قدیم ہندوستان میں تعلیم و تعلّم کی کافی اہمیت تھی ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے قدیم ترین علمی مراکز ٹیکسلا(Taxila) اور نالندا (Nalanda)اسی خطے میں واقع تھے۔تاریخی آثار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی تاریخ کے ابتدائی دور میں ہی یہاں مذہب ، ریاضی ، منطق اور فلسفہ جیسے مضامین کی تعلیم عام تھی اور ٹیکسلا ونالندا جیسے ہندو اور بدھ مت کے مذہبی مراکز، اعلی ٰتعلیم کے بھی اہم مراکز تھے۔ قدیم ہندوستانی معاشرے میں بچوں کو ابتدائی تعلیم والد خود دیا کرتے تھے۔ بچے کی تعلیم کے باقاعدہ آغاز کی عمر مختلف ذاتوں کے اعتبار سے پانچ (5) سال سے بارہ (12) سال تک تھی۔ بچہ جب مقررہ عمر تک پہنچ جاتا توتعلیم کے آغاز کی ایک خصوصی تقریب منعقد ہوتی اور اس کے بعد پڑھانے و سکھانے کا عمل شروع ہوجاتا تھا۔ ہر بچہ ایک خاص گُرو یا استاد کے پاس جاتا جو ویدوں اور دیگر علوم کی تعلیمات سے اس کے ذہن کو آراستہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے نوجوان دور دراز کے علمی مراکزکا سفر بھی کرتے تھے تاکہ وہ تھوڑی مشقت اٹھا کر بہترین تعلیم حاصل کر سکیں۔ عوام میں تعلیم کا رجحان کم تھا لیکن اس کے باوجود عورتوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔ ایسے دانشوروں اور روشن خیال لوگوں کے باوجود ، قدیم ہندوستانی معاشرہ زندگی کے بنیادی اور اہم سوالات مثلاً ہمیں کس نے پیدا کیا؟ ہمیں اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا؟کو حل کرنے میں یکسر ناکام رہا تھا اور علم کی بنیاد عقل و شعور پرکھنے کےبجائے توہم پرستی و دیو مالائی و اساطیری تصوّرات پر استوار کرچکا تھا۔ اسی وجہ سے ان کی اہم علمی شخصیات بھی حق اور سچ کی راہ سے غافل رہیں اور گمراہ ہوکرنفسانی خواہشات کے دلدل میں منہمک ہوگئیں اور اپنی اس لاعلمی وخود غرضی سے ایک ایسا دستورالعمل مرتب کیا جس نے محدود مدت تک بظاہر دنیاوی خوشی اور لطف اندوز ہونے کا انتظام تو کیا لیکن وہ دل و دماغ اور روح کا ابدی و داخلی سکون فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہا تھا۔ تاریخی مثالوں سے اس دھرتی کے انتہائی روشن ذہنوں کی محدودعلمیت آشکار ہوتی ہےنیز ان بھٹکے ہوئے قلوب و اذہان کے لیے الہامی وحی کی ضرورت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قدیم ہندوستانیوں کے مطابق، تعلیم اُن پیدائشی صلاحیتوں کی تربیت ونشوونما کا نام تھاجو دراصل سابقہ زندگیوں سے حاصل ہوئی تھیں۔ قدیم ہندوستانیوں کا خیال تھا کہ زندگی چار آشرم یا چار مراحل پر مشتمل ہوتی ہے اور ان میں پہلا مرحلہ ہی طالب علم بننے کا ہے۔ طالب علم کے پہلےاساتذہ والدین ہوتے تھے ۔ باضابطہ تعلیم کا عمل اس وقت شروع ہوجاتا جب بچے کو پیشہ ور اساتذہ کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا جو خاندان کی معاشرتی حیثیت کے مطابق بچے کو تعلیم دیتا تھا ۔ 1ہندوستانی تعلیم کے قدیم نظام کا مقصد کردار کی تشکیل ، شخصیت کی تعمیر ، قدیم ثقافت کا تحفظ اور معاشرتی و مذہبی فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے ابھرتی ہوئی نئی نسل کی تربیت کرنا تھا ۔ 2
ہندوستان کے قدیم نظام میں ، تعلیم اور ثقافت خود مختار تھے جبکہ ریاست اورمنظم قوم ان کی بدولت غیر معمولی نفع حاصل کرتی تھی۔ان کی قدر و منزلت اور اہمیت ، ان کا مذہب ، اخلاقیات ، اثر انگیزی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات علم اور نظام ِ تعلیم ہی کے بدولت تھے۔ قانون ساز ادارےاور منتظمہ کے محکموں نے ان پر قابورکھنے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کے انتظام میں مداخلت کی تھی۔ بادشاہوں نے جامعات بنائیں اور انہیں دولت اور ذرائع عطا کیے لیکن ان کے اختیارات اور کام میں کبھی مداخلت نہیں کی تھی۔3
قدیم ہندو معاشرہ جو چار ذاتوں میں تقسیم تھا جن میں سے برہمن طبقے سے ہی تمام اساتذہ تعلق رکھتے تھے اور وہی تمام قانون سازی کے منتظمین تھے۔ اعلیٰ ادبی تعلیم برہمنوں کے لیے مخصوص تھی۔ اس طبقے کے تمام افراد کو مقدس تحریروں ، اور ہندؤوں کے فلسفیانہ عقائد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا لازم تھا۔ مذہبی تحریروں اور طرزعمل کی منظور شدہ شکلوں کے علم کی بدولت تعلیم یافتہ مذہبی طبقہ سیاسی ،معاشرتی اور مذہبی طور پر حکمران طبقے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ نظریاتی طور پر اس گروہ کے ہر فرد نے اپنی زندگی کو مطالعے اور اس کے ساتھ ساتھ موزوں سرگرمیوں کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ نچلے طبقے کے پاس اس طبقےکی رکنیت حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اس لیے اعلی ٰ تعلیم صرف اس برہمنی طبقے تک محدود تھی نیز ان پر ریاست اور معاشرے کی طرف سے کسی قسم کی کوئی اور ذمہ داری بھی عائد نہیں کی جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت علمی سرگرمیوں میں صرف کرتے تھے۔4تعلیم کی طبقاتی تقسیم محض معاشرے میں اپنی اجارہ داری اور بڑھوتری کو برقرار رکھنے کے لیے ہی رکھی گئی تھی۔ در حقیقت خود کو اعلیٰ ذات کہلوانے والے بغض و حسد، تکبر اور لالچ جیسی قبیح صفات کے اثرات سے بھرے پڑے تھے اور دیگر ذوات کو اپنے برابر لانا انہیں کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں تھا۔
برہمنوں کو معاشرے سے الگ تھلگ برہمنی گرو کی خدمت میں بارہ سال تک تعلیم حاصل کرنا لازم تھا تاکہ وہ ویدوں ،قواعدِ زبان ، اور رسم رواج کے متعلق علم حاصل کر سکیں۔ مقدس کتابوں کو کسی ایک حرف کی غلطی کے بغیر حرف بحرف ٹھیک تلفظ اور لہجے کے ساتھ حفظ کرنا بھی نصاب کا حصہ تھا ۔اس طریقۂ تعلیم میں زبانی یاد کرنےاور تربیت کے طریقۂ کار کے ذریعے ذہنی نشوو نما کی اعلیٰ سطح حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ 5
شودر ذات کے افراد(Sudras)کے لیے ویدوں کی تعلیم ممنوع تھی اور اگر کوئی شودر مجلس میں آجاتا تو وید کی تعلیم جان بوجھ کر روک دی جاتی تھی تاکہ اس کے کانوں میں اس کی آواز نہ پڑجائے۔جان بوجھ کر وید سننے ، یاد کرنے یا اس پر بات کرنے پر شودر ذات کے لیے سخت سزائیں تھیں۔ 6
شودر ذات کے افراد اور چاروں ذاتوں میں سب سے کمتر سمجھے جانے والے اچھوت (Pariahs) کسی قسم کی رسمی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ جنگجو اور صنعتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ادبی درس گاہوں تک رسائی رکھتے تھے لیکن اس سے انہیں زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتاتھا۔مقدس متن کا کچھ خاص حصّہ جو مختلف مواقع پر پڑھا جاتا تھاا س کو زبانی یاد کرنا ہی ان طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا۔ عملی اور پیشہ ورانہ نوعیت کی تعلیم و تربیت گھر پر یا دیہات کے سماجی ماحول میں رسوم اور اقدار سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے دی جاتی تھی۔یہی دو ادارے دراصل درس گاہ کی حیثیت رکھتے تھے۔تاہم یہاں کے لوگوں کی اکثریت نہ ہی برہمنوں کی درس گاہوں میں اور نہ ہی گھر اور گاوٴں کے سماجی ماحول میں پڑھنا لکھنا سیکھتی تھی،ذات پات کے نظام میں جہاں بچہ اپنے والدین کا پیشہ ہی اپناتا تھا تعلیم و تربیت خود کار طریقے سے ایک نظام کے تحت منتقل ہو جاتی تھی۔ یہ تربیت صرف دستکاریوں اور صنعتوں سے متعلق ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ دیگر مضامین مثلا ً ریاضی وغیرہ کی تعلیم بھی جو عموما خاندان میں ہی شاگردی کے طریقے سے دی جاتی تھی۔7
قدیم ہندوستان میں تعلیم ایک طویل عرصے تک نجی اتالیق کی ذمہ داری رہی جو ملک کے طول و عرض میں موجود تھے۔ ان مقامات پر اساتذہ بہت زیاد ہ تعداد میں دستیاب ہوتےتھے جو ان کے شعبے کی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے زیادہ سازگار تھے۔ایسے مقامات زیادہ تر دارلخلافہ میں ہوتے یا پھر مشہور مقدس مقامات اور شہری علمی مراکز میں ہوتے تھے۔بادشاہوں اور قبائلی سرداروں کی قانون کی رو سے یہ ذمہ داری تھی کہ وہ علم کی سرپرستی کریں۔ اسی وجہ سے پڑھے لکھے برہمن ان کے درباروں سے منسلک ہوتے تھے۔
بادشاہ اور جاگیردار بطورِ حکمران تعلیم کی سرپرستی کرتے تھے ، لہٰذا پڑھے لکھےبرہمن خود ہی ان کے درباروں کی طرف راغب ہوتے تھے۔ یہ وہ حالات تھےجنہوں نے شمالی ہندوستان میں ٹیکسلا(Taxila)، پاٹلی پتر (Pataliputra)، کنوج (Kanauj)، میتھلا (Mithila)،دھارا (Dhara)،جنوبی ہند کے مالکھیڈ (Malkhed)، کلیانی (Kalyani)اور تنجور(Tanjore) جیسے شہروں کو تعلیم کے مشہور مراکز بنادیا تھا۔ قدیم زمانے سے ہی ہندؤں کے یہ مقدس مقامات تعلیم کے مشہور مراکز تھے۔ زائرین کی آمد ورفت نے وہاں مقیم مشہور اساتذہ کو آمدنی کا ایک ذیلی ذریعہ بھی فراہم کر دیا تھا۔8
قدیم ہندوستان میں رائج نظام کے مطابق آٹھ سال تک کے بچوں کو ابتدائی تعلیم اور آٹھ سے بارہ سال تک کے بچوں کو ثانوی تعلیم دی جاتی تھی۔9پرائمری اسکول جدید معنی میں شاید ابتدائی دور میں موجود نہیں تھے لیکن للیتا وستر (Lalita Vistara)نے حوالوں کے ساتھ بتایا ہے کہ ابتدائی تعلیم کے اسکول بدھا کے عہد (چھٹی صدی قبل مسیح) میں موجود تھے۔بدھا نے بھی دنیا کے معمول کے مطابق مکتب (لکھنا پڑھنا سکھانے والے ابتدائی اسکول) میں تعلیم حاصل کی تھی اور اعداد و شمار ، حساب کتاب ،تحریر ، اور ہر اس چیز کی اچھی طرح سے مشق کی تھی جو اس زمانےکی تعلیم میں مروج تھی اور پھر بعد میں بے شمار بچوں کی اہم ترین راہ پر تربیت کی اوراس کے ساتھ ساتھ دوسرے لاکھوں لوگوں کو بدھ مت کی تعلیم دی ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے اسکول اخلاقی احکامات کے ساتھ ساتھ پڑھنے لکھنے اورحساب وکتاب کےساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی بھی تعلیم دیتے تھے۔
عام طور پر ابتدائی تعلیم کے اسکول درختوں کے نیچے کھلی ہوا میں یا خراب موسم کے دوران ڈھکے ہوئے چھپروں کے نیچے ہوتے تھے۔ یہاں یہ امرباعث دلچسپی ہے کہ حروف تہجی پڑھانے کا ایک جدید نظام تب بھی جانا جاتا تھا جس میں استاد ان میں سے ہر ایک حرف کے ساتھ شروع ہونے والے ایک جملے کےذریعے اس حرف کی ادائیگی بچوں کو سکھاتا تھا۔10
لڑکے اپنی تعلیم کے آغاز سے پہلے ہی بہت سی چیزیں بچپن میں ہی سیکھ لیتے تھے ۔11جب وہ بچپن کی عمر سے آگے بڑھتے تو وہ مشترکہ خاندانی زندگی میں تیزی سے حصہ لینا شروع کردیتے تھےجس سے ان میں مستحکم اور محفوظ ہونے کا احساس پیدا ہوتا تھا۔تاہم بعض اوقات کچھ رشتہ داروں سے تعلقات کشیدہ بھی ہوجاتے تھے۔ مشترکہ خاندان کی ساخت میں کسی ایک خاندان کے اندر گہری جذباتی وابستگی کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا یوں بچے کے والد کا اپنے بیٹے کے ساتھ خصوصی پیار ظاہر کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی اور بچے کے لیے اپنے والد کے بھائیوں کے ساتھ بھی ویسا ہی قریبی رشتہ قائم کرنا ضروری تھا جیسا والد کے ساتھ ہوتا تھا۔
عام طور پرباپ بیٹے کی خودمختاری کو فروغ دینے اور اس کی والدہ پر انحصار کم کرنے کی جدوجہد میں زیادہ مداخلت نہیں کرتا تھا لہٰذا والدہ پر یہ انحصار ساری زندگی مستحکم رہتا تھا ۔ باپ دادا کا رشتہ ایسا نہیں تھا کہ ان سے گہرا اور قریبی تعلق بنایا جاسکےبلکہ اس کے بجائے عام طور پر بڑے افراد اور شخصیات ، خصوصاً والد کے ساتھ تابعداری اور عزت و احترام کا رویہ روا رکھا جاتا تھا۔ بچے خاندانی اجتماعات یا ذات پات کی مجلسوں میں بیٹھتے تھے جہاں احترام اور اطاعت کرنا سیکھتے تھے اور اپنے مخصوص طبقاتی تعصبات کو دوام دیتے تھے۔ وہ بزرگوں کے اقوال کی بار بار مثالوں ، تہواروں کے گانوں ، مندروں کے خطبات اور رزمیہ نظموں اور پُرانوں کی تلاوت سے تمام طبقاتی معاملات سیکھتے تھے۔ پھر پانچ سال کی عمر میں ویدوں کے مطالعے کی ابتدا کی شرط کے طور پر اور تحصیل ِ علم کے آغاز کی نشاندہی کے لیے ودیا آرمبھ(vidyarambha)کی رسم انجام دی جاتی تھی۔ عام طور پر
دینی کاموں اور طریقوں کے مطالعے کے اعلیٰ تعلیمی ادارے بادشاہوں ،راجاوٴں اور مہاراجاوٴں کے دربار میں تھے۔ تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے مضامین میں سیکولر اور روحانی مضامین دونوں شامل تھے۔ ابتدائی مرحلے میں دونوں شاخوں کو دکشا گرو (Diksha Guru)یا طلبا کا روحانی رہنما سکھاتا تھا۔ لیکن بعد میں اتالیق کا عہدہ دکشا گرو اور سکشا گرو (Siksha Guru)سے الگ کر دیاگیا تھا۔
ان میں سے پہلا دین کے سربستہ رازوں کو سمجھنےمیں شاگرد کی رہنمائی کرتا تھاجبکہ مؤخرُ الذکر نے تمام سیکولر مضامین کا چارج سنبھال لیا تھا۔ مقدس قوانین میں سے کچھ ان درس گاہوں کے نصاب کا بھی حصہ تھے جن میں نہ صرف تمام آریاوٴں کے اخلاقی فرائض کے احکام شامل تھے بلکہ بادشاہوں کے طرزِ عمل اور انصاف کے انتظام سے متعلق خصوصی احکام بھی شامل تھے۔جب تک ان کا مذہبی لٹریچر سادہ اور مختصر صحائف پر مشتمل تھا تب تک صرف ایک ہی طرح کے تعلیمی ادارے تھے جنہیں ویدک اسکول(Vedic Schools) کہا جاتا تھالیکن چونکہ ان مضامین میں سے ہر ایک کے لیے مواد جمع ہو گیا تھا اور ان کو برتنے کا طریقۂ کار بھی مکمل ہوگیا تھا اسی وجہ سے بعد میں یہ تعلیمی ادارے ویدک اسکولوں اور سائنس کی خصوصی درس گاہوں کے طور پرالگ الگ ہوگئے تھے۔ ویدک اسکولوں میں طلبا اور اساتذہ نے اپنی توانائیوں کو صِرف نصوص کے بارے میں مکمل اور درست معلومات کے حصول کے لیے صَرف کیا تھا لیکن ان کے موضوع کو سمجھنے کی طرف بہت کم توجہ دی یوں وہ"زندہ لائبریری"بن گئے تھے۔ وہ ان مذہبی متون کے حقیقی استعمال کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ ان کا سارا زور عقل و شعور اور درایت کے بجائے روایت کی بلا سوچے سمجھے منتقلی پر تھا۔
ویدک اسکولز (مذہبی درسگاہیں) جو کبھی علم و دانش کے مراکز سمجھے جاتےتھے، وقت کے ساتھ ساتھ عقل و شعور،سمجھ بوجھ، تحقیق اور فکرِجستجو کے راستے سے ہٹتے گئے اور سائنسی تعلیم کے خصوصی اداروں نے ان کی جگہ لے لی تھی۔ ان اداروں کے نصاب میں مروّجہ علوم، زبان و بیان کے قواعد ، قانون اورفلکیات کا علم شامل تھا۔ پھر وقت گزرنے کے بعد ان خصوصی اداروں کے ساتھ ساتھ قانون کی درسگاہوں نے بھی ترقی کی جس نے افرادِ معاشرہ کو قانون اور مختلف فرائض کی مکمل تربیت دی تھی۔تعلیم کا سب سے اہم مرکز پریشاد(the Parishads) یا برہمنی درسگاہیں (Brahmanic Colleges)تھیں۔ یہ اصل میں تین برہمنوں نے قائم کیے تھے بعد میں آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی گئی یہاں تک کہ یہ طے کر لیا گیاکہ ایک پریشاد کو 21 برہمنوں پر مشتمل ہونا چاہیے جو فلسفہ، مذہب اورقانون پرعبور رکھتے ہوں۔14 پورے نصاب کے دوران، اسکول اورکالج دونوں میں طالب علم کو بِرْہَم چَرْیَہ(Brahmacharya)کے اصول پر عمل کرنا لازم تھا یعنی سادہ لباس پہننا ، سادہ کھانا کھانا، سخت بستر کا استعمال کرنا اور کنوارگی و تجرد کی زندگی گزارنا ان پر لازم تھا۔15
چھٹی صدی قبل مسیح میں علم کا مرکز ٹیکسلا میں منتقل ہو گیا تھا۔ یہ برہمنی تعلیم(Brahmanical Learning) کا سب سے بڑا مرکزتھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں مختلف درس گاہوں میں علم کے 16 شعبوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جن میں سے ہر ایک کی صدارت ایک خصوصی پروفیسر کرتا تھا۔ ٹیکسلا میں مصوّری ، مجسمہ سازی ، شبیہ سازی اور دستکاری کی درسگاہیں بھی تھیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ادب اور زبان کے قواعد کے ماہر پانینی(Panini)اور چندر گپت (Chandragupta) کے وزیر
جامعات کی سطح کے ادارے طلبا کو بعض خاص مضامین میں علم کی تکمیل کےمرحلےتک پہنچایا کرتے تھے۔ طالب علم ان اداروں میں شامل ہونے سے پہلے ہی کہیں اورسے ثانوی تعلیم کا مرحلہ مکمل کر کے آتے تھے ۔ قدیم ہندوستانی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کےلیے آنے والے طلبا کی عمر تقریبا ً سولہ (16) سے بیس (20) سال کے درمیان ہوتی تھی۔ ٹیکسلا اپنے اساتذہ کی قابلیت کی وجہ سے اس قدر مشہور تھا کہ سینکڑوں طلبا اپنے گھر کی آسائشوں کو ایک طرف چھوڑ کر علم کی تلاش میں یہاں چلے آتے تھے۔ ان کے والدین کی اس جگہ بھیجنے میں بہت بڑی قربانیاں شامل ہوتی تھیں۔ خاص طور پر جب اس دور میں طویل سفر کے دوران خطرے کو مدنظر رکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جب سفر سُست ، خطرناک اور غیر یقینی تھا تو یقیناً طلب ِ علم کی راہ میں ان طلباکی لگن قابلِ ستائش تھی ۔
طلبہ سادہ زندگی گزارتے تھے۔ کچھ طلبا اساتذہ کے گھر رہتے تھے اور کچھ شہر کے امیر لوگوں کے ہاں رہائش اختیار کرتے تھے۔ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جب استاد شاگرد کے مابین اچھے تعلقات غیر اخلاقی جنسی تعلق کا باعث بھی بن جاتے تھے۔چھٹیاں ہونے پر درسگاہیں بند کردی جاتی تھیں ۔ بیرونی وجوہات عملِ تدریس کے بار بار رکنے کی وجہ بنتی تھیں۔ ان غیر معمولی حالات میں بے وقت بادلوں کا آجانا ، گرج چمک ، بجلی ، تیز بارش ، ٹھنڈ ، دھول کےطوفان ، سورج یا چاند کا گرہن ہوجانا وغیرہ ایسے عوامل تھے جو عملِ تعلیم کو معطل کرنے کا سبب بنتے تھے۔ اس کے علاوہ دو لشکروں یا دیہاتوں کے مابین لڑائی ،کُشتی کے مقابلے اور مقامی رہنما کی موت جیسے عوامل بھی تعلیمی ادارے بند ہو جانے کا موجب بنتےتھے۔ معمولی وجوہات مثلاًاس علاقے میں جہاں اسکول واقع ہو ، وہاں بچے کی پیدائش اور توہم پرستانہ باتوں کی وجہ سے بھی درس و تدریس کا کام معطل کردیا جاتا تھاجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے اشرافیہ بھی توہم پرستی پر یقین رکھتے تھے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آتے تو ان کا دل کھول کر استقبال کیا جاتا تھا اور انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ تاریخی کتابیں یہ بیان کرتی ہیں کہ جب رکھیّا(Rakkhia) پدلی پُتھ(Padaliputta)سے واپس آیا تو ریاست کی سطح پر سب نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیانیز شہر کو جھنڈوں وغیرہ سے بھی سجایا گیا تھا۔17
وید کے معنی و مفہوم پر دسترس تعلیم کا لازمی جزو تھا۔ یہ محض ویدک متن نہیں تھے جو مطالعے میں شامل تھے۔ طالب علم کو یَجُر وید(Yajurveda) اور سام وید (Samaveda) کی عبارتوں کے ساتھ ساتھ واکوسواکیا (Vakosvakya) ، اتہاس (Itihasa)اور پُران (Purana)جیسے مضامین بھی سیکھنا پڑتے تھے۔ 18تعلیم کی ویدوں پر مشتمل شاخوں میں مطالعہ کا مندرجہ ذیل نصاب شامل تھا جو تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ان مضامین میں ریووویہ (Riuvveya)، جوویویہ (Jauvveya)، سمویہ (Samaveya)، اتھاونویہ (Athavvanaveya)، اتراسا (Itrhasa)(پرانا) ، پانچواں وید (the fifth Veda) نگھنٹو(Nighantu) ، چھٹا ویدسنکھنہ (sankhana)(ریاضی) ، سکھڈ (sikkhd)(صوتیات) ، کپّا(kappa) (رسم) ، وگرانا (vagarana)(گرائمر) ، چھنڈہا(chanda)(میٹر)، مِرئَت(mrutta)(مثال) ، اور جوائسہ (joisa)(فلکیات-علم نجوم) پر مشتمل چھ وینگا اور چھ اپنگاس (Upangas) شامل تھے۔جن میں ویدنگاس (Vedangas)اور ستیہ تانتا (Satthitanta)کے اندر پیش آنے والے مضامین کی مزید وضاحت شامل تھی ۔ اُتَّرادَھیَن(Uttaradhyayana) کی شرح میں چودہ کے قریب مضامین کا ذکرملتا ہے۔19
منو (Manu)نے مطالعے کے چودہ مضامین کا تذکرہ کیا ہے جس کے مطابق چار وید اور اس میں موجود چھ لوازمات
اس کے علاوہ تھاننگا(Thananga) میں پیشن گوئی اور شگون وغیرکا علم جس سے آنے والے حادثات اور تباہیوں کا علم حاصل کرنے کا دعویٰ کیا جاتا تھا، جادو ٹونے، منتر ،غیب بینی، باسٹ (62) فنون اور فنِ تعمیر وغیرہ شامل تھے، سکھائے جاتے تھے۔ ان میں شامل علوم کی درجہ بندی یوں کی جا سکتی ہے:
تدریس کے طریقے مضمون کی ضرورت کے مطابق ہوتے تھے۔طالبِ علم کی پہلی ذمہ داری ویدوں کو یاد کرنا اور ٹھیک انداز سے الفاظ کا تلفظ ادا کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون ، منطق، ادب اور روایات وغیرہ جیسے ادبی مضامین کی تعلیم میں فہم اور سمجھ بوجھ کی زیادہ اہمیت تھی۔مثالوں اور نظائر سے سمجھانےکو اہمیت دی جاتی تھی۔خاص طور پر مذہبی تعلیمات مثلاً اپنیشدوں (Upanishads) اور ویدوں کی تعلیم میں واقعات اور مثالوں سے مدد لی جاتی تھی۔اعلیٰ تعلیم مثلاً دھرم شاستر(Dharma-shastra) کی تعلیم کے لیے درس اور سوالات کا طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔طالبِ علم اپنے اشکالات اساتذہ کے سامنے پیش کرتے اور مسائل پر بحث کرتے تھےاور ان کو یاد کرنا بھی ان طالب علموں کے لیے ضروری تھا۔ 22
ویدوں کے عہد میں طبقۂ اشرافیہ کی کچھ عورتوں نے ویدوں اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی۔ انہوں نےسنسکرت سیکھی اور ویدک رسومات وعقائد کا مطالعہ کیا۔ ان صحائف کے ابتدائی اور اعلیٰ درجے کی طالبات کی حیثیت سے کچھ اُستانیاں بھی بن گئی تھیں لیکن خواتین آہستہ آہستہ ویدک تعلیم تک رسائی سے محروم ہوگئیں کیونکہ برہمنی مہارت کے نظام نے ان علوم کا حصول گھر کےبجائے "رہائشی تعلیمی اداروں " تک محدودکردیا تھا۔ ان پنڈتوں کی بداعمالیوں اور جنسی ہوس کی وجہ سے والدین کو اپنی بیٹیوں کے کنوارے پن کو برقرار رکھنے کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔ آہستہ آہستہ شادی کی رسم نے تعلیم شروع کرنے کی رسم اپانائن (upanayana)کی جگہ لے لی۔ بہت سارے صحیفوں میں تو خواتین کو ویدک منتر گانےسے بھی منع کردیا گیا تھا۔ اس عمل نے انہیں شودر ذات (sudras) کے لوگوں کی طرح بنا دیا تھاجنہیں جان بوجھ کر ویدوں کے علم سے محروم رکھا جاتا تھا۔تاہم عورتوں کی تعلیم سے دوری تمام ہندو فرقوں میں نہیں تھی۔ تانترک(Tantrikas) اور شری ویشنَؤ (SriVaisnavas) جیسے فرقوں نے لڑکیوں ، کنیزوں اور دیوداسیوں کی تعلیم جاری رکھی ۔اس کے ساتھ ساتھ انہیں مندر اوردرباروں میں کارکردگی پیش کرنے کی روایات کی بھی تربیت دی جاتی تھی ۔ 23
عام خواتین میں اعلیٰ تعلیم عام نہیں تھی ، لیکن بادشاہوں ، رئیسوں اور گنیکوں (Ganikas)کی بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور انہیں ذہانت کی تربیت شاستروں (shastras)سے دی جاتی تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کوکام سوتر(Kamasutra)اور اس کےماتحت علوم (جیسے جنسی معاملات کی کتاب ، اور جنسی لذتوں کی کتاب وغیرہ) بھی پڑھائے جاتے تھے۔ 24
قدیم ہندوستانیوں کے مطابق کام سوتر(Kamasutra) اور اس کے ذیلی اداروں کا یہ علم ہر قسم کی خواتین کے لیے بے حد مفید تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اس تعلیم سے خواتین آزاد و خود مختارہوجاتی ہیں اور شوہر کی عدم موجودگی میں وہ غیر ملکی علاقوں میں بھی کچھ حاصل کرکے زندہ رہ سکتی ہیں۔25اپنی عصمت و پاکدامنی کو محض چند سکوں کے عوض فروخت کرنے کی قدیم ہندومت میں باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح وہ لوگ خود عورت کو حاصل کرنے اور اس پر اپنی گرفت مضبوط کرکے جنسی تسکین کی راہیں ہموار کیا کرتے تھے۔
قدیم ہندوستان کی تعلیم یافتہ خواتین اور عالمات کے کارنامے ، جو طویل عرصے تک غیر شادی شدہ رہی تھیں ،وسیع اور مختلف نوعیت کے تھے۔ ویدک دور میں وہ ویدک ادب میں مکمل مہارت حاصل کرتی تھیں اور نظمیں بھی تحریر کرتی تھیں جن میں سے کچھ کو مقدس ادب میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ جب ویدک مذہب اور قربانیاں پیچیدہ صورت اختیار کرگئیں تو علم کی ایک نئی شاخ جسے میما نسا (Mimansa)کہا جاتا تھاوجود میں آئی تھی۔
اگرچہ یہ ایک مضمون تھا جو ریاضی سے کم درجے کا تھا لیکن خواتین اسکالرز نے اس میں گہری دلچسپی لی۔ کسکرتسنین (Kasakritsnin)نے میما نسا پر ایک ایسی کتاب مرتب کی تھی جس کا نام کسکرتسنی (Kasakritsni) تھا۔ ایسی طالبات جو اس میں مہارت حاصل کرتی تھیں ، کسکرتسنا (Kasakritsna)کے نام سے جانی جاتی تھیں ۔ میما نسا جیسی فنی سائنس میں ماہر خواتین اتنی تعداد میں تھیں کہ ان کی نشاندہی کرنے کے لیے کسی نئی خصوصی اصطلاح کی ضرورت ہو تو معقول طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ عمومی، ادبی اور ثقافتی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین تھیں ۔
جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُپپِنیشدی دور (Upanishadic Age) میں فلسفےکا مطالعہ مقبول ہوا تو خواتین نے بھی اس مضمون میں گہری دلچسپی لینا شروع کردی تھی۔ یاگناولکیِ کی بیوی میتری (Yajnavalkya’s Wife Maitreyi)کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔ وہ قیمتی زیورات اور ملبوسات پہننے کے بجائے فلسفے کے گہرے مسائل کا مطالعہ کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بادشاہ جنک (King Janaka)کے زیراہتمام منعقدہ فلسفیانہ تقریب میں سب سے لطیف فلسفیانہ سوال خاتون فلسفی گارگی واچکنَوی (Gargi Vachaknavi) نے پوچھا تھا۔یہ سوال اتنا لطیف اور باطنی تھا ، کہ یاگناولکیِ(Yajnavalkya)نے عوام میں اس پر بحث کرنے سے انکار کردیا تھا۔ گارگی کے گہرے استدلال اور لطیف جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جَدَلِیّاتی اور اعلیٰ نظم کی فلسفی تھی۔اس عہد کی خواتین اسکالرز میں اُتررام چرِت کی اتریئی (Atreyi of the Uttara-Rama-Charit) سُلَبہ(Sulabha)، وڈوا (Vadava)، پراتھیٹیئ(Prathiteyi) ، میتری(Maitreyi) ، اور گارگی (Gargi)نے علم کی ترقی میں حقیقی کردار ادا کیا تھا۔ 26
اساتذہ کو صرف اور صرف خصوصی طور پر برہمن ذات سے بھرتی کیا جاتاتھا۔ تاہم اس قاعدے میں استثنا کی اجازت تھی۔ بُودّھْیَنْ(Baudhayana) پریشانی کے وقت غیر برہمن استاد سے تعلیم حاصل کرنےکی اجازت دیتا ہے ۔ اس طرح کے غیر برہمن اساتذہ کو برہمن طالب علم اپنی طالب علمی کی طویل مدت کے دوران مناسب احترام اور اعزاز دیا کرتے تھے۔ طالب علم کے لیے استاد کے پیچھے چلنا اور اس کی اطاعت کرنا لازمی تھا ۔ 27
قدیم ہندوستان میں طالب علم کو ہمیشہ اپنے استاد کی اطاعت کرنالازم تھا سوائے اس کے کہ جب استاد اسے کسی جرم کا حکم دے یا کوئی ایسا کام جو اس کی ذات کو نقصان پہنچا سکتاہو ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے استاد کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا اور اسے ہمیشہ استاد سے کم درجے والی نشست پر بیٹھنا ہوتاتھا۔ مزید یہ کہ جب بھی طالب علم کی اس کے استاد سے ملاقات ہوتی تو اسے اپنے استاد کے پیر کو ہاتھ لگانا ضروری تھا ۔ طالب علم سے اس بات کا تقاضا کیا جاتا تھا کہ وہ دیوتا کی طرح اساتذہ کا احترام کرے۔28
قدیم ہندوستان میں مجموعی طور پر ماہرینِ تعلیم نے اپنے عقیدے کے مطابق کردار کی تشکیل کو بہت اہمیت دی تھی۔ ویدوں کو بطور وحی سمجھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے ان کا تحفظ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ منو(Manu)جیسے مفکرین نے اعلان کیا کہ اچھے کرداراور ویدوں کے سطحی علم والے فرد پر ایسے شخص کوترجیح دی جانی چاہیے جو اپنی زندگی اور عادات میں تو ناپاک ہو لیکن وہ تینوں ویدوں پر عبور رکھتا ہو۔ تعلیم کا دوسرا مقصد ہندو شخصیت کی ترقی تھا۔ بہت سے موٴرخین نے زور دے کر کہا ہے کہ قدیم ہندی تعلیم نے یکساں نصابِ تعلیم کے ذریعے اور آہنی نظم وضبط کو نافذ کرکے طلبا کے ذہن اور طرز عمل کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ شخصیت اور فطرت کو دبا دیا تھا ۔ 29
قدیم ہندوستان کے تعلیمی نظام نے اس معاشرے کو کچھ معمولی فوائد یقیناً فراہم کیے تھے لیکن مجموعی طور پر معاشرے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہا تھا ۔ ایک لڑکی جس کو اخلاقی ، فکری اور مذہبی طور پر وحی الہٰی کے تحت تربیت دی جانی چاہیے تھی اس نظام ِ تعلیم میں اسے جنسی خواہشات کی تکمیل کےطریقے ،مردوں کی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جسم فروشی ، معشوقہ بننے اور دوسروں کو عشق کے جال میں پھنسا کر ان سے فوائد حاصل کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ دوسری طرف مردوں کو ظالمانہ ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنے کی تربیت دی جارہی تھی۔ اور تعلیم کی طبقاتی تقسیم کے ذریعے کم ذات پر اپنا اثر قائم رکھنے کی مذموم کوشش کی جاتی تھی۔کم ذات کے کسی بھی شخص کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی ۔ اس کے نتیجے میں قدیم ہندوستانی معاشرہ نام نہاد اعلیٰ تعلیمی اداروں اور دانشوروں کے باوجود بےحیائی ، بدتہذیبی ،ظلم و ستم ، نا انصافی اور توہم پرستی کا شکار رہا ۔