اہل روم کے نزدیک عبادات اور مذہبی رسومات انتہائی اہمیت کی حامل تھیں ۔وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ اگر ان کے دیوتاؤں کی مسلسل عبادت کی جائے ، ان کے لیے چڑھاوے و نذرانے چڑھائےجائیں اور ان کے مذہبی تہوار باقاعدگی کے ساتھ منائے جائیں تو دیوتا ان سے نہ صرف خوش ہوجائیں گےبلکہ اس کے بدلے میں انہیں دنیا وی نعمتوں اور لذتوں سےمالا مال کردیں گے اور ان کے تمام گناہوں کو معاف کرکے اپنے قہروغضب سے بھی دور رکھیں گے۔ جس طرح اہل روم کے عقائد خودساختہ اور گھڑے ہوئے تھے، ویسے ہی ان کی مذہبی رسومات بھی خود اخذ شدہ تھیں،جن کا حقیقت میں مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ رومی باشندے مذہبی رسومات اپنی عبادت گاہوں ، گھروں یا کھلے میدانوں میں ادا کرتے تھے۔
روم کے معابد کو ایڈیس(Aedes) کہا جاتا تھا۔ ابتدائی ادوار میں رومی عبادت گاہوں کی تعمیرات کے لیے لکڑیاں استعمال کی جاتی تھیں۔بعد ازاں چوتھی صدی قبل مسیح میں لکڑی کی جگہ پتھروں سے معابد کی تعمیرات کی جانے لگیں۔1لفظ مندر صرف رومی دیوتاؤں کے معابد کے ساتھ خاص تھا۔ اگر کوئی شخص کسی غیر رومی دیوتا کے لیے معبد تعمیر کرتا تو اسے فینم(Fanum) کہا جاتا تھا۔2رومی مندروں میں عمومی طور پر ایک بڑا ہال بنایا جاتا جہاں دیوتا کا بڑا مجسمہ نصب کیا جاتا تھااور وہیں مجسمہ کی عبادت بھی کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ مندرکی پچھلی طرف ایک اور کمرہ بنایا جاتاجہاں پر ان قیمتی اشیاء کو جو چڑھاوے کے طور پر پیش کی گئی ہوتیں، محفوظ کیا جاتا تھا ۔3
قدیم سلطنت ِروم بت پرستوں، یہودیوں اور عیسائیوں کا مسکن رہی ہےاسی وجہ سے روم میں طرح طرح کے معبد جیسے کہ بت پرستوں کے مندراورعیسائیوں کے کلیسا پائے جاتے تھے۔ ان عبادت گاہوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
اپولو (Apollo)دیوتاکا ایک بہت بڑا مندر تھا جس کی تعمیر اگسٹس آکٹیوین (Augustus Octavion) نے پلاٹین (Palatine)کی پہاڑی پر اپولو (Apollo)دیوتا کی پوجا کے لیے 28 قبل مسیح میں کروائی تھی۔
کنکورڈ (Concord)کا مندر رومینم فورم (Romanum Forum)کے خاص معبدوں میں سے ایک تھا جو کونکورڈیا (Concordia)نامی دیوی کے طرف منسوب تھا۔
ڈیوس اگسٹس (Divus Augustus)کے معبد کو شہنشاہ طبیریس (Tiberios)اور اس کی ماں نے 14 صدی عیسوی میں تعمیر کروایا تھا تاکہ اگسٹس (Augustus)خدا کی رسومات کو اس کی موت کے بعد بھی ادا کیا جاسکے۔
ڈیوس کلوڈیس (Divus Claudius)کا مندر شہنشاہ کلوڈیس (Claudius)نے سیلین (Selene)کی پہاڑی پر تعمیر کروایا تھا۔
ڈیوس جولیس(Divus Julius) کا مندر جولیس سیزر(Julius Caesar) کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا جو رومینم فورم (Romanum Forum) کےخاص مقامات میں شمار ہوتا تھا۔
یہ مندریروشلم میں صدیوں سے یہودیت کے قلب کی حیثیت سے عبادت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
جوپیٹر کیپیٹولینس(Jupiter Capitolinus) مندر کی بہترین عمارت جوپیٹر آپٹیمس میکزیمس (Optimus Maximus) کی طرف منسوب کی جاتی تھی وہ روم میں کیپی ٹولین کی پہاڑی پر موجود تھا۔
مارس الٹر (Mars Ultor)کے مندر کو شہنشاہ اگسٹس نے مارس الٹر (Mars Ultor)یا بدلہ لینے والے مارس کے اعزاز میں تعمیر کروایا تھا اور اسے اگسٹم فورم (Augustum Forum)میں اہم حیثیت سے جانا جاتا تھا۔
سیٹرن (Saturn)کے مندرکا شمار روم کے قدیم مندروں میں ہوتا تھا۔ یہ مندر رومینم فورم (Romanum Forum) میں تعمیر تھا اس کے علاوہ یہ مندر سیاسی اور مذہبی دونوں معاملات کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
ویسٹا (Vesta)کے مندر کو رومی بال بچوں کی دیوی کا گھر مانا جاتا تھا۔ ویسٹا روم کی قدیم دیوی اور روم کی ریاست میں خاص مقام رکھتی تھی۔ اس کا مندر رومینم فورم (Romanum Forum) پر موجود تھا۔
مینروا (Minerva)کا مندر پوجا کی تین خاص جگہوں کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ مندر خاص طور پرجوپیٹر کیپیٹو لیس کے مندرکے مقام پر دیوی کے اعزازیے کے لیے جانا جاتا تھا ۔ 4
مذہبی عبادات صرف روم کی معاشرت کا بنیادی رکن نہیں تھیں بلکہ ان عبادات کے ذریعے وہ زندگی کے لیے رہنمائی بھی حاصل کیا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک انسانوں اوردیوتاؤں کے مابین ایک معاہدہ ہوا تھا کہ اگر انسان صحیح طریقہ سے اپنی عبادات کو بجا لائے اور دیگر مذہبی رسومات کو باقاعدگی سے ادا کرے تو دیوتا ان پر مہربان ہوجائے گا۔ اگر انسان اس معاملے میں خطا کر ےگا تو اس پر دیوتاؤں کا عذاب نازل ہوگااور بدلے میں سخت سزا دی جائے گی۔ رومیوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ ان کے دیوتاؤں کو ان کی عبادات کی ضرورت ہے، اس کے بغیر دیوتا اپنی طاقت کھو دیتے ہیں۔
اگر عبادت کرتے ہوئے کوئی رومی غلطی کر بیٹھتا یا غلط وقت پرعبادت کر بیٹھتا تو اس کو عبادت دوبارہ ابتدا سےادا کرنی پڑتی تھی۔ عموما ان کی عبادت کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لوگ آسمان کی طرف چہرے کا رخ کرلیتے، اپنے ہاتھوں کو اس طرح پھیلاتےکہ ہاتھ بھی آسمانوں کا رخ کر رہےہوتے،پھر اپنے دیوتاوٴں سے اپنی درخواستیں کرتے تھے۔5
روم میں تین مختلف درجات کی عبادات کا تصور موجود تھا۔ گھر کی عبادات، کھیت کی عبادات اور حکومتی سطح کی عبادات۔ گھر کی عبادت گھر کا بڑا یعنی والد اداکرتا کیونکہ اسے گھر کا پروہت بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک یہ تصور قائم تھا کہ اس عبادت کا گھروالوں پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ گھر میں عموما جینس (Janus) دیوتا کی عبادت بجا لائی جاتی تھی جبکہ کھیت کے لیے لیرس(Lares) دیوتاکی عبادت کی جاتی تھی۔6
عبادت کے ساتھ ساتھ دیوتا کو خوش کرنے کے لیے مختلف قربانیاں اور چڑھاوے بھی دیے جاتے تھے۔ عام طور پر عبادت کرتے وقت رومی اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کی غرض سے عجیب و غریب حرکتیں بھی کرتے تھے اور اگرپھر بھی ان کی خواہش پوری نہ ہوتی تو جادو کے ذریعے یا کسی اور طریقہ سے اپنے دیوتا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے تاکہ دیوتا ان کی خواہش کو پورا کردے۔ 7
قدیم روم میں باقاعدہ ایسے گروہ موجود تھےجنہوں نے حاکم وقت کو معبود بنایا ہوا تھا۔وہ لوگ ان کی پوجا بھی کیا کرتے تھے۔ 8یہ سلسلہ اگسٹس (Augustus) اور اس کے بعد اس کےجانشین ٹائبیریس (Tiberius) نے شروع کیا تھا۔ مصر کی طرح اگسٹس (Augustus) اپنی رعایا کویہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ وہ ایک دیوتا ہے جو کہ زمین پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اس وجہ سے اس کی رعایا اس کی پوجا کیا کرتی اور جن لوگوں کی رسائی اس تک نہیں ہوتی، وہ اس کی تصویر کو پوجتےتھے۔ کچھ لوگ تو اتنا آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے اس کی اولاد کی بھی پوجا کرنا شروع کردی تھا۔ 9
رومیوں کے نزدیک دیوتا کے سامنے قربانی پیش کرنا انتہائی ضروری تھا۔ وہ لوگ یہ تصور رکھتے تھےکہ قربانی پیش کرنے سے ان کے دیوتاوٴں کی طاقت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بدلے میں دیوتا رومیوں کی جان،مال اور عزت کی حفاظت کرنے کے ضامن ہوتے تھے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ اگر وہ قربانیا ں ادا نہ کریں تو دیوتا کی طاقت نیست و نابود ہوجائے گی۔ 10
اہل روم اپنے دیوتا کو طاقت مہیا کرنے کے لیے خون اور مختلف جانوروں کی قربانیاں پیش کرتے تھے۔قربانی دیتے وقت وہ لوگ اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ جس جانور کی قربانی پیش کی جارہی ہو، وہ تندرست و توانا اور اس کے ساتھ دکھنے میں بھی اچھا ہو۔ آسمانی دیوتاؤں کے لیے قربانی کرتے وقت اہل روم پھیکے رنگ کے جانوروں کو استعمال کرتے جب کہ زیر زمین رہنے والے دیوتا ؤں کے لیے گہرے رنگ کے جانوروں کی قربانی پیش کی جاتی تھی۔ قربانی کا طریقہ یہ ہوتا کہ دیوتا کی مورتی کے سامنے جانور کو لایا جاتا ، پھر اس کی گردن پر چھری پھیر کر ذبح کردیاجاتا تھا۔ اس کے بعد جانور کو آگ میں اچھی طرح بھونا جاتا تھا۔ زیادہ تر قربان شدہ جانوروں کا گوشت پروہتوں کو ملتا لیکن بعض اوقات دیگر لوگ بھی مل کر اس گوشت کو کھانے میں شامل ہوجاتے تھے۔ قربانی کے لیے زیادہ ترگائے، بیل، گھوڑے، مرغے، بکرے اور دنبے کا استعمال کیا جاتا تھا۔
کچھ مقامات پر جانوروں کی قربانی کے ذریعہ مستقبل کا حال معلوم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا کہ ذبح شدہ جانور کی مزید چیر پھاڑ کی جاتی اور اس کی انتڑیاں یا دیگر بدنی اعضاء کو نکال کر ان میں ماہر پروہت مختلف قسم کی نشانیاں ڈھونڈتے۔ علامات کو دیکھنے کے بعد وہ اپنی من پسند تعبیر کرکےلوگوں کو بتاتے جسےرومی عوام اکثر بغیر کسی شک و تردد کے قبول کرلیتے تھے۔ 11
دیگر قربانیوں کے ساتھ ساتھ رومی نوجوان جب لڑکپن کی عمر سے نکل کر جوانی کی عمر کو پہنچ جاتے تو وہ جوپیٹر(Jupiter) دیوتا کے سامنے ایک خاص قسم کی قربانی اداکیا کرتے تھے۔ یہ قربانی اس دیوتا کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کی جاتی کہ دیوتا نے اس شخص کی بچپن اور لڑکپن میں حفاظت کی اور اس کو اس قابل بنادیا کہ وہ اپنی حفاظت خود کرسکتا ہے۔ قربانی دینے کا طریقہ یہ ہوتا کہ وہ شخص اپنے بچپن کے کپڑے اور کچھ تحائف دیوتا کے سامنے رکھ دیتا اور اس کا شکریہ ادا کرتا تھا۔12
رومی باشندےجب بھی کوئی منت مانتے تو اس کے پورا ہوتے ہی قربانی دیا کرتےتھے۔ ہوتا یہ تھا کہ کوئی شخص اپنے دیوتا سے کوئی چیز مانگتا اور ساتھ یہ وعدہ کرتا کہ اگر اس کی یہ منت پوری ہوگئی تو وہ اپنے دیوتا کو تحفہ میں کوئی شے دےگا۔ اگر اس شخص کی منت پوری نہ ہوتی تو اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا کہ دیوتا اس کی خواہش پوری کرنے کا متحمل نہیں ہے لہٰذا وہ شخص بھی اپنے وعدے سے پھر جاتا، لیکن اگر اس کی منت پوری ہوجاتی تو اس شخص پر واجب ہوجاتا کہ اپنا وعدہ پورا کرے۔ منتوں کے پورا ہونے پر لوگ اکثر سونا، چاندی، کانسی، اور دیگر قیمتی اشیاء تحفہ کے طور پر مندروں میں جمع کروادیتے تھے جو کہ پروہتوں کے ہاتھ لگ جاتی تھیں اور وہ ان سے اپنی عیاشی کا سامان مہیا کیا کرتے تھے ۔
اس کے علاوہ اہل روم لِبیشن (Libation)پر بھی عمل کیا کرتے تھے۔ لبیشن (Libation) اس قربانی کو کہا جاتا تھاجس میں کسی بھی مائع نما شے کی قربانی دینی ہوتی تھی۔ اس قربانی کےلیے وہ لوگ اکثر شہد، شراب اور دودھ کا استعمال کرتے جن کو مورتی کے سامنے فرش پر انڈیل دیا جاتا تھا۔ 13عام طور پر اس طرح کی رسومات کا رواج ان کے پروہتوں نے ہی رائج کیا تھا تاکہ دیوتا کے نام پر قیمتی اشیاء آسانی سے ہتھیائی جاسکیں ۔حقیقت یہ تھی کہ رومی پروہت خود بھی رہنمائی اور روحانیت سے مکمل عاری تھے اور شہوانی لذتوں کے غلام بنے ہوئے تھے۔ اسی لیے وہ خود بھی گمراہ تھے اور اہل روم کو بھی دین کے نام پر مسلسل گمراہ کررہے تھے۔
تیسری صدی قبل مسیح میں روم کے کچھ مشرک قبائل اپنے دیوتاوٴں کی خوشنودی کے لیے انسانوں کی بھی قربانی پیش کرتے تھے۔ روم کی حکومت بھی اس رسم کو روکنے میں مکمل ناکام تھی کیونکہ اس قربانی کی روم کے قانون میں کوئی ممانعت نہیں تھی ۔ زیادہ تر قبائل جنگ سے پہلے کسی انسان کی قربانی دیتےتاکہ دیوتا انہیں فتح سے ہمکنار کرے۔ 14
رومیوں کا عقیدہ تھا کہ مذہبی تہوار منانے سے ان کا اپنے دیوتا سے رشتہ دوبارہ جڑ جاتا ہے۔اگر وہ لوگ تہوار نہ منائیں تو دیوتا ان سے رحم دلی کا معاملہ ختم کر دیتا ہے۔تہواروں کی اپنی خاص رسومات ہوا کرتی تھیں ۔ ان میں سے کچھ تو حکومتی سطح پر بھی منائے جاتے تھے، جن میں ان کی مقدس رسومات کو سلطنت کے اہم عہدیدار ادا کرتے تھے۔ 15
اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے اہل روم ہر سال کئی مذہبی تہوار مناتے تھے جس میں دیوتاؤں کے لیے خاص چڑھاوے اور قربانیوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ تقریباً ہر مذہبی تہوار کے بعد کھانے کا بہترین انتظام کیا جاتا جس میں مختلف اقسام کے پکوان شامل ہوتے تھے۔ 16اس میں سے کچھ تہوار کھیت کے دیوتا کے لیے مختص ہوتے جسےفصل میں بیچ بوتے وقت اور کٹائی کے وقت منایا جاتا تھا۔ان تہواروں میں بہترین فصل کے لیے خاص دعائیں کی جاتی تھیں۔موسم سرما میں اکثر وہ مذہبی تہوار منائے جاتے جن میں عوامی تفریح اور عیاشی کا عنصر زیادہ شامل ہو۔ 17ہر شخص ان تہواروں کو مذہب کی وجہ سے نہیں مناتا تھا بلکہ کچھ لوگ تومحض تفریح اور مزے کی غرض سے ان میں شریک ہوتے اور عیاشی کرتے تھے۔18روم کے کچھ مذہبی تہواروں کی تفصیل درج ذیل موجود ہے:
ٹرمینالیہ(Terminalia) ایک قدیم رومی تہوار تھا جو ان کے دیوتا ٹرمینس(Terminus) کی خوشنودی کے لیے منایا جاتا تھا۔ ٹرمینس(Terminus) کو زمین کی حدود کا تعین اورتقسیم کرنے والا دیوتا تصورکیا جاتا تھا۔جب بھی کسی زمین کی تقسیم کرنی ہوتی تو اس کے مجسمہ کو اس زمین پر رکھ دیا جاتا تھا۔ 19ہر سال اس دیوتا کے لیے اس تہوار کو منعقد کیا جاتا تھا ۔اس میں لوگ زیادہ سے زیادہ قربانیا ں اور چڑھاوے پیش کرتے تھے۔20
امبروالیہ(Ambarvalia) وہ مذہبی تہوار تھا جسے کیرس (Ceres) دیوتا کی خوشنودی کے لیے منایا جاتا تاکہ وہ کھیتوں کو اور زرخیز بنائے۔ یہ تہوار29مئی کو منعقدکیا جاتا تھا۔اس میں رومی عوام ایک بڑا جلوس نکالتے۔ جلوس کے شرکاء سفید کپڑے زیب تن کرتےاور دعائیں پڑھتے ہوئے گلیوں میں چلتے پھرتے تھے۔ جلوس کے اختتام پر جانور کی قربانی پیش کی جاتی تھی ۔ 21عموما سور ،بھیڑ ،بیل وغیرہ کو قربان کیا جاتا تھا۔ 22امبروالیہ(Ambarvalia) کو موسم بہار کے تمام تہواروں کا بادشاہ بھی کہا جاتا تھا ۔ اس تہوار میں لوگ بڑھ چڑھ کر دعائیں مانگتے اور چڑھاوے دیتے تھے تاکہ فصل کی زیادہ سے زیادہ پیداوار ہو۔ جس دن یہ تہوار منعقد کیا جاتا اس دن پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوسکیں۔ تہوار کے اختتام پر ایک بڑی دعوت عام کا اہتمام کیا جاتاجس میں تمام شرکاء کھانے سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔23
یہ تہوارسیٹرن(Saturn) نامی دیوتا کے لیے 17 سے 23دسمبر تک منایا جاتا تھا۔تہوار کی شروعات سیٹرن (Saturn) کے مندر پر چڑھاوے دینے سے کی جاتی جس کے بعد ایک دعوت عام ہوتی اور میلا لگتا تھا۔ 24اگسٹس (Augustus) نے اس تہوار کی مدت 6 دن سے گھٹا کر 3 دن کردی تھی لیکن اس کے بعد آنے والے حاکم کالیگیولہ(Caligula) نے مدت پھر بڑھا کر5 دن کردی لیکن عوام پھر بھی اسے7 دن تک منایا کرتے تھے۔
اس تہوار کی صدارت بادشاہ کیا کرتا تھا۔اسے سیٹرنالیسیس پرنسیپس (Saturnalicius princeps) یا سیٹرنالیہ(Saturnalia) نامی دیوتا کا لقب دیا جاتا تھا۔کبھی کبھار اس تہوار کی سرپرستی بادشاہ کے علاوہ کسی اور شخص سے کروائی جاتی اور اس کو قائدِ لغو ولعب بھی کہا جاتا تھا کیونکہ عموما اس شخص کو معاشرے کے پست ترین طبقہ سے چنا جاتا تھا اور اس سے ہیچ حرکتیں کروائی جاتی تھیں۔ اس تہوار میں لوگوں کے درمیان تحائف بانٹے جاتے اور تمام معاشرتی قوانین کو بھلا کر شراب نوشی، عصمت دری اور ہر فحش کام بڑھ چڑھ کر کیا جاتا تھا۔25
یہ تہوار ہر سال 15 فروری کو روم میں منایا جاتا تھا۔ اس میں بظاہر پاک کرنے کی اور زرخیزی کے لیے خاص رسوم ادا کی جاتی تھیں۔ رومیوں کے نزدیک یہ ایک قدیم تہوار تھا ۔ تہوار منانے والوں میں سے اکثر کو خود نہیں معلوم تھا کہ اسے کس دیوتا کی خوشنودی کے لیے منا رہے ہیں۔ تہوار کو منانے کے لیے لوگ لوپرکل (Lupercal) نامی غار میں اکٹھے ہوتے جو پالاٹائن کی پہاڑی(Palatine Hill) پر واقع تھا۔ اس غار کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ وہی پہاڑ تھا جس میں مادہ بھیڑیے نے ریمس(Remus)اور رومیولس(Romulus) کو دودھ پلایاتھا۔ غار میں تہوار کی رسم شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ایک پروہت بکروں اور کتوں کو ذبح کرکے ان کا چڑھاوا اپنے دیوتا کو پیش کرتا پھر دو امراء کے بیٹوں پر ان ذبح شدہ جانوروں کا خون چھڑکا جاتا۔ اس کے بعد پروہت ذبح شدہ جانور کی کھال اوڑھ لیتا اور بچی ہوئی کھال سے درے کی طرح ایک آلہ تیار کرکے خاص لوگوں کو دیتا۔ پھر یہ لوگ روم کی گلیوں میں بھاگتے پھر تے اور لوگوں کی اس درے سے پٹائی کرتے۔ رومیوں کا ماننا تھا کہ جس کو بھی یہ درہ لگتا ہے وہ شخص اور اس کی زمین زیادہ زرخیز ہوجاتی ہے۔ بعد کے ادوار میں جب عیسائیت روم میں رائج ہوگئی تو پوپ نے اس قبیح تہوار کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جب وہ یہ کرنے میں ناکام ہوگیا تو اس نے اسے ایک اور تہوار سے تبدیل کردیا اور اس کا نام میری کی طہارت کا دن (Festival of the Purification of the Virgin Mary) رکھ دیا تھا۔ 26
اینا پیرینا (Anna Perenna) کا تہوار بڑے جوش و خروش سے ہر سال 15 مارچ کو منایا جاتا تھا۔27اس دن تمام مرد اور عورتیں دریائے ٹیبر (Tiber River) کے پاس وادی میں جوڑے بنا کر ایک ساتھ لیٹ جاتے۔ پورا دن یہ لوگ شراب پیتے، کھانے کھاتے اور ٹھیک ٹھاک شور مچاتے اور ہر فحش حرکت میں حصہ لیتے۔ جب یہ لوگ نشے میں دھت ہوجاتے اور عیاشی سے تھک جاتے تو پھر دعا کرنے کے لیے بیٹھتے۔ ان کی عموما یہ دعا ہوتی کہ ان کو مزید اتنے سالوں کی زندگی عطا کی جائے جتنے شراب کے پیالے انہوں نے پیے ہیں۔ اس دعا کے بعد یہ لوگ نشے کی حالت میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔28
بخانالیہ(Bacchanalia) بخوس (Bacchus) نامی دیوتا کی خوشنودی کے لیے منائے جانے والے تہواروں میں سے ایک تھا۔ چونکہ بخوس (Bacchus) شراب نوشی 29اور شہوت کا دیوتا تھا30اسی لیے اس کے تہوار میں شراب نوشی، عصمت دری اور دیگر فحش کام کثرت سے کیے جاتے تھے۔ اس تہوار کی ابتداء یوں کی جاتی کہ لوگ جنگلوں کے پاس جمع ہوتے اور پھر خواتین اپنے دیوتا بخوس(Bacchus) کو ڈھونڈنے کا دکھاوا کرتی۔اس کے بعد مرد اور عورتیں خوب شراب نوشی کرتے اور پھر پاگلوں کی طرح پہاڑیوں پر بھاگتے اور عجیب طریقے سے ناچتے۔ اس کے بعد وہ کچا گوشت کھاتے، مزید شراب پیتے اور پھر ہر طرح کے فحش کام میں ملوث ہوجاتے تھے۔ 31
یہ تہوار بقیہ دیگر تہواروں کی طرح معبد میں نہیں منایا جاتا تھا بلکہ ایک کونسل(Consul) کے گھر میں منایا جاتا تھا۔اس کے شرکاء میں صرف خواتین ہوا کرتی تھی۔32اس قانون کی اتنی سختی سے پابندی کی جاتی کہ مردوں کی تصاویر پر بھی کپڑا ڈال دیا جاتا تھا۔ جو عورتیں بھی اس تہوار میں حصہ لیتیں وہ اس سے قبل کافی دنوں تک اپنے مردوں سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرتیں اور کچھ چیزوں کے کھانے سے اجتناب کرتی تھیں۔ یہ تہوار مئی کی پہلی تاریخ کو منایا جاتا تھا جس میں پوری سلطنت کی طرف سے چڑھاوے پیش کیے جاتے تھے۔
تہوار کے دن کونسل(Consul) کے گھر کو مندر کی طرح سجایا جاتا اور دیوی کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے تھے۔ اس تہوار میں کسی کو بھی شراب لانے کی اجازت نہ تھی بلکہ کمرے کے درمیان ایک بڑا برتن رکھا جاتاجسے شراب سے بھر دیا جاتاتھا۔ اس برتن سے خواتین پیالے بھر بھر کے شراب پیتیں اور شراب کے چڑھاوے بھی دیتی تھیں۔ شراب کے علاوہ اس تہوار میں مرغیوں کے چڑھاوے بھی دیے جاتے تھے۔اس کے بعد خواتین عجیب قسم کی اچھل کود اور ناچ شروع کردیتی تھیں۔ ان تمام رسومات کے بعد خواتین مزید شراب پیتیں اور نشہ میں دھت ہوجاتی تھیں۔ 33
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اہل روم کے مذہبی عقائد کی طرح ان کی مذہبی رسومات بھی شیطانیت ، شہوت پرستی اور ہوس پر مشتمل تھی ۔ یہ لوگ مذہب کے نام پر خواتین سے جب چاہتے اپنی جنسی خواہشوں کو پورا کرلیتے اور وہ خواتین بھی اس قبیح عمل کو متبرک اور اپنے دیوتا کے قریب ہونے کا باعث سمجھتی تھیں۔ ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ تھی کہ یہ سارا مذہب انسان نے اپنی مرضی سے گھڑا ہوا تھا اور یہ کلی طور ہر روحانیت سے عاری تھا۔ وحی الٰہی اور انبیاء کا روحانی فیض کیونکہ ان میں موجود نہ تھا اس لیے وہ دین کو بھی نفس پرستی ، عیاشی اور بدکار ی کے لیے استعمال کرتے تھے اور مذہب کی آڑ میں ہر وہ فعل قبیح کرتے جو ان کا نفس ان سے مطالبہ کرتا تھا نتیجتا اہل روم نہ صرف گمراہ اور بدکار رہے تھے بلکہ ایک طویل عرصے تک حق اور باطل کی پہچان کرنے سے بھی قاصر رہے تھے جس شعور کو انکے درمیان اولا عیسائیت نے نے پھر کامل طریقے سے اسلام نے اجاگر کیا۔