اہل ہند کے ہاں بھی عہدِ عتیق کی دیگراقوام کی طرح اصول و قوانین کا ایک وسیع ڈھانچہ موجو دتھا جس کے مطابق وہ تمام تر مسائلِ حیات حل کرنے کی کوشش کرتے تھےاوراپنی حیات ِ ارضی کو عموماً ان قوانین کا پابند رہ کر گزارا کرتے تھے۔ بعد ازاں ہندو قوانین تغیرات ِزمانہ کی بدولت کئی طرح کے فسادات کا مجموعہ بن گئے اورایک حد تک ناقابل عمل ہو کر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ان کی اصلاح از حد ضروری ہوگئی تھی۔اہل ِ ہند کے مذہبی طبقے کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہےکہ قدیم ہندوستان کا قانونی نظام خدا کی طرف سے عطا کردہ تھاجو ان کے مذہبی رہنماوٴں اور دیوتاوٴں کے ذریعے نازل کیا گیا تھا۔ تاہم اس قانونی نظام میں موجود سُقم(عیب) اس دعوے کے بر خلاف نشاندہی کرتے ہیں۔ خدائی طور پر نازل کردہ نظام کی بنیادی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرے سے ظلم وستم ختم کرنے والا ، امن و امان بحال کرنے والا، جرائم کی روک تھام کرنے والا اور پاکیزہ قوانین کی تشکیل کو یقینی بنانے کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ خوبیاں ہندوستان کے قدیم قانون میں نظر نہیں آتیں۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ وحی کے ذریعے نازل شدہ قوانین ہمیشہ عملی نوعیت کے ہوتے تھے اوران پر انبیاء و مرسلین کے ذریعےعمل درآمد کرایا جاتاتھا جن پر الہامی قوانین، توحید کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ نازل ہوتے تھے ۔ ہندوستانی تاریخ اور دیو مالائی تصوّرات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ قدیم ہندوستانی قوانین فرضی کرداروں پر مبنی تھے ۔ اگر یہ کردار قوانین پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب ہوبھی گئے تب بھی وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ حقیقت میں یہ قوانین قدیم ہندوستانی معاشرے کو متحد کرنے کی بجائے انتشار و نسلی امتیاز اور ذات پات کی تقسیم کی ایک بنیادی وجہ تھے ۔
ہندوستان کی محفوظ شدہ قانونی تاریخ ویدوں کے زمانے (1750 قبل مسیح تا 500 قبل مسیح ) میں شروع ہوتی ہے۔ ہندوستان میں کانسی کے زمانے یعنی تین ہزار (3000) قبل مسیح کے آس پاس بھی شہری قانون کا نظام موجود تھا ۔ وادئ سندھ کی تہذیب ، جو دوہزار چھ سو (2600) قبل مسیح سے ایک ہزار نوسو (1900) قبل مسیح کے دورسے تعلق رکھتی ہے،ویدوں ، اپنشدوں اور دیگر مذہبی متون سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا زرخیز خطہ تھا جو مختلف ہندو فلسفیانہ مکاتب فکر کے پیروکاروں اور بعد میں جین مت اور بدھ مت کے اہل ِ علم اور قانون دانوں سے مالا مال تھا ۔ ہندوستان میں سیکولر قانون ایک خطّے سے دوسرے خطّے اور ایک حکمران سے دوسرے حکمران تک منتقل ہوتاتھا۔ قدیم ہندوستان میں سول اور فوجداری معاملات کے لیے عدالتی نظام کی اپنی امتیازی خصوصیات تھیں۔ سیکولر عدالتی نظام کا وجود موریہ خاندان (The Dynasty of Mauryas) کے دور میں ملتا ہے جن کا تین سو اکیس (321) قبل مسیح تا ایک سو پچیاسی (185) قبل مسیح کے درمیان کا زمانہ تھا۔1
یہ ایک حقیقت ہے کہ کبھی بھی کوئی ایک دستور کلی طور پر پورے ہندوستان میں نافذ العمل نہیں تھا۔ روزمرہ زندگی میں "دھرم شاستروں" یعنی خاص برہمن نقطۂ نظر سے مرتب کی گئی برہمنوں کی کتب سے استفادہ کیا جاتا تھا جن میں مختلف ذاتوں کے اختیارات و فرائض درج تھے ۔ان میں سے قدیم ترین قانون نامہ"منو" ہے۔ ذات پات کے بہتر برتاؤ کے برہمنی منو قوانین نے ایک الہامی کتاب کی حیثیت سے رفتہ رفتہ پورے ہندو سماج میں ضابطۂ اخلاق کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔عمومی طور پر اس میں اوہام پرستی کی بنیاد پر کڑی آزمائش یعنی قانون قصاص کی سختی، ہمیشہ نیکی کرنے اور برہمن ذات کے حقوق و اختیارات کی تلقین کی گئی تھی۔اس دستور کے زیر اثر ہندو سماج میں ذات پات کے غیرانسانی نظام کے تسلط کو مضبوط تر بنایا گیا تھا۔ ویدی عہد سے یہ نظام زیادہ پیچیدہ اور راسخ ہوتا چلا گیا تھا۔2
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندومت میں سماجی زندگی کا ایک ایسا باقاعدہ نظام وجود میں آیا جس کو دھرم کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس کو مذہب کی پوری حمایت حاصل تھی۔ دھرم کے مفہوم میں کسی چیز یا جاندار کی فطری خصوصیات، مذہبی عقائد و اعمال ،ویدک رسومات، اخلاقی اقدارو اعمال، ذات پات اور شخصی زندگی کے تمام اصول، خاندانی زندگی اور دیوانی و فوجداری معاملات سے متعلق قوانین، نیکی، موزونیت، رفاہ عام، عدم تشدد اور خاص طور سے فرائض منصبی کے تصوّرات شامل تھے۔ ہندو قانون کی کتابوں میں دھرم کے اس مفہوم کی مزید تحدید ہوئی اور اس کو بنیادی طور سے وَرَن آشرم دھرم، یعنی ذات پات کے نظام (وَرَن) اور انفرادی زندگی کے مختلف مدارج (آشرم) کے معنوں میں استعمال کیا گیاتھا۔ ہندو مذہبی قوانین درحقیقت اسی وَرَن آشرم دھرم کے قوانین اور ضوابط کی تدوین و ترتیب کا نام تھا۔3
ہندو قوانین کےبنیادی طور پر تین ماخذ تھے:
آریا جب ملک ہند میں آئے تو انہوں نے اپنی ویدوں کی تفسیریں لکھیں جو براہمنی کے نام سے مشہور ہوئیں۔مگر مرور زمانہ کے ساتھ جب یہ بھی ناقابل تفہیم ہوگئیں تو ایک نیم مذہبی ادب "ویدانگ" کی بنیاد رکھی گئی اور کلپہ کے زمرے میں چار رسالے سروثہ سوتر،سلوہ سوتر،گریہی سوتراور دھرم سوترتصنیف کیے گئے ۔ان میں دھرم سوترکو ہندو قانون کے ماخذ کی حیثیت حاصل ہوئی ۔ 5 دھرم کے معنی مذہب، فرائض اور اعمال کے تھےاور سوترکے لفظی معنی دھاگہ کے تھے۔ مگر اصطلاحی معنی "مقدس کتابوں کی طرف رہنمائی کرنے والی بیاض"کے تھےجو مقدس کتابوں کی طرف رہنمائی کرتی تھی۔ اس نوع کی متعدد کتابیں تصنیف کی گئی تھیں۔6
ہندو قانون میں تمام بنیادی اصولوں اور ضوابط کے لیے ویدوں کی سند کو ضروری سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ہندو قانون دانوں نے بعد کے دور میں ترقی پذیر قانونی ضوابط مرتب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بھی ویدوں ہی سے سند حاصل کرنے کی سعی کی۔ اس کے باوجود ہندوقانون کا ایک بڑا حصہ ایسا تھاجو براہ راست ویدوں سے ماخوذ نہیں بلکہ اس کا تعلق ویدوں کے علاوہ ہندوقانون کے دوسرے مآخذ سے تھا۔ ہندو قانون کے ماخذ میں ویدک ادب (شرتی) کے علاوہ دھرم سوتر (600 سے 100 قبل مسیح کے دوران تصنیف شدہ ویدوں سے ماخوذ بنیادی قانونی تصانیف) دھرم شاستر یا سمرتی (100 قبل مسیح سے 500 عیسوی کے دوران تصنیف شدہ تفصیلی منظّم قانونی کتابیں جیسے منوسمرتی یا جناولکیہ سمرتی وغیرہ) آچار (عرف، موروثی روایات و رسومات)،پریشد (چار یا اس سے زیادہ ہم عصر عالموں کا اجماع)،ششٹا (کسی عالم کا ذاتی اجتہاد یا عمل)اور آخر میں آتم تشی (ذاتی اطمینان تشفی ضمیر) شامل تھے۔
اس فہرست میں دھرم شاستر یا سمرتیاں وہ تصانیف تھیں جن میں تمام مآخذ کی مدد سے سب سے زیادہ منظّم طریقے سے قانونی مسائل کو مرتب کیا گیا تھااس لیے قدیم ہندو قانون میں سمرتیوں کو سب سے زیادہ اہم اور مستند حیثیت حاصل تھی۔ سمرتیوں میں منوسمرتی سب سے قدیم اور سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اس کا زمانۂِ تدوین دوسو (200)قبل مسیح سے دوسو (200) عیسوی تک پھیلا ہوا تھا۔ اس سے کچھ ہی کم درجہ کی تصانیف یا جناولیکہ سمرتی تھی جو عیسوی سنہ کی ابتدائی دو تین صدیوں کے دوران مرتب کی گئی تھی۔ سبھی سمرتیاں عام طور سے تین حصوں میں منقسم ہوتی تھیں:
پہلا حصہ: آچار، اخلاقیات اور معاملات سے متعلق ہوتا ہے۔
دوسرا حصہ: دیوہار، سماجی زندگی اور جرم و سزا سے متعلق قوانین پر مشتمل ہوتا تھا۔اور
تیسرا حصہ: پرائشچت میں گناہوں ، ہرجانوں اور سزاؤں کا بیان شامل تھا۔
اِن کی تصانیف چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد کی تھیں۔ ہندو دور کے اوائل میں یہی کتابیں دھرم سوترقانون کا ماخذ رہیں اور اجتماعی زندگی میں انہیں پر عمل درآمد ہوتا تھا۔7
سمتریوں کے مطابق ماضی بعید میں ایک سنہری دور (کرت یوگ) تھا جب انسان حق پرستی پر مبنی صحیح طرز عمل کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے لیکن جب لوگوں میں دھرم سے انکار پیدا ہو نا شروع ہوا تو قانون اور انصاف کے نظام متعارف کروائے گئے اور بادشاہ کو تنازعات کا فیصلہ کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ قدرتی طور پر ریاست کے بتدریج ارتقا کے دوران ، قانون ایک ایسے سیاسی ادارے کے طور پر پروان چڑھا ، جو ریاست کی مدد اور اس کے اقتدار کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ تھا۔8
جب اُن آریاوٴں نے جو اپنی اصلیت وخصوصیت کھوکر ہندو بن چکے تھے اور غیر آریائی اثرات کو پوری طرح قبول کرچکے تھے، یہ محسوس کیا کہ ایک طرف بدھ مت اُن کی مذہبی عالم گیریت سے متصادم ہے اور دوسری طرف شودر اُن کی نسلی برتری سے نبرد آزمائی کر رہے ہیں تو اُنہوں نے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کےلیے ایک نیا قدم اٹھایا۔ 9 اُنہیں یقین تھا کہ دھرم سوتراس عہد کے جدید تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی اور ایسے پُرخطر موقع پر اگر کوئی شے اُنہیں فنا ہونے سے بچاسکتی ہے تو وہ معاشرے کی نئی تشکیل ہےجو ذاتوں کی تفریق کی بنیاد پر مرتب کی جائے۔ 10چنانچہ اُنہوں نے دھرم سوترکی نئے طور پر توسیع و تالیف کی اور اُن کا نام "دھرم شاستر "رکھا۔ نیز دھرم سوترکے برعکس جو نثر میں تھی اُن کو نظم میں تحریر کیا۔ یہ بھی دھرم سوترکی طرح کافی بڑی تعداد میں لکھی گئیں مگر اُن میں سب سے زیادہ شہرت منو کے دھرم شاستر کو حاصل ہوئی تھی۔ منو کے بعد یحین والکی ، وشنو اور ناردکی دھرم شاستروں کو اہم سمجھا گیا۔11چونکہ سوترکی طرح شاستر بھی غیرالہامی تھے اس لیے ان کو نام نہاد الہامی کتابوں یعنی "سردتی"سے ممیز کرنے کے لیے سمرتی بھی کہا جانے لگا اور اسی نام سے یہ کتابیں زیادہ مشہور ہوئیں تھیں۔ چنانچہ عام طور پر لوگ منودھرم شاستر کے بجائے منوسمرتی بولنے لگے۔ دھرم شاستروں کی تالیف پہلی صدی عیسوی تک ہوئی تھی۔12
اس کے بعد صرف یہی کتابیں ہندو قانون کا ماخذ قرار پائیں، اور اُن کی تعلیمات کے تحت پورے معاشرے کو چلانے کی کوشش کی گئی ۔ عملی زندگی میں منوسمرتی کو اولیت اور فوقیت حاصل رہی اور عدالتوں کے اندر اسی کے مطابق فیصلے ہوتے رہے۔ 13اس منو سمرتی میں سیاسی، تمدّنی اور اخلاقی قواعد وضوابط کی وضاحت کردی گئی تھی نیز ملک بھر کے دانشوروں نے اسے بنظر ِاستحسان دیکھا اور اسے ایک آئینی اور قانونی دستاویز کی حیثیت سے قبول کرلیا تھا۔ اس کے مصنف"منوجی" تھے۔انہیں کے نام پر اس کتاب کو "منوشاستر"کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ یجنا والکیہ (Yajnavalkya)، نارادا(Narada) اور برہسپتی(Brhaspati) کا شمارقدیم ہندوستان کے مشہور قانون دانوں میں ہوتا تھا۔
ارتھ شاستر میں منصف مزاج حکمران کے جنت میں جانے کی وضاحت موجود تھی جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ قدیم اہل ہند کے ہاں بھی قانونی کاروائیوں میں بظاہرانصاف پر زور دیا گیا تھا۔ ارتھ شاستر کے مطابق بادشاہ ہی انصاف کا سرچشمہ تھاکیونکہ وہ چاروں ذاتوں (برہمن،ویش،کھتری،شودر) کے لیے مقررکیے گئے فرائض کا نگراں ، ان کی الگ الگ مذہبی زندگی کا حامی اور مذاہب کا محافظ متصوّر تھا۔انصاف کے لیے اہل ہندکے ہاں چار بنیادی ستون تھے:
مذکورہ ستونوں میں بادشاہوں کے فرمان گزشتہ فیصلوں پر فوقیت رکھتے تھے۔دھرم دنیا بھر میں بول بالا رکھنے والی ایک ابدی سچائی سمجھا جاتا تھا ۔شہادت گواہ دیتے تھے جبکہ گزشتہ فیصلوں کی تاریخ عام روایات میں ملتی تھیں۔راجا کا فرض تھاکہ وہ رعایا کو انصاف کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔جب روایات اورقوانین میں موافقت نہ ہو یا شہادت اور قانون آپس میں متصادم ہوتے تو فیصلہ دھرم کی رو سے کیا جاتاتھا۔جھوٹا اسے قرار دیا جاتا تھاجسے حلف،چھان بین،دیانت اور شہادت جھوٹاٹھہراتی تھی۔ 14
قدیم ہندی معاشرے میں قاضی ہر مدعی کو حکم دیتا تھا کہ وہ اپنا دعویٰ تحریری طور پر پیش کرے اور ایسے گواہ بھی پیش کرے جن سے اس کا دعویٰ ثابت ہو۔ عام طور پرگواہوں کی تعداد کم از کم چار مقرر تھی لیکن اگر گواہ ایسا ہوتا جس کی ثقاہت قاضی کے نزدیک مسلّم ہوتی تو پھر اس ایک گواہ کی گواہی سے بھی قاضی مقدمہ کا فیصلہ کردیتاتھا۔ قاضی پر لازم تھا کہ وہ رازداری سے بھی حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کرے اور ظاہری علامات وقرائن سے بھی استدلال کرے۔ اگر مدعی گواہ پیش نہ کرسکتا تو پھر مدعیٰ علیہ پر لازم تھا کہ وہ قسم اٹھائے۔ مدعیٰ علیہ کے لیے یہ بھی جائز تھا کہ وہ مدعی کو قسم کھانے کے لیے کہے۔ قسم کی مختلف صورتیں تھیں تاہم جس قسم کا دعویٰ ہوتااسی انداز کی قسم بھی ہوتی تھی۔ اگر معمولی سی چیز کا دعویٰ ہوتا اور مدعیٰ علیہ اس پر رضا مند ہوتا کہ مدعی ہی قسم کھائے تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ پانچ برہمن عالموں کے سامنے کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے نیک اعمال کا ثواب، جو اس دعوے کے آٹھ گنا کے برابر ہو، اس کو دے دیا جائے۔ اگر دعویٰ سنگین نوعیت کا ہوتا تو اس کے لیے قسم اٹھانے کی یہ صورت تھی کہ قسم اٹھانے والے کے سامنے زہر کا پیالہ پینے کے لیے پیش کیا جاتا اور اسے کہا جاتا کہ اگر وہ سچا ہوگا تو وہ زہر اس پر اثر نہیں کرے گا۔ اس سے بھی سنگین قسم یہ تھی کہ قسم اٹھانے والے کو ایک تیز رفتار اور گہری نہر کے کنارے پر لایا جاتایا ایسے کنوئیں کے کنارے پر کھڑا کیا جاتا جو بہت گہرا ہوتا اور اس میں پانی کی کثیر مقدار ہوتی۔ اس پانی کو مخاطب کرتے ہوئے ملزم کہتا: اے پانی! تو پاکیزہ ملائکہ میں سے ہے، ظاہر وباطن سے آگاہ ہے، اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو مجھے قتل کردے۔ اگر میں سچ بول رہا ہوں تو میری حفاظت کر۔ پھر پانچ آدمی اس کو اٹھاکر اس گہری اور تندروندی میں یا گہرے کنوئیں میں پھینک دیتے۔ قدیم ہندو روایات کے مطابق اگر وہ سچا ہوتا تو نہ ڈوبتا اور اگر جھوٹا ہوتا تو پانی اس کو موت کا جام پلادیتا تھا۔سب سے زیادہ سنگین نوعیت کی قسم کا طریقہ یہ تھا کہ قاضی فریقین کو اس شہر میں جوسب سے زیادہ قابل احترام بت خانہ ہوتا، وہاں بھیج دیتا تھا۔ مدعیٰ علیہ ایک دن پہلے روزہ رکھتا، دوسرے دن نیالباس پہن کر مدعی کے ساتھ مل کر کھڑا ہوجاتا۔ بت خانہ کے خدام اس بت پر پانی ڈالتے اور اس کو پلاتے۔ اگر وہ جھوٹا ہوتا تو فوراً اس کو خون کی قے آنے لگتی تھی۔
البیرونی کے مطابق ایک طریقہ یہ بھی رائج تھا کہ لوہے کو آگ میں اس حد تک گرم کیا جاتا تھا کہ وہ پگھلنے کے قریب ہو جاتا۔ پھر منکر کی ہتھیلی پر ایک پتہ رکھا جاتا۔ اس کے اوپر یہ گرم ٹکڑارکھا جاتا اور اسے کہا جاتا کہ وہ سات قدم اٹھائے، پھر اس ٹکڑے کو پھینک دے۔ اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کا ہاتھ جل جائے گا ورنہ نہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی طریقے تھے جن سےقدیم اہلِ ہند قسم اٹھانے والے کی سچائی یا کذب بیانی کا پتہ لگاتے تھے۔15 مذکورہ بالا طریقوں سے انصاف کی فراہمی کے بجائے ظلم کے نظام کے واضح ثبوت ملتے ہیں، چاہے شخص مجرم ہو یا نہ ہو، دونوں کے کذب و سچائی کا پتہ لگانے کے لیے جان کی بازی لگانے یا اپنے جسم کے اعضا کو نقصان پہنچانے کا حکم صادر کیا جاتا تھا جو انسان دوست معاشرے میں قطعی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ اس طریقۂ کار سے اگر کوئی شخص حق پر بھی ہوتا تو اسے ثابت کرنے کے لیے اس کا اپنا بھی نقصان لازمی تھاجو ایک غیر معقول اور لایعنی بات تھی ۔
قدیم ہندوستان میں قاضیوں کی کئی اقسام تھیں۔16 ایک گاؤں کے جج کو گرامیاوادین (Gramyavadin) کہا جاتا تھا اور کبھی کبھی بادشاہ خودبھی ایک جج کی حیثیت سے فیصلے کرتا تھا۔اکثر بادشاہ معاملات کے فیصلے اپنی خواہشات کے مطابق کرتے تھے۔17 ایک قصبے یا گاؤں میں وہاں کی مقامی عدالت کا اجلاس ہوتا تھا۔ ان مستقل عدالتوں کے علاوہ متحرک رہنے والی گردشی عدالتیں بھی پائی جاتی تھیں ۔ جس عدالت کےپاس بادشاہ کی دستخطی انگوٹھی موجود ہوتی اس کی نگرانی بڑا جج کرتاتھا۔ وہ عدالت جو بادشاہ کی موجودگی میں منعقد کی گئی ہوتی وہ بادشاہ کی ہدایت کے مطابق کام کرنے والی عدالت کہلاتی تھی۔ 18
ہر گاؤں میں مقامی عدالتیں موجود تھیں ۔ ان عدالتوں کو کولا ، سرینی اور گانا کے نام سے موسوم کیا گیا تھا ۔ یہ تمام عوامی عدالتوں کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ بادشاہوں کے دربار کے مقابلہ میں یہ عدالتیں لوگوں کی با آسانی دسترس میں تھیں۔ ان عدالتوں کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ہر مظلوم کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ ان مشہور عدالتوں اور شاہی عدالتوں کے مابین واضح رشتہ موجود تھا جو اچھی طرح سے آشکار تھا ۔ برہسپتی (Brihaspati)کے مطابق سبھیوں (Sabhyas) کا کولاس (Kulas)سے اعلیٰ مقام تھا ، اور ادھیاکشس (Adhyakshas)کوسبھیوں سے بالا سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہ ان سب سے بڑھ کر تھا۔ قدیم ہندوستان میں حکومتی پالیسی عوامی عدالتوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے فیصلوں کو نافذ کرنا تھی۔ ان عدالتوں کی پشت پر شاہی سرپرستی تھی تاہم یہ بنیادی طور پر غیر سرکاری عدالتیں تھیں۔ 19
کولا س نامی عدالتیں چھوٹے معاملات کی ثالثی کے لیے سب سے چھوٹی سطح کی عدالتیں تھیں ، جس کے فیصلے کے خلاف اعلی عدالتوں میں اپیل کی جاسکتی تھی ۔ سرینی نامی عدالتوں میں تاجروں اور کاریگروں کے معاملات کے تصفیے کیے جاتے تھے۔ پوگا کی حیثیت بھی ایک ایسی عدالت کی تھی جس میں مختلف ذاتوں اور پیشوں کےافراد کے مابین فیصلے کیے جاتے تھے مگروہ سب اسی گاؤں یا قصبے کے رہائشی ہوتے تھے ۔ یہ قانون تھا کہ اگر کوئی اپیل مسترد یا منسوخ کردی گئی تو اپیل کنندہ کو جو جرمانہ نچلی عدالت نے عائد کیا تھا اس سے دوگنا جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا ۔ 20
عدالتی نظام کی سربراہی شاہی عدالت کے ہاتھ میں تھی۔بادشاہ خود مرکزِ حکومت میں عدالت منعقد کرتا تھا یا پھر اس مقصد کے لیے اکثر سب سے پڑھے لکھے برہمن کو منتخب کرتا تھا۔ جسے ادھیاکش(Adhyaksha) یا سبھاپتی (Sabahpati)کہا جاتا تھا۔شروع میں عارضی طور پر منتخب کیا گیا یہ عہدیدار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مستقل حیثیت اختیار کر گیا تھا اوراس نے چیف جسٹس کا مقام حاصل کر لیا جسے پرادویوکا(Pradvivka )کہا جاتا تھا۔بادشاہ ، چیف جسٹس اور تین یا چار قاضی ریاست کی عدالت عالیہ کی تشکیل کرتے تھے۔ 21
جس طریقے سے ہندو قانون میں سماج کی تنظیم اور اُس میں استحکام پیدا کرنے کے لیے وَرَن22 کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اُسی طرح ہر فرد کی اپنی ذاتی زندگی کو منظّم کرنے کے لیے بھی ایک مثالی ڈھانچہ مختلف آشرموں (مدارجِ زندگی) کی صورت میں طے کیا گیا تھا۔ جہاں ایک طرف کسی فرد کا سماجی مقام، اس کی ذمہ داریاں اور اس کا پیشہ بڑی حد تک اُس کے ایک مخصوص وَرَن (یاجاتی) میں پیدا ہونے سے طے ہوجاتا تھا، وہاں آشرموں کے نظام کے ذریعے یہ متعین کیا گیا کہ اپنے وَرَن میں رہتے ہوئے زندگی کے مختلف حصوں (آشرموں) میں ایک فرد کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی۔ اس طرح ہندو قانون کے مطابق ایک انسان کے فرائض اور ذمہ داریاں ایک طرف تو اس کے وَرَن سے متعین ہوتی تھیں اور دوسری طرف یہ فرائض اس کی اپنی عمر کے مختلف مخصوص مدارج (آشرم) میں ہونے سے طے پاتے تھے۔آشرموں کے اس نظام کے ماتحت انسان کی پوری زندگی کو چار حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا:
اہل ہند کے قوانین میں ابتدا ءسے مساوات وانصاف نام کی چیز نہیں تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کی اصل جڑ ذات پات کی تفریق پر رکھی گئی تھی۔اگرچہ بعد میں آنے والے بدھ حکمرانوں نے اس تفریق کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنے دورِ حکومت میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی قانونی امتیازی حیثیت( جو دھرم شاستر میں بیان کی گئی تھی )معطّل کردی تھی بالخصوص اشوک نے قانون کی نظر میں موجود ان امتیازات کو گوارا نہ کیا اور حاکموں کو حکم دیا کہ عدالتی کاروائی کے دوران ہر حال میں مساوات کو ملحوظ ِخاطر رکھیں۔24 اس کے با وجود یہ ذاتی تفریق کلیۃً معدوم نہیں ہوئی اور بدھ حکمرانوں کے بعد دوبارہ لوٹ آئی تھی۔25 اسی ذاتی تفریق کی بنا پر برہمنوں کے لیے ہر معاملے میں خصوصیت کے ساتھ مراعات کا خیال رکھا گیاتھا۔اسی وجہ سے منو سمرتی میں ہے کہ برہمنی بلا تامل اپنے شودر کا مال لے سکتا ہے۔26اگر شودر ایک شودر کو قتل کردے تودس (10) گائے برہمن کو دے کر کفارہ ادا کرےگا۔اگر ویش کو قتل کردے توسو(100) گائےاور اگر کشتری کو تو ہزار (1000) گائے بطور کفارہ برہمن کو دے گا۔تاہم اگر وہ برہمن کو قتل کردے تو اسے ہلاک کردیا جائے گا۔27
جس برہمن کی گرمجوشی سے پذیرائی نہ کی جاتی، وہ میزبان کے تمام اندوختہ اعمال اور نیکیوں کو اپنے ساتھ لے جانے کی استطاعت رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ سنگین قسم کا جرم کرنے کے باوجود برہمن کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ راجہ اسے صرف جلاوطن کرسکتا تھا لیکن اپنی جائیداد پر اس کے حقوق برقرار رہتے تھے۔ جو کوئی برہمن سے دست درازی کی کوشش کرتا، اسے ایک سو (100) سال کا عذاب بھگتنا پڑتا تھا۔ جو کوئی برہمن کو جان سے مار ڈالتا، اس کے عذاب کی مدت ایک ہزار (1000) سال تک بڑھ جاتی تھی۔ اگر کوئی شودر کسی برہمن کی بیوی سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کرتا، تو اس کے اثاثے ضبط کرکے اس کا آلہ تناسل کاٹ دیا جاتا تھا۔ برہمنوں کو اسی قسم کی بے شمار سہولتیں اور مراعات حاصل تھیں۔تعلیم، قانون اور آموزش دوسرے فرائض کے مقابلے میں کمتر تھے۔ صرف اِعادۂ وید کرنے سے برہمن ابدی سعادت کا درجہ پالیتا تھا۔ہندو عقائد کے مطابق اگر وہ رگ وید یاد کرلیتا تو کسی کو کچھ بھی بتائے بغیر ساری دنیا تباہ و برباد کرسکتا تھا۔ اگر وہ کسی شودر سے شادی کرلیتا تو اس کے بچے"پاریا" یعنی بے ذات،نیچ بن جاتے تھے، جیسا کہ منو میں درج ہے:"اونچی ذات کا آدمی نچلی ذات کی رفاقت میں حقیر بن جاتا ہے، لیکن ایک نیچ ذات اونچی ذات سے رفاقت کے باوجود اونچا نہیں بن سکتا ہے"۔ 28
بڑےبڑے جرائم مثلاً گھر لوٹنا،شاہی املاک کا نقصان،معاشرے میں ایک غریب کو راتوں رات امیر کبیر بنادینے والی چوری وغیرہ کے لیے سزائے موت مقرر تھی۔سزائیں بہت سخت اور ظالمانہ تھیں جن میں ہاتھ، ناک، کان کاٹنا، آنکھیں نکالنا، گلے میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالنا، ہاتھ پاؤں کی ہڈیوں کو موگرے سے توڑنا، زندہ جلانا، ہاتھ اور پاؤں کے ناخن کھینچنا، رگ کا قطع کرنا، میخوں سے ٹھوکر مارنا، زندہ جسم کے کباب بنانا، مجرموں کو پاؤں تلے روندنااور ان پر خونخوار کتے چھوڑدینا جیسی انسان سوز سزائیں بھی شامل تھیں۔ 29
اقبال جرم کے لیے تعذیب کو جائز سمجھا جاتا تھا۔ ایسے عامل کو قتل کردینے کا حکم دیاگیاتھا جو سرکاری مال دس پنہ کے برابر یا اس سے زیادہ مقدار میں چوری کرے۔قید کی سزا بھی عام طور پر دی جاتی تھی۔آریائی عہد میں قمار بازی، شراب نوشی،گوشت خوری اور ناچنے گانے کاعام رواج تھا اور اسے برا نہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر منو سمرتی میں ان کو مذموم بتا کر ان سے باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔30
اہلِ ہند کاخیال تھاکہ سزا کا خوف ہی انسانوں کو جرم سے باز رکھ سکتا ہے اس لیے سزا کو سخت اور عبرت ناک ہو نا چاہیے۔اسی لیے قدیم ہندی معاشرہ سزا کو بہت اہمیت دیتا تھا اور اسے ایک ایسے بادشاہ اور سردار کی صورت سے تعبیر کرتا تھا جو انسانی زندگی کے چاروں درجات میں قانون کی حکمرانی اور بالا دستی کو قائم رکھتا تھا۔31 ان قدیم لوگوں کو یہ احساس نہیں تھا کہ سزا کبھی بھی کسی قانون یا مذہب کا مقصد نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف جرائم اور ایسی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جاتا ہےجن سے نقصان ہوتا ہے۔ تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ معاشرے اگر سزا اور اس کے نفاذ کومکمل طور پر بادشاہوں یا کسی ایک فرد کے ہاتھ میں دے دیں تو اس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ ان افراد نے ہمیشہ اس کا استحصال کیا اور اپنے دشمنوں اور بے گناہ لوگوں کو ناجائز سزائیں دی تھی۔32
قدیم ہندوستان کے نظام ِ جرم و سزا میں اور بھی کئی طرح کی سزائیں تھیں جیسے ملامت ، سخت سرزنش ، معاشی جرمانہ اور جسمانی سزا ، قید ، کوڑے مارنا اور موت وغیرہ۔ جسمانی سزا دس طرح کی تھیں جوقید سے شروع ہوتیں اور موت پر ختم ہوتی تھیں۔ جرمانہ معمولی جرمانے سے شروع ہوتا اور پوری جائیداد ضبط ہونے تک جاتاتھا۔ سزا دینے کے چودہ مقامات تھے جن میں دونوں ہاتھ ، دونوں پیر ، عضوِ تناسل ، آنکھ ، زبان ، دونوں کان ، ناک ، گردن ، پیر کاآدھا حصہ ، انگوٹھا اور شہادت کی انگلی ، پیشانی ، ہونٹ، پچھلے حصے اور کولہے شامل تھے۔ برہمنوں کے لیے صرف ایک قسم کی سزا تھی جو پیشانی پر نشان زدگی کےطور پر مقرر کی گئی تھی۔33
دیگر مذاہب کی طرح ہندو مت میں بھی شادی کے متعلق کئی شاستروں میں بہت سے قوانین بیان کیے گئے تھے۔ان میں اکثر قوانین منو دھرم شاستر سے مأخوذ تھے۔شادی کے لیے رشتہ کیسا ہونا چاہیے؟اس بارے میں منو دھرم شاستر میں کچھ شرائط اور معیار مقرّر کیے گئے تھے،جن کو ملحوظ رکھے بغیر شادی کرنا ممکن نہیں تھا۔تاہم بعض موقعوں پر چند خاص رسوم ادا کرنی پڑتی تھیں جن سے نچلی ذات میں یا پھر کنڈلی نہ ملنے کی صورت میں بھی شادی ہوسکتی تھی۔ 34
ہندوقوانین میں شادی کے لیے جذباتی رنگ ترنگ اور عشقِ آتشیں کی منشا کی اجازت کم ہی دی گئی تھی۔ بیوی کو مال و زر سے خریدنے کی روایت کو دانش مندی تصور کیا جاتا تھا۔بعد میں انہوں نے سوچاکہ اقتصادی اور مالی بنیاد پر کی گئی شادیاں ہی سب سے زیادہ کامیاب اور پائیدا ر ہوتی ہیں۔دو بوئیس(Dubois)کے دنوں میں ہند میں شادی کرنا یا زن خریدنا ایک برابر تھا۔ سب سے زیادہ کامیاب شادی وہی تھی جو والدین داخلِ قبیلہ اور خارجِ قبیلہ کے اصولوں کو مدّ نظر رکھ کر طے کرتے تھے۔ نوجوان کے لیے ضروری تھا کہ وہ صرف اپنے ہی قبیلہ کے اندر مگر اپنی برادری سے باہر شادی کرے۔وہ کئی بیویاں رکھ سکتا تھا مگر ایک ذات سے صرف ایک بیوی رکھ سکتا تھا۔منو کے مطابق مرد کے لیے یک زوجگی بہتر ہوتی تھی۔بیوی پوری صداقت سے اپنے شوہر کو چاہتی تھی۔اس کے مقابلے میں شوہر بیوی کو عاشقانہ محبت کے بجائے حفاظتی سایہ فراہم کرتا تھا۔35
ان کے نظامِ عدل کے بارے میں ایک چیز مزید غور طلب ہے جس نے ان کے نظامِ عدل کو نظامِ ظلم وستم میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ یہ کہ فیصلہ کرتے ہوئے دیکھا جاتا کہ ملزم کون ہے۔ اگر ملزم اعلیٰ ذات کا فرد ہوتا تو اس کے لیے اورسزا مقرر کی جاتی تھی۔ اگر ادنیٰ طبقے کا فرد ہوتا تو اسے اور سزادی جاتی جو اعلیٰ طبقے کی سزا سے شدید تر ہوتی تھی۔ اگر قاتل برہمن ہوتا اور مقتول کسی اور طبقے سے تو برہمن سے قصاص نہ لیا جاتا بلکہ اس پر صرف کفارہ لازم کیا جاتا تھا۔ یعنی وہ روزہ رکھے، صدقہ خیرات دے اور پوجا پاٹ کرے، اور اگر قاتل مقتول دونوں برہمن ہوتے تو قاتل برہمن سے کفارہ بھی نہ لیا جاتا بلکہ اس کا معاملہ خدا کے سپرد کردیا جاتا تھا۔ قتل کے سوادوسرے جرائم، جن کی سزاقتل تھی، یہ تھے: گائے کو ذبح کرنا، شراب پینا، زنا کرنا، تاہم برہمن اور کھشتری کو کوئی سزانہ دیتے تھے بلکہ صرف مالی جرمانہ کرتے یا اس کو ملک بدر کردیتے تھے 36 البتہ رنا بالّرضا اور مئے نوشی عبادت کی نیت سےکرنا جائز سمجھا جاتا اور جس کو یہ دونوں کام قانون کی زد سےبچ کر کرنے ہوتے تو وہ ان کو مذہب کی آڑ میں سر انجام دیا کرتا تھا۔
ہندوؤں میں وصیت کرنے کا رواج نہ تھا،کیونکہ ان کی رسومات و روایات تقاضا کرتی تھیں کہ خاندان کی جائیداد مشترکہ رہے اور متوفی کے بعد یہ خود بخود باقی تمام زندہ مرد حضرات کو مشترکہ طور پر منتقل ہوجائیں گی۔ برہمنوں کے آشیرباد سے بعد میں یورپی انفرادیت پسندی کے تحت وصیت متعارف کروائی گئی جس کا جزوی مقصد مذہبی بالادستی کے لیے زمین کو قبضے میں لینا تھا۔37
قدیم ہندوستانی معاشرہ ذات پات کے نظام پر مبنی تھا اور ہندوستانی فوجداری قانون پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب تھے۔ عام اصول کے طور پر جب ایک اعلیٰ ذات کا فرد کسی نچلی ذات کے فردکو چوٹ پہنچاتا تو اسے انتہائی کم سزا دی جاتی تھی۔ جبکہ ایک نچلی ذات کا فرد اگر کسی اعلیٰ ذات کے فرد کو چوٹ پہنچا دے تو اسے انتہائی سخت سزا دی جاتی تھی۔ لہٰذا قانون سب سے اعلیٰ ذات (برہمنوں ) کے لیے سب سے زیادہ سازگار واقع ہوا تھا جبکہ شودرا ذات ( جو سب سے کم ذات تصوّر کی جاتی تھی )کے لیے بالکل بھی سازگار نہیں تھا۔ کچھ جرائم میں مجرم کی ذات سے قطع نظر سب کے لیے ایک ہی سزا مختص تھی۔ صرف برہمنوں کو جسمانی سزا سے خصوصی استثنیٰ حاصل تھا۔ عوامی انصاف اور اخلاقیات کے خلاف جرائم ، چوری ، ڈکیتی ، بدکاری ، دھوکہ دہی ، قتل ، غداری جیسے جرائم کے معاملات میں غیر برہمن ذاتوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں تھا۔ 38
مختصر یہ کہ قدیم ہندوستان میں جو قوانین رائج تھے وہ صرف برہمنوں کی بالادستی قائم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ اس وجہ سے معاشرہ متّحد ہونے کے بجائے مختلف مذہبی و سماجی طبقات میں تقسیم ہوگیا تھا۔ اعلیٰ ذات والے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے اور وہ کسی قسم کا گناہ کرنے کے باوجود بھیانک سزاؤں سے بچے رہتے جبکہ نچلی ذات کے شخص سے کوئی ادنیٰ جرم بھی سرزد ہو جاتا تو اسے سنگین سزائیں بھگتنی پڑتی تھیں۔ ان قوانین کے بانی قدیم ہند کے مذہبی علما ہی تھے لیکن ان کے مرتب کردہ قوانین اور نظام اتنا بھیانک اس لیے تھا کہ ان کےمذہبی علما روحانیت اور اخلاق سے بالکل عاری تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ذاتی مفاد اور شہوت پرستی کی بنیاد پر قوانین مرتّب کیے اور ان کو قبولیت کا درجہ دینے کے لیے انہیں دیوتاؤں سے منسوب کردیا تھا ۔ نتیجتاً اس نظام سے معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہونے کے بجائے ظلم و ستم کا بازار گرم رہا اور رعایا سسک سسک کر جیتی رہی۔ قانون جو کہ معاشرے کے قیام اور استحکام کا ذریعہ ہوتا ہے قدیم ہندوستان میں عدم مساوات اور تفریق کی علامت بن گیا جس کے نتیجے میں معاشرتی،سماجی ، قانونی، اقتصادی اور مذہبی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوگیا تھا ۔یوں ہندوستانی معاشرہ زوال اور پستی کا شکار ہو گیا اور اس کے اندر سے ہی اس نظام کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں جنہوں نے اس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔