Encyclopedia of Muhammad

قدیم مصرکاقانونی نظام

تاریخ اس بات کی گواہ ہےکہ تمام انسان کبھی بھی بامروت ، محتاط اور دوسرے انسانوں کا احساس کرنے والے نہیں رہے جس کی وجہ سے باربار انسانی معاشرتی توازن بگڑتا رہا۔اسی سبب سے انسانوں کو راہ راست پر رکھنے کے لیے ہر دور میں مختلف قوانین بنائے جاتے رہے ۔ قدیم انسانی معاشروں میں چونکہ یہ قوانین سادہ الہامی اصولوں پر مبنی سمجھے جاتے تھے اور یہ تصوّر کیا جاتا تھا کہ ان اصولوں پر عمل کرنا تمام انسانوں کے لیے نفع بخش ہے اسی لیے قانون شکنی کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ئیں دی جاتی تھیں۔تاہم کچھ ایسے انسان جو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ ان قوانین کا مقصدصرف انہی کا فائدہ و منفعت ہےاکثر ان قوانین میں اپنے مفاد کی خاطر تبدیلی و ترمیم کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے عوام عدل و انصاف سے محروم ہی رہتے تھے۔

مصر کا قانونی نظام بھی عہد قدیم کی دیگر تہذیبوں کی طرح ہی کام کرتا تھا۔اس نظام کی بنیاد کچھ ایسے متفق علیہ اصول تھے جو ایسے انسانوں نے تخلیق کیے تھے جنہیں اس دور میں قانون کے شعبے کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ تاہم یہ ایسا قانونی اور عدالتی نظام تھا جس میں حکمران طبقے، پولیس اور افسران کی قانون شکنی کے شواہد بھی ملتے ہیں۔پولیس اور افسران جن کی اصل ذمہ داری مجرموں کو پکڑنا اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا خود ہی قانون شکنی کے مرتکب بھی ہوتے تھے۔اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح و روشن ہوتی ہے کہ قدیم مصر میں انصاف پر مبنی نظام کبھی بھی قائم نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ طبقۂ اشرافیہ و امرا ء بڑے بڑے جرائم کر کے بھی خود کوقانون کے شکنجے سے بچا لیتے تھے جب کہ غریب عوام کو چھوٹے چھوٹے جرائم پربھی سخت سزائیں سنا دی جاتیں اور ان پر لازما عمل درآمد کروایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ،مصری قانون کا عہد قدیم کی دیگر تہذیبوں سے موازنہ کرنے پر اس راز سے بھی پردہ اٹھتا ہے کہ مصری قانون کی بنیاد کچھ مذہبی اصولوں پر تھی۔مصریات کے ماہرین کے بقول قدیم مصری قوانین واضح طور پر مذہبی اصولوں کے تحت وضع کیے جاتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اسے دیوتاوٴں کی طرف سے قانون عطا کیا گیا ہےاور دیوتا ہی ہیں جواس قانون کے قیام اور استحکام کے ذمہ دار ہیں نیز قانون کو ما ت دیوی (Goddess Ma’at) کی صورت میں متشکل سمجھا جاتا تھا۔نظریاتی طور پر بادشاہ جسے دراصل زمین پر دیوتا کی انسانی صورت سمجھا جاتا تھا۔ وہ واحد قانون ساز تھا جو اپنی رعایا کی زندگی اور موت پر بھی مکمل اختیار رکھتا تھا ۔تاہم عملی طور پر باقی معاملات کی طرح بادشاہ کے اختیارات کی حد کا تعین بھی ماضی کے نظائر اور مثالوں سے کیا جاتا تھا۔بطور سربراہ عدلیہ بادشاہ مات دیوی(Goddess Ma’at) کا پجاری بھی تھا جبکہ وزیر، بادشاہ کے نمائندے کے طور پر عدالتوں کا سربراہ تھا۔عدلیہ کے افسران بھی مات دیوی کی پرستش کرتے تھے۔ مقبروں اور پتھروں پر کنندہ عبارتوں سے مصر کے ابتدائی دور کے نظام انصاف سے متعلق بھی کافی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن کا تعلق سلطنت قدیم کے عہد سے ہے۔1یہاں یہ بات یقینا مستحضر رہنی چاہیے کہ جس مذہب کی بنیاد پر مصریوں نے قوانین بنائے تھے وہ مذہب بھی خود ان کا بنایا ہوا تھا ورنہ ان کے احوال اس حد تک غیر اخلاقی نہ ہوتے۔ ان کے قوانین میں جس مذہب کی آمیزش تھی وہ کیونکہ خود ساختہ تھا اس لیے اس میں امیر، غریب، حاکم اور محکوم کے لیے احکامات جدا تھے جو کہ کسی بھی معاشرے میں تباہی کی بنیاد بنتے ہیں ورنہ جن انبیاء نے ان میں خدائی احکامات کی تبلیغ دین کی،اگر وہ لوگ ان قوانین کو اپناتے تو اس میں طبقاتی تقسیم اور دنیاوی اعتبار سے تفاوت نہ ہوتا۔

مصری قانون کی ابتدا 2925 قبل مسیح میں بادشاہ مینیس (King Menes) کے دور میں بالائی اور زیریں مصر کے اتحاد سے ہوئی اور اس کی نمو و ترقی 30 قبل مسیح میں مصر پر رومی قبضے تک جاری تھی۔مصری قانون کی تاریخ کسی بھی انسانی تہذیب کی قانونی تاریخ سے زیادہ طویل اور قدیم ہے۔2 مصری قانون مات(Ma’at)دیوتا کی ہم آہنگی کی بنیادی قدروں پر مبنی تھا جس کی بنیاد وقت کے آغاز پر دیوتاوٴں نے رکھی تھی اس لیے معاشرے اور دیوتاوٴں کے ساتھ امن وسکون کی حالت میں رہنے کی خاطر تمام افراد کو یہ کام کرنا ہوتاتھا کہ مات (Ma’at) دیوی کے اصولوں کے مطابق محاسبہ، شعور اور اعتدال و توازن کی زندگی بسر کرے۔3 مصری دیو مالائی کہانیوں کے مطابق کیونکہ مات سچائی، نظم و ضبط ، اعتدال اور انصاف کی دیوی تھی اسی لیے اکثر تصاویر اور حجری نقوش میں اسے فرعون کے پیچھے کھڑے دیکھا جا سکتا ہے جو قانونی نظام کا ارضی سربراہ ہوتا تھا۔قاضی بھی اکثر ایک طے شدہ معمول کے مطابق مات کی پوجا کرنے کے پابند تھے۔ 4

قدیم مصر میں ایک وسیع اور منظم عدالتی نظام مرکزی و صوبائی حکومتوں کے جزکے طور پر نمو پذیر ہوا تھا۔نیل کی وادی کے باشندے سلطنت کے عروج کے دور میں بھی نوم (Nome) یا صوبےمعاشروں کے ساتھ مضبوط تعلق کی ڈور سے جڑے رہے جس کی وجہ سے وہ اپنے معاملات و مقدمات مقامی قبائلی قوانین کے مطابق حل کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ہر نوم یا صوبے کا صدر مقام ایک مرکزی شہر تھا جس کی تاریخ مصری بادشاہتوں کے آغاز سے بھی قدیم ہے۔صوبے کے دیگر چھوٹے شہر بھی خود کوصوبائی نظام کا حصہ سمجھتے تھے اور اس کے مطابق چلتے تھے۔ ہر گاوٴں اور قصبے میں سیرو(Seru) نامی بزرگوں اور معززین کی کونسل قائم تھی جو مقامی معاملات میں لوگوں کو قانونی راستے بتاتے اور ان کے درمیان فیصلے کرتے تھے۔ عدالت قدیم بادشاہت کے عہد (2575–2134 B.C.) میں دجاتجات (Djatjat) کہلاتی تھی جبکہ بعد کے دور میں اسے کینبت (Kenbet) کہا جانے لگا تھا۔عدالتیں قانونی فیصلے کرتیں اور سزائیں تجویز کرتی تھیں جن کی پابندی ہر ایک پر لازم تھی ۔یہ عدالتیں صوبوں اور مرکز میں موجود تھیں۔اسی طرح کی قومی اور مقامی عدالتوں نے مقدمات کی سماعت اور فیصلوں کی بنیاد رکھی تھی۔

صرف بدامنی یا افراتفری کے ادوار کے دوران، جیسے دوادوارِ زوال (پہلا، 2134تا2040 قبل مسیح۔ دوسرا،1640تا 1550 قبل مسیح ) کے دوران یہ نظام انتشار کا شکار رہا۔قدیم مصر کی مشہور زمانہ تخلیق، خوانینپو (Khunianpu) کی کہانی "فصیح اللسان کسان(Eloquent Peasant)"کی مقبولیت قوم کی عدالتوں سے انصاف کی فراہمی کی حقیقی خواہش کی وجہ سے تھی۔ تاہم سزائے موت یا غداری کے مرتکب ہونے والے جرائم ہمیشہ مقامی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوتے تھے ۔ یہاں تک کہ عظیم کینبیت (Great Kenbet)جو کہ فیصلہ سازی کا ایک اعلیٰ ادارہ تھا، ہمیشہ ایسے معاملات پر حتمی فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔ 5

قدیم مصری نظام قانون میں مذہبی نصوص نے بادشاہ کو قاضی القضاء کی حیثیت سے پیش کیا تھا تاہم ان کی اصل عدالتی ذمہ داری واضح نہیں تھی۔ یہ بادشاہ ہی تھا جو باقاعدہ طور پر مخصوص اداروں یا حالات سے متعلق فرمان جاری کرنے کا ذمہ دار تھا ، جس کے احکامات کو "عظمت والے احکامات"کے الفاظ سے متعارف کرایا گیا تھا ، لیکن فرائض کی تقسیم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بادشاہ کے کسی بھی فیصلے پر وزیرہی عمل درآمد کراتا تھا۔ اس تقسیم سے بادشاہ اور وزیر کے درمیان بطور قانون ساز اوربطور نافذ کنندہ کے باضابطہ فرق معلوم ہوتا ہے تاہم یہی وزیر اکثر سپریم جج کے طور پر بھی نظر آتا ہے۔ لہذا قدیم مصری تاریخ کے مطالعے کے دوران یہ بھی گمان گزرتا ہے کہ فرعونی دائرہ اختیار میں مرکزی شخص بادشاہ کے بجائے وزیر تھا۔ دراصل ، انتظامی امور ہوں یا دائرہ اختیارکا معاملہ ، بادشاہ اور وزیر کے درمیان فرق کرنا بہت مشکل ہے۔ بہر صورت ، وزیر بادشاہ کا نمائندہ ہی تھا اصل بادشاہ نہیں۔ 6

دارالحکومتوں میں قائم عظیم کینبیت (Great Kenbet)مصر کے وزیر وں کی نگرانی میں کام کرتے تھے۔متعدد ادوار میں اس طرح کے دو عہدے تھے ، ایک بالائی مصر کے وزیر اور دوسرازیریں مصرکے وزیر کا۔ اسی رواج نے 3000 قبل مسیح میں قوم کے اتحاد کی بنیاد رکھی تھی ۔ عدالتی امداد یا سزا میں تخفیف کے حصول کے لیے درخواستیں نچلی عدالتوں میں کی جاسکتی تھیں جبکہ نچلی عدالت کے تمام احکامات کے خلاف اپیل کینبیت (Great Kenbet)میں کی جاسکتی تھی ۔ قدیم مصر میں یہ صورت حال تھی کہ ہر دن لوگ قطار میں کھڑے ہو کرگواہی دینے اور ججوں کو درخواستیں دینے کے لیے انتظار کرتے تھے۔

قدیم مصر کے عدالتی نظام میں اکثر امور کے متعلق فیصلے روایتی قانونی طریقوں پر مبنی تھے تاہم یہ گمان کیا جاتا ہے کہ عوام اور قانون دانوں کے مطالعے کے لیے تحریری ضابطے ضرور دستیاب ہوں گے۔ 1319تا 1307 قبل مسیح میں حکمران رہنے والے ہورمہاب (Horemhab) نے بھی اٹھارھویں خاندان کے اختتام پر ، قانون کے سلسلے میں ہدایات کاایک سلسلہ تحریر کرایا تھا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اطاعت اور سزاوٴں سے متعلق اپنے فرامین میں زیادہ تر ماضی کے رسم و رواج اور دستاویزات کا حوالہ دیتا ہے۔ تاہم قدیم مصری معاشرے میں مقدمات کی سماعت کے حوالے سے کئی طرح کے امتیازات پائے گئے ہیں ۔ عام لوگوں اور خواتین کو عدالتی معاملات کے حوالے سےمختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا جبکہ طبقۂ اشرافیہ سے عدالتوں میں قابل احترام سلوک کیا جاتا تھا۔یہ بھی ایک شرمناک حقیقت ہے کہ قدیم مصر میں غریب عوام کے حقوق بالکل محفوظ نہ تھے۔ خوانینپو(Khunianpu) کی فصیح اللسان کسان (Eloquent Peasant)نامی داستان کی مقبولیت کی یہی وجہ تھی کہ اس نے بار بار ججوں کو نصیحت کرنے کی جرات کی تھی کہ وہ غریبوں کے مطالبات پر توجہ دیں اور طاقتور ، بااثر ، باہم مربوط اورمقبول طبقے کے افراد سے دب کر فیصلے نہ کریں لیکن حقیقت میں اس نے محض نظام عدل کے استحصال کو بے نقاب کیا تھا اور اس کی حقیقی منظر کشی کی تھی۔

مصر کے وزیر وں کو کی گئی نصیحتیں ، جو کہ اٹھارھویں خاندان (1550تا 1307 قبل مسیح ) سے تعلق رکھنے والے ریخمیر(Rekhmire) کے مقبرے میں کنندہ ہیں دراصل تمام مصری عہدیداروں کی مطلوبہ نام نہاد نگرانی کی بازگشت ہیں جو مختصر مدت کے سوا کبھی نہیں کی گئی۔ قدیم مصر کے کچھ اعلی عہدے دار ججوں کو"نیخن شہر کی روایات سے جڑے عہدیدار(Attached to Nekhen) " کہا جاتا تھا ، جو عزت و مرتبے کی نشاندہی کرنے والا لقب تھاجس سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہےکہ ان ججوں کے عہدے اور کردار ہیراکونپولیس (Hierakonpolis)نامی شہر(بالائی مصر کا قدیم مذہبی اور سیاسی دارالحکومت )کی عمدہ روایات کے مطابق تھے ، جو تقریبا3000قبل مسیح کے قریب مصر کو پہلی مرتبہ متحد کرنے والے حکمران نرمر(Narmer) کا آبائی گھربھی تھا۔

یہ خطاب ان ججوں کی خدمات کی طویل اور وفادارانہ روایت اور ماضی کے رسم و رواج اور قانونی ضابطوں کے تحفظ میں ان کے کردار کی نشاندہی کرتا ہے لیکن یہ خطاب عام طور پر ان لوگوں سے کیا گیا جو حکمران اور امیر طبقے کے حق میں فیصلے دیتے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ دوسرے حکومتی عہدیداران"شمال کے دس مشہور انسان(Magnates of the Southern Ten)" کہلاتے تھے ۔ حکومت کے ان افسران کو ان کی خدمات اور طاقتور بالائی صوبوں یا دارالحکومتوں میں اپنے عہدے کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جب مصر نے بادشاہت جدید کے عہد (1550تا 1070 قبل مسیح ) میں ایک عالمی سلطنت قائم کرلی تب مختلف گورنروں کو مصر کے زیر اقتدار غیر ملکی علاقوں میں تفویض کیا گیا ۔ عدالتی معاملات کی نگرانی اور مقدمات کے فیصلے کرنا بھی ان گورنروں کےفرائض اورعہدوں کے بنیادی لوازمات میں شامل تھااس لیے یہ گورنر اپنے اپنے علاقوں میں قانون سازی اور فیصلے کرتے تھے۔ اس سلسلے میں نیوبیا (Nubia)کے وائسرائے کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جوعدالتی فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دائرہ اختیار میں قانون نافذ کرتے تھے تاہم ان قوانین کا اطلاق بادشاہ اور حکمران طبقہ پر نہیں ہوتا تھا۔ 7

عدالتی نظام

قدیم دور کی مصری عدالتوں سے متعلق جو شواہد ملے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم سلطنت کےدور سےلے کرمتوسط بادشاہت کے دور تک عام عدالتوں کی حالت اچھی نہیں تھی۔عموما عدالت کے لیے استعمال ہونے والے لفظ سے ایک عمارت کے کونے یا احاطے کا تصوّر ذہن میں ابھرتا تھا جہاں مستقل کمرے کی کمی کی وجہ سے جج کے سامنے پیش ہونے سے پہلے حکومتی اہلکار مدعیان کو رکھا کرتے تھے۔ تاہم ہر جگہ ایسا نہیں تھا ۔وقت اور جگہ کے ساتھ ساتھ عدالت کا تصوّر بدلتا رہتا تھا۔ طاقتورافراد اور اہم مقدمات ، جیسے زمین یا بااثر لوگوں کے فیصلے عظیم کینبیت (Great Kenbet)میں کیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ، رمیسس دوم(Ramesses-II) کی اہلیہ پر قیمتی سامان چوری کرنے کے لیے فرعون کے گودام کھولنے کا الزام لگایا گیا تب وزیر کے پاس ایک تحریری شکایت کے بعد اس مقدمے کو براہ راست عظیم کینبیت (Great Kenbet) میں پیش کیا گیا لیکن طاقتور افراد کو بچانے کے لیے تھوڑے غور و فکر کے بعد مقدمے کا تصفیہ کردیا گیا۔ ان مضبوط شخصیات کے کم نوعیت کے مقدمات کو مقامی عدالتوں کے سپردکردیا جاتا تھا ۔ عدالتوں کے اختیارات میں تصدیق کرنا، متعلقہ قانونی چارہ جوئی کرنا اور سزا تجویز کرنا شامل تھا۔ 8

عدالتیں

ہر گاؤں اور قصبے کی اس کے حجم سے قطع نظر ، اپنی ایک عدالت ہوتی تھی جسے کینبیت (Kenbet) کہا جاتا تھا۔ یہاں کوئی وکیل یا صلاح کار نہیں تھے لہذا لوگوں کو خود اپنے لیے بولنا پڑتا تھا۔ مدعی عموما اپنا معاملہ واضح طور پر پیش کرتے اور مدعا علیہ ثبوت کے ساتھ اس کا جواب اتنے ہی ٹھوس انداز سے دیا کرتے تھے جس طرح ان کے خلاف مقدمہ پیش کیا جاتا تھا۔قصوروار ثابت ہونے تک ملزم کو بے قصور ہی سمجھا جاتا تھا۔ گواہ آمون(Amun) اور فرعون کے نام پر حلف لیا کرتے تھے اور جو بھی جھوٹ بول رہا ہویا معلومات کو چھپا رہا ہواسے مارا پیٹا بھی جاسکتا تھا۔عموما مقامی افراد میں سے منتخب ججوں کاایک پینل مقدمات کی سماعت کرتا تھا۔ وہ گواہوں کی جانچ پڑتال کرتے اور ثبوت کے طور پر داخل کی گئی دستاویزات کا بغور مطالعہ کرتے تھے ۔ اگر کوئی فریق مقدمہ کے نتیجہ سے مطمئن نہیں ہوتا تو اسے ضلعی گورنر کی زیرصدارت لگنے والی اعلی عدالت میں اپیل کا حق حاصل تھا۔ مزید براں دو اعلیٰ عدالتیں دو وزیروں کی نگرانی میں موجود تھیں لیکن ان مصروف لوگوں تک پہنچنا غریب افراد کے لیے ناممکن ہی تھا کیونکہ وہ صرف ان لوگوں کے معاملات نمٹاتے تھے جو ان کو بدعنوانی اور دیگر معاملات طے کرنے کے لیے رشوت یا تحائف دے سکتے تھےجو ایک عام آدمی کی حد سے باہر تھا۔

آخری اپیل کا حق

قدیم مصر میں اہم ترین امور بادشاہ کے سامنے پیش کیے جاتے تھے جو ان کی سماعت کے بعد جو مناسب لگتا فیصلہ کرتا تھا۔ بعض اوقات ججوں کے لیے حتمی فیصلہ کرنا مشکل ہوتا تھا ایسی صورت میں معاملے کا فیصلہ انسانی عہدیداروں کے بجائے کہانت یا دیوتاوٴں سے الہامی استعانت کے ذریعہ کیا جاتا تھا جس کے کئی طریقے تھے۔ مثال کے طور پر ، دونوں فریقین کی درخواستوں کو چنیدہ خدا کی شبیہ کے قریب ایک گلی کے دونوں طرف رکھا جاتاتھا ۔پھر اگر کوئی پرندہ مجسمے پر اترتااور دستاویزات میں سے کسی ایک کے گرد دانا چگنے کے لیے زمین پر اترتا تو اس کے مصنف کو فاتح یا حق پر قرار دیا جاتا تھا۔ 9 عدالتی فیصلوں میں کسی پرندے کے دانا چگنے کے عمل سے انسان کے متعلق فیصلہ سنا دینا قدیم مصریوں کے کمزور نظام انصاف اور ظلم کے خلاف اقدامات نہ اٹھانے کا منہ بولتا اور واضح ثبوت ہے۔خود کو وقت کے دیوتا اور اس کے نمائندے قرار دینے والے ان جھوٹے مصری فرعونوں نے ان باطل و نکمّے نظام انصاف سے کئی مظلوم انسانوں کو اپنی جہالت و خودغرضی کا شکار کردیا تھا۔

دستاویزات کی تصدیق

عہد قدیم میں چونکہ بیشتر مصری ناخواندہ تھے اس لیے وہ ہر اہم کام کو اپنی مقامی عدالت کے سامنے پیش کرتے تھے اور کنبیت (Kenbet) کہلانے والی مقامی عدالت کے کاتب اسے گواہوں کے سامنے لکھ لیا کرتے تھے۔ جب بھی معاہدے (فروخت ، وصیت ، یا وقف) میں تبدیلی کی ضرورت پیش آتی (مثلا زمین کی ملکیت میں تبدیلی ) یا دیگر دستاویزات تیار کی جاتیں ( مثلا جائیداد کی منتقلی کی دستاویز ، مکان میں موجود سامان کی دستاویز یا وصیت سے متعلق دستاویز) تو انہیں پہلے وزیر کے پاس بھیجا جاتاجو منظوری کے بعد اسے مہر بند اور محفوظ کردیتا تھا۔ اس طرح اس کے ضلع میں واقع ہر قطعہ زمین کے بارے میں تمام اعداد و شمار وزیرکے دفتر میں اکٹھے کیے جاتے تھے جو دونوں فریقوں کے معاہدوں کی تکمیل اور تیسرے فریق کی رضامندی کو یقینی بناتا تھا۔

عدالتوں میں پیش کیے جانے والے خرید و فروخت کے معاہدوں کے لیے وسیع پیمانے پر قانونی اقدامات کی ضرورت ہوتی تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر کے آخری عہد کے بادشاہوں سے پہلے سکوں یا کرنسی کا رواج نہیں تھا البتہ مصر کے آخری عہد کے بادشاہوں نے اپنے غیرملکی اجیروں کی ادائیگی کے لیے سکے تراشنا شروع کردئے تھے۔ معاوضہ جو کہ دھاتی معیار کے ذریعہ ظاہر کیا جاتا تھا ، مقرر شدہ تھا جو بادشاہتِ جدید کے دور سے 92 گرام تانبے کی مقدار کے برابر بنتا تھا اور یہ قیمت متعدد اجناس کی براہ راست یا ملتوی ترسیل کے ذریعہ ادا کی جاتی تھی جو مساوی قدر کے برابر ہوتی تھی۔

مال و متاع یا جائیدادِ غیر منقولہ کی طرح ، دفتر اور اس کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کےلیے وقف کھیت جو مستقل اور ناقابلِ تقسیم طور پر ان کے مالکان کے رزق کے لیے مختص تھے اور باپ سے بیٹے یا وارث سے وارث کو منتقل ہوتے تھے، خرید وفروخت ، عطیات، وقف اور وصیتوں کا موضوع تھے۔ مزید یہ کہ نہ صرف نوکروں اور غلاموں کے کام کرنے کے دنوں کی تقسیم ، بلکہ کشتی اور گدھے جیسی روزمرہ کے استعمال کی اشیاء بھی فروخت ، وصیت یا وقف کے ذریعہ منتقلی کی تابع تھیں۔اس کے علاوہ آج کل جو کرایہ کا تصوّر ہے اسے قدیم مصر میں فروخت کی طرح سمجھا جاتا تھا ، جس کے حصص کا تعین کرنے کے لیے مشترکہ ملکیت میں کام کرنے کے دنوں کا تصوّر نافذ العمل کیا تھا ۔اسی طرح غبن یا خیانت کی صورت میں ہرجانے اور زرِ تلافی کا بھی وقت کی مدت کے مطابق تعین کیا جاتا تھاجس کی یہ صورت تھی کہ ایک مخصوص مدت کے لیے مذکورہ شخص کو اپنی جائیداد کے استعمال سے محروم کردیا جاتا تھا۔

قانونی چارہ جوئی

قدیم مصر کے عدالتی نظام میں عدالت نے بنیادی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ آیا یہ شخص جو مقدمے کی سماعت کے دوران زیر التوا مقدمے کے ملزم یا حراست میں رکھے ہوئے شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ حق پر ہے یا مجرم ہے۔ زیادہ تر مقدمات وراثت سے متعلق تنازعات اورتحریری یا زبانی معاہدوں کو پورا کرنے میں ناکامی سے متعلق ہوتے تھے جن کی وجہ لوگوں کی ان معاہدات کو پورا کرنے کے حوالے سے غیر آمادگی یا مفلسی و ناداری یا دیوالیہ پن سے پیدا ہونے والی مشکلات تھیں۔ عام طور پر نادہندہ ایک مقررہ دن سے پہلے اپنے قرض ادا کرنے کا عدالت کے سامنے حلف اٹھاتے تھے۔ مقررہ تاریخ پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں مار پیٹ کی سزا دی جاتی تھی جو عام طور پر 100 ضربوں پر مشتمل ہوتی تھی ۔دعویدار کی طرف سے ادائیگی کی تاریخ بڑھا دی جاتی تھی تاہم معاہدے میں واجب الادا جرمانہ دوگنا کردیا جاتا تھا۔

جرائم کی سزا کے سلسلے میں عدالتوں کا اختیار محدود تھا۔ سوائے چند معمولی مقدمات کے ان کا کام صرف پیش ہونے والوں کے جرم کی سزا تجویز کرنا تھا جس کے بعد مجرموں کو وزیرکی منظوری تک قید کردیا جاتا تھا یا پھر انتہائی سنگین معاملات میں فرعون کی طرف سے سزا کی منظوری لازمی تھی۔ عضو بریدگی سے لے کر موت کی سزا تک بادشاہ کی منظوری کے بغیر نہیں دی جا سکتی تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ کو خدا اور دیوتاوٴں جیسے حتمی اختیارات کا مالک سمجھا جاتا تھا ۔اسی وجہ سے وہ بعض اوقات ان قوانین کے بہانے اپنے دشمنوں اور مخالفین کو قتل کرا دیتے تھے۔10

جرم و سزا

مصری قانون رسم و رواج ، اقدار اور مات (Ma’at) دیوی سے متعلقہ امور پر مبنی تھا ۔ قوانین میں مختلف قسم کے جرائم ، زمین سے متعلق تنازعات ، کاروباری سودے ، وصیت ، جائیداد کی منتقلی ، اور مقبروں کی ابدی دیکھ بھال کے انتظامات سے متعلق قوانین شامل تھے تاہم قانونی دلائل پیچیدہ تھے۔اس کی مثال ایک جاگیردار دولت مند خاندان کا زمین کی ملکیت کے بارے میں تنازعہ تھا جو اس خاندان کی متعدد نسلوں میں کئی دہائیوں تک چلتا رہا اور کئی وزیروں نے لاتعداد پیشیوں پر اس مقدمے کی سماعت کی تھی۔

تمام فیصلے بادشاہ کے نام پر کیے جاتے تھے۔مجرموں کو قیدکرنا مہنگا اور غیر مفید سمجھا جاتا تھا اس لیے جیلوں کو صرف عدالتوں کی انتظار گاہوں ، قانونی ریکارڈ کے لیے گودام اور ان قیدیوں کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو مقدمات کی سماعت کے منتظر ہوتےتھے۔ سنگین جرائم کی سزا کے طور پر مجرم کی ناک یا کان میں سے ایک یا دونوں کاٹ دیے جاتے تھے۔ مجرموں کو نوبیہ(Nubia) کی کانوں میں سخت مشقت کی سزا بھی سنائی جاتی تھی اس کے علاوہ مجرم کو سزا کے طور پر کسی دور دراز سرحدی قلعے میں بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ بدنامی اور جلاوطنی کو موت سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا۔ کم سنگین جرائم کے لیے مار پیٹ اور کوڑے مارنا بھی عام تھا۔ کبھی کبھار تو پورے خاندان کو ان کے کسی رشتے دار کے جرم کی سزا دےدی جاتی تھی۔سزائے موت کی منظوری بادشاہ ِ وقت خود دیتا تھا اور یہ صرف انتہائی سنگین جرائم کے لیے مختص تھی جن میں بادشاہ اور شاہی خاندان کے خلاف بغاوت سر فہرست تھے۔11

سزائے موت کے بھی کئی طریقے مروج تھے ۔ کچھ مجرموں کو زندہ مگرمچھوں کے سامنے پھینک دیاجاتا تھا جو انہیں کھا جاتے تھے۔ خصوصی حیثیت یا اعلیٰ درجہ کے احترام کے طور پر ، کچھ افراد کو سزائے موت کے بجائےباعزت خودکشی کی اجازت دے دی جاتی تھی ۔ اپنے والدین کو قتل کرنے والے مجرموں کو کانٹوں کے بستر پر رکھ کر زندہ جلا دیا جاتا تھااس سے پہلے ان کو جسمانی تکلیف دینے اور نشانِ عبرت بنانے کے لیے ان کے جسم سے گوشت کے ٹکڑوں کو سرکنڈوں سے کاٹا جاتا تھا۔ تاہم وہ والدین جو اپنے بچوں کے قتل کے مرتکب ہوتے تھے انہیں تین دن اور رات تک مردہ بچے کی لاش اپنے گھر پر رکھنا لازم تھا۔مزید براں آزاد عورت کے ساتھ عصمت دری کا ارتکاب کرنے والے شخص کو آختہ کاری (Castration) کی سزا دی جاتی تھی۔بےایمان عہدیداروں کے ہاتھوں کوکا ٹنے اور فوجی راز افشاں کرنے والوں کی زبانیں کھینچ لینے کی سزا بھی قانون کا حصہ تھی۔ اگر مرد نے کسی عورت کی رضامندی سے بدکاری کی ہوتی تو اسے ایک ہزار ضربوں کی سزا دی جاتی تھی تاہم عورت کی ناک کا ٹی جاتی تھی یا پھراسے طلاق دلوادی جاتی تھی ۔مزید سخت سزا کے طور پر اسے زندہ جلا کرموت کے گھاٹ بھی اتار ا جاسکتا تھا۔12مروجہ عقائد کے مطابق جرم کی تکرار کو روکنے کے لیے سزا کا انتہائی سخت ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا نیز ہرقدیم مصری فلسفہ سزا کے مطابق مجرم کی معمول کی باقاعدہ زندگی کی طرف بحالی ممکن تھی۔ 13

قدیم مصر کے زیادہ تر لوگوں نے کبھی بھی مذکورہ بالا سزاوٴں میں سے کسی قسم کی سخت سزاکا سامنا نہیں کیا کیونکہ وہ ہمیشہ پریشانی سے بچنے کی کوشش کرتے تھے اور کنبہ ، برادری اور ملک کے ساتھ وفاداری اوراپنے فرائض کی انجام دہی پر توجہ مرکوز رکھتے تھے یا پھر بادشاہ یا شاہی خاندان کے ساتھ ان کے نجی تعلقات انہیں سزا سے بچا لیتے تھے۔ عام طور پر یہ تصوّر رائج تھاکہ جب تک وہ اچھے شہریوں کی حیثیت سے اپنے فرائض کی انجام دہی کرتے رہیں گے تب تک دیوتا ان پر مہربانی کریں گے۔ ان کی سوچ کے مطابق دیکھا جائے تو بالآخر یہ دیوتا ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اچھائی ، برائی اور انصاف کے تصوّرات پیدا کیے تھےاور یہ حکم دیا تھا کہ برے اور ظالم لوگوں کو سزا دی جائے اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے کاموں کا بدلہ دیا جائے۔تیسرے ہزار سالہ قبل مسیح دور کے دریافت شدہ متن میں ایک عبارت درج ہے جو اس عقیدے کا خلاصہ ہے۔اس میں یوں تحریر ہے :

  "انصاف اس کے ساتھ کیا جاتا ہے جو محبوب اعمال کرتا ہے۔ اسی طرح زندگی اسے دی جاتی ہے جو پرامن رہتاہےاور موت اسے دی جاتی ہے جو جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔"14

اگرچہ قانون دان مرد تھے ، لیکن اس نظام نے خواتین اور بچوں کی مالی حیثیت کی حفاظت کی اور خاندانی نظام کی حفاظت اور ترویج کی کوشش کی۔ خواتین کو جائیداد کی ملکیت کے حقوق حاصل تھے۔ شادی کی صورت میں عورت اپنی جائیداد ملکیت میں رکھ سکتی تھی۔ نکاح کے معاہدے کی شرائط کے تحت کبھی تو شوہر اپنی پوری جائیداد اپنی بیوی کو منتقل کر دیتے تھے تاکہ وہ مستقبل میں ان کے ہونے والے بچوں کو منتقل ہو سکے۔ املاک کی یہ منتقلی شاید حقیقت سے کہیں زیادہ نظریاتی ہوتی تھی ، اور زیادہ تر معاملات میں شوہر کم از کم طلاق تک اپنی جائیداد کے انتظام اور استعمال کا حق برقرار رکھتا تھا۔ شاہی خاندان سے باہر دو بیویاں رکھنے یا تعدّد ازواج کی روایت بہت کم تھی ، تاہم کچھ مرد بیوی کے ساتھ ساتھ رکھیل یا داشتہ عورت بھی رکھتے تھے۔ مرد اور عورت دونوں کے پاس قانونی طور پرطلاق کا حق تھا تاہم ایک مرد کے لیے اپنی بیوی کو طلاق دینا آسان تھا لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو اسے اس کا حرجانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ عورت نکاح کے موقع پر ساتھ لانے والی جائیداد کو اپنے پاس رکھنے کی حقدار ہوتی تھی ۔ 15

یوں محسوس ہوتا ہے کہ قدیم مصر کا عدالتی نظام ، جو بدامنی یا غیر ملکی غلبہ کے مختلف ادوار کے دوران ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکاررہا اور جس نے عام سرکاری ڈھانچے کو بہت نقصان پہنچایا تھا،اس سے پہلے صدیوں تک مصریوں کی بہترین انداز سے خدمت میں مصروف ِ عمل رہا تھا ۔ 16تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ قدیم مصری قانون عمومی طور پر الہامی نظاموں کے مقابلے میں غیر منصفانہ اور سخت گیر نوعیت کا تھا۔ سلطنت کے دور میں فرعونوں کا قانون مصر میں ہمہ گیر طور پر لاگو ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ بطلیموسی(Ptolemy)اور پھر رومی یہاں کے حکمران بن گئے اور انہوں نے یونانی اور رومی تارکین وطن کے لیے اپنے اپنے نظام متعارف کروائے ، جبکہ مصری قانون صرف یہاں کی مقامی آبادی کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا تھا۔

 


  • 1 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 143.
  • 2 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Egyptian-law Retrieved: 13-11-2017
  • 3 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Egyptian_Law/ Retrieved: 13-11-2017.
  • 4 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 38.
  • 5 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 211.
  • 6 Allan B. Lloyd (2010), A Companion to Ancient Egypt, Blackwell Publishing, Sussex, U.K., Vol. 1, Pg. 231.
  • 7 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 211-212.
  • 8 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt, Oxford University Press, Oxford, U.K., Vol. 2, Pg. 279.
  • 9 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 38-39.
  • 10 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt, Oxford University Press, Oxford, U.K., Vol. 2, Pg. 279-281.
  • 11 Wendy Christensen (2009), Empire of Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 119-120.
  • 12 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 145.
  • 13 Patricia D. Netzley (2003), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Egypt, Greenhaven Press, California, USA, Pg. 176.
  • 14 Don Nardo (2015), Life in Ancient Egypt, Reference Point Press, California, USA, Pg. 41-42.
  • 15 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 145.
  • 16 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 212.