دیگر قدیم تہذیبوں کی طرح اسلامی ریاست کی سلامتی، بقاء اور تحفظ کے لیے ریاستِ اسلام میں عسکری نظام تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم اس کی ترجیحات دوسری قدیم اقوام کی ترجیحات سے یکسر جداگانہ تھیں۔ قدیم تہذیبوں میں غریب اور کمزور ہمسائی ریاستوں پر مسلسل حملے کرکے ان کے مال، املاک، جانوروں، مویشیوں اور خواتین وغیرہ کو لوٹ مار کے ذریعے حاصل کرنے یا ان علاقوں کےمکینوں کو بغیر کسی وجہ کے محکوم بنانے کے لیے افواج تیار کی جاتی تھیں۔ظلم و بربریت پر مبنی ان جنگوں میں لاکھوں افراد لقمۂ اجل ہوجاتے، کثیر افراد نا کردہ جرم کی سزا بھگت کر بے قصورزخمی کردئیےجاتے اور ہزاروں غلام بنا لیے جاتے یاگرفتارکر لیے جاتے تھے۔ اس کی واحد وجہ انسانی قوت، طاقت اور اقتدار کی چاہت اور سلطنت کے طول و عرض میں اضافہ کرنا تھا۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اقوام ایک دوسرے پر برتری وغلبہ کے اظہار کے لیے لاکھوں افراد کا خون بہانے اور ہر طرف تباہی اور بربادی پھیلانے سے کبھی دریغ نہیں کرتی تھیں۔
انسانی تمدّن کی بنیاد جس قانون پرقائم ہے اس کی سب سے پہلی دفعہ یہ ہے کہ انسان کی جان اور اس کاخون محترم ہے۔ انسان کے تمدّنی حقوق میں اوّلین حق زندہ رہنے کاحق ہے اور اس کے تمدّنی فرائض میں اوّلین فرض زندہ رہنے دینے کا فرض ہے۔ دنیا کی جتنی شریعتیں اور مہذّب قوانین ہیں، ان سب میں احترامِ نفس کا یہ اخلاقی اصول ضرور موجود ہے جس قانون ا ور مذہب میں اسے تسلیم نہ کیا گیا ہو وہ نہ تو مہذّب انسانوں کا مذہب و قانو ن بن سکتا ہے اور نہ ا س کے ماتحت رہ کر کوئی انسانی جماعت پُر امن زندگی بسرکرسکتی ہے۔ ہر شخص کی عقل خود سمجھ سکتی ہے کہ اگر انسان کی جان کا احترام اور اس کی حفاظت کا بندوبست نہ ہو تو چند افراد باہم کیسے مل کر رہ سکتے ہیں؟ ان کے درمیان باہم لین دین اور کاروبار بھی مشکل ہوجایا کرتا ہے کیونکہ اس طرح انہیں امن، اطمینان اور بے خوفی و جمیعتِ خاطرحاصل نہیں ہوسکتی ہے حالانکہ انسان کو تجارت، صنعت، زراعت، دولت کمانے، گھر بنانے، سیر و سفر کرنے اور متمدّن زندگی بسر کرنے میں ان تمام امور کی اشد ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ عام دنیا دار انسان کی نظر کی نظر سے دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی فائدہ کی خاطر یا کسی ذاتی عداوت کی خاطر اپنے ایک بھائی کو قتل کرنا بدترین قساوت اور انتہائی سنگدلی ہے جس کا ارتکاب کرکے انسان میں کوئی ا خلاقی بلندی پیدا ہونا تو درکنار، ا س کا درجۂ انسانیت پر قائم رہنابھی محال ہے۔
دنیا کے سیاسی قوانین تو اس احترام حیات انسانی کو صرف سزا کے خوف اور قوت کے زور سے قائم کرتے ہیں مگرایک سچے مذہب کا کام دلوں میں اس کی صحیح قدر و قیمت پیداکرنا ہے تاکہ جہاں انسانی تعزیر کا خوف نہ ہوا ور جہاں انسانی پولیس روکنے والی نہ ہو و ہاں بھی بنی آدم ایک دوسرے کے خونِ ناحق سے محترز رہیں۔ ا س نقطۂ نظر سے احترام نفس کی جیسی صحیح اور مؤثر تعلیم ا سلام میں دی گئی ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں ملنی مشکل ہے۔1
قدیم دنیاکی دیگر تہذیبوں کے عسکری منصوبہ سازوں، فوجی ماہرین اور حکمرانوں کے لیے کسانوں یا نچلے طبقے کے افراد کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور اگر ان لوگوں کا تعلق کسی اور قوم یا تہذیب سے ہوتا تو ان لوگوں کی زندگی کی وقعت ان کے اپنے لوگوں سے بھی کم تھی۔ اس کےبالکل برعکس اسلام کے عسکری نظریے میں انسانی زندگی کی اہمیت، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، کسان ہو یا حکمران آزاد ہو یا غلام،سب سے زیادہ ہے۔ اسلام انسان کی زندگی کو انتہائی اہم سمجھتا ہے اور ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔2
اسلامی فوج کی تشکیل وترقی اورنمو کا واحد مقصد یہ تھا کہ صرف اور صرف ایک خالق حقیقی اللہ عزوجل کی حکمرانی اور اس کا عطا کردہ نظام قائم کیا جائے تاکہ انسانیت سکون سے زندگی گزار سکے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ 393
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے۔
یہ دراصل اُنہی مقاصد کا اعادہ ہے جس کے لیے مسلمانوں سے جنگ لڑنے کا تقاضہ کیا گیاہے۔ یہ دو جہتی مقصد ہے۔
یہ ہی وہ واحد مقصد ہے جس کے لیے مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے لڑائی اور جنگ کرنا اسلام میں غیر قانونی ہے۔4
یہی وجہ ہے کہ مسلم ا فواج نے جو جنگیں لڑیں وہ یا تو دفاعی نوعیت کی تھیں یا پھر دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اور فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لیے لڑی گئی تھیں۔ مزید برآں ، مسلمانوں کو تربیت دی گئی تھی اور بار ہا یاد دلایا گیا تھاکہ وہ صرف خدا کی راہ میں لڑیں نہ کہ مادی فوائد یا دنیاوی ہوس کی خاطراپنی طاقت صرف کریں۔5
لہذا مسلم افواج شریعت کی عملدرآمد کرانےاور خدائے واحد کے حکم کے نفاذ کے لیے تیار کی گئی تھیں۔ مسلمان فوج کے کسی بھی سپاہی کو مخالفین کے حقوق کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ پابند تھے کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور بیماروں وغیرہ اور ایسے تمام لوگوں کوقتل نہ کریں جو لڑائی کے میدان میں نہیں آتے اور نہ جنگ میں شریک ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ تربیت بھی دی گئی تھی کہ مخالفین کے وہ لوگ جو لڑنا نہیں چاہتے اُن سے نہ لڑیں۔ یہاں تک کہ جنگوں کے دوران مکانات، باغات، مویشیوں، سرائے اور دیگر عام فوائد کے مقامات کو آگ لگانے یا تباہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
یہاں تک کہ جب مسلمان فوجیں لڑائی کے لیے جمع ہوجاتیں تب بھی مسلمان سپاہ سالار جنگ سے پہلے دوسرے اختیارات پیش کرکے خون خرابے سے بچنے کی کوشش کرتے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلےوہ دوسری قوموں کے رہنماؤں کو خدا کی مرضی کے تابع ہونے کی دعوت دیتے تاکہ وہ امن و سکون سے زندگی گزار سکیں۔ اگر حکمران اس پیش کش کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتے تو پھر ان سے جزیہ ٹیکس ادا کرنے کو کہا جاتا،جس کے بدلے میں مسلمان ان کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرتے ۔ اگر وہ اس پیش کش کو قبول کرنے سے بھی انکار کردیتے تو انہیں جنگ کے لیے تیار رہنے کو کہ دیا جاتا تھا۔6یہاں تک کہ جنگ کے اس منظر نامے میں بھی مسلمانوں نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ حضورﷺنے انہیں اسلامی عسکری نظام کےمخصوص اصول سکھائے تھے اور جنگ کے وقت ان پر عمل کرنا لازمی قرار دیا تھا۔ ان میں مندرجہ ذیل اصول شامل ہیں:
قرآن پاک نے مسلمانوں کو فوجی سرگرمیوں کے آغاز سے پہلے واضح انداز سےجنگ کا باقاعدہ اعلان کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہذا اسلامی قانون کے مطابق اچانک حملہ کر کے قتل ِ عام شروع کر دینا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی حضورﷺرات کے وقت کسی بھی ایسے مقام پر پہنچتے جہاں عسکری سرگرمی مقصود ہوتی تو آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ رات میں دشمن پر شب خون نہیں مارو بلکہ صبح ہونے کا انتظار کرو اور اس طرح باقاعدہ پہلے اعلان کر کے عسکری مہم کا آغاز فرمایا کرتے تھے۔7
مسلم افواج کو نبی اکرم ﷺٰ نے حکم دیا تھا کہ وہ مکانات ، کھیتوں اور دشمنوں کی دیگر املاک کو جلانے سے مکمل طور پر پرہیز کریں ۔ قدیم عربوں اور دیگر تہذیبوں میں نہ صرف املاک کو بلکہ انسانوں کو نذر آتش کرنا بھی ایک عام رواج تھا۔ حضرت محمدﷺ نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ آگ سے جلانے کی سزا دے۔8
اسلامی تعلیمات اپنے پیروکاروں کو دورانِ جنگ اور اس کے بعد کسی حالت میں بھی لوٹ مار یا غارت گری کرنےکی اجازت نہیں دیتی ہیں۔ مال ِغنیمت (جنگ کے نتیجے میں دشمن افواج اور حکومتی خزانےسے حاصل ہونے والا مال) کے حصول کے قوانین کا اسلامی فقہ کی کتابوں میں جامع تذکرہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھاگنے والے دشمن کا جو سامان پیچھے رہ جائے اسے ریاست کے رہنما یا فوج کے صاحب اختیار رہنما کے سامنے لانا ضروری ہے جواسلامی قوانین کے مطابق اسے تقسیم کرنے کا پابند ہے۔ عمومی طور پر مسلمانوں کو دشمن کی ایک بکری تک پکڑنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ حضورﷺنے لوٹ مار اور تخت و تاراج کے تصور سے نفرت کا اظہار فرمایا۔ ایک موقع پرآپﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان النھبة ليست بأحل من الميتة.9
لوٹ مار کرنا مردارگوشت کھانے کی طرح ہے۔
دوران جنگ مسلم لشکروں کو دشمنوں کے گھر وں میں داخل ہونے، یا ان کی خواتین، بچوں، بوڑھوں اور پُر امن عام شہریوں کو چھونے یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی سختی سے ممانعت تھی۔ حتی کہ مسلمانوں کو بغیر اجازت دشمنوں کے درختوں کا پھل کھانے کی بھی سختی سے ممانعت تھی۔اس سلسلے میں اگر کوئی مسلمان سپاہی یا اہلِ لشکر میں سے کوئی فرد خلاف ورزی کرتا تو سزا کا مستحق ٹھہرایا جاتا یا اس کی سخت سرزنش کی جاتی تھی۔10
حضورﷺنے اپنے اصحاب اور پیروکاروں کودورانِ جنگ یا بعد میں دشمن کی لاشوں کو مسخ کرنے سے منع فرمایاتھا جبکہ قدیم تہذیبوں میں یہ عام رواج تھا کہ وہ اپنے دشمن کی لاشوں کو مسخ کردیتے تھے۔ اس مکروہ عمل کو وہ اپنے غصے کے اظہار کا ذریعہ اوردشمن سے انتقام کی ایک شکل تصورکرتے تھے۔ اسلام نے ان طریقوں کو مکمل ممنوع قرار دے دیا۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن یزید فرماتے ہیں:
نھى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم عن النھبى والمثلة.11
نبی اکرم ﷺنے لوٹ مار کرنے اور مثلہ کرنے (لاش کے ناک ،کان وغیرہ کاٹنے)سے منع فرمایا۔
کیونکہ مسلمان اپنی ذاتی نفرت و عداوت کے لیے کسی قوم سے جہاد و قتال نہیں کرتا بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کی خاطر ہی وہ زندگی ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ و جہاد میں اترتا ہے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو جنگی قیدیوں کو قتل کرنے ، ان پر تشدد کرنے اور بد سلوکی کرنے سے منع کرتا ہے۔ اس کے برعکس یہ اپنے ماننے والوں کو قیدیوں کے ساتھ احسان (ہمدردی) کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مزید یہ کہ اسلام ایسےمخصوص رہنما خطوط فراہم کرتا ہے جن کے ذریعے قیدیوں کو رہا کیا جاسکتا ہے یا پھر ان کا تبادلہ عمل میں لایاجاسکتا ہے۔ حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں نے اپنے جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ جس سے متاثر ہوکر کثیر قیدی مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔
قدیم تہذیبوں اور انسانی معاشروں میں سفارت کاروں کو قتل کرنے یا قید کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ اسلام نے پہلی مرتبہ جنگ میں سفارتکاروں کے قتل پر مکمل پابندی عائد کی اور ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ رکھنےاور ان کےحقوق کا احترام کرنے کی تعلیم دی تھی۔ یہاں تک کہ جب اسلام کے بدترین دشمنوں کے سفارت کار آئے تو ان کا بھی احترام کیا گیا اور ان میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کیا گیا۔ ایک موقع پر جب نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب لعنت اللہ علیہ نے جب اپنے سفارتکار کو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی بارگاہ اقدس بھیجا تواس کےتمام برے افعال اور گھٹیا باتوں کے باوجود حضورﷺنے تحمل کا مظاہرہ فرماکر اسے قتل نہیں کیا اورفرمایاکہ تم سفارتکار ہونے کی وجہ سے محفوظ ہو۔12
اسلام کبھی بھی اپنے پیروکاروں کو کسی بھی معاملے میں وعدہ یا معاہدہ توڑنے یا اس کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن پاک وعدوں کی تکمیل کا سختی سے حکم دیتا13 اور اپنے ماننے والوں کو اپنے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے اخلاص کا پابند کرتا ہے۔ حضورﷺ نے عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف نفرت کا اظہار فرمایا اور اسے منافقت کی علامت گردانا۔14ایک موقع پر حضرت امیر معاویہ نے معاہدہ کی تکمیل کے فوراً بعد ہی رومن سلطنت پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی جنگ کی تیاریاں شروع کردی۔ نبی اکرم ﷺکے ایک صحابی نے آپ کو روک دیا اور بتایا کہ حضورﷺنے معاہدے توڑنے سے منع کیا تھا۔ حدیث میں درج ہے:
من كان بينه وبين قوم عهد، فلا يحلن عقدة ولا يشدها حتى ينقضي أمدها، أو ينبذ إليھم على سواء.15
اگر کسی کا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو تو اسے چاہیے کہ اس کی گرہ نہ کھولے اور نہ ہی اسے سخت رکھے یہاں تک کہ معاہدے کی مدت پوری ہو جائے یا وہ خود اس معاہدے سے نکل جائیں۔
تمام تہذیبوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ جب بھی ان کی فوج کسی مہم کے لیے روانہ ہوتی تھی تو اپنے سفر کے دوران انتشار، انارکی اور لاقانونیت اور دہشت کی فضا قائم کرتے تھے جس میں عام لوگوں سے لوٹ مار اور مقبوضہ علاقے کو تخت و تاراج کرنا شامل تھا۔ ایک بار جب نبی اکرمﷺکی بارگاہ میں ایسی شکایت موصول ہوئی تو آپﷺنے ان لوگوں کو یہ فرماتے ہوئے سرزنش فرمائی کہ اگر کوئی اس طرح کی حرکتوں میں ملوث ہے تو پھر اس کے لیے کوئی جہاد نہیں ہے۔16
یہ اعلان تمام مسلم سپاہیوں کے لیے قیامت تک ایک واضح پیغام ہے کہ انہیں جنگ میں دوران سفرایک عام آدمی کو لوٹنے، سڑکیں اور راستے بند کرنے، رکاوٹیں پید اکرنےاور غیر ضروری انتشار اور خوف و ہراس پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ آپ ﷺنے مسلمانوں کو کسی بھی انسان حتی کہ کسی جانور کو بھی پریشان کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس کی عمدہ مثال فتح مکّہ کا واقعہ ہے۔دس ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک مضبوط مسلمان فوج مکّہ مکّرمہ کو فتح کرنے کے لیے سفر کر رہی تھی ۔راستے میں ایک مقام پر ایک کتیا اور اس کے بچے موجود تھے ۔ حضور اکرم ﷺنے کتیا اور اس کے بچوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے اپنے ایک صحابی حضرت جمیل بن سراقہ کو حکم دیا کہ جب تک تمام فوج گزر نہ جائے تب تک وہ ان کے لیے محافظ بن کر کھڑے رہیں تاکہ کہیں فوج انہیں اپنے پیروں تلے نہ روند ڈالے۔17
جنگ اور اس سے متعلقہ امور کے بارے میں دیے گئے تمام قوانین پر نہ صرف حضورﷺکی حیات طیبہ میں عمل کیا گیا بلکہ بعد میں خلافت راشدہ کے تمام خلفاء نے بھی اس کی سختی سے پیروی کی۔اس کا اندازہ حضرت ابوبکر صدیق کی ان ہدایات سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے حضرت اسامہ بن زید کی زیرِ کمان ایک مہم بھیجتے وقت دی تھیں۔اس موقع پرانہوں نے فرمایا:
يا أيھا الناس، قفوا أوصیكم بعشر فاحفظوها عني: لا تخونوا ولا تغلوا، ولا تغدروا ولا تمثلوا، ولا تقتلوا طفلا صغيرا، ولا شيخا كبيرا ولا امرأة، ولا تعقروا نخلا ولا تحرقوه، ولا تقطعوا شجرة مثمرة، ولا تذبحوا شاة ولا بقرة ولا بعيرا إلا لمأكلة، وسوف تمرون بأقوام قد فرغوا أنفسهم في الصوامع، فدعوهم.18
اے لوگو! میں تمہیں میدانِ جنگ میں دس قوانین پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہوں انہیں اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔نہ ہی خیانت اورغداری کرو اور نہ ہی غلو اور زیادتی کرو۔ نہ ہی لاشوں كا مثلہ کرو۔بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو۔درختوں کو نقصان نہ پہنچاؤ اور نہ ہی انہیں نذرِ آتش کرو بالخصوص پھل داردرختوں کو۔دشمن کے جانوروں کو قتل اور ذبح نہ کرو۔عنقریب تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے خود کو عبادت گاہوں کے لیے وقف کر رکھا ہو گا اور راہبانہ روش اختیار کر رکھی ہو گی ان سے احتراز کرنا۔
حضرت ابو بکرصدیق کی یہ وضاحت اور اسلامی عسکری نظام کی مذكوره تفصیلات دوسری قدیم تہذیبوں اور اسلامی تہذیب کے درمیان جنگی و عسکری روئیے اور نقطۂ نظرکے فرق کو واضح کرتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ تفصیلات جہاد اوراللہ کی راہ میں بھر پور انداز سے جدوجہد کرنے کے اس تصور کی بھی وضاحت کرتی ہیں جو انسانیت کو امن وانصاف كے قيام اور ظلم و ستم كے اختتام کے لیے عسکری ذرائع استعمال کرنے اور اللہ کے راستے میں حتی الامکان کوشش کرنے کی تحریک و ترغيب دیتا ہے۔
مسلم جرنیل، خاص طور پر جن کا تعلق حضورﷺیا خلافت راشدہ کے زریں عہد سے تھا ، دوران جنگ اپنی بہادری، غیر معمولی جنگی حکمت عملی اور رحم دلی اور حسن ِ سلوک کے لیے معروف تھے۔ وہ اپنی عسکری مہمات کے دوران جنگ کے مذکورہ اصولوں پر سختی سے عمل پیرا رہتےتھے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی تاریخ میں اس طرز عمل کی وجہ سے انہیں بڑی شہرت اور پذیرائی ملی۔ ان جرنیلوں کی فہرست بہت طویل ہے تاہم ان میں سے کچھ افراد کا ذکر ذیل میں كیا گیا ہے۔
حضرت خالد بن ولید کو ان کے لقب سیف اللہ (اللہ کی تلوار) سے بھی جانا جاتا ہے۔19آپ ساتویں صدی کی مسلم فتوحات کے دوران مسلمانوں کی مسلح افواج کی قیادت کرنے والے مشہور ترین عرب جرنیلوں میں سے ایک تھے اور اپنی عسکری کامیابیوں اور فتوحات کے لیے مشہور تھے۔ آپ نے حضورﷺکے زمانے اور اس کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بن الخطاب کے ادوار میں مسلم افواج کی قیادت کی۔ آپ نے 100سے زائد معرکوں میں حصہ لیا20 لیکن ہمیشہ ناقابل شکست رہےحالانکہ ان میں سے زیادہ تر جنگیں ایسے دشمنوں کے خلاف لڑی گئیں تھیں جو تعداد میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ تھے۔ ان میں اس وقت کی عظیم عالمی عسکری طاقتوں یعنی بازنطینی سلطنت(Byzantine Empire) اور ساسانی سلطنت(Sassanid Empire) کی فوجیں بھی شامل تھیں ۔
آپ کی بڑی کامیابیوں میں جنگ موتہ ( جس میں 3000کی مسلم فوج نے ایک بہت بڑی رومی فوج کا مقابلہ کیا)، جنگ یمامہ(جس میں مسیلمہ کذاب لعنت اللہ علیہ کا قلع قمع کیا گیا)،جنگ یرموک(جہاں رومیوں کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا گیا) اور جنگ اُلیس( جس میں آتش پرست ایرانی فوج کو تباہ کیا گیا) شامل ہیں۔حضرت خالد بن ولید کو دنیا کے بہترین آرمی جنرل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔تاہم انتہائی خون ریز جنگوں میں اپنی ہمت و بہادری کے جوہر دکھانے کے باوجود آپ میدان جنگ میں شہید نہیں ہوئے بلکہ طبعی و فطری موت سے ہمکنارہوئے۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح حضورﷺکے عظیم ترین صحابہ میں سے ایک تھے۔آپ کا شمار عشرۂمبشرہ یعنی ان دس صحابہ میں ہوتا ہے جنہیں رسول ِ اکرم ﷺنے زندگی میں ہی جنت کی بشارت عطا فرمائی تھی۔21 وہ خلافت راشدہ کے ایک بہت بڑے علاقے کے منتظم رہے اور خلیفۂ ثانی حضرت عمر آپ کو اپنا جانشین اور منصب خلافت کےلیے اہل ترین شخص سمجھتے تھے۔ 624ء میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح معرکۂ بدر میں شریک ہوئے جو مسلم تاریخ کی پہلی اور مشہور جنگ تھی۔ اس جنگ میں لڑتے ہوئے انہوں نے اپنے والد کو دشمن کی صفوں میں شامل دیکھا۔ انہوں نے اپنے والد کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن ایک ایسا موقع آ ہی گیا جب وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنےآ کھڑے ہوئے۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے پاس اپنی جان اور ایمان کے دفاع کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے پر وار کیے اور بالآخر آپ کے والد اپنے بیٹے کے پاؤں میں گر پڑے۔
625ء میں انہوں نے جنگ احد میں بھی حصہ لیا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے قریش کے حملوں سے حضورﷺ کی حفاظت کی۔22 بعدکے ادوار میں انہوں نے آپﷺکے ساتھ مل کر تمام جنگوں میں خدمات انجام دیں۔ آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور حکومت میں لڑی جانے والی جنگوں میں مسلم افواج کے سپہ سالار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں انہوں نے ایک بہت بڑا خطبہ دیا جوایک مسلمان کمانڈر کے کردار کو ظاہر کرتا اور دوسری قدیم تہذیبوں کے سپہ سالاروں سے ممتاز کرتا ہے۔ انہوں نے فرمایا:
میں تمہیں کچھ نصیحت کرنا چاہتا ہوں جس پر عمل پیرا ہو کر تم ہمیشہ نیکی کے راستے پر چل پاؤ گے۔ نماز قائم کرنا، رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا، زکوۃ اور صدقات دیتے رہنا، حج اور عمرہ کرتے رہنا، متحد رہنا اور ایک دوسرے کا ساتھ دینا۔ اپنے سپہ سالاروں کے ساتھ مخلص رہنا اور ان سے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھنا۔ دنیا تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کرنے پائے اگر انسان کو ایک ہزار برس کی زندگی بھی مل جائے تو پھر بھی وہ اس حالت کے ساتھ ختم ہوجائے گا جس میں تم مجھے دیکھتے ہو۔تم پر سلامتی اور خدا کی رحمت ہو۔23آپ طاعون کے وبائی مرض میں وفات پاگئے اور جابیہ کے مقام پر دفن کیے گئے تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص نبی اکرم ﷺکے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے 17 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا ۔آپ کا شمار ابتدائی مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ وہ خاص طور پر جنگ قادسیہ اور 636ء میں فارس کی فتوحات میں اسلامی افواج کی کمان کے حوالےسے جانے جاتے ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے جنگ بدر کے موقع پراسلام کی راہ میں سب سےپہلا تیر چلایا تھا۔24 جنگ احد میں آپ نبی اکرمﷺکے محافظوں میں شامل تھے۔ آپ نے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اورحضرت عثمان کے دور میں مختلف فرائض انجام دئیےتھے۔ آپ کا 80 سال کی عمر میں حضرت امیر معاویہ کے دور میں انتقال ہوا۔
حضرت عمرو بن العاص مسلم تاریخ کے ایک نامورمسلمان جنرل اور ایک سمجھدار سیاست دان تھے جنہیں کوئی بھی مورخ نظرانداز نہیں کرسکتا۔ آپ نے صلح حدیبیہ کے بعدحضرت خالد بن ولید کے ساتھ اسلام قبول کیا اور اس کے بعد رسول اللہﷺکے مشن کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ وہ اجنادین اور یرموک کی جنگوں کے ساتھ ساتھ دمشق کے محاصرے میں بھی نمایاں رہے۔ نبی اکرمﷺ کی طرف سےانہیں خوشخبری سنائی گئی تھی کہ وہ مصر کو فتح کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ حضورﷺنے فرمایا:
ستفتحون مصر وهي أرض يسمى فيھا القيراط، فاستوصوا بأهلها خيرًا، فإن لهم ذمة ورحمًا .25
تم جلد ہی مصر کو فتح کرلو گے جہاں قیراط کا ذکر کیا جاتا ہے۔ لہذا جب تم اسے فتح کرلو تو اس کے باسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
انہوں نے اپنی زندگی کے آخری مرحلے تک اسلام کی سربلندی کے لیے متعدد جنگوں میں حصہ لیا۔ آپ حضرت امیرمعاویہ کے دور میں مصر کے گورنر رہے۔
اسلام کی راہ میں لڑی جانے والی جنگوں کو غزوہ (جمع غزوات ) یا پھر سریا (جمع سرایا)کہا جاتا ہے۔ دونوں الفاظ جنگ سے متعلق ہیں لیکن ایک دوسرے سے تھوڑے مختلف ہیں ۔ایسی عسکری مہم جس میں نبی اکرمﷺ نے بذاتِ خود شرکت کی تھی غزوہ کہلاتی ہے۔ جبکہ ایسی عسکری مہم جو آپﷺ کے حکم پر روانہ کی گئی تاہم آپ ﷺنے بذاتِ خود اس میں شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی صحابی کو سپاہ سالار یا امیر مقرر فرمایا سریا کہلاتی ہے۔بخاری و مسلم کے مطابق نبی اکرمﷺ نے 19 غزوات میں شرکت فرمائی تھی2627تاہم ابن ِسعد نے طبقات میں غزوات کی تعداد 27 یا 28 بتائی ہے جن میں سے 9 میں حضورﷺ نے بذاتِ خود حصہ لیا جبکہ آپﷺ کی حیات ِطیبہ میں کئی سرایا ہوئے ۔ 28 ان اعداد و شمار میں تاریخ دانوں کے یہاں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کے کچھ لوگوں نے ایک سفر کو ایک ہی غزوہ قرار دیا جبکہ کچھ نے اس سفر کے دوران پیش آنے والی جھڑپوں اور لڑائیوں کو الگ الگ غزوہ تصور کیا ہے۔ مثلاً غزوۂ ودّان اور غزوۂ بواط ایک ہی سفر کے دوران پیش آئے تھے 29کچھ سیرت نگاروں اور تاریخ دانوں نے انہیں ایک ہی غزوہ قرار دیا جبکہ کچھ نے دو الگ الگ غزوات ۔ اسی طرح کئی سیرت نگار فتح ِ مکّہ کو غزوہ نہیں قرار دیتے کیوں کہ اس دوران کو ئی باقاعدہ جنگ نہیں ہوئی تاہم بعض دیگر محققین نے اسے بھی غزوہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لشکر کے ایک حصہ پر حملہ کے نتیجے میں کفارِ مکّہ کے ساتھ حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں جھڑپ بھی ہوئی تھی۔
ذیل میں سبل الھدیٰ والرشاد میں مذکور غزوات کی فہرست دی گئی ہے۔تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں یہی فہرست معمولی ردو بدل کے ساتھ مذکور ہے:
(1) غزوہ دوّان (الابواء) (2) غزوہ بواط (3) غزوہ سفوان(4) غزوہ العشیرہ (5) غزوہ بدر (6) غزوہ بنی سلیم بالکدر (7) غزوہ السّویق (8) غزوہ غطفان (9) غزوہ الفرع (10) غزوہ بنی قینقاع (11) غزوہ احد (12) غزوہ حمراء الاسد(13) غزوہ بنی النضیر (4) غزوہ بدر الموعد (15) غزوہ دومۃ الجندل(16) غزوہ بنی المصطلق (17) غزوہ الخندق (18) غزوہ بنی قریظہ(19) غزوہ بنی لحیان (20) غزوہ الحدیبیہ (21) غزوہ ذی قرد(22) غزوہ خیبر(23) غزوہ ذات الرقاع (24) غزوہ عمرۃ القضاء(25) غزوہ فتح المکّہ (26) غزوہ حنین (27) غزوہ الطائف(28) غزوہ تبوک۔30
ان 28غزوات میں سےصرف 9 میں جنگ لڑی گئی۔ان میں غزوہِ بدر، غزوہ احد، غزوہِ بنی مصطلق، غزوہِ خندق، غزوہِ بنو قریظہ، غزوہِ خیبر، غزوہِ فتح المکّہ، غزوہِ حنین اور غزوہِ طائف شامل ہیں۔31
غزوات کے بر خلاف تاریخ کی کتب میں سرایا کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے تاہم ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ابن سعد نے طبقات الکبری ٰ میں ان کی تعداد 47 بتائی ہے تاہم دیگر محققین نے مزید سرایا کا تذکرہ بھی کیا ہے یوں ان کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ذیل میں ان سرایاکی ایک فہرست دی گئی ہےجس میں کُتبِ تاریخ میں مذکور تقریباً تمام سرایا کا احاطہ ہوجاتا ہے:
(1) سریہ حمزہ بن ابو طالب (2) سریہ عبیداللہ بن حارث(3) سریہ الکرار (4) سریہ نخلہ (5) سریہ ِ اسماء بنت مروان (6) سریہ ابو عفک(7) سریہ کعب بن اشرف (8) سریہ القردہ(9) سریہ القطان (10) سریہ عبداللہ بن اُنیس(11) سریہ الراجی (12) سریہ بئر ِ معونہ (13) سریہ المو ریسی (14) سریہ محمد بن مسلمہ(15) سریہ ذو قرض (16) سریہ عکاشہ بن محصن(17) سریہ بنو ثلابہ اول (18) سریہ بنو ثلابہ ثانی(19) سریہ زید بن الحارثہ (الجمم) (20) سریہ زید بن الحارثہ (العیص) (21) سریہ بنو ثلابہ ثالث (22) سریہ زید بن الحارثہ (حسمی) (23) سریہ زید بن الحارثہ (وادی القریٰ) (24) سریہ فدک(25) سریہ عبدالرحمن بن عوف (26) سریہ وادی القریٰ(27) سریہ قُرض بن جابر الفہری (28) سریہ عبداللہ بن رواحہ(29) سریہ عمر بن خطاب (30) سریہ ابو بکر صدیق(31) سریہ بشیر بن سعد الانصاری (فدک) (32) سریہ غالب بن عبداللہ اللیثی(میفعہ)(33) سریہ بشیر بن سعد الانصاری (یمن) (34) سریہ ابن ابی العوجاء السلیمانی(35) سریہ غالب بن عبداللہ اللیثی (فدک) (36) سریہ غالب بن عبداللہ اللیثی (الکدید)(37) سریہ شجاع بن وہاب الاسدی (38) سریہ کعب بن عمیر الغفاری (39) جنگِ موتہ (40) سریہ عمر بن العاص(41) سریہ ابو عبیدہ بن جراح (42) سریہ حدرد الاسلمی(43) سریہ ابو قتادہ بن ربیع الانصاری (نجد) (44) سریہ ابو قتادہ بن ربیع الانصاری (اضم )(45) سریہ خالد بن ولید (نخلہ) (46) سریہ عمرو بن العاص(47) سریہ سعد بن زید الاشہلی (48) سریہ خالد بن ولید (بنو جزیمہ)(49) سریہ طفیل بن عمر الدوسی (50) سریہ ابو عامر الاشعری(51) سریہ ابو موسیٰ الاشعری (52) سریہ عیینہ بن حصن(53) سریہ قطبہ بن عامر (54) سریہ ضحاک الکلابی(55) سریہ علقمہ بن مجاز (56) سریہ علی ابن ابو طالب(الفلس)(57) سریہ عکاشہ بن محصن (عذرہ) (58) سریہ خالد بن ولید (دومۃ الجندل)(59) سریہ ابو سفیان بن حرب (60) مسجدِ ضرار منہدم کرنے کی مہم (61) سریہ خالد بن ولید (دومۃ الجندل دوئم ) (62) سریہ سراد بن عبداللہ(63) سریہ خالد بن ولید (نجران) (64) سریہ علی بن ابو طالب(مدہج )(65) سریہ علی بن ابو طالب (ہمدان) (66) سریہ ذوالخلصہ(67) سریہ اسامہ بن زید
اسلام کی عسکری تعلیمات بھی زندگی کے دیگر پہلوؤں سے متعلق تعلیمات کی طرح صرف ایک ہی نظریہ پر مرکوز ہیں یعنی اللہ کی مرضی کے تابع ہوکر آزادی ، امن اور انصاف کا قیام جو دنیا کے کسی اور عسکری نظام میں نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی عسکری نظاموں کا مقصد عموماً وسائل و ذرائع پر قبضےیا ذاتی، وطنی اور قومی جھگڑوں اور انتقام کے مقاصد کے حصول کےلیےدوسروں کی زمینوں پر بزورِ طاقت قبضہ کرنا رہا ہے۔ اس میں تعجب کی بات نہیں کہ بہت سارے لوگوں نے اسلام کی شاندار عسکری تعلیمات بالخصوص انسانیت کی خیر خواہی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں جاننے کے بعد اسلام ہی کو واحد انسانیت دوست دین کے طور پر قبول کر لیا۔ چونکہ دوسری تہذیبوں کا عسکری نظام زیادہ تر خونریزی ، قتل و غارت گری، تخت و تاراج ،وحشت و بربریت ،تباہی و بربادی اور نسل کشی وغیرہ پر مشتمل تھا جبکہ ا س کے بر خلاف اسلام کے فوجی نظام نے جنگی قیدیوں اور سفارت کاروں کے ساتھ سلوک سے متعلق بھی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات دی ہیں۔یہ وہ امور ہیں جو آج بھی عسکری ماہرین، فوجی قیادت، عسکری پالیسی ساز اداروں کے قائدین اور عام اہل علم و دانش کے لیے حیران کن، انوکھے اور اجنبی ہیں۔اسلام کی نشر و اشاعت میں مسلمان مجاہدین کا قرآن و سنت کی انسان دوست تعلیمات کا بڑا کردار رہا ہے۔ مسلمان فوج نے قوت، طاقت، مسلمہ افرادی قوت او بڑی فوج کی موجودگی کے باوجود جہاد و قتال کو آخری انتخاب (option) کے طور پر استعمال کیا ہےاسی لیے خلفائے راشدین کے دور میں کئی غیر مسلم علاقوں میں تواہل علاقہ نے خود آگے بڑھ کر مسلمانوں کو خوش آمدید کہا اور شہر ان کے سپرد کر دیا۔اسلام جہاں بھی گیا ظلم و ستم اور طاغوتی نظام کو ختم کر کے امن و امان اور عدل و انصاف کا بول بالا کرتا گیا۔