Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم ہند وستان کے مذہبی عقائد

قدیم ہندو مذہب کا نہ کوئی ایک بانی تھا اور نہ ہی اس کی کوئی ایک مذہبی کتاب تھی ۔ اس مذہب کی تشکیل بہت سے لوگوں کے فلسفوں اور آرا ءکو شامل کرکے قدیم دور میں کی گئی تھی جو اپنے وقت میں سیاسی و سماجی اثرورسوخ رکھتے تھے اور ان خود ساختہ عقائد و نظریات کے ذریعے سماج میں اپنی گرفت ومفادات کو تحفظ دینے کے خواہشمند تھے اور یہی رَوِش بعد میں آنے والے حکمرانوں، راجاوٴں اور پنڈتوں نے بھی اپنائی تھی۔ اہلِ ہند کا مذہب عجیب و غریب عقائد ورسومات پر مشتمل تھا جن سے بظاہر ایسا تاثر ملتا ہے کہ اس مذہب کا مقصد فقط نفس پرستی تھا۔ اس کا زندگی کی حقیقت اور رب تعالیٰ کا قرب پانے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم ہندووٴں کی عبادت گاہوں میں عورتوں کی برہنہ، فحش تصاویر اور بت نصب تھے۔ اس کے علاوہ ان کی مذہبی رسومات میں بھی بے حیائی و عریانیت نمایاں تھی۔ اس کا خاص اہتمام کیا جاتا اور اسے مذہب کا نام دے کر پاک تصوّر کیا جاتا تھا۔ قدیم ہندووٴں کا مذہب حیا، پاکی اور اخلاص کی تعلیمات دینے کے بجائے بدکاری، فحاشی اور عریانیت کی طرف دعوت دیتا تھا۔ ان کے مذہب اور معاشرے میں عورت کو کم تر و ادنی ٰ جنس تصوّر کیاجاتا تھا اور اسے ذاتی خواہشات اور اس کے حصول کا آلہ مان کر اپنے ناجائز مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنایا جاتا تھا۔

ہندومت ایک مشرکانہ مذہب تھا جس میں خداؤں کی تعداد ان گنت تھی۔ کچھ لوگوں کے مطابق ان کے دیوتاؤں کی تعداد ہزاروں میں تھی البتہ ہندو مفکرین کا یہ ماننا تھا کہ ہندو مذہب میں اصل دیوتا ایک ہی تھا جس کا نام براہمہ (Brahma)تھا اور بقیہ دیوتا براہمہ کا ہی حصہ تھے۔ 1ہند کے مؤرخوں کا ماننا ہے کہ اہلِ ہند کا مذہب ابتدا میں سادہ تھا لیکن جب انڈس ویلی تہذیب (Indus Valley Civilization) اور آریائی تہذیب (Aryan Civilization) کے لوگوں کا آپس میں تعلق قائم ہوا تو یہ مذہب پیچیدہ اور عجیب و غریب رسومات کا شکار ہوگیا تھا ۔2

ہندومت کی مشرکانہ رسومات انتہائی قدیم تھیں جن کی ابتداء چار ہزار (4000) قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ اس دور میں خاص مقدس پودوں اور جانوروں کی پوجا کی جاتی تھی۔ اسی دور میں دیوتا کے ساتھ ساتھ دیویوں کی بھی پوجا شروع کردی گئی تھی۔3

ہندومت کے تینتیس (33)کروڑ خدا

ہندوؤں کے معبودوں کی تعدادتینتیس (33)کروڑ تک بتائی جاتی ہے4 جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسبِ ضرورت و حسبِ منشا دیوتاؤں کی تخلیق کا عمل جاری رہا ۔ ان گنت دیوی دیوتا ہندوستان کے دورِ شجاعت یعنی رامائن اور مہا بھارت اور پُرانوں کے دور کی پیداوار ہیں ۔ 5اس بات کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل عبارت سے بھی ہوتی ہے:

  Hindu pantheon is believed to consist of 33 Crore (330 million) gods and goddesses which include both local and universal gods and goddesses. Every city, place and village in India has its own presiding and patron deity who shares the joys and sorrows of his devotees. 6
  ہندوؤں کے دیوتاؤں اور دیویوں کی تعدادتینتیس (33)کروڑ تک بتائی جاتی ہے جو مقامی اور کائناتی دیوی دیوتائوں کو بھی شامل ہے ۔ ہندوستان میں ہر شہر ، ہرجگہ اور ہر گاؤں میں ا ن کا اپنا رہائشی سرپرست اور معبود ہوتا ہے جو ان کے دکھ اور سکھ میں ان کا شریک رہتا ہے۔

ہندوؤں کےلاتعداد خدا

ہندوؤں کے دیوتاؤں کی فہرست بہت طویل تھی جو ہر لحظہ بڑھتی رہتی تھی۔ بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دیوتاؤں کی اس طویل فہرست میں ایسے دیوتا بھی تھے جو یورپین آریاؤں کے دیوتاؤں سے مشابہت رکھتے ہیں۔

براہمہ(Brahma)

براہمہ(Brahma) وہ دیوتا تھاجو ویدی ادب کے آخری حصےمیں ظاہر ہوا تھا۔ براہمہ دیوتا کو چار سروں والا دیکھایا جاتا تھا۔ عام طور پر براہمہ برکت دینے والا اور ان مخلوقات کو جو زاہدانہ زندگی گزارا کرتے تھے، چاہے وہ جانور ہوں، انسان ہوں، خدا ہوں یا شیطان ہوں، طلسماتی طاقتیں دینے والامانا جاتا تھا۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ بعض اوقات روحانی طاقتوں کی حامل مخلوقات دیگر دیوتا اور ان کی مثل دوسری اجناس بہت زیادہ طاقتور ہوجانے پرخداؤں کے لیے پریشانی کا باعث بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ 7

اگنی(Agni)

قدیم ہندو زیادہ تر اگنی(Agni) کی تعریف اعلیٰ خدا، خالق، سہارا دینے والا، اورہر شے میں حلول کرجانے والی قوت والے دیوتاکے طور پر کرتے تھے۔ تمام دوسرے خدا اس کے مظاہر تھے۔ قدیم ہندووٴں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگنی دیواس زمین (پرتھوی) پراپنی ذات کا اظہار آگ (اگنی) کی صورت میں، آسمان (انترکش) میں روشنی یا ہوا(اندر یا وایو) کی صورت میں، اور جنت (دیو لوک) میں سورج (سوریا) کی طور پر کرتا ہے۔ یہ خداؤں اور انسانوں کے مابین ثالث کا کردارادا کرتا ہے نیز انسانوں کی عبادات کو خدا تک پہنچانے کا ذریعہ بھی ہے۔ایک انمٹ ہستی ہونےکے باوجود اگنی فنا ہونے والی مخلوق کے درمیان ان کے گھروں میں رہتا ہے۔ اس کے بغیر دنیاکبھی بھی اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی ہے۔ 8قدیم ہندووٴں کے اس عقیدے کے برعکس اگر ہم دیکھیں تو آگ (اگنی) جسے قدیم ہندو اپنا دیوتا مانتے تھے،اپنا وجود دیگر اشیاء جیسے ہوا، لکڑی، کوئلہ وغیرہ کی مدد کے بغیر برقرار نہیں رکھ سکتی ہے۔ آگ جلانے کے لیے جس قسم کے مادّے کی ضرورت پڑتی ہے وہ براہ ِراست یا بالواسطہ زمین سے ہی نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ آگ کو چاہے کوئی خدا مانے یا نہ مانے، اس کا کام جلانا ہے اور وہ ان تمام چیزوں کو جلا ڈالتی ہے جو اس کی لپیٹ میں آجاتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی قدیم و جدید ہندو تہذیب میں اگنی کو خدا ہی مانا جاتا ہےاور لوگ ماضی کی طرح حال میں بھی اس کی پوجا کرتے ہیں۔

شیوا(Shiva)

شیوا (Shiva) ہندومت میں اہم دیوتا تصوّر کیا جاتا تھا۔ ہندو مذہب میں اس کی بہت تعظیم کی جاتی تھی، اس دیوتا کے ماننے والوں کو شیوائی(Shaivites) کہا جاتا تھا۔ اس کی پورے بھارت میں پرستش کی جاتی تھی۔ شیوا ہندو مذہب میں ایک ایسا دیوتاتھا جو تباہی کرنے والا اور دوبارہ زندگی دینے والا تھا۔ شہوت انگیزی اور شہوانی لذّات جیسے تصوّر ات کے حوالے سے بھی مشہورتھا۔ ہندو دیومالائی تصوّر ات میں شیوا دیوتا کو عابد اور زاہد دیوتا کے طور پر تصوّر کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے تخلیق کی موٴنث طاقت شکتی (Shakti)کے ساتھ مل کر کائنات کو بنانے والا بھی تصوّر کیا جاتا تھا۔9

شیوا کو ویدی دیوتا" رُدرا"(شور مچانے والا)سے منسلک بھی تصوّر کیا جاتا تھا۔شیوا کو راکھ پر بیٹھا ہوا دکھایا گیا تھا جس میں اس نے چیتے کی کھال کا لباس پہنا ہوا تھا اور ہاتھ میں چھوٹے ڈھول کے ساتھ تَرشول تھاما ہوا تھا۔ اس کے کندھوں کے گرد کالا ناگ لپٹا ہوا آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ شیوا(Shiva) کی مرکزی صورت ایک بیضوی شکل کا لمبا ڈنڈا ہے جسے شیو لنگ کہا جاتا ہے۔ ایک دیومالائی تصوّر کے مطابق شیو لنگ (Shiv Linga) کی ابتدا ایسے ہوئی کہ دیوتا براہمہ (Brahma)اور وشنو (Vishnu)آپس میں یہ بحث کررہے تھے کہ کون کائنات کا طاقتور بنانے ولا ہے؟ دونوں اسی بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ ایک تیز روشنی کا حامل قوی ہیکل ڈنڈا نمودار ہوا۔ براہمہ اور وشنو اس کی اونچائی اور گہرائی کو جانچنے میں ناکام ہوگئے، تو لنگ شیوا دیوتا کو منکشف کرنے کے لیے کھلا۔قدیم ہندو عقائد کے مطابق اصلاًشیو ا کے شیو لنگ کی قوت بلا مبالغہ جنسی ہے۔اس نظریہ کے تحت، شیو لنگ جنسی خواہش کی صلاحیت کو بیدار کرنے کی نمائندگی کرتا ہے، اورغالباًاسی لیے شیوا کو تنے ہوئے مردانہ عضو تناسل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے جو توانائی اور قوت و صلاحیتِ تخلیق کی نشاندہی کرتا ہے۔ 10

پاروتی(Parvati)

پاروتی(Parvati)،(سنسکرت میں پہاڑوں کی بیٹی) کو ہندو دیوتا شیوا کی بیوی ، اُما (Uma)بھی کہا جاتا تھا۔11 پاروتی، پہاڑوں کی دیوی ،عظیم دیوی ماں کا روپ تھی۔ پاروتی کی شادی ہمالیہ(Himalayan) کے دیوتا ہماوت(Himavat) سے ہوئی تھی۔ اسے عظیم کنواری دیوی کے طور پر بھی مانا جاتا تھا۔ پاروتی کا شیوا دیوتا (Shiva)سے تعلق، شیوا دیوتا کا ستی(Sati) کے ساتھ تعلق کے تسلسل میں تھا۔ جب ستی دیوی مرگئی تو خداوٴں نے چاہا کہ شیوا کو دوبارہ رشتۂ ازدواج میں منسلک کیا جائے ، پھر دیوتاوٴں نے ستی (Sati)کو پاروتی(Parvati) کے روپ میں دوبارہ زندہ کیا تھا۔ 12 پاروتی کو پابندِ اخلاقیات، زن منکوحہ کے طور پر جانا جاتا ہے، اور شیوا کے ساتھ اس کی ازدواجی وفاداری پر کبھی بھی سوال نہیں کیا گیا۔ پاروتی دیوی عورتوں کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ عورت کا مقصد اپنے شوہر کی اطاعت کرنا ، بچوں کی دیکھ بھال اور اپنے گھرانے کو منظم کرنا ہے۔13

گنیشا(Ganesha)

گنیشا(Ganesha)، جو" گنیسا "اور" گنپتی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہندی دیومالائی تصوّر ات میں ایک بہت اہم دیوتامانا جاتا تھا۔ گنیشا اپنے ہاتھی نما سر اور انسانی جسم کی بدولت بہت زیادہ مشہور ہے، اس کی یہ ہیئت روح(آتما) اور مادّه (مايا) كا تصوّر پيش کرتی تھی۔14 گنیشا عقل ،فصاحت و بلاغت، فنون ، خطاطی، مزاحمت کو ختم کرنے والا، پہلا کاتب، خدائی لکھاری اور اس کے علاوہ ادب کےسرپرست دیوتا کے طور پر جانا جاتا تھا۔ قدیم ہندو گنیشا کو حکمت ، صلاحیت، خوبصورتی، فصاحت و بلاغت میں کشش ، اور کامیابی و ترقی کا خدا،اور گناس نامی شیطانی بونوں کا حاکم تصوّر کیا کرتے تھے۔15

کالی (Kali)

کالی(Kali) کومہاکال دیوتا کی بیوی کے طور پر جانا جاتا تھا۔اس دیوی کو ایک نہ ختم ہونے والا وقت، شکتی کی علامت، سب سے ابتدائی طاقت اور مخلوقات کی تخلیق کا سبب، کائنات کی تمام چیزوں کی سلامتی اور انہیں تباہ وبرباد کرنے والی، حیات افزا اور حیات کش ذات کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ کالی کو کالی دیوی اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ وہ اندھیروں اور تخلیقِ کائنات کی اصل حالت کی نمائندگی کرنے والی دیوی تھی۔ 16

وشنو(Vishnu)

وشنو (Vishnu)دیوتا ہندووٴں کے تین بڑے خداوٴں میں سے ایک تھا۔17 وشنو شہنشاہ دیوتا کے طور پر جانا جاتا تھا جس کا بہت زیادہ تعلق دھرما(Dharma) سے تھا۔ اس کا تعلق مکمل اور حقیقی طور پر اواتر(Avatara)کی تعلیمات سے تھا۔ قدیم ہندووٴں کے نظریہ کے مطابق دنیا میں جب بھی نا انصافی اور بد امنی کے خوف منڈلانے لگتے تھے تووشنو امن و استحکام کےنظام کو نافذکرتا تھا۔18

دُرگا(Durga)

دُرگا(Durga)ہندوؤں کی ایک دیوی تھی۔ اس دیوی کو مشرقی ہندوستان میں بہت مانا جاتا تھا۔اس کی صورت اس طور پر بیان کی جاتی ہے کہ اس دیوی کے آٹھ بازو تھےجس نے ہتھیار تھامے ہوئے تھےاور یہ شیر یا چیتے پر سوار تھی۔ اس کی پوجا کرنے والوں کو سکتاز(Saktas) کہا جاتا تھا۔19

کام (Kama)

کام دیو ہندو دھرم میں محبت کا خدا مانا جاتا تھا۔ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ شیوا دیوتا استغراق اورسنیاسی دست پرداری کی حالت میں تھا۔ خداؤں کی شدید خواہش تھی کہ شیوا شادی کرے اور اس کی اولاد ہو، کیونکہ وہ یہ جانتے تھےکہ اس کی اولاد اس قابل ہو گی کہ وہ شیطان تارکا (Taraka)کو پست کر سکے گی جو انہیں تکلیف دے رہا تھا۔ انہوں نے محبت کے دیوتاکو شیوا کے اندر شہوانی لذات کو بیدار کرنے کے لیے بھیجا جس نے اس پر پھولوں کے تیر برسائے۔شیوا کو کام دیوکی اس گستاخی پر بہت غصہ آیا اور اس نے کام دیوکو اپنی تیسری آنکھ سے جلا ڈالا۔ کام دیوا کی بیوی "رتی" کی غم سے بھری ہوئی درخواست پر شیوا دیوتا کا غصہ ٹھنڈا ہو ا اور اس نے محبت کے دیوتا کو دوبارہ زندگی دے دی، لیکن اس کو جسم نہیں دیا۔ اسی وجہ سے وہ نظر نہیں آتا۔ 20

سرسوتی (Sarasvati)

سرسوتی(Sarasvati) طاقت کی دیوی اور پیدا کرنے والے دیوتا برہمن کی بیوی کے طور پر جانی جاتی تھی ، اس کے بارے میں یہ عقیدہ تھا کہ یہ تمام مخلوق کی ماں ہے۔ رِگ وید میں لکھا ہے کہ سرسوتی دریا کی نمائندگی کرنے والی اور اس کے انتظام کو سنبھالنے والی دیوی ہے۔ مزید یہ کہ وہ زرخیزی اور شفافیت کی بھی دیوی ہے۔ یہ دیوی شفاف سفید رنگ کی صورت کی حامل تھی۔ چونکہ سرسوتی تمام سائنس، فنون، دستکاری اور ہنر مندی کی نمائندہ تھی اس وجہ سے اس کا غیر معمولی طور پرحسین اور دلکش ہونا ضروری تھا۔ کنول کے پھولوں سے سجی نشست پر بیٹھی شفاف سفید لباس کو زیب تن کیے ہوئے سرسوتی نے اپنے چار ہاتھوں میں وینا(لوت)، اکسامالا(تسبیح)، پستکا(کتاب) کو تھاما ہواہے۔ 21

لکشمی (Lakshmi)

لکشمی(Lakshmi) دولت کی دیوی، سرسوتی علم کی دیوی کے بعد سب سے زیادہ پسند کی جانے والی دیوی تھی۔ وشنوکی بیوی ہونے کے ناطےلکشمی دیوی کثیر التعداد طاقتوں اور دولت کی دیوی تھی۔ عام طور پر لکشمی دیوی جاذبِ نظر حد تک حسین اور کنول کے پھولوں پر کھڑی دکھائی جاتی تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں کنول کے پھول تھامے ہوئے تھی۔ شایداسی وجہ سے لکشمی دیوی کو "پدما" اور "کمالا" کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا۔ اسے کنول کے ہارسے بھی آراستہ کیا جاتا تھا۔ بسا اوقات لکشمی دیوی کو اس طرح بھی دکھایا گیا کہ ہاتھی سرسوتی دیوی کے دونوں پہلوؤں پر کھڑےصراحیوں سے اس پر پانی انڈیل رہے ہیں۔ ہندو تصوّر ات کے مطابق یہ صراحیاں آسمانی دوشیزاؤں کی طرف سے پیش کی جاتی تھیں۔ لکشمی دیوی کومختلف رنگوں کا حامل قرار دیا جاتا تھاجس میں کالا، گلابی، سنہری پیلا یا سنہری سفید شامل تھے۔22

ان کے علاوہ بھی ہندومت میں لاتعداد دیوی، دیوتا ؤں کا تصوّر پایا جاتا تھا اور آج بھی پایا جاتا ہے البتہ ان میں سے صرف ہی کے بارے میں مختصر تفصیل پر اکتفا کیا گیا ہے:

سوریا (Surya)

سوریا (Surya)یعنی سورج دیوتا، ویدی دور کا تیسرا بڑا دیوتا تھا۔ اسے ہمارے نظامِ شمسی کا مرکز قرار دیا جاتا تھا اور یہ چاند ،زمین اور نادیدہ دنیا کے درمیان سرحد کا کام دیتا تھا۔

وایو(Vayu)

وایو (Vayu) کا شمار ہندوؤں کے قدیم دیوتاؤں میں ہوتا ہے۔ ویدی دور میں اسے بے حد اہمیت حاصل رہی ہے، یہ ہواؤں اور طوفانوں کا دیوتا تھا۔

اندر انی (Indrani)

اندرانی(Indrani) کو کبھی بڑی دیوی تسلیم نہیں کیا گیا اور یہ صرف اندر دیوتا کی بیوی ہونے کے ناطے ہندؤں کے لیے قابل تعظیم تھی۔ اسے ایندری، شچی ، ساچی ، شاسی، اور شسی کے علاوہ پاؤلومی کے ناموں سے بھی پکارا جاتا تھا۔

ورون (Varuna)

ورون(Varuna) سب سے قدیم اور رگ وید(Rig Veda) کے چار سب سے بڑے دیوتاؤں میں شامل تھا۔ اسے کل آسمان کا دیوتا، آسمان اور زمین کا خالق، کائنات کا حکمران ، دیوتاؤں اور انسانوں کا فرمانروا اور لا محدود علم کا مالک قرار دیا جاتا تھا۔

وینکٹ شواڑ (Venkat shivad)

اسے وینکٹ یشور، وینکٹ چیلاپتی، بالاجی اور بتھال بھی کہتے تھے ، اس کا رنگ سیاہ اور چار ہاتھ تھے، اس نے اپنے بالائی دو ہاتھوں میں لوہے کا چکر ( طاقت کی نشانی ) اور سیپ ( وجود کی نشانی) پکڑا ہوتا تھا جبکہ نچلے دونوں ہاتھ جھکائے ہوئے تھے، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے پیروکاروں کو اپنے تحفظ کے لیے خود پر اعتماد اور اطاعت کرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔

کارتکیہ (Kartekiya)

کارتکیہ(Kartekiya) شیوا اور پاروتی کا دوسرا بیٹا تھا۔ اسے سبرا منیم ، اسکندر، گوہا ، شدھا نن یا سن مکھ ( چھ چہروں والا ) بھی کہا جاتا تھا ، وہ ایک مکمل شخص کی نمائندگی کرتا تھا جبکہ ہندوؤں کے ہاں وہ یونانیوں کے مارس(Mars) اور ایریز(Ares)کی طرح جنگ کا دیوتا تھا۔

ہنومان(Hanuman)

ہنومان(Hanuman) بندر دیوتا کہلاتا تھا۔یہ رامائن کے ہیرو رام کا پرستار تھا، بنیادی طور پر حوصلے، امید، علم ، ریاضت اور فہم و فراست کا دیوتا تصوّر کیا جاتا تھا ۔

سوریا نارائن(Suryanarayana)

سوریانارائن (Suryanarayana) زندہ اور جیتا جاگتا دیوتا تھا ، جسے ہر کوئی دیکھ سکتا تھا اور اس کی پرستش کرسکتا تھا ، اس کے باوجود کہ وہ ہر ایک کو نظر آتا تھا ، اسے مختلف شکلوں میں پوجا جاتا تھا ، وہ زندگی اور وقت کا دیوتا تھا ، دولت، عزت، صحت اور طویل عمر کا ذمہ دار سوریا نارائن ہی تھا ۔

انگرک(Angarak)

انگرک(Angarak) یا مارس (Mars)کو جنگ جوؤں کا دیوتا مانا جاتا تھا ، اس کا رنگ سرخ تھا ۔

کیتو(Keto)

کیتو دیوتا اپنے پجاریوں کے خاندان سے بیماریاں اور سانپ کے کاٹنے سے نمودار ہونے والے زہریلے اثرات دور کرتا تھا ، وہ صحت ، دولت ، مویشیوں اور خوش حالی کا دیوتا سمجھا جاتاتھا ۔

آدیتی (Aditi)

آدیتی (Aditi) ہندوؤں کی عظیم دیوی تھی۔ روایت ہے کہ آدیتی ایسی عورت تھی جس نے سور ج کا لباس پہن رکھا تھا۔ سورج دیوی کی حیثیت سے وہ راس چکر کے بارہ (12) سیاروں اور جنت کی روشنیوں کی ماں تھی ۔

اوشاس(Aushas)

یہ ویدی دیوی تھی، اسےصبح کی دیوی بھی کہا جاتا تھا۔ 23

توشتری (Toshtri)

اِس دیوکو توستری کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ، رگ وید میں اسے مثالی فنکار اور صناع لکھا گیا ہے۔

عقیدۂ تثلیث (تری مورتی)

ہندومت کے عقائد میں تری مورتی مخصوص اہمیت کی حامل تھی۔تری مورتی (سنسکرت میں تین صورتیں) ہندومت میں تین دیوتاوٴں یعنی براہمہ، وشنو اور شیوا کا اتحاد ہے۔یہ تین دیوتاوٴں کو ایک روپ میں سمو دیتے تھے جس کی تین شکلیں ہوتی تھیں ۔ہر دیوتا تخلیق کے کسی جزو کا ذمہ دار ہوتا تھا۔24 برہماسےمرادخالق تھا۔یہ خداکائنات کانقطۂ آغاز مانا جاتا تھا۔لہٰذاہندووٴں کے نزدیک اس کادرجہ بھی بہت اونچا تھا۔وشنوکامعنیٰ نگہبان یا چلانے والا تھا۔ جیسا کہ براہمہ اس کائنات کا خالق تھا اسی طرح اس کائنات کا محافظ وشنو دیوتا تھا اورشیواسےمراد تباہ کرنےوالاتھا ۔ 25

ان گنت دیوتاؤں اور دیویوں پرایمان کےساتھ ساتھ ہندوؤں میں کئی دیگر اعتقادات ونظریات بھی پائے جاتےتھے اور ان کے یہ سارے خدا اور عقائد صرف ماضی میں ہی نہیں تھے بلکہ آج بھی ان کی پوجا ہندوستانی معاشرے اور تہذیب میں کی جاتی ہے۔ ان کے دیگر مذہبی عقائد کی تفصیلات ذیل میں موجود ہیں:

نظریہ تقدیر

تمام ایشیائی اقوام کا یہ نظریہ تھاکہ زندگی کے کل واقعات اس مضبوطی کے ساتھ پہلے سے مقرر ہیں کہ اس میں تبدیلی انسان کی طاقت سے باہر ہے اور یہی نظریہ اہلِ ہند کا بھی تھا چنانچہ اہل ہند کے نظریات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر گستاؤلی بان لکھتا ہے :

  اہل ہند کے مطابق جو نہیں ہونے والا وہ ہرگز نہیں ہوتا ہے اور جو ہونے والا ہے اس کے خلاف کبھی نہیں ہوتا، یہ استدلال فکر کے زہر کا تریاق ہے بس ہم اسے کیوں نہ کام میں لائیں ۔ قسمت نے ہماری پیشانی پر ایک سطر چند حرفوں کی لکھی ہے جس کو ہمارا عالم سے عالم شخص اپنے علم سے مٹا نہیں سکتا، جو سمندر میں ڈوب جائے یا پہاڑ پر سے گرے یا آگ میں گرجائے یا اسے سانپ ڈسے اگر اس کی زندگی ہے تو وہ سلامت رہےگا۔اس دنیا کے کل کام قسمت پر بھی ہیں اور انسان کی کوشش پر بھی، لیکن ان دونوں میں قسمت کو کوئی جانتا نہیں کہ کیا ہے، لیکن انسانی کوشش سے کام لیا جاسکتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ قسمت کا خیال رکھتے ہوئے بھی اپنی کوشش نہ چھوڑے۔ بلا کوشش کے کوئی سرسوں سے تیل نہیں نکال سکتا۔

نظریۂ روح

روح کے متعلق منو کا عقیدہ یہ تھاکہ: روحِ مطلق یعنی براہمہ (Brahma) تمام مخلوقات میں سائر ہے۔ خواہ وہ اعلیٰ درجے کی ہوں یا ادنیٰ درجے کی ۔ اس روحِ مطلق میں سے بے انتہا شکلیں اس طرح نکلتی ہیں جس طرح آگ سے چنگاریاں۔ یہ شکلیں عالم کی مختلف مخلوقات کو حرکت میں لاتی ہیں ۔ جس وقت یہ اعتقاد ہو کہ روحِ مطلق تمام مخلوقات میں سائر و دائر(موجود) ہے اور ساری مخلوقات اس روحِ مطلق کا مظہر ہیں تو پھر لازم آیا کہ انسان ہرذی روح کا خواہ وہ خطرناک سے خطرناک درندہ ہو یا ضعیف سے ضعیف کیڑا لحاظ رکھے۔ جو شخص خود اپنی ذات میں اس روحِ مطلق کا احساس کرلے، جو تمام مخلوقات میں سائر ہے تو پھر اس کے نزدیک کل مخلوقات کا درجہ مساوی ہوجاتا ہے اور وہ اعلیٰ درجےکو پہنچ کر براہمہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ 26 روح کو قدیم اہلِ ہند نا قابل ہلاک مانتے تھے چنانچہ بھگود گیتا میں مذکور ہے۔

  O descendant of Bharata, he who dwells in the body can never be slain. Therefore, you need not grieve for any living thing.
  اے بھرت کے بیٹے! جسم کے اندر رہنے والی آتما کبھی نہیں ماری جاسکتی۔ اس لیے تمہیں کسی بھی جاندار کے لیے غم نہیں کرنا چاہیے۔ 27

اپنشد اور گیتا کی بیشتر تفاسیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوفلاسفہ کے نزدیک رُوح غیر فانی ہے۔ گیتا میں شری کرشن سے منسوب بیان کے مطابق روح ہمیشہ قائم رہتی ہے مگر اپنے اعمال کی بنا پر ہر جنم میں اجسام بدلتی رہتی ہے۔وہ اس کی جاودانی اور ابدیت پر زوردیتے ہوئے کہتے تھےکہ :

  23. The soul can never be cut to pieces by any weapon, nor burned by fire, nor moistened by water, nor withered by the wind.
  24.The individual soul in unbreakable and insouluble, and can be neither burned nor dried. He is everlasting, present everywhere, unchangeable, immovable, and eternally the same.
  کسی ہتھیار کے ذریعے آتما کو کاٹا نہیں جاسکتا، نہ آگ اسے جلا سکتی ہے، نہ پانی اسے گیلا کرسکتا ہے، نہ ہوا اسے سکھا سکتی ہے۔
یہ انفرادی آتما اٹوٹ اور ناقابل حل ہے،اسے نہ جلایا جاسکتا ہےنہ سکھایا جاسکتا ہے۔ وہ دائمی ہے، ہر جگہ موجود ہے۔ کبھی نہیں بدلتی، نہ وہ ہلتی ہے۔ وہ ابدی طور پر یکساں ہے۔ 28

قدیم ہندو موت کے بعد روح کا کسی اور جسم میں منتقل ہونے کا عقیدہ بھی رکھا کرتے تھے ۔ چناچہ بھگود گیتا میں مذکور ہےکہ:

  13.As the embodied soul continuously passes, in this body, from boyhood to youth to old age, the soul similarly passes into another body at death. A sober person is not bewildered by such a change.
  22. As a person puts in new garments, giving up old ones, the soul similarly accepts new material bodies, ginning up the old and useless ones.
  "جس طرح آتما اس جسم میں بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے دور سے گزرتی ہے، اسی طرح موت کے وقت بھی دوسرے جسم میں چلی جاتی ہے۔ ایسی تبدیلی سے دھیر پرش(صابر یا عقلمند شخص) پریشان نہیں ہوتا۔"
"جس طرح انسان پرانا لباس چھوڑ کر نیا لباس پہنتا ہے۔ اسی طرح آتما پرانے اور ناکام اجسام چھوڑ کر نئے اجسام حاصل کرتی ہے۔"29

عقیدۂ حیات بعدالموت

قدیم اہلِ ہند کا یہ عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد ان کی روح کسی جانور یا انسان میں داخل ہو کر اس قت تک کر بار بار اس دنیا میں لوٹتی ہےجب تک کہ یہ روح مُکتی پاکر روحِ اعلیٰ میں تحلیل نہ ہوجائے ۔ ان کے نزدیک یہ بھی ممکن تھا کہ یہ روح دوبارہ کسی پودے یا غیر جاندار چیز کے روپ میں بھی لوٹ آئے۔ حیات بعد الموت کا یہ نظریہ بعد کے ویدی ادوار میں وجود میں آیا ۔اپنشد میں اس نظریہ کی بہت اہمیت تھی۔ کچھ فرقوں کے نزدیک ایک روح کو مکتی پانے کے لیے چراسی لاکھ (84،00000) دفعہ پیدا ہوکر دنیا میں دوبارہ لوٹنا پڑتاہےاور اس سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے کچھ لوگو ں نے راہبانہ طرز زندگی کو اپنا لیا تاکہ وہ دنیا کی لذتوں سے دور رہ کر دیگر گناہوں سے بچے رہیں اوران کے حساب میں گناہوں کا اضافہ نہ ہو۔ ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ اگر انسان ایک جنم میں بہت گناہ کرتا ہےتو اگلے جنم میں اسے ان گناہوں کی سزا بھگتنی پڑتی ہے اور سزا کے طور پر اس کو جانوروں، جہنمی مخلوق یا بدروحوں کی شکل میں بار بار دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ چونکہ اس سزا کی نوعیت اتنی بھیانک تھی اسی لیے قدیم ہندومت کے تمام فرقوں کی سر توڑ کوشش ہوتی کہ اس سے بچا جائے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ اگر وہ اچھے عمل کرتے ہیں تو ان کو دیوتا ؤں، ان کی اولاد یا عام انسانوں کی شکل میں دنیا میں بھیجا جاسکتا ہے۔ 30

تصوّرِ سورگ

عام معنوں میں سُوَرگ (جنت) سے مراد وہ مقام لیا جاتا تھا جہاں نیک اعمال کرنے والوں کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی۔ ہمیں ویدوں، اپنشد، گیتا اور منوشاستر میں سُوَرگ کا تصوّر بالکل واضح ملتا ہے۔ یگیہ کرنے والوں کو بہت سے مقامات پر اس کی خوشخبری دی گئی ہے۔ آریا سماج والوں کا عقیدہ تھا کہ سورگ(بہشت) کہیں اور نہیں بلکہ اسی دنیا میں لطف و راحت اٹھانے کا نام ہے۔ جبکہ ویدوں کے مطابق بہشت، دنیا سے الگ آسمان کے تیسرے حصے میں واقع تھی۔ البتہ یہ سُوَرگ روحانی ہے یا جسمانی؟ اس کا لطف صرف روح کو حاصل ہوگا یا جسم کو بھی؟ اس بارے میں وید اس امر کی تائید کرتی تھی کہ سُوَرگ روحانی کیفیت نہیں بلکہ جسمانی ہوگی۔ قدیم ہندو اس سکون کو حاصل کرنے کےلیے اپنے دیوتاوٴ ں کے حضور درخواست منتروں کے ذریعے کرتے ہوئے کہتے تھے کہ:

  59.Our Father's Fathers and their sires before them, they who have entered into air's wide region,
  For them shall self-resplendent Asuniti form bodies now according to her pleasure.
  ہمارے جد اور ان کےاجداد، جو عالمِ برزخ میں داخل ہوچکے ہیں۔ ان کے لیے، اے ارواح کے لیجانے والے! حتی المقدور اجسام بنا۔31
  3.There where our virtuous friends, who left behind them theirbodily infirmities, are happy,
  Free from distortion of the limbs and lameness, may we behold,in heaven, our sons and parents.
  وہاں جہاں ہمارے نیک دوست اپنے جسم کا روگ چھوڑ کر خوش ہیں۔ اور اعضا کی کجی اور ادھورے پن سے آزاد ہیں۔ ہم انہیں، اپنے بیٹوں اور والدین سب کو بہشت میں دیکھیں گے۔ur
  5.Where, having left all sickness of their bodies, the pious lead, as friends, their lives of gladness
  Nigh to that world approached the twin calves' mother. Let her not harm our people and our cattle.
  جہاں ہمارے نیک دوست اپنے جسم کا روگ چھوڑ کر، اعمال کی جزا کے جسم سے لطف اٹھاتے ہیں۔ وہاں ہم اپنے والدین اور بچوں کو دیکھیں۔ سیدھا اوپر آسمان اور عالم بالا کو چڑھ کے جس کو لوگ بہشت کہتے ہیں۔33

اتھر وید میں کئی مقامات پر سُوَرگ کے لیے سُکرِ تسیہ، سکر تام، دیویاکم وغیرہ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ البتہ ویدوں میں بیشتر مقامات پر جہاں سورگ کا ذکر ہے، اس کے بعدلفظ "لوک"آیا ہے جس کے معنی "مقام "یا "جہان "ہے ،یعنی یہ کسی دوسرے جہان کا ذکر ہے جہاں تمام خواہشات پوری کی جائیں گی اور انسان دلعزیز زندگی گزارے گا۔ ویدوں کے مطابق کائنات میں کل تین جہان ہیں۔ اول یہ دنیا جہاں ہم رہ رہے ہیں یعنی زمین، دوم خلا جسے انترکش کہا گیا ہے اور سوم آسمان ہے جہاں براہمہ رہتا ہے۔ ویدوں کے ان منتروں سے مقامِ بہشت کے متعلق یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہندو مذہب کے مطابق بہشت تیسرے مقام میں ہے۔

تصوّرِ نرک

برے اعمال کرنے والوں کی سزا کے لیے مقرر کی گئی جگہ کو "نرک" کہا جاتا تھا۔ یعنی جہاں بدکاروں کو ان کی بداعمالی کا صلہ ملے گا۔ وید اور اپنشد میں برے اعمال کے انجام اور دھرم کے مخالفوں کے متعلق جو منتر ملتے ہیں اس میں نرک کا تصوّر بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی منتروں میں ایسے لوک(جہاں)کے بارے میں بھی بتایا گیا ہےجہاں بدکاروں اور دھرم کے دشمنوں کو سخت سزادی جائے گی۔ منو شاستر باب14،شلوک 87سے 90 میں نرک کے مختلف نوع کے اکیس (21) طبقات کا ذکر ہے۔ وشنو پُران ،کتاب دوئم کے چھٹے باب میں نرک کے اٹھائیس (28) طبقات کا نام ہے۔ کہنے کو تو وید، پران اور منو دھرم شاستر میں جتنے نام آئے ہیں ان کی تعداد بہت ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلو ہوتا ہےکہ درحقیقت یہ سات طبقات ہیں باقی تمام نام مترادف ہیں۔ اور ان سب کا مقصد گناہگاروں کو سزا دینا ہے۔رگ وید منڈل کے ان منتروں میں دوزخ کا تصوّر انتہائی واضح انداز میں ہےجس کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر وہ شخص جو ہندو مذہب کے مطابق گناہ گار تھا ا س کا ٹھکانہ ان کی تعلیمات کے مطابق بھی جہنم ہی تھا ۔

  (1). Indra and Soma, burn, destroy the demon foe, send downward, O ye Bulls, those who add gloom to gloom.Annihilate the fools, slay them and burn them up: chase them away from us, pierce the voracious ones.
  اے اندر اور سوم دیوتا! جلادو، برباد کردو، شیطان دشمن کو۔ انہیں(نرک کے) نچلے طبقے میں ڈال دو، اے گائیں، جو تاریکی میں اندھیرا شامل کرتا ہے۔
ان احمقوں کو تباہ و برباد کردے ، انہیں مار ڈال اور انہیں جلا ڈال، انہیں ہم سے دور کردے، نامکمل ،چھید زدہ اور حریص لوگ۔
  (2). Indra and Soma, let sin round the wicked boil like as a caldron set amid the flames of fire.
  Against the foe of prayer, devourer of raw flesh, the vile fiend fierce of eye, keep ye perpetual hate.
  اے اندر اور سوم دیوتا!گناہ، گناہگاروں کے گرد اس طرح جوش مارے جس طرح آگ کے شعلوں میں پانی جوش مارتا ہے۔
عبادت کے دشمن کو، گوشت کےنگلنے والے کو، خبیث دیو،خونخوار آنکھوں والے کو ، انہیں ہمیشہ نفرت میں رکھ۔
  (3). Indra and Soma, plunge the wicked in the depth, yea, cast them into darkness that hath no support,So that not one of them may ever thence return: so, may your wrathful might prevail and conquer them.
  اے اندراور سوم دیوتا!بدکاروں کو نہایت گہری جگہ میں غرق کرو۔ وہاں ان کو ایسی تاریکی میں ڈال دو جہاں سے وہ نکل نہ سکیں۔
تاکہ ان میں سے کوئی کبھی واپس نہ آئے اور تمہارے غضب کا سلسلہ جاری رہے اور ان پر حکمرانی کرسکو۔
  (4).Indra and Soma, hurl your deadly crushing bolt down on the wicked fiend from heaven and from the earth.Yea, forge out of the mountains your celestial dart wherewith ye burn to death the waxing demon race.
  اے اندراور سوم دیوتا!تم بدکار پر اپنا ہلاک کرنے والا بھالا آسمان اور زمین پر سے مارو۔
ہاں، اپنے آسمانی نیزے کی لو پہاڑوں سے تپاوٴ جس سے مومی شیطانی طاقتیں جل کر مر جائیں۔
  (5). Indra and Soma, cast ye downward out of heaven your deadly darts of stone burning with fiery flame,Eternal, scorching darts; plunge the voracious ones within the depth, and let them sink without a sound.
  " اے اندرا اور سوم دیوتا!ڈرانے والی آگ سے جلتا ہوا اپنا جان لیوا پتھر کا نیزہ آسمان سے نیچے داغو،
دائم، جلانے والا؛ انہیں گہرائی میں غرق کرو جو ہمارے خلاف لڑتے ہیں لالچی لوگوں کو گہرائی میں غرق کرو۔انہیں ایسے غرق کرو کہ وہ آواز بھی نہ نکال سکیں۔"
  17. She too who wanders like an owl at night-time, hiding her body in her guile and malice, May she fall downward into endless caverns. May press-stones with loud ring destroy the demons.
  اس عورت کو بھی جو رات کے وقت الّو کی طرح ادھر ادھر پھرتی ہے، اپنے جسم کو دھوکے بازی اور کینہ پروری میں چھپاتی ہے۔
وہ عورت انتہائی گہرے کنویں میں گرے۔ اس شیطا ن کو وزنی، بلند آواز پتھروں کے ساتھ دبادیں۔ 34
  9. Affrighted by the Varana let my rivals near akin to mePass to the region void of light: to deepest darkness let themgo.
  ورانا سے ڈرائے ہوئے میرے مخالف قریبی شریک اس عالم میں داخل ہوں کہ جہاں روشنی نہیں نہایت گہری تاریکی ہو۔ 35

دیگر مذاہب

ہندوستان میں جب مختلف مذہبی گروہوں کا ظہورہوا تواطوارِعبادت میں اختلاف بھی نمایاں ہوا۔عبادت خانوں کے نام بدل گئے۔ مندرصرف ہندوؤں کےلیے مخصوص رہےجبکہ دیگرمذاہب کےعبادت خانےمختلف ناموں سےموسوم ہوئے۔مگرہندومذہب اجمالی طورپرچونکہ بڑامذہب تھا اسی لیے اسےمرکزیت حاصل رہی۔ ہندوستان میں جن فرقوں اورتحریکوں نے مذہب کی شکل اختیارکی وہ درج ذیل ہیں:

دراوڑی مذہب

دراوڑی اقوام میں سحر و فسوں اور حیوان پرستی کا بہت چرچا تھا۔ اور یہ بھی سمیریوں کی طرح لاتعداد دیوتاؤں کاعقیدہ رکھتے تھے۔ ان کے یہاں ارواحِ خبیثہ کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ دراوڑی اقوام میں دھرتی ماتا کا تصوّر پایا جاتا تھا۔

شجر پرستی

وادئ سندھ کے قدیم باشندے درختوں کو نہ صرف متبرک خیال کرتے تھے بلکہ ان کی پرستش کرنے کے بھی وافر ثبوت ملے ہیں۔ وادئ سندھ کے قدیم باشندے درختوں میں روح کے وجود پر عقیدہ رکھتے تھے۔ درختوں کی روح کی انسانی شبیہ تیار کی جاتی تھی اور اس کی پرستش کی جاتی تھی۔

حیوان پرستی

وادئ سندھ میں حیوان پرستی کا بڑا زور تھا۔ ان جانوروں میں بیل ، شیر، ہاتھی، بھینسا، گینڈا شامل تھے۔ کچھ ایسے جانوروں کی شبیہ بھی ملی ہیں جو فی الحقیقت کوئی وجود نہیں رکھتے تھے۔ مثلاً مرکب قسم کے جانور جن کا ایک حصہ بکری کا، ایک حصہ بیل کا اور سر انسان کا یا ایک سینگ والا بیل، ان جانوروں کا تعلق یقیناً سحر و فسوں سے تھا۔

مظاہر پرستی

ابتدا میں آریاؤں کے مذہب میں مظاہرِ قدرت کی خفیہ طاقتوں کی پرستش بہت اہمیت رکھتی تھی۔ انہوں نے ہر مظہر کے الگ الگ دیوتا مقرر کیےتھے۔ مثلاً آگ کا دیوتا اگنی تھا ، اِندربارش اور گرج کا دیوتا سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح ہوا اور آسمان کے بھی جداگانہ خدا تھے۔ جو علی الترتیب وایو اور درونا کہلاتے تھے۔ ان کے یہاں دیوتاؤں کی مورت بنانے کا رواج نہ تھا۔36

فرقہ بندی

کوئی بااعتقادہندوکسی دیوتا کے ایک رخ کو لےلیتا تو اسی وقت ایک نیا فرقہ قائم ہوجاتا تھا جواس خاص وصف کی پرستش کرتا تھا۔ ان مذہبی فرقوں کے قائم رکھنے کے لیے برہمن ہی ہونا ضروری نہیں تھا بلکہ بہت سے نیچے درجہ کے اشخاص بھی مذہبوں کےبانی ہوتے تھے۔جس وقت کوئی شخص کچھ تھوڑےسےپیروکارجمع کرلیتاتو پھر وہ ایک گروہ بن جاتا تھا۔جب اس گروہ کا بانی گزرجاتاتو پھر دوسرےگروہ پیداہوجاتے جواس کی تعلیم کو اپنے طورپررائج کردیتے تھے۔ 37 ہندومذہب میں آنے والی تبدیلیوں کے زیرِ اثر پیداہونےوالےمذہبی طبقات میں جہاں خداؤں کی تفریق ہوئی وہیں ان طبقات میں ان خداؤں کے ماننےوالےمختلف فرقوں میں بٹ گئے تھے۔

وشنو کے فرقے

وشنو مذہب میں انسان اور خدا کے باہمی تعلقات پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ ان تعلقات کی تشریح میں راما نوج کے پیروؤں میں اختلاف رائے ہوگیا تھا۔ ایک فرقہ اس کا مدعی تھا کہ انسان اور خدا کے تعلقات کے قیام کی صورت میں ابتدا خدا کی طرف سے ہوتی تھی۔برخلاف اس کے دوسرا مکتبۂ فکر اس بات کا دعویدار تھا ،کہ خدا خود انسان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ انسان خود اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتا ہے۔

شیو مت کے فرقے

وشنو کے پیروؤں کی طرح شیو مت کے بھی متعدد فرقے ہوگئے تھے۔ ایک فرقہ پسو تپار( گھریلوجانوروں کے آقا) کا پجاری کہلاتا تھا۔ شیو کے اسما ئے صفات میں سے ایک اہم صفت "گھریلو جانوروں کا آقا" ہونابھی تھا۔ اس فرقے کا مقصد مصائب و آلام سے نجات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خدائے اعلیٰ کی عظمت کا حصول بھی تھا۔ اس فرقے کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اس فرقے کا پجاری مرنے کے بعد خدا کی قربت حاصل کرلیتا ہے۔

سیواسدھانت

ایک اور فرقہ سیواسدھانت کہلاتا تھا۔ جس کے معنی" شیو کا نظام "کیا جاتا تھا۔ اس فرقے میں خدا کا تصوّر موجود تھا۔ یہ لوگ روحوں کی بقا پر عقیدہ رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ مرنے کے بعد روحیں شیو سے جاملتی ہیں۔ 38

تانترا

تانترا سنکسرت زبان کا لفظ تھا39جس کے اصطلاحی معنی "خفیہ مذہبی رسوم" کے تھے۔ مردں میں سے جو ان رسوم کا پیروکار ہوتا اسے تانترک اور عورتوں میں سے جو اس مذہب کی ماننے والی کو تانترکا کہا جاتا تھا ۔ اس مذہب کی اکثر رسوم کا تعلق خفیہ طریقہ سے جنس کی تسکین اور ان چیزوں کے کھانے پینے سے تھا جن کا استعمال منع تھا جیسے کہ گوشت اور شراب۔ مزید یہ کہ یہ لوگ کالے جادو کے ذریعے دوسرے لوگوں کو نقصان بھی پہنچایا کرتے تھے اور کچھ لوگوں کو تو جان سے بھی مار دیا کرتے تھے۔ 40

جین مت

بدھ مت کی طرح جین مت بھی برہمنوں کی مذہبی اجارہ داری ختم کرنے، ہندو معاشرے کو فلسفہ کی اساس پر قائم کرنے اور ان کو قلبی و روحانی امن و سکون فراہم کرنے کے لیے معرض وجود میں آیا تھا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی نظریہ پیش کیا تھاکہ ہر ذی روح بشمول انسان حیوان، شجراور حجر کے لیے نجا ت کی صورت، بدن کے قفس سے آزاد ہونا ہے جبکہ دعائیں اور پوجا پاٹ لا یعنی ہیں۔ انسان، حیوان، شجرو حجر ہر چیز ذی روح ہے اور روح جب بدن کے قفس میں مقید کردی جائے تو اس کی نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ اس قفس کو توڑ کر اس سے آزاد ہوجائے۔

جین مت کے ماننے والوں کا یہ ماننا تھا کہ دعائیں اور پوجاپاٹ محض بے سود اعمال ہیں۔ جین مت نے اخلاقی اور ذہنی نظم وضبط کی اہمیت پر بڑا زوردیا تھا۔ بدن کے سارے تقاضوں کو نظر انداز کرنے میں نجات کا راز بتایا تھا۔ جین مت کے مذہبی پیشوا ترکِ ذات بلکہ فنائے ذات پر اتنا زور دیتے کہ کھانے پینے سے بھی دست کش ہوجاتے یہاں تک کہ وہ بھوک اور پیاس کی شدت سے دم توڑدیتے تھے۔ ایسی موت کو بڑی شاندار موت کہا جاتا تھا۔ ان کا دوسرا اصول "اَہنسا " (عدم تشدد)تھا۔ وہ کسی حیوان کی جان لینا تو کجا کیڑے مکوڑوں اور جڑی بوٹیوں کو تلف کرنا بھی بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں کھیتی باڑی بھی ممنوع تھی کیونکہ اس سے بھی کیڑے مکوڑے اور جڑی بوٹیاں تلف ہوجاتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ پیشہ صرف تجارت تھا۔ آہستہ آہستہ جین مت ہندودھرم کے نظریات سے متاثرہونے لگا۔ مذہبی لوگوں کی طرح انہوں نے بھی کئی دیوتاؤں کی حمد کے گیت گانے شروع کردئیےاور خود مہاویر کو بھی ایک دیوتا سمجھ لیا گیا اور اس کی پوجا پاٹ شروع کردی گئی تھی۔ 41

مذکورہ بالا تفاصیل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان کا مذہب آج بھی ماضی کی مثل محض مختلف آرا، ذاتی ساختہ تصوّر ات اور گھڑی ہوئی کہانیوں پر مشتمل ہے اور آج بھی کم و بیش یہ سارے عقائد و تصوّر ات اس میں ماضی کی مثل موجود ہیں،جس کامقصد انسان کو اپنے خالق حقیقی سے ملانا نہیں بلکہ فقط مذہب کی آڑ میں نفس کو خوش کرنا تھا۔ مذہب کے نام پر پروہت نوجوان لڑکیوں کو مندر میں وقف کرواکر ان سے بدفعلیاں کیا کرتے اور عوام کو سمجھاتے کہ یہ افعال دین کی سربلندی کے لیے اور ان لڑکیوں کے لیے بہت مفید ہیں جیسا کہ آج بھی یہ فعلِ قبیح کئی مقامات پر جاری ہے۔ اس کے علاوہ چڑھاووں کے نا م پر بھی یہ طبقہ عام لوگوں سے مال و تحائف جمع کرتا تھا۔ نتیجتاً اس مذہب کے روحانی پیشوا و دیگر پیروکار روحانیت اور قربِ خدا سے محروم رہے اور معاشرے کو سنوارنے کے بجائے اسے گمراہی کے اندھیروں میں دھکیلنے میں مصروف عمل رہے تھے اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔

 


  • 1 Madhu Baaz Wangu (2009), World Religions: Hinduism, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 11.
  • 2 Ibid, Pg. 18.
  • 3 Constance A. Jones & James D. Ryan (2007), Encyclopedia of Hinduism, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. XVII.
  • 4 L. S. S O’Malley (1935), Popular Hinduism: The Religion of the Masses, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 6-7.
  • 5 ذوالفقار ارشد گیلانی ،تاریخ کا سفر،مطبوعہ:علم دوست پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2007ء، ص:75
  • 6 Manish Verma (2013), Fasts and Festivals of India, Diamond Pocket Books Pvt. Ltd., New Delhi, India, Pg. 12.
  • 7 Constance A. Jones & James D. Ryan (2007), Encyclopedia of Hinduism, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 89.
  • 8 Swami Harshananda (N.D), Hindu Gods and Goddesses, Sri Ramakrishna Math, Madras, India, Pg. 7-8.
  • 9 New World Encyclopedia (Online): https://www.newworldencyclopedia.org/entry/Shiva: Retrieved: 01-03-18
  • 10 Yudit Kornberg Greenbag (2008), Encyclopedia of Love in World Religions, ABC-Clio, Oxford, U.K., Vol.1, Pg. 572.
  • 11 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Parvati: Retrieved: 02-03-18.
  • 12 Charles Russell Coulter & Patricia Turner (2000), Encyclopedia of Ancient Deities, Routledge, London, U.K., Pg. 374.
  • 13 Mary Zeiss Stange, Carol K. Oyster & Jane E. Sloan (2011), Encyclopedia of Women in Today’s World, Sage Publications Inc., London, U.K., Vol. 1, Pg. 1216.
  • 14 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Ganesha/: Retrieved: 02-03-18.
  • 15 Charles Russell Coulter & Patricia Turner (2000), ‘Ganesha’ in Encyclopedia of Ancient Deities, Routledge London, U.K.
  • 16 Pranab Bandyopadhyay (1995), Gods and Goddesses in Hindu Mythology, United Writers, Calcutta, India, Pg. 75.
  • 17 Orlando O. Espin & James B. Nickoloff (2007), An Introductory Dictionary of Theology and Religious Studies, Liturgical Press, Collegeville, USA, Pg. 539.
  • 18 Cybelle Shattuck (1999), Religions of the World: Hinduism, Routledge, London, U.K., Pg. 44-45.
  • 19 Robert S. Ellwood & Gregory D. Alles (1998), Encyclopedia of World Religions, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 104.
  • 20 Constance A. Jones & James D. Ryan (2007), Encyclopedia of Hinduism, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 223-224.
  • 21 Swami Harshananda (N.D), Hindu Gods and Goddesses, Sri Ramakrishna Math, Madras, India, Pg. 79-80.
  • 22 Ibid, Pg. 82-84.
  • 23 ذوالفقار ارشد گیلانی ،تاریخ کا سفر،مطبوعہ:علم دوست پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2007ء، ص:76-100
  • 24 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/trimurti-Hinduism: Retrieved: 01-03-18.
  • 25 حافظ محمدشارق سلیم،ہندومت کا تفصیلی مطالعہ،مطبوعہ: کتاب محل، لاہور، پاکستان،2017ء، ص:186-187
  • 26 ڈاکٹر گستاؤلی بان،تمدن ہند (مترجم:شمس العلماء مولوی سید علی بلگرامی )، مطبوعہ:مشتاق بک کارنر،لاہور، پاکستان ، (سنِ اشاعت ندارد)، ص:224
  • 27 شریمد بھگود گیتا، ادھیائے:2،اشلوک:30
  • 28 بھگود گیتا، ادھیائے:2،اشلوک:23-24
  • 29 ایضا،اشلوک:22،13
  • 30 Kevin Trainor (2004), Buddhism: The Illustrated Guide, Oxford University Press, Oxford, U.K., Pg. 61-64.
  • 31 اتھروید، کانڈ:18،سکوت:3،منتر:59
  • ur 32اتھروید، کانڈ:6،سکوت:120،منتر:3
  • 33 اتھروید، کانڈ:3،سکوت:28،منتر:5
  • 34 رگ وید، منڈ ل:7،سکوست:104،م منتر:1-5، 17
  • 35 اتھروید، کانڈ:10،سکوت:3،منتر:9
  • 36 رشید احمد،تاریخ مذاہب ،مطبوعہ:زمرد پبلیکیشنز ،کوئٹہ، پاکستان، (سنِ اشاعت ندارد)، ص:125-129
  • 37 ڈاکٹر گستاؤلی بان،تمدن ہند (مترجم: سید علی بلگرامی )، مطبوعہ:مشتاق بک کارنر،لاہور، پاکستان، (سنِ اشاعت ندارد)، ص:372
  • 38 رشید احمد، تاریخ مذاہب، مطبوعہ:زمرّدپبلیکیشنز، کوئٹہ، پاکستان،2002ء، ص:152ـ155
  • 39 Hugh B. Urban (2003), Tantra: Sex, Secrecy, Politics, and Power in the Study of Religion, University of California Press, Los Angeles, USA, Pg. 4.
  • 40 James G. Lochtefeld (2002), The Illustrated Encyclopedia of Hinduism, The Rosen Publishing Group Inc., New York, USA, Vol. 2, Pg. 688.
  • 41 جسٹس پیرمحمد کرم شاہ الازہری ،ضیاء النبی ،ج-1،مطبوعہ :ضیاء القرآن ،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:208