اہل فارس نے عسکری نظام کے بعد سب سے زیادہ توجہ تعلیمی نظام پر دی مگراس کے باوجود سلطنت کے زیادہ تر ادوار میں یہاں معیاری تعلیم عوام کی پہنچ سے دور اور صرف اشرافیہ تک محدود تھی۔اس کی وجہ حکمران طبقے کی عوام پر اقتدار مضبوط رکھنے کی خواہش تھی۔ا ن کے نزدیک غیرتعلیم یافتہ عوامی طبقے کی مثال بھیڑوں کے گلے سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔تعلیم سے فارس کے عوام کی دوری عام حالات میں تو حکمران طبقے کے لیے اقتدار مضبوط رکھنے کے حوالے سےفائدہ مندثابت ہوتی تھی مگر حالت جنگ میں یا دیگر مشکل مواقع پر اس کے تباہ کن اثرات بھی مرتب ہوتےتھے۔
قدیم فارس میں ہزاروں سال پر محیط دورمیں تعلیمی نظام کی تدریجانمو ہوتی رہی تھی۔بچوں کی پرورش گھروں، آتش کدوں اور شاہی محلات میں ہوتی تھی۔ساسانی (Sassanian)عہد میں تعلیمی اداروں کی فہرست میں اعلیٰ تعلیمی اداروں (Universities) کا اضافہ ہو گیا۔اگرچہ ایرانی بادشاہوں نے تعلیم پر بہت توجہ دی مگر سرکاری سطح پر عوام کے لیے مفت تعلیم کی سہولت نہ تھی جس کی وجہ سے عوام اور غریب طبقہ کے افراد تعلیم کی دولت سے محروم تھے۔سرکاری تعلیم پراشرافیہ، اعلی ٰ طبقے،معزز خاندانوں اور ان کے متعلقین کی اجارہ داری تھی۔سرکاری مکتب اور مدارس شاہی محلات میں قائم کیے جاتے تھے جہاں اشرافیہ کی اولاد کی پرورش کی جاتی تھی۔دریافت شدہ کتبے اور دیگر مخطوطات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ قدیم فارس میں تعلیم صرف شاہی خاندان ،اشرافیہ اور مالدار طبقے تک محدود تھی۔ 1
ہخامنشی (Achaemenid) دور سلطنت میں مشرقی صوبوں کے تعلیمی نظام کے بارے میں معلومات بابلی (Babylonia)اور مصری صوبوں کے نظام تعلیم پر قیاس کی گئی ہیں جہاں ایرانی حکومت کے دور میں مختلف نوعیت کے روایتی تعلیمی نظام(Traditional Educational Systems) بھی قائم رہے۔مذکورہ بالا دونوں ممالک میں رسمی تعلیم صرف لڑکوں تک محدود تھی جب کہ ان سرکاری درس گاہوں میں پڑھنا، لکھنا، صرف و نحو یعنی زبان کے استعمال کے قواعد، علم حساب اور علم فلکیات وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ہخامنشی دور کے بابل(Achaemenid Babylonia) میں غیر فارسی آبادی (Non-Iranian Population)میں خواندگی عام تھی۔کاتب لاتعداد مل جاتے تھے جن میں چرواہوں ، ماہی گیروں اورجولاہوں وغیرہ کے بیٹے بھی شامل ہوتے تھے۔میسوپوٹیمیا (Mesopotamia)کے تعلیمی اداروں کی بہت سی تحریریں آج بھی محفوظ ہیں جن میں سمیری و بابلی عہد کی لغات، تختیاں جن پر مختلف اشکال کندہ ہیں،صرف ونحو (Grammar)کے مختلف استعمالات کی مثالوں کے مجموعے وغیرہ شامل ہیں۔ 2
قدیم دور کے مشرقی ممالک میں ایران اس حوالے سے بھی ممتاز تھا کہ یہاں کے تعلیمی نظام میں جسمانی تعلیم اور کھیلوں کی سرگرمیوں کو بہت ترجیح دی جاتی تھی۔ایران کی تاریخی تحریروں اور قدیم آثارسے پتہ چلتا ہے کہ گھڑسواری، رتھ سواری (Chariot Riding) نیزہ بازی،کشتی،مکا بازی (Boxing) ، جسمانی مشقیں اور کرتب، بلے اور ہاکی وغیرہ کی تاریخ تین ہزار(3000) سال سے بھی قدیم ہے۔جسمانی ورزش اور اس سے متعلقہ کھیل یہاں کے قدیم کھیل ہیں جن کے ایرانی نام، اصطلاحات، نشانات ، قوانین ،زبان اور خصوصیات یہاں سے دیگر ممالک میں بھی پہنچے تھے۔3
قدیم فارس کے نظام تعلیم اور اس کی مختلف خصوصیات کے حوالے سے محققین اور تاریخ دانوں نے دو اہم ادوار کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے جن کو سمجھنا اہل ایران کے مختلف تعلیمی نظاموں اور ان کے فرق کو سمجھنے کےلیے بہت ضروری ہے۔
پہلا دور میڈیائی عہدیا ماد دور (Median Era) کہلاتا ہے۔ تاریخی دستاویزات ، بادشاہوں کی تحریروں اور دیگر ذرائع سے اس دور کے کافی واقعات اور روایات ہم تک پہنچی ہیں جن سے ان کے نظام تعلیم اور اس کے معیار کا پتہ چلتاہے۔اس دور میں تعلیم کسی ایک خاندان ،قبیلے یا صرف امیر لوگوں تک محدود نہیں تھی بلکہ معاشرے کا ہر فردعلم حاصل کر سکتا تھا۔ دوسرا عہد ہخامنشی(Achaemenid) سلطنت کا دور ہے جس میں تعلیم صرف ایک خاص طبقے تک محدود کر دی گئی تھی اور قصداً عوام کو علم کی دولت سے محروم رکھا جاتا تھا۔ ہخامنشی(Achaemenid) سلطنت کو مضبوط مرکز کےلیے باصلاحیت اور سمجھ دار افراد کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیےاشرافیہ اور امراءکے بچوں کو حکومتی درس گاہوں میں تعلیم دی جاتی تھی اوران درس گاہوں سے تیار ہونے والے افراد کو حکومتی معاملات چلانے کے لیے سلطنت کے طول و عرض میں بھیجا جاتا تھا۔اسی وجہ سے حکومت ان درس گاہوں پر بہت توجہ دیتی تھی۔ ہخامنشی (Achaemenid)نظام تعلیم کی تین جہتیں تھیں جن میں ذاتی، سماجی اور پیشہ ورانہ تعلیم شامل تھی۔ 4
فطرت، علاقائی جغرافیہ ، رویئے اور اقدار وہ اہم پہلو تھے جوقدیم ایرانی تعلیمی نظام کی ترقی کے لیے ممد و معاون ثابت ہوئے ۔ زرتشت(Zoroaster)نے بھی اس دور کےنظام تعلیم کی ترقی پر اہم اثر ڈالا۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت بھی تعلیم کی ترویج میں اہم عامل کے طور پر شامل ہو گئی کیونکہ اس سے حکومت کے اثر و رسوخ اور اقتدار میں اضافہ ہوتا تھا۔ ذیل میں ان اہم عوامل کی تفصیل درج ہے:
حکومت کا نظام بادشاہت پر مبنی تھا اور بادشاہوں کو نظام حکومت چلانے کے لیے قابل اعتماد اور قابل افراد کی ضرورت ہوتی تھی جواپنی ذمہ داریاں اچھی طرح سمجھتے ہوں اور جن کی اسی ماحول میں پرورش ہوئی ہو۔حکومت اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے تعلیمی ادارے قائم کرتی تھی جہاں صرف اشرافیہ اور امراء کی اولاد وں کو تعلیم و تربیت دی جاسکتی تھی۔یہ نظام تعلیم شہزادوں، امراء کی اولادوں اور اشرافیہ کی نئی نسل کو انتظا می عہدوں اور سلطنت کے اہم مناصب کے لیے تیار کرتا تھا۔ حکومت عوام پر اقتدار کی گرفت مضبوط رکھتی تھی اور اس کا ذریعہ یہی تعلیمی نظام تھا جس پر حکومت کی مضبوط گرفت تھی۔اس نظام میں عوام کو علم اور شعور سے دور رکھا جاتا تھا اور ایک خاص طبقے کو ایک خاص انداز میں عوام پر حکومت کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔5
جغرافیائی اعتبار سے قدیم ایران کا خطہ ایسے محل وقوع پر واقع تھا جہاں وسطی ایشیاء اورقرب و جوار کی مملکتوں سے مسلسل حملوں کاخطرہ رہتا تھا۔اسی بنا پر اہل فارس نے ان حملوں سے بچاوٴ اور مزاحمت کے نئے نئے طریقے ایجادکر لیے تھے۔ جنگی حکمت عملی میں مہارت اور بہادری کی وجہ بھی جغرافیائی محل وقوع ہی تھا۔ 6
زرتشت (Zoroaster)نےاس بات پر زور دیا کہ لوگ اپنے کام اور ذمہ داریاں حسن و خوبی سے انجام دیں اور دنیا میں سچ اور اچھائی کی آفاقی فتح کےلیے جدوجہد کریں۔فرواردن یاشت (Farvardin Yasht) میں منقول ہے:"زندگی، سچ اور جھوٹ،اچھائی اور برائی اور خوبصورتی اور بدصورتی کےدرمیان فرق کی مسلسل جاری رہنے والی جدوجہد کا نام ہے۔"
زرتشت (Zoroaster)کی تعلیمات کا قدیم ایران کے نظام تعلیم پرگہرا اثر تھا۔زرتشت (Zoroaster)نے ذہنی تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی تعلیم پر زور دیا جس کی گہری جھلک قدیم فارسی نظام تعلیم میں واضح نظر آتی ہے۔7زرتشت نے مذہبی تعلیم پر زور دیا اور بدی کی قوتوں سے چوکنّا رہنے کی ہدایت کی تاکہ انسان خدائے عظیم "آہورامزدا (Ahura Mazda)"کے دوستوں سے اپناتعلق بنا سکے۔"اہورامزدا (Ahura Mazda)"کے دوستوں سے مراد چھ(6) مقدس لافانی تخلیقات تھیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
یوں زرتشت مذہب کی بلندی کردار اور اعلی اخلاق سے متعلق تعلیمات کے قدیم فارسی معاشرے اور نظام تعلیم پر گہرے اثرات مرتب ہوئےتھے۔ زرتشیت نے ہمیشہ حصول علم پر زو ردیا یہاں تک کہ یاشت کی کتاب میں علم کی دیوی"چشتا(Chista)"کے بہت سے حوالے موجود ہیں۔"چشتا"سے سوچنا، سمجھنا اور علم وعرفان مراد لی جاتی تھی۔اسےعلم اور سائنس کا فرشتہ بھی کہا جاتا تھا۔ 8
اوستا(Avesta) میں زرتشت (Zoroaster)کی مذہبی تعلیمات چونکہ ایمانداری اور سچائی کی تعلیم پر زور دیتی تھی اسی لیے مذہبی طبقے پر تعلیم و تربیت کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔خاص طور پر ان بچوں کی تعلیم وتربیت زیادہ اہم تصور کی جاتی تھی جنہوں نےمستقبل میں مذہبی ذمہ داری سنبھالنی تھی اور مذہبی رہنما جو مغ (Magi) کہلاتےتھے، بن کر عوامی مذہبی قیادت پر فائز ہونا تھا۔زرتشت (Zoroaster)نے سمجھ دار، ذہین، تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ہی مذہبی ذمہ داریاں سونپنے پر زور دیا تھا اس لیے مذہبی طبقہ تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔عوام عام طور پر مذہبی معاملات سے متعلق تعلیم حاصل کرتے تھے اس لیے مذہبی طبقہ عوام کی تعلیم کو بہت اہم خیال کرتا تھا۔مذہبی رہنما عموما اچھے کردار کے مالک ہوتےتھے اور عوام میں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔وہ رات میں مطالعہ کرنے اور اپنےطلباء کو مذہبی اور اخلاقی امور سے متعلق درس دینے کے عادی تھے۔9
قدیم ایران(فارس) کے نظام تعلیم کا اہم مقصد نئی نسل کو علمی اور شعوری بالیدگی عطا کرنااور انہیں معاشرے کا کارآمد اور بااخلاق شہری بنانا تھا۔ اپنے فائدے پر دوسروں کے فائدے کو ترجیح دینااور باہمی تعاون کو فروغ دینا بھی تعلیم کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔بچوں کواپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق اور ذمہ داریوں کا شعوربھی دیا جاتا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ بچوں میں نسلی وقار کو اجاگر کرنا بھی قدیم فارس کے نظام تعلیم کا ایک اہم مقصد تصور کیا جاتا تھا۔ طلباء کی انفرادی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں صحت مند مشاغل کی بھی تعلیم دی جاتی تھی جنہیں اختیار کرنے سے وہ فارغ اوقات میں اچھا تعمیری وقت گزارنے کے قابل ہوجاتے تھے۔ حکومت کے لیے تعلیم کا ایک اہم مقصد اشرافیہ کی اولادکو حکومتی ذمہ داریوں اور اہم عہدوں کے لیے تیار کرنا تھا تاہم معاشرے کے پس ماندہ طبقے کی تعلیم کی حکومت کو چنداں فکر نہ تھی۔مذہبی طبقہ بھی اپنی تعلیم کا خود ذمہ دار تھا۔ حکومت مذہبی تعلیم کے نظام میں بھی دلچسپی نہیں لیتی تھی اور کسی قسم کی معاونت بھی نہیں کرتی تھی۔والد کا پیشہ بیٹوں کو اور استاد کا علم شاگردوں کو منتقل ہوتا تھا۔ 10اس سب کے باوجود اہل فارس بہترین شہری نہیں تھے جس کی وجہ تعلیم کاصرف اشرافیہ اور مذہبی طبقے تک ہی محدود ہونا تھا۔
ہخامنشی(Achaemenid) دور سلطنت میں رسمی تعلیم کے ادارے موجود نہ تھے صرف اشرافیہ، اہل ثروت، انتظامی عہدوں سے متعلق افراد اور مذہبی طبقے سے وابستہ افراد کے بچوں کی ہی تعلیم تک رسائی تھی۔ 11ہیردوٹس (Herodotus)کے مطابق پانچ(5) سال کی عمر تک بچے خواتین کے ساتھ ہی رہتے تھے اور انہیں والد کے سامنے آنے کی اجازت نہ تھی۔پانچ (5)سال سے لیکر بیس(20) سال کی عمر کے دوران انہیں گھڑ سواری،تیر اندازی اور راست گوئی (سچائی)کی تربیت دی جاتی تھی۔ اہل فارس کے نزدیک جھوٹ بولنا ایک بہت بڑا جرم تھا جس کا ثابت ہوجانا جواں مردی کے اوصاف کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔یہ اور بات تھی کہ بادشاہ اور اس سے متعلقہ لوگ اس حکم سے مستثنیٰ تھے۔ زینفون (Xenophon) اپنی کتاب سائروپیڈیا (Cyropaedia) میں رقمطراز ہے کہ سولہ سترہ سال کی عمر تک اشرافیہ کے بچوں کی شاہی محل میں پرورش کی جاتی تھی جہاں انہیں گھڑسواری، تیراندازی،نیزہ بازی، اور شکارکی مشق بھی کرائی جاتی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ ان میں عدل و انصاف،تابعداری، نظم و ضبط،وفاداری، استقامت اور ضبط نفس جیسے جوہر بھی پیدا کیے جاتے تھے۔ اخلاقی پہلووں کے ساتھ ساتھ تعلیم کا مقصد باصلاحیت سپاہی اور عسکری و انتظامی قیادت تیّار کرنابھی تھا 12 جس سے یہ بات واضح سمجھ آتی ہے کہ یہ سارے جوہر اس لیے پیدا کیے جاتے تھے کہ وہ بادشاہ اور سلطنت کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کرےالبتہ اس کا یہ رویہ اپنے عہدے پر رہتے ہوئے عوام کے ساتھ کیا ہوتا تھا وہ اسکے بالکل برعکس تھا جیسا کہ زینفون (Xenophon) نے وضاحت کی کیونکہ وہ تما م غلط کام بادشاہ سے وفاداری نبھانے کے نام پر ہی کیا کرتے تھے۔
مضبوط خاندانی نظام اور غیر متبدل سماجی درجہ بندی جیسے عوامل افراد کے خاندان کے ساتھ تعلق کو مضبوط بناتے تھے ۔ یہی عوامل فرد کے اپنے ہم رتبہ اور اپنے سے اعلیٰ مرتبہ افراد اور ریاست کے ساتھ تعلق استوار کرتے تھے۔بچے کی شخصیت کی تعمیررسمی تعلیمی اداروں کے بجائے عملی زندگی کی درس گاہ میں زیادہ ہوتی تھی۔ خاندان عملی طور پر بچے کی تعلیم وتربیت کا فریضہ سرانجام دیتا تھا۔مثلا والد عملی طور پر کھیلوں اور مذہبی رسومات میں شریک ہوتا اور ریاست عملی طور پر نوجوانوں کے امور میں دلچسپی لیتی تھی جس کی بنا پر بچے کی آموزش ہوتی رہتی تھی۔ گھر اور ریاست کی جانب سے افراد پر کئی ذمہ داریا ں عائد کی جاتی تھیں جن کی بجا آوری سماجی ڈھانچے اور نظام کی مضبوطی کا باعث ہوتی تھی۔تمام نوجوانوں کا ایک مشترکہ مقصد ہوتا تھا جس کا تعیّن ریاست کی منضبط حکمت عملیاں (policies of the state) معاشرہ اور خاندانی نظام جیسے عوامل مل کر کرتے تھے۔ ان سب کا مشترکہ مقصد "زندہ رہنا اور زندگی میں اپنا حصہ ڈالنا "تھا ۔بہت سے دیگر قدیم معاشروں کی طرح فارس میں بھی بچوں کی تربیت بالغ افراد کے ساتھ کی جاتی تھی اور ان سے توقع رکھی جاتی تھی کہ وہ بھی گروہی ذمہ داریاں بڑوں کی طرح ہی پوری کریں گے۔ان سے بھی گروہی سرگرمیوں کے دوران وفا داری اور وقار کی توقع کی جاتی تھی۔پانچ (5)سال کی عمر کے بعدوالدین کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل بھی بچے کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیتے تھے۔ والدین اپنی اس ذمہ داری کو بہت سنجیدہ طریقے سےمحسوس کرتے تھے کہ بچے کو خوش وخرم رکھنا اور معاشرے و خاندان کے لیے ایک اچھا فرد بنانا ،ان کی کتنی اہم ذمہ داری ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچے کی تعلیم و تربیت میں بیرونی عوامل کا کردار بڑھتا چلا جاتا تھا جو اسے ایک اچھا شہری بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے تاہم یہ عوامل اکثر مادہ پرستی کو فروغ دینے کا سبب بھی بنتے تھے۔قدیم فارسی معاشرے میں زرتشت مذہب اخلاقی تعلیم جبکہ تسلط پسند حکومتی نظام انتظامی اور عسکری صلاحیتوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا تھا۔13
قدیم فارسی معاشرے میں انسانی تعلقات اور ان کے اصولوں کی اہمیت پر بھی بہت زور دیا جاتا تھا۔ضبط نفس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کی توقیر بھی سکھائی جاتی تھی۔ جھوٹ بولنا بے عزتی اور شرم کا باعث سمجھا جاتا تھا۔نوجوانوں کو اپنے گھروں سے دورقائم درس گاہوں میں بھیج دیا جاتا تھا جہاں وہ تجربہ کار اتالیق کی زیر نگرانی دیگر زیرتربیت نوجوانوں کے ساتھ تعلیم و تربیت کی منازل طے کرتے تھے۔ یہاں انہیں اچھی عادات، بڑوں کی تکریم اور قانون کا احترام سکھایا جاتا تھا جو وہ اپنے سے بڑوں کو دیکھ کر سیکھا کرتے تھے۔مگر اکثر بڑے کیونکہ خود بدعنوان ہوتے تھے تو نوجوان بھی بدعنوانی کی طرف راغب ہو جاتے تھے اور سچ بولنا ، ادب و آداب وغیرہ جیسی ااچھی اچھی باتیں صرف باتیں ہی رہ جاتی تھی جنکا عملی زندگی سے بہت کم ہی واسطہ پڑتا تھا اور اسکے نتائج من حیث القوم اہل فارس کو مختلف ادوار میں بھگتنے پڑتے تھے۔
قدیم فارس کی سماجی مطابقت اور تربیت کے اس نظام میں ریاستی استبداد کا عنصر نمایاں تھا۔معاشرے کے افراد کو شخصی آزادی اوران کے فطری حقوق دینےکے بجائے وفاداری، تابعداری، قومی عظمت کے لیے بلا چون وچراں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی سوچ اور جسمانی مشقوں میں الجھا کر رکھا جاتا تھا۔ قدیم فارس میں جدید معاشروں یا قدیم یونان کی طرح کی شخصی انفرادیت کا کوئی تصور موجود نہ تھا جس کی وجہ وہاں کا سماجی درجہ بندی پر مبنی نظام تھا جو قانون کی بالا دستی کی بجائے حاکمیت پسندی کو فروغ دیتا تھا۔ ثقافتی عوامل کی معاشرے پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ شاہی خاندان کے افراد بھی اس کے خلاف نہیں جا سکتے تھے۔ 14
مذہبی تعلیمات زیادہ تر زبانی ہی دی جاتی تھیں جن کا آغاز عموما پندرہ(15) برس کی عمر میں باقاعدہ ایک رسم سےکیا جاتا تھا۔پندرہ (15)سال ہی نوجوانی کے آغاز کی عمرتصور کی جا تی تھی جس کے ساتھ ہی خاندانی پابندیوں کو نرم کر دیا جاتا تھا اور نوجوان کو ریاست کا خدمت گزار تصور کیا جاتا تھا۔پچیس (25)سال کی عمر میں نوجوان کو مکمل مرد اور شہری تصور کیا جاتا تھا اور اسےپچاس (50)سال کی عمر تک حالت امن و جنگ کی تما م ذمہ داریوں کا پابند سمجھا جاتا تھا ۔15
شہزادوں کو چودہ (14)سال کی عمر سے فارس کے چار مشہور افرادکی تربیت میں دے دیا جاتا تھا جو کہ بالترتیب دانشمند ترین، منصف ترین، اعتدال پسند اور بہادر ترین افراد کے طور پر شہرت رکھتے تھے جو ان شہزادوں سےسختی کے ساتھ پیش آتے تھے اور اپنی خصوصیات ان میں منتقل کرتے تھے۔پلوٹارک (Plutarch)نےکورش اصغر(Cyrus the Younger) کےایک ماگی (Magi) استاد کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس نے اسے فہم وفراست اور تدبّر سکھایاتھا۔16
قدیم فارس میں عسکری تربیت (Military Training)اور جسمانی تعلیم (Physical Education)کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔اس کی بنیادی وجہ فارس کا محل وقوع اور بیرونی حملہ آوروں کا خطرہ تھا۔اس کے ساتھ ساتھ جسمانی مضبوطی اور چاک وچوبند رہنے کے لیے بھی جسمانی تعلیم اور ورزش کو اہم سمجھا جاتا تھا۔زرتشت مذہب نےبھی خود کو بیماریوں سے بچانے اور چاک و چوبند رہنے کی تعلیم دی تھی اسی لیے قدیم فارسی معاشرے میں عسکری اور جسمانی تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔17
جسمانی تربیت اور نشوونماکو معاشرتی مطا بقت کا ایک اہم جز سمجھا جاتاتھا۔اس کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی تھی۔شام کے اوقات میں نوجوانوں کو تجارت اور دیگر پیشوں کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔یوں دن کا ایک حصہ عسکری و جسمانی تعلیم و تربیت کے لیے جبکہ دوسرا حصہ تجارتی و پیشہ ورانہ تربیت کے لیے مختص ہوتا تھا۔18
قدیم فارس کا معاشرہ طبقاتی تقسیم اور درجہ بندی کا شکار تھا جس کی وجہ سے لکھنا پڑھنا اور حساب، کتاب و ریاضی کی تعلیم صرف معاشرے کے خاص طبقات تک محدود تھی۔کسی کے لیے بھی اپنے طبقے سے نکل کر معاشرے کے دوسرے طبقے یا درجے میں شامل ہونا تقریبا نا ممکن تھا۔اولاد کو والدین کے نقش قدم پر چلنا اور خاندانی پیشہ اپنانا لازم تھا۔ صلاحیت اور اہلیت سے زیادہ طبقاتی تقسیم اور معاشرتی درجہ بندی کی اہمیت تھی۔کسان یا مہندس کا بیٹا جج یا فوجی افسر بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اس لیے لکھنا ، پڑھنا اور ریاضی کی تعلیم صرف شاہی خاندان اور مذہبی طبقے تک محدود تھی جو کہ انتظامیہ، عدلیہ اور فوج میں اہم عہدے سنبھالتے تھے اور شاہی خاندان کی حکمرانی اور سلطنت کو مضبوط کرتے تھے۔ 19مندرجہ بالا عوامل اہل فارس کی طبقاتی تقسیم ، سماجی درجہ بندی اور تعصب کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں۔
آریا(Aryan)دنیا کی اولین قوم تھے جنہوں نے طب اور ادویات کے علم کو ترقی دی۔زرتشت(Zoroaster) کی تعلیمات پر مبنی طب کی تعلیم عہد قدیم سے جاری تھی۔اساطیری عہد کے بادشاہ جمشید کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہ بہت سی ادویات کا موجد تھا۔اسی طرح فریدون کے بارے میں بھی مذکور ہے کہ وہ آریاوں میں پہلا شخص تھا جوبیمارلوگوں کا علاج کرتا تھا۔عہد قدیم میں خاص طور پر ہخامنشی(Achaemenid) عہد اور ساسانی(Sassanian) دور میں طب کے شعبے میں بہت ترقی ہوئی۔وہ بیماریوں ، ان کی ادویات اور ان ادویات کی تیاری سے اچھی طرح واقف تھے۔انہوں نے طبیبوں کی پیشہ ورانہ کارکردگی کی نگرانی کے لیے سادہ عملی طریقے اختیار کیے اورطبیبوں اور مریضوں کے درمیان تعلق اور ان کے حکومت اور معاشرے سے تعلق اور اثرات سے متعلق قوانین اور طریقے وضع کیے تھے۔
طبیبوں کو نظری اور عملی دونوں طرح تعلیم دی جاتی تھی ۔اس مقصد کے لیے کئی اہم تعلیمی مراکز تھے جن میں ہمدان (Hamedan)، رے (Ray)، پرسپولیس(Perspolis) اور پسارگاد (Passargad) وغیرہ شامل تھے جہاں ان اداروں کے ساتھ ہسپتال بھی موجود تھے۔یہاں سے تین (3)طرح کے طبیب فارغ التحصیل ہوتے تھے۔الہامی شفا دینے والے طبیب جو کہ ماہر نفسیات بھی ہوتے تھے،جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے طبیب اور تیسری قسم سرکاری اطباء پر مشتمل ہوا کرتی تھی جنہیں حکومت مقرر کرتی تھی۔طبیب اعلیٰ کا تقرر حکومت کی طرف سے کیا جاتا تھا جو تمام اطباء کی کارکردگی کی نگرانی کرتا تھا۔ان تعلیمی اداروں کے ساتھ قائم اداروں کے علاوہ بھی مردوں اور خواتین کے لیے بہت سے شفا خانے موجودتھے۔20
قدیم فارس میں عام طور پر گھر کو ہی پہلی درس گاہ تصور کیا جاتا تھا جہاں والدین استاد ہوتے تھے۔جیسے جیسے سماجی نظام کی نمو ہوئی اتالیق اور اساتذہ کے گھر طلبا حصول علم کے لیے جمع ہونے لگے۔اس کے ساتھ ساتھ مذہبی معلمین جنہیں ماگی یا مغ (Magi) کہا جاتا تھا، مندروں میں تعلیم دینے لگے جو جلد ہی عام لوگوں کے لیے علم کا مرکز بن گئےتھے۔اشرافیہ اور امراء کی تعلیم شاہی محل میں ہوتی تھی ۔یہ ادارے قلعوں اور حکومتی عمارتوں کے درمیان وسیع رقبے پر قائم ہوتے تھے۔ہخامنشی(Achaemenid) عہد میں عسکری تربیت کے ادارے (Military Schools) کھلے میدانوں میں قائم کیے گئے تھے ۔پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے بھی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق قائم کیے جاتے تھے۔ساسانی(Sassanian) عہد حکومت تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
عہد ساسانیہ(Sassanian) میں علم کا احیاء ہوا اور یہ فارسی عہد کے اوج کمال تک پہنچ گیاتھا۔معیار اور تعداد دونوں میں ترقی ہوئی۔ خاص طور پر رہا (Raha) اور نسیبلین (Nasiblin) کو بہت شہرت حاصل ہوئی جہاں طلباء کی تعداد آٹھ سو(800)کے قریب تھی۔ان کے علاوہ پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے(Vocational School)، تیکنیکی تعلیم (Technical Education)، سائنس اور فلسفہ کی تعلیم کے ادارے بھی موجود تھے۔ جنہوں نے گاندیشہاپور (Gandishapoor) کی عظیم، منفرد اور مشہور زمانہ یونیورسٹی کے قیام کی راہ ہموار کی تھی۔21
محتلف ادوار میں الگ الگ حکومتوں کی جداگانہ ترجیحات رہیں جن کے مطابق انہوں نے تعلیمی اداروں کے ڈھانچے تشکیل دئیےتھے۔ہخا منشیوں (Achaemenid) کے لیے جسمانی تعلیم ایک اہم ضرورت تھی۔اسی لیے جنگ میں استعمال ہونےوالی صلاحیتوں سے متعلق کھیلوں کو ضرورت سمجھ کر فروغ دیا جاتا تھاجبکہ ساسانی (Sassanian) عہد میں ان سرگرمیوں کو جسمانی سرگرمی ، صحت مندی اور روحانی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اہل فارس نے کھیل کو صرف تفریح کا ذریعہ کبھی نہیں سمجھا بلکہ انہیں اخلاق، نظم وضبط،سخاوت،تعاون ، ہم آہنگی ،سچائی اور اچھائی سکھانے کا ذریعہ بھی بنایا تھا۔ 22
قدیم فارس کے تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں کھلی بالکونیاں اور گنبد والے کمرے نمایاں نظر آتے تھے۔طویل بالکونیاں آمد و رفت اور سماجی تعلق اور بہاوٴ کےلیے استعمال ہوتی تھیں۔گنبد والے کمرے مختلف مقاصد کےلیے استعمال کیے جاتے تھے جن میں تعلیم وتربیت اور بحث مباحثہ جیسی سرگرمیاں شامل تھیں۔تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ طلباء اور اساتذہ کی نجی اور سماجی تقاریب بھی ان عمارتوں میں ہی منعقد ہوا کرتی تھیں۔23
سلطنت کے زوال کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام میں بھی زوال آتا چلا گیا اور یوں فارس کا تعلیمی نظام دیرپا اور طویل المیعاد اثرات قائم نہ رکھ سکا۔اٗس کی بنیادی وجہ اس نظام کی خامیاں تھیں اس لیے یہ نظام ایک صحت مند معاشرہ قائم نہ رکھ سکا۔جب تعلیم کو ہر فرد کے ضرورت کی بجائے امیروں کی آسائش بنا دیا گیا اور اس پر امراء اور اشرفیہ کی اجارہ داری قائم کر دی گئی تو اس کے معاشرے پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئےتھے۔اس کے ساتھ ساتھ طبقاتی تقسیم نے ہنر اور فن کو چندطبقات تک محدود کر دیا تھاجس سے تخلیقی صلاحیتیں اور ذہنی نمو متاثر ہوئی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ قدیم فارس میں عورتوں کی تعلیم کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تھا۔بعد کے ادوار میں کچھ آزادی دی گئی مگر یہ بھی صرف بنیادی تعلیم تک محدود تھی۔یہ وہ عوامل تھے جو تعلیمی نظام اور بعد ازاں سلطنت کے زوال کے اسباب میں بھی اہم ثابت ہوئے تھے ۔