Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم فارس کا سیاسی نظام

قدیم دور کی فارسی سلطنت ابتدا میں متحمل مزاج تھی اور سفارتی بنیادوں پر اپنا سیاسی نظام چلا رہی تھی لیکن بعد کے دور میں اس سرزمین پرنفس پرست،سفاک اور جابر حکمرانوں نے اپنا تسلط قائم کرلیا تھا۔ مختلف ادوار میں فارس کی سرزمین پر الگ الگ بادشاہوں کا جداگانہ طرز ِسیاست رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ریاست کے پھیلاؤ اور سمٹنے کا عمل بھی جاری و ساری رہا ۔ فارس کےاعلی دور میں سلطنت کے زیر انتظام بیس(20)صوبے تھے۔ ڈیریس (Darius)، کیمبیسس(Cambyses)، اور کوروش (Cyrus)سلطنت فارس کےبڑے بادشاہ گزرے تھےجنہوں نے ترکی سے لے کرجنوب مشرقی ایشیا تک سیاسی اثرورسوخ قائم کیااور کروڑوں انسانوں پر حکومت کی تھی۔ زیادہ تر بادشاہ مطلق العنان حکمران تھے۔زمینی خطوں پر تسلط حاصل کرنے کے بعدعموماً فارس کےبادشاہ ہمیشہ قتل وغارت گری نہیں کرتے تھے بلکہ فتح حاصل کرنے کے بعدمفتوح اقوام پر بھاری محصول عائد کردیتے تھے۔ سلطنت فارس کےبعض حکمران مستحکم اور مضبوط سیاسی نظام قائم کرنے میں کامیاب رہےلیکن ان کی زیادہ سے زیادہ پالینے کی ہوس اور حکمران طبقے کی انتہائی شاہانہ زندگی کی خواہش نے عام عوام پرمحصولات کا ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا تھا۔اس کےساتھ ساتھ طاقت اور حصول اقتدار کی ہوس کی وجہ سے بادشاہوں کا قتل کیا جانااور دیگر اندرونی مسائل بھی عام تھے۔بالآخر حالات اس قدر بھیانک صورت اختیار کرگئےکہ قابل اورعقل مند حکمران بھی سلطنت کے وجود کو قائم رکھنے میں ناکام ہوگئے اور بالآخر ساتویں صدی عیسوی میں ایرانی سلطنت دنیا کے نقشے سے مٹ گئی۔

ایرانی دفتر شاہی (Bureaucracy) اور عوامی انتظامی نظام (Public Administrative System) کا آغاز سب سے پہلے شہری ریاست سوسا (Susa)میں ہوا تھا۔ اس کے بعد ایلام(Elam)، میڈیا(Media)، کوروش اول(Cyrus-I)اور ڈیریسسوم(Darius-III)کے دور، فارسی دور، ہخامنشیو(Achaemenid)اور پھر ساسانیوں (Sassanian)کے عہد میں منتظمہ یا نوکر شاہی(Bureaucracy) اور انتظامی نظام کی نمو ہوتی رہی تھی۔فارس کی سلطنت میں کوروش (Cyrus the Great)کا وضع کردہ حکومتی نظام ماقبل دور کے نظام حکومت سے بہت بہتر اور جدید خطوط پر استوار تھا۔ دفتر شاہی کا نظام عہد عتیق کاسب سے بڑا اور منظم ترین انتظامی نظام تھا یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکومتی عمال تاریخ کے بہترین منتظمین شمار کیے جاتے ہیں۔ 1

حکومتی ڈھانچہ

قدیم ایران میں پانچ (5)درجوں پر مشتمل ایک بہترین حکومتی اور انتظامی نظام موجود تھا جس میں انتظامی اختیارات اور اقتداربادشاہ اور مرکز کی جانب سے صوبوں اور علاقائی حکومتوں کو تفویض ہواکرتے تھے۔ اس حکومتی نظام کو دو(2)حصوں مرکزی حکومتی نظام اورصوبائی حکومتی نظام میں تقسیم کیا گیا تھا۔ سب سے اوپر بادشاہ ہوا کرتا تھا اس کے بعد بادشاہ کی مقرر کردہ عدلیہ اور مرکزی حکومت تھی جوکہ چاق و چابند اور پیشہ ورانہ مہارتوں سے مزین منتظمین اور افواج پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد صوبائی حکومت اور اس کے تحت چلنے والی منتظمہ اور عدلیہ کا درجہ ہوا کرتا تھا۔اس کے علاوہ ذیلی صوبائی سطح کے منتظمین بھی ہوا کرتے تھے جو ضلعی حکومت کا نظام چلاتے تھے۔

ریاست کی سربراہی کا سلسلہ خاندانی موروثی نظام پر مشتمل تھا۔ بادشاہ سب سے بلند مرتبہ اورمکمل طور پر بااختیار حاکم اعلی(Sovereign) تصور کیا جاتا تھااور اس کے تخت اور اقتدارکو مذہبی طور پربھی قبول کیا جاتا تھا۔ ڈیریس (Daruis)کے الفاظ بےہسٹن(Behistun)کے نقوش میں کندہ ہیں کہ"اہورامزدا(Ahura Mazda)کی برکت سے میں بادشاہ ہوں اور اہورا مزدا (Ahura Mazda)نے مجھے یہ بادشاہت عطا کی ہے"۔ وقت گزرنے کے ساتھ سلطنت کی وسعت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور مزید ریاستیں اس میں ضم ہوتی چلی گئیں تھیں۔فارس کے بادشاہوں نے ان ممالک،قوموں اور لوگوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کیلیے ان علاقوں کے مذہبی قوانین اور رسوم کو بھی اپنا لیا اوریوں اپنے اقتدار اور خود مختاری کو مزید مستحکم کرنے کی راہ ہموار کردی تھی۔ کوروش (Cyrus)کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اسے بابل (Babylon)کے باسیوں پر حکومت کا اختیار مردوک(Marduk) دیوتا نے سونپا تھا ۔ اس کے علاوہ ڈیریس (Darius) اور ژرکسیز(Xerxes)کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ مصری خدا "رے(Re) "نے ان کو اقتدار اعلی عطا کیا تھا۔2

قدیم فارس کے سیاسی نظام میں بادشاہ کو اقتدار اعلی اور مطلق اختیارات حاصل ہوا کرتے تھے اور اس کے بارے میں یہ تصور قائم تھا کہ "بادشاہ کے برابر رتبے کاحامل کوئی بھی انسان اس روئے زمین پر موجود نہیں ہے۔" اس کی بادشاہت کو بادشاہت ِاعلی اور بادشاہوں کے بادشاہ جیسے خطابات سے نوازا جاتا تھا،جو اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ فارس کی سلطنت میں بادشاہ کا کوئی بھی ہم رتبہ اورمد مقابل موجود نہیں ہو سکتاتھا۔یونانی ایرانی بادشاہوں کوبیسی لیوس (Basileus) کا نام دیا کرتے تھے جس کےمعنی "دنیا کا واحد اور اصل بادشاہ"تھا۔ کیمبیسس (Cambyses)کو بابل شہر کا بادشاہ بنا یاگیا تھامگر اسے شہنشاہ کوروش (Cyrus) کی ماتحتی میں کام کرنا تھا جو کہ سرزمینوں کا شہنشاہ کہلاتا تھا۔ بادشاہت اور تخت نشینی کی بنیادمورثی اقتدار تھا اسی لیے بادشاہ کا تعلق ایرانی شاہی خاندان سے ہونا سب سے لازمی شرط تھا۔ ڈیریس (Darius) کی تخت نشینی اس بنیاد پر کی گئی تھی کہ اس کی ذا ت باقی رہ جانے والے قدیم شاہی خاندان کی کڑی سے منسلک تھی۔ژرکسیز (Xerxes)نے ڈیریس سے تخت اپنی ماں اتوسا(Atossa)کے سبب سے حاصل کیا تھا کیونکہ"اتوسا"کوروش(Cyrus) کی بیٹی تھی۔یوں بادشاہت کا معیار صرف مورثی جانشینی پر مبنی تھا جس میں عوام کی رائے کا کوئی دخل نہیں ہوا کرتا تھا۔

قدیم فارس میں بادشاہ کے معنی قانون کے بھی کیے جاتے تھے۔ اس کےاحکام اور فرامین مختلف ذرائع سے مشاورت کے نتیجے میں جاری ہوا کرتے تھے جن میں اعلی ایرانی اشرافیہ، دفتر شاہی کے ممتاز افسران،بادشاہ کی مشاورت کےلیے مختص اہم افراد، ماہرین پر مشتمل مجلس ، وزرائے کابینہ کی کونسل، اور ان کے علاوہ صوبوں کے نمائندے بھی شامل ہوا کرتے تھے۔مطلق العنان ایرانی بادشاہ جیسے چاہتے اپنی خواہشات کو پورا کرسکتے تھے لیکن اس کے باوجود عام طور پر وہ قوانین و روایات کی پاسداری اور احترام کیا کرتے تھے ۔بعض معاملات میں چھ(6) معتبر ایرانی شاہی خاندانوں کا بادشاہ پر اثر ورسوخ بھی اس کے فیصلوں کو متاثر کرتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ مطلق العنان ہونے کے باوجودبادشاہ کے اعلی اختیارات رسوم و رواج ، روایات اور اشرافیہ اور اعلیٰ حکام کی مشاورت کے پابند تھے۔ 3

صوبائی حکومت کا نظام

قدیم فارس میں صوبائی نظامت سے مراد ایک ایسےبڑے خطہ زمین کے معاملات اور نظم و ضبط کی سرپرستی کرنا تھا جس میں متعدد ریاستیں، اقوام اور مختلف قبائل شامل ہوا کرتے تھے۔ اس نظام کو سنبھالنے کی ذمہ داری بادشاہ کی جانب سے صوبے دار یا گورنرکو تفویض کی جاتی تھی۔ ایرانی ریاسَتہائے متحدہ میں حدود نظامت کئی تنظیمی قوانین اور اداروں پر مشتمل تھیں جوسیاسی اور قانونی دائرہ کار میں کام کیا کرتے تھے۔ ان اصول و ضوابط میں، برداشت و رواداری کے ذریعے حکومت ، مرکز داری کا قیام شامل تھا جس میں ضرورت کے مطابق خودمختاری ہو، مختلف طریقوں سےاداروں کی نگرانی ، قانون کے سامنے برابری و مساوات ، الہامی بادشاہت ،بادشاہ کی حاکمیت اعلی اور ریاستی اور انتظامی امور کو معیار کے مطابق چلانے سے متعلق قوانین موجود تھے۔ ان گورنروں کی ذمہ داریوں میں ریاستی کارگزاری کی نگرانی اور انتظامی معاملات میں پیش رفت کی معیار بندی جیسے اموربھی شامل ہوا کرتے تھے۔ان تمام معاملات کی نگرانی اور انجام دہی مرکزی پیشہ ور ماہرین اور بااثر افسران انجام دیاکرتے تھے۔بادشاہ اورمرکزی حکومت کے تحت وسیع علاقوں کے انتظامی امور چلانے والے گورنر کام کیا کرتے تھےجنہیں شہری، عدالتی اور عسکری نظم و نسق چلانے میں غیر معمولی اختیارات حاصل تھے۔4

فارس کی شاہی تحریروں میں بہت سی ایسی فہرستیں موجود ہیں جو سلطنت کے زیر انتظام زمینوں دہیاوا (Dahyava) اور عوام کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ایک دور میں مختلف نسل اور تہذیب سے تعلق رکھنے والی 31 اقوام ایران میں موجود تھیں ، تاہم ان اقوام کے متعلق تحریر شدہ فہرست میں 26 اقوام کی معلومات درج ہیں جن میں آیونائی (Ionian) اور سیتھائی (Scythian) اقوام کو ایک شمار کیا گیا تھا۔ 5

ایرانی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف طرز حکومت اور انتظامی نظام رائج رہےجن کی تفصیل درج ذیل ہے:

شش تہذیب کا سیاسی نظام

شش تہذیب کا شمار تقریبا 6000 قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے قدیم دور کے ان معاشروں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے سیاسی معاملات اور حکومت کو بہت منظم انداز سے چلایا تھا ۔بین النہرین (میسوپوٹیمیا ) میں یہ شہری ریاست قدیم تہذیب سمیریا (Sumer) کی حریف تھی۔ اسی تہذیب نے فارس کے ابتدائی دور میں انتظامی معاملات، ملکی نظم و نسق ، عمارت سازی اور رسوم و رواج کی بنیاد رکھی تھی ۔ شش (Shush) کی شہری ریاست اور وسیع دائرہ اثر کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ سلطنت ایلام (شوشیانا )کا شمار قدیم ایرانی تہذیب اور بڑے پیمانے پر انتظامی امور کی بنیاد ڈالنے والوں میں کیا جاتاتھا۔6

ایلامی سلطنت کا سیاسی نظام

سلطنت ایلام(Elamite Empire)، سمیریا(Sumer)اور بابل(Babylon)کو اپنا حریف جانتی تھی اسی وجہ سے انہوں نے اپنے دور میں فنون، انتظامی اور حکومتی معاملات دیگر اقوام کے مقابلے میں برابری کی سطح پر مہارت سے سر انجام دیے تھے۔ایک اندازے کے مطابق ایلام(Elam)کا بابل (Babylon)پر قبضہ تقریبا 500سال تک قائم رہا تھا۔سلطنت ایلام(Elam)کے اقتدار میں لمبے عرصے تک براجمان ہونے کی بنیادی وجہ عوامی انتظامی معاملات کی دیکھ بھال کا وفاقی نظام تھا۔

ایلامی سلطنت (Elamite Empire)کی مرکزی حکومت کا ڈھانچہ تین تنظیمی شعبہ جات میں منقسم تھا۔ صوبوں کی حکومت صوبہ دار سنبھالتا تھاجسے "ہیلمےنِک(Halmenik)"کہا جاتا تھا۔صوبہ داروائسرائے(Viceroy)کو جوابدہ تھا جو"سکَناکون(Sakanakkun)"کہلاتا تھا۔ وائسرائے(Viceroy)با دشاہ کو جوابدہ تھا جسے زُنکِر(Zunkir)کہا جاتا تھا۔بادشاہ نے ان امور کو چلانے کے لیے دو (2)دارالخلافہ مختص کیے ہوئے تھے، ان میں سے ایک دِزفُل(Dizful) کا نشیبی شہر جبکہ دوسرا سوسہ(Susa)تھا۔سوسہ فارس کا قدیم شہر تھا جومشر ق و مغرب کے مابین ربط اور سیاسی، تجارتی،مواصلاتی، اور انتظامی امور کاتہذیبی مرکزشمار کیا جاتا تھا۔7

قدیم تہذیبوں کامرکز ہونے کے سبب سوسہ (Susa)نے سیاسی امور اور نظام سلطنت چلانے کا آغاز 6000سال قبل مسیح کے قریب قریب کیا تھا۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عیلامی مرکزی حکومت کےعوامی اور انتظامی معاملات چلانےمیں بنیادی اور کلیدی کردار دفتر شاہی(Bureaucracy)کے اراکین ادا کیا کرتے تھےجنہوں نےفارسی اور میڈیائی سلطنت کی ترقی و توسیع میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔8

مادسلطنت کا سیاسی نظام

مجوسیوں کا علاقہ میڈیا (Media) یعنی مغربی فارس کا خطہ تھا۔ یہ علاقہ فارس کے دوسرے خطوں کی بہ نسبت خاص اہمیت اور امتیاز کا حامل تھا۔ اس کی مذہبی، سیاسی اور ثقافتی پوزیشن خاصی مضبوط اور بااثر تھی جبکہ مجوسی(Medes) اس علاقے کا بااثر اور سربرآوردہ قبیلہ تھا۔9مجوسیوں (Medes) کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ فارسیوں کی غیرتشکیل شدہ فطرت یا مظاہر پرستی میں اپنے آپ کو پیشوائی کے مقام پر فائز کرلیں، اور ان کے سماجی اثر و رسوخ کا یہی راز تھا۔ چنانچہ مجوسیوں(Medes) کو نہ صرف ان کے اپنے علاقہ میڈیا(Media) بلکہ ایران کے دیگر خطوں میں بھی معزز اور قابل احترام طبقہ سمجھاجاتا تھا۔ اس عزت و احترام اور مرجعیت کی وجہ طاقت مذہب اور تعلیم کی وہ تثلیث تھی جو اس طبقہ نے اپنے اندر جمع کرلی تھی، اور انہی صفات کی بدولت ایک طرف تو وہ بابل(Babylon) کی حکومت میں کار پرداز نظر آتےتھے اور دوسری طرف ایران میں بادشاہت کی تشکیل اور سیاست کی تنظیم میں دخیل دکھائی دیتے تھے۔ جس زمانہ میں میڈیا (Media)پر پارسیوں کا قبضہ ہوا اور بادشاہت آریوں کے حصہ میں آئی اس وقت بھی ایرانیوں میں مجوسیوں (Medes) کی طاقت وثروت مسلّم تھی اور یہی افراد حکومت کے اہم سیاسی اور مذہبی عہدوں پر فائز تھے۔ اگرچہ شمالی ایران کے غیرمجوسی باشندے ان کو رشک و رقابت کی نظروں سے دیکھتے تھے مگر مجوسیوں نے اپنی ناکامی کے باوجود نئے سیاسی نظام اور بدلتے ہوئے حالات میں اپنے آپ کو اس طرح فٹ کرلیا تھا کہ گویا وہ اسی کے لیے وجود میں آئے تھے۔ حالات سے سمجھوتہ کرکے اپنے آپ کو باقی رکھنے اور ترقیاں حاصل کرنے کا یہ ایک کامیاب طریقہ تھا۔ 10

مجوسی سلطنت کے باشندے(Medes) جوان، طاقتور اور مضبوط لوگ تھے، اس کے علاوہ عسکری طاقت کے ساتھ ساتھ سرکاری اور انتظامی معاملات چلانے میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ریاست کے نظریے کو عملی طور پر نافذ کیا تھا۔مجوسی سلطنت میں معاشرے اور عوام کے مابین تعلق کو مستحکم کرنے اور انھیں ریاستی قوانین کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھرپور کوششیں کی گئی تھیں۔ تمام شہریوں کو اپنے معاملات حل کروانےکے سلسلے میں متحدہ مجوسی ریاست کے دفاتر تک رسائی حاصل تھی۔ ریاست کے فوجی افسران اور دفتری عاملین ریاست کے ملازم سمجھے جاتے تھے جن کا سربراہ سلطنت کا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ شہریوں میں ریاست کا تصور اجاگر ہونے کے سبب، عوامی انتظامی دفاتر لوگوں کے معاملات نمٹانے میں غیر جانبداری اور غیر متعصبانہ رویہ اختیار کیاکرتے تھے۔

مجوسی سلطنت نے ملکی نظم ونسق اور انتظامی معاملات کے حل اور اجتماعی فیصلہ سازی کے لیے وفاقی سطح پر مرتب نظام ترتیب دیا تھا جس کا مرکزشہر"اکبٹانا(Ecbatana)" موجودہ ہمدان میں تھا۔ انہوں نے بادشاہ دائوسز(King Dieoces)کے دور سے انصاف کاایک سخت اور مضبوط نظام وضع کیا تھا۔ بادشاہ دائوسز منصفانہ رویہ، فیصلہ سازی اور حکمرانی کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا تھا اسی وجہ سے سلطنت کے اراکین نے اسے بادشاہ منتخب کیا تھا۔اس نے بادشاہی نظام حکومت کوازسر نو مرتب کیا اور ریاستی اعلی منصب کو انتہائی مؤثر اندازمیں ترتیب دے کر سلطنت کے منتشر عوام کو متحد کیا تھا ۔ وفاقی حکومتی نظام میں مجوسی بادشاہ کی حکومت کے تحت رہنے والے غیر مجوسی باشندوں اور ریاستوں کے لیے بہت آسانیاں رکھی گئی تھیں ۔

قدیم مجوسیوں نے تربیت یافتہ اور باصلاحیت دفتر ِشاہی کے اراکین پر مشتمل ملکی نظم و نسق کے نظام کو فروغ دیا تھا۔ انھوں نےریاستی امور میں ضابطہ پرستی اور افسرانہ انداز میں تنظیمی امور چلانے کا فن سیکھا جس میں عام لوگوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی اور مسائل کو اچھی اہلیت اور قابلیت کے ساتھ حل کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔حکومت کے تحت کام کرنے والے دفتری اراکین دو اصولوں پر عمل پیرا ہوکر پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرتے تھے ۔پہلا یہ کہ انتظامی معاملات چلانے والے عہدیداروں کو مہارت اور بہتر کارکردگی کے حصول کے لیے منظّم مشق کروائی جاتی تھی۔اس سلسلےمیں شاگردی حاصل کرنےکے اصول واضح انداز میں مرتب کیے گئے تھے۔دوسرا اصول دفترکی تنظیمی درجہ بندی، انتظامی کردار کے تخصص اور حکمی وحدت کے نظام کی عملی مشق کرانا تھا۔11

ہخامنشی سلطنت کاسیاسی نظام

انتظامی معاملات میں اہل فارس نے کوئی نئی حکمت عملی وضع نہیں کی تھی بلکہ قدیم نظام کو منظم کیا تھا۔یہ امر بھی بالکل واضح ہے کہ ہخامنشی (Achaemenid)حکمران سابقہ سلاطین کے اعزاز اور مراتب اختیار کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے ۔ 12

ہخامنشی(Achaemenid) جنوبی ایران کے صوبے پارس سے تعلق رکھنے والے قدیم ایرانی باشندے تھے۔ہخامنشی بادشاہوں نے کرہ ٔ ارض کے قدیم دور میں ایک بہترین سلسلہ سلاطینِ ایرانی کا نظام چلایا تھا، ایک ایسا شاہی سلسلہ جس نے550 قبل مسیح میں کوروش(Cyrus) کے تحت امتیازی شناخت حاصل کرلی تھی اور اس کا زوال 330قبل مسیح میں میسوڈونیا (Macedonia)کے سکندر اعظم(Alexander the Great) کے ہاتھوں ڈیریس سوم (Darius III)کی شکست پر ہوا تھا۔ اپنے عروج کے دور میں ہخامنشی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی بادشاہت تھی۔13

ڈیریس(Darius)کے دورِحکومت میں ہخامنشی سلطنت کا پھیلاؤ وسیع رقبہ تک ہوچکا تھا جس میں بیس (20)صوبے یا سٹراپیز(Satrapies) شامل تھے۔ان صوبوں میں مصر، فلسطین، شام، فونیشیا، لیڈیا، پمفیلیہ، آیونیا،کپاڈوشیا، سلیشیا، آرمینیا، آشوریہ، کاکیشیا، بابل، میڈیا، فارس، موجودہ افغانستان اور بلوچستان، بھارت، مغربی سندھی تہذیب، سوگڈیانا، بیکٹیریا، ماساگاٹائے کے مختلف علاقےاور دیگر وسطی ایشیائی قبائل بھی شامل تھے۔ 14 لیکن اس وسیع عریض سلطنت کا نظام سنبھالنے اور اسے اپنے تابع رکھنے کے لیے عمدہ تربیت یافتہ ، قابل اور منظم تنظیم کا ہونا بھی انتہائی ضروری تھا۔ ایرانی حکومت کے تحت شامل ہونے والی سلطنتوں اور بادشاہتوں کو ایک ہی سیاسی نظام کے تحت چلانے کے لیے ایک ایسے طریقہ کا ر کی ضرورت تھی جس کی کوئی نظیریا نمونہ اس وقت موجود نہ ہو۔ اس وقت کے ترقی یافتہ معاشرےمثلاً مصر، عراق، مشرقی بحر روم کا علاقہ لیوانٹ اور بر اعظم ایشیا کے مغربی علاقے ، صدیوں سے جاری بہترین حکومتی نظام اور روایات کے ساتھ موجود تھے۔ایسے میں کوروش اعظم نے پرانے نظام کو بزور طاقت لادنے کی جگہ جرأت مندانہ اختراع پسند فیصلے کیے اور پرانےانتظامی نظام کو تبدیل کرکے نیا انتظامی نظام رائج کردیا تھا۔

کوروش(Cyrus)نے ایک تبدیلی یہ بھی کی کہ اس نے اپنی حکومت میں شامل ہر علاقے کا نظام چلانے کے لیے ایک صوبے دار مقرر کردیا تھا۔ صوبے دار کو سٹراپ (Satrap)کہا جاتا تھا جس کا معنی سلطنت کا محافظ ہوتاتھا۔ کوروش(Cyrus) نے جب ایران پر فتح حاصل کی تو اس نے سٹراپ (Satrap)اور دیگر ایرانی اعلی عہدیداران کی تعیناتی مقامی سطح پر کی تھی۔16

سلوکسی سلطنت کاسیاسی نظام

سلطنت سلوکسی(Seleucid Empire)مقدونی سلسلہ شاہی(Macedonian Dynasty) سے تعلق رکھنے والے سلوکسیوں کی فارسی سلطنت تھی۔ان کے اقتدار کا آغاز سکندر اعظم (Alexander the Great)کی حکومت کے ختم ہونے پر ہو اتھا اور زوال پہلی صدی قبل مسیح میں رومی (Roman)اور پارتھیائی (Parthians)حکومتوں کی ترقی پر ہوا تھا۔17سلوکسی بادشاہوں نےسکندر اعظم کے حکومتی طریقہ کار کو ہی جاری رکھا تھااور ہجرت کرکے آنے والوں کو بھی قبول کیا جاتا تھا تاکہ معاشی اور عسکری شعبہ جات میں معاونت حاصل ہوسکے۔ اس کے علاوہ سیاسی اور انتظامی معاملات میں کسی قسم کی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ انہیں اپنی اصل حالت میں ہی برقرار رکھا گیا تھا۔سلوکسیوں نے مقدونی صوبے داروں کے زیر انتظام رہنے والے صوبوں کونئے شہروں میں تبدیل کردیا تھا مگرسلوکسی سلطنت کے تحت چلنے والے یونانی ایرانی (Greek–Iranian)شہروں کو بڑے شہروں کے برعکس مکمل خود مختاری حاصل نہیں تھی بلکہ محدود اختیارات کے ساتھ انتظام چلانے کی اجازت تھی۔خارجہ تعلقات سلوکسی بادشاہ خود دیکھا کرتا تھا جس کے مرکز سلوکسی، انطاکیہ(Antioch)اور لیڈیا (Lydia)تھے۔دوسری جانب بادشاہ کے مشیر و معاونین معاشی اور قانونی معاملات سے بخوبی آگاہ رہتے اور کسی بھی مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیا ر رہتے تھے۔اس کے علاوہ محافظ افواج کے دستے ہمہ وقت تیار اور شہری علاقوں میں موجود رہتے تھے تاکہ شہری باشندے بادشاہ کے مکمل فرمانبردار اور تابعدار رہیں، تاہم صوبے دار کی حیثیت زیادہ اہم نہ تھی۔

سلوکسی حکمران اپنے حلیف شہروں کے ساتھ بہت اچھا سلوک روا رکھاکرتے تھے ۔انہیں اندرونی معاملات میں فیصلہ کرنے کی خودمختاری اورسکے بنانے کی بھی اجازت تھی۔ بادشاہ ان سے محصول لیتا اور جاگیریں عطاکرتا تھا۔ سلطنت کے اندرونی معاملات وہیں کے مقامی امراء دیکھا کرتے تھے۔ بہرحال ان شہروں کی حیثیت اور اہمیت اتنی زیادہ نہ بڑھ سکی کہ انہیں "پولس (Polis) "کا درجہ دیا جاسکے۔ شہری نظام وہاں کے مقامی افراد کی مجلس چلایا کرتی تھی جو وہاں کے تمام معاملات کی ذمہ دار اور ضامن تھی۔ہر شہر کے اپنے جداگانہ فوجی دستے، معاشی قوانین اور عبادات بجا لانے کے طریقہ کار تھے جس کی بنیادی ساخت شہری حقوق کو مد نظر رکھنے کے ساتھ یونانی تنظیمی ڈھانچوں پر بنائی گئی تھی اور عوام کو اس کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔انہوں نے سلطنت ایران کے مغربی، مشرقی اور وسطی حصوں میں نئے شہروں کی تعمیر کی جو سلوکسی سلطنت کے معاشرتی اور معاشی مرکز بن گئے۔18

سلطنت آرسیسیائی کاحکومتی نظام

پارتھیائیوں(Parthians)نےسلطنت کی بنیاد رکھنے کے بعد سلوکسی سلطنت کی جانب سے مقرر کیے گئے سابقہ حکومتی نمائندوں یا خاندان سلاطین کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ انہیں ان کےسابقہ مقام پر ہی رہنے دیا تھا۔ یہ قدر شناسی اس بنا پر کی گئی تاکہ علاقائی نظم مستحکم رہے اور ان کا سرکاری حق بھی برقرار رہے۔ معمولی یااوسط درجہ کے حکمران اپنی جانب سے سیاسی حکمت عملی کو مد نظر رکھتے ہوئے اصول یا پالیسی مرتب کرتے تھے ۔ عام طور پر یہ خاندان سلاطین آرسیسیائی سلطنت(Arsacid Empire)کی جانب سے جنگوں میں شرکت کے پابندہوا کرتے تھے۔سلطنت کے صوبوں کے علاوہ بھی اور علاقے تھے جو صرف بادشاہ کے اختیار میں آتے تھےان میں سے ایک میسوپوٹیمیا(Mesopotamia) کا علاقہ بھی تھا۔19

ساسانی سلطنت کاسیاسی نظام

ساسانی سلطنت کے بانی ارداشر( 224-241عیسوی) کے دور حکومت میں آرمینیا (Armenia)کے علاوہ تمام سابقہ پارتھیائی(Parthian) صوبے ساسانیوں کے زیر تسلط آگئے تھے۔20بعد کےدوار میں ساسانی سلطنت کوچار(4) مختلف خطوں میں تقسیم کیا گیاتھا۔21قدیم ایرانی فرمانرواؤں کی سلطنت سے رقبہ اور حجم میں مماثلت رکھنے والی نئی قائم شدہ ساسانی حکومت اپنا نظام بہترین اور چاق و چوبند منتظمہ(Bureaucracy) ،عسکری طاقت ،مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاکے خطوں کی تجارت سے حاصل شدہ دولت اورحکومتی مذہبی اتحادکی بدولت چلاتی تھی۔22

تنظیمی طور پر ساسانی (Sassanian)معاشرہ متعدد صوبوں اور ذیلی بادشاہتوں میں منقسم تھا ۔ صوبوں کو مزید چھوٹی انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا گیا تھا جن کا نظام بادشاہ کی طرف سے نامزد افسران چلایا کرتے تھے۔ سیاسی اور سماجی لحاظ سے ساسانی معاشرہ مکمل طور پر طبقاتی نظام پر مشتمل تھا تاہم معاشرتی نظام ہم عصر رومی سلطنت (Roman Empire) سے ملتا جلتا تھا۔ بادشاہوں کے بادشاہ، سلطنت کے سلطان کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس کا یہ منصب خدائی ہے۔ بادشاہ سلطنت کی عمارت میں سب سے بلند درجے پر فائز تھا۔ اس کی بارگاہ قوت و اقتداراور ملکی نظم و نسق کا مرکزسمجھی جاتی تھی۔ اس کے بعد اشرافیہ کے نمائندوں، وزراءفوج کے سپہ سالاروں، طبقہ ءِامرا ءکے اراکین اور پھر عام افراد کا درجہ آتا تھا۔ قدیم ساسانی دور میں بااختیار طبقات کی طاقت اور قوت کا انحصار خاندان،حسب نسب، جائیداد اور دفتری امور میں قابلیت کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بادشاہ سے قریبی رفاقت ،طاقت اور عہدے کو مزید پختگی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس فرد اور اس کے خاندان کو خصوصی حیثیت دے دیا کرتی تھی۔بادشاہ ان کی رضامندی اور اشرافیہ کی حمایت اور امداد کے بغیر سلطنت کا نظام نہیں چلا سکتا تھا۔ حکومتی نظام چلانے،محصول جمع کرنے اور عسکری معاملات کی نگرانی کے لیےہمیشہ ان کے اشتراک اورتعاون کی ضرورت رہتی تھی یوں بادشاہ اپنی طاقت اور اختیارات کو وسیع سلطنت پرنافذ کرنے کے لیے مکمل طور پر طبقہ اشرافیہ پر انحصار کرنے پر مجبور تھا۔ خسرو اول(Khusro-I) (531-79عیسوی) کے دور میں ہونے والی اصلاحات میں ان مسائل کی نشاندہی کی گئی اور شرافت و عالی ظرفی کے لیے ایک نیا پیمانہ مرتب کیا گیا تھا۔جس کے نفاذ کے بعد اراکین سلطنت بادشاہ پر انحصار کیا کرتے تھے،یوں بادشاہ مزید آسانی کے ساتھ نظام مملکت چلا نے کے قابل ہو گئے تھے۔23

مشہور حکمران اور انکا سیاسی طرز عمل

دیگر بڑی اقوام و تہذیبوں کی مثل فارس کی تاریخ میں بھی کئی نمایاں حکمران اور ارباب اختیار گزرے ہیں ان میں سے بعض کی تفاصیل درج ذیل ہیں:

کوروش (Cyrus)

کوروش(Cyrus) کا شمار فارس کی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے بادشاہوں میں ہوتا ہے۔اسی نے سلطنت میں نیا آئین و قانون نافذ کیا تھا۔30 سال سے بھی کم عرصے میں کوروش نے ایرانی سلطنت کو ایشیا سے مشرقی یورپ اور جنوبی افریقہ تک جس میں مصر اور زیادہ تر مغربی یونانی علاقے شامل تھے، پھیلا دیا تھا۔ 47سے بھی زیادہ سلطنتیں، بادشاہتیں اور قومیں ایرانی سلطنت میں شامل ہوئیں اور یوں کئی ملکوں اور کثیر نسلوں پر مشتمل ایک عظیم سلطنت وجود میں آگئی تھی۔24

کوروش (Cyrus)کے نظام کا پہلا قانو ن یہ تھاکہ اس نے مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والےلوگوں کو اپنے عقائد اور مذہبی عبادات میں مکمل آزادی فراہم کردی تھی۔ کوروش (Cyrus)سیاست کے اس اصول سے اچھی طرح آگاہ تھا کہ مذہبی طاقت ریاست سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ کوروش(Cyrus)نے شہروں کو اجاڑنےاور مذہبی عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے بجائے ان کے خداؤں کی عزت و تکریم کی اور شہریوں کے ساتھ خوش اخلاقی کا مہذب رویہ اختیا رکیا تھا۔اس نے عبادت گاہوں کی تعمیر، کفالت اور بحالی میں بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس نےبابل(Babylon) پر اپنا تسلط قائم کرنے کے بعد بھی نرم رویہ روا رکھا حالانکہ بابل(Babylon) کے باسیوں نے کافی عرصےتک اس کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھی تھی مگر انہیں اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ کوروش (Cyrus)ہماری مقدس عبادت گاہوں اور عزت و وقار کی حفاظت کرنے والا ہے۔

کوروش (Cyrus)نےمنظم کوششوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کا مقصد میڈیا (Media)اور فارس کو وسطی ایشیا کے گنوار خانہ بدوش وحشیوں کے حملوں سے بچانا تھا۔اس نے اپنی جدو جہد کا مربوط سلسلہ وسطی ایشیاکے شمالی حصے میں موجود دریائے جژارٹس (Jaxartes) 25 سے لے کر مشرق میں بھارت(India) تک جاری رکھاتھا ۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ اچانک مساگاتائے(Massagetae) قبیلےکے ساتھ جنگ میں اسے قتل کردیا گیا ۔ مساگاتائےایک گمنام قبیلہ تھا جو بحر گیلان(Caspian Sea) کی ساحلی پٹی پر آباد تھا۔ کوروش (Cyrus)نے سکندر اعظم(Alexander the Great) کی طرح ایک وسیع سلطنت پر حکرانی کی لیکن اسے منظم کرنے کی خواہش لے کر ہی دنیا سے چلا گیا تھا۔ 26

کیمبیسس دوئم (Cambyses)

کیمبیسس (Cambyses) نے اپنی حکمرانی کی جدو جہد کا آغاز اپنی سگے بھائی سمردس(Smerdis) کو قتل کرکے کیا تھا۔ مصر فتح کرنے بعد جمع شدہ دولت نے اس کے دل میں مزید ہوس پیدا کردی تھی جس کے بعد اس نے ایرانی سلطنت کو دریائے نیل تک پھیلانے کا ارادہ اور اعلان کردیا تھا۔ اس نے ہوش اورعقل مندی سے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ قدیم مصر کے ایک بڑے شہر ممفس(Memphis) پر اس نے آسانی کے ساتھ قبضہ کرلیا تھا لیکن دوسری جانب 50،000عسکری جانبازوں کی فوج کو آمون(Ammon) کے نخلستان پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا گیا جو صحرا کی خشک سالی میں برباد ہوگئی تھی۔ قرطاج کی جانب پیش قدمی کا خواب ناکام ہوگیا کیونکہ ایرانی مسلح بحری جہازوں کےفونیشیائی (Phoenician)جہازی عملہ نے اپنی ہی فونیشیائی کالونی پر حملہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔اس ناکامی سے کیمبیسس (Cambyses) بد حواس ہوگیا اور اس نے اپنے باپ کا رحم دلی اور بردباری کاطریقہ مسترد کرکےظلم و استحصال کا راستہ اختیار کرلیا تھا۔اب اس نے علی الاعلان مصری مذہب کا تمسخر اڑانا شروع کردیا ، اس نے انتہائی تحقیرآمیز انداز سے اپناخنجرمصریوں کے بھینسے کی شکل کے دیوتا "اےپس(Apis)" میں داخل کردیا اور سر عام اس کی تذلیل کی۔اس کے علاوہ قبریں کھود کر ہنوط شدہ لاشوں کو نکالا بلکہ راز جاننے کی کوششوں میں شاہی مقبروں کو لعنتوں اور بددعاؤں کی پرواہ کیے بغیر برباد کردیا تھا۔ اس نے سکندر اعظم (Alexander the Great)کی بہن اور بیوی روگژانا(Roxana) کو بھی قتل کروادیا اوراس کے بیٹے پریژیسپس(Prexaspes) کو تیر مار کر ہلاک کردیا ۔اس نےبارہ(12) ایرانی شاہی اشرافیہ کے افراد کو زندہ درگور کروادیا تھا ۔ وہ مالدار انسانوں کو قتل کردیا کرتا، ان کی عزتیں اچھالتا اور جو افسران تاخیرکے مرتکب ہوتے ان کی سخت سرزنش کیا کرتا تھا۔جب وہ ایران واپس آرہا تھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے تخت پر قبضہ کرلیا گیا ہےجس کی پشت پناہی بہت بڑے پیمانے پر ہونے والے انقلاب کے ذریعے ہوئی ہے، اس ہار اور افسوس کے سبب اس نے خود کشی کرلی تھی۔27

ڈیریس اول (Darius-I)

ڈیریس ا ول (Darius-I) نے کوروش دوم (Cyrus-II)کی قائم کردہ ایرانی سلطنت کو مستحکم اور منظم کیا تھا ۔ وہ ہائس ٹیسپس(Hystaspes) کا بیٹاتھا جسے بعد میں پارتھیا کا سٹراپ(Satrap) مقرر کیا گیا تھا۔522 قبل مسیح کے اوائل دور میں کیمبیسس (Cambyses) کی موت کے بعد ڈیریس بغیر کسی تاخیر کے میڈیا(Media)روانہ ہوگیا تاکہ اپنےاور کیمبیسس کے عظیم الشان دادا کا وارث ہونے کی بنا پرتخت شاہی کا دعوی پیش کرے۔

بہرحال ڈیریس عسکری لحاظ سے بہت مستحکم تھا۔اس کی سب سے بڑی کامیابی سلطنت میں ایک کامیاب اور بہترین نظام کا نفاذ تھا۔اس نے ہر علاقے میں محصول کا نظام رائج کیا اور ساتھ ہی فوج کو مستحکم کرنے کے لیے نئی بھرتیاں شروع کردیں تھیں۔ اس نے شاہی سواریوں کے گزرنے کے لیے شاہراہوں کی تعمیرات کروائیں اور مختلف مقامات پر گھوڑوں کی تبدیلی کے لیے مقامات مختص کردیے اور کھانے پینے کی جگہیں اور عارضی مسکن بھی تعمیر کروا دیے تھے۔ ایرانی سلطنت کے وسیع رقبہ کے انتظامات سنبھالنےاور صوبےکو مرکزی حکومت کی جانب سے اپنی حدود میں قانون نافذ کرنے کے لیے ایک حد تک فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ ڈیریس(Darius) اس بات سے بھی بخوبی آگاہ تھا کہ صوبے کو دیے گئے اختیارات سلطنت کے نظام کو بھی متزلزل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی لیے اس نے ریاستی امور پر تنقیدی جائزہ رکھنے کے لیے معائنہ افسران کی تعیناتی کا نظام بھی لاگو کردیا تھا۔ نظر رکھنے والے ان تفتیشی افسران کو بادشاہ کی آنکھیں بھی کہا جاتا تھا جن کا فرض منصبی سٹراپوں (صوبہ داروں) کا حکومت کے ساتھ اخلاص اورریاستی قوانین رائج کرنے میں پیش قدمی کو جانچنا تھا۔

ڈیریس(Darius) نے مذہب سے متعلق برداشت اور نرم رویہ اپنانے کی حکمت عملی پر عمل درآمد کیا تھا ۔ 486قبل مسیح میں 64سال کی عمر میں انتقال کرگیا ۔ اس نے ژرکیسز (Xerxes)کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ 28

ژرکیسز (Xerxes)

ژرکیسز (Xerxes) 486 سے 465قبل مسیح تک سلطنت فارس کا بادشاہ تھا۔ اسےعظیم ژرکیسز (Xerxes the Great)بھی کہا جاتا تھا۔ سرکاری طور پر شہنشاہ اور بادشاہوں کا بادشاہ بھی کہاجاتا تھا۔بائبل(Bible) کی کتاب آستر(Esther)میں اسے قدیم فارس کا بادشاہ (Ahasuerus of Persia)لکھا گیا ہے اور اس کے متعلق ھیروڈوٹس(Herodotus)،ڈیوڈورس سسیولس(Diodorus Siculus) اورکینٹس سرٹیس روفس(Quintus Curtius Rufus) نے بھی اپنی کتابوں میں کثیر مقامات پر حوالہ دیا ہے۔اس کے علاوہ پلوٹارک (Plutarch)نے بھی ژرکیسزکے بارے اپنی کتب میں تفصیل سے لکھا ہے۔29

بادشاہ ژرکیسز (Xerxes)میں کوروش(Cyrus) کے نرم رویے اور ڈیریس(Darius)کی وسعت نظری کی کمی تھی اور نہ ہی اس کے اندر اپنے سابقہ پیشرو جیسی عسکری صلاحیت موجود تھی۔ اس کے باوجود اس نے اپنی مشاورتی مجلس کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے یونا ن (Greek)پر حملہ کردیا اور بری طرح شکست سے دوچار ہوا تھا۔

ژرکیسزتنظیمی اور عسکری لحاظ سے مستحکم سلطنت کا وارث بنا تھا لیکن وہ اس کی عظمت اور طاقت کے دوام کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے محروم تھا۔اس کا مزاج بے ضبط اور غیر تربیت یافتہ تھا اور اس میں اخلاقی اقدار کی بھی کمی تھی۔30ژرکیسزنے اپنی رعایا کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک اپنانا شروع کردیا اور اپنی بادشاہت کو عوام کے لیے ناقابل برداشت بنا دیا تھا۔ اسی جبر و بربریت کے نتیجے میں 465 قبل مسیح میں ایک فدائی قاتل نے ژرکیسزکو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 31

ارداشر(Ardashir)

ارداشر(Ardashir) نے اپنے دور میں ایران میں ایک بار پھر مرکزی حکومت کا نظام رائج کردیا تھا۔ اس نے مملکت کو ایک ہی سربراہ کے تحت جمع کردیا تھااور پارتھیائی(Parthian) سیاسی نظام کویکسر منسوخ کردیاتھا۔ساسانی(Sassanian) شاہی سلطنت کے حاکمین خود کو ایرانی فرمانروا ڈیریس(Darius)اور کوروش (Cyrus) کے وارثین گردانتے تھے اور انہی دو(2) بادشاہوں کی پالیسی اور حکمت عملی پر نظام حکومت چلا تے ہوئے اپنی سلطنت میں اضافہ کرتے جارہے تھے۔ارداشر نے اہورا مزدا(Ahura Mazda) کو ماننے والا ایک نیا فرقہ تشکیل دیا ، اسے مالی معاونت بھی فراہم کی اور اسے ریاست کےمرکزی مذہب کے طور پر لاگو کردیا تھا۔اس کے دور میں دیگر مذاہب کے ماننے والے تکلیف کا شکار ہوگئے، خاص طور پر عیسائیوں کو اس عمل سے خاصی اذیت پہنچی تھی کیونکہ ان کے ساتھ بازنطینیوں نے ہمدردانہ سلوک روا رکھا تھا۔بعدازاں عیسائی ایرانیوں کے بڑے دشمنوں میں شمار ہونے لگے تھے۔32

فارس پر ہمسایہ اقوام کے اثرات

فارسی حکمرانوں نے اپنے ہمسایہ ممالک کی اقوام سے امور حکومت ودیگر معاملات میں کئی اثرات قبول کیے تھے۔ایران کی مضبوط سلطنت کی جوبنیادیں کوروش نے رکھی تھیں ان بنیادوں پر عالی شان عمارت شہنشاہ ڈیریس نے کھڑی کی تھی۔ ایران کا شہنشاہ مفتوحہ علاقوں کا حکمراں ہوا کرتا تھامگر فراعین مصر اور آشوری بادشاہوں جیسامطلق العنان نہیں،بلکہ اس کو مشورہ دینے کےلیے وزیر ،گورنراور کئی دوسرے عملداربھی موجودتھے۔33

مذکورہ بالا شواہد سے اس بات کی غمازی بدرجہ اتم ہوتی ہے کہ ایران میں بھی دیگر ممالک کی طرح بادشاہوں اور حکمرانوں کو انتہاء درجہ کا مقام و مرتبہ دیا جاتا تھا اور یہ سب اپنی رعایا کے معاملات کے کرتا دھرتا ہوا کرتے تھے۔یہ حقیقت ہے کہ ان بادشاہوں اور حکمرانوں نے اپنی رعایا کی فلاح و بہبودکے لیے بھی کئی اقدام کیے لیکن بنظر غائردیکھا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنی رعایا کا خون چوسنے،ان کو مسلسل اور طویل تر پریشانیوں میں مبتلا رکھنے اور دوسری اقوام کی طرح ہمیشہ اپنی عوام کو ظلم و جبر کی چکی میں پیسنے ہی کو سب سے زیادہ ضروری اور اہم کام گردانا۔

سیاسی نظام پر عدالتی نظام ا ور قوانین کے اثرات

ایرانی اقوام میں معاملات چلانے،ظلم وجبر روکنے اور ریاستی فلاح و بہبو د بڑھانے کے لیے عدالتیں اور قوانین بنائے گئے تھے۔جن میں تمام اختیارات کا مالک صرف بادشاہ ہی ہوا کرتا تھا۔تاہم ان عدالتوں اور قوانین کے وجود سے ایرانی معاشرے میں کچھ نہ کچھ امن و سلامتی موجود رہی تھی۔

زرتشت(Zoroaster) کو آئین مغاں کا بانی اور مؤسس سمجھا گیا تھا۔34قدیم ایرانیوں کو اس بات پر فخر تھا کہ ان کے قوانین اٹل ہیں اور ان میں ترمیم و تنسیخ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر حقیقتاً بادشاہ کا حکم تمام قوانین سے بالا تھا۔ یا یوں کہئے کہ بادشاہ کا فرمان ہی قانون تھا۔ پھر بھی جرائم اور دیوانی معاملات سے متعلق کچھ قوانین ضرور تھے جن کی حیثیت مذہبی اور روایاتی احکام کی تھی۔تاہم بادشاہ ان کا احترام کرتا تھا اور عدالتیں بھی ان کے مطابق فیصلے کیا کرتی تھیں۔

ملک کے اندر بادشاہ کی عدالت سب سے بڑی عدالت شمار کی جاتی تھی جہاں مقدمات آخری فیصلے کے لیے پیش کیے جاتے تھے اور بادشاہ اپنی رائے کے مطابق اس کے فیصلے کیا کرتا تھا ۔اس کا فیصلہ خدائی منشا کا مظہر سمجھا جاتا تھا اسی لیے اس سے انحراف خدائی احکام سے انحراف کے مترادف تصور کیا جاتاتھا۔ چونکہ وہ تنہا تمام سلطنت کےمقدمات کافیصلہ نہیں کرسکتا تھا اس لیے اس نے اپنی سلطنت کے اندر عدالتوں کا وسیع نظام قائم کر رکھا تھا۔ اس کی عدالت کے بعد ایک دوسری عدالت عالیہ تھی جو سات (7)قاضیوں پر مشتمل تھی اور تمام اہم مقدمات کی سماعت کرتی تھی۔ اس کے ماتحت صوبائی اور مقامی عدالتیں بھی تھیں۔ ان کے علاوہ پنچائتیں بھی تھیں جو مقامی اور غیر اہم مقدمات کا فیصلہ کیا کرتی تھیں۔35

عدل پر ورحکمراں عدالتی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دیتے تھے اور منصف مزاج لوگوں کو قضا کے عہدہ پر مامور کرتے تھے۔ بالعموم مذہبی طبقے کے لوگ یعنی پروہت ہی اس عہدہ پر فائز ہوتے تھے۔ کیمبیسس دوم کے متعلق ایک روایت ہے کہ اس کے ایک قاضی سام نس نامی نے رشوت لی تھی۔ بادشاہ نے اس جرم میں اس کی کھال کھینچوالی اور عدالت کی کرسی سے اس کو برطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے کو اسی عہدہ پر بحال کرکے اس کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ اس کی یہ حرکت عدل کے خلاف تھی لیکن اس سے اس کی مطلق العنانی اور قانون کی قوت کا پتہ چلتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا شعورِ عدل ابتدائی حالت میں تھا اور وہ صرف مروجہ اصول اور شاہی احکام کی پابندی چاہتے تھے۔

ان کے فیصلے میں قانون کے علاوہ مذہبی عقیدے کو بھی دخل ہوتا تھا آخرت کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ ہر شخص کے نیک و بداعمال کا موازنہ کرنے کے بعد اس کے لیے سزا یا جزا تجویز ہوگی۔ اس لیے اس دنیا میں بھی محض جرم کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی بلکہ فیصلے کے وقت جرم کے ساتھ اس کی نیکیوں کو بھی ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک قاضی کو صلیب کی سزا دی گئی مگر ڈیریس اول نے یہ کہتے ہوئے کہ اس نے طویل خدمات بھی سر انجام دی ہیں ، اس کی سزا کو معاف کردیا تھا۔ 36

اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی نظام قانون سے زیادہ طاقتور تھا۔بادشاہ اپنی مرضی سے قانون بنا سکتا تھا اور چاہے تو سزا معاف کر کے استثناء بھی دے سکتا تھا۔جسکے نتیجے میں اسکی بادشاہت کا ڈنکہ بچتارہتا تھا مگر غریب ،مسکین،مظلوم اور کم درجہ کے لوگ ہمیشہ ان ظالمانہ فیصلوں کی بھینٹ چڑھتے رہتے تھے کبھی انکا ناحق قتل ہوتا تھا ،کبھی ماں ،بہن ،بہو اور بیٹیوں کی عزت لٹتی تھی ،کبھی جبرا انکو اپنے ہی گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا تو کبھی بادشاہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے عبرتناک تکالیف دی جاتی تھیں مگر ان سب کے باوجود بادشاہوں کو خدا کا درجہ بھی دیا جاتا تھا اور انکو خدا کی مثل عزت بھی دی جاتی تھی یہ سوچے بغیر کہ جو حقیقی خدا اور کائنات کا خالق و مالک ہے نہ تو وہ ظالم ہو سکتا ہے اور نہ ہی ناانصاف ،نہ ہی وہ نفس پرست ہو سکتا ہے ،نہ ہی عیب دار ،مگر کیونکہ پورا فارسی معاشرہ ہی حقیقی ایمان سے دور تھا اور حق و سچ وہی تھا جو یا تو مذہبی طبقہ کا زبان و قلم سے نکلتا یا پھر بادشاہ کے براہ راست یا بالواسطہ احکامات کی صورت میں صادر ہوا کرتا۔ عام آدمی کا حق کہنا بادشاہ اور مذہبی طبقہ کے خلاف سازش سمجھا جاتا جس کی وجہ سے اس کی سزا گردن زنی سے کم نہ تھی اس لئے کوئی بھی شخص سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ ان معاملات کا نتیجہ یہی ہونا تھا کہ اہل فارس بھی باقی اقوام عالم کی طرح کسی ایسی مصلح ذات کے منتظر تھے جو صدیوں کے اس ظالمانہ نظام سےانہیں نجات دلا سکے ۔

 


  • 1 Ali Farazmand (2002), Public Administration Quarterly: Administrative Legacies of the Persian World-State Empire, Implications for Modern Public Administration, Vol. 26, No. 3-4, The Southern Public Administration Education Foundation, Pennsylvania, USA, Pg. 280-281.
  • 2 Ali Farazmand (2001), Handbook of Comparative and Development Public Administration, Marcel Dekker Inc., New York, USA, Pg. 41.
  • 3 Ali Farazmand (2001), Handbook of Comparative and Development Public Administration, Marcel Dekker Inc., New York, USA, Pg. 41.
  • 4 Ali Farazmand (2001), Handbook of Comparative and Development Public Administration, Marcel Dekker Inc., New York, USA, Pg. 42.
  • 5 Ian Carradice (1987), Coinage and Administration in the Athenian and Persian Empires, Bar International Series, Oxford, U.K., Pg. 121.
  • 6 Ali Farazmand 2002, Public Quarterly: Administrative Legacies of the Persian World-State Empire, Implications for Modern Public Administration, Vol.26, No. 3-4, The Southern Public Administration Education Foundation, Pennsylvania, USA, Pg. 280.288.
  • 7 Ibid.
  • 8 Ali Farazmand (2001), Handbook of Comparative and Development Public Administration, Marcel Dekker Inc., New York, USA, Pg. 34.
  • 9 ڈاکٹر محمد خزائلی، اعلام القرآن، مطبوعہ: چاپ خانہ بہمن ، تہران ، ایران،1341ھ، ص:528
  • 10 سہ ماہی مجلّہ تحقیقات ِاسلامیہ، ج-7، شمارہ -4،علی گڑھ ،انڈیا،1998،ص:63-64
  • 11 Ali Farazmand (2002), Public Administration Quarterly: Administrative Legacies of the Persian World-State Empire, Implications for Modern Public Administration, Vol. 26, No. 3-4, The Southern Public Administration Education Foundation, Pennsylvania, USA, Pg. 290-291.
  • 12 Ian Carradice (1987), Coinage and Administration in the Athenian and Persian Empires, Bar International Series, Oxford, U.K., Pg. 111.
  • 13 Jamie Stokes (2009), Encyclopedia of the Peoples of Africa and the Middle East, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 2.
  • 14 Will Durrant (1942), The Story of Civilization: Our Oriental Heritage, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 353-355.
  • 16 Maria Brosius (2006), The Persians: An Introduction, Routledge, New York, USA, Pg. 47-48.
  • 17 Ancient History Encyclopedia (Online): https://www.ancient.eu/Seleucid_Empire/ Retrieved: 08-03-2019
  • 18 Mehrnaaz Behroozi & Leila Kochaki Kia (2017), International Journal of Culture and History: The Administrative Structure of Achaemenid and Seleucid Empires in Observing Civil Rights, Macrothink Institute, Nevada, USA, Vol. 3, Pg. 54.
  • 19 Josef Wieshofer (2001), Ancient Persia: From 550 B.C. to 650 A. D. (Translated by Azizeh Azodi), I. B. Taurus Publishers, London, U.K., Pg. 145.
  • 20 A. J. S. Spawforth (2007), The Court and Society in Ancient Monarchies, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 59.
  • 21 Touraj Daryaee (2009), Sassanian Persia: The Rise and Fall of an Empire, I. B. Taurus, London, USA, Pg. 124.
  • 22 Gene R. Garthwaite (2005), The Persians, Blackwell Publishing, Oxford, U.K., Pg. 86.
  • 23 Philip Rousseau (2009), A Companion to Late Antiquity, Wiley-Blackwell, Oxford, U.K., Pg. 442-443.
  • 24 Ali Farazmand (2002), Public Administration Quarterly: Administrative Legacies of the Persian World-State Empire, Implications for Modern Public Administration, Vol. 26, No. 3-4, The Southern Public Administration Education Foundation, Pennsylvania, USA, Pg. 294.
  • 25 دریائے سیمون یاسیردریا (Jaxartes) وسط ایشیاکا ایک اہم دریا ہے ۔
  • 26 Will Durant (1942), The Story of Civilization: Our Oriental Heritage, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 353.
  • 27 Will Durrant (1942), The Story of Civilization: Our Oriental Heritage, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 353-354
  • 28 Marsha E. Ackermann, Et. Al. (2008), Encyclopedia of World History: The Ancient World, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 108-109.
  • 29 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Xerxes_I/ Retrieved: 06-03-2019
  • 30 Geoffery W. Bromiley (1988), The International Standard Bible Encyclopedia, William B. Eerdsman Publishing Company, Michigan, U.S.A., Vol. 4, Pg. 1161.
  • 31 John Piggot (1874), Persia: Ancient and Modern, Henry S. King & Co., London, U.K., Pg. 3.
  • 32 Jamie Stokes (2009), Encyclopedia of the Peoples of Africa and the Middle East, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 555.
  • 33 پروفیسر آفاق صدیقی،سیرۃ البشر، مطبوعہ:الحمد پبلی کیشن،کراچی ،پاکستان،2009ء،ص: 90
  • 34 کلی یو، تاریخ ہرودت (مترجم:ڈاکٹر ہادی ہدایتی)،مطبوعہ: چاپ خانہ بہمن، تہران،ایران، 1341ھ، ص: 188
  • 35 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon and Schuster, New York, USA, Pg. 361.
  • 36 حسن پیرینیا، ایران قدیم، مطبوعہ:چاپ خانہ دانش گاہ، طہران،(سن اشاعت ندارد)،ص:119-120