قدیم مصریوں کی زندگی میں مذہب کا اہم حصہ تھا۔ وہ لوگ زندہ اور مردہ بادشاہوں کی پوجا کرتے ، ان کی دیومالائی کہانیوں کو تصویروں میں محفوظ کرتے ، ان کے نام پر چڑھاوے دیتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر دیوتاؤں کی بھی پوجا کرتے تھے۔ یہ تمام مذہبی رسومات ان کی زندگی کا ایک لازمی اور اہم حصہ تھیں۔ ان رسومات کو وہ اکثر مندروں میں ادا کرتے تھے۔
قدیم مصریوں کا ماننا تھا کہ تمام زندہ، مردہ، یہاں تک کہ ان کے دیوتا بھی بنیادی ضرورتوں کےمحتاج ہیں جیسےکہ کھانا ، پینا، آرام و تفریح وغیرہ۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ زندہ انسانوں کی ضرورتیں گھر میں پوری ہوتی ہیں، مردوں کی قبر وں میں اور دیوتاوٴں کی مندروں میں۔ 1 جس طرح ان کے معبودان باطلہ کثیر تھے، اسی طرح پورے مصر میں ان کے معابد بھی کثیر تعداد میں موجود تھےجس کی تفصیل درج ذیل ہے:
مصر کے مشہور شہر اسکندریہ سےبرآمد ہونےوالے آثارمیں قدیم مصریوں کے مندروں کے نشانات ملےہیں۔مصرِ قدیم میں مذکورہے:شہر کے جنوبی حصے سے پامپے مینار نامی مقام پرسیراپیوم(Serapeum)یا سراپس (Serapis)دیوتا کے مندرکے آثار برآمد ہوئے جس کے صرف تہہ خانے اورمحراب باقی بچے ہیں۔ کہاجاتاہےکہ اسے بطلیموس اول(Ptolemey)(322-225قبل مسیح)نے اپنی یونانی اور مصری رعایا کے لیے بنوایا تھا۔لیکن کھدائی میں دریافت شدہ ایک لوح سے یہ پتہ چلتا ہےکہ مندر بطلیموس ثالث کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔مصر کے دوسرے مقامات پر بطلیموس (Ptolemey) خاندان کے حکمران نے روایتی مصری طرز کے مندروں کی بھی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ان میں سے ایک مندر بالائی مصر کے مقام ادفو (Idfu)میں قائم ہے۔ جو دست برد زمانہ سے تقریباًپوری طرح محفوظ رہ گیاہے۔ 2
کارنک کا مندر مصر کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔کارنک کے مندر کےبارےمیں انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکامیں ہے:
Karnak contains the northern group of the Theban city temples, called in ancient times Ipet-Isut, “Chosen of Places.” The most northerly temple is the Temple of Mont, the war god, of which little now remains but the foundations. The southern temple, which has a horseshoe-shaped sacred lake, was devoted to the goddess Mut, wife of Amon; this also is much ruined. 3
تھیب شہر کےمندروں کا مجموعہ کارنک میں پایا جاتاہے ، اسے قدیم دور میں ایپٹ ایست (Ipet-Isut)کہاجاتاتھا۔ یعنی تمام مقامات میں سے چنی ہوئی جگہ۔شمال میں "مونٹ"کا مندر ہےجو جنگ کا دیوتاتھا مگراب اس کی صرف بنیادیں باقی رہ گئی ہیں۔ جنوب کا مندرجس میں گھوڑےکی نعل کی صورت میں ایک مقدس جھیل ہے،امون کی بیوی دیوی مَت کی جانب منسوب ہے۔یہ مندر بھی کافی تباہ حال ہے۔
مصر کے شہر لکسر میں واقع قدیم کارنک کامندر۔4
ملکہ ہتشیپست کے مندر کےبارےمیں بلیک مین تحریرکرتاہے:
The most famous, and probably the most beautiful, of all the royal funerary temples is that of Queen Hatshepsut, which, like all the others, was dedicated to the worship of Amun, but also contained chapels of Anubis, the tutelary god of the dead, and the goddess Hathor, in whose cult women figured so prominently. This temple with its three terraces, each connected with the other by an inclined way, and its beautiful colonnades composed of rectangular and polygonal columns, is a unique product of Egyptian architectural genius.5
شاہانہ مندروں میں سب سے مشہور اور خوبصورت ملکہ ہتشیپست کا مندرتھا۔ یہ مندر دوسرے مندروں کی طرح آمون کی عبادت کے لیے وقف تھا۔ اس میں آنوبیس کی عبادت گاہیں بھی موجود تھیں۔ اس مندر میں مردوں کا نگہبان دیوتا اور حاتھور نامی دیوی کا مجسمہ بھی تھاجس کے مسلک میں عورت کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ یہ مندر آج بھی اپنے تین خوبصورت آنگن کی وجہ سے مصری فن تعمیر کا ایک بہترین شاہ کار ہے۔یہ آنگن ایک دوسرے سے ترچھے راستوں سے متصل ہےاور ان کی خوبصورت محرابیں مستظیلی اور پنج سمتی ستونوں پر مشتمل ہیں ۔
قدیم مصر ی تاریخی دستاویزات کے مطابق پروہتوں کی مصر ی معاشرے میں بہت اہمیت تھی۔ دستاویزات کے علاوہ ان پروہتوں کے مجسمے آج بھی ان احرا موں اور مندروں میں موجود ہیں۔ 6مصر کے بادشاہ یا فرعون کو سب سے بڑا پروہت مانا جاتا تھا اور سب سے اہم مذہبی رسوم کو وہی ادا کیا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ جب مذہبی رسومات اور ذمہ داریاں بڑھتی گئیں تو بادشاہ نے دیگر پروہتوں کو اپنا نائب بنا لیا تھا۔7پروہتوں کے بھی مختلف درجات تھے اور ہر درجہ کے پروہت کی اپنی ذمہ داریاں تھی ۔ کچھ صرف مندروں میں کام کیا کرتے جبکہ کچھ میت کی تدفین اور دیگر مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ پروہت باقاعدہ اجرت پر کام کرتے تھے ۔انہیں کام سے فارغ بھی کیا جاتا تھا۔ان پروہتوں کی بہت سی اقسام تھیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
زیادہ تر پروہتوں کو واب (Wab)کا لقب دیا جاتا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ یہ پروہت ابتدائی درجہ کا ہے۔ اس لقب کا مطلب تھا پاک آدمی ۔ پروہت ابتدائی درجہ سے محنت کرکے آگے جاکر دیگر القابات بھی پاسکتا تھا۔ ان پروہتوں کی کوئی خاص وردی نہیں تھی۔ یہ لوگ مندروں اور مقبروں دونوں میں ا پنے فرائض ادا کیا کرتے تھے۔ ان کی اہم ترین ذمہ داری یہ تھی کہ جنازے کے تمام چڑھاوے یہ ادا کریں ۔ اس کے علاوہ عام عبادات میں بھی چڑھاوے دینے کی ذمہ داری انہی پروہتوں کی تھی ۔ چونکہ ان کی طہارت کا درجہ کم تھا اس لیے یہ مندر کے ہر حصہ میں نہیں جاسکتے تھے۔ 8
قبر کے پاس ماہانہ یا اس کے علاوہ جو ضروری چڑھاوے دینا ہوتے، ان کا دینا ہیمکا(Hem-ka) کی ذمہ داری تھی ۔ یہ ایک بہت ضروری عمل سمجھا جاتا تھا ۔ چڑھاوا مرنے والے کے رشتہ داروں کے ساتھ مل کردیا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ میت کو اور اس کے رشتہ داروں کو عبادات کرکے اور چڑھاوے دے کر پرسکون رکھنا بھی اسی کے فرائض میں شامل تھا۔ ہیمکا(Hem-ka) کے لئے ان جادوئی منتروں کا بھی جاننا ضروری تھا جس کے ذریعہ میت کو کھانا پہنچایا جاتا تھا۔ اس پر لازم تھا کہ وقت پر کھانے اور مشروبات کے چڑھاوے ادا کرے۔ 9
لیکٹر پروہت (Lector Priest) کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ پڑھ سکتے تھے اور ان کی ذمہ داری مندر میں اور میت کی آخری رسومات ادا کرتے وقت مذہبی اوراد کا پڑھنا تھا۔ یہ پروہت ایک خاص سیش(Sash) پہنا کرتے تھے جو ان کے کندھے سے ہوتے ہوئے کولہے تک جاتا تھا۔ ابتدا میں صرف شاہی خاندان کے لوگ ہی لیکٹر پروہت (Lector Priest) ہوسکتے تھے لیکن بعد ازاں اس قانون میں نرمی کردی گئی اور ہر پڑھنے لکھنے کے قابل شخص کو لیکٹر پروہت (Lector Priest) بننے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ان پروہتوں کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ ان کے پاس خاص علم ہے ۔ان کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی تھی کہ جنازے کے وقت ان منتروں کو پڑھے جس کے ذریعے روح کی جسم سے جدائی کے بعد رہنمائی ہوسکے۔
ان پروہتوں کا کوئی خاص لباس مختص نہ تھا۔ یہ پروہت ایک خاص فرقہ سے تعلق رکھتےتھے جو من (Min) ، پتاح(Ptah)، اور امون (Amun) کے مندروں کی رکھوالی کرتے تھے۔ مزید یہ کہ ان پروہتوں کا تعلق صرف شاہی خاندان سےہی ہوتا تھا۔ ان کی ذمہ داریاں انتظامی نوعیت کی تھیں ۔یہ مندروں کی جائیدادوں کا معائنہ کرتے اور اس بات کو ممکن بناتے کہ مندروں میں کھانے پینے کا سامان مکمل ر ہے۔
سیم پروہت (Sem Priest) چیتے کی کھال کی مانند چوغا پہنا کرتے تھے۔ ان کے بالوں کو کنگی کرنے کا بھی خاص انداز تھا۔ ان پروہتوں کی ذمہ داریاں مندر کی عبادات میں بھی تھیں اور جنازے کی رسومات کی ادائیگی میں بھی تھیں۔ جنازے کی رسوم میں میت کاچہرہ سیم(Sem Priest) کھولا کرتے اور اس کی ممی کو مختلف اوزار سے چھوتے تاکہ اگلی زندگی میں مرنے والے کو خاص طاقتیں میسر آجائیں۔ بعض سیم پروہت (Sem Priest) کسی خاص دیوتا کے لیے مختص کردیے جاتے تھے ۔
اونمو تیف (Iwnmutef Priest)پرہتوں کی وردی سیم(Sem) کی طرح تھی۔ان کے لقب کا مطلب ماں کا ستون تھا۔یہاں ماں سے مراد عام ماں نہیں بلکہ وہ ماں تھی جو دنیا کے اوپر آسمان کے مانند جھکی ہوئی تھی ۔ اونموتیف (Iwnmutef Priest) عام اور شاہی، دونوں جنازوں میں شریک ہوکر ان کی رسومات کو ادا کیا کرتے تھے۔ 10
قدیم مصری تہذیب میں اکثر پروہت مرد ہی ہوتے لیکن کچھ ایسے مندر بھی تھے جہاں ان کے دیوتاؤں کی خدمت خواتین پروہتیں کیا کرتی تھیں۔ ان کو امون (Amun) کی روحانی بیویاں بھی کہا جاتا تھا۔11خواتین پروہتیں حاتھور(Hathor) ، من (Min) اور پتاح(Ptah) دیوتا کی بھی خدمت گار تھیں۔ ان خواتین میں بھی مرد پروہتوں کی مثل درجہ بندیاں کی گئی تھیں۔
خاتون مذہبی پروہت اکثر اپنے دیوتا یا دیوی کی حمد کرتے ہوئے ایک گروہ کی شکل میں بھجن گاتیں اور جلوس میں مرد پروہتوں کے پیچھے چلتی تھیں۔ ان خواتین کو امون(Amun) کے مندر میں گانے والیاں بھی کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بعض خواتین پروہتیں اپنے دیوتاوٴں کی خوشنودی کے لیے ناچا بھی کرتی تھیں۔ 12
مصر کے تمام مندروں میں روزانہ کی بنیاد پر پروہتوں کی ایک جماعت مذہبی رسومات ادا کرتی تھی۔ جس میں دیوتا کی مورتی کا صاف کرنا، کپڑے پہنانا اور کھانا کھلانا شامل تھا۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا کہ ایک پروہت اپنے بادشاہ کے نائب کی صورت میں آتا اور مورتی کو اپنی خاص جگہ سے اٹھاتا، پھر اس مورتی کو اپنے سامنے رکھتا اور پچھلے دن کا میک اپ صاف کرتا۔ اس کے بعد وہ مورتی کے اوپر مختلف قسم کی خوشبوئیں چھڑکتا ، نئے کپڑے پہناتا اور نیا میک اپ کرتاتھا۔ اس کے علاوہ وہ اس مورتی کو نئے جواہرات بھی پہناتا تھا۔ پھر وہ اس دیوتا کے سامنے کھانا رکھ دیتا ،اور اسی طرح وہ دوپہر میں اور شام میں بھی کھانا رکھتا تھا۔ آخر میں گھر جانے سے پہلے وہ مورتی کو اپنی خاص جگہ پر واپس رکھ دیتا تھا۔ چونکہ ان کے دیوتا تو کھانا نہیں کھاسکتے تھے اس لیے ان کے پروہت رات کو سارا کھانا جمع کرتے اور آپس میں بانٹ لیا کرتے تھے۔ مصریوں کا یہ ماننا تھا کہ اگر کوئی پروہت ان مذہبی رسومات کو ادا نہیں کرے گا تو پوری کائنات میں انتشار پھیل جائے گا اوراگر صحیح طریقہ سے ادا کرلے گا تو دیوتا ان پر نعمتوں کی بارش کردے گا۔13
طہارت حاصل کرنے کی رسوم قدیم مصری عبادت کا ایک اہم حصہ تھی۔اسی لیے تمام پروہت خود کو پاک کرنے کے لیے دن میں چار مرتبہ نہاتے اور ہوا کو پاک کرنے کے لیے خوشبودار لکڑیاں جلایا کرتے تھے۔ یہ پروہت پاک رہنے کے لیے اپنے بال بھی منڈوا لیتے اور ناخن بھی چھوٹے رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ کھانے پینے میں بھی احتیاط برتتے اور مذہبی رسوم کی ادائیگی سے پہلے بعض افعال سے بھی گریز کرتے تھے۔
پاکی حاصل کرنے کےلیےپروہت مندر میں بنی خاص جھیلوں میں نہاتے تھے لیکن خواتین کو اس عمل سے رخصت دی گئی تھی۔ جو خواتین حیض و نفاس سے فارغ ہوجاتیں ان کے لیے حکم تھا کہ وہ گھروں میں نہا کر پاک ہوجائیں۔ ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ پاک رہنے سے ان کے منتروں میں طاقت آتی ہے اور رسوم کی ادائیگی بہتر طریقہ سے ہوتی ہے۔ناپاکی کی صورت میں یہ رسوم ادا نہیں کی جاسکتی ہیں۔ 14
چڑھاوے اور قربانیا ں مصری مذہبی رسومات میں سب سے اہم سمجھی جاتی تھیں۔ یہ مائع کی شکل میں بھی دی جاتی تھیں، جیسے دیوتا کے سامنے دودھ ، شہد یا شراب کا ڈونگا یا زندہ جانوروں کا خون رکھا جاتا تھا۔ان جانوروں کو دیوتا کے سامنے ذبح کیا جاتا تھا۔ عموما قربانی کے لیےگائے، بکرے اور بھیڑ استعمال کیے جاتے تھے۔ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ ان چڑھاووں کی مددسے دیوتاؤں کو قوت ملتی ہے۔عموما قربانی کا طریقہ یہ تھا کہ جانور کو دیوتا کہ سامنے لےجایا جاتا ، سر کو دھڑ سے الگ کیا جاتا،اس کے بعد وہ دعا کی جاتی اور پھر جانور کا پیٹ باہر نکال لیتے اور انتڑیوں اور چربی کو اندر چھوڑ دیا کرتے تھے۔پھر وہ جانور کے ہاتھ پیرالگ کردیتےاور خالی جسم میں ڈبل روٹی، شہد، انجیر اور کشمش وغیرہ بھر دیتے تھے۔ پھر اس پر وہ لوگ تیل ڈال کر جلا دیتے اور جب یہ جل رہا ہوتا تو پروہت سینہ کوبی کرتے تھے۔15
دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ قدیم مصر میں انسانوں کی بھی قربانی دی جاتی تھی۔ جب بھی کسی بادشاہ کو دفنایا جارہا ہوتا تو اگلی زندگی میں بادشاہ کی خدمت کے لیے کچھ پروہتوں ، عورتوں اور خدمت گاروں کو جان سے مار کر ساتھ ہی دفنادیا جاتا تھا۔ بعد ازاں اس قربانی کو روک دیا گیا اور انسانوں کی جگہ مٹی اور پتھر کے پتلے بادشاہ کے ساتھ دفنانا شروع کردیے گئے تھے۔16اس رسم کی ادائیگی کے دوران بہت سے پروہت اپنی ذاتی خار بھی نکال دیا کرتے تھے اور بادشاہ یا اس سے متعلق وہ افراد جو ان سے کسی بھی قسم کی زیادتی یا ان کے مزاج کے خلاف کوئی حرکت کرتے تو وہ ان کو جان بوجھ کر بادشاہ کے نام پر قربان کرنے کی رائے دیتے اور ان کو مذہب اور بادشاہ کی خدمت کے نام پر قربان کروا کر اپنی خار نکال دیا کرتے تھے ۔
جب بھی کوئی انسان مرجاتا تو اس کے جسم کو زمین میں دفنانے سے پہلے بہت سے مراحل سے گزارا جاتا تھا۔ ان مراحل کو حنوط سازی بھی کہا جاتا تھا۔ سب سے پہلے پروہت مردے کے بدن کو غسل دیتے اورپاک کرتے ، اس کے بعد اس کا دماغ نکال لیتے اور دماغ کی جگہ کھوپڑی کو کپڑے، نیل کی مٹی اور کچھ مسالوں سے بھر دیتے تھے۔ پھر منہ کو صاف کیا جاتا اور چہرے پر تارکول کی مثل مادہ لگایا جاتا تھا۔ اس کے بعد آنکھوں کے پپوٹوں پر لینن پیڈ (Linen Pad)رکھ کر اسےبند کردیا جاتا تھا۔ پھر حبشہ کے پتھر(Ethiopian Stone) کےذریعے جسم کو کاٹا جاتا تھا۔17 جسم کو کاٹ کر تمام اندرونی اعضاء نکال لیے جاتے اور ان کو خاص ڈبوں میں بند کرکے محفوظ کردیا جاتا تھا۔ یہ عمل انسانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جانوروں کے اجسام کے ساتھ بھی مرنے کے بعد یہی سلوک کیا جاتا تھا۔ 18 اندرونی اعضاء نکالنے کے بعد میت کی شرم گاہ کو بھی کاٹ دیا جاتا اور ان کو اوزیرس(Osiris) دیوتا کی شکل کے ایک خاص ڈبے میں رکھ دیا جاتا تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب سیتھ (Seth) نے اوزیرس(Osiris) پر حملہ کیا تو اس کی شرم گاہ کاٹ دی تھی لہذا تمام لوگوں کی شرم گاہوں کو کاٹ کر اوزیرس(Osiris) کی شکل کے ڈبوں میں محفوظ کیا جاتا تھا۔
اس مرحلہ کے بعد جسم کو سوکھنے کےلیے ایک خاص مادے نیٹرون (Natron) میں چالیس دن کے لیے رکھ دیا جاتا تھا ۔ چالیس دنوں کے بعد لاش کی انگلیوں پر ناخن باندھے جاتے اور مزید چالیس دنوں کے لیےرکھ دیا جاتا جس سے لاش کی چمڑی کا رنگ گہرا ہوجاتا تھا ۔ اس کے بعد لاش کو ایک مرتبہ پھر نہلایاجاتا اور خوشبو لگائی جاتی تھی۔جسم کا جو حصہ خالی رہ جاتا ان میں تارکول ڈال کر بھر دیا جاتا تھا،آنکھوں، کانوں اور ناک کو لینن سے ڈھک دیا جاتا تھا۔ اگر کوئی شاہی خاندان کا شخص ہوتا تو اس کی زبان پر سونا رکھا جاتا تھا ۔ اس کے بعد ان کے چہروں کو خاص طریقے سے رنگا جاتا اور کچھ تعویزات رکھ کر ان پر پٹیاں چڑھادی جاتی تھیں۔ اس کے بعد ان ممیوں پر منتر پڑھےجاتے اور دیگر رسوم کی ادائیگی کے بعد ایک تابوت میں رکھ دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد تابوت کو سارکفیگس(Sarcophagus) یعنی پتھر کے بڑے تابوت میں تمام اعضاء کے ڈبوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا جو اس ممی کی آخری آرام گاہ ہوا کرتی تھی۔ پھر جہاں یہ سارکفیگس(Sarcophagus) رکھا جاتا وہاں کے دروازوں کو سیمنٹ نما شے کے ساتھ مکمل بند کردیا جاتا تھا ۔19
ہر دیوی اور دیوتا کے مخصوص تہوار سال میں کئی مرتبہ منائے جاتے تھے ۔ان تہواروں میں لوگ کھاتے، پیتے، ناچتے، چڑھاوے دیتے اور خوب خوشیاں مناتے تھے۔ اس کے علاوہ دیوتاؤں کو خوش کرنے لیے خاص کرتب اور ناچ بھی کیے جاتے تھے۔ ان کے خاص مذہبی تہواروں کے نام اور تفاصیل درج ذیل ہے:
ایزیس(Isis) کے مندرمیں روزانہ ہزاروں دیوداسیاں عصمت فروشی کرتی تھیں ۔ ان سے ہم کنار ہونا ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تہہ میں یہ عقیدہ مخفی تھا کہ اس طرح زمین کی زرخیزی اور توالد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایزیس(Isis) دیوتا کا سالانہ تہوار بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا تھا۔ فرعون بہ نفس نفیس جلوس کی قیادت کرتا تھا۔ یہ تہوار کئی روز تک منایا جاتا ، اس دوران جنسی بے راہ روی کے عجیب وغریب مظاہرے دیکھنے میں آتے تھے۔ سیس کے مقام پر ایک مقررہ رات کو مکانوں کی منڈیروں پر دیے روشن کیے جاتے تھے جو ساری رات جلا کرتے تھے۔ اس تہوار کو "دیوی کی ضیافت" کہا جاتا تھا۔20
اوزیرس (Osiris)کے تہوار پر عوامی سرگرمی سے متعلق اڈیلہ۔ اوپن ہیم (Adela Oppenheim)لکھتی ہے:
The Osiris festival was distinguished from other celebrations by the large number of non-royal participants who gathered not only from the region of Abydos but also from other parts of the country.21
اوزیرس کا تہوار اس اعتبار سے تمام منائے جانے والے تہواروں سے نمایاں تھا کہ اس میں کثرت سے (شاہی خاندان سے تعلق نہ رکھنے والے )عا م لوگ شرکت کرتے تھے۔جو کہ صرف ایبیدوس کے علاقے سے ہی نہیں بلکہ شہر کے مختلف علاقوں سے شرکت کرتے تھے۔
یہ تہوار کئی دنوں تک جاری رہتا اور اس میں بہت سے ناٹک کی نمائش کی جاتی تھی، جن میں زندگی، موت، حنوط سازی اور اوزیریس کا آسمانوں کی طرف پرواز کرنے کے عمل کو دکھایا جاتا تھا۔ ان ناٹکوں کے بعد مصری لوگ بہت خوشی مناتے اور اوزیریس (Osiris) کی سونے سے بنی ہوئی مورتی کو مندر سے لے کر جلوس نکالتے تھے۔آگے جاکر ایک عارضی مندر بنایا جاتا جہاں لوگ آکر اس سونے کی مورتی کی زیارت کرتے تھے۔22
مختلف دیوی اور دیوتاؤں کے مقدس تہواروں کے دوران شراب و کباب کا دور دوراں رہتا تھا۔ حاتھور(Hathor) دیوی کے تہوار کے دوران ہونے والی سرگرمیوں سے متعلق ڈاکٹر سی۔ جے۔ بلیکر(Dr. C. J. Bleaker) لکھتا ہے:
The festival celebrated on 20 Thoth deserves particular attention. It is called the festival of inebriety for Hathor. It was thus a wine festival at which this alcoholic beverage was plentifully imbibed in honor of the goddess.23
20تھوٹ(Thoth)کے دن منایا جانے والا تہوار خاص اہمیت کا حامل تھا ۔شراب کا تہوار حاتھور (Hathor) نامی دیوی سے موسوم تھا ۔یہ ایک ایسا تہوار تھا کہ جس میں حاتھور دیوی کے اعزاز میں کثرت سے شراب پی جاتی تھی۔
اہل مصر کے نزدیک من(Min)نامی دیوتا جو کہ بار آوری کا خدا تصور کیا جاتا تھا، کاشت کاری کے پہلے مہینے میں اس دیوتا کا تہوا ر منایا جاتا تھا۔ اس کے تہوار کے دوران بادشاہ وقت کی جناب سے پیش کیے جانے والے خراجِ تحسین کے حوالے سے بیرون ۔ای۔شیفر(Byron E. Shafer) لکھتا ہے:
First month of harvest the festival of the departure of Min, wherein the king led the fertility god Min, a white bull, and statues of deceased kings to a threshing floor, then circumnavigated the floor, released a pigeon or goose on all four sides, cut up a sheaf of grain, and offered the grain to Min.24
فصل کی کٹائی کے پہلے مہینے میں مِن(Min)کی روانگی کا تہوار منایا جاتا تھا۔ اس تہوار میں بادشاہ بارآوری کے دیوتا مِن کو ایک سفید رنگ کا بیل پیش کرتا تھا۔ اس کے علاوہ گندم کوٹنے کی جگہ پر وفات پاجانے والے بادشاہوں کے مجسمے بھی رکھے جاتے تھے ۔اس جگہ کے گرد چکر لگایا جاتا تھا۔کبوتر اور ہنس کوآزاد کیا جاتاتھا۔ غلّے کو صاف کرکے علیحدہ کیا جاتا اور پھر مِن نامی دیوتا کی خدمت میں پیش کیا جاتا تھا۔
آپیٹ (Opet)کاتہوار ہر سال سیلاب آنے کے دوسرے موسم میں منایا جاتا تھا ۔25 اس تہوار کو ظاہری طور پر اہم ترین تصور کیا جاتا تھا۔آپیٹ کے تہوار کو عوامی سطح پر مناتے وقت اہم چیز یہ تھی کہ بادشاہ کا جلوس کرناک (Karnak)سے لکسر(Luxor) تک جاتا اور وہاں ان کے مقدس دیوتا آمن را(Amun-Ra)سے دوبدو ملاقات کا شرف حاصل کرتا پھرجلوس کرناک کی طرف واپس آجاتا تھا۔26
اہلِ مصر کے ہاں ایک اور تہوار منایا جاتا تھا جو کھوئیک(Khoiak)کے نام سے موسوم تھا۔ اس میں اوزیرس (Osiris)دیوتا کی موت کے سانحے کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے ایمیلی -ٹیٹر (Emily Teeter)لکھتی ہے:
In the annual Khoiak festival, they witnessed the dramatic reenactment of the murder of Osiris and his burial, allowing them to share a communal outpouring of grief.27
ہر سال کھوئیک(Khoiak)تہوار میں مشاہدہ کیاجاتا کہ اوزیرس(Osiris) کے قتل(اور تدفین) کے سانحے کو ڈرامائی انداز میں عملی طور پر پیش کیا جاتا تھا اور عوام الناس کو اجازتِ عام ہوتی کہ وہ اجتماعی طور پر اپنے رنج وغم کا اظہار کر سکیں۔
ویپیٹ رینپیٹ (Wepet-Renpet) مصر کے نئے سال کا تہوار تھا اور یہ اس وقت منایا جاتا جب دریائے نیل پانی سے بھر جاتا تھا۔ دعوتیں کرنا اور شرابیں پینا اس تہوار کااہم حصہ تھا۔یہ تہوار کئی دن تک جاری رہتا تھا۔
باسٹ (Bast)تہوار باسٹٹ(Bastet)دیوی کی خوشنودی کے لیے منایا جاتا تھا ۔ اس دیوی کی مورتی دکھنے میں ایک بلی نما تھی جس کو گھر ، عورتوں ، بچوں اور عورتوں کے رازوں کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ اس تہوار میں عورتوں سے تمام پابندیاں اٹھا لی جاتی تھیں اور وہ جو چاہتی کرسکتی تھیں۔ اس تہوار کو لوگ خوب کھا کر، پی کر، ناچ کر اور اپنے کپڑےاتار کر برہنہ ہوکر منایا کرتے تھے۔ ہیروڈوٹس(Herodotus) کے نزدیک خواتین کا اپنے کپڑے اتارنا ان کی ہر پابندی سے آزادی پر دلالت کرتا تھا 28 جیسے کہ اس عمل کی تصویر آج بھی دیکھ جا سکتی ہے ۔
اپنے دور کی جدید ترین اور ترقی یافتہ تہذیب کہلانے کے باوجود قدیم مصری مذہبی و سماجی رسوم و رواج کسی خرافاتی دور کے معلوم ہوتے ہیں۔یہ وہ تہذیب تھی جس میں انسانیت کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی اور صرف اپنے خودساختہ دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے انسان کو بھیڑ بکری کی طرح چڑھاوے کے لیے پیش کردیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی مذہبی رسومات کی بنیاد فقط جنسی خواہشوں پر رکھی گئی تھی جس کی وجہ سے ان میں کسی طرح کی بھی روحانیت موجود نہ تھی۔ یہ صرف ا ن مصریوں کا ہی حال نہیں تھا بلکہ ہر اس تہذیب کا حال تھا جو اللہ اور اس کے رسول سے دور رہی ہے ۔