Encyclopedia of Muhammad

قدیم مصرکا سیاسی نظام

مصر کا شمار دنیا کے ان خطّوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخی اتارچڑھاؤ کےمنجدھار سے گزر کربقاکی صبح دیکھی تھی۔تاریخی نوشتوں سے غبار ہٹاکر دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ مصر کی سرزمین پر کئی ایک اقوام نے حکومت کی نیز کئی بیرونی ا قوام نے قبضہ کرکے یہاں کے باشندوں کو غلامی کے طوق پہنائے ۔مرورِوقت کے ساتھ ساتھ حکومتیں اورافراد بدلتے رہے اورمصر میں ثقافتوں کے تبادلے ہوتے رہے تاہم زیادہ تر یہاں بادشاہت کا نظام ہی رائج رہا۔

قدیم مصر کی حکومت مذہبی بادشاہت (Theocratic Monarchy) کے نظام پر قائم تھی جس کے مطابق سلطنت کا بادشاہ دیوتاؤں کےعطا کردہ اختیارات کی بنیاد پر مصر کے انسانوں پرحکمرانی کرتا تھا۔ ابتدائی دور میں مصری حکومت انسانوں اور دیوتاؤں کے درمیان تعلق کا واسطہ اوران دیوتاؤں کے قوانین اور حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی ۔ مصر کی وفاقی حکومت کا ثبوت 3150 قبل مسیح میں ملتا ہے جب بادشاہ نارمر (Narmer)نے مصر کو منظم اوریکجا کیا تھا۔1

الوہی بادشاہت کا تصوّر

تکوینی اصطلاح میں قدیم مصری معاشرہ دیوتاوٴں ،بادشاہ، مقدس مُردوں کی ارواح اور زندہ انسانوں کی درجاتی و طبقاتی تقسیم پر قائم تھا ۔ان تما م گروہوں میں بادشاہ ہی اکیلا فرد تھا جو انفرادی طور پر باقی سب سے نمایاں تھا۔2مصری نظام معاشرتی اور مذہبی زندگی کےمابین بہت گہرےتعلق پر منحصر تھا۔ حکومتی عہد یداروں میں سب سے اعلیٰ مرتبہ بادشاہ کا ہوا کرتا تھا جس کے بارے میں یہ عقیدہ قائم تھا کہ یہ خدا کا بیٹا ہے ۔لوگوں کی نظروں میں بادشاہ بذاتِ خود لامحدود روحانی طاقتوں کا حامل دیوتا تصوّر کیا جاتا تھا ۔ مصری بادشاہ سلطنت پر حکمرانی دیوتاکے نام پر اس کے واحد زمینی حاکم اور بادشاہ کے طور پر کیا کرتےتھے۔بادشاہ اپنی افواج کو جنگوں میں حکم صادر کرتے تھے نیز تمام صنعتوں کو چلانے کے لئے ہدایات جاری کر تے تھے۔وہ آب پاشی کے نظام کے لیے ضروری افرادی قوت کا انتظام کرنے اور آزادانہ طور پر مملکت کے وسائل کو مرتب کر نے کے بھی ذمہ دار تھے۔

قدیم مصری بادشاہ مکمل طور پر خودمختار اور مطلق العنان تھےجس کی وجہ سےمصر کی آبادی کا مکمل انحصار بادشاہ اور اس کے سرکاری عہد یداروں کے رحم و کرم پر ہوا کرتا تھا۔مملکت مصر کے سیاسی معاملات میں عام عوام کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ان کو اپنی ذاتی جائیداد خصوصاًزمین حاصل کرنے تک کا حق نہیں تھا۔ عوام کی زندگیوں،ان کے مالِ تجارت، اوران کے ہنر کا مالک، بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اسے مکمل اختیار تھا کہ جس جگہ بہتر سمجھے وہاں انہیں متعلقہ امور کی انجام دہی کا حکم صادر کر دے۔3مصری عوام بادشاہ کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ اسے فرعون کے لقب سے پکارتے تھے۔فرعون تمام مصر کی زمین کا مالک سمجھا جاتاتھا۔وہ قوانین بناتا تھا اور اپنے لیے ایسے مددگار چنتا تھا جو فرائضِ حکمرانی کی تکمیل میں اس کی مدد کریں۔ فرعون تمام مذہبی رہنماوٴں کا بھی سربراہ تھا۔وہ روزانہ عبادت کرتا اور دیوتاوٴں کو نذرانے پیش کرتا تھا۔ نیا فرعون منتخب ہونے کے بعد پوری سلطنت کا دورہ کیا کرتا تھا۔عام حالات میں بھی فرعون عوامی تعمیرات کے معائنے اور اپنے افسران کی کارکردگی کی جانچ کے لیے اکثر سفر کرتے رہتے تھے۔ 4

مصری باشندے فرعون ِمصر کو اپنا محافظ اور ریاست کا مربّی گردانتے تھے۔اور وہ اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ معاشرتی نظام کی صحیح ترتیب اور خوشحالی فرعون کی غیر مشروط تابعداری اور اطاعت پرہی مبنی ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ صرف فرعون ہی زمین کو چاروں اطراف سے ڈھانپ کر آنے والے حوادث سے بچا سکتا ہے۔مصریوں کے بڑے دیوتا "را"(Ra)سے متعلق اساطیر یہ بتاتی ہیں کہ وہ زمین پر حکمرانی کرنے کے لیے انسانی روپ میں پہلا فرعون بن کر آیا تھا۔ 5

روحانی نکاح

قدیم مصری اہرامی دور سے تعلق رکھنے والی مختلف دستاویزات میں مصر کے بادشاہوں کی دیگر مادّی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی جنسی ضروریات اور تسکین کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ شہنشاہیتِ جدید کے عہدسے، بادشاہ کے جنسی تعلقات کو خاص ادبی انداز سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا جسے ”تھیو گیمی“(Theogamy)یا روحانی نکاح کہا جاتا تھا۔ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ شاہی شادیوں کی روحانی صورت اور شاہی وراثت کو قانونی طور پر مانا جائے۔ یہاں بادشاہ کو شوہر کی ضمنی حیثیت سے دیکھا جاتا تھاجبکہ یہ یقین کیا جاتا تھا کہ دیوتا "آمون(Amun)" بادشاہ کے روپ میں خدائی خوشبو کے ساتھ نمودار ہوتا ہےاور ملکہ سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے۔ اس تصوّراتی جنسی عمل کے لیے ملکہ خود کو بادشاہ کے روپ والے دیوتا کے سپرد کردیتی تھی جو اس کےساتھ تعلق قائم کرتا اور تخت مصر کا وارث عطا کرتا تھا ۔ 6

بہنوں سےنکاح

متعدد مثالوں سے اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ قدیم مصری بادشاہ اپنی بہنوں سے بھی نکاح کرلیتے تھے اور اس کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہوتی ان میں سب سے بڑا بیٹا بادشاہ کا وارث بنتا تھا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ اپنی سوتیلی بہنوں سے اس حکمت عملی کے تحت شادی کرتا کہ اپنی ذات اور آگے آنے والی اولادوں کے لیے قانونی طور پر حکمرانی کے لیے جواز پیدا کرسکے۔ بہر کیف ، نسبتاً اونچے درجے والی بیوی کا بیٹا نہ ہونے کی صورت میں کم درجہ رکھنے والی بیوی کی اولاد کو بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔ مصر کی کچھ مشہور ملکائیں ، جیسے کہ ہتشیپت (Hatshepsut)اور انخیسنپاتن(Ankhesenpaaten) کا خون اپنے شوہروں کے مقابلے میں زیادہ پاک تصوّر کیا جاتا تھا۔ جو بادشاہ اپنی بہنوں سے نکاح کرتےوہ خود کو عام انسانوں سے افضل مخلوق سمجھتے کیونکہ اس دور کے مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بہنوں کے ساتھ شادی صرف دیوتا ہی کرتے ہیں۔ اس رسم سے فراعین طرح طرح کے فوائد بھی اٹھاتے تھے۔ جب بھی قدیم مصر میں کوئی فساد یا بغاوت برپا ہونے جارہی ہوتی تو فراعین اپنی بہنوں سے شادی کر لیتےتھے اس طرح مصر اس دیوتا نما بادشاہ کی حکمرانی میں دوبارہ متّحد ہوجاتا تھا ۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھاکہ بادشاہ کی اونچا مرتبہ رکھنے والی بیویاں اس سے قریبی تعلق نہیں رکھتی تھیں۔اس صورت میں دوسری عورتوں کو اعلیٰ منصب تب ہی ملتا تھا جب ان کے کسی بیٹے کو بادشاہ تسلیم کرلیا جاتا تھا ۔ بیٹے کے بادشاہ کے منصب پر فائز ہونے کے لیے لازمی تھا کہ اس کی والدہ کا شاہی خاندان سے خون کا رشتہ ہو۔اگر ایسا نہ ہوتا تو بادشاہت کی سپردگی کا معاملہ لوگوں کی موجودگی میں افہام وتفہیم سے حل کیا جاتا تھا۔ اگربالفرض کسی غیرروایتی طریقے کے ذریعےکسی شہزادے کو بادشاہ کا جانشین بننے کے لیے منتخب کرلیا جاتا تو حاضر بادشاہ کے لیے ضروری ہوتا کہ عوام میں اپنے جانشین کا اعلان کرے تاکہ اس کی موت کے بعدکسی قسم کا کوئی فتنہ و فساد نہ ہو ۔7

سیاسی ادوار

شہنشاہ مینس (Menes)نے جس سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی اس پر 30 شاہی خاندانوں نے حکومت کی جن کے بادشاہوں کی تعداد 370ہوئی۔ ان کی حکومت 525قبل مسیح تک قائم رہی جس کے بعد مصر کو ایرانیوں نے فتح کرلیا تھا8 جبکہ ملوکِ مصر کی مجموعی تعداد 103بتائی جاتی ہے۔ ان میں 32 فراعنۂ مصر،50 عمالیق ملوک بابل، 14 عمالیق جو شام سے مصر آئے ، 7 ملوک روم اور 10 ملوک یونان شامل تھے۔ یہ سب حکومتیں سیّدنا حضرت مسیح کی ولادت سے قبل کی تھیں۔ جن چند اہل فارس نے براہ راست مصر پر حکومت کی وہ بھی کسرائے فارس کے ازمنۂ قدیم سے تعلق رکھتے تھے۔ 9

محققین نے مختلف سہولتوں کے پیش نظر قدیم مصری تاریخ کو سیاسی آغاز اورعروج وزوال کے لحاظ سے مندرجہ ذیل اہم ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

  1. خاندانی بادشاہتوں سے پہلے کا دور 5000 قبل مسیح تا 3100 قبل مسیح
  2. دور قدیم 3100 قبل مسیح تا 2686قبل مسیح
  3. قدیم بادشاہت 2686 قبل مسیح تا 2181 قبل مسیح
  4. پہلادورِ زوال و انتشار 2181 قبل مسیح تا 2055 قبل مسیح
  5. وسطی بادشاہت2055 قبل مسیح تا 1786 قبل مسیح
  6. دوسرا دورِ زوال 1786قبل مسیح تا 1567 قبل مسیح
  7. شہنشاہیت یا جدیدشہنشاہیت1567 قبل مسیح تا 1085 قبل مسیح
  8. تیسرا دور ِ زوال 1085 قبل مسیح تا 664 قبل مسیح۔10

فراعینِ مصر کا طرزِ حکمرانی

مصرمیں بادشاہوں کی حکمرانی کا انداز باقی دنیا سےمنفردتھا۔ ہربادشاہ کا اپنا مخصوص اسلوبِِ حکومت رکھتا تھاجس کےتحت اس کی حکومت کا نظم ونسق چلتاتھا۔ ملک کو 40 سے زیادہ صوبوں یا نومز(Nomes) میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ ہر صوبہ ایک گورنرکے ما تحت تھا جسے مصری لوگ نومارچ (Nomarch)کے نام سے جانتے تھے۔ یہ گورنر اپنے علاقوں کے ذمہ دار اور ہر فیصلہ کرنے میں خودمختار تھے اور ان خطّوں پر شہزادوں کی طرح حکومت کیا کرتے تھے۔ 11

بادشاہ ملک کا انتظامی سر براہ ہوتا تھا وہ ملک کا انتظام ان سرکاری افسروں کے ذریعہ سے کرتا تھا جن کا تقرر وہ خود کرتا تھا۔ یہ سرکاری افسر دو طرح کے ہوتے تھے۔ ایک تو وہ جن کی حیثیت مقامی تھی اور جو بادشاہ کی طرف سے ملک کے ہر شہر اور علاقے میں مقرر کیے جاتے تھے۔ دوسرے مرکز ی افسران تھے جو دارالسلطنت میں رہتے تھے۔ مقامی افسران ٹیکسوں کی وصولی کا کام کرتے تھے اور یہ ٹیکس اناج اور دیگر اشیا کی شکل میں وصول کرنے کے بعد دار السلطنت بھیج دیا جاتا تھا جہاں مرکزی افسران اسے گوداموں ،کوٹھیوں اور بڑی عمارتوں میں حفاظت سے رکھوادیتے تھے۔ مرکزی دفتر میں سینکڑوں کلرک تھے جو ملک کے ہر حصّے سے وصول کیے ہوئے ٹیکسوں اور ٹیکس دینے والوں کی فہرستیں تیار کرتے تھے اور ان ٹیکسوں کی وصولی کا مکمل ریکارڈ رکھتے تھے۔ قدیم مصر میں ٹیکسوں کی وصولی کا جو انتظام رائج تھا وہ یورپ میں رومی سلطنت کے قیام تک رائج نہیں ہو پایا تھا۔12

انتظامی ڈھانچہ

قدیم مصر کے انتظامیہ میں فرعون سلطنت کے انتظامی ڈھانچے کا سربراہ تھا مگر وہ خود مستقل طور پر کام نہیں کرتا تھا بلکہ اس کا وزیر یا منتظم اعلیٰ جو کہ بادشاہ کے بعد سب سے با اثر شخص ہوتا تھا، سلطنت کا انتظام سنبھالتا تھا۔یہ وزیر حکومت کے مختلف محکموں کو دیکھتا تھا جن میں اناج کے گودام، مسلح افواج، تعمیراتی منصوبۂ جات اور عدل و انصاف کے محکمے قابل ذکر تھے۔صوبوں میں بادشاہ کے نامزدگورنر ان محکمہ جات کی نگرانی کرتے تھے۔قومی اور صوبائی سطح کے یہ منتظمین عموماپڑھے لکھے افراد ہوتے تھے جن کی معاشرے میں بہت زیادہ عزت اور سماجی مقام بلند تھا نیز ان سے طبقۂ اشرافیہ کی طرح برتاوٴکیا جاتا تھا۔ان کے علاوہ معبدوں کے پروہتوں کا بھی معاشرے میں اعلیٰ مقا م تھا یہاں تک کہ مصر کی بڑی بڑی عظیم الشان عمارتوں کے اندرونی مقدس حصے میں صرف بادشاہ اور مذہبی رہنما ہی جا سکتے تھے۔بادشاہ نہ صرف اہل ِ مصر کےدیوتاوٴں کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کے ذمہ دار تھے بلکہ وہ دیہی جاگیرداروں سے بھی مراسم استوار رکھتے تھے جو ہزاروں افراد کے روز گار کا ذریعہ تھے۔ 13

انتظامی تقسیم

قدیم مصر چالیس سے زیادہ صوبوں میں تقسیم تھا جنہیں اہل ِیونان نوم(Nome) کہا کرتے تھے۔ہر صوبے کا منتظم ِاعلیٰ ایک گورنر یا نومارک ہوتا تھا۔دور دراز علاقوں کے گورنر اپنے فیصلوں میں خود مختار تھے اور انہیں عام معاملات میں فرعون کی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔چھٹے خاندان کی حکومت کے خاتمے پر جب قدیم بادشاہت کا زوال ہوا تو ان دوردراز علاقوں کے گورنروں نے اپنی چھوٹی چھوٹی مملکتیں قائم کر لیں اور پہلے عہدِ زوال کے دوران خودمختار شہزادوں کی طرح اپنی مملکتوں کا نظام چلاتے رہے۔ بادشاہتِ متوسط کی ابتداٴ میں بھی کچھ عرصہ تک ان کا یہی طرز عمل جاری رہا۔بادشاہوں کے لیے ان گورنروں کے علاوہ دوسرا اہم مسئلہ مذہبی پروہت تھے جو بادشاہوں کے معاملات میں اکثر مداخلت کی کوشش کرتے رہتےتھے۔ قدیم بادشاہت کے زوال کے بعد سے یہ مذہبی رہنما دولت اور اثر ورسوخ کے اعتبارسے مسلسل ترقی کرتے رہے یہاں تک کہ اٹھارویں خاندان کی حکومت کے وقت مذہبی طبقہ مصری معاشرے کا سب سے امیر اور مضبوط گروہ بن چکا تھا اور اسےفرعونوں کے ساتھ اقتدار میں شریک سمجھا جانے لگا تھا۔ 14

مصری انتظامیہ کے کلیدی محکمے جس میں عدلیہ ، محکمۂ مال ،محکمۂ زراعت، شاہی خدمت کا محکمہ اور مسلح افواج شامل تھے،ان تمام محکموں کے الگ الگ نگران اور ناظمین مقررتھے۔ محکمہ تعمیرات کا نگران فرعون کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔فرعون کو مصر کی تمام تعمیرات کا مالک سمجھا جاتا تھا۔زراعت کا محکمہ دو الگ الگ حصوں میں تقسیم تھا جس کے الگ نگراں مقرر کیے جاتےتھے۔ ایک نگران اناج کاذمہ دار ہوتااوردوسرے کےذمہ مال مویشیوں کا انتظام ہوا کرتا تھا۔ہر چیز تحریری صورت میں لکھی جاتی تھی چاہے وصیت ہو،مختلف کاموں کی دستاویزات ہوں، مردم شماری کی فہرستیں ہوں یا پھربھرتیوں کی فہرستیں۔سب کچھ ہی تحریری صورت میں محفوظ کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ احکامات، روداد، روزنامچے،یاداشتیں، محصول کی فہرستیں، خطوط، روز کا حساب کتاب، تجارتی و تعمیراتی سامان کی فہرستیں، قوانین اورقواعد و ضوابط سے لے کرعدالتی کاروائیوں تک ہر چیز ضبط ِ تحریر میں لائی جاتی تھی۔ 15

یہ تمام محکمہ جات صوبائی حکومتوں سے بھی متصل اور مربوط تھے اور انتظامیہ کے دونوں درجات حکومتی معاملات میں پیش آنے والے مسائل حل کرنے کےلیے سرگرم ِعمل رہتے تھے۔ان کی قلمرو میں منظم و مرتب شہری معاشروں کے ساتھ ساتھ غیر منظم و غیر مرتب دیہی اور زرعی معاشرے اوربرادریاں سبھی شامل تھے۔قدیم بادشاہت کے زمانے میں اہراموں کی تعمیر کے لیے رضاکارانہ طور پرمعاونت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ منظم و مرتب منتظمہ اور نوکرشاہی کی ضرورت پیش آتی جس کے نتیجے میں مرکزی نوعیت کی حکومت تشکیل پائی تھی۔یہ نظام بارہویں خاندان کی حکومت تک جاری رہا تاہم بارہویں خاندان کی حکومت نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد نظام ِحکومت تبدیل کردیا تھا۔بادشاہتِ جدید کے دور میں مستقل فوج قائم کی گئی ، مندورں کی اراضی میں اضافہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک کے نظم و نسق اور انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔یہ قدیم مصر کی بیوروکریسی یا حکومتی منتظمہ کا نظام ہی تھا جس نے مصر میں عظیم الشان تہذیبی نمو کی راہ ہموار کی اور اس کے نتیجے میں انتہائی منظّم اداروں کا حامل ایک ہمہ جہت معاشرہ تشکیل پایا جس کا مرکز و محور بادشاہ کی ذات تھی۔گو بادشاہ کو آسمانی اقتدار کا مالک سمجھا جاتا تھا اور ا س کی مرضی و منشا ہی ریاست کا قانون تصور کیا جاتا تھا تاہم بادشاہ کی معاونت کے لیے کچھ نائبین بھی مقر ر تھے جو انتظامی ، عسکری اور مذہبی امور کی نگرانی کرتے تھے۔ان نائبین کو ریاست کی طرف سے بڑے بڑے مشاہرے دئےجاتے تھے۔اس کے علاوہ انہیں ان کی جاگیروں سے بے تحاشہ آمدنی بھی ہوتی تھی۔شاہی تحفوں کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں معبدوں سے ہونے والی آمدنی سے بھی انہیں وافرحصہ ملتا رہا تھا۔ان سب دنیاوی انعامات و اعزازات کے ساتھ ساتھ بادشاہ کی طرف سے انہیں بعد ازمرگ مقبرے کا تحفہ بھی دیا جاتا تھا جسے سب سے اہم سمجھا جاتا تھا۔16

قدیم مصر کے طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے حکمران طبقے کو پات (Paat) کہا جاتا تھا جبکہ باقی مانندہ افرادِ معاشرہ ریخیت (Rekhyt) کہلاتے تھے۔ ہر سرکاری محکمے کے افسرا ن اکثر اپنے عہدے اور مرتبے کے گھمنڈ میں رہتے تھے۔وہ معاشرے میں اپنے اعلیٰ مرتبے کے اظہار کے لیے اپنے ناموں کے ساتھ سابقوں اور لاحقوں کے طویل سلسلے جوڑتے تھے جو ایسے القابات و خطابات پر مشتمل ہوتے تھے جو ان کے حکومتی وظائف اور کارناموں کی نشاندہی کرتے تھے۔ مگر پات نامی حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو فرعون کی طرف سے جو سب سے بڑا استحقاق دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ شاہی قبرستان میں انہیں اپنا مقبرہ تعمیر کرانے کی اجازت تھی۔ اہل مصر کا یہ خیال تھا کہ مرنے والےشخص کومرنے کے بعد بھی وہ تمام مراعات دی جانی چاہییں جو دنیاوی زندگی میں اسے حاصل تھیں۔فصل کی کٹائی کے موسم میں گھریلو ملازمین اعلیٰ اقسام کے کھانوں کی ضیافت کا اہتمام کرتے تھے جو ان کے خیال میں مرحوم کے پاس جنت میں پہنچا دئے جاتے تھے۔ تاہم اس وقت کے دیگر معاشروں کے مقابلے میں مصر ایک آزاد خیال معاشرہ تھا جس کی سماجی تنظیم اور حکومتی نظام میں تین ہزار سال کے عرصے کے دوران بہت کم تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ اس نظام کی تصحیح صرف غیر یقینی صورتحال میں ممکنہ انقلاب کی صورتحال کے پیش نظر ہی کی گئی تھی۔اس طرح کی صورتحال قدیم بادشاہت کے اختتام پر نظر آئی ،جب سیاسی نظام انہدام کا شکار ہو گیا اور عارضی بدانتظامی کے نتیجے میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے لگی یا پھر پہلے، دوسرے اور تیسرے عہدِ زوال کے دوران جب صوبائی سطح کے امیروں نے وفاقی عملداری کو چیلنج کیا اور اپنی اپنی طاقت کے مراکز قائم کر لیے تب بھی ایسی ہی صورتحال پیش آئی تھی۔

قدیم مصر کے اس سیاسی نظام کو ہر ممکن طریقے سے برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ چاہےیہ شادی کے تعلق سے ہو یا پھر وراثت کی بنیاد پر۔اہل مصر اپنے اپنے سماجی گروہوں کے اندر شادی کرنے کا رجحا ن رکھتے تھے اسی طرح عہدہ ومنصب اور تجارت بھی والد سے بیٹے کو وراثت کے طور پر منتقل ہوتی تھی تاہم بادشاہ ہی سیاسی و مذہبی نظام کا مرکز تھا۔ ہر شے کی نسبت بادشاہ کی طرف کی جاتی تھی اور نظریاتی طور پر زمین ، انسانوں اور ان کی تمام ملکیتوں کا مالک بادشاہ کو سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہ کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور اگلی زندگی میں اس کی خدائی کے تسلسل کو مصر کی بقاکے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ 17

عدلیہ اور انتظامیہ

مقدمات کے فیصلوں کے لیے ہر جگہ عدالتیں قائم تھیں مگر مصر کا عدالتی نظام بابل کی طرح منظّم نہ تھا۔ عدلیہ، انتظامیہ میں مدغم تھی جس کی وجہ سےانتظامیہ کے حکاّم ہی عدلیہ کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ وزیرمملکت ملک کا سب سے بڑا قاضی تھا جس کے فیصلے پر نظرثانی کا اختیار صرف بادشاہ کو حاصل تھا۔ بادشاہ خود بھی مقدمات کی سماعت کرتا تھا۔دربار میں درخواستیں پیش ہوتی تھیں جن پر وہ اپنے احکامات صادر کرتا تھا۔ مذہبی نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ کرنےکا حق پروہتوں کو حاصل تھا۔ مذہبی معاملات میں ان کی رائے سب سے اہم سمجھی جاتی تھی اور ان کے فتاوے کو قانونی حیثیت حاصل تھی۔مصر کے تغیراتی اور دیوانی قوانین واضح اور متعین تھے۔ 18 ترکے اور میراث کے قوانین بھی وضع ہوچکے تھے۔ دروغ حلفی، قتل اور چوری کی سزا قتل تھی نیز جلا وطنی کی سزا بھی عام طور پر دی جاتی تھی۔ بغاوت اوراس طرح کے سنگین جرائم میں دار پر کھینچنے، پھانسی دینے اور زندہ جلادینے کی سزا ئیں بھی دی جاتی تھیں۔ سب سے سخت سزا یہ تھی کہ مومیائی بھر کر مجرم کو زندہ بند کردیا جائے۔ معزز مجرمین کو ذلت سے بچانے کے لیے خودکشی کا حکم دیا جاتا تھا۔ اقبال جرم کے سلسلے میں مجرم کو سخت اذیتیں بھی دی جاتی تھیں۔ قوانین کی تو ضیح کے لیے وکلا مقرر تھےاور مقدمات کی سماعت کے لیے کوئی تاریخ متعین کردی جاتی تھی۔ بعض مقدمات میں پوری کارروائی بند کمرے میں ہوتی تھی تاہم مجرم کو صفائی کا پورا موقع دیا جاتا تھا۔ تمام شواہد اور بیانات پر غور کرنے کے بعد قاضی اپنا فیصلہ صادر کرتا تھا۔ بیانات عموماً تحریری طور پر پیش کیے جاتے تھے اور قاضی بھی اپنا فیصلہ لکھ کر سناتا تھا۔

بعض مواقع پر قاضیوں کی ایک جماعت مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کردی جاتی تھی اور اس کے حدود متعین کردیے جاتے تھے جیسا کہ ریمسس (Ramesses ) کے عہد کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ نے قاضیوں کو جو ہدایات دی تھیں ان میں خود اس کا اپنا بیان بھی شامل تھا۔اس بیان میں بادشاہ نے کہا کہ جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ ملزمان نے فلاں فلاں باتیں کہیں تو میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔ آپ اُن کو خود جانچیں اور جب آپ کو معلوم ہوجائے کہ فلاں فلاں مجرم ہے تو ان میں سے بعض (معززین) کو خودکشی کا حکم دیجیے اور دوسروں کو قتل کی سزا۔ مگر یہ مجھے نہ بتائیے (یعنی یہ کہ آپ کیا فیصلہ دے رہے ہیں)۔ اس کا خیال رکھیے کہ آپ انصاف سے تجاوز نہیں کررہے ہیں۔19

مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ فراعینِ مصر کے اقتدار کا سورج بالآخرزوال کی جانب مائل ہوا ۔قدیم سلطنت کا آخری بڑا فرعون پیپی (Pepi) تھا جس نے تقریباً 90سال تک حکومت کی۔ اس کے انتقال کے بعد فراعین کی حکومت ختم تونہیں ہوئی لیکن ان کی طاقت میں کمی واقع ضرور ہوگئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوبوں کے گورنر اور بڑے جاگیر دار تقریباً آزاد و خودمختار ہوگئے اور بادشاہت کی بنیادیں ہل گئیں تھیں۔20

اہم حکمران

اہل مصر میں بھی کئی نامور حکمران اور سیاستدان گزرے ہیں جنکی تاریخ برائیوں اور درندگیوں سے بھری پڑی ہے البتہ ان میں معدود چند ایسے ضرور تھے جنہوں نے مصری عوام کے لیے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے جن میں سے بعض کی تفصیلات درج ذیل ہیں :

ریمسس دوئم (Ramesses-II)

اہلِ مصر ریمسس دوئم کو "یوسرما اترےسی تیپینرے(Userma’atre’setepenre)"کے لقب سے جانتے تھے جس کا مطلب "اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنے والا، را دیوتا کا چنیدہ (Elect of Ra’) ،سچائی پر مضبوطی سے ڈٹا رہنے والا" تھا۔21مصری تاریخ کا یہ مشہور ترین بادشاہ مشہورِ زمانہ جنگجو اور ندرت آفرین ماہر تعمیرات تھا۔وہ بادشاہ سیتھوس اول (Sethos-I) کا فرزند اور ولی عہد تھا اور کئی اہم مہمات میں شامل رہا تھا۔اس نے اپنے دورِحکومت کےابتدائی سالوں میں سلطنت کے اندرونی استحکام پر توجہ دی۔ بادشاہت کے چوتھے سال اس نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شام کی عسکری مہم کا آغاز کیا اور موجودہ بیروت شہر سے کچھ میل کے فاصلے پرنہرالکِلب(Nahr Ul-Kelb) کے مقام تک پہنچ گیا۔اگلے ہی سال اس نے ہتی قبائل (Hittites) کے خلاف اپنی مشہور ِ زمانہ جنگی مہم کا آغاز کیا اور کا دیش (Kadesh) شہرکو زیرِ نگیں کر لیا۔اس مہم کا ذکر قدیم مصری نظموں میں موجود ہے جن میں اس کی جراٴت و بہادری کی تعریف کی گئی ہے۔ہتیوں(Hittites) سے سولہ سال تک جنگ جاری رہی اور بالآخر ریمسس دوئم(Ramesses-II) کے اقتدار کے اکیسویں سال امن معاہدے پر دونوں فریقین کا اتفاقِ رائے ہوگیا۔ ریمسس دوئم اور خاتوسلس سوئم (Khattusilis-III)کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی شرائط کے مطابق دو طرفہ حدود کا تعین کیا گیا اور بیرونی حملے کی صورت میں مشترکہ دفاع پر اتفاق کیا گیا۔اس معاہدے کی رو سے دونوں فریقین اتحادی بن گئے۔یہ اتحاد حکومت کے چونتیسویں برس میں ریمسس دوئم (Ramesses-II) کی خاتوسلس سوئم کی بڑی بیٹی سے شادی سے مزید مضبوط ہو گیا تھا۔اس نے اپنے دور میں کئی عظیم الشان معبد تعمیر کرائے۔ ریمسس دوئم کی پانچ یا چھ ملکائیں اور کئی ایک کنیزیں تھیں جن سے اس کی سو سے زائد اولادیں تھیں۔ ریمسس دوئم ہی وہ فرعون ہے جسے بنی اسرائیل کی مصر سے ہجرت (The Exodus) کے واقعے سے جوڑا جاتا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مصر کا آخری طاقتور بادشاہ تھا۔ 22

توتانخامون (Tutankhamun)

توتانخامون (Tutankhamun) کا تعلق بادشاہوں کے اٹھارویں خاندان سے تھاجسے مصری تاریخ میں بادشاہتِ جدید کا دور کہا جاتا ہے۔ 23وہ آٹھ یا نو سال کی عمر میں تخت نشین ہوا تھا۔کم عمری کی وجہ سے ملکہ نیفرتیتی (Nefertiti) اور ہوریمہیب (Horemheb) نامی درباری سلطنت کے امور میں اس کے مشیر رہے۔اس نے پرانے نظام کو بحال کیا اور آمون دیوتا (Amun) کی پرستش بحال کرائی ۔ چونکہ آمون دیوتاکے تمام پجاریوں کو ختم کرادیا گیا تھا اس لیے تما م بڑے شہروں کے معززین میں سے نئے پجاری اور پروہت چنے گئے۔ توتانخامون (Tutankhamun) کا دورِ حکومت اس کی بیس سال سے بھی کم عمر میں موت کی وجہ سے مختصر تھا ۔اس کی حنوط شدہ لاش کے معائنے سے اس کی موت کی کوئی حتمی وجہ دریافت نہیں ہو سکی۔24

ملکہ ہتشیپت (Hatshepsut)

ملکہ ہتشیپت (Hatshepsut) نے 1473 قبل مسیح سے لے کراپنی وفات یا دستبرداری تک فرعون کے طور پر اہل مصر پر حکومت کی تھی۔اس کے نام کا مطلب "سب سے شریف اور عزت دار عورت"تھا۔وہ بادشاہ توتموسس اول (Tuthmosis-I) اور ملکہ آہموسی(Queen Ahmose) کی دختر تھی۔ توتموسس(Tuthmosis II) کا جانشین توتموسس سوئم(Tuthmosis-III) کم مرتبے کی عورت آیسیت (Iset) کا بیٹا تھا۔ توثموسس سوئم جب 1479 قبل مسیح میں تخت نشین ہوا تو بہت کم سن تھا۔ ہاتشیپ سوت اس کی مشیر اور سرپرست کے طور پر سامنے آئی۔ اس عہد کے تاریخی ورثہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہاتشیپ سوت زمین کے امور کی نگرانی پر مامور تھی۔ چھ سال بعد توثموسس سوئم کو ہٹا کر وہ خود فرعون کے عہدے پر فائز ہو گئی اور مردانہ لباس اورا لقابات اختیار کر لیے ۔اسے آمون دیوتا کے پجاریوں اور درباری امراکی سرپرستی اور تعاون حاصل تھا۔

ملکہ ہاتشیپ سوت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی اور شاہی انتظامی امور میں مہارت رکھتی تھی۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے نیوبیا (Nubia) اور فلسطین(Palestine) کی مہمات میں بھی شرکت کی ہو۔اسی نے پیونت(Punt) یعنی آج کے ایتھوپیا (Ethopia)کے علاقے کی طرف مشہور زمانہ عسکری مہم روانہ کی تھی۔اس نے اپنے عہد میں کئی مشہور عمارات تعمیر کرائیں جن میں کئی مذہبی نوعیت کی عمارتیں اور مقبرےشامل تھے۔ ملکہ ہاتشیپ سوت کی روحانی پیدائش کے بارے میں بھی اساطیر پھیلائی گئی تھیں جو دیئر الباہری(Deir El-Bahri) کے معبد میں بھی کندہ ہیں۔1458 قبل مسیح میں جب توتموسس سوئم(Tuthmosis III) کادیش (Kadesh) قبائل اور ان کے اتحادیوں کی بغاوت ختم کرنے کے لیے لشکر لے کرنکلا تو اس کی غیر موجودگی میں ملکہ ہتشیپت(Hatshepsut) پراسرار طور پر غائب ہوگئی ۔اسی دوران اس کی تمام یادگاریں اور مجسمے مسمار کر دئے گئےنیزاس کی موت اور لاش کے بارے میں بھی کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکی تھیں۔25

کلیوپیٹرا ہفتم (Cleopatra VII)

کلیوپیٹرا ہفتم (Cleopatra VII) بطلیموسی عہد (Ptolemaic Period) کی ملکہ تھی جو سترہ سال کی عمر میں تخت نشین ہوئی تھی۔اہل ِ مصر اسےنیتجیریت میر-اِت-ایس(Netjeret mer-it-es) کے لقب سے پکارتے تھے جس سے مراد دیوی یا اپنے والد کی چہیتی لیے جاتے تھے۔اسے اس کے والد بطلیموس دو ازدھم (King Ptolemy-XII) نے اس شرط پر جانشین نامزد کیا تھا کہ وہ اپنے بھائی بطلیموس سیزدھم (Ptolemy-XIII) سے شادی کر لے جسے اس نے تخت کے حصول کے لیے بغیر کسی شرم اور پس و پیش کے قبول کر لیا۔کلیوپیٹرا ایک اچھی حکمران ثابت ہوئی۔وہ یونانی و رومی عہد (Greco-Roman Period) کی واحد حکمران تھی جس نے لاطینی اور یونانی کے ساتھ ساتھ مصری زبان بھی سیکھی تھی۔ اس کے بھائی بطلیموس سیزدھم (Ptolemy XIII)نے اس سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی جسے رومی رہنما جیولیس سیزر (Julius Caesar) نے ناکام بنا دیا تھا۔اس کے جیولیس سیزر اور مارک انٹونی(Mark Antony) سے جنسی تعلقات نے روم کے زیرِ سایہ اس کے مصر پر اقتدار کو مضبوط کیا تھا۔بالآخر سلطنت ِ روم نے مصر کی خود مختاری ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ رومی شہنشاہ آکٹاویئن (Octavian) نے اسکندریہ(Alexandria) کا محاصرہ کر لیا جس کے دوران کلیوپیٹرا نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خودکشی کرلی اور یوں اس کے عہد ،زندگی اور مصر کی خودمختاری کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ 26

سیاسی زوال

قدرت کا قانون ہے کہ ہرعروج کو زوال ہوتاہے۔جس طرح مختلف اقوام مصر کو فتح وپامال کرتی رہیں اسی طرح روبہ زوال بھی ہوتی رہیں۔مصر ی حکومتوں کی تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ اٹھارہویں خاندان کے بعد مستقل زوال کادورشروع ہوگیا ۔ ریمسیس دوئم (Ramesses-II) شاہان مصر کا آخری قابل ذکر بادشاہ تھا جس کے بعد سے زوال کی نہ رکنے والی داستان شروع ہوتی ہے۔ مسلسل لڑائیاں مصر کی کمزوری کاباعث ہوئیں جس کے نتیجے میں ایشیا اور یورپ کی قومیں مصر پر حملہ آور ہونے لگیں ، یوں بیسویں خاندان کے بادشاہوں کوکئی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ملک کے اندرونی حالات خانہ جنگی کی بنا پر خراب ہوتے جارہےتھے۔ حکومت ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں جلدی جلدی منتقل ہورہی تھی جس کے نتیجے میں مصر زوال کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شہنشاہیت کا دور بالکل ختم ہوچکا تھا اور مصر پر نزع کا عالم طاری تھا۔ یہ کسمپرسی کی حالت تقریباً 700 سو سال تک قائم رہی ۔ آشوری فوجوں نے 670 قبل مسیح میں مصر پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں مصر کی آزادی ایک مرتبہ پھر سلب ہوگئی جس کے ساتھ ہی مصر میں فراعین کے پچیسویں خاندان کی حکومت اختتام پذیر ہوئی۔ درمیان میں کچھ عرصہ کے لیے مصر آزاد ہوگیا لیکن جلد ہی بابل کے حکمران بخت نصرنے مصر پر قبضہ کرلیا۔ بابلیوں کے زوال کے بعد مصر پر ایرانیوں کا قبضہ رہا۔ جس کے درمیان ساٹھ سال کے عرصہ کے لیے مصر پھر ایک مرتبہ آزاد ہوگیا لیکن پھر دوبارہ ایرانی مصر پر قابض ہوگئے۔ ایرانی سلطنت پر جب یونانیوں نے قبضہ کرنا شروع کیا تو مصر پر سے ایرانیوں کا تسلط ختم ہوگیا ۔ 332 قبل مسیح میں سکندر کی فوجیں مصر پر قبضہ کرتی ہوئی ایشیا کی جانب بڑھ گئیں جس کے نتیجے میں مصر یونانی سلطنت کا حصہ بن گیا اور مصر کی انفرادیت ختم ہوگئی۔ 27

مصر کی مجموعی سیاسی صورت حال میں ایسا نظام وضع کیاگیا تھا کہ رعایا میں موجود تمام کسان سال بھر کا غلّہ فراعینِ مصر اور مذہبی پیشواؤں کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور سالانہ بنیادوں پر خراج (Tax)ادا کیا کرتے تھے۔اہلِ مصر چونکہ بادشاہ کو دیوتا سمجھتے تھے اس لیے بھی رعایا برضا و رغبت غلّہ اور خراج ادا کیا کرتے تھے ۔فراعینِ مصر میں سیاسی بصیرت اور اچھی طرز حکمرانی کے جوہر موجود تھے تاہم ان بادشاہوں نے اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے خود کو خدا کا نائب اور سورج کا بیٹا قرار دیایعنی دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اپنی فضیلت اور اہمیت کو جتلایا۔

قدیم مصر کا حکومتی نظام اورسیاسی و سماجی ڈھانچہ بھی دیگر قدیم تہذیبوں کی طرح طبقۂ اشرافیہ کے عیاشانہ طرزِ زندگی کو برقرار رکھنےاور سامان ِ عیش و عشرت کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔اس غیر منصفانہ نظام میں صرف شاہی خاندان میں پیدا ہونے والے افراد ہی نظام ِحکومت سنبھال سکتے تھے۔تعلیم اور قابلیت کی حیثیت ثانوی تھی۔ بادشاہ اپنے عہدے کو اپنی وراثت سمجھتے تھے اور ان کے جانشین کسی اخلاقی یا سماجی ضابطے کے پابند نہ تھے۔بادشاہت کو اپنے خاندان میں رکھنے کے لیے وہ اپنی ہی بہنوں سے شادی رچا لیا کرتے تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے اس مکروہ فعل کو اپنے دیوتا ہونے کی نشانی قرار دیتے تھے۔ستم بالائے ستم یہ کہ مصر کی عوام بغیر کچھ سوچے سمجھے ان حکمرانوں کےہر فیصلے کے سامنے گردن جھکا تی تھی۔ اس طرح کی سوچ اور طرزِ عمل نے نہ صرف شاہی خاندانی نظام بلکہ پورے مصری معاشرے کےڈھانچےکو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

قدیم مصر کی گمراہی پر مبنی سوچ، ظلم و ستم ،ناانصافی اور ایک خاص طبقے کی عیش و عشرت کے لیے غریب عوام کے خون پسینے اور محنت کی کمائی لٹانے کی روش نے اس قوم کو تباہی کا شکار کر دیا اور بالآخر یہ قوم دوسری اقوام کی غلامی کا شکار ہو گئی اور اس عظمت سے کوسوں دور ہو گئی جو کسی زمانے میں ان کے آباوٴاجداد نے اپنی محنت ، لگن، انصاف، برابری اور حقیقت پسندی سے حاصل کی تھی۔

 


  • 1 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Egyptian_Government/ Retrieved: 16-11-2017
  • 2 Kathleen Kuiper (2011), The Britannica Guide to Ancient Civilizations: Ancient Egypt, Britannica Educational Publishing, New York, USA, Pg. 19.
  • 3 M. Rostovtzeff (1926), History of the Ancient World (Translated by J. D. Duff), Oxford at the Clarendon Press, Oxford, U.K., Vol. 1, Pg. 40-41.
  • 4 P.B. Shelley (1957), Ancient Egypt, Department of Education, Alberta, Canada, Pg. 58-59.
  • 5 Bob Brier & Hoyt Hobbs (2008), Daily Life of the Ancient Egyptians, Greenwood Press, London, U.K., Pg. 65-67.
  • 6 Donald B. Redford (2001), The Oxford Encyclopedia of Ancient Egypt: P-Z, Oxford University Press, Oxford, U.K., Vol. 3, Pg. 310.
  • 7 Allan B. Lloyd (2010), A Companion to Ancient Egypt, Blackwell Publishing, Sussex, U.K., Vol. 1, Pg. 202.
  • 8 مولانا سید طفیل احمد منگلوری، قدیم شہنشاہیاں، مطبوعہ: اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ ،آرمی پریس،کراچی، پاکستان،1959ء، ص:12-13
  • 9 ابو الحسن علی بن الحسین المسعودی، تاریخ المسعودی (مترجم: پروفیسرکوکب شادانی)، ج ـ1،مطبوعہ: نفیس اکیڈمی ، کراچی، پاکستان، 1985ء، ص : 289-295
  • 10 History.com (Online): https://www.history.com/topics/ancient-history/ancient-egypt Retrieved: 02-01-2017
  • 11 Lionel Casson (1969), Ancient Egypt, Time Life International, Amsterdam, Netherland, Pg. 93-96.
  • 12 پروفیسرعمر زبیری، قدیم تہذیبیں اور مذاہب، مطبوعہ : دارالشعور، لاہور،پاکستان، 2005ء ،ص:38
  • 13 Don Nardo (2015), Life in Ancient Egypt, Reference Point Press, California, USA, Pg. 29-30.
  • 14 Lionel Casson (1969), Ancient Egypt, Time life International, Amsterdam, Netherland, Pg. 93-96.
  • 15 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 34-35.
  • 16 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 142.
  • 17 Rosalie David (2003), Handbook to Life in Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 136.
  • 18 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 161-162.
  • 19 سید عین الحق ،قدیم مشرق ، مطبوعہ: مکتبۂ فریدی، کراچی، پاکستان، ص:136-138
  • 20 روفیسر عمر زبیری، قدیم تہذیبیں اور مذاہب، مطبوعہ: دارالشعور، لاہور،پاکستان،2005ء ،ص:40
  • 21 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Ramesses_II/ Retrieved: 25-04-2019
  • 22 Antony E. David & Rosalie David (1992), A Biographical Dictionary of Ancient Egypt, Seaby, London, U.K., Pg. 118-119.
  • 23 Karl-Theodor Zauzich (1992), Hieroglyphs without Mystery, University of Texas Press, Austin, USA, Pg. 30-31.
  • 24 Antony E. David & Rosalie David (1992), A Biographical Dictionary of Ancient Egypt, Seaby, London, U.K., Pg. 157-158.
  • 25 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 161-162.
  • 26 Patricia D. Netzley (2003), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Egypt, Greenhaven Press, California, USA, Pg. 88-89.
  • 27 پروفیسر عمر زبیری، قدیم تہذیبیں اور مذاہب،مطبوعہ: دار الشعور، لاہور ، پاکستان، 2005ء، ص : 47-48