جمہوریت کے ابتدائی سالوں میں روما کے تمام شہریوں کے لیے لازمی تھا کہ وہ فوجی خدمات انجام دیں۔ رومی فوج اپنے نظم و ضبط ، بہترتنظیم، ہتھیاروں اور جنگی چالوں میں جدت پسندی کے حوالے سے بہت مشہور تھی اور عظیم رومی سلطنت کی تعمیر و ترقی اور اس کی حفاظت کی ضامن بھی تھی۔ روم کی افواج برّی فوجوں کے ساتھ ساتھ بحری فوج پر بھی مشتمل تھی۔یہی وجہ تھی کہ سلطنت روم نے اپنے آس پاس کی ریاستوں کو مغلوب کر لیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سمندر پار ریاستوں پر بھی اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔
سلطنت روما میں فوج کو ابتداءً لیجیو(Legio)کہا جاتا تھا۔1رومی روایت کے مطابق ، رومیولس(Romulus) نے جو فوج تیا ر کی وہ 3000 پیادہ سپاہیوں پر مشتمل تھی یعنی تین قبیلوں میں سے ہر قبیلے کے ہزار افراد شامل تھےجن کی قیادت ان کے متعلقہ سرداروں کے ہاتھوں میں ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح تین سو گھڑ سوار بھی تھے جو تین کمانڈروں کے ماتحت فرائض انجام دیتے تھے۔ رومی فوج معاشرے کے مختلف طبقات پر مشتمل تھی اسی طرح ان گروہوں کے زیر استعمال اسلحہ بھی مختلف نوعیتوں کاتھا۔
فوجیوں کے اوّل دستےباقاعدہ یونان کے طریقے پر گوریلا طرز کے فوجیوں پر مشتمل تھے۔ان کے ہتھیاروں میں نیزے کے علاوہ بھالے، تلواریں، آہنی ٹوپیاں، اور ہاتھ اور پاؤں کی حفاظت کے لیے آہنی دستانے اور گول جرابیں زیر استعمال تھیں۔فوجیوں کا دوسرا گروہ کسی قسم کا کوئی بھی آہنی لباس نہیں پہنتا تھا بلکہ وہ ڈرم نما ڈھال کو آہنی ہتھیاروں کی جگہ استعمال کیاکرتے تھے۔ ان کا تیسرا گروہ آہنی جرابوں کے بغیرجنگ میں مقابلہ کرتا تھا۔چوتھا اور پانچواں گروہ ہلکے جنگی دستوں پر مشتمل تھا۔2
رومی سلطنت کی سرکاری فوج تعداد میں بے شمار تھی ۔ یہ زیادہ تر زمینی افواج پر مشتمل تھی جو ابتدائی طور پر روم کے شہریوں کو شامل کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی ۔ افواج کو دستوں کی صورت میں ترتیب دیا گیا تھا اور اس کی تعداد میں وقتا فوقتا کمی بیشی بھی کی جاتی رہتی تھی ۔ ایک عام اندازے کے مطابق یہ فوج 28لیجز (Legions) کی ترتیب نیچے دئیے گئے اعداد کے مطابق ہوا کرتی تھی :
ان سپاہیوں کو دئیے گئے دو ہتھیار انہیں مشہور زمانہ لچک اور قوت فراہم کرتے تھے۔ان میں ایک ہتھیار پیلم(Pilum)کہلاتا تھاجو کہ دو میٹریعنی 7 فُٹ لمبا نیزہ تھا۔ یہ نیزہ دور نشانہ لگا کر پھینکنے اور دوبدو لڑائی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرا گلیڈیس(Gladius)نامی ہتھیار تھا جو 50سینٹی میٹریعنی تقریباً20 انچ لمبی تیز دھاری تلوار تھی۔ اس کی دھار انتہائی مضبوط اور تیز رکھی جاتی تھی۔ یہ ہتھیار کاٹنے اور جسم میں گھونپنے کے کام آتا تھا۔ حفاظت کے لیے ہر لیجیو(Legio) سپاہی کے پاس دھاتی ہیلمٹ ، زرہ بکتر، اور درمیان سے ابھری ہوئی ڈھال موجود رہتی تھی۔ جنگ میں فوجیوں کی پہلی صفیں دشمن پردوڑتے ہوئے سب سے پہلے برچھیوں سے حملہ کرتیں، پھر تلواروں کے ذریعے دشمن کو دوبارہ منظم ہونے سے روکتی تھیں۔ اس کے بعد دوسری صفوں کے فوجی آگے بڑھتے اور حملہ کردیا کرتے تھے، صرف مضبوط دشمن ہی ان دو طاقتور حملوں کے بعد سنبھل پاتے تھے۔ 4
رومیوں نے یونانیوں کے بھاری اسلحے کی نقل کرکے اسے مزید بہتر بنایا تھا، لیکن یہ ہتھیار عموماً کھلے میدان کی جنگوں میں استعمال نہیں کیے جاتےتھے بلکہ شہروں کے محاصرے کے دوران شہر کی فصیل توڑنے اور شہر کے محافظوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیےبروئے کار لائے جاتے تھے۔ انہوں نے ان مشینوں کی استعداد بڑھانے کے لیے گھوڑے کے بالوں کے بجائے جانوروں کے عضلات استعمال کیےجس سے ان کی لچک اور قوت میں اضافہ ہوا اور یوں یہ مشینیں آتشیں ہتھیار کو کئی سو میٹر کی دوری تک پھینکنے کے قابل ہو گئی تھیں۔ رومیوں نےلکڑی کی جگہ دھاتوں کا استعمال کیا جس کی وجہ سے ان مشینوں کی قوت، پائیداری اورآتشیں اسلحے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا تھا۔5 جمہوری عہد سے ہی آہنی نوکیلے ہتھیار اور پتھر پھینکنے والی مشینیں استعمال ہوتی تھیں جن میں قوت کے حصول کے لیےرسیاں باندھی جاتیں جو آڑھی کمان کے اصول پر کام کیا کرتی تھیں۔ منجنیق (Ballistae) دو بازووٴں والی پتھر پھینکنے کی مشین تھی جوآدھا کلو میٹر دور تک پتھر پھینکنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ یہ اینٹوں اور لکڑی کی دیواروں کو توڑ سکتی تھیں لیکن پتھروں کی دیواروں پر اتنی موثر نہیں تھیں۔6
رومیوں کے جنگی مزاج نے مزید علاقوں کو رومی سلطنت میں شامل کرنے کی غرض سے اپنی بحریہ بھی قائم کی تھی۔جب روم نے اپنی سرحدوں کو اٹلی سے آگے وسعت دینا شروع کی تو اسے اپنا بڑا بحری بیڑا تشکیل دینےکی ضرورت پیش آئی ۔ اگرچہ رومی، بحری جنگ کی بنسبت زمینی جنگ کو زیادہ اہمیت دیتے تھےلیکن اس کے باوجودرومی سلطنت بحری بیڑوں کو افواج کی نقل و حمل، زمینی افواج کی مدد اور زمینی بندرگاہوں کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے۔سمندری تجارت کی حفاظت کے لیے رومی بحری افواج سے بحری قزاقوں کو ٹھکانے لگانے کا کام بھی لیا کرتے تھے۔ شروع کے تقریباً دو سو سالوں تک رومی افواج نے بحیرہ روم کو بحری قزاقوں سے محفوظ رکھا تھا۔100 اور200 قبل مسیح میں روم نے پہلی مرتبہ اپنی بڑی بحری فوج قرطاجیوں(Carthage) کے خلاف تیار کی۔ رومی ملاحوں کے نا تجربہ کار ہونے کے باوجود روم نے اپنا بحری جنگی بیڑا تیا ر کیااور دشمن پر فتح پائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے جنگی جہاز دشمن کے مقابلے میں زیادہ بڑے تھے۔ رومن افواج بڑے بحری جہازوں کو زیادہ ترجیح دیا کرتے تھےتا کہ وہ سیڑھیوں کے ذریعے دشمن کی کشتیوں میں اتر کر ایسے ہی لڑیں جیسے زمینی جنگ میں لڑتے تھے۔7
ابتدا میں رومی افواج کی حکمت عملی بہت سادہ تھی ۔دشمن سے آمنے سامنے لڑنے کے ساتھ ساتھ عام محاذ پر بھی نبرد آزما رہتے تھے۔ دوران جنگ جیسے جیسے فوجیوں کے جوش و جذبے میں تیزی آتی ،دشمن کی طرف کثرت سے نیزوں کی بارش کردی جاتی جو دشمن کو واپس پلٹنے اور بھگانے کے لیے کافی ہوتےتھے۔رومی فوج مسلسل آگے بڑھتی اور صفوں کی صفوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا کرتی تھی۔ بچے کھچے فوجیوں کو پیچھے آنے والے گھڑ سواروں کے دستے ٹھکانے لگا دیتے۔ اگردشمن کی کمر مزیدتوڑنے کی ضرورت محسوس ہوتی تو مزیدشہ سواروں کےدستے حملے کےلیے تیار رہتے تھے۔8
قدیم رومی معاشرے میں آختہ کاری کا عمل بھی استحصال کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ اس عمل کے نتیجے میں پدر سری(Patriarchal) معاشرے میں ایک مرد اپنی پہچان گنوا دیتا تھا۔اہل ِ روم کے خیال میں خاندان کی بقاء اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی بقاء صرف پدری زرخیزی پر منحصر نہیں تھی کہ وہ کتنی اولاد پیداکرتا ہے بلکہ اس کی زرخیزی فصلوں، چوپایوں ، بھیڑ بکریوں اور خنزیروں تک سرایت کر جاتی تھی۔اس لیے ان کے ہاں ان سب کی کثرت معاشرے میں عزت و احتشام پر دلالت کرتی تھی۔ یوں قدیم روم کے پدر سری(Patriarchal) معاشرے میں ایک مرد کی مکمل شناخت اور اس کی زراعت ہی مردانگی کی بنیاد سمجھی جاتی تھی۔ایک مرد کی آختہ کاری کے ذریعےدشمن کی نہ صرف شناخت چھین لی جاتی تھی بلکہ اس کا پورا طرزِ زندگی تباہ کردیا جاتا تھا۔یہ اس معاشرے میں رواج پا جانے والی ایک اہم روش تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ ان قدیم معاشروں میں مرد سماجی ، معاشی اور سیاسی سرگرمیوں کو اپنے قابو میں رکھتے تھے۔اگر کسی جنگ کے نتیجے کے طور پر مردوں کی آختہ کاری کرد ی جاتی تو اس سے پورا پدری نظام منہدم ہو جاتا تھا اور نتیجتا ًاندرونی خانہ جنگی کا خدشہ ہو سکتا تھا۔ اندرونی خانہ جنگی کی صورت میں آختہ کاری کا نشانہ بنانے والی قوم اس قسم کی خانہ جنگی کا شکار قوم پر حملہ کرنے اور فتح حاصل کرنے کے قابل ہو جاتی تھی۔ یہاں تک کے ارسطو نے بھی اپنی سیاست میں ریاست کے کسی حصے میں غیر متناسب اضافے کے سلسلے میں انتباہ کیا ہے کیونکہ اس کا نتیجہ سیاسی انقلابات کی صورت میں برپا ہو سکتا تھا۔اولاد پیدا کرنے والے مردوں اور جنگ میں گرفتار ی کے سبب آختہ کاری کا شکار ہونے والے مردوں کی تعداد میں غیر متناسب تعلق ریاست کے توازن کو بگاڑ سکتا تھاجس کے نتیجے میں انقلاب کا بھی خدشہ رہتا تھا۔ 9
جب فوج اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جاتی تو وہاں مضبوط قلعے بنا ڈالتی۔ رومیوں کے نزدیک نقل وحمل اور رسد میں مہارت کا مطلب تھاکہ انہیں مقامی افراد کی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ وہ خود اپنے معاملات میں خود کفیل ہیں، بالخصوص خوراک کے معاملے میں۔ ایک مرتبہ جب غذائی اجناس کیمپ میں پہنچ جاتیں تو اس خوراک کو گوداموں (horrea)میں پہنچادیا جاتاجو عموماً زمین کےاوپر بانسوں کی مدد سےقائم کیے جاتے تھے۔ ان گوداموں کو ہوا دار بنایا جاتا تاکہ جلدخراب ہوجانے والی خوراک کو بہتر طریقے سے محفوظ کیا جاسکے۔ خوراک کو غذائی اجناس کے سب سے بڑے دشمن چوہےسے بچانے کے لیے بلیوں کا سہارا بھی لیا جاتا تھا۔ بحری جہازوں پرموجود خوراک کو چوہوں سے بچانے کے لیے بھی بلیوں کو رکھاجاتا تھا۔رومی شہنشاہی دور کی ایک خاص جدّت طبیبوں(medici)اور ان کے مددگاروں(capsarii)کو فوج میں متعارف کرانا اورمختلف دستوں کے ساتھ منسلک کرنا بھی تھا۔ان فوجی کیمپس میں ہسپتال(valetudinarium)بھی تعمیر کیےگئےتھے۔10
اگرچہ رومی سلطنت طویل مدت تک باقی رہی لیکن درحقیقت وہ ظلم وزیادتی کا ایک وسیع نظام بن گئی تھی۔ شہنشاہ کا مرکزی اقتدار صرف قوت اور تنہا فوجی حمایت پر قائم تھا۔ جب ایک طاقت ورشہنشاہ مرجاتا یا کوئی کم زور شہنشاہ تخت پر آتا تو عام طور پر خانہ جنگی کا دور شروع ہوجاتا اور اس وقت تک باقی رہتا جب تک ان میں سے کوئی ایک کامیاب ہوکر اپنے حریفوں کو نکال نہ دے۔ ایک موقع پر ایسا بھی ہوا کہ فوجوں نے شہنشاہ کے رتبے کو نیلامی پر چڑھادیا اور سب سے بڑی بولی دینے والے کے نام اسے کردیا گیا ۔ اس کے لیے جو قیمت ادا کی گئی اسے فوجوں نے آپس میں بانٹ لیا تھا۔11
اہل روم نے اپنی حکومت کو بڑھانے اور اسکے ثبات کے لیے کئی تاریخی جنگیں لڑیں جن میں سے بعض کی تفصیلات درج ذیل ہیں :
روم کے ساتھ پیونک (Punic)کی جنگوں کا آغاز 264قبلِ مسیح میں ہوا اور 146قبل ِ مسیح میں قرطاج(Carthage) کی تباہی پر اس کا اختتام ہوا۔12
پہلی پیونک جنگ(Punic War) 264 قبل مسیح سے شروع ہوئی تھی۔ ہوایہ کہ سمندری ڈاکوؤں کے خلاف سسلی(Sicily) کی قرطاج(Carthage) فوج نے کاروائی کی،ڈاکوؤں نے روم سے مدد مانگی جو انہیں مل گئی اوراس طرح جنگوں کا آغاز ہوگیا۔ اس وقت روم کی بحری طاقت برائے نام ہی تھی اس لیے شکست ہوئی اور روم کے لوگوں کا بہت جانی ومالی نقصان بھی ہوا لیکن روم نے جلد ہی دوبارہ بحری بیڑہ تیار کرلیا اورقرطاجیوں(Carthage) کی بحری فوج کو مکمل طور پرشکست دی۔ سسلی(Sicily) اوراس سے ملے ہوئے جزیرے روم کی سلطنت میں شامل ہوگئے۔ سسلی(Sicily) اوردیگر جزیروں کے نقصان کی تلافی قرطاجیوں(Carthage) نے اس طرح کی کہ اسپین کے علاقوں کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ ان فتوحات کو روم نے اپنے لیے خطرہ سمجھا اورقرطاجیوں(Carthage) سے معاہدہ کیا کہ وہ اپنی اسپینی فتوحات کو دریائے ایبرو(River Ebro)کے کنارے تک محدود رکھے گا۔ قرطاجیوں (Carthage)نے مصلحتاً معاہدہ کر تو لیا لیکن وہ روم کی بیجا مداخلت سے خوش نہ تھے بلکہ روم کے خلاف ان کے دل میں سخت نفرت پیدا ہوگئی۔ اس نفرت کا انجام یہ ہواکہ اسپین کے قرطاجی گورنر نے روم سے بدلہ لینے کے لیے اپنے نو سالہ بیٹے ہنی بال (Hannibal) سے یہ قسم لی کہ وہ ساری عمر رومی قوم سے نفرت کرے گا۔ آگے چل کرجب ہنی بال26(Hannibal) سال کی عمر میں اسپین کا گورنر بنا تو اس وقت تک اس کے اکثر شہر روم کے زیرِاثر آچکے تھے۔ انہی شہروں میں سے ایک شہر سیگن ٹم(Saguntum)بھی تھا جس پر ہنی بال(Hannibal) نے 208قبل مسیح میں حملہ کردیا اورقبضہ حاصل کرلیا ۔ روم نے اسے روکنے کے لیے ایک وفد بھیجا جو ناکام رہا اور یوں جنگ کی صورت پیدا ہوگئی۔ 100000سے زیادہ سپاہیوں اور 37 جنگی ہاتھیوں پر مشتمل فوج اٹلی کی سرحدوں پر پہنچ گئی، لیکن دشوار پہاڑی راستوں اوربرف پوش پہاڑوں کے سبب ہزاروں سپاہی راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ صرف 26ہزار سپاہی وادی میں داخل ہوسکے جبکہ ادھر 700000 فوجی موجود تھے جن میں سے 70000جنگ میں شریک ہوئے۔ ہنی بال (Hannibal) کے سامنے جنگ کی دو صورتیں تھیں۔ یا تو وہ روم کی طرف پیش قدمی کرکے حملہ آور ہوجائے یا پھر ان ریاستوں پر حملہ کرے جو روم کی اتحادی تھیں۔ اس نے دوسری صورت پر عمل کیا لیکن اسے ہر محاذ پر روم کی فوجوں سے مقابلہ کرنا پڑا ۔پہلے مقابلے میں رومن فوج کو شکست ہوئی اوراٹلی کے جنوبی ساحلی شہروں پر ہنی بال (Hannibal) کا قبضہ ہوگیا۔ اب اس فوج میں گال(Gaul) قبیلے کے لوگ بھی شامل ہوگئے۔ روم کے لیے یہ بات باعثِ تشویش تھی۔روم نے کھلم کھلا مقابلے کی بجائے گوریلا جنگ لڑنی شروع کردی اوراس عرصے میں مزید 80000سپاہیوں کی فوج تیار کرلی تھی۔
رومن فوج ہنی بال(Hannibal) کا مقابلہ کرنے کے لیے جنوبی ساحل کی طرف روانہ ہوئی۔ کنائےکے مقام پر بہت ہی خون ریز جنگ ہوئی اور پوری رومن فوج موت کے گھاٹ اتر گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اٹلی کے اکثر شہروں نے روم کے خلاف بغاوت کردی اورہنی بال (Hannibal) کے لیے شہر کے دروازے کھول دیے ۔ اس وقت ہنی بال (Hannibal) روم پر بھرپور حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن وہاں کے مضبوط قلعے کو فتح کرنا آسان نہ تھا ۔ پھر بھی اس نے راستے کے شہروں کو فتح کر کے روم کا محاصرہ کرلیا۔ مگر افریقہ اور اسپین سے کمک نہ پہنچنے کے سبب اور فوج کی کمی کے باعث روم کا محاصرہ بے سود ثابت ہوا۔ رومیوں نے اپنے شہر کی حفاظت کے لیے جان ومال کی بازی لگادی ،آخر محاصرہ اٹھانا پڑا اور ہنی بال (Hannibal) جنوب کی طرف پلٹنے لگا۔ اس کے بعد روم نے ان شہروں پر حملہ کردیا جو باغی ہو کر ہنی بال(Hannibal) کے زیرِ اثر آگئے تھے۔
علاوہ ازیں رومیوں نے ایک فوج اسپین کی طرف روانہ کی تاکہ ہنی بال (Hannibal) کے بھائی کاراستہ روکے جو بھاری فوج کمک کے طور پر لارہا تھا۔ کامیابی رومیوں کوحاصل ہوئی اورہنی بال (Hannibal) کا بھائی شکست سے دوچار ہوا اور جنگ میں مارا گیا۔اس کا سر تحفے کے طور پر ہنی بال (Hannibal) کے پاس بھیج دیاگیا۔ اس شکست کا ہنی بال (Hannibal) کو بہت صدمہ ہوا تھا۔ اسے جنگ کرتے ہوئے مسلسل دس برس ہو چکے تھے مگروہ روم کو فتح نہیں کرسکا تھا۔13
240قبل مسیح سے 219قبل مسیح تک روم اور قرطاج(Carthage) کے درمیان صلح رہی۔ 21سالہ جنگ کے باعث دونوں ملکوں کی حالت ابتر ہوچکی تھی۔ رومی ریاست کے شمالی حصے پر فرانس کی گال(Gaul) قوم کے وحشی لوگوں نے حملہ کیا۔ رومیوں کو بہت بھاری شکست ہوئی اور انہوں نے اس ڈر کے مارے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ عام طور پر جانوروں کے بجائے غلام قربانی کے بکرے بنائے جاتے تھے۔ قرطاج(Carthage) میں حکومت کا اقتدار تاجر امرا کے ہاتھوں میں تھا جو اپنی رعایا پر بہت تشدد کرتے تھے۔ 219قبل مسیح میں روم اور قرطاج(Carthage)کے درمیان پھر خوف ناک لڑائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس جنگ میں قرطاجیوں(Carthage) کے نامور جنگی لیڈرہملی کار برقہ(Hamilcar Barca) ،ہنی بال(Hannibal) اور ہسد روبال (Hasdrubal)تھے اور روم کے نامور جنگی سردار مارکس(Marcus)، پورسئیلاس، کاٹو(Cato) اور سیئپوافریقا نوس(Scipio Africanus) تھے۔ قرطاج(Carthage) کے جرنیل ہنی بال(Hannibal) نے اٹلی پر چڑھائی کی اور اسپین سے چلا تو فرانس کے جنوبی حصہ کو پامال کرتا ہوا کوہستان ایلپس کی برفانی چوٹیوں کو عبور کر کے اٹلی کے شمال مغربی میدانی علاقہ کی سرزمین میں گھس گیا۔ رومی جرنیل سیئپو(Scipio) شکست کھا کر اسپین کی سرزمین کی طرف پسپا ہوا۔ ہنی بال(Hannibal)کی فوجوں نے 15سال رومیوں کی مملکت کو پامال کیا لیکن اسپین کے رومی جرنیل نے بحری بیڑے کی مدد سے قرطاج(Carthage) پر حملہ کردیا۔ ہنی بال(Hannibal) مقابلے کے لیے قرطاج(Carthage) پہنچا۔ شدید جنگ وقوع پذیر ہوئی جس میں ہنی بال(Hannibal)نے شکست کھائی۔ اہل روم نے اپنے دشمنوں سے اپنے ملک کے خلاصی پانے کو غنیمت سمجھااور ان کی فوجیں واپس آگئیں۔ روم اور قرطاج(Carthage) کو مزید 50سال کے لیے سستا نے اور جنگ کی تیاری کرنے کا موقع مل گیا۔ ہنی بال(Hannibal)ایشیا کی طرف بھاگ گیا جہاں اس نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ 183قبل مسیح میں رومیوں کا جرنیل سیئپو (General Scipio)بھی مرگیا۔
149قبل مسیح میں روم (Rome)اور قرطاج(Carthage) کے درمیان تیسری جنگ شروع ہوئی جسے تاریخ کے صفحات میں پیونک وار (Punic War)کا نام دیا گیا ہے۔ روم کی افواج نے قرطاج(Carthage) پر حملہ کیا اور فتح حاصل کرکے یہاں قتل عام کیا۔ پانچ لاکھ کی آبادی میں سے صرف پچاس ہزار نفوس بہ مشکل بچے جسے انہوں نے غلام بنالیا تھا۔ رومیوں میں انتقام کے جذبات بہت مشتعل ہوچکے تھے۔ قرطاج(Carthage) کی عمارتیں مسمار کردی گئیں اور زمین میں ہل چلادیے گئے ۔ رومیوں نے اپنی مذہبی رسمیں ادا کرکے اس شخص پر لعنتیں بھیجیں جو اس شہر کو دوبارہ آبادکرنے کی کوشش کرے۔ بحیرہ روم(Mediterranean Sea)میں فینقی (Phoenician)تاجروں کی طاقت کا خاتمہ ہوگیا۔ان کے بجائے رومیوں نے بحیرہ روم کے ساحلی ملکوں پر قبضہ جمالیا جو یورپ اور افریقہ دونوں براعظموں میں واقع تھے۔ رومیوں نے 146قبل مسیح میں قرطاج(Carthage) کے بعد یونان کے بحری تجارتی مرکز کورنتھ(Corinth) کوبھی تاراج کیا اور اس کا خاتمہ کردیا ۔14
رومیوں کی سلطنت بحیرہ روم کے تمام ساحلی ملکوں پر حاوی تھی۔ یونان ایشیائے کوچک(Asia Minor)، شام اور فلسطین بھی اس سلطنت میں شامل کرلیے گئے تھے۔ ایک سوقبل مسیح کے قریب رومیوں کی سلطنت کی شمالی حد دریائے ڈینیوب(Danube River)، بحیرہ اسودکے جنوبی ساحل اور سلسلہ کوہستان قاف(Caucasus Mountains) کے جنوب تک تھی۔ مشرق میں اس سلطنت کا دامن دریائے فرات(Euphrates) تک پھیلا ہوا تھا۔ افریقہ اور یورپ کے تمام ملک جو بحیرہ روم کے کنارے واقع تھےان کے زیر نگیں تھے اور مغرب میں ان کے اقتدار کا ہاتھ فرانس، اسپین اور انگلینڈتک پہنچ چکا تھا۔102قبل مسیح میں وسطی یورپ کے جرمن قبائل نے کوہستان ایلپس (Alps)کے دروں کو عبور کرکے رومی مملکت پر حملہ کیا لیکن شکست کھا کر پسپاہوگئے۔ 53قبل مسیح میں ایک رومی جرنیل کراسس(Crassus) لشکر جرار لے کر دریائے فرات(Euphrates) کو عبور کرکے مشرق کی طرف بڑھا۔ پارتھیوں(Parthians) اور ایرانیوں(Iranians) اور سیتھیئنوں(Scythians) کے لشکر نے اس کا مقابلہ کیا جو ایران کی سرزمین سے سلیوکسی(Seleucus) یونانیوں کے اقتدار کا خاتمہ کرچکے تھے۔ آریہ (Aryans)نسل کے یہ تازہ دم لوگ ایسے تیر چلاتے جو شور مچاتے ہوئے دشمن کے سینے میں پیوست ہوجاتے تھے۔ یہ تیر پر دار تھے جن سے آواز پیدا ہوتی تھی۔ رومیوں کے لشکر کو شکست فاش کا سامنا ہوا اورسارا لشکر تباہ ہوگیا۔ اس کے بعد رومیوں کو مشرق کی طرف بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔ اس شکست کے بعد رومیوں کے جرنیلوں میں حصول اقتدار کے لیے کش مکش شروع ہوگئی تھی۔15
مغربی رومی سلطنت 476ء شمال کے حملہ آوروں کے ہاتھوں کمزور ہوتے ہوتے کلیتاً ختم ہوگئی اور مشرقی رومی سلطنت تقریباً ان تمام علاقوں پر محیط ہوگئی جو کبھی قدیم رومی سلطنت میں شامل تھے۔527ء سے 565ء دور کےرومی حکمران جسٹینین(Justinian) نے شمالی افریقہ، اٹلی اوراسپین کو مسخر کیا تھا۔ 540ء میں روم اورایران کی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو12سال جاری رہا۔ جسٹینین(Justinian) نے قسطنطنیہ میں حاجیہ صوفیہ(Hagia Sophia) کا گرجا تعمیر کرایاتھا۔ اس کے جا نشینوں کے زمانے میں بھی ایران سے لڑائیاں جاری رہیں۔
575ء میں فرمانروائے فارس نوشیرواں(Nosherwan) کی فوجوں نے کپاڈوشیا ( اناطولیہ) کارومی علاقہ پامال کیا۔ نوشیرواں(Nosherwan) کے پوتے خسرو پرویز نے جب باغیوں کے مقابلے میں راہِ فرار اختیار کی تو قسطنطنیہ کے حکمران مارلیس نے اسے دوبارہ تاج و تخت حاصل کرنے میں مدد دی۔
اسپین رومی سلطنت کا ایک صوبہ ہوگیا تھا۔ قرطاج(Carthage) کی بحری فوج تباہ کردی گئی تھی۔ صرف 10جہاز رکھنے کی اجازت ملی اورتاوان کی صورت 5000000ڈالر کے برابر رقم 50برس کے عرصے میں ادا کرنے پر صلح کی گئی تھی۔ یہ صلح قرطاج(Carthage) کے لیے زوال کا سبب بنی اور یوں اس کی حیثیت صرف ایک تجارتی شہر کی رہ گئی تھی۔ اسے مجبور کردیا گیا کہ بغیر روم کی اجازت کے نہ کسی سے جنگ کرے گا نہ صلح ۔ بحیرہ روم کی برتری قائم ہوگئی۔ قرطاج(Carthage) کا قبضہ کسی طرح نہ رہا لیکن رومی لوگوں کے دلوں سے قرطاج(Carthage) کی نفرت ختم نہ ہوئی۔ وہ یہی کوشش کرتے رہے کہ قرطاج(Carthage) کے مقابلے میں دیگر افریقی ریاستوں کی مدد کی جائے تاکہ اسکی تجارتی برتری بھی دم توڑدے۔
روم کے لوگ تاوان کی وصولیابی کے لیے اکثر قرطاج(Carthage) آتے رہتے تھے۔ ان میں ایک مرتبہ سینٹ(Senate) کا ایک رکن کاٹو(Cato) بھی آیا اور قرطاج(Carthage) کی خوشحالی دیکھ کر اس کے اندر نفرت اورحسد کی آگ بھڑک اٹھی ۔ واپس جاکر اس نے اپنی تقریروں میں زور دیا کہ قرطاج(Carthage) کو طاقتور اور خوشحال نہ رہنے دیا جائے۔ اس کی ہر تقریر اس جملے پر ختم ہوتی کہ قرطاج(Carthage) کو تباہ کرنا ضروری ہے۔ رفتہ رفتہ سینٹ(Senate) کے تمام ممبر اور رومی عوام اس کے ہم خیال ہوگئے۔ روم کی سینٹ (Roman Senate)نے افریقہ کی ریاست نومیڈیا کو قرطاج(Carthage) پر حملے کے لیے اکسایا۔ مجبوراً قرطاج(Carthage) والوں کو جنگ کرنا پڑی جسے رومی حکمرانوں نے صلح نامے کے خلاف قراردیا اور قرطاج(Carthage) کے لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے شہر خالی کردیں اور ساحلی علاقے سے دس میل اندر جاکر آباد ہوجائیں۔ یہ مطالبہ منظور نہ ہوا تو رومی فوج نے قرطاج(Carthage) کا محاصرہ کرلیا۔ وہاں کے لوگوں نے تین سال تک مقابلہ کیا۔ پورا شہر فوجی کیمپ بن گیا ۔ مگر آخر کار روم کی فوج نے فتح پائی اور پوری آبادی کو قتل کردیا گیا۔ شہر کو بالکل نیست و نابود کر ڈالا اور قرطاج(Carthage) کا نام ونشان ہمیشہ کے لیے مٹا دیا گیا۔
جب روم کو بحیرہ روم کے علاقوں پر برتری حاصل ہوگئی تو اس کا تصادم میسیڈونیہ(Macedonia) کے حکمراں فلپ پنجم(Philip V)سے ہوا جس نے روم کے دشمنوں کی مدد کی تھی۔یونان (Greek)کا حال اس زمانے میں یہ تھا کہ سکندرِاعظم(Alexander the Great)کی موت کے بعد یونانی سلطنت تین حصوں میں بٹ گئی تھی اوریونان کا سیاسی انحطاط شروع ہوچکا تھا۔ شہر آپس میں لڑتے رہنے کی وجہ سے مستقل طور پر کمزور ہوتے جارہے تھے اورکسی بیرونی طاقت سے مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔روم کی فوجوں نے 197قبل مسیح میں میسیڈونیہ(Macedonia)پر چڑھائی کردی اور فلپ پنجم(Philip V)کی فوجوں کو شکستِ فاش دی مگر روم نے یونان کے شہروں کو اندرونی طور پر آزاد رکھا البتہ خراج کی ادائیگی کو لازمی قراردیا۔بعض شہروں نے رومن اقتدار کے خلاف بغاوت بھی کی مگر ساری بغاوتوں کو کچل دیا گیا۔ خاص طور پر کورنتھ (Corinth)کی بغاوت کو بہت سختی سے دبا کر اس خوبصورت شہر کو آگ لگادی گئی تھی۔یونان پر قبضہ کرنے کے بعد روم کا مقابلہ اس یونانی سلطنت سے ہوا جو ایشیا ئے کوچک(Asia Minor) میں یونانی سپہ سالار سیلوقس نے قائم کی تھی اور وہ بھی زوال کا شکار ہو چکی تھی۔ 133قبل مسیح میں اس نے روم کی اطاعت قبول کرلی اور اپنے ملک کا بڑا حصہ رومیوں کے حوالے کردیا تھا۔ اس طرح روم کی اطاعت ان تمام علاقوں میں تسلیم کرلی گئی جو کسی زمانے میں یونانی اورفنیقی (Phoenician)قوموں کے زیرِ اثر تھے۔مصر میں بطلیموس (Ptolemy)کی حکومت سکندرِاعظم(Alexandra the Great) کے بعد سے قائم ہوگئی اور اسکندر یہ یونانی تہذیب کامرکز بن گیا تھا لیکن رفتہ رفتہ یونانیوں کی قوت مصر میں کم ہونا شروع ہوئی اورجب یونان پر رومیوں نے قبضہ کرلیا تومصر کے یونانی حکمرانوں نے بھی روم کی برتری تسلیم کرلی اور 128قبل مسیح میں مصر روم کے زیرِ اثر آگیا ۔ اندرونی طور پر مصر آزاد رہا مگر بالادستی روم کے حصے میں آئی اور بعد میں مصربھی رومن سلطنت کا ایک صوبہ ہوگیا ۔16
اسی دوران رومی فوجیوں میں بہت زیادہ اخلاقی برائیاں پیدا ہو چکی تھیں۔ ہم جنس پرستی اور جنسی استحصال عام ہوگیا تھا۔رومی فوجی اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنسی عمل کیا کرتے تھے،ان کے اس قبیح عمل میں کثرت نےآزاد مرد کے ساتھ جنسی عمل کے متعلق بنائے گئے قوانین کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھی۔ ایک سپاہی اپنے جسم کو جنسی استحصال سے بچا کر ہی اپنی مردانگی کا ثبوت دے سکتا تھا۔اس جسمانی سالمیت اور دیانت داری کے برخلاف ایک سپاہی کے افعال پر فوجی درجہ بندی میں لگائی گئی پابندیاں آزاد حیثیت کے بالکل خلاف تھیں۔حیرت انگیز طور پر صرف فوجی ہی رومی شہریوں کی وہ واحدقسم تھے جنہیں باقاعدگی سے غلاموں کی مانند سخت جسمانی سزائیں دی جاتی تھیں۔ یہ وہ سزائیں تھیں جومہذب دنیا میں یہ صرف غلاموں کے لیےمختص تھیں۔ جنسی سالمیت ہی ایک سپاہی کے رتبے کو جوکہ اپنی شہری خودمختاری کا بڑا حصہ قربان کردیتا تھا غلاموں سےممتاز کرنے میں مدد دیتی تھی۔جنگ میں جنسی آبروریزی اور زنا بالجبر شکست کا مظہر سمجھی جاتی تھی اسی لیے سپاہی اپنی جنسی سالمیت پر سودا نہیں کرتے تھے۔ 17
رومی سپاہیوں کو شادی کی اجازت نہیں تھی مگر سفر اور مستقل قلعوں میں قیام کے دوران ان کے پاس بےشمار دوست احباب میسرہوتے تھے جن میں طوائفیں بھی شامل تھیں۔ 18ان طوائفوں سے تعلقات کے علاوہ جنسی تسکین کے سامان میں مرد غلاموں سے جنسی تعلق، جنگ کے دوران عصمت دری اور ہم جنس پرستی پر مبنی تعلقات بھی شامل تھے ۔ 19 جنگ کے دوران جنگی قیدیوں کو وحشیانہ جنسی مقاصد کے لیےاستعمال کرنے کے عمل کو مجرمانہ عصمت دری تصور نہیں کیا جاتا تھا۔اجتماعی عصمت دری شہر پر قبضے کے دوران تعزیراتی تشدد کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔20تاہم شہر میں افواج کا داخلہ سفارتی بات چیت سے ہونے کی صورت میں عام رواج کے مطابق شہریوں کو نہ ہی غلام بنایا جاتا تھا اور نہ ہی ان پر انفرادی تشدد کیا جاتا تھا۔کچھ صورتوں میں اجتماعی عصمت دری بھی کی گئی تھی، تاہم محفوظ رہ جانے والے ذرائع میں اس کا بہت کم ذکر کیا گیاہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھاکہ رومی ظالم و سفاک نہیں تھے بلکہ اخلاقی ضابطوں اور اقدار پر عمل کرتے تھے 21حالانکہ حقیقت اسکے برعکس تھی جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔
روم میں قتل عام اور نسل کشی کا عمل دو طرح سے وقوع پذیر ہوا تھا۔اس کی خارجی صورت بے لگام وحشت اور خونخواری پر مبنی افعال اور غیر رومیوں کے بڑے گروہوں کا قلع قمع کرنے اور انہیں نیست و نابود کردینے جیسے عوامل کا احاطہ کرتی ہے۔جبکہ اس کی اندرونی صورت میں رومیوں کی ایک دوسرے کی منظم انداز سے تباہی ،بربادی اورہلاکت جیسے عوامل شامل ہیں۔خارجی قتل عام کو رسواکن انداز سے بیان کرتے ہوئے سینیکا(Seneca) نے کہا ہےکہ ہم وہ مخبوط الحواس قوم ہیں جو انفرادی قتل کی جانچ پڑتال تو کرتے ہیں مگر جنگ کے دوران کیے گئے قوموں کےقتل عام جیسے عظیم جرم کو روکنے کے لیےکچھ نہیں کرتے جو کہ باضابطہ طور پر مدون قوانین کے اختیارات کے تحت کیا جاتا تھا۔سلا (Sulla)اندرونی اور خارجی دونوں طرح کے قتلِ عام کے لیے مشہور تھا۔سلا(Sulla) کے خارجی دشمن قدیم اٹلی کےسمنائی باشندے تھے جو رومی سلطنت کے قیام سے قبل اس کی بیخ کنی کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ بعد میں 82 قبل مسیح میں سمنائیٹ (Samnites)جو کہ قدیم دشمن سمجھے جاتے تھے سلا(Sulla) کے مقابلے میں ماریوس(Marius) کی طرف سے خانہ جنگی میں شریک ہوئے مگر سلا(Sulla) نے انہیں کولائین گیٹ(Colline Gate)کی فیصلہ کن جنگ میں شکست دی۔اس جنگ میں سلا (Sulla)نے 8000سپاہیوں کو قید کیا مگر چونکہ ان میں زیادہ تر سمنائیٹ (Samnites)سپاہی تھے اس لیے انہیں قتل کرادیا۔ حالانکہ ان کے شکست تسلیم کرنے کے بعد انہیں 3دن قید رکھا گیا جس کے بعد سلا (Sulla)نے انکے قتل عام کا حکم جاری کیا تھا۔ غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے موجود قاعدوں کی اس طرح خلاف ورزی وحشت و بربریت کی صریح مثال ہے۔ تاہم یہ عمل سلا(Sulla) کی قاتلانہ روش کا نقطہ ِآغاز تھا۔پرینیسٹی(Praeneste) شہر پر قبضے کے بعد قیدیوں کو تین حصوں میں تقسیم کرایا گیاجن میں رومی، سمنائیٹ (Samnites)اور پرینیسٹیائی(Praenestians) باشندے شامل تھے۔ رومیوں کو معاف کر دیا گیا جبکہ سمنائیٹ (Samnites)اور پرینیسٹیائی(Praenestians) مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔بچوں اور عورتوں کو عصمت دری اور غلامی کے لیےالگ کر لیا گیا۔ مگر چونکہ سلا(Sulla) سمنائیٹ(Samnite) قوم کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کے درپے تھا اس لیے اس نے اعلان کردیا کہ کوئی رومی اس وقت تک چین سے نہیں رہ سکتا جب تک سمنائیٹ(Samnite)ایک الگ قوم کے طور پر باقی ہیں۔
سمنائم(Samnium)میں باقاعدہ بیخ کنی اور نسل کشی کی تحریک چلائی گئی جس کے اختتام پر کچھ قصبے صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے جبکہ کچھ صرف چھوٹے چھوٹے دیہات کی حد تک محدود ہو چکے تھے ۔ اس علاقے کو دیکھنے والے اس بات پر یقین نہیں کر سکتے تھے کہ کبھی یہاں سمنائم(Samnium) جیسا شہر بھی آباد تھا۔ سلا(Sulla) نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس نے انٹیمنائی(Antemnae)کے قصبے سے 6000افراد کو روم کے فلامینئس سرکس (Circus Flaminius)میں منگوایا تاکہ وہ انہیں سینیٹ (Senate)میں اپنے خطاب کے دوران ذبح کراسکے۔
سلا(Sulla) 82 قبل مسیح میں اندرونی قتل عام کی طرف متوجہ ہوا۔ڈکٹیٹر بن جانے کے بعد اس کے پاس سب کچھ کرنے کا قانونی راستہ موجود تھا۔ لوگوں کے قوانین نے اسے مطلق العنان آمر بنا کر قانون سازی اور ریاست کی تشکیلِ نو کا اختیار دے دیا تھا۔اس کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ جسے چاہے بغیر کسی مقدمے یا دستور العمل کے موت کی سزادے سکے۔ ریاستی دہشت گردی کی بجائے سلا (Sulla)نے یہ کام عوامی رد عمل سے کروائے۔اس نے عوامی مقامات پر ان لوگوں کے نام آویزاں کرادیے جنہیں قتل کرانا مقصود تھا اور ان کے سر کے بدلے انعام کا اعلان کردیا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ان مجرموں کے سر کاٹ کر انہیں قتل کیا جائے کیونکہ ان کا سَر پیش کرنے کی صورت میں ہی انعام کا حصول ممکن تھا۔ان واجب القتل افراد کی جائیداد ضبط کر لی جاتی تھی۔ ان کی تدفین اور سوگ منع تھا جبکہ ان کی اولاد پر شہری پابندیوں کا اطلاق ہوتا تھا۔مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات میں سلا (Sulla)کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔اپّئیان (Appian) کے اندازے کے مطابق 105 سینیٹرز(Senators)، 2600 بہادر سردار اور بے شمار دیگر افراد سلا(Sulla) کی سفاکیت اور بربریت کا نشانہ بنے تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔22
رومی افواج کا مطمع نظر سلطنتی حدود میں اضافہ، دہشت گردی اور دوسری قوموں کی دولت اورذرائع کو لوٹنا تھا چاہے اس کےلیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ قدیم رومی سلطنت کا کچھ ایسا ہی منشور تھا جیسا کہ آج کل کچھ نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار طاقتوں کا ہے جو ایک طرف تو انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں اور دوسری طرف بے گناہ معصوم انسانوں کا خون بہاتے ہیں۔ سلطنت روم کی تاریخ لاکھوں افراد کے اجتماعی قتل اور اتنی ہی تعداد کی غلامی سے داغدار ہے۔ حکمرانوں نے اپنی سلطنت کی حدود میں اضافے اور ذاتی مفادات کے لیےجنگوں میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا۔ان جنگوں میں کوئی اصول سامنے نہ رکھا جاتا تھا۔ عورتوں کی آبروریزی کی جاتی اور بچوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔
یہ ایک المیہ ہے کہ ان دہشت ، خوف اور ظلم کی علامت سمجھے جانے والے ننگ ِ انسانیت بادشاہوں اور جرنیلوں کو بہادر ی اور انسانیت کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ جن عظیم نفوس نے انصاف ، امن اور خوشحالی کے لیےجدوجہد کی انہیں انسانیت دشمن ، شر پسند(Villain) اور کمتر مخلوق کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔یہ اسلام ہی ہے جس نے جنگ کے بھی واضح اصول بتائے ہیں اور ان کی پابندی سختی سے لازمی قرار دی ہے۔ اسلام عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کے تحفظ کی مکمل ضما نت دیتا ہے اور صرف ان سے لڑنے کا کہتا ہے جو ہتھیار اٹھا کر مقابلے کے لیےآتے ہیں۔