قدیم ہندوستان میں قبائلیوں اور خانہ بدوش تحریکوں پر مبنی چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم تھیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، ان قبیلوں نے چھوٹے چھوٹے گروہ بنائے اور کچھ علاقوں میں آباد ہوگئے۔ قبائل کی یہ قیادت موروثی تھی اور عام طور پر شاہی قبائل خون کے حامل افراد کو قیادت کا اہل سمجھتے تھے۔ ان رہنماؤں کو بادشاہ اور ہندوستانی ثقافت میں راجہ کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں ان راجاوٴں نے اپنی حکومتیں اور پالیسیاں مرتب کیں۔ اپنے قیام کے بعد انہوں نےاپنے اپنے علاقوں کو منظم کیااور قدیم ہندوستانی معاشرے نے ترقی کرنا شروع کردی۔ ان ریاستوں نے ملک کی ترقی پر وسائل صرف کیے لیکن اس حقیقت کو چھپا یا نہیں جاسکتا کہ یہ حکمران انتہائی ظالم ، ہوس پر ست اور وحشی تھے۔ حکمرانوں کی ہزاروں بیویاں اور لونڈیاں تھیں جو بادشاہ کی زندگی کو رنگین بنانے کے لیے رکھی جاتی تھیں۔ دوسری طرف بادشاہ حقیر سمجھی جانے والی ذاتوں جیسے شودروں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ رکھتے تھے جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور بعض اوقات جان سے بھی مار دیا جاتا تھا۔ لہٰذا قدیم ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ رومیوں کے مقابلے میں کم خونی نہیں تھا۔
ہندوستان میں گاؤں یا گاما(Gama) کوایک تشکیل شدہ انتظامی گروہ تصوّر کیا جاتاتھا۔ آج کے دور کی طرح اس وقت بھی کثیرتعداد میں لوگ دیہاتوں میں رہا کرتے تھے جو گاؤں کے با اثر افراد (کوکوتا،سندیا، گاماپاؤرا)کے زیر اثرہوا کرتے تھے ۔ گاؤں کے لوگوں کو اٹھارہ (18) اقسام کے مختلف محصولات ادا کرنے پڑتے تھے۔ "گاما" کی ایک خاص اصطلاح وہاں کے بسنے والوں کے لیے اور "نگارا" اور "راج دھانی" ایک جگہ مستقل صورت میں نہ رہنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ اعدادو شمار کے مطابق ایک دیہی علاقہ یا گاوٴں میں کثیر تعداد میں خاندان آباد ہوتے تھے۔ دیہاتوں کی آبادکاری سے متعلق ایک بہت ہی دلچسپ مکالمہ "برہت کلپ بھاشیہ (Brhatkalpa Bhasya)" میں مذکور ہے کہ ایک گاوٴں کا کل رقبہ اتنا ہی ہوتا جتنا کہ ایک گائے چرنے کے لیے چراہ گاہ ہوتی تھی، لیکن اس دعوے میں اس حوالے سے بحث و مباحثہ کیا گیا ہےکہ گائے تو چرتے چرتے دوسرے دیہاتوں تک بھی جاسکتی تھی۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ اس کا طول و عرض اتنا تھاجتنا ایک گھاس کاٹنے والا یا لکڑی کاٹنے والا صبح سویرے اٹھ کر اپنا کا م کرنا شروع کردے تو دن بھر میں جتنا فاصلہ طے کر کے گھر پہنچتاوہ رقبہ گاوٴں کہلاتا تھا۔ ہر گاوٴں کی اپنی حدود ہوا کرتی تھیں اور اس کا پھیلاؤ اس گاوٴں کے باغات کی حد تک یا اس کے کنویں تک تصوّر کیا جاتا تھا یا اس کا رقبہ وہاں تک ہوتا جہاں تک بچے کھیلنے جاسکتے تھے۔
سبھا(Sabha) یا اسمبلی ہال دیہات کے مرکز میں موجود ہوتا تھا۔ قدیم ہندوستانی تاریخ میں الگ الگ روایات اور تہذیب رکھنے والے دیہاتوں کاتذکرہ ملتا ہے جن میں اوتاناکملاکاکارہ (Uttanakamallakakara)، اونموکھاملاکاکارہ (Avanmukhamallakakara)، سمپی تملاکاکارہ (Samp Itamallakakara)، کھنداملاکاکارہ (Khandamallakakara) اور اس کے علاوہ دیگر دیہات شامل تھے۔اکثر دیہات کی آبادی الگ الگ ذاتوں اور نسلوں پر مشتمل تھی، اور اس کے علاوہ وہاں زیادہ تر اکثریتی اعتبار سےبسنے والے ایک ہی ذات اور قبیلے کے لوگ اور ایک ہی طرح کا پیشہ اختیار کرنے والےافراد ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، وئیسلی نامی شہر کےتین اہم مضافاتی رہائشی علاقے تھےجنہیں زیادہ تر برہمن، کھشتری، اور پیوپاریوں نے بسایاہواتھا۔ان کے نام بنبھناگاما (Bambhanagama)، کھتیا-کنداگاما (Khattiya-Kundaggama) اور وینیاگاما (Vaniyagama) تھے۔وہاں تین اور دیہات تھے جنہیں مور سدھانے والوں مایورپوساگا(Mayuraposaga)، شعبدہ بازوں، اور لٹیروں کوراپلی(Corapalli) نے آباد کیا ہوا تھا۔ کچھ دیہات سرحدی علاقوںپکنٹگاما(Paccantagama) پر بھی آباد تھے جن کا شمار انتہائی غیر محفوظ علاقوں میں ہوا کرتا تھا۔تمام دیہاتوں کا ایک سرپرست ہوتا جو بھوئیا(Bhoiya)، بھوجیکا(Bhojika) یا مایاہارا (Mayahara) کے مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا۔گاؤں میں اجلاس یا پنچائیت ہال (Sabha)میں کی جاتی تھی۔ ماڈاماڈا (Madamada)کا پیشواجس کے تحت اٹھارہ ہزار(18000) دیہات آتے تھے، اسے ماڈمبیا(Madambiya) کہا جاتا تھا۔ ایک انجمن یا تجارتی کمپنی سینی (Seni) کا وجود گاؤں کے لوگوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی کا انتہائی اہم عنصر تصوّر کیا جاتا تھاجس پر گاؤں کی ترقی کا دارو مدار ہوا کرتا تھا۔1
قدیم ہندوستان میں بادشاہ کا وجود انتہائی اہم گردانا جاتا تھا اور اسے لوگوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے اہم عنصر تصوّر کیا جاتا تھا۔ فتاکاس(Fatakas) کے مطابق عام طور پر بادشاہت پیڑہی در پیڑہی چلتی تھی۔ اگر بادشاہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہوتا تو وہ سلطنت کا نائب تصوّر کیا جاتاتھااور جب اس کا باپ انتقال کرجاتا تو وہ اپنے باپ کا تخت سنبھال لیتا تھا لیکن اگر اس کے مزید بھائی یا سوتیلے بھائی ہوتے ، تو عموماً آپس میں ایک دوسرے سے حسد پیدا ہوجاتایہاں تک کہ باپ کے مرنے کے بعد تخت پر قبضہ لینے کے لیے خطرناک جنگیں بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ اور اگر باپ کے مرنے کے بعد کسی قسم کے کوئی ناموافق حالات پیدا نہ ہوتے ، تو سب سے بڑا بیٹا بادشاہ کے منصب پر فائز ہوتا اور سب سے چھوٹا بیٹا وائسرائے کی ذمہ داری سنبھال لیتا تھا۔ "جینی ادب" میں دو طرح کے بادشاہوں کا ذکر ہے جن کو سویک کھا (Savekkha)اور مراویک کھا(Mravekkha)کہا جاتا تھا۔پہلی قسم میں اس وقت موجودہ بادشاہ اپنی زندگی ہی میں اپنا تخت جانشین کو سونپ دیا کرتا تھا تاکہ خانہ جنگی اور دیگر آفتوں سے بچا جاسکے۔ دوسری قسم میں ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے انتقال کے بعد ہی تخت نشین ہوا کرتا تھا ۔ اگر کسی بادشاہ کے دو سے زیادہ بیٹے ہوتے تو عام طور پر وہ اپنے بچوں کی صلاحیتوں کو جانچتا اور پرکھتا پھر ان کی اہلیت کی بنیاد پر ہی ان میں سے کسی ایک کو وائسرائے کا منصب سونپ دیا جاتا تھا۔ویاواہارا بھسیا (Vyavahara Bhasya)میں ایک ایسے بادشاہ کے بارے میں تذکرہ ملتا ہے جس نے اپنے تین بیٹوں کا امتحان لیا تھا۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بہترین انداز میں کھانا کھلانے کا اہتمام کیا اور جب وہ تینوں کھانے میں مگن تھے تو بادشاہ نے ان پر وحشی کتے چھوڑ دئے۔ بیٹا فوراً کھانا چھوڑ کر بھاگ نکلا، دوسرے بیٹے نے کتوں کا ڈنڈوں سے مقابلہ کیا اور اپنا کھانا مکمل کیا جبکہ تیسرا بیٹا خود بھی کھانا کھاتا رہا اور کتّوں کو بھی اپنے ساتھ کھلاتا رہا۔بادشاہ نے اپنے تیسرے بیٹے کےطریقے کو بہت پسند کیا اور اسے اپنا ولی عہد مقرر کردیا۔
بعض اوقات بادشاہ کے انتقال کے بعدبڑا بیٹا بیزاری کی کیفیت کی وجہ سے دنیا سے لاتعلق ہوجایا کرتاتھا۔ ایسی صورت میں سلطنت کی حکمرانی کے لیے اس کے چھوٹے بھائی سے درخواست کی جاتی تھی۔ بعض اوقات بڑا بھائی جس نے تمام معاملات سے دستبرداری اختیار کرلی ہوتی تھی واپس آجاتا اور لوگوں کو اپنا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ورغلاتا تھا۔یہ تمام معلاملات سلطنت پر قابض ہونے کے لیے کیے جاتے تھے جو ذاتی خواہشات، حسداور دستبرداری کی مشق کے سبب پیچیدہ ہو جاتے تھے۔ویواگسویا (Vivagasuya)میں ایک بادشاہ ماتھورا کا نندی وادّھانا(Nandivaddhana of Mathura) کا ذکر ملتا ہے، جو اپنے باپ کی جان لے کر سلطنت پر قابض ہونا چاہتا تھا،لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور قتل کردیا گیا۔بعض اوقات بادشاہ بلا تاٴمل سرکش شہزادے کو ملک بدر کردیا کرتا اور اسے کسی اور ٹھکانے پر رہنے کا حکم دے دیا کرتا تھا۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ عام طور پر یہی تصوّر رائج تھا کہ سلطنت کی ذمہ داری براہ راست بادشاہ کے بڑے بیٹے کی جانب منتقل ہوا کرتی تھی اور تمام معاملات بھی صحیح ڈگر پر چلتے رہتے تھےلیکن اگربادشاہ بغیر کسی جانشین کے مرجاتا تو وہاں کے وزرا ءکے لیے نئےبادشاہ کا تعین ،ایک بہت بڑا مسئلہ بن جایا کرتا تھا۔ ایسی صورت حال میں جب کوئی دوسرا متبادل میسر نہ ہوتا تو بادشاہ کووزرا ءکی جانب سے مشورہ دیا جاتا کہ راہبوں کے ذریعےکسی بچہ کی پیدائش کے اسباب پیدا کرے۔ کبھی کبھار بیٹے کی غیر موجودگی میں بھانجا یا بھتیجا سلطنت پر قابض ہوجاتاتھا۔ بادشاہ کے جانشین کی غیر موجودگی میں بہت کم ایسا ہوتا کہ بادشاہ کی بیٹی حکمران بن جائے ۔ 2
قدیم ہندوستا نیوں کے نزدیک بادشاہت مکمل طور پر انسانوں کا بنایا ہوا دستور تھا جس کا دیوتاؤں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دیوتاؤں اور بادشاہوں کے درمیان مشابہت اور موازنہ صرف "ورون"دنیا کے گلّے کا مالک یا رکھوالا (Gupa) اور "اندر" یعنی انسانی طاقت کو دینے والے کے طور پر کیا جاتا تھا۔اس کے باوجود ایک خاص قسم کی مذہبی رسم برہمنوں کے اس ارادے کو ظاہر کرتی تھی کہ وہ بادشاہت پر مذہبی اعتبار سے تقدیس کے حصول کے خواہشمند رہتے تھے۔ راسویا (Raasuya)کی تقاریب کو ترتیب دینے میں پورا سال لگ جاتا تھا۔ اس رسم میں بادشاہ کو متعدد مذہبی لوازمات ادا کرنے پڑتے تھےجو اس کے عہدے کی وسعت کے مطابق امتحان تصوّر کیے جاتے تھے ۔کمان چلانے کی صلاحیت، کم از کم سو مویشیوں کی علامتی سواری ، چار زمینی مقامات کو اپنے قبضہ میں لینے کو علامتی طور پر دکھانا، اور چھکہ پھینکنے کے کھیل میں کامیابی حاصل کرنا بھی اس بات کی علامت تصوّر کیا جاتا تھا کہ نئے شہزادے کو دیوتاؤں نے بادشاہ کے طور پر منظور کرلیا ہےاور یہ بھی کہ اس میں وہ تمام خصوصیات ہیں جن کاایک بادشاہ میں ہونا لازم ہے۔اس کے نتیجے میں حکمرانی کی قوت قانونی طور پر اس کے سپرد کی جاتی تھی۔
حکومت (Prakriti)چلانے کے عمل میں سات اقسام کے عنصر بنیادی حیثیت رکھتے تھے، جن میں وزرا، علاقہ یا ریاست، قلعہ بندی کرنا، خزانہ، فوج، اور دوسرے ممالک سے دوستانہ تعلقات شامل تھے۔ اسی طرح ارتھاسسترا (Arthasustra) نامی چھ نکاتی طریقے پر بھی عمل کیاجاتا تھا ، جس میں امن، جنگ، غیر جانبداری، علاقے کواپنے قبضہ میں فوری طور پر لینے کی صلاحیت، دوسروں سے معاہدہ، اور حکومت کی نظر میں مشکوک رویہ رکھنے والوں کے خلاف کاروائی شامل تھے۔یہ تمام معاملات اور مذہبی کٹر پن ایسے ٹھوس شواہد ہیں جو ارتھاسسترا کو ہندوستان کی معاشرتی زندگی کے احوال کے ثبوت کا ایک زبردست اور پرکشش ذریعہ ثابت کرتے ہیں۔3
سبھا(Sabha) ہندی یورپی لفظ کا ہندی طرز پر بولا جانے والا تلفظ تھاجو دوسری زبانوں کی اصطلاح میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی خونی رشتہ داروں کا اجتماع، خاندان، کنبہ، یا قبیلہ کے تھے۔ قدیم دور میں مساوات کے نظام کا موجود ہونا اور سبھا یا سبھاپتی کی اصطلاح انتظامی معاملات سنبھالنے کےلیے موثر نظام کی موجودگی کی علامت تھے۔ اسی طرح کنبے کےخاندانی سربراہ اور چناؤ کے ذریعے بننے والےمتعدد قبیلوں کے نگراں کا وجود بھی برابری کے انتظام کے موجود ہونے کا پتا دیتاتھا ۔ اس طرح یہ تصوّرلفظ "راجا" کے قدیم معنی سے کافی ملتا جلتا تھا۔اگر وسیع نظر سے دیکھا جائے تو سبھا کا لفظ مکمل طور پر اجتماع کی جگہ کا معنی نہیں دیتا تھاکیونکہ ہر قسم کا اجلاس اور چھکہ پھینکنے والے کھیل مثلا لوڈو وغیرہ کا اجتماع بھی سیاسی پنچائیت اور عدالتی اجتماع سے کم نہیں ہوا کرتا تھا۔
سرنیتی(Sarniti)کی اصطلاح بھی سبھا کے معنی سے بہت مماثلت رکھتی تھی اور ایک حد تک اس کے معنی میں ہی استعمال ہوتی تھی۔ اجلاس میں جن نگرانوں کو چناؤ کے ذریعے منتخب کیا جاتا انہیں "راجا" کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا اور ان کی تعیناتی کو بھی منظور کیا جاتا تھا۔ اتھرویدکے مطابق جب انہیں سربراہی دی جاتی تو ان سے ان کی وفاداری اور استقامت کا حلف بھی لیا جاتا تھا اور اجلاس کے بعد پروہت اس خواہش کا اظہار کرتا کہ سبھا (اسمبلی) بادشاہ کی وفادار رہے گی۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ یہ اجلاس آزاد لوگوں کا اجتماع یعنی سمگتی یا سمگردما ہوا کرتا تھا۔
عسکری مجلس کے لیے "سمیتی" کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی جوایک تکنیکی اصطلاح تھی جو"معرکہ آرائی کو ترتیب دینا" کے معنی میں استعمال ہوتی تھی۔ بلاشبہ یہ اخذ شدہ معنی ایک ایسے مجمع کے لیے موزوں تھاجومسلّح افواج کی خوبیوں کا حامل ہو۔ مہابھارت میں "یودھیش تھرا کے راجاسیوا(Rajasyua of Yudhishthira)"کے لیے ملکہ کے دربار میں اجتماع طلب کرنے کو "سمیتی" کہاجاتا تھا۔ منصب داری کے آداب کے لیے لازم تھا کہ وہ افواج کی مرتب شدہ اور متعین کردہ ترتیب کے عین مطابق ہوں۔اس کے علاوہ لفظ"سبھا" کے تمام معانی میں صرف ایک ہی اہم معنی "عدالت"تھا۔ ایک معمولی اور فرسودہ قول جتاکاز (Jatakas)اور نرادا (Narada)میں ذکر کیا گیا ہے کہ عقلمندی اور دانشمندی اس طرح کے اجتماع کے ممبران کے ساتھ خاص ہے۔ سبھا کی عمارت کے درمیانی حصے میں جو دیوتا اور انسان کے درمیان راستہ سمجھا جاتا تھا، آگ بھڑکائی جاتی جو قانون اور کٹھن گھڑی کے آلے یا دستاویزات کی محافظ سمجھی جاتی تھی۔
اس طرح اسمبلی کی دو اقسام ہوئیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید تبدیل ہوتی چلی گئیں ، جو ابتدا سے ہی قدیم دور میں جنگ کی شوریٰ یا جنرل ہیڈکوارٹر، اور انصاف کی عدالت دونوں کی مجتمع صورت تھی۔دونوں صورتوں میں اگر بادشاہ ایک ہی ہوتا تو اس کا ایک خاص کردار ہوتا تھا۔ قدیم دور میں یہ تصو ر کیا جاتا تھا کہ کھشتریوں کے پاس ہی ترجمانی کے فرائض ہوا کرتے تھے ، جب کہ برہمنوں کو قانون کے رکھوالوں کے طور پر آگے چل کر اعلی ٰ ذات تصوّر کیا جانے لگا تھا۔پس "سبھا" اور "سمیتی"کی ترتیب خصوصی طور پر قدیم ریاست کے ابتدائی جرگوں " سبھا سمیتی" سے خاصی مختلف تھی۔ یہ ان کے مقابلے میں زیادہ انتظامی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگی تھی اور قدیم دور کا یہ تصوّر بھی ناپید ہوچکا تھا جس میں بادشاہ اسمبلی پر انحصار کیا کرتا تھا۔ اب اسمبلی بادشاہ کے ماتحت تھی اور اسی کے احکام کے مطابق فیصلے ہوا کرتے تھے اور اسی کو انصاف اور طاقت کے اختیارات حاصل تھے، اسی وجہ سے "اندر" اور "ورون" کے اشاروں پر فوراً کاروائی عمل میں لائی جاتی تھی۔ 4
ریاست کے اعلی افسران میں سے کچھ کو بازار کا منتظم بنایا جاتا تھا، کچھ کو شہر کا اور ان میں سے کچھ کو سپاہیوں کا نگراں مقرر کیا جاتا تھا۔ بعض افسران کودریاؤں کی دیکھ بھال کرنے ، مصری طریقہ کی طرز پر زمینوں کو ناپنے اورآب بند (جس سے پانی بڑی ندیوں سے چھوٹی نہروں میں اس طرح منتقل کیا جاتا تھا کہ ہر علاقے اور زمین کو برابری کی بنیاد پر پانی تقسیم ہو) کی جانچ پڑتال کرنے کا منتظم بنایا گیا تھا۔انہیں افسران کے پاس شکاریوں کے انتظامات سنبھالنے کے اختیارات بھی تھےاور اس کے ساتھ ساتھ ان کے کام کے مطابق انہیں انعام دینے یا سزا دینے کا اختیار بھی حاصل تھا۔وہ محصولات اکھٹا کرتے، زمین سے متعلقہ پیشوں کی نگرانی کرتے اور اسی طرح لکڑہارے، بڑھئی،لوہار اور کان کنی کے منتظمین کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔وہ شاہراہوں کی تعمیر کیا کرتے اور ہر دس (10) اسٹاڈیا 5(Stadia)کے فاصلے پرضمنی سڑک اور فاصلے کی نشاندہی کے لیے ستون نصب کیا کرتے تھے۔ شہر کے منتظمین کو چھ (6) مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر گروہ پانچ (5) افراد پر مشتمل تھا۔ پہلے گروہ کو فنون سے متعلق صنعتوں کے تمام امور کی نگرانی کے لیے متعین کیا گیا تھا۔ دوسرا گروہ غیر ملکی سیّاحوں کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات کے انتظامات سنبھالا کرتا تھا۔ ان مہمانوں کے رہنے کے لیے جگہوں کا انتخاب کیا جاتا اور ان کی خدمت کرنے والے شخص سے ان کے رہن سہن اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے احوال کی معلومات حاصل کی جاتی تھیں۔ جب مہمان شہر سے رخصت ہوتے تو وہ ان کے محافظ کے طور پر ان کے ساتھ چلتے، ان کے مرنے کی صورت میں بھی ساتھ ہوتے، اور ان کے رشتہ داروں کو اس کی ملکیت کی چیزیں بھجوانا انہی کی ذمہ داری میں شامل تھا۔ جب وہ بیمار ہوتے تو ان کی دیکھ بھال کرتے اور انتقال کی صورت میں ان کی آخری رسوم بھی سر انجام دیا کرتے تھے۔ تیسرا گروہ پیدائش اور مرنے کی چھان بین سے متعلق امور کا ذمہ دار تھاان کے ذمہ یہ کام تھا کہ پیدائش کس بنیاد پر ہوئی اور مرنے کی کیا وجوہات تھیں۔ یہ طریقہ صرف محصولات کی وصولی کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ اس کی یہ وجہ بھی تھی کہ حکومت اونچے اور نچلے طبقہ میں ہونے والی پیدائش اور موت کے اعدادو شمار سے واقف رہے۔چوتھا گروہ تجارتی لین دین اور اس سے متعلقہ معاملات کی نگرانی کیا کرتا تھا۔اس گروہ کے ممبران کے پاس ناپنے اور وزن کو متعین کرنے کا اختیار ہونے کے ساتھ ساتھ، عوام کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے، موسمی اشیا ءکی لین دین کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار بھی تھا۔ ایک سے زیادہ تجارتی مال یا اشیا ءکے لین دین کی کسی کو اجازت نہیں تھی جب تک کہ وہ دوگنا محصول ادا نہ کرلیں۔پانچواں گروہ صنعت و حرفت کے سامان کی نگرانی کرتا اور ان اشیاء کی قیمت عوام کی قوت خرید کے مطابق متعین کرتا تھاتاکہ آسانی سے بیچی جاسکیں۔نئی اشیا ءاور پرانی چیزوں کو الگ الگ نشاندہی کر کے بیچا جاتا تھا ۔ اگر کوئی نئی اور پرانی اشیا ءکو خلط ملط کرتا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ چھٹا اور آخری گروہ ان افراد پر مشتمل تھا جو بیچے ہوئے سامان کی رقم میں سے دسواں حصہ وصول کرتے تھے۔ محصول کی ادائیگی میں دھوکے بازی کرنے والے کے لیے سزا ئے موت تھی۔6یہ حکومت کی ہی ایک مقرر شدہ صورت تھی جس کے ذریعے نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے ، محصولات اور دیگر امداد ی صورتیں متعین کی جاتی تھیں۔ طرزِ حکومت بادشاہی سلطنت کا ہی تھا جس کی سربراہی بادشاہ کیا کرتا تھا۔ خاندانی امور کی سربراہی مردکے ذمہ تھی۔ 7
چندر گپت کے زمانے میں نہ صرف ایک مضبوط ہندو مرکزی حکومت قائم ہوئی بلکہ آریا ہندو سماج نے جنوبی ایشیا کو اپنے نفسیاتی اور سیاسی حصار کا حصہ بنا لیا تھا۔ہندؤ فلسفہ کے بانی کوتلیہ چانکیہ کی جارحیت پسند پالیسی نے ہندو تہذیبی حصار کو سلطنت کے طول و عرض میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ چانکیہ کے اقوال نے ہندو شدت پسندی کو غیر معمولی مہمیز دی جس کی بنیادی فکر طاقت کی ہوس اور ہمسایہ ممالک کو فتح کرنے کے جذبے پر رکھی گئی تھی۔ جس سے واضح ہوتا تھاکہ ہمسایہ ریاستوں کو ہمیشہ دشمن ریاستیں تصوّرکیا جائے اور ہمسایہ ریاستوں کے پار کی حکومتوں سے ہمیشہ دوستی اور اشتراک عمل کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے تاکہ ریاست کی ہیبت ہمسایہ ممالک پر قائم رہے۔ضرورت پڑنے پر ہمسایوں سے دوستی کے جذبات محض ہمسایہ ریاستو ں کو دھوکے میں رکھنے کےلیے استعمال کیے جائیں اور موقع ملتے ہی وار کردیا جائے۔ اس کی مزید تصدیق ارتھ شاشتر کتاب سے بھی ہوتی ہے جو اہل ہند کے سیاسی تصوّرات اور حکمت عملی کی آئینہ دار اور سیاسی زندگی میں حکمرانوں کے لیے ہدایت نامہ سمجھی جاتی ہے۔ 8
اہل ِ ہندوستان کے عقیدے کے مطابق بالکل ابتدائی دور میں کوئی حکومت نہیں تھی۔ لوگ آزاد اور پُرامن زندگی بسر کررہے تھے۔ پھر ان میں برائیاں پیدا ہوئیں اور رفتہ رفتہ ہر طرف ظلم و تعدّی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگیا۔ ایسی صورت میں اندر دیوتانے جو کائنات کا محافظ تھا، منو (Manu) کو بھیجا جس نے حکومت قائم کرکے انسانی آبادی کو تباہی سے بچایا تھا۔ منو کے بعد پھر دوسرے راجا پیدا ہوئے جو اندر کے نائب کی حیثیت سے حکومت کرتے رہے۔ چونکہ اندردیوتا کے فرائض کو راجہ اس دنیا میں انجام دیتا تھااس لیے اُس کی اطاعت عین اندر کی اطاعت تصوّر کی جاتی تھی اور اُس کی حکم عدولی میں دنیوی و آسمانی عذاب پوشیدہ تھے۔ دیوتا کی اس نیابت نے راجا کو فرمانروائی کے تمام اختیارات عطا کردئے تھےجن کی حد بندی کسی دستور یا آئین کے ذریعے نہیں کی جاسکتی تھی۔ وہ اکیلا اور تنہا تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور تمام قوانین کا ماخذ تھا۔ مگر راجابرہمن کو پھانسی نہیں دے سکتا تھاکیونکہ وہ خود ایک بڑا دیوتا تصوّر کیا جاتاتھا گو وہ انسانی شکل میں تھا۔9قدیم ہندووٴں کا یہ عقیدہ تھا کہ برہمن کی روحانیت راجا اور اس کی پرجہ کو چشم زدن میں فناکرسکتی تھی۔ اسی طرح کا تصوّر پُران و سنوسمرتی میں بھی پایا جاتا تھا۔ 10
ارتھ شاستر کےچانکیہ نے راجا کے اس خدائی حق کو بیان کرنے کے بعد ریاست کے قواعد و اصول سے بحث کی ہے اور یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ہر ریاست دوسری ریاستوں سے گھری ہوئی تھی جن کے درمیان دوستانہ تعلقات ناممکن تھے، وہ والی ریاست کو مشورہ دیتا کہ طاقت کو مجتمع کرکے اپنی ہمسایہ ریاستوں پر حملہ کردے اور اُسے فتح کرکے اپنی ریاست میں ملالے۔ چانکیہ کے نزدیک سیاست مدن میں اخلاق کوئی چیز نہیں تھی۔ اس لیے وہ راجا کو جو سیاسی تنظیم کا سربراہ تھا، اخلاقیات کے گورکھ دھندوں سے دُور رکھنا چاہتا تھااور اُس کے لیے ہر قسم کی دغابازی اور عیاری کو جائز قرار دیتا تھا۔ اُس کا خیال تھاکہ راجا کے پیش نظر محض سیاسی غلبہ ہونا چاہیے جس کے حصول کےلیے وہ تمام ممکن وسائل اختیار کرسکتا تھا،وہ بلا تذبذب معاہدہ کو توڑسکتا تھااور خون بھی بہا سکتا تھا۔
اس طرح راجا کی ذات کو تمام قید و بند سے آزاد کرنے کے بعد چانکیہ نے حاکم کو ایک شاہی مجلس کے قیام کا مشورہ دیا جو اہم امور میں اُسے مشورہ دے سکے اور نظام چلاسکے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ راجا کو بداعتمادی کی بھی تلقین کرتا تھااور اُسے اعلیٰ حکام و شاہزادوں پر بھی بھروسہ کرنے سے منع کرتا تھا۔اُس کا خیال تھاکہ حکومت کے معاملے میں کسی پر بھی اعتماد کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے اس لیے وہ راجا کو جاسوسی کے محکمے کی طرف متوجہ کرتا تھا۔ اور بتاتا تھاکہ تمام محکموں میں یہ سب سے اہم محکمہ ہے۔ وہ بڑی تفصیل کے ساتھ اس کے قواعد و ضوابط کو بیان کرتا تھااور جاسوسی کے لیے فاحشہ عورتوں کی خدمات کو سراہتا تھا۔11سیاست کے اِن اہم نکات کو سمجھانے کے علاوہ وہ دیگر محکموں، محصولات، تنخواہوں اور ضابطۂ تقریرات سےبھی بحث کرتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب سے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست و حکومت سے متعلق اہل ہند کا تصوّر کیا تھا۔ وہ بھی اپنے ہم جد ایرانیوں کی طرح راجا کو تمام تنقید و رائے زنی سے بالا سمجھتےتھے۔ اُن کے نزدیک وہ خدائی ارادے کا مظہر تھا بلکہ دیوتاؤں سے نسلی تعلق رکھتا تھا۔ پھر بھی عملی طور پر وہ تنہا حکومت چلانے سے قاصر تھا اس لیے وہ اپنے بعض اختیارات دوسروں کو تفویض کردیتا تھا جو اُس کی جگہ پر حکومت کے فرائض انجام دیتے اور صرف اسی کے سامنے جواب دہ تھے۔ 12
کوتلیہ نے راجہ کو تنظیمی نوعیت کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے تحریر کیا تھاکہ جو بادشاہ دنیاوی تنظیم کو قائم رکھنےکا خواہاں ہے وہ ہمیشہ عصائے شاہی کو اونچا رکھنا چاہےگا۔کیونکہ جب عصا سے سوچ سمجھ کر مناسب طور پرکام لیا جائے تو لوگوں کو نیک چلنی اور مفیدومثبت کام سے لگے رہنے کی ترغیب ہوتی ہے جس سے دولت اور لطف وراحت حاصل ہوتی ہے۔البتہ اگر اس کو بالکل استعمال میں نہ لایا جائےتو انتشار پیدا ہوتا ہے۔عادل حکمران کی غیر موجودگی میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے لگتی ہیں۔اس کی موجودگی کمزوروں کی بقا کی ضامن ہے۔ 13
آریوں کی سیاسی تنظیم کی سرداری موروثی تھی اور ایک خاص خاندان کے افراد ہی نسل در نسل قبیلے کے سردار ہوا کرتے تھے۔14 ان سرداروں کو راجن (Rajan) کہتے تھے۔ یہ راجا حقیقتاً سیاسی تنظیم کے نہیں بلکہ عسکری تنظیم کے سردار تھے اور اوائل میں اُن سے مراد "سپہ سالار"لیا جاتاتھا۔ مگر بعد میں جب انہوں نے اپنے حلقۂ اختیارات کو وسیع کرکے اپنے مقبوضات کو ریاستوں کی شکل میں تبدیل کردیا تو پھر صحیح معنی میں وہ راجا بن گئے مگر وسعت کے لحاظ سے پھر بھی ان کی ریاستیں مختصر ہی رہیں اور مملکت کے مرتبے کو نہ پہنچ سکیں۔ بہرکیف ان راجاؤں کا پہلا فرض اپنے قبیلے کا تحفظ اور اس کے لیے خورد و نوش کا سامان مہیا کرنا تھا۔ قبیلے انہیں کی سرداری میں جنگ اور غارتگری کیا کرتے تھے اور بیرونی حملے کی صورت میں انہیں کے زیر نگرانی اپنادفاع کرتے تھے۔ 15راجاؤں کے بعد "پروہتوں"کا طبقہ تھا جو مذہبی امور کے علاوہ سیاسی امور بھی انجام دیتا تھا۔ چونکہ ویدوں کے اندر "پروہت" خاندانوں کے تذکرے کثرت سے آتے ہیں اس لیے یقین کیا جاتا ہے کہ آریائی سماج پر ابتدا ہی سے اس کا گہرا اثر تھا۔16
ہند میں مختلف ادوار میں مختلف خاندانوں نے حکومتیں قائم کیں جن میں موریا اور گپتا سلطنت نے سب سے زیادہ وسعت اختیار کی تھی۔ اشوک کے عہد میں مگدھ کی ریاست ہندوکش سے لے کر خلیج بنگال اور کوہِ ہمالیہ سے لے کر دریائے گوداوری تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر شنگدکا نو خاندان کے عہد میں سمٹ کر شمالی ہند کے ایک مختصر حصّے کے اندر محدود ہوگئی تھی۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک باہر کے حملہ آور سک و کشان اس پر حکومت کرتے رہے اور پورا ملک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا رہا۔ 320 عیسوی میں پھر ایک نیا خاندان اُبھرا جس نے موریا خاندان کی جگہ لی اور اپنی سلطنت کو وادئ جمنا و بحیرۂ عرب سے لے کر بنگال تک اور دامن ہمالیہ سے لے کر نربد تک وسیع کیا۔ نیز جنوبی ہند کے ایک حصہ پر اپنی سیاسی دھاک بٹھائی۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی جو ہندؤوں نے حاصل کی تھی۔ اِس سلطنت کے زوال کے بعد پھر ملک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اس طویل دور کے دوران تمام کوششوں کے باوجود پورے ملک پر ہندو حکومت کا قیام ممکن نہیں ہوسکا تھا۔17عملی طور پر جنوبی ہند کا علاقہ اُن کی گرفت سے باہر رہا، اور وہاں اچھوتوں نے برہمنیت کو غلبہ حاصل کرنے کا موقع نہ دیا۔اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اعلیٰ ذات کے ہندؤوں کی تنگ نظری اور مذہبی عدم روا داری تھی۔ اُن کے مذہب نے توہمات کا جال پھیلاکر اور ذاتوں کا امتیاز قائم کرکے ملک کی ترقی اور سیاسی اتحاد کے راستے میں سخت رکاوٹیں ڈالیں تھیں۔ اس مذہب کے ماننے والوں کے ذہنوں میں کبھی اتنی وسعت نظری پیدا نہ ہوسکی تھی کہ وہ تمام باشندوں کو ملاکر متحدہ حکومت کی بنیاد رکھیں۔ 18
اس ایک ہزار سال کے اندر اس ملک پر دو مذاہب (ہندومت و بدھ مت) سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں نے فرمانروائی کی۔ یہ تو واضح بات ہے کہ اُن کے عقائد کا اثر نظامِ مملکت پر بھی پڑا ہوگا۔ مگر عام سیاسی تصوّرات، حکمت عملی اور مملکت کی ہیئتِ ترکیبی کے اندر اس تبدیلیِ مذہب کی وجہ سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوا تھا۔ حاکمیت کا ایک ہی تصوّر ہمیشہ قائم رہا کہ راجا تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کا حکم قانون ہے اور اُس کا دربار سب سے بڑی عدالت ہے۔ اُس کی ذات غلطیوں سے پاک ہے اور وہ دیوتاؤں کا محبوب اور نائب ہے۔ اسی نظریہ کے تحت مختلف راجاؤں نے اپنے لیے مختلف القابات اختیار کیے جو اُن کے خدائی حق کو واضح کرتے تھے۔ مثلاً اشوک نے دوانم پیا (Devanam Piya) یعنی "دیوتاؤں کا محبوب" کُشان راجاؤں نے دیوپتر(Deva Putra) یعنی "دیوتاؤں کا بیٹا" اور دوسرے حکمرانوں نے مہاراج دھیراجا (Maharaja Dhiraja) یعنی "شہنشاہ" کا لقب اختیار کیا تھا۔19کئی راجاؤں نے اپنا نسلی تعلق اگنی دیوی،سُورج دیوتا، اورچاند دیوتا سے قائم کرلیا تھا اور خود کو اُن دیوتاؤں کا جانشین مشہور کردیا تھا۔20
ہندوستانی سیاست کے اصول وقوانین کے مطابق دشمن کو نیچا دکھانے کےلیے ہر قسم کے ناجائز حربے استعمال کرنا بالکل جائز تھا۔ مثلاًرشوت، بددیانتی، بے ایمانی، جعل سازی، دھوکا دہی، فریب، خفیہ جوڑ توڑ، پرفریب مصالحت، منافقانہ دوستی، جھوٹے معاہدے، خوشامد، خوبصورت عورتوں کا استعمال،کنیا دان، راگ رنگ کی محفلیں اور دولت کا بے دریغ استعمال۔ارتھ شاستر انہی مکارانہ ہدایات پر مشتمل ہے، جس کے چند اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں:
یہی وہ رذیل بنیادیں تھیں جن پر عمومی ہندو رہنما (بشمول دور حاضر کے) حکمرانی کیا کرتے تھے اور اپنی ظاہری فتح کو یقینی بنانے کے لیے ہر قسم کی گراوٹ اور گھٹیا پن کو اختیار کرنا اپنا ہنر سمجھتے تھےاس فعل قبیح کو سر انجام دینے میں اگر ان کو عورتیں اور بچوں تک کو داؤں پر لگانا پڑتا تو وہ بلا جھجک ان امور کو سر انجام دے دیا کرتے تھے جیسا کہ چانکیہ کی تحریر سے واضح ہے ۔
مذہب کے علاوہ سیاسی شعبہ میں بھی برہمنوں کی سرگرمیاں اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں۔انہوں نےاس شعبہ کو بھی اپنی مطلب براری کے لیے خوب استعمال کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر بیرونی طاقتوں اور حملہ آوروں کا ساتھ دینے سے مقصد حاصل ہوتا ہے تو اُنہوں نے ایسا ہی کیا اور اگر دیکھا کہ اپنے ملکی بادشاہوں اورحکمرانوں کو منظر عام سے ہٹانے سے یہ مقصد حاصل ہوتا ہے تو انہوں نےان کے خلاف سازشوں ، شرارتوں اورریشہ دوانیوں میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان کے خلاف بغاوتیں کیں، ان کے تختے الٹے اور انہیں بے دریغ قتل کیا۔ ہندوستان کی تاریخ برہمنوں کی داخلی اور خارجی سازشوں سےبھری ہوئی ہے۔
سوامی دھرما کے مطابق جب بھی ہندوستان کےکسی بادشاہ یا خاندان کی طرف سے بدھ مت کو سرپرستی حاصل ہوئی تو ساتھ ہی کوئی غاصب یا حملہ آور آپہنچا اورکسی نہ کسی طریقے سے بادشاہ کو بے دخل کردیا اوربرہمنوں کا حامی نیا خاندان اقتدار میں آگیا اور جب نئے بادشاہوں نےبھی بدھ مت کو برہمنوں سے زیادہ پسند کرنا شروع کردیا اور برہمنوں کی بالادستی اور اقتدارکو اتار پھینکنا چاہا تو پھر کوئی دوسرا غاصب یا حملہ آور منظر پر آوارد ہوا اور دوبارہ منتقلئ اقتدار کاعمل کسی نئے برہمن خاندان کے لیے شروع ہوگیا۔ اس طرح قومی بیداری کے دور میں صدیوں پر صدیاں گزرجانے کے باوجود ایک نہ ختم ہونے والی داستان جاری رہی۔ برہمنوں نے بعض اوقات حصولِ مقصد کےلیے مذہب کا سہارا لینے سے بھی گریز نہ کیا۔ مہابھارت کی روسے بیرونی حملہ آوروں سےتعاون کرنا ان کی مذہبی ذمہ داری تھی ۔ کہا جاتا تھا کہ اگر طاقتور شخص کوئی ایسا ملک فتح کرنا چاہتا ہے جس کا کوئی بادشاہ نہ ہو یا کمزور ہواور وہ اس سلسلے میں رابطہ کرے تو لوگوں کےلیے عقلمندی اسی میں ہے کہ اس کو خوش آمدید کہیں کیونکہ ملکی انتشار سے بڑا گناہ اورکوئی نہیں۔" ایک ایسی گائے جو دودھ دیتےو قت تنگ کرتی ہے بار بار سزا کی اذیت سے گذرتی ہےلیکن جو گائے آرام سے دودھ دے دیتی ہےاس کو کوئی تکلیف نہیں دیتا۔"22اس کلیے کی رو سے یہ فائدہ تو ہوا کہ بعض نا اہل حکمرانوں کو ہٹادیا گیا اوران کی جگہ اہل حکمرانوں کےلیے خالی ہوگئی لیکن برہمن طبقے نےاس اصول کو اپنے ہی اغراض و مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ بنالیا تھا۔ہندوستان کی تاریخ جس طرح برہمنوں کا چہرہ پیش کرتی ہے اس کو دیکھ کر ان کے استحصالی کردار کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اُنہوں نے وطن دشمنی کا قدم قدم پر مظاہرہ کیا تھا اورقومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کےلیے سیاسی جوڑتوڑ کا ایک طویل ڈرامہ کھیلا تھا۔
قدیم ہندوستان کے حکمران خود مختار بادشاہت کی طرز پر حکومت کرتے تھے ۔ برہمنی زمانہ میں طرز حکومت خود مختار بادشاہی تھا اور بادشاہ کی اطاعت اسی طرح واجب تھی جیسے خدا کی اور جس وقت وہ اقتدار کے تخت پر بیٹھتا، خواہ اس نے کسی گناہ کے ذریعے سے ہی کیوں نہ تخت حاصل کیا ہو، وہ خدا تعالیٰ کا قائم مقام سمجھا جاتا تھا۔ برہمن اپنے مرتبہ کی وجہ سے درجے میں اس سے زیادہ خیال کیے جاتے تھے اور بادشاہ کو حکم تھا کہ ہر امر میں ان سے مشورہ لے، انہیں دعا دے اور ان کی دعا کے ذریعے سے اپنی حکومت کو سر سبز رکھے ورنہ وہ ہر قسم کے عذاب الہٰی کا مستوجب ہوگا۔کھشتری خود بادشاہ کی ذات کے وفادار تھے۔جاسوسی صرف دشمنوں ہی کے لیے نہ تھی۔ یہ گویا انتظام ِمملکت کا ایک جز سمجھا جاتا تھا اور انہی جاسوسوں کے ذریعے بادشاہ اپنے مخالفین کی سازشوں کی خبر رکھتا، عمّال کی دیانت، فصل کی حالت اور شاہی محصول کی وصولی کی نگرانی کرتاتھا۔ یہ محصول سال کی حالت کے مطابق بدلتا رہتا تھا، برے وقت میں زیادہ محصول لیا جاتا اور اچھے وقت میں کم۔ شودر ذات کے ہندو جن کے پاس کوئی جائیداد نہ تھی بعوض مال صرف مہینے میں ایک دن بادشاہ کی مزدوری کرلیا کرتےتھے ۔ ہر ایک گاؤں اور شہر میں ایک کار پرداز رہتا اور یہ حلقہ کے کار پر داز کا ماتحت ہوتا تھا۔ مختلف حلقوں کے کار پرداز صوبہ دار کے ماتحت ہوتے اور صوبہ دار براہِ راست وزرا ءسے، جو لائق اور برہمن عالم ہوا کرتے تھے، تعلق رکھتا تھا۔ اسی طرح فوج میں ایک سلسلہ افسروں کا تھا جو ایک دوسرے کے ماتحت ہوتے تھے۔23ہندوستان کا پہلا بادشاہ جس پر ان سب کا اتفاق ہوا وہ با ہمن تھا جس کی حکومت سب سے پہلے قائم ہوئی ۔یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے علم نجوم کے متعلق کلام کیا اور نجوم کا علم لوگوں کو سکھایا تھا۔24
با ہمن کے بعد ملک ہندستان کی بادشاہت کشن کے زیر تسلط آ ئی۔ یہ کشن مشہور شری کرشن نہیں ہے بلکہ ایک اور شخص تھا جس کو ہندوستان والوں نے اس کی بہا دری اور مردانگی کے پیش ِنظر اپنا فرماں روا منتخب کیا تھا۔ یہ شخص بہت بھاری جسم کا تھا ۔ اس کا وزن اس قدر تھا کہ گھوڑااس کی سواری کی تاب نہ لاسکتا تھا ۔ لہٰذا اس نے حکم دیا تھا کہ جنگلی ہاتھیوں کوحسن تدبیر سے رام کیا جائے تا کہ وہ ان پر سوار ی کرے۔راجہ کشن کے زمانے میں ہند کے بیٹے بنگ کی نسل سے ایک دانشور اور عاقل باہمن پیدا ہوا جسے کشن نے اپنا وزیر بنایا ۔ ہندوستان کی بعض صنعتیں اسی برہمن کے حسنِ تدبیر سے رائج ہوئیں ۔ لکھنے اور پڑھنے کا رواج بھی اسی دانشور برہمن کی فکر عالی کا نتیجہ ہے۔ کشن نےچارسو (400) سال کی زندگی پائی تھی یہ راجہ طہمورث کا ہم عصر تھا اور اس کے عہد میں تقریباًدوہزار (2000) گاؤں اور قصبے آباد ہوئے ۔ اس کے سینتیس (37) بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے کا نام مہاراج تھا جوباپ کی مسند حکومت پر جلوہ آرا ہوا تھا۔
اپنے باپ کشن کی وفات کے بعد مہاراج نے اپنی قوم کے سرداروں اور بھائی بندوں کے مشورے سے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور یہ حقیقت ہے کہ ملک کو آباد کرنے اور حکومت کے انتظام کو بہترین طریقے پر چلانے میں اس نے اپنے باپ سے زیادہ محنت کی تھی۔ اس نے اپنی رعایا کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا۔ مہاراج نے سات سو (700) سال تک ہندوستان پر حکومت کی اوراس کے عہد ِ حکومت میں ہندوستان کی حالت بدل گئی تھی ۔ یہ راجہ ہندوستان کا جمشید اور فریدون تھا۔اس نے حکومت کے کاموں کے استحکام اور رعایا و افواج کی بہتری کے لیے بہت سے قاعدے اور اصول مقرر کیے تھے ۔
مہاراج نے سات سو (700) سال کی عمر پائی ، اس کے چودہ (14) بیٹے تھے جن میں سے سب سے بڑا کیشو راج اپنے باپ کا جانشین ہوا تھا۔ کیشوراج نے اپنے عہدِ حکومت میں اپنے ہر بھائی کو مملکت کے کسی نہ کسی حصے میں بھیجا اور خود کالچی سے گونڈوارہ (گونڈوانہ یا وسط ہند) آیا اور دکن سے سراندیپ (لنکا ) تک کا سفرکیا ۔ اس سفر میں اس نے سر کش اور کج کلاہ راجاؤں سے خراج لیا اور تحفے حاصل کیے اور اپنی رعیت کی پوری طرح بہبودی کی کو شش کی ۔ اہل ِہندوستان کو اس نے اپنے انصاف کی برکت سے مالا مال اورخوش حال رکھا تھا۔ اس نے دوسو بیس (220) سال تک حکومت کی۔
منیر رائے کو ہندوؤں کی علمی کتابوں یعنی شاستر وغیرہ سے بڑی دلچسپی تھی اور وہ اہل علم اور عقل مند لوگوں کی محبت کو پسند کرتا تھا ۔ اس بنا پر اس نےغیر علمی مشاغل یعنی سواری اور لشکر کشی وغیرہ کو بالکل ترک کردیا ۔ وہ اپنا بیشتر وقت علما و فضلا کی محفل میں گزارتا تھا۔ اس نے اہلِ ضرورت اور فقرا وغیرہ میں بے شمار دولت تقسیم کی اور نہارجا کر بہت زیادہ خیرات کی۔ منیر نامی شہر اسی راجہ کی عہد میں آبادہوا تھا ۔
منیر رائے نے سام بن نریمان اور منوچہر کے احسانات کو فراموش کر کے پنجاب پر حملہ کیا ااور اسے زال بن سام کے عمال کے قبضے سے نکال کر اپنے تصرف میں لے لیا اور جالندھر کو پا یہ تخت بنایا ۔ اس نے بہت سے نا در تحا ئف کے ساتھ اپنے ایک ایلچی کو افرا سیاب کی خدمت میں بھیجا تا کہ اپنے آپ کو اس کا دوست ظاہر کرے ۔ اس زمانے سے لے کر کیقباد کے عہد تک پنجاب ہندوستان کے راجاؤں کے قبضے میں رہا ، لیکن جب (مشہور عالم ) رستم پہلوان اپنے باپ دادا کے منصب ِ سرداری پر پہنچا تو اس نے پنجاب واپس لینے کے لیے ہندوستان پر حملہ کیا ۔ منیر رائے رستم کا مقابلہ نہ کرسکا اور ترہٹ کے کوہستان کی طرف بھاگ نکلا ۔ جب رستم نے پنجاب ، سندھ اور ملتان کو فتح کر کے تر ہٹ کا عزم کیا تو منیر رائےچہار کھنڈاور کو نڈواڑ (جو دریائے سون کے دائیں کنارےکے علاقے جواب بگھل کھنڈاور چھوٹے ناگپور میں شامل ہے ) کے کو ہستانوں کی طرف چلا گیا ۔ اس کے بعد پھر کبھی اسے خوشی کا دن دیکھنا نصیب نہ ہوا اور وہ اسی زمانے میں انتہائی رنج وغم کے ساتھ راہی ملک عدم ہوا۔کہا جاتا ہے کہ منیر رائے کا زمانۂ سلطنت پانچ سو سینتیس (573) سال تھا۔ 25
چندر گپت موریا خاندانِ موریا کا بانی تھا جس نے تین سو اکیس (321) قبل مسیح سے لے کر دوسو ستانوے (297) قبل مسیح تک ہندوستان پر حکومت کی۔ ملک کو بدعنوانی سے بچانے اور اسے غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کا سہرا چندر گپت موریا کو ہی جاتا ہے۔26 چندر گپت ہندوستان کے چند بڑے حکمرانوں میں سے ایک تھا ۔ اس کی حکومت کی حدود پارس کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ پہلا ہندوستانی حکمران تھا جس نے سندھ ، گنگا اور جمنا کی وادیوں کو ایک سیاسی اختیار کے تحت متحد کیا تھا۔27 298 قبل مسیح میں چندر گپت نے رضاکارانہ طور پر اپنے بیٹے بِندسوارکے حق میں تخت ِ حکومت ترک کردیا ، جو نیا موریانی شہنشاہ بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ چندر گپتا جین مت کا پیروکار بن گیا تھا۔ جین مت کی روایت کا دعویٰ ہے کہ چندر گپتا جنوب میں ہجرت کر گیا اورجین مت کے عقائد کے مطابق اس نے غار کے اندر خود کو بھوکا مار ڈالا۔28
چند رگپت موریا کے جا نشین اشوکِ اعظم نے اس کی قائم کی ہوئی حکومت کو جنو بی ہند تک وسعت دی ۔ اشوک کا دارالحکومت پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ ) تھااور جنوب کے چھوٹے سے علاقے کے سوا سارا ہندوستان اس کے زیر ِ نگیں تھا۔ اشوک نے بندوسرا کو دوسو ارسٹھ (268)قبل مسیح میں ایک بڑی سلطنت کے حصول کے لیے شکست دی تھی۔ اس سلطنت میں ہندوستا ن کا شمالی اور وسطی حصہ مکمل طور پرشامل تھا جو بعد ازاں وسطی ایشیا تک پھیل گیا تھا۔ غالباً اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے جو ہندوستان کے جنوب مشرتی اور جنوبی علاقہ کے بقیہ حصوں کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے لیے تھی، اس نےاپنی حکومت کے نویں سال کلنگہ کے معرکہ کا آغاز کیا تھا۔کلنگہ ، بھارت کے مشرقی ساحل پر مہا ندی ، گوداوری اور کرسٹنا نامی دریاوٴں کے درمیان واقع تھا۔29
اہل ہند کی معلوم تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ خطّہءِ ہند کے اولین حکمران برہمن سے لے کر اشوک تک تمام حکمرانوں نے اس خطے میں اپنی حکومت کے مستحکم قیام کےلیے کئی جنگیں لڑیں جس کی بدولت یہ خطّہ وسیع سے وسیع تر ہوتاگیا اور ان حکمرانوں کا دائر ہ اقتدار بھی بڑھتاچلاگیا تھا۔ تاہم ان حکمرانوں کی سفاکی اور بربریت بھی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔اشوک نے سلطنت کے جائز وارث سے چھٹکارا پانے کےلیے ایک چال کے ذریعے اسے زندہ کوئلوں سے بھرے ہوئے گڑھے میں گرا دیا اور خود بادشاہ بننے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ اپنی شریر طبیعت اور خراب مزاج کی وجہ سے "خوفناک اشوک" کے نام سے بدنام ہوا۔ اس نے اپنے وزرا کو وفاداری کے امتحان کے لیے پیش کیا اور ان میں سے پانس سو (500) کو موت کے گھاٹ اتار دیا کیونکہ وہ اس کی آزمائش میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے ۔ جب اس کے حرم کی کچھ خواتین نے اس کی توہین کی تو اس نے حرم کی اکثر عورتوں کو جلا کر ہلاک کردیا تھا۔ اسے خوشی تھی کہ اس نے زمین پر ایک جہنم تعمیر کی ہے۔یہ ایک وسیع و عریض اذیت ناک ایوان تھا جہاں وہ بدقسمت مجرموں کو اذیت دے کر خود کو خوش کرتا تھا۔30 گریکا نامی شخص کو اس ایوان کا انچارج بنا یا گیا تھا جس کا اصل کام یہ یقینی بنانا تھا کہ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے ، اسے کبھی بھی یہاں سے زندہ نہیں نکلنا چاہئے۔31
ایک اور بادشاہ پوشیمتراکے نام سے جانا جاتا تھا ، جو سونگا خاندان کا بانی تھا اور بدھ مت کا پیروکار ہونے کے حوالے سے مشہور تھا۔ بدھ ادب میں پوشیمترا بدھ مت کے ایک بڑے ظالم و جابر حکمران کے طور پر جانا جاتا تھاجس نےبدھ مت کے نظریے کو فنا کرنے والے بادشاہ کے طور پر شہرت حاصل کی تھی۔ اس نے ککوتاراماس کی تباہی کا ارادہ کیا۔ یہی وہ عظیم درسگاہ تھی جسےاشوک نے ایک ہزار راہبوں کے لیے تعمیر کیا تھا ، لیکن جب وہ دروازے کے قریب پہنچا تو اسے ایک زبردست شیر کی دھاڑ سنائی دی اور وہ خوفزدہ ہو کر ایک دم سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد وہ مشرقی پنجاب گیا اور وہاں کی بدھ برادری کو ختم کرنے کی کوشش کی ، ہر راہب کے سر کے لیے سو (100) سونے کےدینار کے انعام کا اعلان کیا ۔ پوشیمترا نے متعدد خانقاہیں جلا دیں اور مغادا سے جالندھرتک متعدد راہبوں کو مار ڈالا تھا۔ 32
مذکورہ بالا تمام حوالہ جات سے پتہ چلتاہے کہ اہلِ ہند کے حکمران کس قسم کی سیاست کیا کرتے تھے، بالخصوص کوتلیہ چانکیہ جو اپنے زمانے کا ماہرِ سیاست ماناجاتاتھااس نے تو باقاعدہ اپنے وقت کے حکمرانوں کو مکمل اصولِ سیاست ودیگر معاملاتِ سیاست پر مبنی کتاب ارتھ شاستر لکھ کردی تھی جس سے اُس کی ذہنی سطح اور اُس ماحول کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اُس زمانہ کے حکمران کس طرح سیاسی داؤپیچ کی بدولت حکومت کیا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک سیاست کا کوئی اصول نہ تھاجس کی وجہ سے مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر طرح کا گھٹیا حربہ اپنانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ قدیم ہندوستان میں بادشاہ واحد مختارِکُل سمجھا جاتاتھا اور کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔ اس کی سیاست دھوکہ دہی، عیاری، مکاری ، مطلب پرستی، خود غرضی، حرص و ہوس اور سفاکی و بربریت کا نمونہ تھی جسے بادشاہوں کے الہامی اختیارات اور ذات پات کے نظام نے پستی و زوال کی عملی تصویر بنا دیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ نظام اہل ِ ہند کو کوئی مستحکم و پائیدار سیاسی روایت اور مضبوط حکومتی و سیاسی نظام فراہم نہ کر سکا جس کی وجہ سے یہ خطہ ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔