دنیا کی قدیم تہذیبوں میں معاشرتی و مذہبی قوانین ہماری طرح کے انسانوں نے خود بنائے تھے اور یہ قانون سازاکثر ایسےافراد تھے جو غیر اخلاقی اور ننگ ِ انسانیت جیسے افعال میں ملوث ہونے کے باوجود خود کو خداکی طرف سے نامزد الوہی خصوصیات کا حامل سمجھتے تھے۔حقیقت یہ تھی کہ یہ خود ساختہ خدائی نامزدگی کے دعویدار بہت سی بشری کمزوریوں اور خامیوں کا شکارتھے ۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے قانون سازی کی طاقت کو اپنی نفسانی خواہشات اور مفادات کو مد نظر رکھ کر استعمال کیا اور صرف اپنی جماعت یا طبقہ کو ہی فائدہ پہنچایا۔ روم ، یونان،مصر اور ہندوستان وغیرہ کے قانونی نظام کی تاریخ میں بارہا اس امرکا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔ یوں اس طرح کی جانب داری اور تعصب کے نتیجے میں حکمران طبقے اور اعلیٰ حکام کو خصوصی مراعات حاصل رہیں اور عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا۔
اس کے برعکس اسلامی قانون کے مطابق حقیقی بادشاہت ، حاکمیت ِ اعلیٰ اورخودمختاری پر صرف اللہ تعالی کی ذات قادر ہے لیکن اس کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ اسلامی ریاست کے تمام قوانین خود خدا نے بنائے ہیں اور انسانوں کاان امور میں شامل ہونا منع ہے بلکہ کچھ اسلامی قوانین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محتشمﷺ نے باذن اللہ عطا فرمائے اور بقیہ قوانین کے لیے اصول فراہم کیے ہیں جن کو اہل علم اور مجتہدین نے قرآن و سنت کی روشنی میں منضبط کیاہے۔ یوں ایک اسلامی ریاست میں عمرانی ضرورت کے تحت اہل علم کو قانون سازی کا جزوی اور محدود حق دیا گیا مگر اس کے باوجود کسی بھی حکمران کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے جو شریعت کی روح کے منافی ہو ۔ اس لحاظ سے جن لوگوں نے بھی اسلامی تاریخ میں قانون سازی کی وہ قانون ساز نہیں تھے اور نہ ہی وہ قانون سے بالاتر تھے۔ وہ صرف قانون کونافذ کرنے والے تھے اور قانون کی نظر میں وہ بھی عام شہریوں کے ساتھ ایک ہی صف میں برابر کھڑے تھے۔اسلام نے نہ صرف ادب و احترام اور حفظان صحت، شادی اور طلاق، دعاؤں اورعبادات، بچوں، غلاموں اور جانوروں کے ساتھ سلوک بلکہ تجارت اور سیاست، معیشت، معاشرت، سود اور قرضوں، معاہدوں اور وصیتوں، صنعت و مالیہ، جرم اور سزا،جنگ اور امن اور اعلی روحانی اور اخلاقی کاوشوں کے لیے بھی اصول وقوانین وضع کیے۔1
اسلامی قانونی نظام کا نمو و ارتقاء ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ نما عرب اور میسوپوٹیمیا (Mesopotamia) کے علاقے میں ہوا اور وقت کےساتھ یہ ہسپانیہ(Spain) سے وسطی ایشیا، افریقہ اور پھر وسیع خطۂ ارضی تک قانون بن گیا۔2
اسلام میں قوانین و احکام دینے والی ذات صرف قادر مطلق رب العٰلمین کی ہے3 جو خالق کائنات اور ہر وجود کو قائم رکھنے اور پرورش فرمانے والا ،4 انسان کو عقل و دانش کی معراج دینے5 اور سیدھے و سچے راستے پر چلانے والے پاک نفوس انبیائے کرام کومبعوث فرمانے والا ہے۔6 انسان اپنی مادی کثافت اور محدودیتوں کےسبب اللہ تعالی سے براہ راست فیض اور احکام وصول نہیں کرسکتا تھا، اسی لیے رب العٰلمین نے انسانوں کے مابین اپنے انبیاء و رسلبھیجےاور انہیں فرشتوں کے واسطے سے یا بلا واسطہ براہ راست احکامات وصول کرنے کی استعداد عطا فرمائی۔7
اللہ تعا لی کی ذات چونکہ انسانی ضروریات و حوائج سے پاک ہے اس لیے اس کا کوئی بھی قانون انسانوں میں سے کسی مخصوص گروہ کی حمایت یا مخالفت پر مبنی نہیں ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات چونکہ مرد و زن کی تفریق سے پاک اور رنگ و نسل کے اختلافات سے بلند ہےاس لیے اس کے عطا کردہ قانون کی سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ اس میں کسی انسانی گروہ کی حق تلفی یا اس کے خلاف معاندانہ رویہ موجود نہیں ہے جیسا کہ تاریخ ِ دنیا نے دیگر تمام تہذیبوں میں عورت، بچوں اور بوڑھوں کے حقوق کے استحصال یا غریبوں، مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ ظلم و جبر کی صورت میں دیکھا ہے۔
اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک اور ابدی ہے تاہم انسانوں کےخیالات اور دیگر چیزوں میں مستقل ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔ اللہ اپنے حکم کو تبدیل نہیں کرتا لیکن وہ انسانوں سے صرف ان ہی امور کا مطالبہ کرتا ہے جو ان کی انفرادی صلاحیتوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون سازی کی بعض جزئیات میں اختلاف ضرور پایا جاتا ہے مگرہر فقیہ اور قانون ساز اپنی تعلیمات اور ان کی تفصیلات کا تعلق وحئ الٰہی سے ہی جوڑتا ہے اور ساتھ ہی جغرافیائی و علاقائی اثرات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے معمولی اختلاف بھی رکھتا ہےمگر سب کے نزدیک اصول و اساس وہی ہیں جو وحی یعنی قرآن و سنت کی صورت میں امت مسلمہ اور کل انسانیت کو عطا کیے گئے ہیں۔
اسلامی قانون حضرت محمدﷺ کے ذریعہ انسانیت تک پہنچایا گیا ہے۔ قرآن پاک اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ قانون نبی آخرالزمان حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا ہے۔ مزیدبراں یہ بھی واضح بیان کیا گیا ہے کہ حضورﷺنے اللہ کے قانون کومِن و عَن اسی طرح انسانیت تک پہنچایا جس طرح ان پر نازل کیا گیا تھا 8 لہٰذا یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلامی قانون، ذہنِ بشر کی تخلیق نہیں بلکہ اللہ کی جانب سے نازل کردہ ہے۔
عملی طور پر دین اسلام میں سختی و جبرنہیں بلکہ ممکنہ حد تک لچک موجودہے تاکہ انسان دائرۂ اسلام میں رہتے ہوئے خود کو حالات اور ضروریات کے مطابق ڈھال سکے۔ یہاں تک کہ وہ قوانین جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل کیے گئے یا جن کا حکم رسول اللہﷺ نے دیاہے، ان کی ادائیگی میں حکم مختلف ہیں۔ ان میں سے کچھ فرائض واجبات ہیں جبکہ کچھ صرف ترغیب کے طور پر بتائے گئے ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ مرور زمانہ کی وجہ سے بعض احکامات کی تشریحات میں جغرافیائی، سماجی اور ازمنہ کی تبدیلی کی وجہ سے اختلاف رائے یا تبدیلی واقع ہوسکتی ہے تو اس کے لیے بھی اسلامی قانون میں گنجائش رکھی گئی ہے جس کی بہترین مثال اس حدیث میں ہے کہ:
أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لما أراد أن يبعث معاذا إلى اليمن قال: كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: أقضي بكتاب اللّٰه، قال: فإن لم تجد في كتاب اللّٰه؟، قال: فبسنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ولا في كتاب اللّٰه؟قال: أجتھد رأيي، ولا آلو فضرب رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم صدره، وقال: الحمد للّٰه الذي وفق رسول، رسول اللّٰه لما يرضي رسول اللّٰه.9
رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کی طرف (قاضی بنا )کر بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو فرمایا: تم کیسے فیصلہ کروگےجب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہوگا؟ تو انہوں نے عرض کی : میں کتاب اللہ کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ تو آپﷺ نے فرمایا: اگر تم نے کتاب اللہ میں حکم نہ پایا تو ؟ عرض کی: پھر رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپﷺ نے فرمایا: اگر تم نے رسول اللہ ﷺ کی سنت میں اس کا حکم نہ پایا اور نہ ہی کتاب اللہ میں تو؟ انہوں نے عرض کی: میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور میں ذرا کوتاہی نہ کروں گا۔ تو رسول اللہﷺ نے ( اظہار مسرت کے لیے) ان کے سینے پر ہاتھ مارااور فرمایا: سب تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے رسول اللہﷺ کے رسول(قاصد) کو یہ توفیق عطا فرمائی ہے جو رسول اللہﷺ کے لیے باعث رضا و خوشی ہے۔10
کسی نئے مسئلہ کے بارے میں قانون سازی کرتے ہوئے ، کسی مقدس متن کی تشریح و تاویل میں یا اسلامی قانون کی ترقی ونمو کے کسی بھی معاملے میں جب اتفاق رائے (اجماع)کی بنیاد پر کسی مسئلہ کو اخذ کیا جاتا ہے تو بھی ہمیشہ یہ امکان موجود رہتا ہے کہ اسے بعد میں اسی عمل کو استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے اصول اور قانون سے تبدیل کیا جا سکے۔ یہ عمل فقہائے کرام سرانجام دیتے ہیں اور اس میں کسی ایک شخص کی رائے سے کسی دوسرےفرد کی رائے کو اور کسی اجماع سے دوسرے اجماع کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔یہ قاعدہ و قانون صرف فقہاء کی رائےیعنی اجتہاد کے حوالے سے ہےاس کا اطلاق قرآن یا سنت رسول ﷺپر نہیں ہوتاکیونکہ اللہ تعالی کا حکم صرف خوداللہ تعالی ہی منسوخ کرسکتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔اسی طرح نبی ﷺکا حکم صرف اللہ تعالی یا خود نبی اکرمﷺ منسوخ فرماسکتے تھےکوئی کم درجہ کا مصدر، قانون شریعت ،فقہ، ذریعۂ قانون ، فقیہ ، پارلیمنٹ ،امام، سلطان، خلیفہ یا حکمران وقت منسوخ نہیں کر سکتا۔ 11
اسلام میں قانون کے چار بنیادی مصادر ہیں12 جن میں سے ابتدائی تین بالترتیب اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک فرع کی۔ اصل میں قرآن وسنت و اجماع شامل ہیں اور فرع میں قیاسں۔13 قرآن شریعت اسلامی کا اصل مصدر ہے اور تمام انسانیت کی ہدایت کے لیے وہ کتاب ہے جو نبی کریم ﷺ پر نازل کی گئی، مصحف پر لکھی گئی اور نقلِ متواتر کے ذریعے ہم تک پہنچی۔14قرآن کے بعد دوسرا اہم شریعت کا مأخذ سنت ہے اور سنت سے مراد وہ قول، فعل اور تقریرہے جس کا اتصال حضور ﷺ سے ثابت ہو۔15 تیسرا مصدر اجماع ہے اور اس سے مراد ایک دور کے تمام مجتہدین کا کسی ایک مسئلہ پر اتفاق کرلینا ہے۔16جب ان تین مصادر سے کسی جدید مسئلے کا حل نہ ملے تو قیاس کا سہارا لے کر مسئلے کو شریعت اسلامی کے تحت حل کیا جاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے قیاس سے مراد صحیح اندازہ لگانا ہے اور اصطلاحی طورپر ایک ہی مشترک علت کی وجہ سے اصل (قرآن و سنت) حکم سے کسی دوسرے مسئلہ کا حکم معلوم کرنا قیاس کہلاتا ہے۔ 17یعنی ایک مسئلہ جو قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت نہ ہو، اس کو ایک دوسرے مسئلہ پر جس کا حکم قرآن، سنت اور اجماع سے معلوم ہوتا ہے قیاس کرتے ہیں ۔ یعنی اصل کا حکم فرع پر بھی علت و سبب ایک ہونے کی وجہ سے جاری کرتے ہیں۔18
اسلام کا فلسفۂ قانون اس کے عقائد کے نظام کی طرح تمام مسلمانوں کو تمام اچھائیوں کی ترغیب دیتا ہے اور برائیوں سے روکنے کے لیے ترہیب کا معاملہ کرتا ہے۔ اچھائیوں میں بھی اسلام نے درجہ بندی کی ہے اور برائیوں میں بھی۔ اچھائیوں کو فرض، واجب، سنت ا ور مستحب کے درجوں میں تقسیم کیا ہے جبکہ برائیوں کو حرام، مکروہِ تحریمی اور مکروہِ تنزیہی اور اساءت میں بانٹا ہے۔ فرض سے مراد وہ معاملات ہیں جن کی پیروی کرنا ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کرنے پر وہ سزا کےمستحق ہونگے جبکہ اس کے نچلے درجے کے معاملات میں نرمی ہے۔ اسی طرح حرام سے بچنے کی تلقین ہے اور اگر کوئی شخص حرام کا ارتکاب کرے گا تو وہ بھی سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ دنیا میں یہ سزائیں حدود و تعزیر کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
جو چیزیں قطعاً بری اور نقصان دہ ہیں وہ پوری طرح سے ممنوع ہیں اور جن میں برائی کی پیش کش، ترغیب یا پیش رفت کا اندیشہ ہے وہ قابلِ مذمت ہیں اوران کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ قرآن حکیم متعدد مواقع پر کہتا ہے کہ ایک فرد کو "معروف"عمل کرنا چاہیے اور"منکر" سے پرہیز کرنا چاہیے۔19معروف کے معنی ہیں "اچھی چیز یا عمل" جسے ہر ایک اچھائی کے طور پر جانتا اور پہچانتا ہو اور عقلی و شعوری طور پر بھی اسے اچھا سمجھاجاتا ہو۔20اسی لیے اس کو کرنے کاحکم دیا جاتا ہے ۔"منکر" کے معنی ہیں ایک ایسی چیز جس کی ہر ایک مذمت کرتا ہواور جس میں اسلام کی تعلیمات کے مطابق اچھائی نہ ہو21 اور جسے ہر ایک برائی کے طور پر جانتا اورپہچانتا ہو اور عقل و شعور بھی اس کام کو برا جانتی ہواور جس عمل کو وجوہات سے براکہا گیا ہےوہ حرام ہیں۔22 ایسی تعلیمات کسی بھی اور تہذیب کے قانونی نظام میں نہیں پائی جاتی تھیں کیونکہ ان نظاموں کی بنیاد نفس پرستی اور شخصی مفاد پر تھی نہ کہ الہامی ہدایت پر۔
حضورﷺ نے یثرب کو مدینہ بنایا اور اس ریاست کے لیے ایک تحریری آئین جاری کیا۔یہ پہلے ایک شہری ریاست تھی لیکن صرف دس سال کے قلیل عرصہ میں جزیرۂ نما عرب کے پورے خطے پر پھیل چکی تھی اور عراق اور فلسطین کے جنوبی حصّے بھی اس میں شامل ہوچکے تھے۔ مزید 15سال کے بعددیکھیں تو حضرت عثمان کی خلافت کے دوران ایک طرف مسلمان لشکروں کی حیرت انگیزسرعت کے ساتھ اندلس (اسپین) تک رسائی ہو چکی تھی تو دوسری طرف چینی ترکستان میں مسلم افواج فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑھتی بڑھی جارہی تھیں۔ہسپانیہ سے ترکستان تک کا تمام علاقہ اور ممالک مسلم سلطنت کی قلمرو میں شامل ہو چکےتھے۔
اس تحریری آئین میں جو حضرت محمدﷺ نے تیار فرمایاتھا، 52 شقیں شامل تھیں۔ اس میں متعدد سوالات کے جوابات فراہم کیے گئے تھے جیسے حکمران اور عوام الناس (شہریوں)کے متعلقہ حقوق اور فرائض، قانون سازی، نظامِ انصاف کی نگرانی و تنظیم، دفاع کی تنظیم، غیر مسلم شہریوں سے سلوک، باہمی تحفظ پر مبنی معاشرتی بیمہ اور اس عہد کی دیگر ضروریات سے متعلق مسائل کا ازالہ کیا گیاتھا۔اس آئین کی تدوین 622 عیسوی یعنی ہجرت کے پہلے سال عمل میں آئی تھی۔23
اسلام نے برائی کی جڑ اور منبع کو نشانہ بنایا اور اعلان کیا کہ کوئی شخص بھی فرائض اور ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں ہے حتی کہ نبئ اکرمﷺ بھی خود ان کی پیروی و پابندی کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام ﷺاور ان کے بعد ان کے جانشینوں(خلفائے راشدین) نےاس امر کو ضروری قرار دیا کہ ریاست کے سربراہ کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ملک کی کسی بھی قسم کی عدالت کے سامنے پیش ہونے میں کسی قسم کی رکاوٹ اورہچکچاہٹ محسوس نہ کرے ۔ اسلامی روایت نے کبھی بھی کسی جرم یا غلطی کی صورت میں صاحب اقتدار لوگوں کے خلاف فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا۔اسلامی ریاست و تہذیب میں ایسی خدمات سے متعلق ادارے بھی موجود تھے جو ملک کے باشندوں کے باہمی تعلقات میں امن و امان، نگہبانی، نگرانی اور امن و سکون کی بحالی کے ذمہ دار تھے اور اگر کوئی ظلم وتشدد کا نشانہ بنتاتھاتو وہ عدالت کے سامنے شکایت کرسکتا تھا اور حفاظتی امور پر مامور اہلکار ملزمان کو قاضی کے روبروپیش کرنے کے ذمہ دارتھے۔قاضی کے فیصلے پر ہر صورت میں عملدرآمدہوتا تھا۔
معاشرے کا جو تصور پیغمبر اکرمﷺ نے اجاگر کیا اس میں ایک اور انتہائی اہم جز اس کا روحانی پہلوہے۔ انصاف کے تمام انتظامی وسائل اور اسباب و ذرائع کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام نے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں میں موت کے بعد جی اٹھنے، قیامت کے دن اور آخرت میں جزایا سزا کے تصور کوراسخ کردیا۔یوں ایک مسلمان کے ذہن میں احتساب اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں جوابدہی کا تصور ہر وقت موجود رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن اپنی ذمہ داریوں کو اس وقت بھی سرانجام دیتا ہے جب اس کے پاس کسی قانون کی پکڑ میں آئےبغیران کے خلاف ورزی کرنے کا موقع بھی موجود ہوتا ہے۔ یوں وہ تمام ترغیبات اور صاف بچ نکلنے کے مواقع کے باوجوداللہ تعالی کی ناراضگی اورآخرت کی سزا کے خوف کی وجہ سے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریزکرتا ہے۔ یہ عوامل قانون کی زیادہ سے زیادہ پابندی کو یقینی بناتے ہیں نیز حقوق اورفرائض کی ادائیگی کا احساس دلاتے ہیں ۔اسی وجہ سے اسلام کانظام ان نظاموں سے کہیں زیادہ کارآمد ہے جن میں ان میں سے صرف ایک طرح کی پابندیاں ہوتی ہیں۔24
اس سلسلے میں قرآنی قانون سازی کی ایک خصوصیت اور امتیازیہ ہے کہ اس میں مختلف مذہبی و سماجی طبقات پر مشتمل اسلامی ریاست کے شہریوں کوعدالتی خود مختاری دی جاتی ہے۔ ہر ایک پرجبراً قرآنی قانون نافذ کرنے کے بجائے اسلام ہرگروہ مثلاً عیسائی، یہودی یا دیگر مذہبی گروہوں کوخوش آمدید کہتا ہے کہ وہ اپنے ججوں کی سربراہی میں اپنی ہی عدالتوں کا انعقاد کریں تاکہ وہ اپنےقوانین کو انسانی امور کی تمام شاخوں (شہری امور اور جرائم)میں لاگو کرسکیں۔ اگر کوئی مسئلہ مختلف طبقات کے مابین ہو تو ایک مجلسِ نجی قانونِ بین الاقوامی(Private International Law) فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی تھی۔ اسلام معاشرے کے ہر طبقے کے ہر فرد کواپنی تہذیب وثقافت میں جذب کرنے کے بجائے اپنے تمام شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اس میں ترقی و نمو وقت اور ماحول کے مختلف عوامل کے ساتھ موافقت و مطابقت کی صلاحیت کے ساتھ موجود تھی جو بلا شک و شبہ آج بھی قائم ہے۔
جہاں تک مسلمانوں میں انصاف کی تنظیم اور طریقۂ کار کا معاملہ ہے تو یہ اپنی سادگی اور استعداد کے ساتھ ساتھ گواہوں کے تزکیہ و تنقیح کے ادارے کے حوالے سے انتہائی شاندار ہے۔ درحقیقت اسلامی نظامِ قانون کے مطابق ہر علاقے میں عدالتیں وہاں کےباشندوں کے طرزِ عمل اور عادات کے بارے میں دستاویزات مرتب کرنےکا اہتمام کرتی ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ یہ جان سکیں کہ گواہ سچا، امانت دار اور قابل ِعتماد ہے یا نہیں۔ شواہد کی قدر کو کمزور کرنے کا معاملہ صرف فریقِ مخالف پر نہیں چھوڑا جاتا ہےجس طرح آج یہ کام پاکستان میں نادرا یا پولیس کرتی ہے اور دیگر ممالک میں بھی اس کام کے لیے باقاعدہ ادارے موجود ہوتے ہیں جو سوشل سیکیورٹی نمبر(Social Security Number) کی مدد سے لوگوں کے جمیع کوائف کو منضبط کرتے ہیں اور بوقت ضرورت اس معلومات کی مدد سے فرد کی ذاتی زندگی کا مکمل محاسبہ کیا جاتا ہے۔
اسلام نے معاشرے کو سنوارنے کے لیے اس کے ہر پہلو پر قوانین اور سزائیں تجویز کی ہیں۔ان میں سے کچھ قوانین کی تفصیل درج ذیل ہے:
ناجائز جنسی تعلقات اور زناکاری معاشرتی برائیوں میں سے ایک تھی جو نامعلوم اور بن ماں باپ کے بچوں،شوہر اور بیوی کے مابین تنازعات، اجرت کے عوض اور زبردستی جسم فروشی کے تیزی سےپھیلاؤ کا سبب بن رہی تھی ۔نتیجتاً اس برائی سے نہ صرف بہت سےخاندان تباہ ہوئے بلکہ معاشرے پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس اخلاقی و معاشرتی بیماری پر قابو پانے کے لیےاسلام نے انسانیت کو سخت قوانین فراہم کیے تاکہ معاشرے سے اس طرح کی برائیوں کی مکمل طور پر بیخ کنی ممکن ہو سکے ۔
اگر کسی شخص نے اپنی شادی کے بعد بدکاری کا ارتکاب کیا اور یہ عدالت میں ثابت ہو گیا تو اسلامی قانون کے مطابق اس شخص کو "رجم"کی سزا دی جاتی ہے۔25 رجم وہ سزا ہےجس کے تحت زانی یا زانیہ کو سنگسار کیا جاتا ہے۔26تاہم اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عورت حاملہ ہے تو پھر قانون کے مطابق بچے کے پیدا ہونے اور دودھ پلانے کی عمر گزر نے تک انتظار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بچےکو سرپرست کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے جو بچہ کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہوتا ہے اور زانیہ عورت کی"رجم" کی سزا پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔27
اگر کسی شخص نے نکاح سے پہلے زنا کا ارتکاب کیا اور یہ بات عدالت میں ثابت ہوگئی تواسلامی قانون اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ زناکارمرد اورزناکار عورت کو مسلمانوں کے ہجوم کے سامنے 100 عدد کوڑے مارے جائیں۔28 عوام کے سامنے سزا پر عمل درآمدکروانے کا مقصد عبرت انگیزی اور خوف کا پہلو ظاہر کرنا ہے۔ اس سزا میں یہ نظریہ کارفرما ہےکہ زیربحث مجرموں کی سزا کو دیکھنے کے بعد جو بھی اس طرح کا جرم کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ ایسا کرنے سے باز آجائے۔29
چونکہ عصمت دری یا جنسی زیادتی، زنا کاری سے کہیں زیادہ بڑا معاملہ ہے لہٰذا اس کی سزا اتنی ہی سخت رکھی گئی ہے۔ جس شخص نے اس جرم کا ارتکاب کیا اسے بھی اسلامی قانون کے مطابق سنگسار کیا جائے گا۔30چاہے زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ مگر یہ حکم تعزیراً ہے حداً نہیں ہے۔
زناکاری کو ہمیشہ ہی ایک برائی کے طور پر کیا جاتا رہا ہے لیکن اس حوالے سے رائے مختلف رہی ہے کہ آیا یہ قانونی طور پر قابل سزا جرم ہے یا نہیں ۔ ماضی کی کئی تہذیبوں کی طرح جدید دور کے مغربی قوانین کے مطابق بھی ناجائز جنسی عمل ایک برائی،ایک غیر اخلاقی عمل اور ایک گناہ کاکام تو ہوسکتا ہے لیکن یہ جرم نہیں ہے۔ یہ اسی صورت میں جرم بن جاتا ہے جب ناجائز جنسی تعلق دوسرے فریق کی رضامندی کے بغیرقائم کیا جائے۔ جہاں تک کسی شادی شدہ مرد کے زناکا تعلق ہے تو یہ صرف اس کی بیوی کو شکایت کرنے کا ایک سبب فراہم کرتا ہے ۔اس صورت میں اگر وہ چاہے تو اسے ثابت کر کے طلاق حاصل کرسکتی ہے۔ اسی طرح کسی زانیہ عورت کے معاملے میں اس کا شوہر اس کے خلاف اور اس شخص کے خلاف شکایت درج کراسکتا ہے جس کے ساتھ زنا کیا گیا تھا نیزوہ عورت کو طلاق دے کرمرد کے خلاف مالی ہرجانےکا دعویٰ کرسکتا ہے مگر اسلامی قانون ان تمام تصورات کے برعکس ناجائز جنسی عمل کو ایک قابل سزا جرم قرار دیتا ہے اور شادی شدہ شخص کی جانب سے اس جرم کا ارتکاب اس کی شدت میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔ یہ مرد یا عورت کے وفاداری کے حلف کے خلاف ورزی کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی دوسرے کے ازدواجی حقوق غصب کرنےکی وجہ سے ہے بلکہ اس لیےہے کہ مجرم نے جنسی خواہشات کی تسکین کے لیے حلال طریقہ موجودہونے کے باوجود غیر قانونی اور برا طریقہ اختیار کیا۔ اسلامی قانون زنا کو ایک ایسے فعل کے طور پر دیکھتا ہے کہ جس میں آزادانہ طور پر ملوث ہونے کی اجازت دے دی جائے تو نسل انسانی اور انسانی تہذیب دونوں کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں۔ نسل انسانی کے تحفظ و بقاء اور انسانی تہذیب کے استحکام کے مفاد میں یہ ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے مابین تعلقات کو صرف حلال اور قابل اعتماد ذرائع سے ہی استوار کیا جائے۔ ثانیاً اسلام کے مطابق انسان کا جسم اور اس کا ہر عضو اس کے پاس اللہ کی امانت ہے جس کا کوئی بھی انسان مالک نہیں ہوتا ۔ اس لیے اس جسم کو اللہ کے احکامات کے خلاف استعمال کرنا دراصل اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت ہے۔ اس لیے جب زانی مرد یا عورت زنا کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کی سزا ایک خائن کی حیثیت سے دگنی ہوجاتی ہےجو کہ غیر شادی شدہ کے لیے کوڑے اور شادی شدہ کے لیے رجم ہے۔
مزید یہ کہ انسانیت کو زنا کی لعنت سے بچانے کے لیے اسلام صرف سزا کے قانون پرہی انحصار نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اصلاحی اور ممنوعہ دونوں طرح کے اقدامات کو بڑے پیمانے پر بروئے کار لایا گیاہے۔ اس نے قانونی سزا کو صرف آخری حل کے طور پر رکھاہے۔ اسلام یہ نہیں چاہتا ہے کہ عوام اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور دن رات انہیں کوڑے پڑتے رہیں بلکہ اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ عوام یہ جرم ہر گز نہ کریں اور نہ ہی کوئی ایسا موقع آئے کہ انہیں کسی قسم کی سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے۔31 اسی لیے انسان کی نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے اسلام نے تعدد نکاح کو جائز قرار دیا ہےبلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہےجس کو باقاعدہ سازش کے ذریعے دور حاضر میں مشکل بنادیا گیا ہے۔
غیر فطری جنسی تعلقات جیسے ہم جنس پرستی، جانوروں کے ساتھ جنسی تعلقات یا ماں، باپ، بہن، بھائی، بچوں وغیرہ اورمحرم رشتوں کے ساتھ جنسی تعلقات زمانۂ قدیم سے ہی انسانی معاشروں میں موجود تھے۔ ایسے قبیح افعال اورمظالم کو روکنے کے لیے بھی اسلام نے مناسب قانون سازی ضروری سمجھی ۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں:
أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط، فاقتلوا الفاعل والمفعول به.32
حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر آپ ایسے لوگوں کو پاؤ جو اُس فعل میں ملوث ہوں جو قوم لوط نے کیا تھا (یعنی ہم جنس پرستی)تو پھراس میں ملوث فاعل و مفعول دونوں کو موت کی سزا دو۔
ایک اور روایت میں ہےکہ حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اقتلوا الفاعل والمفعول به، في عمل قوم لوط، والبھيمة والواقع على البھيمة، ومن وقع على ذات محرم فاقتلوه.33
ان لوگوں کو موت کی سزا دی جائےجو قوم لوط کے عمل (ہم جنس پرستی) میں ملوث ہوں یا کسی جانور کے ساتھ جنسی فعل کا ارتکاب کریں یا محرم رشتوں (خونی رشتے جن کے ساتھ شادی کی ممانعت ہے) کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے ہوں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس دور کے کچھ آزادی رائے اور حقوق انسانی کے علمبردار ان سزاؤں کو گھناؤنا سمجھتے ہیں نہ کہ اس قبیح فعل کو حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر ان قبیح افعال کا سد ِ باب نہ کیا جائے تو نہ صرف رشتوں کی عزت و اہمیت ختم ہوجاتی ہے بلکہ پورا معاشرتی نظام تباہ و برباد ہوجاتا ہےجس کی مثال ہمیں مغرب کے معاشروں میں باکثرت ملتی ہے۔ لہذا جو لوگ ان سزاؤں کو ختم کروانا چاہتے ہیں وہ نہ صرف اسلام کے دشمن ہیں بلکہ وہ حقیقت میں پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔
زنا کے ثبوت کے لیے اسلامی قانون میں انتہائی احتیاط برتی گئی ہے کیونکہ یہ فیصلہ براہ راست اس شخص اور اس کے خاندان کے ساتھ معاشرے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
اسلامی قوانین کے مطابق زنا اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتا جب تک چار مرد عاقل، بالغ، ثقہ، متقی، پرہیزگار اپنی آنکھ سے ایسا مشاہدہ بیان نہ کریں جیسے سرمہ دانی میں سلائی، اس کے بغیر کوئی شخص کسی مسلمان کی طرف زنا کی تہمت لگاتا ہے تو بحکم قرآن مجید 80 کوڑوں کا مستحق ہوگا اور اس کی گواہی ہمیشہ کے لیے مردود قرار دی جائے گی34 اور اسے ایک ایساسرکش شخص قرار دیا جائے گا جو اچھےکردار کاحامل نہیں ۔ 35
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ 4 36
اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسّی درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔ اور یہی بدکردار ہیں۔
معاشرتی جرائم کے لیے اسلام میں سزاؤں سے متعلق یا تعزیری نظام دو خاص پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک پہلو توانسان کے جرم کی سزاہے جبکہ دوسرا اس سزا سے پیدا ہونے والے خوف کا اثرہے جومعاشرے میں اس جرم کو روکنے کا سبب بنتا ہے37لہٰذا چوری کے قانون کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ 38 38
اور چوری کرنے والا (مرد) اور چوری کرنے والی (عورت) دونوں کے ہاتھ کاٹ دو اس (جرم) کی پاداش میں جو انہوں نے کمایا ہے۔ (یہ) اﷲ کی طرف سے عبرت ناک سزا (ہے)، اور اﷲ بڑا غالب ہے بڑی حکمت والا ہے۔
اس آیت میں کسی چھوٹی موٹی چیزمثلاً کھانے پینے کی اشیاء کی چوری پرہاتھ کاٹنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر چھوٹی موٹی چیزوں کی چوری کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے لیے ایک الگ کم درجے کی سزا ہے جس کا تعین حکومتی صوابدید پر ہے۔ مزید یہ کہ یہ قانون پاگل افراداور بچوں پر لاگو نہیں ہوتانیز صرف حکومت ِ وقت اور عدالت کو ہی ان سزاؤں پر عملدرآمد کرانے کا حق حاصل ہےعام شہریوں کو نہیں۔ 39قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ شخص چاہے تو وہ خود ہی چور کو معاف کرسکتا تھا۔ اس صورت میں اسے مجرم کو عدالت میں لانے کی ضرورت نہیں ہے40لیکن اگر مجرم عدالت تک پہنچ گیا یا پہنچا دیا گیا تو اب قاضی پر اس کے حوالے سے فیصلہ کرنا لازمی ہوگا۔
اسلام میں شراب پینا گناہ کبیرہ ہے اور اس کو عادت بنانا اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔41 دیگر نشہ آور اشیاء بھی حرام ہیں لیکن شراب سب میں بدتر ہے۔42شراب پینے کے بعد انسان نشے کے زیرِ اثر آجاتا ہےاور اسے اس بارے میں کچھ اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ صحیح کیا ہےاور غلط کیا ہے۔ اس حالت میں ایک نشہ کرنے والا شخص دوسروں کی توہین کرتا ہے یا کسی کو نقصان پہنچاسکتا ہے اور کسی سے جنسی زیادتی بھی کرسکتا ہے۔ 43 اس سے عداوت اور دشمنی کی تخم ریزی ہوتی ہے۔ گہرے دوست ایک دوسرے کے خون کے پیاسے، سگے بھائی ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ انسان نماز اور یاد الٰہی سے غافل ہوجاتا ہے۔44 یہ وہ عوامل ہیں جن کے نتیجے میں معاشرے میں افراتفری اور انتشار پھیل سکتا ہے۔
عرب میں شراب کا عام رواج تھا ۔ گنتی کے چند آدمیوں کے علاوہ سب اس کے متوالے تھے۔45اہل عرب سے شراب چھڑانا بظاہر بہت مشکل اور اہم کام تھا چونکہ شراب وہاں صدیوں سے پانی کی طرح پی جاتی تھی اس لئے ابتداء میں اس سے نفرت دلائی گئی پھر کچھ عرصے بعد اس پر پابندی لگائی کہ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ۔46چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ 4347
اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگوجو کہتے ہو۔پھر کچھ عرصے بعد حکم الٰہی نازل ہوا اور شراب کو حرام قرار دے دیا گیا۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 90 إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ9148
اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لیے) نصب کیے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لیے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے؟
حضور ﷺ نے ایک خادم کو حکم دیا کہ مدینہ کے گلی کوچوں میں پھر کر بلند آواز سے ان آیات کا اعلان کرے۔ جب وہ منادی کرنے والا اعلان کرنے نکلا تو کئی جگہ شراب کی محفلیں آراستہ تھیں۔ میخوار جمع تھے، پیمانے گردش میں تھے۔ جونہی کان میں ھل انتم منتھون کی آواز پہنچی ہاتھوں پرر کھے ہوئے پیالے زمین پر پٹخ دئیے گئے۔ ہونٹوں سے لگے ہوئے جام خود بخود الگ ہوگئے۔مشکوں اور مٹکوں میں بھری ہوئی مئے ناب انڈیل دی گئیں۔ وہ چیز جو انہیں از حد عزیز تھی اب گندے پانی کی طرح گلیوں میں بہہ رہی تھی۔ حیرت یہ ہے کہ اس کے بعد کسی صحابی نے شراب پینے کی خواہش کا اظہار تک نہ کیا۔49
نبی ﷺ کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ جو شخص اس جرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اسے جوتے، لات، مکے، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجور کی ٹہنیوں سے مارا جاتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ 40 ضربیں آپ ﷺکے زمانہ میں اس جرم پر لگائی گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے میں 40 کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر کے زمانے میں بھی ابتداءً 40کوڑوں ہی کی سزا رہی 50لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ شراب نوشی بڑھ گئی ہےتو انہوں نے صحابۂ کرام کے اجتماع میں ایک طویل بحث و مباحثے کے بعد حضرت علی کی مشاورت سے شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقرر فرمائی51 جو اسلامی قانون کے مطابق آج تک نافذ العمل ہے۔
اسلام سے قبل جب قبیلوں کے مابین قتل کا کوئی معاملہ پیش ہوجاتا اور مقتول میں سے اگر کوئی سردار ہوتا تو وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ اور اپنی اشرافی حیثیت پر ناز کرتے ہوئے قتل کرنے والے قبیلے سے کہتا کہ میں ضرور اپنے ایک غلام کے بدلے تمہارے آزاد شخص کو قتل کروں گا، ایک عورت کے بدلے تمہارے مرد کی جان لوں گا اور ایک مرد کے بدلے تمہارے دو مردوں کو قتل کروں گا۔ ان کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ لوگ دشمنوں کو دوگنے یا بے شمار زخم لگائیں۔52 بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھا جاتا بدلہ یا قصاص کا تعین اتنی ہی قیمت کے مطابق طلب کیا جاتا تھا ۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں جانوں سے لینے کے خواہشمند ہوتے تھے۔ اگر ان کا کوئی معزز آدمی دوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا جاتا ، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش ہوتی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزز آدمی مارا جائے یا اس کے کئی آدمی ان کے مقتول پر صدقہ کیے جائیں۔53معاشرے میں اس طرح کے گھناؤنے عمل کو روکنے اور نظم و ضبط قائم رکھنےکے لیے اللہ پاک نے قرآن مجید میں حکم ارشاد فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ17854
اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہیے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے۔ پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اس آیت میں اسلام نے قصاص کا اصول بیان کیاہےجو اس طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ قاتل، آزاد ہو یا غلام،مردہو یا عورت،امیر ہو یا غریب اس کے کئے گئے قتل کے بدلے میں صرف اُسی قاتل کو ہی قتل کیا جائے گا نہ کہ اس کی جگہ اس کی قوم وقبیلے کے کسی بھی دوسرے شخص کی جان لی جائے گی۔ اس طرح سے کسی کی زندگی لینے جیسے بڑے جرم کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی کیونکہ اپنی زندگی چھین لیے جانےکے خوف سےانسان دوسرے انسان کی زندگی لینے سے باز رہتاہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے کے دیگرتمام افراد کی زندگی محفوظ ہوجاتی ہے۔ قاتل کا قتل باقی معاشرے کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لہٰذا قصاص کا مقصد معاشرے کے افراد کا تحفظ اور عمل کا بدلہ ہے۔ مزید یہ کہ اس سے جاں بحق شخص کے لواحقین کے انتقامی جذبات ٹھنڈے ہوجاتے ہیں اور اس طرح سے کسی اور جارحانہ اور ضرر رساں حرکت کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔55
دیت اس مال کو کہتے ہیں جو جان کے بدلے دیا جائے56یعنی کسی مسلمان یا ذمی کافر کو ناحق قتل کرنے یا اس کے کسی عضو کو ناحق تلف کرنے کی وجہ سے جو شرعاً مالی تاوان لازم آتا ہے اسے دیت کہتے ہیں۔57
احناف کے نزدیک قتل کی تین اقسام ہیں:قتل خطاء، قتل عمد اور قتل شبہ عمد۔ کسی شخص کو جان بوجھ کر کسی ہتھیار سے مار دینا قتل عمد ہے۔قتل خطاء یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کو نشانہ بنانے کا ارادہ کرے لیکن اسلحہ وغیرہ سے بطور غلطی کسی شخص کو جان سے ماردے ۔58قتل شبہ عمدسے مراد کسی شخص کو ایسے آلہ سے ضرب لگائی جائے جس سے قتل نہیں کیا جاتا بلکہ صرف ضرب لگانامقصود ہو، قتل کرنا نہ ہو، لیکن اس ضرب کے نتیجہ میں مضروب مرجائے۔59
حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے قتل خطاء کی دیت یہ مقرر کی ہے : ایک سال کی بیس اونٹنیاں، ایک سال کے بیس اونٹ، دو سال کی بیس اونٹنیاں، تین سال کی بیس اونٹنیاں،اور چار سال کی بیس اونٹنیاں۔60امام ابوحنیفہ کے نزدیک قتل خطاء کی دیت میں ایک ہزار دینار یادس ہزار درہم بھی دیے جاسکتے ہیں۔61 ایک ہزار دینار 4.374 کلو گرام سونے کے برابر ہے اور دس ہزار درہم30.618 کلو گرام چاندی کے برابر ہے۔62
امام محمدفرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ : جن لوگوں کے پاس چاندی ہے ان پر دس ہزار درہم اور جن کے پاس سونا ہے ان کے ذمہ ایک ہزار دینار ہیں۔ گائے والوں پر 200 گائے اور اونٹ والوں پر 100 اونٹ دیت ہے۔ بکریوں والوں پر 2000 بکریاں، قیمتی جوڑے(حلّے یعنی ایک قسم کی چادریں ) رکھنے والوں کے ذمہ 200 جوڑے ہیں۔امام محمدفرماتے ہیں کہ ہم اسی بات کو اختیار کرتے ہیں اور حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک دیت صرف اونٹوں، درہموں اور دیناروں کی صورت میں لی جائے گی ، باقی چیزوں میں نہیں ہوگی۔63
نبی کریم ﷺنے فرمایا : جس شخص نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کردیا جائے گا اگر وہ چاہیں تو اس کو قتل کردیں اور چاہیں تو اس سے دیت وصول کرلیں ۔قتل عمد کی دیت30 تین سال کی اونٹنیاں، 30چار سال کی اونٹنیاں اور 40پانچ سال کی اونٹنیاں، اس کے علاوہ جس مقدار پر وہ صلح کرلیں۔64
قتل شبہ عمد کی دیت مغلظہ ہے۔ مغلظہ سے مراد سخت قسم کی دیت ہے۔ امام ابو حنیفہکے نزدیک اس کی دیت 100 اونٹنیاں ہیں جن میں25 ایک سال کی اونٹنیاں، 25 دوسال کی انٹنیاں، 25 تین سال کی اونٹنیاں اور 25 چار سال کی اونٹنیاں ہیں۔ 65
تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی۔ ہر سال میں تہائی (1/3) دیت وصول کی جائے گی۔ قتل خطاء کی دیت عاقلہ پر ہے، باپ کی طرف سے جو رشتہ دار ہیں وہ عاقلہ ہیں۔ یہ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے۔ بعض ائمہ نے کہا دیت صرف ان مردوں پر ہے جو عصبات ہوں،عورتوں اور بچوں پر دیت نہیں ہےاور ہر شخص پر چوتھائی(1/4)دینار دیت لازم کی جائے گی۔ بعض ائمہ نے کہا کہ نصف دینار تک دیت لازم کی جائے گی اگر ان رشتہ داروں سے دیت پوری ہوجائے تو فبہا ورنہ جو قریب ترین قبیلہ کے لوگ ہیں ان پر دیت لازم کی جائے گی۔66
یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح ورثاء میں مرنے والے کا ترکہ تقسیم کیا جاتا ہے اسی قاعدہ اور تناسب سے دیت تقسیم کی جائے گی۔ مقتول کی تجہیز و تکفین کے بعد اس میں سے پہلے میت کا قرض ادا کیا جائے گا پھر تہائی (1/3) دیت سے اس کی وصیت پوری کی جائے گی اور اگر مقتول کا کوئی وارث نہ ہو تو پھر دیت بیت المال میں جمع کردی جائے گی۔
یہ تمام تفصیل اس وقت ہے جب مقتول کے ورثاء دیت معاف نہ کریں لیکن اگر انہوں نے معاف کردی تب بھی کفارہ بہرحال ادا کرنا ہوگا۔67
انسانی ساختہ قوانین میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی تعصب ضرور ہوتا ہے۔ قدیم قبائلی عہد کے دوران معاشرتی نظام میں ایک مرد کوعورت کی نسبت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی چونکہ مرد قبیلہ کی طاقت سمجھا جاتا تھا لہٰذا اسے وراثت کا واحد حقدار قرار دیا جاتا تھا یوں وہ جائیداد پر بآسانی قابض ہو کرعورتوں اور بچوں کو محروم کرسکتا تھا۔68 ہر قسم کے عدم مساوات سے پاک قانون صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی عطا کیا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے:
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا 11 وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ 12 69
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔ پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔ اور مُورِث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لیے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)۔ پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی) تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ اور تمہارے لیے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں ایک جنس کو دوسری جنس پرفوقیت دینے کا سوال نہیں ہے بلکہ اس سارے معاملے میں سب سے اہم بات خاندان میں مرد و عورت کی ذمہ داریوں کے مابین توازن برقرار رکھنا ہے۔ اسلامی معاشرتی نظام میں ایک مرد اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں عورتوں کی کفالت اورکئی دیگر ذمہ داریاں پوری کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔ اگر وہ بیٹا ہے تو اپنی ماں کی کفالت کاذمہ دار ہے،اگر بھائی ہے تو اپنی بہن کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے، اگر شوہر ہے تو وہ اپنی بیوی کا کفیل ہے،اگر باپ ہے تو اپنی بیٹی کے تمام اخراجات اس وقت تک برداشت کرے گا جب تک کہ یہ ذمہ داری دوسرے مرد کو لڑکی کےشوہر کی صورت میں منتقل نہ کردے۔ اس بات کو صرف شوہر کی ایک مثال سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شوہر کے لیے اپنی بیوی کی کفالت کرنا اور اس کی تمام ضروریات پوری کرنا لازمی ہے۔مزیدیہ کہ ہر حالت میں اپنے تمام بچوں کی مدد کرنا بھی ضروری ہے خواہ وہ اپنی بیوی سے رشتہ ازدواج میں منسلک رہے یا اسے طلاق ہی کیوں نہ دے دے۔اسی کے ساتھ اگر اس کی ماں اور بہن زندہ ہیں تو ان کے لیے بھی مناسب بندوبست اسی مرد کی ذمہ داری ہے۔
دوسری طرف ایک عورت کو اپنی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے ، شادی سے پہلے اور بعد میں بھی اس کی دیکھ بھال والد، شوہر یا بیٹے کی صورت میں کسی نہ کسی مرد کے سپرد ہوتی ہے۔ عورت کو کسی بھی حالت میں اپنے شوہر یا اولاد بچوں کی کفالت کرنے کا پابند نہیں کیا گیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کم از کم خاندان میں اور اسلامی معاشرتی نظام میں عورت کے بوجھ سے دوگنا بوجھ اٹھاتا ہے۔ یوں اس تقسیم میں انصاف کے پیمانے برابر رکھے گئے ہیں جس کے نتیجے میں حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کے مابین کامل توازن حاصل ہو جاتاہے۔
مزید برآں یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ شوہر ، باپ ، بیٹے اور بھائی کی موت کی صورت میں بیت المال (حکومتی خزانہ) خاتون کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے یوں وراثت میں ملنے والی دولت کا ایک حصہ بھی اس عورت کی باقی ماندہ ضروریات کے لیے کافی ہوگا۔تقسیم کے اس الہامی نظام پر تمام اعتراضات ایک طرف جہالت اور کم علمی کا ثبوت اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے بغاوت کا اظہار ہیں۔ یہ تمام اعتراضات لغو اور بےمعنی ہیں جن سے حقیقت میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔70
اگر کوئی شخص انتقال کرجاتا ہے تو سب سے پہلے ورثا پر چارحقوق واجب الادا ہوتے ہیں:
اولاد کئی صورتوں میں وارث ہوتی ہے۔ ایک حال یہ ہے کہ میت کی اولاداور اس کے والدین بھی ہوں اور دوسری صورت یہ ہے کہ میت کی وارث صرف اس کی اولاد ہو۔ اس کی تین صورتیں ہیں:
اگر متوفی نے بیٹے اور بیٹیاں دونوں چھوڑے ہیں تو بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ مثال کے طور پر اگر میت نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہے تو امور متقدمہ علی الارث کے بعد میت کے ترکہ کے تین حصے کیے جائیں گے، ان میں سے دو بیٹے کو اور ایک بیٹی کو ملے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر میت کی زوجہ، والدین، بیٹے اور بیٹیاں سب موجود ہیں تو اس صورت میں زوجہ اور ماں اصحاب الفرائض 72ہیں یعنی ان کے حصے مقرر ہیں۔ متوفی کی زوجہ کا آٹھواں ، ماں اور باپ کا چھٹا حصہ، تو اصحاب فرائض کو ان کے حصص دینے کے بعد جو باقی بچے گا وہ سب اولاد میں تقسیم کردیا جائے گا کیونکہ اولاد عصبات73 ہیں اور اصحاب فرائض کو دینے کے بعد جو مال باقی بچتا ہے اسے عصبات میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ یوں اس صورت میں ترکہ کے کل 24 حصص کیے جائیں گے ، ان میں سے 3 حصے بیوی کے، 4،4 حصے اس کی ماں اور باپ کو اور باقی ماندہ 13 حصص اس کی اولادوں میں اس طرح تقسیم کردیں گے کہ بیٹے کو بیٹی سے دوگنا حصہ دیا جائے گا۔74
تیسری صورت یہ ہے کہ میت نے صرف بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اگر دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو ان کو دو ثلث(دو تہائی) ملیں گے۔ اگر صرف ایک بیٹی چھوڑی ہے تو اسے کل ترکہ کا نصف ملے گااور اس کے بعد جو ترکہ بچے گا وہ دیگر اصحاب فرائض کو ملے گا اور اگر وہ نہ ہوں تو میت کے عصبات کو مل جائے گا، اور اگر میت نے صرف بیٹے چھوڑے ہیں تو وہ تمام مال کے وارث ہوں گے۔اگر بیٹوں کے ساتھ اصحاب فرائض بھی ہوں تو اصحاب فرائض کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی تمام مال بیٹوں کو دے دیا جائے گا۔
اولاد کا اطلاق مذکر اور مؤنث دونوں پر ہوتا ہے اس لیے اگر میت کے ماں اور باپ کے ساتھ اولاد ہو تو اس کی تین صورتیں ہیں:
اگر میت کی اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کو تہائی حصہ ملے گا اور بقیہ دو تہائی مال باپ کو بطور عصبہ دے دیا جائے گا۔اس صورت میں مرد(باپ) کو عورت(ماں) سے دگنا حصہ مل جائے گا۔
اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔ یہ والدین کے احوال میں سے تیسرا حال ہے جس میں میت نے والدین کے ساتھ بہن بھائیوں کو بھی چھوڑا ہے۔ اس پر اتفاق ہے کہ ایک بہن یا بھائی ماں کے تہائی حصہ کے لیے حاجب 75بن کر اس کو چھٹا نہیں کرتے ، اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ جب بہن یا بھائی کا عدد تین کو پہنچ جائے تو وہ ماں کا حصہ تہائی سے کم کرکے چھٹا کردیتے ہیں۔اگر دو بہنیں یا دو بھائی ہوں تو اس میں اختلاف ہے۔ اکثر صحابۂ کرام کا نظریہ یہ ہے کہ وہ بھی ماں کا حصہ تہائی سے کم کرکے چھٹا کردیتے ہیں اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ دو بہنیں ماں کا حصہ تہائی سے کم نہیں کرتیں۔ فقہاء احناف کا مذہب اکثر صحابۂ کرام کے قول کے مطابق ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ دو بہنیں کسی قسم کی ہوں سگی یا سوتیلی خواہ ماں کی طرف سے ہوں یا باپ کی جانب سے، اسی طرح سے بھائی بھی۔ وہ ماں باپ کے لیے حاجب ہیں اور اس کا حصہ تہائی سے کم کرکے چھٹا کردیتے ہیں۔ اگر صرف ایک بہن ہو یا ایک بھائی وہ ماں کے لیے حاجب نہیں ہیں خواہ وہ بہن بھائی عینی ہوں ، علاتی ہوں یا اخیافی۔76
نہ صرف حضورﷺکو انصاف قائم کرنے کاحکم دیا گیا تھا77 بلکہ تمام انبیاء کی بھی یہی ذمہ داری تھی کہ وہ عدل و انصاف قائم کریں۔78 اس کے علاوہ تمام اہلِ ایمان کو بھی انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔79 لہٰذا انصاف کا قیام اسلامی عدالتی نظام کا بنیادی مقصد ہے۔نبئ اکرم ﷺکے عہد میں عدالتی نظام اس انداز سے مرتب نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ جدید دور میں پایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں آپﷺ نے ہی جدیدعدلیہ کے نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ عدالت مقدمے کی کھلی سماعت کے بعد فیصلہ سناتی تھی اور اس بات کو یقینی بناتی تھی کہ پولیس تمام سزاؤں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے ۔ عدالتوں نے اسلامی ریاست کے تمام شہریوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ریاست کے کسی بھی عہدیدار کی طرف سےہونے والی ناانصافی کے خلاف اپنا مقدمہ دائر کریں چاہے وہ حکومتی عہدیدار کسی بھی درجے یا مرتبے کا حامل شخص ہو۔
ملزمان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا جاتا تھااور اگرکوئی قصوروار ثابت ہوتاتو اس کےخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی تھی ۔دریں اثنا حسبہ کا ادارہ عوامی انتظامیہ کے زیر انتظام تھا تاہم بعد میں اسےمحتسب نامی ایک حکومتی عہدیدار کے سپرد کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ معاملات اورمذہبی طرزِعمل کے علاوہ شہریوں کی صحت اور انتظامیہ کی نگرانی کرے۔
اس نگرانی کا مقصد ان معاملات کو اسلامی قانون کے مطابق بنانا اور ان کے خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینا تھا۔ ناپ تول میں کمی بیشی،خرید و فروخت میں دھوکہ دہی اور قرضوں کی عدم ادائیگی سے متعلق شکایات پر حسبہ عدالتیں مقدمات کی سماعت کرکے ان کا فیصلہ سناسکتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک عام شہری کے پاس یہ حق بھی تھا کہ وہ محتسب کے خلاف قاضی کی عدالت میں مقدمہ دائر کرسکتا تھا۔ جو شخص لوگوں کا احتساب کرتا تھاوہ خود بھی اپنے عہدے اور ذمہ داریوں کا جوابدہ تھا۔80
مذکورہ بالا معاملات سےمتعلق احکامات کے علاوہ بھی زندگی کے ہر شعبے میں اسلام مکمل قانونی رہنمائی فراہم کرتا ہےاور اسلام کے زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ احکامات بے نظیر اور بے مثال اہمیت کے حامل ہیں اسلام کا قانونی نظام مصر، یونان، روم، چین، ہندوستان اور فارس جیسی قدیم تہذیبوں اور اپنے اپنے عہد کی عالمی طاقتوں کے قانونی نظام کے بالکل برعکس انسانی مرضی کے بجائے مکمل طور پر اللہ تعالی کی رضاپر مبنی تھا اور ہے۔اسی وجہ سےیہ ایک غیر جانبدار، لچکدار، مطلق اور انصاف پر مبنی آفاقی نظام ہے۔ اسلامی قوانین نے طرز عمل کا ایک معیارطے کیا ہے۔ اسلامی ریاست اور تنظیم سے وابستہ ہر فرد کو، خواہ وہ رہنما ہو یا مسلم معاشرے کا ایک عام رکن، ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اچھے کاموں کا حکم دے اور غلط کاموں سے روکے۔ نتیجتاً ایک ایسا معاشرہ قائم ہواجو تمام معاشرتی برائیوں سمیت ہرقسم کی اخلاقی برائیوں سے بھی پاک تھا۔ سبھی لوگوں نے قانون کی پاسداری کو اپنا فرض سمجھا جس کے نتیجے میں معاشرہ متحد ہو گیا اور ترقی کرنے لگا۔ لوگ قانون کی پابندی کےلیے اس حد تک تیار تھے کہ اگر کسی سے کوئی جرم سرزد بھی ہو جاتا چاہے وہ چوری ہو یا زنا، وہ خود ہی اس جرم کا اعتراف کر لیتا اور سزا کے لیے تیار ہوجاتا تھا۔ اس طرح کے شاندار نتائج دنیا کی کسی بھی دوسری تہذیب کے کسی اور قانونی نظام میں نہیں مل سکتے۔