Encyclopedia of Muhammad

قدیم چین کی تاریخ

کرۂ ارض کی تاریخ میں عہد عتیق کی دیرپا و پائیدار تہذیبوں میں چین ممتاز و نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ بارہ سو پچاس (1250 ) قبل مسیح کے ابتدائی ادوار میں تحریر کردہ تاریخی صفحات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ چین کی تاریخ تقریباً 4000 سال سے بھی زیادہ پرانی ہے ۔ اس کا آغاز1600 سے 1046 قبل مسیح میں "شینگ (Shang)"کے دورِ سلطنت سے ہوا تھا۔ چین کا لفظ قِن (Qin)نامی خاندانِ سلاطین جسے چِن (Chin)بھی پڑھاجاتا تھا، سے مأخذ ہے، اسے اہل فارس سنسکرت زبان میں "سِن(Cin)" یا "سِنا(Cina)" تلفظ کیا کرتے تھے۔ ہر چند کہ چینی تہذیب دیگر عہد عتیق سے تعلق رکھنے والے سماج سے بہتر تھی لیکن اس کے باوجود مذہبی بنیادی عقائد، معاشرت اور اخلاقی اقدار میں کجی و فقدانِ شدیدکا شکار تھی، یہی وجہ تھی کہ شاہی خاندانوں کے مابین خون ریزی کا طویل سلسلہ جاری رہا تھا۔ قدیم چینی امرا ءنے لالچ ، طاقت کے حصول اور دولت کمانے کی ہوس کو ہی زندگی کا اولین مقصد بنا لیا تھااسی لئے وہ اقتدارحاصل کرنے اوردیگر اقوام پر غلبہ پانے کے لئے ہمیشہ مصر رہتے تھے۔

دریائے ویی کے باشندے

3000 قبل مسیحی دور میں ، مغرب سے ہجرت کرکے آنے والے افراد نے "دریائے ویی (Wei River) "کی وادی میں سکونت اختیار کی جہاں ان کا سنگم عظیم بادشاہ "ہوینگ ہو (Hwang Ho)"سے ہوا تھا۔ یہ لوگ پہلے ہی اپنے ثقافتی فنون میں ترقی یافتہ تھے جس کے بارے میں چینی دیومالائی کہانیوں میں تفصیل درج ہے۔وہ لوگ جانوروں کے جھنڈ اور مویشیوں کو اپنے ساتھ گھروں میں ہی رکھا کرتے تھے۔ انہوں نےمکانات کی تعمیرات کیں ، زمین میں کاشت کاری کی اور اس کے علاوہ دریا کی وادی میں اپنے نئے مسکن میں ایک منظم ریاست قائم کرنے کے لیے کوششیں بھی کی تھیں۔ وہ لوگ حکومت تشکیل دینے کے حوالے سے بھی اچھی آگاہی رکھتے تھے۔ انہوں نے ان وادیوں میں مقامی لوگوں کے ساتھ شادی بیاہ کا سلسلہ کیا اور بہت تیزی کے ساتھ وادئ "ہوینگ ہو (Hwang Ho)"کے ساتھ اپنی طاقت و برتری میں اضافہ کرلیا تھا۔

تاریخ کی داستانیں

3000 سے 2205 قبل مسیحی دور میں پہلے چینی شاہی خاندان کے دورِ حکومت کی ابتدا ہوئی تھی۔اس دورِ سلطنت میں زراعت، ریشمی کیڑوں کی افزائش اور ماہی گیری کی صنعت نے کافی ترقی کی تھی۔اس دور کے بعض حکمران تحریر کرنے کے لیے تصویری علامات کو استعمال کیا کرتے تھے ۔ مذہبی طور پر اپنے خدا "شینگ لی (Shang-li)"کی پرستش کیا کرتے تھے۔ پہلی چینی حکومت کا نام "ہشیا(Hsia)" تھا جو تقریباً 2205 سے 1766 قبل مسیحی دور تک قائم رہی تھی۔اس سلطنت کے پہلے حاکم کا نام "یو(Yu)" تھاجس کے بارے میں چینی تاریخ دان بہت زیادہ دل کھول کر تعریفات بیان کرتے ہیں۔"یو(Yu)" کے دور سلطنت کو اس حوالے سے بھی سراہا جاتا تھاکہ اس نے اپنی حکومت میں نو دریاؤں کی وجہ سے ممکنہ طور پر بننے والے سیلابی پانی کو سنبھال لیا تھا۔ بادشاہ "یو(Yu)"نے اس کے لیے نو پہاڑوں میں سے راستہ بنا کر نو نہریں کھودیں اور یوں ممکنہ سیلاب کا رخ ان نہروں کی جانب موڑ دیا تھا۔ ایک منتظم ہونے کے ناطے، "یو(Yu)"نے چین کو9 صوبوں میں تقسیم کیا ، اپنے سلطنتی رقبہ کو مغرب کی جانب متغیر ہونے والی زمین تک بڑھایا اور آخر کار جنوبی علاقوں میں دور قدیم سے آباد مختلف قبائل کو فتح کرکے سلطنت میں مزید وسعت پیدا کردی تھی۔"یو(Yu)"کی موت کے بعد" ہشیا ئی خاندان ِشاہی (Hsia Dynasty)"کی شہرت و ناموری میں اچانک بہت تیزی سے کمی واقع ہونا شروع ہوگئی اور پھر بعد کے ادوار میں متعدد حکمرانوں کی موجودگی اور ان کے ظلم و جبر نے لوگوں کے صبر و تحمل اور برداشت کو ختم کردیا اور لوگوں میں انقلاب کی جستجو پیدا کردی تھی۔پھر اس دور میں "شینگ(Shang) "کے حاکم اعلی اور محرک انقلاب، بہادر سورما "ٹئینگ (T’ang) "نے نظام سے بغاوت کی اور اپنے حامیوں کے ساتھ ہتھیار اٹھا کر لڑا اور نظام کو پلٹ دیا۔"ٹئینگ (T’ang) "نے جابرانہ حکومت کرنے والے ظالم و غاصب بادشاہوں کو قید کردیا اور بعض کو جلا وطن کرکے خود تخت شاہی پر براجمان ہوگیا اور حکومتی نظام کو اپنے قابو میں کرلیا۔1

شینگ کا دور حکومت

"ٹئینگ (T’ang) "نے" شینگ (Shang) "نامی ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی، جو تقریباً 1766 سے 1122 قبل مسیحی دور تک قائم رہی ۔ آثاریاتی ثبوت اس امر کو واضح کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ" شینگ(Shang) "کا حکومتی دورانیہ حقیقتاً اس کرۂ ارض پر موجود رہا تھا۔ ثقافت" شینگ(Shang) "کا انداز بعد کے ادوار میں موجود چینی تمدن میں براہ راست مورَثِ اعلٰی کی حیثیت رکھتا تھا۔ بادشاہ"ٹئینگ (T’ang) "کا دور حکومت صرف بارہ برس تک محیط تھا۔ "ٹئینگ (T’ang) "تاریخ میں صرف ایک انصاف پرور اور قابل شہنشاہ کی حیثیت سے جانا جاتا تھا لیکن " شینگ (Shang) "نے "ٹئینگ (T’ang) " کو ہی اپنا پیشرو و استاد تسلیم کیا اور اسی کے راستے کو آگے بڑھا کر حکومتی نظام کو مزید آگے فروغ دیا تھا۔

" شینگ(Shang) " شاہی سلسلہ کے دورِحکومت میں ایک اور بادشاہ گزرا تھا جس کا نام " وو یی (Wu Yi)" تھا۔ یہ بادشاہ ایک ملحد تھااورکسی خدا کو نہیں مانتا تھا، علاوہ ازیں وہ اس حوالے سے بھی بہت مشہور تھا کہ وہ جنت کی حقیقت کے بارے میں بہت کفر بکا کرتا اور بے ادبی کیا کرتا تھا۔اس کا دور حکومت 1198 سے 1194 قبل مسیح تک قائم رہا تھا۔ اس نے ایک انسان نما تصویر بنا رکھی تھی جسےوہ خدا کہتا تھا۔ اس تصویر کے ساتھ وہ جوئے کا کھیل جیسے چھکا، پنجا وغیرہ کھیلا کرتا تھا، اگر خدا ہار جاتاتو وہ اس تصویر کو توہین والے انداز میں برباد کردیا کرتا تھا۔اس نے ایک چمڑے کا بستہ بھی بنا رکھا تھاجس کو خون سے بھر کر اپنے پاس لٹکا کر رکھا کرتا تھا۔ وہ اس بستہ پر نشانہ لے کر ہتھیار مارتا اور کہتا کہ میں خدا کو مار رہا ہوں۔2 "وو یی (Wu Yi)" بت کے ساتھ تختے پر "لیوبو (Liubo) "نامی کھیل بھی کھیلا کرتا تھا، اگر وہ بت تینوں مرتبہ اس سے ہار جاتا تو وہ اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا تھا۔ اس بات کی مزید پرواہ کیے بغیر کہ اس کی جبری حکومت پر رائے دہی کے ساتھ بہتری لائی جائے اور ظلم و بربریت کے نظام کو روکا جائے، لوگوں نے بالآخر اس کی بادشاہت کے خلاف آخری قوت لگانے کی ٹھان لی اور "چو(Chou)" کی سرپرستی میں حکومت سے بغاوت کردی تھی۔ یہ سرکشی کی لہر بالآخر فتح میں تبدیل ہوگئی ۔ " وو وی (Wu Yi)"نےاپنی ناکامی پر خود کشی کرلی تھی۔3

بادشاہ زہؤو کا شاہی سلسلہ

"زہؤ (Zhou)"شاہی سلطنت جسے بادشاہ "چئو(Chou)"کےشاہی دور حکومت کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا، نے قدیم چین پر تقریباً 8 صدیوں تک حکومت کی تھی۔اس نے ایک منفرد سیاسی اور ثقافتی خصوصیات کا حامل نظام مرتب کیا جو اگلے دو ہزار(2000) سالہ دور میں چین کی پہچان بنا رہا تھا۔4 1046 قبل مسیحی دور کے آس پاس ، بادشاہ "زہؤو (Zhou)"کی سلطنت کے صوبہ کا حکمران "وو(Wu)" نے " شینگ(Shang) " کے بادشاہ "زہؤو (Zhou)" سے بغاوت کردی اور اس کی عسکری فوج کو "میویی (Muye)"کی جنگ میں شکست دے کر"زہؤو خاندان سلاطین(Zhou Dynasty)" کے بادشاہی دور کا آغاز کیا جو تقریباً 1046 قبل مسیح سے 256 قبل مسیح تک موجود رہا تھا۔1046 سے 771 قبل مسیح کا درمیانی دور مغربی خطہ کے "زہؤو (Zhou)"دورِ حکومت سے جانا جاتا تھا جبکہ 771 سے 226 قبل مسیح تک حکومتی دور مشرقی "زہؤو (Zhou)"کا زمانہ کہلاتا تھا۔ جنت کو تفویض کرنے کے اختیارات بادشاہ "وو (Wu)" کے چھوٹے بھائی "زہؤو (Zhou)"کے بڑے عہد یدار رئیس کے سپرد تھے، تاکہ وہ بغاوت کے عمل کو جائز قرار دے کیوں کہ وہ یہ محسوس کررہا تھا کہ" شینگ(Shang) " لوگوں کے مفادات کے مطابق اب کام نہیں کررہا ۔

جنت دینے کے اختیار کو یوں بیان کیا جاتا تھا کہ خدا انصاف پسند حکمران پر اپنی رحمت اتارتا ہےاور اس پربھی جو خدا کی جانب سے تفویض کیے گئے اختیارات کے مطابق حکومت کرتا ہے۔جب کوئی بادشاہ خدا کے احکامات کے مطابق نظام نہیں چلاتا تو وہ سلطنت شکست خوردہ ہوجاتی ہے۔ مزید برآں یہ امر بھی شرط قرار دیا گیا تھا کہ چین پر کوئی ایک اجازت شدہ حکمران بادشاہت کرسکتا ہے، اور اس کی بادشاہت صرف اسی صورت میں جائز قرار دی جاسکتی ہے جب وہ اپنی زمین پر ایسا ہی نظام رائج کرسکے جیسے جنت کا منتظم اپنی زمین پر نافذ کرتا ہے۔

سلطنت کی حکمرانی باپ سے بیٹے کی جانب اسی صورت میں منتقل کی جاتی تھی جب وہ یہ جان لیا کرتے تھے کہ بیٹے میں حکمرانی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔جنت تفویض کرنے کےان اختیارات کو بعد کے ادوار میں آنے والے متعدد بادشاہوں نے اپنی حکومت کو مؤثر کرنے کے لیے رائج کیا تاکہ جانشینی کے عمل کو منتقل کرنے میں آسانی ہو اور نااہل اولاد کو بھی حکومت میں اپنا وارث بنایا جاسکے۔

"زہؤو (Zhou)"کے دور حکومت میں چینی ثقافت پھلی پھولی اوراس کی تہذیب وسیع و عریض رقبہ تک پھیل گئی تھی۔قوانین کی تدوین کی گئی ۔وہ لوگ لوہے کی دھات کاری میں بہت زیادہ مہارت حاصل کرچکے تھے۔چین کے بہترین اور مشہور و معروف شاعر اور فلسفی دان ، کنفیوشس(Confucius)، مینشیس(Mencius)، موٹی(موت زو) {Mo Ti (Mot Zu)}، لاؤ تزو(Lao-Tzu)، تاؤچین(Tao Chien)، اور عسکری تجویز کارسن-تزو(Sun-Tzu) تھے۔ ان تمام کا تعلق چین میں "زہؤو (Zhou)"کے زمانے سے تھا ۔

" شینگ(Shang) "سلسلہءِ شاہی میں گھوڑا گاڑی کی بھی ایجاد ہوئی تھی جسے مزید بہتر انداز سے دورِ "زہؤو (Zhou)"میں مرتب کیا گیا ۔ یہ امر توجہ طلب ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں تحریر شدہ مواد کے برعکس ان زمانوں اور سلسلہ ءِ شاہی کے ادوار کا آغاز بھی بہتر نہ تھا اور نہ ہی اختتام اچھے طریقے پر ہوا۔ "زہؤو (Zhou)"کے شاہی دور میں بالعموم اور"شینگ(Shang) "کے دور حکومت میں بالخصوص معاشرتی معالات میں کافی بہتری آئی جس میں وہاں کی بول چال اور مذہب نمایاں تھے۔ تاریخ دانوں نے ان ادوار کو حصوں میں تقسیم کرکے بیان کرنا زیادہ مناسب جانا تاکہ ان کے مابین واضح فرق بیان کیا جاسکے۔5

موسم اور جغرافیۂ چین

مشرق کی جانب ، چین بحر الکاہل سے گھرا ہوا تھا۔ مغرب کی سمت ، شمال مغرب اور جنوب مغرب میں بڑے پہاڑی سلسلوں ، وسیع و عریض صحراؤں اور نیم بارانی سطح مرتفعی علاقوں سے حد بندی تھی ۔ یہ مقامات درمیانی خطوں کو چین سے الگ اور شدید موسم سے حفاظت بھی کرنے کا باعث تھے۔ قدیم چین کا جنوبی علاقہ بحر ہند اور جنوبی ایشیا کی موسمی ہوا مون سون اور شدید آندھی و طوفان کی وجہ سے نیم گرم تھا۔ جبکہ چین کا جنوبی علاقہ سخت گرم اور انتہائی سرد موسم کی لپیٹ میں ہوا کرتا تھا۔چین میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھنے والی کثیر اقسام کی سبزیاں پائی جاتی تھیں جو قدرتی طور پر زرخیز زمین پر اگا کرتی تھیں۔جنوبی علاقوں میں آندھی سے بنے ہوئے مٹی کے تودے، چکنی مٹی کے گاروں سے بھری ہوئی تھی، یہ مٹی کے تودے ممکنہ طور پر وسطی ایشیا کے صحرائی خطوں سے مشرقی سمت کی جانب آنے والی تیز ہواؤں سے بن جایا کرتےتھے۔چین کے وسطی اور جنوب مشرقی مقامات کثیر رقبہ پر محیط سیلاب کے سبب آنے والی چکنی مٹی والی زمین پر مشتمل تھے، یہ خطے "ینگتزے (Yangtze)" اور "ہوینگ ہو(Hwang Ho)" کے کیچڑ نما دلدلی ذخیروں سے وجود میں آئے تھے، اسی وجہ سے یہاں زراعت کا کام بہت بہتر انداز سے پھلا پھولا تھا۔ 6

قدیم مشرقی چین دیگر خطوں کے مقابلے میں زیادہ نم اور زرخیز زمین کا حامل تھا۔کثیر دریا مغرب سے مشرقی سمت کی جانب بہتے تھے۔ ان دریاؤں کی ابتدا تبت کی بلند زمینوں یا ہمالیا کے پہاڑی سلسلوں سے ہوا کرتی تھی، اوریہ دریا آخر میں بحرالکاہل سے مل جایا کرتے تھے۔ ان دریاؤں کو موتی(Pearl)، ہائے(Hai)، ینگتزے(Yangtze) اور دریائےزرد(Yellow River)کے ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا۔جنوبی چین میں موجود دریائے ینگتزئے(Yangtze) قدیم چین کا سب سے بڑا دریا تھا۔اس کا آغاز تبت کے سطح مرتفعی علاقوں سے ہوتا اور چلتے چلتے موجودہ دور کے مشہور شہر شنگھائی (Shanghai)کے مقام پر بحر الکاہل میں داخل ہوجایا کرتا تھا۔ ینگتزے (Yangtze)کی بندرگاہ کا موسم نیم گرم اور نم ہوا کرتا تھااور نیم حاری موسم سے کچھ درجے مستحکم ہوا کرتا تھا۔وہاں کی مٹی زرخیز تھی جس کی وجہ سےاس خطہ کا شمار ان مقامات میں ہوتا ، جہاں انسانوں نے سب سے پہلے پودے لگائے تھے۔تاریخی اعتبار سے یہ دور تقریباًآٹھ ہزار (8000)قبل مسیح کا تھا۔پہلی صدی قبل مسیح میں یہاں موجود دریا، اشیا ءکی ترسیل کے سلسلے میں اہم راستے کے طور پر استعمال کیے گئے، یہاں سے جہازسمندر سے چھ سو (600)میل اندرتک دریا میں سفر کرتا اورانہی راستوں سے خطہ میں درآمدات پہنچائی جاتی تھیں۔زیادہ تر شہر دریاؤں کے ملنے کے مقام پر نمودار ہوئے تھے۔ ان میں سب سے اہم آج کے دور میں موجود جدید شہر" نینجنگ (Nanjing) "بھی تھاجو قریب قریب (500) قبل مسیح میں آباد ہوا تھا۔دریائے ینگتزے(Yangtze) کافی چوڑا تھا اور اسے عبور کرنا آسان کام نہیں تھا، اسی وجہ سے دریا قدیم بادشاہتوں کے لیے مؤثرحد بند ی کے کام آتا تھا۔دریائے زرد (Yellow River) کے علاقوں میں گرمیوں کی بارشیں ہلکی اور تیز دونوں طرح برستی تھیں لیکن سردیوں میں انتہائی خطرناک بارشیں ہوا کرتی تھیں۔وہاں کا موسم انتہائی سخت اور متزلزل تھا، کبھی قحط سالی کاشکار ہوجاتا اور بعض اوقات غیر متوقع سخت و بے قابو سیلاب آجایا کرتے تھے، دونوں غیر یقینی موسم لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیاکرتے تھے اور یہ سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا تھا۔قدیم دور میں چین کثیر خطرناک قحط و خشک سالی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار رہتا تھا۔ 6 صدی قبل مسیح کی تحریری دستاویزات میں قحط سالی سے بچنے کی تدابیر اور بارشوں کے لیے کی جانےوالی عبادات کا تذکرہ ملتاہے، ان میں سے کچھ طریقہ کار مشہور فلسفی "کنفیوشس (Confucius)" کے بھی موجود تھے۔ حکمران سیلابی ریلوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام بھی کروایا کرتے تھے۔7

زبان

تہذیبوں اور ثقافتوں کے زمانہ تدوین میں چینیوں نے زبان کو تحریر کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا تھاجس کی اصل شکل آج بھی بغیر کسی بڑی تبدیلیوں کے موجود ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چینی تحریری طریقہ کار وہی پرانا ہے جو آج تک استعمال کیا جارہا ہے۔ چینی زبان یک رُکنی الفاظ پر مشتمل تھی۔مختلف لہجوں اور آواز کے اتار چڑھاؤ سے مختلف معانی جانچے جاتے تھے، یوں ہر لفظ کو بولنے کے لیے 4تا9 تک مختلف آوازیں استعمال کی جاتی تھیں۔ قدیم چین کی تحریری زبان تقریباًچالیس ہزار(40000) مختلف علامات پر مشتمل تھی، جن میں سے ہر ایک مختلف سوچ و انداز کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔اس کے برعکس عہد عتیق کی چینی گفتار اندازاًسو(100)مختلف لہجوں میں بولی جاتی تھی اور عمومی طور پر اس انداز کو چینی شہر" کینٹن (Canton)"کے باشندے سمجھ نہیں پاتے تھے۔چینی زبان کا تحریری انداز گفتگو کے مقابلے میں تبدیل نہیں تھا بلکہ اس کا ایک ہی انداز رائج تھا۔8

قدیم چینی زبان کی علامات خیالات کو بھی ظاہر کرتی تھیں،ان کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص آواز مختص نہیں تھی۔وہ زبان تصویری خطوط یا تصور نگاری پر منحصرتھی، زبان کے الفاظ اور حروف کی آوازوں سے متعلق نہیں تھی۔یوں اتنی تعداد میں علامات موجود تھیں جتنے خیالات و افکار کا اس زبان میں اظہار کیا جاتا تھا۔حسابی عدد کی طرح ، ان علامات میں آنکھ کے لیے جو انداز اختیار کیا جاتا وہ کان کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ اکثر حکام نے ان علامات کی تعداد کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے، خصوصی طور پر متروک الاستعمال الفاظ اور مترادفات کو ، ان کی گنتی تقریباًپچیس ہزار(25000)کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔اگر سوچا جائے تو ان علامات کوبغور دیکھنے سے ایک الگ معنی و مفہوم سمجھ میں آتا ہے، اسی طرح ان الفاظ کی تعداد چھبیس ہزار(26000)تک بھی بتائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ چینیوں کی9 مقدس کتابوں میں پانچ ہزار (5000)مختلف تحریری علامات استعمال کی گئی تھیں۔ ان میں لکھائی6 مختلف انداز سے کی گئی تھی، جن میں زیبائشی، سرکاری، ادبی، نمونہ کاری اسلوب، عام تحریر، تیز لکھائی اور چھپائی کے انداز سے ملتی جلتی زاویائی لکھائی شامل تھیں۔9

بادشاہ "چئو(Chou)"کےشاہی سلطنتی سلسلے میں چینی زبان کا تحریری انداز تبدیل ہوا اور ایسا ہوگیا جیسا آج تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ رائج ہے۔چینی ایک ہی وقت میں زبانی شائستگی واختصار کے ساتھ ساتھ نزاکت و باریک بینی اور پیچیدگی کے حوالے سے بھی جانے جاتے تھے۔ان کی لمبے عرصے تک ، بغیر کسی متبدل طوالت کا فائدہ آج بھی چینی باشندے اٹھارہے ہیں کہ ایک پڑھا لکھا چینی آج بھی بیس(20) صدیوں پرانا تحریری مواد باسانی پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔چینی زبان کے لکھنے کا طریقہ اور تصویر نگاری چینی ثقافت کا خاکہ بھی پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تمام تر تبدیلیوں اور ہجرتوں کے باوجود چینی یک جان، اعتدال پسند، محتاط اور مسلسل موجود رہے ہیں۔ 10

تصورِ خدا

چینیوں کا روایتی مذہب شرک پر مبنی تھا، وہ لوگ متعدد خداؤں کو مانتے تھے۔ ان کا خدا کےبارے میں یہ عقیدہ تھا کہ جس طرح تمام چیزیں، جانور اور انسان کائنات میں اپنا وجود رکھتے ہیں اسی طرح خدا بھی موجود ہے ، وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ خدا جنتی قدرت کے ساتھ زمین کی اصل اور حقیقت ہے۔11خدائی ذوات مختلف قوتوں کی صورت میں موجود ہیں اور وہ بظاہر جنت کے لیے طریقہ کار اور اس کے معیارات کو پھیلاتا ہے، اس سے پردہ اٹھاتا ہے، اور اس کا عکس ظاہرکرتا ہے۔ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دیوتا اپنا بے مثال وجود شمالی اوج و بلندی کے آسمانوں میں محراب نما ستاروں کے جھرمٹ میں ظاہر کرتا ہے۔ چینی اعلی خدا کی اصطلاح اپنے سب سے بڑے خدا کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، جس کا معنی یہ تھا کہ بڑے خدا سے بڑھ کر کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اعلی خدا نے "یِن(Yin)" اور "یینگ(Yang)" کو بنایا ہے، جب یہ دونوں آپس میں یکجا ہوئےتو ان سے پانی، آگ، لکڑی، تانبا، اور زمین کا وجود ہوا تھا۔ جب یہ پانچوں قوتیں باہم اتفاق و ہم آہنگی سے کام کرتی ہیں تو چار موسم پیدا ہوتے ہیں۔ "یِن(Yin)" اور "یینگ(Yang)"کی لافانی روحیں اورپانچ عناصر کا اتصال ہوا تو جنتی مادہ ٴمذکرہوا اور زمین مادہٴ موٴنث ہوگئی۔پھر جب ان دونوں قوتوں نے ایک دوسرے پر اپنا اثر چھوڑاتو بقیہ تمام چیزیں وجود میں آگئیں اور ان کی افزائش اور دوبارہ پیدائش کا سلسلہ متواتر بغیر کسی خاتمہ کے یوں ہی چلتا رہے گا۔ اس کے علاوہ، انسان ان تمام موجودات میں خداؤں کی سب سے بہترین اور سمجھدار تخلیق ہے۔ یہ قدرتی قانون ہے، اب جو بھی مرد پیدا ہوگا وہ اسی قانون کے تحت عمل کرے گا۔12

متعدد خدا

قدیم چینیوں کے تقریباً دو سو(200)دیوتا اور دیویاں تھیں جن کی پرستش تمام چین میں کی جاتی تھی، لیکن اگر ایک ایک کرکے چینی خداؤں اور روحانی قوتوں کو گنا جائے تو اس کی تعداد کم و بیش ہزار (1000) سے آگے نکل جائے گی۔ہر قصبے، دیہات، شہر، میدان، کھیت، اور بعض اوقات الگ جگہوں اور قبرستانوں میں ان کا اپنا ذاتی مقامی خدا "ٹوڈی گونگ(Tudi Gong)"13 ہوا کرتا تھا۔اس کے علاوہ قدیم چینی دیگر روحانی طاقتوں کے وجود کو بھی مانتے تھےجن میں "کیوئی-شین (Kuei-Shen)"،14 اور وہ قدرتی طاقتیں شامل تھیں جو درختوں کو آباد کرتیں ، جھیل پر رہائش اختیار کرتیں اور باغات کے صدر نشین کے طور پر کام کیا کرتی تھیں۔چینیوں کا خداؤں کے بارے میں یہ تصور قائم تھا کہ انھوں نے ہی دنیا اور انسانوں کو پیدا کیا تھااور وہی زمین اور اِس کے ارد گرد موجود کائنات کو متحرک رکھنے اور افعال انجام دینے پر عمل پیرا تھے۔ ہر دیوی دیوتا کا اپنا ذاتی منتخب شدہ مقام ہےجہاں وہ اپنی طاقت اور قوت کو مؤثر طریقہ سے انجام دے سکتے تھے، اور سب سے اہم یہ کہ دیوی و دیوتا اپنے لیے معابد رکھ سکتے تھے۔ اس کے برعکس مقبرے اس مقام کی روحانی قوتوں اور شریف النفس مرد وں اور عورتوں کے لیے بھی قائم کیے جاتے جن کی مرجانے کے بعد عبادت کی جاتی تھی۔تمام مُذکر و مؤنث خدا اور روحانی قوتیں قدیم چینیوں کے نزدیک انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔15

شینگ-ٹی

قدیم چینی مذہب میں اعلی خدا "شینگ –ٹی (Shang-ti)" کی عبادت کی جاتی تھی۔اس سے کم درجے والی جنت کی روحانی قوتیں، زمین ، اس کی روحانی طاقتیں ، آباؤاجداد کی روحانی طاقتوں کی پرتش کی جاتی تھی۔ ان کا یہ تصور قائم تھا کہ سورج اور ستارے بھی زمین اور اس کے باشندوں کی تعظیم اور ادب کیا کرتے ہیں۔16

قدیم چینی باشندے دیوتا "شینگ –ٹی (Shang-ti)"کو" شینگ (Shang)"سلسلہءِ شاہی کا اعلی اور آسمانی خدا گردانتے تھے۔ "شینگ –ٹی (Shang-ti)"کے نام کا معنی حاکم ، سلطان، یا پھر بلندوبالا دیوتا کیا جاتا تھا۔یہ قدرت میں ایک ایسی ماورائے عقل طاقت کے حوالے سے بتائی جاتی تھی جس کے ذریعے سلسلہءِ شاہی " شینگ (Shang)" سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کی مدح سرائی کی جاتی ، قربانیاں پیش کی جاتیں اور اس کے علاوہ مختلف عبادات اور تقریبات کا انعقاد بھی کیا جاتا تھا۔سلطنت "چئو(Chou)" کے قائم ہونے کے ساتھ ایک نئی ہستی اعلی خدا کے طور پر نمودار ہوئی جسے تحاریر میں "ٹائین(T’ien)" کہا جاتا تھا ۔"شینگ –ٹی (Shang-ti)کا نام اب بھی تحاریر میں موجود ہے لیکن دیوتا "ٹائین(T’ien)" کا نام بھی اس کے پہلو بہ پہلو استعمال کیا جاتا ہے۔17"شینگ –ٹی (Shang-ti)کے بارے میں یہ تصور بھی قائم تھا کہ وہ ایک قیمتی حاکم ہے جو ایک بڑے محل میں رہتا ہے اور دیگر خدا اس کی اعلی افسر کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ان میں سے کچھ خدا تو محل کے اندر ہی رہائش اختیا رکیے ہوئے ہیں اور کچھ باہر رہتے ہیں۔محل کے باہر کثیر ایسے خدا موجود ہیں جن کا کام صوبوں میں گورنر کے مثل امور انجام دینا تھا، پھر اسی دن یا جب کوئی حکمران انہیں طلب کرتا ، وہ سب محل میں واپس آجایا کرتے تھے ورنہ وہ تمام خدا اپنے ہی مکانات میں رہا کرتے اور سپرد کیے گئے امور پر عمل پیرا رہا کرتے تھے۔18 تمام تر تفصیلات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، قدیم چینی لوگ اپنے ہی بنائے ہوئے خداؤں کے بارے میں پریشانی اور تذبذب کا شکار ہوگئے تھےکیوں کہ انسانی سوچ محدودہے اس سے وہ کوئی تصور قائم نہیں کرسکتا ،اسے خدا کی مدد کی ضرورت لازمی پیش آتی ہےجو کہ ان کے خود ساختہ خدا کرنے سے یقینا قاصر تھے۔

ڈریگن

"ڈریگن(Dragon) "دیوتا جنت کے خداؤں میں سے ایک تھا۔قدیم چینیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ بارش کا خداہے اورسمندر کے اند رہائش رکھتاہے۔ چین میں بہت زیادہ بارشیں یاان میں انتہائی کمی کا مطلب زراعت پیشہ افراد کے لیے قیامت صغری کا آجانا تھا؛ اسی لیے مطلوبہ مقدار میں بارش کی طلب کے لیے "ڈریگن(Dragon) "دیوتا کی کسی مخصوص دن عبادت کی جاتی جو عموماً ان خداؤں کی پیدائش کے دن عمل میں لائی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ قحط سالی اور سیلاب کی صورت میں بھی عبادات کاخصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔19

یینگ وینگ

دیوتا "یینگ وینگ(Yan Wang) "کو "یین-لو(Yan-Lo) "کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا۔ قدیم چینیوں کا اس کے بارے میں یہ عقیدہ تھا کہ وہ زیر زمین پوشیدہ دنیا میں خوف و ڈر کا بادشاہ اور مرجانے والوں کا دیوتا ہے۔20 چینیوں کے مطابق "یینگ وینگ(Yan Wang) "کے کثیر خدام تھے اور وہ انہیں ان افراد کی ارواح نکالنے کے لیے بھیجتا رہتا تھاجو مرنے کے قریب ہوتے تھے۔ اس کے بعد مرجانے والے افراد کی روحوں کے ساتھ جہنم میں جانچنے کا عمل کیا جاتا ، انہیں سزا دی جاتی اور پھر دوبارہ نیا جنم دےدیا جاتا تھا۔قدیم چینی قبل از وقت موت اور دوزخ میں جانے سے بچنے کے لیے"یینگ وینگ(Yan Wang) "کے عبادت خانے میں پابندی کے ساتھ جایا کرتے اور خاص ایام میں قربانیاں بھی پیش کیا کرتے تھے۔21

چینگائے

قدیم چینی دیوی "چینگائے (Chang’e)"، "چئینگ او(Ch’ang O) "کے نام سے بھی جانی جاتی تھی ۔ یہ چاند کی دیوی تھی جس کے پیار و محبت کی خوشیاں منانے کے بارے میں نظموں اور ناول میں تذکرہ موجود تھا۔اس نے چاند پر اپنے ساتھی تیر اندازی کےخدا ہو یی (Hou Yi) کے ساتھ پناہ گاہ کو تلاش کرلیا تھا کیوں کہ اس کے بارے میں یہ جان لیا گیا تھا کہ اس نے خداؤں سے لافانیت کی دوا کو چرا لیا تھا ۔ ہر سال قمری سال کے آٹھویں مہینے کی پندرہویں تاریخ کو چینی باشندے دیوی "چینگائے (Chang’e)" کی یاد موسم خزاں کے درمیانی تہوار میں منایا کرتے تھے۔ جب چودھویں رات کا چاند آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہوتا تو وہ چاند نماکلچہ یا کیک تیار کرکے کھایا کرتے اور اسے اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کو بطور تحفہ بھی بھیجا کرتے تھے۔کثیر ایسے افراد بھی تھے جو اپنے گھروں سے باہر نکل کر چاند کی سطح پر نظر آنے والا فرضی مینڈک کی شکل کو دیکھا کرتے تھے۔ اس جاندار وجود کے بارے میں دیومالائی داستان پیش کی جاتی تھی کہ یہی اب"چینگائے (Chang’e)"دیوی ہے۔22

گوئآنڈی

خدائے"گوئآنڈی (Guandi) "قدیم چینیوں کے عقیدہ کے مطابق جنگ کا دیوتا تھا۔ وہ ایک بہت طاقتور جنگجو اور بہترین سورما تھاجس نے مرنے کے بعد خدا کا روپ دھار لیا تھا۔23 یہ تصور ایک مضحکہ خیزی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ مخلوق کبھی بھی خالق نہیں ہوسکتی ۔قدیم چینی دیوتا "گوئآنڈی (Guandi) " کو کیان ٹی(Kuan Ti)، گیان یو(Guan Yu)، گیان گونگ(Guan Gong) اور ووڈی (Wudi)کے ناموں سے بھی موسوم کیا کرتے تھے۔ "گوئآنڈی (Guandi) "عام لوگوں میں بہت زیادہ شہرت رکھتا تھا کیوں کہ لوگ یہ تصور رکھتے تھے کہ اس خدا کو شیطانی طاقتوں پر مؤثر تسلط حاصل ہے۔یہاں تک کہ جب کوئی ناٹک یا ڈرامہ نمائش کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا تو اس خدا کا کردار خاص طور پر فنکار ادا کیا کرتے تھے اورڈرامے میں شیطانوں پر اس کی طاقت کا عملی مظاہرہ دکھایا جاتا تھا۔ "گوئآنڈی (Guandi) "صرف سپاہیوں میں مشہور نہیں تھا بلکہ متعدد تجارتی امور اور پیشوں میں بھی اسے بطور محافظ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ عقیدہ اس لیے قائم تھا کیوں کہ وہ لوگ عقیدہ رکھتے تھے کہ دیوتا "گیان یو(Guan Yu)"جو ابتداءًایک فانی انسان تھا لیکن مرجانے کے بعد دیوتا "گوئآنڈی (Guandi) " کا روپ دھار چکا تھا۔ ان کی ریت و رواج کے مطابق "گوئآنڈی (Guandi) " اپنی ابتدا ئی زندگی میں سویابین سے تیار کردہ غذا ؤں کو لوگوں کے گھروں میں پھیری لگا کر بیچا کرتا تھا۔ 24لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ چینیوں کے کسی بھی مذہبی پیشوا نے کبھی نہیں سوچا کہ کن بنیادوں پر "گوئآنڈی (Guandi) " کو خدا تسلیم کیا گیا تھا اورکیا اس کے علاوہ دیگر اشخاص کیا اس رتبے کے اہل نہیں تھے؟ اگر دوسرے لوگ بھی اس طرح پذیرائی ملنے کی حیثیت رکھتے تھےتو نتیجتاً لاکھوں کی تعداد میں نئے خداؤں کا وجود سامنے آتا ہے، اور اگر ان کثیر خداؤں کا وجود مانا جائے تو کیا یہ تصور بدنظمی و افراتفری کی طرف نہیں لے جارہا؟اور اگر دیگر اعلی درجے کے اشخاص نے خدا کا روپ نہیں دھارا تو ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کن بنیادوں پر صرف"گوئآنڈی (Guandi) "ہی کو خدا بننے کا اہل تسلیم کیا گیا؟ یہ ایک ایسا معقول اور قابل بحث مسئلہ ہے جس پرچینی مذہبی رہنماؤں کو آج نہیں تو کل ضرور سوچنا ہوگا۔اس کے علاوہ وہ دیگر خودساختہ خدا جن کا اوپر تذکرہ موجود ہے چینیوں نے انکے باریں میں بھی جو عقائد اپنائے ہوئے تھے ان کی وضاحت میں نہ تو ان کے پاس دلیل تھی اور نہ ہی کوئی آسمانی صحیفہ۔ جتنے بھی دیومالائی قصے انہوں نے ان خداؤں کے بارے میں رواج دئیے ہوئے تھے وہ انہی کی مثل کسی آدمی چاہے مینشیس(Mencius) ہو یا کنفیوشس(Confucius) کے من گھڑت بیان کردہ قصوں سے مأخوذ تھے۔ کنفیوشس(Confucius) کو بعض صحیح تعلیمات کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے نبی بھی گردانا ہے لیکن اگر وہ نبی تھا بھی تب بھی اس کی جانب منسوب یہ قصے سوائے من گھڑت احوال کے اور کچھ بھی نہ تھے کیونکہ قرآنی تعلیمات اور سیرت کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ جو بھی نبی منجاب اللہ دنیا میں آیا اس نے ہمیشہ لوگوں کو توحید کا ہی درس دیا نہ کہ ان مشرکانہ عقائد کا جو قدیم و موجودہ چین میں پائے جاتے ہیں۔

عقیدہ حیات بعدالموت

عام طور پر قدیم چینیوں کاعقیدہ تھا کہ ان کے آباء نہ صرف حیات ہیں بلکہ وہ زندہ انسانوں کے مقدر کو طے کرنے اور ان کے مابین جنگوں میں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔اگر انہیں کامل طور پر قربانیاں نہیں پیش کی گئیں اورانہیں اپنے خاندان کے متعلق امور کی اطلاع نہیں دی گئی تو ان کے آباؤاجداد بہت زیادہ غصہ اور پریشان کن حالت میں واپس آجائیں گےاور ان کو سزا دیں گےجنہوں نے اولاد کے طور پر ان سے اپنی سعادت مندی کا اظہار نہیں کیا تھا۔25یہ امر بالکل واضح ہے کہ پیش کی جانے والی قربانی کا مادہ کسی صورت میں مرجانے والے شخص نہیں لے جاسکتا تھا ، وہ لوگ اس قربانی کے مادّے کو مذہبی پیشواؤں کو دے دیا کرتے تھے۔ ایسے تمام تصورات بھی مذہبی چینی پیشواؤں کی خود ساختہ تخلیقات تھیں ، اس طرح وہ لوگ دنیاوی عیش و آرام اور اس کے فوائد کو مذہب کے نام پر آسانی سے حاصل کرلیا کرتے تھےاور وہ لوگ جو انہیں اپنا نجات دہندہ یا رہبر وہ مرشد مانتے تھے وہ ان کو لوٹا کرتے تھے۔ وہ چندے، چڑھاوے اور تحائف جو دیگر مذاہب کے پیشوا اپنے ماننے والوں سے مختلف بہانوں سے بٹورا کرتے تھے چینی مذہبی پیشوا بھی ان سے کسی درجہ کم نہ تھے اور وہ چینیوں کی نفسیات کی مطابق ان کو ان کے آباء کی خدمت کا واستہ دیکر انہیں بیوقوف بنایا کرتے تھے۔

دیگر مذہبی عقائد

قدیم چین تین مختلف فلسفیانہ مکاتب کا گڑھ تھا جس کا اثر اُن کی سوچ، مذہب اور ان کے رویوں پر پوری تاریخ میں نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ تینوں فلسفیانہ مکاتب قانون پرستی(Legalism)، کنفیوشنزم(Confucianism) اور تاؤمذہب (Taoism)کے نام سے جانے جاتے تھے۔26

اسی طرح قدیم چین کے شاہی دور میں مذہبی طور پر بھی تین مختلف تصورات اورعقائد کو مانا جاتا تھا، جن میں سےایک کنفیوشنزم (Confucianism)، دوسرا تاؤمت (Taoism)اور تیسرابدھ مت (Buddhism) تھا۔پوری چینی تاریخ میں تینوں مذاہب پر عمل پیرا افراد تحمل مزاجی و برداشت سےایک دوسرےکے ساتھ مل جُل کر رہا کرتے تھے۔باوجود اس کہ ان تینوں مذاہب کے مابین بنیادی قوانین و عقائد میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف تھا لیکن پھر بھی بہت کم ہی ایسے افراد تھے جن پر ان کے عقائد کے سبب مظالم ڈھائے گئے تھے۔اس تمام تر صورتحال کے نتیجے میں چینی سلطنت کا شمار دیگر قدیم تہذیب میں منفرد و نمایاں تھا۔ کنفیوشنزم (Confucianism)اور تاؤمت (Taoism) (جس کو دورسرے لہجے میں (Doism) بھی کہتے ہیں )کی تعلیمات اُس دور میں نمایاں طور پر سامنے آئیں جب سلطنتوں کے مابین جنگ و جدال کا سلسلہ چل پڑا تھا۔مسلسل جنگی ماحول کی موجودگی کے برعکس یہ دونوں مذاہب لوگوں کو امن و امان والا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتے اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ سکون و اطمینان کے ساتھ رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔

قدیم چین میں بدھ مت(Buddhism) کی تعلیمات پہلی صدی عیسوی میں ہندوستان سے آئی تھیں ۔بدھ مت (Buddhism)کی بامروت اور میانہ روی کی حامل تعلیمات جنگی ماحول ہونے کے سبب بہت زیادہ تیزی کے ساتھ لوگوں میں پھیلیں اور مشہور ہوگئیں۔ اس کا سلسلہ تقریباً بادشاہ "ہین(Han) "کے دور شاہی تک قائم رہا تھا۔ان کے بعد 618 سے 906 عیسوی تک طاقتور حکومت خاندان ِ"تانگ (Tang)"کے بادشاہوں کی قائم ہوگئی جو بدھ مت (Buddhism)کی زوال پذیری کا باعث بنی تھی ۔ ان کے دور میں کنفیوشنزم (Confucianism)کی تعلیمات کو دوبارہ ایک نئی قوت حاصل ہوگئی تھی۔ تاہم پھر بھی بدھ مت (Buddhism)نے چینی تہذیب میں اپنی موجودگی کے لیے راستہ ہموار کرلیا تھا اور بالآخر وقت گزرنے کے ساتھ چین میں مشہور مذہب کی صورت اختیار کرلی تھی۔27

قانون پرستی

چین فلسفہءِ قانون پرستی (Legalism) کے مطابق یہ تصور قائم تھا کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے کہ فردقانون اور ریاستی مفاد کے لیے امور کی انجام دہی کرنے والا ہو۔مذہب "قانون پرستی (Legalism)"پر عمل پیرا افراد نے اپنی جدو جہد کو مسلسل جاری رکھا اور جدید دور کے آنے تک چین میں اپنا پر زور تسلط قائم رکھا تھا۔ یہ مذہب اپنے نفاذ میں طاقتور ہونے کے سبب" قِن (Qin)"اور "ہین(Han) "دور ِشاہی میں موجود حکومتوں میں بھی قائم رہا تھا۔جس دور میں "قانون پرستی (Legalism)"کی مذہبی تعلیمات پر عمل کیا جاتا تھا تو منصفوں کے متعلق یہ تصور کیا جاتا تھا کہ وہ آسانی کے ساتھ جرم کو پہچان سکتے ہیں اور اس کی سزا بھی تجویز کر سکتے ہیں ، اور تجویز کردہ سزا کو کوئی بھی باشندہ یا منصف اپنے طور تبدیل نہیں کرسکتا تھا ۔ اس عقیدے کے تحت مذہب "قانون پرستی (Legalism)"ایک ایسی طاقتور صورت اختیار کرگیا تھا جس کے ذریعے چنے گئےافسران مرکزی حیثیت سے ریاستی امور چلایا کرتےتھے۔ ان عہدیداران کو ریاست کا بادشاہ منتخب کیا کرتا جس پر بغیر کسی تامل کے وفاداری کے ساتھ امور انجام دینا لازم ٹھہرتا تھا۔وہ تمام قوانین جس کے بارے میں کسی کو سوال اٹھانے کا اختیار نہیں تھا، لوگوں کو اس کے متعلق آگاہی دی جاتی اور اس پر عمل درآمد خصوصی طور پر وضع کیے گئے طریقہ کار اور قوانین کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔ ہین سلسلہءِ دور شاہی (Han Dynasty)میں تمام لوگوں پر برابری کی بنیاد پر قانون نافذ کیا گیا تھا، چاہے کوئی اعلی خاندان سے یا کوئی عام فرد ہو، سب کے ساتھ یکساں برتاؤروا رکھاجاتا تھا۔28قانون پرستوں کو بارہاچینی فلسفہ کوتباہ کرنے والا بھی کہا جاتا تھا، کیوں کہ وہ لوگ حکومتی نظام چلانے کے لیے مختلف طریقہ کار رائج کرتے تھے ، اور ان کی بنیاد ناپختہ اساسی قانون پر مبنی تھی جواخلاقی جواز میں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ قانون پرست لوگوں کو ایسے کام کرنے کی ترغیب دیتے جس کا حکم بادشاہ دیا کرتاتھا، چاہے اچھا ہو یا برا، انھیں حکم کی تعمیل لازمی کرنی پڑتی تھی۔ زیادہ تر حکمران جنگوں میں فاتح بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس کے برعکس قانون پرست ریاست کو طاقتور بنانے میں اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو صرف کیا کرتے تھے۔قانون پرست تاریخ اور فلسفہ کو برا جانتے تھے اور اسے وقت کا ضیاع سمجھتے تھے۔29

قانون پرست ایسی سوچ پر عمل پیرا تھے جو عمل میں لائی جاسکیں۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ لوگوں کو کوئی کام کرنے پر اکسانے کے لیے سمجھانا اور ان کے اندر تحریک پیدا کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ چاہیے یہ ہے کہ انہیں مشقیں کروائی جائیں اور انعامات اور سزاؤں کے ذریعے انہیں تیار کیا جائے۔قانون پرست فلسفیوں نے فکر مندی اور تردد پسند سوچ اپنائی ہوئی تھی ، اس کے برعکس کنفیوشس (Confucius)کی تعلیمات تھیں کہ "پہلے تمھیں اپنی زندگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے" اور داؤمت کا نظریہ (Daoist line)یہ تھاکہ " سکون و اطمینان کی حالت میں رہو، اور بہت زیادہ فکریں مت پالو"۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر انہیں ریاستی قوانین وضع کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو ہم ایسا نظام لائیں گے کہ بادشاہ تو اپنی حکومت کا مزہ لے رہا ہوگا جب کہ ملکی نظام اپنے آپ چل رہا ہوگا۔ قانون پرست پریشان کن اور بے چین حکمران کے طور پر بادشاہت کرتے اور نظام چلانے میں پریشانی کی کیفیت سے دوچار رہتے تھے۔ وہ تمام قوانین جن کو بنانے میں بحث کی جاتی تھی ،ضروری تھا کہ وہ قابل تعین ہوں اور تمام لوگوں پر برابری کی صورت میں نافذ کیے جاسکیں، اس کی ترویج زیادہ سے زیادہ کی جائے اور سختی کے ساتھ عمل در آمد کروایا جائے۔ اگر کوئی بادشاہ اپنی عوام سے دشمن کے ساتھ جنگ میں لڑنےکی خواہش رکھتا تو اعلان کرتا کہ دشمن کے ایک سر کے بدلے ایک سونے کا سکہ دیا جائے گا۔ حقیقت یہ تھی کہ بادشاہ " قِن (Qin)"کے دورِ سلطنت میں کسی اعلی مقام تک پہنچنے کے لیے دشمن کا سر کاٹ کر لانا انتہائی اہم گردانا جاتا تھا۔ یہ کسی کی وفاداری جانچنے کا بہت ہولناک اور دہشت ناک طریقہ تھا، لیکن ایسا کرنے والا شخص بالکل صاف شفاف ہوجاتا اور اس طرح قانون پر لوگوں سے عمل درآمد آسانی سے کروایا جاتا تھا۔ خاندانی پس منظر کو زیادہ حیثیت نہیں دی جاتی تھی؛ چاہے کسی کا باپ جرنیل ہو یا کسان، دشمن کے چار سروں کے بدلے چار سونے کے ٹکڑے برابر دیے جاتے تھے30 جو انکی درندگی اور سفاکی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

قدیم چینی مذاہب

چین کا قدیم ترین مذہب اپنے اجدادکو پوجنا تھاجس کا قدرتی نتیجہ بزرگوں کی اطاعت اور خاندان سے گہرے لگاؤ کی صورت میں ہوا۔ پھر قدرتی عناصر اور اشیاء کی پوجا کی گئی۔ وہاں کوئی مذہبی جماعت نہ تھی۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں (Toeism)تاؤازم ، جس کی بنیادلوتزے (Lao-Tse) کی تعلیم پر اور کنفیوشنزم (Confucianism)جس کی بنیاد کنفیوشس(Confucius) کی اخلاقی تعلیم پر تھی چین میں مقبول ہوگئے۔31

کنفیوشس

کنفیوشس(Confucius) 551 سے 479 قبل مسیحی دور کا ایک چینی معلم، ادارے کا منتظم، قانون دان، اور چینی تاریخ کے اتار چڑھاؤپر گہری نظر رکھنے والا ایک فلسفی تھا۔ کنفیوشس(Confucius) کا فلسفہ جسے کنفیوشنزم (Confucianism) کا نام دیا جاتاہے، انفرادی اور انتظامی اخلاقی خصوصیات پر بحث کرتا اور معاشرتی تعلقات کی درستی، برابری اور سچائی پر بات کرتا ہے۔ کنفیوشس(Confucius) اپنی ذات کو زندگی کے معاملات میں ایک ناکام شخص تصور کرتا تھا۔ وہ تمام ثقافتی و معاشرتی اقدار جو اس نے روزگار و ملازمت کے لیے وضع کیے تھے، تقریباًستر(70)کے قریب حکمرانوں نے رد کردیے تھے۔ جب وہ اپنا دفتر قائم کرنے میں ناکام ہوگیا، تو ایک معلم بن گیا تھا۔ اس کے جو بھی خیالات و افکار تھے، بعد کے ادوار میں چین میں وسعت کے ساتھ نافذ کیے گئے ۔32کنفیوشس(Confucius) اپنے ذہن میں بنائی گئی ایک تصوراتی جنت کی تعلیم دیتا تھا، اسی لیے وہ زندہ انسانوں کو اتنی ہی عزت دیا کرتا جتنی چینی روایتی طور پر اپنے آباؤاجداد کو دیا کرتے تھے۔ کنفیوشس(Confucius) کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اس نے پانچ قدیم ادبیّات کی دوبارہ ترتیب کی تھی، جن میں "کتاب دستاویزات(Book of Documents)"، "غزلوں و قصیدوں کا مجموعہ(Book of Odes)"، "کتاب دستور(Book of Rites)"، "تبدیلیوں کی کتاب(Book of Changes)" اور "بہار اور خزاں کے واقعات(Spring and Autumn Annals)"شامل تھیں اور یہ کتابیں آج بھی چینی لٹریچر کا اہم جز مانی جاتی ہیں۔

کتاب دستاویزات

کتاب دستاویزات (Book of Documents) اٹھاون(58) مختلف اسباق پر مشتمل تھی جس میں قدیم چین کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی تھیں۔کتاب دستاویزات (Book of Documents)قدیم دور کے عقلمند و تجربہ کار حکمران "یاؤ(Yao)" اور "شون(Shun)" کےافعال پر گفتگو کرتی تھی۔ اس میں موجود حکایات دانائی و عقلمندی کو سمجھنے میں انتہائی مؤثر کن تھی۔ اس کتاب میں "ژیا(Xia)"، "شینگ(Shang)" اور "زہو(Zhou)" بادشاہوں کے شاہی سلسلوں کا بھی ذکر موجود تھا۔ اس کتاب کو چینی تاریخ میں پہلی حکایات پر مبنی کتاب کا درجہ آج بھی حاصل ہے۔

مجموعہ قصیدہ

مجموعہ قصیدہ و غزل (Book of Odes)کا ترجمہ "گیتوں کی کتاب" یا " شاعری کی کتاب" کیا گیا ہے۔ مجموعہ غزل میں تین سو پانچ(305) نظمیں شامل کی گئی تھیں جس میں مختلف موضوعات پر اشعار کہے گئے تھے۔ اس کتاب میں پیار و محبت اور شادی بیاہ، کھیتی باڑی سے متعلق، روز مرہ زندگی اور جنگوں کے بارے میں نظمیں موجود تھیں۔اس کے علاوہ اس کتاب میں دیگر عنوانات پر بھی غزلیں شامل کی گئی تھیں جس میں لوک گیت اور اس کے علاوہ بھجنوں یا مناجاتوں پر مبنی اشعار تھے جسے قربانی کے وقت گایا جاتا تھا۔ "کونگزی (Kongzi)"کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس نے کثیر نظموں میں سے تین سو پانچ(305) کو چن کر اس کتاب کا حصہ بنا یا تھا۔

کتاب دستور

کتاب ِدستور (Book of Rites)میں معاشرتی قواعد و ضوابط ، سرکاری اداروں، اور بادشاہ"زہو (Zhou)"کے دور شاہی میں کی جانے والی مذہبی و ثقافتی رسومات کا ذکر تھا۔ اس کتاب کے بارے میں بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے "کونگزی (Kongzi)"نے مرتب کیا تھا۔ کتاب دستور(Book of Rites) بعد کے ادوار میں رواج پانے والی کثیر مذہبی و ثقافتی قوانین میں بنیاد کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کتاب کے مطابق، کامل مذہبی و ثقافتی رسم کی ادائیگی سلطنت میں اتحاد و اتفاق کی فضا کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سعادت مندی و پارسائی کی صفات نافذ کرواتی ہے۔

تبدیلیوں کی کتاب

تبدیلیوں کی کتاب(Book of Changes) مستقبل کی پیش گوئیوں پر مرتب کی گئی تھی۔ اس کتاب میں زیادہ تر "یِن (Yin)"اور "یینگ (Yang)"کے قوانین کو بیان کیا گیا تھا۔ تبدیلیوں کی کتاب کو "آئی چنگ" یا "تبدیلیوں کی مستند کتاب" کے نام سے بھی ترجمہ کیا گیا تھا۔ اس دور کی پیش گوئیوں پر مبنی افعال آج بھی انجام دیے جاتے ہیں۔

بہار اور خزاں کے واقعات

پانچ قدیم کتابوں میں سب سے طویل کتاب "بہار اور خزاں کے واقعات(Spring and Autumn Annals)" تھی۔ اس کتاب میں ریاست ِبادشاہ"لو(Lu)" کی تاریخی سرگزشت کو ذکر کیا گیا تھا۔ کتاب دستاویزات(Book of Documents) کے برعکس یہ کتاب خاص طور پر وقائع نگاری کے مقصد کے لیے مرتب کی گئی تھی۔عام طور پر اس کتاب کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اسے کنفیوشس(Confucius) نے لکھا ہے، لیکن جدید دور کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس کتاب میں موجود اکثر تحاریر بادشاہ "لو(Lu)" کی ریاست کےمتعدد تاریخ دانوں کی ہیں۔

کنفیوشس (Confucius) کے شاگردوں نے اس کی تعلیمات کو "اقتباسات" نامی کتاب میں محفوظ کرلیا تھا۔ دوسری صدی قبل مسیح کے اوائل میں "ہین(Han)" سلسلہ شاہی کے بادشاہ نے کنفیوشس (Confucius) کی تعلیمات کو بادشاہت کے نظریہ کے طور پر اپنا لیا تھا۔ ممکنہ طور پر تمام چینی عہدیداران پر لازم کردیا گیا تھا کہ انہیں کنفیوشس (Confucius)کی ادبیات پر مبنی سخت امتحان سے لازمی گزرنا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے اوقات میں اکثر حصہ کنفیوشس (Confucius) کی بیان کردہ آداب و رسوم کو ادا کرنے میں لگانا لازم قرار دیا گیا تھا۔33

بنیادی طور پر کنفیوشس سوچتا تھا کہ انتشار و افراتفری کا بڑھنا اور معاشرہ میں تفرقات کا پروان چڑھنا ماضی کی مثل اخلاقیات کی فضا کی بحالی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کا معنی یہ تھا کہ قدیم دور ِ سلسلہءِ شاہی کے بادشاہ "زہو(Zhou)"کے طبقہءِ امراکی مثل دور دوبارہ آجائے۔ کنفیوشس (Confucius) اپنے شاگردوں کو قدیم تاریخ اور ادب پڑھنے پر بہت زور دیا کرتا تھا، وہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر کوئی بادشاہ بہترین اخلاقی اقدار کو اپناتے ہوئے حکمرانی کرے تو عوام خود بخود اس کی اقتدا کریں گے۔34

کنفیوشس (Confucius) کی تعلیمات کے زیر اثر پرانی طرز پر مبنی نظام و تعلیمات میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہوگئی تھی۔ مذہبی تعلیمات کے حوالہ سے چینی مذہبی طبقہ کا رویہ ابہام پر مبنی تھا، جیسے کہ کنفیوشس (Confucius) کے ایک مشہور قول سے نمایاں ہوتا ہے ، اس نے کہاتھا کہ"خدائی قوتوں کی عزت کرو، لیکن ان کے اور اپنے درمیان فاصلہ برقرار رکھو"۔35 وہ یہ یقین رکھتا تھا کہ256 سے 1027 قبل مسیح تک "زہو(Zhou)"سلسلہءِ شاہی کے ابتدائی سال معاشرتی ہم آہنگی و بھائی چارے کا سنہری دور تھا۔ کنفیوشس (Confucius) نے اپنے عرصہ ءِحیات میں صرف بے ترتیبی اور ابتر حالات ہی دیکھے تھے۔ بادشاہ کا منصب طاقت و اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے مقابلے پر زیادہ توجہ دیا کرتا تھا۔افراتفری کے بڑھتے ہوئے اس رجحان کے پیش نظر کنفیوشس (Confucius) نے اس بات کو سمجھا کہ اخلاقیات اور اقدار کی ایک نئی تصویر پیش کی جائے جس کی بنیاد رحم دلی، تعظیم، اور خاندانی نظام کی مضبوطی پر منحصر ہو۔اس کا یہ کہنا تھا کہ ایک اچھے حکمران کو اپنے ماتحتوں سے اچھے رویہ کے ساتھ پیش آنے کی مثال قائم کرنی چاہیے، طاقت کے استعمال کو آخری حربہ کے طور پر استعمال کرنا چاہیے، اور ماتحتوں کو چاہیے کہ اپنے حاکم کا احترام اور تابعداری اختیار کریں۔ 36

کنفیوشس (Confucius) قسمت پرتو یقین رکھتا تھا لیکن کئی مؤرخین نے اسے ایک وہمی شخص بھی کہا ہے کیونکہ تیز ہوا کے جھونکوں کے بدلتے ہوئے رنگ اور طوفان میں بادلوں کی گرج ، یہاں تک کہ جب گاؤں والے اپنے گھروں سے شیطانی قوتوں کو نکالنے کے لیے رسومات انجام دیا کرتے تو وہ اپنے چہرے سے ایک خاص تاثر کا اظہار کیا کرتاتھا۔ اس کے علاوہ اس کی شخصیت کا خاص اور اہم پہلو یہ تھا کہ وہ خداؤں کی نافرمانی کرنے والے عمل پراظہارِ ناپسندیدگی و احتجاج بھی کیا کرتا تھا۔ 37

قدیم چینی روایتی طور پر مرجانے والے اپنے آباؤاجداد کو عزت دینے کے لیے رسومات کا اہتمام کیا کرتے تھے،اس کے برعکس کنفیوشس (Confucius) کی تعلیمات زندہ لوگوں کے متعلق زیادہ تھیں۔ اس نے تعلیمی اداروں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کی تھیں۔ اس سے پہلے دور میں تعلیم صرف وہی شخص حاصل کرسکتا تھا جو اس کے اخراجات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔وہ لوگوں کو یہ سکھاتا تھا کہ تعلیمی مواقع ان تمام لوگوں تک آسانی سے پہنچنے چاہییں جن میں اسے حاصل کرنے کا جذبہ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہو نہ کہ صرف انہیں جو اسے پیسوں سے حاصل کرسکتے ہوں۔تمام تر بنیادی تبدیلیاں لانے کے باوجود کنفیوشس (Confucius) اپنی ذات کو مُخترع کے بجائے چینی تہذیب کو دوبارہ بحال کرنے والےشخص کے طور پر دیکھتا تھا۔بطور معلم کنفیوشس (Confucius) نے کبھی معلومات کو پھیلانے اور ذہنی صلاحیت کو بہتر کرنے کو مقصد نہیں بنایا تھا بلکہ اس کی یہ کوشش تھی کہ انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیت کو ابھارےجسے چینی زبان میں "جین(Jen)"کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔یہ اصطلاح ترجمہ کرنے میں مشکل ہے لیکن معنوی اعتبار سے اس کا مفہوم"حقیقی انسانیت" کیا جاتا تھا۔ کنفیوشس (Confucius) لوگوں کو یہ تعلیم دیتا کہ وہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچانیں اور اس کا عملی اظہار کریں ۔اس طرح کرنے سے وہ حقیقی معنوں میں انسان بن جائیں گے کیوں کہ اب وہ کوئی بھی عمل انعام حاصل کرنے کی لالچ میں انجام نہیں دیں گے، یعنی وہ "یی(yi)" نامی عمل کرنے کے قابل ہوجائیں گے، ساتھ ہی ساتھ وہ لوگ درستی و معقولیت کے قوانین جسے "لی (li)" کا نام دیا جاتا تھا،کو سمجھ کر لوگوں سے میل جول کرنے کے بہتر طریقے جان لیں گے اور اس کی نگرانی کرسکیں گے۔جب ان قوانین کو خاص فَرض مَنصَبی کے طور پر ادا کرنے کی بات آتی تو کنفیوشس (Confucius) اچھے اعمال کو اختیار کرنے اور بھلائی کی دوبارہ نشونما کرنے کے فرائض کوتفویض کیا کرتا تھا، اور اس کے لیے وہ لوگوں کو خصوصی نام و عہدہ بھی سپرد کیاکرتا تھا۔38

کنفیوشس (Confucius) نے مرد کے پانچ ایسے کرداربیان کیے تھےجسے کوئی بھی مرد اپنی زندگی میں لازمی انجام دیتا ہے۔ان میں بادشاہ اوراس کا وزیر مملکت یا نائب، باپ اور بیٹا، بڑا بھائی اور چھوٹا بھائی، میاں اور بیوی، اور ایک دوست کا دوسرے دوست کے ساتھ تعلق شامل تھا۔اس کے نزدیک حکمران جنت کا بیٹا ہے، اس کی بہت تعظیم کی جانی چاہیےاور اس کی وفاداری کے ساتھ تابعداری بھی کی جانی چاہیے ۔ وہ یہ کہتا تھا کہ والدین کا اپنی اولاد کے ساتھ خیر خواہی اور محبت کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا جیسے جنت کو ہم کسی حد میں معین نہیں کرسکتے، اسی لیے والدین کی خدمت اور ان کی اطاعت فرماں برداراولاد کی طرح کرنی چاہیے۔ بھائی ایک ہی جڑ کی دو شاخیں ہوا کرتی ہیں، اسی لیے آپس میں ایک دوسرے کو عزت دیں۔ نکاح تمام انسانوں کی پیدائش کی بنیاد ہے، اسی لیے میاں بیوی کا باہم حلیم و بردبار ہونا انتہائی ضروری ہے۔39 دوست آپس میں سہارا بنتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، اسی لیے یہ رشتہ بھی معاشرے میں خاص اہمیت اور عزت کا باعث ہے۔ کنفیوشس (Confucius) جس خدا پر یقین رکھتا تھا اس نے کبھی اس کے بارے میں لوگوں کو تعلیم نہیں دی اور نہ ہی اس نے کسی مذہب کا کوئی عقیدہ پیش کیا تھا جسکی وجہ سے یہ بات کافی حد تک یقینی محسوس ہوتی ہے کہ وہ کوئی پیغمبر یا رسول نہیں تھا جیسا کہ بعض محققین نے اسکے بارے میں رائے قائم کی ہے کیونکہ اللہ کی جانب سے مامور ہر نبی و رسول نے اپنی تعلیمات خدا کے حوالے سے توحید اور ماقبل صحائف کے مطابق عقائد کو بیان کیا تھا جو کہ کنفیوشس (Confucius) کی تعلیمات میں مفقود نظر آتے ہیں البتہ اس نے اپنی تعلیمات میں بہشت کے حصول کا نظریہ ضرور پیش کیا تھا ۔40

کنفیوشس (Confucius) اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ خاندانی تعلقات کو پختگی کے لیے باہمی عزت درکار ہوتی ہے کیوں کہ مضبوط خاندانی تعلقات ایک پائیدار و مستحکم معاشرے کی تعمیر کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ کنفیوشس (Confucius)نے اپنے فلسفہ کا خلاصہ یہ کہہ کر کردیا تھا کہ بادشاہ کو بادشاہت کرنے دو ، وزیر کو وزیر ہی رہنے دو ، والد کو والد کی جگہ پر رکھو اور بیٹا صرف بیٹا ہی بنارہے ۔ کنفیوشس (Confucius) آبا پرستی کی بھی حمایت کرتا تھا ، اس کا یہ کہنا تھا کہ اس عمل کے ذریعے خاندانی دفاداری اور تعلقات میں مزید مضبوطی آتی ہے ۔ اس نظریہ کے تحت چینی اپنی قوم کو ایک بڑے خاندان کا حصہ سمجھتے تھے جن میں نہ صرف زندہ افراد شامل ہوتے بلکہ ان میں گزرجانے والے اور آئندہ پیدا ہونےوالے انسان بھی شامل ہوجایاکرتے تھے۔ 41

مذہبی رسومات اور عبادات

کنفیوشس (Confucius) نے آداب و رسوم یعنی مذہبی عبادات اور اعلی اشرافیہ کی تعظیم و تکریم کو یکجا کردیا تھا۔اس کے بعد اس نے عبادات کو بجالانے کی اپنی خود ساختہ تعریف پیش کی تھی۔ اس نے یہ محسوس کیا کہ عبادت بجا لانے کے لیے لوگ سب سے پہلے آباؤاجدادکی تعظیم اور حاکم یا بادشاہ کی خاص عزت کیا کرتے ہیں ، پھر اس کے بعد اپنی عباداتی رسومات کو مزید پھیلا کر تمام لوگوں کے لیے ایک ہی طرح کی عبادات بجا لائی جاتیں اور انہیں عزت و تکریم سے نوازا جاتا تھا۔ کنفیوشس (Confucius) نے ان تمام مذہبی رسومات کو مجتمع کرکے ایک ہی انداز میں رائج کردیا تھا تاکہ ایک مکمل مہذب معاشرے کو قائم کیا جاسکے۔42

کنفیوشس (Confucius) یہ سمجھتا تھا کہ انسانی سلطنت "لی(li)" میں مذہبی، معاشرتی، اور نفسیاتی حدود و ابعاد موجود ہیں، اور یہ معنوی اعتبار سے مذہبی عبادات سے معقولیت کی جانب بڑھتی ہیں، اسی طرح عوامی قوانین رسوم و رواج کے قوانین کی تدوین کی جانب جاتی ہیں، مزید برآں نیک کردار کے اصولوں سے سوچنے ، محسوس کرنے اور عمل کرنے کے اخلاقی معیارات کی جانب بڑھتی ہیں۔انسانی سلطنت "لی(li)" کی مذہبی حدودانسان کی خدائی طاقتوں سے تعلقات کے مفہوم کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ یہ اعتقاد رکھا جاتا تھا کہ ناچ اور موسیقی کو نذرانوں اور قربانیوں کے ساتھ یکجا کرکے درست عمل کےساتھ پیش کرنے سے آباؤاجداد اور جن خدائی طاقتوں کے لیے عبادات کا اہتمام کیا گیا ہو،وہ مسرور ہوجاتی تھیں۔ اس عمل کے ذریعے اولاد اپنی وابستگی اور احسان مندی و شکر گزاری کا اظہار کرنے کے قابل ہوجاتی تھی۔ان عباداتی اعمال کے دوران ، غلطیوں و کوتاہیوں پر شرمندہ ہوا جاتا ، اعتماد بحال کیا جاتا، اور خوشیوں اور کامیابیوں کو سمیٹ لیا جاتا تھا۔ معاشرتی حدود میں "لی(li)" اس قانون کو کہا جاتا تھا جس میں قدیم بادشاہوں نے جنت کے قوانین کو ٹھوس شکل دی تھی اور انسانی فطرت کے اظہار کو باقاعدہ مرتب کیا تھا۔ اسی لیے قدیم چینی اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ جو شخص"لی(li)" کی مذہبی رسومات میں شمولیت اختیار کرتا وہ زندہ رہتا اور جو اس سے روگردانی کرتا، وہ مرجاتاہے۔

کنفیوشس (Confucius) کی مرتب شدہ عبادات کا سب سے اہم پہلو قربانی تھا۔قربانی کے لیے تین مختلف کردار مختص تھے جن میں "سی (si)، جی (ji)، اور ژیینگ (xiang)" شامل تھے۔ ان میں ہر ایک کردار منفرد معنی رکھتا تھا جو کسی نہ کسی خاص مقصد سے تعلق رکھتاتھا۔ "سی(si)" نامی قربانیاں جنتی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے پیش کی جاتی تھیں، "جی(ji)" زمینی قوتوں کے لیے اور "ژیینگ(xiang)" آباؤاجداد کی خدائی طاقتوں کو مسرور ومطمئن کرنے کے لیے ادا کی جاتی تھیں۔ اگر ان پر عمومی نظر ڈالی جائے تو ان تمام سرگرمیوں کو "جِسی(jisi) " یا "سی(si)" کا نام دیا جاسکتا ہے۔بادشاہ "زہو(Zhou)" کی مذہبی رسومات 43کے مطابق ریاستوں کا باہم ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کے وقت اور "ہین(Han) " سلسلہءِ شاہی کےابتدائی ایام میں تمام مذہبی عبادات کے طریقہ کار میں ردو بدل کردیا گیا تھا۔ اس وقت قربانی پیش کرنے کے درجات مخصوص تھے، بڑی قربانی "داسی (dasi)" جس میں قیمتی پتھر، ریشم اور جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی، اس کے بعد میانہ درجے "زہونگ سی (zhongsi)"میں جانوروں اور مختلف دھاتوں کی قربانی پیش کی جاتی تھی اور آخر میں سب سے چھوٹی قربانی "ژیاؤ سی (xiaosi)"کا رتبہ تھا جس میں کوئی شخص صرف جانور قربان کیا کرتا تھا۔44 چین کامُوخَّر شاہی دور کنفیوشس (Confucius) کے تابع تھا۔ سب سے بڑی قربانی بہشت اور حاکم اعلی کے لیے جنتی معبد میں پیش کی جاتی تھی اس کے علاوہ زمینی حکما ءکے لیے زمینی عبادت گاہ میں، دیوتا "شیجی (sheji)" کے لیے اناج زمینی قوتوں کی قربان گاہ میں ، شاہی آباؤاجداد کے لیے آبا کی عبادت گاہ میں، او کنفیوشس (Confucius) کی معبدِ کنفیوشس (Confucius)میں قربانی پیش کی جاتی تھی۔ درمیانی درجہ کی قربانیاں سورج اور چاند کے لیے پیش کی جاتی تھیں، اس کے علاوہ کھیتی باڑی وریشم کی پیداوار(Sericulture) کے خداؤں اور سابقہ حکمرانوں کے لیے بھی ادا کی جاتی تھیں ۔سب سے کم درجہ کی قربانیاں عام معابد میں ادا کی جاتی تھیں۔45

کنفیوشس (Confucius)اور اس کے نظریات کی شروع دن سے ہی مذمت کی جارہی تھی، جس میں مشہور چینی فلسفی "لاؤزی (Laozi)"کی عقلیت پسندی اور فلسفی "موزی(Mozi)" کے قدر پیمائی کا نظریہ ، اس کے علاوہ قانون پرست جس میں "ہین فئی(Han Fei)" بھی شامل تھا، اس نے کنفیوشس(Confucius) کے فلسفہ اورنظریات کو ناپسند کیا کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح ہر شخص اپنی ذات کو مرتب کرنے میں خود مختار ہوجائے گا اور ہر کوئی اپنے ہی زاویہ نظر کو پیش کرے گا۔46بعد ازاں جب مزاحمت اور کھلم کھلا ملامت کا عمل کثرت اختیار کرگیا تو یہ امر اس بات کو واضح کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کنفیوشس (Confucius)کو چینی انسانوں کی ترقی و خوشحالی کا ضامن قرار دینے کے بجائے اس پر ان کو مایوسی اور ناامیدی میں ڈال دینے کا الزام عائد کردیا گیا تھا۔ چین کی بغاوت میں حصہ لینے والوں نے کنفیوشس(Confucius) کو نیک و کار انسان کے طور پر بیان کیا گیا ، اس کے علاوہ "تاؤمت (Taoism)"میں اسے خداؤں کا مرتبہ دیا گیا،مگر "بدمت (Buddhism)"میں اسے شیطان تصور کیا جاتا تھا۔"نئی ثقافتی تحریک "(The New Culture Movement) نامی کتاب میں چینی محرر "لو ژون (Lu Xun)"نے" کنفیوشنزم (Confucianism) "کے نظریہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا کیونکہ اس کا یہ کہنا تھا کہ اس کے نظریات کی وجہ سے ہی ہر چینی سابقہ "قِنگ دور شاہی (Qing Dynasty)" کے مد مقابل کھڑے ہونے کی حالت میں آچکے تھے۔ "لو ژون (Lu Xun)"نے اپنے شدید رد عمل کا اظہار اپنی کتاب"ایک پاگل انسان کا روزنامچہ(A Madman's Diary)" میں کیا ہے ، جس میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ کنفیوشیائی ثقافت ایک آدم خور سماج تھا۔انتہا پسند سیاست دانوں نے کنفیوشس (Confucius)کے سماجی انقلاب کو اپنی تعلیمات کے ذریعے طبقہ غلام کو گھیرنے والا شخص بتایا ہے۔

جنوبی کوریا کے تخلیق کار "کیم کیانگ دوم(Kim Kyong- II)"نے ڈرامہ ترتیب دیا تھا جس کا عنوان " کنفیوشس (Confucius)کو ریاست کی زندگی کے لیے لازمی مرنا ہوگا" تھا ، اور اس نے کہا کہ اطاعت شعار جاں نثاری کا عمل غیر متوازن اور بد حواس کرنے والا ہے، اور اگر یہ طول پکڑ جائے تو پوراسماج معاشرتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔47 اس کا مطلب یہ ہوا کہ چینیوں کے اپنے ہی ماہرین نے اپنے مذہب کی ناکامی کو قبول کرلیا تھا اور اپنی ترقی و خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے دیا تھا، کیوں کہ وہ یہ اچھی طرح جان چکے تھے کہ کنفیوشیائی مذہب عام انسان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اس کی تعلیمات بھی نامکمل و ناقص ہیں جن پر عمل کرکے انسان وقتی سکون و راحت کو تو حاصل کرسکتا ہے مگر زندگی بھر کے لیے ایسے نظام کو قبول کرنا سوائے تباہی و بربادی کے اور کچھ نہیں۔

تاؤمت

تاؤمت (Taoism)چینی تہذیب کے آغاز میں فلسفیانہ رسوم و رواج پر مبنی ایک جماعت تھی جو بنیادی طور پر "تاؤ(Tao)" کی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ تھی اور اسی نظریہ کے مطابق زندگی گزارنے کا اصول بتاتی تھی، جسے معنوی اعتبار سے "ایک راستہ" کہا جاتاتھا۔ چین کے فلسفیانہ طرز پر بننے والے مدارس میں تاؤمت (Taoism)کی تعلیمات مرکزی حیثیت رکھتی تھیں۔ یہ ایک اصول ظاہر کرتا تھاجس میں یہ بیان کیا گیا تھاکہ" ہر شے اپنی حقیقت میں ایک مخرج، نمونہ اور جوہر رکھتی ہے۔ "تاؤمت (Taoism)کا فلسفہ چھ سو(600)قبل مسیحی دور سے تعلق رکھنے والے مشہور چینی فلسفی "لاؤ تزو(Lao Tzu)" سے مربوط تھا۔ فلسفہ ٔتاؤمت (Taoism)پر بلکل برعکس انداز سے کنفیوشنزم (Confucianism)کے ساتھ ہی عمل کیا جاتا تھا جس میں پرانے عقیدہ سے انحراف کیا گیا لیکن اس کی جگہ کوئی ایسا نظریہ نہیں پیش کیا گیا تھا جو خاطر خواہ ثابت ہوتا۔48فلسفی "لاؤ تزو(Lao Tzu)"کی تعلیمات پر بادشاہ ہین(Han Dynasty) کے دور شاہی میں کثیر افراد عمل پیرا تھےجب کہ اس دور میں سرکاری طور پر کنفیوشنزم (Confucianism)تعلیمات پر عمل کیا جاتا تھا۔49تاؤمت(Taoism) کے ماننے والوں نے سیاسی افراتفری پھیلانے والے اور اخلاقی تنزلی کا سبب بننے والی ان تمام شیطانی قوتوں کے خلاف بغاوت کردی تھی جن کو وہ اپنے دور میں جاگیردارانہ سماج کے طور پر دیکھتے تھے۔ 50

اکثر ماہرین تاؤمت(Taoism) میں دو مختلف رجحانات میں امتیاز کرتے ہیں: ایک فلسفیانہ تاؤمت(Taoism) اور دوسرا مذہبی تاؤمت(Taoism) ۔فلسفیانہ تاؤمت(Taoism) 600 سے 200 قبلِ مسیح دور کے خیالات و افکار پر مبنی تعلیمات کی جانب اشارہ کرتا ہے جبکہ مذہبی تاؤمت(Taoism) تحاریک افعال و اعمال کی جانب نشاندہی کرتی ہیں جیسے کیمیا گری، جس میں دھاتوں کو ادویات میں تبدیل کیا جاتا تھا تاکہ لافانیت کو حاصل کیا جاسکے۔اس کے علاوہ ان تعلیمات میں مراقبہ بھی شامل تھا جس کی ابتدا پہلی صدی عیسوی دور کے آس پاس میں ہوئی تھی۔ان دونوں مختلف رجحانات نے تاؤمت(Taoism) کی تاریخ میں دو بڑے مراحل کے مابین بیّن فرق کرنے میں مدد فراہم کی تھی لیکن بعض اہل علم کے مطابق ایسا سوچنا غلط ہے کہ فلسفیانہ تاؤمت (Taoism)اور مذہبی تاؤمت(Taoism) دو یکسر جداگانہ تحاریک تھیں۔51

تاؤمت (Taoism)نے جنت کا تصور اس طرح پیش نہیں کیا جیسے کنفیوشس(Confucius) نے دیا تھا، لیکن اس نے عالم طبعی و قدرت کا راستہ پیش کیا تھا۔ تاؤمذہب(Taoism) کے پیروکاروں کا میلان "وو وئی(wu wei) " یعنی عمل بغیر کسی مقصد کے کرنےکے فلسفہ پر زور دیتا تھا۔ اس کے علاوہ قدرتی پن، سادہ لوحی، بے ساختگی، اور تین خزانے "درد مندی، کفایت شعاری اور عاجزی" کی اہمیت کے بارے میں بیان کرتا تھا۔اگر اس قانون کو حکومت پر لاگو کرنے کی بات کی جاتی تھی تو وہ لوگ یہ تجویز پیش کیا کرتے کہ وہ حکومت جو اپنی محکوم رعیت کے معاملات ِ زندگی میں کم ترین شامل ہوتی ہے، بہترین حکومت کہلاتی تھی۔بالآخر تاؤمذہب (Taoism)کے ماننے والو ں نے لمبی زندگی اور حیات جاودانی کے حصول کے لیے اپنے مذہبی آداب و رسوم کو واضح کیا اور مختلف تجربات، جڑی بوٹیوں، اور معدنیات کےتحقیقی راز کو لوگوں کے لیے واضح کردیا تھا۔علاوہ ازیں انہوں نے حکومت کا تختہ پلٹانے کے لیے خفیہ انجمنیں بھی قائم کی تھیں جو گاہے بگاہے اپنی کوششیں کرتی رہتی تھیں۔52

چینی فلسفی "لاؤ تزو(Lao Tzu)"نظریہ بے عملی کی سارنگی بجاتا تھا، وہ اخلاقی نظریہ کے طور پریہ تصور پیش کرتا تھا کہ تمام اشیا ءمکمل ہونے کے لیے ہی موجود ہیں، کسی بھی شے کے ارد گرد اپنی ذات کا دائمی قیام تھوڑی سی کوشش سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے؛ بہتری و ترقی کا عمل بلا تحریک اپنے آپ چلتا ہےاور اس راستے میں صرف خفیف ترین رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ "لاؤ تزو(Lao Tzu)"کے ماننے والے بہت تیزی سے پھیلے اور یوں پہلی ہی صورت میں تاؤمذہب(Taoism) تسلیم شدہ حیثیت سے قائم ہوگیا تھا اور بالآخر جو کوششیں بھی اتحاد کو محو کرنے کے لیے موجود تھیں جو بظاہر وقت اور زمانے کی برعکس صورتحال پیش کرتی تھیں ناقابل شناخت طور پر خلط ملط کردی گئی تھیں۔ انسانی زندگی کے منبع کے طور پر یہ نظریہ ہماری ظاہری کائنات کے تصور سے کہیں دور تھا۔انسانی زندگی کے انداز سے دیکھا جائے تو اس نظریہ کے مطابق موت، حیات جاودانی کی تسکین حاصل کرنے کی سمت لے جاتی ہے۔ "لاؤ ٹزو(Lao Tzu)"کے عقیدے کے مطابق اس کے لیے صرف جسمانی غلاظت کو بدن سے دور کرکے مصفّیٰ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔اس کے کہے ہوئے اقوال میں لکھا ہے کہ" انتہائی آخر خدائی ہے"، خدا قدرتی قوانین میں ظاہر ہے، خدا چھپی ہوئی بہار ہے، وہ تمام موجودات کی ابتدا وانتہا ہے۔ 53

مذہب تاؤمت(Taoism) میں دیوتاؤں کے متعلق اساطیری خیالات کی بھرپور ترویج کی گئی تھی۔ اس کی تعلیمات میں یہ سکھایا جاتا تھا کہ کثیر تعداد میں لافانی اَنِمٹ ذوات موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ غیر فانی خدا اس وسیع دنیا کے معاملات کے ساتھ منسلک ہیں اوربعض دیوتا انسانی جسم سے متعلق ہیں۔ تاؤمت (Taoism)میں اس کے علاوہ دیگر افکار کی بھی تعلیم دی جاتی تھی یعنی وہ کہتے تھے کہ "مشرق میں موجود سمندر میں انمٹ خداؤں کے جزیرے موجود ہیں، جہاں غیر فانیت کا آب حیات مل سکتا ہے۔" قدیم چینی مذہب تاؤمت(Taoism) میں پانچ پہاڑوں کو انتہائی متبرک مانا جاتا تھا اور ان میں سب سے زیادہ برکت والے پہاڑ کو "تائے شین (T'ai Shan)"کے نام سے موسوم کیا جاتا تھاجو "شانٹونگ(Shantung)" کے مشرقی صوبے میں موجود تھا۔ اس کے علاوہ وہ یہ کہتا تھا کہ کثیر تعداد میں اشیا ءہیں جن میں زندگی دینے والی خصوصیات موجود ہیں ،جیسے سونا۔مزید برآں تاؤمت(Taoism) میں جنس انسان کا تجزیہ بھی تفصیل سے کیا گیا تھا۔مذہب تاؤمت (Taoism)کے مطابق زندگی دینے والی سب سے اہم طاقت انسان کی اصل سانس ہے جسے وہ لوگ "چی(Chi)" کہا کرتے تھے۔ان کے نظریے کے مطابق "چی(Chi)" اور اس کے علاوہ دیگر زندگی دینے والی قوتیں تین اہم مقامات میں مرتکز ہیں جن میں سر، دل اور ناف شامل ہیں۔ یہی وہ تین مقامات ہیں جو متبرک ہیں اور یہیں تین اہم لافانی دیوتا رہتے ہیں۔اسی مقام پر تین وجود اور رہتے ہیں جنہیں "کیڑے(worms)" کہا جاتا ہے، یہ انسانی حیاتی قوت کو نگل جاتے ہیں اور موت کو لے آتے ہیں۔ 54

دیگر چینی فلسفی دان

موذی

450 سے 320 قبل مسیحی دور سے تعلق رکھنے والی شخصیت موذی (Mozi)ایک چینی فلسفی دان تھا۔اسے "مودی(Mo Di)" اور"موتی(Mo-Ti)" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس کا پیش کیا گیا فلسفہءِ نظریہ افادیت پسندی کے اظہار کے لیے بہت معقول و منطقی بیان پیش کرتا تھا اور اس کے متعلق قدیم چینی تحاریر میں ذکر موجود ہے۔ موذی(Mozi) ایک منفرد فلسفہ "موہینیت(Mohism)" کا بانی تھا ، اور یہ کنفیوشس (Confucius) کے نظریہ سے کافی متصادم تھا۔موذی(Mozi) یہ سمجھتا تھا کہ فیصلہ و انصاف کرنے میں سب سے پہلا معیار منصب کا ہوتا ہے، اس کے بعد کسی عام انسان کی رائے کی باری آتی ہے اور تیسری شے ملکی مفادات ہیں جو کسی بھی رائج طریقہ کار سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیا کرتا تھا کہ وہ چیزیں جو تکمیل کے مرحلے تک نہیں پہنچ سکتیں، فقط الفاظ کا مجموعہ ہیں۔ موذی (Mozi)اپنے منشور میں بیان کرتا تھا کہ کائناتی پیار و محبت سے ہی دنیا کی بقا کو حاصل کیا جاسکتا ہے، اس طرز عمل میں کوئی دھوکہ و فریب نہیں ہے، اسی سے انسان کا دوسرے انسان کی جانب فطری طور پر میلان ہوتا ہے۔جنسِ انسان میں اپنے مفادات اور خوشیاں حاصل کرنے کے لیے عقل کی کمی موجود ہوتی ہے، اسی لیے اسے کسی مذہبی پابندیوں میں منحصر رہنا ضروری ہے۔وہ تمام قوتیں جن کا انسان پر قابو ہے ،اچھے اور برے افعال میں بدلہ دیتی ہیں۔انسان کو چاہیے کہ ان کی عزت و تکریم بجا لائے۔ موذی (Mozi)کے نزدیک، کائناتی امن حاصل کرنے کے سلسلے میں سیاسی بنیادوں کی پائیداری کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس مضبوطی کو کسی بادشاہ کی زیر نگرانی معاشرے کو متحد کرنے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔55

موذی (Mozi)نے کنفیوشس(Confucius) کے پیش کئےگئےفلسفہ قسمت، جماعتی تفریق اور دیگر افکار و نظریات پر شدید اعتراض کیا تھا۔موذی(Mozi) کہتا تھا کہ ہر شخص آگے بڑھ کر کوشش کرے، چیزیں جو انسانی دماغ کے تخیلاتی حصہ میں تشکیل پاتی ہیں، ہر شخص میں اپنی قسمت کو تبدیل کرنے اور دنیا میں عدم مساوات اور تفریق کو ختم کرنے کی تحریک پیدا کرتی ہیں۔کنفیوشس(Confucius) دنیا کو اس نظر سے دیکھتا تھا کہ ہر انسان کی موت اور زندگی، دولت کی کثرت اور مفلسی کا تعلق قسمت اور انسان کی ذاتی قوت سے منسلک ہے ، لیکن موذی (Mozi)نے اس کے نظریہ کو رد کیا اور اپنا فلسفہ پیش کردیا تھا جو چینی فلسفوں میں کافی مقبول و مشہور ہوا تھا۔

مینشیس

چین میں کنفیوشس(Confucius) کے بعد سب سے قابل احترام اور معروف فلسفی مینشیس (Mencius) کو مانا جاتا ہے۔ اس کا شمار کنفیوشنزم (Confucianism)کے سب سے متاثر کن مفسروں میں ہوتا تھااور کہا جاتا تھا کہ کنفیوشس (Confucius)کی فکر جہاں اختصار اور جامعیت کا جامہ اوڑھے ہوئے تھی تو اس کی توضیحی صورت مینشیس(Mencius) نے لوگوں کے سامنے پیش کی۔56 مینشیس(Mencius) 372 سے 289 قبل مسیح میں سلسلہ شاہی "چو(Chou)" کاایک فلسفی دان تھا۔ اس کا نام "مینگ-تزو(Meng-Tzu)" تھا اور لاطینی زبان میں مینشیس(Mencius) سے جانا جاتا تھا۔ مینشیس(Mencius) بہت سخت جمہوری انسان تھا۔ اس کے پیش کیے گئے فلسفہ میں دیکھا گیا کہ وہ کنفیوشس (Confucius)کی تعلیمات کا دیگر اثر انداز ہونے والی افکاری تحاریک کے مقابلے میں دفاع کیا کرتا تھا۔ اس نے خاص طور پر موذی(Mozi) اوریانگ زہو (Yang Zhu)کے نظریات کو ہدف بنایا تھا۔ 57وہ اس بات کی تعلیم دیا کرتا تھاکہ انسان قدرتی طور پر اچھا ہےجب کہ شیطان معاشرے میں بری حکومت کے نتیجے میں نمودار ہوتا ہے۔وہ شدت سے اس بات کو پسند کیا کرتاکہ ریاستی معاملات اور اس کی باگ دوڑ ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہو جو بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے فلسفی بھی ہوں۔ اس نےواضح طور یہ بیان کیا کہ حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں لوگوں کی فلاح و بہبود کا عنصر لازمی شامل ہوتا ہے۔ وہ دیگر ممالک سے جنگ کرنے اور اپنے ملک میں غربت کی شدید مخالفت کیا کرتا تھا۔ وہ تمام انسانوں کے تعلیم یافتہ ہونے کی بہت عمدگی کے ساتھ حمایت کرتا ، کیوں کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اسی طریقہ کار سے ایک اچھی حکومت اور ذہین و عاقل افراد کا حصول یقینی صورت اختیار کرسکتا ہے۔وہ اپنے دور میں موجود حکمرانوں کے سامنے نڈر انداز کے ساتھ اپنی بات کہہ کر حیران کردیا کرتا تھا۔وہ انتہائی بہادری کے ساتھ کہتا کہ "حکمرانوں کو چاہیے کہ ہر عام انسان کی اسی طرح حفاظت اور پذیرائی کی جائے جس طرح ریاست کے انتہائی قیمتی اثاثوں کی قدر کی جاتی ہے۔"اس کی تعلیمات میں یہ بھی شامل تھا کہ ہر شخص کا حق ہے کہ اگر اس کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جارہا ہو تو وہ اپنے بادشاہ کی مخالفت اور نافرمانی کی راہ اختیار کرلے۔58

کنفیوشس (Confucius)کے طرح مینشیس(Mencius) بھی کسی انسان میں قلبِ ماہیت کی شدت کی خصوصیت کا احترام کیا کرتا تھا اور ایسے شخص کو حکومتی عہد دار ہونے کا کامل سبب گردانتا تھا۔علاوہ ازیں مینشیس(Mencius) نے اس معاملے میں مزید روشنی ڈالی اور اس کی ممکنہ صورتوں کو مزید واضح طور پر بیان کیا کہ عوام کی نظروں میں پذیرائی و استحکام کا انحصار خاندان کے اندر سے تعلیم و تربیت کا سلسلہ ہونے پر ہے، اوراسی پر انسان کی ترقی منحصر ہوتی ہے۔کنفیوشیت(Confucianism) کی تاویل کرنے والے فلسفی مینشیس(Mencius) کی تعلیمات کے اکثر حصہ کو موخر چینی استدلال پسند فلسفی معیاری درجہ دیا کرتے تھے، جن میں بادشاہ "سانگ(Song)" کے دور حکومت میں ترمیم شدہ کنفیوشیت(Neo-Confucians) کے ماننے والے شامل تھے۔ مینشیس(Mencius) کے عقیدت مندوں میں ان گنت حکمران اور منصب دار حاکم گزرےتھے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ کنفیوشس (Confucius)کے مقابلے میں مینشیس(Mencius) زیادہ مؤثر و ترغیب دینے والا فلسفی تھا۔ 59

یانگ زہو(Yang Zhu)

440-360 قبل مسیحی دور کے فلسفی یانگ زہو(Yang Zhu) کو روایت کی رو سے شدید انائیت کا فلسفہ رکھنے والا شخص مانا جاتا تھا لیکن زیادہ بہتر انداز سے بیان کیا جائے تو وہ فطرت نگاری کا ایک نکتہ چیں تھا۔اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ یہ وہ پہلا فلسفی دان تھا جس نے انسانی فطرت اور اس کے خواہشی رجحانات پر کلام کیا ہے۔

یانگ زہو (Yang Zhu) کا فلسفۂ فطرت نگاری واس کے اس بیان سے واضح طور ہوتا ہےکہ زندگی دینے کے عمل کو "اس کی آزادانہ چال " میں ہی رہنے دیا جائےجب کہ "نہ اسے پرکھا جائے اور نہ ہی مسدود کیا جائے" ۔یانگ (Yang) یہ سمجھتا تھا کہ انسانوں کو چاہیے کہ مزے سے مسرت بخش طور پر رہیں جس کے لیے زندگی متصور ہے اور جس میں انسانی معاملات کی خود پرست بے کاری اور بےغرض دخل اندازی دونوں متضاد چیزیں انتہا کو پہنچتی ہوں، بجائے اس کے کہ کوئی شخص یہ چاہے کہ اپنی قدرتی زندگی کو کسی دوسرےشخص کی طبیعت اورقدرتی میلان کی پیروی کرکے گزارے۔یانگ(Yang) نے دنیا کو بچانے کے اس فلسفہ کی نفی کی جس میں کسی کے جسم یا بالوں کی قربانی دینا ضروری ہو۔کسی حد تک یانگ(Yang) اس بات کی تائید کرتا تھا کہ قصداً ادا کیے جانے والےایسے معاشرتی معاملات جس میں ترغیب و تحریک کا عنصر شامل نہ ہو، انسانی زندگی کو تبدیل اور تہ و بالا کردیتے ہیں اور نتیجتاًاچھائی پھیلنے کے بجائے مزید تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے۔60

لیزی (Liezi)نامی تحاریر میں بیان کیا گیا تھا جو کہ ایک داؤمتی لکھائی (Daoist text)ہے اور جسے مشہور چینی فلسفی "لائے یوکون (Lie Yukou)"کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اس کے مطابق وہ تمام فلسفے جو یانگ زہو(Yang Zhu) سے متعلق تھے، داؤمت (Daoism) میں کام اور آرام کے فلسفہ کی بنیادی تاثیرسے ٹکراتے نظر آتے ہیں۔دیگر عظیم چینی فلسفیوں سے تقابل کیا جائے تو یانگ زہو(Yang Zhu) کا فلسفہ جلد ہی کمزور پڑتا اور گمنامی کی جانب جاتا دکھائی دیتا تھا لیکن اس کے اپنے دور میں اس کے فلسفہ کی تاثیر انتہائی دور رس پھیلی کہ مینشیس(Mencius) کو اپنے نظریات کو بیان کرنے کے لیے فلسفی موذی(Mozi) کے متضاد افکار کا سہارا لینا پڑا جسے اس نے " سیلاب اورزمین اجاڑنے والے جنگلی جانور" کا نام دیا تھا۔ 61

مذہبی رسومات اور عبادات

قدیم چین میں نظریہ تاؤمت (Taoism)سے قبل تباہی و بربادی لانے والی روحانی طاقتوں اور خداؤں کو قربانی پیش کرنے کے لیےکھانے پینے کی اشیا کو سجایا جاتا تھا۔ اس رسم میں مختلف جانوروں کا خون بہایا جاتا جن میں سور، بطخ شامل ہوتیں اور کھیتی باڑی کے ذریعے اگائی جانے والی غذائیں جیسے پھل وغیرہ شامل کیےجاتے تھے۔تاؤمت(Taoism) کے آفاقی مالک"زہانگ داؤلِنگ(Zhang Daoling)"نے خداؤں کو قربانی پیش کرنے میں غذائی اجناس اور جانوروں کی خون ریزی پر پابندی عائد کردی تھی۔62 اس نے اپنے ان پادریوں کےسر اُڑ وا دیے اور ان کی مقدس جگہوں کو تباہ کرڈالا تھاجنہوں نے جانوروں کی قربانی پیش کرنے کی درخواست کی تھی۔قربانی پیش کرنے کے لیے ایک اور طریقہ رائج تھاجس میں اگر بتی اور چینی کاغذی کرنسی کو اس تصور کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا کہ ان پر جن خداؤں کی تصاویر نقش ہیں جب انہیں آگ کھا جائے گی تو یہ روحانی دنیا میں پہنچ جائیں گےاور انہیں اپنے عزت دار سابقہ پیشروؤں، دوستوں اور خاندان کے افراد تک رسائی دلوائیں گے۔ اگر بتی اور چینی کاغذی کرنسی کو زیادہ تر گذرے ہوئےعہد یداروں کو یاد کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا تھا، مثال کے طور پر" قنگ منگ (Qingming)"نامی تہوار کے وقت کے لیے۔

اسی طرح بعض خصوصی مواقع میں راستوں پر پیدل سفر کیا جاتا۔ اس طرح کی سرگرمیاں جوشیلی اور ولولہ انگیز مہمات کے طور پر ادا کی جاتی تھیں جس میں تسلسل کے ساتھ پٹاخے اور پھولوں کو استعمال کیا جاتا اوررواجی موسیقی کا پرچار اور اس تسلسل کو جاری رکھنے کی کوشش جاتی تھی۔اسی طرح وہ لوگ شیر کے کرتب اور فرضی اژدہا یا سانپ کی حرکات کو بھی تہوار میں شامل کیا کرتے تھے۔ انسانوں میں بونوں کو منتخب کیا جاتا جسے ساتویں اور آٹھویں خدا کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ چینی کھیل" کَنگ فُو(Kungfu)"کی نمائش دکھائی جاتی، اس کے علاوہ پالکیوں میں سونے کی بنی ہوئی تصاویر کو لے کربھی چلا جاتا تھا۔علاوہ ازیں دیگر ارکان کو تماشہ دکھانے والوں کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا، لیکن ان کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا تھاکہ انہیں روحانی طاقتیں اور دیوتا سنبھالتے ہیں جن کی طرف یہ خود کو منسوب کرتے ہیں۔ 63

قسمت کا حال جس میں پیش گوئی کرنا بھی شامل تھا اور اس کے علاوہ دیگر اقسام کے وجدانی ادراکاتی عمل کو مذہب تاؤمت (Taoism)میں کچھ دور تک سماجی حصہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ارواح سے تعلق یعنی مرجانے والے افراد کی روحوں سے زندہ افراد کا تعلق قائم کرنا ، عام طور پر قدیم چینی معاشرے میں خاص طور پررائج تھا۔دور عتیق میں ارواح سے تعلق کی سپاہیانہ عسکری قسم میں علمی اور معاشرتی تعلیمی اہلیت کاعنصر بھی موجود تھا مثال کے طور پر "تونگ جی(Tongji)" اور علاوہ ازیں اس عمل سے جو روح ترتیب پاتی اسے عام طور پر روحانی تختی کے ذریعے ترتیب دیا جاتا اور چمکایا یا آراستہ کیا ہوا سمجھاجاتا تھا۔64

تاؤمت (Taoism)اور کنفیوشنزم (Confucianism) صدیوں تک فکری و نظریاتی اور سیاسی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے اسی وجہ سےدونوں نے ایک دوسرے پر اپنا شدید اثر چھوڑا تھا۔بعد کے دور میں مذہب بدھ مت(Buddhism) کا اثر بھی چینی معاشرے میں قائم تھا۔کثیر ماہرین اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ تاؤمت (Taoism)دراصل کنفیوشیائی(Confucianism) نظریات کے خلاف اٹھنے والا مذہب تھا۔65ایک کی نفی دوسرے کےرد کا سبب بھی بن جاتی تھی کیوں کہ ان دونوں کی اقدار کافی حد تک ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی تھیں۔دونوں مذاہب نے بدھ مت (Buddhism)کی طرح انسانی اخلاقیات اور اقدار کو نافذ کرنے میں پیش رفت کی لیکن اللہ تعالی، اس کے انبیاء، فرشتے اور آخرت کی زندگی کے متعلق نہ تو ان مذاہب میں کوئی واضح تعلیمات موجود تھیں اور نہ ہی ان میں آخرت کی تیاری اور جوابدہی کا کوئی ٹھوس نظریہ موجود تھا۔ اگر بعض مقامات پر اشارے کے طور پر کچھ موجود تھا بھی تو وہ اتنا سطحی اور نا مکمل تھا کہ اس کی بنیاد پر نہ تو لوگوں کی اصلاح ممکن تھی اور نہ ہی کسی برے انجام کا خوف اور یہ سب تھا وحی الہی کے نور کے فقدان کا جو اس معاشرے سے مفقود ہوچکی تھی۔

مادّیت پرستی

یینگ ہسوئینگ(Yang Hsiung) دورسلسلہ شاہی ہان (Han)کا ایک فلسفی ، شاعر اور سیاست دان تھا جس نے اپنی تعلیمات کی 53 قبل مسیح سے 18 عیسوی تک ترویج کی۔ اس نے اپنا فلسفہ پیش کیا کہ مرد کی فطرت پیدائش کے وقت نہ نیک ہوتی ہے اور نہ اس میں کوئی شیطانی وصف کا دخل ہوتا ہے، لیکن ان دونوں اوصاف کا امتزاج ضرور ہوتا ہےاور اس میں سے کسی ایک سمت میں بڑھنے کا عمل مکمل طور پر ارد گرد کے ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔

یینگ ہسوئینگ(Yang Hsiung) مشہور عہد یدار اورفلسفی دان "ہوان تان(Huan Tan)" کا قریبی رفیق تھا۔ اس کے علاوہ یہ عہد عتیق کی تحاریر کا حقیقت نگار بھی تھا۔ یینگ ہسوئینگ (Yang Hsiung)چینی فلسفی اور ماہر فلکیات "وینگ چونگ(Wang Chong)"کے کام سے کافی متاثر تھا۔

اسی طرح 27 سے 97 یا 100 عیسوی سے تعلق رکھنے والے فلسفی دان "وینگ چونگ(Wang Ch'ung)"66 ایک چینی ماہر موسمیات، ماہر فلکیات اور فلسفی تھا جو دور سلسلہ شاہی ہین (Han)میں ایک مشہور و معروف شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا، اس کا زمانہ "یینگ ہوئینگ(Yang Hsiung) "دور کے فوراً بعد کا مانا جاتا تھا۔اس نے دنیا اور انسانوں کے ذی شعور، غیر مذہبی، فطرت کی نقالی پر مبنی، اور میکانیاتی تصور کی تصریح کی اور ابتدائے کائنات کا مادّیت پرستی پر مشتمل نظریہ پیش کیا تھاجو کنفیوشس(Confucius) کے افکار سے بہت قریب قریب تھا۔67اس نے اس تصور کو یکسر مسترد کردیا تھا کہ کوئی انسان مرجانے کے بعددوبارہ بطورِ روحانی قوت زمین پر زندہ ہوجاتا ہے۔وہ کہا کرتا تھا کہ جانور مرجانے کے بعد روحانی قوت کے طور پر دوبارہ زندہ نہیں ہوتے تو صرف انسان ہی کیوں تبدیل ہوسکتا ہے؟ اس طرح وہ دلیل پیش کرتا تھا کہ انسان کی پیدائش پر قوت حیات موجود ہوتی ہے لیکن اس کے مرجانے کے بعد حیات پذیری بجھ جاتی ہے۔قوت حیات خون کی ارتعاش سے پیدا ہوتی ہے، جب یہ رک جاتی ہے تو حیات پذیری کا عمل بھی رک جاتا ہے، جسم بوسیدہ ہوکر خاک میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ 68یہ اور اس کی مثل نظریات پیش کرنے والے کئی چینی مفکرین اور بھی موجود تھے جن کی تعلیمات کا خلاصہ سوائے مادہ پرستی اور دنیا وی منفعت کے اور کچھ نہ تھا اور انہوں نے بھی چینی تہذیب میں موجود دینی شعور کو جو پہلے ہی کمزور تھا مزید نقصان پہنچایا۔

بدھ مت

بدمت(Buddhism) چین میں تیسری صدی قبل مسیح کے قریبی دور میں نمودار ہوا تھا، تقریباً دو صدیوں بعد ہی بد مت (Buddhism)چینی عوام میں کافی مقبول ہوگیا تھا اور بڑی تعداد میں عوام نے اسے اپنا لیا تھا۔بد مت (Buddhism)کی تعلیمات کے خلاف تاؤمت (Taoism)شدت سے سامنے آیا ، اور کچھ ہی صدیوں بعد دونوں نظریات کےماننے والوں نے ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کیا اور پہلو بہ پہلو امن و امان کے ساتھ رہنا شروع کردیا تھا۔دونوں مذاہب نے ایک دوسرے کی تعلیمات سے استفادہ شروع کردیا۔ فلسفی"چو ہِس(Chu His)" کے الفاظ کے بارے میں "ہر برٹ اے جائلز(Herbert A. Giles)" کہتا ہے کہ "بد مت (Buddhism)نے تاؤمت (Taoism)کے بہترین تصورات چرا لیے تھےاور تاؤمت (Taoism)نے بد مت (Buddhism)کےبرے نظریات کو اپنی تعلیمات میں شامل کرلیا تھا۔یہ اسی طرح تھا کہ ایک شخص نے دوسرے سے قیمتی موتی لیے اور ہارنے والے نے اپنا نقصان ایک دوسرے کو پتھر تقسیم کرکے پورا کیا ہو۔ 69

چینیوں کے بارے میں یہ کہنا بھی بہت حد تک درست ہے کہ چینیوں نے کبھی دیگر اقوام کے اثرات قبول نہیں کیے اس معاملے میں غالباً دنیا کی یہ واحد قوم ہے اس لیے ان کا مذہب بھی غیر ملکی عناصر سے پاک نظر آتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے بدھ مت (Buddhism)کو قبول ضرور کیا لیکن اسے اپنے رنگ میں اس طرح رنگ لیا کہ چینی بدھ مت (Buddhism)دیگر ممالک کے بدھ مت سے بہت مختلف ہوگیا۔ 70

عام طور پر ادا کی جانے والی مذہبی رسومات

ابتدائی چینی مذاہب کسی ایک خاص تصور پر مشتمل ہوا کرتے تھے اور اس کی باگ دوڑ ایک ہی ہاتھ میں ہوا کرتی تھی۔ ایسے طریقہ کار رائج تھے جو مختلف مذاہب کو ایک دوسرے سے متحد رکھتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ تمام طریقہ کار ختم ہوگئے تھے اور انکی جگہ محض ان رسومات یا معمولات نے لے لی تھیں جنکا نہ تو مذہب سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی انکو کما حقہ عبادات کا درجہ دیا جاسکتا تھا بلکہ وہ محض ایک چیستاں بن گئی تھیں جن کی اصل بھی مفقود الخبر ہے اور ان کا تتمہ بھی بے مقصد۔

آبا ءپرستی

قدیم چین کا ابتدائی مذہب آباءپرستی پر مبنی تھا۔ 1900 قبل مسیح تک کے آباء کی فہرستیں اور شجرے دستیاب ہوئے ہیں جنہیں لوگ سینت سینت کر رکھتے تھے۔71قدیم چینی مذہب نہ صرف اپنے خاندانی نسب سےوجود میں آیا تھابلکہ اپنے آباؤ اجداد کی پرستش کو نمایاں قانونی حیثیت بھی فراہم کرتا تھا۔اُن کا عقیدہ تھاکہ اُن کے آباؤ اجداد کی روحیں اب بھی حیات ہیں۔72وہ لوگ کثیر خداؤں کو پوجتے تھے، لیکن ان کا مذہب بنیادی طور پر آباؤاجداد کی مذہبی پرستش پر مشتمل تھاجس میں مردہ اور ان کی زندہ نسل کے مابین روحانی تعلقات کا عقیدہ رکھا جاتا تھا۔قدیم چینی مطبوعے تصویر کو تشکیل دیا کرتے اور اسے خصوصی طور پر آباءپرستی کے لیے استعمال میں کیا کرتے۔73ان عبادات کی بجا آوری میں اصل نظریہ اس عقیدہ پر منحصر تھا کہ اس طرح عمل کرنے سے ایک ہی خاندانی نام کے حامل تمام افراد متحد رہتے ہیں، اور ایسا کرنے سے خاندان کے زندہ اور مردہ انسان آپس میں اسی طرح رہتے ہیں جیسے قدیم چینی حکمران عظیم خدا "شینگ ٹی(Shang Ti) " "ٹئین(T’ien) " نامی جنت میں ریاستی تقریبات کے دوران رہا کرتے تھے۔ 74

چینی ابتدائی دور میں اپنے انتقال شدہ آباؤاجداد کی پرستش کیا کرتے تھے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس طرح عبادت کے ذریعے خاندانی اتحاد بہت زیادہ مستحکم صورت اختیار کرلیتا ہے جو کسی بھی حالت میں ٹوٹ نہیں سکتا، اس طرح ہمارے مرجانے والے آبا ءاپنی سربراہی کے عمل کو جاری رکھتے ہیں اور ہماری حفاظت بھی کرتے ہیں۔اجداد کو قدرتی سرپرست و محافظ اور روحانی خدا مانا جاتا تھا۔ وہ یہ تصور رکھتے تھے کہ ان کے گھریلو خدا بھوت پریت سے ان کی حفاظت کی ذمہ داری نبھاتے تھے اور یوں ایک سکھ و چین کا ماحول میسر ہوجاتا تھا۔آباءپرستی عبادتِ ارواح کی ایک طبعی و فطری شکل سمجھی جاتی تھی۔ اس عمل کو فطرت کے مطابق ہونے پر پختہ اعتقاد رکھا جاتا تھا ، اس کے متعلق قدیم مستند تحاریر میں متعدد مقامات پر تفصیل سے تذکرہ بھی ملتا ہے، کیوں کہ آبا ءپرستی قدیم دور میں بنیادی عقائد کے طور پر رائج تھی۔ 75وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ آباءپرستی خاندان اور عزیز واقارب سے تعلق کو ظاہر کرتی ہےجو معاشرے کے لیے ایک مثال سمجھی جاتی تھی۔آباء پرستی اور رسم رواج ایک فرد اور معاشرے کو اقدار کاایک حصہ مہیا کرتے ہیں۔بالخصوص جن کی وابستگی معاشرتی اتحاد جیسے حکم،فیض رسائی،ہم آہنگی اور جذبہ خیر سگالی کے جذبہ سے ہوتی ہے۔ 76

مذہبی تہوار

قدیم چین میں کثیر تعداد میں مذہبی اور ثقافتی تہوار منائے جاتے تھے، ان میں سے مشہور رسوم رواج درج ذیل ہیں:

ڈونگزہی (Dongzhi)

770 سے 476 قبل مسیحی دور میں ،موسم بہار اور خزاں کے دوران چینی ماہرین نے کسی ایک وقت، جب سورج خط اِستوا سے دُور ترین ہوتا ہے یعنی " انقلاب شمسی کا وقت "،سورج کی نقل و حرکت کا حساب کرکے معلوم کرلیا تھا۔یہ چوپیس (24)موسموں کے اوقات میں سب سے ابتدائی حصہ تھاجو ممکنہ طور پر گریگوری کیلنڈر(Gregorian Calender) کے مطابق21یا22دسمبر کو وقوع پذیر ہوتا تھا۔ 77

انقلاب شمسی کا تہوار سال کے سب سے چھوٹے دن منایا جاتا تھا۔ سب سے پہلے اس تہوار کو سلسلہ شاہی ہین (Han)میں کافی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ قدیم چین کی پوری تاریخ میں اسےایک اہم تہوار کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ لوگ اس دن اپنے کاموں سے چھٹی کرتے اور اپنے دوستوں اور عزیز واقربا سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اپنے آباؤاجداد کے لیے قربانیاں بھی پیش کیا کرتے تھے۔

جیو نیان (Guo Nian)

سال کا سب سے اہم تہوار "جیو نیان (Guo Nian)" یا "چینی نئے سال " کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اس کی تقریبات پندرہ (15) ایام تک جاری رکھی جاتی تھیں۔"جیو نیان (Guo Nian)"نامی تہوار کا آغاز نئے سال کے آغاز سے پہلے کردیا جاتا تھا اور اختتام تہوار قندیل سے کیا جاتا تھا۔ قدیم دور کے چینی باشندے تہوارِ بہار تین ہزار (3000) سال سے بھی زیادہ قدیم دورِ سلسلہ شاہی شینگ (Shang)سے مناتے چلے آرہے ہیں۔ چینی اسطوریات کے مطابق تہوارِ "جیو نیان (Guo Nian)" کی تقریبات سب سے پہلے ایک گاؤں میں منائی گئیں جس میں انھوں نے پٹاخے پھاڑے اور بڑے ڈھول بجا کر شور پیدا کیا تاکہ "نیان" یا" جیو نیان (Nian)" نامی دیو کو ڈرایا جاسکے۔

موسم بہار میں منائے جانے والے تہوار کو ایک ایسا وقت منایا جاتا تھا جس میں خاندان کے افراد اکھٹے ہوتے، آپس میں تحفہ تحائف کا تبادلہ کیا جاتا، اور آتش بازی سے ماحول کو روشن کردیا جاتا تھا۔سرخ رنگ بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا اور اسے دیو"نیان" کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ چینی نئے سالہ تہوار اس طرح واضح کیا گیا تھا کہ چینی اس یوم کو تہوارِ "جیو نیان " کی مثل عام تعطیل کا دن گردانتے تھے، جو اس مفہوم سے منایا جاتا کہ"دیو نیان کے اوپر سے گزر جایا جائے" یا "دیو نیان کو قابو کرلیا جائے"۔ 78

تہوار قندیل (Lantern Festival)

جیو نیان (Guo Nian) نامی تہوار کے اختتامی دن کوایک خاص رسم منائی جاتی تھی جسے تہوار قندیل (Lantern Festival) کے نام سے جانا جاتاتھا۔ اس تہوار کو سب سے پہلے سلسلہ شاہی ہین (Han) میں منایا گیا تھا۔ اس تہوار میں بدھا (Buddha) کے احترام میں قندیلوں کو روشن کیا جاتاتھا۔ اس کے علاوہ اس تہوار میں دیگر تقاریب بھی منائی جاتی تھیں جن میں پہلیاں بوجھنا جس کا آغاز سلسلہ شاہی سانگ (Song) میں ہوا تھا ، اس کے علاوہ چاولوں کے ابلے کھانے کا مقابلہ ، شیر کا ناچ اور ڈریگن کے کرتب بھی دکھائے جاتے تھے ۔79 جس کو چینی لوگ اپنے مذہب کا بھی حصہ سمجھتے تھے ۔

چِنگ مِنگ

چنگ منگ(Qing Ming)نامی تہوار اپریل کے مہینے میں منعقد ہوتا تھا۔یہ وہ وقت ہوتا جب چینی باشندے اپنے اُن آباؤاجداد کو خراجِ تحسین پیش کرتے جو انقلابی جنگ میں لڑے اور جاں بحق ہوئے تھے۔80چنگ منگ(Qing Ming)یا پاک و صاف روشنی کو شمسی تقویم کے ایک خاص دورانیہ کا اہم تہوار مانا جاتا تھا، اس کے علاوہ خاندانوں کے لیے حیات بخش دن بھی تصور کیا جاتا تھا۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ اس دن ایک ہی خاندان سے جڑے ہوئے تمام زندہ اور گزر جانے والے افراد خصوصی طور پر ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ چنگ منگ(Qing Ming)تہوار شمسی سال کے پندرہویں دن منایا جاتا تھا اور اسی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا تھا۔اس تہوار میں جسے انگریزی زبان میں مقبروں کی صفائی کا دن کہا جاتا تھا، خاندان کے افراد رواجی طور پر جمع ہو کرشہر ِخموشاں کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے اور اپنے آباؤاجداد کی قبروں کی نشاندہی کیا کرتے تھے۔ اس عمل میں وہاں کی ریت و رسوم کے مطابق دفن کے کے بعد کبھی کبھار اجداد کی ہڈیوں کودوبارہ صاف کیا جاتا اور انہیں ایک مرتبہ پھر محفوظ کیا جاتا تھا۔ یہ تہوار ہمیشہ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کے جمع ہونے کا وقت مانا جاتا تھا، علاوہ ازیں اس دن مخصوص تقاریب اور خوشی مہیا کرنے والی غذائی اشیا کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ 81

قِژ ّی

قِژ ّی یا"سات تہواروں کی رات "نامی تہوار قمری ماہ کے ساتویں دن منایا جاتا تھا۔ اس تہوار کو سب سے پہلے دورِسلسلہ شاہی ہین(Han) میں منایا گیا تھا۔ اس تقریب کو منانے کے پیچھے ایک داستانِ محبت تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک گوالاجنتی دوشیزہ پر فریفتہ ہوگیا تھا۔بہر حال دونوں محبت کرنے والوں کو جنت کی ملکہ نے جدا کردیا تھا۔ بہت عرصے تک یہ دونوں دوبارہ ملنے کی کوشش کرتے رہے اور طویل عرصے بعد بالآخر اس دن دونوں ایک ہوگئے تھے۔ 82قدیم چینی باشندے رواجی طور پر اس دن ستاروں کی پوجا بجا لاتےاور جوان دوشیزائیں اپنے لیے اچھے شوہروں کے لیے عبادات بجا لاتی تھیں۔موجودہ دور میں یہ دن محبت کرنے والوں کے لیے زیادہ اہم مانا جاتا ہے جیسے "ویلینٹائن ڈے " کو منایا جاتا ہے۔

چونگ یانگ

یہ دن نویں قمری ماہ کے نویں دن منایا جاتا تھا۔ قدیم چینیوں کے نزدیک عددِ 9خاص اہمیت کا حامل تھا۔ یہ بادشاہوں اور ڈریگن کے لیے خوش قسمتی والا عددتصور کیا جاتا تھا۔ 83ابتدائی طور پر لوگ اس دن اونچے ٹیلوں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر گلِ داؤدی کی چائے بنا کر نوش کیا کرتے تھے۔

ان تہواروں کے علاوہ آباؤاجداد معاشرے کا مرکزی جز سمجھے جاتے تھے، اور ان کے لیےمختلف اوقات میں باقاعدہ مقررہ وقفوں میں چڑہاوے پیش کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ قربانیاں، مردے کی آخری رسومات اور دیگر مذہبی عبادات واضح خاندانی نظام کی جانب رہنمائی کرتی تھیں جو بنیادی طور پر نسل در نسل منتقل ہوا کرتی تھیں۔ سیاسی استحکام اور کام کی تفویض کاری میں کلیدی کردار بادشاہ کی جانب سے سونپا جاتا تھا۔

قدیم چین میں قربانی پیش کرنے کے لیے موزوں وقت فصل کی کٹائی مکمل کرنے کا معین کیا گیا تھا۔اناج کے گودام اور دیگر قربانیوں کی رسم اجداد کو شکرانے کے طور پر پیش کی جاتیں ، اس کے علاوہ نذر سے اُن کا مقصد مستقبل میں حفاظت اور سکون و اطمینان کو حاصل کرنا تھا۔قربانی پیش کرنے کا آغاز بیل اور بھیڑ سے کیا جاتا تھا، اس عمل میں سب سے پہلے انہیں پاک کیا جاتا، پھر اسےقربان کرکے گوشت پکایا جاتا اور آباء کو پیش کرنے کے لیے تیار کردیا جاتا تھا۔ وہ لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ کچھ ہی دیر میں ہمارے آباؤاجداد نازل ہوں گے اور کھاناتناول کریں گے۔ وافر مقدار میں گوشت کے کباب تیار کیے جاتے اور اس کے علاوہ گوشت کو سیخوں پر بھی بھونا جاتا تھا، آخر میں تمام پکوانوں کو سجا کر رکھ دیا جاتا تھا۔ قربانی کی ابتداءکرنے کے بعد تقریب کو خوش گوار ماحول میں آگے بڑھایا جاتا تھا، اس دوران آگ پر سینکے گئے کھانوں کا تبادلہ کیا جاتا اور مختلف مذہبی رسومات کی ادائیگی بھی کی جاتی تھی۔اس تمام عمل کے بعد خداؤں کا قائم مقام ایک مقررہ شخص برکت والی تقریر قربانی پیش کرنے والے افرادکے سامنے کیا کرتا تھا۔

ان رسمی اعلانات سے مذہبی رسومات کو مکمل کرلیا جاتا تھا، اس کے بعد خداؤں کا قائم مقام ایک شخص اعلان کرتا کہ آبا ءکھانے پینے کے معاملات سے فارغ ہوچکے ہیں اور "تمام روحانی قوتیں مخمور ہوچکی ہیں"۔ بعد ازاں آباء کی ارواح کو الوداع کیا جاتا، گھنٹیوں اور ڈھول باجوں کے ذریعے موسیقی بجائی جاتی۔ آخر میں تمام میزوں کو صاف کردیا جاتا اور پکوان پرستش کرنے والی اولاد وں کے لیے سجا دیے جاتے تھے تاکہ وہ اسے تناول کرسکیں۔

قربانی کے لیے پیش کیے جانے والے جانوروں کو پاک کرنے والے اپنا کام انتہائی احتیاط اور احترام بجا لا کر انجام دیتے تھے ٹھیک اسی طرح جیسےکوئی آگ کی بھٹی کی اشیا ءکو احتیاط سے اٹھا کر رکھتا ہے۔برتن رہن رکھنے کے دوران ہر برتاؤ اور مذہبی رسم کو بغور ملاحظہ کیا جاتا تھا، اس کے علاوہ ہر مسکراہٹ اور ایک ایک لفظ اپنی مخصوص مقام پر ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ مختصراً یہ کہ شرکت کرنے والے تمام حصہ دار اپنی طرف تفویض کیے گئے امور اور مذہبی رسم کو مکمل کیا کرتے تھے۔یہ تمام افعال انتہائی درستگی اورادب و تعظیم کے ساتھ بجا لائے جاتے تھے۔وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ جتنی زیادہ خوش اقبالی اولاد اپنے آبا ءکے لیے پیش کرے گی اجداداتنا ہی ان سے خوش ہوں گےاور اس طرح کی کامل و بے عیب نمائش اچھے خاندانی نظام کی عکاسی کرتی ہے۔ 84ان تمام رسومات کے دوران کوئی یہ سوچنے کی زحمت قطعا گوارا نہیں کرتا تھا کہ جتنا کھانابھی آباؤاجداد کی ارواح یا روحانی قوتوں کو مخمور کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے وہ نہ تو اپنی جگہ سے ہلا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی یا زیادتی پائی گئی ہے بلکہ وہ تمام لوگ آنکھ بندھ کیے ایک بھیڑ چال کے انداز میں ان تمام رسومات کو سرانجام دیا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں نا تو حقیقتا ان کو دنیاوی کوئی فائدہ میسر آتا تھا نہ اخروی، وہ بندہ جو خدا کا قائم مقام بن کر روحانی تقریر کرتا وہ اور اس کے متعلقین اس قسم کی لغو رسومات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے اور ایسی عبادت کرنے والوں سے خوب مالی اور دنیاوی فوائد حاصل کیا کرتے تھے۔

چڑھاوے وقربانی

جس طرح ماقبل بیان کیا جاچکا ہے کہ قدیم چین میں کثیر سماج اپنا وجود رکھتے تھےاور ہر ایک کا اپنا خاص خدا اور روحانی قوتیں مختص تھیں۔ 85اپنے آباؤاجداد کے لیے قربانی پیش کرنے کو ایک اہم عبادت تصور کیا جاتا تھا۔میسر آنے والی مذہبی رسومات کی کتاب میں درج ہے کہ قربانی کی سب سے اہم تقریب گھریلو جانوروں کی قربانی پیش کرنے پر مشتمل تھی،جس میں سانڈ، بھیڑ اور سور شامل تھے۔جانوروں کو قتل کرکے گوشت کو ابالا جاتا، پھر تلا جاتا اور سیخوں پر سینکا بھی جاتا تھا، اس کے بعد آباؤاجداد کے لیے مزین کی گئیں میزوں پر سجا کر رکھ دیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ تقریبات میں گوشت کے ساتھ، سبزیوں سے تیار کیے گئے پکوان اور کھیت کی فصل کو وافر مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا۔چین کے شمالی حصوں میں مقیم باشندوں کے نزدیک پکا ہوا باجرہ اہم قربانی کے اجزا ءمیں شامل تھا جبکہ جنوبی حصہ میں چاول کولازمی غذائی جنس کے طور پر شمار کیاجاتا تھا۔شراب، موسیقی اور ناچ تینوں چیزیں اہم اور لازمی حصہ سمجھی جاتی تھیں جنہیں اولاد عملِ قربانی کے دوران اپنے آبا ءکے سامنے پیش کیا کرتے تھے۔شراب کو قربانی ، موسیقی ، اور ناچ کے ہر سلسلے میں الگ الگ سے پیش کرنا انتہائی اہم عمل سمجھا جاتا تھا۔ہر چڑھاوے اور اس تقریب کی تمام ضروری رسومات کو جدا موسیقی کی دھنوں اور ناچنے کے انداز سے مکمل کیا جاتا تھا۔عام افراد کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اپنے آباء کے لیے چڑھاوے پیش کرنا خصوصی ذمہ داریوں میں شامل تھاجس میں خوشبوؤں کو جلا کر مہکایا جاتااور آباء کی تصویر میز کے سامنے رکھ کر اس سے علیک سلیک کی جاتی تھی۔علاوہ ازیں مختلف مواقع پر جداگانہ تقریبات عمل میں لائی جاتی تھیں جن میں مرنے والے کی آخری رسومات، تہواروں کے ایام اور خصوصی تقاریب جیسے شادی بیاہ اور ایام ِپیدائش کی رسم شامل ہوا کرتی تھیں۔ 86 بعض اوقات شراب نوشی کے بعد کی جانے والی موسیقی اور ناچ کے دوران مرد و زن بدمست ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ اختلاط کیا کرتے اور قبیح افعال میں مبتلا ہوجایا کرتے تھے جس کو روحانی کیف و سرور سمجھ کر درگذر کردیا جاتا اور اس کو بھی مذہبی رنگ دیکر سندجواز فراہم کردیا جاتا تھا۔

انسانوں اور جانوروں کی قربانی

انسانوں کی قربانی کا رواج عام تھا۔مثال کے طور پر 400 قبل مسیحی دور میں دریائے زرد (Yellow River)کے اوپری حصہ کے گورنرکو اس بات کے ثبوت ملے کہ موسم بہار میں اب بھی کچھ لوگ لڑکیوں کو دریا کی دلہن بنانے کے عقیدے پر قربان کردیتے ہیں۔ اس نے اس قبیح عمل کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ خاص طور پر چین کے جنوبی مقامات پر دیویوں کو خوش کرنے اور ثمر باری کے لیے انسانوں کی قربانی کا رواج جدید دورتک قائم رہا تھا۔87انسانی قربانی کی رسومات انتہائی تکلیف دہ عمل سے انجام دی جاتی تھی۔ان کے سر قلم کردیے جاتے، زندہ درگور کردیا جاتا، حتی کہ چھوٹےچھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر قیمہ بھی بنا دیا جاتا تھا۔ 88 یہ ساری قربانی مذہب کے نام پر دی جاتی اور لوگوں کو دیوی اور دیوتا کے نام پر بیوقوف بنایا جاتا تھا جس کے نتیجہ میں ایک طرف قربان ہونے والا اپنی جان گنوا ں بیٹھتا تھا تو قربانی دلوانے والے ان کے حصہ کے مال و اسباب پر قادر ہو جایا کرتے تھے۔

جانوروں کی قربانی بھی عمومی طور پر رائج تھی۔ 30 قبل مسیحی دور میں دریائے زرد (Yellow River)میں سیلاب آنے کا خدشہ تھا۔ وہاں کے گورنر نے دریائی حصہ کا جائزہ لیا اور سیاہی مائل سفید رنگ کے گھوڑے کی قربانی دریا کے لیے پیش کی تھی۔گورنر نے عوام کی حفاظت کے پیش نظر اپنے جادوئی قیمتی پتھر اور آرائش کی اشیا ءسے منتر بھی پھونکےتھے۔ سلسلہ شاہی "زہؤو (Zhou)"کے اختتامی دور میں شاہی خاندان کے افراد اور بادشاہ کی آخری رسومات میں انسانی قربانی کے عمل میں کافی کمی آچکی تھی، لیکن بعض اوقات اسے انجام بھی دےدیا جاتا تھا۔غلاموں کی قربانی کی جگہ لوگوں کے بنائے ہوئے مٹی کے مجسمے دفن کردیے جاتے تھے۔وہ یہ تصور رکھتے تھے کہ مٹی کی بنائی ہوئی اشیاء میں روحانی قوتیں جادوئی طور پر داخل ہوتی ہیں اور اپنے آقا اور مالکن کی ان کے مرجانے کے بعد خدمت کرتی ہیں۔89

بتوں کی عیدیں

اہل چین بتوں کی عیدیں بھی مناتےتھے ۔ سب سے بڑی عید سال کے شروع میں ہوتی تھی جسے "الزارار " کہا جاتا تھا۔ وہ ایک جگہ جمع ہوتے اور کھانے پینے کی چیزیں تیار کرتے تھے۔ پھر ایک شخص کو لایا جاتا جس نے اپنے آپ کوکسی عظیم بت کے لیے وقف کیا ہوتا اور خود کواپنی تمام خواہشات سے روکا ہوتا تھا،جو وہ چاہتا اسے حاصل کرلیتا تھا۔ وہ اس صنم کی طرف بڑھتا ،اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر کوئی چیز لگائی ہوتی تھی جو آگ سے بھڑک اٹھتی تھی پھر وہ آگ سے اپنی انگلیاں جلادیتا اور انہیں صنم کے آگے روشن کردیتا تھاحتیٰ کہ جل جاتا اورمردہ ہوکر گر پڑتا تھا۔اس کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا تھا اور جس شخص نے اس کی ہڈی کا ٹکڑایا اس کے کپڑوں کی دھجی حاصل کرلی ہوتی، ان کے تصور کے مطابق وہ کامیاب ہوجاتا تھا۔ پھروہ ایک اور شخص کو لاتے جونئے سال کے لیے اپنے آپ کو صنم کے لیے وقف کرنا چاہتا ہو، وہ اس کی جگہ کھڑا ہوجاتا اور کپڑے پہنتا تھا،اس پر چنگ بجائے جاتے پھر تمام افراد منتشر ہوجاتے اور کھاتے پیتے تھے، ایک ہفتہ قیام کرتے اور واپس آجاتے تھے۔ یہ مہینہ جس میں عید ہوتی تھی اس کا نام وہ جناح رکھتے تھے۔ یہ جون کا پہلا دن ہوا کرتااور چین کا حساب بھی اسی طرح تھا۔ وہ اپنی حساب فہمی کے مہینوں کو مختلف نام دیتے تھے۔ ان کا پہلا مہینہ جناح ، رداح، رالع، مالح، کسران، مارد، نمرود، کنعان، زاغ، ہراہ، ہر ہر، اور ماہرتھا۔90

تجہیز و تکفین

چین میں قبروں کو ایک ہی سمت میں ترتیب سے قائم کیا جاتا تھا جس کی مثال جنوب شمال اور مشرق و مغرب میں موجود ہے۔ متعدد ایسی تہذیبیں بھی موجود تھیں جو دوسرے طریقے سے مردوں کی تدفین کیا کرتی تھیں جس میں ہڈیوں کو مرنے والے کے عزیز و رشتہ دار کی قبروں کے مقام پر دوبارہ جوڑا جاتا تھا۔ قبریں بنانے کے لیے مختلف اشیاء استعمال میں لائی جاتیں جن میں پتھروں کا گارا اور موسل، پتھر کی کلہاڑی، چکنی مٹی سے تیار شدہ تین پایوں والا ظرف اور پیالے شامل تھے۔دورِسلسلہ شاہی "شینگ (Shang)"سے تعلق رکھنے والی شاہی قبروں پر عمارت کی مثل شاندار مقبرے تعمیر کیے جاتے تھے ۔یہ مقبرے آج بھی صوبہ "حینن(Henan)" میں "آنیانگ (Anyang)"کے قریب لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ یہ مقبرے بڑی صلیب کی شکل میں تعمیر ہیں جس کی باہری سطح کو کانسی اور قیمتی پتھروں سے مزین کیا گیا تھا۔91

دورِسلسلہ شاہی "شینگ (Shang)" میں اور 1045 سے 256 قبل مسیحی دور تک قائم رہنے والے بادشاہ "زہو (Zhou)"کے سلسلہ دورِ شاہی میں اکثر زمانے تک غلاموں کو اپنے آقاؤں کے مرنے پر قربان کردیا جاتا اور قبروں میں ان کے ساتھ ہی دفن کردیا جاتا تھا۔ان کے سروں کو مخصوص کلہاڑے سے تن سے جدا کردیا جاتا اور آقا کے جسم سے الگ دفن کردیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ کار عام طور پر وہاں رائج تھا حتی کہ ایک عام کاشت کار اور سپاہی کے غلاموں کے ساتھ بھی ایسا ہی غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا۔ غلام و خدام کے متعلق یہ تصور تھا کہ ان کا کام صرف اپنے مالک کی خدمت گزاری کرنا ہے اور یہ کام دوسری زندگی میں بھی جاری رکھیں گے۔ 92

قربانی کا شکار ہونے والوں میں تما م عمر کے افراد اور مردوعورت سب شامل ہوا کرتے تھے۔بعض کو سالم دفنا دیا جاتا، کچھ کے سروں کو قلم کردیا جاتا ، اس کے علاوہ کسی کسی کے ہاتھ پیر کاٹ کر مقبرے کے تمام مقامات پر درگور کردیے جانے کا رواج تھا۔مزید یہ کہ ہزاروں کی تعداد میں قربانی کے گڑھے کھود کر ترتیب کے ساتھ پالتو اور دیگر جانوروں کو قربان کر کے دفنا دیا جاتا تھا۔ یہ عمل چینی معاشرے کا ایک سیاہ پہلو تھاجو ان کی معاشی بہتری کے خوبصورت پردے اور نام نہاد متعدد مذہبی بڑہوتری کے چکروں میں گم تھا۔تاریخ کے بہت محدود قلم کاروں نے چین میں ہونے والے اس فعل قبیح کی نشاندہی کی ہے لیکن پیٹر بوگوکی (Peter Bogucki) اور بعض دیگر مؤرخین نے اس طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ چین کی تہذیب جو اس وقت بھی آج کے دور کی ایک مظبوط تہذیب تھی اس کے حوالے سے اس درندگی کا بیان کرنا یقینا تحقیر آمیز تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لاکھوں بے گناہ غلام اپنے اپنے آقاؤں کی وجہ سے فنا کے گھاٹ اتار دئے جاتے۔

دورِ"شینگ (Shang)"کے بعد دوسرے درجے کے حامل افراد کے لیے مقبروں اور قربانی پیش کرنے کے لیے گڑھوں کو کھودنے کے رواج میں کمی آگئی تھی، لیکن قیمتی پتھر، زیورات، ہتھیار، اور کپڑے مردے کو پہنائے جاتے اور اس کےتابوت میں بھی رکھے جاتے تھے۔تابوت کا باہری حصہ لکڑی کا بنایا جاتا اور اسے کمرہ نما شکل دے کر مقبرے کے اندررکھ دیا جاتا تھا۔ تابوت کے باہر مردے کے اندرونی اعضاء ترتیب سے رکھ دیے جاتے تھے۔ سب سے پہلے کانسی کے برتنوں کو کھانا پکانے، پیش کرنے اور مذہبی وضو کروانے کے لیے استعمال کیا جاتاتھا، اس کے علاوہ مذہبی طور پرمانے جانے والے قیمتی پتھروں کو بھی ساتھ رکھا جاتا تھا۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں نفیس سنہری روغن سے نالیاں اوربادشاہوں کے مجسمہ بنائے جانے لگے تھے۔ ان کے گمراہ کن عقائد کے مطابق ، مجسمہ شیطانوں سے مقبرے کی حفاظت کرتا اور مردے کی دوسری زندگی کے لیے سفر میں مدد فراہم کرتا تھا۔موجودہ دور میں بھی بانس پر کی گئی تحاریر مقبروں میں موجود ہیں۔ آخری رسومات میں فہرست کے مطابق مردے کو دیے گئے تحفوں کو استعمال کیا جاتا اور ان میں سے بعض اس کے ساتھ ہی دفن کردیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ مزید تحاریر میسر آئی ہیں جن میں علاج معالجہ کی اشیاء، جنتری، انتظامی امور کی دستاویزات اور فلسفیانہ کتابچہ بھی ساتھ دفن کرنے کے ثبوت ملے ہیں ۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ ان تمام اشیاء کی مردے کو دوسری زندگی میں اپنی فانی عمر کی پہچان کروانے میں ضرورت پیش آتی ہے، اس کے علاوہ یہ اشیاء اپنے آباؤاجداد کی نظر میں دنیا میں حاصل شدہ مرتبے کے ثبوت فراہم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ لکڑی، چکنی مٹی اور پتھروں کی مورتیاں ، شکار کرنے کے ہتھیار، سفری ضروریات، مذہبی رسومات کی چیزیں اور پرتکلف موسیقی کے آلات بھی دفن کیے جاتے تھے۔ 93

مردے کی آخری رسومات کا آغاز مرنے کے فوراًبعدکردیا جاتا تھا۔مرجانے والےانسان کو اس کے بستر سے اٹھا کر کھلی جگہ رکھ دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس دور میں چھت پر ایک سوراخ اس عقیدے کے ساتھ بنایا جاتا کہ یہ مقام کشمکش میں مبتلا روحوں کو دوسری دنیا تک رسائی میں مدد فراہم کرتا ہے،مردے کو اس مقام پر بھی رکھ دیا جاتا تھا۔میت کو اس کے اپنے کمرے میں بھی سالوں تک رکھنے کا رواج تھا اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تھی۔مردے کو فوراً دفنایا نہیں جاتا بلکہ کئی مہینوں تک انتظار کیا جاتا جب تک تاؤمت (Taoism)کے پجاریوں کی مدد سے دفنانے کی کوئی مناسب جگہ میسر نہ آجاتی تھی۔آخری رسومات میں مردے کے معاملات کو تفصیل سے بیان کیا جاتا، حتی کہ ایسا غریب انسان جس نے اپنے والدین کی خوشی کے لیے خود کو کنگال کردیا ہو، اس کے لیے بھی خصوصی رسومات ادا کی جاتی تھیں۔عام طور پر سوگ کا دورانیہ27 مہینوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا 94 جو کہ وقت، مال، صلاحیتوں اور وسائل کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہ تھا مگر قدیم چینی ان رسومات میں بے پناہ مشغولیت کو عین دین اور فریضہءِ مذہب سمجھتے تھے جو کہ ان کی مذہبی گمراہی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

معاشرتی زندگی

چینی سماج کو کرۂ ارض کے قدیم معاشروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ تقریباً چھ ہزار (6000)سال قبل عہد عتیق میں چینی معاشرے نے دریائے زرد (Yellow River)کی وادیوں میں پنپنا شروع کیا تھا۔قدیم چینیوں نے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں وہ لوگ زمین پر موجود روحانی قوتوں ، اپنے آباؤاجداد، خدا اور دیگر لوگوں کی عزت و تکریم کیا کرتے تھے۔ان کا یہ عقیدہ تھا کہ زمین کا نظام روحانی قوتیں اور متعدد خداچلاتے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ لوگ ہمیشہ ایسا طرز عمل اختیار کریں جس سے وہ خداؤں کی نظروں میں ہمہ وقت موجود رہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ، قدیم چین میں روز مرّہ کی زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں ۔پانچ ہزار(5000) قبل مسیحی دور کے آس پاس لوگ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں رہا کرتے تھے، اس معاشرے میں روحانی پیشواؤں کی جماعت پر عورتیں حکومت کرتی تھیں اور انہیں کو مذہبی شخصیات کے طور پر مانا جاتا تھا۔اُس دور میں لوگ زمین پر چھوٹے دائروی شکل میں گھروں کی تعمیر کرتے اور رہا ئش کرتے تھے۔وہ لوگ جانوروں کی کھال زیب تن کرتےاور مظاہر پرستانہ مذہبی نظریات پر عمل کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم چینی معاشرےچھوٹے دیہاتوں سے ترقی کرتے ہوئےبڑے قصبوں میں تبدیل ہوئےاور پھر شہروں کی صورت اختیار کرگئےتھے۔

چینی معاشرے میں نومولود بچہ کےسماجی گروہ کا تعین اس کی پیدائش کے ساتھ ہی کردیا جاتا تھا۔اگر باپ کسان ہوتا تو اس کا بیٹا بھی کسان ہی بنتا تھا۔ امیر اور متوسط طبقات کا شمار اشرافیہ، سیاست دان، اور تجار میں کیا جاتا تھا جب کہ مالی طور پر تنگ دست غریب افراد کسان اور مزدوری کیا کرتے تھے۔شراب خانے لوگوں کی بیٹھکیں تھیں، لیکن طبقہ امرا ءاور غریب باشندوں کے لیے الگ الگ شراب خانے بنائے گئے تھے۔غریبوں کو امیروں کے شراب خانوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

آبادی

قدیم دور میں بھی چین آج ہی کی طرح دنیا کے گنجان آباد ممالک میں سے ایک تھا۔دوسری صدی قبل مسیحی دور میں ایک اندازے کے مطابق شائع شدہ چینی آبادی تقریباً پانچ کڑور ستتر لاکھ (5.7million) تھی، جو اندازاًایک کڑور چوبیس لاکھ (12.4millon) گھروں پر مشتمل تھی اور وہاں کی عوام ایک اندازے کے مطابق آٹھ سو ستائیس (827) مربع میل(مو،mou)زمینی خطہ کو زراعت کے لیے استعمال کیا کرتے جو تقریباً تین سو اکیاسی ہزار(381،000) مربع کلومیٹر بنتا تھا۔اُس دور کے متعلق مالیاتی امور میں سب سے بہترین حقائق سن1993 میں دستاویزی صورت" یِن وان (Yinwan)"سے دریافت ہوئے تھے جنھیں زمین میں دفن کیا گیا تھا۔ ان یادداشتوں میں پندرہویں صدی قبل مسیح میں موجودصوبہ "شینڈونگ" (Shandong)کے شہر ڈونگھائی(Donghai) میں قائم خُفیہ احکام کا مَقامی دَفتَر اور انتظامی امور سے متعلق معلومات تفصیل سے درج تھیں۔ان میں سے ایک تحریر میں ضلعی کماندار کے علاقے میں آبادی کی تفصیلات بھی شامل تھیں جو تقریباً چودہ لاکھ (1.4million) لوگوں پر اوردو لاکھ چھیاسٹھ ہزار (266،000) گھرانوں پر مشتمل تھی۔یہ تعداد ایک حد تک غیر مرتب طور سے پندرہ لاکھ ساٹھ ہزار (1.59million) اورتین لاکھ اٹھاون ہزار (358،000) گھرانوں کے برابرتھی جو دوسری صدی عیسوی میں کی جانے والی مردم شماری سے حاصل ہونے والی تعداد کے مطابق مانی جاتی تھی۔تاہم، گھرانوں کی تعدادسے متعلق تضاد کا صحیح اندازہ لگانا مشکل کام تھالیکن اہم امر یہ تھا کہ آبادی کی تعداد میں مماثلت پائی جاتی تھی۔ 95

جنتری

چینی جنتری کے بارے میں یہ فرض کیا جاتا تھا کہ اسے سب سے پہلےچین کے افسانوی حکمران "ہوانگ دی(Huang Di)"نے مرتب کروایا تھا۔کہا جاتا تھا کہ اس کا دور 2698 سے 2599 قبل مسیح تک محیط تھا۔اگرچہ ان ادوار میں مختلف نوعیتوں کی جنتریاں زمانے کی تعیین کے لیے استعمال کی جاتی تھیں، لیکن چینی روایات یہ معلومات فراہم کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ پہلی جنتری کا پہلا سال گریگورین(Gregorian) نظام جنتری کے مطابق یا تو دو ہزار چھ سو سینتیس (2637) قبل مسیح تھا یادو ہزار چھ سو ستانوے (2697) قبل مسیح سے متعلق تھا۔چینی جنتری کو ساٹھ سالہ گردشی ایام اور عہد کے حساب سے ترتیب دیا گیا تھا۔چینی جنتری میں سالوں کو ایک سے لے کر ساٹھ(1-60) تک عددی نام دیے گئے تھے اور مرتب کیا گیا تھا، ساٹھ (60)سال کے بعد دوبارہ از سر نو گنتی شروع ہوجاتی اور اسےنئے دور کا آغاز تصور کیا جاتا تھا۔96

کنفیوشس (Confucius)" کو ماننے والے 1122 سے 249 قبل مسیحی دور سے تعلق رکھنے والے سلسلہ شاہی "چئو (Chou)"کی جنتری استعمال کیا کرتے تھے۔اس جنتری کو مرتب کرنے والا کہا کرتا تھا کہ "مستقبل میں ہم بارہویں مہینے کے بجائے گیارہویں مہینے سے نئے سال کا آغاز کریں گے"۔ 1766 سے 1123 قبل مسیحی دور سے تعلق رکھنے والے سلسلہ شاہی "شینگ (Shang)"میں بھی اسی طرح کہا جاتا تھاکہ"مستقبل میں ہم پہلے مہینے کی جگہ بارہویں مہینے سے نئے سال کا آغاز کریں گے"۔اسی طرح 2205 سے 1767 سے متعلق شاہی سلسلہ"ہیا(Hia)"کے بادشاہ اور الگ الگ ریاستوں کے حکمرانوں نے بھی اسی طرح نظام جنتری وضع کی تھی کہ: "سال کی ابتدا ءپہلے مہینے سے ہوا کرے گی"، یوں ہم فطری طور پر یہ نتیجہ اخذ کرنے کے قابل ہوجائیں گے کہ نئے سال کے آغاز سے پہلے کوئی جنتری نہیں تھی، اور لازمی طور پر کوئی حکمت بھری حکومت نئے سال کی ابتداء جنتری کے پہلے مہینے کے علاوہ نہیں کرے گی ۔اسی جنتری میں مہینوں کی درستگی کو اجرام فلکی کی ترتیب کے مطابق لازمی قرار دیا گیا تھا، پہلے مہینے کی ابتدا ءکا تعین اس وقت کیا جاتا جب سورج بُرج جَدّی (راس مَنڈَل) کے دَسویں بُرج میں داخل ہوجاتا تھا، یہ طریقہ کار ملکی زمینی قواعد سے مختلف تھا۔اس ترتیب سے سلسلہ شاہی "ہیا(Hia)" "شینگ (Shang)"اور "چئو (Chou)"کا پہلا ملکی مہینہ بالترتیب سال کاتیسرا، دوسرااور پہلا فلکی مہینہ ہوا کرتا تھا، جو سورج کا برج حوت، بُرج دَلُو(منطقۃ البروج ميں گيارہواں برج جس ميں سورج لگ بھَگ پندرہ جنوری کے داخل ہوتا ہے)، اور بُرج جَدّی میں داخل ہونے کی جانب نشاندہی کرتا ہے۔ چینی یقین کے مطابق پہلے ماہِ اگست میں جب حکمران نےتمام چین پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اوربکھری ہوئی ریاستوں کو ناپ تول کے نظام، علم اور دیگر مشہور متضاد معاملات کو سدھار کر سب کو متحد کردیا تھا تو اس نے کہاکہ" مستقبل میں سال کے دسویں مہینے کو پہلا مہینہ تصور کیا جائے گا نہ کہ گیارہویں کو"۔ قدیم چینی دور میں فلکی حساب سے بارہویں مہینے کو ملکی زمینی پہلامہینہ گنا جاتا تھا۔ یہ بھی تصور رائج تھا کہ جب سورج برج قوس راس میں داخل ہوتا تو اس سے ملکی پہلا مہینہ مرادلیا جاتا تھا۔ اس طریق سے یہ نظر آتا تھا کہ دو ہزار (2000) سالوں میں نظام ِجنتری سےنوے(90) ایام کو خارج کر دیا گیا تھا اور اندازاً سال میں ایک گھنٹے کی کمی بھی کی جاتی تھی۔97

کسان کے لیےفصل لگانے کی ابتدا ءکرنے کے صحیح وقت کو جاننا انتہائی ضروری سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہ کے امور میں اہم کام کسانوں کو فصل لگانے کے صحیح وقت کی اطلاع دینا بھی تھا۔سلسلہ شاہی "شینگ (Shang)" کے دور حکومت میں جنتری کی ترتیب کا کام جاری و ساری تھا۔ اُس جنتری میں ایک ہفتہ دس(10) ایام پر مشتمل ہوتا، اور ہر دن کا حساب دس (10) "جنتی تنوں" اور بارہ (12) "زمینی شاخوں " کے حساب سے کیا جاتا تھا جو باربار مکرّر آنے والے ساٹھ (60) دنوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ایک سو چار (104)قبل مسیح میں سلسلہ شاہی "ہین (Han)"کے دور حکومت میں چار موسموں کو ابتدائی طور پر نظام جنتری کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا جس میں موسم بہار ، اعتدال شب و روزکا پیدا ہونا یعنی وہ زمانہ جب سورج خط استوا کو قطع کرتا ہے اور دن و رات برابر ہوتے ہیں، گرمی اور سردی کے انقلاب شمسی شامل تھے۔چینی حکمران "وینگ مینگ(Wang Mang)"، جس کا دور حکومت (23-8) عیسوی تک تھا، جب اس نے سلسلہ شاہی"ہین (Han)"کی حکومت کو شکست دی تھی، اس وقت ایک سال تین سو پینسٹھ (365) ایام سے کچھ دن زیادہ پر مشتمل تھا۔98

دن

ایامِ قدیم میں تعینِ وقت کے لیے چینیوں نے کچھ معیارات مقرر کیے ہوئے تھے۔اُس وقت ایک دن بارہ (12)حصوں میں منقسم تھا اور ہر حصہ دو گھنٹوں پر مشتمل ہواکرتا تھا۔ دن کا آغاز دوپہر گیارہ (11) بجے ہوتا اور ہرایک گھنٹہ آٹھ حصوں میں تقسیم تھا۔گھڑیوں کو لکڑی کے برادے اور چکنی مٹی سے گول گھاؤ کی مثل بناکر بھٹی میں تپا کر تیار کیا جاتا تھا۔وقت کا تعیین پتلی لکڑیوں کی مدد سے کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ دھوپ گھڑی،آبی گھڑیاں بھی استعمال میں لائی جاتی تھیں۔99

معاشرتی طبقات

قدیم دور میں چینی باشندے چار مختلف گروہوں میں تقسیم تھے۔ عالِم و فاضِل کے خَصائص لِيے ہُوئے افراد "تاؤ(Tao)" کہلاتے اور دیگر سائنسی علوم سیکھنے میں اپنی ذات کومصروف رکھتے تھے۔اس کے بعد دوسرا گروہ تاجروں پر مشتمل تھا، وہ لوگ چار حصوں میں تجارتی امور سر انجام دیتے تھے؛ اس بات کے واضح ثبوت ملے ہیں کہ قدیم چینیوں کی تجارتی اشیا ءمیں خصوصی طور پر مویشی، اناج، ریشم، گھوڑوں اور قیمتی پتھروں کی خریدو فروخت شامل تھی۔تیسرا گروہ ان افراد کی جماعت کو کہا جاتا تھا جو کھیتی باڑی کے شعبہ سے منسلک تھے۔ اُس دور میں چائے کی پتی اور کپاس کی فصل نامعلوم تھی، علاوہ ازیں موجودہ دور کی دیگر اہم مصنوعات کا بھی اس دور میں نام و نشان نہیں تھا۔ چوتھا گروہ دستکاری کرنے والوں کا تھا، وہ لوگ خود ہی اپنے ذہن کو استعمال کرکے ایسی اشیا ءبنایا کرتے تھے جسے وہ بیچ سکیں۔وہ لوگ ایسی اشیاء تشکیل دینے میں ماہر تھے۔

قدیم چینیوں کی ایک انداز میں تقسیم کی گئی تھی، جس کی تجویز "ٹسئو(Ts‘u)"کے بادشاہ کو ایک عقلمند مشیر نے غالباً تقلید پسند چینی افکار کے مطابق دی تھی۔اس نے چینی عوام کو دس مختلف درجات میں منقسم کردیا تھا، ہر نچلے درجے والوں کو اپنے سے بلند حیثیت کے حامل افراد کی عزت و تکریم وفرمانبرداری بجا لانا لازمی تھی، اور ان طبقات میں خداؤں اور دیگر روحانی قوتوں کا سب سے اعلی درجہ تھا، ان کی اطاعت گزاری بھی واجب قرار دی گئی تھی۔خداؤں کے بعد سب سے پہلے بادشاہ، اس کے ماتحت اعلی حکام یا پھر ریاست کے اعلی شاہی منصب دار کا مرتبہ ہوا کرتا تھا۔ ان منصب داروں کا شمار حقیقی عہد یداران میں کیا جاتا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ زندگی میں ان کی جانب سے پیش کی جانے والی خدمات کے عوض موت کے بعدانہیں اعلی عہد یدار کا درجہ دیا جاتاجیسے جاگیری اسامی کانظام تھاکہ منصب اعلی عہد یدار کے مرنے کے بعد ہی ملے گا۔ ضرورت پڑنے پر بادشاہ ریاستی امور سر انجام دینے کے لیے منصب داروں کو سلطنت کی ماتحت متعدد ریاستوں میں بھیجا بھی کرتا تھا جن کا مرتبہ کلیسا کے شہزادے، کيتھولک عيسائيوں کے پادری اور وہ افراد جو پوپ کے قریبی ہوا کرتے، کی مثل تھا۔تیسرا درجہ مارکوئیس(Marquess) کہلاتا تھا ، جن میں نیم آزاد ریاستوں کے حکمران شامل تھے۔اس چیز کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی کہ کوئی ڈیوک (Duke) ، مارکوئیس (Marquess)، امیر(Earl)، وائی کاؤنٹ (Viscount) یا جاگیردار(Baron) ہو: یہ اصطلاحات چھوٹی ریاستوں کے موجود ہ حکمرانوں کے لیے بھی استعمال کی جاتی تھیں جو اصلاً جاگیردار کی حیثیت کے بھی نہیں ہوا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ چھوٹی مملکتوں کو بھی ان ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا جو کسی بڑی ریاست کی سرپرستی و تحفظ میں ہوں اور زیر حمایت ہوں۔دراصل محکوم حکمرانوں کے لیےتسلیم شدہ رسمی کہاوت اور استعمال کیا جانے والا لفظ"مارکوئیس" تھا۔اس کے بعد درمیانے درجے کے باشندوں کا رتبہ تھاجسے عام طور پر متوسط طبقہ بھی کہا جاتا ہے، ان میں ہنر مند دست کاراور کاشت کار شامل تھے۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہنر مند افراد کو کسانوں سے اوپر درجہ دیا گیا تھا۔ سب سے آخر میں پولیس، بوجھ اٹھانے والے، مُخنث اور غلاموں کا درجہ ہوا کرتا تھا۔اُس دور میں پولیس سے مراد وہ لوگ تھے جو عوامی دفاتر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ خبریں پہنچاتے تھے۔اس کے علاوہ یہ گروہ دباؤ ڈالنے، دہشت پھیلانے، اذیت دینے، سرزنش اور اس کے علاوہ دیگر امور بھی انجام دیا کرتے تھے۔100

غلامی

قدیم چینی معاشرے میں غلاموں کو اپنی ملک میں رکھنے کا رواج تھا، لیکن چینی معاشرہ یونانی اور رومی سماج کی مانند غلامی پر مبنی نہیں تھا۔ 101قدیم دور میں غلاموں کے متعلق تاریخی معلومات دو سو دو قبل مسیح سے دو سو بیس عیسوی دور(202 B.C.–220 A.D.) تک قائم سلسلہ شاہی "ہین(Han)"سے ملتی ہیں۔سلسلہ شاہی"ہین(Han)"کے دور حکومت میں غلام، تجّار اور سوداگروں کو قانونی طور پر غیر اہم افراد کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ان کا مرتبہ کاشت کار، سرکاری عہدیداران، ماہر و پیشہ ور جنگجوؤں، اشرافیہ، اور شاہی افراد سے مقابلتاً ادنی حیثیت رکھتا تھا۔سلسلہ سلاطین ِ"ہین(Han)"کے محررین نے لکھا ہے کہ اُس وقت غلام کسانوں سے بہتر زندگی گزارا کرتے تھے۔ بعض اوقات کسان مجبوراً اتنی رقم بطور قرض لے لیا کرتے تھے جو وہ واپس نہ کرسکیں ، اور بدلے میں قرض دہندہ کاشت کاروں سے ان کی زمین ہتھیا لیا کرتے اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام بھی کروایا کرتے تھے۔اشرافیہ اور امیر سوداگر اسی طرح زمینوں پر قابض ہوجاتے تھے، کسان ان کے کام اس امید سے کیا کرتے کہ شاید ہمیں اپنی زمین دوبارہ واپس مل جائے۔حکمران گاہے بگاہے کسانوں کو زمین دوبارہ تقسیم کرتے لیکن اشرافیہ اسی طریقہ سے دوبارہ ان سے زمین لے لیا کرتی تھی۔

ابتداء میں غلاموں سے گھریلو کام کاج کروایا جاتا تھا۔شاذو نادر ہی ایسا ہوتا کہ کسی غلام سے کھیتوں میں کام لیا جائے۔ چین میں غلاموں کا تناسب انتہائی کم تھا، ایک اندازے کے مطابق ان کی آبادی کے مقابلے میں تقریباً ایک فیصد ہی غلام تھے۔شہروں میں رہنے والے افراد کی ملکیت میں زیادہ غلام ہو اکرتے تھے کیوں کہ زیادہ تر غلام شہروں اور قصبوں میں ہی رہائش پذیر تھے، اور یہیں سے اپنے اشرافیہ اور امیر کبیر افراد کے گھریلو کام کاج کیا کرتے تھے۔ سزایافیہ مجرموں کے رشتہ داروں کو بھی سرکارغلامی میں لے لیا کرتی تھی۔حکومتی غلام سمندر میں بادبانی بحری جَہازوں کو اوپر نیچے کھینچنے اور گھسیٹنے کا کام کیا کرتے تھے۔غلام بادشاہوں کے گھوڑوں اور کتوں کی دیکھ بھال کیا کرتے اور سرکاری جنگلات میں محافظ شکار گاہ کا کام بھی کیا کرتے تھے۔بادشاہ کے دربار میں غلام آبی گھڑیوں میں وقت کے تعین پر نظر رکھتے اور گھنٹہ گزر جانے کے بعد ڈھول بجایا کرتے تھے۔مہمانوں اور شاہی خاندان کے لیے بطور احترام انتظار میں کھڑے ہو اکرتے، اس کے علاوہ شاہی دربار میں آنے جانے والے لوگوں کے لیے دروازوں کو کھولنے اور بند کرنے کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ان ذمہ داریوں کو مرد و عورتیں دونوں انجام دیا کرتے تھے۔ذاتی ملکیت میں موجود غلام گھروں میں صفائی، کھانے پکانے، اور باورچی خانے کے امور سرانجام دیا کرتے تھے۔ان میں سے بعض محافظ آبائی قبور کی حفاظت پر مامور تھے۔کچھ غلام اپنے مالک یا مالکن کے خاص امور ادا کرتے جیسے ان کے بالوں کو سنوارنے اور چہرے وغیرہ کی آرائش میں مدد کیا کرتے تھے۔ماہر غلام بیچنے کے لیے کوزہ گری اور کپڑا بنائی کا کام کیا کرتے تھے۔مالک دوسروں کو تکلیف دینے اور ظلم و ستم کرنے حتی کہ دشمنوں کو قتل کرنے کے لیے بھی غلاموں کےگروہ بنا لیا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ کسی قصبے یا شہر میں ڈرا دھمکا کر خوف وہراس پھیلانے میں بھی استعمال کیا کرتے تھے۔غلام خواہ سرکار کی ملکیت میں ہوں یا کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں، دونوں ہی بعض اوقات اپنے غلاموں کو خفیہ واہم مہمات تفویض کیا کرتے تھے، جیسے ایک مقام سے دوسری جگہ پیغام پہنچانا اور علاوہ ازیں حساب نویسی کا کام بھی ان کے سپرد کیا جاتا تھا۔102

خاندانی زندگی

قدیم چین میں موجود خاندانی زندگی کے متعلق جو شیریں و خوش آہنگ تصویر کھینچی جاتی ہے، حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ چینی معاشرہ میں جنسِ مذکرو موٴنث کا کردار اس سوچ کے مطابق ہوا کرتا تھا کہ "مرد بوتاہے اور عورت گوندھتی ہے" اور "شوہر گاتا ہے اور بیوی تابعداری کرتی ہے۔"سلسلہ سلاطین میں کنفیوشیائی نظریہ (Confucianism)سے لے کر منصب داری پر مشتمل اخلاقی قوانین تک چینی سماج کا نقطہ نظر اور اخلاقیات پدر شاہی حکومت اور خاندان پر مرد کے غلبہ کو تسلیم کرتی تھی۔عورت کو مرد کے جبرکو برداشت کرنے اور ماتحتی میں ہی زندگی گزارنے کی تربیت دی جاتی تھی۔عورتوں کے لیے خاص اصول مختص تھے "چینیوں کے نزدیک تین فربانبرداریاں اور چار اچھائیاں مسلم تھی " جن میں شادی سے قبل باپ کی تابعداری، شادی کے بعد شوہر کی اطاعت گزاری، اور شوہر کے گزر جانے کے بعد بیٹے کی تعمیل کرنی پڑتی تھی جبکہ حسن عمل کے طور پر مناسب و موزوں گفتگو، اعتدال پسند طور طریقہ اور جانفشانی سے کام شامل تھے۔103یہ سوچ اس امر کی جانب نشاندہی کرتی ہے کہ قدیم چینی معاشرے میں عورت اپنے مرد کی خواہشات کے مطابق ہی زندگی بسر کیا کرتی تھی، اسے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔بیوی کو کفایت شعار ،محنتی ، شوہر سے محبت کرنے والی، خاندان میں خوشیاں بانٹنے والی جنس کے طور پر تصور کیا جاتا تھا ، لیکن حقیقت میں عورت مکمل طور پر اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے سے بھی محروم ہو اکرتی تھی جو آج جدید دور میں عورتوں کے لیے انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔

اس دور میں بیویاں اپنے شوہروں کے مقصد میں اُن کا ساتھ دیا کرتی تھیں۔بلند کارِ عظیم میں ان کا حوصلہ بڑھایا کرتیں، ناکام ہوجانے یا مالی طور پر غریب ہوجانے پر بہت ہمدردی جتایا کرتیں، ان کے ذرائع ومقاصد کی حفاظت کرتیں اور اُن میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔ 104دوسری جانب ان پر جسمانی طور پر ظلم کیا جاتا، معاشرتی لحاظ سے جنسی امتیاز برتا جاتا تھا۔ بیویوں پر دباؤ ڈالا جاتا کہ وہ اپنے شوہر وں کے تعلقات داشتہ عورتوں سے بھی رکھوائیں، یوں ان کی حیثیت ایک ناقابل رشک کردار کی مانند رہ جاتی تھی۔ ظلم و ستم پر مبنی حقیقتوں ، مرد کے زیر تسلط قائم کردہ معاشرے جہاں عورت کو مذہبی اور فلسفیانہ عقائد کی رو سے نفسیاتی دباؤ کے اندر رکھا جاتا اور مرد کی جانب سے معاشرے کے لیے قوانین بنائے جاتے تھے، ان تمام پریشانیوں ومصیبتوں میں رہنے کے باوجود بعض ایسی خواتین بھی تھیں جنہوں نے ان رکاوٹوں کو توڑ دیا تھا۔روز مرہ زندگی کی تفصیل سے یہ حقیقت یوں بھی واضح ہوئی ہے کہ بعض خواتین نے معاہدوں کے ذریعے شوہروں کو دھوکہ دیا اور بعض خواتین نے ادب، علمیت کو بڑھا کر اپنے لیے بہترین زندگی گزارنے کی راہ کو ہموار کیا ، یہاں تک کہ کچھ خواتین نےبذات خود چینی سلطنت پر حکومت کی تھی۔ 105

بچوں کی حیثیت

قدیم چین میں بچوں کی زندگی محتاط اندازے کے مطابق چار سو پندرہ (415) قبل مسیح میں بہتری کی جانب اُس وقت بڑھی جب ایک کنفیوشیائی نظریات (Confucianism)کے حامل چینی گورنر نے معاشرے کی عادات و افکار واخلاقی اقدار پر مشتمل مجموعہءِ قوانین مرتب کیا تھا۔202سے 145 قبل مسیحی دور تک تعلق رکھنے والے سلسلہ شاہی "ہین(Han)" کے ابتدائی ادوار میں کنفیوشیائی نظریہ (Confucianism)کو ریاست کی دفتری حکمت عملی و پالیسی کے طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا۔"شو(Shu)" کے گورنر "وین وینگ (Wen Weng)" نے لڑکوں کے لیے پورے صوبے میں اسکولوں کی تعمیرات کروائیں۔ اسکول سے کامیاب ہونے والےسند یافتہ افراد نے انتہائی موثر انداز سے اپنا کردار ادا کیا۔حکومتِ"ہین(Han)"نے ایک ایسا تعلیمی نظام ترتیب دیا تھا جس میں قابل و عقلمند بچوں کو اسکو ل میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے زور دیا جاتا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی تاکہ وہ بطور سرکاری عہد دار نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوں اور بہترو آسودہ زندگی گزار سکیں۔ 106

بچے ماں باپ کی اطاعت اسی طرح کرتے جیسےان سے مطلوب ہوا کرتی تھی ۔ کسی حالت میں بھی بچوں کو زدو کوب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ جو بچے آپس میں شادی کرنا چاہیں تو پہلے اس کے بارے میں اپنے والدین کو مطلع کرنا ضروری تھا۔بیٹا ہو یا بیٹی دونوں میں سے کوئی بھی کوئی جائیداد نہیں رکھ سکتا تھا، اور نہ ان کو اس بات کا اختیا ر حاصل تھا کہ اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف کسی اور شخص کو خاندانی جائیداد میں تصرف دے سکیں۔دوسری جانب ، والدین کو کسی صورت میں بچوں کا حق تلف کرنے یا ان کی جائیدادکسی اور کی جانب منتقل کرنے کی اجازت نہیں تھی، چاہے وہ اس کی شدید خواہش ہی کیوں نہ کررہے ہوں۔اگر ان میں کسی اولاد کا انتقال ہوجاتا تو وہ بچوں کے بچوں میں منتقل ہوجاتی تھی۔والدین کی موت کے وقت اولاد پر تین سال تک ماتمی لباس زیب تن کرنا لازم تھا، اس کے علاوہ ان کی یاد میں اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے روزانہ تجویز کردہ قربانی ادا کرنا لازمی امر قرار دیا جاتا تھا۔ 107

خاندانی نظم و ضبط

قدیم چین میں باپ کے اختیارات اتنے وسیع نہ تھے ،بلکہ بعض گھرانوں میں تو اتنے کم تھے کہ بچے ان کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے تھے۔ماں ہی گھر کی ذمہ دار ہوتی تھی اور بعض حالتوں میں خود ہی مزدوری کر کے بچوں کی پرورش کرتی تھی۔بیوی کا لفظ ہم رتبہ یامساوی کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔مگر کنفیوشس (Confucius)کی تعلیم نے اس صورتِ حال کو بدل کر ایک مضبوط "پدری نظام"ملک میں قائم کردیا تھا۔ 108

عورت کا مقام

قدیم چین میں ہر عورت کی یہ تمنا تھی کہ کاش وہ مرد پیدا ہوتی، یہاں تک بھی دیکھا گیا کہ چینی رسمی تحاریر میں خاتون کا کردار ادا کرنے والیوں کے ان جملوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ "ہم پچھلی زندگی میں مرد تھیں لیکن ہما رااس دنیا میں دوبارہ جنم بطورعورت گزشتہ زندگی میں کیے گئے گناہوں کے عذاب کی صورت میں ہوا ہے۔" بعض کہانیوں اور ناول میں جنس عورت کے متعلق اس طرح کا ذکر بھی ملتا ہے کہ" وہ اس دنیا میں بطور سانحہ عورت پیدا ہوگئی۔"دلچسپ طور پرقدیم چینی عورتوں کو اپنے پاس نقدی رکھنے کی اجازت نہیں تھی کیوں کہ ان کا یہ تصور تھا کہ اسے ایک نہ ایک دن اِس خاندان کو چھوڑ کر اپنے شوہر کا گھر بسانا ہے۔ زیادہ تر چھوٹی لڑکیوں کو ان کی پیدائش کے بعد بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا تھا۔ عورتوں کو مردوں سے چار مقامات پر سبقت لے جانے کی توقع کی جاتی تھی جن میں ازدواجی وفاداری، محتاط گفتگو، محنت کشی اور خوش وضع اخلاق و عادات شامل تھے۔قدیم چینی معاشرے میں خاص طور پر عورت کا راست باز اور اخلاقی امتیاز کی صلاحیتوں سے بھرپور ہونا قابل ستائش خصوصیات کے طور پر دیکھا جاتاتھا۔ پابندِاخلاقیات و نیکو کار جیسی خصوصیات کی حامل عورت اور خاص طور پر پاکدامن بیوہ کی عزت و توقیر کے لیے بعد از موت مقبرہ اور یادگاری لوح بھی بنائی جاتیں جس پر شرف دِہندہ کے متعلق اعلان وفات کندہ کیا جاتا تھا۔ بارہویں صدی قبل مسیحی دور میں ترمیم شدہ کنفیوشنزم(Confucianism)کا محقق"زہو ژی(Zhu Xi)" کا یہ طرز عمل خاص طور میں پر مشہور ہوا تھا۔109"فو ہسوان(Fu Hsuan)" نامی چینی عہدیداران، محققین، اور شعراء جو سہہ بادشاہی دور میں ریاستِ "ساؤ ویی(Cao Wei)" میں رہائش پذیر تھے جو بعد ازاں تیسری صدی میں چین کے شاہی خانوادہ "جِن(Jin)" کے ماتحت ہو چکا تھا، چینی خواتین کی ابتر حالت کے متعلق اپنا نقطہء نظربیان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ:

کتنا افسوسنات ہے عورت ہونا!
حقیر اس سے دھرتی پر کچھ بھی نہیں ہونا
نہیں ہوتا کوئی خلقِ دختر پرمسرور
جس کے باعث گھر میں نہیں اس کے لئے کوئی جائے پناہ
جب پروان چڑھتی ہے وہ ،اپنے کمرے میں چھپتی ہے وہ
ساتھ مرد کےچہرہ ملانےسے ڈرتی ہے وہ
کوئی نہیں روتا جب گھر وہ چھوڑ جاتی ہے
جیسے بادلوں سے بارش تھم سی جاتی ہے
سر کو جھکاتی ہے چہرہ اپنا سنوارتی ہے
لال ہونٹوں میں وہ دانت اپنے چھپاتی ہے
بسا اوقات جھکتی اور گھٹنے ٹیکتی ہے
سامنے غلاموں کے بھی لازماً وہ جھکتی ہے
وقت کے ساتھ چہرہ اس کا ڈھلتا ہے
اس کا آقا نئے نشہ میں مست ہوتا ہے 110

اس کے علاوہ عورت کا کوئی معاشرتی مقام نہیں تھا، اسے اپنے شوہر کی اطاعت اور اسی پر انحصار کرنا لازمی تھا؛ چاہے اس کا شوہر مر ہی کیوں نہ گیا ہو، اسے دوبارہ شادی رچانے کی ہر گز اجازت نہیں تھی۔اس کے برعکس مرد نہ صرف ایک سے زائد بیویاں بھی رکھ سکتا تھا بلکہ اس کے ساتھ داشتاؤں سے بھی ناجائز تعلقات استوار کر نے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔بادشاہ عالی شان پُرشکوہ زنان خانہ رکھتے تھے۔معزز عہدیداران بھی کئی بیویاں اور عیش پرستی کے لیے آشنا رکھا کرتےتھے۔ایک مرد کثیر عورتوں سے شادی کرسکتا تھااور اس عمل پر کوئی بازپرس نہیں کی جاتی جب کہ عورت نہ صرف ایک محروم طبقہ تھی بلکہ اس سے ان کے بنیادی حقوق بھی چھین لیے جاتے تھے۔

شادی بیاہ

چین میں شادی مشرقی طریقے پر کی جاتی یعنی لڑکے اور لڑکی کے والدین آپس میں نسبتیں طے کرتے ،خود لڑکے اور لڑکی کو اس میں بولنے کا کوئی اختیار نہ تھا۔شادی کے وقت لڑکے اور لڑکی کی پتری 111 ملانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔112 چینی دورِ قدیم میں مرد وعورت کی شادی میں باہمی پیارومحبت کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی؛ اس کا مقصدصرف صحت مند جوڑے کو اولاد کے حصول کے لیے ایک ساتھ ملانا تھا۔ مرد کا کسی عورت سے شادی نہ کرنا ایک غیر اخلاقی اور برا فعل سمجھا جاتا تھا؛ کنوارہ پن آباؤاجداد کی نظر میں ایک جرم گردانا جاتا تھا، ریاست اور معاشرہ اس فعل کو کبھی معاف نہیں کرتا تھا چاہے اس کا تعلق مذہبی رہنماؤں کے طبقے سے ہی کیوں نہ ہو۔ایامِ قدیم میں خصوصی سرکاری عہددار منتخب کیے جاتے جن کی ذمہ داری تھی کہ دیکھے کون سا لڑکا تیرہ سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے اورآیا عورتیں بیس سال کی عمر کی ہوچکی ہیں یا نہیں۔113

2357 سے 2208 دورِ قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے "یائو (Yaou)"اور "شون(Shun)"کے ایام ِبادشاہی میں شادی بیاہ کی رسم مذہبی یا سماجی طور پر بڑے پیمانے پر منعقد نہیں کی جاتی تھی، البتہ جہیز عام طور پر بہت زیادہ دیا جاتا تھا۔ایک ہی آبائی سلسلے سے تعلق رکھنے والے لڑکا و لڑکی کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں رکھی جاتی تھی۔سلسلہ شاہی "چئو (Chou)" کے دور میں شادی بیاہ کی رسم مزید پیچیدگیوں کا شکار ہوگئی تھی جو کم درجے کی تبدیلی کے ساتھ "منچو(Manchu)" کے دور حکومت تک قائم رہی تھی۔اس کے علاوہ شادی بیاہ منعقد کرنے کے اصول اور رسوم و رواج قدیم دور سے نسل در نسل بغیر کسی بڑی تبدیلی کے منتقل ہوتے رہے اور بالآخر چین میں سماجی بنیادوں پر قبول کرلیا گیا تھا۔ 114

جزیرہ ٹانی وان (جس کو اہلِ فرنگ فارموسا کہتے ہیں)میں شادی کا انوکھا ہی انداز تھا ۔اس جزیرے کے اصلی باشندوں کے درمیان بیاہ طرفین کے عشق سے ہوتا تھا اوراس کی صورت یہ تھی کہ جب کوئی نوجوان کسی لڑکی کو پسند کرتا تو پانچ سات روز تک اس کے پیچھے بانسری بجاتا چلاجاتا تھا۔ اگر جذبہ عشق نے لڑکی کے دل کو کھینچا اور اسے وہ لڑکا پسند آگیاتو وہ لڑکی اسے اپنے والد کے پاس لے جاتی اور کہتی کہ میں اس سے راضی ہوں مجھے اس سے بیاہ دو۔غرض رسومات کے بعد اسی تاریخ سے دولھا اپنے سسرال میں سکونت اختیار کرتاتھا ۔ اسی سبب سے وہاں کے باشندے بیٹی کی تمنا کرتے تھےکیوں کہ بیٹی کا شوہر بیٹے سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ 115

اُس دور میں رسمِ عقد کے لیے ماں باپ کی رضامندی لازمی شرط قرار دی گئی تھی۔دوسری شرط شادی بیاہ کے بندھن میں جڑنے والے دونوں گھرانوں کے مابین معاملات طے کرنے کے لیے دلال کا ہونا لازمی سمجھا جاتاتھا۔جب کبھی کوئی دو خاندان آپس میں نکاح و بیاہ کے ذریعہ سے رشتہ داری کی خواہش کرتےتو ان دونوں کے درمیان تیسرے فرد یا گروہ کی جانب سے گفت وشنید کا سلسلہ طے کیا جاتاتھا، تیسرا فرد یا کوئی مرد ہوتا یا عورت ہوتی یا پھر دونوں ہی اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دونوں گھرانوں میں سے رشتہ بھیجنے والافریق بھی بات چیت بڑھانے میں اپنی جانب سے حصہ ملاتا تھا۔اس دور میں ایک ہی خاندانی نام رکھنے والے گھرانوں کے مابین شادی نہیں کی جاتی تھی، اس روش کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی تھی۔ شادی کی عمروں کا تعین سماج کی جانب سے طے شدہ تھا، اس میں آئین و قانون کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔کنفیوشس (Confucius) شادی بیاہ کے ضابطوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا تھا کہ:"یہی وہ اصول و ضوابط ہیں جس کی تلاش دور قدیم کے بادشاہ جنت کے راستوں میں کیا کرتے تھےاور انسان کی تمناؤں کو درست سمت میں ڈھالتے تھے۔اس لیے، جس شخص نے بھی ان قواعد و ضوابط کو نظر انداز کیا یا ان کی خلاف ورزی کی ، ایسا شخص ایک بے جان انسان کی مانند ہے، اور جس نے ان قوانین کی رو کو پالیا ، وہ ایک زندہ انسان ہے۔" 116

ازدواج سے قبل لڑکی کو روز مرہ کے معمولات سے بالکل الگ تھلگ کرکے گوشہ گیر کردیا جاتا تھا۔ اس کے ہونے والے شوہر کو اسے دیکھنے کی ہرگز اجازت نہیں تھی، کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ دولہا اپنی دلہن کو پہلی مرتبہ اسی وقت دیکھ پاتا جب شادی کی تقریب میں وہ اپنا گھونگھٹ اٹھاتی تھی۔تقریب عقد نکاح کے بعد دلہن اپنے شوہر کے ساتھ ہی زندگی بسر کیا کرتی یا پھر اس کے شوہر کے باپ کے گھر کے قریب ہی رہائش کا انتظام کردیا جاتا تھاجہاں وہ اپنے شوہر اور اس کی ماں کی حکم برداری اور جبری پرمشقت زندگی گزارنے میں مجبور ہوا کرتی تھی۔ شادی شدہ غلامی کا یہ سلسلہ زندگی کے ایام کے ساتھ اسی طرح جاری و ساری رہتا یہاں تک کہ وہ اپنے بیٹوں کی شادی کرتی اور پھر غلامی کی یہ طوق وہ اپنے بیٹوں کی بیویوں کے سروں پر تھوپ دیتی۔ 117

شادی کی رسم کو جنت وزمین اور دولہا کی آباء کی پرستش کرکے مزید پختہ کیا جاتا تھا۔ ان کے مقبروں کے سامنےنو بیاہتا جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری و راست گوئی کا عہدوپیمان کرتا اور پھر دو حصوں میں کاٹے گئے خربوزے میں پیش کئے گئے نشہ آور مشروب پی لیا کرتاتھا، اس رسم کی ادائیگی اس بات کی جانب نشاندہی کرتی تھی کہ انہوں نے اپنے مقدس عہد کو مہربند کردیا ہے۔ بیوی شوہر کے گھرانے کی مالکن ہو اکرتی تھی، گھر میں بجالانے والی عبادات میں اپنے آباؤاجداد کی پرستش کے ساتھ شوہر کی آبائی روحانی قوتوں کی عبادت کیا کرتی تھی۔ اس دور میں ایک اصول وضع شدہ تھا کہ سب سے بڑا بیٹا خاندان کا جانشین ہوگا۔ 118

طلاق

قدیم چین میں عورت کو کسی بھی وجہ سے طلاق دے دی جاتی تھی، بانجھ پن سے لے کر باتونی ہونے تک کسی بھی صورت میں علیحدہ کردیا جاتا تھا؛ وہ خود اپنے شوہر کوطلاق نہیں دے سکتی تھی، لیکن وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر والدین کے پاس واپس لوٹ سکتی تھی، باوجود اس کے کہ یہ عمل سب سے آخر ی معاملہ ہوا کرتا تھا۔ 119بیوہ کو عقد ثانی کی عموماً اجازت نہ تھی۔اوائل میں ان کے ہاں بھی ہندؤوں کی طرح ستی کی رسم رائج تھی۔ 120 چین کی محفوظ و تحریر شدہ تاریخ کے مطابق اس بابت کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ شادی شدہ مرد اور غیر شادی شدہ عورتوں کے مابین ناجائز تعلقات کی بھی کثرت تھی جو پہلی بیوی کو طلاق دینے کا سبب ٹھہرتی تھی۔

عصمت

قدیم چین میں پاکیزگی و عصمت کی بڑی قدروقیمت تھی اور بیٹیوں کو اس کی حفاظت پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ اس بات کی سختی سے تاکید کی جاتی تھی اور معاشرے میں فخر کا باعث بھی سمجھا جاتا تھا کہ "چینی لڑکیاں اس حوالے سے جانی جاتی ہیں کہ کسی غیر مرد سے حادثاتی طور پر چھو جانے سے اگران کی عزت و تکریم اور پاکیزگی کو نقصان پہنچتاہے تووہ اس شرمندگی سے اپنی جان لے لیا کرتی ہیں۔"لیکن غیر شادی شدہ مرد کی پاک دامنی کے لیے کوئی قوانین لاگو نہیں تھے۔یہ عام عادت تصور کی جاتی تھی کہ کوئی مرد طوائف کے گھر جائے اور اس عمل کو صحیح سمجھا جاتا تھا۔ مردوں میں جنسی عمل کی بھوک اور ضرورت کو عام سمجھا جاتا اور اس کی اجازت بھی بغیر کسی شرم و حیا کے دی جاتی تھی۔121وہ لڑکیاں جو ایسے مردوں کے ساتھ ملوث ہواکرتیں اپنے ناجائز تعلقات کو سزا کے ڈر سے چھپایا کرتی تھیں، لیکن مردوں کے ساتھ اپنی ناپاک جنسی ہوس کو پورا کرنے میں پیش پیش ہوا کرتی تھیں۔

جنسیت

پہلی صدی قبل مسیح کے چینی" داؤمتی(Daoist) "فلسفہ میں جنس کی تقسیم "یِن(Yin) "اور "یینگ(Yang) "کے طور پر کی گئی تھی۔ حقیقت ِ مونث کو"یِن(Yin) "کے نام سے موسوم کیا گیا تھا ور اسے ملائم، مغلوب، بے نور اور مجہول سمجھا جاتا اور اس کی علامت پانی کوتصور کیا جاتا تھا۔جنس مذکر کی اصل بنیادکو "یینگ(Yang) " کہا جاتا تھا،اسے سخت، چاق و چوبند، روشن اور علامتی طور پر آگ اور آندھی سے تشبیہ دی جاتی تھی۔عورتوں کے متعلق یہ تصور تھا کہ ان کے اندر بڑی مقدار میں "یِن(Yin) " موجود ہے اور مرد صفتِ یینگ(Yang) سے پُر ہے۔قدیم چینی باشندے یہ سمجھتے تھے کہ مرد و عورت دونوں کے لیے اپنی مختلف طاقتوں کو ایک دوسرے میں منتقل کرنا انتہائی ضروری تھاجس کے لیے انہیں جنسی عمل میں زیادتی کرنا ضروری ہوتا اور متعدد عورتوں کے ذریعے شہوت کو پورا کرنا پڑتا تھا۔مرد کے لیے جنسی فعل کے دوران عورت سے خصوصیات ِ "یِن(Yin) " حاصل کیے بغیر جوہر ِ"یینگ(Yang) "سے جلد فراغت پاجانا خاص طور پر غیر صحت بخش تصور کیاجاتا تھا۔770 سے 256 قبل مسیح کے دور ِمؤخّر سلسلہ شاہی "زہو (Zhou)"میں مردوں کو داشتہ عورتوں سے ناجائز تعلقات استوار کر کے اپنے اندر صفت "یِن(Yin) " کو بڑھانے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔220 قبل مسیح سے 25 عیسوی دور تک جب چین میں کنفیوشنزم (Confucianism)نے برتر و رائج فلسفہ کی صورت اختیار کرلی تھی، اس میں لوگوں کو اس بات کی تعلیم دی گئی کہ ناجائز جنسی تعلقات ایک گناہ کا کام ہیں اور اسے اپنے گھر کے کمرے میں ہی انجام دینا چاہیے۔شوہر اور بیوی کو آپس میں اپنے شادی کے پلنگ کے علاوہ باہر ایک دوسرے کو چھونے کی اجازت نہیں تھی۔ زوجین کے مابین مباشرت افزائش نسل سے مشروط ٹھہرائی جاتی تھی اور اسے خاندانی استحکام کے معنوں میں لیا جاتا تھا۔

مردوں کو داشتہ عورتیں رکھنے کی اجازت تھی، لیکن کنفیوشنزم (Confucianism)نے اس قسم کے تعلقات کے لیے متعدد طریقہ کار وضع کیے تھے جن میں اس بات کو جانچنا بھی تھا کہ ایک مرد کتنی جلدی داشتاؤں کے ساتھ جنسی عمل کرنے کی جانب لوٹتا ہےاور آیا کہ وہ عورتیں اس کے بستر پر جنسی فعل مکمل کرنے کے بعد بھی ٹھہرتی ہیں یا نہیں۔25 سے 220 عیسوی دور تک مشرقی حصے میں قائم سلسلہ شاہی" ہین (Han)"میں " داؤمتی(Daoist) " فلسفہ نے ایک مرتبہ پھر اڑان بھری اور طاقت ور فلسفہ کے طور پر رائج ہوگیا تھا، اس دور میں ایک مرتبہ پھر ناجائز جنسی افعال کو بھرپور تقویت دی گئی تھی۔ محققین اور معلمین جنسیت پر مبنی کتابچے مرتب کرتےجس میں جنسی عمل کے دوران سانس لینے کا طریقہ بتایا گیا تھا جس کے ذریعے مرد زیادہ دیر تک جنسی عمل میں مصروف رہ سکتا اور عورت کے رد عمل کو بڑھاوا دے سکتا تھاتاکہ مرد و عورت دونوں ایک دوسرے میں "یِن(Yin) "اور "یینگ(Yang) "کی قوت منتقل کرسکیں۔جنسی فعل کے متعلق یہ تصور بھی قائم تھا کہ اس کے ذریعے لمبی عمر کا حصول ممکن ہے۔اُس دور میں سُرخ رنگ عورتوں سے اور سفید مردوں کے ساتھ منسلک کیا جاتا تھا۔ 122یہ وہ لایعنی ابحاث تھی جو چینی لوگوں میں عام تھیں اور ناجائز تعلقات کی یہ صورت جو زنا بالرضا کی بنیاد تھی اس نے قدیم چینی معاشرہ کو حرام کاری کا گڑھ بنا دیا تھا جہاں پر مرد گاہک اور ہر عورت رکھیل تھی مگر کیونکہ اس زناکاری کے پیچھے دینی فلسفہ موجود تھا اس لیے مرد و زن اس کو نیکی سمجھ کر خوب خوش دلی سےبطور مذہبی فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے ۔

کثیر الا زدواجی

قدیم چین کے مغربی حصہ میں قائم شاہی سلطنت "زہو (Zhou)" میں بادشاہ کو ایک رانی، تین ملکاوٴں، نو(9)دوسرے درجہ کی بیویوں ، ستائس (27)تیسرے مرتبہ کی ازواج اور اِکیاسی(81) داشتہ عورتوں تک رسائی حاصل ہوا کرتی تھی۔اس ترتیب کا بنیادی مقصد اس بات کا خیال رکھنا تھا کہ بادشاہ کی خاص عورتیں دیگر عورتوں کے ایّام حیض کا حساب رکھ سکیں اور بادشاہ کے ساتھ اُن کے گزارے جانے والے وقت کو متعین کرسکیں۔ اونچے درجے کے گھرانوں میں مرد کو ایک ہی بیوی رکھنے کی اجازت تھی لیکن دلہن اپنی کنیزوں کا شوہر سے مستقبل کے لیے بطور بیوی اور آشنا رکھنے کے لیے تعارف کرواتیں تاکہ غیر متغیر طور پر طاقت بڑے حرم میں منتقل ہو سکے۔"تا-لو-فو(Ta-lo-fu)," کے مطابق دورِ "ٹینگ (T’ang)"میں مرتب شدہ جنسی عمل کا کتابچہ اور موجودہ دور کا مواد اور اس میں مزید پُرشِکوہ اضافہ اونچے درجوں کے گھرانوں میں جنسی بے راہ روی میں اضافہ کا سبب تھا: "روزانہ رات کو نو (9)عام ملکائیں بادشاہ کے ساتھ وقت گزارتیں، چودھویں رات کے وقت عورتیں بادشاہ کی خواب گاہ میں ہوا کرتی تھیں۔ یہ قدیم دور کا طریقہ کار تھا ، انتظار میں بیٹھی بیویاں و آشنائیں ان تواریخ کا اپنے سیندوری آلہ رنگ کے ساتھ بناؤ سنگھار کرکے اچھی طرح حساب رکھتیں تھیں۔ "نان –مئی (Nan-mei)"نامی شاہی دربار کی خلوت گاہوں میں موجود پردہ نشیں بیویوں کی تعداد تین ہزار(3000) تک تھی، تمام کی تمام بیویاں بادشاہ کے پاس اپنی اداؤں کے جوہر دکھانے ایک ساتھ آیا کرتی تھیں۔

عصمت فروشی کے حیا سوز دھندوں میں ملوّث ہونے کےسب سے زیادہ ثبوت ساتویں اور تیسری صدی قبل مسیح سے ملتے ہیں، یہ اس امر کی جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ اُس دور میں متوسط طبقہ کی شاہانہ طرز زندگی اور آسودہ حالی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور ان کے پاس مزید اتنی رقم موجود ہوا کرتی جس کے سبب وہ مستقل بنیادوں پر اضافی عورتیں کو اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔123 ترقی کے علاوہ غریب و متوسط افراد کا امیرہوجانا اور اس کے سبب جنسی بے راہ روی میں آسانی سے ملوث ہوجانا ایک ایسا عمل تھا جس کی نظیر آج بھی دنیا میں عام نظر آتی چہ جائے کہ اس معاشرہ میں جہاں اس بدکاری کے پیچھے داوست (Daoist)کا نظریہ بھرپور انداز میں موجود تھا۔

روز مرّہ کی زندگی

چین کے شاہی دور میں افراد کی اکثریت سرحدوں پر رہائش پذیر تھی اور کھیتی باڑی کا پیشہ اختیار کیے ہوئے تھے۔دیہاتی علاقوں میں رہائش پذیر چینی عوام نے عظیم چینی سلطنت کی بنیادوں کو مستحکم کیا تھا۔دیہات میں رہنے والے کسانوں کی رہائش خاندانی ملکیت میں موجود حفاظت سے آراستہ کی ہوئی زمینوں پر مشتمل تھی۔ اگرچہ یہ لوگ کسی بادشاہ کے زیر سایہ نہیں ہوتے لیکن پھر بھی محصولات ادا کیاکرتے ، فوج میں اپنی خدمات پیش کرتے اور ہر سال کچھ ایام عوامی فلاحی امور جن میں شاہراہوں اور نہروں کی تعمیر شامل ہوتی ، سرانجام دیا کرتے تھے۔کسانوں و کاشت کاروں کی بڑی بغاوت کی وجہ سے زیادہ تر بادشاہ دیہاتی کسانوں پر زیادہ بوجھ لادنے کے بارے میں محتاط ہوچکے تھے کیوں کہ اسی بغاوت کے نتیجے میں 207 قبل مسیحی دور کے تعلق رکھنے والے شاہی سلسلے "قِن(Qin)" کی حکومت کا تختہ پلٹ گیا تھا ۔ دیہاتی کسان ایک سخت زندگی گزارتے تھے۔زیادہ تر کھیتی باڑی کے امور ہاتھ سے ہی انجام دیے جاتے تھے، زمین کی کھدائی سے لے کر کھاد پھیلانے تک تمام امور کی تکمیل ہاتھ ہی سے کی جاتی تھی۔کاشت کاروں اور ان کے گھرانوں کے متعدد امور میں فصلوں تک پانی کی باقاعدہ رسائی مہیا کرنا بھی تھی۔وہ لوگ ٹوکریوں کے ذریعے فصل تک پانی لے جاتے یا پھر آبپاشی کے لیے ہاتھ سے چلانے والی مشین استعمال کیا کرتے تھے۔چین کے شمالی خطہ میں موجود پہاڑیوں میں کسان تنگ مرتفعی زمین میں فصل لگایا کرتےجو پہاڑی کے دامن میں زمین کھود کر بوئی جاتی تھیں۔ان بلند زمینوں پر انسانی طاقت پرانحصار کرتی ہوئی مشینوں کو استعمال کیاجاتا اور ان کے ذریعے کنوؤں اور نہروں کے پانی کی رسائی فصلوں تک دی جاتی تھی۔چین کے جنوبی حصہ میں موجود چاول بونے کے مقامات پر بہترین طرز پر مرتب شدہ نظام ِآبپاشی بارہ دری کے ذریعے تشکیل دیا جاتا تھا۔124

غذا

کھانا پکانا ایک فن ہے جس کا چین میں آغاز تقریباً تین ہزار(3000) سال سے بھی زیادہ پہلے ہوچکا تھا۔ قدیم چینی باشندے جو غذائیں تیار اور استعمال کیا کرتےوہ مختلف خطوں کی طرح مختلف اقسام میں منقسم تھیں۔ چینی طرز ِطباخی اور اُس طریقہ کی باقیات چینی سماج کا اہم جز گردانی جاتی تھیں۔قدیم دور میں کھانے پکانے کا عمل مختلف سماجوں کے مابین فرق کو واضح کرنے کی سرگرمی بھی سمجھی جاتی تھی۔کھانا اور پکانا قدیم چینیوں میں خصوصی حیثیت رکھتا تھاجس کے ثبوت سلسلہ شاہی "شینگ(Shang)"کے حکمران "ٹینگ (Tang)"کے مخطوطہ سے بھی ملتے ہیں۔ اُس نے ایک مشہور باورچی "یی یین (Yi Yen)"کو اپنا اہم ترین وزیر بنایا ہوا تھا۔مخطوطات سے اس حوالے سے بھی ثبوت ملتے ہیں کہ مغربی خطہ میں "زہو(Zhou)" خاندانِ سلاطین کے دور میں دو ہزار (2000)سے بھی زیادہ افراد پر مشتمل شاہی دربار کا عملہ بادشاہ اور اس کی ملکہ کے لیے پکوان تیار کرنے میں مصروف عمل رہاکرتاتھا۔چینی باورچیوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ یہ سلسلہ سلاطین "شینگ(Shang)"میں متعارف ہوا اور اسی دور کے حوالے سے ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ چینی اُس وقت سے بھاپ دینے، ابالتے یا ہلاکر پکانے، تلنے اور زیادہ روغن میں ڈال کر تلنےکے ہنر میں ماہر ہوچکے تھے۔چاول اور گندم ملکی پیداوار میں شامل تھی، لیکن چینی متوازن خوراک کو جسمانی وروحانی ترقی کے لیے اہم سمجھتے تھے وہ لوگ سبزیاں ، پھل ، گوشت اور مچھلیوں کو بھی اپنی روز مرّہ کی خوراک کا حصہ بنایا کرتے تھے۔ 125

ضیافت و پُرتکلف کھانے بھی چینیوں کی زندگی کا اہم حصہ تھے، امراء عمدہ شاہی دعوتوں سے لطف اندوز ہونے کا اکثر اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس کے برعکس ، سال کے اکثر حصہ میں عام عوام سادہ کھانوں پر گزارا کیا کرتے تھے جن میں لوبیا، اناج، اور مختصر گوشت کے ساتھ سبزیاں بھی استعمال کی جاتی تھیں، تاہم پھر بھی چین میں چاول ہمیشہ سے اہم اور پسندیدہ خوراک رہی ہے۔شمالی صوبۂ جات میں مقیم باشندے زیادہ تر گندم کے ساتھ باجرا ملا کر تناول کیا کرتے تھے۔امرا ءاور غرباءدونوں اپنے پکوانوں کو مختلف جڑی بوٹیوں اور مصالحہ جات کے استعمال سے خوش ذائقہ بنایا کرتے تھے۔ایندھن کی بچت کی غرض سے غذا کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کا ٹ کر آہنی تلنے کے برتن (wok) میں کچھ ہی منٹوں کے اندر پکا لیا جاتاتھا۔126

کھانے کوبانس کی لکڑی ، تانبے اور مٹی سے بنائی گئی رکابیوں میں پیش کیاجاتا تھا۔غذا کو چینی کانٹا (Chopsticks) یعنی کھانے کی تیلیوں کی مدد سے تناول کیا جاتا تھا،بعض افراد ان تیلیوں کو ہاتھی دانت کی مدد سے آرائش کیا کرتے تھے۔ایسا محسوس ہوتا کہ کھانا خود ہی انتہا ئی مرغوب طور پر تیلیوں سے تالو کے مطابق اندر جا رہا ہے۔کاشت کار خنزیر اور پالتو مُرغیوں کو گھروں میں پالتے تھے ،شمالی علاقوں میں زیادہ تر باجرے پر انحصار کیاجاتا جبکہ جنوبی چینی باشندے زیادہ تر چاول بطور خوراک استعمال کیا کرتے تھے۔شاہی افراد گراں قدر ضیافتوں سے لطف اندوز ہوا کرتے جس میں میٹھے، کھٹے، نمکین ،مسالےدار چٹپٹے اور کڑوے، پانچ ذائقوں پر مشتمل پکوان شامل ہوا کرتے تھے۔ دیگر ممالک کی طرح قدیم چین میں بھی شراب تمام طبقوں میں لازمی استعمال کی جاتی تھی، اُس دور کے معلمینِ اخلاق اپنی قوم کو شراب میں اس قدر منہمک دیکھ کر ماتم کیا کرتےتھے،127 کیونکہ وہ لوگ اس بات سے اچھی طرح باخبر تھےکہ شراب کا استعمال انسان کو گمراہ اور آوارہ بنادیتیاہے، نشے میں آنے کے بعد لوگ غیر اخلاقی افعال میں ملوث ہوسکتے ہیں مثلاآبرو ریزی، بے حیائی، چوری چکاری اور جھگڑا و فساد جیسے سنگین جرائم کا رتکاب اس کے نتیجہ میں ہوا کرتا تھا ۔اونچے طبقہ کے افراد گوشت کی متعدد اقسام سے تیار کردہ پکوانوں کو بطور خوراک استعمال کرتے تھے جس میں گھوڑا، گائے، مرغی، سور، بھیڑ، اور ہرن کا گوشت شامل ہوتا، جبکہ مچھلی ان تمام اقسام لحم میں ایسی غذا تھی جسے ہر خاص و عام استعمال کرتا تھا۔اس کے باوجود مچھلی کو اہم تعطیلات میں ہی بطور ضیافت استعمال کیاجاتا تھا۔اس کے علاوہ شادی بیاہ اور دیگر متعدد اہم تقاریب کے لیے بھی مختلف النوع پکوان تیار کیے جاتے تھے۔ خصوصی غذائیں پرتکلف ضیافتوں میں پیش کی جاتی تھیں۔ بہرحال، طبقہ امرا ءکی ضیافتوں کو خصوصیت کے ساتھ سجایا جاتا تھا جن میں کئی کئی پکوانوں کو رکھا جاتا اور لوگ اپنی پسندیدہ غذا باسانی حاصل کرسکتے تھے۔متعدد اقسام کی سبزیوں کے علاوہ، تلی ہوئی بطخیں، تیتر، اور جنگلی سوربھی دعوت مہمانی کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔بعض اوقات غیر معمولی کھانے جیسے ریچھ کے پنجے بھی دعوتوں میں شامل کیے جاتے تھے۔ 128

قدیم اور موجودہ چین کی انوکھی غذائیں

چین میں کتے کو بطور غذا استعمال کرنے کےثبوت 1700 قبل مسیحی دور سے ملتے ہیں، اس کا آغاز ملک کے شمالی خطوں میں ہوا تھا۔قدیم چین میں کتوں کو گھروں میں مختلف امور کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ قدیم چینی کتوں کو زرعی اراضی کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے ،وہ کتوں کا شکار کرتے اور انہیں ذبح کرکے کھا بھی لیا کرتے تھے۔علاوہ ازیں، کتے اور اُن کا گوشت اجداد اور خداؤں کو پیش کی جانے والی قربانی میں بھی اہم جز سمجھا جاتا تھا۔129جنوب مشرقی چین کے "گوانگ ڈونگ (Guangdong)"اور "گوانگژی (Guangxi)"نامی صوبوں میں بعض لوگ خاص طور پر بوڑھے افراد بلی کے گوشت کو سردی کے موسم میں استعمال کیا کرتے تھے، اُن کا کہنا تھا کہ بلی کا گوشت سردیوں میں جسم کا درجہ حرارت قائم رکھتا ہے۔یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ جنوبی چین میں موجود" گوانگ ڈونگ(Guangdong) "صوبے کے باشندے آج بھی دن میں دس ہزار (10،000) بلیوں کو کھا جاتے ہیں۔130

آبی غذاوٴں میں مچھلی کا سر ،آنکھوں کے ڈھیلے اور مخموری جھینگےشامل تھے۔ مخموری جھینگا ایک ایسی غذا تھی جس میں زندہ جھینگے کو شراب میں ڈبو دیا جاتا پھر اس کا سر الگ کرکے کھالیا جاتا تھا۔دریائے زرد (Yellow River) کی میٹھی و کھٹی مچھلی کو اس طور پرزندہ پکا لیا جاتا کہ پکنے کے بعد بھی اس کی سانسیں بحال رہتیں تھیں۔یہ طریقہ کار آج بھی چینیوں میں بہت زیادہ مشہور ہے اور وہ لوگ ایسی غذائیں بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

صوبہ " گوانگ ڈونگ(Guangdong) " کی مشہور غذا ہزار (1000)سال پرانے انڈے تھےجو بطخ کے انڈوں پر چونے ، راکھ ، اور گیلی مٹی کی تہہ چڑھا کر سو (100) دن تک نمکین پانی میں رکھ دیے جاتےیہاں تک کہ انڈے کی زردی ہرے رنگ میں اور سفیدی گہرے کتھئی رنگ کے لیس دار مادّے میں تبدیل ہوجاتی تھی۔بعض لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ان انڈوں کو گھوڑے کے بول یعنی پیشاب میں ڈبو کر رکھا جاتا تھا۔ 131 اسی طرح کی کئی چیزیں جن کو دیگر معاشروں میں گندی اور غلیظ اشیاء سمجھا جاتا وہ چینی معاشرہ کی عام غذاؤں میں شامل تھیں۔ کیکڑے، بچھو، سانپ، کیڑے مکوڑے اور کئی دیگر اشیاء جن میں بالخصوص چوہے اور چمگادڑیں شامل ہیں وہ بھی چینی غذاؤں میں آج کی طرح اس دور میں کھائی جاتی تھیں جن کی وجہ سے چینی لوگ طاعون اور اس کی مثل دیگر وبائی بیماریوں کا اکثر شکار رہتے تھے ۔

روایتی تہوار اور کھیل

چینی جنتری میں متعدد ملکی تہواروں کی تواریخ بھی درج ہوا کرتی تھیں۔ سب سے بڑا تہوار نئے سال کی آمد کا منایا جاتا تھا جو موسم بہار کی شروعات کی نشاندہی کرتا تھا۔اس تہوار میں پندرہ (15)دن تعطیلات ہوا کرتیں اور خاندان کے افراد ایک جگہ مل بیٹھتے، باہمی تحفہ تحائف کا تبادلہ کیا جاتا اور پرلطف پکوانوں کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ ایک اور اہم خاندانی تہوار بھی منایا جاتا تھا جسے "قِنگ مِنگ (Qingming)"کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اس موقع پر لوگ اپنے خاندانی آباء کی قبروں کی صفائی ستھرائی کرتے اور آبائی روحانی قوتوں کے لیے مختلف کھانے نذر کیا کرتے تھے۔132موسم بہار میں بھی ایک تہوار منایا جاتا تھا جس میں "زہینگ (Zheng)"کے باشندے اپنے علاقوں میں بہنے والے دونوں دریاؤں کے مقام پر جاتے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کیاکرتے جس کے دو مقاصد تھے، پہلا یہ کہ مرجانےوالے افراد کی ارواح کو بلانا اور اطمینان دلانا تھا، اور دوسرا شیطانی اثرات کو زائل کرنا تھا ، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی زمین میں روحِ خبیث کے رسوخ کی وجہ سے زلزلوں کا آغاز ہوجاتا ہے۔ 133

چینی مشہور فلسفی موذی (Mozi)نے چار مشہور چینی ریاستوں میں تہواروں کی بے پناہ مقبولیت کے متعلق بیان کیاہے، ان ریاستوں میں یان (Yan) (شمال)، قی (Qi) (مشرق)، سونگ(Song)(وسطی )، اور چو (Chu) (جنوب) شامل تھیں۔ موذی (Mozi)کے ایک جملے نے ان خوشیوں کی تقاریب کی درجہ بندی اور طریقہ کار کے متعلق بیان کیا ہے کہ یہ تہوار مردو عورت دونوں کو اپنی جانب کھینچتا ہےتاکہ دونوں ایک دوسرے کا اچھی طرح نظارہ کرسکیں۔قدیم چین کے ہر حصے میں وہ تمام تہوار جن کا انعقاد کھلی جگہوں میں کیا جاتا تھا، تمام قبائل اس میں شرکت کرتے اور عورتیں بھی ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتیں تھیں۔زیادہ تر تہوار منعقد کرنے کے اوقات زرعی پیداوار کی گردش کو مد نظر رکھتے ہوئے معین کیے جاتے تھے۔ان تہواروں کو منانے کا بنیادی مقصد نسل ِانسانی کا فروغ اور زرعی زمین کی ترقی کو پختہ کرنا تھا ، مذہبی رسومات میں بھی ان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، لیکن خدائی قوتوں کے ساتھ تعلق میں زندگی اور موت کےمتعلق دیگر امور کی دعائیں بھی کی جاتی تھیں۔ان منعقد کردہ مجالس کے لیےپسندیدہ مقامات دریا ؤں کے کنارے، درختوں کے جھنڈاور ایسے مقامات جہاں پہاڑیاں اور پانی دونوں موجود ہوں ، منتخب کیے جاتے تھے۔مردو خواتین، بوڑھے و جوان افراد تمام بذات خود اس میں شمولیت اختیار کرتے اور محظوظ ہوا کرتے تھے، لیکن شادی شدہ مرد و خواتین بہت ہی زیادہ مسرور و شاداں ہوا کرتے تھے۔134قدیم چین میں منائے جانے والے کچھ مقامی تہواروں کے احوال درج ذیل ہیں:

نئے سال کی آمد

قومی تہواروں میں سب سے اہم تہوار نئے سال کی آمد کے دن منایا جاتا تھا، جس کی شروعات کی تاریخ کا اندازہ پہلے قمری مہینے کی پہلی سے پندرہ (15)تاریخ کے دوران لگایا جاتا تھا۔ نئے سال کی آمد کے موقع پر پٹاخے پھاڑے جاتے اور آتشی تماشےپیش کیے جاتے تھےاور "زاوٴ شین(Zao Shen)" کی جنت کی جانب رفتار مزید تیز کرنے کے لیے رسومات ادا کی جاتی تھیں۔آتشی تماشے شیطانی دیوتاؤں کو دور کرنے کے لیے بھی ادا کیے جاتے تھے۔پٹاخوں کے لیے خشک بمبوکو علی الصبح آگ میں پھینکا جاتاتھا جو جلتے ہوئے دھماکا خیز آواز پیدا کرتا تھا۔اگر کوئی گھرانہ پٹاخے پھاڑنے کا خرچہ اٹھانے کے قابل ہوتا تو ایسے لوگ اپنے گھروں میں اس کا اہتمام کیا کرتے تھے، لیکن پٹاخے پھاڑنے کا طریقہ کار اور ان کی اقسام ہر قصبہ میں جداگانہ تھیں۔

سالِ نو کی آمد پر لوگوں کو خنزیر، مرغیاں، اور بھیڑ بڑے پیمانے پر ذبح کرنے کی اجازت بھی دی جاتی تھی تاکہ آنے والے سال کے لیے زمین کی زرخیزی برقرار اور پختہ رہے۔اس مذہبی تہوار میں "شین ڈزو(Shen Dzu)"نامی مقدس خنزیرکو منتخب کیا جاتا، اس کے لیےموجودہ تمام فربہ خنزیروں میں وزن کا مقابلہ کیا جاتا اور جو اس مقابلے میں جیت جاتا اسے مقامی خدا کے حضور قربان کردیا جاتا تھااور پھر اس کے بعد جو موزوں ہوتا اسے قربان کردیا جاتا اور یوں سلسلہ چلاتا رہتا تھا۔ 135

چینگ کا تہوارِ موسم ِ بہار

ریاست "چینگ (Cheng)"میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بڑے پیمانے پر دریائے چین (Chen)کے سنگم اور "وئی(Wei)"دریاؤں کے مقام پر جمع ہواکرتے تھے۔لڑکے و لڑکیاں یہاں ٹولیوں کی صورت میں جنس سلحب 136جمع کرنے کے لیے آیاکرتے تھے، دونوں آپس میں ایک دوسرے کو جوابی نغموں و گیتوں سے للکارتے ،اس دوران لڑکے اپنی قمیض کے دامن کو اوپر کی جانب موڑ لیتے اوردریائے "وئی(Wei)"کو عبور کیا کرتے تھے۔جب جوڑے آپس میں مل جاتےتو نئے محبت میں گرفتار لڑکا و لڑکی آپس میں ایک دوسرے کو یادگار ِعشق اور رسم منگنی کی علامت کے طور پر پھول پیش کرتے تھے۔یہ تہوار اس وقت منعقد کیا جاتا جب دریائے "چین (Chen)"اور "وئی (Wei)"موسم بہار کے پہلے مہینے میں لبالب بھرجاتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور تہوار اس موقع پر منعقد کیا جاتا تھا جب آڑو کے درخت پھول دار ہوجاتے اور پہلی بارش ہوجایا کرتی تھی۔ مزید برآں سال میں جنتری کے مطابق دوسرے مہینے میں دو زرعی تہوار بھی منائے جاتے تھے۔ریاست "چینگ (Cheng)"میں منتیں و قربانی، مختلف اقسام کے تطہیری عوامل، پھولوں کو جمع کرنا، دریا کو عبور کرنا، گیت کی شکل میں مکالمہ بازی کرنا، جنسی سماجی رسومات، اور منگنیاں تمام کے تمام رواج دریاؤں اور پہاڑوں سے منسوب موسم بہار کے تہواروں میں ایک ساتھ منائے جاتے تھے۔

لو کا تہوار موسم بہار

اس تہوار کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ: ایک دن اپنے چار شاگردوں سے بات چیت کے دوران کنفیوشس (Confucius)نے ان کی آرزو کے متعلق سوال کیا : کہ تم لوگ اس وقت اپنی صلاحیتیں کیسے استعمال کرنا چاہو گے جب بالفرض کوئی بادشاہ تم کو اپنی خدمات کے لیے نوکری پر رکھ لیتا ہے؟ان میں ایک شاگرد نےجواب دیا کہ اس کے لیے میں بہار کے ہر تیسرے مہینے میں موسم کے اعتبار سے الگ الگ تہواروں میں منفرد لباس کی وضع قطع کرکے اسے پہنوں گا ، تقاریب میں پانچ یا چھ بالغ مرد اور چھ یا سات نوجوان عورتوں کے ہمراہ دریا میں غسل کرنے ، بدلتی ہوئی بارش کی ٹھنڈک کو پیروں میں محسوس کرکے لطف اندوز ہوں گا، گنگناؤں گا اور واپس گھر آجاؤں گا، یہ سن کر کنفیوشس(Confucius) نے اس کی خواہش کو قبول کرلیا۔ وینگ چونگ (Wang Chung)اپنی لن ہینگ (Lun Heng)میں سمجھتا تھا کہ یہ بہار میں بارشی تہوار کی تفصیل بیان کی گئی تھی جس پر کنفیوشس (Confucius) کی آبائی ریاست "لو (Lu)"میں عمل کیا گیا تھا۔ اس تہوار میں جو افراد شمولیت اختیار کرتے وہ ناچنے والے اور موسیقار ہوا کرتے تھے جن کو اس تقریب کی رسوم کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ناچنے اور گانے والے دونوں گروہ چھ یا ساتھ افراد پر مشتمل ہوتے۔وہ لوگ گروہ کی صورت میں دریا کو عبور کرتے اور رواجی طور پر اجازت شدہ ناچ اور گیت پہاڑیوں پر کھڑے ہوکر گایا کرتے تھےجو خاص طور پر بارش کو اس مقام پر برسانے کے لیے ہوا کرتے تھے۔137

تہوار چین

تہوار چین (Chen)بُنائی کا کام مکمل ہوجانے کے وقت منعقد کیا جاتا تھا۔ قدیم دور میں مستعمل آلہ جات ، پنکھے اور سفید بگلے کے پروں سے گنگناتے ہوئے بُنائی کی جاتی تھی۔ ریاست یوان (Yuan) میں ناچنے والے گروہ بلند و پست زمین پر چلتے ہوئے بارش کی دعا کیا کرتے تھے۔ گویوں اور رقاصوں میں مردو عورت دونوں شامل ہوا کرتےتھے۔ یہ لوگ جس طرح دریائے" وِری (Wri)"کے کناروں میں جمع ہوتے اسی طرح یوان (Yuan) کی پہاڑیوں پر بھی مجتمع ہوجایا کرتے تھے، لڑکے لڑکیاں آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے، پھولوں کا تبادلہ ہوتا اور اپنے پیار کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔ جنسی مذہبی رسومات بھی تہوار میں ادا کی جاتیں تھیں۔بارش، پیدائش، منگنی کے تہوار گانے بجانےاور رقص و سرور کے ساتھ انجام دیے جاتے، یہ تمام تہوار پہاڑی یوان (Yuan) میں منائے جاتے تھے۔

تہوارِ بہار

چینی دارالسلطنت کے جنوبی مضافاتی علاقوں میں جب موسم بہار کامعتدل شب و روز کا دن آتا جو قدیم چینیوں کے نزدیک ابابیلوں کی واپسی کے اصل ایام تھے، توایک لومڑی، بھیڑ اور ایک خنزیر دیوتا "کاؤ مائی (Kao Mai)" کے لیے قربان کیے جاتے تھے۔ حکمران بذات خود اس موقع پر تہوار میں شرکت کرتے اور ملکہ دوسرے درجہ کی نو بیویوں اور ان کے علاوہ دیگر شاہی خاندان کی عورتوں سے بھی ملاقات کیا کرتی تھی۔ تہوار کا خاص تحفہ جو ایک پیالی شراب تھا، ان عورتوں کو پیش کیا جاتا جو بادشاہ کے آرام دہ پلنگ کا حصہ بن چکی ہوتی تھیں۔تیر کمان کے بکسے لائے جاتے اور ان خواتین کو دیوتا "کاؤ مائی (Kao Mai)"کے سامنے یہ بکسے پیش کیے جاتےتھے۔دریاؤں اور پہاڑوں کا تہوار بہار ، تطہیری رسومات، اشنان، مقابلہ بازی، اور ان کے علاوہ حَمَل کا تہوارتھا جو ابابیلوں کی واپسی کے موقع پر منایا جانے والا اصل تہوار تھا لیکن بعد میں اعلی درجے کی آداب و رسوم سے گھٹ کر سادہ قسم کے زرخیزی تہوار کی صورت اختیار کرچکا تھا۔138لوگوں کو جو بقیہ وقت میسر آتااسے پانسہ، تاش اور شطرنج جیسے ذہانت کے کھیل کے مقابلوں میں گزارا کرتے تھے۔ امیر کبیر افراد فرصت کے ان لمحات کو خش نویسی کتابت، شاعری کرنے اور موسیقی سننے میں گزارا کرتے تھے۔ 139

کھیل

قدیم چین میں کئی اقسام کے کھیل اور تفریح طبع کے اسباب میسر تھے۔تاریخ یہ واضح کرتی ہےکہ 2000 قبل مسیح میں کھیلنے کے مقامات کے اندر شاہین کا استعمال کیا جاتا تھا۔140کھیلوں کے ساتھ ، شکار اور خاص طور پر جال لگا کر پرندوں کا شکار مقبول ِعام وقت گزاری کے عوامل میں شامل تھا۔660 قبل مسیحی دور میں راسخ العقیدہ دریائے "وئی (Wei)"کی رانی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اسے بگلوں کے مقابلے دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔539 قبل مسیح میں چار گھوڑوں والی گاڑی عظیم ریاست "ٹسئو(Ts‘u)" میں شکار کے لیے استعمال کی جاتی تھی ۔شکار پر مشتمل یہ افعال ایک طرح کی جنگی تربیت دینے کے لیے بھی کروائے جاتےاور اس کے علاوہ ان کا مقصد کھیل کود بھی تھا۔534 قبل مسیحی دور میں "لو (Lu)"کے مقام پر منعقد ہونے والے ایک بڑے شکاری میلے کی تفصیل کو کافی کھول کر بیان کیا گیا ہے۔اس موقع پر بھی گھوڑا گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا جن کے پچھلے حصے میں متعدد تیر مخالف سمت میں رکھے جاتے، اور اس کے کنارے اوپر کی جانب رکھے جاتے تھے تاکہ تیروں کا دروازہ بن جائے، جس کی ایک جانب جھنڈا لہرارہا ہوتا تھا۔517 قبل مسیح میں ریاست "لو (Lu)" کےدو نامور عہدیدار وں کاآپس میں جھگڑا ہوگیا کیوں کہ ایک نے اپنے پرندوں پر دھاتی خاردار تاریں لگائی ہوئی تھیں جبکہ دوسرے عہد دار نے اپنے لڑاکا مرغے کے پروں میں بکھری روئی چسپاں کی ہوئی تھی تاکہ خدمات دینے پر مامور تصویر نویسی کرنے والے کوغیر واضح اور مبہم صورت نظر آئے۔ یہ بات یقینی تھی کہ "پروں پر روئی"ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں تھا کہ "سروں پر دھاتی خول چڑھا لیا جائے"۔307 قبل مسیح میں وزن اٹھانے کا مقابلہ پسندیدہ مشاغل میں شمار کیا جاتا تھا۔ "ٹس یِن (Ts’in)" نامی ریاست کے بادشاہ نے مقابلے میں بھاری وزن دار دھاتی تین پایوں والا ظرف اٹھا یا جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی جسمانی کیفیت کو برداشت نہ کرسکا اور مرگیا تھا۔اس کے علاوہ فُٹ بال سے ملتا جلتا گیند سے کھیلا جانے والا مقابلہ بھی کیا جاتا تھا۔بہر کیف یہ بھی ایک اصول اور ایک خوفزدہ امر تھا کہ امراء پر مشتمل چینی طبقہ اپنی تفریح کا سامان عیاشی، اور عورت میں ڈھونڈتا تھا۔141زناکاری، بدکاری، شراب نوشی اور دیگر قبیح افعال ان کی تفریحِ طبع کے خاص طریقے تھے جن پر عمل کرکے وہ اپنے نفس کو تسکین دینے کی کوشش کیا کرتے تھے لیکن اس کے نتیجہ میں جو بے حیائی اور ناجائز اولاد کی کثرت معاشرہ میں پھیلتی تھی اس سے خود ان کے گھر بھی محفوظ نہ رہا کرتے تھے۔

دورِسلسلہ شاہی "چئو(Chou)" میں ، شطرنج، تیز اندازی، طنبورا بجانا، تلوار آزمائی، مرغوں کی لڑائی اور مرتبانوں میں تیروں کو پھینکنے کا کھیل عام طور پر امراء اور فارغ لوگوں کے مشاغل میں شامل تھا۔اس کے علاوہ مزید پُرشوخ تفریحی مقابلوں میں تلوار بازی، گھڑ سواری، تیتر ، خرگوش ،جنگلی سُوَر، ہرن اور چیتوں کا شکار شامل تھا ۔ 142

لباس

چین کےپاس ایشیا اور بحرالکاہل میں مستعمل قدیم دورکے لباس کی باقیات موجود ہیں۔ 5000 قبل مسیحی دور میں خشک گھانس کے بھوسے سے بنائے جانے والے جوتے بھی موجود ہیں۔ 2000 قبل مسیحی دور میں اس خطہ میں موجود کثیر بت پرست گروہ جوتے جانوروں کی کھال سے بنایا کرتے تھے۔ 1550 قبل مسیحی دور سے قبل چینیوں نے "سین(san)" اور "کو (ku)" کو ترقی دی تھی۔"سین(san)" ایک جیکٹ تھی جس کے اندر سردیوں میں جسم گرم رکھنے کے لیے بھوسا بھر دیا جاتا تھا۔"کو (ku)" پاجامہ کو کہا جاتا تھا۔پہلی صدی قبل مسیح تک مفلسی و ناداری میں غرق زیادہ تر چینیوں کا لباس سُن سے بنایا جاتا تھا،یہ ایک لمبا فصلی پودا ہے جس کے دھاگے مضبوط و پائیدار ہوتے ہیں۔اس کے بعد سَن سے بنے ہوئے ململ کے لباس نے آہستہ آہستہ سُن سے بنے ہوئے لباس کی جگہ لے لی اور ترجیح یافتہ کپڑے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا۔200 قبل مسیحی دور میں چینی سلاطین مختلف رنگوں کا چوغہ بطور لباس الگ الگ موسموں کو مد نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا کرتےتھے، تاکہ خدا ان کے لباس کو پسند کرکے موسم کی ترتیب کو قائم رکھے۔ شاہی سلسلہ "ہین(Han) "میں "جو(ju)" نامی لباس معیاری سمجھا جانےلگا اور لوگ اسے پہننا پسند کرنے لگے تھے۔ یہی لباس عہد مؤخر میں مغربی حصوں میں چینی قمیص کے طور پر جانی جانے لگی تھی۔ اس قمیص کا گلو بند کافی سخت ہوا کرتا تھا۔143

دھاگے نما ٹہنیوں کے حامل پودے جیسے سُن ، لباس بنانے کے لیے بروئے کار لائے جاتے تھے۔اون کا استعمال سلسلہ شاہی "زہو (Zhou)"میں کیا جانے لگا تھا۔اس کے علاوہ سلسلہ شاہی "شینگ (Shang)"میں ریشم پہلے ہی بطور اہم پیداوار ممتاز تھی۔ریشم کا کپڑا کافی مہنگا تھا اور اس کا چوغہ بنا کر خصوصی طور پر اہم تقریبات میں ہی پہنا جاتا تھا۔144شاہی سلسلہ "چئو(Chou)" کے دوران استعمال کی جانے والی پوشاک بعد کے شاہی سلسلہ "منچو (Manchu)"میں مستعمل لباس سے مماثلت نہیں رکھتی تھی۔عام طور پر اس وقت لمبے چوغے اور اس کے اوپر چھوٹا کوٹ پہنا جاتا، جب کہ چوغہ کے سیدھے ہاتھ کی جانب بٹن بھی لگائے جاتے تھے۔لباس بنانے کے لیے ململ اور ریشم کو استعمال کیا جاتا ، غریب افراد سردیوں میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے رضائیاں استعمال کرتے جب کہ امراء جانوروں کی ملائم کھال اور پوستین زیب تن کیا کرتے تھے۔145

مکانات

4000 قبل مسیح میں چینی لکڑی کے مکان بنایاکرتے تھے اور پتھر کا بہت کم استعمال کرتے تھے۔146 قبل مسیحی دور کے قدیم چین میں دریائے زرد(Yellow River) کے قریب مقیم معاشرے میں گول مکانات تعمیر کیے جاتے تھے۔ دیواریں عمارتی لکڑی کی بنائی جاتیں اور اُس پر مٹی کی موٹی تہہ لگادی جاتی، مخروطی گھانس پھونس کی چھت بنائی جاتی جو درمیان سے بلند رکھی جاتی تھی۔یہ طرز تعمیر مغربی ایشیا میں دور دور تک پھیلا اورگول مکانات کی تعمیر کا سلسلہ 200 قبل مسیحی دور میں جزیرۂ "ہونشو (Honshu)"تک پھیل چکا تھا۔147

چین کے دار السلطنت میں پتھر اور چکنی مٹی سے بنائی گئی اینٹوں سے مکانات تعمیر کیے جاتے تھے۔امراء کے گھرانے لکڑی کے بنائے جاتے جس کی چھت پتھر یا کانسی کی بنیادوں سے بنائے گئے ستونوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔امیر کبیر باشندوں کے مکانات کے علاوہ زیادہ تر رہائش گاہیں بیک وقت خاندان کے رہنے اور کام کرنےمیں استعمال کی جاتی تھیں۔ مملکت کے بعض مضافاتی علاقوں میں پہاڑوں کے اطرافی حصہ کو کاٹ کر گھر بنائے جاتے یا زمین کو گہرا کھود کر مٹی کو پختہ کیا جاتا تھا، اس کے علاوہ سردیوں میں ٹھنڈ اور گرمیوں میں تپِش سے بچاؤ کے لیے تہہ نشین مٹی یا چکنی مٹی کے گارے کو استعمال کیا جاتا تھا۔مستطیلی یا بیضوی مکانات بھی بنائے جاتے تھے جس کی چھت نرسل یا بانس سے تعمیر کی جاتی تھی۔چھت کی نچلی سطح زمین کے کافی قریب رکھی جاتی تھی۔475 سے 221 قبل مسیحی دور میں ریاستوں کے مابین جنگ وجدال کے دوران زمین کے اوپر بنائے جانے والےمکانات عام طور پر دیکھے جانے لگے تھے، اس کا تسلسل سلسلہ سلاطین "قِن (Qin)" کے دورتک جاری رہا تھا۔148

زیادہ تر چینی گھرانوں میں ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی خاندان کی تین نسلیں رہائش پذیر ہوتی تھیں۔خاندانی افراد اپنے اصولوں کی سختی سے پابندی کیا کرتے، جس کا نمونہ ان کے گھروں کی ترتیب سے بخوبی واضح ہوتا ہے۔باہر کھلے صحن کے ساتھ بنے ہوئے کمرے مہمانوں کےلیے مختص ہوتے، جس میں اکثر کتب خانہ بھی موجود ہوتاتھا۔اندرونی صحن گھر والوں کے لیےخاص ہوا کرتا تھا۔ گھرانے کا سربراہ جو کہ عموماً دادا ہی ہوا کرتا ، اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اصل عمارت میں رہائش رکھنا ، جس کے ساتھ متصل کمرے خاص رشتہ داروں کے لیے مختص کیے جاتے تھے۔اصل عمارت کی پُشت پر باورچی خانہ، اور غلاموں کے لیے کمرے تعمیر ہوتے تھے۔کچھ مکانات کے ارد گرد باغات بھی ہوتے جسے ایک چار دیواری کرکے بند کیا جاتا تھا۔ 149

طرز تعمیر

قدیم چین میں عمارتوں کی تعمیر "فینگ شوئی(Feng Shui)" کے قوانین کے مطابق کی جاتی تھی۔یہ ایک اصطلاح تھی جس کا معنی "تیز ہوا(feng)" اور "پانی(shui)" کیا جاتاتھا۔تین خصوصی قوانین کے تحت قدیم چینی فن تعمیر استوار کیا گیا تھا۔ ان میں سے پہلی یہ کہ عمارت ہم آہنگ اور متوازن اسی طرح ہو جیسے زندگی دینے والی قوت "چی (Chi)"نےانسانی جسم میں ہم آہنگی اور متوازن صورت پیدا کی ہے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی عمارت درمیانی عمود کے ساتھ دو حصوں میں منقسم ہوئی، تو دونوں حصے ایک دوسرے کا عکس محسوس ہوں۔ دوسرا قانون یہ کہتا تھا کہ چھت کو دیواروں کے بجائے ستونوں کے ذریعے سہارا دیا جائے، یوں معمار زمینی دلکشی کو بڑے پیمانے پر عمارت میں سمونے کے قابل ہوسکتا ہے، گھر کا اندرونی نظارہ پکی دیواروں سے نہیں بنایا جائے جو جگہ کو بند کرکے قدرتی دلکشی سے دور کردے، اگر ایسا کیا جائے تو باہری حصے سے قدرتی طور پر قوت کی فراہمی کا عمل جاری رکھا جاسکتا ہے۔یہ قانون شیطانی قوتوں کو دور کرنے کے قدیم چینی عقیدے کا تصور پیش کرتا دکھائی دیتا ہے، ان کے نزدیک یہ نظریہ تھا کہ سیدھی چھتیں شیطانی قوتوں کے عمارت میں داخلے کا سبب بنتی ہیں۔150

خوشنما ڈیزائن چینی طرز تعمیر میں ممتاز و نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ اسے بانس یا ٹوکری کے انداز میں بنی ہوئی شے، پتھر یا لکڑی سے بنا کر تاریخی اہمیت کے حامل مقام یا کسی پہاڑی پر تعمیر کیاجاتا تھا۔خوشنما ڈیرا چینی فن تعمیر میں بڑی عمارتوں کے مقابلے میں کافی پیچیدہ شکل کا ہوا کرتا تھا۔" پئاٹ لوو (p’at lou)"کو کسی مشہور شخصیت کے اعزاز میں یا کسی خاص موقع کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا جاتا تھا۔اس کی تعمیر میں چینی فنِ تعمیر کے اکثر خصوصی عناصر شامل کیے جاتے تھے، جن میں سہارا دینے کے لیے ستون، تراشےگئےیا تشکیل دیے گئے نقوش اور دیوار گیری سے سہارا دی گئی زین نما کوہانی چھت شامل ہوا کرتی تھی۔چین فن تعمیر کی نمایاں اور نظر کرنے والی قابل توجہ نایاب شے عظیم دیوار ِ چین 151ہے، جسے تیسری صدی قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔دیواریں ہر شہر اور دیہاتی علاقوں کا اہم جز جانی جاتی تھیں۔ چین کا کوئی بھی ایسا شہر نہیں تھا جہاں دیواریں نہ ہوں ، ان کی اہمیت اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے پرکھی جاسکتی ہےکہ یہی لفظ شہر اور دیوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مقبرے اور مکانات ان دیواروں میں اور بند زمین میں تعمیر کیے جاتے تھے۔ عہد عتیق کی زیادہ تر تعمیرات لکڑی سے کی جاتی تھیں۔ 152

اگرچہ دیوار چین کا ثابت ہونا ممتاز و نمایاں تھا پھر بھی چینی فن تعمیر کے ماہرین دیوار چین کی تعمیرات میں بذات خود شریک نہیں ہوئے لیکن اس کی تعمیر میں ان تکنیکی فنی پہلو ؤں کو ضرور اجاگر کیا جن کا یادگاری اور چھوٹے گھروں کی تعمیرات پر بھی اطلاق کیا جاسکتا تھا۔ اس دیوار کی تعمیر میں تعمیرات کے متعدد اقسام کے مادّوں کو استعمال کیا گیا جس کی دستیابی عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کے لیے بھی موزوں سمجھی جاتی تھی۔ شمالی چین میں صحرائی مقامات میں بننے والے سنہری مٹی کے غباری تودے اینٹیں بنانے میں استعمال کیے جاتے اور اسے لکڑی کے ساتھ یک جان کرکے عمارتی ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا تھا۔ وسطی چین میں پتھروں کو لکڑی کے ساتھ متصل کرکے دیوار تعمیر کی جاتی جب کہ جنوبی چین میں پتھر کو بمبو اور دیگر اقسام کی لکڑیوں کے ساتھ ملا کر دیوار کی تعمیر کی جاتی تھی۔تمام معمار بادشاہ "شی ہوانگ دی (Shi Huangdi)"کے دور میں بنائے گئے فن تعمیر کے بنیادی قوانین کو اپناتے تھے۔عمارت کے لیے بنیادیں کھودی جاتیں اور انہیں ناتراشیدہ پتھر وں سے بھر دیاجاتا تھا، بانس اور عمارتی لکڑی سے مزدوروں کے چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بھی بنائی جاتیں تھیں۔ بنیادوں میں ستون عمارتی ڈھانچے کا وزن برداشت کرنے کی غرض سے بنائے جاتے ، اس کے علاوہ دیواریں بھی تعمیر کی جاتیں ، ان کا کام یا تو انتہائی کم وزن اٹھانا ہوتا یا صرف انہیں حفاظتی غرض سے تعمیر کیا جاتا تھا۔153

دورِ "چئو (Chou)"میں متعدد فنون کے حوالے سے شواہد میسر آئے جن میں فن تعمیر بھی شامل تھا۔ایک ایسی قسم کی عمارت کے بھی ثبوت ملے تھے جس کی چھت عمودی ڈھلوان میں آگے کو نکلی ہوئی اور کنارے الٹا دینے کی شکل میں بنائے گئے تھے، یہ عمارت مذہبی و غیر مذہبی ، عوامی اور خصوصی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ 154چونکہ اس عمارت کی تعمیر میں زیادہ تر لکڑی استعمال کی جاتی تھی اسی لیے قدیم دور کی ان عمارات کا وجود اب باقی نہیں رہا ہے۔

سیاسی نظام

قدیم چین میں سات مختلف شاہی سلسلوں کا راج رہا ہے۔ ایک شاہی سلسلہ ایک ہی خاندان کے نسل در نسل آنے والے متعدد حکمرانوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ ان سات سلسلہ سلاطین کے نام بالترتیب "قِن(Qin)"،"ہین(Han)"، "ٹینگ(Tang)"،"سونگ(Song)"،" یوان(Yuan)"،" مِنگ(Ming)"،اور" قِنگ (Qing)" تھے۔ان تمام شاہی خانوادوں کا دور تقریباً ایک ہزار چھ سو اکیاسی(1،681) برس پر محیط تھا، شہنشاہیت کے دوران چینی حکمرانوں کو شہنشاہ کہا جاتا تھا۔

شہنشاہ قدیم چینی باشندوں میں اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ریشم سے بنا ہوا بہترین لباس زیب تن کرتے اور بڑی طاقت رکھتے تھے۔ ان میں کچھ حکمران جیسے "شی ہوانگ دی(Shi Huangdi)" اپنی قوت اقتداری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے اور لوگوں سے اس بات کے طالب تھے کہ جو نظریہ میں رکھتا ہوں تم پر بھی وہی نظریہ رکھنا اور قبول کرنا لازم ہے۔انہوں نے وہ تمام کُتب جلا ڈالیں جو ان کے ذاتی نظریات کے برعکس تعلیمات فراہم کرتی تھیں۔

سیاسی تاریخ

آخری حجری دور اور عہدِ کانسی کی کثیر تہذیبیں دریائے زرد(Yellow River)، دریائے ینگزی (Yangzi) اور اس کے دوسری جانب موجود آب گیری علاقے میں ہزاروں سالوں سے ایک دوسرے کےساتھ رہتی چلی آرہی تھیں، کوئی بھی معاشرہ ایک دوسرے سے برتر نہیں تھا۔ 1600 سے 1046 قبل مسیحی دور پر محیط پہلے سلسلہ شاہی نے اپنے پڑوسی ممالک سے عسکری اور سیاسی برتری کا لطف اٹھایا لیکن اپنی سلطنتی اراضی سے باہر دریائے زرد(Yellow River) کے درمیانی حصوں پر اثر انداز نہیں ہوا۔ بادشاہ "زہو (Zhou)" کے ہاتھوں سلسلہ شاہی "شینگ (Shang)"کی حکمرانی کا خاتمہ حالات و واقعات میں بڑی تبدیلیوں اور نقطہ تغیر کا سبب بنا تھا۔ شاہی سلسلہ"زہو (Zhou)"کے فاتحین حکمرانوں نے اپنی فتوحات کو استعمال کرتے ہوئے بلا واسطہ اور بالواسطہ دونوں اندازِ تسلط کو استعمال کرتے ہوئےسلطنت کو مزید وسعت دی ، اصل دریائے "وئی (Wei)"کے محل وقوع کی دوسری طرف سے دریائے زرد(Yellow River) کے درمیانی اور ساحلی آب گیری علاقوں تک عسکری اور عوامی موجودگی کو یقینی بنا کر حکومت کو مستحکم و مضبوط کیا تھا، علاوہ ازیں جنوب میں "ہیائی (Huai)"اور دریائے "ہین (Han)"کے خطہ تک سلطنت کو پھیلا دیا تھا۔ابتدا ہی سے بادشاہ "زہو (Zhou)"کا مقصد سلسلہ شاہی کو انتظامی اور عسکری معاملات میں مصروف کرنے کے ساتھ بلا شرکت غیر قانونی جواز دہی کی ساخت میں بھی ڈھالنا تھا۔سلاطینِ "زہو (Zhou)" اپنی ذات کو اعلی خدا، جنت اور ماتحت لوگوں کے مابین تعلق قائم کرنے میں ثالث بلا شرکتِ غیر کا مقام دینے میں کامیاب ہوچکے تھے۔"جنت کے بیٹے" کے تصور کی وجہ سے بادشاہ اپنے اتحادیوں اور ماتحت"زہوہو(Zhuhou)"نامی علاقائی حکمرانوں پر صاف اور واضح برتری سے لطف اٹھاتے تھے۔ بادشاہوں کا مذہبی طور پر نقطہ عروج اور معاشرتی سیاسی حیثیت سے حرم میں بلند مقام پر فائز رہنا انہیں اس بات کی اجازت فراہم کرتا تھا کہ ظلم و ستم پر مبنی سلسلہ شاہی کے اقتدار کو صبر وضبط کے ساتھ برداشت کیاجائے اور یوں شاہی سلاطین کا یہ سلسلہ چینی تاریخ میں سب سے لمبے عرصے تک اقتدار کے مزے لوٹنے والوں میں شامل تھا۔بادشاہ"زہو (Zhou)"کے شاہی گھرانے کی مستقل علامتی برتری نے ممکنہ طور پر نسلوں تک محیط افراتفری و ہنگامہ آرائی کو چینیوں کے سیاسی اتحاد پر ابھارا ، جس کے سبب بادشاہ "زہو (Zhou)"کی موثر سلطنت اور اس کے اقتدار کا خاتمہ ہواتھا۔155

چھٹی صدی قبل مسیح کے اختتام پر بہار اور خزاں کے دور سے گزرنے والی متعدد ریاستیں تباہی کے دہانے پر آپہنچی تھیں۔ اپنی بربادی پر تمام ہی ریاستوں کے مابین جنگیں واقع ہوچکی تھیں اور اسی سبب سے 453 قبل مسیح میں ریاست"جن (Jin)"ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تھی۔ جنگوں کے بڑھتے ہوئے دور میں خون کی ندیاں بہائی گئیں اور یوں ورثے میں کمزور و ناپختہ ریاستیں منتقل ہوئیں۔ اس دور میں جب مد مقابل ریاستوں نے طریقہ کار کے مطابق اپنا ملکی نظام پڑوسی ممالک پر نافذ کرنے کی کوشش کی تو یہ بات مکمل طور پر واضح ہوگئی کہ کسی ایک ریاست کے اندرونی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے تھے جب تک "اوئکومینے(oikoumene)" 156 کا حتمی فیصلہ نہ ہوجائے۔تمام ریاستوں کو جنتی تصور کی جانے والی حکومت کے تحت مستحکم کرنے کی سیاسی کوشش ناموزوں رہی ،صرف سیاسی وحدت اور اجتماعیت ہی نہ ختم ہونے والے فساد و انتشار سے باہر نکلنے کا معقول حل ثابت ہوئی ۔اسی لیے ریاستی جنگ وجدال کے دور میں صاحب فکر افراد خصوصی طور پر طلبِ اتحاد کے لیے عقلاًمتفق ہوگئےاور یوں ایک بڑی سلطنت کے قیام سے طویل عرصہ پہلے اس کے وجود کی جانب راہیں ہموار کردی گئی تھیں۔کھلبلی، خون ریزی اور عمومی انتشار کی شکار ریاستوں کی فوجوں کے ہاتھوں بربادی کی پیش گوئی کئی برس پہلے ہی کی جاچکی تھی۔ 221 قبل مسیحی دور جب سب سے طاقت ور ریاست "قِن (Qin)"نے اپنے دشمنوں کو بہترین لگاتار عسکری حملوں سے شکست فاش دی تھی تو اس دور میں جنگ و جدال میں ملوث ریاستوں کے مابین کھینچا تانی ہولناک خون ریزی کا سبب بنی تھی۔سلسلہ شاہی "قِن (Qin)"کے فاتح حکمران "قِن (Qin)"نے اپنی ذات کو پہلا سلطان مقرر کیا ، اس کا دور 221 سے 210 قبل مسیح تک محیط تھااور اسی نے چینی تاریخ میں نئے دور کا آغاز کیا تھا۔بادشاہ "قِن (Qin)"نے اپنے ماتحتوں کو مختلف احکام ، افعال اور معنوی علامات کے ذریعے استحکام اور یکساں نظام حکومت کا شعور دے دیا تھا۔ مثال کے طور پر اس نے ناپ تول ، وزن ، سکے، املا اور ہجے کا علم ، قانون اور جنتری کا یکساں نظام مرتب کیا جو بعد میں آنے والی حکومتوں کے لیے یکسانیت کا معیار ی خزانہ بن گیا تھا۔ اس نے فتح کی گئی ریاستوں کے بااختیار ارکان کو بھی شاہی نظام حکومت میں شامل کرلیا تھا۔157

انتظامی امور

قدیم دور میں چینی حکومت کی عوامی خدمت گزاری اور انتظامی امور پرمشتمل اقتداراور انتظامی امور چلانے والے ماہرین کو چننے کے لیے امتحان لیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ چینی سلطنت میں تقریباً 2000 سال تک استحکام برقرار رکھنے کا سبب بنا ۔ ساتھ ہی چینی معاشرے میں سماجی نقل و حرکت کے بڑے نمونے پیش کیے گئےتھے۔158

1046 سے 256 قبل مسیحی دور تک قائم شاہی سلسلہ " زہو (Zhou)"نے بظاہر اپنے اقتدار کا آغاز جاگیرداری نظام میں کیا تھا۔ اس وقت بادشاہ " زہو (Zhou)"نے ماتحت عہدیداران کے ساتھ جنت تفویض کرنے کے اختیارات کا تصور اپنی حکومت کو جائز قرار دینے کے لیے لوگوں میں پھیلایا ، یہ ایک ایسا تصور تھا جو کامیاب بادشاہی کے تسلسل کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔بادشاہ " زہو (Zhou)"نے جو سیاسی تنظیم مرتب کی تھی وہ جاگیرداری اور پدری قبیلے کے نظام پر مبنی تھی ، جس کا محور ولی عہد سلطنت کے گرد گھومتا تھا۔خاندانی سلسلہ ایک انفصالی معیار کے طور پر تعین کرتا کہ ولی عہد کے لیے کون سا مرد بادشاہ کے سب سے قریب ہے اور اچھی صفات کا حامل ہے یا برا انسان ہے۔اس طریقہ کار نے جاگیرداری نظام کو جنم دیا۔ اشرافیہ میں بلند درجہ سے نیچے کی جانب نظر کی جاتی ، سب سے پہلے بادشاہ، پھر اس سے وابستہ اشخاص، اس کے بعد بڑا عہدیدار، رئیس پھر اس سے وابستہ عہدیداران ، اس کے بعد ذی فہم افراد کا درجہ تھا،ان کا درجہ اونچے طبقات میں سب سے آخر میں تھا۔نظام ِ مملکت میں سب سے پست درجہ تابعین کا تھا، ان افراد میں کسان، بڑی تعداد میں غلام، اور کوئی بھی محکوم قبیلہ ہوا کرتا تھا۔ تابعین کے سیاسی معاملات میں کوئی حقوق نہیں تھے۔

جاگیرداری نظام بنیادی طور پر انتظامی امور پر مشتمل ایک ایسادستور تھا جس کے ذریعے مملکت کو چھتیس(36)انتظامی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان تمام اضلاع کے امور کو سخت مرکزی حکومت دفتر شاہی کی مدد سے چلایا کرتی تھی۔اسی نظام نے چین میں صوبائی اور"جُن ژیان(Jun Xian)" نامی کمشنری نظام کی بنیاد رکھی تھی۔بادشاہ کی یہ کوشش تھی کہ جرائم کی روک تھام کے لیے ایک تفصیلی مجموعہ قوانین نافذ کیا جائے، تاکہ جاگیرداری رواج کی جگہ قانون پرستی کو لاگو کیا جائے لیکن سیاسی سوفسطانیت کا شکار جابرانہ چینی نظریہ ءِقانون پرستی پر سختی کرنے والوں نے مجموعہ قوانین پر جاگیردارانہ نظام کی طرح ہی سختی کی اور بادشاہ کی ہمہ گیر قوت کو تسلیم کروایا تھا۔بادشاہ" قِن (Qin)"کے کرخت قوانین کی جگہ " ہین (Han)"کی متوازن حکومتی نظام نے لے لی تھی۔ 206 قبل مسیح سے 220 عیسوی تک قائم سلسلہ شاہی" ہین (Han)"وہ پہلی حکومت تھی جس نے کنفیوشنزم (Confucianism)کے فلسفہ کو فروغ دیا جس نے سامراجی چین کے اختتامی دور تک تمام سلاسل کی نظریاتی تعمیر کی اور اقدارکو سہارا دیا تھا۔159

معیشت

ایشیاء اور بحرالکاہل کی ممتاز و نمایاں تہذیبو ں کی معیشت زراعت پر منحصر تھی۔چین میں سرکاری عہدیداران نے چیز کے بدلے چیز کے لین دین کے نظام کو بطور ملکی علامت کے اور علاقائی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے جاری رکھاتھا۔مغربی ایشیا میں زراعت کا آغاز قریب قریب 6500 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ دریائے زرد (Yellow River)کے باشندوں نے باجرہ کی کاشت سے زراعت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ قدیم چینی معیشت کا مرکز دریائے زرد (Yellow River)ہی تھا اور یہیں سے شاہی سلسلہ" شینگ (Shang)"کا آغاز ہوا تھا۔دریائے زرد (Yellow River)کے باشندے کسان تھے۔ بعض اوقات وہ لوگ اضافی فصل بھی کاشت کرلیا کرتے تھے جسے تجارتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا، یوں انہوں نے اپنا طرز زندگی مزید بلند کرلیا تھا۔ کاشت کاری کے اس عمل سے بعض افراد کافی دولت مند ہوگئے اور معاشرے میں کم درجہ اور اشرافیہ پر مشتمل طبقات کی ابتدا ہوئی ۔لوگوں کے لیے ممکن ہوگیا تھا کہ وہ دھاتی اور چکنی مٹی سے بنی اشیاکے ذاتی کارخانہ تعمیر کریں ، مزدوروں کو سکوں کے ذریعے معاوضہ ادا کریں اور اپنی اشیا ء کو سکوں کے بدلے بیچ سکیں۔اس ترقی نے سلسلہ شاہی " شینگ (Shang)" کی معیشت کو تبادلہء اجناس کے نظام کے مقابلے میں مزید مستحکم کیا اور یوں پڑوسی ممالک کے مقابلے میں اسے طاقت و قوت میں کثیر فوائد حاصل ہوئے تھے۔160

آمدنی

قدیم چین کے مالی معاملات سے متعلق حقائق یِن وان (Yinwan)کے مقام پر 1993 میں دستاویزات کےدفینہ سے دریافت ہوئے تھےجس میں پندرہ (15) قبل مسیحی دور میں قائم صوبہ شان ڈونگ (Shandong)کے ڈونگھائی(Donghai) ضلع کے متعلق معلومات درج تھیں۔ اس دو ر میں سالانہ سرکاری آمدنی 266.6 ملین رقم 506,600 اناجی شی (shi)تھی،جس میں سے 145.8ملین رقم اور412,600شی(shi) استعمال کیے جاچکے تھے۔ایک اندازے کے مطابق ان کے پاس کل رقم 12,000,000,000تھی۔161 بعد کے دور میں مغربی حصہ کے سلسلہ شاہی ہین(Han) کے متعلق ذارئع بتاتے ہیں کہ حکومت چار بلین (4,000,000,000)رقم سالانہ محصولات کے سلسلہ میں جمع کرتی تھی، ان میں نصف رقم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف ہوتی، اور بقیہ ناگہانی ضرورت کے لیے رکھ لی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ کم اہم خزانے سے بھی 8,300,000,000 کی رقم منافع کے طور پر جمع کرلی جاتی تھی جسے شاہی دربار کی مرمت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، علاوہ ازیں انہی رقوم سے بادشاہ رعایا میں تحفہ تحائف تقسیم کرتا اور انعامات دیاکرتا تھا۔ 162

سلسلہ شاہی "چئو(Chou)" کے دور میں ماہی گیری اور کان کنی کے شعبوں میں ریاستی اجارہ داری قائم تھی۔ ریاستی آمدنی میں اضافہ مختلف شعبوں میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے سے بھی ہوا کرتا اور ساتھ ہی زمینی پیداوار کے دسویں حصہ کی وصولی سے بھی کیا جاتا تھا جس میں جہازوں کو کرائے پر دیا جاتا اور کرائے کی وصولی کے طورپر تاجروں سے کپڑوں کے تھان حاصل کیے جاتے تھے۔اس کے علاوہ بازار میں بیچی جانے والی اشیا ءکے ساتھ درآمد کی جانے والی اور برآمدی چیزوں پربھی محصول لگایا جاتا تھا۔163

زراعت

کنفیوشس (Confucius)کی جانب سے مرتب کی گئی طاقتور تاریخی دستاویزات میں چوبیسویں صدی (24)قبل مسیح تک تاریخ موجود تھی۔اس دور سے بھی پہلے چینی باشندے زراعت کا پیشہ اختیار کیے ہوئے تھے۔روایتی طور پر وہ لوگ 28صدی قبل مسیح سے زراعتی پیشے سے منسلک تھےاور اس حوالے سے تئیسویں(23) صدی قبل مسیح میں ان کا ایک عہد یدار بھی تھا۔164 چین میں زراعت انفرادی طور پر دو مختلف مقامات میں پروان چڑھی تھی۔ 6500 اور 4500 قبل مسیحی دور میں کسانوں نے جنوبی چینی علاقوں میں دریائے "ینگتزے (Yangtze)"كے ساحل كے ساتھ چاولوں کی کاشت کی تھی۔اسی دوران شمالی چینی کسان دریائے زرد (Yellow River)کے قریب باجرے کی فصل لگایا کرتے تھے۔جنگلی چاول شمالی اور جنوبی چین میں کاشت کیے جانے والے چاولوں سے پہلے ہی موجود تھے۔ چاولوں کی کاشت کیے جانے والے مقامات میں معلوم قدیم علاقے "لی یِنگ (Liying)"زمین پر "پینگتئوشان(Pengtoushan)" نامی مقام تھا ، سائنسدان یہ یقین رکھتے تھے کہ وہاں کے باشندے 6400 قبل مسیح میں چاولوں کی پیداوار کیا کرتے تھے۔ "ینگتزے (Yangtze)" کے دہانہ کے عین جنوب میں " پشتہ ہینگزہئو(Hangzhou Bay)"ایک بڑا سماجی علاقہ تھا جہاں 4500 قبل مسیح میں چاولوں کی اگائی کی جاتی تھی۔چینی باشندے چاول اور دیگر آبی فصلیں بھی اگایا کرتے تھے۔ باجرے کی دو اقسام " سرغو نسل کی چیتا گھاس" اور "لومڑدُم گھاس "شمالی چین میں کاشت کی جاتی تھی ۔باجرے کی ان دونوں اقسام کو کم پانی میں بھی آسانی سے اگایا جا تاتھا۔باجرے کی کاشت کے متعلق ابتدائی ثبوت شمالی چین میں "پیلی گینگ (Peiligang)"سماج سے ملتے ہیں۔یہ لوگ دریائے زرد (Yellow River)کے قریبی علاقوں میں 7000 قبل مسیح سے 4500 قبل مسیح تک رہائش پذیر تھے۔

صنعت

چینی آرٹ، مصوری، خطاطی، فن تعمیر، مٹی کے برتن، مجسمہ سازی، کانسی، نقاشی، اور دیگر آرائشی فن کی اقسام صدیوں سے چین میں تیار ہوتی رہیں۔165سلسلہ شاہی "شینگ (Shang)"کے عہد داران چین کے اندربڑے پیمانے پر گھریلو اشیاء اور اوزار بنانے والی صنعت پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔چینی سلسلہ شاہی "چئو(Chou)" کے دور میں صنعتی ترقی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔تجار خوبصورت لیلن اور ریشم، کشتیوں کے ذریعے دیگر مقامات پر بیچا کرتے تھے۔درزی اپنی دکانوں میں امراء کے لیے بُنے ہوئے چغےسیا کرتے تھے۔ سمور پوش بھیڑ کی کھال اور لباس پرکام کیا کرتے تھے۔ 166

کاغذ کی ایجاد

کاغذ کی ایجاد بھی تاریخِ عالم میں بڑی اہم ہے چین کو اِس کا فخر حاصل ہے کہ اِس میں قدیم زمانے سے کاغذ کا رواج ہوگیا تھا۔ 167مشہور روایات کے مطابق اس صنعت کا موجد ایک شخص" زائی لون(Tsai-Lun)"نامی تھا ،جو پہلی صدی عیسوی میں پیدا ہوا،یہ شہتوت کے درختوں کے لیے مشہور تھا۔اس نے شہتوت کے درختوں کی چھال سے کاغذ تیار کیا ۔ایجاد ہوتے ہی یہ صنعت چین کے تمام بڑے بڑے شہروں میں پھیل گئی ۔لفظِ کاغذ خود ایک چینی لفظ ککذر کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔ 168

تجارت

قدیم دور میں ریشم ، روغن، پوستین، گھاس چٹائی، نمک، نگینے، سونا، چاندی اور ہاتھی دانت کی فعال تجارت کی جاتی تھی۔ تجارتی لین دین پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں، بعد کے دور میں شرح محاصل کے سبب ترقی سست روی کا شکار بھی ہوگئی تھی۔169

202 قبل مسیح سے 220 عیسوی تک قائم دورِسلسلہ شاہی ہین(Han Dynasty)میں سرحدوں کے اندر تجارتی ترقی میں جراتمندانہ اقدامات اٹھائے اور یہ سلسلہ ان ممالک پر حملہ کی صورت میں بھی سامنے آیا جہاں کی مصنوعات کی انہیں ضرورت تھی، جیسے مغربی علاقوں کے گھوڑے۔پچھلے سلاطین شاہی کے مقابلے میں ہین شاہی سلسلہ (Han Dynasty)کی حکومتوں نے تجارتی مواقع کی جانب پیش رفت کی تھی۔ زیادہ تر تجارتی معاملات سلطنتی حدود میں ہی عمل میں لائے جاتےتھے۔ چین بھارت کو قیمتی نگینوں ، جیسے ہیرے ا ور خوشبودار لکڑی کے بدلے ریشم فراہم کرتاتھا۔ قدیم چین کے جاپان سے بھی تجارتی تعلقات تھے، جاپان اپنا قیمتی ریشم، جانوروں کی کھالیں، اور کوزہ گری کا سامان چینی دھاتوں کے بدلے فروخت کیا کرتا، ان دھاتوں میں خاص طور پر تانبے کے سکے بھی شامل تھے۔170

سلسلہ شاہی ہین(Han Dynasty) میں ریشم کی بڑے پیمانے پر تجارت کی جاتی تھی، اس کے علاوہ دیگر ممالک کے بادشاہوں کو بطور تحفہ بھی بھیجی جاتی تھی۔ اس دور میں پورے وسطی ایشیا ، شمالی بھارت، اور دور دراز واقع مغربی رومی سلطنت تک ریشم کی تجارت کی جاتی تھی۔ جس راستے سےریشم دیگر ممالک تک پہنچائی جاتی اس کا نام شاہراہ ریشم(Silk Road) پڑ گیا تھا۔

محصولات

594 قبل مسیح میں "لو(Lu)" کی معیاری ریاست نے پہلی مرتبہ ہر ایک ایکڑ کی پیداوار پر دس(10) سکےمحصول لاگو کیا تھا۔ہر کاشت کا ر کو پرانے نظام کے تحت اپنےلیےاپنے ماں باپ ،بیوی، اور بچوں کے لیے100 ایکڑ زمین مہیا کی گئی تھی، ان زمینوں کے درمیان دس (10) ایکڑ عوامی زمین کہلاتی، جس کی پیداوار ریاست وصول کیا کرتی تھی۔171

اناج کی صورت میں محصولات کو جمع کیا جاتا اور ساتھ ہی پیدا ہونے والی نرسل پر بھی محصول وصول کیا جاتا تھا۔ جولوگ دریا اور نہروں کے کناروں سے نرسل اکھٹا کیا کرتے، ان پر معمولی محصول لگایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ نمک، شراب اور تمباکو پر بھی محصول لیا جاتا تھا، علاوہ ازیں اشیا کی درآمد و برآمد پر صوبائی محصول بھی اکھٹا کیا جاتا تھا۔ جمع ہونے والی تمام رقم صوبائی اور شاہی خزانوں میں شامل کرلی جاتی تھی۔ 172

سکہ رائج الوقت

چین میں سکہ سازی سے قبل سمندری صدف کے خول، تانبے کی چھریاں اور بیلچے سکہ رائج الوقت کے طور پر استعمال ہوا کرتے تھے۔ابتدا میں ٹین، سیسہ، اور لوہے کی بنی ہوئی نقدی رائج تھی۔ مٹی کو پکا کرکسی شخصیت کی مہر سبط کی جاتی، پھر اسے بھی نقدی کے طور پر استعمال کی جاتاتھا۔ سمندری صدف کے خول، تیشہ، درانتی کی مثل اوزار، بیلچہ، چھریاں، کُدال تمام اشیاء سکہ رائج الوقت کے طور پر ساتویں صدی قبل مسیح میں استعمال کیےجاتےتھے جبکہ بارہویں صدی قبل مسیح میں چھریوں اور دیگر عام استعمال کی اشیا ء سے سکہ بنائے جاتے تھے۔ 173

450 قبل مسیح سے پہلے چین میں سکوں کو بنایا جاتا تھا۔ ابتدائی ادوار کے سکے تانبے کے بنائے جاتے تھے جو چھریوں اور پھاوڑوں کی شکل سے ملتے جلتے تھے۔ 250 قبل مسیح میں پورےچین کے اندر سکوں کو لین دین کے لیے بطور رقم قبول کرلیاگیا تھا۔ قدیم چینی سکے بہت موٹے اوربھاری جسامت کے ہوا کرتے تھے، انہیں ابتدامیں بڑی خریداری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔سلسلہ شاہی ہین(Han Dynasty) کے اختتام تک عسکری عہد یداران کو تنخواہ اشیائے صرف کے طور پر ادا کی جاتی تھیں۔سکوں کی جگہ ریشم کے طومار عوام کو ان کی خدمات کے بدلے دیے جاتے تھے۔221 سے 207 قبل مسیح تک قائم سلسلہ شاہی "قِن(Qin)" نے چینی سکوں کو ایک معیار پر بنانے کی کوششیں کی تھیں۔ 112 قبل مسیح میں انہوں نے پانچ شو(shu) کا سکہ متعارف کروایا تھا۔ یہ سکہ دائروی شکل کا تھا جس کے وسط میں چوکور نشان ثبت تھا۔ سکہ بنانے میں اسی فیصد تانبا اور بیس فیصد دیگر دھاتیں استعمال کی جاتی تھیں جس میں زیادہ تر سیسہ شامل ہو اکرتا تھا۔174140 قبل مسیح میں کاغذ اور چرمی کاغذ سکہ رائج الوقت کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا، یہ کا غذ سفید سانڈ کی کھال سے بنایا جاتا تھا۔175

نویں عیسویں میں چینی حکومت نے سکوں میں اٹھائیس نئی مقداریں متعارف کروائیں تھیں۔ ان سکوںمیں سونے، چاندی، تانبے، ٹین، لوہا، سیسہ، سمندری صدف کے خول، اور کچھووں کے خول کے سکے شامل تھے۔انہیں مختلف اشکال میں ڈھالا گیا تھا، جن میں گول، چمچ نما، اور انسان کے کھڑے ہونے کی صورت شامل تھی۔176

تعلیمی نظام

اس دور میں جب لکھائی کے حروف ایک گراں بار تھے تو گھریلو معاملات میں اس کے استعمال کی زیادہ ہمت افزائی نہیں کی جاتی تھی۔یہ ایک غیر معمولی حقیقت تھی کہ چینی چکنی مٹی پر لکھائی کیا کرتے تھے جنہیں بعد میں پکا لیا گیا تھا۔1771122 سے 256 قبل مسیح تک قائم سلسلہ شاہی "چئو (Chou)" میں مذہبی رسومات، موسیقی، تیر اندازی، گھڑ سواری، ادب اور ریاضی یکھنے کا بڑے پیمانے پر عمل جاری تھا۔ کنفیوشس (Confucius)اور مینشیس (Mencius) کے دور میں کثیر غیر سرکاری اسکول قائم تھے۔ مینشیس (Mencius) تکنیکی تعلیم پر بات کیا کرتا جس میں استاد دیگر طالب علموں کو کام سکھاتا، قطب نما اور مربعوں کا استعمال کرتااور طالب علموں کو بھی ایسا ہی کرنے کا کہتا تھا۔

140 قبل مسیح میں ایک صوبائی عہدیدار "وین وینگ(Wen Weng)" سرکاری اسکولوں کو رقوم فراہم کرنےکے لیےمتعین کیا گیا تھا۔ وہ کم عہدہ کے حامل اچھے سرکاری ملازمین کو تعلیم کے متعلق ہمت افزائی کرتا ، انہیں رسمی تربیت سے نکال کر مرکز میں تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے بھیج دیا کرتا تھا۔جب وہ واپس آتے تو انہیں اہم ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیں۔ 178

قدیم چین میں کسان اپنی اولاد کو کاشت کاری ، مائیں بیٹیوں کو گھریلوامور اور دست کار اپنے بچوں اور شاگردوں کو دست کاری کی تعلیم دیا کرتے تھے۔اسکولوں میں مالدار افراد کی اولادیں تعلیم حاصل کرپاتی تھیں کیوں کہ وہ استادوں کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ غریب افراد تعلیم سے بالکل عاری ہوتے، ان کی اولادوں کو تعلیم کے لیے اپنے ماں باپ کے پیشہ کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی۔ 165 قبل مسیح میں سرکاری عہدیداروں کو منتخب کرنے کے لیےتحریری امتحانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ 124 قبل مسیح میں شاہی درس گاہ کنفیوشس (Confucius) کی تحاریر پڑھانے کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔یہ درس گاہ صرف کنفیوشس (Confucius)کے نظریات سکھانے اور اس کے علاوہ دیگر تعلیمات کو ختم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ پچاس طالب علم درس گاہ میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔اسی نظام کے سبب سلسلہ شاہی "ہین (Han)"میں سرکاری طور پر درس گاہوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔ان درس گاہوں میں طالب علم ، بمبو کی پتلی چادر، ریشم کے لمبے کپڑے اور لکڑی کے تختہ پر کندہ کی گئی تحاریر کو زبانی یاد کیا کرتےتھے۔ ان کتابوں میں ادویات ، جنگ وجدل، شاعری اور فلسفہ کے مجموعے شامل ہوا کرتے تھے۔طالب علموں کو تحریر پر ذاتی تبصرہ پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ لوگ تحریر شدہ مواد کے تحت عمل کرنے کے پابند تھے۔

اس دور میں جمنازیم اور تفریحات کا کوئی سلسلہ نہیں تھا، جس کی وجہ سے طالب علموں میں ذہنی صلاحیتیں کمی کا شکار ہوجاتیں اور وہ اپنے اساتذہ سے سوال کرنے کے لائق نہیں ہوا کرتے تھے۔طالب علم علی الصبح سے شام کے آخر تک تعلیمی عمل میں مصروف رہتے، نظم و ضبط کی سختی سے پابندی کی جاتی ، اگر کوئی خلاف ورزی کرتا یا استاد سے اختلاف کرتا پایا جاتا تو اسے اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ زیادہ تر درس گاہوں میں سرکاری ملازموں کو تعلیم دی جاتی تھی ۔ کامیاب طالب علموں کو سرکاری ملازمتوں کے سلسلہ میں شامل کرلیا جاتا تھا۔179 چونکہ ان کے اذہان سن کر عمل کرنے کے پابند تھے تو نتیجتاً صحیح یا غلط کسی بھی قسم کا حکم ماننے میں کوئی کچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔

جنگی فن

تین صدیوں پر محیط جنگ و جدل سلسلہ شاہی زہو(Zhou Dynasty)کے زوال کا سبب بنا تھا۔بادشاہ " زہو (Zhou)" اپنے جاگیردارانہ حکمرانوں کے مابین تنازعات کو حل کرنے میں ناکام ہوگیا تھا اور یوں 481 قبل مسیح میں چین سات جنگی ریاستوں میں منقسم ہوگیا تھا۔ بڑے پیمانے پر جنگیں لڑی گئیں جس میں آڑی کماندار،گھڑ سوار، اسلحہ سے لیس پیادہ فوج، اور جنگی رتھ گاڑیاں شامل تھیں۔ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور کثیر زخمی بھی ہوئے تھے۔260 قبل مسیح میں"چینگ پِنگ(Chang Ping)" کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ میں ایک اعداد و شمار کے مطابق پانچ لاکھ (5,00,000)افراد لقمہ اجل بنے تھے۔"سُن زی(Sun Zi)" نامی حکمران کے دور میں جنگی معاملات پر مرتب کی جانے والی چھوٹی کتاب"جنگی فن(The Art of War)" لکھی گئی جس میں اشرافیہ کو جنگی مشق کرانےکے متعلق تربیتی مواد شامل تھا۔ آخر کار 221 قبل مسیح میں شمال مغربی ریاستِ" قِن (Qin)"فتح یاب ہوئی اور اس نے جاگیردارانہ حکمرانوں کو ایک سلطنت کے تحت مجتمع کرلیا ۔یوں عسکریت پسندی زوال پذیری کا شکار ہونا شروع ہوگئی اور عوامی خدمات کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ کنفیوشس (Confucius)کے میانہ روی پر مشتمل تصور نے غلبہ پالیا تھا۔ 180

فوجی طاقت

بادشاہ کے ارد گرد چھ بڑے فوجی دستے تعینات ہوتے، ایک "شی(Shi)" یا فوجی دستہ ڈھائی ہزار (2,500) فوجیوں پر مشتمل ہوتا، اس کے علاوہ ایک "کُن (Kun)"یا فوجی دستہ بارہ ہزار پانچ سو(12,500) فوجیوں پر مشتمل تھا۔جاگیردارانہ دور میں بادشاہ اپنے ساتھ دس ہزار (10,000) رتھ گاڑیاں رکھتا تھا۔ کسی بھی ماتحت افسر کو ایک ہزار (1,000) جنگی رتھ گاڑیوں سے زیادہ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ 632 قبل مسیح میں جب "ٹسین(Tsin)" نے اپنے سب سے بڑے حریف "ٹسئو(Ts‘u)" پر فتح حاصل کی ، اس سے پہلے میدان میں سات سو (700)رتھ گاڑیاں موجود تھیں۔589 قبل مسیح میں اسی سلطنت نے آٹھ سو (800)رتھ گاڑیاں اپنی فوج میں شامل کرلی تھیں، جنہوں نے دریائے زرد(Yellow River) کے اطراف میں پیش قدمی کی اور مشرقی حصہ کی حریف ریاست "ٹسئی(Ts‘i)" کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ 181

سپاہی

چینی سپاہیوں کو ریاست رقوم فراہم کرتی تھی۔ انہیں جبری بھرتی کرکے بڑے جنگی دستوں میں شامل کرکے اسلحہ فراہم کیا جاتا تھا۔چینی ریاستوں میں کاشت کاروں کی جبری بھرتی کا یہ طریقہ کار بڑی فوج تشکیل دینے میں کافی کارفرما رہا۔ بادشاہوں کاعام لوگوں کو ریاست کے لیے اسلحہ سے لیس کرنا انتہائی آسان تھا،کیوں کہ ان کے پاس ایسا کرنے کی طاقت تھی۔ریاست کاشت کار سپاہیوں کو اسلحہ فراہم کرتی تھی ۔ اسلحہ کا ایک معیار مقرر تھا یوں ایک ہی مرتبہ کے حامل سپاہی ایک ہی طرح کا اسلحہ حاصل کرتے تھے۔سپاہیوں کے مختلف مرتبے اورانعامات کا معیار مقرر تھا، ان کا عہدہ اور انعام کا اندازہ اسلحہ سے مزین وردی کے ذریعے آسانی سےمعلوم ہو جاتا تھا۔ چین میں سماجی سیاسی نظام قائم تھا، یوں سپاہیوں کو پیچیدہ و مشکل اوزار اور اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔وہ لوگ ایک وقت میں ایک سے زائد اسلحہ چلانے کی مہم میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔اسی وجہ سے چینیوں نےمیزائیل، گھڑ سوار ، رتھ گاڑی، جنگی آہن پوش گاڑی، محاصرہ اور دیگر فوجی جنگی ہتھیاروں کو حاصل کرکے مہارت حاصل کرلی تھی۔ 182

آہنی لباس

قدیم چینی جنگی لباس مستطیل چمڑے کی پٹیوں پر مشتمل ہوتا جنہیں باندھ کر ایک قمیض کی شکل دے دی جاتی تھی۔رتھ گاڑی کے سپاہی لمبے بھاری چمڑے کی زرہ زیب تن کرتے تھے۔مختلف مقامات پر جانے والے پیادہ فوجی ہلکے وزن والے چمڑے کی زرہ پہنتے تاکہ نقل و حرکت اور مقابلے کی رفتار میں کمی واقع نہ ہو۔مسلح پیادہ سپاہیوں کی مثل پیادہ سپاہی تانبے کے جنگی خول پہنا کرتے تھے۔لکڑی کی بنی ہوئی حفاظتی ڈھال کو تابنے سے ڈھانکا جاتا تھا۔ بعد کے ادوار میں تانبے کی جگہ لوہے کا استعمال کیا جانے لگا تھا۔کم وزنی زرہ کی حامل فوج بہت زیادہ متحرک ہوتی اور ان حفاظتی ڈھالوں کوجنگ میں قریب اور انفرادی مقابلے میں استعمال کیا کرتے تھے۔ان پیادہ سپاہیوں پر نہ حملہ کو روکا جاتا اور نہ ہی کوئی نظم و ضبط کے فوائد انہیں حاصل تھے۔ دورِ"زہینگیو(Zhanguo)" میں کچھ پیادہ سپاہیوں کو زرہ پہنائی گئی ، جس میں متعدد لوہے کی پلیٹوں کو یکجا کرکے لوہے کی قمیض تیار کردی گئی تھی۔ بہرحال، چمڑے کی زرہ سلسلہ شاہی ہین (Han Dynasty) میں بھی زیادہ تر استعمال کی جاتی تھی۔183

موخر دورِ" شینگ (Shang)"سے مغربی سلطنت "زہو (Zhou)"میں اور ساتھ "چِنکئی (Chinqiu)" اور "زہینگئو(Zhanguo)" دور میں چینی پیادہ سپاہیوں کا سب سے خاص ہتھیار نیزہ تھا۔ اس ہتھیار میں دھکیلنے کے لیے نیزہ اور کاٹنے کے لیے آنکڑے کو تانبے کے ایک ٹکڑے میں یکجان کرکے پیوست کردیا جاتا تھا۔بعد میں تانبے کی جگہ لوہا استعمال کیا جانے لگا تھا۔

تلوار

تلوار آمنے سامنے کے مقابلے میں استعمال کی جاتی تھی۔ابتدا میں چینی پیادہ سپاہی تانبے کی بنی ہوئی تلواراستعمال کیاکرتے تھے۔تلوار کا تیز دھاری حصہ دستہ سے دوگنا بڑا رکھا جاتا تھا۔تلوار کی بناوٹ اور لمبائی مختلف ہواکرتی لیکن تیز دھاری حصہ دو سے تین فِٹ لمبا رکھا جاتا تھا۔چینی تلوار دھکیلنے اور کاٹنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔دورِ"زہینگئو(Zhanguo)"میں پیادہ سپاہیوں کی تانبے کی تلواروں میں دو قسم کی تبدیلیاں کی گئیں۔پہلی ، لوہے کی دھات کاری کی گئی، جن سے بڑے پیمانے پر آہنی اسلحہ بنایا گیا ، خاص طور پر تلوار۔ دوسرا کثیر تعداد میں چھوٹی تلواریں بھی بنائی گئیں ۔ ان تلواروں کا تیز دھاتی حصہ دستہ کے برابر رکھا گیا تھا اور اسے گھڑ سوار فوج کے لیے محفوظ رکھا جاتا تھا۔184

گھڑ سوار اور رتھ گاڑیاں

دورِ "زہینگئو(Zhanguo)" میں گھڑ سوار فوج جنگوں میں عام استعمال کی جاتی تھی۔"تائی کنگ(T’ai Kung)" اپنے چھ گپت اسباق میں گھڑ سوار فوج اور دیگر عسکری افواج کا موازنہ کرتے ہوئے کہتا تھا کہ دس(10) گھڑ سوار سو(100) پیادہ سپاہیوں کو ختم کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں، اور سو (100) گھڑ سوار ہزار(1000) افراد کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

ابتدائی " زہو (Zhou)"" سلسلہ شاہی اور "شینگ (Shang)"کے دور حکومت میں رتھ گاڑی اشرافیہ ، دولت اور طاقت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ "چِنکئی (Chinqiu)" دور میں رتھ گاڑی کا استعمال مزید وسعت اختیار کرگیا اور تاریخ میں ایسی کثیر جنگوں کے شواہد موجود ہیں جن میں رتھ گاڑیوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ 185

مشہور جنگیں

قدیم چین اور باہر کی ریاستوں کے مابین کثیر جنگیں لڑی گئیں۔ ان میں سے کچھ اہم جنگوں کی تفصیلات بیان کی جارہی ہیں:

جنگ ِمو –یویح (1027 قبل مسیح)

سلسلہ شاہی "چئو(Chou)" کے ذرائع سے تفصیل واضح ہوتی ہے کہ جنگ کا مقام ایک صحرا تھا۔ بادشاہ"وو(Wu)" کی فوج میں تین ہزار(3000) "چئو(Chou)" اشرافیہ اور آٹھ سو(800) "شینگ (Shang)"کے مفرور افراد شامل تھے، بہرحال اس کی فوج چھوٹے طبقہ کو ملا کر بہت بڑی ہوچکی تھی۔"شینگ (Shang)"کی فوج کی سربراہی "شئو ہِسین (Shou Hsin)"کر رہاتھا، ان کی تعداد بھی کثیر تھی۔ پانچ لاکھ (5،00،000)افراد کی تعداد روایتی طور پر بیان کی جاتی ہے، لیکن اتنی بڑی تعداد لازمی طور پر ایک مبالغہ آرائی ہے۔ "شئو(Shou)" کی فوج میں کثیر غلاموں کو مرکز کی حفاظت کے لیے جلد بازی میں اسلحہ سے لیس کردیا گیا تھا۔ ریاست "چئو(Chou)"کے ابتدائی شواہد بار بار اس بات کو تسلیم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بادشاہِ"شینگ (Shang)" کی مقبولیت میں مسلسل کمی آچکی تھی اور اس کی فوج کا حوصلہ بھی انتہائی پست تھا۔

دوسری جانب "چئو(Chou)" کے جنگی خیموں میں ماحول مختلف تھا۔ اس کے دستوں کی کم تعداد نے صرف اپنے عزم کو پختہ کیا۔سب سے پہلے جنگی دستوں کی جانب سے اپنے سربراہ سے وفاداری کا عزم دہرایا گیا جسے لازوال "مو کے عہد " کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کے بعد باشاہ" وو(Wu) "نے آنے والی جنگ کے متعلق احکامات صادر کیے۔ اس کے دستوں کو دشمن کے خلاف متحد ہو کر لڑنا تھا ، انہیں یہ حکم دیا گیا کہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ کر دشمن کے قریب جا کر مقابلہ کیا جائے۔ چار یا پانچ سے زیادہ ضربوں اور چھ یا سات سے زیادہ دھکوں سے آگے بڑھنا نہیں ہے، اس کے بعد ٹھہرجانا اور دوبارہ منظم ہوجانا ہے۔ بادشاہ " وو(Wu) " کا جنگی منصوبہ اس کے سپاہیوں پر انحصار کیے ہوئے تھاکیوں کہ میدان رتھ گاڑیوں کے لیے غیر موزوں تھا۔ یکجا رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بادشاہ"شینگ (Shang)"کی رتھ گاڑیوں سے بچا جاسکے ۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جب صفیں غیر منظم ہوجاتیں تو "شینگ (Shang)"کے اگلےدستے پیچھے کی جانب مڑ جاتے اور پیچھے والوں کو مزید غیر منظم کردیتے تھے۔ "شئو ہِسین (Shou Hsin)" کی فوج کو کسی بھی قیمت پر دوبارہ منظم ہونا تھا ، دونوں کے مابین مقابلہ بہت سخت ہوا، غیر منظم"شینگ (Shang)"کی افواج نے ہولناک نقصانات اٹھائے تھے،کثیر مقدار میں خون بہاتھا۔بالآخر خط "شینگ (Shang)"میں دراڑپیدا ہوگئی۔ "شئو ہِسین (Shou Hsin)" بھاگ کر اپنے محل واپس آگیا جہاں طیش اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہوکر اس نےخود کو جلا ڈالا تھا۔ 186

معرکہ یین-لِنگ(575 قبل مسیح)

"ٹسین(Tsin)" اور "چئو(Chou)" کے مابین آخری تین معرکے "یین-لِنگ (Yen-ling)" کے مقام پر "چینگ(Cheng)" کی ریاست میں بیس سال بعد لڑا گیا تھا۔ اس دور میں بادشاہ "چاؤنگ(Chuang)" کی اصلاحات کو بھلا دیا گیا تھا، اور "چئو(Chou)" اپنی تعداد زیادہ بھروسہ کرنے لگا۔"ٹسین(Tsin)" کمانڈر نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا تھا کہ اس کے دستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس نےدلدل کے عقب میں دفاعی طرز اختیار کیا، اس کی فوج کا جو حصہ نمایاں تھااس نے ان کے سامنے رتھ گاڑی کے حملوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی خندق کھدوادی تھی۔ "چئو(Chou)" کی فوج کے پاس ایک گاڑی تھی جسے "چاؤ-چئی(ch’ao-ch’e)" یا " کوے کے گھونسلہ کی گاڑی(crow’s nest chariot)"کہا جاتاتھا۔اس کی ساخت رتھ گاڑی کی طرح ہوتی، بڑے پہیے ہوتے اور اس کے اوپر لمبی عمارت نما ساخت بنائی جاتی جہاں ایک شخص جائزہ لینے کے لیے مقرر ہو اکرتا تھا۔ بادشاہ بذات خود اس مقام پر بیٹھتا اور نیچے موجود عہدیداران کو چیخ کر احکامات صادر کیا کرتا تھا، جووہ دیکھتا اسے اپنے ماتحتوں تک پہنچاتا اور وضاحت بھی طلب کیاکرتا تھا۔ اس باوسائل آلہ کے باوجود باخبری کا معرکہ "میاؤ فُن-ہوینگ(Meao Fun-huang)" نامی "ٹسین(Tsin)"کے عہد یدار نے جیت لیا تھا۔اس نے یہ محسوس کیا کہ دشمن کی صفیں عام جنگی انداز سے اپنی جگہ موجود ہیں ، "چئو(Chou)"بہتر انداز سے فوج کے وسط میں موجود ہے ، اس کے سامنے دلدلی علاقہ ہے جو اس کی نقل و حرکت میں مزاحمت پیدا کرسکتا ہے، جن کہ دونوں اطراف میں موجود افواج دلدلی علاقے کے عقب میں موجود ہیں اور ان کی لڑنے کی صلاحیت بھی زیادہ پر اثر محسوس نہیں ہورہی ہے۔اس کے علاوہ یہ خبریں بھی موصول ہوئیں کہ دونوں اطراف کی فوج کے کمانڈر ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے، نتیجتاً ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے۔ یہ صورتحال دیکھ کر "میاؤ(Meao)" نے اپنے کمانڈر کو نیا منصوبہ تیار کرنے پر آمادہ کرلیا، اس نے فوراًدونوں فوجی اطراف کو مضبوط کیا ، درمیان میں صرف کچھ سپاہیوں کو حملہ کو روکنے کی غرض سے رکھا۔ اس کے بعد "ٹسین(Tsin)" کی رتھ گاڑیوں پر سیدھی اور الٹی جانب سے ایک ساتھ بیک وقت حملہ کرکے ڈھیر کردیااور تیزی کے ساتھ فوج کے مرکزی حصہ میں ان کے بھاگنے سے پہلے پہنچنے کی کوشش کی۔ بادشاہ"چئو(Chou)" ایک تیز لگنے سے زخمی ہوگیا لیکن اس کے سپاہی اسے بھگانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ 187

قانونی نظام

دنیا کا تیسرا قدیم قانونی نظام چین میں تھا جس کی ابتدا 2500 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ تحریر شدہ چینی قوانین انتہائی بے رحم اور سنگ دل اور نفرت انگیز سزاؤں پر مشتمل تھے، جن میں قتل اور دیگر جرائم پر سخت سزائیں شامل تھیں۔188

چینی نظام مملکت میں محکمۂ عدلیہ انتظامیہ سے علیحدہ نہ تھا۔ انتظامیہ کے حکام ہی عدلیہ کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ملک کا سب سے بڑا قاضی خود بادشاہ تھاجو لوگوں کی فریادیں سنتا اور داد رسی کیاکرتا تھا۔جس طرح چین کا عدالتی نظام علیحدہ اور منظم نہ تھااسی طرح ان کے قوانین بھی کمزور، ضعیف، غیر منضبط اور مختلف تھے۔ 189

قدیم چین میں تمام حکومتیں قدرتی قوانین پر انحصار کرتی تھیں، جس میں کائناتی قانون اور اشیا کی ترتیب شامل تھی۔ بادشاہ کو "جنت کا بیٹا"کہاجاتاتھا۔قدرتی سخاوت موسم بہار کو کہا جاتا ، اسی لیے بہار میں تحفہ تحائف کا سلسلہ کیا جاتا تھا۔ قدرتی گراوٹ خزاں کے موسم کو مانا جاتا تھا، یوں اس میں سزاؤں کے فرمان جاری کیے جاتے تھے۔ 190

سلسلہ شاہی "ہین (Han)"کے قبل شاہی سلاطینِ "چِن(Chin)" کے دور میں چین میں کسی مرکزی سلطنت کا وجود نہیں تھا۔اس وقت کچھ ہی تعداد میں الگ الگ اور مشترک جنگ وجدال کی حامل ریاستیں قائم تھیں۔سلسلہ شاہی کے ابتدائی ادوار کو چین کا جاگیردارانہ دور کہا جاتا تھا۔اسی دور میں چین میں تحریری قوانین کا آغاز ہوا تھا۔539 قبل مسیح میں متعدد سزاؤں پر مشتمل کتب مختلف ریاستوں میں شائع کی گئی تھیں۔400 قبل مسیح میں چھ عنوانات پر قانونی کتاب "لی کوئی(Li Kwei)" نامی سیا ستدان نے مرتب کی تھی۔اس کے پچاس سال بعد ایک نئی قانونی دستاویز طاقت ور ریاستِ"چِن(Chin)" کے حاکم "شینگ (Shang)" نے مرتب کی تھی۔191

221قبل مسیح دور میں سلسلہ شاہی چن (Chin)کے پہلے حکمران نے حکومت چئو (Chou) کو شکست خوردہ کیا ، دیگر جاگیردانہ نظام پرمبنی ریاستوں پر فتح حاصل کی ، جاگیردانہ سیاسی نظام اور اداروں کا خاتمہ کیا اور عالمگیر چینی سلطنت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ یوں چن(Chin) کا قانونی نظام سلطنت چین کے نظام میں تبدیل ہوگیا تھا۔ پہلے حکمران کی جانب سے جبرا نافذکی جانے والی معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کے سبب ابتری اور بدامنی کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی ۔ بڑے پیمانے پر سرکشی و بغاوت نے سراٹھانا شروع کردیا جو بالآخر 210قبل مسیح میں پہلے شہنشاہ کی موت کا سبب بن گئی اور یوں ان کی سلطنت 207قبل مسیح میں شکست سے دوچار ہوگئی تھی ، اس کے ساتھ ہی اس کے قانونی نظام کی جگہ سلسلہ شاہی ہین (Han) میں کنفیوزشزم (Confucianism)کا قانون نافذکردیا گیا تھا ۔ تاہم پھر بھی ، قانون پسندی نے اپنا نشان دستور کی صورت میں ضرور چھوڑا تھا۔ اس کا اثر تمام شاہی قوانین میں اپنا وجود رکھتا تھا اور یہ حقیقت تھی کہ انتظامی اور دیگر غیر مجرمانہ معاملات میں عام طورپر چینی ایک معیاری اصول و قوانین کی پیروی کیا کرتے تھے ۔

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدیم چینی تہذیب ایک بہتر مادہ پرست سماج تھا، لیکن عقل و فہم، مذہب اور دیگر بقائے حیات کے ذرائع میں شدیدکمی کا شکار تھا۔ حکمرانوں کی لالچ وہوس، ذاتی فوائد حاصل کرنے کا مقصد، طاقت کاحصول، اعمال بد اور دیگر دنیاوی لذات نے قدیم چینی حکمرانوں کو صراط مستقیم سے دور کردیا تھا۔ ان قبیح عادتوں میں پڑ کر ان کے نفوس مزید گندگی، نا انصافی اور ظلم پسندی کا شکار ہوگئے تھے۔اپنی ضروریات و خواہشات کےحصول کے لیے محصولات میں اضافہ کرکے غریب عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیا کرتے تھے۔اس کے علاوہ ، دیگر ممالک و خطوں کے مسلسل حملوں نے چینی خطے کو مزید کمزور کردیا تھا، اسی وجہ سے ان دو ہزار سالوں میں سات مختلف سلسلہ سلاطین نے قدیم چین پر حکومتیں کیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنا اقتدار طویل عرصے تک قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ ہر دور حکومت کا اختتام دشمن کے حملہ، اپنے ہی لوگوں کی غداری،بغاوت اور فریب کے سبب انجام پذیر ہوا تھا۔عوام الناس نے اشرافیہ کی غیر منصفانہ برتری کو قبول نہیں کیا، اور وہ زندگی کے مقصد کو سمجھنے میں یکسر ناکام ہوگئے جس کا راستہ صرف اور صرف اللہ رب العزت کے پیغام اور انبیاء کی تعلیمات میں ہی پوشیدہ تھا۔

 


  • 1 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott, Foresman and Company, New York, USA, Pg. 89-96.
  • 2 Herbert A. Giles (1906), Religions of Ancient China, Constable and Company Ltd., London, U.K. (Online): https://www.gutenberg.org/files/2330/2330-h/2330-h.htm#link2HCH0001: Retrieved: 11-04-2019
  • 3 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott, Foresman and Company, New York, USA, Pg. 89.
  • 4 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Zhou-dynasty Retrieved: 03-04-19
  • 5 Ancient History Encyclopedia (Online): https://www.ancient.eu/china/ Retrieved: 03-04-19
  • 6 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott Foresman Company, New York, USA, Pg. 86.
  • 7 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 249.
  • 8 T. Walter Wall bank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott Foresman and Company, New York, USA, Pg. 89-96.
  • 9 Paul Monroe (1917), A Brief Course in the History of Education, The Macmillan Company, London, U.K., Pg. 12.
  • 10 T. Walter Wall bank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott Foresman and Company, New York, USA, Pg. 96.
  • 11 Lü Daji & Gong Xuezeng (2014), Marxism and Religion. Religious Studies in Contemporary China (Translated by Chi Zhen), Leiden, Netherland, Pg. 71.
  • 12 C. M. Stevans (1894), The World's Congress of Religions, Laird & Lee Publishers, Chicago, USA, Pg. 75.
  • 13 چینی مذہب میں "ٹوڈی گونگ (Tudi Gong)"اس خدا کو کہا جاتا تھا جس کی معبود سازی اور افعال کا تعین اس علاقے کے مقیم لوگ کیا کرتے تھے۔"ٹوڈی گونگ (Tudi Gong)" کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس کی قدرت کا دائرہ اختیار ایک ہی جگہ محدود ہوا کرتا تھا۔یعنی ہر خدا کسی پُل، گلی و سڑک، گرجا گھر، عوامی عمارت، ذاتی گھر، یا کھیت تک محدود تھا۔ گھروں میں اس کا وجود طبقہ امرا کے خدا"سائے شین (Cai Shen)"کی مثل تصور کیا جاتا تھا۔ہر حالت میں دیوتا "ٹوڈی گونگ (Tudi Gong)"کوشہر کے خدا اور روحانی حاکم عدالت "چینگ ہوینگ(Cheng Huang)" کے تابع مانا جاتاتھا۔
  • 14 روایتی طور پر قدیم چینی باشندے دیوتا "کیوئی –شین(Kuei-Shen) " کے متعلق یہ تصور رکھتے تھے کہ یہ ہمارے آباو اجداد کی روحانی طاقت یا کوئی روحانی وجود ہے۔ بعد میں اس کے متعلق یہ نظریہ قائم ہوگیا کہ وہ اچھی یا بری روحانی طاقت یا مثبت یا منفی روحانی قوت کی کوئی صورت ہے۔آگے چل کر نوساختہ کنفیوشیائی مذہب میں "کیوئی –شین(Kuei-Shen) " کے بارے میں یہ تصور قائم کرلیا گیا کہ یہ خالصتاً دیوتا "یِن(Yin) "اور" یینگ(Yang)" کی بلا ارادہ و بے قصد سرگرمیاں ہیں۔
  • 15 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/article/894/most-popular-gods-goddesses-of-ancient-china/ Retrieved: 22-03-2019.
  • 16 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott Foresman and Company, New York, USA, Pg. 90.
  • 17 Rodney Leon Taylor (2004), The Illustrated Encyclopedia of Confucianism, the Rosen Publishing Group Inc., New York, USA, Pg. 503-504.
  • 18 Jean Holm & John Bowker (1998), Worship, Printer Publication, London, U.K., Pg. 169.
  • 19 Jean Holm & John Bowker (1998), Worship, Printer Publication, London, U.K., Pg. 169.
  • 20 Manfred Lurker (2004), The Routledge Dictionary of Gods and Goddesses, Devils and Demons, Routledge, London, U.K., Pg. 205.
  • 21 Jean Holm & John Bowker (1998), Worship, Printer Publication, London, U.K., Pg. 170.
  • 22 Trenton Campbell (2015), Gods & Goddesses of Ancient China, Britannica Educational Publishing, New York, USA, Pg. 81-82.
  • 23 Ancient History Encyclopedia (Online Version); https://www.ancient.eu/article/894/most-popular-gods--goddesses-of-ancient-china/ Retrieved 25-03-2019.
  • 24 Trenton Campbell (2015), Gods & Goddesses of Ancient China, Britannica Educational Publishing, New York, USA, Pg. 88.
  • 25 Jean Holm & John Bowker (1998), Worship, Printer Publication, London, U.K., Pg. 164.
  • 26 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 46.
  • 27 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 26.
  • 28 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 46-47.
  • 29 Grant Hardy and Anne Behnke Kinney (2005), The Establishment of the Han Empire and Imperial China, Greenwood Press, Connecticut, USA, Pg. 7.
  • 30 Grant Hardy and Anne Behnke Kinney (2005), The Establishment of the Han Empire and Imperial China, Greenwood Press, Connecticut, USA..
  • 31 پروفیسر بشیر احمدخان، دنیا کی تاریخ، مطبوعہ: مکتبہ نظامیہ ، کراچی ، پاکستان،ص: 64-63 .
  • 32 Grant Hardy and Anne Behnke Kinney (2005), The Establishment of the Han Empire and Imperial China, Greenwood Press, Connecticut, USA Pg. 5.
  • 33 Robert S. Ellwood (1998), The Encyclopedia of World Religions, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 69.
  • 34 Grant Hardy and Anne Behnke Kinney (2005), The Establishment of the Han Empire and Imperial China, Greenwood Press, Connecticut, USA Pg. 5.
  • 35 Herbert A. Giles (1906), Religions of Ancient China, Archibald Constable & Co., London, U.K., Pg. 34.
  • 36 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 12.
  • 37 Herbert A. Giles (1906), Religions of Ancient China, Archibald Constable & Co., London, U.K., Pg. 36.
  • 38 Robert S. Ellwood (1998), The Encyclopedia of World Religions, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 81-82.
  • 39 C. M. Stevens (1894), The World's Congress of Religions, Laird & Lee Publishers, Chicago, USA, Pg. 75-76.
  • 40 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 48-49.
  • 41 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 12.
  • 42 Lee Dian Rainey (2010), Confucius & Confucianism: The Essentials, John Wiley & Sons Ltd., West Sussex, U.K., Pg. 36.
  • 43 زہو (Zhou) کے مذہبی آداب و رسوم ابتدائی دور میں زہو کے عہدیدران (Officers of Zhou) کے طور پر جانی جاتی تھیں،جس میں ملکی نظم و نسق اور تنظیمی اصولوں پر حقیقتا ًکام کیا گیا تھا۔ بعد کے دور میں لیوژین (Liu Xin) نے اس کا نام تبدیل کرکے اسی سے ملتا جلتا دوسرا نام رکھ دیا تاکہ کتاب تاریخ میں اسے ایک الگ حصہ کی شکل میں شامل کیا جاسکے ۔ گم ہوجانے والے تمام تاریخی حقائق کے متبادل کے لیے اس کے ساتھ عباداتی رسومات کی کتاب اور آداب معاشرت ، مجلس اور سماجی تقریبات کی کتاب کو ملحق کردیا گیا تھا تاکہ قدیم دور کے محفوظ شدہ تین سماجی احکام "تین عباداتی رسومات" کو ادبیات کنفیوشس (Confucius) کے کام سے ملاکر ایک کردیا جائے ۔
  • 44 Richard J.Smith (2013), Mapping China and Managing the World Culture, Cartography and Cosmology in late impartial Time, Routledge Taylor and Franchis Group, London & New York, U.K & USA, 100.
  • 45 Xinzhong Yao (2000), An Introduction to Confucianism, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., 191-192.
  • 46 Encyclopedia of Britannica (Online): https://www.britannica.com/biography/Han-Feizi Retrieved: 18-04-2019
  • 47 The Korean Herald (Online): http://www.koreaherald.com/view.php?ud=20170822000239 Retrieved: 18-04-2018
  • 48 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 46-47.
  • 49 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 52.
  • 50 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott Foresman and Company, New York, USA, Pg. 98.
  • 51 Robert S. Ellwood (1998), The Encyclopedia of World Religions, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 337.
  • 52 Robert S. Ellwood (1998), The Encyclopedia of World Religions, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 69.
  • 53 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 46-51.
  • 54 Robert S. Ellwood (1998), The Encyclopedia of World Religions, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 338.
  • 55 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 30-31.
  • 56 محمد عاصم بٹ، دانشِ مشرق،مطبوعہ:دستاویز مطبوعات، لاہور، پاکستان، 2016ء،ص:50-51
  • 57 Stanford Encyclopedia of Philosophy (Online): https://plato.stanford.edu/archives/win2010/ entries /mencius/ Retrieved: 29-04-2019
  • 58 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott, Foresman and Company, New York, USA, Pg. 101.
  • 59 Charles O. Hucker (1978), China to 1850: A Short History, Stanford University Press, California, USA, Pg. 45.
  • 60 Encyclopedia Britannica (Online): https://www.britannica.com/biography/Yang-Zhu Retrieved: 29-04-2019
  • 61 Liu Wu-Chi (1967), Encyclopedia of Philosophy, Macmillan Inc., London, U.K., Vol. 8, Pg. 358.
  • 62 David Race Bannon (1996), Chinese Medicine: From Temples to Taoism, T’ai Chi, China, Vol. 20, No. 3, Pg. 28–33
  • 63 Kristopher Schipper (1993), The Taoist Body, University of California Press, California, USA, Pg. 28-29.
  • 64 Brock Silvers (2005), The Taoist Manual, Sacred Mountain Press, Hawai, USA, Pg. 129-132.
  • 65 Mary Pat Fisher (1997), Living Religions: An Encyclopedia of the World's Faiths, I.B. Taurus, London & New York, U.K. & USA, Pg. 167.
  • 66 Richard Rafe Champion de Crespigny (2007), A Biographical Dictionary of Later Han to the Three Kingdoms (23-220 A.D.), Brill, Leiden, Netherland.
  • 67 Michael Martin (Editor, 2006), The Cambridge Companion to Atheism, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 228.
  • 68 Herbert A. Giles (1906), Religions of Ancient China, Archibald Constable & Co., London, U.K., Pg. 51-53.
  • 69 Ibid, Pg. 63.
  • 70 رشید احمد، تاریخ مذاہب، مطبوعہ:زمرد پبلی کیشنز،کوئٹہ ،پاکستان،2002ء،ص: 95-96
  • 71 علی عباس جلالپوری، روایات ِ تمدنِ قدیم ،مطبوعہ : تخلیقات،لاہور، پاکستان،2012ء، ص: 255
  • 72 Yao & Xinz Hong, (2010), Chinese Religion: A Contextual Approach, Continuum International Publishing Group, London, U.K., Pg. 32.
  • 73 Wu Hung (1988), From Temple to Tomb: Ancient Chinese Art and Religion in Transition, Society for the Study of Early China, New Hampshire, USA, Vol. 13, Pg. 79.
  • 74 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 23.
  • 75 Arthur Evans Moule (1914), The Chinese People, Society for Promoting Christian Knowledge, London, U.K., Pg. 168-169.
  • 76 Lakos William (2010), Chinese Ancestor Worship: A Practice and Ritual Oriented Approach to Understanding Chinese Culture, Cambridge Scholars Publishing, U.K., Pg. 6.
  • 77 Traditional Chinese Festival (Online): http://www.china.org.cn/english/features/Festivals/78308.htm Retrieved: 03-05-2019
  • 78 The Story of Chinese New Year (Online): https://www.chinesenewyearfestival.org/culture/19-the-story-of-chinese-new-year- Retrieved: 03-05-2019
  • 79 Liming Wei (2011), Chinese Festival, Cambridge University Press, Cambridge, U.K, Pg.25-28
  • 80 Solski Ruth, (2013), Families Around the World, Mark Press, Canada, Pg. 48.
  • 81 Michael Dillon (2017), Encyclopedia of Chinese History, Routledge, London, U.K., Pg. 551.
  • 82 Ju Brown & John Brown (2006), China, Japan, Korea: Culture and Customs, Book Surge, South Carolina, USA, Pg. 72.
  • 83 Christian Roy (2005), Traditional Festivals: A Multicultural Encyclopedia, ABC-CLIO, California, USA, Pg. 116.
  • 84 Yiqun Zhou (2010), Festivals, Feasts and Gender Relations in Ancient China and Greece, Cambridge University Press, New York, USA, Pg. 104-106.
  • 85 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 848.
  • 86 Jean Holm & John Bowker (1998), Worship, Printer Publication, London, U.K., Pg. 165.
  • 87 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File, New York, USA, Pg. 848.
  • 88 Wang Wei, Lia Hua Yuan & Et Al (N.D.), A Study of Ancient Rituals in China, Chinese Academy of Social Sciences, Beijing, China, Pg. 8.
  • 89 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File, New York, USA, Pg. 848.
  • 90 احمد بن ابی یعقوب بن جعفربن وہب ابن واضح،تاریخ یعقوبی،ج-1،مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی،پاکستان، ص: 267-268
  • 91 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File, New York, USA, Pg. 317.
  • 92 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File, New York, USA, Pg. 848.
  • 93 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File, New York, USA, Pg. 317.
  • 94 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 24.
  • 95 Walter Scheidel (2015), State Power in Ancient China and Rome, Oxford University Press, New York, USA, Pg. 151.
  • 96 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 168.
  • 97 Edward Harper Parker (1908), Ancient China Simplified, Champan and Hall Ltd., London, U.K., Pg. 197-198.
  • 98 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 57-58.
  • 99 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 20.
  • 100 Edward Harper Parker (1908), Ancient China Simplified, Champan and Hall Ltd., London, U.K., Pg. 84-85.
  • 101 Junius P. Rodriguez (1997), The Historical Encyclopedia of World Slavery, ABC-Clio, California, USA, Vol. 1, Pg. 145.
  • 102 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 989.
  • 103 G. Liu & S. Zhao (1994), Shilun lijiao zhong nüxing de diwei weti Issues about Women’s Position in Feudal Ethnic Codes, Jiangxi Social Science, 9, Pg. 63–65.
  • 104 Sing Ging Su (1922), The Chinese Family System, International Press, New York, USA, Pg. 26-29.
  • 105 Ancient History Encyclopedia (Online): https://www.ancient.eu/article/1136/women-in-ancient-china Retrieved: 23-04-2019
  • 106 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 193.
  • 107 Sing Ging Su (1922), The Chinese Family System, International Press, New York, USA, Pg. 31-32.
  • 108 سید عین الحق ،قدیم مشرق،ج-1،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ، کراچی، پاکستان(سن اشاعت ندارد)،ص:536
  • 109 Ancient History Encyclopedia (Online): https://www.ancient.eu/article/1136/women-in-ancient-china/ Retrieved: 23-04-2019
  • 110 Arthur Waley (1919), A Hundred and Seventy Chinese Poems, A. A. Knopf, New York, USA, Pg. 94.
  • 111 پَتری یعنی کہ زائچہ ،خطِ تقدیر۔مولوی فیروز الدین ،فیروز اللغات،مطبوعہ:فیروز سنز،لاہور، پاکستان ،2012 ء، ص:289
  • 112 سید اسد علی انوری ،صحیفہ چین ،مطبوعہ مکتبہ جامعہ ، دہلی، انڈیا،1937ء،ص:146
  • 113 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon and Schuster Inc., New York, USA, Pg. 790-791.
  • 114 Sing Ging Su (1922), The Chinese Family System, International Press, New York, USA, Pg. 33.
  • 115 جیمز کارکرن،تاریخِ ممالک چین(مترجم، جواہر اخلاق)،مطبوعہ: منشی نول کشور،دہلی، انڈیا، 1864ء،ص:302
  • 116 Sing Ging Su (1922), The Chinese Family System, International Press, New York, USA, Pg. 34.
  • 117 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon and Schuster Inc., New York, USA, Pg. 791.
  • 118 T. Walter Wallbank & Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott, Foresman and Company, New York, USA, Pg. 93.
  • 119 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon and Schuster Inc., New York, USA, Part 1, Pg. 792.
  • 120 سید عین الحق ،قدیم مشرق،ج-1،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ، کراچی، پاکستان(سن اشاعت ندارد)،ص: 539
  • 121 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon and Schuster Inc., New York, USA, Part 1, Pg. 790
  • 122 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 497-498.
  • 123 Walter Scheidel (2006), Sex and Empire: A Darwinian Perspective, Stanford University, Stanford, USA, Pg. 15-16.
  • 124 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 34.
  • 125 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 61-64.
  • 126 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 44.
  • 127 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott Foresman and Company, New York, USA, Pg. 93.
  • 128 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 64.
  • 129 LTL Mandarin School (Online): https://ltl-school.com/chinese-eat-dog/ Retrieved: 02-05-20
  • 130 "China Protesters: Stop 'Cooking Cats Alive' – Fury After Newspaper Says 10, 000 Felines Are Eaten Daily in Single Province". MSNBC. Associated Press. 18 December 2008.
  • 131 Facts and Details: http://factsanddetails.com/china/cat11/sub73/item146.html Retrieved: 03-05-2019
  • 132 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 50.
  • 133 Yiqun Zhou (2010), Festivals, Feasts, and Gender Relations in Ancient China and Greece, Cambridge University Press, New York, USA, Pg. 187.
  • 134 Yiqun Zhou (2010), Festivals, Feasts, and Gender Relations in Ancient China and Greece, Cambridge University Press, New York, USA, Pg. 187.
  • 135 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/article/890/daily-life-in-ancient-china/ Retrieved: 03-04-19
  • 136 جنس سلحب ایک ایسی نوع کو کہا جاتا ہے جو ایک خاص پودے کا زیر زمین انڈہ نمادبیز تنا ہے۔ اس کے ہر پودے میں ایک ہی پھولوں کا گچھا ہوتا ہے جس میں جامنی، گلابی اور سفید پھول موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر انواع کے نچلے حصہ میں متعدد پتلے پتےبھی نکلے نظر آتے ہیں۔ اس پودے کی پنکھڑی اور خوشہ خول نما ساخت وضع کرلیتی ہیں، اس کے علاوہ پھولوں کا لب نما حصہ کئی گوشوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
  • 137 Marcel Granet (1932), Festivals and Songs of Ancient China, Gorge Routledge & Sons Ltd., London, U.K., Pg. 147-157.
  • 138 Marcel Granet (1932), Festivals and Songs of Ancient China, Gorge Routledge & Sons Ltd., London, U.K., Pg. 147-157.
  • 139 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 50.
  • 140 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 17.
  • 141 Edward Harper Parker (1908), Ancient China Simplified, Champan and Hall Ltd., London, U.K., Pg. 274-275.
  • 142 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 17.
  • 143 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 277.
  • 144 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 59.
  • 145 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott, Foresman and Company, New York, USA, Pg. 93-94.
  • 146 پروفیسر بشیر احمد خان، دنیا کی تاریخ ،مطبوعہ: مکتبۂ نظامیہ ، کراچی ، پاکستان، 1957،ص:62
  • 147 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 156.
  • 148 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 59-60.
  • 149 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 42.
  • 150 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 65-66.
  • 151 عظیم دیوار چین قلعہ بندی کے ارتقا ء کی جانب اشارہ کرتی ہے جسے خاص طور پر چین کے مشہور تاریخی شمالی خطہ کی حدود بندی کے لیے تعمیر کیا گیا تھاتاکہ چینی ریاستوں کی حفاظت اور ان کی جامعیت کی عملداری کو یقینی بنایا جائے اور ساتھ ہی گھاس پھوس والے درخت سے عاری لق و دق میدان کے گنوار خانہ بدوشوں اور ان کے ممالک سے سلطنت کو بچایا جاسکے۔ ساتویں صدی قبل مسیح کے ابتدائی دور میں متعدد دیواروں کی تعمیر کی گئی تھیں۔[The New York Times with introduction by Sam Tanenhaus (2011), The New York Times Guide to Essential Knowledge: A Desk Reference for the Curious Mind, Macmillan Publishers, New York, USA, Pg. 1131.، جسے بعد میں 220 سے 206 قبل مسیحی دورِ سلسلہ شاہی "قِن شی ہوینگ (Qin Shi Huang)"میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر یک جان کردیا گیا تھا۔ "قِن شی ہوینگ (Qin Shi Huang)"چین کا ممتاز ترین حکمران تھا۔ عہد مؤخر میں کثیر ترقی پسندانہ حدود کو مختص کیا گیا ، اسے بلند کیا گیا ، اور موجودہ دور میں سرحدی دیوار کو مزید وسعت دی گئی تھی۔ مختلف ادوار میں تعمیر کی جانے والی عظیم دیوار میں 1368 سے 1644 تک دورِ سلسلہ شاہی" مِنگ (Ming)"کی تعمیرات عمدہ اور اعلی معیار رکھتی تھیں۔Patricia Buckley Ebrey (1999), The Cambridge Illustrated History of China, Cambridge, U.K. Pg. 208.جسے تیسری صدی قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔دیواریں ہر شہر اور دیہاتی علاقوں کا اہم جز جانی جاتی تھیں۔ چین کا کوئی بھی ایسا شہر نہیں تھا جہاں دیواریں نہ ہوں ، ان کی اہمیت اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے پرکھی جاسکتی ہےکہ یہی لفظ شہر اور دیوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مقبرے اور مکانات ان دیواروں میں اور بند زمین میں تعمیر کیے جاتے تھے۔ عہد عتیق کی زیادہ تر تعمیرات لکڑی سے کی جاتی تھیں۔
  • 152 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 40.
  • 153 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 156.
  • 154 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott, Foresman and Company, New York, USA, Pg. 96.
  • 155 Yuri Pines (2012), The Everlasting Empire: The Political Culture of Ancient China and Its Imperial Legacy, Princeton University Press, Princeton, USA, Pg. 12-13.
  • 156 یہ آباد شدہ، اور راحت و سکون والی دنیا کے متعلق قدیم یونانی بیانِ اظہار تھا۔ رومی سلطنت کے دور میں یونانی تہذیب بالواسطہ مقبول ہوئی اور مذہبی طور پر اعلی تنظیم بن گئی تھی۔ موجودہ دور میں استفادہ کاری میں یہ باقاعدگی کے ساتھ عالمگیر اور عیسائی کلیساؤں کے متعلق مکمل وضاحت دیتی ہے اور سب کو ایک ساتھ مجتمع کرنے والے بیانیے کے طور پر اور ساتھ ہی ساتھ موجودہ دور کی تہذیب و تمدن کو ایک ساتھ ملانے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ مزید برآں یہ زمینی رہنمائی کے متعلق نقشہ نگاری کے لیے بھی مستعمل تھی جسے موخر عہد عتیق اور درمیانی دور میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔
  • 157 Yuri Pines (2012), The Everlasting Empire: The Political Culture of Ancient China and Its Imperial Legacy, Princeton University Press, Princeton, USA, Pg. 14-17.
  • 158 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Chinese-civil-service Retrieved: 03-04-2019
  • 159 Xu Yan (2009), Hong Kong Law Journal: No Taxation without Representation, China's Taxation History and its Political-Legal Development, Hong Kong Scholar’s Hub, Pok Fu Lam, Hong Kong, Pg. 518-520.
  • 160 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File, New York, USA, Pg. 355.
  • 161 Walter Scheidel (2015), State Power in Ancient China and Rome, Oxford University Press, New York, USA, Pg. 152.
  • 162 Ibid, Pg. 153.
  • 163 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott, Foresman and Company, New York, USA, Pg. 91.
  • 164 Ibid, Pg. 90.
  • 165 Encyclopedia of Britanniaca (Online Version): https://www.britannica.com/art/Chinese-art Retrieved: 22-12-2017.
  • 166 T. Walter Wallbank and Alastair M. Taylor (1942), Civilization Past and Present, Scott, Foresman and Company, New York, USA, Pg. 92.
  • 167 علی عباس جلالپُوری، روایاتِ تمدّن قدِیم ،مطبوعہ:تخلیقات، لاہور، پاکستان،2012ء،ص:266
  • 168 سید عین الحق ،قدیم مشرق،ج-1،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ، کراچی، پاکستان(سن اشاعت ندارد)،ص:526
  • 169 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 15.
  • 170 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 1100.
  • 171 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 59.
  • 172 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 13.
  • 173 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 16.
  • 174 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 758.
  • 175 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 16.
  • 176 Peter Bogucki (2008), Encyclopedia of Society and Culture in Ancient World, Fact on File Inc., New York, USA, Pg. 758.
  • 177 Edward Harper Parker (1908), Ancient China Simplified, Chapman and Hall Ltd., London, U.K., Pg. 89.
  • 178 Thomas E. Ennis (1948), Eastern Asia, J.B. Lippincott Company, New York, USA, Pg. 36.
  • 179 Neil D. Bramwell (2014), Discover Ancient China, Enslow Publisher Inc., New Jersey, USA, Pg. 65-68.
  • 180 Arthur Cotterell (2005), Eyewitness Ancient China, DK Publishing, New York, USA, Pg. 14.
  • 181 Edward Harper Parker (1908), Ancient China Simplified, Chapman and Hall Ltd., London, U.K., Pg. 28-31.
  • 182 Michael C. Allers (2000), Classical Greek and Classical Chinese Warfare: A Comparative Analysis, Naval Post Graduate School, California, USA, Pg. 94-95.
  • 183 Michael C. Allers (2000), Classical Greek and Classical Chinese Warfare: A Comparative Analysis, Naval Post Graduate School, California, USA, Pg. 97.
  • 184 Michael C. Allers (2000), Classical Greek and Classical Chinese Warfare: A Comparative Analysis, Naval Post Graduate School, California, USA, Pg. 97-98.
  • 185 Ibid, Pg. 100-101.
  • 186 Chris Peers (2013), Battles of Ancient China, Pen & Sword Military, Yorkshire, U.K., Pg. 10-11.
  • 187 Chris Peers (2013), Battles of Ancient China, Pen & Sword Military, Yorkshire, U.K., Pg. 25-26.
  • 188 Chin Kim & Theodore R. Leblang (1975), The Death Penalty in Traditional China, University of Georgia School of Law Research, Virginia, USA, Vol. 5, Pg. 76.
  • 189 سید عین الحق ،قدیم مشرق،ج-1،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ، کراچی، پاکستان(سن اشاعت ندارد)،ص:535
  • 190 Edward Harper Parker (1908), Ancient China Simplified, Chapman and Hall Ltd., London, U.K., Pg. 108-109.
  • 191 Chin Kim & Theodore R. Leblang (1975), The Death Penalty in Traditional China, University of Georgia School of Law Research, Virginia, USA, Vol. 5, Pg. 79-81.