Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

اسلام کے مذہبی عقائد

قدیم تہذیبوں کا گہرا مطالعہ اس اہم حقیقت کی جانب نشاندہی کرتا ہے کہ زندگی کےمختلف شعبوں میں مادّی کامیابی حاصل کرلینے کے بعد ان بڑی اور بظاہر عظیم الشان تہذیبو ں بشمول روم اوریونان کے انہوں نے صرف اپنی خواہشات اور مادّی و طبعی ضروریات اور اپنی روحانی تشنگی کی دور کرنے کے لیے مذہبی عقائد کا ایک خود ساختہ نظام وضع کر لیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دیوی دیوتاؤں اور باطل خداؤں کے تصورات بھی گھڑلیے تھے۔ ایک طرف وہ باطل خدا آسمانی ہدایت اور انبیاء کی ہدایت کے برعکس فرد، کنبہ، شہر اور ریاست کی ضروریات پوری کرنےکا کام انجام دیتے تھے اور دوسری طرف اصحابِ اقتدار اپنی حکمرانی کو دوام دینے کے لیے دیوی دیوتاوٴں کو مختلف انواع و اقسام میں تقسیم کرکےان کی پرستش و عبادت کا سلسلہ قائم کیے ہوئے تھے۔ خود پرستی اورتوہم پرستی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ بعض معاشروں میں تو بادشاہوں نے اپنی ذات کو ہی دیوتاوٴں کا روپ قرار دے کر لوگوں سے زبردستی خود کو خدا کہلوایا اور بعض مفاد پرست یا مجبور رعایا نےبلا چوں و چراں اس پر یقین بھی کر لیا تھا۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ تمام انسانی تہذیبیں ہدایتِ سماوی سے تہی دامن تھیں یا ان میں انبیاء و رسل کا سلسلہ موجود نہیں تھا بلکہ مختلف ادوار میں ان تہذیبوں کی وحئ الٰہی اور انبیاء کرام تک براہ راست رسائی رہی لیکن اپنی ضد، جہالت، ہٹ دھرمی اور دنیاوی فوائد و اقتدار کے چھن جانے کے خوف سے وہ فلاح و نصرت کے پیغام سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں۔

مختلف تہذیبوں کے جُدا جُدا ادوار میں وجود پانےاور طرح طرح کے جغرافیائی مقامات پر ہونےکی وجہ سے ان دیوی دیوتاؤں کا تصور کافی حد تک ایک دوسرے سےمختلف تھا۔مثال کے طور پر مصر میں دیوتاؤں کے نام یونانی دیوتاؤں سے مختلف تھے لیکن ان کے بیان کردہ افعال و فرائض قریب قریب ایک جیسے ہی تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تہذیبوں کے مذہبی عقائد میں بتوں اور دیوتاؤں کو انسانوں سے مشابہہ خصلتوں اور مثبت ومنفی خصوصیات کا حامل بھی قرار دیا گیا تھا۔ یہ خصلتیں اور خصوصیات دورِقدیم کے انسانوں کے تخلیق کردہ افسانوں سے ماخوذ تھیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان گمراہ لوگوں کو خدا ئےواحد کی رہنمائی کا احساس اور سمجھ ہی نہیں تھی۔یہ لوگ صفات باری تعالیٰ سے اس حد تک ناواقف تھے کہ انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا تھاکہ ان دیوتاؤں کا بھی انسانوں کی مانند ایک خاندان ہے، جہاں خدا کی بیویاں، بچے، بھائی اور بہنیں ہیں جوانسانوں کی مانندہمیشہ اقتدار کی ہوس کا شکار ہوکر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے ہیں۔ انسانی خصلتوں اور تشبیہات کے مُرصّع کرنے کےبعد ان دیوتاؤں کو دیکھنے کی انسانی خواہش نےاِن اَن دیکھے دیوتاوٴں کو مجسموں اور بتوں میں انسانوں سے ملتی جلتی جسمانی شکلوں میں ڈھالنےکی ترغیب فراہم کی۔یوں بت پرستی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔یہ مجسمے سونے، چاندی، لکڑی، مٹی اور گارے سے بنائے جاتے تھےلیکن ان میں کوئی صلاحیت، طاقت اور روحانیت نام کی شے موجود نہیں تھی بلکہ یہ صرف انسانوں کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بے جان، غیر متحرک مادی اجسام تھےجن پر بے بسی اور لاچارگی کی کیفیت طاری ہونے کا بھی تصور نہیں کرسکتےحتٰی کہ ان کے جسموں کی صفائی ستھرائی اور حفاظت بھی پرستش کرنے والے انسانوں اور پجاریوں پر ہی منحصر تھی۔

عہدِ عتیق کے اُن بت پرست انسانوں کا خیال تھا کہ ان کے خداؤں کے ساتھ ان کا رشتہ تبادلے کے تصور پر مبنی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر انہوں نے ان بتوں اور دیوتاؤں کی بارگاہ میں دعا کی یا کوئی اچھا کام کیا تو دیوتا اس کا بدلہ دینے اور ان کی حاجت پوری کرنے کے پابند ہیں بصورت دیگر ان کی پوجا ترک کر کے کوئی اور دیوتا تلاش کر لیناچاہیے۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کے سامنے ان باطل خداوٴں اور دیوتاؤں کی ایک طویل فہرست موجودتھی جس میں سے وہ اپنی ضرورت اور طبیعت کے مطابق کوئی بھی خدا چن سکتے تھے اور اگر کوئی نہ ملتا تو نیا گھڑ لیتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی ہر خواہش کسی خاص قسم کے معبود یا دیوتا کے سامنے کچھ خاص مذہبی رسوم کی انجام دہی سے پوری ہوجائے گی۔ اسی بنا پر انہوں نے پیارو محبت، جنگ وجدل، شراب اور غذا وغیرہ کے الگ الگ دیوی دیوتا بنائے ہوئے تھے۔ دیوی دیوتاوٴں کے ان پرستاروں نے ایک الگ ہی دیومالائی اور تصوراتی دنیا بنائی ہوئی تھی جس پر ان کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ ان کے بعد آنے والے لوگ بھی اپنے حقیقی خالق و مالک سے دور گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتے رہے تھے، انہیں احساس تک نہ تھا کہ وہ حقیقت کی دنیا سے کس قدر دور جا چکے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ انبیا و مرسلین ان لوگوں تک معبودِ حقیقی کی طرف سے پیغام ِ ہدایت لے کر آتے رہے اور کئی افراد نے ان نفوس قدسیہ کے ہاتھوں توبہ کرکے اللہ رب العزت کی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد کر لیا تھا لیکن طاقتور حکمرانوں اور اُن سفاک لوگوں کی طرف سے ظلم و ستم اور انبیاء کی تعلیمات میں تحریف اور دھوکہ دہی نے عام لوگوں کو حقیقتِ مطلقہ کی آگاہی سے دور رکھا اور سخت رکاوٹیں پیدا کیں۔

ایسے ہی مایوس کُن منظر نامے میں نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفےٰﷺ کو بنی نوع انسان اور اللہ تعالیٰ کے مابین ٹوٹا ہوا ربط جوڑنے کے لیے بھیجا گیا۔ آپ ﷺپرنازل کیا گیادین"اسلام" خالق ِ کائنات کی طرف سے نازل کردہ تھا اور گمراہی و ضلالت میں بھٹکتی انسانیت کے لیے ایک واضح الہامی پیغام اور روشنی کی نوید تھا جو آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ اسلامی عقائد کا یہ نظام انتہائی سادہ وسلیس، عقلی ومنطقی، مکمل عملی اور ایک انتہائی منظم و مرتب نظام تھا۔ یہ جامع نظام، دینیات، الٰہیات، موجودات، کونیات، علم الکلام اور نظریۂ علم وغیرہ سے متعلق تمام سوالات اور الجھنوں کے تشفّی بخش جوابات دیتا ہے۔

تمام انبیاء کا دین اسلام تھا

یہ اٹل حقیقت ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے گئے تمام پیغمبران و رسلہمیشہ عقائدِ اسلام کے ساتھ ہی مبعوث کیے گئے اور انہوں نے ہمیشہ انہی آفاقی عقائدکی تبلیغ کی تھی۔ تمام الہامی مذاہب کا بنیادی نظریہ اور عقائدہمیشہ یکساں رہے اسی لیے تمام پیغمبرانِ خدا نے دین ِفطرت یعنی"اسلام" پر ہونے کا دعوی کیا اور اسی کی ترویج و اشاعت پر کمر بستہ رہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

  وَوَصّٰى بھآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْه وَيَعْقُوْبُ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰه اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ 1321
  اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی (یہی کہا:) اے میرے لڑکو! بیشک اللہ نے تمہارے لیے (یہی) دین (اسلام) پسند فرمایا ہے سو تم (بہرصورت) مسلمان رہتے ہوئے ہی مرنا۔
  وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰه فَعَلَيْه تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ842
  اور موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم (واقعی) مسلمان ہو۔
  وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيِّيْنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ قَالُـوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ1113
  اور جب میں نے حواریوں کے دل میں (یہ) ڈال دیا کہ تم مجھ پر اور میرے پیغمبر (عیسٰی علیہ السلام) پر ایمان لاؤ، (تو) انہوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے اور تو گواہ ہو جا کہ ہم یقیناً مسلمان ہیں۔
  فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ 524
  پھر جب عیسٰی (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں، اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقیناً مسلمان ہیں۔

مذکورہ بالا آیات اس بات کا واضح و بین ثبوت ہے کہ قدیم دور میں بھی ایمان یافتہ بندگانِ خدا کا دین اسلام ہی تھا۔ انہوں نے خود کو عیسائی، یہودی، اشتراکیت پسند یا قانون پسند وغیرہ کبھی نہیں کہلوایا بلکہ علی الاعلان خود کو"مسلمان" کہا۔ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمدمصطفی ﷺ پر نازل ہونےوالا دین بھی وہی الہامی پیغام تھا جوآپ ﷺ سے قبل تشریف لانے والے تمام انبیا و مرسلین پر نازل کیا گیاتھا تاہم یہ اس الہامی پیغام کی آخری اور کامل صورت ہے۔

اسلام انسانیت کے لیے ایک عظیم نعمت ہےکیوں کہ اس نے انسانی زندگی کے بنیادی اور قطعی مسائل کا حتمی حل پیش کردیاہے۔ قدیم تہذیبوں کے افرادتصورِ خدا کے بارے میں الجھن اور پریشانی کا شکار تھے، جیسے قدیم یونانی، رومی، مصری اور مختلف تہذیبوں کے مذہبی ماہرین جنہوں نے اپنے اپنے خود ساختہ تصورات اور صفات کو خدا سے منسوب کیا ہوا تھا اور بعض گروہوں نے تو تعدّد اور خداوٴں کی افزائشِ نسل پر بھی یقین کر لیا تھا جو شرک کا باعث بنا۔ کچھ مفادپرستوں نے ایک قدم اور آگے بڑھا یااور خدا کی تجسیم اور اس کے لیے انسانوں جیسی خصوصیات ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح کے باطل نظریات گھڑنے کے باوجود وہ کسی طرح کی عقلی وضاحت و دلیل پیش کرنے سے مکمل قاصر تھے اور نہ ہی ان کے اس عمل نےان کی مذہبی مشکلات میں کوئی آسانی پیدا کی تھی۔ اسلام نےخالقِ کائنات اور زندگی وآخرت کے متعلق سوالات کے براہ راست واضح اور مطمئن کرنے والے جوابات مہیا کیے اور ان سب اشکالات کاایک جامع حل اوران سے متعلقہ امور کےبارے میں واضح ہدایت ورہنمائی پیش کی جو قیامت تک کے انسانوں کے لیے مشعل ِراہ ہے۔

اسلام کی جامع تعریف

حضرت محمدمصطفی ﷺ سے ایک موقع پر اسلام اور ایمان کے متعلق استفسار کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:

  الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا اللّٰه وأن محمدا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم،وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا...قال: فأخبرني عن الإيمان، قال: أن تؤمن باللّٰه، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره. 5
  اسلام یہ ہے کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعت رکھو تواس کے راستے میں حج ادا کرو․․․․ (پھر سائل نے پوچھا) مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ:(ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ پر ،اس کے فرشتوں پر، اس کی (نازل کردہ) کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر، اور (ساتھ ہی )تم اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاوٴ۔

اسلام کی حقیقت اطاعت خداوندی ہے یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنی سوچ و فکر اور معاملات و معمولات کو اللہ کا مطیع کر دے۔انسان اپنی حقیقت میں خدا کا بندہ ہے،خدا کی بندگی کے صحیح اور الہامی طریقے کا نام اسلام ہے،اسی لیے جو شخص یا قوم اسلام کے ماسوا کسی مذہب کے مطابق زندگی گزارتی ہے وہ بہرحال خدا کی بندگی کے ماسوا کسی دوسرے طریقہ کے مطابق زندگی گزارتی ہے اگرچہ وہ اپنے زُعم میں خدا کی بندگی کا اقرار کرے۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں اللہ تعالیٰ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان،اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام الہامی کتابوں اور صحائف پر ایمان، اس کے رسولوں پر ایمان، یوم ِ آخرت، حساب و کتاب اور سزاو جزا پر ایمان اور قدر وتقدیر پر ایمان شامل ہے۔ان عقائد کی تفصیل درج ذیل ہے:

توحیدو رسالت کا اقرار (شہادت)

اسلام میں داخل ہونےکے لیے زبان سے ایمان کا اقرار کرنا اوردل سے اس کی تصدیق ضروری ہے۔6ایمان کا اقرارمندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ کیا جاتاہے:

  اشھدان لااله الااللّٰه واشھد ان محمدا رسول اللّٰه.7
  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔

اگر کوئی شخص عربی زبان سے واقفیت نہیں رکھتا تو صرف نقل شدہ مذکورہ بالا الفاظ کے معنی کا اعلان اور قبول کرنا بھی اس شخص کو مسلمان بنا نے کے لیےکافی ہے۔8یہ اقرار دو حصوں پر مشتمل ہے:

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰه

ایمان کےاقرار و اعلان (شہادت)کا پہلا حصہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ " ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود(لائق عبادت) نہیں ہے۔یہ حصہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اسلام قبول کرنے والا ہر فرد دیگر تمام باطل خداؤں اور عبادت کی جانے والی اشیاء سے اپنے دل کو صاف کرنے اور ان سے لاتعلقی کا اعلان کرے اور دل و جان سے یہ یقین کرلے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے۔ یہ حصہ تصوّرِ توحید (صرف اور صرف " ایک" خداکے وجود پر یقین رکھنا) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اورکو شریک ٹھہراتا ہے تو وہ "شرک"جیسے قبیح فعل کا مرتکب ہوتا ہے اور مسلمان نہیں رہتا۔

اس سادہ سے تصور نے انسانوں کے خود ساختہ اورجعلی مذہبی بنیادوں کو نیست و نابود کردیا جنہوں نے خدا کے ساتھ بیویوں، بچوں اور بہن بھائیوں کے تصور کو جوڑ کر "شرک" کا ارتکاب کیاتھا۔

یہ بات ہر ذی شعور اچھی طرح سمجھتا ہے کہ بفرض محال اگر ایک سے زیادہ معبود ہوتے تو ہر ایک اپنی بالادستی اورنظام کی عملداری کا خواہاں ہوتا جس سے ہر طرف انتشار پھیل جاتا اوریہ دنیا اور اس کا نظام تباہ وبرباد ہو کر نیست و نابود ہو جاتا۔ لیکن یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ ازل سے کائنات کا نظام مکمل یکسانیت کے ساتھ منظم و مرتب انداز سے جاری و ساری ہے۔ یہ غیر متبدّل حقائق اور منطقی طور پرمدلل استدلال اس یقین کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ صرف ایک ہی ایسی برتر و اعلی ٰ ذات ہے جس نے اس جہانِ رنگ و بو کو پیدا کیا ہےاور یہ دنیا اور اس کا نظام اسی کے اختیارو قدرت کے تحت کام کر رہاہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

  لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ 229
  اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اﷲ کے سوا اور (بھی) معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو جاتے، پس اﷲ جو عرش کا مالک ہے ان (باتوں) سے پاک ہے جو یہ (مشرک) بیان کرتے ہیں۔

اس آیتِ قرآنی میں اس ناقابل تردید حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کوئی بھی ادارہ، گھر، سیارہ، کہکشاں اور کائنات جس میں اربوں کھربوں ستارے ہوں، کبھی بھی دو مالکوں یا دوحکمرانوں کے ہوتے ہوئے روانی سے کام نہیں کرسکتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کائنات کے تمام نظام ایک آفاقی قانون کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر مختلف طاقتوں اور ان گنت چیزوں کے مابین مناسب تناسب، توازن، ہم آہنگی اور ربط نہ ہوتو یہ نظام کام نہیں کرسکتا۔ یہ بیک وقت انتہائی پیچیدہ اور انتہائی منظم نظام اس بات کا واضح اور بیّن ثبوت ہے کہ ایک آفاقی اور طاقتور قانون اور نظام موجود ہے جو ان طاقتوں اور اشیاء کو ایک کامل تناسب اور ہم آہنگی کے ساتھ آپس میں تعاون اور ربط قائم رکھنے پرمجبور کرتا ہے۔ اگر الگ الگ آزاد حکمران یا خدا ہوتے تو ان سب کا بیک وقت حکمرانی کا تصور بھی محال تھا۔ اس طرح کے نظام کا وجود بذات خود اس بات کا واضح اور بیّن ثبوت ہے کہ پوری کائنات پر حکمرانی اور اس کی نگرانی کرنے والے ایک قادرِ مطلق(Omnipotent) منتظم اورنگران کی موجودگی ضروری ہے۔10اس کے ساتھ ساتھ جب مسلمان لا الہ الا اللّٰه کہتا ہے تو وہ بڑے وثوق سے اس بات کا بھی اقرار کر رہا ہوتا ہے کہ اس کلمہ کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے معبود حقیقی،مالک حقیقی،مسجود حقیقی،منعم حقیقی اور رب العالمین کہہ کر دو سرے تمام ارباب اختیار اور اقتدار کا علی الاطلاق رد کر دے،شرک صرف ذات باری تعالی تک ہی محدود نہیں بلکہ شرک فی الصفات اور شرک فی المعاملات اور شرک فی الافعال بھی اپنے وسیع اطلاق میں اس زمرہ میں شامل ہیں۔ تمام انبیا و مرسلین نے بھی ہر زمانے میں توحیدِ باری تعالیٰ کا یہی پیغام دیا تھا بعد ازاں نبی ِ اکرم ﷺ نے ان تمام سابقہ پیغامات کو مرتب وملخص انداز میں بطور"اسلام" دنیا کے سامنے پیش فرمایا ۔

ذاتِ باری تعالی

اللہ تعالی ایک ہے11 اور اس کا کوئی شریک نہیں12 نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں،13 نہ احکام میں، نہ علم میں14 اورنہ ہی اسماء میں۔15 اللہ تعالی کی ذات مبارکہ واجب الوجود ہےیعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدم مُحال(یعنی اللہ کے وجود کا نہ ہونا تصور ہی نہیں کیا جاسکتاہے)، وہ قدیم ہے16 یعنی ہمیشہ سےہے اور ہمیشہ رہے گا اور اسی کو اَبدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت و پرستش کی جائے۔17 وہ بے پرواہ ہے، کسی کامحتاج نہیں اور تمام جہان اس کامحتا ج۔18

اس کی ذات کا ادراک عقلاً محال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اس کا احاطہ کرتی ہےلیکن اس کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ البتہ ا س کے افعال کے ذریعہ سے اجمالاً اس کی صفات، پھر ان صفات کے ذریعہ سےمعرفت ذات حاصل ہوتی ہے۔ وہ حَی ہے یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔19 وہ ہر ممکن قادر ہے، کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر نہیں۔20

محمد رسول اللہ ﷺ

شہادت کا دوسرا حصہ"محمد رسول اللہ"( محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں) بھی انتہائی اہم ہے اور اگر انسان اسے قبول نہیں کرتا تو وہ کبھی بھی صاحب ِ ایمان نہیں ہوسکتا۔ کسی شخص کو صرف اسی صورت میں مسلمان قرار دیا جاتا ہے جب وہ دل وجان سے صرف اللہ تعالیٰ کو معبود برحق اورحضرت محمد ﷺ کو اللہ کا آخری نبی اور رسول تسلیم کرلے۔ اگر کوئی حضور خاتمی المرتبت ﷺ کی نبوت و خاتمیت کا انکاری ہو تو وہ خود کو کسی درجے میں بھی ذاکر، شاکر، عابد و زاہد گردانتا ہو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کے لیے اس بات کی اجازت ہے کہ وہ خود کو مسلمانوں کے درمیان بحیثیت مومن اور مسلمان کے پیش کرے۔آپ ﷺ کی نبوت اور ختم نبوت پر ایمان رکھنا بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا کہ اللہ کی توحید پر ایمان رکھنا بصورتِ دیگر ایسا انسان مسلمان نہیں ہوتا، چاہے اپنی زبان سے وہ خود کو مسلمان ہی کیوں نہ کہتا پھرے۔اسلامی علم العقائد کے مطابق صرف توحید پر ایمان ایسے شخص کو نفع دے سکتا ہے جو دنیا کے کسی ایسے خطے میں موجود ہو جہاں کوئی دوسرا انسان اس تک اسلام کا پیغام یا اس کی خبر پہنچانے کے لیے موجود نہ ہو، اگر کسی شخص نے بھی کسی بھی ذریعے سے اس تک اسلام کا پیغام یا دعوت کو پہنچا دیا تو اب اس کا خالی توحید پر ایمان رکھنا اس کو نفع نہیں دے گا بلکہ اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ شخص توحید کے ساتھ حضور ﷺ کی رسالت اور آپ کی خاتمیت پر بھی ایمان رکھے اور کیونکہ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں یہ عذر بھی تقریباً مفقود ہو چکا ہے، اس لیے ہر ذی شعور کے لیے اسلام میں داخلے کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ توحید باری تعالیٰ کے ساتھ رسالتِ محمدی ﷺ پر بھی ایمان رکھےاور آپ ﷺ کو اللہ کا آخری نبی و رسول تسلیم کرے ورنہ وہ مسلمان نہیں ہے۔

فرشتوں پر ایمان

فرشتوں پر اعتقاد ایک مسلمان کے عقیدے کا بنیادی جزو ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

  اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْه مِنْ رَّبِّه وَالْمُؤْمِنُوْنَ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰه وَمَلٰۗىِٕكَتِه. . الخ285 21
  (وہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر۔۔

فرشتے نور سے پیداشدہ مخلوق ہیں 22جواپنی صورتیں تبدیل کرسکتے ہیں۔23 یہ انسانوں کی طرح مرد و عورت اور مذکرو مونث ہونے سے پاک ہیں نیز نہ ہی یہ خدا کی بیٹیاں ہیں 24اور نہ ہی یہ کسی قسم کی عبادت و پرستش کے لائق ہیں جیسا کہ دنیا کے کچھ گمراہ افراد نے من گھڑت اعتقاد بنا لیا تھا۔

فرشتے اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ فرمانبردارمخلوق ہیں جو ساری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ شوہر، بیوی، بیٹا، بیٹی جیسے انسانی رشتوں اوراوصاف سے مبراء و پاک ہیں۔ ان کے مادی اجسام نہیں لیکن وہ اپنی پسند کی کوئی بھی صورت اختیار کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔25 وہ کھانے، پینے اور نیندجیسی انسانی خواہشات سے بھی مبرا ہیں۔ ان کی کسی قسم کی کوئی مادی خواہشات نہیں، نیز وہ معصوم ہیں کبھی کوئی گناہ نہیں کرتے اور نہ کبھی کرسکتے ہیں نیز ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں لگے رہتے ہیں۔26فرشتے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرتے اور نہ ہی کبھی کسی عمل سے تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔ کائنات کے جملہ امور مثلا ً ستاروں،سورج اور چاند کا گردش کرنا،بارش،موسم کی تبدیلیاں،رزق اور اناج کا اُگنا وغیرہ کے انتظامات کے نگہبان یہی فرشتے ہیں۔

باالفاظ ِ دیگرفرشتے خدائی کارکن ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کائنات میں مقررہ افعال کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے ضامن بنائے گئے ہیں لیکن اللہ رب العزت ان سے کام لینے میں یا ان سے مدد حاصل کرنے میں قطعا ً ان کا محتاج نہیں، یہ اللہ کی طرف سے ذمے لگائے ہوئےامور پر تو مامور ہیں لیکن اللہ اپنے امور کی انجام دہی میں ان کا محتاج نہیں بلکہ بہت سے کام ایسے ہیں جو اللہ رب العزت ان سے کہے بغیر براہ راست اپنے امر اور حکم "کُن" سے کرتا ہے اور وہ کام بغیر کسی فرشتے کے"امر ِکُن" سے وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔فرشتوں کے مختلف فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جن میں سب سے اہم ذمہ داری انبیائےکرام کے پاس اللہ کا پیغام (وحی) لانا تھا۔ وہ اللہ کی عبادت اور تسبیح کرتے ہیں اور اسی کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ فرشتے نیک لوگوں کو تسلی اور تسکین فراہم کرتے اور خوشخبری سناتے ہیں۔27 قرآن حکیم کے مطابق حضرت ابراہیم کے سامنے فرشتے انسانی شکل میں ظاہر ہوئے تاکہ انہیں بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنائیں اور وہ لوط کے سامنے بھی ظاہر ہوئے تھےتاکہ انہیں اپنی قوم کے شریر لوگوں پر آنے والے عذاب سے خبردار کریں 28اورنبئ آخرالزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے سامنے بھی اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیےبشری صورت میں ظاہر ہوئے تھےجیسا کہ حدیث ِجبرائیل میں مذکور ہے۔29

اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے صحابۂ کرام کی مدد کےلیےبھی فرشتے اترے تاکہ ان كے دل پر سکون طاری ہو جائے اور وہ اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کریں جس کی ایک مثال جنگِ بدر ہے۔30 کچھ فرشتے آخرت میں احتساب کے عمل کے لیے انسان کے اعمال،الفاظ اور خیالات محفوظ کرنے کے لیے مقرر ہیں۔31اسی طرح فرشتے جنت میں مسلمانوں کا استقبال کریں گے اور بدکاروں کو جہنم میں سزا دیں گے۔32 فرشتوں کی تعداد شمار سے باہر ہے ان کی تعداد کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔33 یا اس کے بتانے سے اس کا رسول جانتا ہے۔ تمام فرشتوں میں چار فرشتے مقرب تر ہیں جنہیں عالم کے بڑے بڑے امور اور ملک و ملکوت کے عظیم کام سپرد ہیں34 ان کا مختصربیان مندرجہ ذیل ہے:

حضرت جبرائیل

حضرت جبرائیل زمین پر اللہ کا پیغام انبیاء تک پہنچانا تھا۔ یہ جبرائیل ہی تھے جنہوں نے اللہ کی مقدّس آیات کونبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ تک پہنچایا تھا۔35

حضرت میکائیل

حضرت میکائیل کےفرائض میں کائنات کے امور کی نگرانی شامل ہے۔جیسے بارش، رزق اور ہواؤں کے نظام وغیرہ کی دیکھ بھال کا فرض انہیں سونپا گیاہے۔36

حضرت عزرائیل

حضرت عزرائیل کو موت کا فرشتہ یا "ملک الموت" کہا جاتاہے جن کے ذمہ لوگوں کی روحیں قبض کرنا ہے۔37 روایت ہے کہ ملک الموت کا قدم مشرق اور مغرب کے درمیان ہے ان کے نزدیک تمام روئے زمین ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح ہے وہ اس میں سے جو چیز چاہتے ہیں اور جہاں سے چاہتے ہیں پکڑ لیتے ہیں۔ رحمت اور عذاب کے فرشتے ان کے مددگار ہیں جب مددگار فرشتے انسانی روح کھینچ کر سینے اور گلے تک پہنچا دیتے ہیں تو ملک الموت اس کو قبض کرلیتے ہیں۔38

حضرت اسرافیل

جب اس کائنات کے نظام کے ختم ہونے کا وقت ہوگا تو حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دیا جائے گا۔ 39

کراماً کاتبین

یہ فرشتے وہ مقدس کاتبین ہیں جوبلا تخصیص ِ رنگ، مذہب، نسل اور عمر ہر انسان کے ساتھ مقرر ہیں۔وہ انسان کے اعمال محفوظ کرتے ہیں۔ بائیں طرف کا فرشتہ برے کاموں كو لكهتاجبکہ دائیں طرف کا فرشتہ اچھے کاموں کو محفوظ کرتا ہے۔40

منکر نکیر

منکر نکیر بھی مقدس کاتبین کی طرح جوڑے میں ہیں۔یہ فرشتے موت کے بعد انسان کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں اس سے اس کے عقائد کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ اگر وہ شخص مسلمان ہے تو اسے پرسکون نیند کا بدلہ دیا جاتا ہے جبکہ ایمان نہ لانے والوں کو قیامت تک سزا دی جاتی ہے۔41

اس کے علاوہ بھی بہت سے لاتعدادفرشتے ہیں جو مختلف فرائض کی انجام دہی پر معمورہیں۔ان میں سے کچھ بچوں اور نیکی کے راستے پر چلنے والے لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ بعض کے ذمہ ماں کے شکم میں بچے کی صورت بنانا ہے۔42ان کی کل تعداداور ان کے مخصوص فرائض کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔43

اِلہامی کتابوں پر ایمان

الہامی کتابوں پر ایمان اسلامی عقیدے کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ سب آسمانی کتابیں اور صحائف برحق ہیں اور اُن میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان ضروری ہے۔44 ایک مسلمان کا خدا کی تمام کتابوں پر اعتقاد اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس جہان ِ رنگ و بو میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے مختلف اوقات میں اپنے انبیاء و مرسلین پر اپنے احکامات اور تعلیمات نازل فرمائیں۔ ایک مسلمان ان تمام نازل شدہ کتابوں اور صحائف پر یقین رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابوالبشر حضرت آدم سے لے کررحمت ِدوعالم حضرت محمد ﷺ تک مختلف پیغمبروں پر نازل فرمائے تھے۔

اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر سب سے بڑا احسان ان کتب اور صحائف میں موجود کامل ہدایت اور راہ نمائی ہے۔نسل انسانی کے اس طویل سفر میں وقتا ًفوقتا انبیاء و مرسلین اللہ کی عطا کردہ کتب اور صحائف کے ساتھ انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے تشریف لاتے رہے۔ انبیاء نے بنی نوع انسان کو جو رہنمائی فراہم کی وہ انسانیت کی روحانی اور جسمانی نشونما کا ذریعہ ہے جس کی بدولت ایک انسان مجموعی طور پر، دونوں جہانوں میں راست بازی پر مبنی پرسکون اور کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔

ان الہامی کتب اور صحائف میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خالص، کامل اور انتہائی مفیدترین علم شامل ہے جو اللہ کی وحدانیت، ختم نبوت، فرشتوں، الہامی کتب اور آخرت جیسے بنیادی عقائد سے متعلق ہے۔ ان کتابوں میں مختلف ادوارکے تقاضوں اور وقت کی ضروریات کے مطابق اخلاقیات، معاشیات، سماجیات اور دیگر اہم شعبہ ہائے زندگی سے متعلق احکامات بھی شامل ہیں۔ نوعِ انسانی کی طویل تاریخ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء و مرسلینپر بہت سے صحیفے نازل فرمائے ہیں جن کی حقیقی تعداد کا علم صرف اسی کو ہے۔تاہم مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہ تمام صحیفے اللہ تعالی کے کلام کے طور پر نازل كئے گئے ہیں۔ قرآن پاک میں مذکور صحیفے مندرجہ ذیل ہیں:

  1. حضرت ابراہیم 45اور دیگر ابنیاء ﷨پر نازل شدہ صحائف
  2. حضرت موسیٰ پر نازل شدہ تورات46
  3. حضرت داؤد پر نازل شدہ زبور47
  4. حضرت عیسیٰ پر نازل شدہ انجیل48
  5. قرآن ِ حکیم جونبئ آخرالزماں ﷺ پر نازل کیا گیا۔49

آسمانی کتابوں میں سے صرف قرآن مجید ہی اپنی اصل صورت میں موجود ہے۔ اسی لیے قرآن کریم آسمانی کتابوں میں سے صرف ایک کتاب نہیں بلکہ وہ تمام آسمانی کتابوں میں واحد قابل اعتبار اور لائقِ اعتماد کتاب ہے کیونکہ اس میں کسی قسم کی معمولی سی تبدیلی وتحریف یا نقطے، زبر اور زیر کا ردوبدل بھی نہیں ہوا ہے۔ پچھلی آسمانی کتابیں زبور، تورات اور انجیل اپنی اصل شکل، متن اور زبان میں دستیاب نہیں ہیں۔مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان آسمانی کتابوں کے متن اور پیغام میں ترمیم، تبدیلی اور تحریف کی گئی ہے۔50 قرآن مجید کے علاوہ آسمانی کتابیں صرف انبیاءہی کو یاد ہوتی تھیں51 تاہم یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ اسے مسلمانوں کا بچہ بچہ یاد کرلیتا ہے52قرآن مجید جیسا نازل ہوا تھا ویسا ہی اب بھی اپنی اصلی شکل میں برقرار اورمحفوظ ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

  اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَه لَحٰفِظُوْنَ953
  بیشک یہ ذکر عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔

اس بات میں شک کا معمولی ساشائبہ بھی نہیں ہےکہ قرآنِ مجید کلام ِ الہی ہے۔ یہ آخری الہامی صحیفہ ہے جو اللہ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ پر حضرت جبریل کے ذریعے نازل فرمایا تھا۔ قرآن مجید کی آیات حضرت محمدﷺ پر ایک ساتھ اور ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوئیں ۔ قرانی آیات 23 سال کی مدت میں نازل ہوئیں جو آپﷺ کے حکم پر ضبط ِتحریر لائی گئیں اور ان کی زندگی کے دوران ہی ان کی ہدایات کے مطابق مرتب کی گئی تھیں۔ قرآن پاک پچھلے صحیفوں میں موجود بنیادی اصولوں کی تصدیق کرتا ہے۔ گذشتہ انبیاء نے جو راہ نمائی عطاکی تھی وہ مخصوص عہد کی مخصوص قوموں کے لیے تھی۔ تاہم قرآن پاک نے پوری نسل ِ انسانی کو مخاطب کیا ہےکسی خاص قوم یا برادری کو نہیں۔ قرآن کریم کا پیغام قیامت تک ہر عہدکے انسان اورہر طرح کے حالات کے لیے جامع و مانع ، کامل و اکمل اور حتمی وآفاقی ذریعہ ِ رُشد و ہدایت ہے۔

قرآن حکیم میں پوری انسانیت کے لیے نہایت جامع الہامی ہدایات اور راہ نمائی موجودہے۔ یہ عقائد، عبادات، اخلاقیات اور پچھلی ا قوام کے واقعات پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ سائنس، تاریخ اور انسانی فطرت سے متعلق علوم کا احاطہ کرتا ہے نیز یہ ہمیں اس کائنات کے ماضی،حال اور مستقبل کے بارے میں بھی بتاتا ہے یوں قرآن پاک تمام چیزوں کی مکمل وضاحت کرتا ہے۔54 اس کے احکامات میں معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی ضابطوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ انسانوں کوخدا تعالیٰ کے ساتھ ان کے تعلق کے بارے میں بتاتا ہے اورخدا تعالیٰ کو بطور ِ حاکم اعلیٰ اور انسان کو بطورادنی ماتحت کے پیش کرتا ہےاور اس کے فرائض اور ذمہ داریاں سکھانے کے ساتھ ساتھ ایک پرامن اور پر سکون زندگی گزارنے کے لیےراہ نمائی فراہم کرتا ہے۔

یوں قرآن مجید نہ صرف زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کی صحیح سمت میں رہنمائی کرتا ہے بلکہ غیب پر اعتقاد، خدا کے وجود، فرشتوں کی فطرت، جنت و دوزخ، اجر و ثواب اورسزا وغیرہ سے متعلق تعلیم بھی فراہم کرتا ہے۔

انبیاء کرام پر ایمان

مسلمان نہ صرف حضرت محمد ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں بلکہ کم و بیش تمام1,24,000انبیاء کی نبوت پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے بھیجا تھا۔55یہ نبی ہر زمانے اور ہر قوم میں بھیجے گئے۔ ان انبیائے کرام کو خدا کی طرف سے ان کے مشن میں حمایت و نصرت کے لیے واضح نشانیاں اور معجزے دیے گئے تھے۔

تمام انبیاء انسان تھے اور کسی نبی نے کبھی بھی خدا یا خدا کا بیٹا ہونے کا دعوی نہیں کیا تھا۔56 یہ نیک اور کامل انسان تھے جن کا وجود پاک اور خالص تھا نیز انہوں نے اپنی اپنی اقوام تک الہامی ہدایت پہنچانے کی ذمہ داری پوری کی اور اللہ کی راہ میں مشکلات برداشت کیں تاہم انہیں اس دنیا کی کوئی مادی خواہش نہیں تھی۔57

تمام انبیاء کا مقصد ایک ہی تھا یعنی خدائے وحدہ لاشریک کی شریعت قائم کرنا۔ ان کی زندگیاں سچائی،اعلی اخلاقی رویوں ، شرافت، فطرت کی پاکیزگی اور بلند فکری پر مبنی تھیں جو انسانیت کے لیےاعلیٰ مثال ہیں۔ انبیاء شرک و کفر اور ایسے تمام امور جو مخلوق کے لیے باعث نفرت ہوں جیسے کذب، خیانت، جہل، بدصورتی وغیرہ جیسی صفات سے بالکل پاک و معصوم تھے اور ایسے افعال و اوصاف جو وجاہت اور مروّت کے خلاف تھے ان سے بھی پاک و منزہ تھے۔58

حضرت آدم سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺتک اللہ تعالی نے ہر زمانہ میں انسان کو راہ ِ ہدایت پر چلانے کے لیےبہت سے نبی بھیجے ، بعض کا واضح ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اور بعض کا نہیں ہے۔59 جن انبیاء کے اسمائے طیبہ بالتصریح قرآن میں موجود ہیں ، وہ یہ ہیں:

حضرت آدم ، حضرت نوح ،60 حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب ،61حضرت یوسف (جوزف) ،62 حضرت موسٰی ، حضرت ہارون ،63 حضرت شعیب ،64حضرت لوط ،65حضرت ہود ،66 حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ،67حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ(یوحنا) ، حضرت الیاس ،68حضرت عیسیٰ ، حضرت ایوب ، حضرت یونس ،69 حضرت الیسع ،70حضرت ادریس ،71حضرت ذوالکفل ،72 حضرت صالح ،73حضرت عزیر ،74اور حضور سید المرسلین محمد رسول اللہ ﷺ۔75

پہلے نبی حضرت آدم تھے۔76 ان کے بعد وقتاً فوقتاً انبیاء دنیا میں بھیجے گئے۔ انبیاء و مرسلین کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ کی آمد کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ آپ ﷺآخری نبی ہیں اور آپﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کا اعلان کیا ہے کہ:

  مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰه وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ وَكَانَ اللّٰه بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40 77
  محمد ﷺ تم میں سے کسی آدمی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔اور اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔

یہ مسلمانوں کا ایک اہم عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا ۔ لہذا وہ لوگ جو جھوٹے لوگوں کے نبی ہونےپر یقین رکھتے ہیں (جنہوں نے حضرت محمد ﷺ کی وصالِ مبارک کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا مثلاً مسیلمہ، سجاح، طلیحہ، مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ )وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ تاہم مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ قیامت سے پہلے اس دنیا میں بطور امتی پھر واپس تشریف لے آئیں گے (چونکہ انہیں صلیب نہیں دی گئی تھی، بلکہ انہیں زندہ جنت میں اٹھا لیا گیا تھا) اورجھوٹے مسیحا ( دجال) کا مقابلہ کریں گے۔

قرآن حکیم میں بنی نوع انسان تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچانے والے ان نفوسِ قدسیہ کے لیے"نبی" اور "رسول" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ "رسول"، اللہ تعالی کےوہ پیغمبر ہیں جو نیا شرعی قانون لاتے ہیں اور"نبی" وہ پیغمبر ہوتے ہیں جو نئی شریعت نہیں لاتے ہیں بلکہ پہلے سے نازل شدہ خدائی قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ان انبیاء و مرسلین کا مقصد ہرممکن طریقے سےانسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا تھا ۔ وہ خدائی پیغام کی تعلیم و ترویج کے مشن کی تکمیل کے لیے ہر دم تیار تھے۔ہر نبی اور رسول سراپا اخلاص اور مجسم امانت و دیانت تھا۔جس نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو مقصدِ رسالت کی تکمیل کے لیے وقف کردیا تھا۔

اللہ تعالی ٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اس دنیا میں جلوہ افروز ہونے کے بعد چار اہم فرائض سرانجام دیے جن میں کلام ِ الہی کی تلاوت کرنا، لوگوں کے دلوں کو پاکیزہ ومطہر بنانا ، انہیں الہامی ہدایت و رہنمائی (کتاب) کی تعلیم دینااور حکمت و بصیرت سکھانا، شامل تھے۔78دوسرے تمام افعال ان ہی چاروں فرائض کی ذیلی شاخیں تصورکیے جاتے ہیں مثلا خدائی قوانین کانفاذ، نماز یعنی اللہ کی عبادت کا قیام، انصاف، قانون اور اسلامی ریاست کا قیام وغیرہ۔مزید براں یہ اسی مشن کا تسلسل اور تتمہ ہیں جس کی ابتداء ابوالبشر حضرت آدم نے کی تھی۔

قدر اور تقدیر پر ایمان

اللہ تعالی کی طرف سےمقرر کردہ تقدیر یا قدر پر اعتقاد ایمان کا بنیادی جزوہے۔ مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی "قادرِ مطلق" اور" علاّم الغیوب "ہے اس لیے کائنات میں کچھ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا تاہم اس نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ لمحۂ موجود میں دئیے گئےمختلف اختیارات میں سے کسی ایک کو منتخب کر لے۔ہر لمحے انسان کو نئے اختیارات ملتے ہیں جن میں سے اسے کوئی ایک انتخاب کرنا پڑتا ہے۔یوں انسان کی زندگی کا سفر اللہ تعالی کے عطا کردہ اختیار اور مرضی کا استعمال کرتے ہوئےجاری و ساری رہتا ہے۔تاہم اللہ تعالیٰ چونکہ علاّم الغیوّب ہے اس لیے وہ ہر انسان کا ماضی،حال، مستقبل، دلوں کا حال اور اس کےتمام انتخابات کواپنے علم ازلی سےجانتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالی چونکہ قادرِمطلق ہے اس لیے اس کائنات کی ہر چیز اوراس میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات اللہ تعالیٰ کی اجازت و مرضی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتے اس لیے یہ سب اس نے پہلے سے مقدّر کیے ہوئےہیں جو لوح ِ محفوظ میں مکتوب و محفوظ ہیں۔79قدر و تقدیر پر یقین رکھنے سے ایک مسلمانوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ، کائنات کے تمام امور کا مطلق نگران اور مختارِ کل ہے80 اور اس نے یہ نظام ِ کائنات ایک خاص انداز، حساب و کتاب اور اصولوں کے مطابق تخلیق کیاہے81 نیزاللہ تعالیٰ کی مرضی، اجازت، حکم، منظوری اور علم کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔82وہ قادرِ مطلق اور علام الغیوب ہے جوہر مخلوق کا حال ، ماضی اور مستقبل جانتا ہے یوں ہر مخلوق کا مقدر اللہ کو پہلے ہی معلوم ہے۔83جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

  قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ5184
  (اے حبیب!) آپ فرما دیجئے کہ ہمیں ہرگز (کچھ) نہیں پہنچے گا مگر وہی کچھ جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے، وہی ہمارا کارساز ہے اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔

تقدیر کے سلسلے میں اسلام نے جو اصول پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان نہ تو پوری طرح سے اپنی تقدیر کا مالک ہے اور نہ ہی وہ تقدیرکے قانون کی گرفت میں جکڑا ہوا ہے۔85اس طرح انسان جزوی طور پر آزاد اور جزوی طور پرقدرت کے تابع ہے تاہم اس کا اثر آخرت میں جوابدہی پرنہیں ہوگا۔ انسانوں کو صرف ان افعال کا جوابدہ ٹھہرایا جائے گا جن کو کرنے کا ارادہ انہوں نے اپنی آزادنہ مرضی سے کیا ہوگا۔ اسی طرح ان سے ان اعمال کے بارے میں استفسارنہیں کیا جائے گا جو وہ اپنی حدود یا پابندیوں کی وجہ سے انجام نہیں دے سکے۔86لہذا انسان جنت یا جہنم کے حصول کے لیے آزاد ہےاور ایک فرد خود اپنی سمت کا تعین کرسکتا ہے۔ انسان یہ شکایت نہیں کرسکتا کہ وہ دنیا کی وحشیانہ، بے رحم اور ناگہانی قوتوں کے مقابلے میں بالکل بے بس ہے۔ انہیں حق و باطل اور اچھائی و برائی کے دونوں راستے دکھائے گئے ہیں اورانہیں ان دونوں کے مابین انتخاب کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اب انسان کو محتاط اور ذمہ دارانہ انداز سے سوچ سمجھ کر اس آزادی کو استعمال کرنا ہے۔

انسان کیا کرنے جارہا ہے یہ اللہ جانتا ہے،مگر ا س سے انسان کی آزاد قوتِ ارادی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے کیونکہ علیم وخبیر خدا اسے اپنے لا محدودعلم کے ذریعے جانتا ہے تاہم انسان جو راستہ منتخب کرتا ہے(یعنی صحیح ہے یا غلط) اس کے انتخاب کا اسے آزادانہ اختیار ہے اور قیامت کے دن اُس کا فیصلہ اس کے ارادوں اور افعال کی بنا پر کیا جائے گا جیسا کہ قرآن پاک واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ :

  وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى5387
  اور بیشک انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرے۔

اگر انسان اللہ کی ہدایت پر عمل پیرا ہے تو اسے اس کی جزا ملے گی اور اگر نہیں تو اسے اس کی سزا دی جائے گی۔لہذا اسلام میں تقدیر کا مفہوم بے بسی اور مجبوری کے ساتھ ناپسندید ہ قسمت کو قبول کرنا یا مایوسی کا پیغام دینا نہیں بلکہ یہ اطمینان، راحت اور حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے اور تقویٰ اور عاجزی کا جذبہ پیدا کرنے اور خدا کی مرضی کے مطابق خود سپردگی کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس سے انسان میں کسی قسم کی ایسی مایوسی پیدا نہیں ہوتی ہے جس سے اس کی زندگی تاریک اور پریشان حال ہوجائے بلکہ یہ انسانوں کویہ سکھاتا ہے کہ وہ اپنے دل و جان کو ان ارفع و اعلی ٰ افعال اور مقاصد کے لیےوقف رکھیں جو اس کے خالق و مالک کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں ۔

قیامت اور آخرت پر ایمان

انسانوں کو عمر کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے مختلف حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس کی عمر کا بہت چھوٹا سا حصہ موجودہ دنیا میں رکھ دیا ہے اور اس کا بقیہ تمام حصہ موت کے بعد آنے والی آخرت میں ہے۔ موجودہ دنیا عمل کی جگہ ہے اور آخرت کی دنیا عمل کا انجام پانے کی جگہ۔موجودہ دنیا ناقص ہے اور آخرت کی دنیا ہر اعتبار سے کامل۔ آخرت ایک لا محدود دنیا ہے۔ وہاں تمام چیزیں اپنی معیاری حالت میں مہیا کی گئی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت کو اسی آخرت کی دنیا میں رکھاہے۔ جنت ہر قسم کی نعمتوں سے بھری ہوئی ہے ۔ موجودہ دنیا میں جو لوگ نیکی اور خدا پرستی کاثبوت دیں گے وہ آخرت کی دنیا میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے لیے جنت کے دروازے ابدی طور پر کھول د یئے جائیں گےلیکن جولوگ موجودہ دنیا میں خدا کو بھول جائیں یا خدا کے مقابلہ میں سر کشی کا طریقہ اختیار کریں وہ خدا کے نزدیک مجرم ہیں۔ ایسے تمام لوگ آخرت کی نعمتو ں سے محروم رہیں گے۔

موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ذات غیب میں ہے یا ہماری آنکھوں میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ آخرت میں وہ اپنی ذات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کردے گا اور ہم اسے دیکھ سکیں گے۔ اس وقت تمام انسان اللہ تعالیٰ کے حضورجھک جائیں گے اور اس کی ربوبیت کو تسلیم کرلیں گےمگر اس وقت کا جھکنا کسی کے کام نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ جھکنا مطلوب ہے جو دیکھنے سے پہلے موجودہ دنیا میں ہو۔ آخرت میں اللہ کو دیکھ لینے کے بعد جھکنا کسی کو کچھ فائد ہ دینے والا نہیں وہ اسے قبول نہیں کرے گا۔

موت آدمی کی زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ اگلے یا دوسرے مرحلۂ حیات کا آغاز ہے۔ موت وہ درمیانی مرحلہ ہے جس سے گزر کر انسان آج کی وقتی دنیا سے نکل کر کل کی مستقل دنیا میں پہنچ جاتاہے۔ وہ دنیا کے مسافر خانہ سے نکل کر آخرت کی ا بدی قیام گاہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ آخرت کا یہ مرحلہ ہر ایک کی زندگی میں لازماً پیش آنے والا ہے۔ کوئی بھی انسان ایسا نہیں جو اپنے آ پ کو آخرت کی پیشی سے بچاسکے88 لہذاایک مسلمان کے لیے یہ عقیدہ رکھنا لازمی ہے کہ زمین و آسمان، جن و انس، فرشتوں سمیت تمام مخلوقات نے ایک دن فنا ہونا ہے89 اورصرف اللہ تعالی کےلیے ہمیشگی اور بقاء ہے۔90 اس کے بعدانسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا91 اور ان کے اعمال کا حساب و کتاب ہو گا۔92 اچھے اعمال کی جزا( جنت) اور برے اعمال کی سزا( جہنم) دی جائے گی۔93 ہر ایک کا فیصلہ کامل انصاف کے ساتھ کیا جائے گا۔94 تمام انبیاء و مرسلین نے انسانیت کو یہی تعلیم دی کہ یہ دنیاوی زندگی عارضی اور ایک دن ختم ہونے والی ہے۔قرانِ حکیم میں ارشاد ہے:

  وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ 795
  اور بیشک قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور بیشک اللہ انہیں اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں۔

انسانوں کو اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہنا چاہیے یعنی پُر امن زندگی گزارنے کے لیے ضروری وسائل کا بندوبست کرے اور خدا کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارے تاکہ وہ نہ صرف اس دنیا میں کامیاب ہوسکے بلکہ آخرت میں ابدی خوشگوار زندگی گزارے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

  كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ 26 وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ 27 فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ 2896
  جو (مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے ۔اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکات) جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گی۔تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موت ایک تکلیف دہ مظہرِ قدرت ہے جو ان کی خوش کن زندگیوں کو تباہ کر دیتی ہے اور ان کی خوشیوں کو ختم کردیتی ہے۔ یہ مغالطہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دنیاوی لذتوں اور راحتوں کے حصول میں گزارتے ہیں اور اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے کے بعد انہیں کچھ وسائل حاصل ہوجاتے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنی زندگی کو مزید راحت بخش اور خوشگوار بناسکتے ہیں۔ تاہم وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنی مختصرزندگی سےبھرپورطریقہ سے لطف اندوز ہونے سے قاصر رہتے ہیں جس کا عموماسبب یہ ہوتا ہے کہ بڑھاپے اور نقاہت کی وجہ سے ان کی لطف اندوزی کے مواقع محدود ہوجاتے ہیں۔ لہذا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہزارہا سال زندہ اور جوان رہیں تاکہ زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں۔

مسلمانوں کے اعتقاد کے مطابق موت بھی خدا کی دیگر نعمتوں کی طرح ایک نعمت ہے کیونکہ یہ دنیا انسانی حقوق کی حمایت کے چاہے جتنے بھی قصیدے پڑھ لے،فی الحقیقت متعصبانہ، ظالمانہ، ناانصافی اور عدم مساوات پر مبنی روئیوں سے بھری پڑی ہے جہاں عموما"جس کی لاٹھی اس کی بھینس "کے اصول کی ہی پیروی کی جا تی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں امیر غریبوں پر زیادتی کرتا ہے اور ظالم کمزوروں پر ظلم کرتا ہے۔ لہذا یہ ان لوگوں کے لیے ایک نعمت ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں کیونکہ بالآخر یہ ان کی تکالیف ختم کرتی ہے اور انہیں خوشی اور مسرت کی ابدی زندگی کی طرف لےجاتی ہے جہاں ان کی تمام خواہشیں پوری ہوجاتی ہیں۔ظلم و زیادتی کرنے والوں کے لیے موت ایک خوف اور گھبراہٹ کا نام ہے کیونکہ یہ ان کی عیش و عشرت پر مبنی زندگی اور طاقت و حشمت کےسلسلے کو منقطع کر دیتی ہے اور انہیں رب ذوالجلال کے حضور جواب طلبی اور دائمی عذاب کی طرف لے جاتی ہے۔

انسان کا سفر حیات موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتا بلکہ موت کے فوراً بعد ہی قیامت ِصغری ٰیا مرنے والے کا ا بتدائی فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اگر مرنے والا ایک سچا مسلمان ہے تو وہ فرشتوں کے پیش کردہ سوالات کا جواب دے سکتا ہے اور پھر قیامت تک سکون کی نیند کرتا ہے جب کہ اگر متوفی کوئی غیر مسلم یا گنہگار مسلمان ہوتو وہ سوالات کے جوابات دینے سے قاصر رہتاہے اور اس کے بعدسےہی اس کی تکلیف اور اذیت شروع ہوجاتی ہے۔ برزخ جو موت اور قیامت کے روز دوبارہ جی اٹھنے کےدرمیان کا دور ہے جو دنیا کی زندگی اورحیاتِ اخروی کے درمیان حد ِ فاصل پیدا کرنے والی دیوار کا کام کرتا ہے۔

ایک وقت ایسا آئے گا (جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے) جب دنیا اور پوری کائنات سمیت ہر چیز تباہ ہوجائے گی۔ تب انسانیت کو دوسری تخلیقات کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور سب کو ان اعمال کے ساتھ پیش کیا جائے گا جو انہوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں انجام دیے تھے۔97 اگر انسان یہ سمجھتا ہےکہ یہ ناممکن ہے کیونکہ ان کے آثار ضائع ہوجائیں گے اور ان کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی ہے تو وہ غلطی پرہے۔ یہ خدا ہی ہے جس نے ہر چیز کو عدم سے وجو د بخشا ہے لہذا وہ ہر چیز بغیر کسی مادی سبب کے دوبارہ پیدا کرنے پر قادرہے۔

اُس دن ہر شخص سخت پریشانی میں مبتلا ہوگا اور فیصلے کے آغاز کا منتظر ہوگا۔ حدیث میں مذکور ہے کہ" کچھ لوگ پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے ، جبکہ کچھ لوگ ایسےبھی ہوں گے جو سایہ میں پر سکون کھڑے ہوں گے۔"98یہ لوگ وہ نفوسِ قدسیہ ہوں گے جو دنیاوی زندگی میں خدا تعالیٰ کی مرضی کے تابع رہے تھےاور اس کے حکم کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی بسر کی تھی۔ تب حساب کتاب کا عمل شروع ہوجائے گا۔ اُس دن لوگوں کو ان کے اچھے اور برے اعمال دکھا دیے جائیں گے۔

  فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ 7وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ8 99
  تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا،اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔

اور جن لوگوں نے خدا کی طرف سے بھیجے گئے مسلسل دعوت ناموں اور تنبیہات پر توجہ نہ دی تھی اور اس کے احکامات کی پاسداری نہ کی تھی وہ جہنم میں ڈال دیے جائیں گے جہاں انہیں ابدی سزا دی جائے گی۔ جبکہ جو لوگ اللہ تعالی کے قوانین کی پاسداری کرتے رہے اور اس کے انبیاء پر ایمان لائےانہیں جنت میں بھیجا جائے گا جہاں وہ ہمیشہ سکون سے رہیں گے۔ اس دن انصاف ہوگا۔ اگر کوئی شخص اس عقیدے پر یقین نہیں رکھتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔

اللہ کی ذات و صفات کے متعلق جو کچھ قرآن میں بیان کیا گیا ہے وہ اس لیے ہے کہ انسان کو اس ہستی کی صحیح معرفت یا پہچان حاصل ہو جس کی طرف سے وہ خلیفہ بناکر زمین پر بھیجا گیا ہے اور جس کی خوشنودی حاصل کرنا اس کی زندگی کا نصب العین اور مقصد ہے۔ فرشتوں کے متعلق جو کچھ کہاگیا ہے وہ اس لیےکہ انسان کائنات میں کام کرنے والی طاقتوں میں سے کسی کوبادشاہ نہ سمجھ بیٹھے، اور بادشاہت میں اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ قرار دے۔ اس درست علم کے بعدا للہ پر ایمان لانےکے معنی یہ ہیں کہ جس طرح تمام کائنات پر اور خود انسانی زندگی کے ان معاملات میں بھی جن پر انسان کا اختیار نہیں ہے، اللہ کی حکومت ہے، اسی طرح انسان اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں بھی اللہ کی حکومت مانے، ہر معاملے میں اللہ کو قانون عطا فرمانے والا اور اپنے آپ کو صرف قانون کی پیروی کرنے والا سمجھے اور اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر رکھے جو اللہ نےمقرر کی ہیں۔ یہی ایمان اپنے اندر وہ قوت رکھتا ہے جو انسان کو اللہ کی بادشاہت کےآگے خوشی اور رضا مندی کے ساتھ سر جھکانے پر تیار کرتاہے۔ اس سے مرد مومن کے اندر ایک خاص طرح کا ضمیر پیدا ہوتا ہے اور ایک خاص قسم کی سیرت بنتی ہے جو قانون اور حدود کی مجبوراً نہیں بلکہ اپنی خوشی کے ساتھ پیروی کرنے کے لیے ضروری ہے۔

رسالت اور کتاب کاعقیدہ دوسری ضرورت کو پورا کرتاہے۔ ان ہی دونوں کے ذریعے سے انسان کو ان قوانین اور ان طریقوں کا تفصیلی علم ہوتا ہے جن کو ا للہ نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے اور ان حدود کی پہچان ہوتی ہے جن سے اللہ نے انسان کے اختیارات کو محدود کیا ہے ۔ رسول کی تعلیم کو اللہ کی تعلیم اور اس کی پیش کی ہوئی کتاب کو اللہ کی کتاب سمجھنا ہی ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب ہے، اور اس ایمان ہی سےا نسان میں یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ پورے اعتمادا ور یقین کے ساتھ ان قوانین اور طریقوں ا ور حدود کی پابندی کرے جو اللہ نے اپنے رسول ﷺ اور اپنی کتاب کے ذریعے سے اس کو بتائے ہیں۔

یوم ِ آخرت سےآگاہی کی ضرورت کو آخرت کاعلم پوراکرتاہے۔ اس سے انسان کی نظر اتنی تیز ہوتی ہے کہ وہ اس ظاہری دنیا کے پیچھے ایک دوسری دنیا کو دیکھنے لگتا ہے اور اسےمعلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کی خوشحالی و بدحالی اور نفع و نقصان اللہ کی رضامندی و ناخوشی کامعیار نہیں ہے ا ور اللہ کی جانب سے اعمال کی جزا و سزا اسی دنیا میں ختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ آخری فیصلہ ایک دوسری دنیا میں ہونے والا ہے۔ اسی عقیدے پر یقین کانام یوم آخرت پرایمان ہے اور ایمان باللہ کے بعد دوسری زبردست قوت ہے جو انسان کو قوانین اسلامی کی پیروی پر ابھارتی ہے۔ تہذیب اسلامی کے ارتقاء و نشونما کے لیے انسان کو ذہنی اعتبار سے تیار کرنے میں اس یقین کا بڑاحصہ ہے۔

ان بیان کردہ عقائد کے سوا کسی دوسرے اعتقادی نظام میں صلاحیت نہیں کہ وہ کامیاب طرز کی تہذیب کے لیے بنیاد بن سکے۔ کوئی دوسرا عقیدہ زندگی کے اس خاص تصور اور مقصد کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔ اسلامی تہذیب کوئی قومی یا نسلی تہذیب نہیں ہے بلکہ صحیح معنوں میں انسانی تہذیب ہے۔ یہ انسان کو بحیثیت انسان خطاب کرتی ہے اور ہر اس شخص کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہے جو توحید، رسالت، کتاب اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ اس طرح اس تہذیب نے ایک ایسی قومیت بنائی ہے جس میں رنگ و نسل و زبان کی بنیاد پر فرق کیے بغیر ہر انسان داخل ہوسکتا ہے، جس کے اندر پوری زمین پر پھیل جانے کی صلاحیت موجود ہے اور جو تمام انسانوں کو ایک ملت بنادینے اور ان سب کو ایک تہذیب کی پیروی کرنے والا بنادینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اسلامی تہذیب کی نمایاں خصوصیت اس کی وہ زبردست روحانی طاقت ہے جس کی بدولت یہ اپنے ماننے والوں کو انفرادی و اجتماعی حیثیت سے اسلامی آئین کا پابند بناتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات قوانین بنانے اور حدودمقرر کرنے سے پہلے قوانین پر عمل کرنے اور حد ود کی پابندی کرانے کا بندوبست کرتی ہیں۔ حکم دینے سے پہلے وہ اس کا انتظام کرتی ہے کہ اس کا حکم نافذ ہو۔ سب سے پہلے وہ انسان سے اللہ کی بادشاہت منواتی ہے، پھر اس کو یقین دلاتی ہے کہ رسول اللہﷺ اور کتاب کے ذریعے سے جو احکام دیے گئے ہیں وہ اللہ کے احکام ہیں اور ان کی اطاعت حقیقت میں اللہ کی اطاعت ہے۔ پھر وہ اس کے ضمیر کو اس طور پر زندہ کردیتی ہے جو اسے ہر وقت اور ہر حالت میں احکام الٰہی کی اطاعت وپیروی کرنے پر ابھارے، خلاف ورزی پر برا بھلا کہے اور یوم آخرت کے عذاب کاخوف دلائے۔ یوں جب انسان مکمل طور پر دین اسلامی تعلیمات کا مطیع و فرمانبردار ہوجاتا ہےتو وہ خودا پنی مرضی سے اسلامی قوانین کی پیروی، حدود کی پابندی اور اچھے اخلاق اپنالیتا ہے اور دینِ اسلام کے لیے سخت سے سخت قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ ہے کہ عقلی لحاظ سے اس سے زیادہ بہتر طریقہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ اس طریقے سے تاریخ میں اسلامی تہذیب کو جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ کسی دوسری تہذیب کو نصیب نہیں ہوئی۔100

یہ ایمان کے بنیادی ارکان اوراسلام کے بنیادی اصول ہیں جو سادہ اور منطقی ہیں۔ مذاہب عالم میں یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام بنیادی اور حتمی مسائل اور پریشانیوں کا حل فراہم کیا ہے جو انسانوں کے خود ساختہ مذاہب فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہےتھے۔ اسلام ہی وہ دینِ حق ہے جس نے انسانوں کو ان کے خالقِ حقیقی سے جوڑ کر انہیں انسانوں کی غلامی اور عبادت اور دیگر انسانوں کے وضع کردہ دیوتاؤں سے نجات دلاکر اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ بنا دیا۔یہی وہ سچائی کا راستہ ہے جس پر چلنے میں دنیا و آخرت کی بھلائی اور انسانی فلاح کا راز پوشیدہ ہے۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ البقرۃ2 : 132
  • 2 القرآن، سورۃ یونس 84:10
  • 3 القرآن، سورۃ المائدۃ 5: 111
  • 4 القرآن، سورۃ آل عمران3: 52
  • 5 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث :08، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 25
  • 6 ابو حنیفہ نعمان بن ثابت، الفقۃ الاکبر، مطبوعۃ: مکتبۃ الفرقان، الامارات العربية المتحدة، 1999م، ص: 55
  • 7 ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 523، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 89
  • 8 ابو زکریا بن شرف النووی، المنہاج بشرح صحیح مسلم، ج-1،مطبوعۃ: دار الاحیاء الترث العربی، بیروت، لبنان، 1392ھ، ص: 149
  • 9 القرآن، سورة الانبیآء22:21
  • 10 سید ابوالاعلیٰ مودودی ، تفہیم القرآن ، ج- 3،مطبوعہ: ادارہ ترجمان القرآن، لاہور ، پاکستان ، 2008ء، ص : 153
  • 11 القرآن، سورۃ الاخلاص: 112: 1
  • 12 القرآن، سورۃ الانعام 6: 163
  • 13 ابو حنیفۃ نعمان بن ثابت، الفقۃ الاکبر، مطبوعۃ: مکتبۃ الفرقان ، الامارات العربیۃ المتحدة، 1999م، ص: 14
  • 14 القرآن، سورۃ الکہف18 : 26
  • 15 القرآن، سورۃ المریم 19: 65
  • 16 القرآن، سورۃ القصص 28: 88
  • 17 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 21
  • 18 القرآن، سورۃ اخلاص 112 : 2
  • 19 القرآن، سورۃالبقرۃ 2: 255
  • 20 القرآن، سورۃ البقرۃ2: 20
  • 21 القرآن، سورة البقرة 2: 285
  • 22 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث:7495، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000 م، ص:1295
  • 23 محمد بن یوسف الصالحى الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،2013م، ص:485
  • 24 الحسن بن الحسين التيمى الرازى، مفاتيح الغيب، مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1420ھ، ص:359
  • 25 محمد بن عبداللہ الخطیب الطبریزی، ج-1، مشکوٰۃ المصابیح، مطبوعۃ: مکتبہ العصریۃ، بیروت، لبنان،2011م، ص:15
  • 26 القرآن، سورة النحل 50:16
  • 27 القرآن، سورة البقرۃ 2: 97
  • 28 القرآن ، سورة هود 11 : 69-77
  • 29 ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:50، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 12
  • 30 القرآن، سورة آل عمران 3: 123
  • 31 القرآن، سورة الا نفطار 82: 10-13
  • 32 القرآن، سورة الزمر 39: 71-74
  • 33 القرآن، سورة المدثر 74: 31
  • 34 مفتی محمد امجد علی اعظمی ، بہار شریعت، ج-1(الف)، مطبوعہ:مکتبہ المدینہ باب المدینہ،کراچی ، پاکستان،1435ھ، ص:94
  • 35 القرآن، سورة البقرۃ 2: 97-98
  • 36 القرآن، سورة البقرۃ 2: 98
  • 37 القرآن ،سورۃ السجدۃ 11:32
  • 38 امام الحسين بن مسعود الفرا البغوي، تفسير البغوي، ج-3، مطبوعة: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، 1420ھ، ص:596
  • 39 عبدالرحمن بن ابی بکر جلال الدین السیوطی ، الحبائک فی اخبار الملائک ، مطبوعة:دارالکتب العلمیة ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:15
  • 40 ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیرورت، لبنان، 1990م، ص: 15
  • 41 ابو موسیٰ سعد الدین تفتازانی، شرح عقائدِ النسفیۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ لدھیانوی، کراتشی ، باکستان،2016م، ص: 113
  • 42 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث:2645، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 1152
  • 43 القرآن ،سورۃ المدثر 31:74
  • 44 أبو الحسن علی بن محمد الخازن، لباب التأویل فی معانی التنزیل، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ ، ص: 219
  • 45 القرآن ، سورة الأعلی 87 : 19
  • 46 القرآن ، سورة البقرة 2 : 53
  • 47 القرآن، سورة النسآء 4: 163
  • 48 القرآن، سورة المائدۃ 46:5
  • 49 القرآن ، سورة طٰہٰ 20 : 2
  • 50 القرآن، سورة النسآء 4: 46
  • 51 ابو الفداء إسماعیل حقی بروسوی، روح البیان فی تفسیر القرآن، ج-6، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 512
  • 52 القرآن، سورة القمر 54: 17
  • 53 ) القرآن، سورة الحجر 15: 9
  • 54 القرآن، سورة النحل 16: 89
  • 55 ابو حاتم محمد ابن حبان البسطی، صحیح ابن حبان، ج- 9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 76
  • 56 القرآن، سورة النحل 16:43
  • 57 ابو موسیٰ سعد الدین تفتازانی، شرح عقائدِ النسفیۃ، مطبوعۃ: مکتبہ لدھیانوی، کراتشی، باکستان، 2016م، ص: 152
  • 58 ابو الفداء إسماعیل حقی بروسوی، روح البیان فی تفسیر القرآن، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 50
  • 59 القرآن ، سورة المؤمن 40:78
  • 60 القرآن ، سورة آل عمران 3 : 33
  • 61 القرآن ، سورة البقرة 2 : 140
  • 62 القرآن ، سورة اليوسف 12 : 4
  • 63 القرآن ، سورة البقرة 2 : 248
  • 64 القرآن ، سورة الأعراف 7 : 85
  • 65 القرآن ، سورة هود 11 : 77
  • 66 القرآن ، سورة الأعراف 7 : 65
  • 67 القرآن ، سورة الأنبیآء 21 : 78
  • 68 القرآن ، سورة الأنعام 6 : 85
  • 69 القرآن ، سورة النساء 4 : 163
  • 70 القرآن ، سورة الأنعام 6 : 86
  • 71 القرآن ، سورة الأنبیاء 21 : 85
  • 72 القرآن ، سورة ص 38 : 48
  • 73 القرآن ، سورة الأعراف 7 : 73
  • 74 القرآن ، سورة التوبۃ 9 : 30
  • 75 القرآن ، سورة سورة آل عمران 3 : 144
  • 76 ابو موسیٰ سعد الدین تفتازانی، شرح عقائدِ النسفیۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ لدھیانوی، کراتشی ، باکستان، 2016م، ص:148
  • 77 القرآن ، سورۃ الاحزاب 33: 40
  • 78 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 129
  • 79 القرآن، سورۃ الحدید 57: 22
  • 80 القرآن، سورۃ التکویر 81: 29ـ 28
  • 81 القرآن، سورۃ الفرقان 25: 2
  • 82 القرآن، سورۃ القصص 28: 68ـ69
  • 83 القرآن، سورۃ الحج 22: 70
  • 84 القرآن، سورۃالتوبہ 9: 51
  • 85 القرآن، سورۃ الاعلیٰ 87: 2 ـ3
  • 86 القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 286
  • 87 القرآن، سورۃ النجم 53 : 39
  • 88 مولانا وحید الدین خان، اسلام: ایک تعارف، مطبوعہ: مکتبہ قاسم العلوم، لاہور، پاکستان، سن اشاعت ندارد، ص: 18
  • 89 القرآن، سورۃا لقصص28 : 88
  • 90 القرآن، سورۃا لرحمن55: 26ـ27
  • 91 القرآن، سورۃ الجاثیۃ45: 26
  • 92 القرآن، سورۃا لاسراء 17: 12ـ13
  • 93 القرآن، سورۃسبا34: 3ـ5
  • 94 القرآن، سورۃ الانبیآء 21: 47
  • 95 القرآن، سورۃ الحج 22 : 7
  • 96 القرآن، سورة الرحمٰن 55: 26-28
  • 97 القرآن، سورة القارعۃ 101: 1-11
  • 98 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم ، حدیث : 7205، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:1241
  • 99 القرآن، سورۃ الزلزال 99 :7-8
  • 100 خورشید احمد، اسلامی فلسفہ حیات، ج-2، مطبوعہ:شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی، کراچی، پاکستان، 2016ء، ص: 68-71