قدیم سلطنت روم ایک ایسے وسیع و عریض خطہ ارض پر قائم تھی جس میں لاتعداد انسانی و قدرتی وسائل موجود تھے۔روم کی معیشت کا دارومدارزیادہ تر زراعت اور تجارت پر منحصر تھا۔ روم کی زراعت کا اہم مقصد اپنی عوام اورعسکری افواج کا پیٹ پالنا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رومی معیشت لگان کے حصول، سکوں کی ایجاد،اور اضافی زرعی پیداوار کی بدولت مستحکم ہوتی چلی گئی ۔
سلطنت روم کثیر وسائل سے مالا مال تھی ۔ زراعت کا شعبہ مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔ مندرجہ ذیل حوالے سے اس کی تائید ہوتی ہے:
Agriculture was of primary importance to the ancient Romans. Rome itself began as a farming community, and farming developed into a major economic activity throughout the Roman Empire.1
زراعت قدیم رومیوں کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل تھی۔روم نے خود ایک زراعت پیشہ برادری کے طور پر ابتدا کی تھی۔ پوری سلطنت میں زراعت ایک بڑی معاشی سرگرمی میں تبدیل ہو گئی تھی۔
یہاں پر ہرقسم کے کھیت موجود تھے جو عام لوگوں کے چھوٹے رقبہ پر محیط کھیتوں سے لے کر امراء کے وسیع و عریض باغات اور کھیت کھلیان پر مشتمل تھے۔ان میں غلام فصل کاشت کیا کرتے تھے۔ زراعت کے پیشے نےرومی امرا کے لیے خزانوں کے انبار لگادیے تھے۔ قدیم روم میں مختلف زمینی حصوں پر مشتمل کھیت موجود تھے۔ غریب لوگوں کے پاس کاشت کے لیے زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھےجبکہ امراء کے پاس اتنی بڑی زمینیں تھیں کہ ان کو کاشت کرنے کے لیے غلاموں کے دستوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ روم کے امراء کے نزدیک کھیتی باڑی عزت داروں کا پیشہ تھا اور تجارت سے زیادہ نفع بخش اور محفوظ کام تھا۔ 2
جو بھی فصل کاشت ہوتی، کسان اسے بازار لے جا کر فروخت کردیا کرتے تھے۔ روم میں عام افراد کی ملکیت میں کھیت کے علاوہ سرکار کی اپنی زمینیں بھی تھیں ۔جنہیں لیٹیفنڈیا(latifundia) کہا جاتا تھا۔ یہ وہ زمینیں تھیں جن پر پہلے رومی فوج قبضہ کرلیتی اور بعد میں اس پر وہاں کے امرا ءقبضہ کرلیا کرتے تھے۔ ان زمینوں پر غلام کاشت کاری کرتے پھر فصل کو نفع کے عوض فروخت کردیا جاتا تھا۔ اس طرح روم کی سرکار غلہ کو اپنے قابو میں رکھتی تھی ۔3 اس طریقے سے امراکی تجوریاں بھرتی چلی گئیں لیکن غریب لوگوں کے لیے جینا دوبھر ہوگیا تھا۔ 4
روم کے کاشتکار عمومی طور پر سبزیاں، غلہ اور پھل اگایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جانوروں کو پالنے کا بھی رواج تھا۔ غلہ میں یہ لوگ جَواور گندم کی فصل کاشت کرتے جبکہ پھلوں میں سیب، ناشپاتی، انگور، انجیر، جامن اور چیری وغیرہ اگاتے تھے۔ گری دار میووں میں بادام، اخروٹ، بلوت کا پھل(Chest Nut) وغیرہ کی فصل کاشت کرتے اور کچھ جڑی بوٹیاں بھی اگایا کرتے تھے ۔5
روم کی کل آبادی دس لاکھ سے زیادہ تھی ۔سلطنت اس قابل نہیں تھی کہ ہر ضرورت کی چیز خود کاشت کرے لہذا اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے تجارت کا سہارا لیتی تھی ۔وقت کے ساتھ ساتھ تجارتی معاملات میں اتنی ترقی حاصل کرلی گئی کہ روم ایک بڑا تجارتی مرکز بن گیا تھا ۔6جب روم کی منڈیاں وسیع پیمانے پر پھیل گئیں تو ہر شخص یہ خواہش رکھتاکہ اپنا پیسہ بازار میں لگائے اور اس کے ذریعے نفع کمائے۔ مالداروں کے علاوہ مختلف فنون میں مہارت رکھنے والوں نے بھی بازار میں ڈیرے ڈال لیے اور یوں روم کی معیشت کو مزید ترقی دینے کا سبب بنے۔بعد میں مختلف فنون کے ماہرین مخصوص جگہ اکھٹے ہوکر کام کرنے لگےاوریوں وہ مقام انہی ماہرین کے لیے ہی مشہور ہوگیا،جیسے کپوا(Capua) چاندی کے کام کی وجہ سے معروف ہوگیا ، اس کے علاوہ پاتاویم(Patavium) خاص طور پر اون کے کپڑوں کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ اس طرح روم کے مختلف شہر خاص اشیاء کی تجارت اور فنون کا مرکز بنتے چلے گئے۔7 ہر شہر اپنی ضرورت کے مطابق دیگر شہروں کے ساتھ تجارت کرتا۔ جو لوگ کسی خاص فن میں ماہر نہیں ہوتے، وہ کسی بھی کاروباری شخص کے پاس مزدوری کرلیتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے سلطنت روم کی حدودمیں اضافہ ہوتا چلا گیاویسے ہی تجارت کا دائرہ کار بھی وسعت اختیار کرتاچلا گیا۔ اگسٹس(Augustus) کی حکمرانی کے بعد روم کی ایشیا ئی(Asia) ممالک کے ساتھ تجارت میں کافی حد تک اضافہ ہوا تھا،خاص طور پر چین سے۔ ہر سال سلطنت روم، چین اور ہندستان سے مصالحہ جات اور قیمتی ریشم درآمد کیا کرتےتھے۔ اس کے علاوہ درآمدات میں خوشبوئیں اور قیمتی جوہرات بھی شامل ہوتے جن کی قیمت سونے اور چاندی سے ادا کی جاتی تھی کیونکہ اس کے بدلے رومیوں کے پاس دینے کو کچھ اور میسر نہ تھا۔
روم میں درآمدات کا سلسلہ یوں تھا کہ تجارتی قافلے روم آتےیا رومی تاجر خود دوسرے شہر وں میں جاکر سامان خریدتے اور اسے روم بھجوادیا کرتے تھے۔ ابتدا میں روم کی حدود میں کوئی بندرگاہ نہیں تھی۔ تاجرخریدا ہواتمام سامان روم کی کسی قریبی بندرگاہ میں اتارتےجسے بعد میں زمینی راستے کے ذریعہ سلطنت روم پہنچا دیا جاتا تھا۔ بعد ازاں کلاڈیس (Claudius) نے ایک پورٹس) (Portus نامی شہر تعمیر کروایا جو روم کی بندرگاہ بن گیا تھا۔
اسی طرح روم کی معاشیات میں ریشم اور ریشمی کپڑوں کی تیاری اگرچہ ابتدا ءمیں صرف درآمد کی صورت میں ملتی ہے لیکن وقت کے ساتھ بالخصوص جسٹینین (Justinian)کے دور میں ریشمی کیڑوں کی روم میں پرورش نے اہل روم کے لیے اس بات کو ممکن بنادیا کہ وہ نجی اور قومی سطح پر ملک کی معاشیات کے لازمی جزو کی حیثیت سے ریشمی کپڑوں کی تجارت کرکے قومی اقتصادیات کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکیں۔
ریشم کی صنعت کاری کے متعلق ایچ اسٹیوارٹ لکھتاہے:
The silk-worm (bombyx) is first mentioned in ancient literature by Aristotle; and the manufacture of silk from its cocoon was carried on in Assyria, whence bombycinae vestes were imported by the Romans.8
ریشم کے کیڑے کا ذکر سب سے پہلے ارسطو کے قدیم ادب میں کیا گیا ہے۔اور اس کےخول سے ریشم کی تیاری آشوریہ میں کی گئی تھی، جہاں رومیوں کے ذریعے ریشمی لباس کی درآمد کی جاتی تھی۔
552 عیسوی کے قریب نسطور یافرقہ کے چند راہب چین سے ریشم کے کیڑوں کے انڈے اور شہتوت کے درختوں کی قلمیں لے آئے۔ حکومت نے ریشم پیدا کرنے کی صنعت کو اپنی سرپرستی میں لے کر نقطہ عروج تک پہنچادیا ۔ ریشمی پارچہ جات اور ارغوانی رنگ کا لباس پہننے کی اجازت حکومت کے افسرانِ اعلیٰ تک محدود تھی۔ سب سے زیادہ قیمتی ریشمی کپڑا شاہی خاندان کے افراد کے لیے مختص تھا۔ بعض لوگوں نے ذاتی ذرائع سے ریشم کے کیڑوں کے انڈے حاصل کیے اور ان کی پرورش کر کے ریشم بنا کر ریشمی کپڑے بنانے شروع کردیے تھے۔جسٹینین (Justinian)نے اس بلیک مارکیٹ کے خاتمے کے لیے ریشم سازی او رریشم بافی کی صنعتوں سےتمام پابندیاں اٹھالیں اور عوام کو نجی صنعتیں لگانے کی اجازت دے دی گئی۔ 9
سامان ضرورت کے علاوہ تفریح کے لیےروم افریقہ سے جانور درآمد کرتا جن کو گلیڈئیٹر (Gladiator)کے کھیلوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔اس کھیل میں جانوروں کو انسانوں سے براہ راست لڑایا جاتا تھا۔10 ان سرگرمیوں پر سلطنت روم بھاری رقوم خرچ کرتی تھی، کیونکہ وہ لوگ ان کھیلوں کو رومی سلطنت کے لیے عزت کی علامت سمجھتے تھے جبکہ عوام کا حال یہ تھا کہ وہ بھوک سے سسک رہی ہوتی تھی اور امرا ءاپنی عیش و مستی میں کھیل تماشوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
سلطنت روم میں جو بھی برآمدات یا درآمدات کی جاتیں ان پر کسٹم دیوٹی لگائی جاتی، جسے پورٹوریئم (Portorium) کہا جاتا تھا۔ لگان سیدھا حاکم ِوقت کی تجوری میں جمع ہوتا تھا۔ اس لگان کے تعین کے لیے دو طریقے استعمال کیے جاتے، اگر ضرورت کا سامان ہوتا تو اس پر 2سے2.5فی صد تک جب کہ دیگر اشیاء پر 25 فی صدمحصول وصول کیا جاتا تھا۔ 11
روم میں قیمتی دھاتوں کی کانیں یا تو فوج کی نگرانی میں کھودی جاتیں، جن میں غلاموں یا سزا یافتہ مجرموں کوکام پر لگایا جاتا یا پھر انہیں معاہدے کے تحت کرائے پر دےدیا جاتا تھا۔ ان کانوں سے ٹن (Tin)، تانبا (Copper) ، چاندی، سونا اور لیڈ(lead) وغیرہ نکالا جاتا تھا۔ اکثر سونے اور چاندی کی کانوں میں سرکاری نگرانی میں کام لیا جاتا تھا۔12
قدیم روم کے معاشی نظام کے استحکام میں تجارت وصنعت کی طرح سرکاری و نجی کمپنیوں کے اشتراک سے کانوں سے نکلنے والی معدنیات بھی رومی سلطنت کے معاشی وسائل میں سے ایک اہم ذریعہ تھی ۔ليزلی ايڈكنز (Lesley Adkins)اس بارےمیں تحریر کرتی ہے:
With the exception of agriculture, mining was one of the largest industries in the Roman world, and was organized on an immense scale. Evidence for mining is found in many provinces, but particularly in Spain, extremely important for gold, silver, copper, tin, lead and iron. Because many sites continued to be mined long after the Romans, much evidence for Roman mining techniques has been obliterated, and dating mines can be very difficult.13
زراعت کے علاوہ، کان کنی رومی دنیا میں سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک تھی۔اسے وسیع پیمانے پر منظم کیا گیا تھا ۔ بہت سے صوبوں میں کان کنی کے ثبوت ملتے ہیں لیکن خاص طور پر سپین سونے، چاندی، تانبے، ٹن، سیسہ اورلوہے کے لیے بہت اہم تھا۔ رومی سلطنت کے ختم ہونے کے بعد بھی کان کنی کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ جاری رہا ۔ رومیوں کی کان کنی کے کئی طریقوں کے ثبوت مٹا دیے گئے تھے۔ اسی وجہ سے کان کنی کی تاریخ کا تعین مشکل امر ہے۔
(ول ڈیورانٹ) (Will Durant) لکھتا ہے :
The mineral resources of the soil were owned by the state, but were mostly mined by private agencies on governmental lease. 14
معدنی دولت حکومت کی ملکیت تھی لیکن نجی ادارے کانوں کو حکومت سے کرائے پر لیتے اور معدنیات نکالتے تھے۔
کسی بھی ملک کا معاشی نظام، زر کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ آج کی اصطلاح میں اس کو کرنسی کا نظام کہتے ہیں ۔ روم کے معاشی نظام میں بھی کرنسی کی اہمیت کے پیش نظر کانسی کے سکوں کو متعارف کروایا گیا تھا تاکہ تبادلہ اشیاء ، لین دین، خرید و فروخت ، درآمدات و برآمدات سمیت جملہ مالی حساب و کتاب کو صحیح طریقے پر روبہ عمل لایا جاسکے۔
سکوں کی ایجاد سے پہلے قدیم روم میں کانسی کو زرمبادلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کا کوئی خاص وزن متعین نہیں تھا لہذا ہر چیز کی تجارت کے موقع پر میزان کا ہونا ضروری تھا تاکہ وزن کرکے تجارت کی جاسکے۔ مزید یہ کہ کانسی کے زرمبادلہ کی کوئی مخصوص شکل بھی نہ تھی بلکہ یہ کٹے ہوئے حصوں میں رکھے جاتے تھے۔ مؤرخین کی تحقیق کے مطابق ایک کانسی کے حصہ کا اوسط وزن 327.45 گرام تھا۔ 15
روم میں سکوں کا رواج تقریبا تیسری صدی قبل مسیح کے درمیان یونان سے آیا تھا۔ ابتدا میں رومی سکوں پر کوئی شکل کندہ نہیں تھی بلکہ وہ سادہ ہوا کرتے تھے۔ پھر تقریبا 150 سال بعد ا ن سکوں پر روم کے حکمرانوں کی تصاویرکندہ کی جانے لگی تھیں۔ 16
بینک اور بینکرز روم کی معیشت کا ایک اہم رکن تصور کیے جاتے تھے۔17روم نے بینکاری کے نظام کا اکثر حصہ یونان سے حاصل کیا جس پر انہوں نے مزید کام کرکے اپنا نظام بنا لیا تھا۔ ابتدا میں رومی بینک چھوٹے تھےاور اکثر معاہدے اور معاملا ت امیر تجار دیکھا کرتے تھے۔
اگر کسی شخص کو کوئی رقم ادا کرنی ہوتی اور وہ رقم کو ساتھ نہیں لے جاناچاہتا تو ایک تاجر اس شخص کو بِل اوف ایکسچینج (Bill of Exchange) دیتا جس پر لکھا ہوتا کہ فلاں شخص کو یہ رقم دے دی جائے۔ بل اوف ایکسچینج (Bill of Exchange) ہمارے زمانے کے چیک(Cheque) کی طرح کام کرتا تھا۔اس آسانی کی وجہ سے لوگوں نے نقد کام کرنے کے بجائے بل اوف ایکسچینج(Bill of Exchange) کے ذریعہ کاروبار کرنا شروع کردیا تھا۔
تقریبا 200 عیسوی میں رومی سرکار نے بینکنگ کے نظام کے اکثر حصہ پر دسترس حاصل کرلی تاکہ اس میں مزید اصلاحات کرکے اس کو اور بہتر بنايا جاسکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ روم کی سرکار نے نئے قانون مرتب کیے جس سے اس نظام کو فائدہ ہوا اور اس پر ان کا تصرف مزید مضبوط ہوگیا تھا۔ 18
بظاہر یہ بات آ ج کے کسی بھی جدّت پسند ذہن رکھنے والے شخص کے لیے اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے کہ جس جدید بینکنگ کے نظام میں آج ہم لوگ جکڑے ہوئے ہیں اسکی اساس اتنی پرانی ہے یا رومیوں نے اس وقت ہی اتنی ترقی کر لی تھی لیکن بنظر عمیق اگر دیکھا جائے تو یہی وہ بنیاد تھی جسکو رومیوں نے بھی لوگوں کےمعاشی استحصال کے لیے اس وقت قائم کیا تھا جب لوگ جدید معاشی اصطلاحات سے مکمل ناآشنا تھے یہی وہ نظام تھا جس نے آگے چل کر رومی معیشت کو بھی سود کی زنجیروں میں جکڑ لیا تھا جس سے چند لوگ تو یقینا مستفیض ہوتے تھے لیکن اکثریت ہمیشہ خسارے کا شکار رہتی تھی اسلیے اس بینکنگ کے نظام کو کسی بھی صورت روم کی ترقی اور برتری کی علامت نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ یہ وہ استحصالی نظام تھا جو اس وقت بھی قابل مذمت تھا اور یقینا آج بھی لائق مذمت ہے کیونکہ ہر باشعور شخص پر اس قبیح نظام کیس سفاکیت منکشف ہے ۔
ابتدا میں رومی شہریوں کو لگان دینے سے مستثنی رکھا گیا لیکن 217 عیسوی کے بعد تمام شہری اور غیر شہری افراد پر لازم تھا کہ لگان ادا کریں۔19 رومی سلطنت کی کمائی کا اکثر حصہ لگان پر منحصر تھا جسے رومی رعایا کے ساتھ ماتحت ریاستوں سے بھی وصول کیا جاتا تھا۔ شروع کے ادوار میں زمین کے لگان ٹریبوٹم سولی(Tributum Soli) کہا جاتا تھا۔ اس کے لیے کوئی خاص مقدار متعین نہیں تھی ۔ ہر زمین کا اس کی پیداوار اور اثاثوں کی بنیاد پر لگان نقد وصول کیا جاتا یا پھر اموال کی شکل میں جمع کیا جاتا تھا۔ سب سے زیادہ اہم لگان ارتابیہ(Artabia) تھا جو گندم کی پیداوار پر وصول کیا جاتا تھا ۔ یہ ایک متعین مقدار تھی اور ہر گندم کی کاشت کرنے والے پراسے ادا کرنا لازم تھا۔ زراعت پر لگان رومی سلطنت کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔20
جن لوگوں کی ملکیت میں زمینیں نہ ہوتیں، ان پر ایک الگ لگان لگایا جاتا جسے ٹریبیوٹم کاپیٹیس(Tributum Capitis) کانام دیا گیاتھا۔ وہ لوگ جن کی عمریں 20سے زیادہ ہوتیں ، ان پر اس کی ادائیگی لازم تھی ،لیکن عورتوں کے لیے ایک آسانی تھی، انہیں صرف اس کی آدھی مقدار ادا کرنی پڑتی تھی۔ اس کے علاوہ غلاموں کی آزادی پر بھی 5 فی صد لگان مقرر تھا اور بندرگاہوں پر بھی ایک خاص لگان مختص تھا۔
لگان کی وصولی صوبائی حکومت کے ماتحت کچھ افراد کرتے تھے۔ لگان وصول کرنے والے لوگوں سے لوگ اتنی نفرت کرتےکہ موقع ملنے پر ان میں کچھ کو تو قتل تک کرڈالا جاتاتھا۔ اس کی وجہ سے حکومت نے مزید سخت اقدامات کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ تمام محصولات اکٹھے ہوں۔ اگر کوئی شخص وقت پر لگان نہ دے پاتا تو بعد میں اس شخص سے پچھلا تمام لگان وصول کرنے کی ہدایت دی جاتی تھی۔ اگر وہ شخص لگان کو ادا نہ کرتا تو اس پر تشدد کیا جاتا یا قید کردیا جاتا یا پھرقتل تک کردیا جاتا تھا۔21
جسٹینین (Justinian)نے حکومت کے کارخانوں میں تیار شدہ ریشم کے پارچات سے دکانوں کو بھردیا اور ان کا نرخ بھی بڑی حد تک گرادیا اور اتنے کم نرخ پر ان کو بازار میں فروخت کرنا شروع کردیا کہ نجی ادارے اس قیمت پر ریشمی کپڑا فروخت نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ان کی لاگت بہت زیادہ تھی۔ اس مقابلہ میں ناکام ہونے کے بعد ریشمی کپڑا بنانے والے نجی کارخانے بند ہوگئے۔ جب نجی کارخانوں میں بنا ہوا ریشمی کپڑا مارکیٹ میں آنا بند ہوگیا تو بادشاہ نے حکومت کے کارخانوں میں بنے ہوئے ریشمی پارچات کے نرخوں کو بڑھادیا اور اس طرح اپنی قوم کے باہمت افراد کی حوصلہ شکنی کر کے ریشم سازی اور ریشم بافی کی صنعت میں اپنی اجارہ داری قائم کرلی تھی۔ 22
مزید رومی تاریخ کے مرتّبین نے درج ذیل وجو ہ کو روم کی معاشی تباہ حالی کا ذمہ دار قرار دیا ہے:
The Economic Background for the decline of the ancient culture was not slavery but the roman colonate. It is certain that the breaking if the ancient economic and intellectual order of society was due to primarily to causes within the Roman Empire. External reasons had little appreciable bearing upon the great change.23
قدیم ثقافت کے زوال کا معاشی پس منظر غلامی نہیں بلکہ رومی استعماریت تھا۔ یقیناً معاشرے کے قدیم اقتصادی اور دانشورانہ سلسلے کا انقطاع ،سلطنت روم کی داخلی وجوہات کی بنا پرہوا تھا۔ بیرونی وجوہات کا انقلاب پر قدرے ہی اثر پڑا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ روم کی معاشی بدحالی کے اہم پہلوؤں کی طرف برائن وارڈ پرکِن (Bryan Ward-Perkins' ) رقمطراز ہیں:
The traditional and nuanced argument that the empire's demise was brought about through a vicious cycle of political instability, foreign invasion, and reduced tax revenue.24
روایتی اور جدید ترین دلیل یہ ہے کہ سلطنت کا خاتمہ سیاسی عدم استحکام، غیر ملکی حملے، اور ٹیکس کی آمدنی میں کمی کی وجہ سے ہوا تھا۔
روم کی معاشی تباہی میں ایک بڑا عنصر وہاں امیر و غریب کے درمیان پیدا ہونے والی وہ خلیج تھی جس نے متوسط طبقے کو بالکل ہی غائب کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان بہت زیادہ فرق پیدا ہوگیا تھا۔( The Decline and Fall of the Roman Empire )کی درج ذیل عبارت میں اس امر کی وضاحت موجود ہے :
Economically, the gap between rich and poor increased as the empire began its decline. The middle class seems to have disappeared, while the division between the upper and lower classes grew. 25
سلطنت کے زوال سے معاشی طور پر امیر اور غریب کے درمیان فاصلے بڑھے۔ درمیانی طبقہ مفقود ہوتا نظر آیا، جبکہ اعلیٰ اور ادنی طبقوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئی تھیں۔
روم کی معاشی حالت کی تباہی میں روم پر ہونے والے مسلسل حملے بھی ایک ایسی مضبوط اور ناقابل تردید وجہ تھی جس کے نتیجے میں روم کی زرعی پیداوار تباہ و برباد ہوکر رہ گئی اور دیہاتیوں کو مجبوراً زراعت کا پیشہ ترک کرکے شہروں میں بود و باش اختیار کرنی پڑی ۔ جس سے ایک طرف زرعی پیداوار میں بے پناہ کمی واقع ہوئی تو دوسری جانب بڑھتی ہوئی آبادی نے شہری توازن کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ مؤرخین روم کی معاشی بد حالی کےبارےمیں لکھتے ہیں:
The loss of revenue for the western half of the empire could not support an army - an army that was necessary for defending the already vulnerable borders. Continual Warfare meant trade was disrupted; poor technology made for low food production, the city was overcrowded, unemployment was high, and lastly, there were always the epidemics.26
سلطنت کے مغربی نصف حصہ کے لیے آمدنی کا خسارہ فوج کے اخراجات میں تعاون کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بھی ایک ایسی فوج جو پہلے سے ہی خطرناک سرحدوں کی حفاظت کے لیے ضروری تھی۔ مسلسل جنگ کا مطلب تھا کہ تجارت بُری طرح متاثر ہوجائےکمزور تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے غذائیت سے کم خوراک کی پیداوار ہوئی، شہر کی آبادی حد سے متجاوزتھی، بے روزگاری زیادہ تھی، اور آخری بات، وہاں ہمیشہ وبائی بیماریاں پھیلی رہتی تھیں۔
پال ارڈکمپ(Paul ErdKamp) روم کے سیاسی ، فوجی اور معاشی زوال کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ صرف 65 سال کے عرصے میں روم نے 20 مختلف حکمراں دیکھے جن میں سے تقریباً ہر ایک کو فوری نوعیت کے سرحدی چیلنجز سےنمٹنا پڑا تھا۔ چنانچہ اس کا فوری اثر افراطِ زر اور ڈگمگاتی معیشت کی صورت میں ظاہر ہونے لگا تھا ۔
Political, military and economic instability created a 65-year ‘crisis’ after the reign of Caracalla ended in 217 A.D. During this period, Rome saw over twenty different emperors, each dealing with urgent military challenges at the empire’s borders, steep inflation crippling the economy. 27
217 عیسوی میں کاراکالا کے اقتدار کےختم ہونے کے بعد سیاسی، فوجی اور اقتصادی عدم استحکام نے 65 سالہ بحران پیدا کیا۔ اس مدت کے دوران، روم نے بیس مختلف شہنشاہوں کو دیکھا۔جن میں سے ہر ایک کو روم کی سرحدی حفاظت کے لیے فوری فوجی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونا پڑا تھا۔تیز رفتار افراطِ زر نے معیشت کو کمزور کردیا تھا ۔
روم کی مشرقی ریاست میں اجتماعی بد نظمی انتہاکو پہنچ گئی تھی۔ باوجود اس کے کہ عام رعایا بے شمار مصائب کا شکار تھی، ٹیکس اور محصول دوگنے چوگنے بڑھ گئے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے باشندے حکومت سے نالاں ہوگئےاور اپنے ملکی حکمرانوں پر بدیسی حکومتوں کو ترجیح دینے لگے تھے۔عوام کی خستہ حالی کا تو یہ عالم تھا لیکن شاہی خاندان اور حکومتی افسران اور رؤسا کی عیش کوشی کی داستانیں پڑھ کر انسان ششدررہ جاتاہے۔ ان کے عالی شان محلات، دیوان خانے، ناؤونوش کی مجالس، عیش وعشرت کے سازوسامان کی انتہا نہ تھی۔ اس قسم کے حوالوں سے تاریخ کی کتابوں کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ یہاں تو صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ عظیم رومی سلطنت کے سائے میں انسانیت دوطبقوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ ایک طبقہ کو دنیا بھر کی راحتیں، آسائشیں اورجملہ وسائل عیش وطرب میسر تھے اور دوسری طرف عوام کا سوادِ اعظم تھا جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی ترس رہا تھا اور افلاس وتنگ دستی کے باوجود مملکت کی ساری مالی ضروریات بہم پہنچانے کا بوجھ اس نے اٹھارکھا تھا۔