ساتویں صدی کے اوائل میں خطۂ عرب میں ایک تہذیب منصۂ شہود پر نمودار ہوئی اور ارتقاء و نمو کی منازل طے کرتی ہوئی حیرت انگیز طور پر قلیل مدت میں جزیرہ نما عرب کے تمام قبائل میں متعارف ہوکر انہیں کو اپنے اندر جذب کرکے منظم ومتحد کرلیا اور پھر خطّۂ عرب کی حدوں کو پار کرکے آس پاس کے علاقوں کے ساتھ اپنے سیاسی و معاشرتی رشتوں کو استوار کرلیا۔اس طرح ترقی و عروج کا سفر طے کرتے ہوئے نمو کی تیسری صدی تک یہ تہذیب تاریخ ِ عالم کی شانداراور باکمال قوت بن گئی۔ اس کی تہذیب کی تخلیق، نمو اور ارتقاء نے تاریخ کے دھارے کا رخ یکسر تبدیل کرکے انسانی تہذیبی ورثے کو نہ صرف تقویت بخشی بلکہ اس کی آرائش و افزودگی میں کلیدی کردارادا کیا۔
اس تہذیب کو اسلامی تہذیب کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ اس کی بنیاد دین اسلام پر رکھی گئی تھی۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس کے اساسی تصورات عدل واعتدال پر مبنی ہیں۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جو انسانیت کو ایک عظیم تحفہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ اسلام انسانی حیات کے ہر گوشے کا احاطہ کرتا ہےاور یہ واحد دین ہے جو دیگر ادیان باطلہ اور دوسرے افکار سے کلی طور پر منفرد بھی ہے اور مختلف بھی۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو ایک صورت میں بندے کو اپنے خالق سے ملاتا ہے تو دوسری صورت میں اسی مخلوق کا رشتہ بندگانِ خدا سے بھی استوار کرتا ہے۔ جس طرح عمل کے بغیر علم کا ہونا اور انسانیت کے بغیر انسانوں کا ہونا، ایک ادھورا عمل ہے اسی طرح حسنِ اخلاق، خدمت خلق اور صلہ رحمی کے بغیر مسلمان ومؤمن بھی ادھورا ہے۔
دینِ اسلام ایسا مذہب ہے جو مذہبی، روحانی، سیاسی، معاشی، قانونی اور معاشرتی نظریات کا ایک مربوط اور منظم مجموعہ ہے جو معاشرتی، سماجی زندگی کے تمام پہلوؤں میں بھرپور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآنی تعلیمات انسان کو حدود میں مقید رکھنے اور حد سے متجاوز نہ ہونے کی ترغیب دیتی ہیں اور ساتھ ہی روز مرہ کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہدایات مہیا کرتی ہیں۔ اللہ پر ایمان ایک مسلمان کو اپنے رب کا مطیع و فرمانبردار بندہ بننےکے ساتھ معاشرتی معاملات میں مثبت کردار ادا کرنے کی بھی تعلیمات فراہم کرتا ہے ۔لہٰذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ دین اسلام اخلاقی و سماجی نظام کا ایک مضبوط احساس پیدا کرتا ہے جہاں ہمہ وقت بااثر سماجی قوت معاشرتی حدود وقیود کے نفاذ کے لیے موجود ہوتی ہے جو معاشرتی ناہمواری کو ہموار اور مجرمین کو نیکوکار بنانے کا سبب بنتی ہیں۔1
اسلامی نظام ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے جس میں ہر شے سے متعلق ہدایات فراہم کی گئی ہیں اور عقلی واستدلالی امور میں ترقی کی راہیں ہموار کی گئی ہیں۔اسلام نے معاشرے کو نسل ،رنگ ، زبان ،ملک اورعلاقائی و قومی مفادات پر مبنی کم درجے کی شراکتوں اور تعلقات کے برعکس صرف عقیدے کی شراکت اور تعلق پر قائم رکھاہے۔ انسان اور جانور دونوں میں باہم مشترک خصلتوں پر زور دینے کے بجائے اسلام ان خصوصیات کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے جو ہر انسانی ذہن میں موجود ہیں۔ دراصل یہ ماحول ہی ہے جس میں انسان پرورش پاتا ہےاوراپنے اعتقادات اور خصلتوں کی تشکیل کرتاہے۔ اسلام ان کی پرورش کرکےغالب عنصر بنا دیتا ہے اور انسان کو انسانیت پسندی کی جانب موڑ دیتا ہے۔اس طرز عمل کے شاندار نتائج یہ سامنے آئےکہ اسلامی معاشرہ کشادگی کو اپنے اندر سمونے کا مظہر بن گیا جہاں مختلف نسلوں، قوموں، زبانوں اور رنگوں کے افراد بغیر کسی تنگی و پریشانی کے اس معاشرے کا حصہ بن گئے اور ان کے مزاج میں موجود رذیل و حیوانی خصائص خیر سے بدل دئیے گئے۔
اسلامی معاشرے میں عربی، فارسی، شامی، مصری، ترک، چینی، ہندوستانی، رومی، یونانی اورافریقی نسلوں اور قومیتوں کے افراد ایک ساتھ موجودتھے۔ مختصر یہ کہ اسلامی معاشرہ تمام قوموں اور نسلوں پر مشتمل ایک ایساسماجی نظام تھا جس کے افراد اخوت و بھائی چارےکے رشتے میں باہم مربوط تھے۔ ابتدائی دور میں دیکھا جائے تو اُس وقت کے کثیر النسل افراد کی مختلف خصوصیات باہم مشترک تھیں اور انہوں نے آپس میں باہمی تعاون، ہم آہنگی اور اتحاد کے ساتھ اسلامی برادری اور اسلامی ثقافت کی تعمیروتشکیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔2
قبل از اسلام عرب میں وقت کی پیمائش کے لیےمختلف نظام رائج تھے۔ کچھ جنتریاں قمری تھیں جبکہ دوسری چاند اور سورج کے باہمی تعلق پر مبنی جنتریاں(Lunisolar Calendar) تھیں جو چاند کی گردش کے مختلف مراحل(phases) پر مبنی مہینوں کا تعین کرتی تھیں لیکن موسموں کے ساتھ جنتری کو ہم آہنگ کرنے اور مطابقت پیدا کرنے کے لیے قمری چکر کےعلاوہ تقویم میں مزیددن منسلک کیے جاتے تھے۔
ہجری تقویم کا آغاز حضرت عمر کیا جو دوسرے خلیفۂ راشد تھے۔3 یہ عمل صحابۂ کرام سے تفصیلی مشاورت اور غور و خوض کے بعد طے کیا گیا تھا۔ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کی مکّہ مکّرمہ سے مدینہ منوّرہ ہجرت کے واقعے کو نئی تقویم کے نقطۂ آغاز کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ جنتری کی ابتداء کے لیے ایک تاریخ منتخب کی گئی جس کا شمار پہلے مہینے (محرم ) کے پہلے دن اور پہلی تاریخ کے طور پرکیا گیا تھا ۔4 نئی تقویم کے مطابق محرم کی پہلی تاریخ 16 جولائی622 عیسوی طے کی گئی تھی۔اسلامی تقویم میں مہینوں کا تعین چاند (ہلال ) کی روئیت پر کیا جاتاہے5جو 29.5306 دن کے دورانیے پر مشتمل مہینہ ہے۔یوں اسلامی تقویم میں 12 مہینوں کا دورانیہ تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ 354.3671 دن بنتا ہے۔6
ہجری تقویم میں دنوں کی تعداد گریگورین تقویم(Gregorian Calendar) کے مقابلے میں 10سے11 دن کم ہے یوں اسلامی مہینے مستقل نہیں رہتے بلکہ وہ سال بھر گردش کرتے ہیں۔7 مسلم تقویم کے 12 سالوں میں 4 کو افضل تصور کیا جاتاہے۔ 8ان مقدس مہینوں میں ذوالقعد، ذی الحجہ، محرم اور رجب شامل ہیں۔9 ہجری تقویم میں مندرجہ ذیل مہینوں کو مخصوص ترتیب میں شامل کیا گیا ہے جن کے نام یہ ہیں: محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاول، جمادی الثانی، رجب ، شعبان ، رمضان ، شوال ، ذِی القعدۃا ور ذی الحجہ۔10
قدیم تہذیبوں کے برخلاف اسلامی تہذیب میں ہر انسان ایک دوسرے کا مددگار و رفیق ہے۔ 11 اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ معاشرے میں تمام انسان بلحاظ ِپیدائش برابر ہیں اور ایک ہی مرد و عورت حضرت آدم اور حضرت حوا کی اولاد ہیں۔12 وہ ایک ہی جان سے پیدا کیے گئےہیں۔13انسان کی پیدائش معاشرے میں اس کی حیثیت کا تعین نہیں کرتی ہے، یہی وجہ ہےکہ ذات پات کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ پیدائش،حسب و نسب، دولت و ثروت، پیشے اور دیگر مادی فوائد کو بنیاد بنا کر معاشرتی تفریق اور امتیازی سلوک روا رکھنا اسلامی تعلیمات سے روگردانی ہے۔ حقیقی امتیاز اور اعلیٰ مراتب صرف تقویٰ و پرہیز گاری ، دیانت داری ،سچائی اور راست بازی پر منحصر ہیں۔14
اسلام میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ تمام مؤمنین معاشرتی اور نسلی پس منظر سے قطع نظر برابر ہیں اور ایک ہی طرح کی مراعات سے لطف اندوزہونے کے حقدار ہیں۔ یہ عالمی مسلم بھائی چارے کا حصہ ہیں۔ 15اسلام میں درجہ بندی صرف تقوے کی بنیاد پر ہے۔ احادیث میں مذکور ہے کہ آخری خطبہ کے موقع پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی عرب کو کسی غیرعرب پر فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی کسی غیرِعرب کو عرب پر۔ نہ ہی سفید فام سیاہ فام سے برتر ہے اور نہ ہی سیاہ فام کو سفید پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ 16
اسلام میں غلاموں کو بھی بھائی قرار دیا گیا ہےاور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہےکہ انہیں وہ کھلاؤ پہناؤ جو تم اپنے لیے پسند کرو ۔ مزید یہ تاکید کی گئی ہے کہ غلاموں کو ایسے کام نہ دئیے جائیں جس کی وہ طاقت نہیں رکھتےاور ان پر وہ بوجھ نہ ڈالا جائے جو ان کی بساط سے باہر ہو اور نہ ہی ان کو مارنا، سزا دینا، ان پر کسی بھی وجہ سے ظلم و ستم کرنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ اسلامی تہذیب میں ہر انسان مرتبہ کی کمی بیشی کے باوجود پہلے انسان اور ذی روح ہےاس کے بعد اس کے دوسرے اوصاف و امتیازات کو شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ مسلم معاشرہ امتیازی سلوک اور نسل پرستی کو برداشت نہیں کرتا بلکہ بے بس و لاچار طبقات سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے جو دنیا کی کسی اور تہذیب میں نہیں دیکھا گیا ۔
مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خاندانی زندگی انسانی معاشرے کی بنیاد ہے جو والدین اور جوان ہوتے ہوئے بچوں کے لیےایک محفوظ، صحت مند اور تربیت کے لیے سازگارماحول مہیا کرتی ہے۔ اولاد اللہ کی نعمت ہے17اور انہیں دنیا کی زینت قرار دیا گیا ہے۔18والدین پر بچوں کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے اسی طرح اولاد کو بھی اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک روا رکھنے اور ادب و تعظیم بجا لانے کی تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی بھی بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ جائے تو ان کی خدمت بجا لانے پر اُف کہنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔19والدین کے ساتھ توہین آمیزلہجہ اختیار کرنے اور ایسی بات کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں ہے جس سے ان کی دل شکنی ہو۔20
والدین اولاد کے سرپرست مقرر کیے گئے ہیں۔21 ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو صحیح اور غلط میں تمیز سکھائیں۔22اسلامی معاشرے میں والدین کو اپنے بچوں کی جسمانی، مذہبی اور روحانی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بچے نظم و ضبط اور اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہوجائیں اوراپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے آزاد افراد کے طور پر پرورش پائیں جو اپنے خالق کے سچے اور حقیقی فرمانبردار ہوں۔لہٰذا محبت، شفقت، رحمت،23 ہمدردی اوررحمدلی جیسی انسانی خوبیوں کومنتقل کرنے اور فروغ دینے کا بہترین مقام ایک مناسب خاندان ہی ہے۔
خاندان کا اسلامی تصور نکاح کے معاہدے کے ذریعے مرد اور عورت کی یکجائی ہے۔24نبی اکرمﷺ کی ہدایات اور تعلیمات نکاح اور کنبہ کے قیام کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ 25اسلام میں خاندان کی بنیاد رکھنے کے لیے نہ بڑا خاندان(extendedness) اور نہ ہی کثیر الازدواجی شرط ہے۔ مسلم خاندان توسیع شدہ ، مشترکہ یا غیر منقسم خاندان (Extended family)بھی ہو سکتا ہے اور کثیر الازدوجی (polygamous)بھی ،یا دونوں صورتیں ایک ساتھ بھی ہو سکتا ہے، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت نہ ہو۔26 کثیر الازدواجی خاندان (polygamous family)کی صورت میں مسلمان مردوں کے لیے بیویوں کے مابین عدل قائم رکھنا فرض ہے۔لباس، نان نفقہ اور رہنے سہنے میں ہر ایک کو اس کا پورا پورا حق ادا کرنا لازمی ہے۔27بیوی کو تکلیف دینا ایک گناہ ہے اور دوسری زوجہ سے کم رکھنا دوسرا گناہ ہے۔28
اسلام نے مردوں اور خواتین کو اپنے اپنےدائرۂ کار میں رہنما بنایا ہے۔ اس کی تعلیمات کے مطابق شوہر کو کنبہ کا سربراہ بنایا گیا ہے 29 اور اسے خاندان کی دیکھ بھال، حفاظت اور مجموعی طور پر سربراہی کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔اسے یہ ذمہ داریاں باہم مشورے، مہربانی اور احسان کے ساتھ انجام دینی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے کنبہ کی تمام ضروریات فراہم کرنے کا ذمہ دار بھی بنایا گیا ہے۔جب شوہر اپنے کنبے پر کچھ خرچ کرتا ہے تو اسلام اسے صدقہ قرار دیتا ہے30اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔
اسلام نے بیوی کو گھر کی ملکہ بنایاہے۔ نیک و پارسا بیویاں وہ ہوتی ہیں جو اپنے شوہروں کی دیانتداری سے فرمانبرداری کرتی ہیں اور گھر و خاندان کی عزت و احترام کا خیال رکھتی ہیں۔ 31قرآن بیوی اور شوہر دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے 32اور دونوں کو ایک دوسرے کا احترام اور دیکھ بھال کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
مزید یہ کہ اسلام ایک ایسے ڈھیلے ڈھالے، بے ربط اور بکھرے ہوئے خاندانی نظام کا حامی نہیں ہے جو کسی بھی اختیار اور نظم و ضبط سے خالی ہو اور جس میں کوئی بھی اپنے ارکان کے مناسب طرز عمل اور روئیے کا ذمہ دار نہ ہو۔ نظم و ضبط کو صرف ایک مرکزی ذمہ دار کے ذریعہ ہی برقرار رکھا جاسکتا ہے اور اسلام کے نقطۂ نظر کے مطابق خاندان میں باپ کی حیثیت ہی ایسی ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیےبہترین فرد قرار دیا جاسکتاہے۔ اسلام کے مطابق ازدواجی زندگی کی اصل روح محبت، ایک دوسرے کی تفہیم اور باہمی احترام ہے۔ اگر عورت کو شوہر کی بات ماننے کے لیےکہا گیا ہے تو مرد سے گھر کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی مراعات کو بروئے کار لانے اور بیوی سے محبت ، پیار اور مٹھاس کے ساتھ پیش آنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ 33
ایک خاندان پر برادری اور معاشرے کو اچھی اولاد مہیا کرنے کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ لہٰذا نبی پاکﷺ نے مسلمانوں کو محبت کرنے والی اور اولاد پیدا کرنے والی خواتین سے شادی کرنے کی ترغیب دی ہے۔ 34 خاندان کا ایک اور اہم مقصد ایسے قابل افراد پید اکرنا ہےجو علم، عمل، نیکی کو فروغ دینے اور برائی کی روک تھام کے ذریعہ معاشرے کی تعمیر کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کا مقصد ایسے خاندانوں کا قیام ہے جو دوسروں کے لیے نمونہ ہوں اور جن کے طرزِعمل پر چل کر نبی اکرمﷺ کے اسوۂ حسنہ اور ہدایت و رہنمائی کی پیروی کی جا سکے۔ یہ کسی بھی خاندان کا حتمی مقصد ہے جیسا کہ قرآن کی ایک دعا میں سکھایا گیا ہےکہ:
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا 7435
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔
اسلامی قانون میں مرد و عورت پر ان کی جسمانی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ مرد عورتوں کے محافظ و منتظم ہیں۔36 وہ ان کی ضروریات پوری کرنے اور اخراجات برداشت کرنے کا پابند ہے۔ 37اسلام نے عورتوں پر خاندانی اخراجات کا بار اٹھانے کی ذمہ داری عائد نہیں کی ہے۔ مرد کو بیرونی جبکہ عورت کو گھر کے اندرونی کاموں کو سونپا گیا ہے۔
قرآن مجید میں مسلمان مرد کواسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا طریقۂ کار بتایا گیا ہے۔ اس کے بنیادی اصولوں میں اچھے کام سرانجام دینا اور برے کاموں سے باز آنا، سمجھداری اور شعور پر مبنی طرز عمل کا مظاہرہ کرنا اور عاجزی، ضبطِ نفس اور ہمدردانہ سلوک کرنا شامل ہیں۔38اسے ہمیشہ سچ بولنے، دیانت داری کا مظاہرہ کرنے اور راست باز رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔39ایک مسلمان سے ہمیشہ بہادری کی توقع کی جاتی ہے اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ ہمیشہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ 40اسے کھانے پینے میں اعتدال اور بے جا فضول خرچی سے بچنےکا حکم دیا گیا ہے۔ 41ایک مسلمان سے اسلام تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ انصاف کا دامن تھامے رکھے اور اس کی سربلندی کےلیےجدو جہد میں مصروف رہے۔اگر کوئی معاملہ انصاف کے برخلاف دیکھے تو رضائے الٰہی کے لیے اس کی سچی گواہی دے۔ خواہ یہ گواہی اپنی جان، والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ 42ایک سچے مسلمان کو بے لوث اور فراخدل ہونے کی ضرورت ہے۔ اسے اللہ کی محبت اوراس کی رضا کی خاطر مسکینوں ، یتیموں حتی کہ قیدیوں کی مدد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ 43عاجزی،44صبر،45غصہ پر قابو رکھنا، عفو و در گزر اورمعاف کردینا46ایک سچے مؤمن مرد کی خصوصیات ہیں۔
ایک مسلمان کو اپنے لباس کو صاف رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔47اس کے علاوہ مسلمان مرد عورت کی ایک اہم خصوصیت شرم و حیا اور پاکدامنی ہے۔ قرآن مجید نے مرد و عورت دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنےاور باحیا رہنے کا حکم دیا ہے۔48قرآن مجید کی آیت کریمہ میں ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت کی بہت سی خوبیوں کا ذکر ہے جن کے حصول کےلیےہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے:
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا3549
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مؤمن مَرد اور مؤمن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لیے بخشش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔
اس آیت میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک کن خوبیوں اور خصوصیات کی حقیقی قدر ہے۔ یہ اسلام کی بنیادی اقدار ہیں ۔ ان کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاہم معاملات زندگی میں مرد و عورت دونوں کے کام کرنے کے دائرے الگ الگ ہیں۔ مردوں کےلیے کچھ مخصوص شعبوں میں کام کرنا زیادہ بہتر ہے جبکہ بعض شعبہ خواتین کےلیے زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اگر وہ ان خوبیوں اور خصوصیات کے یکساں حامل ہیں تو اللہ ان کو برابر کے درجات عطا فرمائے گا اور ان کو برابر اجر و ثواب سے نوازے گا۔ اگر ان میں سے ایک نے گھریلو کام سرانجام دئیے اور دوسرے نے خلافت کے فرائض پورے کیے اور شرعی احکامات نافذ کیے تو اس سے ان کے درجات اور اجر وثواب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اسی طرح عورتیں گھر میں بچوں کی پرورش کریں اورمرد میدانِ جہاد میں جاکراللہ اور اس کے دین کی خاطر لڑیں تو اس سے ان کے درجات پر فرق نہیں پڑتا ہے50 لیکن بحیثیت مرد کے اعلاء کلمۃ الحق کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنااور اسلام کی سربلندی کے لیے تن، من اور دھن کی بازی لگانا مرد کی دیگر اہم ذمہ داریوں میں سے ہےجس کی عدم ادائیگی پر وہ عنداللہ مسئول ہے، کیوں کہ اس کی بدنی ساخت اور قوت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ ان کو صرف مال و دولت کمانے کے لیے ہی صرف نہ کرے بلکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے بھی استعمال کرے۔
مرد و عورت کے مابین دنیا و آخرت دونوں میں حیثیت، حقوق اور احسانات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک روزمرہ کے امورِ زندگی کا تعلق ہے تو اس میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ اگر اسلام مر د و عورت کی جنسی مساوات کے بجائے دونوں کی صنفی تقسیم پر زور دیتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اس تصور کو ناپسند کرتا ہے کہ مر د وعورت میں سے کوئی بھی جنس اپنے کو زیادہ قوی محسوس کرے یا خود کو کمتر تصور کرکے خود کو دوسری جنس میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔جیسا کہ حضور نبئ کریم ﷺ كا فرمان ہے کہ:
أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال : لعن المرأة تتشبه بالرجال، والرجل يتشبه بالنساء.51
ان عورتوں پر لعنت ہے جو مردوں سے مشابہت کرتی ہیں اور ان مردوں پر لعنت ہے جو عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں۔
حدیث میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ کسی ایک بات میں بھی مرد کو عورت‘ عورت کو مرد کی وضع لینی حرام و موجب لعنت ہے۔52 یعنی عورت مردوں کے جوتے، کپڑے اور دستار وغیرہ نہ پہنے‘ اسی طرح مردوں کو عورتوں کی طرح چلنا،زیورات پہننا، ان کی طرح باتیں کرنا اور ان کا لباس اختیار کرنا منع ہے۔53
دیگر قدیم تہذیبوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہاں نہ صرف خواتین کے بنیادی حقوق سے روگردانی کی گئی تھی بلکہ انہیں تربیت اور درجہ بندی میں پست رکھا گیا تھا۔ میسوپوٹیمیا ، سومیری ، اشوری اور بابلی تہذیبوں نے خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھا اور ان کی رائے کو غیر اہم سمجھا تھا۔ حمورابی کاقانون(Hammurabi law) خواتین کو ان غلط امور کا ذمہ دار ٹھہراتا تھا جو حقیقت میں انہوں نے انجام دیے ہی نہیں تھے۔ مرد کے قاتل کے برعکس کسی عورت کے قاتل مرد کوسزائے موت نہیں دی جاتی تھی۔54
زمانہ جاہلیت میں باپ دادا کے ترکہ سے مرد وارث ہوتے تھے لیکن عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔55 اسی طرح چھوٹا بچہ خواہ لڑکا ہی ہو وہ اپنے ماں باپ کے ترکہ کا وارث نہیں بن پاتا تھا۔56اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی کہ جو میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دینے کے قابل نہیں وہ میراث پانے کا بھی حقدار نہیں ہے۔ ہندوستان میں بھی عورتیں وارث شمار نہیں کی جاتی تھیں اور یورپ میں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی تھی، صرف بڑا لڑکا وارث بنتا دوسرے لڑکے بھی محروم رہ جاتے تھے۔یہ حالت تھی جب قرآن کی یہ انقلاب آفرین آیت نازل ہوئی۔57
لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا758
مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔
اسلام نے خواتین کو مہذب زندگی، تعلیم ، جائیداد ، شادی ، بچوں کی دیکھ بھال ، وراثت ، ملازمت اور معاشرتی احترام کا حق دیاہے۔ اسلام میں کسی خانقاہی نظام یا رہبانیت (monasticism) کا تصورنہیں ہے۔59 معاشرتی زندگی سے الگ تھلگ ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے نیز ماں باپ، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔60 مزید یہ کہ اسلام نے ماں کے حقوق کو باپ سے تین درجے زیادہ رکھا ہے61جو کہ ایک عورت ہی ہے، حتی کہ اتنی رعایت ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھ رہا ہے تو ماں کے بلانے پر اسے ماں کے پاس جانا واجب ہے۔62 ماں کا حق مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اولاد کی تربیت میں ماں کو زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی ہے، ماں کی اولاد پر شفقت زیادہ ہوتی ہے، حمل، وضع حمل، دودھ پلانے اور پرورش کے دیگر مراحل طے کرنے میں ماں کو زیادہ مشقت ہوتی ہے۔63
اسلام نے خواتین کو مواقع اور ذرائع کی مناسبت سے مذہب کی ترویج و اشاعت میں اپنا حصہ ڈالنے کی بھی ترغیب دی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں خواتین نے کامیابی کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ اور تعلیمی میدان میں خدمات انجام دیں ہیں۔ اس کی ایک قابل ذکر مثال امّ المؤمنین حضرت عائشہ کی ہے جو ایک انتہائی ذہین خاتون تھیں۔صحابۂ کرام فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول کو کسی بات میں اشکال ہوتا تو ہم سیدہ عائشہ کی بارگاہ میں سوال کرتے تو آپ کے پاس سے ہی اس کا جواب پاتے۔64 آپ علوم قرآنیہ، علوم حدیث کی جامع، بڑی محدّثہ اور بڑی فقیہ خاتون تھیں۔65 آپ نے حضور ﷺ نے بہت سی احادیث روایت فرمائیں، آپ کو تاریخ پر بڑی آگاہی تھی اور اشعار عرب پر بھی بڑی نظر تھی۔ آپ سے 2210 احادیث مروی ہیں جن میں 174 متفق علیہ ہیں یعنی بخاری اور مسلم دونوں کی روایات ہیں اور 54 احادیث صرف بخاری کی ہیں اور 68 احادیث مسلم کی ہیں۔66 ان کے علاوہ بقیہ دیگر کتب احادیث میں ہیں۔نبئ اکرمﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد تقریباً 50 سال حیات رہیں اور اپنی انتہائی عمدہ یاداشت (جسے فوٹو گرافک میموری کہا جا سکتا ہے) کی بدولت آپﷺ سے سیکھی ہوئی ہر بات کو بڑی تفصیل سےبیان کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔آپ تقریبا ًنصف صدی تک امت ِ مسلمہ کے لیے ایک انتہائی معلوماتی اور تعلیمی کردار ادا کرنے میں کامیاب رہیں۔مختصر طور پر یہ کہ وہ امت کے لیے ایک زندہ ریکارڈکی حیثیت رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ عبد اللہ ابن العباس مشہور مفسرِ قرآن ہیں حضرت عائشہ کے ہی شاگرد تھے۔67
اسلام عورت کو اپنے مالی معاملات اورقانونی معاملات خود سنبھالنے کا مکمل حق دیتاہے۔ا س کے علاوہ اسلام عورت کو اپنے حقوق کے لیے شوہر یا کسی دوسرے شخص کے خلاف عدالت میں مقدمہ پیش کرنے کا بھی حق دیتا ہے۔ عدالتی گواہی کے انتظامات اور تقاضوں کے مطابق عورت کی گواہی کو اکیلے یا ساتھ تسلیم کرتی ہے۔ یہ اس کی قانونی رائے ، فیصلے اور مشاورت کو بھی قبول کرتی ہے۔ 68 ول ڈیورانٹ (Will Durant)لکھتاہے:
He placed woman on the same footing with man in legal processes and in financial independence; she might follow any legitimate profession, keep her earnings, inherit property, and dispose of her belongings at will. He abolished the Arab custom of transmitting women as property from father to son. Women were to inherit half as much as the male heirs, and were not to be disposed of against their will.69
آپﷺ نے قانونی عمل اور مالی خودمختاری میں عورت کو مرد کے ساتھ برابری عطا فرمائی۔ وہ کوئی بھی جائز پیشہ اپنا سکتی ہے، اپنی کمائی اپنے پاس رکھ سکتی ہے، جائیداد کی وارث ہوسکتی ہے اور اپنی تمام ملکیت کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتی ہے۔ انہوں نے عورتوں کو باپ سے بیٹے کی طرف مثلِ جائیداد منتقل ہونے کے زمانۂ جاہلیت کے رسم و رواج کو ختم کردیا۔ عورتوں کے لیے میراث میں مرد ورثاء کے مقابلے میں آدھا حصہ تھا جس میں ان کی مرضی کے خلاف کوئی بھی تصرف نہیں کر سکتا تھا۔
اسلامی تاریخ کے مختلف مراحل میں ہزاروں ممتاز اور باشعور تعلیم یافتہ خواتین نے سائنس، علم کے مختلف شعبوں اور عرب اسلامی ثقافت کےمختلف شعبوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ احمد بن علی بن حجر العسقلانی نےاپنی کتاب"الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ" میں 1543 خواتین کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہےجن میں عالمہ، مبلغین اور انتہائی قابل اور پڑھی لکھی خواتین شامل ہیں۔ اسی طرح امام النووی نے" تھذیب الاسماء و اللغات"میں،اسی طرح الخطیب البغدادی نے اپنی "تاریخ بغداد" میں، السخاوی نے "الضوء اللامع لاهل القرن التاسع" میں اور دیگر بہت سے اہل ِ علم اور مورخین نے قانون وفقہ، شاعری اور ادب وغیرہ جیسی علمی اصناف میں شہرت حاصل کرنے والی خواتین کے احوال مرقوم کیے ہیں ۔70اسی طرح زندگی کے دیگر شعبۂ جات میں بھی خواتین کو مناسب حق دیا گیا ہے اور انہیں فکری، علمی اور قانونی آزادی مہیا کی گئی ہے‘ مگر یقیناً اسے آزادی شرعی حدود میں رہتے ہوئے استعمال کرنے کاپابند بنایا گیا ہے جو کہ یقیناً اس آزادی سے لاکھ درجے بہتر ہےجو آج جدید مغرب عورت کو دینے پر تُلا ہوا ہے‘ کیونکہ جو آزادی عورت کو آج مغرب نے دی ہےاس کے نتیجے میں عورت صرف دل لبھانے اور مرد کی شہوانی خواہشات کی تکمیل کا آلۂ کار بن کر رہ گئی ہے، اس کی عزت، عفت، پاکدامنی، حیا، شرم و غیرت ہر چیز کو داؤ پر لگا کر نام نہاد آزادی کا وہ علم پکڑا دیا گیا ہے جو دراصل اس کے لباس کو تار تار کرکے تیار ہوا ہے۔ جب کہ اسلام نے عورت کو جو آزادی یا حقوق دئیے ہیں اس میں اس کی عزت، حرمت، عفت اور پاکدامنی کا مکمل بندوبست ہےجس کی بنیاد پرنہ تو وہ کسی مرد کی شہوت کی تکمیل کا آلۂ کار رہتی ہےبلکہ اگر وہ خود بھی شیطان کے دھوکے میں آکر کوئی غلط اور غیر سنجیدہ اقدام کرنا چاہے تو وہ کرنےسے قاصر رہتی ہے‘ گویا ایک طرف تو اس کو تمام بنیادی حقوق بھی دئیے گئے ہیں تو دوسری طرف اس کو معاشرے میں بگاڑ کا باعث نہ بننے دینے کے لیے سازگار ماحول بھی فراہم کیا گیا ہےتاکہ وہ باعزت طریقے سے اپنے حقوق بھی حاصل کرلے اور اس کا دامن بھی پاک و صاف اور طاہر و مطہر رہےتاکہ اس کے مثبت اثرات اس کی کوکھ سے جنم لینے والی اگلی نسل تک منتقل ہوسکیں۔
اسلام بچے کی ولادت پر خوشیاں منانے کی اجازت دیتا ہے۔ ان میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ نوزائیدہ بچے یا بچی کے داہنے کان میں اذان دی جاتی ہےاور اس کے بائیں کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔71ایک اوراہم رسم "عقیقہ" ہے جس میں جانوروں کی قربانی ، شیر خوار بچے کا سر مونڈنا اور خیرات کے کام انجام دینا شامل ہیں۔ بچے کی پیدائش کے ساتویں دن72 بارگاہ الٰہی میں اظہارِ شکر کے لیے ایک بھیڑ، بکری، یا مینڈھے کی قربانی دی جاتی ہے73اور اس کا گوشت غرباء، مساکین میں تقسیم کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
اسلام میں ختنہ کی ایک بہت ہی مشہور رسم ہے۔حدیث میں اس کی خاص تاکید کی گئی ہے کہ مسلمان ختنہ کرے۔74یہ كلمۂ طیبہ کی مثل شعائر اسلام میں شامل ہے اس سے کافر اور مسلمان میں باہم امتیاز ہوتا ہے۔75ختنہ عام طور پر لڑکوں کا کیا جاتا ہے لڑکیوں کے ختنہ کرنے کا تاکیدی حکم نہیں ہے۔76صحیح طریقہ یہ ہے کہ بچے کی ولادت کے ساتویں دن ختنہ کرے کہ یہ مستحب ہے۔77 آج کی جدید سائنس کے مطابق بھی مرد اور عورت کی صحت کے لیے ختنہ نہایت مفید ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کئی جراثیم ایسے ہیں جو انسان کے جسم سے دور رہتے ہیں، بصورت دیگر وہ مرد کے اضافی جلد کے نیچے پرورش پاکر شوہر اور اس کی زوجہ دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح ماؤں کو یہ تاکید کی جاتی ہے کہ وہ کم سے کم دو سال تک اپنے بچے کو دودھ پلا ئیں تاکہ بچہ صحت مند ہو۔ اگر ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے سے قاصر ہے تو اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلانے کے لیے رضاعی والدہ کی خدمات حاصل کرے۔78اس طرح یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ بچے کی بہترین نشو نما ہو سکے۔
اگر کسی بچے کے والدین کا انتقال ہوجاتا ہے تو اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ قرآن کریم نے ان کے تحفظ کے لیےقوانین دے کر ان کی املاک کو محفوظ بنایا ہے۔ قرآن مجید مسلمانوں کو ہدایت دیتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ ساتھ والدین اور ضرورت مندوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کریں جبکہ 79ساتھ ہی یہ وعید سناتا ہے کہ وہ لوگ جو یتیموں کی املاک اور حقوق غصب کرتے ہیں وہ سزا کے حقدار ہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا 1080
بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے۔
اسلامی طرز زندگی میں اولاد کی تعلیم اور اس کی تربیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بچّہ اور بچی ہی کل جوان ہوکر اسلامی معاشرے کے رکن بنتے ہیں اور باپ اور ماں کی صورت میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں۔ اگر ان کی تعلیم و تربیت پر بچپن میں بھرپور توجہ نہ دی جائے تو وہ بچہ اور بچی مستقبل میں اپنا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں جو اسلام کو ان سے مطلوب ہے۔ اسی لیے حضورﷺ کی سیرتِ طیبہ میں آپﷺ کی بچوں کے متعلق خاص نصیحتیں اور تعلیمات ہمیں ملتی ہیں جو کسی بھی قوم کی ترقی اور بہتر و روشن مستقبل کے لیے اساس کےطور پر استعمال کی جاسکتی ہیں۔
آغاز سے ہی اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے اور غلامی کے خاتمے کے دروازے کھول دئیےتھے۔ اسلام میں نہ ہی دنیاوی حقائق کو نظرانداز کیا گیا ہے اور نہ ہی غلامی کی توثیق کی گئی ہے۔ اسلام نے غلامی کو قواعد و ضوابط کا پابند بنایا ہے اور اس سے مناسب طریقے سے نمٹنے کا راستہ دیا ہے۔ جیسا کہ اینی میری(Annemarie Schimmel)نامی ایک جرمن اسکالر نے اس معاملے کی وضاحت کی ہے۔وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہے :
"...therefore, slavery is theoretically doomed to disappear with the expansion of Islam." 81
اسی لیے غلامی نظریاتی طور پر اسلام کی توسیع کے ساتھ ہی غائب ہوتی چلی گئی۔
اسلامی قانون نے ان طریقوں کو سختی سے محدود کردیا تھا جن سےغلاموں کی تعداد بڑھ سکتی تھی۔ غلامی کا واحد ذریعہ جنگی قیدی اور غلام والدین کے یہاں پیدا ہونے والی اولاد تھی۔اسلامی تعلیمات کے مطابق جنگ کی صورت میں قیدیوں کو غلام بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ قران حکیم میں جنگی قیدیوں کےلیے دیگر طریقۂ کار موجود ہیں۔ مثلاً غیر مشروط آزادی اور تاوان وغیرہ۔82غلاموں کی تعداد میں نئے اضافے کو محدود کرنے کے بعد اسلامی قانون نے موجودہ غلاموں کی حقیقت کی طرف توجہ دی اور انتہائی مصلحت اور دور اندیشی سے غلامی ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ اصول کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور غلامی حادثاتی ہے تمام علمائے اسلام نے قبول کیا ہے۔رضاکارانہ غلامی کی اجازت نہیں ہے اور کسی بھی آزاد شخص کو غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اس کےمتعلق حضرت محمدﷺنے 1400 سال قبل فرما دیا اور اس عمل کو گناہ قرار دیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:
قال اللّٰه: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعط أجرہ ".83
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کے خلاف مدعی بنوں گا، ایک وہ جس کو میرے نام کے ساتھ عہد دیا گیا، پھر اس نے اس عہد کے خلاف کیا، دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد آدمی کو فروخت کرکے اس کی قیمت کھائی (یعنی اس کو غلام بنایا یا بنوایا) اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو اجرت پر طلب کیا ،اس سے پورا کام لیا ، بھر اس کی اجرت نہیں دی۔
مزید یہ کہ غلاموں کے بارے میں نبئ اکرم ﷺکی تعلیمات ہیں کہ: تمہارے غلام تمہارےبھائی ہیں۔ خدا نے انہیں تمہاری دیکھ بھال میں رکھا ہے۔ لہٰذا جو کوئی اپنے بھائی کی دیکھ بھال کر رہا ہے اسے چاہیے کہ جو کھانا وہ خود کھائے وہ ہی اپنے غلام بھائی کوبھی کھلائے اور جو لباس وہ خود پہنے ویسا ہی لباس اپنے غلام بھائی کو پہنائے۔ اور ان پر ان کی اہلیت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ اگر ان پرکام کا بوجھ زیادہ ہے تو اضافی بوجھ بانٹ کر ان کے کام میں مدد کرے۔84
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ:جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے اور اس دوران اس نے گرمی اور دھواں برداشت کیا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے (خادم) اپنے ساتھ بٹھالے اور اسے (اپنے ساتھ) کھانے پر مجبور کرے یا پھر اس کے لیے کھانے میں سے حصہ چھوڑ دے۔85
مذہبی احکام و عبادات میں اجروثواب اور سزا کے لحاظ سے آزاداور غلام دونوں برابر ہیں۔اسلام میں ایک غلام کو ذاتی سامان اور جائیدادرکھنے کا بھی حق تھا۔ خون بہا، قصاص، بدلے یا دیّت کے معاملے میں بھی آزاد اور غلام برابر تھے۔مسلمان غلام تعلیم اور فوجی تربیت بھی حاصل کرتے تھے۔ بعد کے ادوار میں غلاموں نے مصر، ہندوستان اور ایران میں حکمران خاندانوں کی بنیاد بھی رکھی تھی۔86ایک غلام اپنے مالک سے معاہدہ کرکے آزادی بھی حاصل کرسکتا تھا۔اس سلسلے میں مالک اور غلام ایک خاص رقم پر راضی ہوجاتے تھے اور غلام طے شدہ رقم کما کر مالک کو دینے کے بعد قانونی طور پر آزاد ہو جاتا تھا ۔ اس عمل کو "مکاتبت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔قرآن کریم کی سورۃ النور میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔87ایک دوسرا عمل بھی ہےجو"تدبیر" کے نام سے جانا جاتا ہےجس کے تحت مالک کی موت پر غلام کو آزاد کیا جاسکتا تھا۔ تاہم مسلمانوں نے بڑی تعداد میں غلاموں کو محض خرید کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھی آزاد کیا تھا۔
جنسی آزادی اور غیر ذمہ دارانہ سلوک کو اسلام نے ماضی کی بے ضرراور معمولی غلطیاں قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا بلکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ یہ ایسے افعال ہیں جو انسانی معاشرے کی اصل جڑ اور بنیاد کو کھوکھلا کر کے پورے معاشرے کو بوسیدہ کرنے والے ہیں۔ لہٰذا اسلام اس مجرمانہ قانون کے تحت نکاح کے علاوہ جنسی تعلقات (Extra Matrimonial Sexual-Relationships)کے ہر عمل کو گناہ اور قابل سزا عمل قرار دیتا ہے ۔ اس کا اصل مقصد معاشرے کو ا ن تمام غیر انسانی سرگرمیوں سے پاک و صاف کرنا ہے جو اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی اور اس کے لئےمواقع فراہم کرتی ہیں۔ 88
اسلام نے لونڈیوں کی ملکیت کی اجازت دی ہےکیونکہ جنگ سے پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات کے نتیجے میں کئی عورتیں بے بس اور بے سہارا ہو جاتی ہیں ۔89 ان خواتین کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ اور ٹھکانہ نہیں ہوتا اور وہ مکمل طور پر بے بس ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب ایسی عورتیں مسلمانوں کی تحویل میں آئیں تو انہیں مناسب کھانا ، تحفظ ، لباس ، رہائش اور عزت سے نوازا گیا تھا۔ مسلمانوں کو اپنی ملکیت میں موجود لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنےکی اجازت تھی لیکن ان عورتوں کے استحصال کو سخت ناپسند کیا گیا تھا اور یہی اصول و ضوابط آج بھی ہیں۔
ایسی عورتوں کے رحم سے پیدا ہونے والے بچوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا تھا جوقانونی بیوی کے بچوں کے ساتھ روا رکھا جاتاہے۔ یوں وہ خاتون خود بخود ایک عام لونڈی کے زمرے سے نکل کر"اُم ِ ولد" کے درجے پر چلی جاتی ہےجسے ایک عام لونڈی کے مقابلے میں کئی مراعات حاصل ہوتی تھیں۔ کچھ لوگ تو اولاد کی پیدائش کے بعد ان لونڈیوں کو آزاد کرکے باقاعدہ نکاح کرلیتے تھے۔ 90مزید یہ کہ تمام مسلمانوں کے پاس کنیزیں یا لونڈیاں نہیں تھیں ، زیادہ تر ان کوآزاد کر کے ان سے شادی کر لیتے تھے۔ اس طرح کے عمل کو اسلام نے بہت پسند کیا ہے اور حوصلہ افزا قرار دیا۔91
اسلام نے انسانوں کے لیے کوئی ایک طے شدہ معیاری لباس (fixed standard clothing)مقرر نہیں کیا ہے تاہم لباس کے معاملے میں کچھ تقاضے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ لباس کے بارے میں اسلامی حکم یہ ہے کہ لباس ایسا نہ ہو کہ جس سے ستر اور پوشیدہ ا عضاء ظاہر ہوں ۔ خواتین کو اپنی پسند کے مطابق لباس پہننے کی اجازت ہے بشرطیکہ یہ لباس ان کے چہرے ، ہاتھوں اور پیروں کے علاوہ ان کے پورے جسم کو ڈھانپ دے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے بالوں کو ڈھانپنا بھی ضروری ہے۔ بعد کے ادوار میں کچھ علمائے اسلام نے احادیث نبوی کی روشنی میں چند معاشروں کی ضروریات کے پیش ِ نظر خواتین کو اپنی حفاظت کی خاطر چہرہ ڈھانپنے کی بھی ترغیب دی ہے۔
مردوں کے لیے ناف اور گھٹنوں کے درمیان کا حصہ ڈھانپنا فرض ہے92 لہٰذا اگر انسان استطاعت رکھتا ہے تو اسے اچھا لباس زیب تن کرنا چاہیے۔ اسلام یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ لباس کم از کم اتنا ڈھیلا ہو کہ جسمانی اعضاء ظاہر نہ ہوں۔ جلدسے چپکے ہوئے تنگ لباس، پتلے اور باریک لباس، جسم کی ساخت اور بناوٹ ظاہر کرنے والے لباس اور فیشن کے طور پر پھٹے ہوئے لباس پہننے سے منع کیا گیاہے۔عام طور پر کچھ مسلمان خواتین جسم کو چھپانے کے لیے اپنے لباس پر چادر اوڑھ لیتی ہیں جس کو اسلامی تہذیب میں بنظر استحسان کے دیکھا جاتا ہے۔
لباس کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعد کے ادوار میں ایسے بھی لوگ ہوں گے جو لباس میں ملبوس ہوں گے مگر پھر بھی وہ برہنہ جسم اور بے لباس ہوں گے۔ علمائے اسلام نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ لوگ ایسے باریک اور جسم کو ظاہر کرنے والے لباس پہنتے ہوں گےکہ ان کا جسم یہاں تک کہ ان کے پوشیدہ اعضاء بھی اس لباس سے دکھائی دیتے ہوں گےجیسا کہ آج کل با آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس قسم کا لباس پہننے والے افراد کو جنسی حملوں کا خطرہ ہوتا ہے اور وہ معاشرے کے اخلاقی بگاڑ اور جنسی ہوس کو ہوا دینے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اسی لیے انہیں آخرت میں تکلیف دہ سزاؤں کی تنبیہ کی گئی ہے93 اور مسلمانوں کو اس سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔
اسلام لوگوں کو اپنی قدرتی بناوٹ اور شکل و صورت پر راضی رہنا سکھاتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ مسلمان کو مسلمان کی طرح ہی نظر آنا چاہیے نہ کہ اپنے آس پاس کے دوسرے عقائد کے لوگوں کی تقلید کرنی چاہیے۔ خواتین کو اپنی نسوانیت پر خوش رہنا چاہیے نہ کہ مردوں کی طرح لباس پہن کر ان کی نقالی کرنی چاہیے۔ اسی طرح مردوں کو اپنی مردانگی پر راضی رہناچاہیے اور اپنے لباس اور چہرے میں خواتین کی نقل کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ اسی وجہ سے مسلمان مردوں کو سونے یا ریشم پہننے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ نسوانی لوازمات سمجھے جاتے ہیں۔94
اسلامی تعلیمات اور احکامات جو یقیناً انسانی نفسیات سے مطابقت رکھتے ہیں ،صحت مندانہ تفریح اور بامقصد خوشی کے اظہار کے مواقع کو فروغ دیتے ہیں۔ اسلام میں ایسی تمام تفریحی سرگرمیوں کی اجازت ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی نہ ہوں نیز یہ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔
کنبہ یا خاندان ایک انسانی سماجی گروہ ہے جس کے ارکان خون کے رشتے یا ازدواجی تعلقات کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ جاتےہیں۔ شادی (نکاح)کو معاشرے کی اساس تسلیم کیا جاتا ہے۔ بحیثیت ادارہ شادی(نکاح) انسان کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے اور یہ نسل انسانی کے تسلسل کا ایک ذریعہ ہے۔ شادی(نکاح) اگرچہ ایک معاہدہ ہے تاہم یہ باہم محبت و انس کو فروغ دینے والا عمل بھی ہے۔ اس کے مقاصد میں نفس کو قابو میں رکھنے، بچوں کی پیدائش اورمعاشرے کی فلاح اور بہتری کا نظم و نسق شامل ہے۔ نکاح کا بنیادی مقصد نسل انسانی کا تحفظ ہے جس کے تحت عصمت کی پاکیزگی اور شوہر و بیوی کے مابین محبت اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے مر د وعورت کے مابین جنسی تعلق(جماع) کی منظوری ہے۔ یہ جنسی تعلق کو جائز کرنے اور بچوں کی پیدائش کا ایک معاہدہ ہے تاکہ قابل احترام اور قانونی طریقے سے تمام حیاتیاتی و جسمانی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔
اسلامی نظام میں شادی(نکاح) اور کنبہ مرکزی حیثیت کے حامل ہیں۔ یہ دراصل زندگی، معاشرے اور نسلِ انسانی کے با وقار، بامقصد تسلسل اور بقا کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسا عہدہے کہ شادی(نکاح) کے بندھن میں بندھ جانے والے مرد و عورت نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ وفا کرتے ہیں بلکہ ان کا یہ عہداپنے معبود ِ حقیقی کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک قسم کا عہد ہے جس میں وہ باہمی تکمیل و خود شناسی، محبت وامن، ہمدردی و سکون اور راحت کو تلاش کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اسلام میں شادی(نکاح) کو اولین انسانی ضرورت، نیک عمل ، اخلاص اور دینداری کا محرک سمجھا جاتاہے۔
ازدواجی اقدار اور شادی(نکاح) کے مقاصد کا اسلامی تہذیب اور نظامِ حیات میں ایک خاص معنی و مفہوم ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ سے جڑا ہو تو اس مقصدِ حیات کو مزید تقویت ملتی ہے نیز اسے مذہبی وابستگی اور خدائی نعمتوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ یہی اسلام میں شادی(نکاح) کا مرکزی نقطہ ہے جو مرد و عورت میں محبت و الفت اورخلوص پر مبنی ایسے جائز اور پاکیزہ رشتے کی بنیاد رکھتا ہے جس میں نہ صرف کسی معاشرے کی بلکہ پوری نسلِ انسانی کی بقا اور سالمیت کا راز پنہاں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو نکاح کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
نکاح انبیائےکرام کی سنتوں میں سے ایک ہے ۔ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ نکاح ہر اس مسلمان کے لیے ضروری ہے جو جسمانی طور پر تندرست ہو اور معاشی طور پراس کا متحمل ہو نیزجو معاشی تنگدستی یا دیگر وجوہات کی بنا پر نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔95مزید یہ کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت کو ناپسند کرتا ہےاس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔96
دیگر تہذیبوں کے برخلاف اسلامی تہذیب میں خواتین کو نکاح کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔ نبی اکرمﷺ کی تعلیمات اور سنت کی رُو سے ازدواجی معاہدے کے قیام، صحت اور قانونی حیثیت کے لیےلڑکی کی رضامندی سب سے اہم بنیادی شرط ہے۔اگر والدین لڑکی سے اس کی رضامندی معلوم کیے بغیر اپنی مرضی سے نکاح طے کردیں تو لڑکی ایسی صورت میں شادی سے انکار کرسکتی ہے۔ حضرت ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ ایک لڑکی حضور اقدسﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اس کے والد نے اس کی رضامندی کے بغیر اسے زبردستی شادی کرنے پر مجبور کیا ہے۔نبئ کریم ﷺنے اسے انتخاب کا حق دیا کہ چاہے توشادی کو قبول کرلے یا اسے باطل قرار دے۔97
نکاح کی حقیقت مرد و عورت کی جانب سے ایجاب و قبول ہے98 اس کے لیے شرط یہ ہے کہ لڑکا و لڑکی عاقل ہوں، اس کے علاوہ ان کا بالغ ہونا بھی شرط ہے لیکن اگر نابالغ سمجھدار ہیں تو نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا۔ مزید یہ کہ گواہ موجود ہوں یعنی ایجاب و قبول دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ہو۔ مسلمان کے لیے مسلمان گواہ کا ہونا ضروری ہے کافر کی شہادت یہاں معتبر نہیں۔99 نبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: نکاح صدق یا مہر (Dower)، ولی(Guardian)اور شاہِدَین (Witnesses)کے بغیر منعقد نہیں ہوتا ہے۔100 اگر لڑکی بالغ ہے تو اس کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔ مہر کا تعین جائز نکاح کی ایک سب سے اہم ضرورت ہے۔ شوہر کی طرف سے بیوی کو حق مہر دینا بیوی کے حقوق میں سے ہے جس کا ادا کرنا قرآن کریم نے فرض قرار دیا ہے۔101
ایک شخص کو ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار بیویاںرکھنے کی اجازت ہے لیکن اس شرط پر کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے تمام حقوق یکساں طور پر پورا کرنے کے قابل ہو۔اگر وہ ایسا کرنے سے قاصرہے تو اسے صرف ایک عورت سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سورۃ نسامیں اللہ تعالی ٰ کافرمان ہے کہ:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا 3102
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکوگے تو ان عورتو ں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہو ، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرط عدل ہے )پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں )عدل نہیں کرسکوگے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں ، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو ۔
دوسری طرف خواتین کو ایک وقت میں صرف ایک مرد سے نکاح کرنے کی اجازت ہے تاکہ بچے کی نسل اور اس کا نسب محفوظ رہے۔ اگر اسے بھی ایک ہی وقت میں چار شوہر رکھنے کی اجازت دی جاتی تو پھر بچے کی حقیقی باپ کا تعین اور بچے کی نسل معلوم کرنا خاصا دشوار ہوجاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی سماجی ، اخلاقی اور معاشی مسائل بھی جنم لے سکتے تھے ۔ اسی لیے شریعت مطہرہ کا حکم انسانی نفسیات اور معاشرتی تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔
اسلام میں نکاح انتہائی آسان اور سادہ عمل ہے۔ اس میں دولہا اور دلہن پر کسی قسم کا بوجھ نہیں پڑتا ہے۔ دلہن، دولہا اور ان کے والدین یا ولی کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد دولہا کم از کم دو سمجھدار مسلمان بالغ افراد کے سامنے حق ِمہر پر متفق ہونے کے بعد دلہن کو نکاح کی پیش کش کرتا ہے اگر دلہن اس پیش کش کو قبول کرلے تونکاح منعقد ہو جاتا ہے۔
یہ تمام عمل صرف زبانی طور پربھی کیا جاسکتا ہے لیکن قانونی مقاصد کے لیے مناسب ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد ایک شخص عموماً نکاح سے متعلق اسلامی تعلیمات کے حوالے سےخطبہ دیتا ہے جو رسول اللہﷺ کی سنت ہے اس کے بعد نوبیاہتا جوڑے کی خوشحال زندگی کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ پھر اگر دلہا دلہن یا ان کے والدین یا ان کے اعزاو اقربا استطاعت رکھتے ہیں تو وہ حسب ِ توفیق ایک دعوت کا اہتمام کرتے ہیں جسے "ولیمہ" کہا جاتا ہے۔103
ولیمہ کرنا بھی رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺنے خود اپنےنکاح کے بعد دعوتِ ولیمہ کا اہتمام فرمایا تھا۔آپﷺ نے حضرت زینب بنت جحش سے نکاح کے موقع پر گوشت اور روٹی جبکہ حضرت صفیہ سے شادی کے موقع کھجور ، پنیر اور مکھن سے بنے کھانے کا اور ایک اور موقع پر جَو کی روٹی کا اہتمام فرمایا تھا۔104حدیث مبارکہ میں یہ بھی آیا ہے کہ شادی کی دعوت میں زیادہ سے زیادہ مہمانوں کی شرکت مستحن ہے کیونکہ ایک طرف تو اس سے شادی کا زیادہ وسیع پیمانے پر اعلان ہوتا ہے اور دوسری طرف زیادہ سے زیادہ افراد کنبے اور دولت میں برکت اور رحمت کی دعا کرتےہیں۔105 ایک طرف نوبیاہتا جوڑے کی خوشی میں سب شریک ہوتے ہیں تو دوسری طرف زنا جیسی حرام کاری اور باعثِ عار عمل سے بچنے کی ان کو ترغیب ملتی ہےکیونکہ گناہ گار سے گناہ گار شخص بھی زنا کی لعنت میں ملوث ہونے کے عمل کو لوگوں سے چھپانا چاہتا ہے جو کہ اس کے لیے ذہنی اور روحانی اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ اس کے برعکس نکاح کا حلال عمل جنسی خواہشات کی باعزت تکمیل کا ذریعہ ہے جس کا لوگوں میں متعارف ہوجانا قلبی سکون میسر آجاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر کھلے عام نکاح کا یہ فائدہ ہوتا ہےکہ مرد و عورت دونوں لوگوں کی نگاہ میں ایک دوسرے کے لیے مخصوص ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں عمومی طور پر ان کو گناہ کی دعوت دیتے ہوئے جنس مخالف کے لیے شرعی اصول و ضوابط، قانون، اخلاق اور معاشرہ آڑ بن جاتا ہے اور وہ زنا کی لعنت سے بنسبت ایک غیر شادی شدہ شخص کے زیادہ محفوظ ہوجاتے ہیں۔
مسلمان کسی بھی عورت سے نکاح کرسکتے ہیں سوائے ان خواتین کے جنہیں قرآن مجید نے ممنوع قرار دیا ہے۔ ممنوعہ خواتین کی دو اقسام ہیں:
نکاح سے عورت شوہر کی پابند ہوجاتی ہے ، اس پابندی کے اٹھادینے کو طلاق کہتے ہیں ۔ اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اسی وقت نکاح سے باہر ہوجائے اسے بائن کہتے ہیں ، دوم یہ کہ عدت گزرنے پر باہر ہوگی ، اسے رجعی کہتے ہیں ۔112طلاق دینا جائز ہے لیکن اگر بغیر کسی وجہ کے ہے تو شرعی طور پر ممنوع ہے اور اگر کوئی وجہ ہے تو مباح ہے یعنی دے سکتا ہے۔ 113
طلاق کی تین قسمیں ہیں: اَحسن، حسن اور بِدعی۔ جس طہر 114میں وطی نہ کی ہو اُس میں ایک طلاق رجعی دے اور چھوڑے رہے یہاں تک کہ عدّت گزر جائے، یہ طلاقِ احسن ہے۔
اگر غیر موطؤہ 115کو طلاق دی اگرچہ حیض کے دنوں میں دی ہو یا موطؤہ 116کو تین طہر میں تین طلاقیں دیں، بشرطیکہ نہ ان طہروں میں وطی کی ہو نہ حیض میں، یا پھر تین مہینے میں تین طلاقیں اُس عورت کو دیں جسے حیض نہیں آتا مثلاً نا بالغہ یا حمل والی ہے یا عورت سنِ ایاس 117کی عمر کو پہنچ گئی ہو تو یہ سب صورتیں طلاق حسن کی ہیں۔118
طلاق بدعی کی تین صورتیں ہیں :اول یہ کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دفعۃً دی جائیں خواہ ایک کلمہ سے ہو، مثلاً اپنی بیوی کو کہے : تم کو طلاق دی، تم کو طلاق دی، تم کو طلاق دی۔ دوم یہ کہ عورت کی ماہواری کے ایام میں اس کو ایک طلاق دی جائے اس طلاق سے رجوع کرنا واجب ہے اور یہ طلاق شمار کی جاتی ہے۔ سوم یہ کہ جن ایام میں عورت سے وطی کی ہو، ان ایام میں عورت کو ایک طلاق دی جائے۔ طلاق بدعی کسی صورت میں ہو اس کا دینے والا گناہ گار ہوتا ہے۔119
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ229 فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ230وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ 231120
دوبارطلاق دینے کے بعد یا تو دستور کے مطابق روک لینا ہے، یا اس کو حسن سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لیے اس (مہر یا ہبہ) سے کچھ بھی لینا جائز نہیں ہے جو تم ان کودے چکے ہو، مگر جب دونوں فریقوں کو یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے ، سو (اے مسلمانو ! ) اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدود کی قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت نے جو بدلِ خلع دیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ اللہ کی حدود ہیں سو تم اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرو، اور جنہوں نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ پھر اگر اس کو (تیسری) طلاق دے دی تو وہ عورت اس (تیسری طلاق) کے بعد اس پر حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کرے، پھر اگر وہ (دوسرا خاوند) اس کو طلاق دے دے تو پھر ان پر کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اس (طلاق کی عدت کے بعد) پھر باہم رجوع کرلیں اگر ان کا یہ گمان ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں جن کو اللہ ان لوگوں کیلیے بیان فرماتا ہے جو علم والے ہیں۔ اور جب تم عورتوں کو (رجعی) طلاق دو، پھر وہ اپنی عدت (کی میعاد) کو پہنچیں تو انھیں دستور کے مطابق (اپنے نکاح میں) روک لو یا ان کو حسن سلوک کے ساتھ چھوڑ دو ، اور ان کو ضرر پہنچانے کے لیے نہ روکے رکھو تاکہ تم ان پر زیادتی کرو ، اور جس نے ایسا کیا تو بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا ، اور اللہ کی آیتوں کو مذاق نہ بناؤ ، اور تم پر جو اللہ کی نعمت کی گئی ہے (اس کو) یاد کرو اور اللہ نے تم پر جو کتاب اور حکمت ناز کی ہے وہ تم کو اس کی نصیحت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور یقین رکھو کہ اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
طلاق(Divorce)ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو غیر معمولی صورتحال میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ لیکن اس انتہائی جذباتی معاملے میں بھی قرآن مجید مسلمانوں کو انصاف ، نرمی ،رحمدلی اور نیکی پر مبنی برتاؤکرنے کا حکم دیتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں کی اجازت(یعنی حلال یا جائزہیں) ہے ان میں سے اللہ تعالیٰ کو طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔121
اسلام کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ نکاح کے رشتہ میں منسلک ہوجائیں تو ان کے نکاح کو قائم رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے اور اگر کبھی ان کے درمیان اختلاف یا نزاع پیدا ہو تو رشتہ دار اور مسلم سوسائٹی کے ارباب حل وعقد اس اختلاف کو دور کرکے ان میں صلح کرائیں اور اگر ان کی پوری کوشش کے باوجود زوجین میں صلح نہ ہو سکے اور یہ خطرہ ہو کہ اگر یہ بدستور رشتہ نکاح میں بندھے رہے تو یہ حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے اور نکاح کے مقاصد فوت ہوجائیں گے تو ان کو عدم موافقت اور باہمی نفرت کے باوجود ان کو نکاح میں رہنے پر مجبور نہ کیا جائے، اس صورت میں ان کی، ان کے رشتہ داروں اور معاشرہ کے دیگر افراد کی بہتری اور مصلحت اسی میں ہے کہ عقد نکاح کو توڑنے کے لیے شوہر کو طلاق دینے سے نہ روکا جائے۔ طلاق کے علاوہ عقد نکاح کو فسخ کرنے کے لیے دوسری صورت یہ ہے کہ عورت شوہر کو کچھ دے دلا کر خلع کرا لے اور تیسری صورت قاضی کی تفریق ہے اور چوتھی صورت یہ ہے کہ جن دو مسلمان حَکموں کو نزاعی حالت میں معاملہ سپرد کیا گیا ہو اوہ نکاح کو فسخ کرنے کا فیصلہ کردیں۔
طلاق دینے کا حق مرد کو تفویض کیا گیا ہے حالانکہ عقد نکاح عورت اور مرد دونوں کی باہمی رضامندی سے وجود میں آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عورت مغلوب الغضب اور جذباتی ہوتی ہے اور اس کو جلد غصہ آتا ہے اگر طلاق دینے کا معاملہ عورت کے اختیار میں ہوتا تو وقوع طلاق کی شرح دو چند سے بھی زیادہ بڑھ جاتی۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ عورت کے مطالبہ اور اس کی ضد پر شوہر طلاق دیتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد کے مقابلہ میں عورت کی قوت فیصلہ کمزور ہوتی ہے، خصوصاً ایام حیض میں عورت ذہنی اضطراب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے منتشر الذہن اور مزاج میں چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتی ہے، اس لیے اگر طلاق دینے کا معاملہ عورت کے سپرد کیا جاتا تو شرح طلاق زیادہ ہوجاتی اور اکثر ہنستے بستے گھر ویران ہوجاتے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں اور فسخ نکاح کا معاملہ ناقص العقل کے سپرد کرنے کے لائق نہیں ہے۔ طلاق کا معاملہ مرد کو تفویض کرنے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ چونکہ مرد اپنا مال خرچ کرکے حقوق زوجیت حاصل کرتا ہے اس لیے ان حقوق سے دست کش ہونے کا اختیار بھی اسی کو دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو شخص اپنا روپیہ خرچ کرکے کوئی چیز حاصل کرتا ہے وہ اس چیز کو آخری حدتک رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور صرف اس وقت اس چیز کو چھوڑتا ہے جب اس کو چھوڑنے کے سوا اور کوئی چارہ کار باقی نہ رہے۔ اس کے برخلاف حقوق زوجیت کو قائم کرنے میں عورت کو کوئی محنت کرنی پڑتی ہے نہ پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے اس لیے اگر طلاق کی باگ ڈور عورت کے ہاتھ میں دے دی جاتی تو عورت کو طلاق واقع کرنے میں اس قدر سوچ وبچار اور تامل کی ضرورت نہ ہوتی۔ علاوہ ازیں یہ اقدام عدل و انصاف کے بھی خلاف ہوتا۔ 122
طلاق کو مرد کے اختیار میں دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وقوع طلاع میں عورت کا بالکل دخل نہیں ہے۔ عورت کو خلع کا اختیار دیا گیا ہے اگر عورت کو مرد کی شکل و صورت پسند نہ ہو یا کسی اور طبعی نامناسبت کی وجہ سے وہ مرد کو ناپسند کرتی ہو تو وہ اپنا مہر چھوڑ کر یا کچھ مال دے کر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ثابت بن قیس کی بیوی نبی کریمﷺکے پاس گئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہﷺ ! میں ثابت کے خُلق اور اس کے دین کے بارے میں کوئی حرف گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام کے بعد کفر (ناشکری یا شوہر کے حقوق کو ادا نہ کرنا) کو ناپسند کرتی ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : کیا تم اس کا باغ واپس کردوگی ؟ (ثابت نے ان کو مہر میں باغ دیا تھا) انھوں نے کہا : ہاں ! رسول اللہ ﷺ نے ثابت سے فرمایا : باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو۔123
اس حدیث کی روشنی میں یہ ہونا چاہیے کہ جب کسی عورت کو کسی طبعی ناہمواری کی وجہ سے شوہر ناپسند ہو اور یہ نفرت اس قدر بڑھ جائے کہ وہ اس نفرت کی وجہ سے شوہر کے حقوق ادا نہ کرسکے تو پھر وہ قاضی اسلام سے رجوع کرے جو اسے مہر واپس کرکے شوہر سے طلاق دلادے۔ یاد رہے کہ یہاں قاضی شوہر سے طلاق دلوائے گا از خود نکاح فسخ نہیں کرے گا۔ 124جب خلع ہوجائے تو طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور جو مال ٹھہرا ہے عورت پر اُس کا دینا لازم ہوتا ہے۔125
زمانۂ جاہلیت میں عرب لڑکوں اور لڑکیوں کو فقر کے ڈر قتل کردیا کرتے تھے126اس کے علاوہ وہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھتے۔ کیونکہ رہزنی اور قزاقی جو اِن کے سب سے بڑے وسائلِ معاش تھے، اس میں لڑکے تو حصہ لیتے لیکن لڑکیاں بڑی ہو کر بھی اس میں ان کا ہاتھ نہیں بٹا سکتی تھیں۔127 اس وقت اسلام ایک ایسےواحد مذہب کے طور پر سامنے آیا جس نے نہ صرف اس بربریت کی شدید انداز سے مذمت کی بلکہ ہر بچے کے حقوق کا تحفظ کیا اور اس وحشیانہ رسم کو ختم کردیا۔قرآن مجید میں مشرکین کے حالات کا تذکرہ مندرجہ ذیل طریقے سے کیا گیاہے۔
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ 58 يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ 59 128
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خوش خبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے۔وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔
ایک باشعور اور سمجھدار شخص کواس بات پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ قرآن پاک لڑکی کی پیدائش کے بارے میں کتنے بہترین الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ "خوشخبری" کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام میں لڑکیوں کو کتنی عزت اور اہمیت دی جاتی ہے اور اسے اللہ کی رحمت سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔ مزید یہ کہ قرآن پاک نے انسانیت کوواضح طور پر یہ حکم دیا ہے کہ وہ بھوک و افلاس ، غربت یا وسائل کی کمی کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کریں۔129اس نے انسانوں پر یہ بھی واضح کردیا کہ اللہ نےانہیں، ان کی اولاد اور دنیا کے ہر جاندار کو رزق دینے کی ذمہ داری خود لی ہے۔130 لہذا تمام انسانوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیئے اور اسی سے کشادگئ رزق کی دعا و درخواست کرنی چاہیئے ۔
اسلام جسم فروشی کو معاشرے میں پریشانی اور انتشار کی ایک بنیادی وجہ سمجھتا ہے کیونکہ یہ ناجائز تعلقات اور زنا کاری کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے برخلاف اسلام نکاح کی شکل میں مرد اور خواتین کے مابین ایک بہت ہی معزز اور قابل احترام رشتہ شادی کی صورت پیش کرتا ہے اور ہر حالت میں زنا کی مذمت کرتا ہے۔ اسلام ایک مسلمان کو زنا کے قریب جانے کی بھی اجازت نہیں دیتا ہے اور ان الفاظ میں اس کے خلاف سخت سزا کا اعلان کرتا ہے:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ 2131
بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر اللہ کے دین (کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہیے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہیے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو۔
اس سزا کی شدت، خصوصاً نکاح کے بعد سنگسار کرنے کی سخت سزا اس جرم کی شدت کو ظاہرکرتی ہے۔ یہ سزا انسانوں کو اذیت دینے کے لیے نہیں بلکہ ان کی بہتری و بہبود اور پورے معاشرے کی بھلائی کے لیے تعلیم کی گئی ہے۔ اس طرح کی سزا جسم فروشی اور دوسرے ناجائز تعلقات سے باز رکھنےکے عمل کو یقینی بناتی ہے ۔ اسی طرح جب عوام زنا سے باز آجائیں گے اور لوگوں کے حقوق پامال نہیں ہوں گے تو ایک متوازن معاشرہ قائم ہوگا، اسی لیے اسلام نے زنا کے متبادل کے طور پر تعدد ازواج کے طریقۂ کار کی ترغیب دی ہے اور لوگوں کو ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی طرف ابھارا ہے تاکہ ہر عورت اور اس کی اولاد کا کوئی ولی ہو جو ان دونوں کو ناصرف اپنا نام دے بلکہ ان کے جملہ معاملات کی کفالت کرکے دونوں کو باعزت زندگی مہیا کرسکے۔
یہ خیال کہ جنسی تعلق صرف محبت ، خوشی اور جسمانی تسکین تک محدود ہےاور خاندانی نظام کی تشکیل سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہ اسلام کی رو سے بالکل غلط خیال ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ "ہم جنس پرستی" خود ایک غیر فطری اور حیوانی عمل ہے جو صرف اور صرف جسمانی اور معاشرتی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ہم جنس پرستی کے بارے میں ، قرآن پاک فرماتا ہے:
أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ 165 وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ 166132
یا تم سارے جہان والوں میں سے صرف مَردوں ہی کے پاس (اپنی شہوانی خواہشات پوری کرنے کے لیے) آتے ہو، اور اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہو جو تمہارے رب نے تمہارے لیے پیدا کی ہیں، بلکہ تم (سرکشی میں) حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔
قرآن حکیم میں بیان کیا گیا ہے کہ ہم جنس پرستی میں ملوث لوگوں کو ماضی میں بھی سخت سزا دی گئی تھی اور ان کی بستیاں اور پوری پوری تہذیبیں تباہ و برباد کردی گئی تھیں۔ مزید یہ کہ فطرت کا قانون یہ ہے کہ عورتیں مردوں کے لیے اور مرد عورتوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ لہذا اس ترتیب کو اسی طرح قائم رہنا چاہیے۔ بصورت دیگر انسانی معاشرے غیر اخلاقی طرز عمل کواخلاقیات کا معیارسمجھنے لگیں گے جس کے نتیجے میں معاشرہ تباہی کی راہ پر گامزن ہو کر ضلالت و گمراہی کا شکار ہوجائےگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پرستی کو اسلام ایک بہت بڑا جرم گردانتا ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے مجرموں (consensual perpetrators) کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔
مجموعی طور پر اسلام، عقل و شعور، علم و آگہی اور منطقی سوچ و طرزِعمل کا دین ہے۔ یہ مؤمن کے ایمان کو اس کی علمی، اخلاقی، جمالیاتی، معاشرتی اور معاشی زندگی سے مربوط کرتاہے۔ قرآن انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کو روح کی گہرائیوں کو کھوجنے، اس کے پوشیدہ حصوں میں روشنی بھرنےاور فطرت کی تلاش کی جستجو کےلیےاستعمال کرے۔133
اسلامی مذہبی اور فکری روایات جو قرآنِ مجید اور احادیث نبویﷺ پر مبنی ہیں دراصل معاشرتی ہم آہنگی کے لیے طرز عمل کی حدود کو منظم کرنے کابنیادی ذریعہ ہیں۔ اسلامی تعلیمات حق اور سچ پر مبنی نظریے اور راستے پر توجہ مرکوزکرنے کی ترغیب دیتی ہیں جو لوگوں کو اپنے خالق سے جوڑتی ہے۔ مزید یہ کہ قرآن و سنت کی ہمہ جہت تعلیمات انسان کے باطنی تزکیہ اور جذبۂ محبت کو اجاگر کرتی ہیں جو پہلے افراد کو متحد کرتی ہے اور پھر ایک پُرامن روشن خیال اور ترقی پسند معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ قرآن اور حدیث پر مبنی اسلامی تعلیمات کا محور احکام الٰہی کی پابندی اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیےروئیے اور برتاؤ کی حدودمرتب کرناہے۔اسلامی نظام مستند نظریے اور ہدایت پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو لوگوں کو اپنے خالق و مالک سے جوڑنے کا واحد ذریعہ ہے۔