Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم فارس کا معاشی نظام

قدیم فارس کے معاشی نظام کا انحصار زیادہ تر کاشت کاری، گلہ بانی اور تجارت پر تھا۔ وسطی سلطنت میں بابل(Babylon)، مصر(Egypt)، لیڈیا(Lydia)اور ہندوستان کے سونے کی کانوں سے مالا مال علاقے شامل تھے۔ان علاقوں پر اقتدار نے ایران کو معاشی طور پر مستحکم اور طاقتور سلطنت میں تبدیل کردیا تھا۔ اپنے دورِ عروج میں سلطنت فارس نے عراق کے زرعی علاقوں، اناطولیا(Anatolia)کی ہری بھری زمینوں، اردگرد کے تمام تجارتی راستوں، دھاتوں سے مالا مال معدنی ذخائر اور اس کے علاوہ دیگر ذرائع پر اپنا تسلط قائم رکھاہوا تھا۔ فارس ان وسائل سے بھرپورفائدہ حاصل کرنےکی صلاحیت رکھتا تھا جس نے معاشی طور پر اسے انتہائی مضبوط کر دیا تھا۔ معاشی اصلاحات روبہ عمل لانے اور کثیرذرائع رکھنے کے باوجود دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے امیر ،امیر سے امیر تر اور غریب ،غریب سے غریب تر ہوتا چلاجا رہا تھا۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ قدیم فارس کا معاشی اور سیاسی نظام غریب طبقے کے استحصا ل کی قیمت پر اشرافیہ کے عشرت کدے تعمیر کرنے کیلیے تشکیل دیا گیا تھا۔

اقتصادی ڈھانچہ

فارس کی اقتصادی تاریخ میں چند ایک بادشاہوں کا عہد چھوڑ کر ،باقاعدہ اقتصادی نظام کا وجود ہی نہیں ملتا ہے۔نہ مقاصد کا تعین کیا جاتا تھااور نہ ہی اقتصادی ڈھانچے کا کوئی وجود ہوتا تھا۔ بس بادشاہ یا جاگیرداروں کی مرضی ہی سب کچھ ہوتی تھی اور مجموعی رویہ سوائے لوٹ مار کے اور کچھ نہ تھا۔اگر ہم یہ کہیں توبے جانہ ہوگا کہ فارس میں بحیثیت مجموعی استحصال ہی اقتصادی نظام تھا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اقتصادی نظام محض استحصالی نظام تھا جس میں انسانوں کو بیچا جاتا تھا اور مجبوروں اور ان کی مجبوریوں کا تماشا دیکھا جاتا تھا۔1

معاشی لحاظ سے فارسی معاشرہ دوطبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طبقہ امراء ،رؤ ساء، جاگیرداروں اور فوجی جرنیلوں کا مراعات یافتہ طبقہ تھا۔ ان کے پاس سارے ملک کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ دوسرا طبقہ فارس کی عوام کا تھا جس میں کاشتکار ، مزدور، دستکار اور دوسرے لوگ شامل تھے۔ ان کے مقدر میں مفلسی اور محرومی لکھ دی گئی تھی اور وہ صدیوں سے اسی چکی میں پس رہے تھے۔ دور دور تک اس مصیبت سے رہائی پانے کی انہیں کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔اگر چہ فارس کا سرکاری مذہب زرتشتی (Zoroastrianism) تھا اور اس کی شریعت میں زراعت کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ان کی مذہبی کتابوں میں اس پیشہ کو عظیم اور مقدس پیشہ کہا گیا تھامگر اس کے باوجود کسانوں کی حالت قابل رحم تھی۔2

فارس کے بادشاہ ڈیریس(Darius)نے اپنے دور میں ایران کے معاشی نظام کو جدید طرز پر استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نےمحصولات جمع کرنے کا منظم نظام تشکیل دیا اور ناپ تول کے لیے وزن کا معیار مقرر کیا تھا۔پیمائش کے لیے خاص طریقہ کار متعین کیے اور لین دین کے لیے سکے بھی رائج کروائے تھے۔ سامان کی ترسیل کے لیے گزرگاہوں کو بہتر کیا اور کاشت کاری میں ترقی کے لیے اقدامات کیے نیز بین الاقوامی تجارت کو بھی فروغ دیا تھا۔3 ڈیریس اول(Darius-I) کے دور میں سلطنت کی آمدنی 14560تالان (Talants)کے قریب تھی جسے سید عین الحق نے 1950عیسوی کے عشرے کے دو کروڑ ساٹھ لاکھ(2،60،00،000) پاوٴنڈ کے مساوی قرار دیا ہے۔4ان تمام اقدامات اور معاشی پیش رفت کے باوجود فارس میں کوئی بھی حکومت دیر پا اثر و رسوخ قائم نہ رکھ سکی اور کچھ ہی عرصے بعد اندرونی طاقتیں یا بیرونی قوتیں حکومت کا تختہ پلٹ دیا کرتی تھیں۔ایرانی سلطنت چونکہ ہندوستان سے لےکر وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی وسیع سلطنت تھی اسی لیے اس کا معاشی اور سماجی ڈھانچہ بہت ندر ت (Diversity)اور تنوّع کا حامل تھا۔5

ذرائع مبادلہ اورکرنسی کا نظام

دور قدیم میں فارس میں بھی باقی دنیا کی طرح مبادلہ کے لیےمختلف دھاتیں، گائے بیل اور بھیڑ بکریاں وغیرہ استعمال ہوتے تھے مگر جب فارسیوں نے چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں لیڈیا(Lydia) فتح کیا تو اس کے بعد انہیں سکہ سازی کا خیال آیا۔ قدیم ایرانی سلطنت میں تین(3) طرح کے سکوں کا ثبوت ملتا ہے جن میں قدیم ترین سکے کوروش (Cyrus) بادشاہ کے دور یعنی 560 قبل مسیح سے لے کرڈیریس سوئم(Darius-III) کے عہد یعنی 331 قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں۔6

ڈیریس(Darius)نے دو(2) طرح کے سکے بنوائےتھے۔ایک طلائی سکہ جو کے برطانوی پاوٴنڈ کے برابر وزن کےہوا کرتےتھے جبکہ دوسرا سکہ برطانوی شلنگ کی طرح کا تھا۔7سونے اور چاندی کے سکے زیادہ تر عسکری، سیاسی اور انتظامی مقاصد کیلیے استعمال ہوتےتھے جب کہ کانسی اور دیگر دھاتوں کےسکےدیگر تجارتی مقاصد کیلیے استعمال کیے جاتے تھے۔8ان سکوں کو ڈیریکس (Darics)یا ڈیریس کے جاری کردہ سکے بھی کہا جاتا ہے۔

ایرانی سکوں کا دوسرا دور یونانی غلبے کا عہد ہے۔ سکندراعظم(Alexander the Great) کی فتوحات کے نتیجے میں شام،فارس اور بیکٹیریا کے علاقےسلیوکس(Seleucus)نامی سالار کے تحت ایک سلطنت میں ضم ہو گئے مگر آدھی صدی بھی نہ گزری تھی کہ ارشک(Arsaces)نامی حکمران نےاشکانی خاندان(Dynasty of Arsacidae)کی بنیاد رکھتے ہوئے فارس کو علیحدہ سلطنت کے طور پر خودمختار حیثیت دلوادی تھی۔

ایرانی سکوں کےتیسرےدور کی تقسیم قدیم فارسی اور پہلوی دور کی خصوصیات اور زبان کے حوالے سے کی جاتی ہے۔9یہ ایک طرح سے اشکانی (Arsacidae)تسلسل تھا۔ساسانی عہد(Sassanian Era) کے سکوں پر یونانی تحریراور علامات مکمل حذف کر دی گئیں تھیں۔ساسانی عہد کے طلائی سکوں کا وزن رومیوں کے چاندی کے سکوں جتنا ہی تھا۔ بعد میں مختلف دھاتوں کے نئے سکے بھی رومی سکوں کے طرز پر ڈھالے گئے تھے۔اس دور کےچاندی کے سکوں پر بادشاہوں کی تصاویر بھی کندہ ملتی ہیں۔اس کے علاوہ ہردور میں مختلف اقسام کے تاج اور ان کےاوپر ہلال کی تصویر بھی ملتی ہے جس پر کبھی ستارہ کندہ ہوتا تھا اور کبھی نہیں بھی۔10 ایرانی دور کے سکے کوٹنے کے عمل سے بنائے جاتے تھے۔ پہلے دھاتوں کو سلاخوں میں تیار کیا جاتا پھر وزن و کمیت کے مطابق ٹکڑے کاٹ کر سانچے میں ڈالے جاتے تھےاور انہیں ہتھوڑے سے کوٹا جاتاتھا۔ اس عمل کو اکثر لاپرواہی سے ہی کیا جاتا تھا جس کے نتیجے میں صرف ایک طرف ہی عبارت اور نشان ڈھل پاتے اور دوسرا حصہ خالی رہ جاتا تھا۔11

محکمہ مالیات

محکمہ مالیات (Financial Department)کو سب سے پہلے ڈیریس اوّل (Darius I)نے منظم کیا تھا۔12مالیہ مختلف علاقے کے حاکم وصول کرتے تھے۔ اس کے لیے ڈیریس سے پہلے کوئی باقاعدہ نظام نہ تھا۔ڈیریس نے مالیات کا نظام قائم کیا جس کےتحت جنس اور نقدی کی صورت میں مالی کی مقدار معین کردی گئی یوں مالیہ وصول کرنے میں آسانی ہوگئی تھی۔دار یوشِ اعظم وہ پہلا بادشاہ تھاجس نے ایران میں سونے چاندی کے سکے رائج کیے تھے۔ اس زمانے کے سکوں کے ایک طرف تیرانداز کی شبیہ ہے جس کا ایک گھٹنا زمین پر ہے اور ہاتھوں سے وہ کمان کا چلہ چڑھارہا ہے۔13

محصولات اور انکی شرح

کاشت کاروں سے جس طرح لگان لیا جاتاتھا وہ ان کے لیے تکلیف دہ تھا نیز حکومت کو بھی لگان وصول کرنے میں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ قباد(Qabad)کے زمانے میں کاشت کاروں کو پکی ہوئی فصل کو ہاتھ لگانے کا اختیار نہ تھا۔ وہ سرکاری کارندوں کے منتظر رہتے تھے کہ وہ آکر سرکاری حصہ وصول کرلیں تو فصل اٹھائی جائے۔ لگان میں آسانیاں پیدا کرنے کی طرف سب سے پہلے قباد نے توجہ کی تھی۔ نوشیرواں(Nosherwan)نے تخت نشیں ہوتے ہی حکم دیا کہ قباد کی وصیت کے مطابق زمینوں کی پیمائش کرائی جائے اور جنس کا حصہ لینے کی بجائے کاشت کاروں سے مناسب نرخ کے مطابق نقد رقم وصول کی جائے۔ یہ کام بہت بڑا تھا لیکن منصف اور ایمان دار افسروں کے ذریعے اس کی تکمیل ہوگئی تھی۔

لگان کی نئی شرحیں مندرجہ ذیل مقررہوئیں: گیہوں اور جوفی جریب 2580گز سالانہ ایک درم، انگوروں پر فی جریب آٹھ (8)درم، چارے پر فی جریب سالانہ سات (7)درم، چاولوں پر فی جریب سالانہ 5/6درم، چار(4) ایرانی کھجوروں کے درختوں پر یا چھ(6) آرامی کھجوروں یا چھ(6) زیتون کے درختوں پر سالانہ ایک درم۔ ان کے علاوہ باقی ہر قسم کی پیداوار پر لگان معاف تھا۔ کھجوروں کے درخت، جو اِدھر اُدھر بکھرے ہوں اور کسی باقاعدہ نخلستان میں اُگے ہوئے نہ ہوں وہ بھی خراج سے معاف تھے۔14

نظام بینکاری اور مالیاتی ادارے

بابل(Babylon) میں سلطنت فارس کے قیام سے بہت پہلے، بینکاری(Banking) نظام کی گہری جڑیں موجود تھیں۔ نیپور(Nippur)شہر سے دریافت ہونے والی دستاویزات میں ایک ایسے خاندان کا تذکرہ ملتا ہے جو کہ ہخامنشی (Achaemenids)کے عہد میں کامیاب بینکار تھے۔ماراشو(Murashu)کے نام سے موسوم اس خاندان کا بانی پانچ سو(500)قبل مسیح میں پیدا ہوا تھا اور اس کے بیٹوں اور پوتوں نے بینکاری اور سود کے کاروبارسے خوب مال سمیٹا تھا۔ یہ خاندان مقامی افراد کو چاندی کے سکے بطور قرض دیتا تھاتاکہ وہ بادشاہ کو لگان کی ادائیگی کر سکیں۔ مقامی افراد ادھار کی واپسی پر سود کی اضافی رقم ادا کرتے تھے جسے ادھار دینے کی اجرت شمار کیا جاتا تھا۔15

قدیم بابل(Babylon)میں ایغیبی(Egibi)اور ماراشو(Marashu)کےنام سے دو(2) مشہور مراکز تھے۔محصولات کی وصولی اور دیگر مالی امور کے لیےریاست ان سے معاہدے بھی کرتی تھی۔ٹیکس جمع کرنا اور مختلف نوعیت کی خدمات کے لیےادائیگی مالی معاملات کی اہم اقسام تھی۔ کسان اور شہری باشندے جو کے عام طبقے سے تعلق رکھتے تھے ،سب ہی پُر مشقت زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔16

ایران کے معاشی نظام میں زراعت کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ تجارت ،صنعت و حرفت، گلہ بانی ، حکومتی ملازمت اورمعدنیات وغیرہ بھی اہم ذریعہ معاش تھے۔ حکومتی ملازمین کرتاش (Kurtash)کہلاتے تھے۔ ان میں ہر طرح کے ماہرین اور ہنر مند شامل ہوتے تھے جو مختلف نوعیت کی خدمات انجام دیتے تھے۔سڑکوں اورپلوں کی تعمیر سے لے کرسونے چاندی اور شیشے کی اشیا تک بنانا ان ہی کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔اس کے بدلے میں انہیں ان کے عہدے اور مہارت کے مطابق خوراک ،ضروریات زندگی کی اشیا اور چاندی کے سکے دئیے جاتے تھے۔ ان حکومتی ملازمین میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔17

کھیتی باڑی کاپیشہ

زرتشی مذہب کی مقدس کتاب زند اوسٹا(Zend-Avesta) میں کھیتی باڑی کو انسانیت کا عظیم ترین پیشہ قرار دیا گیا ہے اور اسے ایرانیوں کے عظیم خدا "آہورا مزدا(Ahura-Mazda)"کی جانب سے دیگر محنت طلب کاموں میں پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔18زرتشت (Zoroaster)نے اپنے پیروؤں کو یہ تلقین کی کہ آہورامزدا کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے حیوانات کی پرورش کرو، بے آبادزمینوں کو آباد کرو، کھیتوں کی آبیاری کے لیے پانی فراہم کرو، زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرو۔ جو شخص کھیتی باڑی کرتا ہے وہ ایک مذہبی فریضہ ادا کرتا ہے۔ اس طرح وہ ملک کی خوش حالی میں اضافہ کرکے آہورامزدا (Ahura-Mazda)کی مدد کرتا ہے۔ اس خدمت کے صلہ میں آہور امزدااس کی روح اور جسم کو غذا بہم پہنچاتا ہے۔ زرتشت (Zoroaster)کا قول تھاکہ جو شخص زمین میں بیج بوتا اور کھیتی اگاتا ہے، وہ اس شخص سے ہزار بار بہتر ہے جو محض ہرروز ہزار مرتبہ مناجاتیں پڑھتا ہے۔19 یہی وجہ تھی کہ ایرانیوں کے شاہی دور میں زمینوں پر سب سے زیادہ کی جانے والی معاشی سرگرمی زراعت تھی۔ قدیم ایرانی دست کاری میں بھی ماہر تھے لیکن اس کے باوجود شہروں میں کاشت کاری زیادہ کی جاتی تھی اور شہریوں کا زیادہ تر طبقہ اسی پیشے سے وابستہ تھا۔

سلطنت کے مختلف علاقوں مثلا بابل(Babylon)، مصر(Egypt)، ایلام(Elam) اور فارس وغیرہ میں جَو سب سے زیادہ کاشت کیا جاتا تھا جبکہ گندم اور ایک ادنیٰ قسم کا گیہوں جسے چارے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا،نسبتاً کم مقدار میں کاشت کیا جاتا تھا۔ فلسطین(Palestine)کے خطے میں گندم، مٹر، مسور کی دال، سرسوں اوررائی کو اہم غذا کے طور پر شمار کیا جاتا تھا۔ بابل میں جَو، باجرہ، تل، مٹر، سرسوں، رائی، لہسن، پیاز، کھیرا، سیب، انار اور خوبانی کی کاشت کاری کی جاتی تھی، اس کے علاوہ بابل اور ایلام کے خطوں میں انگوری شراب ، سرکہ اور شہد بنیادی خوراک میں شامل تھیں اور اس کے ساتھ جَو، اور کھجوریں بھی استعمال کی جاتی تھیں، بیجوں سے بھی روٹی تیار کی جاتی تھی۔20

سطح مرتفع ایران کی وادیوں یا میدانوں میں گیہوں، جو، دالیں، چاول، کپاس اور تمباکو وغیرہ پیدا ہوتا تھا۔ ایران پھلوں کا گھر تھا۔ انگور، زردآلو، سیب، ناشپاتی، گلابی، انار، آلوبخارا یہاں کے مشہور پھل تھے۔ سردا اور گرما یہاں بکثرت ہوتے تھے۔ خربوزے اور تربوز یہاں کے نہایت شیریں ہوتے تھے۔ ماژندران کے علاقے میں نارنگی، لیمو، سنگترہ بہت ہوتا تھا۔پھول یہاں ہر قسم کے بکثرت ہوتے تھے۔ شیراز اور بعض دوسرے شہر پھولوں کا گھر سمجھے جاتے تھے۔

دیہات میں کسانوں سے مالیہ کی وصولی اور عام نظم ونسق کو بحال رکھنے کے لیے حکام مقررتھے، جنہیں مرزبان کہتے تھے ۔ اس کے علاوہ دہقان (گاؤں کا آقا)رئیس بھی ہوتاتھا جور عایا اور مرزبان کے مابین اہم واسطہ تھا۔21 کسان اپنی زمین کے ساتھ بندھے رہتے تھے۔ ان سے ہر طرح کی بیگار اور جبری خدمت لی جاتی تھی۔ جب فوج کسی میدان جنگ کی طرف کوچ کرتی تو ان بے چارے کسانوں کے بڑے بڑے گروہ ان کے پیچھے گھسٹتے چلے جاتے تاکہ فوجیوں کی خدمت بجا لائیں اور ان کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے حاضر رہیں۔ اس پر مزید ستم یہ کہ ان غریبوں کی کسی قسم کی تنخواہ یا اجرت سے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی۔ قانون بھی اس غریب طبقہ کی زیادہ حمایت نہیں کرتا تھا۔ امراء اپنے زیرِ فرمان کسانوں ، غلاموں اور رعایا کی زندگی اور موت کا اپنے آپ کو مالک و مختار سمجھتے تھے۔ کسانوں کا تعلق بڑے زمیندار کے ساتھ تقریباً ویسا ہی تھا جیسے غلاموں کا تعلق اپنے آقاؤں کے ساتھ۔ وہ اس بات کے بھی پابند تھے کہ بوقت ضرورت فوجی خدمات انجام دیں۔22

نوشیرواں کی زرعی اصلاحات

ملکی معیشت میں زراعت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اس لیے نوشیرواں (Noshirwan)نے اس پر بہت توجہ دی تھی۔ کھیتی باڑی کی اصلاح کے لیے اس نے کاشت کاروں کو اچھا بیج مہیا کرنے کا انتظام کیا تھا۔بیل اور کھیتی باڑی کے اوزار انہیں مہیا کیے، آب پاشی کے ذرائع کو بھی بہتر بنایا تھا۔ نوشیرواں نے حکم دیا تھا کہ ملک میں چپہ بھر زمین بھی ایسی نہیں ہونی چاہیے، جس میں کاشت نہ ہو۔ جس زمین کا کوئی مالک نہیں اس کی کاشت کا انتظام حکومت کرے۔ یہ بھی حکم دیا کہ کوئی شخص اگر بے سرمایہ ہونے کی وجہ سے کاشت نہ کرسکے تو اسے شاہی خزانے سے قرض دیا جائے۔ ان اصلاحات کی وجہ سے زراعت کے شعبے کو مزید ترقی حاصل ہوئی۔

معدنیات

سطح مرتفع ایران میں کانیں بہت پائی جاتی تھیں جن میں سے لوہا، سیسہ، پتھر کا کوئلہ، سنگ مرمر، فیروزہ، عقیق، سونا، چاندی، سکہ اور گندھک نکالی جاتی تھی۔

سیلک(Sialk) اور دیگر علاقوں میں معدنی وسائل حاصل کرنے کے لیے کھدائی کی گئی تھی جن میں تالمیسی(Talmesi) اور انارک تانبے کی پیداوار کے لیےمشہور تھے ۔اس کے علاوہ تل ابلس(Tall-e Eblis) میں کثیر مقامات سے قدیم دور میں تانبا نکالاجاتا تھا۔ ایران میں چوتھی اور پانچویں قبل مسیح کے دوران کاریگر اس قابل ہو چکے تھے کہ اتنی حرارت پیدا کر سکیں جس سے خام مال کو پگھلا کر دھاتیں نکالی جاسکیں۔ سرخی مائل کچے تانبے اور ملاکائیٹ(سبز کچے تانبے) کو انارک کے مقام سے حاصل کیے گئے کوئلے سے پگھلایا جاتا تھا اور پگھلانے والی جگہ پر بچ جانے والے فضلے میں سےمزید تین اقسام کے خام مال حاصل ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں تانبا پگھلانے کے طریقہ کوایران کے متعدد مقامات میں پذیرائی حاصل تھی۔ قدیم ایرانی دور میں دھاتوں کے متعلق معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا۔ تانبے کے علاوہ پیتل سے بھی اشیاء بنائی جاتی تھیں، اور یہ سلسلہ اسی طرح بڑھتا چلا گیا تھا۔23

کپڑا بانی کی صنعت کی ابتداء

اساطیری عہد کے حکمران جمشید نے اپنے دور حکومت میں کئی نئی صنعتوں کو فروغ دیا تھا۔ اس بارے میں طبری لکھتے ہیں:

  وأنه أمر لمضي سنة من ملكه إلى سنة خمس منه بصنعة السيوف والدروع والبيض وسائر صنوف الأسلحة وآلة الصناع من الحديد ومن سنة خمسين من ملكه إلى سنة مائة بغزل الإبريسم والقز والقطن والكتان وكل ما يستطاع غزله وحياكة ذلك وصبغته ألوانا وتقطيعه أنواعا ولبسه.24
  جمشید نے اپنی سلطنت کے امور چلانے کے لیے ایک نظام بنایا ہوا تھا۔ اس نے اپنی حکومت کے ابتدائی پچاس سالوں میں لوگوں کو لوہے سے تلواریں اور دیگر اقسام کے اوزار بنانے کا حکم دیا تھا۔ پچاس سے سو سال کے دورانیہ میں ریشم اور روئی کو کاتنے اور ان سے کپڑا بنانے مختلف رنگوں میں رنگنے اور کپڑے سینے کا حکم دیا تھا۔ 25

ریشم کی صنعت

قدیم ایران کے معاشی شعبے میں ریشم کی صنعت نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اوّلاً ، ریشم ہندوستان سے سمندر کے راستے لایاجاتا تھا۔وسطی ایشیاء کے زمینی راستوں کے ذریعے سوگڈیان(Sogdian) ، فارس، اور رومی(Rome) سلطنت سمیت چین(China) سے تجارتی قافلوں کی آمدو رفت کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا تھا اور انہی راستوں سے ریشم کی تجارت بھی ہوا کرتی تھی۔ چینی اپنی جانب سے فارس کے اعلیٰ عہدیداران کو بھنویں رنگنے کا آلہ تحفہ میں دیا کرتے تھے اوراسی آلہ کو ملکہ کے استعمال کے لیے درآمد بھی کیا کرتے تھے۔بابل (Babylon)کے قالین کی چین میں بہت مانگ تھی۔ اس کے علاوہ شام (Syria)کے قیمتی پتھر، بحیرۂ احمر (Red Sea)کے مرجان اورمورتیاں، مصر(Egypt)کے بُنے ہوئے کپڑے،صحرائے گوبی(Desert of Gobi)کی جنوبی سرحد کے راستے قافلوں کی صورت میں چین برآمد کیے جاتے تھے۔

ریشم کی پیداوار کےحوالے سے خوزستان(Khuzestan) کا شہر بہت شہرت کا حامل تھا۔ یہاں سے ریشم پوری سلطنت فارس کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ میسوپو ٹیمیا (Mesopotamia)اور مغربی ریاستوں کو بر آمد بھی کیا جاتا تھا۔چوتھی صدی قبل مسیح کے دور میں فارس کے شہر خوزستان میں تیار کی جانے والی ریشم کو مصر میں استعمال کرنے کےبھی شواہد ملتے ہیں، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خوزستان فارس کاایک ترقی یافتہ صنعتی شہر تھا۔26

قالین بانی کی صنعت

قالین بانی کی صنعت فارس میں قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ اسی لیے اس صنعت میں ہمیشہ ایران ہی کا اجارہ رہا ہے۔فارس میں قالین بُننے کے فن کا آغاز 2500سال قبل ہی ہو چکا تھا۔ ابتداء میں ایرانی قالین اور موٹے کمبل ہاتھوں سے بُنے جاتے تھےجس کو خانہ بدوش قبائل سردی اور نمی سے بچنے اور جھونپڑوں کے فرش ڈھکنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ بین الاقوامی تجارت کے بڑھنے سے ان قالینوں کے نقش و نگار اورنمونوں میں بھی جدت آتی چلی گئی۔ایرانی قالین بانی کی صنعتی ترقی کا گہرا تعلق ملک کے متعدد حکمرانوں کی ان میں دلچسپی سے بھی تھا۔جب 539قبل مسیح میں کوروش (Cyrus)نے بابل (Babylon)پر حکومت قائم کی تو وہ یہاں کے قالینوں کی عمدگی اور خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ بہت سے تاریخ دانوں نے فارس میں قالین بانی کی صنعت کو ترقی دینے میں کوروش (Cyrus)کے کردار کو بہت اہم قرار دیاہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پرسیپولیس(Persepolis) کے قریب پاسارگاد(Pasargadae)میں کوروش(Cyrus) کا مقبرہ واقع ہے جسے قیمتی قالین سے ڈھانکا گیا تھا۔ کوروش (Cyrus)کے دور سے پہلے فارسی خانہ بدوش اپنے گھروں کے لیے سادہ ڈیزائن کے قالین تیار کیا کرتے تھے۔ اعلیٰ اور پائیدار خصوصیات کے حامل قالین کے لیےاون بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑ وں سے حاصل کی جاتی تھیں۔27

تجارت اور لین دین کا کاروبار بابلیوں (Babylonian) کے ہاتھوں میں تھا ،جو دُور دراز سے تجارت کا مال لاکر بادشاہوں اور روساء کے محلوں میں فروخت کے لیے پیش کرتے تھے۔28 پیتل، تانبے اور سونے چاندی کے برتنوں پر نقاشی کرنے میں بھی یہاں کے کاری گروں کو کمال حاصل تھا۔ ان دست کاریوں کے علاوہ ایران میں کئی نئے کارخانے بھی قائم ہوئے تھے۔ یہاں تمباکو اوراسلحہ کے بہت سے کارخانے تھے جہاں فوج کے لیےاس وقت کی ضرورت کے مطابق ہر طرح کے ہتھیار بنتے تھے۔ غیر سرکاری صنعتوں کے علاوہ بعض دیگر صنعتیں بھی کافی ترقی کر چکی تھیں مثلاً کپڑے کی صنعت جس کا مرکز اصفہان تھا۔ چالوس میں اعلی قسم کا ریشمی کپڑا تیار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ چقندر سے کھنڈ بنانے کےکارخانے بھی موجود تھے۔29

اسلحہ سازی کی صنعت

جمشید نے سب سے پہلے تلواروں اور دیگر اقسام کے اسلحہ کی ابتداء کی۔ اس بارے میں امام طبری تحریر کرتےہیں:

  وإنه ابتدع صنعة السيوف والسلاح، ودل على صنعة الإبريسم والقز وغيره ممايغزل، وامر بنسج الثياب وصبغها، ونحت السروج والأكف وتذليل الدواب بھا.30
  جمشید نے ہی سب سے پہلے تلواروں اور دیگر اقسام کے اسلحہ کی ابتداء کی اور لوگوں کو کپڑا بافی کی صنعت سے متعارف کرایا اور کپڑوں کو رنگنے کا حکم دیا تھا اور جانوروں کو قابو کرنے کے لیے زین اور دستانے بنانے کا حکم دیا تھا۔31

یعنی اسلحہ سازی کی باقاعدہ ابتداء جمشید کے دور میں ہوئی تھی ورنہ اس سے قبل بھی اہل ایران اسلحہ بناتے تھے مگر اس کا معیار وہ نہ تھا جو باقاعدہ اسلحہ کا ہوتا ہے ۔ جمشید کے بعد اس فن میں ایرانیوں نے مزید مہارت حاصل کی اور اپنے وقتوں میں اسلحہ سازی کی وجہ سے وہ کئی دیگر اقوام پر غالب بھی رہے۔

ذرائع آمد ورفت اور تجارتی راستے

دنیا کے اہم بری اور بحری راستوں پر کنٹرول کی وجہ سے سلطنت ایران کےتجارتی راستے اور گزرگاہیں جنوب میں ہندوستان اور مشرق میں چین تک پھیلے ہوئے تھے۔ 32پوری ایرانی سطح مرتفع پرقدیم مدّت سے قافلوں کے راستے موجود ہیں۔ ان کی وجہ سے اکثر مزروعہ قطعات باہم مربوط ہیں۔ہمسایہ ممالک میں آمد ورفت کے بڑے راستے یہ تھے:

  1. مشرقی قفقازکی طرف دریائے اَرَس کی گزرگاہ،
  2. اُرمیہ کے مغربی درّوں سے ارمینیا کی طرف،
  3. شہرزور اور حلوان کی گھاٹیوں کی طرف سے الجزیرۃ اور العراق کی طرف کے راستے ، نیز ایک شاہراہ بصرہ سے اہواز کو جاتی تھی۔

خلیج فارس کی بندرگاہوں سے بھی عرب، ہندوستان اور مشرقی افریقہ کے ساحلی شہروں کے ساتھ آمد ورفت کے سلسلے باقاعدہ موجود تھے۔ ماوراء النہر کی سمت جانے والی بڑی شاہراہ دریائے جیحوں (River Oxus)کے شہر ترمذ سے گزرتی تھی۔ دوسری طرف کابل اور غزنہ سے ملتان کو جانے والی سڑکیں سطح مرتفع ایران اور اسلامی ہندوستان کے درمیان رابطے کا بڑا ذریعہ تھیں۔ بحیرہ خزر(Caspian Sea) کی بندرگاہوں کے ذریعے تھوڑی بہت آمد ورفت والگا(Valga) کے دہانے تک بھی جارہی تھی۔33

دنیا کی اوّلین گاڑی

ایرانی تاریخ کے افسانوی دور کے بادشاہ جمشید کی طرف ایک عجیب و غریب گاڑی بھی منسوب ہے جس کا حال کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے:

  أمر فصنعت له عجلة من زجاج، فصفد فيھا الشياطين وركبھا، وأقبل عليھا في الهواء من بلده، من دنباوند إلى بابل في يوم واحد، وذلك يوم هرمز از فروردين ماه، فاتخذ الناس للأعجوبة التي رأوا من اجرائه ما اجرى على تلك الحال نوروز، وأمرهم باتخاذ ذلك اليوم وخمسة أيام بعده عيدا.34
  (جمشید بادشاہ )نے ان(شیاطین) کو حکم دیا تو شیاطین نے اس کے لیے شیشے کی ایک گاڑی تیار کی پھر جمشید نے اس گاڑی میں شیاطین کو لوہے سے جکڑا اور پھر خود اس پر سوار ہوگیا تھا۔ شیاطین اسے لے کرفضا میں اڑے اور شہر دنباوند سے بابل تک کا سفر صرف ایک دن میں طے کیا اور یہ دن شمسی سال کے پہلے مہینہ کا پہلا دن تھا۔ لوگ اس عجوبے کو انتہائی انہماک سے دیکھنے لگے پس بادشاہ نے یہ دن اور اس کے بعد پانچوں دن عید کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا تاکہ ان دنوں میں خوشی منائی جاسکے۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ یہ سفر اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کیا تھا۔ لہذا اس کے بدلہ میں انہیں گرمی، سردی، بیماریوں، بڑھاپے اور حسد سے محفوظ کردیا گیا۔ لوگ پوری تین صدیاں ان تمام تکالیف سے محفوظ رہے یہاں تک کہ جمشید کی حکومت کو پورے چھ سو (600)سال گزرگئے۔ 35

یقینا یہ صرف ایک افسانی کہانی اور لا یعنی قصہ ہے جو اہل فارس میں مشہور تھا اور اب بھی بعض لوگ اس کو بیان کرتے ہیں اسی لیے علامہ طبری نے بھی اسکو بیان کیا ہے ورنہ یہ بات یقینا ہرذی شعور شخص سمجھتا ہے کہ ایسی گاڑی کی ایجاد اور اس پر سفر اگر خدائی معجزہ ہوتا تو شیطانوں کے ہاتھوں اسکی تخلیق نہ ہوتی اور اگر یہ معجزہ نہیں تھا تو محض ایک لغو داستان تھی جو اہل فارس میں مشہور کردی گئی تھی۔

مذہب ِزرتشت کی معاشی تعلیمات

زرتشت (Zoroaster)کا قول ہے کہ انسان کو چاہیے کہ دنیا میں رہتے ہوئےاپنے ہم جنسوں کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارے۔ دوسروں کے ساتھ مل کر ذمے داریوں کا بوجھ اٹھائے اور زندگی کی مشقتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرے۔ متاہل زندگی گزارے اور اولاد پیدا کرے۔ آبادی میں اضافہ کرے، اسی لیے آتش پرستوں میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا عام رواج تھا۔

زرتشت (Zoroaster)کے نزدیک گائے، بیل اور کتے کی بڑی اہمیت تھی کیوں کہ بیل کھیتی کے کام آتا تھا اور گائے بچھڑے کو جنم دیتی ہے۔کتا لوگوں کے ہاتھ سے لے کر روٹی کھاتا ہے لیکن ان کا حق ادا کرتا ہے، رکھوالی کرتا ہے، لوگ سوتے ہیں اور وہ جاگتا ہے، اس کی آواز سے ہر شخص جاگ اٹھتا ہے، نہ چور گھر میں چوری کرسکتا ہے، نہ بھیڑ یا گھر میں گھس کر بھیڑ بکری لے جاسکتا ہے۔ اسی طرح زرتشت (Zoroaster)مرغ کو بھی بہت مفید پرندہ سمجھتا تھا کیونکہ یہ انسانوں کو صبح ہونے کی خبر دیتا ہے۔ زرتشت (Zoroaster)کے نزدیک گھر وہی اچھا ہوتا، جہاں بیل ہوں، جہاں کے مرد کھیتی باڑی کرتے ہوں، جہاں عورتیں اور بچے ہوں اور جہاں کتا ہو۔36

زرتشت کی ان تعلیمات کی وجہ سے عام لوگ معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتے تھے جس کے معیشت پر مثبت اثرات تھے ۔ عوام میں محنت اور لگن سے کام کرنے کا رجحان تھا مگر استحصالی معاشی نظام کی وجہ سےان کی محنت کا جائز معاوضہ نہیں ملتا تھا جس نے سلطنت کو کمزور کردیا اور بالاخر سلطنت فارس کا سورج ہمیشہ کیلیے غروب ہو گیا۔

نوشیرواں کاخطبہ تجارت

فارس میں لگان کا طریقہ بالکل نیا تھا، اس لیے رعایا کو اس سے متعارف کرانے کے لیے ملک کے سرکردہ لوگوں کو جمع کر کے نوشیرواں (Noshirwan)نے یہ خطبہ دیا:"لوگو! جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں آباواجداد کی بہ نسبت زیادہ نعمتیں عطا کیں اور ہماری مملکت کو وسیع کیا، اسی طرح یہ بھی ضروری ہوا کہ ہمارا عدل بھی ان کی نسبت زیادہ ہو۔ اس غرض سے میں نے رعایا کے کاروبار پر توجہ دی ہے اور ملک کے لیے ایک بیت المال قائم کیا ہے تاکہ ملک کو دشمن کے حملوں سے بچانے کے لیے اسے استعمال میں لایا جاسکے۔ کوئی دشمن حملہ آور ہو تو ضروری ہے کہ لشکر لوگوں کی حفاظت کرے اور لشکر کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ انہیں تنخواہیں دی جائیں اور تنخواہیں لگان وغیرہ ہی سے ادا کی جاسکتی ہیں۔ اگر حکومت کا اپنا کوئی بیت المال نہ ہواور مصیبت کے وقت پہلے طریقے کے مطابق لوگوں سے دفعتاً زرومال لیا جائے تو اس صورت میں رعایا پر بہت بوجھ پڑتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہر سال لگان وصول کیا جائے اور وہ بیت المال میں جمع ہوتارہے، تاکہ حسب موقع وہاں سے رقم لے کر خرچ کی جائے۔ یہ رقم جبر سے نہیں لی جائے گی بلکہ اس کا حصول عدل وانصاف کے قاعدوں کے مطابق ہوگا۔ ہمارے بزرگوں نے بھی کوشش کی تھی کہ عدل وانصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے خزانہ پُر کریں لیکن وہ ملکی مدافعت میں مشغول رہے اور زمانے نے انہیں مہلت نہ دی۔ خدا نے اب ہمیں یہ بادشاہت دی ہے اورہم نے زمینوں پر جو لگان لگایا ہے وہ عدل وانصاف پر مبنی ہے۔ ہم نے تمام زمینوں کی پیمائش کرالی ہے اور پیداوار کا حصہ لینے کے بجائے مناسب نقد لگان عائد کیا ہے۔"

نوشیرواں (Noshirwan)نے نئے لگان کا نرخ نامہ لکھوا کر مالیات کے دفتر میں رکھوادیا اور اس کی ایک ایک نقل محکمۂ مال کے سب افسروں اور اضلاع کے ججوں کو بھجوائیں۔ ان ججوں کا فرض یہ تھا کہ وہ اس بات کی نگرانی کرتے تھےکہ لگان کی وصولی انصاف کے ساتھ ہو اور اگر کسی شخص کی کھیتی باڑی یا درختوں کو نقصان پہنچا ہو تو لگان معاف کردیا جائے۔ ایسی معافی کی اطلاع ججوں کو مرکزی حکومت کو بھیجنی پڑتی تھی اور وہاں سے تحصیل داروں کے نام مناسب احکام صادر کردیے جاتے تھے۔ نوشیرواں (Noshirwan)کا مقصد یہ تھا کہ لگان کی وصولی میں جوزیادتیاں عام طور پر ہورہی تھیں ان کا سد باب ہوجائے۔ پیداوار لانے اور لے جانے کے لیے نوشیرواں نے آمدورفت کے ذرائع کو بہتر بنایا۔ سڑکوں کی حفاظت کے لیے پاسبان مقرر کیے اور ٹوٹے ہوئے پلوں کو پھر سے تعمیر کرایا تھا۔

نوشیرواں (Noshirwan)نے مالیات کے حکام کی تجویز کے مطابق شخصی لگان کی بھی اصلاح کی۔ یہ لگان ان سب آدمیوں پر عائد کیا جاتا تھا، جن کی عمر بیس (20)اور پچاس(50) سال کے درمیان ہوتی تھی۔ اُمراء واشراف، سپاہی، موبد، دبیر اور دوسرے سرکاری ملازم لگان سے مستثنیٰ ہوتے تھے۔ تمول کے اعتبار سے لگان دینے والوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ بعض بارہ(12) درھم کی شرح سے لگان دیتے تھے، بعض آٹھ(8) درھم کے حساب سے اور بعض چھ(6) درھم کے حساب سے۔ زیادہ تعداد اُن لوگوں کی تھی جو چار(4) درھم کے حساب سے لگان دیتے تھے۔ لگان سہ ماہی قسطوں میں ادا کیے جاتے تھے۔37

قدیم ایران میں جن لوگوں نے اس سلطنت ایران کی بنیاد رکھی ،انہوں نے تو اس کی ترقی وفلاح میں ہر طرح سے امراء وعوام میں یکسانیت کو مدنظر رکھا لیکن بعد کے ادوارمیں ایسے بھی حکمران آئے جنہوں نےاس کی فلاح وترقی اسی میں سمجھی کہ امراء ورؤساء کو نوازا جائے ،عوام کو پستی میں رکھا جائے ، حکمرانوں کی اس معاشی پالیسی کی وجہ سے یہاں کا معاشی نظام کافی خراب ہوگیا ، اس کے معاشی اثرات منفی صورت میں ظاہر ہونے لگے تھے۔

نوشیراوں(Noshirwan) کی تخت نشینی سے ایران کے امراء مطمئن ہوگئے تھے۔ عوام کی جس تحریک کو مزدوک نے جاری کیا تھا نوشیرواں(Noshirwan)نے اسے دبادیا ۔اس تحریک کو پوری طرح کچلنے کےلیے ایرانی امیروں نے نوشیرواں کا ساتھ دیا۔ انہوں نے نوشیرواں کی اطاعت کو مزدوکی تحریک کو تباہ کرنے کا ذریعہ بنایا۔امیروں کی اس پالیسی نے نوشیرواں (Noshirwan)کو مطلق العنان حکمران بن جانے کا موقع دیا،اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے بعد نوشیرواں(Noshirwan) سلطنت کے نظم ونسق کی طرف متوجہ ہوا، 38لیکن جہاں اسکے بیان کردہ خطبے سے اس کے نیک ارادوں کا ثبوت ملتا ہے وہاں کئی مؤرخین نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ نوشیرواں کے یہ خطبے بھی محض دیگر بادشاہوں کی طرح وہ خطبات تھے جن سے وہ رعایا کو بیوقوف بنایا کرتے تھے مگر حقیقت اسکے برعکس ہوتی تھی اور حکمران ان محصولات سے نہ صرف خود عیاشی کرتے تھے بلکہ ان کے متعلقین بھی ان سے اپنی عیاشیوں کے سامان مہیا کرتے تھے۔

معاشی اجارہ داری اور اسکے اسباب

پانچویں صدی قبل مسیح سے لےکر چھٹی صدی عیسوی تک کےتقریبا ہزار(1000) سالہ دور میں دو(2)عالمی طاقتیں (Super Powers) دنیا کی عالمی سیاست پر غالب رہیں۔مغرب میں رومی سلطنت (Roman Empire)اور مشرق میں ایرانی سلطنت(Persian Empire) دنیا کے سیاہ و سفید کی مالک تھیں ۔ یہ دونوں اپنے آپ کو آریائی نسل (Aryans)سے سمجھتے ہوئے دوسرے انسانوں سے اعلیٰ، مافوق البشرجنس (Super Humans)تصورکرتے تھے۔39 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ایرانی معاشیات اور اُس کے منفی اثرات کے متعلق لکھتے ہیں :

  جب ایرانیوں اور رومیوں کو مختلف اقوام پر حکومت کرتے صدیاں گزرگئیں اور انہوں نے دنیوی تعیش ہی کو اپنا مقصد زندگی اور مطمع نظر بنالیا تھا اور وہ عیش و عشرت کے اسباب میں منہمک ہو گئے تھے اور ان کا ہر شخص مال و دولت، سرمایہ داری اور تمول پر فخر کرنے لگا اور آخرت کے تصور کو یکسرفراموش کردیا تھا۔ یہ دیکھ کر دنیا کے مختلف گوشوں سے وہاں ایسے ماہرین اکھٹے ہو گئے جو بے جا عیش پسندوں کو داد عیش دینے کے لیے عیش پسندی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے اور ان کے لیے سامان عیش مہیا کرنے کے لیے عجیب و غریب نکتہ آفرینیوں اور دقیقہ سنجیوں میں مصروف نظر آنے لگے، اور قوم کے بڑے لوگ اس جدو جہد میں منہمک رہنے لگے کہ اسباب تعیش میں کس طرح وہ دوسروں پر سبقت لے جا سکیں اور ایک دوسرے پر فخر و مباہات کر سکیں۔ سرمایہ پرست علماء کا یہ حال ہوگیا تھا کہ جس کسی کے پاس ایک لاکھ(1،00،000) درہم سے کم قیمت کا پٹکا یا کلا ہ ہوتا تو اسے بخیلی اور کنجوسی کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ایسے ہی انہوں نے عالی شان اور سر بفلک محل ، نفیس حمام ، نظر افروز باغ، سواری کے نمائشی جانور ، خدمت کے لیے خوبصورت غلام اور حسین باندیاں اور کنیزیں اپنی زندگی کے لوازم بنا لیے اور مقصد حیات یہ سمجھ لیا کہ شام میں عیش و نشاط کی محفلیں ہوں جن میں طرح طرح کے کھانے وسیع دستر خوان پرچنے ہوں اور وہ لباس فاخرہ پہنے ان میں بیٹھے ہوں۔بادشاہوں اور امیروں کی اس عیاشانہ زندگی سے بہت سے خطر ناک اور معاشی اور معاشرتی امراض نے جنم لیا جو معاشرتی زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہوگئے۔ ان امراض سے نہ تو کوئی شہری محفوظ رہا اور نہ کوئی دیہاتی، نہ امیر اور نہ غریب۔ اس ہمہ گیر مصیبت کا سبب یہ تھا کہ یہ سامان تعیش کثیر زرو مال صرف کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا، اور ظاہر ہے کہ یہ مال کثیر کاشت کاروں اور تاجروں پر نئے ٹیکس لگانے اور پہلے سے لگے ہوئے ٹیکسوں میں معتدبہ اضافہ کیے بغیر حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ پھر دوسری مصیبت یہ کہ گراں بار ٹیکس ادا نہ کرنے یا ٹیکس ادا کرنے سے انکار کرنے پر ان کے خلاف فوجی کاروائی کی جاتی تھی۔اس معاشی اور اقتصادی بد حالی کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیکس ادا کرنے اور اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے سوا لوگ کسی اور بات کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتے تھے چہ جائیکہ سعادت اخروی اور اپنی نجات کے بارے میں کچھ غور و فکر اور سوچ بچار کریں۔ بسا اوقات پورے ملک میں ایک فرد بشر بھی ایسا نہ ملتا جس کو اپنے دین کی فکر ہوتی۔ اس "فاسد معاشی نظام" کا ایک مکروہ پہلو یہ بھی تھا کہ جن صنعتوں پر نظام عالم کی بنیاد قائم ہے وہ اکثر و بیشتر یک قلم متروک ہو گئیں، اور امراء و روؤساء کی مرضیات وخواہشات کی تکمیل ہی سب سے بڑی خدمت اور سب سے بہتر حرفہ شمار ہونے لگا۔ جمہور کی یہ حالت تھی(جیسا کہ آج کل کی جمہوریت میں جمہور کی ہے) کہ ان کی تمام زندگی بد اخلاقیوں کا نمونہ بن گئی اور ان میں سے اکثر وبیشتر کا گزارہ بادشاہوں کے خزانوں سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہوگیا تھا۔خلاصہ یہ کہ اس معاشرہ میں کسب معاش کے بہترین طریقوں کا فقدان تھا اور ایک بہت بڑی جماعت چاپلوسی، خوشامد، چرب زبانی اور دربار داری کو ذریعہ معاش بنانے پر مجبور ہوگئی تھی، اور یہ ایک ایسا فن بن گیا تھا جس نے ان کے افکار عالیہ اور ذہنی نشونما کی تمام خوبیاں مٹاانہیں کر پست و ارذل زندگی گزارنے پر قانع کر دیا تھا۔ جب یہ فاسد مواد وبا کی طرح پھیل گیا اور لوگوں کے دلوں تک سرایت کر گیا تو ان کے نفوس دنائت و خساست سے بھر گئے اور ان کی طبائع اخلاق صالح سے نفرت کرنے لگیں۔یہ سب کچھ اس معاشی اور اقتصادی نظام کی وجہ سے پیش آیا جو عجم و روم کی حکومتوں میں کار فرماتھا۔ 40

حکمرانوں کی تعیش پرستی

بادشاہوں کی عیش پرستی کے دور میں ٹیکسوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ نت نئے ٹیکس لگائے جاتے تھےجنہوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ ٹیکسوں کی بہتات کی وجہ سےبہت سے کاشتکاروں نے زراعت کا پیشہ ترک کر دیا۔اگرچہ فوج میں بھرتی ہونے سے ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو جاتا تھا لیکن انہیں ان بے مقصد اور خونریز جنگوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی جن میں حکمران طبقہ نے اپنی رعایا کو ہر طرف الجھا رکھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں پناہ لینا شروع کی۔ اس سے بے روزگاری اور جرائم کی گرم بازاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ لوگ ناجائز طریقوں سے روپیہ بٹورنے کی بیماری کا بری طرح شکار ہوگئے تھے۔

خسرو نوشیرواں، جو تاریخ میں نوشیرواں عادل کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے ایران کے لگان کے نظام میں اصلاحات کیں، لیکن ان اصلاحات سے کسانوں کی مشکلات اور عوام کا بوجھ زیادہ کم نہ ہوا۔خسرو (نوشیرواں ) کی مالی اصلاحات (Economic Reforms)میں بے شک رعایا کی نسبت خزانے کے مفاد کو زیادہ ملحوظ رکھا گیا تھا۔ عوام الناس اسی طرح جہالت اور عشرت میں زندگی بسر کر رہے تھے جیسا کہ زمانہ سابق میں ۔ باز نطینی فلسفی جو شہنشاہ کے ہاں آکر پناہ گزیں ہوئے تھے، ایران سے جلد دل برداشتہ ہوگئے بلکہ ذات پات کی تمیز اور سوسائٹی کے مختلف طبقوں کے درمیان ناقابل عبور فاصلہ اور خستہ حالی،جس میں نچلے طبقوں کے لوگ زندگی بسر کر رہے تھے، یہ وہ چیزیں تھیں جن کو دیکھ کر وہ آزردہ خاطر ہوئے۔ طاقتور لوگ کمزور کو دباتے تھے اور ان کے ساتھ ظلم اور بے رحمی کا سلوک کرتے تھے۔41

ستم بالائے ستم یہ کہ محصول اور لگان ادا کرنے کا تقریباً سارا بوجھ غریب طبقہ پر لاد دیا گیا تھا جو پہلے ہی غربت و افلاس،ا ورمحرومیوں و مجبوریوں کے شکنجہ میں کسا ہوا تھا۔ خسرو نوشیرواں کے حکم کے مطابق ایران کے عوام کو دو(2) قسم کے محصول ادا کرنا پڑتے تھے، ایک خراج، جو زمین کی پیداوار سے لیا جاتا تھا، دوسرا جزیہ۔ لیکن ایران کے سات (7)بڑے خاندان ، جن میں شاہی خاندان بھی شامل تھا، ان محصولوں سے مستثنیٰ تھے۔ اسی طرح امرائے عظام،جن کو العظماء کہا جاتا تھا، انہیں بھی دونوں محصولوں سے بری کر دیا گیا تھا بلکہ تمام فوجی سپاہی، سرکاری عہدہ دار، آتش کدوں کے نگران، مذہب کے نمائندے اور وہ اشخاص جو شہنشاہ ایران کے شخصی ملازم تھے، ان محصولوں کی ادائیگی پر مجبور نہ تھے۔ 42 اس سے باآسانی اندازہ لگا یاجاسکتا ہے کہ جولوگ وسیع و عریض جاگیروں کے مالک تھے، جن کے پاس دولت کے انبارتھے، جو باآسانی حکومت کے ٹیکسوں اور واجبات کو ادا کر سکتے تھے، انہیں تو ان ٹیکسوں کی ادائیگی سے بریٔ الذّمہ قرار دے دیا گیا تھا اور سارا بوجھ نادار اور مفلوک الحال عوام پر ڈال دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے امیر اور غریب میں جو خلیج پہلے ہی وسیع تھی وہ مزید وسیع ہوگئی اور عوام کو حکومت کے لگان ادا کرنے میں گو نا گوں دقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

حکومت کی آمدنی کے بڑے ذرائع خراج اور شخصی محصولات (Individual Taxes)تھے۔ شخصی ٹیکس کی ایک خاص رقم سالانہ مقرر کی جاتی تھی جس کو محکمۂ مالیات مناسب طریقہ سے ادا کنندگان پر تقسیم کر دیتا تھا۔ خراج کی وصولی اس طرح ہوتی تھی کہ زمین کی پیداوار کا حساب لگا کر ہر ضلع سے اس کی زر خیزی کے مطابق چھٹے حصہ سے ایک تہائی تک لے لیا جاتا تھا۔ بایں ہمہ، خراج اور ٹیکس کے لگانے اور وصول کرنے میں محصلین خیانت اور استحصال بالجبر کے مرتکب ہوتے تھے اور چونکہ قاعدہ مذکورہ کے مطابق، مالیات کی رقم سال بسال مختلف ہوتی رہتی تھی، یہ ممکن نہ تھا کہ سال کے شروع میں آمدنی اور خرچ کا تخمینہ ہو سکے۔علاوہ اس کے ان چیزوں کو ضبط میں رکھنا بھی بہت مشکل تھا ۔ بسا اوقات نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ادھر جنگ چھڑ گئی اور ادھر روپیہ ندارد۔ ایسی حالت میں پھر غیر معمولی ٹیکسوں کا لگانا ضروری ہو جاتا تھا اور تقریباً ہمیشہ اس کی زد مغرب کے مال دار صوبوں، خصوصاًً بابل پر پڑتی تھی۔43

مختلف قسم کے لگانوں ، ٹیکسوں، خراجوں اور دیگر ذرائع سے سرکاری خرانہ میں جو دولت جمع ہوتی اس میں سے بہت کم حصہ عوام الناس کی فلاح و بہبو د کے لیے خرچ کیا جاتا تھا۔ جو سلاطین آئین جہاں بانی سے آگاہ تھے وہ ملک میں سڑکیں بنانے، دریاؤں پر پل تعمیر کرنے زیر کاشت زمینوں کی آبپاشی کرنے کے لیے ،دریاؤں سے نہریں نکالنے اور بند تعمیر کرنے کی طرف کافی توجہ دیتے تھے۔

نوشیرواں جب تخت نشین ہوا تو اس نے بزر جمہر کو جو اس کے لڑکے کا اتالیق تھا، اپنا وزیر بنایا۔ اس نے جاگیر داروں کی فراہم کردہ غیر منظم فوج پر اعتبار کرنے کے بجائے ایک باقاعدہ فوج منظم کی جس کو جنگ کے قواعد و ضوابط کی تعلیم دی گئی اور اس کو اس قابل بنا دیا گیا کہ وہ ہمہ وقت اپنے ملک کے دفاع کے لیے اور دشمن کے کسی ناگہانی حملہ کو پسپا کرنے کے لیے تیار رہے۔ اس نے شہروں کو پانی فراہم کرنے کے لیے، زرعی کھیتوں کی آبپاشی کے لیے ڈیم تعمیر کیے اور نہریں کھدوائیں۔ اس نے بہت سی بنجرزمینوں کو قابل کاشت بنایااور ان زمینوں میں کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں کو مویشی، آلاتِ کشاورزی اور بیج فراہم کیے۔ اس نے پلوں اور سڑکوں کی مرمت کی اور ان کی حفاظت کا بندوبست کرکے تجارت کو بڑا فروغ دیا۔ اس نے اپنی ساری طاقت اپنی رعایا اور حکومت کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ اس نے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے سرکاری خزانہ سے فنڈ زمہیا کیے۔ یتیم اور غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اس نے حکومتی سطح پر اہتمام کیا تھا۔ اس نے اپنی فیاضی اور دریا دلی سے اپنے ارد گرد کے فلسفیوں، طبیبوں اور علم دوست لوگوں کو ہند اور یونان کے دوردراز علاقوں سے اپنے پاس جمع کیا۔ وہ ان کی محفل منعقد کرتا اور عام زندگی اور حکومت کے مسائل کے بارے میں ان سے تبادلۂ خیال کرتا تھا۔ اس کی ایک محفل میں یہ سوال پیش کیا گیا کہ سب سے بڑی بدقسمتی کیا ہے؟یونان کے ایک فلسفی نے اس کا یوں جواب دیا: مفلسی،بڑھاپے کی کمزوری۔ ایک ہندو نے جواب دیا کہ"ایک بیمار جسم میں پریشان دل"۔آخر میں خسرو کے وزیر بزر جمہر نے کہا: میرے نقطۂ نظر سے سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ "کوئی شخص اپنی زندگی کے انجام کو قریب آتے ہوئے دیکھے، اس سے پیشتر کہ اس نے کوئی نیک کام کیا ہو"۔ سب حاضرین اور خود نوشیرواں نے اس جواب کو بہت پسند کیا۔

نوشیرواں کے علاوہ بہت کم ایسے سلاطین تھے جو ملکی آمدنی کو رفاہِ عامہ پر خرچ کرتے۔ بادشاہ کا اپنا ذاتی خزانہ بھی ہوتا جس میں قیمتی اشیاء جمع کی جاتیں تھیں۔ غنیمت کا سارا مال بادشاہ کی ذاتی ملکیت شمار ہوتا تھا۔ بعض وسیع وعریض جاگیریں بادشاہ کی ذاتی ملکیت ہوتیں جن سے اس کو بے پناہ آمدنی ہوتی تھی۔ علاقہ آرمینیا کی سونے کی کانوں کی ساری آمدنی بادشاہ کی ذاتی آمدنی تھی۔ باقاعدہ ٹیکسوں کے علاوہ رعایا سے نذرانے لینے کا بھی دستور تھا ۔عید نوروز اور مہرجان کے موقعوں پر لوگوں سے جبراًتحائف وصول کیے جاتے تھے۔44

اس بے پناہ آمدنی کے باعث بادشاہوں کی زندگیاں عیش وعشرت میں گزرتی تھیں۔ تکلفاتِ زندگی ،تعیشات اور سامانِ آرائش کی وہ بہتات تھی اور اس میں ان باریکیوں اور نکتہ سنجیوں سے کام لیا جاتا تھا کہ عقل حیران رہ جاتی تھی۔ فارسی مؤرخ شاہین مکاریوس کے بیان کے مطابق کسریٰ پرویز کے پاس بارہ ہزار(12،000) عورتیں اور پچاس ہزار(50،000) اصیل گھوڑے تھے۔ اس قدر سامان تعیش، محلات، نقدجواہرات تھے کہ ان کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ محل اپنی شان وشکوہ اور عظمت میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بادشاہوں کے علاوہ ان کے امراء اور رؤسا بھی دادِ عیش دینے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں کوشاں رہتے تھے۔ ان کے لباس از حد قیمتی ہوتے تھے اور ان میں جواہرات جڑے ہوئے ہوتے تھے۔45

ایرانی سلطنت میں کاشت کار ،مزدور ،دست کار اور دوسرے لوگوں کے مقدر میں مفلسی ،قلاشی اور محرومی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کا کام صرف یہ رہ گیا تھاکہ امراء،رؤسا،جاگیرداروں کے لیے دن رات محنت سےکام کریں اور جو کچھ حاصل ہو وہ ان کے عیش وآرام کے لیے انہیں مہیاکردیں۔غریب عوام جو کچھ کماتے تھے اس کا زیادہ حصہ ٹیکسوں کی صورت میں ان سے چھین لیا جاتاتھا۔ وہ جانوروں کی طرح کام کرکے حکومت کے خزانے بھرتے تھےتاکہ بڑے بڑے اعیان سلطنت اس خزانے سے فائدہ حاصل کرسکیں جیسا کہ آج کل کے حالات سے بھی بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔

 


  • 1 پروفیسراے۔جے۔ آربری، میراث ایران (مترجم: سید عابد علی عابد)،مطبوعہ:مجلسِ ترقی ادب، لاہور، پاکستان ،1964 ء،ص:5
  • 2 روفیسر آرتھر کرسٹن سین ،ایران بعہد ساسانیاں (مترجم:ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو،کراچی،پاکستان،1992ء،ص :589-590
  • 3 Encyclopedia Iranica (Online Version): http://www.iranicaonline.org/articles/economy-iii Retrieved: 06-03-2019
  • 4 سید عین الحق، قدیم مشرق ، ج-2، مطبوعہ: مکتبہ فریدی، کراچی،پاکستان،ص:126
  • 5 Encyclopedia Iranica (Online Version): http://www.iranicaonline.org/articles/economy-iii Retrieved: 06-03-2019
  • 6 Jacob R. Eckfeldt and William E. Dubois (1852), New Varieties of the Gold and Silver Coins, George Putnam, New York, USA, Pg. 65.
  • 7 Maneck Pithawalla (1923), The Light of Ancient Persia, Theosophical Publishing House, Madras, India, Pg. 162.
  • 8 Ali Farazmand (2001), Handbook of Comparative and Development Public Administration, Marcel Dekker Inc., New York, USA, Pg. 52.
  • 9 Jacob R. Eckfeldt and William E. Dubois (1852), New Varieties of the Gold and Silver Coins, George Putnam, New York, USA, Pg. 65.
  • 10 Henry Noel Humphreys (1851), Ancient Coins and Medals, Grant and Griffith, London, U.K., Pg. 90-92.
  • 11 John Peggot (1874), Persia-Ancient and Modern, Henry King & Co., London, U.K., Pg. 218.
  • 12 سید عین الحق، قدیم مشرق ، ج -2، مطبوعہ: مکتبہ فریدی، کراچی،پاکستان،ص:126
  • 13 پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی،تاریخ ایران،مطبوعہ:مجلس ترقی ادب ،لاہور ،پاکستان،2010ء، ص:188
  • 14 پروفیسر آرتھر کرسٹین سین، ایران بعہد ساسانیان (مترجم : ڈاکٹر محمداقبال )،مطبوعہ انجمن ترقی اردو،کراچی،پاکستان،1992،ص:489
  • 15 Michael Burgan (2010), Empires of Ancient Persia, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 96.
  • 16 Ali Farazmand (2001), Handbook of Comparative and Development Public Administration, Marcel Dekker Inc., New York, USA, Pg. 52.
  • 17 Michael Burgan (2010), Empires of Ancient Persia, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 96-97.
  • 18 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon and Schuster Inc. New York, U.S.A. Pg.357.
  • 19 پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی،تاریخ ایران،مطبوعہ:مجلس ترقی ادب ،لاہور ،پاکستان،2010ء، ص:299
  • 20 Encyclopedia Iranica (Online Version): Encyclopedia Iranica (Online Version): http://www.iranicaonline.org/articles/economy-iii Retrieved: 06-03-2019
  • 21 علی عباس جلا لپوری،روایات تمد ن قدیم، مطبوعہ:تخلیقات ،لاہور ،پاکستان ،2012ء،ص :177
  • 22 پروفیسر آرتھر کرسٹن سین ،ایران بعہد ساسانیاں(مترجم:ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو،کراچی،پاکستان،1992ء،ص :589-590
  • 23 Encyclopedia Iranica (Online Version): http://www.iranicaonline.org/articles/copper-ii-copper-resources-in-iran Retrieved: 30/04/2019
  • 24 ابو جعفر محمد بن جرير طبری، تاريخ الطبري، ج-1، مطبوعه:دار التراث،بيروت،لبنان،1387ھ،ص:175
  • 25 ابو جعفر محمد بن جرير طبری، تاريخ الطبري(ڈاکٹر ہاشم صدیقی)،ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی،پاکستان، 2004ء،ص :122
  • 26 Mostafa Khan Fateh (1928), Bulletin of the Oriental Studies: Taxation in Persia:” An Early Synopsis from the Early Time to the Conquest of Mongols”, Cambridge University Press, Cambridge, U.K. Pg. 724.
  • 27 Little Persia (Online): https://www.little-persia.com/rug-guides/rug-history Retrieved: 07/05/2019
  • 28 علی عباس جلا لپوری،روایات تمد ن قدیم، مطبوعہ:تخلیقات ،لاہور ،پاکستان ،2012ء،ص :177
  • 29 پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی،تاریخ ایران،مطبوعہ:مجلس ترقی ادب ،لاہور ،پاکستان،2010ء، ص:31-32
  • 30 ابو جعفر محمد بن جرير طبری، تاريخ الطبري، ج-1، مطبوعۃ:دار التراث،بيروت،لبنان،1387 ھ،ص :175
  • 31 ابو جعفر محمد بن جرير طبری، تاريخ الطبري(ڈاکٹر ہاشم صدیقی)،ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی،پاکستان، 2004ء،ص :122
  • 32 پروفیسراے۔جے۔ آربری، میراث ایران (مترجم: سید عابد علی عابد)،مطبوعہ:مجلسِ ترقی ادب،،لاہور ، پاکستان،1964ء،ص:5
  • 33 اردودائرۃالمعارف ِ اسلامیہ،ج-3،مطبوعہ: دانشگاہ ِ پنجاب،لاہور،پاکستان،1964ءتا 1993 ء،ص: 631-630
  • 34 أبو جعفر محمد بن جرير الطبري،تاريخ الطبري، ج-1، مطبوعہ:دار التراث،بيروت،لبنان،1387 ھ،ص :175
  • 35 ابو جعفر محمد بن جرير الطبري(ڈاکٹر ہاشم صدیقی)،تاريخ الطبري، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی،پاکستان، 2004ء ص:123
  • 36 پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی،تاریخ ایران،مطبوعہ:مجلس ترقی ادب ،لاہور ،پاکستان،2010ء، ص:299
  • 37 پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی،تاریخ ایران،مطبوعہ:مجلس ترقی ادب ،لاہور ،پاکستان،2010ء، ص:421-423
  • 38 غلام باری ، تاریخ کا مطالعہ ، مکتبہ اردو، لاہور ، پاکستان ،1949، ص:72
  • 39 حکیم محمود احمد ظفر،معیشت واقتصادکا اسلامی تصور،مطبوعہ:ادارہ اسلامیات،لاہور ،پاکستان،2006ء،ص:52-55
  • 40 ٔاحمد بن عبد الرحيم المعروف بالشاه ولی الله دہلوی ،حجۃ الله البالغۃ (مترجم: محمد اسماعیل گودھروی)،ج-1،مطبوعہ: مکی ڈیریسلکتب،لاہور ،پاکستان، 1999ء، ص :263-264
  • 41 پروفیسر آرتھر کرسٹن سین ،ایران بعہد ساسانیاں (مترجم:ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو،کراچی،پاکستان،1992ء،ص :589-590
  • 42 محمد طفیل ،نقوشِ سیرت ،ج -3، مطبوعہ: ادار ہ فروغ اردو،لاہور ،پاکستان،1983ء،ص :11
  • 43 پروفیسر آرتھر کرسٹن سین ،ایران بعہد ساسانیاں،(مترجم:ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو،کراچی،پاکستان،1992ء،ص:159-160
  • 44 پروفیسر آرتھر کرسٹن سین ،ایران بعہد ساسانیاں،(مترجم:ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو،کراچی،پاکستان،1992ء،ص:161
  • 45 پیر محمد کرم شاہ الازہری،ضیاء النبی ﷺ ،ج-1، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز ،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:90