دین اسلام کا تصور ِعبادت دیگر مذاہب سے یکسر مختلف اور منفرد ہے۔ قرآن میں عبادت کی اصطلاح "عبدیت" کے معنوں میں استعمال ہوئی ہےجس کا معنی یہ ہیں کہ انسان اور اللہ تعالیٰ کے مابین "عابد" اور "معبود" کا رشتہ پایا جاتا ہے۔اس مفہوم کے اعتبار سے اسلام میں عبادت کا وظیفہ مخلوق کو خالق کے ساتھ عبودیت کے رشتہ میں منسلک کرنا ہے اور پھر اس تعلق کو مزید توانائی فراہم کرنے کے لیےاسے ایک ہمہ وقت عمل میں بدلنا ہے تاکہ اسے مزید تقویت اور دوام حاصل ہو سکے‘ اسی لیےلغوی طور پربھی "عبادت" کی اصطلاح سے"عبد" بننے اور مسلسل عبودیت کے عمل کا اظہار ہوتا ہے۔
دیگر مذاہب میں عبادت کی حیثیت زندگی کے ایک جزو کی سی ہے جبکہ اسلام میں عبادت زندگی کے کُل پر محیط ہے۔ باقی مذاہب اپنے تصورِ زندگی میں "ثنویت" کے قائل ہیں۔ اسی بنا پر یہ انسانی زندگی کو دو متحارب حصّوں یعنی مذہبی اور لامذہبی (Religious & Secularism)زندگی میں تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً اس حوالہ سے عیسائیت کا شہرہ آفاق جملہ ہے، "جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دے دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دے دو" ۔اسی طرح ہندومت، یہودیت، بدھ مت اور زرتشت مذاہب کے ہاں بھی زندگی کے "مادی"اور "روحانی" پہلوؤں کے درمیان اسی طرح کی تقسیم موجود ہے۔ لہٰذا عیسائیت کی طرح ان مذاہب میں بھی عبادت صرف چند اعمال اور رسومات کا نام ہے۔ دراصل اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب عقیدہ "ثنویت" کے داعی ہیں اسی بنا پر یہ مذاہب دنیاوی علائق کو مذہبی زندگی سے خارج قرار دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کا تصورِ عبادت بھی جزوی ہے یعنی صرف چند خاص اعمال اور رسومات پر محیط ہے۔
اس کے برعکس اسلام دین و دنیا میں ہر طرح کی " ثنویت" کا انکار کرتے ہوئے زندگی کو "وحدت" کے آئینے میں دیکھنے کا قائل ہے۔اسلام کے مطابق دوئیت کا تعلق صرف ظواہر سے ہے جبکہ حقیقت اپنے مختلف مظاہر کے باوجودبھی صرف ایک ہے۔ خدا اسلام کے مطابق مطلقاً "خیر"ہے جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خدا کے تمام افعال بھی خیر پر مبنی ہوں، چاہے ان افعال کا تعلق روح سے ہو یا مادہ سے۔
اللہ تعالی نے جس عبادت کے لیے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور جس کا حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں ہر وقت ہر حال میں خدا کے قانون کی اطاعت کرے اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہوجائے جو قانونِ الٰہی کے خلاف ہو۔ انسان کے جملہ افعال و اعمال اس حد کے اندر ہوں جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ لہذا خدا کی اصل عبادت یہی ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے مرتے دم تک آپ خدا کے قانون پر چلیں اور اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس عبادت کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ اگر انسان کہتا ہے کہ میں فلاں وقت اللہ کا بندہ ہوں اور فلاں وقت اس کا بندہ نہیں ہوں تو وہ یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ فلاں وقت خدا کی عبادت کے لیے ہے اور فلاں وقت اس کی عبادت کے لیے نہیں ہے۔1
وہ تمام مذہبی عبادات و رسومات جنہیں مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے ان سےاسلامی نظام کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ اس حقیقت کی واضح گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ اسلام میں روحانی اصلاح و ترقی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے جس پراسلامی معاشرت اور سیاسی نظام کی عمارت قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے احکامات پرسر ِتسلیم خم کیے بغیر کوئی بھی انسان اسلامی تقاضوں کو پورا کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا ہے۔ یوں اسلامی تعلیمات و رسومات نہ صرف انسان کی دنیوی و مادی ترقی بلکہ روحانی ترقی و نمو کا ذریعہ بھی بنتی ہیں جس کے نتیجہ میں زندگی کے تمام معاملات و افعال اسلامی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں۔2
اہم فرائض و عبادات کو اسلام کے ارکان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کےمتعلق حضورﷺ نے فرمایا :
وعن ابن عمر قال:قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: بنی الاسلام على خمس: شهادة ان لااله الا اللّٰه وان محمد عبده ورسوله، واقام الصلاة، و ایتاء الزكاة، والحج، و صوم رمضان .3
عبد اللہ بن عمر بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: پانچ چیزیں اسلام کی بنیاد ہیں: شہادت دیناکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ کی ادائیگی کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کی ادائیگی۔
اللہ کی وحدانیت کی دل وزبان سےگواہی دینا اور یہ تسلیم کرنا کہ حضرت محمدﷺاس کے بندے اور آخری رسول ہیں‘ اسلام کا پہلا ستون ہے۔ اسی نظریے کو توحید کہا جاتا ہے اور اسی گواہی کے ساتھ ایک شخص یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ جو عبادتیں مسلمانوں پر فرض کی گئی ہیں ان کا مقصد مسلمانوں کو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی تابعداری اور اس کے احکام پر عمل درآمد کے لیے تیار کرنا ہے۔ ان عبادات کو مسلمانوں نے زندگی میں ہر حال میں ادا کرنا ہے۔ نماز دن میں پانچ بار یاد دلاتی ہے کہ تم اللہ کے بندے ہو اور اسی کی بندگی کرنی چاہیے۔روزہ سال میں ایک مرتبہ پورے مہینے تک اسی بندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ زکوٰۃ مسلمان کو بار بار یاد دلاتی ہے کہ یہ مال جو تم نے کمایا ہے خدا کا عطیہ ہے،اس کو صرف اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنے پر خرچ نہ کرو، بلکہ اپنے مالک کا حق ادا کرو۔ حج دل پر خدا کی محبت اور بزرگی کا ایسا نقش بٹھاتا ہے کہ ایک مرتبہ اگر وہ بیٹھ جائے تو تمام عمر اس کا اثر دل سے دور نہیں ہوسکتا۔ 4 ان تمام عبادات کی مختصر وضاحت درج ذیل ہے:
اسلامی تہذیب میں عبادت کا تصور دوسری قدیم تہذیبوں کی عبادات سےیکسرمختلف ،انتہائی قابل فہم ،قابل ِ عمل،فطری اور بالکل منفرد ہے۔ یہ رومیوں کی طرح کے"تبادلےکے معاہدے"جیسا نہیں ہےاور نہ ہی دیگر قدیم تہذیبوں کی طرح اس میں ثقافتی عوامل اور فرقہ ورانہ طور طریقےشامل ہیں اور نہ ہی اس کی انجام دہی کے لیے کسی خاص مذہبی رہنما یا پروہت کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز ایک شخص بالکل اکیلےبھی ادا کرسکتا ہے اور تنہائی میں اپنےخالق و مالک سے مناجات اور نعمتوں پربھی اس کا شکر بجالاسکتا ہے۔تاہم معاشرتی اتحاد و بھائی چارے اور اسلامی وحدت کے فروغ کے لیے فرض نماز کی جماعت سے ادائیگی کوقابل ترجیح عمل قرار دیا گیا ہے۔
اس عبادت کا پہلا مقصد تو یہ ہے کہ ایک مسلمان کو بار بار یہ یاد دلایا جاتا رہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور اسی کی بندگی ہر کام میں کرنی ہے۔ پھر چونکہ مسلمان کو ہر ہر قدم پر خدا کے احکام بجالانے ہیں، اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں اپنا فرض پہچاننے کی صفت پیدا ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ فرض مستعدی سے انجام دینے کی بھی عادت ہو۔نماز کا ایک مقصد مشقِ اطاعت بھی ہے کہ جب بھی مؤمن آذان سنے تو سب کام چھوڑ کر اس کی طرف دوڑے چلا آئے اور ثابت کرے کہ وہ اللہ کے احکام کو ماننے کے لیے مستعد ہے۔ مزید یہ کہ نماز کے ذریعے انسان میں خدا خوفی پیدا ہوتی ہے، قانون الہی سے واقفیت ہوتی ہے اوریہ مسلمانوں میں اجتماعیت بھی پیدا کرتی ہے۔ پانچ وقت کی جماعت، پھر جمعہ کا بڑا اجتماع، پھر عیدین کا اجتماع، یہ سب مل کر مسلمانوں کو ایک مضبوط دیوار کی طرح بنا دیتے ہیں اور ان میں وہ یک جہتی اور عملی اتحاد پیدا کردیتے ہیں جو روز مرہ زندگی میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مددگار بنانے کے لیے ضروری ہے۔5
اسلام میں عبادت انسانی روح کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کو بھی پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ 6 نماز کو ایک فرد کے لیے اخلاقی و روحانی تزکیہ کرنے والےآلہ کی مانند قرار دیا گیاہے جس سے انسانی دل پر جمنے والی حوادثات کی دھول چھٹ جاتی ہے۔ وہ عوامل جو انسانی زندگی کو متاثر کرتے ہیں اور ان کے اذہان پر منفی اثرات ڈالتے ہیں انہیں دور کرنے کے اسلام میں کئی ذرائع بتائے گئے ہیں جن میں نماز سب سے اہم ہے۔7
نماز اسلام کا دوسرا ستون ہے جسے ایک دن میں پانچ مرتبہ اللہ کے مقررکردہ طریقۂ کار کے مطابق انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے ۔ انسانیت کو اللہ کی بارگاہ سےانبیائے کرام کے توسط سے عطا فرمایاگیاعبادت کا یہ انداز اتنا کامل و جامع ہے کہ کوئی بھی شخص عبادت کے لیےاس سے بہتر انداز کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ 8 خود انسانی وجود کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنایاہے گویا کہ اس کا مقصد ہی نماز کو ادا کرنا ہے۔
ابتدائی دور میں مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض نہیں تھیں لیکن اس کے باوجود رسول اکرمﷺ اور آپ کےاصحاب اللہ کی رضا،شکرانے اور ذہنی و قلبی سکون حاصل کرنے کے لیے نماز ادا کرتے تھے۔نماز مسلمانوں پر ہجرت ِمدینہ سے تین سال قبل معراج کی رات فرض کی گئی تھی9 نمازکی ادائیگی کے لحاظ سے تین اقسام ہیں: فرض، واجب اور نفل۔
نماز کی فرضیت کے حوالے سےقرآن مجیدمیں یوں بیان کیا گیا ہے کہ:
اِنَّ الصَّلٰوة كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا10310
بیشک نماز مؤمنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوة وَاٰتُوا الزَّكٰوة وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ4311
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔
آیتِ کریمہ میں مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ نماز مسلمانوں پر دن اوررات کے مقررہ اوقات میں فرض کی گئی ہے۔12دوسری آیتِ کریمہ میں نمازکوجماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔13نمازِ باجماعت میں ملحوظ رکھی جانے والی ترتیب بھی حضوراکرم ﷺنے خود سکھائی ہےجس کے مطابق پہلی قطار بالغ مردوں کی ہونی چاہیے، ان کے پیچھے بچے صف باندھیں گے 14 اور بچوں کے پیچھے خواتین کو نماز کے لیےصفیں بنانے کا حکم دیا گیا ہے ۔15
اگر بالفرض جماعت کسی حقیقی وجہ سے نہ مل سکےتو پھر مسجد، گھریا کسی بھی پاک مقام پر اکیلےنماز ادا کی جاسکتی ہےکیونکہ حضور اکرم ﷺنے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہےکہ پوری زمین کو آپﷺ کے لیے اور آپ ﷺپر ایمان لانے والوں کے لیے مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنا دیا گیا ہے۔16حالت ِسفرمیں شرائط پوری ہونے کی صورت میں نماز کومختصراً بھی ادا کیا جا سکتا ہےجسے نمازِ قصر کہا جاتا ہے۔ نمازِ قصر میں فرض نماز کی چار رکعات کی جگہ صرف دو رکعات ادا کی جاتی ہیں۔17اس کے علاوہ حالت جنگ میں بھی نماز کے سلسلے میں خصوصی رعایت دی گئی ہے۔18
نمازوں کے اوقات حضرت جبرائیل کے ذریعے نبی اکرمﷺ پر ظاہر کیےگئے تھے۔19حضور اکرم ﷺ تنہائی میں طویل نماز ادا فرماتےتھے لیکن جماعت کی صورت میں نماز مختصر کردیا کرتے تھے۔ آپﷺتنہائی میں نماز ادا کرتے ہوئے رب تعالیٰ کی عبادت پر ایسے کمر بستہ ہوجاتے کہ اکثر قیام اتنا طویل ہوجاتا کہ قدمین شریفین پر ورم کے آثار نمایاں ہوجاتے تھے۔20آپ ﷺ کا نماز میں انہماک بلا شک و شبہہ شکرانۂ انعامات الٰہی اور تمنائےبندگی کے سبب تھا کہ ان ظاہری تکالیف کے باوجود بھی آپ ﷺرب کی بارگاہ میں حالت قیام میں رہتے تھے۔ یقیناًیہ مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہےکہ انہیں لوگوں کی سہولت کے لیے باجماعت نمازیں مختصر رکھنی چاہئیں جبکہ انفرادی نمازوں کی ادائیگی خوب خشوع و خضوع کے ساتھ کرنی چاہیے تاکہ وہ رب العالمین کے مقرّب بندوں میں شامل ہوسکیں۔ تاہم اگر تنہائی میں کوئی شخص مختصر نماز ادا کرتا ہے تو اس پر کوئی عتاب و گناہ نہیں ہے۔
طہارت نصف ایمان ہے 21 اور نماز کے لیے طہارت ایسی ضروری چیز ہے کہ اس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔ اگر وضو نہ ہو تو نماز ادا کرنے کے لیے وضو کرنا فرض ہے۔ 22
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوة فَاغْسِلُوْا وُجُوْهكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ وَاِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهرُوْا623
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلیے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لیے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو) ، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ۔
مذکورہ بالا آیت کے مطابق وضو میں چار فرض ہیں: چہرہ دھونا، کہنیوں سمیت ہاتھوں کا دھونا، سر کا مسح کرنا اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں کو دھونا۔ عضو کے دھونے کے معنی یہ ہیں کہ اس عضو کے ہر حصہ پر کم از کم دو بوند پانی بہہ جائے۔ 24 یونہی اگر کسی شخص پر غسل فرض ہوا تو اسے بھی نماز سے پہلے غسل کرنا فرض ہے اگر اس شخص نے اتنی تاخیر کرلی کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب اسے فوراً نہانا فرض ہے۔ اگر اب مزید تاخیر کرے گا تو گناہگار ہوگا۔25 غسل کے تین فرض ہیں اگر ان میں سے ایک کی بھی کمی ہوئی تو غسل نہیں ہوگا۔ پہلا فرض کلی کرنا، دوسرا ناک میں پانی ڈالنا اور تیسرا تمام ظاہر بدن یعنی سر کے بالوں سے پاؤں کے تلوؤں تک جسم کے ہر حصہ پر پانی بہانا ہے۔26 مزید برآں، جو عورتیں اپنے ایام میں ہوں انہیں نماز چھوڑ دینے کا حکم ہے اور جب وہ ایام گزر جائیں تو غسل کرکے دوبارہ نمازیں ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ 27
نماز کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ ُاکبر یعنی "اللہ سب سے بڑا ہے"کے الفاظ ادا کرکے نماز میں داخل ہوا جاتا ہے۔28ان الفاظ کی ادائیگی کا مقصد یہ تسلیم کرنا ہے کہ ساری عظمت و کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی خاص ہے۔ اس طرح انسانیت کو یاد دلایا گیا ہےکہ مناسب رویہ، اعتدال اور عاجزی کی زندگی گزارنا ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔ 29نماز کی ادائیگی کے متعدد مراحل ہیں جن میں اللہ کے حضور کھڑے ہونا، رکوع (گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکنا)، سجدہ کرنا، اور گھٹنوں پر بیٹھنا شامل ہیں ۔ ان مختلف حالتوں کو اختیار کرتےہوئے مسلمانوں کی با جماعت نماز اپنے مالک کےحضورتابعداری کا عملی مظاہرہ کرتی ہے۔ 30
دوران نماز قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کی جاتی ہے جس کے ذریعے مسلمان اللہ تعالی کے احکامات اور تعلیمات کا اعادہ کرتے ہیں۔ پھر اپنے رب کے حضور گھٹنے ٹیکتے ہیں اور سجدہ کرکے اپنی بندگی اور کمزوری و ناتوانی کا عملی مظاہرہ کرکے اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ صرف اللہ کے تابعِ فرمان بندے کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کا راستہ ہی فلاح و کامیابی کا واحد زینہ ہے۔
نماز کا اختتام پہلے چہرے کو دائیں جانب اورپھر بائیں جانب موڑنے اور دونوں مرتبہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ (تم پر سلامتی اور اللہ کی رحمت نازل ہو) کے الفاظ اداکرنے سے ہوتا ہے۔ یہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ بندے پر نماز کے اس قدر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ جب وہ نماز کی ادائیگی کرکےاس مادی دنیا سے اپنا رابطہ بحال کرتا ہے توسب کے لیے رحمت وامن کے جذبات سے سر شار ہوتاہے۔ اسلامی تہذیب میں نماز جیسی ارفع و اعلیٰ عبادت مسلمان معاشرے کوایک پُرامن معاشرے کے سانچے میں ڈھالنے کا بہترین ذریعہ ہےجہاں کسی بھی فرد ِ معاشرہ کے دل میں اپنے دوسرے بھائی کے لیے کسی بھی طرح کےبرے جذبات نہیں پائے جاتےہیں۔31
فرض نمازوں کے علاوہ واجب نماز مثلاً صلوۃ الوتروغیرہ اور نفل نمازوں کی تعلیم بھی دی گئی ہے جو مخصوص اوقات اور مواقع کے لیے خاص کردی گئی ہیں۔ ان کا مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا اور اپنی سوچ و فکر کو اللہ کی بندگی اور احکام الٰہی کی تکمیل کی جانب مائل کرنا ہے۔ صلوۃ الوتر عشاء کی نماز کے بعد سے لےکر فجر سے پہلے تک کسی وقت میں بھی ادا کی جاسکتی ہے لیکن اس کا بہتر طریقہ یہ ہی ہے کہ جو لوگ تہجد وغیرہ کی پابندی کرتے ہوں وہ صلاۃ الوتر کو جمیع عبادات کے بعد دن بھر کے معمولات کے تکملہ کے طور پر ادا کریں۔ اس کی تین رکعتیں دن بھر میں ادا کی جانے والی جفت رکعتوں پر مبنی نمازوں کو طاق کرکےاللہ وتر ویحب الوترکی مصداق بنا کر جمیع نمازوں کو اپنے رب کے حضور پیش کی جاتی ہیں تاکہ بندۂ مؤمن فرمان رسول ﷺ کی تکمیل کرتے ہوئے اللہ کی پسند کے مطابق اپنی عبادت کو پیش کرے۔ صلاۃ الجنازۃ کی ادائیگی بھی جوکہ ایک بندۂ مؤمن کے مرنے کے بعد اس کے جنازے پر پڑھی جاتی ہے۔ اللہ کی بندگی کا اظہار ہے کہ یہ بندۂ مؤمن ساری زندگی جس رب کی عبادت نماز کی ادائیگی کی صورت میں کرتا رہا ، آج وہ اس کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہورہا ہے کہ اس کے مسلمان بھائی اس کے ایمان، اسلام اور اس کی عبادات کے گواہ بن کر اللہ کی بارگاہ میں عرض گزار اور اس کے لیے بخشش ومغفرت کے درخواست گزار ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ کچھ بڑی اور اہم ضروریات کی تکمیل کے لیے مخصوص نمازیں ادا کرکے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔32 مشکل کاموں یا منصوبوں میں اللہ سے مدد کی درخواست کےلیے صلوٰۃ الحاجات ادا کی جاتی ہے 33 جو خاص انفرادی ضروریات کی تکمیل کےلیے ادا کی جانے والی عبادت ہے ۔اسی طرح دشمن سے خوف کی صورت میں صلوۃ الخوف‘بارش کی کمی یا خشک سالی کا مسئلہ ہو تو صلوٰۃ الاستسقاء 34 جبکہ سورج و چاند گرہن کے موقع پر صلوۃ الخسوف و صلوٰۃ الکسوف 35کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔
تہجد وہ خاص نماز ہےجو رات کے آخری حصے میں نماز ِ فجر کاوقت شروع ہونے سے قبل ادا کی جاتی ہے۔یہ نفل نماز ہے جو اللہ کی قربت کا بہترین ذریعہ ہے۔ 36اس نماز کا وقت رات کا سب سے زیادہ خاموش اور پُرسکون پہر ہوتاہے۔ رات کے اس حصےمیں بندے کے لیے نماز اور اس میں ادا کیے جانے والے ارکان پر مکمل دل جمعی سے دھیان دینا اور رب تعالیٰ کی طرف توجہ مرکوز کرنا دیگر نمازوں کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نماز کے لیے بندہ اپنی نیند اور آرام قربان کرتا ہے یوں یہ نماز ذات کی نفی کی علامت ہے ۔ اس کے علاوہ جمعہ، عید کی نمازیں،تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضوء اور نماز جنازہ اجتماعی طور پر ادا کی جانے والی عبادات ہیں۔ان کے علاوہ مزید اور بھی مواقع ہیں جن پر نماز ادا کی جاتی ہے مثلاً کسی نئی جگہ جانے پر ادا کی جانے والی نمازتحیتہ المسجدہ وتحیتہ الوضو وغیرہ۔ 37
اگر نماز صرف رسمی طور پر بغیر کسی توجہ کے اور بے دلی سے ادا کی جائے تو یہ نبئ اکرم حضرت محمدﷺکے فرمان کے مطابق اللہ کے دربار میں قبول ہونے کے بجائے ادا کرنے والے کے منہ پر مار دی جاتی ہےیعنی اسے سختی سے مسترد کردیا جاتا ہے۔38نماز کو بہترین انداز سے ادا کرنے کے بارے میں نبئ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عن أبي هريرة، قال: كان النبي صلى اللّٰه عليه وسلم بارزا يوما للناس، فأتاه جبريل فقال:قال: ما الإحسان؟ قال: «أن تعبد اللّٰه كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك. 39
ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جب حضورﷺلوگوں کے ایک گروہ کے ساتھ تشریف فرما تھے ، جبرائیل (انسانی صورت میں) ان کے پاس تشریف لائے اور عرض کی:… احسان (اخلاص کا جوہر) کیا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: اللہ کی عبادت یوں کرنا گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اور اگرتم اس کیفیت کو حاصل نہیں کرسکتے تو کم از کم یہ تصور کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
آپ ﷺکے فرمان سے واضح ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص حالتِ نماز میں ہو تو اسے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ رب تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہے اور وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ جب مسلمان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوجاتا ہے تو وہ خوف ورجا کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور وہ قادرمطلق ہے جو پلک جھپکنے سےقبل کائنات کوصفحۂ ہستی سے مٹانے پر قادر ہے۔وہ چاہے تو کسی بھی غلطی پر انسان کو نیست و نابود کر سکتا ہےمگر اللہ غلطیوں سے درگزر فرماتاہے۔
اس کیفیت کے ساتھ نماز ادا کرنے والا مسلمان جانتا ہے کہ وہ روزانہ ان گنت غلطیا ں کرتا ہے مگر اللہ اس کی غلطیوں کو درگزر فرماتا ہے۔یوں اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اللہ قادرِ مطلق اورنہایت مہربان ہے جو انسان کی غفلت اور خود غرضی کے باوجود اسےبے شمار نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ وہ مزید حیرت کا شکار ہوکر سوچ و فکر میں ڈوب جاتا ہے کہ اللہ اس کے لیے کیوں اتنامہربان اور فیاض ہے حالانکہ وہ اتنا اچھا مسلمان بھی نہیں ہے۔
یہ ایک فطری امر ہے کہ جب کوئی شخص اس بات سے آگاہ ہوجائے کہ کوئی اس سے محبت کرتا ہے تو وہ بھی اس ذات سے محبت کرنے لگتا ہے۔جب ایک مسلمان یہ جان لیتا ہے کہ خالقِ کائنات اس سے محبت کرتا ہے تو وہ نہ صرف اللہ کے لیے اپنے دل میں عشق کا جذبہ محسوس کرتا ہے بلکہ اس بات پر کمر بستہ ہوجاتا ہے کہ وہ صرف ان ہی اعمال کو انجام دے گا جس کا رب نے حکم دیاہے یوں وہ ہر اس عمل سے بیزار ہوجاتاہے جس سے روکا گیا ہے۔ جب بندگی کا یہ عمل روزانہ پانچ بار دہرایا جاتا ہے تب نتیجہ اوج ِ کمال کی صورت میں نکلتاہے یوں ایک مسلمان نہ صرف اللہ کا فرمانبردار بندہ بن جاتا ہے بلکہ ایک ایسا بہترین انسان بھی ہوتا ہے جوہر لحظہ پر امن اور پرسکون رہتا ہے اور ایک مکمل ہم آہنگ فلاحی معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
جہاں ایک طرف نماز ادا کرنا اللہ کی عبادت ہے وہیں دوسری طرف یہ اللہ کی الوہیت اور عظمت کا اعتراف بھی ہے۔ یہ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دینے اور صرف اسی کی ذات کی طرف ہر طرح کی عظمت اور کمال منسوب کرنے کا نام ہے۔ ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو نماز ایک فرد کو افرادِ معاشرہ کے درمیان قابل قدرزندگی گزارنے کے لیے تیارکرتی ہے اور اس کے تمام معاملات میں شائستگی ، ہمدردی اور خیر سگالی کے رویے کو پروان چڑھاتی ہے۔ مختصر یہ کہ نماز انسان کا تعلق اللہ اور دیگر انسانوں کے ساتھ مضبوط کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔40
مسجد سے لفظی مراد " سجدہ کرنے کی جگہ"ہے 41 تاہم مسجد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایسی عمارت تعمیر کی جائے یا ایک ایسی جگہ مخصوص کردی جائےجہاں آکر لوگ اللہ کی عبادت کرسکیں ، قرآن پاک کی تلاوت کریں، اپنے خالق کو یاد کریں ، اس کے احکامات کو سنیں اور زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھیں ۔اس کے علاوہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب مسلمان دن میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں تو ان کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملتا ہے یوں وہ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں جس سے معاشرے میں اتحاد کو فروغ ملتا ہے۔ نماز ِ باجماعت کے علاوہ بھی مسلمان انفرادی طور پر نماز پڑھنےمسجد آتے ہیں اور اسے تعلیم و تربیت کے مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔42
اسلام کے ابتدائی دور میں مکّہ مکّرمہ میں مسلمان باجماعت نماز ادا کرنے سے قاصر تھے جب کہ مدینہ کے پُرامن حالات میں علی الاعلان با جماعت نماز کی ادائیگی باآسانی ممکن تھی۔ ہجرت ِ مدینہ کےبعدنماز کے لیے ایک خاص انداز سے لوگوں کو بلانے(اذان)کی ابتدا کی گئی جس میں انتہائی اختصار کے ساتھ اسلام کی بنیادی تعلیمات (یعنی ایک خدا کی وحدانیت، محمد ﷺکی نبوت اور نماز کی نعمتوں اور اس کی اہمیت)کو بیان کیا گیا۔ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ یہودیوں کے ناقوس یا عیسائیوں کی گھنٹی کی جگہ انسانی آواز سےنماز کی طرف بلایا گیا جو زیادہ موثر ، فطری اوردل کو چھو لینے والا طریقہ تھا۔43
حضوراکرمﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے موقع پر مقام قُبا میں پہلی مسجد تعمیر فرمائی۔44اس مسجد کی بنیادحضورﷺ نے بذات خود اپنے دست مبارک سے رکھی تھی اور اس دوران آپﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد کی تعمیر میں شامل تھے۔اس موقع پر اصحاب ِ رسول ﷺ نے تعمیراتی کام آپ ﷺکے ہاتھ سے لینے کی بھرپورکوشش کی 45مگر آپ ﷺنے ہمیشہ عاجزی و انکساری اور انسانی مساوات کی اعلیٰ مثال قائم کی اور انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ اس کے بعد جب نبی کریم ﷺ مدینہ منوّرہ پہنچے تو وہاں بھی سب سے پہلےایک مسجد تعمیر فرمائی جسے مسجدنبوی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ مسجد ایک ایسے قطعۂ زمین پر تعمیر کی گئی تھی جودو یتیم بچوں کی ملکیت تھی ۔اس موقع پر حضرت محمد ﷺ نے زمین کی قیمت ادا کرنے کی پیش کش کی لیکن بچوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی رضا کے لیے زمین کا یہ ٹکڑا تحفہ میں دینے پر اصرار کیا۔ 46
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ نے مسجد کی تعمیر کے دوران اپنے صحابہ کی رہنمائی فرمائی کہ وہ مسجدکی عمارت کو حضرت موسیٰ کی عبادت گاہ کی طرح سادہ طرز پر تعمیر کریں اور کسی قسم کے اسراف سے گریز کریں۔ 47
رسالت ماب ﷺ کے قائم کردہ اسلامی معاشرے میں مسجد کی حیثیت صرف عبادت گاہ کی نہ تھی بلکہ یہ ہر طرح کی سماجی ومعاشرتی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ ایک طرف مسجد ایک کمیونٹی سینٹر تھا تو دوسری طرف عدالت عالیہ کے فیصلےبھی یہیں ہوتے تھے۔ یہیں قانون سازی کی جاتی تھی اور یہیں ریاست مدینہ کے حکام ،ریاستی امور اور پالیسیوں پر تبادلۂ خیال کرنے کےلیے جمع بھی ہوتے تھے۔مسجدنبویﷺ ایک طرف مسلم افواج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر(Command and Control Center) تھی تو دوسری طرف یہ ایک درس گاہ او رجامعہ بھی تھی۔یہیں سے تبلیغ اسلام اور ترویج ِ دین کےلیے صحابہ کی جماعتیں روانہ کی جاتی تھیں اور یہیں نو مسلم افراد کے قلوب کی تطہیربھی ہوتی تھی۔یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ اس اولین اسلامی معاشرے میں عورتیں بھی مسجد میں حاضر ہوتی تھیں اور مذہبی و سماجی زندگی میں عملی طور پر شریک رہتی تھیں۔الغرض مسجد مسلم معاشرے کے اس ہمہ جہت بنیادی ادارے کا نام تھا جس نے ابتدائی دور میں مسلم معاشرے کی تعمیر اور تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور ایسے نفوسِ قدسیہ تیار کیے جنہوں نے چار دانگِ عالم میں اسلام کے پرچم کو سر بلند کیا۔ آج بھی مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد القدس، فیصل مسجد (پاکستان) بادشاہی مسجد (پاکستان )، تاج المساجد (انڈیا)، کملکر مسجد (ترکی) وغیرہ سمیت روئے زمین پر تقریباً ہر جگہ موجود چھوٹی بڑی مساجد وہ عظیم عبادت گاہیں موجود ہیں جن میں لاکھوں مسلمان اپنی رب کی بارگاہ میں سربسجود ہوکر اللہ کی بارگاہ میں روزانہ دن میں پانچ مرتبہ اپنی بندگی کااظہار کرتے ہیں۔
نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے نام سے جو عبادتیں مسلمانوں پر فرض کی گئی ہیں ان کا اصل مقصد زندگی کے ہر فعل کو اللہ کی بیان کردہ حدود میں رہ کر ادا کرنا ہے۔ صوم کو فرض کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رمضان میں تیس دن تک صبح سے شام تک بھوک پیاس برداشت کرنے سے اللہ کا حق ادا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد انسان جو چاہے کرتا پھرے بلکہ دراصل ان عبادتوں کو فرض کرنے کی غرض یہی ہے کہ ان کے ذریعے سے انسانوں کی تربیت کی جائے اور اس کو اس قابل بنایا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے۔ روزے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ لمبی مدت تک شریعت کے احکام کی لگاتار اطاعت کراتا ہےکیونکہ روزہ ہر سال پورے ایک مہینے کے لیے شب و روز شریعت محمدی ﷺ کی اتباع کی مشق ہے۔ اس طرح ہر سال مہینہ بھر صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک تمام روزہ دار مسلمانوں کو مسلسل فوجی سپاہیوں کی طرح پورے قاعدے اور ضابطے میں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور پھر گیارہ مہینے کے لیے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ جو تربیت اس ایک مہینے میں اس نے حاصل کی ہے اس کے اثرات ظاہر ہوں اور جو کمی پائی جائے وہ پھر دوسرے سال کی ٹریننگ سے پوری کی جائے۔ 48
روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی تھی۔ نبی ﷺنے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔49 پھر روزہ کی فرضیت ہجرت مدینہ کےدوسرے سال ماہ رمضان المبارک میں ہوئی۔50 قرآنِ حکیم میں روزوں کے فرض ہونے کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:
يٰٓاَيُّھا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ183أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 184 شهرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْه الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهدٰى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهدَ مِنْكُمُ الشَّهرَ فَلْيَصُمْه ... الخ185 51
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (یہ) گنتی کے چند دن (ہیں)، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو۔رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے ...
اسلام میں روزہ اسے کہتے ہیں کہ ایک مسلمان اللہ کی عبادت بجا لانے کے لیے صبح صادق سے غروب آفتاب تک خود کو کھانے پینے اور جماع سے دور رکھے۔ روزوں کی تین اقسام ہیں: فرض ، واجب اور نفل۔ پھر فرض کی مزید دو اقسام کی گئی ہیں: فرض معیّن جیسے رمضان کے فرض روزے اور فرض غیر معیّن جیسے رمضان کے قضاء روزے اور کفارے کے روزے۔ اسی طرح واجب کی بھی دو اقسام ہیں: معیّن جیسے معیّن نذر کے روزے اور غیر معیّن جیسے عام نذر کے روزے۔ روزے کی تیسری قسم نفل روزوں کی ہے ۔52 اس کی بھی دو اقسام ہیں: نفل مسنون اور مستحب جیسے عاشورا یعنی دسویں محرم کاروزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی اور ہر اسلامی مہینے میں تیرھویں، چودھویں، پندرھویں اور عرفہ کا روزہ، پیر اور جمعرات کا روزہ، عید کے چھ روزے اور صوم داؤد ، یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار وغیرہ۔53
روزے کے تین درجے ہیں ۔ ایک عام لوگوں کا ہے جو صرف کھانے پینے اور جماع سے رک جائیں۔ دوسرا درجہ خواص کا ہے کہ کھانے پینے اور جماع سے دور رہنے کے ساتھ کان، آنکھ، زبان، پاتھ پاؤں اور تمام اعضاء کو گناہ سے دور رکھے۔ اور تیسرا درجہ خاص الخاص کا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے سوا کائنات کی ہر چیز سے خود کو مکمل جدا کرکے صرف اسی کی جانب متوجہ رہتے ہیں۔54
ایسے افراد جو کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں جو روزے کی حالت میں ان کے لیے نقصان دہ اور تنگی کا باعث ہو یا کوئی شرعی مسافر ہو ں تو ان کے لیے چھوٹ ہے کہ رمضان کے جتنے روزے چھوڑے ان کی تعداد کے برابر عام دنوں میں روزے رکھیں۔55 یوں ہی حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو روزہ قضاء کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔56 اسی طرح ایسے بوڑھے اشخاص جنہیں شیخ فانی کہا جاتا ہے‘اپنے ضعف کے سبب روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہوں ان کے لیے فدیہ دینے کا حکم ہے۔ 57
روزے سے انسان میں شکر گزاری کا احساس جاگتا ہے اورکھانے پینے سے عارضی طور پر محرومی اسے ان خدائی نعمتوں کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ پھر جب وہ بھوک اور پیاس کاایک طویل تجربہ کرنے کے بعد دوبارہ کھانے اور پانی تک رسائی حاصل کرتا ہے تب وہ محسوس کرسکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے اسےفراہم کردہ کھانے اور پانی کی کیا اہمیت ہے اور ان کے بغیر زندگی کی بقاء کا تصور کس قدر مشکل ہے۔ یوں یہ تجربہ اللہ کے لیے شکرگزار ی کےجذبات کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔ روزے کے دوران پابندیوں پرعمل کرنے کے نتیجے میں انسان میں اخلاقی نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے اور وہ ہوس کا شکار ہو کر بے ضابطہ زندگی گزارنے کی بجائےضبطِ نفس اور تقویٰ پر مبنی زندگی گزارنے کی تربیت حاصل کرتاہے۔58
اسے مثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اسپیڈ بریکر ،تیزرفتار موٹرسائیکل اور گاڑی کےلیے جو کام کرتا ہے روزہ ایک مسلمان کے لیے وہی کام کرتا ہے۔سال میں ایک مرتبہ ایک مہینے کے لیے اپنی مختلف خواہشات پر پابندی لگانے سے ایک مسلمان سال بھر ضبط ِ نفس اور تقویٰ کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کی کسی بھی سعی سے احتراز کرتا ہے ۔ مزید یہ کہ ایک روحانی ماحول کی وجہ سے ماہ رمضان میں انسان اللہ کی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہتا اور ان عبادات کی لذت حاصل کرنے کی جستجو کرتا ہے۔
روزہ اپنے اصل معنیٰ میں اللہ کو اتنامحبوب ہےکہ حضورﷺنےارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کستوری کی بو سے بہتر ہے۔59
دوسری طرف اگر کوئی شخص صرف سطحی یا ظاہری نوعیت کا روزہ رکھتا ہے اور معاشرتی برائیوں اور گناہوں سے باز نہیں آتا تو حضورﷺنے فرمایا کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے ،جھوٹ پر عمل کرنے اور برے کاموں سے باز نہیں آتا ہے تو اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔60اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہےکہ ایسے افراد کا روزہ قبول نہیں ہوتا اور خود ان کا روزہ ان کے لیے بھی کسی اخلاقی و روحانی منفعت کا باعث نہیں بن پاتا۔
مختصر یہ کہ روزہ ایک تربیتی نصاب ہےجس کا مقصد انسان کو ایک ماہ کے لیے خصوصی روحانی ارتقائی سفر کا تجربہ کرانا ہے تاکہ وہ اللہ تعالی کے ایک سچے عبادت گزار بندے اور انسانیت سے محبت کرنے والے شخص کے طور پرزندگی گزارنے کے قابل ہوسکے 61 اور اس مشق کی تکمیل کے بعد وہ محّرمات سے بچنے کا اسی طرح پابند ہوجائے جس طرح روزے کی حالت میں حلال اشیاء کو صرف اللہ تعالی کی رضا اور اس کے حکم کی تکمیل میں ترک کردیتاہے۔
حج کی اصطلاح عام طور پر مذہبی سفریاسفرِ زیارت کے معنی میں استعمال ہو تی ہے لیکن حج کی قطعی اہمیت ان معنیٰ سے مکمل طور پر واضح نہیں ہوتی ۔62اسلام کا تصورِ حج دیگر مذاہب کے مقدس سفر کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کے مقدس انبیاء ، نیک بندوں اور فرشتوں کے مخلصانہ اعمال و افعال کی عکاسی کا نام ہے۔حج کی انجام دہی سے انسان میں رضائے الٰہی کے جذبات تقویت پاتے ہیں اور وہ ایسا کامل مؤمن بندہ بن جاتا ہے جو اپنے پچھلے گناہوں پر صدق ِدل سے نادم ہو کرتوبہ کرتے ہوئے تقویٰ و پرہیز گاری کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ حج صرف ان لوگوں پر فرض ہے جن کی صحت اور مالی حیثیت اسے انجام دینے کی اجازت دیتی ہو۔63غریب، بیمار یا معذور افراد حج کی فرضیت سے مستثنیٰ ہیں۔ الله تعالی کا ارشاد ہے۔
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ96 فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ 9764
بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکّہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لیے (مرکزِ) ہدایت ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں (ان میں سے ایک) ابراہیم (علیہ السلام) کی جائے قیام ہے، اور جو اس میں داخل ہوگیا امان پا گیا، اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اور جو (اس کا) منکر ہو تو بیشک اللہ سب جہانوں سے بے نیاز ہے۔
دنیا کے لوگ عموماً دو ہی قسم کے سفروں سے واقف ہیں: ایک سفر وہ جو روٹی کمانے کے لیے کیا جاتا ہے، دوسرا وہ جو سیر و تفریح یا پھر کسی ذاتی غرض و مقصد کے لیےکیاجاتا ہے۔ان دونوں قسم کے سفروں میں اپنی غرض اور اپنی خواہش انسان کو باہر نکلنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ گھر چھوڑتا ہے تو اپنی غرض کے لیے ، بال بچوں اور عزیزوں سے جدا ہوتا ہے تو اپنی خاطر۔ مال خرچ کرتا ہے یا وقت صرف کرتا ہے تو اپنے لیے، لہٰذا اس میں قربانی کا کوئی سوال نہیں ہے ، مگر یہ سفر جس کا نام حج ہے، اس کا معاملہ دیگراسفار سے بالکل مختلف ہے۔ یہ سفر اپنی کسی غرض یا اپنے نفس کی خواہش کے لیے نہیں ہے، بلکہ صرف اللہ کے لیے ہے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اس کا نکلنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے اندر خوفِ خدا اور محبتِ خدا ہے ، اور اس میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ اگر کسی وقت خدا کی راہ میں نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ نکل سکتا ہے، تکلیفیں ا ٹھا سکتا ہے، اپنے مال اور راحت کو خدا کی خوشنودی پر قربان کرسکتا ہے۔
پھر جب وہ ایسے پاک ارادے سے سفر کے لیے تیار ہوتا ہے تو گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور لوگوں سے اپنا کہا سنا بخشواتا ہے ۔ کسی کا حق اس پر آتا ہو تو اسے ادا کرنے کی فکر کرتا ہے تاکہ خدا کے دربار میں بندوں کے حقوق کا بوجھ لادے ہوئے نہ جائے ۔ برائی سے اس کے دل کو نفرت ہونے لگتی ہے اور قدرتی طور پر بھلائی کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔ پھر سفر کے لیے نکلنے کے ساتھ ہی جتنا جتنا وہ خدا کے گھر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اتناہی اس کےاندر نیکی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جاتاہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہےکہ کسی کو اس سے اذیت نہ پہنچے اور جس کی جتنی خدمت یا مدد ہوسکے کرے۔ بد کلامی و بے ہودگی، بے حیائی، بددیانتی اور جھگڑا فساد کرنے سے خود ا س کی اپنی طبیعت اسے اندر سے روکتی ہے کیونکہ وہ خدا کے راستے میں جارہا ہے۔ پس دوسرے تمام اسفارکے برعکس یہ ایسا سفر ہے جو ہر دم آدمی کے نفس کو پاک کرتا رہتا ہے، گویا یہ ایک بہت بڑا اصلاحی کورس ہے جس سے لازماً ہر ا س مسلمان کو گزرنا ہوتا ہے جو حج کے لیے جائے اور شریعت کے مطابق اس کا مکلف ہو۔
حج کے فائدوں کا پورا اندازہ کرنے سے انسان قاصر رہتا ہےجب تک یہ بات اس کے پیش نظر نہ ہو کہ ایک مسلمان اکیلا حج نہیں کرتا بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے حج کاا یک ہی زمانہ رکھا گیا ہے اور ہزاروں لاکھوں مسلمان مل کر ایک ہی وقت میں حج ادا کرتے ہیں۔ یہ اسلام کا کمال ہی ہے کہ وہ ایک ہی عمل سے کئی ہزار امور سرانجام دینے کا راستہ فراہم کردیتا ہے۔اکیلا آدمی حج کرے تب بھی اس کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب برپا ہوتا ہے، مگر ایک ہی وقت میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ مل حج کرنا اس کے فائدوں کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے جس کا شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔65
حج ادا کرنے کے لیے ایک مسلمان مکّہ مکّرمہ کی جانب عازم ِ سفر ہوتا ہے۔جب مسلمان مکّہ مکّرمہ کےقریب حرم یا مقدس علاقے کی حدود(میقات) تک پہنچتے ہیں تو وہ عام لباس تبدیل کرکے کپڑے کی اَن سلی دو چادروں پر مشتمل ایک مذہبی وردی میں ملبوس ہو جاتے ہیں جسے "احرام" کہا جاتا ہے۔ جس میں ایک چادر بدن کےنچلے حصے کے لیے ہوتی ہے جبکہ دوسری اوپری حصے اور کاندھے کا احاطہ کرتی ہے۔ خواتین کے لیے ان کا سادہ اورمکمل لباس ہی احرام ہے۔ مردوں کےلیے برہنہ سر رہناضروری ہے جبکہ خواتین کےلیے اپنے چہرے کو کھلا رکھنا ضروری ہے۔
حجاج کرام مکّہ مکّرمہ پہنچ کر طواف ِ کعبہ کرتے ہیں اس کے بعد صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں۔مقامِ ابراہیم پر نوافل ادا کرکےآبِ زمزم سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ اس کے بعد8 ذوالحج کو مکّہ مکّرمہ کے قریب واقع، منی ٰ کے میدان میں پہنچتے ہیں اور وہاں پورا دن اللہ تعالی کے ذکر اور عبادت میں گزارتے ہیں۔رات منیٰ میں گزار کر 9 ذوالحج کی صبح وہاں سےکچھ میل کے فاصلے پر واقع میدانِ عرفات جاتے ہیں تاکہ دن کا وقت وہاں اللہ تعالی کی عبادت میں گزار سکیں ۔ اس دوران خطبۂ حج ہوتا ہے اور حاجی جبلِ رحمت پر دعا مانگتے ہیں۔یہاں ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے قصراً ادا کی جاتی ہیں۔سورج غروب ہونے کے بعد حجاج ِکرام یہاں سے مزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں۔وہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاتی ہیں اورنماز عشاء قصر کی جاتی ہے۔حاجی یہاں رات گزارتے ہیں اور اگلی صبح، یعنی 10 ذوالحج کو منیٰ کے میدان میں چلے جاتے ہیں جو مکّہ کے مضافات میں واقع ہے۔یہاں حاجی تین دن گزارتے ہیں جن میں وہ شیطان کو کنکر مارتے ہیں جسے جمرات کا عمل کہا جاتا ہے ۔اسی دوران جانور وں کی قربانی پیش کی جاتی ہے نیزخانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے جس میں سات چکرہوتے ہیں۔اس کے بعدخانہ ِ کعبہ کے سامنےواقع صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کی سعی کی جاتی ہے۔11 اور 12 ذوالحج کو منیٰ میں قیام کرنا لازمی ہے تاہم13 ذوالحج کے دن منیٰ میں قیام اختیاری ہے۔66
حج میں پوری دنیا سےمسلمان شریک ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق سب ایک اوربرابر ہیں اس لیے نسل، جنس یا معاشرتی حیثیت کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا ہے۔ 67 یہ مقدس سفر حاجیوں کے لیے اللہ تعالی اور اس کے انبیاء سے تعلق قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے مسلمان کو اللہ کے برگزیدہ بندوں اور اولوالعزم پیغمبروں کی زندگی کی یاد دلاتا ہے نیز یہ دنیا بھر کےمسلمانوں کو متحد کرتا ہے۔ حج کی عبادت کی بدولت اہل ایمان کے اذہان اس حقیقت تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں کہ اگرچہ ان کا تعلق مختلف نسلوں اور اقوام سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی عالمگیر اتحاد کی مضبوط بنیاد ہے۔ گوکہ وہ اپنی پرورش میں متنوع ہوسکتے ہیں اورکسی بھی ملک یا قوم سے ان کا تعلق ہو سکتا ہے لیکن ایک اللہ کے عبادت گزار بندےہونے کی بدولت وہ سب ایک ہیں اور ہمیشہ متحد رہیں گے۔ حج اپنی اصل میں ایک فرض عبادت ہے لیکن عملی طور پر اس کے نتیجے میں مسلم اخوت اورعالمگیر بھائی چارے پر اثر انداز ہونےوالے بے شمار فوائد حاصل ہوتےہیں جن میں سے ایک قومی اتحادبھی ہے۔68
حج کے علاوہ مسلمان "عمرہ" بھی ادا کرتے ہیں۔ عمرہ ميں بھی زیارت کعبہ کی جاتی ہے۔عمرہ کرنا سنت ہے۔69 حج صرف مقررہ ایام میں ہی ادا کیا جا تا ہے تاہم عمرہ ایام حج کے علاوہ کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے۔ عمرہ کے ارکان میں طواف ِِکعبہ، مقام ِ ابراہیم پرنوافل کی دو رکعات ، اور صفا ومروہ کی سعی اوراحرام شامل ہیں۔70 قرآن کریم میں عمرہ کا ذکر اس طرح ہے:
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَة لِلّٰه196 71
اور حج اور عمرہ (کے مناسک) اﷲ کے لیے مکمل کرو۔
اسلام سے قبل بھی عرب حج و عمرہ اداکرتے تھے لیکن یہ عبادت وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں وہ اپنے باطل معبودوں کو بھی اللہ کے ساتھ شریک کر لیتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالی ٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ حج کی ادائیگی صرف اور صرف اللہ کے لیے ہی ہے کیونکہ صرف وہ ہی رب العالمین اور قادرِ مطلق ہے۔72 حج کی طرح عمرہ بھی اپنے خالق ومالک کے سامنے انسان کی مکمل فرمانبرداری کا ایک علامتی اظہار ہے۔ دوران عمرہ ادا کیے جانے والے اعمال و افعال کے ذریعے بندگان خداخود کو اپنے خالق و مالک کے حضور وقف کرنے اور اپنی زندگی اس کے احکامات کے مطابق گزارنےکا عہد کرتے ہیں ۔
زکوٰۃ کے معنی پاکی اور صفائی کے ہیں۔ اپنے مال میں سے ایک حصہ حاجت مندوں اور مسکینوں کے لیے نکالنے کو زکوٰۃ کہا گیا ہے کہ اس طرح آدمی کا مال، اور اس مال کے ساتھ خود آدمی کا نفس بھی پاک ہوجاتا ہے۔ جو شخص خدا کی بخشی ہوئی دولت میں سے خدا کے بندوں کا حق نہیں نکالتا اس کا مال ناپاک ہے، اور مال کے ساتھ اس کا نفس بھی ناپاک ہے ، کیونکہ اس کے نفس میں اللہ سے ا حسان فراموشی اور تنگ دلی بھری ہوئی ہے ۔
زکوٰۃ دنیا کی حکومتوں کے ٹیکسوں کی طرح محض ایک ٹیکس نہیں ، بلکہ یہ عبادت اسلامی معاشرے کی روح اور اس کی جان ہے۔ جب کوئی بدنی عبادت کے ساتھ مال کی قربانی کاا متحان کامیابی کے ساتھ دے دیتا ہے تب وہ پورا مسلمان بنتا ہے۔ 73 گو کہ کئی مسلمان اسکالزر نے زکوۃ کے لیے ٹیکس کی اصطلاح کو استعمال کیا ہےلیکن دیگر اقوام میں موجود محصولات اور اسلامی نظام زکوۃ کا فرق یہ ہےکہ یہ صرف ایسے صاحب مال جو کہ صاحب نصاب ہو اور اس پر حولانِ حول (پورا اسلامی سال) گزر جائے، اس پراس کانفاذ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عام غریب، مسکین اور فقیر مسلمانوں سے یہ مطلوب نہیں ہے۔
اسلام میں قدیم تہذیبوں کی طرح کسی بھی قبائلی سردار یا حکومتِ وقت کوصرف اپنی ذاتی عیش و عشرت اور خودنمائی کے لیے مالی تاوان یا خراج پیش نہیں کیا جاتا بلکہ معاشرے اور خاص طور پر ضرورت مندوں کے لیے زکوۃ کو ادا کیاجاتا ہے۔74
ہجرت کے دوسرے سال زکوۃ فرض کی گئی تھی 75جس کے مطابق ہر سال کے اختتام پر صاحب ِ حیثیت افراد کے مال میں سے ایک معقول رقم (ڈھائی فیصد) کی کٹوتی کی جاتی ہے۔ اس طرح سےنہ صرف باقی دولت پاک ہوجاتی ہے بلکہ ایک مسلمان کا دل بھی دنیا کی آلائشوں، مال و دولت کی محبت اور حرص و ہوس سے پاک ہوجاتا ہے ۔ صاحبِ مال باقی ماندہ رقم کو کسی بھی جائز کام میں استعمال پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔
اپنی کمائی اور مال و دولت سے زکوٰۃ نکالنا اس حقیقت کا عملی اقرار ہے کہ اصل دینے والا اور ہر چیز کا مالک ِحقیقی اللہ ہے چونکہ دینے والا اللہ ہے لہذا وصول کنندہ کا فرض ہے کہ وہ حکمِ الٰہی کی تعمیل میں اس مال کو اسی کی راہ میں خرچ کرے۔ زکوٰۃ کا قانون یہ ہے کہ جن کے پاس دولت ہے انہی سے وصول کی جائے اور جن کے پاس نہیں ہے ان کو مہیا کردی جائے۔ دولت کی یہ گردش معاشرتی عدم مساوات کو متوازن کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس طرح دولت مندوں کو اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کے مال و دولت میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے، جو غربت و افلاس کا شکار ہیں یا جن کے پاس اس دنیاوی زندگی میں زیادہ اسباب نہیں ہیں یا جو بالکل بے سہارا ہیں ۔76
زکوٰۃ ان تمام بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جن کے پاس کم ازکم 7.5 تولہ سونا یا 52.5 تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر مال یا نقدرقم ہو جو ان کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو اور اس پر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔ان تمام اموال پر 2.5 فیصد کے حساب سے زکوٰۃ فرض ہے ۔ 77
جن افراد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ان کا ذکر قرانِ حکیم میں یوں بیان کیا گیاہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 6078
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
زکوٰۃ ایک معاشرتی فريضہ ہے جسے ایک فرض اسلامی عبادت کےطور پر ادا کیا جاتا ہے ۔ اس کا مقصد لوگوں کے قلوب کو بخل، طمع و لالچ اور دولت کی محبت سے پاک کرناہے۔ اس سے مسلم معاشرے کے افرادکے مابین باہمی نگہداشت اور ہمدردی کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔زکوٰۃ دینے کا عمل انسانی زندگی کومعاشرتی تحفظ اور ایک دوسرے کی معاشی ضروریات کا خیال رکھنے کا جامع نظام مہیا کرتاہے۔ یہ عمل بیک وقت عبادت کی حیثیت سے اپنی بنیادی نوعیت و فطرت کو برقرار رکھتا ہے اور انسان کے اللہ سےتعلق کے ساتھ ساتھ انسانوں کے درمیان بھائی چارے اور محبت و الفت کے رشتہ کومضبوط بناتا ہے۔زکوٰۃ کی ادائیگی سے ایک فرد کے دل سے دولت کی محبت ختم ہوجاتی ہے۔ 79
آپ ﷺ چونکہ ریاست کے سربراہ تھے اسی لیے اُس وقت زکوٰۃ وصول کرکےآپ کی خدمت میں پیش کردی جاتی تھی لیکن دوسری قدیم تہذیبوں کے سربراہوں کے برعکس، جو اپنی آسائشوں کے لیےعوام کے محصول غصب کرتے تھے، آپﷺنے باضابطہ اعلان فرمایا تھاکہ مسلمان محصول دہندگان کی طرف سے آنے والے محصولات (زکوٰۃ) حضور ﷺ پر، ان کی آل و اولاد ، کنبے کے تمام افراداور ان کے بچوں پر ممنوع ہیں۔80
حضرت محمد ﷺ اور پہلے دو خلفاء کے عہد میں تمام محصولات حکومت نے جمع کئے اور لوگوں پر قرآن حکیم کی ہدایات کے مطابق خرچ کئے لیکن بعد میں حضرت عثمان نے فیصلہ کیا کہ مسلمان زکوٰۃ ان افراد کو جن کا قرآن مجیدمیں ذکر کیا گیا ہے براہِ راست دےسکتے ہیں۔81 اس کی وجہ اسلامی ریاستی حدود میں توسیع تھی، کیونکہ مختلف علاقوں خصوصاً ان دور دراز کے مقامات سے جہاں کچھ ہی مسلمان آباد تھے،زکوۃ جمع کرنا انتہائی مشکل اور مہنگا عمل ہوچکا تھا۔
زکوٰۃ اللہ کی راہ میں دی جاتی ہے اس لیےاس کی سب سے اہم قدر یہ ہے کہ یہ عبادت کا ایک عمل ہے۔ بظاہر یہ لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہےلیکن حقیقت میں یہ زکوۃ اللہ اور بندے کا تعلق مضبوط کرتی ہے اور انسان کو انسان کےقریب کرنے کا ایک ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ روح کے لحاظ سے زکوٰۃ عبادت کا ایک عمل ہے جبکہ ظاہری شکل کے لحاظ سے یہ معاشرتی خدمت اور اسلامی بہبود کا کام ہے۔82
دیگر تہذیبوں کے مذہبی تہواروں کے برعکس اسلامی تہوار غیر اخلاقی اور برے اعمال سے بالکل پاک و صاف ہیں۔ ان تہواروں کا بنیادی مقصد انسانیت کو خوشی فراہم کرنا ، انہیں متحد کرنا اور خوشی کے موقع پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تربیت دینا ہے ۔ یہ تہواردوسری تہذیبوں کی طرح صرف طبقۂ امراء اور مذہبی اشرافیہ کو خوشی فراہم کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ان میں اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ امیروں سے غریبوں کو تحائف اور دیگر فوائد منتقل ہوں تاکہ غریب بھی لطف اندوز ہوسکیں اور خوشی منائیں۔ عیدالفطر، عید الاضحٰی، شب قدر اور جمعہ کی نماز مسلمانوں کے بڑے مذہبی و روحانی تہوار ہیں۔
آپس میں میل جول رکھنے، معاشرتی ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے اتحاد اور یکجہتی کی فضا کو برقرار رکھنے اور مشترکہ خوشیوں میں شرکت کے لیے تہوار لازمی وسیلہ ہیں۔ عید کے تین دن ایک جشن کا سماں ہوتا ہے۔اس دوران نئے یا صاف ستھرے بہترین ملبوسات زیب تن کیےجاتے ہیں اور طرح طرح کی خوشبوئیں استعمال کی جاتی ہیں۔ کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مختلف طرح کی مٹھائیاں پیش کی جاتی ہیں۔ اہل و عیال ، رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے اور تحائف دینے کا بھی رواج ہوتا ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں عید اکثر ٹوٹے ہوئے تعلقات کی بحالی کا ایک موقع تصور کیا جاتاہے جس میں قیدیوں اورقرض داروں کے لیے عام معافی اور ان کی سزاؤں میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے۔ 83
عید الفطرکا تہوار رمضان المبارک کے اختتام 84کے بعد اسلامی تقویم کے 10 ویں مہینے(شوال) کی پہلی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ عید کے دن مسلمان سب سے پہلے طلوع آفتاب کے بعد دورکعات اجتماعی نماز(عبادت ) کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔85 نبئ اکرم حضرت محمد ﷺ کا معمول تھا کہ عید کے دن طاق عدد میں کھجوریں تناول فرماتےتھے جس کی عیدالفطر کے موقع پر آج بھی خاص پیروی کی جاتی ہے۔86حضور ﷺ اس موقع پر بہترین لباس زیب تن کرتے، خوشبو لگاتے اور کھلے میدان میں نماز عیدکی ادائیگی فرماتے تھے۔مزید یہ کہ نبئ اکرم ﷺ عید گاہ تک جانے اور واپس آنے کےلیے مختلف راستے اختیار فرماتےتھے۔
نماز عید کی ادائیگی کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے87 جس میں صدقۃالفطر، اتباع رضائے الٰہی ، آخرت کی زندگی کی تیاری اور یہاں تک کہ امور مملکت کے حوالے سے بھی بات کی جاتی ہے۔ اس جماعت میں مسلمان مرد و خواتین اور بچے شریک ہوتے ہیں ۔88نماز کے اختتام پر تمام مسلمان ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ کرتے اور ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں ۔ عید الفطر کا دن منانا اور اس میں خوشیاں منانے کی بنیادی وجہ وہ احادیث ہیں جن کے مطابق روزہ دار جب رمضان المبارک میں روزہ رکھتا ہے تو عید کے دن اس کے بدل میں اللہ تعالی اس کی مغفرت فرماتا ہے۔ اب وہ تمام مسلمان جو ماہ رمضان المبارک کو روزہ رکھ کر اس ماہ کو دیگر عبادات کے ساتھ مزین کرتے ہیں ان کے لیے یہ دن جزا اور بدل کا دن ہوتا ہےاسی لیے اس کی چاند رات کو لیلۃ الجائزہ قرار دیا گیا ہے اور اس کے ایام کو مذہبی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔
عیدالاضحیٰ 10 ذوالحجہ کو منائی جاتی ہے جو اسلامی تقویم کا 12واں اور آخری مہینہ ہے۔اس موقع پر مسلمان جانور کی قربانی پیش کرکے حضرت ابراہیم کی قربانی کی یادکو تازہ کرتے ہیں۔ قربانی کا گوشت ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس دن صرف ان لوگوں کو قربانی کرنے کاحکم دیا گیا ہے جو اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ2 89
پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّ ہے)۔
فرض نماز کے بعد 10 سے 13 ذی الحجہ تک مسلمان تکبیر ِتشریق یعنی،"اللّٰه اکبر ،اللّٰه اکبر ، لا اِلہ الاّاللّٰه وا للّٰه اکبر ، اللّٰه اکبر و للّٰه الحمد " پڑھتے رہتے ہیں۔90اس دن مسلمان سب سے پہلے طلوع آفتاب کے بعدعید کی دورکعت نماز پڑھتے ہیں (پھر خطبہ سنتےہیں) اور پھر واپس آکر جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔91 حضرت محمد ﷺ نے گوشت غریبوں میں بانٹنے کی ترغیب فرمائی ہے۔ 92 حضورﷺنے جو جانور تجویز کیے تھے ان میں مینڈھا،93 بکری، گائے اور اونٹ شامل ہیں۔94مسلمانوں کو تکبیر پڑھ کر اپنے ہاتھوں سے جانور کوذبح کرنے کا حکم دیا گیاہے۔تکبیر کا مطلب "اللہ اکبر" کہنا ہے جس کا معنی ہے کہ "اللہ سب سے بڑا ہے۔" 95
جانوروں کی قربانی کا یہ عمل حضرت ابراہیم کی پیروی میں کیا جاتا ہے96کیونکہ انہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر جب حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا اور اللہ نےان کے بدلےوہاں ایک مینڈھا جنت سے ملائکہ کے ذریعے بھجوایا تھا۔ یہ قربانی اس سنت ابراھیمی کی یاد اور نقل ہے جس میں مؤمنین کے لیے یہ ترغیب ہے کہ وہ جانور پر چھری پھیرتے ہوئے اصلاً اپنی نفسانی خواہشات پر اللہ کی رضا کی خاطر چھری کو پھیردیں اور اس جانور کی مثل اپنی چاہتوں کو اللہ کے دین کے لیے قربان کردیں۔ اسی لیے اس عمل کی احادیث میں بہت زیادہ فضیلت آئی ہے بلکہ اس قربانی میں پیش کیے جانے والے جانوروں کے حوالے سے بھی تفصیلی احکامات کُتبِ حدیث و فقہ میں بیان کیے گئے ہیں تاکہ اس عبادت اور اس کی روح کو جمیع لوازمات کے ساتھ ادا کیا جائے اور اس میں موجود ہر قسم کی غفلت سے اجتناب کیا جائے۔
شب قدرکی اہمیت اور وضاحت کے لیے اللہ نے قرآن مجید میں ایک مکمل سورت نازل کی ہےجو اس طرح ہے:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ 1 وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ 2 لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ 3 تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ 4 سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ597
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے، اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے، شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل ) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں، یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔
یہ سورت اس عظیم رات کی اہمیت کے بارے میں بتاتی ہے جسے مسلمان فرحت و انبساط اور دینی جوش و جذبہ سے مناتے ہیں اور اس میں عبادت و ریاضت کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ یہ اس دنیا اورعالم ِ بالا کے مابین کامل اشتراک کی رات ہے۔ اسی رات حضرت محمد ﷺپر نزول قرآن مجید کا آغاز ہوا ۔یہ واقعہ انسانیت کی تاریخ میں اپنی شان و شوکت اور مجموعی طور پر انسانوں کی زندگی کے لیے اہمیت کے حوالے سے بےمثال ہے۔98
حضورﷺ نے اس رات کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔99 اور آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ہے جو شخص اس رات میں اللہ کی خاطر عبادت میں رہا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئیےجاتے ہیں۔100 جس کی وجہ اس رات میں نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم کی عزت و تکریم ہے۔
مندرجہ بالا آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہاں ایک ہزار ماہ سے 83 سال اور 4 ماہ کا قطعی مطلب محض ماہ کی گنتی مراد نہیں بلکہ ایک بہت طویل عرصہ مراد ہے۔ لہذا آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک ایسا کام انجام دیا گیا تھا جو تاریخ کے ایک طویل دورانیے میں بھی انجام نہیں دیا جاسکتاتھا101کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس رات میں اپنی مقدس کتاب قرآن مجید نازل فرمائی جو ایک مکمل ضابطۂ حیات اور بنی نوع انسان کے لیے رہنما ہے اور جس کا حصول پوری دنیا حاصل کرنے سے بہتر ہے۔
جمعہ کو اسلام سے پہلے کے عرب میں"یوم العروبۃ " کہا جاتا تھا۔102جمعہ "جَمَعَ" سے مُشتق ہے جس کا مطلب "جمع کرنا"ہے ۔ عملی طور پر یہ اصطلاح جمعہ کی نماز کے لیے لوگوں کو مجتمع کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔103حضورﷺ نے قبا کے مقام پر پہلی نماز جمعہ کی امامت فرمائی تھی ۔104 تاہم بعد میں نماز ظہر کی جگہ پر جمعہ کی نماز کو (ہر ہفتے میں ایک بار جمعہ کے دن) مسلمانوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا۔105مزید یہ کہ اس نماز سے قبل ہر جمعہ کے دن لوگوں کو دنیاوی و مذہبی معاملات اور آخرت کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے مقامی زبانوں میں خطبات دئیےجاتے ہیں۔ اس کے بعد عربی خطبہ دینا بھی واجب ہے۔106اس دن مسلمانوں کے لیے غسل کرنا، مسواک کرنا، صاف ستھرےکپڑے پہننا اور خوشبو لگا نا مستحب ہے۔107 جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ تمام کاروبار ترک کردیں اور نماز کے لیے مسجد میں آجائیں۔108تاہم مسلمانوں کو سارا دن اپنا کاروبار یا دوسرے کام کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ یہ پابندی صرف ایک بہت ہی مختصر وقت کے لیے ہے اور وہ بھی اس لیے تاکہ وہ تعلیم حاصل کرسکیں، نماز پڑھیں اور نماز کے بعد ان لوگوں سےبھی ملاقات کریں جن سے دیگر ایام میں نہیں مل پاتے ہیں۔ اس طرح معاشرتی اتحاد کو بھی تقویت ملتی ہے۔109
ان تہواروں کے ساتھ ساتھ مسلمان ہر سال ولادت رسول ﷺ کا تہوار اللہ تعالی کا شکر بجالانے کے لیے مناتے ہیں (جس کی مکمل تفصیل سیرت النبی ﷺ کی ولادت رسول ﷺ والی جلد میں موجود ہے)۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمان شب معراج، شب برأت، مشائخ و اولیاء کرام کے عرس ، محفل نعت و ذکر و اذکار کے حلقے بھی تہذیبی اور تمدنی اقدار کے طور پر مناتے ہیں۔
دوسری قدیم تہذیبوں کی رسومات فحش ، غیر اخلاقی اورانسانی وضع کردہ تھیں اور ان کا درحقیقت مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔اس کے برعکس اسلامی عبادات اور مذہبی رسومات واضح، جامع، آسان ، اعتدال پر مبنی اور اپنی شکل میں جن کا مقصد خالص اللہ تعالیٰ کی قربت و معرفت ہیں۔ ان اعمال و افعال کی ادائیگی سے نہ صرف بندہ خود کو پاک و صاف، پُرسکون،مطمئن اور روحانی بالیدگی کی حالت میں محسوس کرتا ہے بلکہ صبر و استقلال، معاشرتی روداری، انصاف، مساوات، حقوق کی ادائیگی، کمزوروناتواں کے ساتھ ہمدردی کرنے کی جانب بھی رغبت پاتا ہے ۔ یہ وہ اعلیٰ ترین خوبیاں ہیں جو دوسری قدیم تہذیبوں اور ان کے عباداتی نظام میں موجود نہیں تھیں اور نہ ہی آج تک دیگر مذاہب میں پائی جاتی ہیں۔