،حدیث:4241،ج-4،مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:249
  • 96 ابو داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی، سنن ابوداؤد، حدیث:2010، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض۔ السعودية، 2009م،ص:406-407
  • 97 مکہ معظمہ میں جنت المعلیٰ کے سامنے کا بلند پہاڑی حصہ حجون کہلاتا ہے، یہاں بھی قبرستان ہے جس کی وجہ سے اسکو مقبرہ حجون بھی کہتے ہیں ۔( ابو عبد الله محمد بن اسحاق الفاكهى، اخبار مكة فى قديم الدهر وحديثه، ج-4، مطبوعة: دا رخضر، بيروت، لبنان،1414ھ، ص:114)
  • 98 محمد بن عبد الله الأزرقى، أخبارمكة وما جاء فيها من الأثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:744
  • 99 اخبار مکہ للازرقی میں اس حوالہ سے روایت مذکورہے: رأيت رسول الله ﷺ مضطربا بالحجون في الفتح يأتى لكل صلاة۔ (محمد بن عبد الله الازرقى، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:744) ترجمہ: میں نے دیکھاکہ فتح مکہ کے وقت حضورﷺحجون میں مجبوراً رکےاور وہاں سے ہرنمازکےلیےتشریف لاتے۔
  • 100 وفات کے تین چار مہینے قبل جو آپﷺ نے حج کیا تھا وہ" حجۃ الوداع "کہلاتا ہے۔ آپ ﷺنے اس طرح نصیحت و وصیت فرمائی تھی گویا اپنی امت سے رخصت ہورہے ہیں اور مسلمانوں کو الوداع کہہ رہے ہیں اور اس وجہ سے اس حج کو "حجۃ الوداع" کہاجاتا ہے ۔(ادارہ)
  • 101 اس حوالہ سے اخبار مکہ میں ہے:أن النبىﷺ لم ينزل بيوت مكة بعد أن سكن المدينة قال: كان إذا طاف بالبيت انطلق إلى أعلى مكة، فضرب به الأبنيةقال عطاء: وفعل ذلك فى حجته أيضاً۔ (محمد بن عبد الله الأزرقي، أخبارمكة وما جاء فيها من الأثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:745)ترجمہ: مدینہ منورہ میں قیام کےبعد نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ کےگھروں میں سکونت اختیارنہ فرمائی۔راوی نے فرمایاکہ جب آپ ﷺ طواف فرماتےتو مکہ مکرمہ کی اونچی جانب والے گھروں میں قیام فرماتے۔ عطاء نےفرمایا:آپ ﷺ نے اپنے حج کےموقع پربھی ایسا ہی فرمایا۔
  • 102 محمد بن عبد الله الازرقى، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة: مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص :745
  • 103 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا، 1930ء، ص:12-14
  • 104 اسی حوالہ سے الاعلام میں مذکورہے: أن الكعبة الشريفة لما بناها سيدنا إبراهيم عليه السلام لم يكن حولها داراً ولا جداراً...فلما آل أمر البيت إلى قصي بن كلاب واستولى على مفتاح الكعبة جمع قصي قومه وأذن لهم أن يبنوا بمكة حول البيت الشريف بيوتاً من جهاتها الأربع...وجعلوا بين كل دارين من دورهم مسلكاً شارعاً فيه باب يسلك منه إلى بيت الله الحرام، ثم كثرت البيوت واتصلت إلى زمن النبيﷺ فولد عليه الصلاة والسلام على أشهر الأقوال بشعب بني هاشم بقرب من المحل المسمى الأن بشعب علي...ثم لما ظهر الإسلام وكثر المسلمون استمر الحال على ذلك الوضع في زمن النبيﷺ وزمان خلافة سيدنا أبي بكر الصديق ثم زاد ظهور الإسلام وتكاثر المسملون في زمن أمير المؤمنين عمر الفاروق فرأى أن يزيد في المسجد الحرام فاوّل زيادة زيدت في المسجد الحرام زيادته... ثم كثر الناس في زمان أمير المؤمنين سيدنا عثمان بن عفان فأمر بتوسيع المسجد...وذكر ابن جرير الطبري وابن الأثير والجوزي في تأريخهم: أن زيادة أمير المؤمنين عمر بن الخطاب كانت في سنة 16 من الهجرة... وأن زيادة أمير المؤمنين عثمان بن كانت في سنة 31 من الهجرة... زيادة أمير المؤمنين عمر بن الخطاب كانت عقب السيل العظيم في سنة 17 من الهجرة۔محمد بن أحمد النهرواني، كتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام، مطبوعة: المكتبة التجارية مصطفى ، مكة المكرمة، السعودية،(لیس التاریخ موجوداً) ص:109-111ترجمہ:جب حضرت ابراہیم نے کعبہ شریف کی تعمیر فرمائی تو اس کے آس پاس نہ کوئی گھرتھا اورنہ دیوار۔۔۔ جب بیت اللہ شریف کی ذمہ داری اورچابی قصی بن کلاب کےہاتھ آئی تو قصی نے اپنی قوم کو جمع کرکے انہیں کعبہ شریف کے چاروں جانب گھربنانے کی اجازت دیدی۔۔۔ انہوں نے گھروں کی ترتیب ایسے بنائی کہ اپنے گھروں میں سے ہر دو گھروں کے مابین کشادہ راستہ(سڑک نما)بنایا جس سےگزرکربیت اللہ شریف کی جانب جایاجاتا،پھر نبی کریم ﷺکی ولادت کےزمانہ تک کثرت سے گھر بنتے رہے۔پس مشہور اقوال کے مطابق نبی کریم ﷺشعبِ بنی ہاشم میں پیداہوئے جو آج کل شعب ِعلی کہلاتی ہے۔۔۔پھرنبی کریمﷺاورخلافتِ ابو بکرصدیق کے زمانہ میں جب اسلام کا غلبہ ہوا جس کے سبب مسلمانوں کی کثرت ہوئی تو معاملہ اسی حالت میں جاری رہاپھر جب حضرت عمر کےزمانہ میں اسلام کاغلبہ عروج پرپہنچااورمسلمانوں کی تعدادمزید بڑھی تو حضرت عمر نےمسجد الحرام میں توسیع کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس میں توسیع فرمائی، یہ پہلی توسیع تھی جو مسجد الحرام میں کی گئی۔۔۔پھر حضرت عثمان بن عفان کےزمانہ میں مسلمانوں کی مزیدکثرت ہوئی تو آپ نے توسیع کا حکم فرمایا۔۔۔ امام طبری اورابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ذکر کیاہےکہ امیر المؤمنین حضرت عمر کی توسیع سولہویں(16ھ) میں ہوئی۔۔۔اور توسیع عثمان بن عفان اکتیسویں (31)میں ہوئی۔۔۔توسیع عمر سترہ (17ھ) کے میں سیلابِ عظیم کے بعد ہوئی تھی۔
  • 105 حضرت علی المرتضی کی خلافت پینتیس( 35 ھ) سے چالیس(40ھ) تک کوئی ساڑھے پانچ برس رہی اور تقریباً یہ کل مدت جنگ ِجمل ، جنگِ صفین اور جنگِ نہروان وغیرھم خانہ جنگوں میں گزر گئی ۔ (ادارہ)
  • 106 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا، 1930ء،ص:14
  • 107 اس حوالہ سے اخبار مکہ للازرقی میں ہے: فلما أدبر جيش الحصين بن نمير، وكان خروجه من مكة لخمس ليال خلون من ربيع الآخر سنة أربع وستين، دعا ابن الزبير وجوه الناس وأشرافهم وشاورهم فى هدم الكعبة، فأشار عليه ناس غير كثير بهدمها، وأبى أكثر الناس هدمها۔(محمد بن عبد الله الازرقى، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-1، مطبوعة:مكتبة الاسدي، مكة المكرمة، السعودية، 2012م، ص:298) ترجمہ: جب حصین بن نمیر کی فوج واپس پلٹی توربیع الثانی سن چونسٹھ( 64ھ) کی پانچ راتیں گزرچکی تھیں۔ حضرت زبیرنے اشراف واصحابِ جاہ لوگوں سے کعبہ مشرفہ کے ڈھانے کےمتعلق مشاورت کی توچندلوگوں نے ان سے اتفاق کیا اوراکثرنے اس کے گرانے کے متعلق اختلاف کیا۔
  • 108 ولید بن عبد الملک کی سلطنت چھیاسی(86ھ)سےستانوے(97ھ) 86 ھ سے 97 تک تھی ۔ اس نے مسجد نبوی تعمیر کے لیے چالیس رومی اور چالیس قبطی عیسائی کا ریگر طلب کیے تھے۔ تعمیر کا کام نواسی( 89 ھ) سے شروع ہوکراکانوے( 91 ھ) میں ختم ہوا تھا۔ موجودہ مسجد ِنبوی اسی وضع پر قائم ہے جو ولید بن عبد الملک نے تجویز کی تھی ۔ (ابو الفداء اسماعيل بن عمر الدمشقى، البداية والنهاية، ج-9، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1407ھ، ص:75)
  • 109 سب سے پہلےایک سو ستر( 170 ھ) میں ہارون الرشید کی ماں ملکہ خیزران نے آنحضرت ﷺکے حجرۂ غلاف ڈالا تھاجس کے متعلق امام سمہودی لکھتےہیں: ان على حجرة النبى ﷺأى على سقفها ثوبا مشمعا مثل الخيمة۔( ابو الحسن على بن عبد الله السمهودى، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1419ھ، ص:129)ترجمہ: نبی کریم ﷺکے حجرہ مبارکہ کی چھت پرخیمہ نما چمکیلاکپڑاہے۔
  • 110 ملکہ خیزران ایک سو ستر(170ھ) میں جب زیارت کو آئی تھی تو اس نے اپنی ایک کنیز مونسہ نامی سے حجرہ شریف کی دیواروں پر عطر ملوایا تھا۔( محمد بن احمد تقي الدين الفاسى، شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، ج-2، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان ، 1421ھ، ص:427)
  • 111 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء، ص:15-16
  • 112 محمد بن احمد تقي الدين الفاسى، شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان ، 1421ھ، ص:365
  • 113 ابو الفرج على بن إبراهيم الحلبى، انسان العيون فى سيرة الأمين المأمونﷺ،ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1427ھ، ص:92
  • 114 محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف فى فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ، ص:285
  • 115 عبد الرحمن بن عبد الله السهيلی، الروض الأنف فى شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-2، مطبوعة: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان، 1421ھ، ص:99
  • 116 محمد بن عبد الله الازرقى، اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:811
  • 117 ابو الحسن علی بن محمد الشھیر بابن الاثیر،الکامل فی التاریخ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1997م، ص:416
  • 118 ابو سرحان مسعود بن محمد الفاسى، نفائس الدرر من أخبار سيد البشرﷺ،ج-1، مطبوعة: مركز الدراسات والأبحاث وإحياء التراث، الرباط، المغرب، 1431ھ، ص:107-108
  • 119 عبد اللہ محمد ابکر،صور من تراث مکۃ المکرمۃ، مطبوعة:مؤسسۃ علوم القرآن، بیروت، لبنان، 2004م،ص: 38 -39
  • 120 محمد عبد الرؤف المناوى، العجالة السنية على الفية السيرة النبوية، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1424ھ، ص:28
  • 121 شهاب الدين احمد بن حجر الهيثمى ،مولد ابن الحجر الهيثمى، مخطوط جامعة الملك الفيصل، مملكة العربية السعودية، رقم اللوحة:11
  • 122 محمد بن احمد تقي الدين الفاسى، شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان ، 1421ھ، ص:357
  • 123 شیخ علی بن عبد القادر الطبری،الارج المسکی فی التاریخ المکی، مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ،المکۃ المشرفۃ،السعودیۃ، 1996م،ص:65-66
  • 124 شیخ محمد بن احمد المالکی المکی،تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعرالعظام،ج-1،مکتبۃ الاسدی،مکۃ المشرفۃ،السعودیۃ،2004م،ص:539
  • 125 شیخ علی بن عبد القادر الطبری،الارج المسکی فی التاریخ المکی، مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ،المکۃ المشرفۃ،السعودیۃ، 1996م، ص:66
  • 126 ابراهيم رفعت باشا، مرآة الحرمين، ج-1، مطبوعة: دار الكتب المصرية ،القاهرة، مصر،1344 ھ، ص:189
  • 127 شیخ علی بن عبد القادر الطبری،الارج المسکی فی التاریخ المکی، مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ،المکۃ المشرفۃ،السعودیۃ، 1996م،ص:66
  • 128 شیخ محمد بن احمد المالکی المکی،تحصیل المرام فی اخبار البیت الحرام والمشاعرالعظام،ج-1،مکتبۃ الاسدی،مکۃ المشرفۃ،السعودیۃ،2004م،ص:539
  • 129 شیخ علی بن تاج الدین بن تقی الدین السنجاری،منائح الکرم فی اخبار مکۃ والبیت وولاۃ الحرم،ج-3،مطبوعۃ:جامعۃ ام القُرٰی،مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ،1998م، ص:506
  • 130 ابراهيم رفعت باشا، مرآة الحرمين، ج-1، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر،1344ھ، ص: 188 -189
  • 131 شیخ علی بن تاج الدین بن تقی الدین السنجاری،منائح الکرم فی اخبار مکۃ والبیت وولاۃ الحرم،ج-3،مطبوعۃ:جامعۃ ام القُرٰی،مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ،1998م، ص:507
  • 132 شیخ علی بن عبد القادر الطبری،الارج المسکی فی التاریخ المکی،مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ،المکۃ المشرفۃ،السعودیۃ، 1996م،ص:66
  • 133 ابراهيم رفعت باشا، مرآة الحرمين، ج-1، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر،1344ھ، ص: 188 -189
  • 134 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم،مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماً و حدیثاً،مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ،2012م،ص: 65-67
  • 135 الدکتور ناصر بن علی الحارثی،الآثار الاسلامیۃ فی مکۃ المکرمۃ،مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:353-354
  • 136 ابراهيم رفعت باشا، مرآة الحرمين، ج-1، مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر،1344ھ، ص:189
  • 137 شیخ علی بن عبد القادر الطبری،الارج المسکی فی التاریخ المکی،مطبوعۃ:المکتبۃ التجاریۃ،المکۃ المشرفۃ،السعودیۃ، 1996م،ص:66
  • 138 شیخ علی بن تاج الدین بن تقی الدین السنجاری،منائح الکرم فی اخبار مکۃ والبیت وولاۃ الحرم،ج-3،مطبوعۃ:جامعۃ ام القُرٰی،مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ،1998م، ص:507
  • 139 شیخ محدث عبد اللہ الغازی المکی،افادۃ الانام بذکر اخبار بلد اللہ الحرام،ج-2،مطبوعۃ:مکتبۃ الاسدی للنشر والتوزیع،المکۃ الکرمۃ،السعودیۃ،2009م،ص:71
  • 140 اس حوالہ سے علماء ذی وقار کی رائے مقالہ کے آخری حصہ میں ذکر کی گئی ہیں۔جن سے اس بات کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ ان مقامات کی اہمیت ہر طرح مسلم و مثبت رہی ہے۔بعض معدودے افراد نے اپنی ایک خاص ذہنیت کی بنیاد پر ان کو منہدم کر کے امت مسلمہ کی غالباً بارہ (12) سو سالہ تاریخ کو یکسر و آن ِ واحد میں بد ل دیا جو کسی بھی طور پر قابلِ تحسین نہیں ہے۔(ادارہ)
  • 141 جے-ایل- بر کہا رٹ (J.L. Burckhardt) باشندۂ سوئٹزرلینڈ نے اٹھارہ سو چودہ(1814ء)میں ابراہیم ابن عبداللہ کے نام سے سفر حجاز کیا تھا۔ یہ عرب سیاحوں کا بادشاہ کہلاتا ہےاور اس کی تصانیف میں سفرنامہ عرب، سفرنامہ شام، سفرنامہ نابہ اور بدویوں اور وہابیوں کے حالات بہت مشہور ہیں۔ John Lewis Burckhardt (1829), Travels in Arabia, Authority of the Association for Promoting The Discovery of the Interior of Africa, London, U.K., Vol. 1, Pg. 3-5.
  • 142 جے-ایل- بر کہا رٹ (J.L. Burckhardt) ،سفر نامہ حجاز (مترجم: علی شبیر)، جـ-1، مطبوعہ: تاج پریس ،دکن،انڈیا (سن اشاعت ندارد)، ص:125
  • 143 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء، ص:20-21
  • 144 محمد لبيب البتنونى، الرحلة الحجازية، مطبوعة:مطبعة الجمالية، مصر، 1329ھ، ص:52
  • 145 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء، ص:23
  • 146 القرآن، سورۃالتوبۃ09 : 128
  • 147 علی شبیر،تاریخ مولد النبیﷺ،مطبوعہ:دکن لارپورٹ، دکن،انڈیا،1930ء، ص:23-24
  • 148 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم،مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماً و حدیثاً،مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ،2012م،ص :52-55
  • 149 ایضاً،ص:78
  • 150 الدکتور ابو سلیمان عبدالوھاب ابراھیم ، مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیما وحدیثاً، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ ، الریاض ، السعودیۃ ، 2012م،ص:88-89
  • 151 الدکتور ناصر بن علی الحارثی، الآسثار الاسلامیۃ فی مکۃ المکرمۃ، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ،2007م،ص:358
  • 152 شیخ محمد طاہر الکردی المکی،التاریخ القویم لمکۃ وبیت اللہ الکریم، ج-1،مطبوعۃ:دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان،2000م،ص:286-287
  • 153 ابو سلیمان عبد الوھاب ابراھیم، مکتبۃمکۃالمکرمۃقدیماوحدیثا، مطبوعۃ: مکتبۃ الملک الفھد، الریاض، السعودیۃ، 2012م،ص:75-76
  • 154 امیر ارسلان شکیب،السید رشید رضا واخاء اربعین سنۃ،ج-1،مطبوعۃ:مطبعۃ ابن زیدون،دمشق،السوریۃ، 1938م، ص: 458-459
  • 155 مسعود عالم ندوی،سلسلۃ اعمال المحکمۃ،مطبوعۃ:مکتبۃ الملک عبد العزیز،الریاض،السعودیۃ،2001م، ص:495-496
  • 156 الدکتور ناصر بن علی الحارثی، الآثار الاسلامیۃ فی مکۃ المکرمۃ، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ،2007م،ص: 358 -359
  • 157 الدکتور ابو سلیمان عبدالوھاب ابراھیم ، مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیماً و حدیثاً ، مطبوعۃ : مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض ، السعودیۃ، 2012م،ص: 82 -84
  • 158 الدکتور ناصر بن علی الحارثی، الآثار الاسلامیۃ فی مکۃ المکرمۃ، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ، الریاض، السعودیۃ،2007م،ص: 359
  • 159 الدکتور ابو سلیمان عبدالوھاب ابراھیم ، مکتبۃ مکۃ المکرمۃ قدیما وحدیثاً، مطبوعۃ:مکتبۃ الملک فھد الوطنیۃ ، الریاض ، السعودیۃ ، 2012م،ص: 92 -93
  • 160 ایضاً،ص: 110- 114
  • 161 شیخ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی،فیوض الحرمین،مطبوعۃ:دار النعیمی للنشر والتوزیع، کراتشی، باکستان، 2011م، ص:272
  • 162 شیخ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،فیوض الحرمین(مترجم:پروفیسر محمد سرور)،مطبوعہ:دار الاشاعت،کراچی،پاکستان،1414ھ،ص:115
  • 163 محمد بن عبد الله الازرقی،اخبارمكة وما جاء فيها من الاثار، ج-2، مطبوعة:مكتبة الاسدى، مكة المكرمة، السعودية، 2012م،ص:812
  • 164 أبو عبد الله محمد بن اسحاق الفاكهي، أخبار مكة فى قديم الدهر وحديثه، ج-4، مطبوعة: مكتبة الأسدى، مكة المكرمة، السعودية،1430ھ، ص:5
  • 165 شیخ يوسف بن إسماعيل النبهانى، جواهر البحار فى فضائل النبى المختارﷺ، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2010م، ص:428
  • 166 ایک بات یہاں ذکرکرنا ضروری ہے کہ علامہ نہروانی کی کتابِ مذکور کاوہ نسخہ جو ادارہ میں موجود ہے اس میں مقامِ ولادت اورمعمولاتِ اہل ِ مکہ کا ذکر تفصیل سےموجودہےاور مذکورہ بالا عبارت اسی نسخہ سے ماخوذ ہے ۔ جبکہ اسی کتاب کا ایک نسخہ جو مکہ مکرمہ میں" المکتبۃ التجاریۃ" سے طبع ہواہےاس میں حذف و تصریف سےکام لیا گیاہے۔ اس طبع شدہ نسخہ کی عبارت یوں ہے۔" ويستجاب الدعاء في مولد رسو ل الله ﷺوهو موضع مشهور يزار إلى الآن. وفي مولد فاطمة الزهراء..........." (محمد بن أحمد النهروانى، كتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام، مطبوعة: المكتبة التجارية،المکۃ المکرمۃ،السعودیۃ،1996ء، ص:392)
  • 167 محمد بن أحمد النهروانی، كتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام، مطبوعۃ:المکتبۃ العلمیۃ، المکۃالمکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:355
  • 168 عبد الکریم القطبی، اعلام العلماء الاعلام ببناء المسجد الحرام، مطبوعۃ:دار الرفاع للنشر والطباعۃوالتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1983م،ص:154
  • 169 ابو الطیب محمد بن احمد المکی الفاسی،شفاء الغرام باخبار البلد الحرام،ج-1،مطبوعۃدار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2000م،ص:267
  • 170 محمد بن أحمد النهروانی، كتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام، مطبوعۃ: المکتبۃ العلمیۃ، المکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودا)، ص:355
  • 171 مقامِ مولد النبیﷺپر انعقادِ محافل وجلوس کا تفصیلی ذکر اسی جلد کے باب " تاریخ میلاد اور عصرِ حاضر" کے ضمن میں کیا جا چکا ہےاوریہاں اس حوالہ سے صرف چند حوالہ جات ذکر کیے جا رہے ہیں۔(ادارہ)
  • 172 عبد الکریم القطبی، اعلام العلماء الاعلام ببناء المسجد الحرام، مطبوعۃ: دار الرفاع للنشروالطباعۃوالتوزیع، الریاض، السعودیۃ ،1983م،ص:154
  • 173 محمد بن أحمد جبير الأندلسی، رحلة ابن جبير، مطبوعة: دار ومكتبة الهلال، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا) ص:91-92
  • 174 محمد بن عبد الله ابن بطوطة، رحلة ابن بطوطة(تحفة النظار فى غرائب الأمصار وعجائب الأسفار)، ج-1، مطبوعة: أكاديمية المملكة المغربية، الرباط، المغرب،1417ھ، ص:371
  • 175 ایضاً، ص:388
  • 176 أبو سرحان مسعود بن محمد الفاسى، نفائس الدرر من أخبار سيد البشرﷺ،ج-1، مطبوعة: مركز الدراسات والأبحاث وإحياء التراث، الرباط، المغرب، 1431ھ، ص:107-108
  • 177 شیخ یوسف بن إسماعيل النبهانی، جواهر البحار فى فضائل النبى المختارﷺ، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2010م، ص:428
  • 178 محمد بن محمد ابن ظهيرة المخزومي، الجامع اللطيف فى فضل مكة وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعة: مكتبة الثقافة الدينية، القاهرة، مصر،1423ھ، ص:285
  • 179 شیخ علی بن تاج الدین بن تقی الدین السنجاری،منائح الکرم فی اخبار مکۃ والبیت وولاۃ الحرم،ج-3،مطبوعۃ:جامعۃ ام القُرٰی،مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ، 1998ء، ص:217
  • 180 مابوالخیر محمد بن محمد ابن جزری،عرف التعریف بالمولد الشریف، مطبوعۃ:دار الحدیث الکنانیۃ، دمشق، السوریۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:23
  • 181 محمد بن محمد ابن ظھیرۃ القرشی،الجامع اللطيف فی فضل مکۃ وأهلها وبناء البيت الشريف، مطبوعہ:مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بیروت، لبنان، 2003ء،ص: 285 -286
  • 182 ابو الحسین محمد بن احمدبن جبیر الاندلسی،رحلۃ ابن جبیر،مطبوعۃ:دار ومکتبۃ الہلال، بیروت، لبنان(لیس التاریخ موجودًا)،ص:82
  • 183 نور الدین علی بن سلطان علی القاری،المورد الروی فی مولد النبیﷺ، مطبوعۃ:منہاج القرآن ببلیکیشنز،لاہور، باکستان،2011م ، ص:78-80
  • 184 محمد بن أحمد النهروانی، كتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام، مطبوعۃ:المکتبۃ العلمیۃ،المکۃالمکرمۃ،السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:355
  • 185 شیخ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی،فیوض الحرمین، مطبوعۃ:دار النعیمی للنشر والتوزیع، کراتشی، باکستان، 2011ء، ص:272