Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

قدیم مصر کا معاشرتی نظام

اہل مصر کے معاشرتی معاملات کافی حدتک ان کےاعتقادات سےمنسلک تھےاسی وجہ سے ان کے روزمرہ کےمعمولات میں ایک مخصوص طَرَحْ(وضع) نمایاں تھی ۔ ان کے نزدیک زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہوا جائے، چاہے وہ طریقہ صحیح ہو یا غلط ۔ ریاست کے امراء اپنےرتبہ سے کم درجہ کے حامل لوگوں کو اپنی ملکیت تصوّر کرتے اور اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیےان پر طرح طرح کے مظالم ڈھاتے تھے۔

قدیم مصری تہذیب کی ابتدا دریاؤں کی وادیوں میں ہوئی تھی اورزمین کی کاشت کرنےکےلیےمختلف علاقوں میں لوگ آبادہوناشروع ہوگئے تھے۔ان آبادیوں نےدیہاتوں اورگاؤں کی شکلیں اختیارکرلی تھیں۔دریائےنیل کی وادی کی زرخیزی نےان انسانوں کوجو غذاکی تلاش میں خانہ بدوشوں کی زندگی بسرکررہےتھےاپنی طرف متوجہ کیا اورافریقہ، مغربی ایشیااورعرب کےلوگ یہاں آکر آباد ہونا شروع ہوگئے تھے۔ صدیوں سےدریائےنیل کا پانی صرف تیس میل چوڑے علاقے کو زرخیز کررہا تھا۔مصر میں بارش برائے نام ہی ہوتی تھی اس لیےمصرکےدیگرعلاقےریگستانی اورغیرآبادتھے۔ سال میں ایک مرتبہ نیل میں زبردست طغیانی آتی تھی جس کی بنا پرزمین کی زرخیزی بڑھ جاتی تھی اورکچھ زائدزمین زیرِکاشت آجاتی تھی۔ابتدا میں وہ وادی جسے دریائے نیل شاداب کرتاتھا ریگستانی علاقوں کےدرمیان تھی اور اسی لیے کافی عرصہ تک محفوظ رہی۔ جوقبیلے اور لوگ یہاں آکر آباد ہوگئے وہ عرصہ درازتک امن کی زندگی بسرکرتے رہے اور کاشتکاری کےساتھ ساتھ انہوں نے اپنے رہنے سہنےکے طریقوں کومستقل شکل دی اورتہذیب وتمدن کی بنیادیں رکھی تھیں۔1

5500قبل مسیح وہ سنِ تاریخ ہےجس کےبارےمیں محققین متفق ہیں کہ اس کے لگ بھگ مصرمیں باقاعدہ، باضابطہ اورمستقل رہائش کا آغازہوا تھاجس کابنیادی محورزراعت تھا۔شکارکو زیادہ اہمیت حاصل نہیں تھی بلکہ اس کےبرعکس بھیڑوں،خنزیروں اوربکریوں کوگھروں میں پالنےکا رواج عام ہوا تھا۔ان کےگوشت کےعلاوہ گندم اورجَوکو بطورِ خوراک استعمال کرنےکا بھی آغاز ہوا تھا۔پتھر کی جگہ لوہےکےہتھیاراور اوزار استعمال ہونےلگےجبکہ قالین بافی، کپڑابُننے،ظروف سازی اورجانوروں کوسدھانا روزمرہ کی زندگی کاحصہ بن چکا تھا۔یوں اس دورمیں اہلِ مصرنےخانہ بدوشی سےروایتی تہذیب اورتمدن کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی۔

قبل از بادشاہت مصرمیں بیک وقت دوتہذیبوں نےرواج پایا تھا۔انہیں جنوبی اورشمالی ثقافتوں کے نام دیےگئے تھے۔جنوبی تہذیب کےباشندےکاشتکاری کرتےتھے جبکہ شمالی تہذیب کےباسی جونخلستان میں رہنےکوترجیح دیتے تھےاپنی روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی کےلیےجانوروں اورمچھلی کےشکارپرانحصارکیا کرتےتھے۔اس عصرمیں ہنرمندی کےمختلف شعبوں نے ترقی کی۔پتھرکی صنعت کو بطورخاص ترجیح دی گئی اورتلواریں،بلیڈاورتیر بھی بنائے گئے تھے۔مصریوں نےاس فن میں اس قدرترقی کی کہ بعدازاں قدیم بادشاہت میں بھی اس عمل کی تقلیدکی گئی تھی۔اس دورمیں اشیاء صرف استعمال کےلیےہی نہیں بنائی جاتی تھیں بلکہ اس بات کا بھی خیا ل رکھاجاتاتھاکہ اشیاء کی اپنی ترتیب سےان کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو۔اس زمانےکی اہم ایجادات واختراعات میں سب سےاہم فرنیچرسازی تھی جبکہ اس کےعلاوہ نقش ونگار والے برتن، ہڈیوں اورہاتھی دانت کےکنگھےاورہرقسم کے زیورات کا سامان وافرمقداراوراعلی معیارکومدنظررکھ کرتیارکیاجاتاتھا۔چنانچہ ماہرین کہتےہیں کہ جب باقی اقوام غیر مہذب زندگی گزاررہی تھیں تو قبل ازبادشاہت مصری اپنےلیےحسن وجمال کی ایک علیحدہ دنیا بنانےمیں کامیاب ہوچکےتھے۔ 2

سماجی طبقات

دیگرقدیم اقوام کی مانندطبقاتی اونچ نیچ مصری معاشرے کی اساس تھی۔ مصری سماج طبقات میں تقسیم تھا۔ بادشاہ اوردرباری سب سےبلندمقام پر فائز تھے۔اس کےبعدجاگیرداروں،مذہبی پادریوں اورمتوسط درجہ کےلوگوں کامقام تھا۔سب سےپست غلام اورکسان تھے۔ عورتوں کامقام بھی بلند تھا۔ مصر پر عورتوں نےبھی حکومت کی، عورت اپنےمعاملات میں آزاد ہوتی اورجائیداد رکھ سکتی تھی۔3سماجی اونچ نیچ کایہ دستورصرف زندوں میں ہی کارفرما نہیں تھا بلکہ مُردوں کے لیے بھی اس کا تصوّر پایا جاتاتھا۔ تجہیزوتکفین کی رسومات میں بھی طبقاتی تقسیم ملحوظ رکھی جاتی تھی۔ان طبقات کی تفصیل درج ذیل ہے:

شاہی خاندان

شاہی رتبہ ان لوگوں کو ہی ملتا جن کا فرعون ِوقت کے ساتھ خونی تعلق ہوتا۔جیسے فرعون کی بہن، بھائی،سگےچچا، والد وغیرہ اور اس کے علاوہ کوئی اور شخص اس رتبہ کو نہیں پاسکتا تھا سوائے ان عورتوں کے جو پہلے عام عورتیں ہوتیں لیکن بعد میں وہ فرعون کے نکاح میں آجاتی تھیں۔ شاہی خاندان کے لوگوں کو خاص مراعات میسر ہوتی تھیں جس میں زندگی بھر کی آمدنی بھی شامل تھی۔ شاہی خاندان کے لوگ محل میں ہی رہا کرتے اور عیاشی کے ساتھ پرسکون زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کو کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن اگر یہ چاہتے تو اپنا من پسند کام کرسکتے تھے۔ فرعون کی اولاد جب جوان ہوجاتی تھی تو ان کی تربیت کے لیےانہیں سرکاری کام سونپے جاتے تھے تاکہ یہ لوگ مستقبل کے فرعون بننے کے اہل ہوسکیں۔

آزاد لوگ

مصر کی آزاد رعایا کو دو بنیادی حقوق میسر تھے۔ ایک سفر کرنے میں آزادی اور دوسرا معاہدہ کرنے میں آزادی کا حصول تھا۔ اس قانون کی وجہ سے قدیم مصری لوگ جائیداد لے سکتے تھے اور نکاح کرسکتے تھے ۔ عام لوگ کھیتی باڑی اور تجارت کرکے زندگی بسر کیا کرتے تھے لیکن ان میں سے وہ لوگ جو زیادہ مالدار بن جاتے تھے، انہیں سرکاری سطح پر اعلی عہدہ دے دیا جاتا تھا۔ 4

سرفز (Serfs)

مصر کے غربا کو سرفز (Serfs) کہا جاتا تھا جنہیں اپنے مالک کی زمینوں پر کام کرنا لازم تھا ۔ وہ لوگ یہ کام چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ کام مکمل کرنے کے بعد اگر وقت بچتا تو وہ لوگ اپنی زمین اور جانوروں پر بھی کام کرسکتے تھے۔ ان لوگوں کے پاس قلیل مقدار میں مال ہوا کرتا تھا جس پرسرکار بھاری لگان مسلط کردیا کرتی تھی۔ یہ لوگ کچی مٹی کی اینٹوں والے گھروں میں رہا کرتے تھے۔یہ لوگ غلام تو نہ تھے لیکن ان سے زبردستی ہر طرح کا کام لیا جاتا تھا۔ ان لوگوں سے سرکاری کام بھی لیے جاتے تھے۔ جب کھیتوں پر کام نہیں ہوتا تو ان لوگوں سے شاہی مقبروں، مندروں ، کانوں میں کام لیا جاتا تھا یا پھر جنگ پر بھیج دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان لوگوں سے ڈیموں اور نہروں کی مرمت کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ یہ کام انتہائی خطرناک ہوا کرتا تھا۔ اگر کوئی سرفز اس کام کو نہیں کرنا چاہتا تو وہ رشوت دے کر بھی اس کام سے بچ سکتا تھا۔ 5

غلام

بادشاہت کے وجود میں آنے سے پہلے غلامی کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ چھوٹی چھوٹی جنگوں میں جو لوگ قیدی بن کر آتے ، انہیں غلام بنا لیا جاتا تھا۔ انہیں جانوروں سے زیادہ حیثیت نہیں دی جاتی تھی، جانوروں کی طرح ان سے ہرادنی کام لیا جاتا تھا، بات بات پر انہیں مارنا پیٹنا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ جب مطلق العنان بادشاہت قائم ہو گئی تو شاہی طبقے کے علاوہ عام امراء یا اونچے درجے کے لوگ بھی کثیر تعداد میں لونڈی اورغلام رکھنے لگےتھے ۔ منڈیوں میں دوسرے مویشیوں کی طرح غلاموں کی بھی خرید و فروخت ہونے لگی۔ غرض چند طاقتو ریا دولت مند انسانوں نے دوسرے کمزور اور غریب قبیلوں اور خاندانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ بادشاہت کے دور میں اس قبیح فعل نے اتنا زور پکڑا کہ ہر کمزور جماعت کے افراد کو پکڑ کر زبردستی غلام بنا لیا جاتا تھا۔ کوئی قرض ادا نہ کر سکتا تو اسے بھی غلام بنا لیا جاتا تھا۔علاوہ ازیں معمولی جرائم کی پاداش میں سزا یہ دی جاتی کہ مجرم کو ، جرم ثابت ہو یا نہ ہو، غلام بنا لیا جاتا تھا۔فرعون کے ظلم و تشدد اور جوروجفا کی بھی کوئی حد نہ تھی، اسی کے اشارے پر ہر کام انجام دئےجاتے، غرض وہ ایک فرد و احد کی حیثیت سے رعایا کے ہر فرد کی قسمت کا مالک تھا۔6 مصر میں غلامی کےبارے میں کیتھلین کیوپر(Kathleen Kuiper)ا تحریرکرتی ہے:

  Slavery was never common, being restricted to captives and foreigners or to people who were forced by poverty or debt to sell themselves into service.7
  غلامی کبھی بھی اتنی عام نہیں تھی ۔ جنگی قیدی اورغیر ملکی لوگوں تک محدود تھی جوقرض ادانہ کرسکنے یا افلاس کی وجہ سے خود کو بحیثیت غلام فروخت کردیتےتھے۔

غیر ملکی غلاموں کے بارے میں مؤرخ ونڈی کریسٹنسن(Wendy Christenson)تحریرکرتی ہے:

  Most slaves were foreign war captives from Asia or Nubia. The concept of a slave as a person totally owned by another person did not exist. The line between “slave” and “citizen” was fuzzy. The personal slave of a wealthy man was often better off than a peasant. The slave could own property, and even have servants.8
  زیادہ تر غلام غیر ملکی جنگی قیدی تھے جوایشیایا نوبیاسے لائےگئےتھے۔مصر میں غلامی کا تصوّر ایسانہ تھا جیسے ایک شخص(غلام کی حیثیت سے)کسی دوسرے شخص کی ملکیت ہو۔ یعنی غلام اورعام مقامی آدمی میں بہت زیادہ فرق نہ تھا۔ایک امیر آدمی کا غلام ایک غریب کے غلام سے قدرے بہترتھا۔غلام جائیداد رکھ سکتے تھے اورکچھ غلام نوکر بھی رکھتے تھے۔

غلاموں کی حیثیت

مصریوں کے ہاں غلاموں کی حیثیت اوران کےساتھ سلوک کےبارےمیں انگریزمؤرخین نے تحریرکیاہے:

  They were also known as Hemw and were included in the Egyptian households. The Egyptian hemw had several fundamental rights. They could earn wages for their toils, for example. Also, they could own property, including land, and dispose of it as they desired. That does not mean that the hemw were treated like everyone else, however they worked long hours, they had to do whatever their masters ordered, and their movements were severely limited. Whatever these individuals are called, modern scholars generally agree that they had significantly fewer rights than other Egyptians. In whatever manner one defines the hemw, they played a significant role in society, mainly because they were paid less than free workers. That allowed their masters to get certain menial tasks done more cheaply than would have been possible using free persons’ labor. Well-to-do households and estates, like the royal palace, the mansions of nobles, and temple estates, used numerous hemw—probably thousands or even tens of thousands, although exact numbers are unknown. As for households of average means, not all kept hemw, and those that did use far fewer than did wealthy households. For homeowners who could barely afford to support their families, feeding, housing, and paying extra helpers was simply too expensive. Those average households that did keep hemw as maids and other servants likely had fewer than half a dozen. There were several different ways that a person might become a hem (singular of hemw) in Egypt. During some eras, many originated as war captives. Evidence suggests that others were free people who became hemw to work off debts they owed. Also, it appears that they could be free people who committed crimes and lost some of their rights as a punishment, while at least some were born with fewer rights because their parents were hemw.9
  مصر میں غلاموں کو ہیمو بھی کہا جاتا تھا۔ ہیمو مصری باشندوں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے۔ مصری ہیمو کو متعدد بنیادی حقوق میسر تھے۔ مثال کے طور پر یہ غلام اپنی محنت کے عوض اجرت حاصل کرسکتے تھے۔اس کے علاوہ جائیداد کے مالک بھی بن سکتے تھے، جس میں زمین یا اپنی خواہش کے مطابق اس کا کوئی حصہ لے سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ ہیمو کے ساتھ عام مصری باشندوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا بلکہ ہیمو طویل وقت تک کام میں لگے رہتے تھے، یہ غلام ہر اس حکم کی تعمیل کرنے کے پابند تھے جو ان کا مالک انہیں دیا کرتا تھا۔ ان کی آمدو رفت بھی محدود رکھی جاتی تھی۔انہیں جو بھی نام دیا جائے لیکن جدید ماہرین عمومی طور پر قبول کرچکے ہیں کہ ان غلاموں کو دیگر مصری باشندوں کی بنسبت کم حقوق حاصل تھے۔ ہیمو مصری معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے تھے، کیونکہ عام مصریوں کے مقابلے میں یہ لوگ کم اجرت کے عوض کام انجام دیتے تھے۔ اس طرح ان کے مالک بہت ادنی درجہ کے امور کم اجرت میں ہی ان سے کروالیا کرتے تھے جو عام مزدور کچھ زیادہ اجرت پر کرتے تھے۔دولت مند گھرانے اورجاگیردار ، جیسے شاہی محل، اشرافیہ کے مکانات، ریاستی معابداپنے امور کی انجام دہی کے لیے کثیر ہیمو رکھا کرتے تھے، ممکنہ طور پر ان کی تعداد ہزاروں میں بلکہ دس دس ہزار تک بھی رکھی جاتی تھی، بہرحال ان کی اصل تعدادنامعلوم ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ گھریلو کام کاج کے لیے امرا کے مقابلے میں کم ہیمو غلام رکھتے تھے۔ ان گھرانوں کے مالکان بمشکل اپنے خاندان کی کفالت، کھانے پینے کے اخراجات پورے کرتے تھے، غلاموں کی ذمہ داری اٹھانا انہیں بہت مہنگا پڑتا تھا۔متوسط طبقے کے وہ گھرانے جو ہیمو کو بطور ملازم اور دیگر سطح کے غلاموں کے رکھتے، وہ ان کی تعدادچھ سے کم ہی رکھا کرتے تھے۔ ایسے بہت سے طریقے رائج تھے کہ کوئی شخص مصر میں خود کو ہیم بنا سکتا تھا۔ کچھ ادوار ایسے بھی گزرے جن میں جنگی قیدیوں کو بھی غلام بنا لیا گیا تھا۔ اس حوالے سے بھی ثبوت ملے ہیں کہ وہ لوگ جو قرض ادا نہ کرپاتے، ہیمو بن جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ آزاد مصری شہری جو کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے، اپنے بعض حقوق سے محروم کردئے جاتے تھے۔ ہیمو کی اولادوں کو پیدائشی طور پر کم حقوق میسر تھے۔

مصری غلامی کے متعلق ایک مؤقف یہ تھا کہ غلامی پیدائشی ہوتی تھی اور غلام کا بیٹا غلام ہی ہوتا تھا۔ اس کے متعلق جیونئس پی(Junius P) لکھتاہے:

  Loprieno attests to the principle of slavery by birth, and as a rule, the offspring of slaves were regarded as slaves. Slavery could also be inflicted upon natives Egyptians as a form of punishment.10
  لوپرینو پیدائشی غلامی کے اصول کا قائل تھااسی لیے اس کے مطابق غلام کی اولاد غلام ہی ہوتی تھی۔غلامی مصرکے مقامی پربھی جبراًسزاکے طورپرمسلط کی جاسکتی تھی۔

غلاموں کی بدحالی

جیکولین ڈمبرگرین (Jacqueline Dember Greene)اس بارےمیں تحریرکرتی ہے:

  Naked slaves mined for long hours under horrible conditions. Men worked deep underground hacking at the gold ore (rocks that contained the precious metal). Children carried the stones up in baskets, and women and the elderly washed the ore. Slave miner’s lives were so unbearable that it is a thought that many wished for an early death to release them.11
  کانوں میں غلام طویل گھنٹوں انتہائی خطرناک بری حالت میں برہنہ کام کرتے تھے۔مردزیرِزمین قیمتی دھاتوں کی کھدائی کرتےجیسے(سونا) ،بچے ٹوکریوں کے ذریعےان پتھروں کو اوپرلاتے جن کی صفائی عورتیں اورعمررسیدہ مردکرتے تھے۔کانوں میں کام کرنے والےغلام اپنی زندگی سےاس قدربیزار تھے کہ وہ موت کی تمنا کرتے تھے۔

دیگر اقوام کی طرح مصرمیں بھی غلاموں کو مختلف قسم کی سزائیں دی جاتی تھیں۔ جیسے کیتھلین کیوپر (Kathleen Kuiper) لکھتی ہے:

  Punitive treatment of foreign slaves or of native fugitives from their obligations included forced labor, exile (in, for example, the oases of the western desert), or compulsory enlistment in dangerous mining expeditions.12
  غیر مصری غلاموں یا وہ مصری جو ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے، سزا کے طور پر انہیں شہر بدرکردیاجاتاتھا ، مثال کے طور پر مشرقی صحرا کے ریگستانوں میں یا بالجبر خطرناک کانوں میں کام کے لیے بھیج دیا جاتا تھا۔

غلامی کےطوق سےنجات پانے کی خواہش ہرغلام میں ہوتی ہےکیونکہ ہر انسان فطری طورپرآزاد پیداہوتاہے۔مصر میں غلاموں کی آزادی کےلیے کچھ مواقع میسر تھےجیسے ونڈی کرسٹینسن (Wendy Christenson)لکھتی ہے:

  He could purchase his freedom, or his master could free him with a word. Slaves sometimes even married members of their owners’ families, so that in the long term those belonging to households tended to be assimilated into free society.13
  قدیم مصر میں غلام اپنی آزادی خرید سکتا تھایا اس کا مالک اسے ایک لفظ سے آزاد کرسکتا تھا۔ کبھی تو غلام اپنےمالک کے خاندان میں شادی کرلیتے، یوں ان کی اس گھر سے لمبی رفاقت انہیں آزاد معاشرے کے قریب کردیتی تھی۔

مصر میں غلامی کے ان احوال سے معلوم ہوا کہ انسان کی کوئی حیثیت نہیں تھی اورنہ ہی انسانیت کےاحترام کاکوئی تصوّرموجودتھا۔ جو کام بھی ان غلاموں کا آقا چاہتا، خواہ وہ کام غلام کی قوت سے باہر ہو۔ اس لئے وہ تمام غلام جو تکلیف مالایطاق والے کاموں میں جھونک دئے جاتے وہ زندہ رہنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیتے۔

عورت کا مقا م

تاریخی دستاویزات کے مطابق ایک دور میں عورتوں کو مرد سے کم تر درجہ میں رکھا گیا تھا جبکہ اس کے اگلے دور میں ان کو مرد کے برابر کے حقوق دے دئے گئے تھے۔ کچھ عورتیں تو باقاعدہ ریاستوں کی ملکہ تک تعینا ت کی گئی تھیں اس کے علاوہ عورتوں کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ شاہی خاندان کی عورتوں کو شادی کے لیے اپنے بڑوں سے اجازت لینی پڑتی تھی جبکہ عام عورتیں اپنی مرضی سے شادی کرلیا کرتی تھیں 14 قدیم مصری عورتوں کے حالات کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

شاہی خاندان کی عورتیں

شاہی خاندان کی عورتوں کی قدیم مصری معاشرے میں بہت اہمیت تھی۔ ان کی طاقت فراعین مصر کے برابر تو نہیں تھی لیکن شاہی عورتوں کا سرکاری نظام میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ یہ عورتیں یا تو فرعون کی بیویاں ہوتیں یا اس کی باندیاں۔ ایک وقت میں فرعون بہت ساری بیویاں اور باندیاں رکھا کرتے تھے۔ ان عورتوں میں سے فراعین ایک عورت کو اپنا خاص مشیر بنا لیا کرتے تھے۔اکثر یہ خاص عورت فرعون کی بہن یا سوتیلی بہن ہوتی تھی جس سے وہ نکاح کرلیا کرتے تھے۔ ان کے مطابق شاہی خون پاک رہتا اور حکومت بھی ان کے پاس رہتی تھی۔

یہ خاص عورتیں فرعون کے ساتھ مل کر تمام شاہی کاموں میں اس کی معاونت کرتی، سفارتی معاملات میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان عورتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کی جنگ اندرون ِخانہ چلتی رہتی تھی اور اکثر یہ خواتین محل میں فساد برپا کرتی رہتی تھیں۔ بعض عورتیں تو اتنی طاقتور ہوگئی تھیں کہ انہوں نے پورے مصر کی حکومت تک سنبھال لی تھی لیکن ایسے واقعات شاذ و نادر ہی رونما ہوئے تھے۔15

حرم کی عورتیں

مصر کا ہر فرعون اپنے لیے خاص عورتوں کا ایک حرم قائم رکھتا تھا جو فرعون کو سکون و عیاشی کی سہولیات میسر کرنے کے لیے مختص تھا۔ ان عورتوں کی اکثریت ان خواتین پر مشتمل ہوتی جوغیر ملکی ہوتیں اور جنگ کے بعد غلام بنا کر یا پھر کسی غلام منڈی سے خرید کر یا فرعون کی منشا کے مطابق کسی کے بھی گھر سے اٹھا کر لائی جاتی تھیں۔ یہ عورتیں ناچنے، گانے، اور دیگر حرم کے مشاغل میں ماہر ہوا کرتی تھیں۔ ان کے فرائض میں یہ بات شامل تھی کہ بادشاہ کو دربار میں بھی محظوظ کریں۔16بادشاہ کے حرم میں صرف کنیزیں اور قیدی عورتیں ہی نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں شرفاء کی بیٹیاں اور وہ عورتیں بھی شامل تھیں جو بطور تحفہ بادشاہ کے پاس بھیجی جاتی تھیں۔ آمنہوتپ (Amenhotep-III)سوم کے متعلق تحریر ہے کہ نہرین کے بادشاہ نے اس کے حرم میں اپنی بڑی بیٹی اور تین سو منتخب لڑکیاں روانہ کی تھیں۔ 17

چونکہ حرم میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اس لیے ایک عورت کو فرعون کے ساتھ سال میں ایک یا دو بار ہی رات گزارنے کا موقع ملتا تھا۔ اگر کوئی باندی فرعون کو پسند آجاتی تو پھر فرعون اس کو اپنے آس پاس رکھتا تھا۔ اگر فرعون کی بیوی اس کو لڑکا جن کر نہ دے پاتی تو فرعون اپنی من پسند باندی کے ساتھ تعلق قائم کرکے اس سے اولاد حاصل کرلیتا اور یہ لڑکا فرعون کا شہزادہ کہلاتا تھاجو بعد میں فرعون کی جگہ بادشاہ بن جایا کرتا تھا۔ 18

عورتوں کی ذمہ داریاں

اکثر عورتوں کا کام گھر سنبھالنا اور اولاد کی پرورش کرناتھا۔ 19دیگر عورتیں یا تو دائی بن جاتیں، یا کپڑے بنانے والے کارخانوں میں کام کرتیں یا پھر گریا کرنے والی ، حاتھور دیوتا کی کاہنہ یا پجارن، یا پھر رنڈی بازی کے بازار میں کام کرنے لگ جاتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورت کو اس کی جنس کے مطابق کام دیا جاتا تھا اور یہ کام وقتا ًفوقتاً تبدیل بھی کردیا جاتاتھا۔ ان کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ طبیب بھی بننے دیا جاتااور جب ضرورت نہیں ہوتی تو پھر ان کو صرف بچوں کی دیکھ بھال ، ناچنے، گانے اورمردوں کے دل بہلانےوالے کاموں میں لگا دیا جاتا تھا۔

غلام کی مالکن

قدیم مصر میں عام رواج تھا کہ عورتیں غلام کے طور پر صرف عورتوں کو ہی رکھتی تھیں لیکن بعض کو مرد غلام رکھنے کی بھی اجازت تھی۔ یہ مرد غلام عموما ان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے رکھے جاتے اور اگر وہ غلام ایسا نہ کرتے یا جنسی تسکین نہیں پہنچا پاتے یا کسی اور عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتے تو ان کو مارا پیٹا جاتا اور سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ 20یہ عورتیں اس طرح کےغلام اس لیے رکھتی تھیں کیونکہ ان کے شوہر یا تو اپنی باندیوں کے ساتھ مصروف رہتے یا پھر ان کو کسی اور وجہ سے جنسی تسکین نہ دے پاتے تھے۔

شادی

زرخیزی چاہے انسانوں میں ہو یا جانوروں میں یا فصل کی پیداوار میں، قدیم مصریوں کے نزدیک اس کی بہت اہمیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مصری لوگ جلد سے جلد شادی کرکے بچے پیدا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ 21مصریوں کے ہاں نکاح محرمات کی اجازت تھی اور شاہی خاندان تو اکثر اسی رسم کو اپنایا کرتے تھے۔ بہن بھائی کے درمیان نکاح ایک عام رواج تھا۔22 اس کے علاوہ فرعون اپنی سلطنت کو اپنے ہی خاندان میں رکھنے کے لیے اپنی ماں، بیٹی اور دیگر محرمات سے بھی نکاح کیا کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آخیناٹن (Akhenaten) نے اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ شادیاں کی جن سے اسے مزید اولاد بھی ملی۔ رامسس دوئم (Ramses II) نے بھی اپنی ایک بیٹی کے ساتھ نکاح کیا تھا۔23

ان کے نزدیک جنسی تسکین حاصل کرنا ایک تفریحی مشغلہ تھا اور اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی تھی لیکن بہتر تھا کہ یہ معاملہ شادی کے بعد کیا جائے۔ مزید یہ کہ قدیم مصری لوگ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ مرنے کے بعد زندگی کا تسلسل چلتا رہتا ہے ۔لہذا ان کا یقین تھا کہ جنسی معاملات بھی چلتے رہتے تھے۔ اسی لیے یہ لوگ اپنی حنوط شدہ مرد کی لاش پر آلہ تناسل لگا دیتے اور حنوط شدہ عورتوں کی لاشوں پر پستان لگا دیتے تھے۔24

شادی کے لیے کوئی مذہبی یا قانونی رسوم ادا نہیں کی جاتی تھیں۔25 اکثر نکاح والدین کی باہم رضامندی سے مقرر ہوتے اور سارےمعاملات نکاح سے پہلے طے کرلیے جاتے تھے۔ کچھ مقامات پر محبت کی شادیاں بھی ہوئیں لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔ 26جب لڑکا پندرہ سے بیس سال کا ہوتا اور لڑکی بارہ سے چودہ سال کی ہوجاتی تو ان کا نکاح کردیا جاتا تھا۔27 شادی کی تقریب کے لیے دولہا اور دلہن کے خاندان اکھٹے ہوتے۔ شادی سے پہلے ضروری تھا کہ دولہا دولہن کو اس کا کنوارہ پن ختم کرنے کے عوض معاوضہ دے،یہ صرف پہلی شادی پر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ رہنا شروع ہوجاتے اور اولاد کے لیے کوشش کرتے تھے۔28شادی کے بعد شوہر کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی بیوی کو ماہانہ نان نفقہ ادا کرے۔ بادشاہ ایک سے زائد شادیاں کرسکتا تھا لیکن عام لوگ صرف ایک ہی شادی کرتےتھے ۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کو اجازت تھی کہ وہ ایک محبوبہ یا باندی رکھ لیں جس سے اپنی جنسی تسکین پوری کرسکیں۔29

طلاق

شادی کے وقت دلہا دلہن یہ گمان کرتے کہ ان کا ساتھ مرتے دم تک قائم رہے گا لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوپاتا تھا۔ان میں سے کچھ جوڑوں کےدرمیان طلاق بھی واقع ہوجاتی تھی۔ طلاق کے بعد مرد اور عورت الگ الگ رہا کرتے۔30طلاق قانونی طریقہ سے ہوتی تھی جس کے بعد مرد اور عورت کو دوسری شادی کی اجازت تھی۔ اگر مرد عورت کو طلاق دیتا تو اس پر واجب تھا کہ وہ عورت کا تمام جہیز واپس لوٹادے بلکہ کچھ معاملات میں تو اس کا دگنا بھی لوٹانے کا کہا جاتا تھا۔ اگر عورت طلاق دیتی تو اس پر واجب تھا کہ جو اسے شادی کے وقت مرد کی طرف سے تحفہ ملا ہو، اس کی آدھی مقدار واپس کرے۔ طلاق کے بعد بھی مرد پر واجب تھا کے وہ عورت کو نان نفقہ دیتا رہے جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے۔ 31

تفریحی مشاغل

قدیم مصر میں روم کی طرح بڑے بڑے تھیٹر موجود نہ تھے لہذا تفریح کے لیےوہ اپنے دیوتاؤں کے نام پر موسیقی کی محافل کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ بڑے بڑے مندروں میں مرد اور عورتیں پروہت اپنی دیوتاؤں کی زندگی پر مبنی ناٹک کیا کرتے جن کی مذہبی اہمیت تو اپنی جگہ تھی لیکن یہ لوگوں کی ایک تفریح کا بھی ذریعہ تھا۔ اس کے علاوہ جو بھی مذہبی و معاشرتی تہوار ہوتے وہ بھی ان لوگوں کے لیے تفریح کا سامان ہوتے تھے۔ 32

گھروں کی تعمیرات

غریب لوگوں کے اور غلاموں کے گھر بالکل سادہ طرز کے ہوتے جنہیں کچی مٹی کی اینٹوں سےبنایا جاتا تھا۔33 ان کی ہئیت مستطیل شکل کی رکھی جاتی تھی۔ گھر میں ایک چھوٹا سا صحن ہوتا اور کچھ کمرے بنائے جاتے تھے۔ جن لوگوں کے پاس وسائل زیادہ ہوتے وہ لوگ گھر میں چھوٹا سا باغیچہ بھی بنواتے اور دو منزلہ عمارتیں تعمیر کرواتے تھے۔ گھر میں روشندان ایسے مقامات پر نصب کیا کرتے کہ روشنی اور ہوا دونوں آرام سے گھر میں داخل ہواور گھر ہوا دار رہے۔ جن لوگوں کے پاس وسائل ہوتے وہ گھروں کے اندر استنجاخانے بھی بنوالیتے جبکہ غریب لوگ اپنی رفع حاجت کے لیے گھر سے باہر جایا کرتے تھے۔ مزید یہ کہ گھر میں خوراک کا ذخیرہ اور جانوروں کے رکھنے کےلیے بھی کمرے بنائے جاتے تھے۔34ان گھروں کو بنانے کے لیے ٹمبر (Timber)کی لکڑی، پتے اور دریائے نیل کی چکنی مٹی استعمال کی جاتی تھی۔ عمارت کو مضبوطی دینے کے لیے ضروری جگہوں پر پتھربھی نصب کیےجاتے تھے۔35 گھروں کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے چھتوں کو اس طرح تعمیر کیا جاتا کہ سارا پانی بہہ کر زمین پر آجائے۔ اس سے دیواریں اور گھر کے اندر کا حصہ محفوظ رہتا تھا ۔

جمالیاتی ذوق

مصریوں کاجمالیاتی ذوق بہت ترقی یافتہ تھا۔ان کوفنونِ لطیفہ مثلاًموسیقی، زرگری، مصوری،سنگ تراشی اورفنِ تعمیرمیں کامل دسترس حاصل تھی۔اس ترقی نےعیش وعشرت کےتمام لوازمات انہیں فراہم کردئے تھے۔بربط،بانسری اورستارکی قسم کےساز ایجادہوچکےتھے۔ملک کےاندرساز بجانےوالوں اور رقاصاوٴں کا ایک تربیت یافتہ طبقہ موجود تھا۔36رقص وسرورکی محفلیں آئےدن گرم رہتی تھیں۔شراب نوشی کی کثرت تھی اورعورتیں بھی شراب پیتی تھیں۔بادشاہ خودمندروں کوشراب مہیاکرتاتھا۔ 37

آرائش وآسائش کے سامان کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ 38 ان کےمکانات کےاندررنگ برنگے خوبصورت گدے ، مسہریاں اورکرسیاں موجودتھیں۔رؤساکےمکانات کےساتھ بالعموم باغ ہوتےتھےجہاں قِسم قِسم کےپودے اورپھل داردرخت لگےہوتےتھے۔39 بیچ میں ایک تالاب ہوتاتھا۔جس پرنیلوفرکی لٹیں پھیلی ہوتی تھیں۔پانی کےاوپران کےپھول بہت بھلےمعلوم ہوتے تھے۔اہلِ خانہ باغ کے اندر اپنے دوستوں کےساتھ شراب نوشی کرتےاوررقص وسرورکی محفلوں سے محظوظ ہوتے تھے۔رقص میں صرف عورتیں حصہ لیتی تھیں۔مردوں کےرقص کرنےکاثبوت نہیں ملتا۔کمسن لڑکیوں کاناچ زیادہ پسندکیا جاتاتھا۔40

دونوں جنسوں میں فیشن پایا جاتا تھا ۔ عورتیں اپنے ناخنوں ، ہونٹ ، چہرے اور بھنووں کو رنگتی تھیں اور سرمے کا استعمال کرتی تھیں۔41 حسن پرستی نے زیورات سازی کے فن کو غیر معمولی تر قی دی تھی ۔ خوبصورت ، سبک اور نازک زیورات کثرت سے بننے لگے تھے ۔زیورات سازی اور زرگری میں دنیا کی تمام قدیم تہذیبیں مصر سے پیچھے رہ گئی تھیں۔ بابل ہو یا چین ، سندھ ہو یاآشوریہ کہیں بھی مصری نزاکت اور فنکارانہ خوبیاں اس حد تک نہیں پائی جاتی تھیں ۔تمام مصری زیورات سونے اور چاندنی کے بنائے جاتے تھے۔ بعض کے اوپر جواہرات جڑے جاتے تھے ۔ عورت مرددونوں میں زیورات پہننے کا رواج تھا ۔ بار اور انگوٹھیوں کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا تھا۔42

لباس

مصری لباس میں زمانہ کےساتھ تبدیلیاں ہوتی رہی تھیں۔قدیم سلطنت کےدورمیں عورتیں اورمرد نیم برہنہ رہتے تھے۔جسم کا بالائی حصہ بالعموم کھلارہتاتھا۔43پروہتوں کوبھی مجسموں میں نیم برہنہ دکھایاگیاہے۔سلطنت وسطی اورسلطنت جدیدمیں کُرتے،تہبنداوردستارکااضافہ ہوا تھا۔عورتوں کےلباس میں کُرتےاورتہبندکےعلاوہ ایک لمبا چوڑا دوپٹہ بھی شامل کیاگیا تھاجوشانےاورسینےپرپھیلاہوتا مگر کھلا رہتا تھا۔44 اونچےطبقےکی عورتیں ایک قسم کا تاج پہنتی تھیں۔ لباس پرگاڑھےاورزردوزی کاکام ہوتاتھا۔بالوں کوتراشنےاورمانگ نکالنےکےبھی مختلف طریقےرائج تھے۔ رؤسا کےکپڑے بالعموم باریک دھاگےکےہوتےتھےجن پرزرکاکام کیا جاتا تھا۔ منقش اورچھپےہوئےکپڑوں کااستعمال بھی عام تھا۔ مردوعورت دونوں مصنوعی بال کی ٹوپیاں پہنتےتھے۔اونچےطبقےمیں چپلوں کارواج تھا۔غرض مصری زندگی میں نفاست اورخوش سلیقی کےساتھ ساتھ نزاکت اورعریانیت بھی آگئی تھی۔45

عورتوں میں چھاتیوں کو برہنہ چھوڑنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔اونچے گھرانے سے تعلق رکھنے والی خواتین بعض اوقات چھاتیوں کے نیچے سے ٹخنوں تک لباس پہنتی تھیں۔ نچلے درجے کی خواتین صرف ایک کمر بند پہنتیں اور چھاتیوں کو برہنہ چھوڑدیا کرتی تھیں۔46

دیگر تفریحی اشغال

رقص وسرورکےعلاوہ مصری تفریحات میں اوربھی بہت سےکھیل تماشےداخل تھے۔پانسوں کاکھیل عام طورپررائج تھا۔ مختلف قسم کےپانسےوہاں سے دستیاب ہوئےہیں۔ کُشتی، مُکّہ بازی، بیلوں کو لڑانا اورمچھلیاں شکار کرنا ان کےدوسرےمشاغل تھے۔ گھروں کےاندربندروں کےپالنےکارواج اسی طرح تھاجس طرح آج کل یورپ میں کتوں کےپالنےکا ہے۔عورتیں اوربچےبندروں سےکھیلاکرتےتھے۔بچوں کےکھیل میں گولیاں اورگیندبھی شامل تھے۔47

عصمت فروشی

عصمت فروشی کو دنیا کے قدیم کاروباروں میں گنا جاتا ہے۔ قدیم مصر میں تو یہ اتنی عام تھی کہ اس کی کمائی سے مصر کے کچھ اہرام کی تعمیر کی گئی تھی۔48 اس بادشاہ کا نام کئوپس (Cheops)بتایا جاتا ہے جس نے اپنے اہرام کو تعمیر کرنے کے لیے اپنی بیٹی سے عصمت فروشی کروائی جب کہ ایک اور بادشاہ نے فقط چور کا پتہ چلانے کے لیے اپنی شہزادی سے عصمت فروشی کروائی تھی۔

قدیم مصر میں یہ اتنی عام بات اس لیے تھی کیونکہ اسے مذہب کی آڑ میں کیا جاتا تھا۔ بلکہ لوگ تو اپنی خوبصورت ترین بچیوں کو مندر کے پروہتوں کے حوالےکردیتے اور پروہت ان کے ساتھ اپنی جنسی خواہشات بھی پوری کرتے اور ان سے دیگر کام بھی لیتے تھے۔ جب یہ لڑکی بڑی ہوجاتی اور عموما پروہت کا اس سے دل بھر جاتا تو اسے وہ گھر بھیج دیتاتھا۔ اس لڑکی کا بہت ادب و احترام سے گھر میں استقبال کیا جاتا تھا۔ پھر ان لڑکیوں کا کسی بڑے خاندان میں نکاح کردیا جاتا تھا۔ان کے والدین اس قبیح رسم کو بہت فخر و شرف کا باعث سمجھتے تھے۔ مزید یہ کہ عام لڑکیاں بھی شادی کرنے سے پہلے تک عصمت فروشی کیا کرتی تھیں۔49

عام طور پر عصمت فروش خواتین وہ ہوتیں جن کو ان کے شوہر چھوڑ جاتے تھے۔ جب کہ امرا جس سے چاہتے اپنی جنسی خواہش پوری کر لیتے تھے۔ یہ رواج عام تھا کہ امیر آدمی اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے غریب کی بیٹیوں سے زیادتی کرے۔اس دور کا ایک طاقتور آدمی اس فعل میں اتنا ملوث تھا کہ وہ بے باکی سے کہتا تھا "کوئی ایسا عام شہری نہیں جس کی بیٹی کی عصمت مجھ سے محفوظ رہی ہو"۔50

ہم جنس پرستی

قدیم مصر میں ہم جنس پرستی کی بنیاد ان کی مذہبی دیومالائی کہانیوں نے ڈالی تھی۔ ان کہانیوں میں مذکور ہے کہ ہورس(Horus) کو اپنے ماتحت کرنے کے لیے سیتھ(Seth) نے اس کے ساتھ اغلام بازی کرنے کی کوشش کی ، لیکن ہورس نے سیتھ کو پچھاڑ دیا اور سیتھ کو چالاکی سے اپنا نطفہ پلانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس وجہ سے سیتھ حاملہ ہوگیا تھا۔ایک اور دیو مالائی کہانی میں مذکور ہے کہ ایک دیوتا جس کا نام مِن تھا ایک دشمن کے ساتھ اغلام بازی جیسا فعل کیا جس کے نتیجے میں اس دشمن نے تھوت نامی دیوتا کو جنم دیا۔ اسی وجہ سے مصری لوگ جنگ میں ہار جانے والے دشمنوں کے ساتھ بدفعلی کیا کرتے تھے۔یہ بھی تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ دینا کا پہلا اغلام بازی کا واقعہ شہنشاہ پیپی دوم (King Pepy II)اور اس کے جنرل سیسین (Sisinne)کے درمیان پیش آیا تھا۔ واقعہ کے مطابق شہنشاہ چھپ چھپ کراس فعل کو سر انجام دینے کے لیے سیسین کے پاس جایا کرتا تھا۔ کچھ ایسی کتابیں بھی دریافت ہوئی ہیں جس میں مذکور ہے کہ قدیم مصر میں مرد طوائف بھی موجود تھے۔ان کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ مصر میں ہم جنس پرست عورتیں (lesbian)بھی موجود تھیں51 گویا دور حاضر میں ہونے والی تمام رذیل و فحش حرکات جو کسی بھی درجے میں غیر اخلاقی بلکہ قبیح ترین بد کاریاں ہیں ان سب میں اہل مصر استاد کا درجہ رکھتے تھے اور انکی ہر بدفعلی کی سند انکے جھوٹے خود ساختہ خداؤں سے ملتی تھی جو ایک طرف انکی ذہنی غلاظت اور عیاشی کا ثبوت ہے تو دوسری طرف انکی مذہبی گمراہی اور بد دین ہونے پر دال ہے جو ان کو کبھی بھی منصب امامت کے لائق بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی ۔

شراب نوشی

قدیم مصر میں بیئراور شراب پانی کی طرح پی جاتی تھی ۔ معاشرے کا ہر طبقہ خواہ بڑا ہو یا بچہ، شراب نوشی کیا کرتا تھا۔مقدس اور شاہی تعمیری کاموں کو سر انجام دینے والے مزدوروں کو تنخواہ کے طور پر دن میں تین مرتبہ بیئر دی جاتی تھی۔ جو لوگ شراب خرید سکتے تھےاس کو پتلا کیے بغیر پیتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ دعوتوں میں بے پناہ شراب پی جاتی تھی جس کے نتیجے میں مہمان مدہوش ہوجاتے اور ان کے غلام انہیں گھر لے جایا کرتے تھے۔52

ناچنا

قدیم مصر میں جتنی بھی موسیقی کی محافل ہوتیں اس میں ناچ کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ جو گوئیے ہوتے وہ اپنے ساتھ ہی ماہر ناچنے والیوں کو لاتے تھے53جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہوا کرتے تھے۔54عورتوں کا ناچ دیکھنے سے ان لوگوں کو جنسی تفریح بھی حاصل ہوتی تھی۔ ناچنے والی خواتین عموما برہنہ حالت میں ناچتیں اور سجاوٹ کے لیے ایک ہار یا کمر پر باریک سا کپڑا باندھا کرتی تھیں۔ ان عورتوں نے خاص قسم کی خوشبو لگائی ہوتی جس سے دیکھنے والے کو اور سرور آتا تھا۔55

قدیم مصر کی معاشرت کے مطالعہ سےپتہ چلتا ہےکہ جب زندگی کا مقصد خالق ِحقیقی کی عبودیت کے بجائے نفسانی لذات کا حصول ہو تو بڑی سے بڑی اور طاقتور ترین ریاستیں بھی زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ انسان، انسانیت کے درجے سے گر کر ایک حیوان بن جاتا ہے اور ان حرکات کا مرتکب ہوتا ہے جس سے شیطان بھی شرما جائے۔ قدیم مصری تہذیب کا بھی یہی حال تھا۔ ان کے نزدیک عورت کی قدر ایک جنسی تسکین اور تفریح پہچانے والے آلہ سے زیادہ نہ تھی۔ ہم جنس پرستی کو مذہبی دلائل سے ثابت کیا گیا تھا اور شراب نوشی عام تھی اور یہی وہ اخلاقی برائیاں تھی جو اہل مصر کے زوال کے دوسرے اسباب میں سے ایک اہم سبب بنی تھیں۔

 


  • 1 پروفیسرعمرزبیری، قدیم تہذیبیں اورمذاہب، مطبوعہ: دار الشعور،لاہور،پاکستان،2005ء، ص:32
  • 2 ذوالفقارارشدگیلانی، تاریخ کا سفر، مطبوعہ:علم دوست پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،ص:44- 45
  • 3 پروفیسربشیراحمد خان، دنیا کی تاریخ،مطبوعہ: مکتبہ نظامیہ، کراچی، پاکستان،1957ء، ص:25
  • 4 Bob Brier & Hoyt Hobbs (2008), Daily Life of the Ancient Egyptians, Greenwood Press, London, U.K., Pg. 77-79.
  • 5 Wendy Christensen (2009), Empire of Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 87-89.
  • 6 ادارۂ تالیف و تصنیف، انقلابات عالم، مطبوعہ:شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور،پاکستان، 1960ء، ص:27-28
  • 7 Kathleen Kuiper (2011), The Britannica Guide to Ancient Civilizations: Ancient Egypt, Britannica Educational Publishing, New York, USA, Pg. 18.
  • 8 Wendy Christensen (2009), Empire of Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 89.
  • 9 Don Nardo (2015), Life in Ancient Egypt, Reference Point Press, Sandiego, California, USA, Pg. 38-39.
  • 10 Junius P. Rodriguez (1997), The Historical Encyclopedia of World Slavery, ABC-Clio, California, USA, Vol. 1, Pg. 243.
  • 11 Jacqueline Dember Greene (2000), Slavery in Ancient Egypt and Mesopotamia, Watts Library, New York, USA, Pg. 42-44.
  • 12 Kathleen Kuiper (2011), The Britannica Guide to Ancient Civilizations: Ancient Egypt, Britannica Educational Publishing, New York, USA, Pg. 18.
  • 13 Wendy Christensen (2009), Empire of Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 89.
  • 14 Margaret R. Bunson (2002), Encyclopedia of Ancient Egypt, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 451-452.
  • 15 Joyce E. Salisbury (2001), Encyclopedia of Women in the Ancient World, ABC Clio, California, USA, Pg. 94-95.
  • 16 Wendy Christensen (2009), Empire of Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 77-78.
  • 17 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon & Schuster, New York, USA, Pg. 146.
  • 18 Wendy Christensen (2009), Empire of Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 77-78.
  • 19 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 43.
  • 20 Sarah B. Pomeroy (1984), Women in Hellenistic Egypt, Schocken Books, New York, USA, Pg. 128-129.
  • 21 Sarah B. Pomeroy (1984), Women in Hellenistic Egypt, Schocken Books, New York, USA, Pg. 35.
  • 22 New World Encyclopedia (Online Version): http://www.newworldencyclopedia.org/entry/Ancient_Egypt Retrieved: 20-08-2017
  • 23 Paul John Frandsen (2009), Incestious and Close Kin Marriage in Ancient Egypt and Persia, Museum Tusculanum Press, Denmark, Pg. 39.
  • 24 New World Encyclopedia (Online Version): http://www.newworldencyclopedia.org/entry/Ancient_Egypt Retrieved: 20-08-2017
  • 25 Don Nardo (2015), Life in Ancient Egypt, Reference Point Press, California, USA, Pg. 44.
  • 26 Ibid, Pg. 34-35.
  • 27 أبو المحاسن محمد عصفور، معالم حضارات الشرق الأدنى القديم، مطبوعة: دالنهضة العربية، القاهرة، مصر،1408ھ، ص: 20-19
  • 28 Don Nardo (2015), Life in Ancient Egypt, Reference Point Press, California, USA, Pg. 34-35.
  • 29 Ibid, Pg. 44.
  • 30 Bob Brier & Hoyt Hobbs (2008), Daily Life of the Ancient Egyptians, Greenwood Press, London, U.K., Pg. 79-80.
  • 31 Ibid, Pg. 79-80.
  • 32 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 52-53.
  • 33 Joan Jovinelly & Jason Netelkos (2002), Crafts of the Ancient World: The Crafts and Culture of the Ancient World, Rosen Central, New York, USA, Pg. 36.
  • 34 Bob Brier & Hoyt Hobbs (2008), Daily Life of the Ancient Egyptians, Greenwood Press, London, U.K., Pg. 155-157.
  • 35 Dieter Arnold (2003), The Encyclopedia of Ancient Egyptian Architecture, Princeton University Press, New Jersey, USA, Pg. 110.
  • 36 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon Schuster, New York, USA, Pg. 192.
  • 37 Sir Ernest A. Wallis Budge (1940), Egypt, Thornton Butterworth Ltd., London, U.K., Pg. 188.
  • 38 Margaret A. Murray (1949), The Splendour that was Egypt, Sidgwick Jakson Ltd., London, U.K., Pg. 113-115.
  • 39 Arthur Weigall (1934), A Short History of Ancient Egypt, Company and Hall Ltd., London, U.K., Pg. 142.
  • 40 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon Schuster, New York, USA, Pg. 166.
  • 41 Ibid, Pg. 169.
  • 42 Ibid, Pg. 170.
  • 43 Margaret A. Murray (1949) The Splendour that was Egypt, Sidgwick Jakson Ltd, London, U.K., Pg. 120-122.
  • 44 James Henry Breasted (1912), A History of Egypt, Charles Scribner’s & Sons, New York, USA, Pg. 348- 349
  • 45 Will Durant (1942), The Story of Civilization, Simon Schuster, New York, USA, Pg. 168
  • 46 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/article/1037/fashion--dress-in-ancient-egypt/ Retrieved: 02-11-17
  • 47 سیدعین الحق، قدیم مشرق، مطبوعہ:مکتبۂ فریدی، کراچی، پاکستان، ص: 151 -154
  • 48 Melissa Hope Ditmore (2006), Encyclopedia of Prostitution and Sex Work, Green Wood Press, Westport, USA, Vol. 1, Pg. XXVI
  • 49 Nawal El Saadawi (1985), Prostitution in Egypt, UNESCO, Paris, France, Pg. 1-2
  • 50 James Bronson Reynolds (1914), Sex Morals and the Law in Ancient Egypt and Babylon, Northwestern University School of Law, Illinois, USA, Vol. 5, Issue. 1, Article-4, Pg. 21-22
  • 51 Wayne R. Dynes (1990) Encyclopedia of Homosexuality, Garland Publishing Inc., New York, USA, Vol. 1, Pg. 350-351.
  • 52 Norman Bancroft Hunt (2009) Living in Ancient Egypt, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 24-26
  • 53 Charlotte Booth (2007), The Ancient Egyptians for Dummies, John Wiley & Sons Ltd., West Sussex, U.K., Pg. 152
  • 54 Brian T. P. Mutimer (1976), Women-Sex Objects in Ancient Egypt, Education Resource Information Center, USA, Pg. 5
  • 55 Charlotte Booth (2007), The Ancient Egyptians for Dummies, John Wiley & Sons Ltd., West Sussex, U.K., Pg. 152