Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم ہندوستان کامعاشی نظام

قدیم ہندوستانی تہذیبیں ترقی یافتہ اور پھلتے پھولتے ہوئے معاشی نظام کی حامل تھیں لیکن پھر بھی یہ نظام خود کو برقرار رکھنے اور ایک مستحکم سماجی و سیاسی نظم قائم کرنے میں ناکام رہا تھا ۔ دریائے سندھ کے میدانوں کے باسی زراعت سے وابستہ تھے نیز پالتو جانور اور چوپائے بھی پالتےتھے ۔ تانبے ، کانسی اور ٹِن سے اوزار اور اسلحہ بناتے تھے۔یہاں تک کہ مشرق وسطی کے کچھ ممالک کے ساتھ بھی تجارت کرتے تھے۔ زراعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی لیکن آمد ورفت اور سمندری تجارت کی نمو کے ساتھ یہاں کے باسیوں کے مختلف غیر ملکی تاجروں سے روابط استوار ہوئے اور ان کی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تھا۔ حکومت کے لیے محصول وصول کرنا ہی آمدنی کا بنیادی ذریعہ تھا اس لیے بعض اوقات ، لوگوں کو اس کی ادائیگی پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اگر وہ ادائیگی نہیں کرتے تو انہیں سزا دی جاتی تھی۔ ایک طرف کسان ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوگئے تھے جبکہ دوسری طرف امیر افراد بادشاہ کو صرف چندتحائف دے کرخود کو محصولات سے بچا لیتے تھے۔

نظام ِمعیشت کی ابتداء

ہندوستان کی معاشی تاریخ تقریبا پانچ ہزار (5000) سال پر محیط ہے اور اس کی تاریخ دریائے سندھ کی تہذیب سے ملتی ہے جو تقریبا ً ڈھائی ہزار (2500) قبل مسیح میں پروان چڑھی تھی۔ موہن جو دڑو(Mohenjo-Daro) اور ہڑپہ (Harappa)کے آثارِقدیمہ کے مقامات سے دریافت ہونے والی بہت سی چیزیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ وہ اپنے وقت کے بڑے صنعتی مراکز تھے جو وسطی ، مغربی اور جنوبی ہندوستان ، مغربی ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتے تھے۔ ویدک لٹریچر ابتدائی آریاوٴں کی معاشی حالت کی تفصیل فراہم کرتا ہے جو فصلوں کی کاشت سے اچھی طرح واقف تھے ۔ وہ بابل، سومریہ اور کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف صنعتی نوعیت کی سرگرمیوں میں بھی ماہر تھے۔

ہندوستان کی قدیم ترین قوم دراوڑتھی جن کا گزربسرزراعت وگلّہ بانی پرتھا۔اسی طرح ہندکی ایک دوسری قدیم قوم آریاتھی، جو وسطِ ایشیا سے اسبابِ زندگی کی تلاش میں ہندوستان آئی اوریہیں کی ہوکررہ گئی تھی۔وقت گزرنے کےساتھ ساتھ اہلِ ہندکی حاجات ِ زندگی بڑھیں اورضروریات کے تحت اسباب تلاش کرنے کےطورطریقے ایجاد ہوئے۔ان میں اصول وضوابط بننےلگے،تعلقات کی اہمیت کا اندازہ ہوا جس کے پیشِ نظردیگراقوام سے مراسم قائم ہوئے۔لین دین کےقوانین تخلیق کیے گئےیہاں تک کہ معیشت کا پورانظام وجود میں آگیا۔قدیم ہندوستان کے معاشی نظام کی بنیاد زراعت کے شعبے پر توتھی تاہم تجارت، گلہ بانی، کپڑا سازی ، درآمد و برآمد، کان کنی ، دھات سازی ، ماہی گیری اور بادشاہوں اور راجاوٴں کے دربار میں حکومتی ملازمت بھی اہم شعبے تصوّر کیے جاتے تھے۔

مالیاتی نظام

قدیم ہندوستان میں مالیاتی نظام کی بنیاد اشیا ءکے تبادلے پر مشتمل تھی ۔سکوں کی ایجاد کے بعد کاروبار دونوں طریقوں یعنی بارٹر(Barter) یا تبادلہ اور نقد لین دین کے ذریعے انجام دیا جانے لگا تھا۔ اس عرصے میں کئی اقسام کے سکے بھی مقبول ہوئے۔ اگرچہ نقل و حمل کے ذرائع کافی غیر ترقی یافتہ تھے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ترقی ہوتی گئی۔ یقینی طور پر رگ ویدک دور میں بحری جہاز اور کشتیاں بھی نقل و حمل کا ایک خاص ذریعہ تھیں۔ ہاتھیوں اور گھوڑوں کو سامان لے جانے کے مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔1قدیم ہندوستانی معیشت میں تیار شدہ سامان کا سامان کے بدلےتبادلہ ہوتا تھا یا پھر بیچا جاتا تھا۔ رگ وید میں بنیادی طور پر تبادلے کا ذکر ہے۔اس کے بعدکے دور میں ہی "کریا وکرایا"کے الفاظ کا استعمال شروع ہوا جو "فروخت" کے معنی میں مستعمل تھا۔ تاہم اتھر وید میں تجارت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جادو اور منتر بھی بتائے گئے ہیں۔2

سونے اور چاندی کے سکوں کے علاوہ گائے کو بھی بطورِ معیاراستعمال کیا جاتا تھا۔ ان مویشیوں کے معیار کے استعمال کے بارے میں میکڈونیل(Macdonell) اور کیتھ(Keith) نے رگ وید کی ایک مثال پیش کی جس میں دس گائے دے کر اندرنامی معبودکا ایک بت حاصل کرنے کا ذکر موجود ہے۔ ان کے بقول ، اس سے سادہ بارٹر (Barter)کے نظام کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ حقیقت میں ، اس سے اس مقصد کے لیے گائے کی معیاری قیمت اور گائے کے بطورِ معیاراستعمال کیے جا نے کے خیال کی نمو ہوتی ہے۔ گائے ، سونے اور چاندی کے سکوں کے علاوہ دھاتی کرنسی کے استعمال کا ذکر بھی ملتا ہے۔3

قدیم ہندوستان میں رائج سکوں کےنظام کی ابتدا اور ارتقا ءبہت مبہم ہے۔4یہ گمان کیا جاتا ہے کہ سکے چاندی اور سونے سے بنائے جاتے تھے۔ تاہم سونے کے سکوں نکھا (Nikkha)اور سُرننا(Suranna) کااستعمال بعد کے دور میں شروع ہو ا ۔ اصل کرنسی کے علاوہ بھی کئی دوسرے قانونی آلات موجود تھے۔ جن میں اعتبار نامہ، اور اقراری یاداشت قابل ذکر ہیں۔ 5

الیگزینڈرکنِن گھم(Alexander Cunningham) نے زور دیا ہے کہ نشان زدہ سکے ہزار (1000)قبل ِ مسیح یا شاید اس سے بھی زیادہ پرانے ہیں ۔ ہندوستان کا سب سے قدیم سکہ ، جو کسی بھی غیر ملکی اثر و رسوخ سے آزادانہ طور پر تیار ہوا تھا،وہ منو باب آٹھ (8)، آیت ایک سو بتیس (132) میں دئے گئے وزن کے مقامی نظام کے مطابق تیا رکیا گیا تھا۔ ہندوستان کے سب سے قدیم سکے شکل میں چاندی کی چھوٹی ، مستطیل پلیٹوں پر مشتمل تھے ، جوکسی قسم کے تاثریا نقش سے خالی ہوتے تھےلیکن وزن کے ایک خاص معیار یعنی بتیس (32) رتیاں یا اٹھاون اعشاریہ آٹھ (58.8) گرام وزن کے حامل ہوتے تھے۔

جب چاندی کی پلیٹوں پر ستارے ، درخت وغیرہ کی کھردرے آلات کے ساتھ مہر لگا دی گئی توسکے کی ساخت میں تھوڑی بہت بہتری آئی تھی۔ ان آلات سے معمولی ضربیں لگا کر سکّے کی ساخت اور نقش کو بہتر بنایا جاتا تھا جو اس کے سامنے کےحصے کو متاثر نہیں کرتی تھیں ۔ ان سکوں پر پائی گئی علامتیں محض محلوں اور افراد کی نشانیوں کے طور پر استعمال کی گئیں تاہم ان کا کوئی مذہبی تعلق اوراہمیت نہ تھی۔ یہ علامتیں بنیادی طور پر یا تو ان مقامات کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں جہاں پران سکوں کو ڈھالا گیا تھا یا ان ذمہ دار حکام کی نشاندہی کرتی تھیں جنہوں نے یہ سکے جاری کیے تھے۔ہندوستانی سکوں پر قدیم ترین ابتدائی تحریر کا سراغ قریب قریب اشوکا (Ashoka)کے دور سے ملتا ہے۔ابتدائی سکوں پر کندہ یہ تحریریں حرف تہجی کے استعمال کی ابتدائی مثالوں میں سے ہیں۔ یہی حروف بعد میں ترقی کرتے ہوئے دیوناگری رسم الخط کی صورت میں مرتب ہوئے تھے۔ 6

سکّوں کی مختلف اقسام

دھاتوں کی گول یا مربع چادریں ، پہلے تو گرم کی جاتی تھیں اور پھر اس پر نشان لگایا جاتا تھا۔ ایسے سکے صرف ایک طرف سے نشان زدہ ہوتےتھے۔ بعدازاں ، اس عمل کومشکل اور تکلیف دہ خیال کرتے ہوئے ، لوگوں نے دھاتوں کو مائع شکلوں میں گرم کر کے مٹی سے بنے سانچوں میں ڈھالنا شروع کردیا ۔ بعض اوقات ، اس عمل میں دو سکے جو ایک دوسرے کے ساتھ پھنس جاتے تھے کاٹ کر الگ کرددئے جاتےتھے اور کبھی کبھی انہیں اسی طرح رہنے دیا جاتا تھا۔ بعد میں ایک اور طریقہ اپنایا گیا۔ دھاتوں کے ٹکڑوں کو سب سے پہلے گرم کیا جاتا اور جب وہ گرم ہو جاتے تھے تو کبھی ایک طرف ، اور کبھی دونوں طرف مہر لگا دی جاتی تھی۔ بعد میں سکے ڈھالنے کے لیے ٹکسال بنائے گئے تھے۔

اس طرح کے چار قسم کے سکے زیادہ قابل ذکر ہیں:

  1. نشان زدہ سکے (Punch Marked)
  2. ڈھالے گئے سکے (Cast Coins)
  3. سانچے سے بنائے گئے مُہر زدہ سکے (Dye-Coins)
  4. ٹیکسالی سکے (Minted Coins) ۔7

وزن و پیمائش کے معیارات

ہندوستان میں ما قبل ازتاریخ زمانے سے ، سونے کا استعمال رتھوں کے پہیوں اور مویشیوں کے سینگوں کو سونے میں ڈھالنے اور زیورات بنانے میں کیا جاتا تھا۔ اس کی طلب عالمگیر تھی اسی وجہ سے ہر ایک کےلیے اس کی بہت اہمیت تھی اس لیے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ تھی۔ اس کی وجہ سے سونے کے ٹکڑے جن کی مختلف مقداریں کرسنالہ ، سلمانہ، ہیرانیہ ، سوورنہ اور نِسکہ وغیرہ کہلاتی تھیں، مختلف قربانیوں اور تقاریب میں برہمنوں کو بطور تحفہ دئے جاتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ناانصافی یا عدم مساوات سے بچنے کے لیے ان ٹکڑوں کو برابر وزن سے بنایا جاتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ برہمنوں نے ، مالی مشکلات میں پڑتے ہوئے ، ان ٹکڑوں کو دوسرے لوگوں کو فروخت کردیا ، اور اس طرح سونے کے یہ ٹکڑےگردش میں آگئے۔ پانینی (Panini) کی کچھ کہاوتیں اور اقوال (Aphorisms of Panini) واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ ستامانا ، ہیرانیا ، اور نِسکا فروخت اور خرید میں استعمال ہوئے تھے۔ 8

ترازو یا تولا کا ذکر سامہتا اور شتاپتھ برہمن میں بھی موجود ہے۔ انسان کے اچھے اور برے کاموں کے تخمینے کے سلسلے میں ، یا توازن اورآزمائش کے سلسلے میں ہمیں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ اناج کی پیمائش میں قطعی سائز کی لکڑی کے برتن استعمال کیے جاتے تھے۔ وزن کے معیارات بھی ایجاد کیے گئے تھے۔ اس طرح ، قیمتی دھاتوں کی پیمائش کرنے کے لیے کرسنالہ (ابرس گھونگچی چنوٹھی کا بیر) اور مسا اور کچھ دوسرے اناج، وزن کے معیار کے طور پر استعمال کیے جاتے تھے۔9

محصولات کا نظام

تجارت اور صنعت و حرفت پر محصولات لاگو کرنے کا عمل عوام کی دشواریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مرتب کیا جاتا تھا۔ دوسری صورت میں یہ نظام بیوپاریوں کی جانب سے مال کی خرید و فروخت ، ان کے زندگی گزارنے کے معیار، گھریلو اخراجات اور خرید و فروخت کرنے والوں کے درمیان معاملات طے کرنے والے لوگوں اور مزدوروں کے ضمنی اخراجات کے مطابق ترتیب دیاجاتا تھا۔محصولات لاگو کرنے کا عمل بادشاہ کی جانب سے ہوا کرتا اور وہ ہی اس کی طاقت رکھتا تھا کہ چاہے تو بیوپاریوں پر محصولات لاگو کرے یا ان میں نرمی کرے۔نیادہمّاکاہا(Nayadhammakaha)نے کمپا (Campa)کے بحری پیشہ ور بیوپاریوں کے متعلق تحریر کیا ہے جنہوں نے متھیلا(Mithila)کے بادشاہ سے ملاقات کی اور اسے قیمتی تحائف اور ایک کانوں کی بالیوں کی جوڑی پیش کی تھی۔ بادشاہ یہ تحائف وصول کرکے بہت خوش ہوا اور ان بیوپاریوں کا محصول معاف کردیا۔ اس کے بعد ایالا(Ayala) نامی بیوپاری جو پاراساوٴلا (Parasaula)سے بہت سا مال لے کر واپس لوٹا تھا ، اس نےبینایادا(Bennayada) کے حکمران سے ملاقات کی اور اسے ایک پورا تھیلاچاندی، سونے اور موتیوں سے بھرا ہوا تحفہ میں دیا ، تو بادشاہ نے اس کا بھی محصول معاف کردیا تھا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بادشاہ کی خوشنودی حاصل کر کے لگا ن یا محصول میں رعایت بھی حاصل کی جا تی تھی۔

محصولات کا تعین اور ان کی وصولی

محصولات کی وصولی کے عمل پر مقرر کیے گئے افراد غریب لوگوں کے ساتھ نہایت درشت اور جابرانہ رویہ رکھا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ کے حوالے سے یہ بھی شواہد ملتے ہیں کہ اس نے دوسرے بادشاہ کی طرف سےمحصولات کی عدم ادائیگی کوبنیاد بنا کر اس کی سلطنت پر حملہ کردیا تھا۔ ویوگ سویا(Vivagasuya) ایک ضلعی افسر وتھاکودا (Vatthakuda) جس کانام اِکّائی (Ikkai)تھا ، اس کا تذکرہ بھی ملتا ہےجس نے محصولات (کارا) وصول کرنے، کسٹم ڈیوٹی، سود، رشوت، ہتک کرنا، جبری حصہ وصولی(دیجا)، سزا کے طور پر لگائے گئے محصولات(بھیجا) اور بھتہ خوری (چاہے تلوار کے زور پر ہی کیوں نہ ہویا چوروں کو محفوظ ٹھکانوں کی فراہمی کی صورت میں ہو اور یا پھرآگ لگا کر یا راستے میں گھات لگا کر مسافروں کو لوٹنے کی صورت میں ہو) کے لیے اپنے خود ساختہ قوانین کے ذریعے پانچ سو (500) دیہات کے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔برہت کلپ بھاشیہ(Brhalkalpa Bhasya)میں سوپرایا(Soparaya)نامی بادشاہ کے حوالے سے ذکر ملتا ہے جس نے بیوپاریوں کو محصولات (نیگاما) جمع کرانے کا حکم دیا ۔ انہوں نے انکار کردیا، نتیجتاً بادشاہ نے محصول کی وصولی پر مامور افسران کو حکم دیا کہ ان سب کے گھروں کو جلا دیا جائے۔10

سرکاری آمدنی کےدیگر ذرائع

ریاست کے پاس آمدنی اور معاشی ترقی کے حصول کے دیگر کثیر ذرائع بھی موجود تھے۔ اٹھارہ (18) اقسام کے محصولات کا ذکر "جین" کے قوانین میں درج ہے۔ان محصولات میں گائے سے حاصل ہونے والا محصول گائے(گاؤ)، بھینس(مہیسا)، اونٹ(اوتی)، مویشی(پشو)، بکریاں(چھگلی)، گھاس(تنا)، پلالا گھاس(ہندی میں پُوال)، چھال(بھوسا)، لکڑی(کٹھا)، کوئلہ(انگارہ)، کھیتوں میں چلا یا جانے وا لا ہل(سیا)، چوکھٹ(امبر، کم ، دہلی)، چراگاہ(جنگھا یا جنگا)، بچھڑا(بلیوادا)، مٹی کے برتن(گھیا)، آڑ اور کھالیں(کومّا)، غذا(کلگا)، اور دیگر دوسرے رضامندی سے لاگو کیے گئے محصولات (اوپاتی، کم سویچائے،دکالپیتا وغیرہ) شامل تھے۔ محصولات وصول کرنے والے افراد سنکپال(Sunkapala) کہلاتے تھے۔ اس کے برعکس، ریاست کے لیے آمدنی کے دیگر ذرائع بھی موجود تھے۔ غیر ملکیت زمین یا جائیداد اور پوشیدہ خزانے بھی بادشاہ کی آمدنی کے دیگر ذرائع میں شامل تھے۔ چندر کانتا(Candrakanta)کےبادشاہ وجئے سین(Vijayasena)کے حوالےسے کتب میں درج ہے کہ جب اسے کچھ پیوپاریوں کے مرجانے کی اطلاع پہنچی، تو اس نے اپنے نگرانوں کو بھیجا اور ان کی جائیدادوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ نیسیتھا کرنی (Nisitha Curni)میں کچھ بادشاہوں کے متعلق ایسی بھی معلومات ملی ہیں کہ انہوں نے متعدد پیوپاریوں کو سزائیں دیں اور جو بھی ان کے چھپے ہوئے خزانے اسے ملے ان کو اس نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اسی بادشاہ کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک برہمن(Brahmana)کی اس لیے بڑی پزیرائی کی کیونکہ اس نے ایک چھپا ہوا خزانہ دریافت کرلیا تھا۔جرمانہ اور فدیہ بھی آمدنی کے ذرائع میں شامل تھے۔برہت کلپ بھاشیہ(Brhatkalpa Bhasya)کی تفسیر میں اس حوالے سے بھی درج ہے کہ جس شخص نے دوسرے انسان کو قتل کرنے کے لیے تلوار یا کوئی دوسرا ہتھیار اٹھایا تو اس پر اسّی ہزار (80000) رپاکاس(Rupakas) کا جرمانہ لگایا جاتا تھا۔پھر بھی وہ انسان جس پر حملہ کیا گیا ہو حملہ آور کی ضرب سے نہ مرے، تو اس صورت میں جرمانے کی مقدار مختلف ریاستوں میں الگ الگ مقرر تھی۔مثال کے طور پر اگر کوئی آنندپور(Anandapura)میں ایسا جرم انجام دے دیتا، تو اس جرم کی سزا کے طور پر اسے تقریباًپانچ (5) روپے(بناس) کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ اگر جھگڑا بڑا ہوجاتا تو ایسی صورت میں اس پر ساڑھے بارہ (12.5) (پناس) کا جرمانہ لگایا جاتا تھا۔11

نظام زراعت

زراعت کی تاریخ ، انسانی تہذیب و تمدّن کی روایت ،اور خاص طور پر ہندی تہذیب کی تشکیل کا ایک اہم باب ہے۔ ہندوستان کوزراعت کے حوالے سےان اولین مقامات میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے جہاں پہلی مرتبہ چاول اور اس سے متعلقہ دوسری فصلوں کی پیداوار ، ان کی افزائش اور کانٹ چھانٹ کی گئی تھی۔12 آریاوٴں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں آباد اقوام کے لوگ (دراوڑ)بڑے بڑے شہروں کی بجائے چھوٹےچھوٹے دیہات میں رہتے تھے۔ ان کا عمومی پیشہ زراعت تھا لیکن آریا جب ہندوستان میں آئے تو ان کا پیشہ شکار اور گلہ بانی تھا اور وہ خانہ بدوشی کی زندگی بسرکرتے تھے۔13ان کی دولت کا خاص وسیلہ مویشی تھے اور گائے تبادلے کے وسیلے کی حیثیت سے استعمال کی جاتی تھی کیونکہ ابھی تک سکہ رائج نہیں ہوا تھا۔ لیکن آریا لوگوں نے جلد ہی بالاتر دراوٴڑی تہذیب کو اپنا لیا اور ایک جگہ آباد ہوکر کھیتی باڑی اور زمینداری کا کام کرنے لگے تھے۔ 14وہ گھوڑے اور بیل کے ذریعے زمین کو جوتنا اور کنوؤں اور نہروں سے ان کو سیراب کرنا جانتے تھے۔ ان کی زرعی پیداوار میں جَو اور دال کو اہمیت حاصل تھی۔ 15

چھٹی اور پانچویں صدی قبل مسیح میں لوگ کہیں زیادہ بڑی بستیوں میں رہنے لگےاور سنجیدگی سے کاشت کاری کرنے لگے تھے۔ بھاری ہل سمیت لوہے کی تکنیکی صلاحیت کے تعارف نے مزید کھیت حاصل کرنے، انہیں سیراب کرنے اور گھنے جنگل صاف کرنے کے قابل بنا دیا تھا۔ اب دیہات کے اردگرد فصلوں تک پانی پہنچانے والے نالوں کے نظام والے باقاعدہ قطعہ ہائے اراضی موجود تھے۔ 16 نئی فصلیں پیدا کی گئیں مثلاً پھل، چاول، اناج، تل، باجرہ، گندم، دالیں اور جَو وغیرہ جن کی بدولت کسان امیر تر ہونےلگے ۔17 زراعت و تجارت ویشوں کا پیشہ تھا لیکن زمین کا اصل مالک بادشاہ ہی کو سمجھا جاتا تھا۔اگر کوئی کاشت کا ر اپنی زمین بغیر کاشت کے بنجر حالت میں چھوڑ دیتا تو نہ صرف وہ گھاٹے میں رہتا بلکہ حکومت کا مجرم بھی تصوّر کیا جاتا تھا۔اگر فصل کاشت کار کے قصورسے تلف ہوجاتی تو بادشاہ کے حصہ کا دس گنا جرمانہ لیا جاتا تھالیکن اگر کاشت کار کے بلا اطلاع اس کے نوکروں کی وجہ سے نقصان ہوا ہو تو جرمانہ اس کا نصف ہوتا تھا۔18

اہم پیداوار

گو کاشت کاری اور گلہ بانی اہلِ ہند کا خاص پیشہ تھا پھر بھی وہ چھوٹی صنعتوں اور دست کاریوں مثلاً نجاری، پارچہ ، آہنگری، کمہاری، دباغی اور زرگری سے ناواقف نہیں تھے۔ ان کے سنار خوبصورت زیورات بناتے تھے جن کو عورت ومرد دونوں ہی پسند کرتے تھے ۔ اسی طرح لوہار رتھ گاڑیوں اور کشتیوں کے علاوہ ، مختلف قسم کے ظروف اور اوزار تیار کرتے تھے جو ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے۔ 19

ڈاکٹر گستاؤلی بان کے مطابق قدیم ہند کی پیداوار میں سب سے پہلا درجہ غلّے کا تھا۔ گیہوں ، چاول ، مکئ اور جوار یہاں کثرت سے پیدا ہوتے تھے اور یہاں کے باشندوں کی غذا کا دارومدار بھی انہیں پر تھا۔ چونکہ اہل ِ ہند میں عموماً گوشت کا استعمال ممنوع تھا اورآب و ہوا کی گرمی اور جانوروں کی قلت اور مذہبی ممنوعات نے ہنود کو نباتاتی غذا پر مجبور کیا تھااس لیے خطے میں زراعت ہمیشہ سے نہایت مستعدی اور عقل مندی سے کی جاتی تھی۔ گنگا کی گھاٹی نہ صرف ہندوستان میں بلکہ تمام عالم میں ایک بہت ہی زرخیز خطہ رہی تھی جس کے کناروں پر جہاں تک نگاہ جاتی ہرے بھرے کھیت نظر آتےتھے ۔ اکثر اس زمین میں تین فصلیں بوئی جاتی تھیں ۔ گنگا کے کنارے زیادہ تر دھان کی کاشت ہوتی تھی اور یہ ان شاداب کھیتوں میں جو سیلاب کے زمانے میں زیر آب ہوجاتے تھے بویا جاتا تھا لیکن گیہوں ، کپاس ، تمباکو، سن اور افیون بھی اس بے نظیر گھاٹی میں جس کی زرخیز ی شہرہ آفاق تھی بآسانی پیدا ہوتے تھے ۔ ہند میں جہاں بھی زمین میں پانی پہنچایا گیا تھا کھیتی کی قریب قریب یہی حالت تھی اور جن خطو ں میں کثرت سے ندیاں گزر رہی تھیں یا جہاں مون سون (Monsoon) کی بارش متواتر ہوتی رہتی تھی اسی قسم کی پیداوار ہوتی تھی جیسے بنگال کےنشیبی حصوں میں جہاں رطوبت بہت کثرت سے ہوتی تھی ہر قسم کا دھان پیدا ہوتا تھا۔بر خلاف اس کے گیہوں ایسے مقامات پر ہوتا تھاجو کسی قدر بلند اور خشک تھے۔20

تجارت

خیال کیا جاتا ہے کہ آریا تجارت پیشہ نہ تھے اس لیے ان کے تعلقات دور درازملکوں سے قائم نہ ہوسکے اور نہ ان کے عہد میں برّی یا بحری کسی قسم کی تجارت کو خاطر خواہ ترقی حاصل ہوسکی تھی۔ ویدی ادب کے اندر ایک غیر آریائی جماعت پانی (Pani) کا نام ملتا ہے جو تجارت پیشہ تھی اور جس کی کنجوسی ضرب المثل تھی۔21 یہ شائد مقامی تاجر تھے جن کا کاروبار ملک کے اندر محدود تھا۔ ویدی عہدکے بعد ہندو دور میں سب سے پہلے اس ملک کے تعلقات ایران کے ساتھ قائم ہوئے پھر بھی چونکہ آریاوٴں سے پہلے دراوڑوں کے تجارتی تعلقات دوردراز ملکوں سے قائم تھے اس لیے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ آریائی عہد میں بھی یہ سلسلہ یکلخت موقوف نہیں ہوا تھا اور چھوٹے یا بڑے پیمانے پر بیرونی ممالک سے تجارت ہوتی رہتی تھی۔22

زمانۂ قدیم میں اہل ہند دیگر ممالک سے اپنی پیداوار کا تبادلہ کرتے تھے اس لیے ہندوستان نے اُس زمانے کی دیگر اقوام سے اپنے تجارتی تعلقات قائم کئے ہوئے تھے ۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تجارتی تعلقات بہت ہی مستحکم بنیادوں پر قائم تھے جن کی بنیادی وجہ تجارتی قافلوں کا مسلسل نظام تھا حتیٰ کہ ان قافلوں کے لیے باقاعدہ مخصوص سفری راستے منتخب تھے۔ مؤرخِ ہند ڈاکٹر گستاؤلی بان کے مطابق اس تجارت کے تین راستے تھے :ایک خشکی کا راستہ اور دو دریائی راستے۔ خشکی کا راستہ کشمیر اور ایران کی طرف سے ہوکر آتاتھا اور اُس وقت کی مشہور تجارت گاہیں سمر قند ، دمشق اور بغداد تھے لیکن جہازی راستہ زیادہ مقبول تھا ۔تاجر خلیج ِفارس تک آکر پیداوارلے لیتے اور عربستان کے کنارے کنارے بحر ِاحمر سے ہوکران راستوں پر سفر کرنے والے کاروانوں کے ذریعے سے اسکندریہ تک پہنچاتے تھے۔ یہاں سے ان پیداواروں اور سامانِ تجارت کو قدیم زمانے میں توفینقی(Phoenician) اوراس کے بعد جینوا (Geneva)،پیسا (Pisa)اور وینس (Venice)کے یوروپی تجّار بحرِ متوسط کی بندرگاہوں پر فروخت کرتے تھے، گویا مصر مشرق اور مغرب کی تجارت کا ذریعہ تھا اور اس وجہ سے اس کی ثروت بہت بڑھ گئی تھی۔23

برآمدات

ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مختلف قسم کی تجارتی اشیا ءعرب جایا کرتی تھیں اور پھر وہاں کے مختلف بازاروں اور دوسرے ملکوں میں جاکر فروخت ہوتی تھیں ۔ عرب جغرافیہ نویس ابن خرد اذبہ کی کتاب ’’المسالک و الممالک‘‘ کے مطابق ہندوستان سے ہر قسم کا عود ، صندل ، کافور، ماخور، جوزبوا، قرنفل، قاقلہ، کبابہ، نارجیل ، نباتاتی کپڑے ، روئی کے مخملی کپڑے اور ہاتھی دیارِ عرب میں فروخت کے لیے لائےجاتے تھے۔ 24 مذکورہ اشیا ءکے علاوہ بھی بہت سی تجارتی چیزیں یہاں سے جاتی تھیں جن میں ہندی تلواریں ، سندھ سے سندھی کپڑے ، سندھی مرغیاں، پالہ اونٹ جس کی نسل سے عرب کا مشہور بختی اونٹ ہوتا ہے،مندل سے عود ہندی، بروص( بھڑوچ) سے بھڑوچی نیزے اور ان کے بانس ، کھنبائت اور سندان سے نعال کنبایتہ یعنی کھمبائیت کے جوتے اور نارجیل ، تھانہ سے عمدہ کپڑے اور اسی طرح مختلف مقامات کی مختلف چیزیں عرب میں جایا کرتی تھیں ۔25

دارین کی بندرگاہ کی تجارتی اہمیت

بحرین کے علاقے میں دارین نام کی ایک مشہور بندرگاہ تھی، یہاں کے لوگ ہند کی مشک خرید کر ذخیرہ کرلیتے اور بعد ازاں سارے عرب میں بیچتے تھے۔ یہ مشک سارے عرب میں مشہور تھی ۔یہ پورا خطہ جس میں علاقۂ خط اور علاقۂ دارین شامل تھے ہندوستان کے تجارتی مال کے لیے مشہور تھااور یہاں سے ہندوستان سے آئے ہوئے بیدار ، بانس اور مشک اندرون ِ عرب جاتے تھے، اور ان کی بھاری مقدار یہاں ہر وقت موجود رہتی تھیں ۔26

بر آمدات کی مشہور منڈیاں

یوں تو پورے عرب میں ہندوستان کے مال کی کھپت ہوتی تھی اور دورِ جاہلیت کے ہر بازار میں یہاں کی چیزیں فروخت ہوتی تھیں ، مگر ان کی چند خاص منڈیاں بھی تھیں ، جہاں یہ چیزیں بھاری مقدار میں فروخت ہوا کرتی تھیں ۔ گویا یہ ہندوستانی اشیاء کے گودام تھے، جیسے:
۱۔ابلہ
۲ ۔صحار
۳۔جار
۴۔ عدن وغیرہ

یہاں پر نہ صرف عرب کے ساحلی شہروں سے بلکہ ہندوستان و چین تک سے تجارتی جہاز اور کشتیاں لنگراندازہوتی تھی ۔ ابلہ قدیم زمانے سے ارض الہند اور فرج الہند والسند کے لقب سے مشہور تھا۔ حضر موت کے مشرق میں ظفار قدیم زمانہ سے گرم مسالوں ، خوشبوؤں اور عبادت گاہوں کی بخور کی منڈی تھی۔27 عمان کا سوق صحار اور سوق و باد وبی بھی ہندوستانی اشیاءکی تجارت کا مرکز تھا۔28جنوبی عرب میں ہندستانیوں کی بحری تجارت کا اہم مرکز یمن تھا جس میں صنعا ،قصر، غمدان ، مآرب ، نجران اور عدن جیسے بڑے بڑے شہر شامل تھے۔ یہاں پر عنبر، عود اورمشک ملتا تھا اور سندھ ، ہندوستان ، چین ، زنج ، حبشہ ، فارس، بصرہ ، جدہ اور بحر قلزم کے سامان اور مال ِ تجارت رکھےرہتے تھے۔29 سرزمینِ عرب سے ہوتا ہوا ہندوستانی سامانِ تجارت شام اور مصر تک جاتا تھا جہاں سے سمندر اور خشکی کے راستے سے یورپ ، اسپین اور افریقہ تک ہندوستانی اشیا ءکی تجارت ہوتی تھی۔30 ابلہ ، صحار اور عدن کی طرح عرب کے مغربی علاقے میں بحرِ احمر کی مشہور قدیم بندرگاہ جار بھی ہندوستانی سامان ِتجارت کی بہت بڑی تجارتی منڈی تھی۔ یہاں پر مصر اور حبشہ کی طرح بحرین اور مشرقِ بعید چین تک سے تجارتی جہاز آتے تھے۔ 31

جار جو کہ مدینہ منورہ (یثرب)کی قریبی بندرگاہ تھی، ہندوستانی تجارت کا مرکز تھی۔ مدینہ اور اطراف کی بستیوں میں کثرت سے ہندوستانی اشیا ء فروخت ہوتی تھیں۔ خاص شہر مدینہ کے علاوہ اطراف و جوانب میں مالدار یہودیوں کی آبادیاں تھیں اور بازار لگتے تھے، اس لیے جار کی بندرگاہ کے ساتھ ساتھ مدینہ اور اس کے اطراف ہندوستانی تجارت بہت کامیاب تھی۔مدینہ کی یہ بندرگاہ قدیم مسافت کے حساب سے مدینہ سے ایک رات اورایک دن کی دوری پر واقع تھی۔ غالب گمان ہے کہ مدینہ میں ہندوستان کی جو اشیا ءفروخت ہوتی تھیں وہ بحرین سے براستہ سمندر پار آتی تھیں۔ ریگستان کے دور دراز راستے کے مقابلے میں یہ راستہ آسان تھا، کیونکہ اس بندرگاہ پر چین تک کے تجارتی جہاز آتے تھے اس لیے عرب اور چین کے درمیان کے ممالک ہندوستان کی تجارتی اشیا ءبراہ راست یہاں سے حاصل کر لیا کرتے تھے۔

بانس اور بید 32کی صنعت

ہندوستان کے بانس ، بید، نیزے اور دیگرآلات استعمال کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے جس کی وجہ سے اچھے داموں فروخت ہوتے تھے۔ ہندوستانی بانس سے بننے والے نیزے جنہیں "خط" کہا جاتا تھا اپنی ایک انفرادی شہرت رکھتے تھے۔محمد بن مکرم افریقی کے مطابق خط ان نیزوں کو کہتے تھے جو ارض ِخط کی طرف منسوب تھےحالانکہ اصل میں وہ ہندوستان کے بید اور بانس سے بنتے تھے۔خط بحرین اور عمان کے پورے ساحل کو کہتے تھے، جس میں قطیف ، عقیر اور قطر جیسے بڑے بڑے علاقے شامل تھے۔ان علاقوں میں ہندوستان کے بید اور بانس سے بھری ہوئی کشتیاں جاتی تھیں جہاں ان سے نیزے بنائے جاتے تھے۔33 اسی طرح سمہری نیزے جو عرب میں بہت مشہور تھےوہ بھی اسی علاقۂ خط میں تیار ہوتے تھے اور سمہر نامی ایک شخص ان کو ہندوستان کی لکڑیوں سے تیار کرکے فروخت کرتا تھا۔34

نرخ اجناس مقرر کرنا

چونکہ آریائی عہد میں تجارت کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی اس لیے سکّے بھی رواج نہ پاسکے۔ لین دین کے سلسلے میں جنس کے بدلے جنس ہی کے اصول پر عمل ہوتا تھا۔ ایک جگہ رگ وید میں نشکا(Nishka) یعنی "طلائی ہار" کا تذکرہ ایک شاعر کو انعام دینے کے سلسلے میں آیا ہے اس سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں سونا بھی بطور سکہ استعمال ہوتاتھا۔ 35

خرید و فروخت کی شرطیں ، اجناس کے نرخ، اوزان اور پیمانے اور بر آمد کے قواعد وغیرہ ، سب بادشاہ مقرر کرتا تھا۔ ان اشیاء کی قیمتوں کے تعین میں ان کی درآمد ، برآمد ، گودام میں ذخیرہ کرنے میں صرف ہونے والے اخراجات اور نفع کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ پانچ دنوں میں ایک مرتبہ یا ہردوہفتوں کے اختتام پر تاجروں کے لیے اشیاءکی قیمتوں کا تعین کیا جاتا تھا۔تمام اوزان اور پیمانوں کی لازماً نشاندہی کی جاتی تھی اور ہر چھ مہینوں میں ایک مرتبہ ان کی دوبارہ جانچ کی جاتی تھی۔36

خرید و فروخت میں فریب اور آمیزش کی سزا

اُس دور کےمروجہ اوزان اور پیمانے سونے ،تانبے یا چاندی کے بنے ہوئے تھے۔ جو لوگ چنگی کے محصول دینے یا اجناس میں فریب کرتے تھے انہیں سخت سزا دی جاتی تھی۔ جو کوئی محصول خانے سے بچ کر نکل جائے یا بے وقت خرید و فروخت کرے یا اجناس کی گنتی میں فریب دے اس سے بطور جرمانہ محصول کا دس گنا وصول کیا جاتا تھا۔ ملی ہوئی جنس ہر گز بطور خالص کے نہ فروخت کی جاسکتی تھی اور نہ ہی پرانا مال اچھے مال کی جگہ اور نہ ہی وزن یا مقدار میں کم چیز کی فروخت کی اجازت تھی۔ اس طرح کوئی بھی چیز جس کا وجود نہیں ہوتا اس کی فروخت کی اجازت نہیں تھی۔37

دیگر صنعتیں

اس کے علاوہ مزید صنعتوں اور پیشوں کے شواہد بھی ملے ہیں جن میں نائی(ناپتی، ویپتر)، دھوبی(ملاگا، وساہ پلپولی) ، لکڑیاں جمع کرنے والا(درواہارا)، مچھیرا(داسا، دھیراوا، دھائیوارا، ویندا، مینالا، کئی ورتا، کیورتا)، شکاری (گوویکرتانا)، طبلچی(دندوبھیاگھتا)، باورچی( پکتر، پاساکا، سراپییتر)، گاڑی بان(سراتھی، راتھن، راتھاگرتسا، دھرسد، ینتر)، فیل بان(ہستیپا)، ملازمت کرنے والا(انوکستر، کساتر)، چوکیدار(دواراپا، گرہاپا)، حفاظت پر معمور ملازم(پایو، پوراسا)، غلام(پرتیےناس)، ذاتی نوکریا ایلچی(پلاگا)، بیرا(پریویستر)، کھانا پہنچانے والا(پریکارا)، ملّاح(انیتھن)، کشتی ران(نواجا)، اصطبل دار(اسواپا)، حمّامی(اوپاسکتر) اور بالوں کی صفائی کرنے والا(اوپامنتھیتر) شامل تھے۔

ان کے علاوہ مزید دیگر شعبہ جات بھی تھے جن میں عوام کے لیے تفریحی اور مالدار لوگوں کے لیے پرتعیش سہولیات کا انتظام کرنا شامل تھا۔پوروسامیدھا(Purusamedha)کی فہرست میں اداکار (سیلوسا)، درزی(پیساس کری)، محبت کی ترغیب دینے والے(سماراکری) اور رُباب بجانے والے(ویناوادا) شامل تھے۔ اسی طرح جست باز(ومسنارتکا)، تالیاں بجانے والا(پانغنا) اور جوے کے اڈوں کا رکھوالا(سبھاون) بھی قدیم پیشوں میں شمار ہوتے تھے۔ رگ وید اور دوسرے سمہیتاز میں طوائفوں کے حوالے سے بھی ذکر ملتا ہے۔38

ریاست کی ترقی کے ساتھ ایک طبقہ ایسا بھی سامنے آیا جنہوں نے اپنی گزر اوقات کے لیے بادشاہ کے ماتحت کام سر انجام دینے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ان عہد یداروں میں ممتاز حیثیت کے حامل افراد میں اوگرا(پولیس افسران)، جیوا گربھ(پولیس افسر) شامل تھے۔ قدیم ہندوستانی ادب میں متعدد الفاظ کے ذکر سے بیوپاریوں اور بینکرز کے حوالے سے شواہد بھی ملے ہیں۔ایسے ہی ایک لفظ "ونجی"کا ذکر رگ وید میں بھی موجود ہے۔لفظ "سریستھر"، جس کا معنی ایک مالدار آدمی یا بینکر کے ہیں، اور "کوسیدن"(وہ شخص جو بہت زیادہ غیر قانونی شرح سود پر پیسہ دیتاہے)کا ذکر ایترییا اور دوسرے برہمنی ادب میں بھی ملتا ہے۔

مزدور طبقہ

ویدی دور کے معاشی معاملات کا جائزہ لینے سے اس امر کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ مزدور طبقہ معاشی طور پر بہت کمزور تھا۔ان میں زیادہ تر زراعت کے پیشے سے وابستہ مزدور طبقہ تھا جو اپنے بچوں اور عزیز رشتہ داروں کے ساتھ رہتےتھےاور وہ وہاں آزاد رہائشی افراد کے زیرِ دست کام کرتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے متعدد طبقات سامنے آئےجن میں اپنی زمین نہ رکھنے والے اور مغلوب حریف شامل ہواکرتے تھے۔ غلاموں کا ذکر سمہیتاس (Samhitas)میں بھی موجود ہے اور ان کا ذکر تسلسل کے ساتھ "داسا" کے نام سے ملتا ہے۔رگ وید میں غلاموں کے حصول کے لیے عبادات کا ذکر بھی موجود ہے اور غلاموں کو بطور تحفہ دئے جانے کے حوالے بھی موجود ہیں ۔

عورتیں بطور مزدور

چھڑائی، چھان، اناج کی ریختگی کا عمل اور اسی طرح کے دیگر افعال کی انجام دہی زیادہ تر عورتوں کےہی سپرد ہوا کرتی تھی۔ عورتیں مختلف صنعتوں میں کام کیا کرتی تھیں اور ان کے یومیہ اجرت پر مامور ہونے کے بھی شواہد کتابوں میں درج ہیں۔ اسی طرح ویدی ادب میں اوپلاپراکسینی(Upalapraksini)ایسی عورت جو مکئی پیسنے کا کام کرتی ہو، وائی تری (Vayitri)، پیساسکری(Pesaskari)کپڑے بننے والی عورت، رجایتری(Rajayitri) اور واساہپلپولی (Vasahpalpüli)کپڑوں کو رنگنے اور دھونے والی عورت کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مالدار گھرانوں میں داسیاں (Dasis) غلام لڑکیاں اور نوکرانیاں رکھنے کا بھی عام رواج تھا۔39

ہندوؤں میں سب سے برتر درجہ پروہتوں کا تھا جن کے روزگارکا دارومدار لوگوں کی قربانیوں پر منحصر تھا۔ مقدس کتاب کی تعلیم دینا یا دوسری صورت میں لوگوں کی روحانی ضروریات پوری کرنا، ان لوگوں کی ذمہ داری تھی ۔ ان میں مختلف درجوں کے پروہت ہوا کرتے تھے جن کا ذکر درج ذیل ہے:

  • رتوج پروہت (Rtvij-priest) لوگوں کو دیوتا کے لیے قربانی یا چڑھاوے دینے کا اہتمام کرتا تھا۔
  • چندوگا (Chandoga)ہندوؤں کی مقدس کتاب کا ورد کرتا تھا۔
  • سومن، اودگلتھا، گایاترن پروہت تھا یا مقدس کتاب کا ورد کرنے والا تھا۔
  • گاناکا(Ganaka) ستاروں کا علم رکھنے والا پروہت۔
  • بھیسک (Bhisak)، طب کا علم رکھنے والا پروہت۔

رگ ویدی دور میں ادویات بنانے کا کام بھی کاروباری صورت اختیار کر گیا تھا۔ لفظ بھیسک (Bhisak)رگ وید میں کثیر مقامات میں مذکور ہے۔ لوگوں کوبیماری یا کسی تکلیف کے بعد دوبارہ صحت مند بنانے اور طاقت بحال کرنے کے فن کو بھی بہت پذیرائی ملی تھی۔ ایسوِن(Asvins) ( طب کا روحانی دیوتا) سے اس فن کے لیے مدد لی جاتی تھی۔اس کے علاوہ ورون(Varuna) اور رودر(Rudra) کو بھی طب کے دیوتاکے طور پر مانا جاتاتھا۔بہترین طبی ماہر، اندھے اور لنگڑے کو ٹھیک کرنے والے کو مانا جاتا تھا۔ کیاوانا (Cyavana) کی نوجوان نسل کو دوبارہ صحت مند زندگی کی جانب لوٹانے کی کہانی متعدد مقامات میں موجود ہے۔ اس فن سے متعلق کسی قسم کا کوئی غلط تصوّر موجود نہیں تھا تاہم اس حقیقت کے برعکس یجروید میں اس فن سے ناپسندیدگی کا تصوّر بھی ملتا ہے۔40

معدنیات کی صنعت

ہندوستان معدنیات کے حوالےسےخود کفیل ملک تھا۔ قدیم ہندوستان میں کان کنی ایک اہم صنعت تھی۔ دھاتوں میں سب سے اعلیٰ اور بنیادی اقسام کان کنی کے ذریعے حاصل کی جاتی تھیں جن میں لوہا، تانبا، ٹین، سیسہ، چاندی(ہیرانا یا روپا)، سونا(سووننا) اور ہیرے شامل تھے۔ کالییدیوا(Käliyadiva)میں سونے، جواہر اور ہیروں کی کثیر کانیں موجود تھیں۔ لوہا اور دیگر دھاتیں عمل ایتلاف(Fusion) سے بھی حاصل کی جاتی تھیں۔دھاتوں کے علاوہ دیگر کثیر اقسام کی معدنیات جن میں نمک(لونا)، سوڈا(اوسا)، زرد ہڑتال(ہرییالا)، گہرا سرخ رنگ(ہنگولایا)، سنکھیا سلیٹی رنگ کی دھات(منوسیلا)، مرکری، پارہ(ساساگا)، سرمہ، کحل(ارجانا) اور دیگر اقسام کی اشیاء بھی شامل تھیں۔

قدیم ادوار میں ہندوستانی لوگ خصوصاً اس وقت کی عورتیں آج کی طرح زیورات اور جواہرات کی بہت شوقین تھیں۔ اسی وجہ سے سناروں (سوونناکارا) کا کام اور اس کی تجارت نے بہت ترقی کی۔ کومارنندی (Kumaranandi)سے متعلق ذکر ہے کہ وہ کمپا(Campa)کا بہت امیر سنار تھا اور اس کے علاوہ تیالیپورا کے ایک اور مالدار سنار(کالایا) موسیادرایا(Musiyadäraya) کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کتب تاریخ میں ہندوستان میں موجود چودہ اقسام کے زر و جواہرات کا ذکر بھی ملتا ہے جن میں اٹھارہ موتیوں کا ہار(ہارا) ، نو موتیوں کا ہار(ادھاہارا)، ایک موتی والا ہار(ایگاولی)، موتیوں کا ہار(موتاوالی)، اوپری بازو کا بازو بند(کیورا)، کنگن(کادایا)، بازو بند(تودیا)، انگوٹھی(مودّا)، کان کی بالیاں(کنڈیلا)، سینے کے گرد باندھنے والا ہار(اوراسوتا)، سینے پر لگانے کے نگینے(کولامن)، ماتھے اور بھنوؤں کے درمیان پہننے والا زیور( تیلایا) شامل تھے۔ زیورات میں ہارا، ادھاہارا، تیساریا(تین رسیوں کی موتیوں والاہار)، پلمبا(موتیوں والا جھمکا)، کدیسوتا(کمر بند)، گیویجا(گلے کا ہار)، انگیولیجایا( چوڑیاں)، کایابھرانا( ہاتھوں کے زیورات)، کادایا، تودییا، مودیا، کنڈالا، مودا( شاہی تاج)، والاگا(کنگن)، انگایا(بازوؤں کے اوپری جانب پہننے والے کنگن)، پایاپالمبا(پیروں تک لمبے زیورات)، واتھاسوتاگا(کمر کے گرد پہننے والے زیورات) نامی زیور مرد پہنا کرتے تھے۔ عورتوں کے خاص زیورات میں نیورا(پائل،پازیب)، میہالا(کمر بند)، ہارا، کداگا، کھودایا(انگوٹھی)، والایا، کنڈالا، رایانا(نگینے)، اور دینارملا(گلے کا ہار جو دینارا کی رسی میں نگینوں کو ترتیب دے کر بنایا جاتا تھا) شامل تھے۔ ایک چار انگلیوں کی پیمائش کا سربند (پٹا) مہر والی انگوٹھی(ناماپودا) بھی عام طور پر مشہور زیورات تھے۔

ہاتھیوں اور گھوڑوں کو بھی زیورات سے سجایا جاتا تھا۔ ہاتھیوں کو ہتھیاروں سے لیس کرکے اور گلے کے زیورات اورمختلف اقسام کے قیمتی پتھروں سے مرصّع کرکے، نگینوں اور اوپری حصہ پر پہننے والے کپڑوں سے سجایا جاتا تھا۔ گھوڑوں کو بھی بہت خوبصورت ہتھیاروں اورکمر کے گرد چھوٹے چھوٹے آئینوں (تھساگا) سے سجایا جاتا تھا۔ مایورنگاکیولیکاس(Mayurangaculikas)نامی جواہرات گائے کو پہنائے جاتے تھے۔

امرا ءاور بادشاہ سونے کے بنے ہوئے برتن کھانے اور پینے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ بادشاہوں کے استعمال میں جو کرسیاں، پلنگ، تخت، شاہی سواریاں تھیں ان میں سونا جڑا ہوا ہوتاتھا۔ سونے کے بنے ہوئے لمبے گول برتن(بھنگارا) بہت مشہور تھے۔چاندی کا استعمال بھی بہت عام تھا۔ چاندی کے برتنوں کا استعمال کثیر مقامات پر ملتا ہے۔

ذکر کردہ قیمتی دھاتوں اور جواہرات میں جن معدنیات کا استعمال ہوا کرتا تھا ان میں قیمتی پتھروں ، نگینوں، موتیوں،سیپیوں، مرجان ، یاقوت، سنگ زرقون(گومیدیا)، سنگ مردہ، زبرجد، ماسرراگالا، بھوجاگاموساکا(سی پین ٹائن)، اندرانیلا(ساپپھیو)، پولاکا، سنگندھیکا(یاقوت ربانی)سندیاپرابھا، ویدروا(بلی کی آنکھوں نما)، جالاکنتا یا کندراکنتا(چاندی پتھر)، اور سریاکنتا(سورج نما روشن پتھر)شامل تھے۔ 41

بینکاری کا نظام

قدیم ہندوستان میں عام طور پر کوئی بینک نہیں تھا اور سہولیات بہت کم تھیں۔ قرض دینے کو حقیقی ضرورت کے پیمانے سے جانچا جاتا تھا۔ تعلق اور نسبت کی بنیاد پر پیسہ یا قرض دیا جاتا تھا اور بہت سارے قرضوں کے معاملات ایسے تھے جن میں قرض کی ادائیگی کبھی نہیں کی گئی تھی۔42ہندوستان میں دیگر تمام زرعی ممالک کی طرح اسباب بھی زراعت کی ایک لازمی شرط تھے۔ ضرورت مند کاشت کاروں کو قرض دینے کا عمل بہت ابتدائی دور سے ہی شروع ہوچکاتھا۔ مہابھارت میں ، ناردا (Narada)نےیودھیشیترا(Yudhishthira)کے قرض کا ذکر کیا ہے جس کے بدلے وہ چوتھائی حصہ سود وصول کرتا تھا۔ 43

سود کی شرح

یوجناولکیا کی سمرتی (Smrti of Yäjnavalkya)کے مطابق ، سود کی معمول کی شرح سالانہ پندرہ (15) فیصد تھی ۔ کوتلیا کے ارتھاسسترا اور قانون کی دوسری کتابیں بھی یہی شرح بتاتی ہیں۔ نوشتہ جات کے محتاط مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وقتاً فوقتاً سود کی شرح تبدیل ہوتی رہتی تھی ۔ یہ سالانہ نو (9) سے پچیس (25) فیصد کے درمیان تھی۔ ناسِک کے پانڈو لینا (Pandu-lena) نامی غاروں میں لکھے گئے ایک نوشتہ کے مطابق ، شرح سود نو (9) سے بارہ (12) فیصد تک تھی۔ ان تحریروں سے اندازہ لگایا گیاہے کہ اس نوشتہ کے پڈیکا (Padika)کا مطلب ایک چوتھائی پانہ ہے۔ مذکورہ بالا بیان سے پتہ چلتا ہے کہ بالترتیب دوہزار (2000) اور ایک ہزار (1000) تانبے کے پانوں پر سو (100) اور پچھتر (75) پیڈیکا ، یا چار سو (400) اور تین سو (300) تانبے کے پانوں کے حساب سے سالانہ سود تھا یوں شرح سود بیس (20) سے تین (30) فیصد تک تھی۔ گودیملام کے پانچ بانہ تحریروں (The Five Bana Inscriptions from Gudimallam) کے مطابق سود کی اس وقت کی موجودہ شرح سالانہ پچیس (25) فیصد تھی۔ ان تمام شواہد کو دھیان میں رکھتے ہوئے ، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سود کی معمول کی شرح سالانہ پندرہ (19) فیصد تھی ، جیسا کہ قانون کی کتابوں میں بتایا گیا ہے ، اور یہ شرح ان جگہوں کے لیے جہاں سود کی شرح متعین نہیں تھی ، حساب کتاب کی خاطراندازا لی جاتی ہے۔ 44

منو سمریتی نے سود پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی تاہم شرح سود کو ایک خاص حد تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایک مقام پر بتایا گیا ہے کہ ایک شخص پانچ (5) فیصد سے زیادہ شرح سود مقررنہیں کرسکتا تھااور دوسرے مقام پر تحریر ہے کہ ایک شخص صرف وہی شرح سودوصول کرسکتا تھا جو اس وقت کی حکومت نے سود کی قانونی شرح مقرر کی تھی۔

سرمایہ دارانہ نظام کی نمو

قدیم ہندوستان کے نظام ِ معیشت میں سرمایہ دارانہ نظام کو مختلف حالات اور مختلف وجوہات سے سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ مالدار افراد کے دولت جمع کرنےکے رجحان کے ساتھ ساتھ جائیداد کے تصرف کی آزادی سے بھی ایک حد تک سرمایہ داریت کو فروغ ملا تھا۔ جائیداد کی منتقلی پر بہت کم پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔رگ وید کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح کچھ لوگ جوئے میں اپنی پوری جمع پونجی خرچ کر دیتے تھے۔ خاندانوں کے سربراہان اپنی جائیداد کے استعمال کےمعاملے میں خود مختار تھے۔ جب تک وہ زندہ رہتے اپنے بچوں پر کچھ حد تک قابو رکھتے تھے ۔بعض اوقات بچے اپنے والد کی زندگی میں بھی جائیدادتقسیم کرلیتے تھے۔ مختلف مقاصد کے لیے قرض لیا جاتا تھا جن میں جوا بھی شامل تھا جس کی وجہ سے اکثر لوگ غلامی کا شکار بھی ہو جاتے تھے۔ مقروض شخص ،قرض دہندہ کا پابند ہوتا تھا ۔بعض اوقات مقروض کو سرِ عام درختوں کے تنوں سے باندھ دیا جاتا تھا تاکہ وہ عوام کے سامنے بے نقاب ہوجا ئے۔ نیزاس طرح ان پر قرض کی ادائیگی کے لیے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔ رگ وید میں قرضوں کی ادائیگی کے حوالے موجود ہیں ۔اتھروید میں دیوتاؤں سے دعائیں سکھائی گئی ہیں جو قرض کی عدم ادائیگی سے پیدا ہونے والے گناہ سے معافی کے لیے مانگی جاتی تھیں۔ اتھروید کےکچھ حصے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان دنوں میں ، قرض کی عدم ادائیگی کو ایک گناہ کے طور پر سمجھا جاتا تھا جس کی وجہ سے دوسری دنیا میں برےنتائج برآمد ہوتے تھے۔سودی قرض کے نظام نے معاشرے پر انتہائی برے اثرات مرتب کیے تھے۔ معاشرہ تباہی ، بربادی اور غربت و افلاس کا شکا ر ہو گیا تھا اور دولت و اختیار مالداروں میں مرتکز ہو کر رہ گئی تھی۔ رگ وید کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جوئے کے قرض نے لوگوں کو غربت کی طرف مائل کیاتھا۔ اس کے نتیجے میں مقروض افراد ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی رہائش گاہیں فروخت ہوجاتیں اور ان کے خاندان بے گھر اور بے سہارا ہوگئے تھے اور ان میں سے اکثر کو غلام بنا لیا گیا تھا۔45آنکھوں پر بندھی لالچ کی پٹی اور راتوں رات امیر ہوجانے کی دھن نے افرادِمعاشرہ کو قعرِ مذلت میں دھکیل دیا تھا۔یوں رشتے ناتے اور اپنے پرائے کی تمیز ختم ہو گئی تھی اور عزت کا معیار صرف مادی پیمانہ اور مال و دولت رہ گیا تھا۔ کسی انسان سے میل جول اور قریبی تعلقات اس کا مال دیکھ کر استوار کیے جاتے تھے۔سرمایہ دارانہ سوچ اور نظام نے انسان کو سرمائے کا پجاری بنا دیا تھا جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ معاشرے کا نظم بکھرنے لگا اور محروم طبقے میں نظام سے بغاوت کے اثرات پیدا ہوگئے تھے۔

تاریخی شواہد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گوزمانۂ قدیم میں بھی اہل ہند مادّی وسائل سے بھرپور ایک ترقی یافتہ قوم تھی اور زمانے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا ہنر جانتی تھی نیزاُن کے ہاں زمانے کے اعتبار سے لین دین اورخرید وفروخت کا ایک بہترین نظام بھی رائج تھا لیکن اس تمام تر ترقّی اور دانشوری کے باوجود وہ ایک دیرپا اور مستحکم معاشی نظام بنانے میں ناکام رہے تھے جس سے معاشرے کے تمام طبقہ خوشحال و آسودہ حال زندگی بسر کرسکے۔ان کے پاس ہر طرح کی دولت کے انبار تھے اس کے باوجود ان کے معیشت دان اور حکمران رعایا پربے تحاشہ لگان عائد کرنے کا ظلم کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ عجیب بات تو یہ تھی کہ اس ظالمانہ نظام سے امراء یا وہ لوگ جو بادشاہ کو رشوت دیتے تھے اپنےآپ کو مستثنیٰ کرالیتے تھے ۔امراءاورعوام کے لیے الگ الگ معیار اور پیمانے تھے۔یہ نظام دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور ایک خاص طبقے میں ارتکازِ دولت کا سبب بنا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ سود پر قرض دینے اور لینے کی ریت نے مالداروں کو غریب طبقے کا خون چوسنے کا موقع فراہم کیا تھا جس کی بدولت موقع پرستی، لالچ اور غریب و امیر میں نفرت عام ہو گئی تھی۔ جب کوئی بھی نظام ایسی منافقت اور ظلم و ستم پر مبنی ہو تو جتنا بھی ترقی یافتہ اور امیر معاشرہ ہو، وقت گزرنے کے ساتھ تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور یہی قدیم ہندستان کے معاشی نظام کے ساتھ ہوا تھا۔قدیم ہندوستان کا دیمک زدہ معاشرہ تہذیب و تمدّن کی دیرپا اور شاندار عمارت کی بنیاد رکھنے اورایک عالمگیر سیاسی ، سماجی، معاشرتی ، معاشی اور مذہبی نظام دینے میں ناکام رہا۔اس خطۂ زمین پر بسنے والے شاہراہِ حیات کے تھکے ماندہ مسافر کسی مسیحا کی مسیحائی کے منتظر تھے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھتا اور ان کے درمانندہ قافلوں کے لیے منزل کی صحیح سمت کا تعین کرتا اسی وجہ سے نہ تو وہ خود کبھی اس نظام سے تسکین پا سکے اور نہ ہی ان کا نظام کبھی بھی اس قابل ہو سکا کہ دنیا اس کی تقلید و اطاعت کرسکے۔

 


  • 1 Vivek Pathak (September, 2016), Economic History of India, “Ancient to Present Day”, National Journal of Multidisciplinary Research and Development, Vol. 1, Issue-4, Pg. 27-28.
  • 2 Paul Masson Oursel (1934), Ancient India and Indian Civilization, Trench Trubner & Co. Ltd. London, U.K., Pg. 109.
  • 3 N. C. Bandyopadhyaya (1980), Economic Life & Progress in Ancient India, Kharbhanda Offset, Allahbad, India, Pg. 155-157 & 162-163.
  • 4 Dr. Pran Bath (1929), A Study in the Economic Condition of Ancient India, The Royal Asiatic Society, London, U.K., Pg. 85-86.
  • 5 Bimala Churn Law (1947), Ancient India, The Indian Research Institute, Calcutta, India, Pg. 24-25.
  • 6 Gauranga Nath Banerjee (1920), Hellenism in Ancient India, Great Russell Street, London, U.K., Pg. 123-124.
  • 7 Tribhuvandas L. Shah (1939), Ancient India, Manilal P. Ministry B.A., Ahmedabad, India, Vol. 2, Pg. 40-42.
  • 8 Dr. Pran Bath (1929), A Study in the Economic Condition of Ancient India, The Royal Asiatic Society, London, U.K., Pg. 85-86.
  • 9 N. C. Bandyopadhyaya (1980), Economic Life & Progress in Ancient India, Kharbhanda Offset, Allahabad, India, Pg. 155-157.
  • 10 Jagdish Chandra Jain (1947), Life in Ancient India, New Book Company, Bombay, India, Pg. 61-63.
  • 11 Ibid, Pg. 61-63.
  • 12 D.P. Chattopadhyaya (2008), History of Science, Philosophy Culture in Indian Civilization, Part-I, Concept Publishing Company, New Dehli, India, Vol. V, Pg. 784.
  • 13 ٹریورلنگ، ہسٹری آف ریلیجن ایسٹ اینڈ ویسٹ ، مطبوعہ: میک ملن پبلشرز لمیٹڈ، ہانک کانگ، ص:30-33
  • 14 پروفیسر اے مانفرید،مختصر تاریخ عالم،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ترقی،ماسکو، 1979ء،ص:52
  • 15 R. C. Majumdar (1948), An Advanced History of India, Macmilon and Company Ltd. London, U.K., Pg. 395.
  • 16 Gavin Flood (1996), An Introduction to Hinduism, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 80-81۔
  • 17 کیرن آرم سٹرانگ، مذاہب کی ابتدائی تاریخ(مترجم: یاسر جواد)،مطبوعہ: آر ۔ آرپرنٹرز، لاہور، پاکستان ،(سنِ اشاعت ندارد)،ص:288
  • 18 ڈاکٹر گستاؤلی بان ، تمدن ہند (مترجم:سید علی بلگرامی)،مطبوعہ : مشتاق بک کارنر ،لاہور،پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)،ص:218
  • 19 سیّد عین الحق ، قدیم مشرق، ج-2،مطبوعہ:مکتبہ فرید ،کراچی، پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)، ص:287-288
  • 20 ڈاکٹر گستاؤلی بان ، تمدن ہند (مترجم:سید علی بلگرامی)،مطبوعہ : مشتاق بک کارنر ،لاہور،پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)، ص:71-74
  • 21 R. C. Majumdar (1948), An Advanced History of India, Macmillon and Company Ltd., London, U.K., Pg. 35.
  • 22 R. C. Majumdar, The Vedic Age, George Allen and Un-Win Limited, London, U.K., Vol. 1, Pg. 396.
  • 23 ڈاکٹر گستاؤلی بان ، تمدن ہند (مترجم:سید علی بلگرامی)،مطبوعہ : مشتاق بک کارنر ،لاہور،پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)،ص:169
  • 24 أبو القاسم عبيد الله بن عبد الله المعروف بابن خرداذبۃ ، المسالك والممالك، مطبوعۃ:دار صادر أفست ليدن، بيروت، لبنان، 1889م، ص:70
  • 25 قاضی اطہر مبارکپوری، عرب و ہند عہد ِ رسالت ﷺ میں ، مطبوعہ:مکتبہ عارفین ، کراچی،پاکستان،1975ء،ص:27-39
  • 26 أبو الفضل محمد بن مكرم الإفريقى، لسان العرب، ج-7، مطبوعة:دار صادر، بيروت، لبنان،1414ھ، ص:290
  • 27 احمد امین ، فجر الاسلام، مطبوعۃ:دارالکتاب العربی،بیروت،لبنان، 1969م،ص :3
  • 28 أبو جعفر محمد بن حبيب البغدادي، أسواق العرب المشهورة في الجاهلية،مطبوعة:دار الآفاق الجديدة، بيروت، لبنان، ص:265
  • 29 أبو القاسم عبيد الله بن عبد الله المعروف بابن خرداذبة، المسالك والممالك، مطبوعة:دار صادر، بيروت، لبنان، 1889م، ص:61
  • 30 احمد امین ، فجر الاسلام، مطبوعۃ:دارالکتاب العربی،بیروت،لبنان، 1969م،ص :13
  • 31 عرام بن الأصبغ السلمي،كتاب أسماء جبال تهامة وجبال مكة والمدينة، مخطوطۃ:جامعه ملک سعود، السعودیه، 1957م، ص:3
  • 32 ایک خاص قسم کا درخت جس کی شاخیں نہایت لچکدار ہوتی ہیں۔(فیروز اللغات)
  • 33 أبو الفضل محمد بن مكرم الإفريقى، لسان العرب، ج-7، مطبوعة:دار صادر، بيروت، لبنان،1414ھ، ص:290
  • 34 ایضاً، ص:381
  • 35 سیّد عین الحق ، قدیم مشرق، ج-2،مطبوعہ:مکتبہ فرید ،کراچی، پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)، ص:287-288
  • 36 F. Max Muller (1886), The Sacred Book of the East, Vol 25, The Laws of Manu, Oxford Clarendon Press, Oxford, U.K., Pg. 324.
  • 37 ڈاکٹر گستاؤلی بان ، تمدن ہند (مترجم:سید علی بلگرامی)،مطبوعہ : مشتاق بک کارنر ،لاہور،پاکستان،(سنِ اشاعت ندارد)،ص: 218-219
  • 38 N. C. Bandyopadhyaya(1980), Economic Life & Progress in Ancient India, Kharbhanda Offset, Allahbad, India, Pg. 150-152.
  • 39 Ibid, Pg. 150-152.
  • 40 Ibid, Pg. 147-148.
  • 41 Jagdish Chandra Jain (1947), Life in Ancient India, New Book Company, Bombay, India, Pg. 98-99.
  • 42 Bimala Churn Law (1947), Ancient India, The Indian Research Institute, Calcutta, India, Pg. 24-25.
  • 43 Pramathanath Banerjea (1916), Public Administration in Ancient India, Macmillan & Co. Ltd., London, U.K., Pg. 257-258.
  • 44 Dr. Pran Bath (1929), A Study in the Economic Condition of Ancient India, The Royal Asiatic Society, London, U.K., Pg. 93-94.
  • 45 N. C. Bandyopadhyaya (1980), Economic Life & Progress in Ancient India, Kharbhanda Offset, Allahabad, India, Pg. 183-185.