(حوالہ: علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ: 1، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 77-87)
نبی مکرمﷺکی ولادت کے لیے مستعمل الفاظ میں کئی اقسام کے الفاظ ہیں جن میں لفظ میلاد،مولود اورمولد کثیر الاستعمال ہیں۔اہل عرب اس کے لیے "مولود" کا لفظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور اردو زبان میں میلاد کا لفظ اس معنی میں مستعمل ہےجو در حقیقت عربی لفظ ہے اوراردو کتبِ سیرت اور کتبِ میلاد میں مَوْلِدُ النَبِیِّ صلى اللّٰه عليه وسلم کی طرح "میلاد النبیﷺ" کثیر الاستعمال لفظ بن گیا ہے۔
میلاد عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مادّہ"ولد " ہےاور میلاد اسم ظرف زمان ہے جس کا معنی ہے کہ پیدا ہونے کا وقت۔ میلاد کا مادہ"ولد"قرآن مجید میں کل ترانوے(93)مرتبہ آیا ہے اور کلمہ "مولود"تین ( 3) مرتبہ آیا ہے۔ 1 اسی طرح احادیث نبویﷺمیں لفظ میلاد و مولد کا استعمال بے شمار مرتبہ ہوا ہے۔
میلاد کے لغوی معنی ہیں پیدائش ، پیدا ہونے کا وقت یا زمانہ ۔لفظ مَوْلِدُ کا مصدر وَلَدَآتا ہے اور جمع مَوَالِدُ آتی ہے۔اسی طرح عربی میں "اَلْمَوْلُوْدُ" کا لفظ بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے اوراس کی جمع "مَوَالِیْدُ"آتی ہے۔ 2میلاد عام طور پر وقت ولادت کے معنوں میں مستعمل ہے چنانچہ میلاد کا یہ معنی بیان کرتے ہوئے امام ابن منظور افریقیلکھتے ہیں:
ومیلاد الرجل: اسم الوقت الذي ولد فیه. 3
اور انسان کا میلاد اس وقت کا نام ہے جس میں اس کی پیدائش ہوتی ہے۔
اسی طرح امام ابن ابی بکر رازینےبھی اس کا یہی معنی بیان کیا ہےنیز مولد کا معنی بیان کرتے ہوئے امام ابن ابی بکر رازی لکھتے ہیں:
(والمولد) الموضع الذى ولد فیه.4
اور"المولد" جائے پیدائش کوکہتے ہیں۔
اسی طرح مادّه"ولد" كے معانی بيان كرتےہوئے محمد بن یعقوب فیروزآبادی لکھتے ہیں:
ووقت الولادة كالمولد والمیلاد.5
ولادت کا وقت(بھی ولد کے مادہ میں ہے)جیسے مولد اور میلاد۔
نیز لغت کی ایک اور کتاب"المعجم الوسیط"میں مولد کامعنی یوں بیان کیا گیا ہے:
موضع الولادة ووقتھا.6
جائے پیدائش اور وقت پیدائش۔
اسی طرح"المعجم الوسیط" میں بھی ہے 7 نیز اس حوالے سے جبران مسعودلکھتے ہیں:
المیلاد (و، ل، د) وقت الولادة، عید المیلاد.8
المیلاد(جو مادّہ "ولد" سے ہے) ولادت کے وقت اور عید میلاد کو کہتےہیں۔
اس حوالے سے مولانا عبد الرشید گجراتی لکھتے ہیں:
المیلاد: پیدائش کا وقت، عید المیلاد، نبی آخر الزماں ﷺ کی پیدائش کا دن۔ 9
اسی طرح اردو لغت کی مشہور کتاب "فیروز اللغات" میں اس لفظ کے معانی یوں بیان کیے گئے ہیں:
میلاد، ولادت کا زمانہ، پیدائش کاوقت، تولید، عید میلاد النبیﷺ، حضرت رسول کریم ﷺ کی ولادت کے دن خوشی کی تقریب،10 مولد، جائے ولادت، پیدائش کا مقام، جمع موالید۔ 11
نیز اسی طرح عید ِمولود کے حوالے سے یوں مذکور ہے:
عیدِ مولود: حضرت رسول کریم ﷺ کی ولادت کی تقریب۔12
ان تمام مذکورہ حوالہ جات سے واضح ہوا کہ میلاد،مولد اورمولودیہ تمام الفاظ باہم قریب المعنی ہیں جن میں قدر مشترک معنی، ولادت بمعنی پیدائش کا ہے۔
عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی"مولود" کےدرج ِذیل معنی بیان کیے گئے ہیں:
جبکہ اہل ا سلام کے ہاں اصطلاحی معنی میں "میلاد" یا "مولود"سے مراد سیّد الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت ہے اور محفل میلاد یا جلسۂ میلاد یا میلاد کانفرنس سے مراد ایسا روح پرور اجتماع ہے جس میں حضور اکرم ﷺ جیسی عظیم نعمت الٰہی پر اللہ تعالیٰ کے حضور ہدیۂ شکر بجا لاتے ہوئے آقا ئے دوجہاں ﷺ کی ولادت طیّبہ، آپ ﷺ کی سیرت مطہرہ ، آپ ﷺ کے ذکرو نعت کا تذکرہ کر کے برکات حاصل کی جائیں۔ نبی اکرمﷺکی ولادت با سعادت کا احوال بیان کرنا یعنی ان کے اس دنیا میں آنے اور اللہ پاک کا ان کو اس کائنات میں بھیجنے کا مقصد کیا تھا؟ ان کو نبوت کی عطا اور سارے جہاں کے لیے رحمت للعالمین بنا کر بھیجنے کی مقصدیت پر غور کرنا۔"مولد" کا لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عیسیٰ مانع الحمیری لکھتے ہیں:
المولد معناہ اللغوي وقت الولادة او مكانھا واما في اصطلاح الائمة فھو اجتماع الناس وقراة ما تیسرمن القرآن الکریم وروایة الاخبار الواردة في ولادة نبی من الانبیاء اوولى من الاولیاء ومدحھم بافعالھم واقوالھم. ان الاحتفال به یشتمل علي ذكر مولدہ الکریم ومعجزاته وسیرته والتعریف به صلى اللّٰه عليه وسلم 13
مولد کا لغوی معنی ہے "وقت ولادت " یا "جائے ولادت "۔ائمہ کی اصطلاح میں لوگوں کااکٹھا ہونا، حسب منشاءقرآن خوانی کرنا، انبیاء میں سے کسی نبی کی ولادت کے بارے میں یا اولیاء اﷲ میں سے کسی ولی کے حوالے سے وارد ہونے والی روایات کو بیان کرنا اور ان کے اقوال، افعال کی بنا پر ان کی تعریف کرنا۔ مولد کے لیے ہونے والی محفل رسول کریمﷺکی ولادت کا تذکرہ،آپﷺکے معجزات، آپ ﷺ کی سیرت اور آپ ﷺ کی تعریف و توصیف پر مشتمل ہوتی ہے۔
اسی طرح امام جلال الدین سیوطیاس عملِ میلاد کا اصطلاحی و شرعی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عندي ان اصل عمل المولد الذي ھو اجتماع الناس وقراة ما تیسرمن القرآن وروایة الاخبار الواردة في مبا امر النبی صلى اللّٰه عليه وسلم وما وقع في مولدہ من الایات. 14
میرے نزدیک میلاد شریف در اصل ایسی تقریبِ (مسرت) ہے جس میں لوگ جمع ہوکر بقدرِ سہولت قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور نبی اکرم ﷺ (کی ولادت مقدسہ) کے ابتدائی امور کے متعلق جو احادیث وآثا روارد ہیں اور جو (عظیم) نشانیاں ظاہر ہوئیں ،انہیں بیان کرتے ہیں۔
اسی طرح حسن مثنی ندوی میلاد کے معنی ومفہوم کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺکی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں، یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے اﷲتعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسلﷺکی محبت و اطاعت اور خداوندِ بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبیﷺہے۔ 15
یعنی ائمہ امت کی نظر میں "مولد" کی محفل میں آپﷺکا ہی تذکرہ ہوتا ہے اوراس تذکرہ کرنے کی وجہ سے اس محفل کا نام محفل میلاد النبیﷺ رکھا جاتا ہے۔میلاد کے لغوی مفہوم میں اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے کہ اردو زبان میں اب یہ لفظ ایک خاص مفہوم کی وضاحت و صراحت اور ایک مخصوص اصطلاح کے طورپر نظر آتا ہے۔
قرآن مجید میں بھی مادّہ "ولد" کا استعمال اسی ولادت کے معنی میں استعمال ہواہے جو دیگر انبیاء کی ولادت کے لیے مستعمل ہے۔اس مادّہ ولد سے مشتق الفاظ"ولد اورولدت" کا ذکر قرآن میں آیا ہے جو حضرت یحییٰ بن زکریااور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی ولادت کے تذکرہ میں موجود ہے چنانچہ باری تعالیٰ نےحضرت یحیی بن زکریاکے تذکرہ کے بعد ان کی ولادت کا ذکر قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے:
وَسَلٰمٌ عَلَيْه يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا1516
اور یحییٰ پر سلام ہو ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔
نیز اسی طرح حضرت عیسیٰ ابن مریم کے میلاد کا ذکر قرآن مجید میں خود ان کی زبانی یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسٰی نے اپنی پاکباز والدہ محترمہ حضرت مریم کی گود ہی میں اپنا تعارف کروانے کے بعد ارشاد فرمایا:
وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا33 17
اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔
اسی طرح قرآنِ مجید کے ایک اور مقام پراﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی پیدائش کی قسم اٹھائی چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ318
(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم ) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی۔
مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیاہے کہ اس قَسَم سے حضور ﷺ اور آپ ﷺکے والد کی قسم بھی مراد لی جاسکتی ہےچنانچہ اس آیت کی تفسیر میں امام تستری فرماتے ہیں:
وما ولد: محمد صلى اللّٰه عليه وسلم .19
اور جو پیدا ہوا اس سے مراد نبی مکرمﷺ ہیں۔
نیز اسی طرح امام ماوردی شافعی اس آیت کی تفسیر میں پانچواں قول ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان الوالد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم .20
والد سے مراد نبی کریمﷺ ہیں۔
اسی طرح امام فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وما ولد محمد صلى اللّٰه عليه وسلم وذلک لأنه أقسم بمکة وإبراهیم بانیھا وإسماعیل ومحمد سکانھا.21
اور جو پیدا ہوا س سے مراد نبی مکرمﷺہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مکہ اور اس کے بانی حضرت ابراہیم کی قسم اٹھائی ، پھر حضرت اسماعیل اور نبی مکرمﷺکی قسم اٹھائی جو کہ اس مکہ کے رہائشی ہیں۔
مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ مادّہ"ولد" کا استعمال پیدائش کے معنی میں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مولد اور مولود کو نبی مکرمﷺ کی ولادت کےلیے استعمال کیاجاتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے سامنے "میلاد"کا لفظ استعمال کیا ہے چنانچہ روایت میں منقو ل ہے کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
تذاكررسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وأبو بکر میلادهما عندى.22
رسول اﷲ ﷺ اور سیّد نا ابوبکر صدیق نے میرے پاس اپنے اپنے میلاد کا تذکرہ کیا۔
نبی کریمﷺکی ولادت مبارکہ کے احوال کے اظہار و برکات کے سلسلہ میں لفظ میلاد کا اولین استعمال جامع ترمذی میں ہے جو صحاح ستہ میں شامل ہے۔ اس میں امام ترمذی نے ایک باب "باب ماجاء فی میلاد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم "کے نام سے قائم کیا ہے جس کی شرح میں عبد الرحمن مبارک پوری نے لفظِ میلاد کو ظرف زمان قراردیاہے۔23امام ترمذی اپنی سند کے ساتھ اس باب کے تحت یوں حدیث روایت کرتے ہیں:
عن المطلب بن عبد اللّٰه بن قیس بن مخرمة عن أبیه عن جدہ قال: ولدت أنا ورسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عام الفیل، قال وسأل عثمان بن عفان قباث بن أشیم أخا بنی یعمربن لیث أنت أكبرأم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم؟ فقال: رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أكبر منی وأنا أقدم منه في المیلاد.24
حضرت قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں واقعہ فیل کے سال پیدا ہوئے، وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں)سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺمجھ سے بڑے ہیں اور میلاد (پیدائش) میں، میں آپ ﷺ سے پہلے ہوں ۔
اس مذکورہ بالا روایت سے لفظ میلاد کے اولین استعمال کی نشاندہی ہوجاتی ہےنیز ان احادیث اور عبارات سے واضح ہوا کہ اردو میں میلاد النبیﷺ کا لفظ بعد میں استعمال ہوا کہ اس سے پہلے اہل عرب اور محدثین میں امام ترمذی نے اس کو نبی کریمﷺکی ولادت کے تذکرہ کے لیے استعمال کیا ہے۔
اسی طرح تفاسیر کی کئی کتب میں بھی حضرت یوسف کے قصہ میں لفظِ میلاد کا ذکر ہوا ہے چنانچہ سورہ یوسف میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قصہ یوسف بیان کیاہے اوراس میں ایک یہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب یوسف نے اپنے سگے بھائی کو اپنے پاس روک لیا تو ان کے بڑے بھائی نے کہا اب جب تک میرے والد حضرت یعقوب خود مجھے اپنے پاس نہ بلائیں گے تب تک ان کے سامنے نہیں جاؤنگا۔ 25اس آیت مبارکہ کے تحت بڑے بھائی کا تذکرہ کرتے ہوئے امام مجاہدکی روایت میں"المیلاد" کالفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ امام سیوطی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
وأخرج ابن أبی شیبة وابن جریر وابن المنذر وابن أبی حاتم وأبو الشیخ عن مجاهد رضي الله عنه فى قوله (قال كبيرهم) قال: شمعون الذي تخلف أكبرهم عقلا وأكبرمنه في المیلاد روبیل.26
امام ابن ابی شیبہ، امام ابن جریر، امام ابن المنذر، امام ابن ابی حاتم اور امام ابو الشیخ نے حضرت امام مجاہد سے باری تعالیٰ کے فرمان"قال کبیرھم" کے تحت روایت کیا ہے کہ وہ شمعون تھا جو پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ عقل کے اعتبارسے تمام سے بلند مرتبہ تھا اور میلاد (پیدائش، عمر) کے اعتبار سے بڑا بھائی روبیل تھا۔
اس مذکورہ بالا تفسیری روایت میں بھی امام مجاہدکے حوالہ سے لفظ "میلاد" کو اسی معنی میں استعمال کیاجانا منقول ہے جس میں یہ لفظ فی زمانہ مستعمل ہے البتہ اب اردو میں یہ نبی مکرمﷺکے میلاد کے ساتھ مختص ہوچکاہے۔
کتبِ احادیث کی طرح شروحات حدیث کی کتب میں بھی"میلاد"کا لفظ آتاہے چنانچہ امام ابن حجر عسقلانی شافعیاپنی مشہور شرح "فتح الباری شرح صحیح البخاری" میں زمانۂ جاہلیت کے "محمد" نامی لوگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے "محمد بن مسلمہ" کے بارے میں لکھتے ہیں:
وهو غلط فإنه ولد بعد میلاد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم بمدة .27
اور یہ درست نہیں ہے کیوں کہ ان کی پیدائش حضور ﷺ کے میلاد کے کافی زمانہ بعد ہوئی۔
یعنی میلاد النبیﷺکی اصطلاح امت کے علماء میں رائج و جاری رہی ہے اور یہ کوئی عوامی اختراع نہیں ہے جس سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ میلاد النبیﷺکی اصطلاح امت کے اوئل دور سے ہی چلتی چلی آرہی ہے۔
اسی طرح سیرت کی کتابوں میں غارِ ثور والے واقعہ میں "میلاد" کا لفظ منقول ہے۔ جب حضور نبی کریم ﷺ غار ِثور میں پناہ گزیں تھےاور قریش مکّہ آپﷺ کی تلاش میں تھے ،اس وقت کفار ِقریش غارِ ثور کے منہ تک پہنچ چکے تھے چنانچہ اس حوالے سے امام صالحی شامی لکھتے ہیں:
وذكر البلاذري فى تاریخه وأبو سعید في الشرف أن المشركين استأجروا رجلا یقال له علقمة بن كرز بن هلال الخزاعي وأسلم عام الفتح. فقفا لهم الأثر حتی انتھي إلي غار ثور وهو بأسفل مکة فقال: ههنا انقطع أثرہ ولا أدري أخذ یمینا أم شمالا أم صعد الجبل. فلما انتھوا إلي فم الغار قال أمیة بن خلف ما أربکم في الغار؟ إن علیه لعنکبوتا كان قبل میلاد محمد.28
امام بلاذری نے تاریخ میں اور امام ابو سعید نے شرف میں لکھا ہےکہ مشرکین نے ایک شخص علقمہ بن کرز بن ہلال الخزاعی کو اجرت پر لیا جس نے فتح مکہ کے سال اسلام قبول کرلیا تھا۔یہ آپ ﷺکے قدمین شریفین کے نشانات پر چلتا رہا حتیٰ کہ غارِثور تک پہنچ گیا۔ اس نے کہا قدمین شریفین کے نشانات اس جگہ ختم ہیں۔ میں نہیں جانتا آپﷺ دائیں یا بائیں یا اوپر چلے گئے۔ جب وہ غار کے دہانے تک پہنچے تو امیہ بن خلف نے کہا:تمہیں غار کے اندر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر تومکڑی نے جالا تنا ہے جو محمد عربیﷺ کی ولادت مبارکہ سے بھی پہلے کا ہے ۔
اس روایت میں بھی راوی نے لفظ میلاد کا ذکر آپﷺ کے تذکرۂ پیدائش کے معنی میں ہی استعمال کیاہے اور اسی طرح یہ لفظ فی زمانہ مستعمل ہے۔
اسی طرح تاریخ وتراجم کی کتابوں میں بھی کئی روایات میں لفظ "میلاد" استعمال ہوا ہے چنانچہ امام ابن عساکر دمشقی روایت کرتے ہیں:
قتل عمار وهو ابن إحدي وتسعین سنة وكان أقدم في المیلاد من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم. 29
حضرت عمار اکانوے(91)سال کی عمر میں شہید کیے گئے اور وہ میلاد(ولادت) میں حضور نبی کریم ﷺ سے پہلے تھے۔
اسی طرح امام محمد بن سعد بصری حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کرتے ہیں:
كان بين موسى بن عمران وعیسی ابن مریم ألف سنة وتسعمائة سنة ولم تکن بینھما فترة. وأنه أرسل بينھما ألف نبی من بنی إسرائیل سوي من أرسل من غیرهم، وكان بین میلاد عیسی والنبی، علیه الصلاة والسلام. خمسمائة سنة وتسع وستون سنة.30
حضرت موسیٰ بن عمران اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کے درمیان انیس سو( 1900 )سال کا عرصہ ہے اور ان دونوں کے درمیان زمانۂ فترت (جس میں وحی کا سلسلہ موقوف ہوجاتا ہے) نہیں گزرا۔ ان دونوں کے اس عرصۂ نبوت کے درمیان بنی اسرائیل میں ہی ایک ہزار نبی بھیجے گئے، ان کے علاوہ بھیجے جانے والے علیحدہ ہیں۔ میلادِ عیسیٰ اور حضور ﷺ (کی بعثت) کا درمیانی عرصہ پانچ سو انہتر (569)سال بنتا ہے۔
اسی طرح امام ملا علی قاری نےمیلاد النبی ﷺ کے بارے میں پورا رسالہ لکھا ہے جس کا نام"المورد الروی فی المولد النبوی" رکھا ہے ،اس میں ایک مقام پر لکھتے ہیں:
لھذا الشھر في الاسلام فضل
ومنقلتفوق علي الشھور
فمولود به واسم ومعنی 31
اسلام میں اس مہینے (ربیع الاول)کو فضیلت اور شان حاصل ہے جو دوسرے مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ سو اس میں پیدا ہونے والے کا نام بھی محمد (قابل تعریف) اور معنی (ستودہ ذات و صفات) بھی قابل تعریف ۔
عرب ممالک میں آئمہ و محدثین نے حضور نبی کریم ﷺ کے میلاد کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ اس لیے ایسی کتابیں یا مضامین جس میں حضور ﷺ کے میلاد کے واقعات یا اس کی برکات کا تذکرہ ہو اُسے "مولود " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں آئمہ و محدثین کی تصنیف کردہ "میلاد النبی" یا "مولود النبی صلى اللّٰه عليه وسلم"کے نام سے کتابیں موجود ہیں۔32 کبار اور مستند مصنفین نے حضور نبی اکرم ﷺکے میلاد شریف کے موضوع پر کتب لکھیں اور اپنی کتب کے ناموں میں لفظِ میلادکا استعمال کیا ہے چنانچہ حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب" "کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون"میں ایک کتاب کا نام یوں بیان کیا ہے :
درج الدرر في میلاد سید البشر صلى اللّٰه عليه وسلم للسید اصیل الدین عبد اللّٰه بن عبد الرحمن الحسینی الشیرازي المتوفي سنة 884 أربع وثمانین وثمانمائة.33
"درجُ الدّرر فی میلاد سید البشر صلى اللّٰه عليه وسلم" نامی کتاب اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمن حسینی شیرازی کی تصنیف ہے، جن کا سنِ وِصال آٹھ سو چوراسی( 884ھ) ہے۔
ان تمام تر مذکورہ تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اہل اسلام نبی مکرمﷺکی ولادت کاتذکرہ کرنے اور اس کےلیے منعقد کی جانے والی محافل و مجالس وتقاریب کو میلاد،مولد اور مولودکے نام سے موسوم کرتے ہیں جو کہ اوائل دور ِاسلامی سے ہی اسی مفہوم میں مستعمل چلے آرہے ہیں اور شرعی و اصطلاحی لحاظ سے بھی یہ الفاظ نبی مکرمﷺکے تذکرۂ ولادت کے بارے میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔اہل عرب کے ہاں تو یہ الفاظ عمومی معنی میں ہی مستعمل ہیں لیکن اردو زبان میں یہ الفاظ اب عُرفاً نبی مکرمﷺکےتذکرۂ ولادت کے ساتھ مختص سمجھے جاتے ہیں ۔