امت مسلمہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ والتسلیم ابتداء ہی سے محبت اور شوق سے میلاد النبیکا ذکر کرتی آرہی ہےاور مسلمان خواہ کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں اپنے تئیں میلاد النبی کی خوشی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرون ِاولیٰ سے لےکر آج تک مصنفین اپنی اپنی تحریرات میں اس موضوع پر لکھتے رہے ہیں اوریہ سلسلہ ہنوز بھی جاری ہے اور آئندہ بھی بفرمانِ باری تبارک وتعالیٰ جاری ہی رہے گا۔ 1
رسول اللہ کے زمانۂ ولادت اور ظاہری وقتِ وصال کو گو کہ کئی صدیاں گزر چکی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آج کے دور کا ہر فرد عمومی طور پر نبی کریم کو جانتا ہے اور بالخصوص اہل اسلام تو آپ کی ہر ادا ، ہر فرمان اور آپ سے منسوب ہر چیز کو قابلِ احترام جان کر پہچانتے اور مانتےہیں۔ اسی طرح میلاد النبی منانابھی اہل ِاسلام میں معروف ومشہور ہے جو واضح طور سے اس بات کی دلیل فراہم کرتا ہے کہ امت ِمسلمہ اپنے دور اوّل سے ہی نبی کریم کی ولادت ِاقد س کے احوال و واقعات کو نظماً ونثراً،قولاً وتحریراً اورنسل درنسل منتقل کرتی چلی آرہی ہے۔گویا امت کے اولین دور کے افراد، مولود النبی کے احوال وواقعات کو بیان کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے نہ کہ نئی چیز،البتہ عرف ہر زمانہ میں جدا جدا رہا۔
میلاد النبی کی محافل کا انعقاد،لوگوں کو اکل وشرب کی دعوت دینا اور رسول اللہ کے احوال ِولادت کا ذکر کرنایہ مہتمم باالشان کام ہےجس سے رسول اللہ کی محبت اہلِ ایمان کےدلوں میں تازہ رہتی ہے جو اتباع رسول کیے لیے انتہائی ضروری چیز ہے۔یہ مقالہ میلاد النبی کی تاریخ اور عصرِ حاضر میں اس کی شکل وصورت کے موضوع پر قلمبند کیا گیا ہے۔اس موضوع پہ تحریر کرنے سے پہلے اس بات کا سمجھنا از بس ضروری ہے کہ میلاد النبی کی اصل رسول مکرم کے دور میں اور اس کے بعد قرون اولی کے دور میں بھی ملتی ہے اورگویا میلاد النبی کی تاریخ شروع ہی رسول مکرم کے دور بے مثال سےہوتی ہےلہذا چند بنیادی چیزیں پہلے ذکر کی جارہی ہیں جس سے موضوع کی تاریخی وشرعی حیثیت کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔
انسانی فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب کوئی مشکل حل ہو، دُکھ دور ہو، کوئی احسان واکرام ہو اور رحمت ونعمت نصیب ہو تو انسان کے چہرے پر فرحت ومسرت، خوشی وانبساط کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں۔ انسان کی کوئی بھی خواہش پوری ہو یا کوئی مشفق ومہربان شخصیت مل جائے، تو انسان خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور یہ خوشی چھپائے نہیں چھپتی بلکہ آنکھوں سے ٹپکتی ہے، رخساروں سے چھلکتی اور ماتھے پہ بکھرتی ہے،انگ انگ میں سماجاتی ہے اور عادات واطوار، افعال و عمال میں رنگ چڑھاتی ہے۔ ہر ایک سے اس کا ذکر خود بخود ہونے لگتا ہے اور یوں خوشی کا چرچا اور شہرہ عام ہوجاتا ہے۔
رحمت ونعمت پر خوشی نہ منانے سے لوگ تو ناراض ہوتے ہی ہیں خود خالق کائنات اﷲ رب العزت بھی ناراضگی کا اظہار فرماتا ہے۔ اگر کسی خوش نصیب شخص کو بیٹے کی نعمت سے سرفراز کیا جائے اور وہ بجائے خوش ہونے کے رونے لگ جائے، واویلا شروع کردے، نوحہ وماتم بپا کردے ،اپنی بساط اور طاقت کے مطابق اس پر خوشی کا اظہار نہ کرے تولوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص اس نعمت کے لائق ہی نہیں تھا، یہ تو بدنصیب اور ناقدرا شخص ہے کہ اس کو خدا کی نعمت کی خوشی ہی نہیں ہوئی اور ہر کوئی اس کی طرف پر شکوہ نگاہ سے دیکھے گا۔ ہر کسی کو اس کی اس ناقدری، ناسپاہی اور عدم شکر گزاری کا گلہ ہوگا۔حالانکہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَاَمَّا بِنِعْمَة رَبِّكَ فَحَدِّثْ112
اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔
اور نعمت ورحمت، احسان واکرام پر ناشکری کرنے والوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ناراضگی کا یوں اظہار فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰه لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ2433
بیشک اﷲ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ (اس کا) شکر ادا نہیں کرتے۔
اس آیت کا اسلوب بتارہا ہے کہ فضل ورحمت، کرم فرمائی وسایہ گستری کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس احسان واکرام پر شکر خداوندی بجالائیں۔فضل وکرم پر شکر ادا نہ کرنا خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے خلاف ہے اور اس کی ناراضگی کا سبب ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِہِ الْكُفْرَ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَه لَكُمْ......74
اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح فرمادیا ہےکہ خدا کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ اس کے شکر گزار بندہ بن جاؤ۔ایک مقام پر شکر گزاری کا فائدہ اور ناشکری کا نقصان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ7 5
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔
یعنی جس طرح شکر مزید انعام واکرام کا باعث ہے اسی طرح ناشکری اور کفرانِ نعمت محرومی اور عذابِ اخروی کا سبب ہے کیونکہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا:
من أبلى بلاء فذكره، فقد شکره، وإن كتمه فقدكفره. 6
یعنی جس شخص کو کوئی تحفہ یا نعمت دی گئی تو اگر اس نے اسے یاد رکھا تو یہ شکر گزاری ہے اور اگر اس نے اسے چھپایا اور بیان نہ کیا تو یہ اس نعمت کی ناشکری ہوگی۔
اسی حوالہ سے امام قرطبی فرماتے ہیں:
والتحدث بنعم اللّٰه، والاعتراف بھا شکر. 7
اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم اور نعمتوں کا ذکر ان کا اظہار شکر ہے۔
اسی چیز کو حضرت قاضی ثناء اﷲ پانی پتی یوں تحریر فرماتے ہیں:
تحدیث النعمة شکر. 8
نعمت کا چرچا کرنا شکر ہے۔
مذکورہ بالا آیات و احادیث اور عباراتِ آئمۂ سلف سے یہ واضح ہوگیا کہ کوئی بھی نعمت ملے تو اس کو یاد رکھنا اس کا ذکر کرنا اور اس کا چرچا کرنا اس نعمت وعنایت کی شکر گزاری ہے اور اس کو ترک کردینا اس نعمت کی ناشکری ہے۔ ظاہر ہے کسی نعمت کا چرچا، تذکرہ اور اس کا شکر اسی وقت ادا کیا جائے گا جب اس انعام واکرام، احسان وامتنان اور نعمت وعنایت پر خوشی اور مسرت ہوگی تو گویا اسلام ہم سے ہر نعمت و مہربانی پر خوشی منانے کا تقاضہ کرتا ہے۔
یہ ذکر تو تھا عام نعمتوں اور عام احسانوں کا کہ ان کے حصول ووصول پر خوشی منائی جائے اور ان کا تذکرہ اور چرچا کیا جائے۔ لیکن وہ عظیم نعمت جس پر خود خالقِ کائنات نے احسان جتلایا ہو تو اس نعمت کا شکر بھی اسی طرح ایک منفرد اور ممتاز انداز سے ادا کرنا ضروری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول مکرم اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتِ عظمی ہیں اور آپ کی ولادت وبعثت ہی عظیم ترین نعمت اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا سب سے بڑھ کر فضل ہے لہذا میلاد النبی پر خوشی کرنا یہ عینِ مقتضائے امرِ الہی ہے۔کیونکہ درجِ ذیل آیتِ مبارکہ کےسیاق سے یہی انفرادیت و امتیاز مترشَّح ہوتا ہےچنانچہ ارشاد ِ باری تبارک وتعالیٰ ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰه عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِه وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَة وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ164 9
بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول () بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیتِ مبارکہ کا اسلوب واضح کررہا ہے کہ رسول اکرم کی ولادت و بعثت وہ عظیم ترین نعمت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی وجہ سے مومنین پر احسان جتلایا ہے لہذا اس نعمتِ عظمی کے حصول پر مومنین عموما ہر وقت اور بالخصوص ماہِ ولادت میں شکر الہی بجا لانے کے خاطر میلاد النبی مناتے ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے کہ اگر عام نعمتوں کا ذکر اور چرچا ضروری ہے تو جس نعمت وانعام پر اﷲ تعالیٰ احسان جتلائے اس پر خوشی کا اظہار کرنا ، اس عظیم نعمت کا تذکرہ اورباہم چرچا کرناکس قدر ضروری ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ صدیوں سے اس اہم اور محترم نعمت وعنایت پر دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے بے حد خوشی کااظہار کرتی ہے اور اس کے لیے جوش وخروش سےانتظام وانصرام کو سعادت سمجھتی ہے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن کا احاطہ ناممکن ہے اور اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَة اللّٰه لَا تُحْصُوْہَ......1810
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے۔
لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت بلکہ تمام نعمتوں کی اصل حضور نبی کریم کی تشریف آوری ہے۔ کیونکہ حضور کی ولادت باسعادت سے ارض وسماء میں حقیقی انقلاب بپا ہوا۔ گمراہی، ہدایت سے بدلی کفر کی جگہ اسلام آیا، فحاشی وعیاشی کی جگہ اخلاق حسنہ کا دور دورہ ہوا،11 یتیموں کو والی اور بے سہاروں کو سہارا ملا، عورت کو عزت وناموس کا تحفظ حاصل ہوا اور ظلم وتشدد کی جگہ عدل وانصاف کا علم بلند ہوا الغرض قرآن پاک کی زبان میں جہنم کے کنارے پر پہنچی ہوئی انسانیت جنت کی طرف رواں دواں ہوئی اور جہنم میں گرنے سے بچ گئی۔ 12
ایسی عظیم المرتبت شخصیت جن کی آمد سے کائنات میں بہار آئی اور انہیں خوشی کے مژدےسنائے گئے،13 ان کی ولادت باسعادت پر کسے خوشی نہ ہوگی؟انسان تو درکنار، بے زبان چوپائے بھی باعثِ تخلیقِ کائنات کی آمد پر شاداں ہیں14 کیونکہ رحمۃ للعالمین نے اپنی چادر رحمت کے سائے میں نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانات اور پرندوں تک کو جگہ دی لہٰذا عید میلاد النبی کی خوشی منانا اور اس پُر مسرت موقع کوعید(سرور) قرار دینا یقیناً انسانی فطرت کا تقاضہ ہے۔مسلمان عید میلاد النبی کو تمام عیدوں سے بڑھ کر عید قرار دیتے ہیں اور اسے منانے کے لئے پورے جوش وخروش کا مظاہرہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ سے جشن عید میلاد النبی مناتے چلے آئے ہیں۔
رسول اللہ کی ولادت خلقِ خدا کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑی نعمت اور عظیم رحمت ہے۔جس کےلیے یقینا ًکسی دلیل اور بیان کی حاجت نہیں بلکہ یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔جیساکہ باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةلِّلْعٰلَمِيْنَ10715
اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔
اس آیت کریمہ سےیہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ تمام مخلوق کے لیے باری تعالیٰ کی سب سےبڑی رحمت ہیں۔کیونکہ عالمین کے لیے رحمت ہونے کا مقتضٰی یہی ہے کہ جس طرح ربوبیّتِ باری عام ہے بالکل اسی طرح رسول مکرمکا تمام عالمین کے لیے رحمت ہونا بھی عام ہے نیزاﷲ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ جب انہیں اﷲ کی طرف سے کوئی رحمت،نعمت اور فضل وکرم نصیب ہو تو اس پر خوشی کا اظہار کیا کریں کیونکہ اصل خوشی اﷲ کے فضل ورحمت کا حصول ہے چنانچہ رحمتِ خداوندی ملنے پہ خوشی کے اظہار کا حکم دیتے ہوئے باری تعالیٰ کا ارشادِ اقدس ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰه وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ5816
فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔
مذکورہ آیت کریمہ میں رحمت سے رسول اکرم کا بدرجہ اتم مراد ہونا تو واضح الدلالہ ہے۔تاہم فضل کی تشریح میں تفسیر دُرِّ منثور میں منقول ہے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد بھی رسول اللہ ہیں۔17بہر کیف اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس طرح فضل کے ملنے پر خوشی کے اظہار کا حکم دیا ہے اسی طرح رحمت کے ملنے پر بھی خوشی کے اظہار کا حکم دیا ہےلہٰذا مولود النبی پر خوشی کے اظہار کا مشروع طرز فی نفسہ عین حکمِ خداوندی کے مطابق ہے۔
حضور تمام جہانوں کے لیے رحمت اوررحمتِ الٰہی کے منبع ہیں، رحمت کے لیے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں ایک مخلوق جس کو خیر پہنچائی جائے اوردوسری بنفسہ خیر اوریہ دونوں نبی کریم کے وجودِ مسعود پر متفرّع ہیں۔یعنی اگر حضور نہ ہوتے تو نہ کوئی خیر ہوتی اور نہ ہی کوئی خیر کا پانے والاہوتا اور یوں رحمت الہی کا ظہو ر نہ ہوتا ۔تمام نعمتیں، تمام کمالات، تمام فضائل وجود پر متفرع ہیں اور تمام عالم کا وجود حضور کے وجود پر متفرع ہے تواس طرح سب پر حضور ہی کے طفیل رحمت ہوئی۔ فرشتہ ہو یا نبی اوررسول، جس کو جو نعمت ملی حضور ہی کے واسطے سے ملی۔ حضور اکرم"نعمۃ اللّٰة" ہیں جیساکہ قرآن عظیم نے آپکو"نعمۃ اللّٰه" فرمایا ہےچنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان اقدس "اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰه كُفْرًا " 18کی تفسیر میں سیّدنا عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ" نعمۃ اللہ(سیّدنا) محمد ہیں" 19 اور امتِ مسلمہ کو نعمت خداوندی کے چرچہ کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَاَمَّا بِنِعْمَةرَبِّكَ فَحَدِّثْ1120
اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔
حضور کی تشریف آوری سب نعمتوں سے اعلیٰ نعمت ہے۔ یہی تشریف آوری ہے جس کے طفیل دنیامیں ہر وقت اور ہر جگہ ظاہری و باطنی نعمتوں سے خلقت کا ذرہ ذرہ بہرہ مند ہے۔ قبر، حشر، برزخ اورآخرت میں بھی آپ کے طفیل ہی رحمتیں تقسیم کی جائینگی تو اسی نعمت باری کا چرچا ہی تو مجلس میلاد میں ہوتا ہے ۔ 21
میلاد النبیرسول مکرم کی ولادت واوصاف و خصائل کے تذکرہ کا ہی نام ہے اوریہ تذکرہ خود رب کائنات نے قرآن مجید میں کیا ہےچنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْه مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ12822
بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول () تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں آپ کے آنے کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد آپ کے اوصاف بیان فرمائے اوریہی تذکرۂ مولود آنحضرت و ذکر ِ فضائل وخصائلِ رسول مولود النبی کی محفل میں ہوتا ہے۔لہٰذا ان کی تشریف آوری کا تذکرہ امتشال امر الٰہی ہے۔مجلس مبارک کی حقیقت مجمع المسلمین کو حضور اقدس کی تشریف آوری و فضائل جلیلہ و کمالات جمیلہ کا ذکر سنانا ہےاوریہ دعوت الی الخیر ہے اوردعوت الی الخیربیشک خیر ہے۔جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰه3323
اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے ۔
اور اسی حوالہ سے صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
من دعا الى هدى كان له من الاجرمثل اجورمن تبعه لاینقص ذلک من اجورھم شیئا.24
جو لوگو ں کو کسی ہدایت کی طرف بلائے تو جتنے اس کا بلانا قبول کریں گےان سب کے برابر ثواب اسے ملے گا اور ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں کی جائیگی۔ 25
مذکورہ آیات ربانی اس بات کی طرف مشیر ہیں کہ رسول اکرم کا تذکرہ مطلوب باری ہے اب اس کی طرز خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی سب مطلوب و مقتضی میں شامل ہیں۔یہ تذکرۂ ولادت رسولجو میلاد النبی کی محافل مبارکہ میں ہوتا ہے یہ حکم الہی کی اتباع میں ہوتا ہے کہ جو فی نفسہ محمود و مبروک ہے۔
چونکہ ہم مسلمان ہیں اورمسلمانوں کے لیے نبی کریم کا اسوہ حسنہ ہی اتباع کے لیے کامل نمونہ ہے جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰه اُسْوَة حَسَنَة لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰه وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰه كَثِيْرًا2126
فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔
اس لیے یقیناً رسول کریم کی زندگی میں تمام معاملاتِ زندگانی کی رہنمائی موجود ہے۔میلاد النبی کے حوالہ سے اگر ہم رسول اکرم کی کامل زندگی کے اوراق کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک حدیث مبارکہ ملتی ہے جس سے اس طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہےچنانچہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے:
سئل عن صوم يوم الاثنين؟ قال: ذاك يوم ولدت فیه. 27
رسول کریم سے پیر کے روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:یہ وہ دن ہے جس میں مجھے پیدا کیا گیا ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رسول مکرم نے اپنے یوم ولادت میں روزہ رکھااور روزہ شکرانہ کے لیے ہی رکھا جاتا ہے۔اسی طرح جب صحابۂ کرام نےنبی کریم سے خود آپ کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں آپ نے حضرت ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسٰی کی بشارت کا ذکر فرمایا اورخصوصی طور سے اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا بھی ذکر فرمایاچنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:
انی عند اللّٰه مكتوب بخاتم النبيين، وان آدم لمنجدل فى طينته وساخبركم باول ذلك: دعوة ابي ابراهيم وبشارة عيسى ورؤيا امى التي رات حين وضعتنی انه خرج منھا نور اضاءت لها منه قصور الشام.28
بلا شبہ مجھے اللہ تبارک کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت خاتم النبیین لکھا گیا تھا جس وقت حضرت آدم مٹی میں گوند ے ہوئے تھےاور عنقریب میں تمہیں اس معاملہ کی ابتداء کی خبر دیتا ہوں۔میں حضرت ابراہیم کی دعا ،حضرت عیسی کی خوشخبری اور اپنی والدہ محترمہ کاوہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے موقع پہ دیکھا تھا کہ ان کے بطن ِ مبارک سے ایسا ایک نور نکلا جس سے ملک ِشام کے محلات جگمگا اٹھے۔
اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ آپ نے سوال کے جواب میں صرف اپنےمعاملہ کی ابتداء ہی پہ اکتفاء نہ فرمایا بلکہ ساتھ ساتھ اپنی آمدِباسعادت کا ذکر بھی فرمایا اور خصوصی طور سے اس خواب کا بھی ذکر فرمایا جو آپ کی والدہ نے آپ کی پیدائش کے موقع پہ دیکھا تھا۔جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کو اپنی ولادت کا تذکرہ مرغوب تھا۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں اسی حوالہ سے آتا ہےجسےحضرت واثلہ بن اسقع روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم نے فرمایا :
إن اللّٰه اصطفى من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفى من بنى إسماعيل كنانة، واصطفى من بني كنانة قريشاً، واصطفى من قريش بني هاشم، واصطفانى من بني هاشم .29
بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم کی اَولاد میں سے اِسماعیل کو منتخب فرمایا، اِسماعیل کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو،قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں مجھے منتخب فرمایا۔
اسی حوالہ سےایک اور حدیث مبارکہ کو حضرت عباس بن عبد المطلب روایت کرتے ہیں :
قلت: يارسول اللّٰه! إن قريشاً جلسوا فتذاكروا أحسابھم بينھم، فجعلوا مثلک كمثل نخلة فى كبوة من الأرض، فقال النّبى صلى اللّٰه عليه وسلم: إن اللّٰه خلق الخلق فجعلنى من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم خيّر القبائل فجعلنى من خيرالقبيلة، ثم خيّر البيوت فجعلنى من خير بيوتھم، فأنا خيرهم نفساً وخيرهم بيتا. 30
میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اِس پر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا پھر ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔
اسی طرح ایک اور مقام پر نبی کریم نے اپنی بے مثال بعثت کے متعلق جو ارشادفرمایا اسے حضرت ابوہریرہ نے یوں روایت کیا ہے:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: بعثت من خیر قرون بنی آدم قرنا فقرنا حتی كنت من القرن الذى كنت فیه. 31
رسول اللہ نے فرمایا میری پیدائش بنی آدم کے اس خاندان میں ہوئی ہے جو ہر زمانہ میں بنی آدم کی جماعتوں میں افضل رہا ہے یہاں تک کہ میں اس جماعت میں پیدا ہوا جس میں پیدا ہوا۔
اسی طرح ایک اورحدیث مبارکہ منقول ہے جوحضرت عباس سے مروی ہے :
جلس ناس من أصحاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ينتظرونه، قال: فخرج حتي إذا دنا منھم سمعهم یتذكرون فسمع حديثھم، فقال بعضهم عجباً: إنَ اللّٰه عزوجل اتّخذ من خلقه خليلاً، اتّخذ من إبراهيم خليلاً، وقال آخر: ماذا بأعجب من كلام موسى كلمه تکليماً، وقال آخر: فعيسي كلمة اللّٰه وروحه، وقال آخر: آدم اصْطفاه اللّٰه فخرج عليھم فسلّم، وقال صلى اللّٰه عليه وسلم: قد سمعت كلامكم وعجبکم أن إبراهيم خليل اللّٰه وهو كذلك، وموسٰي نجي اللّٰه وهو كذلك، وعيسي روح اللّٰه وكلمته وهو كذلك، وآدم اصْطفاه اللّٰه وهو كذلك، ألا! وأنا حبيب اللّٰه ولا فخر، أنا حامل لواء الحمد يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول شافعٍ وأول مشفعٍ يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول من يحرک حلق الجنة فيفتح اللّٰه لي فيدخلنيھا، ومعي فقراء المومنين ولا فخر، وأنا أكرم الأوّلين والآخرين ولا فخر.32
رسول اکرم کے کئی صحابہ آپ کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ باہر تشریف لے آئے، جب ان کے قریب ہوئے تو سنا کہ وہ آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا : بڑے تعجب کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو خلیل بنایا توحضرت ابراہیم کو خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا : یہ اس سے زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے کہ خدا نے موسیٰ سے کلام کیا۔ تیسرے نے کہا : عیسیٰ تو اللہ کا کلمہ اور اس کی(طرف سے القائی) روح ہیں۔ چوتھے نے کہا : آدم کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا چنانچہ رسول اللہ ان کے حلقے میں تشریف لے آئے، سلام کیا اور فرمایا : میں نے تم لوگوں کا کلام اور اِظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں، بے شک وہ ایسے ہی ہیں۔ موسیٰ اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے والے ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ عیسیٰ اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور وہ ایسے ہی ہیں۔ اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور وہ ایسے ہی ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن میں فخر نہیں کرتا اور میں قیامت کے دن لواءِ حمد (حمد کا جھنڈا) اٹھانے والا ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع اور سب سے پہلا مشفع (جس کی شفاعت مقبول ہو)ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ۔میں پہلا شخص ہوں گا جو بہشت کے دروازے کی زنجیر ہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ وہ مومنین ہوں گے جو فقیر (غریب و مسکین) تھے لیکن مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں اور اَوّلین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرّم و محترم میں ہی ہوں اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں۔
مذکورہ بالا احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ خود حضورِ اکرم نے اپنا حالِ ولادت ِباسعادت مختلف مواقع اور مختلف مقامات پر مختلف انداز سے کئی بار ذکر فرمایاہے۔جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم اپنے تذکرۂ ولادت سے خوش ہوا کرتے تھے اور جلیل القدر صحابہ کرام آپ کی خوشی کی خاطر آپ کے ولادت کا تذکرہ کرتے اور سنتے تھے۔
اسی حوالہ سے ایک اور روایت مروی و منقول ہے جس میں مختلف پیرائے میں نبی مکرم کی ولادتِ با سعادت کا تذکرہ موجود ہے۔چنانچہ علامہ معین الدین کاشفی معارج النبوۃ میں حضرت جبریل کی خلقت کےبعد ان کےکیے گئے سوا ل کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
خداوندا پیش ازمن خلعت تشریفے بروجود پھنچ موجودى پوشیده خطاب آمد كه درپیش روى خود نظر كن نورى دیدم كه ازغایت حسن و جمالش خیرہ گشتم بریمین و یسارو قدام وخلف آن نور چهارنور دیگر دیدم گفتم خداوندا این چه نوراست كه ادحسن وجمال ونوربركمال اونوردیدہ ام زائیل شدخطاب آمدكه این نور آن كسى است كه ترا ازبراى اور برگزیداہ م وهمه فرشتگان رابا سائرخلایق ازشرف وجود اوموجودكردہ ام عرشی و كرسی بالوح وقلم بھشت و دوزخ به طفیل هستی اولعالم وجودآمدند.33
اے اللہ مجھے پیدا کرنے سے پہلے تونے کوئی اور مخلوق بھی پیدا فرمائی ہے؟ حکم ہوا: سامنے دیکھو! میں نے اس نور کے دائیں، بائیں، جنوب اور شمال میں نور کے اردگرد چار ہالے دیکھے تومیں نے دریافت کیا کہ یا اللہ یہ نور کون ہے ؟کہ اس کی ضیاؤں سے میری آنکھیں چند ھایائی جارہی ہیں ۔فرمایا یہ نور اس شخص کا ہے جس کی خاطر میں نے تجھے پیدا کیا ہے۔ تمام فرشتوں اور دوسری مخلوقات کو صرف اسی کی برکت سے پیدا کروں گا اور(میں نے) اس کے وجودِ گرامی کو ان سب پر مشرف و مکرم بنا دیا ہے۔ عرش، کرسی ،لوح و قلم، بہشت اور دوزخ اسی ہستی کے طفیل عالم وجود میں آئیں گے۔ 34
اس روایت میں بھی ایک خاص زاویہ سے رسول مکرم کی ولادت باسعادت کا تذکرہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور حضرت جبریل کے مابین ہوا اور وہ بھی آپ کی ولادت سے پہلے۔
اسی طرح امام محمد بن یوسف صالح شامی نے حافظ ابن ِ حجر عسقلانی کے حوالے سے تحریر فرمایا ہےکہ انہوں نے میلاد شریف کی اصل کو حدیثِ مبارکہ سے ثابت کیا ہے۔اس بات کو شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانینے بھی ذکر کیا ہے۔35 چنانچہ اس حوالہ سے علامہ محمد بن یوسف صالحی شامیتحریر فرماتے ہیں:
قال: وقد ظهر لي تخريجها على أصل ثابت وهو ما ثبت في الصحيحين من أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قدم المدينة فوجد اليھود يصومون يوم عاشوراء فسألهم فقالوا: هو يوم أغرق اللّٰه فيه فرعون ونجى موسى فنحن نصومه شكراللّٰه تعالى فقال صلى اللّٰه عليه وسلم: أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْھمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ 36 فيستفاد منه فعل الشكر للّٰه على مامن به في يوم معين من إسداء نعمة أو دفع نقمة ويعاد ذلك في نظير ذلك اليوم من كل سنة والشكر للّٰه يحصل بأنواع العبادة كالسجود والصيام والصدقة والتلاوة وأي نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي نبي الرحمة في ذلك اليوم؟ وعلى هذا فينبغي أن يتحرى اليوم بعينه حتى يطابق قصة موسى في يوم عاشوراء ومن لم يلاحظ ذلك لا يبالي بعمل المولد في أي يوم من الشهر، بل توسع قوم فنقلوه إلى يوم من السنة وفيه ما فيه فهذا ما يتعلق بأصل عمله وأما ما يعمل فيه فينبغي أن يقتصر فيه على مايفهم الشكرللّٰه تعالى من نحو ما تقدم ذكره من التلاوة والإطعام والصدقة وإنشاد شيء من المدائح النبوية والزهدية المحركة للقلوب إلى فعل الخير والعمل للآخرة وأما ما يتبع ذلك من السماع واللهو وغير ذلك فينبغي أن يقال: ما كان من ذلك مباحا بحيث يقتضي السرور بذلك اليوم لا بأس بإلحاقه به وما كان حراما أو مكروها فيمنع وكذا ما كان خلاف الأولى. 37
(ابن حجر) فرماتے ہیں میں نے اس کا استخراج صحیحین میں مذکور ایک ثابت اصل سے کیا ہے اوروہ یہ ہے کہ نبی کریم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ نے اس کی بابت دریافت فرمایا تو یہودیوں نے کہا کہ اسی دن فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوا تھا اور حضرت موسیٰ نےاس کے ظلم سے نجات پائی تھی، اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر روزے رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معین دن میں نعمت کے حصول یا مصیبت سے چھٹکارا پانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جانا چاہیے اور سال میں اس دن کے مثل ونظیر کی جب آمد ہو شکرکا اعادہ ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر عبادت کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے یعنی نماز، روزہ، صدقہ اور تلاوت وغیرہ سے۔ نبی مکرم رحمت عالم کی اس دن میں ولادت سے بڑھ کر کون سی نعمت ہوسکتی ہے؟ لہٰذا مناسب اور بہتر یہ ہے کہ حضور نبی کریم کی پیدائش کے دن ہی میلاد منایا جائے تاکہ یوم عاشورہ میں حضرت موسیٰ کے قصّےسےمطابقت رہے، اور اگر اس واقعہ سے قطع نظر کرتے ہوئے اس ماہ میں کسی دن بھی میلاد منعقد کرلیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں، بلکہ کچھ لوگوں نے اس میں توسیع کرتے ہوئے صراحت کی کہ سال میں کسی دن بھی میلاد کرسکتے ہیں، لیکن اس میں یوم عاشورہ سے مطابقت نہیں ہو گی۔ مذکورہ بالا کلام صرف انعقاد میلاد سےمتعلق تھا۔ رہا سوال کہ اس میں کیا کرنا چاہیے تو مناسب یہی ہے کہ یہ ایسے افعال اور کاموں تک ہی محدود رہے جن سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا سمجھائے۔ جیسے: تلاوت کرنا، کھانا کھلانا، صدقہ کرنا اور سرکار دوعالم کی شان میں نعتیں پڑھنا اور ایسے قصائد پڑھنا جن سے دل دنیا سے دور ہو ،اچھے کاموں اور آخرت کے لیے اعمال کرنےکی طرف متوجہ ہوجائے۔رہا سماع یا لہو ولعب اور اس کے علاوہ افعال تو مناسب بات یہی ہے کہ جو ان افعال میں سے مباح ہو اور وہ تفریح جو اس خوشی کے موقع کے مناسب ہو تو اس کو اس مولود کے ساتھ ملانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ کام جو حرام یا مکروہ ہو تواس سے بچنا ضروری ہے اور اسی طرح خلافِ اولی افعال کا حکم ہے۔38
اسی طرح شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانینے حافظ ابن رجبکے حوالہ سے تحریر فرمایا ہےکہ انہوں نے ابن حجر عسقلانیسے پہلے اصلِ میلاد کو مزید ایک حدیث مبارکہ سے استخراج کیاہے۔39 شیخ زین الدین ابن رجب نے اس مذکورہ حدیث اور اس سے مستخرج کردہ فائدہ کو اپنی کتاب "لطائف المعارف" میں ذکر کیا ہے 40جس کو نقل کرتے ہوئے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانیتحریر فرماتے ہیں:
وفى قول النبی صلى اللّٰه عليه وسلم لماسئل عن صیام یوم الاثنین ذلک یوم ولدت فیه وأنزلت على فیه النبوة 41 اشارة الى استحباب صیام الأیام التی تجدد فیھا نعم اللّٰه تعالٰى على عبادہ فان أعظم نعم اللّٰه على هذہ الأمة اظهار محمد صلى اللّٰه عليه وسلم لهم وبعثته وارساله الیھم كما قال تعالٰى: لقد من اللّٰه على المؤمنین اذبعث فیھم رسولًا من أنفسهم. 42 فان النعمة على الأمة بارساله صلى اللّٰه عليه وسلم أعظم من النعمة علیھم بایجاد السماء والأرض والشمس والقمر والریاح واللیل والنھار وانزال المطر واخراج النبات وغیر ذلک فان هذہ النعم كلها قد عمت خلقاً من بنی آدم كفروا باللّٰه وبرسله وبلقائه فبدلوا نعمة اللّٰه كفراً وأما النعمة بارسال محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فان بھا تمت مصالح الدنیا والآخرة وكمل بسببھا دین اللّٰه الذى رضیه لعبادہ وكان قبوله سبب سعادتھم فى دنیاهم وآخرتھم فصیام یوم تجددت فیه النعم من اللّٰه على عباده حسن جىل وهو من باب مقابلة النعم فى أوقات تجددها بالشکر ونظیر هذا صیام یوم عاشوراء، حیث نجى اللّٰه فیه نوحاً من الغرق ونجى فیه موسی وقومه من فرعون وجنودہ وأغرقهم فى الیم فصامه نوح وموسی علیھم السلام شکراً فمامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم متابعةلأنبیاء اللّٰه وقال للیھود نحن أحق بموسی منکم وصامه وأمر بصیامه.43
اورحضور پر نور ہر سوموار کو روزہ رکھتے تھے جب اس کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ان ایام میں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خاص نعمت سے نوازا ہو روزہ رکھنا مستحب ہے اور بلاشبہ اس امت کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت آپ کی ذات ہے۔ حضور اکرم کی بعثت اور اس امت مرحومہ میں آپ کو نبی بناکر مبعوث کرنا بلاشبہ ایک عظیم الشان نعمت ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : یقیناً بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہی میں سے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اس امت مرحومہ میں حضور کو مبعوث کرنے کی نعمت زمین، آسمان، سورج، چاند، ہوا اور لیل و نہار جیسی نعمتوں سے عظیم الشان ہے۔ یہ نعمتیں تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں اور ان میں کافر بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رُسُل کا انکار کیا اوراللہ کی نعمت کی ناشکری کی لیکن بعثت محمدی وہ نعمت کبریٰ ہے جس سے دنیا اور آخرت کی مصلحتیں مکمل ہوگئیں۔ اسی کی وجہ سے اللہ کا وہ دین بھی مکمل ہوا جس کو اس نے اپنے بندوں کے لیے منتخب فرمایا: اس کی قبولیت ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا سبب ہے۔ اس دن ، جس دن بندوں پر اللہ تعالیٰ عظیم احسان فرمائے، روزہ رکھنا اچھا عمل ہے گویا کہ یہ اچھا عمل اس دن ہونے والی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔عاشورہ کے دن کا روزہ بھی اسی وجہ سے رکھا جاتا ہے۔ اس دن حضرت نوح کو غرق ہونے سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون کو سمندر میں ہلاک کیا گیا، حضرت موسیٰ اور حضرت نوح نے اس دن اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور آپ نے انبیاء کرام کی اتباع کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا اور آپ نے یہودیوں سے فرمایا ہم تم سے زیادہ اس بات کے حق دار ہیں کہ ہم اس دن روزہ رکھیں جب حضرت موسیٰ نے روزہ رکھا تھا۔ حضور اکرم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ 44
امام جلا ل الدین سیوطی نے بھی میلادشریف کی اصل کو مزید ایک اور حدیث مبارکہ سے ثابت کیا ہےچنانچہ آپ رسول اکرم کے میلاد کی اصل کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وقد ظهر لي تخريجه على أصل اخر وهو ما رواه البيھقى عن أنس أن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة 45مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عقّ عنه في سابع ولادته، والعقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيجعل ذلك على أن الذى فعله النبی صلى اللّٰه عليه وسلم إظهاراً للشكر على إيجاد اللّٰه إياه رحمةً للعالمين صلى اللّٰه عليه وسلم وتشريعاً لأمته صلى اللّٰه عليه وسلم كما كان يصلي على نفسه لذلك، فيستحب لنا أيضاً إظھار الشكر بمولده صلى اللّٰه عليه وسلم بالاجتماع وإطعام الطعام ونحو ذلك من وجوه القربات واظھارالمسرّات.46
تحقیق میرے لیے میلاد کی اصل ایک اور حدیثِ مبارکہ کی تخریج سے ظاہر ہوئی ہے۔وہ حدیث امام بیہقی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے (اعلانِ)نبوت کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا حالانکہ آپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے آپ کی پیدائش کے ساتویں دن آپ کا عقیقہ فرمایا تھا اور عقیقہ دوبارہ نہیں ہوتاتو یہ اسی پر محمول کیا جائے گا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے کہ اس نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہےاور امت کےلیے ولادت پاک پر شکر ِخداوندی بجا لانا شروع فرمانے کے لیے دوبار ہ عقیقہ فرمایا باالکل اسی طرح جیسا کہ آپ بنفسِ نفیس اپنے اوپر درود پڑھا کرتے ، لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم میلاد پاک میں اجتماع کر کے،لوگوں کو کھانا کھلا کے اور دیگر جائز طریقوں سے خوشی ومسرت کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔
مذکورہ بالا تمام احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی مکرم نے اپنی آمد کا ذکر فرمایا اور یومِ ولادت پہ روزہ رکھ کر شکرِخداوندی ادا فرمایا ۔اسی طرح آپ کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے قرون ِاولیٰ کے مسلمان بھی اس بات کا اہتمام فرماتے تھے کہ آپ کی آمد کا تذکرہ کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جائے۔
امت کا اوّلین دور جو تما م تر اسلامی اقدار و اسلامی تعلیمات کا عملی دو رہے اور صحابہ کرام کے وجود ِمتبرک سے مسعود رہاہےنیز جس کے بارے میں رسول مکرم کا ارشادِگرامی ہے:
خير امتی القرن الذين يلونی، ثم الذين يلونھم ثم الذين يلونھم.47
میری امت کا سب سے بہترین زمانہ ان لوگوں کا ہے جومجھ سے ملے پھر انکا جو ان سے ملے پھر ان کا جو ان سے ملے۔
اس دور کے ہادی ومہدی افراد صحابہ کرام سے بھی میلا دشریف کی اصل ثابت ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں مذکو رہے:
إن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم خرج على حلقة من أصحابه، فقال: ما أجلسكم؟ قالوا: جلسنا نذكر اللّٰه ونحمده على ما هدانا للإسلام، ومن به علينا، قال: آللّٰه ما أجلسكم إلا ذاك؟ قالوا: واللّٰه ما أجلسنا إلا ذاك، قال: أما إني لم أستحلفكم تھمة لكم، ولكنه أتاني جبريل فأخبرني، أن اللّٰه عز وجل يباهي بكم الملائكة .48
ایک دن رسول خدا ایک حلقۂ صحابہ میں تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا کہ تم لوگ کیسے بیٹھے ہوئے ہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ ہم اللہ تعالیٰ کویاد کرتے ہیں اور اس بات کا شکر ادا کرہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام کی طرف ہدایت دے کر ہم پر احسان فرمایا ۔تب آپ نے فرمایا: قسم خدا کی کیا تم محض اسی لیے بیٹھے ہو؟صحابہ کرام نے عرض کیا: قسم اللہ تعالیٰ کی ہم اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے تم کو قسم اس لیےنہیں دی کہ مجھے تم پر جھوٹ کا گمان تھا بلکہ میرے پاس ابھی جبریل آئے تھے اور یہ خبر لائے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے درمیان تم پر فخر فرماتاہے۔
اسی طرح مسند میں بھی یہ روایت مذکور ہے اور اس میں نبی مکرم کے سوال کے جواب صحابہ کرام کےجواب کےدرج ذیل الفاظ منقول ہوئے ہیں:
من علينا بک.49
(اللہ تعالی کی ثناء کی وجہ یہ بھی ہے کہ) اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی بعثت کے ذریعہ ہم پر احسان فرمایا ہے۔
مذکورہ حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اسلام کی عظیم ترین نعمت کے ملنے کا تذکرہ کر رہے تھے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا احسان جوآپ کی بعثت کی صورت میں ہوا س کو بیان کررہے تھےاور محفل میلاد میں بھی اللہ تبارک کی اسی اعلی و ارفع نعمت کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
اس حدیث مبارکہ کی مزید تشریح درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہے جسے امام عمر بن حسن ابن دحیہ کلبی کی کتاب"التنویر فی مولد السراج المنیر" کے حوالہ سے نقل کرتے ہوئے شیخ عالم آسی فرماتے ہیں:
عن ابی الدر داء انه مرمع النبی صلى اللّٰه عليه وسلم الى بیت عامر الانصارى اذ كان یعلم مدارج ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم لابنائه و عشیرته فقال صلى اللّٰه عليه وسلم ان اللّٰه فتح لک ابواب الرحمة والملائکة یستغفرون لک من فعل فعلک نجا.50
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ آپ حضور کے ہمراہ حضرت عامر انصاری کے گھر گئے۔ جبکہ وہ اپنی اولاد اور رشتہ داروں کو حضور کی ولادت کے حالات تعلیم کررہے تھے۔ تو حضور نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ نے تم پر رحمت کے دروازے کھول دیے ہیں اور فرشتے تمہارے لیے استغفار کررہے ہیں اور جو شخص بھی تمہارے جیسا کام کرے گا نجات پائے گا۔
اس روایت سے ثابت ہوا کہ حضور کی ولادت کے تاریخی واقعات دہرانا خواہ کسی وقت بھی ہو،اجرِ عظیم کا موجب ہے اور یہی اس مجلس میلاد کا جزوِ اعظم ہے اور اسی وجہ سے لوگ اس مجلس کو خیر و برکت کا سبب سمجھتے ہیں اور اسی باعث اس کو بہترین عبادت اور کفارۂ ذنوب کا خطاب دیا جاتا ہے۔مزید آپایک حدیث نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
عن ابن عباس رضي الله عنهما انه كان یحدث ذات یوم فى بیته وقائع ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم.51
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے بھی ایک دن اپنے گھر میں آپ کی ولادت کے واقعات(مجلس میلاد میں اہل وعیال کو)بیان کیے۔
اسی طرح حضرت حسان بن ثابت نے بھی بارگاہ رسالت مآب میں اپنی محبت کا اظہار جس انداز سے کیا ہے اس میں بھی آپ کی ولادت باسعادت اور آپ کے حسن وجمال کا ذکر کیا ہےچنانچہ حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں:
واحسن منک لم ترقطّ عینی}}
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء 52
آپ جیسا خوبصورت میری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں اور آپ جیسا با جمال کسی عورت کے ہاں پیدا نہیں ہوا۔آپ ہر قسم کے عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔گویا کہ آپ اپنی منشاء کے مطابق ہی پیدا کیے گئے ہیں۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے بھی آپ کی بارگاہ عالیہ میں ان الفاظ میں محبت کا اظہار فرمایا:
روحی الفداء لمن اخلاقہ شھدت
بأنہ خیر مولود من البشر
عمت فضائلہ کل العباد کما
عم البریۃ ضوء الشمس والقمر
لولم یکن فیہ اٰیات مبینہ
کانت بدیھتہ تکفی عن الخبر. 53
میری روح ا س ہستی پر فداء ہے جس کے اخلاق اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ بنی نوع انسانی میں سب سے افضل ہیں۔ان کے فضائل وکمالات کا چشمۂ فیض تمام بندوں کو بلا امتیاز اسی طرح سیراب کررہا ہے جس طرح آفتاب وماہتاب کی ضیاء باریاں بلا تخصیص کائنات کے لیے عام ہیں۔ اگر آپ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرنے والی واضح نشانیاں نہ بھی ہوتیں تو خود ان کی ذات ان کے پیغام کی صداقت کے لیے کافی تھیں۔
اسی طرح زرقانی میں ہے کہ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس مدینۃالمنورہ تشریف فرماہوئے تو حضرت عباس رسول اللہ کی جناب میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ اے اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسولمیں آپ کی خدمت میں مدحت کے گل پیش کرنا چاہتا ہوں تو آپ نے انہیں اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :کریں، اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے منہ کو ہر خلل سے محفوظ رکھے، 54 تو حضرت عباس نے اپنا ایک قصیدہ جو بعض مطالب ِمولود النبی پر مشتمل ہے اسے مجمع صحابہ کرام میں پڑھا ۔اس کوامام طبرانی نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے55جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
من قبلھا طبت فی الظلال و فی
مستودع حیث یخصف الورق
ثم ھبطت البلاد لا بشر
انت ولا مضغۃ ولا علق
بل نطفۃ ترکب السفین وقد
الجم نسرا و اہلہ الغرق
تنقل من صالب الی رحم
اذا مضی عالم بداطبق
و انت لما ولدت اشرقت
الارض وضاء ت بنورک الافق
فنحن فی ذالک الضیاء وفی
النور وسبل الرشاد تخترق.56
اس (دار فانی )سے پہلے آپ سایہ کناں مقامات اور اس جگہ رہے جہاں پتے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے(یعنی جنت میں)۔پھر آپ شہروں میں جلوہ گر ہوئے، اس وقت آپ نہ بشر(متجسم شکل)تھے،نہ لوتھڑااور نہ ہی جماہوا خون۔ بلکہ نطفہ تھےجو کشتی پر سوار ہوئے،جس نے نسر (بُت)کا منہ بندکردیا اور اس کے پجاری غرق ہوگئے۔وہ نورایک پشت سے دوسری رحم میں منتقل ہوتا رہا،جب ایک عالم گزرجاتا تو دوسرا گروہ(اس نور کو لیے)ظاہر ہوتا۔جب آ پ کی ولادت ہوئی تو زمین چمک اٹھی اورآپ کے نور سے آفاق جگمگا اٹھے۔ہم اسی اجالے اور روشنی میں ہدایت کے راستوں کو طے کر رہے ہیں۔ 57
مذکورہ بالا اشعار میں حضرت عباس نے رسول اللہ کی ولادت باسعادت کی جلالت قدر اور عظمت ورفعت کو انتہائی پاکیزہ و شفاف طرز سے بیان فرمایا ہے۔محفل میلاد میں بھی اسی طرح سرور ِدوعالم کی ولادت مقدسہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔حضرت عباس نے مختصر طریقہ سے بیان کیا ہے اور دیگر محافل میلاد النبی میں یہی تذکرہ تفصیلی طور پر بیان کیا جاتا ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مولود النبی کا تذکرہ کرنا اور سننا سنت ٹھہرا نہ کہ بدعت کیونکہ یہ کام رسول اللہ کے حکم سے آپ کے سامنے سرانجام دیا گیا اور ایک جلیل القدر صحابی نے اس کو سر انجام دیا لہٰذا اس عملِ خیر کا ثبوت اور اس کو سر انجا م دینا تقریر ِرسول اللہ سے واضح و منکشف ہوا۔
مذکورہ بالا احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اسلام کی عظیم ترین نعمت کے ملنے کا تذکرہ کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے تھے اور محفل میلاد میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی اسی نعمت اعلی و ارفع کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے اسلام کی عظیم نعمت دنیا کو میسر آئی اور مومنوں کو تواس نعمت کو یاد کرنے کا باقاعدہ حکم الٰہی وارد ہواہے جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰه عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه اِخْوَانًا.10358
اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔
اس کی تفسیر میں ابو منصور ماتریدی نے ذکر کیا ہے کہ"فالّف بین قلوبکم بمحمد صلي الله عليه وسلم" یعنی حضرت محمد مصطفی ہی وہ نعمت ہیں جن کے سبب اللہ تبارک وتعالیٰ نے دلوں کے درمیان الفت ومحبت ڈال دی۔59 اب تک کی تحریرسے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ میلاد النبی کی اصل قرآن و احادیثِ مبارکہ اور دور صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
دور اول کے افراد کے مذکورہ اقوال وافعال کی بناپر ہی علماء امت کے نزدیک بھی میلاد ِرسولصرف یہی ہے کہ لوگ جمع ہو کر آپ کے فضائل و خصائل اور آپ کی سیرتِ طیّبہ کا تذکرہ کریں چنانچہ امام جلال الدین سیوطی حقیقتِ میلاد کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان اصل المولدھو اجتماع الناس وقرأة ماتیسرمن القرآن وروایة الاخبار الواردة فى مبدء امرالنبی وقع فى مولدہ من الایات ثم یمدلھم سماط یاكلونه وینصرفون من غیر زیادة على ذلک من البدع الحسنة التی یثاب علیھاہ صاحبھا لما فیه من تعظیم قدر النبی صلى اللّٰه عليه وسلم اظھار الفرح والاستبشاربمولدہ الشریف صلى اللّٰه عليه وسلم .60
محفل میلاد اور اصل لوگوں کا اکٹھے ہونا بسہولت تلاوت قرآن کرنااور ان احادیث کا بیان کرنااورسنناہے جو آپ کی ابتدائی حیات بقیہ کے بارے میں اور آپ کی ولادت کے موقع پر پیش آنے والے واقعات کے حوالہ سے منقول ہیں۔ پھر بعام کے لیے خوان طعام بجھایا جاتا ہے جس پہ وہ کھانا تناول کرتے ہیں اور بغیر کسی اور زیادتی کیے واپس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔ یہ نئے اچھے اعمال میں سے ہیں جن پر ثواب عطا کیا جائے گا کیونکہ اس میں رسالت مآب کی قدرو منزلت اور آپ کی آمد پر اظہار خوشی ہے۔
مذکورہ بالا حوالہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اہلِ اسلام کے نزدیک میلاد النبی حرام و ممنوع یا بدعتِ سیئہ ہرگزنہیں ہے جیساکہ بعض افراد کا خیال ہے۔ تاہم بعض علماء اسلام نے اس کو بنابر احتیاط بدعت حسنہ شمار کیا ہے۔ جنہوں نے میلاد النبی کو بدعت حسنہ61 کہا ہےاس کی وجہ اصلِ میلاد کا قرون اولی میں ثبوت نہ ہونا نہیں ہے جیسا کہ ماقبل میں ثبوت فراہم کیے جا چکے ہیں بلکہ مروّجہ طرز پر میلاد منانے کا ثبوت نہ ہونا ہےچونکہ قرون اولیٰ میں یہ مروّجہ طرزموجود نہیں تھا اسی وجہ سے اس کوعلماء نے بدعتِ حسنہ کہا۔
بہر کیف اس حکم سے بھی یہی با ت معلوم ہوتی ہے کہ یہ علماء اسلام مولود النبی کو حرام و ممنوع نہیں سمجھتے بلکہ اس کو اچھے کاموں میں ہی شمار کرتے ہیں۔چنانچہ میلاد النبی کی اس حیثیت کے تناظر میں علی بن ابراہیم حلبی، امام ابو شامہ جو شارح مسلم امام نووی کے شیخ ہیں ان کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں:
ومن احسن ما ابتدع فى زماننا مایفعل كل عام فى الیوم الموافق لیوم مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم من الصدقات والمعروف واظهار الزینة والسرور فان ذلک مع مافیه من الاحسان للفقراء مشعر بمحبة النبی صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیمه فى قلب فاعل ذلک وشکر اللّٰه تعالٰى على مامن به من ایجاد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الذى ارسله رحمة للعالمین صلى اللّٰه عليه وسلم. 62
ہمارے زمانے میں ہر سال حضور اکرم کی ولادت با سعادت کے دن جو صدقات، اظہار زینت اور خوشی کی جاتی ہے یہ بدعت حسنہ کے زمرے میں شامل ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے فقراء کی خدمت کے علاوہ حضور کی محبت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور اس کے کرنے والے کے دل میں آپ کی تعظیم وتوقیر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بصورت رحمۃ للعالمین جو عظیم نعمت عطا فرمائی اس پر شکر کابھی اظہارہوتا ہے۔
اسی طرح اما م یوسف بن صالح شامی علامہ ابن حجر کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه: أصل عمل المولد بدعة لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة، ولكنھا مع ذلك قد اشتملت على محاسن وضدها، فمن تحرى في عملها المحاسن وتجنب ضدها كان بدعة حسنة وإلا فلا. 63
شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد پاک کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا: میلاد دراصل ایسی بدعت ہے جو قرون ثلاثہ کے مشائخ سے منقول نہیں، اس کے باوجود اس میں کچھ اچھائیاں ہیں اور کچھ برائیاں ہیں لہٰذا اگر کوئی برائیوں سے بچ کر میلاد پاک منائے تو یہ بدعت حسنہ ہے ورنہ بدعت سیئہ۔
اس قول کو امام جلال الدین سیوطینے "الحاوی للفتاوی" میں بھی نقل کیا ہے۔64 اسی حوالہ سے امام جلال الدین سیوطی نے بھی اپنا مؤقف بیان فرمایا ہےچنانچہ آپ کے حوالہ سےمحمد بن یوسف صالحی شامیرقمطراز ہیں:
قال في شرح سنن ابن ماجه: الصواب أنه من البدع الحسنة المندوبة إذا خلا عن المنكرات شرعاً. 65
شرح سنن ابن ماجہ میں (امام سیوطینے)کہا:صحیح یہی ہے کہ بلا شبہ(مروجہ میلا دالنبی کی طرز)وہ بدعت حسنۃ ہے جو مستحب ہےبشرطیکہ شرعی حرام کردہ افعال سے خالی ہو۔
اب مذکورہ قول میں امام جلال الدین سیوطینے میلاد النبی کو بدعت حسنہ مستحبّہ میں شمار کیا ہے جبکہ ماقبل آپکے فتوی میں آپ نے اس کی اصل کو باقاعدہ حدیث شریف سے ثابت فرمایا ہے۔دونوں میں اشارہ اس بات کی ہی طرف کیا ہے کہ اصلِ میلاد کا ثبوت تو قرون اولی میں ہے لیکن مروجہ طرز چونکہ نئی ہے لہٰذا یہ بدعت حسنۃ مستحبہ ہے۔
اس موضوع پر مزید وضاحت درج ذیل تحریر سے ہوجاتی ہے چنانچہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی تحریر فرماتے ہیں:
قال السخاوى ان عمل المولد حدث بعد القرون الثلاثة ثم لا زال أھل الاسلام من سائر الأقطار والمدن الکبار یعملون المولد ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویعتنون بقراءة مولدہ الکریم ویظھرعلیھم من بر كاته كل فضل عمیم. 66
حضرت علامہ سخاوی فرماتے ہیں :میلاد النبی کا مروجہ عمل قرون ثلاثہ کے بعدوجودپذیر ہوا۔پھر دنیا کے کونے کونے اور مختلف ممالک میں بسنے والے تمام اہل اسلام ہمیشہ سے ربیع الاوّل کے مہینے میں میلاد کی یاد مناتے ہیں اس موقع پر وہ تمام نیک کام کرتے ہیں جو نیکی، خوشی اور محبت کا مظہر ہوتے ہیں وہ صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتیں بروئے کار لاتے ہیں ،میلاد کے چرچے کرتے ہیں جن کی برکات بہرحال ان پر ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ 67
علامہ سخاوی کے مذکورہ بالا قول کو صاحب روح البیان نے بھی نقل کیا ہے۔68 اسی حوالہ سے شیخ احمد بن محمد قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:
ولا زال أھل الاسلام یحتفلون بشھر مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم. ویعلمون الولائم ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظهرون السرور ویزیدون فى المبرات و یعتنون بقراءة مولدہ الکریم ویظهر علیھم من بركاته كل فضل عمیم.69
ہمیشہ سے اہل اسلام نبی کریم کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد کا اہتمام کرتے آئے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں اور ربیع الاوّل کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اظہار مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں اور ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہرحال فیض یاب ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ زرقانی مالکی تحریر فرماتے ہیں:
والحاصل: ان عمله بدعة لکنه اشتمل على محاسن وضدھا فمن تحرى المحاسن واجتنب ضدھا كانت بدعة حسنة ومن لا فلا.70
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ عمل مولد شریف بدعت ہے لیکن یہ خوبیوں اور خامیوں دونوں پر ہی مشتمل ہے۔پس جو شخص خوبیوں کو سوچتا اور ان کو سر انجام دیتا ہے اور خامیوں سے اپنا دامن بچا لیتا ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور جو ایسا نہیں کرتا تو یہ بدعت حسنہ نہیں (بلکہ بدعت)ہے۔
اسی طرح میلاد النبی کے موضوع کے حوالہ سے ابو عبد اللہ محمد بن محمد مالکی رقمطراز ہیں:
اشار الى فضيلة هذا الشهر العظيم بقوله صلى اللّٰه عليه وسلم للسائل الذي سأله عن صوم يوم الاثنين فقال له صلى اللّٰه عليه وسلم ذلك يوم ولدت فيه فتشريف هذا اليوم متضمن لتشريف هذا الشهر الذي ولد فيه فينبغي أن نحترمه حق الاحترام ونفضله بما فضل اللّٰه به الأشھر الفاضلة وهذا منھا لقوله صلى اللّٰه عليه وسلم أنا سيد ولد آدم ولا فخر ولقوله صلى اللّٰه عليه وسلم آدم ومن دونه تحت لوائي انتھى وفضيلة الأزمنة والأمكنة بما خصها اللّٰه تعالىٰ به من العبادات التي تفعل فيھا لما قد علم أن الأمكنة والأزمنة لا تتشرف لذاتھا وإنما يحصل لها التشريف بما خصت به من المعاني فانظر رحمنا اللّٰه إياك إلى ما خص اللّٰه تعالىٰ به هذا الشهر الشريف ويوم الاثنين ألا ترى أن صوم هذا اليوم فيه فضل عظيم لأنه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد فيه فعلى هذا ينبغي إذا دخل هذا الشهر الكريم أن يكرم ويعظم ويحترم الاحترام اللائق به وذلك بالاتباع له صلى اللّٰه عليه وسلم في كونه صلى اللّٰه عليه وسلم كان يخص الأوقات الفاضلة بزيادة فعل البر فيھا وكثرة الخيرات ألا ترى إلى قول البخاري رحمه اللّٰه تعالىٰ كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون في رمضان فنمتثل تعظيم الأوقات الفاضلة بما امتثله صلى اللّٰه عليه وسلم على قدر استطاعتنا.71
حضور نبی اکرم نے اپنی ولادت کےعظیم مہینے کی عظمت کا اظہار ایک سائل کے جواب میں فرمایا جس نے پیر کے دن کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ آپ نے اسے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی۔پس اس دن کی عظمت سے اس ماہ ربیع الاوّل کی عظمت معلوم ہوتی ہے جس میں آپ کی ولادت ہوئی۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اس مہینے کا کما حقہٗ احترام کریں اور اس ماہِ مقدس کو اس چیز کے ساتھ فضیلت دیں جس چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فضیلت والے مہینوں کو فضیلت بخشی ہے۔ اسی حوالے سے حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں۔اور آپ کا ایک اور فرمان ہے: روزِ محشر آدم سمیت سب میرے پرچم تلے ہوں گے۔زمانوں اور مکانوں کی عظمتیں اور فضیلتیں ان عبادتوں کی وجہ سے ہیں جو ان مہینوں میں سرانجام دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ زمان ومکاں کی خود اپنی کوئی عظمت ورفعت نہیں بلکہ ان کی عظمت کا سبب وہ خصوصیات وامتیازات ہیں جن سے انہیں سرفراز فرمایا گیا۔ پس اس پرغورکریں، اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے کہ اس ولادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے اور پیر کے دن کو عظمت عطاکی۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ اس دن روزہ رکھنا فضلِ عظیم ہے کیوں کہ رسول معظم کی ولادت اس روز ہوئی۔لہٰذا لازم ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ تشریف لائے تو اس کی بڑھ چڑھ کر تکریم وتعظیم اور ایسی توقیر واحترام کیا جائے جس کا یہ حق دار ہے۔ اور یہ آپ کے اس اسوہ مبارکہ کی تقلید ہوگی کہ آپ خصوصی عظمت کے حامل دنوں میں کثرت سے نیکی اور خیرات کے کام کرتے تھے۔ کیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس سےامام بخاری کا روایت کردہ یہ قول نہیں دیکھتا کہ حضور نبی اکرم بھلائی میں سب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے اور ماہِ رمضان میں آپ بہت فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ اس بناء پر کہ آپ فضیلت والے اوقات کی عزت افزائی فرماتے تھے۔ ہمیں بھی فضیلت کے حامل اوقات جیسے ماہِ ربیع الاوّل کی بہ قدر استطاعت تعظیم کرنی چاہیے۔
اسی طرح مذکورہ بالا مضمون کے حوالہ سے مزید وضاحت کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
كان یجب أن یزداد فیه من العبادات والخیر شکراً للمولى على ما أولانا به من هذہ النّعم العظیمة وإن كان النبی صلى اللّٰه عليه وسلم لم یزد فیه على غیرہ من الشهور شیئاً من العبادات. وما ذاک إلا لرحمتة صلى اللّٰه عليه وسلم بأمته ورفقه بھم لأنه صلى اللّٰه عليه وسلم كان یترک العمل خشیة أن یفرض على أمته رحمة منه بھم، لکن أشار علیه السلام إلى فضیلة هذا الشهر العظیم بقوله للسائل الذى سأله عن صوم یوم الاثنین: ذاک یوم ولدت فیه فتشریف هذا الیوم متضمن لتشریف هذا الشهر الذى ولد فیه فینبغى أن نحترمه حق الإحترام ونفضّله بما فضل اللّٰه تعالىٰ به الأشھر الفاضلة وهذا منھا، لقوله علیه السلام أنا سید ولد آدم ولا فخر، آدم فمن دونه تحت لوائی وفضیلة الأزمنة والأمکنة بما خصھا اللّٰه به من العبادات التى تفعل فیھا، لما قد علم أن الأمکنة والأزمنة لا تشرف لذاتھاوإنما یحصل لھا التشریف بما خصّت به من المعانی. فانظر إلى ما خصّ اللّٰه به ھذا الشھر الشریف ویوم الاثنین، ألا ترى أن صوم ھذا الیوم فیه فضلٌ عظیم لأنه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد فیه؟ فعلى ھذا ینبغى إذا دخل ھذا الشھر الکریم أن یکرّم ویعظّم ویحترم الإحترام اللائق به، إتباعاً له صلى اللّٰه عليه وسلم فى كونه كان یخصّ الأوقات الفاضلة بزیادة فعل البرّ فیھا وكثرة الخیرات. ألا ترى إلى قول ابن عباس كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أجود الناس بالخیر وكان أجود ما یکون فى رمضان فنمتثل تعظیم الأوقات الفاضلة بما امتثله على قدر استطاعتنا. 72
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس میں کثرت سے عبادت وخیرات کے ذریعہ اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں اگر چہ نبی کریم کی اپنی امت پر رحمت وشفقت ہے کہ کیونکہ آپ نے امت یہ فرض ہوجانے کے ڈر سے بہت سے اعمال ترک فرمادیے لیکن جب آپ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اس مہینہ کی فضیلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ "یہ میری پیدائش کا دن ہے"۔ اس دن کی فضیلت اس مہینہ کی فضیلت کو متضمن ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینے کا ایسا احترام کریں جیسا کہ اس کا حق ہے، دیگر مبارک مہینوں کی طرح اس مہینہ کی تعظیم وتکریم کریں کیونکہ یہ مہینہ بھی انہی مہینوں میں سے ایک ہےجیسا کہ حضور نبی کریم کا فرمان ہے:"بلا فخر کہتا ہوں کہ میں اولاد آدم سردار ہوں۔ حضرت آدم اور ان کے تمام لوگ قیامت کے دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے"۔ زمان ومکان کی فضیلت کا دارومدار ان میں کی جانے والی عبادتوں پر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے یعنی ان اوقات ومقامات کے ساتھ مخصوص کیا ہے کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ زمان ومکان کی بزرگی اپنی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ انہیں یہ بزرگی ان معنوی خصوصیات (یانسبتوں وغیرہ) کے سبب ہوتی ہے جن کے ساتھ یہ زمان ومکان مخصوص ہوتے ہیں۔ اب آپ ان خصوصیات اور برکات کو ملاحظہ کیجیے جنہیں اللہ تعالیٰ شہر ربیع الاوّل اور پیر کے دن کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پیر کے دن روزہ رکھنے میں بڑی فضیلت ہے کیونکہ آقائے دوعالم کی ولادت اسی دن ہوئی لہٰذا ضروری ہے کہ جب یہ مہینہ آئے تو اس کی شان کے لائق نبی کریم کی پیروی کرتے ہوئے اس کا احترام واہتمام ہو اور اس کی تعظیم وتکریم کی جائے کیونکہ آپ کی عادت کریمہ تھی کہ آپ فضیلت والے اوقات میں زیادہ عبادت وخیرات فرماتے تھے۔ ابن عباس فرماتے ہیں: "رسول اللہ سب سے زیادہ سخی تھے با لخصوص رمضان المبارک میں آپ اور زیادہ سخاوت فرماتے تھے"لہٰذا ہمیں بھی حتی المقدور ان اوقات کی تعظیم وتکریم کرنی چاہیے۔73
یعنی ماہِ ولادتِ رسول میں عالمِ اسلام کو چاہیے کہ وہ تعظیمِ مصطفی کی خاطر اس ماہ اور اس میں متبرک دن یعنی بارہ ربیع الاول کی تعظیم وتکریم کرے اور اس میں خوب عبادت و خیرات کرے اور یہی کچھ میلادِ مصطفیٰ میں کیا جاتا ہے۔
اسی موضوع کے متعلق محمد بن عبد اللہ ظفر المکی کے حوالہ سے امام یوسف صالحی شامی رقمطراز ہیں:
وقد عمل المحبون للنبي صلى اللّٰه عليه وسلم فرحاً بمولده الولائم فمن ذلك ماعمله بالقاهرة المعزّية من الولائم الكبار الشيخ أبو الحسن المعروف بابن قفل قدس اللّٰه تعالى ٰسره، شيخ شيخنا أبي عبد اللّٰه محمد بن النعمان، وعمل ذلك قبل جمال الدين العجمي الهمذاني وممن عمل ذلك على قدر وسعه يوسف الحجّار بمصر وقد رأى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم وهو يحرّض يوسف المذكور على عمل ذلک.74.
اہل محبت حضور کےمیلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اصحاب محبت نے بڑی بڑی ضیافتوں کا انعقاد کیا ان میں شیخ ابو الحسن بھی ہیں جو کہ ابن قفل قدس اللہ تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمدانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدرِ وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرم کو (خواب میں )دیکھا کہ آپ یوسف حجار کو عمل مذکور کی ترغیب دے رہے تھے۔
مذکورہ بالا تحریر کردہ عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ میلادالنبیکی اصل احادیث ِرسولسے اور بعد الانبیاء افضل الجماعت سے ثابت ہے ۔مروّجہ طرز کیونکہ نیا ہے اس لیے علمائے اسلام اسے بدعت حسنہ میں شمار کرتےہیں چنانچہ محدّثِ عصر شیخ عبد اللہ ہرری اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ان الاحتفال بالمولد النبوى بدعة حسنة فلاوجه لانکارہ بل ھو جدیربان یسمی سنة حسنة لانه من جملة ماشمله قول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من سن في الإسلام سنة حسنة، كان له أجرها، وأجر من عمل بھا من بعده من غير أن ينتقص من أجورهم شيء75وان كان الحدیث واردا فى سبب معین وھو ان جماعة ادقع بھم الفقر جاءوا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وھم یلبسون النمارمجتبیھا اى خارق وسطھا فامر الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم بالصدقة فاجتمع لھم شئی كثيرفسر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لذلک فقال من سن فى الاسلام.....الحدیث، وذلک لان العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب كما ھو مقرر عند الاصولیین ومن انکر ذلک فھو مکابر.76
بلا شبہ میلاد النبیمنانا بدعۃ حسنۃ ہے لہٰذااس کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے بلکہ میلاد شریف سنت حسنہ کہلائے جانے کا مستحق ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ کے اس فرمان میں شامل ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : " جس نے اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کے بعد اس پر جو لوگ عمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا بغیر ان لوگوں کے اجر و ثواب میں کسی کمی کے۔اگرچہ یہ حدیث ایک خاص سلسلے میں وارد ہوئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ فقر و فاقہ میں مبتلا ایک جماعت اللہ کے رسول کے پاس آئی، وہ لوگ پھٹے ہوئے اور انتہائی بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھے، اللہ کے رسول نے ان کے لیےصدقہ جمع کرنے کا حکم دیا تو بہت سارا سامان جمع ہوگیا، جس سے حضور بہت خوش ہوئے اور مذکورہ فرمان بیان فرمایا۔لیکن اس حدیث کا حکم اس واقعے سے مخصوص نہیں ہوسکتاکیونکہ اعتبار عمومِ لفظ اور عمومِ حکم کا ہوتا ہے خصوصی سبب کا نہیں ہوتا ہے، جیسا کہ اصولیین کے نزدیک طے شدہ ہے اور جو اس کا انکار کرے وہ مجادل ہی ہے۔ 77
یعنی رسول مکرم کا میلاد منانا اچھا طریقہ ہے اور خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے میلاد منانے والا اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہے۔
حضور سرور کائنات کی امت کے پسندیدہ لوگوں میں آپ کے وصال کے بعد تقریباً پانچ صدیوں سے یہ کام ہرزمانہ میں بنظر استحسان دیکھا جاتا رہا ہے۔ ان محافل میلاد میں قاری صاحبان، علماء کرام اور نیک راہ پر چلنے والے تمام لوگ جمع ہوتے چلے آرہے ہیں۔ بہت سے اجتماعات آپ کی محبت میں ہوئے، بہت سے مجمع جات آپ کی محبت میں منعقد ہوئے۔ بہت سے لوگوں نے شہروں اور آبادیوں کو میلاد النبی کی نسبت سے خوبصورت کیا۔ بکثرت شمعیں اور روشنیاں کیں اور تمام حاضرین نایاب خوشبو سے معطر ہوتے رہے۔ حضور کے ذکر پاک سے فرحت پاتے رہے، خوشی محسوس کرتے رہے، اور آپ کے نام پاک پر کھایا بھی اور پیا بھی، اپنے رب سے گڑگڑا کر دعائیں کیں، اس سے مانگا، اس کی بارگاہ میں آپ کو شفیع لائے، آپ کی طرف انتساب کیا اور یہ اعتقاد رکھا کہ اس محفل کی برکت سے ہر مقصد برآئے گا۔ اس بابرکت محفل میلاد سے اللہ تعالیٰ نے بہت سے شہر آباد کیے، خوشی اور فارغ البالی مرحمت فرمائی، جب ان شہروں کے باسیوں نے درہم و دینار ایسی محافل پر خرچ کیے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب و مختار کا ذکر کیا، نماز پڑھی، دعائیں مانگیں اور حمد و ثناء کہی توکیا ان محافل سے حضور برا منائیں گے اور کیا اللہ تعالیٰ اس سے راضی نہیں ہوگا؟بالکل راضی ہوگا لہٰذا محفل میلاد منعقد کی جائیں اور کسی قسم کی پریشانی اور ہلاکت کا خوف نہ کیا جائے کہ اس سے زندگی سعات میں بسر ہوگی اور موت بھی سعید ہوگی۔ 78
رہی بات کہ میلاد النبی کی مروّجہ طرز کی ابتدائی تاریخ کیا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل امت مسلمہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ والتسلیم کا عمومی بھی ہے اور تاریخی بھی اوراس کے حوالہ سے کچھ ابتدائی بنیادی باتیں جاننا لازمی ہیں۔سب سے پہلے تو یہ کہ صحابہ و تابعین کو اعلائے کلمۃ اللہ ، حفظ بیضۂ اسلام ، نشر ِدین متین، قتلِ قہر کافرین، اصلاحِ بلاد وعباد،اطفائے آتشِ فساد، اشاعت فرائض وحدودِ الٰہیہ، اصلاح ذات البین، محافظت اصول ایمان، حفظِ و روایت حدیث اور دیگرامور کلیہ مہمہ سے فرصت نہ تھی لہٰذا یہ امور جزئیہ مستحبہ تو کیا معنی بلکہ تاسیسِ قواعد و اصول، تفریعِ جزئیات و فروع ، تصنیف و تدوین ِعلوم ، نظم دلائل حق ،ردِّ شبہاتِ اہل ِبدعت اور دیگر امورِ عظیمہ کی طرف بھی توجہ کامل نہ فرماسکے۔ جب بفضل اللہ تعالیٰ ان کے زور بازو نے دین الٰہی کی بنیاد مستحکم کردی اور مشارق و مغارب میں ملت حنفیہ کی جڑ جم گئی تواس وقت ائمہ و علمائے مابعد نے تخت و بخت سازگار پاکر ،بیخ وبن جمانے والوں کی ہمت بلند کیے اور باغبانِ حقیقی کے فضل پر تکیہ کرکے اہم فالا ہم کاموں میں مشغول ہوئے ، فکرِ صائب نے زمینِ تدقیق میں نہریں کھودیں، ذہن ِرواں نے زلال تحقیق کی ندیاں بہائیں، علماء اولیاء کی آنکھیں ان پاک مبارک نونہالوں کے لیے تھالے بنیں، خواہانِ دین و ملت کی نسیم انفاس متبرکہ نے عطربازیاں فرمائیں یہاں تک کہ مصطفیٰ کریم کا باغ ہرا بھرا پھولا پھلا لہلہایا اور اس کے بھینے پھولوں، سہانے پتوں نے چشم و کام و دماغ پر عجب ناز سے احسان فرمایا۔79
اسلامی حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ مجالس میلاد مختلف طور پر قائم کی جاتی ہیں اور قائم کی گئی تھیں۔ ابتدائے اسلام میں بوجہ سادہ تمدن کے اس کی شکل کچھ اور تھی بعد میں کچھ اور ہوگئی۔ سلاطین اسلام کے عہد میں اس کی شان و شوکت میں کچھ اور بھی اضافہ ہوا۔ صوفیائے کرام اور علمائے عظام کی مجالس میلاد میں کچھ دوسری نوعیت دکھائی دیتی رہی ہے اور آج اخبارات میں جو عید میلاد کے منوانے کی تحریک کی جارہی ہے اس کی حیثیت کچھ اور ہی ہے۔80 تاریخی نقطہ نگاہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ماننا پڑتا ہے کہ مجالس میلاد یا مجالس ذکر و شغل کی طرف مسلمانوں کی زیادہ تر توجہ اس وقت ہوئی جبکہ ضروریات اسلام سے فراغت پاکر مسلمان اپنی حکومت اور اسلامی ترقیات سے بہرہ ور ہوکر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے اور غیر اقوام کے میل جول نے ان کو اس امر کی طرف مجبور کیا کہ جس طرح وہ لوگ اپنے اسلاف کی یادگاریں قائم کرتے تھے اسی طرح مسلمان بھی اسلامی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے مجبور ہوگئے کہ وہ بھی ایام اللہ کے منانے میں کوشش کریں۔ علاوہ اس کے ساتویں صدی ہجری میں جب تاتاری قوم کی ظالمانہ حکومت سے مسلمانوں کی حکومت اور اسلامی خلافت کا شیرازہ بکھرگیا اور لوگ اپنی جان بچانے کی خاطر کچھ تو ہندوستان یا افغانستان وغیرہ پُرامن ممالک میں پناہ گزیں ہوئے اور کچھ عُزلت نشین ہوکر دنیا سے بے تعلق ہوکر خانقاہوں اور مساجد یا عبادت خانوں میں یکسوئی حاصل کرکے سیاسیات سے ایسے روکش ہوگئے کہ شب و روز ذکر و شغل اور وجدو وظائف یا تلقین وارشاد میں ہمہ تن مصروف ہوکر اپنی حیات مستعار کے دن پورے کرنے لگے۔ کیونکہ ساتویں صدی اور اس کاپس و پیش زمانہ کچھ ایسا تھا کہ غیرجانبدار طبائع کے لیے سوائے اس وقت زہد و تقوے اور گوشہ نشینی کے کوئی چارہ نہ تھا۔ 81 اسی وجہ متقدمین میلاد النبی کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوسکے جس طرح اس کی طرف متاخرین متوجہ ہوئےاور اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ منانا شروع کیا ۔البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ میلاد النبی کے لیے یوں اہتمام کرناکوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اوائل دور میں اس کے منانے کا ثبوت موجود ہےچنانچہ اس حوالہ سے علامہ محمد بن یوسف رقمطراز ہیں:82
وكان أول من فعل ذلك بالموصل الشيخ عمر بن محمد الملاّ أحدالصالحين المشهورين وبه اقتدى في ذلك صاحب إربل وغيرهم.83
موصل میں سب سے پہلے شیخ عمر بن محمد الملا نے محفل میلاد کا انعقاد کیا۔ یہ مشہور صالح و متقی شخص تھے۔ اربل کے بادشاہ نے میلاد النبیکے عمل میں انہی کی اتباع کی تھی۔
بادشاہوں میں سے سب سے پہلے شاہِ اربل نے اس نوعیت کے میلا دکی ابتداء کی تھی چنانچہ منقول ہے:
وأول من أحدث ذلك من الملوك صاحب إربل الملك المظفّر أبو سعيد كوكوبري بن زين الدين علي بن بكتكين أحد الملوك الأمجاد والكبراء الأجواد.84
اور سب سے پہلے جس نے اس طرز پر میلاد النبی کی ابتداء کی وہ اربل کا بادشاہ "ملک مظفّر ابو سعید کوکوبری بن زین الدین علی بن بکتکین" تھاجو با عزت بادشاہوں میں سے تھااور بہت بڑا فیاض تھا۔
اسی طرح مؤرخ کبیر علامہ اسماعیل بن کثیر تحریر فرماتے ہیں:
وكان يعمل المولد الشريف في ربيع الأول، ويحتفل به احتفالا هائلا وكان مع ذلك شھما شجاعافاتکا بطلا عاقلا عالما عادلا رحمه اللّٰه تعالىٰ وقد صنف الشيخ أبو الخطاب بن دحية له مجلدا في المولد النبوي صلى اللّٰه عليه وسلم سماه "التنوير في مولد البشیر والنذیر" فأجازه على ذلك بألف دينار، وقد طالت مدته في الملك في زمان الدولة الصلاحية.85
اور وہ میلاد شریف مناتاتھااور اس کے لیے عظیم جلسہ منعقد کرتا تھا۔ان سب کے ساتھ ساتھ وہ بہادر،دلیر،جری، حملہ آور ،عقلمند،عالم اور عادل تھا۔اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔شیخ ابو خطاب ابن دحیۃ86نے اس کے لیےمیلاد نبوی کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کا نام"التنویر فی مولد البشیر والنذیر" رکھا جس پر انہیں بادشاہ نے بطور انعام ہزار دینار پیش کیے۔اس کی حکومت،حکومتِ صلاحیہ کے زمانہ تک رہی۔
اسی طرح علّامہ یوسف سبط ابن جوزی اس محفل میلاد کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
وكان يعمل في كلِّ سنة مولد النَّبيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم في ربيع الأول، يجتمع فيه أهلُ الدُّنيا، ومن وراء جيحون العلماء والفقهاء والوُّعَّاظ والقُرَّاء والصُّوفية والفقراء، ومن كل صِنْف، وتضرب الخيام في المَيدان، وينزل من القلعة بنفسه، فيقرأ القُرَّاء، ويعظ الوعَّاظ، ويمدُّ سِماطًا أوله عنده وآخره في القلعة، ويحضر الخلائق، فلا يبقى إلا مَنْ يأكل ويحمل. 87
وہ ہرسال ربیع الاوّل میں میلاد النبی کی محفل منعقد کرتا تھا۔جس میں دنیا داروں کے ساتھ ساتھ ماوراء دریائے جیحون کے متبحر علماء و فقہاء اورخطباء و قرّاء،مشائخ و فقراء بھی جمع ہوتے ۔ہر شعبہ زندگی کے افراد بھی شریک محفل ہوتے ۔میدان میں خیمے لگادیے جاتے اور بادشاہ بنفس نفیس قلعہ سے نیچے اترآتا پھر قرّاء قراءت کرتے اور خطباء خطابت کرتےپھر خوانِ طعام بچھادیے جاتےجس کا اول حصہ بادشاہ کی طرف ہوتااور آخری حصہ قلعہ کی طرف ہوتا۔تمام رعایہ اس محفل میں شریک ہوکر کھانا تناول کرتی اور خدام کھانا چنتے۔
سبط ابن جوزی اس حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
حکى لى مَنْ حَضَرَ بعض السِّنين: عددتُ على السِّماط وخمسة آلاف رأس شواء وعشرة آلاف دجاجة، ومئة ألف زبدية، وثلاثين ألف صحن حلو، ثم يخلع فيه على الأعيان، وتفرق فيھم الأموال على أقدارهم، ولا يحضرهذا السِّماط أحدٌ من عسكره، إلا أرباب الحرف، ثم يقوم من الميدان، فيدخل الخانقاه وقد اجتمع فيھا من الصوفية ما بين ثمان مئة إلى ألف، فيأخذون في السَّماع وهو يرقص بينھم، فإذا كان من الغد بعث إليھم من يكتب أسماءهم، وكل شيخ ومعه جماعة، فيعطي المشايخ على قدر طبقاتھم ولأتباعهم على حدة، ومن شاء أن يسافر، ومن شاء أن يقيم أيامًا. 88
جو اس محفل میں کئی سال تک حاضر ہوتا رہا،اس نے مجهے بتایا کہ میں نے اس خوانِ طعام پر پانچ لاکھ بھنے ہوئے سروں،دس ہزار مرغیوں ،ایک لاکھ مکھن کے پیالوں اور تیس ہزار حلوے کے تھالوں کو بذات خود شمار کیاہے۔ معززین کو سب کے سامنے خلعت سے نوازا کرتا تھا ، ان کے مناصب کے مطابق مال تقسیم کیا کرتا۔اس خوان طعام پہ اس کی فوجوں میں سے کوئی ایک بھی شریک نہ ہوتا سوائے صنعت کاروں کے۔پھر وہ میدان سے کھڑا ہوکر خانقاہ میں جاتا جہاں صوفیاءآٹھ سو سے ہزار کی تعداد میں جمع ہوتے پھر وہ تمام سماع میں مشغول ہوجاتے اور بادشاہ بھی ان کے درمیان رقص کرتا ۔پھر جب اگلی صبح ہوتی تو بادشاہ ان کے پاس ایک کاتب بھیجتا جو ان کے نام لکھتا۔ہر شیخ کے ساتھ اس کی جماعت ہوتی،پھر وہ مشائخ کو ان کے مرتبہ و مقام کے مطابق دینار دیتا ا ور ان کے متبعین کو علیحدہ سے نوازتا۔اس کی طرف سے اس کی اجازت ہوتی کہ جو چاہے چلا جائے اور جو چاہے مزید رکے ۔
اسی طرح کا مضمون کچھ مزید باتوں کے ساتھ علامہ ابن ناصرالدین دمشقی نے بھی اپنی کتاب میں تحریر فرمایا ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
ولقد بلغنا عمن رأى تلک الولیمة السنیة انه كان مرة على المائدة...مائة الف اناء من الطعام...وكان فیما بلغناان اھل تلک النواحى والبلاد كالجزیرة وسنجار ونصیبین والموصل وبغداد من الفقھاء والوعاظ والقراء والصوفیة والرؤساء والشعراء یسعون فى كل سنة الى اربل لحضور ذلک الوقت المفضل من مستھل المحرم الی اوائل شھرربیع الاول. 89
ہر سال منعقد ہونے والی اس سالانہ دعوت میں حاضر ہونے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ دسستر خوان پر دیگر چیزوں کے ساتھ انواع و اقسام کےسو کھانے چنے گئے تھے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس شہر اور اس کے ارد گرد کے شہروں مثلاًجزیرہ،سنجار،نصیبین،موصل اور بغداد کے فقہاء،خطباء، قراء ،صوفیا،عمائدین اور شعراءاربل بادشاہ کی طرف اس محفل مبارکہ میں شریک ہونے کے لیے ہر سال آیا کرتے اورمحرم الحرام کی ابتداء سے ربیع الاوّل کے شروع تک جمع ہوتے تھے۔
یعنی مذکورہ بالا عبارات کا خلاصہ یہ ہوا کہ میلاد النبی کی خوشی کے اظہار کا مروّجہ طریقہ سب سے پہلے موصل کے شیخ عمر بن محمد نے اپنے طور پر سرانجا مد دیااور اس کے بعد مذکورہ شیخ کی اتباع میں صاحبِ اربل نے چھٹی ہجری کے تیسرے عشرہ میں بڑے پیمانے پر ریاستی سر پرستی میں اس طرز کو اپنایا۔ 90
پھر اس کے بعد امت میں ریاستی طور پر اور علاقائی طور پر اس کی پذیرائی ہوگئی اور یوں میلاد النبی کی مروّجہ طرز پر امت کے علماء و مشائخ و عوام سب کا تعامل ہوگیا۔شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے بھی ابو الملک مظفر بادشاہ کے بارے میں اور اس کے اس طرز میلاد النبی کی محفل کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہےچنانچہ وہ اس حوالہ سے رقمطراز ہیں:
ولا بأس ان نذكر ھنا ما ذكرہ شمس الدین بن خلکان فى تاریخه فى ترجمة الملک المعظم أبی سعید مظفر الدین صاحب اربل من احتفاله فى مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم قال رحمه اللّٰه بعد ان مدحه بحسن السیرة وفعل الخیرات وأما احتفاله بمولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم فان الوصف یقصر عن الاحاطة لکن نذكر طرفاً منه وھو ان أھل البلاد كانوا قد سمعوا بحسن اعتقادہ فیه فكان فى كل سنة یصل الیه من البلاد القریبة من اربل مثل بغداد والموصل والجزیرة وسنجار ونصیبین وبلاد العجم وتلک النواحى خلق كثیر من الفقھاء والصوفیة والوعاظ والقراء والشعراء ولا یزالون یتواصلون من المحرّم الى أوائل شھر ربیع الاوّل...وفى مدة العرض ووعظ الوعاظ یطلب واحداً واحداً من الأعیان والرؤساء والوافدین لأجل ھذا الموسم ممن قدمنا ذكره من الفقهاء والو عاظ والقراء والشعراء ویخلع على كل واحد منھم ثم یعود الى مکانه فاذا تکامل ذلک كلھ حضروا السماط وحملوا منه لمن یقع التعیین على الحمل الى دارہ ولا یزالون على ذلک الى العصر أو بعدھا ثم یبیت تلک اللیلة ھناک ویعمل السماعات الى بکرة ھکذا دأبه فى كل سنة وقد لخصت صورة الحال لأن الاستقصاء یطول فاذا فرغوا من ھذا الموسم تجھز كل انسان للعود الى بلدہ فیدفع لکل شخص شیئاً من النفقة. 91
اگر ہم یہاں شمس الدین بن خلکان کا بیان کردہ واقعہ لکھ دیں تو کوئی حرج نہیں ہوگا جس کو انہوں نے اپنی کتاب میں اربل کے بادشاہ ابوسعید مظفرالدین کے تعارف میں اس کےجلسۂ میلاد النبی کے بارے میں لکھا ہے ۔ حضرت العلام اس بادشاہ کی عمدہ سیرت اور صدقات و خیرات کرنے کی خوبی ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :بادشاہ کا میلاد النبی کا جلسہ اتنا عظیم الشان ہوتا تھا کہ اس کی کماحقہ تعریف نہیں کی جاسکتی لیکن ہم اس کا کچھ نہ کچھ ذکر ضرور کرتے ہیں ۔لوگوں نے اس بادشاہ کے عمدہ عقائد کے بارے میں سن رکھا تھا۔ ہرسال اربل کے قریبی شہر مثلاً بغداد، موصل، الجزیرہ نجار، نصیبین اور بلاد عجم کے لوگ اس کے پاس آتے۔ ان قریبی علاقوں کے بہت سے لوگ مثلاً فقہاء، صوفیاء، مقررین، قراء اور شعراء ماہِ محرم سے لے کر ربیع الاوّل کے ابتدائی دنوں تک وہاں پہنچ جاتے ۔بادشاہ وہاں بہت سے لکڑی کے قبے بنواتا، ہر قبہ کی تین یا چار منزلیں ہوتیں، وہ اسی قسم کے تقریباً بیس قبے تعمیر کرواتا ایک قبہ (گنبد) بادشاہ کے لیے ہوتا اور باقی تمام امراء اور وزراء کے لیے ایک قبہ ہوتا، یکم صفر کو یہ قبے مختلف اشیاء سے سجادیے جاتے اور ہر قبہ میں مختلف طبقوں کے لوگوں کو بٹھادیا جاتا۔ ان ایام میں لوگوں کی معاشی تگ و دو ختم ہوجاتی ،ان کی تنگدستی اور غربت مٹ جاتی۔ یہ گنبد بابِ قلعہ سے لے کر باب ِخانقاہ تک ایک میدان میں نصب کیے جاتے۔ شاہ مظفر الدین ہر روز عصر کی نماز کے بعد وہاں آتا، ہر ایک قبہ میں جاتا ، ہر ایک کے خیالات کو سنتا اور ان کے وہ اعمال دیکھتا جو وہ اپنے اپنے گنبدوں میں کرتے ،پھر وہ خانقاہ میں رات بسر کرتا اور وہاں سماع سنتا پھر فجر کی نماز کے بعد وہ شکار کے لیے نکل جاتا اور ظہر کی نماز سے پہلے وہ اس قلعہ میں واپس آجاتا۔ بارہ(12) ربیع الاوّل تک ہر روز اس کا یہی معمول ہوتا تھا کیونکہ میلاد شریف کی تاریخ میں اختلاف ہے اس لیے وہ ایک سال مہینے کی آٹھ (8)تاریخ کو میلاد مناتا تھا اور دوسرے سال کے مہینے کی بارہ(12)تاریخ کو میلاد مناتا تھا۔ (اس کے حکم سے درباری)میلاد شریف سے دو دن قبل لاتعداد اونٹ، گائیں اور بھیڑیں باہر لےجاتے اور اس کے ساتھ ڈھول وغیرہ بھی لے جاتےحتیٰ کہ وہ ایک میدان میں پہنچ آتے تو اونٹ، گائیں اور بھیڑوں کو ذبح کرنا شروع کردیتے، پھر مختلف قسم کے کھانے پکاتے۔ بادشاہ میلاد شریف کی رات کو سماع سنتا اورمغرب کی نماز قلعہ میں ادا کرتا۔ پھر وہ قلعہ سے واپس آتا تو اس کے سامنے بہت سی روشن مشعلیں ہوتی تھیں اور ان میں دو چار شمعیں بہت بڑی ہوتی تھیں (تعداد میں مصنف کو شک ہے) جن کا نام الشموع الموکبیہ ہوتا۔ ہر شمع کو علیحدہ علیحدہ خچر پر اٹھایا جاتا اس کے پیچھے ایک آدمی سوار ہوتا جو اس شمع کو سہارا دیتا۔ یہ خچر کی کمر کے ساتھ بندھی ہوئی ہوتی حتیٰ کہ یہ جلوس خانقائی تک پہنچ کر ختم ہوجاتا۔جب میلاد شریف کے مبارک دن کی صبح ہوتی تو بادشاہ قلعہ سے لے کر خانقائی تک صوفیاء کو تحائف پیش کرتا، صوفیاء میں سے ہر شخص کے ہاتھ میں ایک کپڑے کا تھیلا ہوتا اور وہ قطار میں ہوتے، بادشاہ ان صوفیاء کو اتنے زیادہ تحائف اور عطیات دیتا جن کو میں شمار نہیں کرسکتا۔ خانقاہ کے پاس آکر بادشاہ سواری سے اترتا وہاں امراء، رؤسا اور بہت سے لوگ جمع ہوتے۔ مقررین کے لیے ایک اسٹیج بنادیا جاتا۔ بادشاہ مظفرالدین کے لیے وہاں لکڑی کا ایک محل نصب کردیا جاتا۔ اس کی بہت سی کھڑکیاں ہوتی تھیں کچھ کھڑکیاں اس جانب ہوتیں جہاں عوام الناس اور مقررین کے لیے اسٹیج ہوتا اور کچھ کھڑکیاں میدان کی طرف ہوتی تھیں۔ وہاں ایک بہت وسیع میدان تھا وہاں اس کا لشکر جمع ہوتا۔ سارا دن وہ لشکر بادشاہ کے سامنے سے گزرتا رہتا کبھی وہ بادشاہ اپنی فوج کی پریڈ کو دیکھتا اور کبھی مقررین اور لوگوں کی طرف نظر کرتا حتیٰ کہ فوج پریڈ ختم کردیتی۔ پھر فقراء کے لیے دستر خوان بچھائے جاتے۔ ایک عام دسترخوان بچھایا جاتا جس پر بہت سا کھانا رکھا جاتا۔ دوسرا دستر خوان خانقاہ میں بچھایا جاتا یہ ان لوگوں کے لیے ہوتا تھا جو اسٹیج کے پاس جمع ہوتے۔ جب تک فوج پریڈ کرتی رہتی اور مقررین تقریریں کرتے رہتے بادشاہ فقہا، مقررین، قراء اور شعراء میں ایک ایک آدمی کو بلاتا اور ہر ایک کو لباس فاخرہ عطا کرتا حتیٰ کہ بادشاہ دوبارہ اپنی جگہ پر آجاتا۔ جب یہ تقریب ختم ہوجاتی تمام لوگ دسترخوان پر آجاتے، جتنا کھانا کسی کے لیے اٹھانا ممکن ہوتا وہ اسے اٹھا کر گھر لے جاتا۔لوگ نمازِ عصر تک کھانا کھاتے (اور لے جاتے)رہتے، بادشاہ یہ رات وہاں ہی گزارتا اور صبح تک سماع سنتا رہتا۔ اس شہنشاہ مظفر الدین کا ہر سال میلاد منانے کا یہی طریقہ تھا جب لوگ کھانے سے فارغ ہوجاتے اور ہر انسان جب گھر واپس آنے لگتا تو بادشاہ اسے درہم عطا کرتا۔92
مذکورہ بالا عبارت سے ابتدائی مجالس و محافلِ میلاد النبی کی کیفیت واضح ہوجاتی ہے جو کہ بعد میں بھی یوں ہی رہی البتہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ تبدیلیاں بھی آتی رہیں جن میں منکرات و منہیات کا ہمیشہ قلع قمع کیا جا تا رہا۔
میلاد النبی کی خوشی کا اظہار اس نوعیت سے کرنے میں شہریان اربل تنِ تنہا نہیں ہیں بلکہ اکثر بلادِ اسلامیہ کے مسلمان اس طرز پر میلاد النبی کی خوشی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ذیل میں چند حوالہ جات اسی مضمون پر روشنی ڈالنے کے لیے تحریر کیے گئے ہیں۔اس سے پہلے جمہور مسلمانوں کا طرز نقل کرنا زیادہ مناسب ہے۔چنانچہ شیخ نبہانی صاحبِ بدایہ کے حوالہ سے جمہور مسلمانوں کے طرزِ میلاد النبی کے بارے میں تحریر قلمبند کرتے ہوئے محرِّر ہیں:
قال ابن كثير وھو المشھور عن الجمھور وعلیه اھل مکة قدیماوحدیثا فى زیارتھم موضع مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذالوقت لان السلف والخلف مطبقون على عمل المولد فى الیوم المذكور ولیلته وعلى تسمیة مولدہ بیوم المولد فى سائر الامصار حتی فى حرم مکة لتی ھى محل مولد المختار صلى اللّٰه عليه وسلم . 93
ابن کثیر نے کہا: جمہور سے(ولادت نبویکی تاریخ کےبارےمیں) یہی(بارہ ربیع الاوّل کا) قول مشہور ہے اور قدیم و جدید اہل مکّہ اسی پر متفق چلے آرہے ہیں۔ وہ اسی تاریخ کو حضور نبی کریم کی جائے ولادت کی زیارت کرنے جاتے ہیں۔ اس لیے سلف و خلف سب اس پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ وہ محفل میلاد بارہ ربیع الاوّل کو ہی منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور بارہ ربیع الاوّل کی رات کو ہی عمل مولد کرتے آرہے ہیں اور اس تاریخ کو میلاد النبی کی تاریخ کہتے چلے آرہے ہیں۔ تمام شہروں میں یہی معمول ہے حتیٰ کہ حرم مکّہ میں بھی یہی معمول ہے جو آپ کی جائے ولادت ہے۔
علامہ شامی کے بھانجے علامہ عبد الغنی دمشقی نے عمر بن کثیر دمشقی کا مذکورہ قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہے 94 اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا ہے کہ جمہور مسلمان میلاد النبی کے موقع پر خوب خوب خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے اچھے کھانے بنا کر ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں ، نئے اور قیمتی لباس زیبِ تن کرتے ہیں۔ 95
ملا علی قاری نے اپنی کتاب میں جہاں مختلف ممالکِ اسلامیہ کے حوالہ سے میلاد النبی کی خوشی کے اظہار کی نوعیت اور ا س کے انداز کو بیان کیا ہے وہیں انہوں نے اجمالی طور پر تمام اہل اسلام کی خوشی کی نوعیت کو بھی بیان کیا ہے۔ چنانچہ اس حوالہ سے وہ رقطراز ہیں:
قال واصل عمل المولد الشریف لم ینقل عن احد من السلف الصالح فى القرون الثلاثة الفاضلة وانما حدث بعدھابا المقاصد الحسنة، والنیة اللتی للاخلاص شاملة،ثم لازال اھل الاسلام فى سائر الاقطار والمدن العظام یحتفلون فى شھر مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم وشرف وكرم بعمل الولائم البدیعة والمطاعم المشتملة على الامور البھیة والبدیعة ویتصدقون فى لیاله بانواع الصدقات ویظھرون المسرات ویزدون فى المبرات بل یعتنون بقرابة مولدہ الکریم، ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم بحیث كان مما جرب كما قال الامام شمس الدین الجزرى المقرى انه امان تام فى ذلک العام وبشرى تعجل بنیل ماینبغى ویرام. 96
مولد شریف کے عمل کی اصل تین فضیلت والے زمانوں میں کسی بزرگ سے منقول نہیں، اور یہ عمل بعد میں نیک مقاصد کے حصول کے لیے شروع ہوا اور اس میں خلوصِ نیت شامل ہے پھر ہمیشہ اہل اسلام تمام علاقوں اور بڑے بڑے شہروں میں حضور نبی کریم کے میلاد کے مہینے میں محفلیں برپا کرتے ہیں اور عجیب و غریب رونقوں اور نئے نئے عمدہ کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ان دنوں طرح طرح کے صدقات و خیرات کے ذریعے خوشیوں کا اظہار اور نیکیوں میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ آپ کے میلاد پاک کو کار ثواب سمجھتے ہیں اور ان پر اس کی برکتیں اور عام فضل و کرم ظاہر ہوتا ہے۔ اس سب کا تجربہ ہوچکا ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن الجزری المقری نے فرمایا کہ محفل میلاد پورے سال کے لیے امن و امان اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے مجرب نسخہ ہے۔ 97
اسی طرح ابن جوزی نے اس حوالہ سے نقل کیا ہےکہ یہ عملِ حسن، مصر ، یمن ،شام بلکہ تمام بلاد عرب اور تمام مشرق ومغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے۔ 98
میلا دالنبی کی مذکورہ بالا محافل مکۃ المکرمۃ میں بھی انعقاد پذیر ہوتی تھیں۔جس میں اہل مکّہ ہرسال شامل ہوتے تھے۔وہاں زیارت مزار پر انوار سے مستفید ہوتے اور میلاد النبی کی محفل مبارکہ میں حسن عقیدت کے ساتھ شریک ہوکر ظاہری و باطنی انوارات سے مستفیض ہو تے تھےچنانچہ علامہ حافظ محمد ابن جزری تحریر فرماتے ہیں:
یخرج اھل مکة كل عام یوم المولدو یحتفلون بذلک اعظم احتفالھم بیوم العید وذلک الى یومنا ھذاوقدزرته وتبركت به عام حجتی سنة اثنین وتسعین وسبعمائة ورایت من بركته عظیما ثم كررت زیارته فى مجاورتی ثلاث وعشرین وثمان مائة...و قرء على كتابی: التعریف بالمولد الشریف وسمعه خلق لایحصون وكان یوما مشھودا.99
ہر سال اہل مکّہ میلاد النبی کے دن مولد شریف کی زیارت کے لیے نکلتے ہیں اوراس دن یوم عید سے بڑھ کر محفل منعقد کرتے ہیں،اس زمانہ تک ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔بلاشبہ میں نے بھی اپنے حج والے سال 792ھ میں اس مقام مقدس کی زیارت کی اورمیں نے اس میں عظیم برکات کا مشاہدہ بھی کیا۔میں 823ھ تک مسلسل اس مقام مبارک کی زیارت کرتا رہا۔۔۔اور مجھ پر میری کتاب"التعریف بالمولد الشریف"پڑھی گئی جسے بے شمار مخلوق نے سنااور یہ دن زیارت(مولد شریف) کا دن تھا۔
اسی طرح اِمام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ اہلِ مکّہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں :
وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في كل عام أن قاضي مکة الشافعي يتھى ألزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منھم الثلاثة القضاة وأكثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس كثیرة وشموع عظيمة وزحام عظيم ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بأزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذكر آنفاً بحضور القضاة وأكثر الفقهاء ثم يصلّون العشاء وينصرفون. 100
ہر سال مکّہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاوّل کی رات اہلِ مکّہ کا یہ معمول ہے کہ قاضئِ مکّہ جو شافعی ہیں مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکّہ اور قاضئِ شافعی کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے جدا ہو جاتے ہیں۔
ابو الحسین ابن جبیر نے بھی اپنے سفر نامہ میں میلاد النبی کے حوالہ سے اہل مکّہ اور پھر اپنا طرز عمل بیان فرمایا ہےچنانچہ آپتحریر فرماتے ہیں:
ومن مشاهدها الكريمة أيضا مولد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم والتربة الطاهرة التي هي أول تربة مست جسمه الظاهر، بني عليھا مسجد لم ير أحفل بناء منه، أكثره ذهب منزل به والموضع المقدس الذي سقط فيه صلى اللّٰه عليه وسلم ساعة الولادة السعيدة المباركة التي جعلها اللّٰه رحمة للأمة أجمعين محفوف بالفضة...يفتح هذا الموضع المبارك فيدخله الناس كافة متبركين به في شھر ربيع الأول ويوم الاثنين منه، لأنه كان شھر مولد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم وفي اليوم المذكور ولد صلى اللّٰه عليه وسلم وتفتح المواضع المقدسة المذكورة كلها وهو يوم مشهود بمكة دائما. 101
مکّہ مکرّمہ کی زیارات میں سے ایک مولد پاک بھی ہے۔ اس مقام کی مٹی کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے اس کائنات میں سب سے پہلے محبوب خدا کے جسم اقدس کو مس کیا ۔اس مقام پر ایک مسجد بنادئی گئی ہے، جس سے زیادہ خوبصورت مسجد نہیں دیکھی گئی اورجس کا اکثر حصہ سونے سے بنایا گیا ہے۔ اس میں وہ مقدس مقام بھی ہےجس میں اس ہستئِ مبارکہ کی ولادت پاک اس حال میں ہوئی کہ چاندی میں لپٹے ہوئے تھے ،جو تمام امت کے لیے رحمت ہے ۔۔۔ ماہ ربیع الاوّل میں خصوصا آپ کی ولادت کے دن اس مکان کو زیارت کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور لوگ جوق درجوق اس کی زیارت کرتے ہیں اور تبرک حاصل کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ نبی کریم کا شہرِ ولادت ہے۔اسی مذکورہ دن نبی کریم کی ولادت ہوئی اور مذکورہ مقام کو مکمل طور پر کھولا جاتا ہے اور یہ دن ہمیشہ سے اہلِ مکّہ کی جائے ولادت پر حاضر ہونے کا دن ہے۔
آپ اپنی زیارت مولد النبی کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وفي يوم الاثنين الثالث عشر منه دخلنا مولد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ومسحنا الخدود في ذلك الموضع المقدس الذي هو مسقط لأكرم مولود على الأرض وممس لأطهر سلالة وأشرفها صلى اللّٰه عليه وسلم ونفعنا ببركة مشاهدة مولده الكريم .102
ہم مولد النبیمیں پیر کے دن 13 ربیع الاوّل کو داخل ہوئےاور اپنے رخسار اس مقدس جگہ پر رکھ دیے کیونکہ یہی وہ مقدس مقام ہےجہاں کائنات کا سب سے مبارک اور سب سے پاکیزہ و طیب بچہ پیدا ہوا ۔ہم نے مولد النبی کی زیارت کے ذریعے خوب برکات حاصل کیں۔
اسی موضوع کے متعلق ملا علی بن سلطان قاری تحریر فرماتے ہیں:
ہمارے مشائخ کے شیخ امام علامہ سمندر جیسے علم کا عالم، صاحب فہم شمس الدین محمد السخاوی (اللہ ان کو مقامِ بلند تک پہنچائے) نے فرمایا کہ مکّہ مکرّمہ میں کئی سال تک میں محفل میلاد کی شرکت سے مشرف ہوا اور مجھے معلوم ہوا کہ یہ محفل پاک کتنی برکتوں پر مشتمل ہے اور بار بار میں نے مقامِ مولد کی زیارت کی جس سے میری سوچ کو بہت فخرحاصل ہوا۔103
یعنی مقام ِ مولد النبی کی زیارت سے مجھے خود پر فخر محسوس ہوا کہ رسول اکرم کی جائے ولادت کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی ۔اسی حوالہ سےآپ مزیدکلام کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:
قال السخاوى: وأما أھل مکة معدن الخیر والبركة فیتو جھون الى المکان المتواتر بین الناس أنه محل مولدہ وھو فى سوق اللیل ریاء بلوغ كل منھم بذلک المقصد ویزید اھتمامھم به على یوم العید حتی قلَّ أن یتخلف عنه أحد من صالح وطالح، ومقل وسعید سیما الشریف صاحب الحجاز بدون توارِ وحجازقلت: الآن سیماء الشریف لاتیان ذلک المکان ولا فى ذلک الزمان، قال: وجود قاضیھا وعالمھا البرھانی الشافعى رحمه اللّٰه تعالىٰ اطعام غالب الواردین وكثیرمن القاطنین المشاھدین فاخر الأطعمة والحلوى، ویمد للجمھور فى منزله صبیحتھا سماطا جامعًا رجاء لکشف البلوى، وتبعه ولدہ الجمالى فى ذلک للقاطن والسالک.104
امام سخاوی نے کہا کہ اہل مکّہ خیر و برکت کی کان ہیں، یہ سارے کے سارے لوگ ہمیشہ سوق اللیل میں واقع رسول اللہ کے مقامِ ولادت پر تمام لوگوں کے ہمراہ جاتے ہیں اور ہر ایک اس مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ عید کے دن اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی نیک یا بد اور کم نصیب یا سعادت مند پیچھے نہیں رہتا۔یہاں تک کہ حجاز مقدس کا گورنر بھی بلاناغہ حاضر ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اب شریف مکّہ کی اس جگہ اور اس وقت پر تشریف آوری نہیں ہوتی۔ اس نے کہا: کہ قاضئِ مکّہ وہاں کے عالم البرہانی الشافعی کا وہاں پرآنا اور آنے والوں کی اکثریت کو کھانا کھلانا اور بہت سارے لوگ جو صرف زیارت کے لیے آتے ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے اور مٹھائیاں دینا اور اس مقام پر میلاد کی صبح عوام کی مدد کرنا، اس امید پر کہ اس سے مصیبتیں ٹلتی ہیں، یہ جاری و ساری ہے۔ اس کے بیٹے الجمال نے اس سلسلے میں اس کی پیروی کی ہے کہ وہ غریب اور مسافر کی خبر گیری کرتا ہے۔ 105
علامہ قطب الدین حنفی نےبھی اہلِ مکّہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں :
يزار106مولد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شھر ربيع الأول في كل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفاً في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذّن للعشاء ويصلي الناس علي عادتھم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرّقون وهذه من أعظم مواكب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بھا. 107
ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاوّل کی رات حضور کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔
علامہ زرقانی نے بھی اپنی کتاب میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ لوگ ان کے زمانہ (دسویں صدی ہجری)میں بھی محفل میلاد کا انعقاد جوش و خروش سے کیا کرتے تھےچنانچہ علامہ زرقانی مالکیتحریر فرماتے ہیں:
يحتفلون يھتمون بشهر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ويعملون الولائم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون السرور به ويزيدون في المبرات ويعتنون بقراءة قصة مولده صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم، ويظهر عليھم من بركاته كل فضل عميم. 108
لوگ آج بھی میلاد النبی کے مہینہ میں اجتماعات و محافل کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔اس ماہ کی راتوں میں انواع واقسام کے صدقات و خیرات کرتے ہیں اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔کثرت سے نیکیاں کرتے ہیں اور مولود النبی کے واقعات کا خصوصی طور سے تذکرہ کرتے ہیں اور ان پر منجانب اللہ برکات اور بے پناہ فضل و احسان کا ظہور ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ میلاد النبی کے موقع پر اہل مکّہ کے علماء و مشائخ عوام کے ساتھ مل کر میلاد النبی کی وجہ سے خوشی کا اظہار کرتے تھے،مقامِ مولود پر یہ تمام علماء ومشائخ جمع ہوتے جن میں کوئی بڑے عالم خطیب کی حیثیت سے تقریر فرماتے،پھر سلطنت کے اراکین سمیت سلطنت و ملک ِ سلطنت کے لیے دعا کرتے پھر جلوس کا اہتمام ہوتا جو "سوق اللیل" سے ہوتا ہوا نمازِ عشاء سے قبل مقام مولود النبی پر قبل از نمازِ عشاء اختتام پذیر ہوتا اور لوگ وسط ِ مسجد میں نماز عشاء معمول کے مطابق ادا فرماتے ا ور یوں یہ مجلس بر خاست ہوجاتی تھی۔
عصرِ حاضر میں بھی حرمین شریفین زادھما اللّٰه شرفًا وعزًامیں ربیع الاوّل کے بابرکت مہینہ میں اہلِ مکّہ و مدینہ محافلِ میلاد اور درود و سلام کی محافل کا اہتما م کرتے ہیں۔بارہ ربیع الاوّل کےآغاز کے وقت مکّہ ٹاور کے چاند سے باقاعدہ سبز رنگ کی روشنی کو آسمان کی طرف پھیلایا جاتا ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ بارہ ربیع الاوّل کی شب کا آغاز ہوگیا ہے۔اسی طرح اہل مدینہ مسجدِ نبوی شریف میں اس دن اور رات نبی کریم پربکثرت درود و سلام پڑھتے ہیں اور لوگوں میں اشیائے خوردونوش تقسیم کرتے ہیں۔
جس طرح اہل مکّہ میلاد النبی مناتے تھے اسی طرح اہل مدینہ بھی اس عمل میں شریکِ اہلِ مکّہ تھے اوریہ لوگ بھی رسول مکرم کا میلاد جوش وخروش سے مناتے تھےچنانچہ ملا علی قاری رقمطراز ہیں:
ولاھل المدینة كثرھم اللّٰه تعالىٰ به احتفال وعلى فعله اقبال. 109
اہل مدینہ (اللہ انہیں خیر کثیر عطا فرمائے ) محفل میلاد النبی منعقد کرتے ہوئے اس پر پوری توجہ دیتے ہیں۔ 110
اسی طرح اس موضوع سے متعلق علامہ ابن جوزی تحریر فرماتے ہیں کہ ہمیشہ سے مولد النبی کے حوالہ سے خوشی کا اظہار کرنا حرمین شریفین یعنی مکّہ ومدینہ میں جاری و ساری ہے ۔یہ تمام افراد میلاد النبی کی محفلیں قائم کرتے ہیں اور لوگ جمع ہوتے ہیں۔ماہ ربیع الاوّل کا چاند دیکھتے ہی خوشیاں مناتے ،غسل کرتے،عمدہ لباس پہنتے،زیب وزینت اور آراستگی کرتے،عطر وگلاب چھڑکتے،سرمہ لگاتے اور ان دنوں خوب خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں۔جو کچھ نقد و جنس میں سے میسر ہوتا ہے دل کھول کر اس میں سے لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔میلاد پاک پڑھنے اور سننے پر زیادہ تزک و اہتمام کرتے ہیں۔111
مذکورہ بالا حوالہ جات میں مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منورہ کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔اب اہل مصر وشام کے حوالہ سے بھی چند باتیں پیشِ خدمت ہیں۔ چنانچہ ملا علی قاری اہل مصر و شام کی میلاد النبی کی خوشی کرنے کی نوعیت کو قلمبند کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
قال: فأكثر ھم بذلک عنایة أھل مصر والشام، ولسلطان مصر فى تلک الیلة من العام أعظم مقام قال: ولقد حضرت فى سنة خمس وثمانین وسبعمائة لیلة المولد عندالملک الظاھر برقوق رحم اللّٰه بقلعة الجبل العلیَّة، فرأیت ما ھالنی وسرنی وما ساءنی، من الأتباع والغلمان والخدام المترددین بنحو عشرة آلاف مثقال من الذھب مابین خِلَع ومطعوم و مشروب ومشموم وشموع وغیرھا ما یستقیم به الضلوع، وعددت فى ذلک خمسا وعشرین من القراء الصیتین المرجو كونھم مثبتین، ولا نزل واحد منھم الا بنحو عشرین خِلعة من السلطان ومن الأمراء الأعیان قال السخاوى: قلت: ولم یزل ملوک مصر خدام الحرمین الشریفین ممن وفقھم اللّٰه لھدم كثیر من المناكیر والشین ونظروا فى أمر الرعیة كالوالد لولدہ، وشھروا أنفسھم بالعدل، فأسعفھم اللّٰه بجندہ ومددہ كالملک السعید الشھید الظاھر المصدق أبی سعید جقمق یعتنون به ویتو جھون لطریق نبیه بحیث ارتقت جوق القراء فى أیامه بیقین للزیادة على الثلائین فذكروا بکل جمیل وكفوا من المھمات كل عریض وطویل.112
اس طرف زیادہ توجہ مصر اور شام کے لوگوں نے دی ہے اور سال کی ان راتوں میں بادشاہ ِمصر کی شان نرالی ہوتی ہے۔ فرمایا: میں سن سات سو پچیاسی( 785ھ) میں میلاد کی رات بادشاہ الظاہر برقوق کی منعقد کردہ ایک محفل میلاد میں حاضر ہوا ، جو ایک اونچے پہاڑ کے اوپر واقع قلعہ میں منعقد ہوئی، میں نے جو منظر دیکھا اس نے مجھے حیرت زدہ کردیا اور میں اس سے بڑا خوش ہوا اور مجھے اس میں کوئی برائی نظر نہیں آئی اور جو کچھ اس رات میں قراء، حاضرین ِمجلس، واعظین اور نعت خواں،دوسرے پیروکار لڑکے اور خدام جو شریک محفل تھے، ان پر اس رات جو خرچ کیا گیا، وہ تقریباً دس ہزار مثقال سونا تھا۔جس میں ہر ایک کو خلعت دینے، کھانے، مشروبات ، خوشبوئیں اور شمعیں وغیرہ کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ میں نے پچیس خوش آواز قراء کو شمار کیا جو ان محافل میں ہمیشہ رہتے تھے۔ بادشاہ ، امراء اور اعیان سلطنت کی طرف سے کسی کو بھی بیس خلعتوں سے کم نوازا نہیں گیا۔ علامہ سخاوینے کہا: مصر کے بادشاہ ہمیشہ حرمین شریفین کے حقیقی خادم رہے ہیں اور اللہ کی توفیق سے انہوں نے بہت ساری برائیوں اورخرابیوں کا خاتمہ کیا۔ بادشاہ رعایا کا ایسے خیال رکھتا ہے جیسے باپ اپنی اولاد کا خیال رکھتا ہے اور انہوں نےاپنے آپ کو عدل و انصاف کے لیے وقف کر رکھا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے لشکر اور مدد سے قوت دی جیسے کہ بادشاہ نیک بخت و شہید ظاہر المصدق ابو سعید جقمق محفل میلاد کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور ہمیشہ اپنے نبی کریم کے راستے کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ ان کے دورِ حکومت میں قراء کی جماعت یقیناً تیس سے اوپر تھی، سو ہر خوبی کے ساتھ ان کو یاد کیا جاتا ہے اور ہر لمبی چوڑی پریشان کن باتوں سے ان کو بچایا جاتا ہے۔113
اسی طرح مذکورہ موضوع کے حوالہ سے کلام کرتے ہوئے علامہ سیّد احمد بن عبد الغنی تحریر فرماتے ہیں: 114
واكثر الناس عنایة بذلک اھل مصر والشام وانه شاھد من الظاھر برقوق سلطان مصر سنة 785 وامرائه بقلعة مصر فى لیلة المولد المذكورة من كثر الطعام وقراءة القرآن والاحسان للفقراء والقراء والمداح ما بھرہ وانه صرف على ذلک نحو عشرة آلاف مثقال من الذھب.115
(ابن دحیہ کی کتاب"التنویر فی مولد السراج المنیر") کی طرف زیادہ توجہ اہلِ مصر اور شام کی رہی ہے۔ اس کے مصنف نے سن سات سو پچیاسی(785ھ)میں سلطانِ مصرظاہر برقوق اور اس کے امراء کی طرف سے قلعۂ مصر میں منعقد کی گئی محفل میلاد النبی کا مشاہدہ کیا ہے نیز وافر مقدار میں کھانا، قران کریم کی تلاوت ، فقراء، قراء اور نعت خوانوں کو احسانات سے نوازنا ،ان تمام چیزوں کو دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی اور اس پر مزید یہ کہ سلطان موصوف نے دس ہزار مثقال سونا اس محفل پر خرچ کیا۔ 116
ان عبارات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کے میلاد مبارک پر خوشی کا اظہارا ور سرور کی محافل اہلیان مصرو شام بھی کیا کرتے تھے جس سے واضح ہوتا ہے کہ میلاد النبی پر خوشی کا اظہار کوئی نئی رسم نہیں بلکہ امت کے سلف کا طریقہ رہا ہے۔
شیخ احمد مقری نے بھی ابو سعید ملک مظفر باشاہ کی طرح تلمسان کےایک اور بادشاہ کا ذکر کیا ہے جومذکورہ طرز پر مولود النبی کی محفل منعقد کیاکرتا تھا چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں:
وكان السلطان أبو حمو يقوم بحق ليلة مولد المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم ويحتفل لها بما هوفوق سائر المواسم، يقيم مدعاة يحشر لها لأشراف والسوقة،...وما من ليلة مولد مرت في أيامه إلا ونظم فيھا قصيداً في مديح مولد المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم أول ما يبتدئ المسمع في ذلك الحفل العظيم بإنشاده. 117
سلطان ابو حمو شب میلاد النبی کے شایان شان محفل منعقد کرتا تھا اور اس کے لیے ایسی مجلس سجاتاتھا جو سال بھر کی تمام مجالس سے بڑھ کرہوتی تھی۔جس میں تمام عمائدین اور رعایا کو مدعو کیا کرتا تھا۔۔۔اور جتنی بھی شب میلاد اس کی بادشاہت میں گزری ان سب میں وہ رسول اللہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا کرتا تھا جس کو ترنم سے پڑھ کر اس محفل ذی شان کا آغاز کیا جاتا تھا۔
چونکہ اس عبارت کی تلخیص شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانینے اپنی کتاب میں ذکر کی ہے تو ذیل میں ملخص عبارت درج کی جارہی ہے وہ تحریر کرتے ہیں:
ذكرالعلامة الشھاب أحمد المقرى فى كتابه نفح الطیب ان السلطان أبا حمو موسی صاحب تلمسان فى القرن الثامن من الھجرة كان یحتفل لیلة مولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم غایة الاحتفال كما كان ملوک المغرب والأندلس فى ذلک العصر وما قبله ونقل عن كتاب راح الأرواح و كتاب نظم الدر والعقیان كلا ھما للحافظ أبی عبداللّٰه التنّسى ان المولى أبا حموالمذكور كان یقیم لیلة المولد النبوى على صاحبه الصلاة والسلام بمشورة من تلمسان حفیلة یحشر فیھا الناس خاصة وعامة فما شئت من نمارق مصفوفة وزرابی مبثوثه وبسط موشاة ووسائد مغشاة وشمع كالاسطوانات وموائد كالھالات ومباخر منصوبة كالقباب یخالھا المبصر تبراً مذاب ویفاض على الجمیع أنواع الأطعمة كانھا أزھار الربیع المنمنمة فتشتھیھا الأنفس وتستلذھا النواظر ویخالط حسن ریاھا الأرواح ویخامر رتب الناس فیھا على مراتبھم ترتیب احتفال وقد علت الجمیع أبھة الوقار والاجلال وبعقب ذلک یحتفل المستمعون بأمداح المصطفى علیه الصلاة والسلام المکفرات ترغب فى الاقلاع عن الآثام فیھا من فن الى فن ومن أسلوب الى أسلوب ویأتون من ذلک بما تطرب له النفوس وترتاح الى سمامع القلوب والسلطان لم یفارق مجلسه الذى ابتداأ جلوسه فیه وكل ذلک بمرأى منه ومسمع حتی یصلى ھنالک صلاة الصبح على ھذا الأسلوب تمضى لیلة مولد المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم فى جمیع أیام دولته أعلى اللّٰه تعالىٰ مقامه فى علیین وشکرله فى ذلک صنیعه الجمیل آمین ومامن لیلة مولد مرت فى أیام الا ونظم فیھا قصیداً فى مدیح المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم أول مایبتدىء المسمع فى ذلک الحفل العظیم بانشادہ ثم یتلوہ انشاد ما رفع الى مقامه العلى فى تلک اللیلة انتھت عبارة نفع الطیب باختصار.118
علامہ الشہاب احمد مقری نے اپنی کتاب"نفح الطیب"میں لکھا ہے: سلطان ابوحمو موسیٰ جو تلمسان کا بادشاہ تھا وہ بھی عید میلادالنبی کا عظیم الشان جشن منایا کرتے تھے جیسا کہ ان کے زمانہ میں اور ان سے قبل مغرب اقصیٰ اور اندلس کے سلاطین بھی میلاد منایا کرتے تھے۔ سلطان کے اس جشن کی تفصیل حافظ سیّدابوعبداللہ تونسی نے اپنی کتاب "راح الارواح" اور "نظم الدور العقبان" میں بیان کی ہے ۔حافظ صاحب نے لکھا ہے کہ ہر خاص و عام کو شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ اس محفل میں اعلیٰ قسم کے قالینوں کا فرش اور خوب صورت پھولوں والی چادریں بچھائی جاتی تھیں۔ سنہرے غلافوں والے گاؤ تکیے لگائے جاتے تھے ،ستونوں کے برابر بڑے بڑے شمع دان روشن کیے جاتے تھے، بڑے بڑے دسترخوان بچھائے جاتے تھے ،بڑے بڑے گول اور خوش نما نصب شدہ بخوردانوں میں بخور سلگایا جاتا تھا جو دیکھنے والوں کو پگھلایا ہوا سونا معلوم ہوتا تھا۔ پھر تمام سامعین کے سامنے انواع و اقسام کے کھانے چنے جاتے تھے ،ایسا معلوم ہوتا تھا گویا کہ موسم بہار میں مختلف رنگوں کے پھول کھلے ہوئے ہیں ۔وہ کھانے ایسے ہوتے تھے جن کو دیکھ کر دل میں رغبت پیدا ہوتی تھی اور آنکھوں کو لذت ملتی تھی۔ ان محفلوں میں اعلیٰ قسم کی خوشبوئیں بسائی جاتی تھیں جن کی مہک سے فضا معطر ہوجاتی تھی۔ مہمانوں کو حسبِ مراتب ترتیب وار بٹھایا جاتا تھا، یہ ترتیب جشن کی مناسبت سے دی جاتی تھی، حاضرین پر عظمتِ نبوت کا جلال و وقار چھایا رہتا تھا۔ انعقادِ محفل کے بعد سامعین آنحضرت کے فضائل اور مناقب سنتے تھے، پاکیزہ خیالات اور نصائح سنتے تھے ،جوانہیں گناہوں سے توبہ کی طرف راغب کرتے۔ خطباء اپنے خطابات سے سامعین کے قلوب کو گرماتے اور انہیں لذت اندوز کرتے اور اسی طرح تمام رات گزرجاتی۔ بادشاہ تمام رات اسی محفل میں بیٹھا رہتا حتیٰ کہ نماز صبح کا وقت ہوجاتا۔ بادشاہ کی سلطنت کے تمام شہروں میں اسی طرح میلادِ مصطفی کی محفل کا انعقاد کیا جاتا اور ہر محفل میں نعتِ پاک پڑھی جاتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کامقام علیین میں بلندفرمائے اوران کوان کےاس نیک عمل پرجزاء عطافرمائے۔آمین۔ان کے دورمیں کوئی بھی شبِ میلاد ایسی نہ گزری جس میں انہوں نےنبی اکرم کی شان میں قصیدہ نہ لکھاہو۔اس عظیم محفل کی ابتداء میں سب سےپہلےجو قصیدہ سنائی دیتاوہ ان کا قصیدہ ہوتا اس کے بعد اس كو بلند آواز والاپڑھتاجس کو اس رات اسےپڑھنےکا بلندمرتبہ حاصل ہوتا۔ "نفح الطیب" کی عبارت اختصارکے ساتھ ختم ہوئی۔
مذکورہ بالا عبارت میں میلاد النبی منانےکے تمام تر اہم پہلوؤں پر روشنی پڑجاتی ہے جس سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم کے میلاد پر خوشی کا اظہار اور مرورِ زمانہ کے ساتھ مروّجہ طرز پر میلاد منانا نہ صرف یہ کہ امت کے ماقبل افراد کا طریقہ رہا ہے بلکہ اس طریقہ میں امت کے سابق علماء اور مشائخ بھی اس طرز کی دیگر تمام محافل و مجالس میں شریک ہوتے تھے۔
دیگر ممالک اسلامیہ، ان کے بادشاہوں اور ان میں بسنے والے مسلمانوں کی طرح ہی دولتِ عثمانیہ میں بھی میلاد النبی پر خوشی کااظہار انتہائی دل آویز اور فرحت بخش انداز سے کیا جاتا ہےچنانچہ علامہ سیّداحمد بن عبد الغنی دولتِ عثمانیہ کے حوالہ سے طرزِ میلاد کو تحریر کرتے ہوئے رقمطرازہیں:
ومازال بحمد اللّٰه تعالىٰ فى كل عصر طائفة من المسلمین ملتزمین له غایة الالتزام حتی توسعوا فیه فعملوہ فى سائر شھور العام محبة بجنابه الشریف صلى اللّٰه عليه وسلم ویعملون الولائم ویتصدقون فى لیالیه بانواع الصدقات ویظھرون السرور به ویزیدون فى المبرات. ولاسیماملوک الدولة العلیة العثمانیة وامراؤھااصحاب الھمم القویة صانھا رب البریة من كل آفة ورزیة فانھم یعتنون بقراة قصة مولدہ الکریم صلى اللّٰه عليه وسلم ویظھر علیھم من بر كاته كل فضل عمیم. 119
الحمد للّٰه! ہر دور میں مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ضرور رہا ہے جو نبی کریم کی ولادت کا دن نہایت اہتمام و شان سے مناتا رہا ہے حتیٰ کہ اس بابرکت عمل میں انہوں نے وسعت دے کر صرف بارہ ربیع الاوّل پر ہی توقف نہ کیا بلکہ وہ سال بھر ایسی محافل کا انعقاد و اہتمام کرتے ہیں اور یہ سب کچھ حضور نبی کریم کی محبت کی وجہ سے ہے۔ اچھے اچھے کھانے پکائے اور کھلائے جاتے ہیں۔ اس کی راتوں میں صدقات و خیرات کیے جاتے ہیں۔ اس کے ذریعہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خاص کر دولت عثمانیہ کے حکمران اور اس کے صاحب ہمت امرا ء(اللہ اس حکومت کو ہر آفت و پریشانی سے محفوظ رکھے) تو یہ بھی انتظام کرتے ہیں کہ ان محافل میں حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت کا قصہ بیان کیا جائے۔ (یا لکھا ہوا پڑھا جائے) اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عام برکتیں ان کے شامل حال ہوتی ہیں.120
دولتِ عثمانیہ کے حکمران بھی دیگر ممالکِ اسلامیہ کی طرح حضور اکرم کے میلا د کی خوشی کا اظہار جوش وخروش سےکرتے اور ان دنوں نیکیوں اور خیرات میں مسابقت کرتے تھے۔
اسی طرح اندلس روم کے بادشاہ بھی اپنی رعایا سمیت اس مولد النبی پر خوشی کا اظہارکرتے اور بہترین محفل میلادمنعقد کرتے تھے چنانچہ اس حوالہ سے ملا علی قاری رقمطراز ہیں :
وأما ملوک الأندلس والغرب فلھم فیه لیلة تسیر بھا الركبان یجتمع فیھا أئمة العلماء الأعلام فمن یلیھم من كل مکان وعلوا بین أھل الکفر كلمة الایمان، وأظن أھل الروم لا یتخلفون عن ذلک، اقتفاء بغیرھم من الملوک فیما ھنالک.121
اندلس اور مغرب کے بادشاہ اس رات کو شاہسواروں کے ساتھ محفل میلاد النبی میں شامل ہوتے، اس محفل میں بڑے بڑے علماء، ائمہ اور ان کے ساتھی ہر جگہ سے جمع ہوتے اور کافروں کے درمیان کلمہ ایمان بلند کرتے ہیں۔ میرے خیال میں رومی بھی اس سے پیچھے نہیں رہتے تھے اور باقی بادشاہوں کے ساتھ قدم بقدم چلتے تھے۔
یعنی کہ رومی عوام و خواص بھی اندلس کے عوام وخواص کی طرح رسول مکرم کے میلاد کی خوشی کا اظہار کرتے تھے جس میں علماء کی شرکت بھی اسی طرح ہوتی جس طرح دیگر ممالک اسلامیہ میں ہوتی تھی۔
اسی طرح قوص 122 کے رہنے والے بھی میلاد النبی کی خوشی کا اظہار بھی والہانہ پن میں کرتے تھےچنانچہ علامہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی امام کمال ادفوی کےحوالہ سے رقمطراز ہیں:
وقال الکمال الادفوى فى الطالع السعید حکى لناصاحب العدل ناصر الدین محمود بن العماد ان اباالطیب محمد بن ابراھیم السبطى السبطى نزیل قوص احد العلماء العاملین كان یجوز فى المکتب فى الیوم الذى ولد فیه النبی صلى اللّٰه عليه وسلم فیقول یا فقیه ھذا یوم سرور اصرف الصبیان فیصرفنا، وھذا منه دلیل على تقریرہ وعدم انکارہ وھذا الرجل كان فقیھا مالکیا مفننا فى العلوم متورعا اخذ منه ابو حیان و غیرہ ومات سنة خمس وتسعین وستمائة.123
کمال ادفوی نے" الطالع السعید"میں تحریر کیاہے کہ ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن حماد نے بتایا کہ ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی جو قوص کے رہنےوالے تھے اور باعمل علماء میں سے تھے وہ اپنے دارالعلوم میں نبی مکرم کی ولادت مقدسہ کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسہ میں پڑھائی کی چھٹی کرتے اور اساتذہ سے کہتے :اے فقیہ آج خوشی و مسرت کا دن ہے بچوں کو چھوڑدو! تو ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد النبی کے جواز و اثبات اور عدم جواز پر انکار کی دلیل ہے۔یہ عالم مالکیوں کےبہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فن گزرے ہیں جو انتہائی تقوی و پرہیزگار ی کے مالک تھے۔علامہ ابو حیان اور دیگر علماء کرام نے ان سے اکتساب علم و فیض کیا ہے اور انہوں نے695ھ میں وفات پائی.124
یعنی رسول اکرم کی ولادت کی خوشی میں قوص کے ایک عالم اپنے دار العلوم کی چھٹی کا اجازت نامہ مرحمت کردیا کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی خوشی کا دن ہے اور یاد رہے کہ یہ عالم مالکیوں کہ جید اور متبحر عالم شمار ہوتے تھے۔
اب تک تحریر کردہ سطور میں بلاد عرب اور اس کے چند مضافاتی ریاستوں کے حوالہ سے اس بات کی واضح طور سے نشاندہی کی گئی ہے کہ مذکورہ بالا تمام ممالکِ اسلامیہ میں میلاد النبی کی خوشی کا اظہار انفرادی و اجتماعی سطحوں پر کیا جاتا تھا۔ ریاستی اور نجی افراد بھی اپنے طور سے ا س موقع پر مروجہ طرز اور منفرد نوعیت کے ساتھ رسول اکرم کی آمد کی خوشی کرتے تھے اور آپس میں محبتوں کا اظہار اور نیکیوں کی کثرت بھی کرتے تھے۔ذیل میں ہند کےحوالہ سے چند حوالہ جات پیش کیے جارہے ہیں جس سے اندازہ ہوگاکہ بلادِ ہند میں بھی رسول اکرم کی میلاد کی خوشی کا اظہار ممالک اسلامیہ کی طرح ہی جوش و خروش سے کیا جاتا رہا ہےاور اس میں عوام کے ساتھ ساتھ کئی ایک مشائخ و علماء بھی سر فہرست ہیں چنانچہ امام ربانی مجدد الف ثانی مولود النبیکے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
در باب مولود خوانی اندراج یافته بود، در نفس قرآن خوانی بصورت حسن در قصائد و منقبت خواندن چه مضائقه است؟ممنوع تحریف و تغیر حروف قرآن است والتزام رعایت مقامات نغمه وتردید صوت مآن طریق الحان بالتفصیق مناسب آن در شعر نیز غیر مباح است اگر به نھجے خوانند كه تحریفے در كلمات قرآنی واقع نشدد ودر قصائد خواندن شرائط مذكوره متحقق نگردد وآنراھم بغرض صحیح تجویز نمایند چه مانع است؟ 125
اس خط میں مولود خوانی کے متعلق بھی لکھا تھا،اچھی آواز سے صرف قرآن مجید اور نعت ومنقبت کے قصائد پڑھنے میں کیا حرج ہے۔منع تو یہ ہے کہ قرآن کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا جائے ،مقامات نغمہ کا التزام کرنا ،الحان کے طریقہ سے آواز کو پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو کہ شعر میں (بھی)جائز نہیں ہے(تو تلاوت میں کیونکر ہوگا)اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات میں تحریف واقع نہ ہو،قصائد پڑھنے میں شرائطِ مذکورہ متحقق نہ ہوں اور اس کو بھی صحیح غرض سے تجویز کریں تو پھر(جوازمیں) کونسی رکاوٹ ہے۔ 126
ملا علی قاری اہل ِہند کے طرزِ اظہارِ خوشی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
وبلاد الھند تزید على غیرھا بکثیر كما أعلمنیه بعض أولى النقد والتحریر.127
ہندوستان کے لوگ(میلاد النبیکی خوشی کے لحاظ سے)دوسروں سے بہت آگے تھے۔جیسا کہ مجھے بعض نقد و جرح کرنے والوں اور لکھنےوالوں نے بتایا ہے۔ 128
اسی طرح علامہ سیّداحمد بن عبد الغنی تحریر فرماتے ہیں:
قال غیرہ وزاد ذلک فى زمن السلطان الظاھر ابی سعید جقمق على ما ذكربکثیر وكان لملوک الاندلس والھند مایقارب ذلک او یزید علیه.
دوسرےتذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ سلطان ظاہر ابوسعید جقمق کے دور میں محفل میلاد پر اس سے زیادہ اخراجات اٹھتے تھے۔ اندلس اور ہندوستان کے حکمرانوں سے بھی ایسی روایات ملتی ہیں جو ان اخراجات کے قریب یا ان سے کچھ زیادہ خرچ کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ 129
متذکرہ بالا عبارت سے بخوبی واضح ہورہا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بھی رسول اکرم کے میلاد کی خوشی کا اظہار انتہائی فیاضانہ اور شایان شان طریقہ سے کیا کرتے تھے۔
چونکہ رسول اکرم کی ولادتِ باسعادت ایک عالمگیر نعمت ہے اور ا س نعمت کے شکرانہ کے طور پر نہ صرف یہ کہ مخصوص افراد وملک خوشی کا اظہار کرتے تھے بلکہ تمام تر ملّت اسلامیہ کے افراد وممالک اس عظیم نعمت کے شکرانہ کے طور پر اس کا تذکرہ اور چرچہ اپنے اپنے ثقافتی انداز و طور طریقوں سے کیا کرتے تھے۔عرب ممالک اور اہل عرب کی طرح ممالکِ عجم اور اہلِ عجم بھی اس نعمت کے شکرانہ کے طور پر خوشی کااظہار کرتے تھےچنانچہ اس حوالہ سے تفصیلات کو بیان کرتے ہوئے ملّا علی قاری تحریر فرماتے ہیں:
وأما العجم فمن حیث دخل ھذا الشھر المعظم والزمان المکرم لأھلھا مجالس فخام من أنواع الطعام للقراء الکرام ولفقراء من الخاص والعام، وقراءات الختمات والتلاوات المتوالیات والانشادات المتعالیٰات، وأنواع السرور وأصناف الجور.حتی بعض العجائز. من غزلھن ونسجھن. یجمعن مایقمن بجمعه الأكار والأعیان وبصیافتھن ما یقدرن علیه فى ذلک الزمان، ومن تعظیم مشایخھم وعلمائھم ھذا لمولد المعظم والمجلس المکرم أنه لا یأباہ أحد فى حصورہ، رجاء ادراک نورہ وسرورہ.130
رہ گیا عجم تو جب بھی یہ عظیم الشان مہینہ اور قابل احترام وقت آتا ہے تویہاں کے لوگ بڑی بڑی محفلیں سجاتے ہیں۔ قِسم قِسم کے کھانے قراء کرام اور خاص و عام فقراء کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ختم، مسلسل تلاوتیں، اعلیٰ قسم کی نعمتیں ، طرح طرح کی خوشیاں اور قِسم قِسم کی نعمتوں کا اہتمام کرتے ہیں حتی کہ بعض بوڑھی عورتیں چرخہ کات کر اور کپڑا بُن کر بڑے بڑےاجتماعات کا اہتمام کرتی ہیں جن میں بڑے بڑے بزرگ شامل ہوتے ہیں اور ایسی ضیافتیں اس موسم میں کرتی ہیں جو ان کے بس میں ہوں۔ یہاں کے مشائخ اور علماء اس قابل تعظیم محفل میلاد اور قابل ِتکریم مجلس کی اتنی تعظیم کرتے ہیں کہ کوئی حاضر ہونے سے انکارنہیں کرتا اور ہر ایک اس کے نو روسرور کے حاصل ہونے کا امید وار ہوتا ہے۔131
مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوجاتا ہے کہ اہلِ عجم آپ کے میلاد کی خوشی میں مذکورہ بالا طرز پر خوشی کا اظہار کیاکرتے تھے اور اس محفلِ میلاد میں علمائے عظام بھی شریک ہوتے اور اس طرح حاضرینِ مجلس اپنے سرور کو دوبالا کیا کرتے تھے۔
جس طرح اہل عجم محفلِ میلاد النبی کاانعقاد کرتے تھے اسی طرح بادشاہ ہمایوں بھی رسول اکرم کے میلاد کے سرور و خوشی کرنے میں پیش پیش تھا چنانچہ ملّا علی قاری باد شاہ ہمایوں کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:
وقد وقع لشیخ مشایخنا مولانا زین الدین محمود الھمدانی النقشبندى. قدس اللّٰه سره العلى. أنه أراد سلطان الزمان وخاقان الدوران ھابون باد شاہ تغمدہ اللّٰه وأحسن مثواہ أن یجتمع به ویحصل له المدد والمدد بسبیه فأباہ الشیخ، وامتنع أبضا أن یأتیه السلطان استغناء بفضل الرحمن فألح السطان على وزیرہ بیرم خان بأنه لابد من تدبیر للاجتماع فى المکان ولو فى قلیل من الزمان، فسمع الوزیر أن الشیخ لایحضر فى دعوة من ھناء وعزاء الا فى مولد النبی علیه السلام. تعظیما لذلک المقام، فأنھى الى السلطان فأمرہ بتھیئة أسبابه الملوكانیة فى نواع الأطعمة والأشربة ومما یتمم به ویخر فى المجالس العلمیة، ونادى الأكابر والأھالى، وحضر الشیخ مع عبعض الموالى فأخذ السلطان الابریق بید الأدب ومعاونة التوفیق والوزیر أخذ الطست من تحت أمرہ رجاء لطفه ونظرہ وغسلا یدا الشیخ المکرم وحصل لھما ببركة تواضعھما للّٰه ولرسوله صلى اللّٰه عليه وسلم المقام المعظم والجاہ المفخم.132
ہمارے شیخ المشائخ مولانا زین الدین محمود ہمدانی نقشبندی کا واقعہ ہے کہ سلطان زمان، خاقان دورانِ ہمایوں بادشاہ (اللہ تعالیٰ اس پر رحم و کرم کرے اور اس کو اچھا ٹھکانہ دے) نے ارادہ کیا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ شامل ہوجائے اور اس سلسلے میں اس کو شیخ کی مالی امداد کا موقع مل جائے لیکن شیخ نے اس کا انکار کردیا اور یہ بات بھی رد کردی کہ بادشاہ خود ان کے پاس یہ مدد لے کر حاضر ہو۔اللہ تعالیٰ رحمان کے فضل و کرم سے استغناء کا یہ عالم تھا۔ اب بادشاہ نے اپنے وزیر بیرم خان سے کہا کہ اس جگہ محفل میلاد کا اہتمام لازمی ہے اگرچہ تھوڑے وقت کے لیے ہی ہو، وزیر نے سن رکھا تھا کہ شیخ محفل میلاد کے علاوہ خوشی اور غمی کی کسی محفل میں شریک نہیں ہوتے، صرف محفل میلاد کی تعظیم کرتے ہیں۔ وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا تو بادشاہ نے شاہانہ اسباب کے ساتھ تیاری کا فرمان جاری کیا کہ طرح طرح کے کھانے مشروبات اور دوسرے لوازمات کا اہتمام کیا جائے اور یہ کہ علمی مجلس میں خوشبو کا بندوبست کیا جائے، بڑے بڑے اکابر اور عوام میں اعلان کردیا گیا۔ شیخ بھی بعض دوستوں کے ہمراہ حاضر ہوئے، بادشاہ نے دست ادب سے لوٹا پکڑا اور اس کے ساتھ معاون اور وزیر نے طشت پکڑی ، اس امید سے کہ شیخ کا لطف اور نظرٍ عنایت حاصل ہو،دونوں نے شیخ محترم کے ہاتھ دھلائے چونکہ دونوں نے اللہ اور اس کے رسول اللہ کے لیے تواضع کی، اس کی برکت سے ان کو عظیم مقام اور شان و شوکت حاصل ہوئی۔ 133
مذکورہ حوالہ جات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ میلاد النبی منانا امت مسلمہ کا ہر دور میں مجموعی عمل رہا ہے اور بلاد ِہند میں بھی اسی طرح جاری وساری رہا ہے جیسا کہ دیگر اسلامی ممالک میں جاری وساری ہے۔اس خوشی میں نہ صرف عوام بلکہ علماء بھی شامل رہے ہیں۔چنانچہ امام ابن جماعہ اور ملا علی قاری نے بھی میلاد النبی سے اپنی وارفتگی درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہےچنانچہ ملا علی قاری تحریر فرماتے ہیں:
نحسن فى ایام الشھر كلھا ولیالیه یعنی كما جاء عن ابن جماعة تمنیه فقد اتصل بناء ان الزاھد القدوة المعمر ابا اسحاق ابراھیم بن عبد الرحیم بن ابراھیم بن جماعة فلما كان بالمدینة النبویة على ساكنھا افضل الصلوة واكمل التحیة كان یعمل طعاما فى المولد النبوى ویطعم الناس ویقول: لو تمکنت عملت بطول الشھر كل یوم مولدا. قلت: وانا لما عجزت عن الضیافة الصورة كتبت ھذہ الاوراق لتصیر ضیافة معنویة نوریة مستمرة على صفحات الدھر غیر مختصة بالسنة والشھر وسمیته: المورد الروى فى مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم.134
ہم تو اس مہینہ کے تمام شب وروز اس عمل کو جاری رکھتے ہیں جیسا کہ ابن جماعہ نے بیان کیاکہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد ،قدوۃ،معمرابو اسحاق ابراہیم بن عبد الرحیم بن ابراہیم بن جماعۃ جب مدینۃ النبی میں تھےتو میلاد نبوی کے موقع پرکھانا تیار کرکےلوگوں کو کھلاتے اور فرماتے:اگر میرے بس میں ہوتاتوپورے مہینہ کہ ہر دن محفل میلاد کا اہتمام کرتا۔میں(ملا علی قاری)کہتا ہوں کہ جب میں ظاہری دعوت وضیافت سے عاجز ہوں تو یہ اوراق میں نے لکھ دیے تاکہ یہ معنوی و نوری ضیافت ہوجائے اور زمانہ کے صفحات پر ہمیشہ رہے،سال کے کسی مہینہ سے مختص نہ ہو۔میں نے اس کتاب کا نام"المورد الروی فی مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم"رکھا۔ 135
اس عبارت سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کے میلاد کی خوشی کرنا اور اس پرمشروع انداز سے سرور کا اظہا ر کرنا امت کے علمائے سلف کا وطیرہ رہا ہےجو نئی چیز نہیں ہے۔
اس موضوع پر مزیدوضاحت ان محرر قرطاس سے ہوجاتی ہے جو ڈاکٹر علی الجندی نے مختلف سلاطین کے دورمیں ہونے والی مبارک تقریباتِ میلاد پر رقم کیے ہیں چنانچہ وہ اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
امام سیوطی کےبقول سب سے پہلے جشن میلادالنبی شاہِ اربل ابو سعید بن زین الدین علی نے منایالیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس تقریبِ سعید کا آغاز فاطمی دور سے ہوچکا تھا۔فاطمی حکومت کے بعد ایوبیہ دورِ حکومت آیا تو سرکاری سطح پر تمام تقریبات کا اہتمام ختم کردیا گیالہٰذا یہ تقریب چھوڑ دی گئی لیکن مصری عوام نے اسے اپنے طور پر جاری رکھا۔ کیوں کہ یہ بات ناممکن ہے کہ مصری دین دار حضرات اپنے آقا کی یاد میں محافل میلاد کا انعقاد نہ کرتے۔ ایوبیہ حکومت کی عدم توجہ کے باوجودموصل کے حکمرانوں میں سے ایک اربل کے حکمران مظفر الدین نے میلادالنبی کے جشن کا اہتمام کیااور نہایت اچھے طریقے سے اسے منایا۔مغربِ بعید میں سلطان شیخ ابوالعباس احمد المنصور الغرفی جو صاحبِ سبتہ کہلاتے تھے جنھوں نے دسویں صدی ہجری کے آخر میں زمامِ حکومت سنبھالی ۔ انھوں نے اس بہترین عمل کو رواج دیااور حکومت کی سرپرستی میں جوش و خروش سے جشن میلاد النبی منایا۔آل زیان کے حکمران نہایت عمدہ طریقے پر اس محفل کا اہتمام کرتے تھے۔ بالخصوص ان میں سے ایک حکمران ابو حمو موسیٰ بن یوسف زیانی نے تو اس سلسلے میں تمام حکمرانوں سے سبقت حاصل کرلی ۔ یہ بادشاہ بارہ(12)ربیع الاوّل کی رات کو ایک عظیم الشان عمومی اجتماع منعقد کرتا تھا۔ دعوتِ عام ہوتی اور اس میں امیر و غریب، غنی و فقیر، شاہ و گدا سب جمع ہوتے تھے۔ 872ھ میں سلطان الاشرف قانتابی نے جب مصری حکومت کی زمامِ اقتدار سنبھالی تو اس نے یہ میدان جیت لیا کیوں کہ اس دور میں میلادالنبی کا جشن پچھلے دور کے تمام حکمرانوں کے انتظامات سے فوقیت اور برتری حاصل کرگیا۔ الظاہر برقو ق کے دورِ حکومت(874ھ) میں بھی اس تقریبِ سعید کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور سلطان نے اس اہتمام کو حدِ کمال تک پہنچایا۔ سلطان چقمق (872ھ) کے دور میں بھی جشنِ میلاد کا اہتمام بڑی خوش اسلوبی اور دل جمعی سے ہوتاتھا۔ علی پاشامبارک کہتے ہیں:سلطان الظاہر ابوسعید کے دور میں مجلس میلاد کا اہتمام، برقوق کے دور سے بڑھ گیا تھابالخصوص صدقات و خیرات میں اضافہ ہوا۔( 907ھ) میں ملِک اشرف ابونصر قالضوہ نے بھی اس بات کی طرف خصوصی توجہ دی۔136
عہدِ قریب میں مکّہ مکرّمہ سے تعلق رکھنے والے حضرت علامہ محمد علوی مالکی حسنی مروجہ دور میں اپنے شہر میں میلاد النبی کے حوالہ سے تحریرفرماتے ہیں:
ومن التصورات الفاسدة التی تقع فى اذھان بعض الناس انھم یظنون: اننا ندعو الى الاحتفال بالمولد فى لیلة مخصوصة دون سائر العام ومادرٰى ھذا المغفل ان الاجتماعات تعقد لاجل لاجل المولد المولد النبوى فیه مکة والمدینة بشکل منقطع النظیر فى كل الایام العام...وھذہ مجالس المولد النبوى تنعقد بفضل اللّٰه تعالىٰ فى جمیع لیالى السنة ولایکاد یمر یوم اولیلة الاوھںا مجلس وھناک محفل ونحن ننادى بان تخصیص الاجتماع بلیلة واحدة دون غیرھا ھو الجفوة الکبرى للرسول صلى اللّٰه عليه وسلم...ان ینصحوھم ویرشدوھم الى الخیر والفلاح ویحذروھم من البلاء و البدع والشر والفتن.137
لوگوں کے ذہنوں میں یہ فاسد تصورات پائے جاتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق ہم سال بھر میں صرف ایک مخصوص رات میں میلاد النبی کی محافل منعقد کرتے ہیں۔ اس غافل شخص کو معلوم نہیں کہ مکّہ مکرّمہ اور مدینہ طیبہ میں میلاد النبی کے سلسلے میں سال بھر ایسے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جو بے مثال ہوتے ہیں۔حرمین شریفین میں جب بھی کوئی خوشی کا موقع آتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم صرف ایک رات میں سرکار دو عالم کا ذکر کرتے ہیں اور تین سو انسٹھ (359)راتوں میں اس ذکر سے غافل ہوجاتے ہیں وہ ہم پر افتر اپردازی کررہا ہے اور واضح جھوٹ بولتا ہے۔ یہ مجالس میلاد، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دن رات منعقد ہوتی ہیں اور کوئی دن یا رات ایسےنہیں گزرتے جس میں یہاں یا وہاں محفل ِ میلادمنعقد نہ ہوتی ہو۔ ہم ببانگ ِ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان محافل کو ایک وقت چھوڑ کر کسی رات کے ساتھ خاص کرنا یہ رسول کریم کی ساتھ انتہاء درجہ کی جفاہے۔ یہ اجتماعات دعوت الی اللہ کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں لہٰذا مبلغین اور علماء کا فرض ہے کہ وہ ان اجتماعات کے ذریعے امت مسلمہ کو سرکار دو عالم کے اخلاق و آداب، احوال و سیرت اور معاملات و عبادات سے آگاہ کرتے رہیں۔ انہیں نصیحت کریں اور خیر و فلاح کی طرف بلائیں اورمصیبتوں ، بدعتوں اور شرور وفتنوں سے انہیں ڈرائیں۔
شیخ محمد رضا مصری جو عہد ِ قریب کے عالم ہیں وہ اپنے زمانہ میں مروجہ میلاد النبیکے حوالہ سے فرماتے ہیں:
وفي زماننا هذا يحتفل المسلمون بيوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم في جميع الأمم الإسلامية وفي القطر المصري تتلى الأذكار وتوزع الصدقات على الفقراء والمحتاجين وفي القاهرة يتحرك موكب أرباب الطرق بعد الظهر من ميدان باب الخلق أمام المحافظة، ويسير قاصداً ميدان الاحتفال بالعباسية مجتازاً شوارع تحت الربع فالسكرية فالغورية فميدان الأشراقية فالفحامين فالحسينية فالعباسية ويشتد الزحام في هذه الشوارع وتتقدم الموكب كوكبة من فرسان رجال الشرطة وتحف به من الجانبين قوة من رجال الجيش وقد جرت عادة الحكومة أن تحتفل بھذا اليوم المبارك احتفالا رسمياً في العباسية حيث تقام سرادقات للوزارات ويتوجه جلالة الملك أو نائبه إلى مكان الاحتفال وهناك يعرض الحامية المصرية على أثر وصوله ثم ينتقل إلى السرادق الملكي ويستقبل رجال الطرق الصوفية بأعلامهم وبعدئذ يقصد سرادق شيخ مشايخ الطرق الصوفية فيستمع تلاوة القصة النبوية وبعد سماعها يخلع على تاليھا الخلعة الملكية وتدار المرطبات والحلوى على الحاضرين ثم ينصرف بعد ذلك بموكبه الحافل أثناء قصف المدافع وفي المساء تنار الزينات المقامة على السرادقات وتطلق الألعاب النارية البديعة وفي الصباح تعطل الحكومة وزارتھا.138
ہمارے زمانہ میں بھی مسلمانانِ عالم اپنے اپنے شہروں میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ مصر کے علاقوں میں یہ محفلیں مسلسل منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں برابر میلادِ نبوی سے متعلق بیانات ہوتے ہیں۔ فقرا ءو مساکین کو خیرات تقسیم کی جاتی ہے۔ خاص قاہرہ میں اس روز ظہر کے بعد ایک پیادہ جلوس کمشنر آفس کے سامنے سے گذرتا ہوا عباسیہ میدان کی طرف روانہ ہوتا ہے ،ان راستوں میں ہجوم بڑھتا جاتا ہے ۔ جلوس کے آگے پولیس کے سوار دستے اور دونوں طرف فوج کے کچھ افسر ہوتے ہیں۔ مصر میں یہ مبارک دن حکومت کی طرف سے منایاجاتاہے چنانچہ عباسیہ میں وزرا ءاور حکام کے لیے شامیانے نصب کیے جاتے ہیں اور خود شاہِ وقت یا ان کے نائب جلسہ گاہ میں حاضر ہوتے ہیں ۔ شاہ کے پہنچنے پر فوج سلامی دیتی ہے۔ پھر وہ شامیانے میں داخل ہوتے ہیں اس کے بعد صوفیہ اور مشائخِ طریقت اپنے اپنے جھنڈے لیے وہاں حاضر ہوتے ہیں۔ جن کا خود بادشاہ استقبال کرتے ہیں۔ اس کے بعدبادشاہ خود شیخ المشائخ کے شامیانے میں حاضر ہوکر ذکر میلادالنبی سماعت فرماتے ہیں۔ ختمِ محفل پر شاہِ مصر میلاد بیان کرنے والوں کو شاہانہ خلعت عطا کرتے ہیں ۔ پھر حاضرین میں شیرینی تقسیم کی جاتی ہےاور شربت پِلایا جاتاہے ۔ اس کے بعد توپوں کی گونج میں شاہانہ سواری واپس ہوتی ہے۔اس دن تمام دفاتر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
ان تمام مذکورہ حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم کے میلاد پر خوشی کا مروجہ طرز امت کے اکابرین علما مشائخ سے منقول متواتر ہے ۔ اس طرز میلادالنبی کی اصل تو رسول مکرم اور ان کی صحبت فیض یافتہ افضل الجماعت یعنی صحابہ کرام کے ادوار سے بھی ثابت ہے ۔ اگر چہ کہ ا ن حضرات عالی صفات نے اس طرز پر میلاد النبی کی محافل منعقد نہیں کیں لیکن ان ذوات اقدس سے منع بھی ثابت نہیں ہے ۔ جب منع کا اثبات نہیں ہے تو عدم جواز کا تو دور تک کوئی محل نہیں بنتا ۔ چنانچہ امام قسطلانی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
أن الفعل يدل على الجواز، وعدم الفعل لا يدل على المنع.139
بلا شبہ کسی کام کا کرنا جواز پر دلالت کرتا ہے اور نہ کرنا عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا۔
لہٰذایہ کہنا کہ چونکہ صحابہ کرام نے یا قرون اول کے مسلمانوں نےیہ کام سر انجام نہیں دیا لہٰذایہ محفل میلاد النبی ناجائز و حرام ہے۔اس طرح کا قول باطل و مردود ہے۔
اسی حوالہ سے امام احمد رضاخان القادری تحریر فرماتے ہیں:
یہ مجلس آج سے نہیں حضرت آدم 140نےخود کی اور کرتے رہے اور ان کی اولاد میں برابر ہوتی رہی، کوئی دن ایسا نہ تھا کہ آدم ذکر حضور نہ کرتے ہوں۔ اوّل روز سے حضر ت آدم کو تعلیم ہی یہ فرمائی گئی کہ میرے ذکر کے ساتھ میرے حبیب و محبوب کا ذکر کیا کرو جس کے لیے عملی کاروائی یہ کی گئی کہ جب روح الٰہی آدم کے پتلے میں داخل ہوتی ہے، آنکھ کھلتی ہے، نگاہ ساق عرش پر ٹھہرتی ہےتو لکھا دیکھتے ہیں"لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم" عرض کی الٰہی! یہ کون ہے؟جس کا نام ِپاک تو نے اپنے نامِ اقدس کے ساتھ لکھا ہے۔ ارشاد ہوا :اے آدم! وہ تیری اولاد میں سے پچھلا پیغمبر ہے اوراسی کے طفیل میں نے تجھے پیدا کیا۔ اگر وہ نہ ہوتا تو نہ تجھے پیدا کرتا اور نہ زمین و آسمان بناتا تو کنیت اپنی ابو محمد کر۔آنکھ کھلتے ہی نام پاک بتایا گیا، پھر ہر وقت ملائکہ کی زبان سے ذکر ِاقدس سنایا گیا۔ وہ مبارک سبق عمر بھر یاد رکھا اور ہمیشہ ذکر اور چرچا کرتے رہے، جب زمانۂ وصال شریف کا آیا تو حضرت شیث سے ارشاد فرمایا: اے فرزند ! میرے بعد تو خلیفہ ہوگا توعمادِ تقویٰ و عروہ و ثقیٰ کو نہ چھوڑنا ،"العروۃ الوثقیٰ" محمد کا ذکر ضرور کرنا کیونکہ میں نے فرشتوں کو دیکھا ہر گھڑی ان کی یاد میں مشغول ہیں۔اسی طور پر چرچا ان کا ہوتا رہا اورپہلی انجمن روزِ میثاق جمائی گئی جس میں حضور کا ذکرِ تشریف آوری ہوا جس کی بارے میں ذکر کرتےہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰه مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَة ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِه وَلَتَنْصُرُنَّه قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰھدِيْنَ فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ.82 141
اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول () تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں، (اب پوری نسل آدم کے لیے تنبیہاً فرمایا:) پھر جس نے اس (اقرار) کے بعد روگردانی کی پس وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔
مجلسِ میثاق میں رب العزت نے تشریف آورئِ حضور کا بیان فرمایا اور تمام انبیاء کرام نے سنا اور انقیاد و اطاعتِ حضور کا وعدہ دیا، ان کی نبوت ہی مشروط تھی حضور کے مطیع و امتی بننے پر ۔۔۔ذکر پاک کی سب سے پہلی مجلس، انبیاءکی ہے جس میں پڑھنے والا اللہ اور سننے والے انبیاء اللہ ہیں۔غرض اسی طرح ہر زمانے میں حضور کا ذکرِ ولادت و تشریف آوری ہوتا رہا۔ ہر قرن میں انبیاء و مرسلین سے لے کر حضرت ابراہیم و موسیٰ و داؤد ، سلیمان و زکریا تک تمام نبی و رسول اپنے اپنے زمانے میں مجلس حضور ترتیب دیتے رہے یہاں تک کہ وہ سب میں پچھلا ذکر شریف سنانے والا کنواری ستھری پاک بتول کا بیٹا جسے اللہ نے بے باپ کے پیدا کیا، جو نشانی ہیں سارے جہان کے لیے یعنی سیّدنا عیسیٰ یہ فرماتے ہوئے تشریف لائے:
مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ......6142
میں بشارت دیتا ہوں اس رسول کی جو میرے بعد تشریف لانے والے ہیں، جن کا نام پاک احمد ہے۔
جب زمانہ ولادت شریف کا قریب آیا توملک و ملکوت میں محفل میلاد تھی، عرش پر محفل میلاد تھی، فرش پر محفل میلاد تھی، ملائکہ میں مجلس میلاد ہورہی تھی۔143
اسی موضوع پر مولانامعین الدین کاشفی تحریرفرماتے ہیں:
داؤد مناجات كرد كه خداوند امن در زبورنورى مشاھدہ كردہ ام ساطع كه ھركه تبلاوت آن مشغول میشوم محراب من درجنبیش واھتنرازمى آبدودل مراروح وراحت فرومیگیردوصومعه من منورمیگرددخداوندا آن چه نوراست حق تعالىٰ فرمودآن نور محمدست صلى اللّٰه عليه وسلم لاجله خلقت الدنیا والآخرة و آدم و حواوالبختھو النار داؤد آواز برآور دونام صلى اللّٰه عليه وسلم برزبان راندو گفت محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم و بیکبار طیورو وحوش وھوام وكو دشت و بیابان ھمه یحواب اودرآمدندوزبان باگفتار قدصدقت یاد اؤدبکشا دندقد لک قواتعالىٰ ولقه اتینا داؤد ومنا فضلایا جبال اوبی معه والطیربعدازان دیگر ھربار كه خواستی تابتلاوت زبور اشتعال نمایدابتدا بکلمه لَا اِلٰه اِلَّا اللّٰه مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰه نمودى. 144
حضرت داؤد نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی : اے اللہ میں جب زبور کی تلاوت کرتا ہوں تو مجھے ایک نور نظر آتا ہے۔ میرا محراب خوشی سے جھومنے لگتا ہے اور میرا قلب و جگر انتہائی راحت محسوس کرتا ہے۔ میرا حجرہ منور ہوجاتا ہے۔ اللہ! وہ نور کیسا ہے؟ فرمایا یہ نور محمدی ہے۔میں نے اسی نور کے طفیل دنیا ، آخرت، آدم، حوا، جنت اور دوزخ کو پیدا فرمایا تھا۔ حضرت داؤد نے بلند آواز سے نام محمد لیا تو پرندے، جنگلی وحشی جانور،کوہ و دشت بیاباں اور صحرا سے ایک گونج آئی کہ اے داؤد !آپ نے صحیح کہا۔ اسی مضمون کو کلامِ الٰہی میں بھی بیان کیا۔ وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭ يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَہٗ وَالطَّيْرَ 145 اس دن کے بعد جب کبھی زبوُر کی تلاوت فرمانے لگتے تواَ اِلٰه اِلاَّ اللّٰه مُحَمَدُ رَّسُوْلُ اللّٰه پڑھ لیتے۔146
مذکورہ حوالہ جات سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ رسول مکرم کا ذکرِ ولادت ابتدائے آفرینش سے شروع ہے اورابد الآباد تک جاری رہے گا۔علماء نے اس تذکرہ کو ہر دو رمیں اپنے ذوق کے مطابق رقم فرمایا ہے۔ہر دور کے مسلمانوں نے اس عظیم نعمت پر اپنے دلوں او ر روحوں کے جذبات کو اپنے اپنے عرف کے طرزوں میں ڈھال کر خوشی کااظہار کیا ہے۔رہی بات قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی تو وہ مسلمان اسلام کے اعلی اور اہم ترین کاموں میں مشغول رہتے تھے،مثلااعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جہاد جیسے اہم فریضہ کی سر انجام دہی،دین رسول اللہ کی تبلیغ وترویج،اندرونی و بیرونی معاملات کی دیکھ بھال، اہل اسلام اورذمیوں کی فلاح و بہبود،مفسدین فی الارض کی سر کوبی ،اللہ تبارک وتعالیٰ کی حدود کی محافظت ،نئی نسل کی طرف اسلامی علوم کی منتقلی اور دیگر اقوام کے منفی علمی اثرات کی قلع قمع کے لیے راہ ہموارگی ا ور ان جیسے دیگر اہم کام جس کی وجہ سےمیلاد النبی کی اس طرز پرکسی کی توجہ مبذول نہیں ہوسکی۔تاہم ماقبل میں اس کی اصل قرآن وسنت اور مسلمانوں کےتعامل کی روشنی میں ثابت کی جا چکی ہے۔اب بھی اگر بعض افرادِ امت میلاد النبی یا اس طرز کو مکروہ ، حرام اور ممنوع قراردیں تو ان کا معاملہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سپرد ہے۔
ڈاکٹر علی جندی نے قرون اول میں مروجہ طرز پر میلا دالنبی کےنا موجود ہونے کی چند وجوہات تحریر کی ہیں جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ میلاد النبی کی مروجہ طرز بعد میں کیوں وجود پذیر ہوئی ،چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:چونکہ یہ تقریب خود سرکار دو عالم کی ذات والا صفات سے متعلق تھی اور آپ دیگر سلاطین کی طرح اپنی تشہیر و تعظیم نہیں چاہتے تھے بل کہ تواضع اختیار فرماتے اس لیے آپ نے اس انداز میں عید میلاد کو خودرواج نہیں دیا۔خلفاے راشدین میں سے پہلے دو خلفا کادور جہاد اور اسلامی حکومت کے قیام کا دور تھا۔ جب کہ تیسرے اور چوتھے خلیفہ کادورِ حکومت فتنہ و فساد کا زمانہ تھا اس لیے اُن کی کامل توجہ ان امور کی طرف رہی، اور جشنِ میلاد کی طرف زیادہ توجہ نہ ہوسکی۔بنو امیہ کے دور میں فتوحات کا سلسلہ وسیع تھا نیز اِس دور میں بغاوتوں کے قلع قمع کرنے کی طرف توجہ زیادہ تھی لہٰذا اس طرف کما حقہ توجہ نہ دی جاسکی۔ 147
جس طرح عصرِ قدیم کےحوالہ سے گزشتہ سطور میں اس بات کو انتہائی وضاحت کے ساتھ درج کیا جاچکا ہے کہ میلاد النبی مسلمانانِ عالم کے لیے انتہائی خوشی اور فرحت و سکون کا باعث ہے اوراسی بنا پر میلاد النبی کو ہر دور میں ہر شعبہ کے افراد نے اپنے اپنے عرف کا لحاظ کرتے ہوئے بڑے جوش و خروش سے منایا ہے بالکل اسی طرح عصر ِحاضر میں بھی امتِ مسلمہ اپنے ملکوں ،شہروں اور علاقوں میں میلاد النبی پر بھرپور انداز سے خوشی کا اظہارکرتے ہیں۔ بعض جگہ سیرت کانفرنس کا نام اوربعض جگہ محفل میلاد النبی کا نام دے کر اس دن خوشی کا اظہار کیا جاتاہے۔جن میں نبی کریم کی سیرت اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کا تذکرہ ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا سطور میں قدیم اہل عرب کے حوالہ سے ذکر کیا جا چکا ہےکہ وہ میلاد النبی کے موقع پر محفل میلاد کا انعقاد کیاکرتے تھے۔ عصر حاضر میں بھی اہل عرب میلاد النبی کے موقع پر محافل کا انعقاد کرتے ہیں اور انتہائی جوش وخروش سے ان محافل میں شریک ہوتے ہیں چنانچہ اس حوالہ سے شیخ عالم آسی تحریر کرتے ہیں:
شیخ جامعہ ازہر (مصر) کی تازہ ترین اطلاعات جو اخبار الایمان ضلع لاہور کو موصول ہوئی ہیں،ان میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سلطانِ مصر اور اہالیانِ مصر قدیم سے اس تقریب پر خصوصیت کے ساتھ اپنا اخلاص ظاہر کیا کرتے ہیں۔ خصوصاً ان اطلاعات کا یہ حصہ قابل ذکر ہے : جب ماہ ربیع الاوّل کا ہلال نظر آتا ہے تو اہلیانِ مصر اس ماہ کو ماہِ عید سمجھ کر تیاری میں لگ جاتے ہیں ،پورے ملکِ مصر میں اس عید کے موقع پر تمام کاروبار بند کیے جاتے ہیں اور غیرمسلم کو بھی ان تعطیلات سے ممنون و مشکور کیا جاتا ہے۔ خودشاہِ مصر اپنی جیب ِخاص سے بہت بڑی رقم خرچ کیا کرتے ہیں۔ قاہرہ کے پاس ایک پرلطف وسیع میدان واقع ہے جس میں پہلی تاریخ سے ہی تیاری ہونے لگتی ہے اور چند ہی دنوں میں سمین، زرین اور دوسرے قیمتی خیمے، شامیانے اور سائبان نصب کیے جاتے ہیں جن کے عین وسط میں ایک بہت بڑا اور بہت اونچا خیمہ شاہِ مصر اپنے لیے اپنے خرچ سے لگواتے ہیں۔ اس کے آس پاس امراء وزراء کے خیمے نصب ہوتے ہیں۔ جن میں زیبائشی سامان اس کثرت سے اور اس قرینہ سے لگایا جاتا ہے کہ شاید کسی موقع پر لگایا جاتا ہوگا۔اس دور کے ختم ہونے کے بعد دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس میں صوفیائے کرام اور سادات عظام اور علمائے اعلام کے لیے نہایت آب و تاب کے ساتھ خیمے نصب کیے جاتے ہیں جن میں وہ آرام کرتے ہیں اور خیموں میں جو سڑکیں رکھی جاتی ہیں ان کی سجاوٹ پر دل کھول کر شاہِ مصر روپیہ خرچ کرتے ہیں۔یہ میدان گیس اور بجلی کے لیمپوں سے اس قدر سجایا جاتا ہے کہ رات کے وقت دیکھنے والے کو وہاں دن کی بہ نسبت زیادہ شان خدائی نظر آتی ہے اور وہ وقت خاص لطف کا ہوتا ہے کہ فقر اءو مساکین شاہی دسترخوان پر وزراء و امراء کے ہم پہلو شاہی اعزاز میں شریک ہوکر دو وقت ایسے پُر تکلّف کھانے کھاتے ہیں کہ ان کو اس تقریب کے سوا دیکھنے ہی نصیب نہیں ہوتے اور یہ سلسلہ برابر بارہ ربیع الاوّل تک بدستور جاری رہتا ہے ،اس دن صبح کو خود شاہِ مصر یا ان کا کوئی نائب حاضر ہوکر باقاعدہ جلوس کے ساتھ مشہد ِحسینی میں حاضر ہوتے ہیں (یہ خاص مقام ہے جو متبرک تقریبوں کے انعقاد کے لیے مخصوص کیا گیا ہے) اور وہاں جاکر واعظین حضور کے حالات زندگی، دنیا پر حضور کے احسانات، حضور کی ولادت و وصال کی مکمل سیرت پوری بسط کے ساتھ واضح طور پر بیان کردیا کرتے ہیں تاکہ سامعین کی یاد تازہ ہوکر باعثِ حصولِ برکات ہوں اور آئندہ نسلیں شامل ِجلسہ ہوکر اپنے پیارے نبی کے پیارے حالات سے سبق حاصل کرسکیں اور یوں کہنے کا حوصلہ کرسکیں کہ ہم بھی اپنے نبی کی امت ہیں اور اپنے نبی کے حالات سے واقف ہیں تاکہ مخالفین کی آنکھ میں تنکا پڑجائے اور بول اُٹھیں کہ جس قدر ان لوگوں کے دلوں میں اپنے نبی کی وُقعت و محبت ہے اس کی مثل کسی غیر کی نہیں ہے۔148
دبئی میں عید میلاد النبی سرکاری سطح پر منائی جاتی ہے، وزارتِ اوقاف کا لیٹر جوتین (3)صفر چودہ سو بیس (1420ھ)بمطابق اٹھارہ(18)مئی انیس سو ننانوے(1999ء)کو مدیر اوقاف کی طرف سے ائمہ و خطبا اور مختلف شعبہ جات میں خدمات دینیہ میں مصروف علماء کرام کی طرف بھیجا گیا، اس میں ہجرت ، میلاد شریف، معراج شریف، غزوہ بدر اور لیلۃ القدر کی تقاریب کا بطور خاص ذکر تھا اور علماء کرام سے کہا گیا تھا کہ ان مواقع پر وزارت اوقاف جو پروگرام مرتب کرتی ہے ان میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی جائے۔۔۔اوقاف کی طرف سے مختلف مساجد اور مدارس میں عید میلاد النبی کی محافل منعقد کی جاتی ہیں ، سب سے بڑی محفل میلاد جس کا انعقاد وزارت اوقاف کرتی ہے وہ مسجد الراشدیہ الکبیر میں گیارہ(11) ربیع الاوّل شریف کو منعقد ہوتی ہے۔ بڑے خوبصور ت اور دلکش پوسٹرز سے اس کی دعوت کو عام کیا جاتا ہے، جن پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے"الاحتقال بالمولد النبوی صلى اللّٰه عليه وسلم"اس اجتماع کی کاروائی براہِ راست دبئی ٹیلیویژن سے ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہے۔شبِ ولادت جب یہ اجتماع ختم ہوتا ہے تو شیخ عیسیٰ مانع وزیرِ اوقاف اور دوسرے شیوخ رات کو اسی وقت مدینہ شریف حاضر ی کےلیے چلے جاتے ہیں ۔ شیخ عیسیٰ مانع کے استاذاور شیخ عید العویر میں بہت بڑی محفلِ میلاد کا بندوبست کرتے ہیں ،جس کے اختتام پر انواع و اقسام کے کھانوں سے شرکاء کی تواضع کی جاتی ہے۔ بنگالی مسلمان عید میلاد کی خوشیوں کے اظہار کے لیے تقاریب کا علیحدہ بندوبست کرتےہیں جبکہ پاکستانیوں کا انداز ہی نرالا ہے۔۔۔امارات کے کثیر الاشاعتی اخبار" البیان" میں دو(2) ربیع الاوّل شریف چودہ سو بیس (1420ھ)بمطابق پچیس (25)جون انیس سو ننانوے(1999ء)کو ابو ظہبی حکومت کے مشیر سیّدعلی ہاشمی کا بڑا محبت بھرا اور جامع مضمون شائع ہوا۔ انہوں نے لکھا :
كان الاحتفال بذكرى مولد الرسول الاعظم والسید المصطفى المکرم سیدنا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم من سمات اھل الفضل والخیر والفلاح وقد حرص اھل العلم من اصلح اللّٰه بواطنھم قبل ظواھرھم اشد الحرص على اظھار مشاعر الود والتقدیر والاحترام لذكرى مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم وقد تظافر السلف الصالح وما زال الخلف الذین استقامو على الطریقة یتسابقون لاحیاء ھذہ الذكرى ذلک لان مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم ھو ایذان بالقضاء على لیل الشرک والجھالة وبمولد ہ آن او ان بزوغ فجر العلم والخیر والھدایة واذا كان المسلمون الیوم فى مشارق ومغاربھا یحتفلون بذكرى مولدہ صلى اللّٰه عليه وسلم فانما یحتفلون بذكرى مولد كرائم الاخلاق احق الناس بالاحتفال بھذہ الذ كرى العظیمة ھذہ البلاد الامارات العربیه المتحدہ.149
رسول ا عظم حضرت مصطفی کا میلاد منانا اصحاب فضیلت اور اہل خیر و فلاح لوگوں کی علامات میں سے ہے۔ وہ اہل علم اللہ تعالیٰ نے جن کے ظاہر سے پہلے ان کے باطن کی اصلاح فرمائی ہے، عید میلاد النبی منانے کےلیے اپنے جذبات محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کے بڑے خواہاں ہوتے ہیں ، سلف و صالح اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ ہمیشہ سے عید میلاد شریف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے آئے ہیں ، کیونکہ نبی اکرم کے میلاد ہی نے شرک و جہالت کی رات کا خاتمہ کیا اور آپ کی ولادت ہی سے علم خیر اور ہدایت کی فجر طلوع ہونے کا وقوت آن پہنچا۔ آج دنیا کے مشرق و مغرب میں مسلمان جو سیّدعالم کا یوم میلاد منارہے ہیں تو وہ اس سے صرف آپ ہی کا نہیں بلکہ اخلاق عظیمہ کا میلاد بھی منارہے ہیں۔ عید میلاد النبی منانے کا سب سے زیادہ حق متحدہ عرب امارات کا ہے۔ 150
اور اس طرح میلاد النبی عصر حاضر میں اہل عرب اور ممالکِ عربیہ میں منایا جاتا ہے اور خوشی کا اظہار کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور نبی رحمت کی آمد مبارک پرشکر ادا کیا جاتا ہے۔
اہل ِ عرب کی طرح اہلِ عراق بھی مولد النبی کے لیے محافل و تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔جس کی سرپرستی حکومت بذاتِ خود کرتی ہے۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے اپنے سفرنامۂ عراق کی روئیداد بیان کی ہیں جس میں وہاں کے مختلف حصّوں میں میلاد النبی کے حوالہ سے مختلف النوع مجالس و محافل کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
ابھی ربیع الاوّل شریف کے چاند کے طلوع ہونے کا وقت چند دن بعد تھا کہ اخبارات ورسائل میں استقبالیہ بیانات آنے شروع ہوگئے۔وزارت اوقاف و مذہبی امور اور وزارت اطلاعات کی طرف سے جشن میلاد کے انتظامات کا جائزہ لیا جانے لگا۔وزیر اوقاف و مذہبی امور عبد المنعم احمد صالح کا یہ بیان بھی اخبارات کی زینت بنا کہ عراقی عوام کو اگرچہ اقتصادی بائیکاٹ کی وجہ سے بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے، اس کے باوجود ہم جشن میلاد دھوم دھام سے منائیں گے۔ اقتصادی اور معاشی بائیکاٹ کے اس دور میں عید میلاد النبی غ ہمیں حوصلہ بخشتی ہے کہ ہمارے آقا نے شعب ابی طالب میں ایسے بائیکاٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور فتح یاب ہوئے تھے۔بیان میں مرکزی قومی محفل میلاد شریف کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا جو کہ ہر سال بارہ ( 12) ربیع الاوّل کی رات امام الائمہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مزار انور کے زیر سایہ منعقد ہوتی ہے۔نیز حکومت کی طرف سے ہر مسجد میں محفل میلاد منانے کا آرڈر جاری کردیا گیا۔گیارہ اوربارہ(11/12) ربیع الاوّل کی درمیانی رات کو چراغاں کرنے اور تعظیم ماہ مقدس کے طور پر مساجد میں حفظ القرآن کے دوروں کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ انہی بیانات میں سے ایک بیان ملاحظہ ہوجس کی سرخی (heading)یہ تھی:
"من ذكرى نبینا صلى اللّٰه عليه وسلم نستلھم العزم"
اپنےنبی کے تذکرہ سے ہم پُر عزم ہوتےہیں۔
اور اس مذکورہ بالا سرخی (heading) کے تحت درجِ ذیل عبارت مکتوب تھی:
یحتفل العالمان العربی والاسلامى فى الثانی عشر من ربیع الاوّل كل عام بذكرى حبیبة وعزیزة على النفوس والقلوب، انه العید الکبیر الذى اشرقت فیه شمس النبوة بولادة فخر الکائنات، رسول الانسانیة، نبی الرحمة محمد صلى اللّٰه عليه وسلم .
تمام عربی اور اسلامی دنیابارہ ( 12)ربیع الاوّل شریف کو دل و جان کی محبوب ترین ہستی کی یاد منانے کےلیے محافل کا انعقاد کرتی ہے، یہ دن وہ عظیم عید ہے کہ جس میں فخر کائنات، رسول انسانیت ، نبی رحمت ، حضرت محمد کی ولادت با سعادت سے آفتاب نبوت درخشاں ہوا۔
جوں ہی میلاد شریف کا چاند طلوع ہوا تو یوں محسوس ہونے لگا کہ خوشیاں برہنہ سر ہوگئیں ہیں ،مدینۃ النصر والسلام بغداد شریف کے درود یوار مسرتوں سے جھومنے لگے، دجلہ کی موجیں خوشی میں اٹھکیلیاں کرنے لگیں، اونچی لمبی کھجوروں کی ٹہنیاں ایک دوسرے سے معانقہ کر رہی تھیں۔مساجد اورپارکوں کے علاوہ گھروں کے اند ر بھی بزم آرائیوں کے پروگرام بننے لگے، یکم ربیع الاوّل سے ہی تمام بڑی شاہراہوں شارع جمہوریہ، شارع کناح ، شارع ابو نواس اور شارع شیخ عمر پر چراغاں کردیا گیا۔خصوصاً مساجد ، سرکاری عمارات اور مزارات اولیاءرحمۃ اللہ علیہم کو آراستہ و پیراستہ کردیا گیا۔ راستے میں کئی مقامات پر سڑکوں اور چوکوں میں محافل میلاد شریف کےلیےخیمے لگے ہوئے تھے ۔۔۔رات کو دیکھ کر روشنیاں شوخ ہوگئی تھیں۔صرف بڑی شاہراہیں ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے محلات پر بھی لائٹنگ قبضہ جما چکی تھی ، حضرت جنید کا بغداد روشنیوں کے سیلاب میں ڈوب چکا تھا، بلدیہ بغدادنے بڑی عقیدت سے بغداد کو عروس البلاد بنادیا تھا۔بڑی شاہراہوں پر برقی رو کے فوارے فضا میں نصب کردئے گئے تھے، طویل القامت کھجوریں۔۔۔ سڑک کے دونوں طرف لمبے سلسلے میں دور تک چلی گئی تھیں ، ان کی ٹہنیوں میں پھیلا ہوا رنگ برنگے قمقموں کا جال، "کھجور وں" کا ایک بہت بڑا شمع برادر جلوس محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ وزارت تجارت، وزارت مال اور بلدیہ بغداد کی عمارات اپنے پورے بناؤ سنگھار کے ساتھ جشن میلاد شریف منانے میں شریک تھیں ۔تھوڑا سا آگے ہوئے تو کھجوروں کے جھنڈے سے چھن چھن کر دربار غوثیہ کے انوار نظر آنے لگے۔ جب ہم شیخ عبد القادر جیلانیکے دربار میں پہنچے تو جامع گیلانیہ کے اندر بڑا جلسہ منعقد تھا، عربی شعراء اپنے اپنے قصائد پیش کر رہے تھے اور تقاریر میں آقائے نامدار کی ولادت کے واقعات اور فضائل حسنہ بیان کیے جا رہے تھے۔دربار شریف کے احاطے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مختلف مشائخ کے اپنے اپنے حلقے بنے ہوئے تھے، جن میں وہ دفوف کے ساتھ متبرک قصائد پڑھ رہے تھے۔ ان کے مخصوص انداز اتنے وجد آفرین تھے کہ لوگ غش کھا کھا کر گر رہے تھے، بعض حلقوں نے اپنے علیحدہ علیحدہ اسپیکر بھی لگائے ہوئے تھے۔۔۔ اس رات کو عید میلاد النبی کی سب سے بڑی محفل دجلہ کی جسر الائمہ کے ساتھ امام الائمہ حضرت امام ابو حنیفہ کے مزار پُر انوار کے سائے میں جامع ابی حنیفہ میں ہوا کرتی ہے۔۔۔ میلاد شریف کی مبارک روایت اور مستحسن عمل کو آج تک زندہ رکھا گیا ہے، مرکزی سرکاری میلاد مصطفیٰ کانفرنس اسی جگہ منعقد ہوتی ہے۔خصوصاً موجودہ عراقی صدر نے اس مرکزی محفل کے مزید اہتمام کےلیے جامع حضرت ابی حنیفہ کے ساتھ ایک وسیع پنڈال کی تعمیر اور آرائش و زیبائش کا کام مکمل کروایا ہے ۔حضرت اعظمیہ کے مرکزی گیٹ کے ساتھ پیتل کی بڑی تختی پر کندہ ہے کہ یہ پنڈال عید میلاد النبی کی تقریبات کےلیے محترم صدر کے حکم پر وزارت اوقاف نے تعمیر کروایا ہے۔ جشن میلاد کی خاطر حضرت امام اعظم کا گنبد اور جامع مسجد کی عمارت ایسے دلکش انداز سے سجائی گئی تھی کہ سلطان محمد غزنوی کی جامعہ عروس الفلک کی تصویر ذہن میں ابھر آئی، ساتھ ہی معھد الائمہ اور جمعیت القراءکی عمارات بھی روشن تھیں۔ مسجد کے پیش منظر پرآویزاں کیے گئے دو بڑے بڑے بینروں پر سیّدعالم نور مجسم کا شجرہ نسب بڑے جلی حروف میں لکھا گیا تھا۔
دربار حضرت امام اعظم کے زیر سایہ منعقد اس سالانہ مرکزی محفل میلاد میں عراق کے علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ وزراء مملکت، حکمران پارٹی کے عہدیداران اور مسلح افواج کے کمانڈروں نے شرکت کی۔ محفل کے اختتام پر پنڈال میں مشائخ جا بجا اپنے اپنے حلقے بنائے ہوئے تھے۔نعت خوانی اور حلقہ ہائے ذکر نماز ِفجر تک جاری رہے۔ ہر شیخ طریقت سبز رنگ کے ایک بڑے پرچم کے زیر سایہ اپنے متعلقین کے حلقہ کی رہنمائی فرمارہے تھے۔ ۔۔۔اگرچہ دربار حضرت غوث اعظم اور جامع گیلانیہ میں کئی محافل میلاد کا انعقاد کیا گیا،بارہ(12) ربیع الاوّل شریف کی رات بھی بعد از نماز عشاء وزارت اوقاف کی طرف سے عظیم الشان محفل میلاد کا انعقاد کیا گیا تھا لیکن شب ولادت کی اجازت ہم نے حاصل کر رکھی تھی اور اس کی دعوت کو عام کردیا گیا تھا، اس محفل کا اہتمام عراق میں مقیم پاکستانی حضرات خصوصاً پاکستانی طلباء اور انڈین طلباء نے کیا تھا، پروگرام عربی اور اردو ہر زبانوں میں رکھا گیا تھا ۔۔۔ اجتماع میں شریک لوگ سیّد عالم کے دائرہ نبوت کی وسعت کا بین ثبوت تھے کیونکہ عربی، کُردی، سوڈانی ، مصری ، سری لنکن ، بنگالی ، انڈین اور پاکستانی اپنے رنگ و نسل اور علاقائیت کے تصورات کو مسترد کرکے محبت رسول کی ایک ہی تسبیح کے دانے بنے ہوئے تھےاور اپنے عظیم رسول کی محبت کے ترانے گارہے تھے.... مختلف اد وار وعہد میں اسلامیان عراق عید میلاد النبی کی تقاریب بڑے جوش خروش سے مناتے رہے ہیں ، اگرچہ روح کائنات کے یوم میلاد پر خوشی کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن اس مسرّت کے اظہار ،بڑی بڑی محافل کا انعقاد اور ایک خاص انداز میں تعبیر سرور کا مربوط سلسلہ سرزمین عراق سے شروع ہوا جیسا کہ استاذ محترم، مفتئِ عراق، شیخ عبد الکریم محمد المدرس کی تصنیف نور اسلام میں صراحت ہے، نیز" دنیات الاعیان" میں ابن خلکان نے لکھا ہے کہ شمالی عراق کے علاقے اردبیل میں جسے آج کل اربیل کہا جاتا ہے(سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی ) سلطان مظفر الدین ابو سعید ( سلطانِ اربل ) متوفی چھ سو تیس(630ھ) نے میلاد شریف کی تقاریب کا سرکاری سطح پر انعقاد کیا پھر ان تقاریب کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اور اربل کے ہر ہر گھر میں ان محافل کا انعقاد ہونے لگا۔ اوراقِ تاریخ پر کُردوں کے عہد قدیم سے ان محافل کا ذکر بڑے حسین انداز میں ملتا ہے۔151
ہندوستان میں علمائے فرنگئِ محل اس میلاد شریف کو کرتے چلے آرہے ہیں، جن کی بدولت شہر لکھنؤ میں شب دواز دھم(12) کو چراغاں، دربار ذکر میلادِ پاک، سلام و قیام کے اہتمام کا ملک میں مشہور شہرہ ہے اور متاخرین میں مولانا عبدالحئی صاحب نے بھی اس کے حق میں فتویٰ دیا ۔نیزان کے ارشد تلامذہ مولانا شاہ عین القضاۃ صاحب کی مشہور محفل میلاد شریف کے دیکھنے والے ملک بھر میں موجود ہیں اور انہوں نے ایک کتاب"سبیل الرشاد فی احتفال المیلاد"بھی اس موضوع پر لکھی۔
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تو علی محمد خان صاحب مراد آبادی کو خود لکھ بھیجا کہ عاشورہ کی مجلس اور بارہویں (12)شریف کی محفلِ میلاد شریف میرے معمولات میں سے ہے۔ یہ انہی محفلوں کے سالانہ مشاہدہ کا اثر ہے کہ خود مولوی اسحٰق صاحب نے اپنے"ماتۂ مسائل"(یعنی سو مسائل نامی کتاب) کے سوال نمبر پندرہ(15)کے جواب میں آخر لکھ ہی دیا ہے :
در مولود ذكرولادت خیر البشر است
وآں موجب فرحت وسرور است
ذکر مولود میں خیر البشر کا تذکرہ ہوتا ہے اوریہ تذکرہ خوشی و سکون کا باعث ہوتا ہے۔
مولوی اسحٰق صاحب کے تلمیذِ جلیل حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن صاحب گنج مراد آبادی نے حضرت مولانا عبدالسمیع رامپوری کے دریافت کرنے پر لکھ کر ڈاک سے جواب بھیجا:
ماھمراہ حضرت مولانا محمد اسحاق رفته ایم در میلاد آنحضرت صلى اللّٰه عليه وسلم. 152
ہم لوگ اپنے استاد کے ساتھ محفل میلادآنحضرت میں شریک ہوتے تھے۔
متاخرین علمائے کرام میں حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی ،حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی ،حضرت مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی اور ان کا سارا علمی خاندان ،حضرت مولانا شاہ عبدالحئی گلشن آبادی اور ان کا علمی خاندان اورہندوستان بھر کے اکابر مشائخ و علماء،یہ تمام اساطین دین محفل میلاد شریف اور اس میں سلام و قیام کو اہتمام سے انجام دیتے تھے۔یہ لاکھوں آئمہ اسلام، علمائے اعلام و سلاطین فخام و داعیان دینِ خیرالانام میلادالنبی کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ 153
اسی طرح علامہ ابو الحسن زید فاروقی ہندوستان میں منعقدہ میلاد النبی کے طرز کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
اللہ تبارک وتعالیٰ کا بڑا ہی کرم اور احسان ہے کہ بارہ ماہِ مبارک ربیع الاوّل کو ہندوستان میں محرمات شرعیہ کا ارتکاب نہیں کیا جاتا ہے۔ یہاں تو صرف وہی باتیں کی جاتی ہیں جن کا بیان پہلے کیا جاچکا ہے اور جس کو علامہ ابن حجراور دیگر علماء نے جائز قرار دیا ہے۔154
تمام ممالکِ اسلامیہ کی طرح پاکستان میں بھی میلاد النبی کا اہتمام نہایت عقیدت،احترام اور محبت سے کیا جاتا ہےویسے تو تمام سال ہی یہاں مختلف النوع محافلِ میلاد انفرادی و اجتماعی صورتوں میں منعقد ہوتی رہتی ہیں لیکن خصوصی طور پر یکم(1) تا بارہ (12)ربیع الاوّل میلاد النبی کی محافل بعنوان محافلِ سیرت،نعت وسلام منعقد ہوتی ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں اور ان کے مختلف مقامات پر لوگ ا س مقدس شب اور دن میں جمع ہوتے ہیں اور ذکر رسول سے اپنے دلوں کو منور کرتے ہیں ۔
سرکاری عمارات پر سبز رنگ کی روشنیوں سے چراغاں کیا جاتا ہے۔سبز جھنڈوں سے اہلِ محبت اپنے گھروں کو سجاتے ہیں اوراپنے سینوں پر نعل پاک کا نقش مبارک لگاتے ہیں۔بالخصوص بارہ(12) ربیع الاوّل کی رات کوپاکستان کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں محافل ِ میلاد اور جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور درود وسلام سے لوگ اپنی راتوں کو زندہ کرتے ہیں۔بارہ ربیع الاوّل کے دن کا روزہ رکھا جاتا ہےاور صبح سے کراچی ،لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت پورے پاکستان میں لوگ اپنے گھروں سے اپنے بچوں اور اہلِ خانہ سمیت صاف ستھرے خوشبوؤں سے مزین عمدہ لباس زیب تن کیے،درودوسلام پڑھتے ہوئے جلوسِ میلاد میں شریک ہوتےہیں۔ان جلوسوں میں نعت خوانی کے ساتھ ساتھ علمائے عظام سیرت النبی کے عنوان پر تقاریر فرماتے ہیں۔بالآخر مختلف جلوس کسی ایک مختص مقام پر جمع ہوتے ہیں جہاں بڑی محفل ِ میلاد کا انعقاد ہوتا ہے اور دعا کے بعد لوگ اپنے قلوب کو ذکر رسول سے زندہ کرتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا شواہد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولود النبی کی محافل و مجالس کا انعقاد امت مسلمہ کے ہر دور اور ہر ملک و شہر میں ہوتا رہا ہےجو اس بات کی سب سے واضح دلیل ہے کہ امت مسلمہ اس عملِ مولود کو نہ صرف جائز بلکہ باعث اجر و ثواب گردانتی ہے۔ آخر میں بطور تتمہ حافظ الحدیث ابنِ حجر عسقلانی کا میلاد النبی کے حوالہ سے ایک فتوی من و عن نقل کیا جارہا ہے جس سے مولود النبی کے منانے کے جواز میں ایک مستحکم رائے سامنے آجائے گی۔
میلاد النبی کے بارے میں حافظ ابنِ حجر ہیتمی سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
وسئل نفع اللّٰه به: عن حكم الموالد والأذكار التي يفعلها كثير من الناس في هذا الزمان هل هي سنة أم فضيلة أم بدعة؟ فإن قلتم إنھا فضيلة فهل ورد في فضلها أثر عن السلف أو شيء من الأخبار، وهل الاجتماع للبدعة المباح جائز أم لا؟وهل إذا كان يحصل بسببھا أو سبب صلاة التراويح اختلاط واجتماع بين النساء والرجال ويحصل مع ذلك مؤانسة ومحادثة ومعاطاة غير مرضية شرعا، وقاعدة الشرع مهما رجحت المفسدة حرمت المصلحة، وصلاة التراويح سنة، ويحصل بسببھا هذه الأسباب المذكورة فهل يمنع الناس من فعلها أم لا يضر ذلك؟ 155
اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے نفع بخشے!پوچھا گیا کہ یہ جواکثر لوگ اس زمانے میں میلاد و اذکار کرتے ہیں۔ ان کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ سنت ہیں یا فضیلت یا بدعت، اگر تم کہو کہ یہ فضیلت ہیں تو کیا ان کے فضل کے بارے میں سلف سے کوئی اثر یا کوئی حدیث وارد ہے کیا مباح بدعت کے لیے جمع ہونا جائز ہے یا نہیں۔ کیا ایسی بدعت جائز ہے جبکہ اس کے سبب سے یا نماز تراویح کے سبب سے مردوں اور عورتوں میں میل ملاپ پیدا ہو، اور علاوہ اس کے باہمی الفت و گفتگو و مناولت پیدا ہو جو ازروئے شریعت ناپسندیدہ ہے اور شرع کا قاعدہ ہے کہ جب فساد نیکی سے بڑھ جائے تو وہ نیکی ممنوع ہوتی ہے۔ نماز تراویح سنت ہے اور اس کی وجہ سے اسباب مذکورہ پیدا ہوتے ہیں تو کیا لوگ نماز تراویح سے منع کیے جائیں یا یہ مضر نہیں؟
اس سوال کو ذکر کرنے کے بعد اس کا جواب دیتے ہوئے ابن حجر ہیتمی تحریر فرماتے ہیں:
الموالد والأذكار التي تفعل عندنا أكثرها مشتمل على خير، كصدقة، وذكر، وصلاة وسلام على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ومدحه، وعلى شر بل شرور لو لم يكن منھا إلا رؤية النساء للرجال الأجانب، وبعضها ليس فيھا شر لكنه قليل نادر، ولا شك أن القسم الأول ممنوع للقاعدة المشهورة المقررة أن درء المفاسد مقدم على جلب المصالح، فمن علم وقوع شيء من الشر فيما يفعله من ذلك فهو عاص آثم، وبفرض أنه عمل في ذلك خيرا، فربما خيره لا يساوي شره ألا ترى أن الشارع صلى اللّٰه عليه وسلم اكتفى من الخير بما تيسر وفطم عن جميع أنواع الشر حيث قال: (إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم وإذا نھيتكم عن شيء فاجتنبوه)156 فتأمله تعلم ما قررته من أن الشر وإن قل لا يرخص في شيء منه، والخير يكتفى منه بما تيسر. والقسم الثاني سنة تشمله الأحاديث الواردة في الأذكار المخصوصة والعامةكقوله صلى اللّٰه عليه وسلم: (لا يقعد قوم يذكرون اللّٰه تعالى إلا حفتھم الملائكة، وغشيتھم الرحمة، ونزلت عليھم السكينة، وذكرهم اللّٰه تعالى فيمن عنده) رواه مسلم وروى أيضا أنه صلى اللّٰه عليه وسلم قال لقوم جلسوا يذكرون اللّٰه تعالى ويحمدونه على أن هداهم للإسلام (أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام فأخبرني أن اللّٰه تعالى يباهي بكم الملائكة)157 وفي الحديثين أوضح دليل على فضل الاجتماع على الخير والجلوس له، وأن الجالسين على خير كذلك، يباهي اللّٰه بھم الملائكة، وتنزل عليھم السكينة وتغشاهم الرحمة، ويذكرهم اللّٰه تعالى بالثناء عليھم بين الملائكة فأي فضائل أجل من هذه؟ 158
میلاد و اذکار جو ہمارے ہاں کیے جاتے ہیں، ان میں سے اکثر نیکی (مثلاً صدقہ و ذکر و درود شریف و مدح سرکار دو عالم) پر مشتمل ہیں اور بعض برائی بلکہ برائیوں پر مشتمل ہیں۔ اگر صرف عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنا ہو تو یہی برائی کافی ہے اور ان میں سے بعض میں کوئی برائی نہیں مگر ایسے میلاد قلیل و نادر ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ قسم اول ممنوع ہے کیونکہ یہ قاعدہ مشہور و مقرر ہے کہ مفاسد کا دفعیہ مصالح کی تحصیل پر مقدم ہے۔ پس جس شخص کو ایسے میلاد و اذکار میں جسے وہ کرتا ہے وقوعِ شرکا علم ہو وہ عاصی اور گنہگار ہے۔ بالفرض اگر وہ ان میں نیکی کرے تو بعض دفعہ اس کی نیکی اس کی بدی کے برابر نہیں ہوتی۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ شارع نے نیکی میں تو اسی قدر پر کفایت کی جو ہوسکے اور برائی کے تمام انواع سے منع فرمایا چنانچہ یوں ارشاد فرمایا: جس وقت میں تم کو کسی امر سے منع کروں تو اس سے باز رہو اور جس وقت میں تم کو کسی امر کا حکم دوں تو اس میں سے کرو جو کرسکتے ہو ۔پس تو اس پر غور کر تجھے معلوم ہوجائے گا۔ جو میں نے کہا کہ برائی خواہ کتنی ہی کم ہو، اس کی کسی قسم کی اجازت نہیں ہوسکتی اور نیکی کافی ہے جتنی ہوسکے ۔قسم ثانی سنت ہے اور مندرج ہے ان احادیث میں جو خاص و عام اذکار کے بارے میں آئی ہیں۔ مثلاً نبی کریم کا قول کہ جو لوگ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں فرشتے ان کا اکرام کرتے ہیں اور رحمت ان کو گھیرلیتی ہے اور ان پر سکون و وقار نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی بارگاہ کے فرشتوں میں یاد کرتا ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔اور یہ بھی روایت ہے کہ سرکار دوعالم نے ان لوگوں سے جو بیٹھے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کا شکر کرتے تھے کہ اس نے ان کو ہدایت اسلام کی، فرمایا: میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور مجھے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں تم پر فخر کرتا ہے۔ان دونوں حدیثوں میں اس امر کی نہایت واضح دلیل ہے کہ خیر کے لیے جمع ہونا اور بیٹھنا نیک کام ہے اور اس طرح کے خیر کے لیے بیٹھنے والوں پر اللہ تعالیٰ فرشتوں میں فخر کرتا ہے اور ان پر سکون و وقار نازل ہوتا ہے اور ان کو رحمت گھیرلیتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کو ثنا سے یاد کرتا ہے۔ پس اس سے بڑھ کر اور کونسی فضیلت ہے۔
مذکورہ تمام باتوں پر مہر تصدیق و ثبت اصول ِ فقہ کےاس مسلم قاعدہ سے ہوجاتی ہے جو"مسلم الثبوت" کےتتمہ میں مذکور ہے:
ان اتفاق العلماء المحققین على ممر الاعصار حجة كالا جماع.159
بے شک علماء محققین کا اتفاق مدت تک چلا آنا دلیل شرعی ہے مثل اجماع کے۔
علامہ بحر العلوم نے لفظ محققین کی شرح میں فرمایا:
وان كانو غیر مجتھدین. 160
وہ محققین اگرچہ کہ مجتہد نہ ہوں۔
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ میلاد النبی کے لیے خوشی کا اظہار کرنا،محافل کاانعقاد کرنا،جلوس و ریلیاں نکالنا، صدقات وخیرات کرنا اور اس منہج و طرز کےمطابق افعال سر انجام دینا امت مسلمہ کے اولین دور سے اور بالخصوص علماء امت سے مسلسل ومتواتر چلتا آرہا ہے اور" مُسلَّم" کی عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امت کے محققین اگرچہ کہ غیر مجتہدین ہوں ان علماء کا کسی کام پر متواتر عمل کرتے چلے آنا اس کو اجماع کے درجہ پر لے جاتا ہےلہٰذا میلاد النبیپر خوشی کا اظہار اور اس خوشی کے لیے محافل و جلوس کا انعقاد اجماع امت سے ثابت ہے۔ میلاد النبی کی خوشی کا اظہار صرف قومی یا خاندانی مناسبت کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس خوشی کا اظہارسیّدنا محمد رسول اللہ سے وابستگی اور ان کی محبت و اطاعت کی بنا پر ہے ۔اس لیے رسول اکرم کا میلاد ہر مسلمان کو منانا چاہیےتا کہ محبت رسول اور اطاعتِ رسول میں اضافہ ہوسکے۔