(حوالہ: علامہ جاوید اورنگزیب، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-4، مقالہ:38، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان،2021ء، ص: 773-793)
قدیم ہندستانی تہذیب ایک وسیع و عریض خطے پر پھیلی ہوئی انتہائی قدیم اور متمدّن انسانی تہذیب تھی جو ان گنت اقسام کی مذہبی، سیاسی اور نسلی اکائیوں پر مشتمل تھی۔ قدیم مصری تہذیب اور وادیِ دجلہ و فرات کی میسوپوٹیمین (Mesopotamian) تہذیبوں کی طرح ہندوستانی تہذیب کا شمار بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق اس خطّے میں تقریبا ً تین ہزار (3000) سال قبل مسیح میں انسانی آبادکاری شروع ہوئی پھر بیرونی اقوام کی ہجرت ،حملوں اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے نتیجے میں اس خطے پر مختلف نسلیں آباد ہوئیں جن کی بدولت یہاں ایک انتہائی زرخیز اور متنوّع تہذیب نے جنم لیا ۔
ہندوستان کی قدامت کے متعلق تاریخ میں کئی اقوال ملتے ہیں جن کے مطابق یہی وہ سر زمین ہے جو انسانیت کی جنم بھومی اور کرّۂ ارض پرانسانی تہذیب کا نقطۂ آغاز تھی ۔روایات کےمطابق یہی خطّہ حضرت آدم کا مَہبَط تھا ۔اسی وجہ سے انسانی بود وباش کے حوالے سے یہ زمین انسان کا ابتدائی مسکن شمار ہوتی ہے۔ طبری نےحضرت ابن عباس کےحوالے سے نقل کیا ہےکہ حضرت آدم کو ہندوستان کی زمین میں مقامِ" دہنا"پر اتاراگیا تھا۔1 ابن اسحاق کے مطابق حضرت آدم کو ہند میں "واسم" نامی پہاڑ پر اتارا گیا تھا جو بھیل نامی وادی کے قریب واقع تھا ۔یہ وادی، دہنج اورمندل نامی شہروں کے درمیان واقع تھی جبکہ حضرت حوا کو جدّہ میں اتارا گیا جو کہ مکّہ کے قریب واقع تھی۔ 2
بیسویں صدی کی ابتدا میں ہڑپہ اور موہن جو دڑو (Mohenjo-daro)کے مقامات پر دریافت ہونے والے آثار نےہندوستان کی تاریخ کے مزید قدیم ہونے کے شواہد پیش کیے ہیں۔ان آثار سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی تاریخ تین ہزار (3000) سال قبل مسیح سے بھی قدیم ہے تاہم اس خطے کی نامعلوم تاریخ شاید اس سے بھی کہیں پرانی ہے۔اس سرزمین پرپہلا شہر غالباً تین ہزار تین سو (3,300) قبل مسیح میں بسا تھاجس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہند کی تاریخ تین ہزار پانچ سو (3,500)سال قبل مسیح سے بھی قدیم ہے۔3
ہند،ہندو اورہندوستان اگر چہ اب فی زمانہ بالترتیب ، خطۂ زمین ،ایک خاص مذہب کے ماننے والوں ،اور ایک جغرافیائی حدود میں مقید ریاست کانام ہے لیکن کسی زمانہ میں ان الفاظ میں عمومیت ہوا کرتی تھی۔ ہند، خطۂ سندھ کے بالمقابل ایک ملک کا نام تھا جس کے باشندوں کو عرب "ہندو" کے نام سے پکارتے تھے جبکہ جمع کے لیے "ہنود" ، واحد کے لیے "ہندی" اور کبھی یائے نسبت سے پہلے" کاف" کا اضافہ کرکے" ہند کی"بھی بولتے تھے جس کی جمع "ہنادک" آتی ہے۔4
ہند کی وجہِ تسمیہ کے متعلق دو مشہور روایات ہیں۔ متونِ علم الانساب وکتب تاریخ کے مطابق ہند کی اصل وجہِ تسمیہ اس خطے کی حضرت نوح کے پوتے ہند سے نسبت ہے۔ ہند ، حام کابیٹا تھا جس کی طرف نسبت کی وجہ سے اس خطے کا یہ نام مشہور ہوا۔ طبری کے مطابق حام بن نوح کی نسل میں نوبہ، حبشہ، فزان ، ہند، سندھ اور مشرق و مغرب کے ساحلی علاقوں کے لوگ شامل ہیں۔5حا م بن نوح کی بیوی نحلب بنت مارب تھی جس سے حام کے تین بیٹے ہوئے ۔جن کے نام کوش بن حام،قوط بن حام اور کنعان بن حام تھے۔کوش بن حام نے قرنبیل بنت بتاویل سے شادی کی۔ جس سے کوش کے تین بیٹے ہوئے جن کے نام حبشہ،سندھ اورہند تھے ۔6
قاسم فرشتہ کے مطابق حام کے چھ (6) بیٹوں (ہند،سندھ،حبش،افرنج،ہرمز اوربویہ)نےاپنے اپنےنام پر ایک ایک شہر آباد کیاتھا۔ حام کے بیٹے ہند نے ملکِ ہندوستان کو اپنایا اور اسے خوب آباداورسرسبزوشاداب کیا۔ اس کے دوسرے بھائی سندھ نے ملکِ سندھ میں قیام کیا اور تہت (ٹھٹھ)وملتان کو اپنے بیٹوں کے نام سے آباد کیا۔ ہند کے چار بیٹوں (پورب،بنگ،دکن،نہروال)نے بھی اپنے اپنے نام سےممالک آباد کیے ۔ہند کے بیٹے دکن کے گھر تین لڑکے پیدا ہوئے۔ ایک کا نام مرہٹ ،دوسرے کا کنہڑا اور تیسرے کا تلنگ تھا۔ دکن نے اپنے ملک کو اپنے تینوں بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کیا۔ آج کل دکن میں جو ان ناموں کی تین مشہور قومیں ہیں وہ انہیں تینوں کی نسل سے ہیں۔ ہند کے بیٹے نہروال کے بھی تین بیٹے تھے جن کے نام بھروج، کنباج اور مالراج تھے۔ ان تینوں کے نام پر بھی تین شہر آباد ہوئے اور ان شہروں میں ان کی اولادیں آج تک آباد ہیں۔ ہند کے تیسرے بیٹے بنگ کے گھر میں بہت سی اولادیں ہوئیں جنہوں نے ملک بنگالہ آباد کیا ۔ ہند کے سب سے بڑے بیٹے کےبیالیس ( 42)بیٹے ہوئے اور آگے چل کر ملک کا انتظام و انصرام انہیں کے خاندان کے ایک فرد کشن کے ہاتھ آیا اور سب نے مل کر باہمی رضامندی سے اس کو اپناسردارمنتخب کیا۔ 7
ہند کی وجہِ تسمیہ سے متعلق دوسری روایت کے مطابق دوہزار(2000 ) تا ایک ہزار پانچ سو (1,500 )قبل مسیح کے دوران میں آریائی قبائل وسطِ ایشیا اور ایران سے وادیِ سندھ میں داخل ہونا شروع ہوئے ۔ ان کی زبان میں دریا کو "سندھ "کہتے تھے ، چنانچہ "دریائے سندھ"کا نام انہیں کا دیا ہوا ہے۔ اس کی نسبت سے وہ اس ملک (وادیِ سندھ ) کو"سندھو"یا "سندھ" کہنے لگے جسے یونانی مؤرخوں نے "انڈس"کہا ہےاور اسی لفظ سے "انڈ "،"ہند"اور "انڈیا" ماخوذ ہیں ۔ ایرانیوں اور پھر عربوں نے دریائے سندھ کو "مہران" کے نام سے موسوم کیا اور اسی وجہ سے سندھ "وادیِ مہران" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ 8
آریہ تقریباً پانچ سو (500) سال پنجاب میں مقیم رہے، پھر وادیِ گنگا وجمنا کی طرف بڑھ گئے اور اس کا نام "آریہ ورت" رکھا۔
ہند کسی بھی دوسری سرزمین کی طرح تہذیب کی داغ بیل کے نقوش اپنے سینے میں دفن کیے ہوئے ہے۔ سندھ اور پنجاب میں موجود آثار، تین (3000) اور چار ہزار (4000)قبل از مسیح کی ترقی یافتہ شہری زندگی کا پتہ دیتے ہیں۔ ان آثار میں ملنے والے گھر، ان کے ساتھ ملحق کنویں، غسل خانے، نِکاسی آب کا خاطر خواہ نظام اور شہری معاشرت کی دوسری سہولیات اس تہذیب کوسومیری تہذیب کےہم پلہ اور اپنی ہم عصر بابلی ومصری تہذیبوں سے برتر ظاہر کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ "
ان کھنڈرات سے ملنے والی اشیاء میں گھریلو استعمال کے سادہ اور منقش برتن، غسل خانے میں استعمال ہونے والی اشیاء، پہیے، شطرنج کے مہرے، اس سے قبل دریافت ہونے والے قدیم ترین سکّے، گمنام رسم الخط کی مہریں، سو میر سے بہتر معیار کی سنگ تراشی کے نمونے، تانبے سے بنے ہتھیار اور دو پہیوں والی بیل گاڑی( جو تاریخ میں دستیاب پہیے والی سواری کا قدیم ترین ماڈل بھی ہے)، سونے چاندی کی چوڑیاں، کانوں میں پہننے والے بُندے، ہار اور دوسرے زیورات شامل تھے۔ ان زیورات کے معیار اور چمک دمک سے ان قدیم لوگوں کی صنعت کاری میں مہارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان آثار کے قدیم ترین ذخائر ہزاروں سال قبل اس خطے میں انتہائی متمدّن اور ترقی یافتہ تہذیب کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ پتھر، تانبے اور کانسی سے بنے اوزاروں سے پتہ چلتاہے کہ جب باقی دنیاکانسی اور پتھر کے ماقبل تاریخی دور میں تھی ، تب یہاں کی تہذیب اس سے کہیں آگے کی منازل طے کرچکی تھی۔ 11
آریوں کے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمدّن کا گہوارہ بن چکا تھا۔یہ قدیم تہذیب، موہن جو دڑو (Mohenjo-daro) اور ہڑپہ(Harappa) ہی میں محدود نہیں تھی بلکہ اس کا سلسلہ پنجاب، بلوچستان اور سندھ تک پھیلا ہوا تھا۔12 تاریخی دستاویزات کے مطابق بیرون ِملک سے کچھ وحشی قبائل خوراک کی تلاش میں ہند میں داخل ہوئے جو بڑی مشرقی شاخ سے تعلق رکھتے تھے ،جنہیں آسٹریلائڈ (Australoid)کہا جاتاتھا۔13یہ لوگ سیاہ فام تھےاور قدیم الایّام سے ان کی دو قسمیں تھیں ایک حبشی وَش (حبشیوں کی طرح )جن کے بال اونی اور چہرے چپٹے تھے ،یہ مشرق اور وسط میں رہتے تھے اور دوسرے آسٹریلیا(Australia) کے حبشیوں کی قسم میں سے تھے،قد آور ،زیادہ ہوشمند جبکہ ان کے بال لمبے تھے۔ یہ جنوب اور مشرق میں بود و باش رکھتے تھے ۔ ان میں سے پہلی قوم آج بھی گونڈوانہ کے پہاڑوں میں موجود ہے جبکہ دوسری نیلگیری کی وادیوں میں ۔یہ قدیم اور وحشی اقوام تاریخی زمانے سے پہلے ہند کے ساحلی جنگلوں میں رہا کرتی تھیں تاہم جوں جوں ملک میں تمدّن ترقی کرتا گیا یہ بتدریج مفقود ہوتی گئیں ۔ 14
مندرجہ بالا وحشی اقوام کے بعد بحیرۂ روم(Mediterranean Sea) کی نسل کے کچھ لوگ شمال مغربی درّوں سےآ وارد ہوئے۔ آسٹریلائڈ اور بحیرۂ روم کی نسل کے اختلاط سے دراوڑی نسل (Dravidian Generation) معرض ِوجودمیں آئی ۔15 اسی لیے ملک میں بسنے والے اصل قبیلوں کو "دراوڑ" کہا جاتا تھااورہندوستان کی تاریخ کے سب سے اوّلین دور کو "دراوڑی عہد" کہا جاتا ہے۔ 16دراوڑی نسل دِکھنے میں پکّے رنگ اور چوڑی ناک والے تھے۔17
دراوڑی قبیلوں کی تہذیب ، ان کی نشوو نما اور ترقی کی سطح قریب قریب وہی تھی جو سمیری(Sumerian)اور اکادی(Akkadian) سماج کی تھی۔ یہ لوگ زمین کی سینچائی کرکے اس پر کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ مویشی پالنے کا کام بھی کرتے تھے۔ اناج میں سب سے عام فصلیں گیہوں اور جو کی تھیں جبکہ پالتو جانوروں میں بھیڑیں، سور اور بھینسیں ہوتی تھیں۔ اونٹ اور ہاتھی بھی شرو ع کے زمانے میں ہی پالے جانے لگے تھے۔دراوڑی عہد میں ہی اہم شہر وجود میں آگئے تھے جن میں چوڑی اور سیدھی سڑکیں تھیں اور دو منزلہ مکانات تھے جیسے کہ ہڑپہ اور موہنجو دڑو میں کھدائی کے بعد نکلے ہیں۔ مکانات پکی سُرخ اینٹ کے بنائے جاتے تھے۔ موہنجو دڑو میں پانی فراہم کرنے اور گندے پانی کےنظامِ نکاسی کے آثار ملے ہیں اور اس بات کے بھی خاصے ثبوت پائے گئے ہیں کہ یہ تجارت اور دستکاری کا ایک بڑا مرکز تھا۔18
ہر ایک گاؤں کا ایک مقدم یا مُکھیا تھا۔ گاؤں کے سب لوگ اس کی اطاعت کرتے تھے۔قدیم زمانے میں شمالی اور جنوبی ہند میں دراوڑوں کے بڑے بڑے شہر تھے جن میں ان کی بہت سی قومیں اور نسلیں آباد تھیں۔ بڑے بڑے خطوں پر راجا راج کرتے تھے۔ ہر ایک گاؤں کا مقدم یامکھیا، راجا کو غلے کی پیداوار کا ایک حصہ دیتا تھا۔ دیہات کے بندوبست اور انتظام کے اصول اولاًانہوں نے ہی بنائے تھےجن میں سے بہت سے قاعدے ابھی تک جاری ہیں۔ یہ بڑے تاجر تھےاورآرین نسل کے ہندمیں وارد ہونے سے پیشتر ہی یہ لوگ تجارت کے لیے سمندر کے راستے دوسرے ملکوں میں ساگون کی لکڑی، ململ، مور، ہاتھی دانت، صندل کی لکڑی اور چاول بھیجتے تھے۔ یہ لوگ بڑھئی، جُلاہے(کپڑا بُننے والے) اور لوہار کا کام اچھی طرح جانتے تھے اور اُس ابتدائی زمانے کے مہذب لوگ تھے۔ 19
ناقابل تردید تاریخی شہادتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج سے پانچ ہزار (5000) سال قبل کم از کم ان علاقوں میں ، جو سینکڑوں مربع میل کے رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں ، ایسی تہذیب موجود تھی جو آج کی جدید ترین تہذیب اور تمدّن کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ اس تہذیب کا نام موہن جو دڑو (Mohenjo-daro)اور ہڑپہ(Harappa) تھا جس کا پہلا شہر غالباً تین ہزار تین سو (3,300 ) قبل مسیح، دوسرا تین ہزار (3000 ) قبل مسیح اور تیسرا کم و بیش دو ہزار نوسو (2,900 )قبل مسیح کے دور سے تعلق رکھتا ہے ۔20
موہن جو دڑو (Mohenjo-daro)کے باشندوں کا اہم پیشہ زراعت تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آب پاشی کا بہترین نظام رائج تھا۔موہن جودڑوصنعت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ یہاں کی مصنوعات بر آمد کی جاتی تھیں۔ ان دستکاروں کے آلاتِ صنعت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہاں کے پارچہ باف (کپڑا بننے والے)بہترین قسم کا کپڑا تیار کرتے تھے جو بابل اور ایشیا ءکے دوسرے معروف شہروں میں بر آمد کیا جاتا تھا۔ نظام ِبلدیہ کی عمدگی کا ثبوت ان منصوبوں سے ملتا ہے جن کے مطابق شہر آباد کیے جاتے تھے۔ صفائی اور حفظان ِ صحت کے لیے جو انتظامات کیے گئے تھے انہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔موہن جودڑو مستطیل شکل پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی گلیاں بہت وسیع اور سیدھی تھیں جو شمال سے جنوب کی طرف جاتی تھیں اور دوسری بڑی گلیوں کے ساتھ متوازی تھیں ۔ چھوٹی گلیاں جب بڑی سڑک سے نکالی جاتیں تو نوے درجے کے زاویہ کے مطابق نکالی جاتی تھیں۔ بڑی گلیاں تینتیس (33 ) فٹ چوڑی ہوتیں اور چھوٹی گلیاں اٹھارہ (18) فٹ۔ ہر گلی کوچے میں فالتو پانی کے اخراج کی نالیاں بنی ہوئی تھیں جن کو بڑی مہارت سے بہترین اینٹوں سے چن دیا گیا تھا۔ مناسب مقامات پر سوراخ رکھے گئے تھے تاکہ ان کی صفائی کی جاسکے۔ موہن جو دڑو میں پانی کے اخراج کا جو نظام تھا وہ انیسویں صدی میں یورپ کے تمام نظاموں سے بہترین تھا۔ موہن جو دڑو کے باشندوں کو موسیقی اور رقص سے بڑی دلچسپی تھی۔ سانڈوں اور مرغوں کی لڑائی، شکاری کتوں کے ساتھ جانوروں کا شکار ان کی بہترین تفریح تھی۔ 21
موہن جو دڑو (Mohenjo-daro)اور ہڑپہ(Harappa) میں بادشاہوں کے بڑے بڑے محلات کے کھنڈرات ملے ہیں جودراوڑی سماج میں ریاستی اقتدار کے وجود کا ثبوت فراہم کرتے ہیں لیکن اس زمانے میں ہندوستان میں کوئی متحد سلطنت قائم نہیں تھی۔ بلکہ وہ بہت ساری سلطنتوں اور رجواڑوں میں تقسیم تھی۔ امرا کے رہنے کے مکانوں اور غریبوں کی بستیوں کے مکانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمائے اورجائیداد پر مبنی سماجی تفریق موجود تھی۔22
مذکورہ بالا تاریخی شواہد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستا ن کی تاریخی حیثیت تقریباً پانچ ہزار (5000 ) قبل مسیح کی ہے جومصری تہذیب وتمّد ن کے ہم عصر تصوّر کی جاتی ہےجس سے ہندوستان کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے ۔آریائی قبائل کے اس علاقے پر تسلط حاصل کرنے کےزمانے کورامائن کا عہد کہتےہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی ایک بڑی مشہور کتاب رامائن میں جن واقعات کاذکر ہے وہ اسی عہد میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔23
سب سے پرانی کتاب جس میں ہند کے قدیم باشندوں کا حال ملتا ہے، وید کہلاتی ہے۔ اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب سے چار ہزار (4000) برس پہلے ہند کے شمال مغربی حصے یعنی پنجاب میں چند ایسی قومیں آبادتھیں جن کا رنگ گورا اور قد دراز تھا۔ یہ اپنے آپ کو "آریا"کہتی تھی۔24ان چھاپہ مار آریا ئی اقوام نے خود ہی اپنے لیے لفظ "آریا" استعمال کیا تھا جس کا سنسکرت میں معنی "شریف النفس"ہے۔ آریاؤں کا اپنے لیے کوئی ایسا لفظ تفویض کرنا لسانیات کے ساتھ کسی اہانت آمیز رویے سے کم دکھائی نہیں دیتا۔آریائی یقیناً بحیرۂ خزر (Caspian Sea) کے علاقے سے یہاں آئے، جسے ان کے فارسی رشتہ داروں نے آرینن وئیجو(Airynan-Veajo)یعنی "آریاؤں کا گھر" قرار دیا تھا۔ تقریباً اسی دوران کاسیان (Kassites) آریاؤں نے بابل پر قبضہ کیا، جبکہ ویدک آریائی ہند میں داخل ہوئے تھے۔25
خیال کیا جاتا ہے کہ آریائی قبائل کو اس سرزمین پر تسلط قائم کرنے میں تین سو (300) برس کے قریب لگےتھے۔ اس زمانے میں بھی وید کے دیوتاؤں کی پرستش ہوتی رہی مگر آریائی قبائل کے رسم و رواج میں آہستہ آہستہ تغیر و تبدل ہورہا تھا۔ اس تین سو (300) سال کے عرصے کو" مہا بھارت" کا زمانہ کہتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سنسکرت کی دوسری بڑی اوراہم کتاب مہا بھارت میں جس بڑی لڑائی کا ذکر ہے وہ اسی زمانے میں ہوئی تھی۔
آریائی قبائل کے بہت سے قدیم گروہوں اور فرقوں کے نام صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ہیں تاہم یہ لوگ ہند کے پرانے باشندوں سے لڑے، نیز آپس میں بھی ان کی لڑائیاں ہوئیں تھیں۔ لفظ "مہا بھارت" سے وہ جنگ مراد لی جاتی ہے جو راجا بھرت کی اولاد کے درمیان ہوئی تھی مگر کتاب" مہا بھارت" اس کے بہت بعد تصنیف ہوئی ، اس لڑائی کے قصے سینہ بہ سینہ چلے آتے تھے۔ بھاٹ اور شاعر راجاوٴں مہاراجاوٴں کی سبھاؤں (محفلوں) میں یہ قصے گاتے اور سناتے تھے۔ بڑھتے بڑھتے یہ قصے بہت بڑھ گئے اورزمانہ گزرنے پر ان میں بہت سی نئی داستانیں شامل ہوگئیں۔ اس سے بعد کے عہد میں جسے "برہمنوں کا زمانہ" کہتے ہیں ایک برہمن "بیاس جی" نے ان قصوں کو تسلسل کے ساتھ منظوم کیا۔ یہی نظم اب" مہا بھارت" کے نام سے مشہور ہے ۔ مہا بھارت میں آریائی قوم کے رسم و رواج کاجو حال درج ہے اس کی نسبت یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ کہاں تک اس زمانے کا ٹھیک ٹھیک پتہ دیتا ہے جس کو" مہا بھارت کا زمانہ" قرار دیا جاتا ہے اور کہا ں تک اس بعد کے زمانے سے متعلق ہے جس کو "برہمنوں کا عہد" کہا جاتا ہے ،جس میں آریائی لوگوں کے مذہب، زبان اور رسم و رواج میں بہت زیادہ تغیر و تبدل ہوچکا تھا26 لیکن کیونکہ مؤرخین اسی طرف گئے ہیں اسی لیے یہاں بھی اسی زمانے کو مہا بھارت کا زمانہ قرار دیا گیا ہے ۔
چھٹی صدی میں ہندوستان کئی ریاستوں پر مشتمل تھا جن میں سب سے بڑی وادی، گنگا کے وسطی علاقے میں واقع "مگدھ" اور شمال مغرب میں "کوشل"تھیں ۔ ان دونوں ریاستوں کے درمیان جاری لڑائی پانچویں صدی قبل مسیح میں اس وقت ختم ہوئی جب مگدھ کے راجا نے فیصلہ کن فتح حاصل کرلی اور مگدھ کو ہندوستان کی سب سے طاقتور ریاست بنادیا تھا۔چوتھی صدی قبل مسیح میں ملک کے شمال مغربی حصے کو سکندر اعظم (Alexander the Great)نے فتح کرلیا تھا ۔ اس کے بعد متعدد شہروں میں یونانی اور مقدونیائی فوجوں کا پڑاؤرہنے لگا۔ فاتحین اور مقامی آبادی کے درمیان تعلق قائم ہونے کے سبب یونانی اور ہندوستانی تہذیبوں نےایک دوسرے کے اثرات قبول کیے تھے۔
جب سکندر (Alexander)ہندوستان سے واپس لوٹ گیا تو چندر گپت موریہ(Chandragupta Moria) (322تا297 قبل مسیح) کی قیادت میں آزادی کی ایک تحریک اٹھی۔ چندرگپت موریہ کے حسب نسب پر روایتوں کے ہجوم کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ وہ" کھتری" ذات کا تھا۔ دوسری روایت کے بہ موجب اس کاتعلق "شودر ذات" سے تھا۔ چندرگپت (Chandragupta)نے سکندر (Alexander)کے ایک فوجی کمانڈر اور جانشین سیلیوکس نکیڑ (Seleucus Nicator)کے خلاف لڑائی لڑنے کے بعد اسے مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنے علاقے کا ایک بڑا حصہ اس کو دے ۔ بعد میں اس نے ایک طاقتور سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔ چندرگپت کی قائم ہوئی یہ ریاست اس کے پوتے" اشوک "کے زمانے میں (273تا232 قبل مسیح) اور بھی شاندار ہوگئی تھی۔ کالنگا کی سلطنت کو فتح کرنے کے بعد اسے اپنے زیرِحکومت قریب قریب پورے ہندوستان کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل ہوگئی تھی۔اپنے وسیع تعمیراتی منصوبوں اور تجارت کی سرپرستی کے حوالے سےاشوک نے بڑی شہرت حاصل کرلی نیزاس نے حمایت حاصل کرنے کا سب سے بڑا وسیلہ"
بدھ مت(Buddhism)کے عروج کا آغاز چندرگپت(Chandragupta) کے پوتے اشوکا (Asoka)کے اسے ہندوستان کا ریاستی مذہب بنانے سے ہوا تھا۔ بدھ مت کے صحیفوں کو پٹما (Patma)کی عظیم کونسل میں مرتب کیا گیا ، اور اس کے انسانیت سے متعلق اصول پتھر کے ستونوں اورچٹانوں پر کندہ کرائے گئے تھے۔ اس نے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کردی ، پوری سلطنت میں انسانوں اور مویشیوں کو طبی امداد فراہم کی، شہریوں اور کنبوں کے افراد کے فرائض کا اعلان کیا ، اور بدھ مشنریوں کو ہدایت کی کہ وہ دنیا کے کونے کونے میں جائیں اوردولت مندوں وغریبوں، سب سے ملیں اور ان تک سچائی کا پیغام پہنچائیں۔28
جو قومیں وسط ایشیاء میں آباد تھیں، یونانی ان کو ستھین (Scythian)اور ان کے وطن کو ستھیا (Scythia)کہتے تھے۔ ان قوموں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ پانچ سو (500)برس سے اوپر (یعنی 150 قبل مسیح سے 400 عیسوی کے قریب تک) یہ قومیں یکے بعد دیگرے ہند میں اسی طرح آتی رہیں جس طرح بہت مدت پہلے آریائی(Aryans) آئے تھے۔ یہ کشمیر، افغانستان ، پنجاب، سندھ، گجرات اور وسط ہند کے مغربی حصے میں آباد ہوئیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اول اول انہوں نے پنجاب میں ہند ی یونانی راجاوٴں کے پہلو بہ پہلو اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کیں مگر آخر کار ملک کو فتح کرکے اس پر قابض ہوگئی ۔
جو قومیں وقتاً فوقتاً باہر سے آکر شمالی ہند کے میدانوں میں آباد ہوئیں تھیں ان میں تورانی یا منگول، آریائی ، اہل فارس، یونانی، سکایا ستھین، ہن، اہل عرب، افغان یا پٹھان، ترک اور مغل شامل تھے۔بعض یعنی تورانی صرف شمال مشرقی ہند ہی میں آئے تھے۔ مغل، ترک اور پٹھان اکثر شمالی ہند میں دریائے سندھ اور گنگا کی وادیوں میں آباد ہوئے ، کچھ اور قومیں مثلاً سکا اور ہن شمال مغرب اور وسط ہند کے مغربی حصے میں رہنے لگیں۔ آریائی لوگ جو تقریباً سب سے پہلے آئے تھے، سب سے آگے پہنچے اور جنوبی ہند کے سوا جہاں ان میں سے بہت ہی کم لوگ گئے تھے، تمام ملک میں پھیل گئےتھے۔
منگول اقوام کا قدیم وطن منگولیا تھا۔ یہ وسط ایشیا ءکا وہ ملک ہے جسے چینی "تاتار" کہتے ہیں جہاں سے یہ لوگ چین اور اس کے آس پاس کے ملکوں میں پھیل گئے تھے۔ ان کا قد چھوٹا، سر چوڑا، ناک چپٹی، آنکھیں تنگ وترچھی اور رنگ زردی مائل بھورا تھا۔ آرین قوم کے وارد ہونے سے بہت پہلے ہی ان کے گروہ کے گروہ ہند میں اتر آئے تھےاور شمال مشرق کے ان ملکوں میں بھرگئے جو اب" آسام" اور" بنگال" کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ ان پہاڑی راستوں سے آئے تھے جن میں سے ہوکر دریائے برہم پُتر اور اس کے معاون اس ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ دراوڑاقوام سے زور آور اور تندخو تھے۔ اول یہ لوگ دراوڑاقوام سے لڑےلیکن کچھ زمانے کے بعد آہستہ آہستہ ان ہی میں مل جل گئے۔29
آریاوٴں کا اصل وطن ترکستان تھا جہاں سے چل کر یہ لوگ افغانستان سے ہوتے ہوئے ہمالیہ پہاڑ کے شمال مغربی دروں کی راہ تک آئے پھر وہاں سے ہوتے ہوئے اس ملک میں آکر آباد ہوئے ۔ آریائی لوگ رنگ کے گورے، دراز قد اور خوبصورت تھے۔ ان کی پیشانی اونچی تھی۔ یہ اُن زرد رنگ کے چپٹے چہرے والوں سے بالکل جدا تھے جو مشرق کی جانب منگولیا میں رہتے تھے۔ان لوگوں نے گاؤں اور چھوٹے قصبے بسا رکھے تھے۔ بھیڑ، بکری اور گائے، بیل پالتے اور زمین جو تتے تھے۔ یہ جَو اور گیہوں کی فصلیں تیار کرتے تھے۔ سوت کا تنا اور کپڑا بننا جانتے تھے لیکن لوہے کے اوزار بنانے کا طریقہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ ہاں تانبے اور ٹین کو آگ پر پگھلاتے تھے اور ان کو ملاکر بھورے رنگ کی ایک دھات بناتے تھے جسے پیتل کہتے ہیں۔ اس سے چاقو اور نیزوں کی بھالیں بناتے تھے۔ 30
آریاوٴں کو ایک ایسی جماعت سے جنگ کرنی پڑی تھی جو دیہاتوں کے اندر آباد تھی۔ یہ دیہات کے باشندے یعنی "داسا" شاید دراوڑ تھے۔ 31 بعد میں یہ لفظ اپنا اصل معنی کھوکر" غلام" اور "ڈاکوؤں" کے معنی میں استعمال ہونے لگاتھا۔32اگر یہ صحیح ہے تو پھر "نشادا" سے مراد وہی لوگ تھےجو موہن جو دڑو (Mohenjo-daro) اور ہڑپہ(Harappa) میں آباد تھے چونکہ وہ شہروں میں آباد تھے اس لیے دراوڑوں کو"داسا" یعنی "دیہات کے باشندے"کہہ کر تفریق قائم کرنا قرینِ قیاس ہے۔ اس بحث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دونوں قومیں آریاوٴں کے ورود کے وقت یہاں موجود تھیں اس لیے کم و بیش ایک دوسرے کے ہم عصر تھیں۔33
اٹلی پر حملہ آور ہونے والے جرمنوں کی طرح آریائی بھی پہلے پہل مہاجر تھے مگر ان کی قوی جسامت ، فنون لطیفہ میں مہارت اور ان کی جنگجو فطرت نے جلد ہی انہیں شمالی ہند کا فاتح بنا دیا تھا۔ رتھوں پر سوار، نیزوں ، کلہاڑیوں، لہراتی برچھیوں اور تیر کمانوں سے مسلح ان جنگجو آریاؤں نے تھوڑے ہی عرصے میں مقامی آبادی کو زیر کرلیا تھا۔ تاہم مکاری اور عیاری سے نا آشنا یہ لوگ کلی طور پر جنگلی تھے۔ یہ ہند کی اصل حیثیت سے آشنا ہوئے بغیر اس کے فاتح بن گئے تھے۔ انہیں محض اپنے جانوروں کے لیے مزید چراگاہوں کی ضرورت تھی۔ ان کے نزدیک جنگ کا تصوّر عظمت ِقومیت سے مشروط نہ تھا بلکہ یہ تو صرف اپنے لیے اور زیادہ گائےکے حصول کے لیے لڑتے تھے۔ بتدریج یہ دریائے سندھ اور گنگا کے کنارے مشرقی اطراف میں اپنی حکومت کو وسیع کرتے چلے گئےیہاں تک کہ پورا ہند ان کے قبضے میں آگیا۔ جوں جوں یہ جنگ و جدل سے کاشت کاری کی جانب مائل ہوئے، ان کے قبائل نے یکجا ہوکر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی شکل اختیار کرلی تھی۔ 34
یہ بڑے باتونی لوگ تھے۔ اپنی جہاں گردیوں کو ضیافتوں سے سجاتے تھے اور اس دوران خوب مے نوشی کرتے تھے۔ ان مواقع پر خاص طرح کے فنکار گویّے شاعر نظمیں گاتے اور پڑھتے تھے۔ تہذیبوں سے مراسم پیدا ہونے سے قبل ان کے پاس کوئی طرز ِتحریر نہیں تھا۔ ان گویّے شاعروں کی یادداشت ہی ان کا زندہ ادب تھا۔اس طرح ازروئے تفریح نظموں کو خوش الحانی سے گانے کی سرگرمی نے زبان کو ان کے لیے اظہار کا ایک عمدہ اور دلنشین آلہ بنا دیا تھا۔ بلاشبہ یہی امر بعد ازاں آریائی زبانوں کی برتری کا موجب ہوا۔ ہر آریائی نسل کی اپنی تاریخ تھی جو نظمیہ گائیکی، رزمیہ نظموں، رزمیہ داستانوں اور ویدوں کی صورت میں اس کے پاس محفوظ تھی۔
ان لوگوں کی سماجی زندگی اپنے رہنماؤں کے گرد گھومتی تھی۔ ان کے امیر کا دیوانِ خاص، جہاں وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے، اکثر لکڑی کی بنی ایک کشادہ عمارت ہوتی تھی۔ بلاشبہ عوام کے لیے وہاں جھونپڑیاں اور دور دور کھیتوں سے ملحق مکانات ہوتے تھے لیکن زیادہ تر آریاؤں کے لیے یہ دیوانِ خاص ہی ایک عمومی مرکز تھا۔ ہر کوئی ہی وہاں ضیافتوں میں شرکت کرنے، نظمیں سننے اور کھیلوں اور مباحث میں حصہ لینے جاتا تھا۔ اس کےاردگرد گائیوں کے سائبان اور گھوڑوں کے تھان ہوتےتھے۔ امیر اور اس کی بیوی بچے اوپر مچان پر سوتے تھے جب کہ ایک عام آدمی کہیں بھی سوجاتا تھا ۔ 35
جو آریائی ہند میں آکر بسے، ہم ان کو"ہندی آریائی"کہہ سکتے ہیں۔ وہ دیوتاؤں کی تعریف میں منتر پڑھا کرتے تھے اور اپنی اولاد کو صحت اور صفائی کے ساتھ ساتھ ان منتروں کا پڑھنا بھی سکھاتے تھےانہیں منتر ایسے ازبر ہوجاتے تھےکہ ان کا بھولنا مشکل تھا۔ یہی سبب تھا کہ صدیوں تک اسی طرح منتر سینہ بہ سینے چلے آئے۔ آخر کار لکھنے کا فن بھی ایجاد ہوگیا اور منتر تحریر میں آگئے۔ ہندوؤں کے ہاں یہ سب منتر لکھے ہوئے موجود ہیں۔
آریا یہ خیال کرتے تھے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح ہوا اور آسمان سے پرے ایک نورانی طبقے میں پہنچتی ہے جہاں کسی قسم کا دکھ درد نہیں ہے اورہر وقت روزِ روشن اور سدا بہار ہے۔ جہاں ہمیشہ راحت و آرام اور امن و آسائش کا دور دورہ ہے اور ہمہ وقت دوستوں اور عزیزوں کا قرب نصیب ہے۔ ان کی اصطلاح میں اس طبقے کے حاکم کا نام "بیم "تھا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ مرنے کے بعد سب لوگ بیم کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وہ ان کے اعمال کو تحریری صورت میں محفوظ کرتا رہتا ہے۔ ان کے ہاں کئی اور دیوتا بھی تھےجن کو وہ پوجتے تھے ۔ مثلاً وُرُن جو نیلگوں آسمان پر حکومت کرتا تھا، اس کے علاوہ سورج یا سوتری ، وایو یا ہوا، رُوّریا گرج، اُشس یا صبح کی سنہری اور سرخ شفق وغیرہ کی بھی پرستش کی جاتی تھی ۔قدیم ہندی آریائی میں ذات پات کی تمیز نہ تھی۔نہ ان کے شوالے اور ٹھاکر علیحدہ تھے اورنہ ٹھاکر اور مورتیاں تھیں۔ ان کی لڑکیاں اپنے لیے خود خاوند پسند کرتی تھیں۔ بیواؤں کی شادی ہوتی تھی نیز ان کی غذا میں غلہ اور گوشت دونوں شامل تھے۔ یہ سوما رس پیتے تھے، جس سےایک قسم کی چمک آنکھوں میں آتی تھی۔ 36
جو قومیں اول ہی اول ہند میں وارد ہوئیں ان میں ایک قوم سکا بھی تھی۔ یہ لوگ سندھ، مالوہ اور مغربی ہند میں پہنچے تھے۔ سکا راجاوٴں کاخاندان جو مغربی حاکموں کے نام سے معروف تھا چار سو (400) برس تک اجین کو اپنی راج دھانی بناکر مالوے میں حکمران رہا تھا۔ اس کے بعد ہندوؤں کے مشہور راجہ بکر ماجیت نے سک خاندان کو نکال دیا تھا۔
ستھین(Scythian) قوم کو کوشن بھی کہا جاتا تھا ۔ یہ قوم پینتالیس (45) عیسوی سے دوسو پچیس (225) عیسوی تک ایک سواسی (180) برس شمالی ہند میں حکمران رہی تھی ۔ کنشک اس قوم کا مشہور راجہ ہوا تھا۔ پرش پور یعنی پشاور اس کی راج دھانی تھی۔ پنجاب، کشمیر اور سندھ میں اس کا راج تھا۔ ترکستان اور افغانستان بھی اس کی حکومت میں تھے۔ کنشک کے نام کے بہت سے سکے دریافت ہوئےہیں ۔ یہ نہ صرف بدھ تھا بلکہ بدھ مت کا سرگرم پیرو بھی تھا۔ ایک سو چالیس (140) عیسوی میں اس نے بدھ مت کی ایک بڑی مجلس منعقد کی جس نے بدھ مت کی تعلیمات میں معمولی ترمیم کی تھی۔ اس کے بعد کنشک نے وسط ایشیاء، تبت اور چین میں سب جگہ بھکشو روانہ کیے کہ وہاں اس دین کی منادی کریں ۔ شمالی اور جنوبی ایشیا ءکے بدھ مت کے عقائد میں فرق ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا اس مجلس کے فتوے پر چلتی تھی جو تیسری صدی قبل مسیح میں مہاراجہ اشوک نے منعقد کرائی تھی اور شمالی ایشیاء کنشک کی مجلس کے فتوے کی پابند تھی جس نے بدھ مت کے عقائد میں کچھ ترمیم کردی تھی۔ کنشک اپنا دربار کبھی پنجاب میں لگاتا تھا اور کبھی کشمیر میں، لیکن کل شمالی ہند، کابل اور ترکستان اس کا تابع تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ چینیوں سے بھی لڑا تھا۔37
یعقوبی کے مطابق عہدِ قدیم میں دنیا کے سات(7) اَقالیم بنائے گئے تھے جن میں سے پہلا اِقلیم ہندوستان کو شمار کیا جاتا تھا۔ اس کی مشرقی حد سمندر تھی جبکہ مغربی حد دیبل تک تھی جو ارض ِعراق کے قریب واقع تھا اور اس کی حد سمندر کی خلیج تک تھی جو ارض ِہند سے ارض حجاز تک پھیلی ہوئی تھی۔ 38 شکل ِظاہری کے لحاظ سے ہندوستان بجائے خود ایک دنیا تھا۔ ایک طرف تو عالی شان پہاڑوں کی دیواریں تھیں جن سے پار ہونا محال معلوم ہوتا تھا اور دوسری طرف سمندر کی موجیں تھیں جو اسے تین جانب سے گھیرے ہوئے تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ فطرت نے اس ملک کو ہمیشہ کے لیے تمام دنیا سے علیحدہ کردیا ہے۔39
ایک رائے کے مطابق بر صغیر کا خطہ ایک بہت بڑے تکون کی شکل میں تھا۔جس کا نچلہ سرا دور تک بحرِ ہند میں پھیلا ہوا تھا ۔اسے چار قدرتی خطوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔اوّل: شمال مغرب میں ہمالیہ کا سلسلۂ کوہ ،اس کے دامن میں ہر قسم کی عمارتی لکڑی کے گھنے جنگلات تھے اور اس کی برف بھری چوٹیوں اور جھیلوں سے ملک کے بڑے بڑے دریا نکلتےتھے۔دوئم: سندھ اور گنگا کے میدان جو پنجاب سے لےکر برما(Burma) تک شرقاً وغربًا پھیلے ہوئے تھے، یہ میدان اُس مٹی سے بنے تھےجو دریا پہاڑوں سے بہا کر لاتے تھے، ان میدانوں کا شمار دنیا کے زرخیز اور گنجان آبادعلاقوں میں ہوتاتھا۔سوئم: جنوب میں سطح مرتفع دَکَّن ، یہاں کوئلہ، لوہا، چونے کا پتھر، مَنگنِیز، قلعی اور سونے کی کانیں تھیں۔ چہارم: دَکَّن کے مشرقی و مغربی ساحل، ان کی زرخیز سیاہ مٹی میں کپاس، گنّا اور تمباکو کی کاشت کی جاتی تھی۔40
جنوب مغربی کونے میں رنگ و نسل اور اپنے دیوتاؤں میں ویدک ہند سے خاصی مماثلت رکھنے والا فارس تھا۔ مغرب کی جانب شمالی سرحد تک افغانستان تھا جہاں قدیم گندھارا یعنی قندھار تھا، جہاں ایک قلیل مدت کے لیے یونانی اور ہندو سنگ تراشوں کے فنی راستے ایک ہوکر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے تھے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ پامیر سے ہندو کَش تک گزرتا ہوا ہند یہاں روس کے کس قدر قریب آجاتا ہے۔ اپنی اس جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر یہ علاقہ ہمیشہ سیاسی اہمیت کا حامل رہا تھا۔41 المسعودی کے بقول ہندوستان کی سرزمین بڑی وسیع تھی اور بری، بحری اور کوہستانی علاقوں کے لحاظ سے اس کا طول و عرض بہت زیادہ تھا۔ اس کی سرحدیں پہاڑی علاقوں سے گزرتی ہوئی سندھ ، خراسان اور تبت سے جاملتی تھیں ۔ 42
اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق ہندوستان کی ظاہری شکل ایک مربع کی طرح تھی جو دو مثلثوں سے بنا ہوا تھا ۔ یہ دونوں مثلث قریب قریب مساوی تھے اور ان میں ایک ضلع مشترک تھا۔ شمالی مثلث کا اوج نانگا پربت ہمالیہ کی پُرشان چوٹیوں میں سے ایک تھا اور جنوبی مثلث کا اوج کیپ کامرن تھا ۔ان دونوں مثلثوں کا مشترک وہ گہری گھاٹی تھی جو خلیج کھماج سے رود گنگ تک گئی ہوئی تھی اور جس میں نربد اور سون کی ندیاں تھیں۔ ان میں سے ایک تو مغرب کی طرف جاتی تھی اور دوسری شمال و مشرق کی طرف۔ ان دونوں مثلثوں کے بیچ میں صرف یہی دونوں ندیاں حدّ فاصل نہیں تھیں بلکہ ان کے علاوہ اس گھاٹی کے شمال میں بند یا چل کا سلسلہ تھااور اس کے جنوب میں سات پورہ کا سلسلہ۔ پس کہناچاہیے کہ جزیرہ نمائے ہند کے جنوبی حصے کو شمالی ہند کے تصرفات سے محفوظ رکھنے والی تین فطرتی دیواریں موجودتھیں اور اس خطے کے ساحل بھی اسی طرح محفوظ تھے ۔43
ملک کا طول و عرض بڑا ہونے کے باعث قدیم ہندوستان میں قدرتی حالات انتہائی متنوع تھے۔ اس لیے اس ملک کو شمالی حصے اور جنوبی حصےمیں تقسیم کیا گیا تھا ۔ شمالی ہندوستان کے قدرتی حالات کم و بیش یکساں تھے اور اس اعتبار سے مصر یا بابل سے ملتے جلتے تھے کہ زمین کی زرخیزی کا انحصار بڑی حد تک دریائے سندھ اور دریائے گنگا میں طغیانی آنے پر ہوتا تھا۔ جنوبی ہندوستان کی زمین کم زرخیز تھی مگر ملک کے اس حصے میں جنگلوں کی فراوانی تھی اور قیمتی دھاتوں اور پتھروں (سونے، ہیروں وغیرہ )کی بہتات تھی۔ 44
قدیم ہندوستان کی بڑی سرحد کو ہ ہمالیہ تھی جس میں دنیا کے پہاڑوں میں سب سے زیادہ بلند پہاڑ واقع تھے ۔ قدیم ہنود اس سلسلے کی چوٹیوں کو دور سے دیکھ کر انہیں دنیا کی چھت کہا کرتے تھے۔جب اس سلسلے پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے اور اس کی تمام شاخوں کو دیکھا جائے تو یہ ایک سطح منحدر معلوم ہوتی تھی جس کی اوسط بلندی تقریباً تیرہ ہزار (13000) فٹ اور بلند ترین حصہ بیس ہزار (20000) فٹ سے زیادہ تھا۔ اس بلندی پر جو کہ یورپ کی اونچی سے اونچی چوٹیوں سے بھی زیادہ بلند ہے وہ ویران اور سنسان خطہ آج بھی موجود ہےجو نہ حدودِ ہندوستان میں تھا اورنہ حدود ترکستان و تبت میں۔ یہاں کسی قسم کے نباتات نہیں پائے جاتے تھےاور سطح زمین میں انحدار نہ ہونے کی وجہ سے پانی ایک جگہ جمع ہوجاتا تھا۔یہاں ہوا اس قدر رقیق تھی کہ تنفس میں دقّت واقع ہوتی تھی ۔
گوری شنکر کی چوٹی سلسلۂ ہمالیہ کی سمت مشرق میں واقع تھی اور دھول گری، گوری شنکر اور کنچن حینگا یہ تینوں مل کر ایک ایسا بلند سلسلہ پیدا کرتے تھے کہ اس کو اگر سلسلہ ہمالیہ کے نقرات الظہر سے تعبیر کریں تو بے جانہ ہوگا ۔ اس ریڑھ کی ہڈی کے شمال میں گنگ ویسری کا سلسلہ تھا جو تبت میں واقع تھا اور اس کے جنوب میں نشیب ِہمالیہ کا خطہ تھا جو گنگا کی شمالی شاخوں تک جاتا تھا ۔ ہمالیہ کا سلسلہ کئی بڑے ممالک سے زیادہ وسیع ہے بجائے خود ایک دیوار ہے جو فطرت نے دو ملکوں اور دواقوام کے بیچ میں قائم کی ہے اور اس کی نظیر روئے زمین پر نہیں ہے۔ 45
شمال مغرب کی پہاڑیاں کوہِ سلیمان کے نام سے مشہور تھیں۔ سب سے بڑا درّہ ان پہاڑیوں میں درّۂ خیبر تھا۔ شمال مشرقی سرے کی طرف ٹپکیوں کی پہاڑیاں تھیں۔ ہمالیہ کے مشرقی سر اور ان پہاڑیوں کے بیچ سے نکل کر دریائے برہم پُتّر جنوب میں جاتا تھا۔ اس طرف کے درّے اس علاقے میں تھے جہاں دریائے برہم پُتّر پہاڑیوں کو چیر کر ہندوستان میں داخل ہوتا تھا۔
دکن کا خطہ بھی پہاڑیوں اور دریاؤں سے بھرا پڑا تھا۔ مغرب کی طرف وہ سلسلۂ کوہ تھا جس کو مغربی گھاٹ کہتےتھے۔ مشرق کی جانب ایک اور سلسلہ تھا جسے مشرقی گھاٹ کہا جاتاتھا ۔ یہ مغربی گھاٹ سے بلندی میں کچھ کم تھا۔ دکن کے تقریباً کل دریا مغربی گھاٹ سے نکلتے تھے اور مشرق کی طرف بہہ کر مشرقی گھاٹوں کو چیرتے ہوئے سمندر میں جا ملتے تھے۔ مشرقی گھاٹوں اور سمندر کے درمیان نشیب زمین کاکچھ حصہ تھا جو شمال میں تو تنگ تھامگر جنوب کی جانب اس کی چوڑائی بڑھتے بڑھتے اتنی ہوگئی تھی کہ یہاں پر اس کو کرناٹک کا میدان کہتے تھے۔ شمال سے جنوبی دکن میں جانے کا راستہ یہی پست زمین تھی جو مشرقی گھاٹ اور ساحل سمندر کے درمیان واقع تھی ۔ 46
آب و ہوا کے معاملے میں بھی یہ ملک تنوعات کا ایک سلسلہ پیش کرتا تھا۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں دوامی برف، کشمیرمیں شمالی یورپ جیسا موسم، راجستھان میں گرم ریگستان، جنوبی جزیرہ نما میں بسالٹ پتھروں کے ٹیلے اور گرینائٹ کے پتھروں کے پہاڑ، آخری جنوبی سرے پر منطقہ حارہ جیسی گرمی ہوتی تھی۔47 ہندوستان تمام دنیا کے ملکوں میں سب سے زیادہ گرم تھا لیکن بلندی و پستی کے اختلاف سے جو اس ملک میں پائی جاتی تھی ہر خطے کی آب و ہوا علیحدہ تھی۔ ہمالیہ کے خطے میں یہ اختلاف زیادہ بیّن (واضح) طور پر معلوم ہوتا تھا ۔ ایک طرف تو سا کی بلند چوٹیوں پر ایسی گہری برف کا تاج تھا جو کبھی نہیں پگھلتی تھی اور دوسری طرف اس کے دامن میں معتدل آب و ہوا تھی اور پھر اتر کر نشیب میں وہ گرمی تھی جو دائرہ حارہ کی خبر لاتی تھی۔ ان پہاڑوں پر دائمی برف کا منطقہ نہایت بلند تھااور اس سے نیچے بہت کم برف پڑتی تھی اور جو پڑتی بھی تھی تو وہ جلد پگھل جاتی تھی۔ جتنے بڑے گلشیئر (Glacier)یعنی یخ زار اس خطے میں واقع تھے وہ سب مغربی ہمالیہ میں تھے جہاں کی بلند سطحیں ان کو بننے کا اور قائم رہنے کا موقع دیتی تھیں۔ جب یہ یخ زار مشرقی دامن تک پہنچتے تھے تو ان سے برف کے تودے نیچے اتر آتے تھے۔ وہ برف کے بڑے بڑے میدان جو مغرب کی طرف اور قرا قرم کے خطے میں پائے جاتے تھےان کا مقابلہ صرف اقطاب کے حوالے سے ہوسکتا تھا۔ان میں سے بعض بیس بیس پچیس پچیس اور تیس تیس میل لمبے تھے اور ان کی بڑی خاصیت یہ تھی کہ ان کے اندر بے انتہا ٹکڑ ے پتھروں کے جمے ہوتے تھے اور ان کے نیچے کے حصوں میں پتھروں کی تعداد بہت بڑھ جاتی تھی ،ان میں سے درخت اگتے تھے اور یخ زار کی ساری سطح سبزہ سے چھپ جاتی تھی۔48 ہند کے مختلف علاقوں میں پھیلے جنگل، جو کہ کل رقبے کا پانچواں حصہ تھے ہزاروں سال سے شیر، چیتوں، بھیڑیوں اور سانپوں کی نشوونما کا مسکن تھے۔ جنوب میں دکن کی خشک اور گرم آب و ہوا کو کبھی کبھی ٹھنڈی سمندری ہوا خوشگوار بنا دیتی تھیں۔49
گنگا (بعض مؤرخوں کے ہاں گنگ، نیز کنگ) بالائی ہند کا سب سے بڑا دریا تھا جو گڑھوال کےعلاقے میں کوہِ ہمالیہ سے تقریباً تین ہزار ایک سو (3100)میٹر کی بلندی سے نکلتا تھا اور اترپردیش ، بہار اور بنگال سے گزرتا ہوا خلیج بنگال میں جا گرتا تھا۔ اس کی لمبائی تقریباً دو ہزار پانچ سو (2500) کلومیٹر تھی جن میں سے آخری پانچ سو (500) کلومیٹر بنگال کے
اگرچہ ہندو ہر ایک ندی کو بوجہ عظیم منافع کے جو ان سے حاصل ہوتے تھے دیوتاکی طرح سمجھتے تھے لیکن گنگا سے زیادہ متبرک کوئی ندی اس ملک میں نہیں مانی جاتی تھی کیونکہ ہندو اس کی پرستش مثلِ خداکے کرتے تھے ۔ہندوستان کی اور ندیوں کی طرح گنگا کا منبع بھی ہمالیہ پار واقع تھااور یہ ندی ہمالیہ کے سلسلے کو قطع کرکے نیچے اترتی تھی۔تیرہ ہزار آٹھ سو (13,800) فٹ کی بلندی پر وہ چھوٹی چھوٹی
مختصر یہ کہ ملک ہند انتہائی دشوار گزار پہاڑیوں،یخ بستہ درّوں ،ہزاروں میل تک پھیلے ہوئے دریاؤں اور سخت ترین گزرگاہوں سے بھرا ہوا خطہ تھا جس کی فضا بھی مختلف النوع اقسام کی حامل آب وہوا کی مالک تھی اور یہ انتہائی مختلف الاقسام اور باہم متضاد اشیا کا حامل خطۂ ارضی تھا۔
اہل ِہند نے بہت پہلے ہی کلمات، تراکیب ، تاریخ ، ماخذ اور روابط کے بارے میں جستجو شروع کردی تھی۔ چوتھی صدی عیسوی میں اس نے اپنے لیے علمِ صرف و نحوتشکیل دے دیا تھا اور گرامر کا عظیم ترین ماہر پانینی سامنے آچکا تھا۔ پانینی یا تنجالی (حدود 150ء) اور بھرتری ہری (حدود650ء) نے لسانیات کی داغ بیل ڈالی، لیکن یہ بات اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تکوینِ الفاظ کا سحر انگیز علم اپنی حیاتِ نوکے لیے یقیناً سنسکرت کابھی مقروض رہے گا۔ 53
اہل ہند میں کئی زبانیں رائج تھیں جس سے وہ باہمی تعلقات کو مربوط اور معاملات کو مضبوط رکھا کرتے تھے۔ان کی اصل زبان تو دراوڑی قبیلے کی ہی تھی۔ جب ان پر آریائی قوم حملہ آور ہوئی اور ہند کو فتح کرکے وہاں سکونت پذیر ہوئی تو بھی دراوڑی قبیلہ کی زبان تبدیل نہ ہوئی تھی۔اس سلسلہ میں یہ بات بھی بہت اہم اور قابل غور ہےکہ سنسکرت زبان جو فاتحین کی زبان تھی اس ملک کی عوامی زبان نہ بن سکی ۔اس کی وجہ سوائےاس کے اور کیا ہوسکتی ہےکہ آریاوٴں کے ورود سے پہلےدراوڑی زبان پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھی اور بآسانی بولی اور سمجھی جاتی تھی۔54 اسی لیے اس نئی زبان کواپنے لیے جگہ پیداکرنے کا موقع نہ مل سکا بلکہ خود حملہ آور داسیوں ہی کی زبان کو اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں فاتحین کی زبان ہمیشہ کےلیے ختم ہوگئی ۔مفتوحین کی زبان مختلف شکلوں میں ملک کے مختلف حصوں میں بولی جاتی رہی۔55
آٹھ سو (800) قبل مسیح میں ہندو دراوڑی تاجر مغربی ایشیا ءسے خطِّ فینیقی (Phoenician) جیسا خطِّ سامی (Sami) ہند لائے، جسے انہوں نے "برہما رسم الخط" کا نام دیا۔ اسی سے ہند کی ساری زبانوں کے حروف تہجی اخذ کیے گئے تھے۔ کئی سو برسوں تک یہ زبان تجارتی و انتظامی امور تک محدود رہی۔ ادبیات میں اس سے استفادہ بہت کم کیا گیا کیونکہ اس کا تحریری مصرف پروہتوں اور پجاریوں کی بجائے تاجروں کے پاس تھا۔ بدھ مت کے پیروکاروں نے بھی تیسری صدی قبل مسیح تک زبان کا تحریری استعمال شروع نہیں کیا تھا۔ ہند سے ملنے والے قدیم ترین تحریری نقوش اشو کا عہد کےہیں۔56
سنسکرت خطۂ ہند میں بولی جانےوالی قدیم ترین زبان تھی جو ہندو تہذیب کے عروج کے زمانے میں لوگوں کا ذریعۂ اظہار تھی ۔آج سے تقریباً چار ہزار (4000) سال پہلے جب آریہ ہندوستان میں داخل ہوئے تو ان میں، اس زبان کے علاوہ جسے ماہرین علم الالسنہ" انڈو آریائی" زبان کہتے ہیں، مختلف یا کسی قدر مختلف کئی بولیاں رائج تھیں۔ یہ زبان بشمول ایرانی شاخ کی مقامی بولیوں کے جن کا رواج ایران میں تھا انڈو یورپی(Indo-European)خاندان کی ہندی ایرانی شاخ سے نکلی تھی۔ ان بولیوں کے علاوہ اس زمانے کی انڈو آریائی (Indo-Aryan)زبان کی ایک ادبی طرز بھی تھی جو وید کے اشلوک مرتّب کرنے کے کام آتی تھی اس لیے اسے ویدک کہا جاتا تھا۔ یہ زبان پورے طور پر مُنضبِط اور معیاری نہ تھی۔ اس لیے اس ادبی ویدک کو بتدریج ترقی دے کر معیاری بنایا گیاحتی کہ یہ ایک مخصوص زبان کی صورت میں ایک معیّن صرف ونحو کے ساتھ نمودار ہوئی۔ اس زبان کو سنسکرت (لفظی معنی: فصیح اور نستعلیق) کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے قواعد صرف ونحو کو پانینی (تقریباً400قبل مسیح ) نے مرتب کیا تھا۔ پانینی(Panini)کا وطن شلاترا (موجودہ لاہور)تھا۔ صحیح معنوں میں اصطلاحِ سنسکرت صرف اسی بامحاورہ زبان کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن رواداری میں اس کا اطلاق اس سے پیشتر کے دور پر بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم پیشتر کے دور کی زبان سے ممتاز کرنے کے لیے اسے بسا اوقات "ٹکسالی سنسکرت"کہاجاتاہے۔ اسی کے قریب کے زمانے میں سنسکرت معاشرے کے بلند طبقات کی جماعتی بولی بن گئی بمقابلہ پراکرت (لفظی معنوں میں"فطری")، جو عوام کی بول چال کی زبان تھی۔ اس وقت سے سنسکرت جامد ہو کر رہ گئی تھی اور اس کے صحیح استعمال پر قدرت حاصل کرنے کے لیے خاص درس آموزی کی ضرورت ہونے لگی تھی۔ 57
جس طرح قرون و سطیٰ کے یورپ کا ادب عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر مردہ زبانوں میں تھااسی طرح ہند کا کلاسیکی ادب اور فلسفہ سنسکرت میں تحریر کیا گیا جو عام بولی سے عرصہ دراز سے خارج ہوچکی تھی لیکن علما اور فضلا کی جگت بھاشا کے طور پر اس کی جگہ برقرار رہی کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسری مشترک زبان موجود نہیں تھی۔حیاتِ ملت سے دوریہ ادبی زبان علمیت اور شستگی کی مثال بن گئی تھی۔ فطری بے ساختگی سے جنم لینے والے الفاظ کی بجائے اس زبان میں مدارس اور مکاتب کی ضروریات کے تحت نئی اصطلاحات شامل کی گئیں۔ بالآخر فلسفے کی زبان سنسکرت نے مناجاتِ وید کی سادہ خوبصورتی کھودی اور لغات کا ایک بحرِ عظیم بن کر رہ گئی۔
دریں اثنا شمالی ہند کے لوگوں نے پانچویں صدی قبل مسیح میں سنسکرت کو بالکل اسی طرح پراکرت میں تبدیل کردیاجس طرح اٹلی نے لاطینی زبان کو اطالوی میں بدل دیا تھا۔ پراکرت کچھ عرصے کے لیے بدھوں اور جینوں کی زبان رہی پھر اس نے پالی (Pali) زبان کی شکل اختیار کرلی جو قدیم ترین بدھ ادبیات کی زبان ہے۔ ان متوسط ہندی زبانوں نے بہت سی مقامی بولیوں کو جنم دیا جن میں ہندی سب سے اہم تھی۔ بارہویں صدی میں یہ نصف شمالی ہند کی زبان بن گئی۔ بعد کے ادوار میں مسلمانوں کی یورش نے ہندی میں فارسی الفاظ کی آمیزش سے ایک نئی بولی اردوتخلیق کی۔ ہند تک محدود یہ تمام ہندی جرمینک (Indo-Germanics)زبانیں تھیں۔ دکن میں پرانی زبانیں تامل، تلیگو، کارناسی اور ملیالم کو اہم حیثیت حاصل تھی جبکہ تامل جنوب کی سب سے اہم ادبی زبان بن گئی تھی۔ 58
اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے۔عرب تاجر سندھ اور مالا بارکی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ہندوستان کے ساحلی علاقہ"مالابار"کے بادشاہ "چکروتی فرماس"کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو تمام ذمہ داریاں سونپ کر خود نبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔امام حاکم ، المستدرک میں لکھتے ہیں" ہندوستان کےایک بادشاہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجاجس میں ادرک تھی۔نبی کریمﷺنے اس کو اپنے اصحاب کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھلایا جن میں حضرت ابو سعید خدری بھی شامل تھے"۔59
ملکِ ہندجہاں دنیا کی اولین مہذب اقوام کا مسکن رہا ہے وہیں ان مہذب اقوام کی اگلی نسلوں نے اپنے تصوّر ات و طرزِ معاشرت کو اپنے آباؤاجداد کے طرزِ معاشرت سے الگ تھلگ کرلیا تھاجس کے نتیجے میں یہ ملک اچھائیوں کے نام پربرائیوں کی دلدل میں گھرتا ہی چلا گیا ۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ نظریاتی طور پر بھی اس ملک کے باشندگان دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں جو ان کی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے انتہائی مہلک مرض ثابت ہوا ۔
بلا شبہ ہندوستان دنیا کی ان قدیم ترین تہذیبوں میں سےہے جو قدیم ادوار میں بھی نہایت ترقّی یافتہ تھیں لیکن پھر بھی ان کے معلّم و مفکّر اپنے لوگوں کو راہِ ہدایت دکھانے میں ناکام رہے۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ ترقی یافتہ معلّمین اتنی علمیت کے باوجود حقیقت سے ناآشنا تھےجو کہ وحئ الہٰی میں مضمر ہوتی تھی اور توہم پرستی کا شکار ہو کر شرک میں مبتلا ہو چکے تھے ۔ نتیجاً اس خطّے کی اقوام نسل در نسل گمراہ رہیں اور شہوت پرستی، اصنام پرستی اور دیگر گناہوں میں مبتلا رہ کراپنی جدت کے باوجود زوال کا شکار ہوتی رہیں۔