Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم فارس کا قانونی نظام

قدیم فارس کا قانونی نظام انسانوں نے تخلیق کیا تھا لہذا وقت کے ساتھ اس میں کافی ترامیم ہوتی رہیں تھیں۔ قدیم ایران میں جو قانونی نظام وجود میں آیا، وہ ڈیریس (Darius) نامی حکمران کاوضع کردہ تھا۔ ڈیریس (Darius) نے فارس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قوانین کو مرتب کیا اور اس کا عدالتی نظام قائم کیا تھا۔ اس کے بعد جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں وہ ڈیریس (Darius) ہی کے نظام قانون میں رد و بدل کرتی رہیں اور یوں اپنا نظام مملکت چلاتی رہیں تھیں۔بعد میں آنے والی حکومتوں نے ڈیریس (Darius) کے قوانین میں ایسی سخت و قبیح سزاؤں کا اضافہ کیا جیسے یہ سزائیں انسانوں کی اصلاح کے لیے نہیں، بلکہ ان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے قانون کا حصہ بنائی گئی تھیں۔

قدیم فارس میں تمام اختیارات فقط بادشاہ کے پاس ہوا کرتے تھے لہذا وہ جسے چاہتا سزا دے دیا کرتا تھااوراس کا احتساب کرنے والابھی کوئی نہ ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے عموماً بادشاہ ان سزاؤں کا سہارا لیتے ہوئے دشمنوں سے ذاتی انتقام بھی لے لیتے اور خود پاک دامن رہتے تھے۔ ایسے ظالمانہ قانونی نظام کے نتیجے میں قدیم فارس کے سماج میں عدل و انصاف کا قیام ممکن نہیں رہا تھا۔

قانون کے ماخذات

قدیم فارس کے قانونی نظام کا کوئی الہامی ماخذ تھااور نہ ہی اس کی ابتدا کی کوئی واضح تاریخ معلوم ہے۔ اس کےبعض قوانین بنیادی طور پر میڈین (Median) کچھ آریائی (Aryan) اور بقیہ غیرآریائی (Non-Aryan)تہذیبوں سے ماخوذ تھے۔ ڈیریس (Darius) نے ان قوانین کو ایک جگہ جمع کیا اور ان میں کچھ ترامیم کرواکر ایک منظم قانونی نظام تشکیل دے دیا تھا ۔ یہ قانونی نظام تین (3) حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصہ میں وہ قوانین تھے جو میراث کے طور پر میڈین (Median) ، آریائی (Aryan) اور غیرآریائی (Non-Aryan)تہذیبوں سے ملے تھے اور کچھ قوانین محکم علاقوں مثلا بابل اور مصرسے لیے گئے تھے ۔ دوسرا حصہ ان قوانین پر مشتمل تھا جو عدالتی نظام اور ریاست کے انتظامی نظام سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قوانین فارس کے صوبوں میں رائج تھے ۔ اسی حصے کے ذیل میں کچھ ایسے مقامی قوانین بھی تھے جن کا تعلق علاقے کے عرف سے ہوا کرتا تھا۔ تیسرا حصہ ان قوانین پر مشتمل تھاجن کا تعلق فقط ریاست کے داخلی اور خارجی امور سے تھا۔ ان قوانین میں بادشاہ کے ماسوا کوئی شخص بھی ترامیم یا اضافہ نہیں کرسکتا تھا۔ 1

قدیم فارس کا قانونی مواد اکثر طور پر یا تو اکاڈیان نوبابلی زبان (Neo-Babylonian dialect of Akkadian) میں حجری تختوں پر یا پھر ارامیک (Aramaic) زبان میں فنا پذیر اشیاء پر لکھا جاتا تھا۔ اضافی قانونی مواد جس کا تعلق کسی خاص علاقے سے ہوتا، اسی جگہ کی مقامی زبان میں تحریر کیا جاتا تھا۔2

ڈیریس کی اصلاحات

قدیم فارس میں سب سے مشہور قانون دان ڈیریس (Darius) تھا جو کہ قانون سازی اور ریاست کے انتظامی معاملات میں مہارت رکھتا تھا۔ ڈیریس (Darius) یہ سمجھتا تھا کہ اہورا مزدا (Ahura Mazda) نے اس کو ہخامنشی سلطنت (Achaemenid Empire) کا حاکم مقرر کیا ہے۔ ڈیریس (Darius) کی قانونی اور عدالتی اصلاحات فارس کی تاریخ میں کافی جانی مانی جاتی ہیں۔ ڈیریس (Darius) نے اپنی سلطنت میں ایک عالمگیر سکہ اور اس کے علاوہ ناپ تول کرنے والی اشیاء بھی متعارف کروائی تھیں۔ ڈیریس (Darius) کے قوانین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کافی قوانین بابل کے ہمورابی قوانین (Babylonian Law of Hammurabi) سے نقل کیے اور ان میں اصلاحات کی تھیں۔ یہ قوانین کافی عالمگیر نوعیت کے سمجھے جاتے تھے۔

قدیم فارس میں قانون کے لیے لفظ داتا (data) ، جج کے لیے داتا بارا (data-bara) اور مقامی جج کے لیے دیان (dayyan)مستعمل تھے۔ ان مقامی عدالتوں میں مقدمات چلا کرتے اور ہر مقدمے کے فیصلے کے لیے گواہوں کو حاضر کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مقدمہ لڑنے کے لیے وکلاء کی مدد لینے کی اجازت تھی اور تمام قانونی چارہ جوئی وقتا فوقتا ایک نگران کے سامنے ہوا کرتی تھی تاکہ عدالتیں صحیح طرح کام کرتی رہیں۔ حالانکہ ڈیریس (Darius) نے پوری کوشش کی کہ اپنی سلطنت میں عدل و انصاف قائم کرے لیکن اس کی تمام ترکوششوں کے باوجود ایسا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔3

عدالتی نظام

قدیم فارس کے باشندوں کا عجیب و غریب گمان تھا کہ تمام اختیارات دیوتاؤں نے فارس کے بادشاہ کو سونپ دیے ہیں لہذا یہ بادشاہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی سلطنت میں عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرے۔ تمام قانونی اختیارات و انتظامی معاملات بادشاہ کے زیر دست تھے اور بادشاہ کسی بھی فیصلہ میں مداخلت کرسکتا تھا۔ بادشاہ کے نیچے کچھ اہلکار ہوا کرتے جو عدالتوں کی نگرانی کرتےتھے۔ ان لوگو ں کو سارتینو (sartennu) یا سوکلو (sukallu) کہا جاتا تھا۔ اگر کسی عدالت کے فیصلے کو نہیں مانا جاتا تو یہ اہلکار اس شخص کوسخت سزا دیا کرتے تھے۔

فارس میں عدالتیں دو حصوں میں منقسم تھی اور ہر ایک عدالت کی اپنی حدود و قیود مقرر کی گئی تھیں۔ ایک سیکولر عدالت(secular court) اور دوسری ٹمپل عدالت(temple court) کے نام سے موسوم تھی۔ ٹمپل عدالتوں میں انفرادی یا اجتماعی نوعیت کے مقدمات آتے جس میں ایک ٹمپل کے نمائندے کا اور ایک شاہی نمائندے کا موجود ہونا ضروری و اہم سمجھا جاتاتھا۔ جبکہ سیکولر عدالتوں کا دائرہ کار بہت وسیع تھا۔ ہر وہ مقدمہ جو ٹمپل عدالت نہ لے سکتی ہو، وہ سیکولر عدالت میں منتقل کردیا جاتا تھا۔ سیکولر عدالتوں کے پاس یہ اختیارات بھی تھے کہ وہ ٹمپل عدالت کے فیصلے کو رد کردیں۔ مقدمات کی سماعت کے لیے کوئی خاص جگہ متعین نہ تھی بلکہ انہیں ٹمپل کے دروازے پر، گوداموں کے اندر اور عوامی مقامات پر بھی سنا جاتا تھا ۔4

مقدمہ دائر کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ مدعی اپنا دعویٰ پیش کرے اور ملزم نے جو حق تلفی کی تھی اسے بیان کرے۔ اس کے بعد عدالتی اہلکار تفتیش کرتے ، ملزم کو بلاتے اور اس سے بھی معلومات حاصل کرتے تھے۔ اگر ملزم حاضر نہیں ہوتا تو اسے گرفتار کرلیا جاتا تھا۔بعض صورتوں میں تو ملزم کی جائیداد بھی ضبط کرلی جاتی تھی۔ تفتیش کے بعد ملزم سے اپنی صداقت ثابت کرنے کے لیے حلف بھی لیا جاتا اوراس کے علاوہ دیگر شواہد بھی اکھٹے کیے جاتے تھے۔ ساری تفتیش کے بعد فیصلہ سنایا جاتا اور اس پر عملدرآمد کیا جاتا تھا۔ 5

اس دور پر بھی لوگ اکثر مقدمات میں ضمانت کرواسکتے تھے لیکن کچھ ایسے خاص مقدمات بھی تھے جن میں ضمانت لینا ممکن نہ تھا۔ عدالت کی ذمہ داری صرف مقدمہ کی سماعت کرکے سزا تجویز کرنا نہیں تھا بلکہ کچھ مقدمات میں انعامات دینے کا بھی حکم جاری کیا جاتا تھا۔ مقدمات کے فیصلوں کی تاخیر سے بچنے کے لیے مقدمہ کی ایک متعین مدت مقرر کردی جاتی تھی۔ ساتھ ساتھ اس بات کی بھی اجازت تھی کہ مدعی اور ملزم آپس میں چاہیں توصلح کرسکتے ہیں۔ صلح کے لیے دونوں اشخاص ایک ثالث کو مقرر کرتے جو مصالحتی عمل میں جوڑ توڑ کرکے سمجھوتا کروادیا کرتا تھا۔ فارس کے کچھ حکمرانوں نے بہت کوششیں کی کہ رعایا کو انصاف کی فراہمی میسر آسکے ، یہاں تک کہ کیمبس یس(Cambyses) نے نانصافی کرنے والے ایک قاضی کی زندہ چمڑی اتروادی تھی تاکہ دوسرے لوگ اس انجام سے عبرت پکڑ یں 6 لیکن اس کے باوجود نانصافی کا سد باب نہیں ہوسکا تھا۔

مقدمہ کرنے کا حق

عمومی طور پر ہر آزاد آدمی کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ کسی کے خلاف بھی مقدمہ دائر کرسکے لیکن عمومی طور پر گھر کا بڑا اپنے گھر والوں کے حق کے لیے مقدمہ کرتا تھا۔ عورتوں کے پاس بھی یہ حق تھا کہ وہ اپنے جہیز کے لیے ، گھر کے اندرونی جھگڑوں میں اور مرد کی طرح دیگر معاملات میں مقدمہ کرواسکتی تھیں۔ شاہی نمائندوں کو یہ حق تھا کہ وہ بادشاہ کے خلاف مقدمہ کرسکیں اور اس کے علاوہ ٹمپلز کے پاس بھی یہ حق تھا کہ وہ سیکولر عدالتوں کے خلاف اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مقدمہ دائر کرسکیں ۔ اگر کہیں کوئی جرم کی واردات ہوجاتی تو کوئی بھی اس معاملے میں عدالت سے مدعی، یا گواہ کے طور پر رجوع کرسکتا تھا۔7

جرائم اور ان کی سزائیں

قدیم فارس میں جرائم تین انواع پر منقسم تھے۔ پہلی قسم خدا سے بغاوت تھی جب انسان مذہب سے دور ہوجاتا تھا۔ دوسری بادشاہ سے بغاوت تھی جیسے کہ غداری ، فساد مچانا اور جنگ سے فرار ہوجانا تھا ، جب کہ تیسری قسم اپنے پڑوسی کو مالی اور جانی طور پر نقصان پہنچانا تھا۔ 8ابتداء میں سزا وٴں کے متعلق قوانین انتہائی سخت نوعیت کے تھے ۔خدا سے بغاوت یا بادشاہ سےعہد شکنی کرنے والے کو موت کی سزا دی جاتی تھی جبکہ بقیہ جرائم کی سزا جرم کی نوعیت کے مطابق دی جاتی تھی۔ بعد ازاں ان قوانین میں ترامیم کی گئیں اور ان میں کچھ نرمی لائی گئی تھی۔ وہ لوگ جو اپنے دین سے بغاوت کرتے ان کو ایک سال کے لیے زندان میں ڈال دیا جاتا اور ان کی اصلاح کی کوشش کی جاتی تھی۔ جو لوگ توبہ کرلیتے تو ان کو آزاد کردیا جاتا جبکہ دوسروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتاتھا۔

بادشاہ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو سزائے موت اسی لیے دی جاتی تاکہ وہ دوسرے لوگوں کے لیے عبرت بنیں اور دوسرے لوگ غداری کرنے سے اور فساد مچانے سے اجتناب برتیں ۔ بقیہ جرائم کی سزا یا تو جرمانہ ہوتی یا پھر درے لگائے جاتے تھے بعض صورتوں میں اندھا بھی کردیا جاتا اور ہاتھ پیر کاٹ دئے جاتےتھے ۔ 9 عموماً چھوٹے جرائم پر سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی ۔اگر کوئی شخص بادشاہ کی کسی کنیز یا باندی کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ، بادشاہ کے تخت پر غلطی سے بیٹھ جاتا یا کسی بھی طرح شاہی خاندان کو کسی بھی نوعیت کی اذیت پہنچانے کا مرتکب ہوتا تو بادشاہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اس شخص کو سزائے موت دے سکتا تھا ۔ سزائے موت دینے کا طریقہ یہ تھا کہ ملزم کو زہر دیا جاتا ، دو بڑے پتھروں سے مجرم کا سر کچل دیا جاتا، سولی پر چڑھا دیا جاتا، سنگسار کیا جاتا یا پھر اس کے جسم کو جلا دیا جاتا تھا۔ 10جو شہزادے حاکم وقت کے خلاف بغاوت کرتے ، ان کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سوئیاں ڈال کر اندھا کردیا جاتا تھا ،یا پھر آنکھوں پر کھولتا ہوا گرم پانی ڈال کر بینائی سے محروم کردیا جاتا تھا۔ 11 اس کے علاوہ مجرموں کو درج ذیل سزائیں دی جاتی تھیں:

سکافیزم (Scaphism)

سکافیزم اس دور کی سب سے متشدد اور گھناؤنی قسم کی سزا سمجھی جاتی تھی۔ یونانیوں کے نزدیک جو لوگ اس سزا کو لاگو کرتے تھے وہ مکمل طور پر عقل سے پیدل ہوتے تھے کیونکہ ایک سالم شخص اس طرح کی سزا کسی انسان کو نہیں دے سکتا تھا۔ اس سزا کے مطابق مجرم کو دو کشتیوں کے بیچ یا پھر ایک کھوکلے درخت میں پھنسا دیا جاتا اور اس کو زبردستی دودھ اور شہد کی ایک بڑی مقدار پلائی جاتی۔ اس خوراک سے مجرم کو جلاب لگ جاتے جو کہ اس درخت میں یا کشتیوں کہ بیچ جمع ہوتے رہتے۔ اس گند کے اوپر مزید شہد اور دودھ ڈالا جاتا اور مجرم کو اس حال میں وہیں بندھا چھوڑدیا جاتاتھا ۔ اس گند کے اوپر ہر طرح کے کیڑے آنے لگتے اور اس مجرم کو بھی شدید اذیت پہنچاتے تھے۔یوں مجرم یا تو بھوک پیاس سے مرجاتا یا پھر ان کیڑوں کے مسلسل ڈنگ مارنے سے اور دیگر لگنے والی بیماریوں سے دم توڑ دیا کرتا تھا۔12

زندہ دفن کرنا

یونانی مورخوں کے مطابق مجرموں کو زندہ درگور کرنا اکثر فارس کی ملکاؤں کا کام تھا جو ذاتی انتقام کے لیے کسی کو بھی زندہ دفن کروادیتی تھیں۔ ہیروڈوٹس (Herodotus) کی ایک روایت کے مطابق کیمبیس یسس (Cambyses) نے حکم جاری کیا تھا کہ اس کے بارہ (12) امراء کو زندہ حالت میں زمین میں گاڑ دیا جائے اور وہ امراء اسی حالت میں تڑپتے ہوئے مرگئے تھے۔ 13

اسقاط حمل کی سزا

فارس کے معاشرے میں اسقاط حمل ایک بہت ہی قبیح فعل و گناہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے نزدیک یہ زندگی کی جڑیں کاٹنے کے مترادف تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک اسقاط حمل اور قتل برابر درجہ رکھتے تھے لہذا جو لوگ بھی اس فعل میں ملوث پائے جاتے(ماں، باپ وغیرہ) ان سب کو سزائے موت دی جاتی تھی ۔ 14

شادی کے بعد زنا کی سزا

قدیم فارس کے معاشرے میں عمومی طور پر شادی کے بعد زنا کی سزا عورت کو دی جاتی تھی۔ جو عورت بھی اس جرم میں پکڑی جاتی اس کی ناک کاٹ دی جاتی پھر اس کو ایسے دروں سے مارا جاتا جس پر لوہے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جڑے ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ عورتوں کے ہاتھ پیر کاٹنے کے ساتھ ساتھ کبھی ان کی شرم گاہیں اور پستان بھی کاٹ دئے جاتے تھے۔15 بعض اوقات ایسی زانیہ کو زندہ ایک کنویں میں پھینک دیا جاتا جہاں وہ تڑپ تڑپ کر اپنی جان دی دیتی تھی۔16

سیاسی جرائم کی سزا

سب سے زیادہ سنگین سزائیں سیاسی نوعیت کے جرائم کی تھی جیسے بادشاہ کی شان میں گستاخی کرنا، بغاوت کرنا وغیرہ۔ اگر کوئی شخص بادشاہ کو دھوکہ دیتا تو عدالت میں ہی اس کے ناک اور کان کاٹ دئے جاتے پھر اس شخص کو عبرت کے طور پر تمام لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ باغیوں کی چمڑی ادھیڑ کر، سنگسار کرکے، ہاتھی کے نیچے کچل کر ، تلوار سے ذبح کرکے موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ کچھ باغیوں کی تو چمڑی اتار کر اس میں بھوسہ بھر کر شہر کے دروازے پر لٹکادیا جاتا تاکہ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے۔17

ان تمام سخت سزاؤں کے باوجود قدیم فارس کے معاشرے میں عدل قائم نہ ہوسکا کیونکہ امراء ان سزاؤں سے بچ جاتے جبکہ غرباء کو سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی۔ عدالتوں کا یہ بنیادی فرض ہوتا ہے کہ اپنے معاشرے کے ہر فرد کو آسانی سے انصاف کی فراہمی کرے لیکن فارس کا قانونی نظام اس فرض کو نہ نبھا پایا۔ یہی وجہ تھی کہ فارس کے معاشرے کمزور ہوتے رہے اور اس کے باشندے اپنے حکمران اور اس کے قانونی نظام سے نالاں ہوتےچلے گئےاور وقت آنے پر اپنے ہی حکمرانوں سے بغاوت کرنے لگے اور حملہ آور فوج کا ساتھ دیتے ہوئے پچھلے حاکم کا تختہ الٹ کر نئے حکمران اپنے لیے تلاش کرنے لگے جس سے بالآخر فارس مکمل تباہی کا شکار ہوتا گیا اور اس میں دی جانے والی غیر انسانی سزائیں بھی لوگوں کو بادشاہوں اور حکمرانوں کا فرمانبردار بنانے سے قاصر رہیں۔