Encyclopedia of Muhammad

قدیم یونان کا عسکری نظام

قدیم یونان میں جنگوں کےمتعلق ابتدائی شواہد ہومر (Homer)کی مشہور رزمیہ نظم الیڈ اور اڈیسے (Iliad and Odyssey)سے ملتے ہیں۔یہ رزمیہ نظمیں آٹھویں صدی قبل مسیح میں لکھی گئیں تھیں۔ان نظموں میں قدیم شہر مائی سینیائی (Mycenae)کے دور کی عکاسی کی گئی تھی۔ رزمیہ نظمیں ہونے کی وجہ سے انہیں معتبر اور درست تاریخی شواہد کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ان تمام ممکنہ صورتوں کے برعکس ان سے معلومات کا بہت وسیع ذخیرہ ملا ہے جسے ہم دیگر ذرائع سے اخذ شدہ قدیم مائی سینیائی (Mycenae)دور کے آثار قدیمہ کے شواہد سے ملا کر کسی نتیجہ پر پہنچ سکتےہیں۔ 1

جنگی صلاحیت اورزمین کا استعمال ارسطو(Aristotle) کی سیاست اور پلیٹو(Plato) کی جمہوریت کے بنیادی عوامل تھے۔ ان فلسفیوں کے خیا ل میں انسان کو غور و فکر ، اراد ے و نظرئیے، تعلیم اور تربیت وغیرہ سے پہلے کھانے پینےاور لڑنے پر توجہ دینی چاہیے، یہی وجہ تھی کہ ان کے نزدیک کسان اور سپاہی کی بہت اہمیت تھی۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے زمانے میں کوئی ایسی اہم سیاسی ، علمی وادبی یا فکری شخصیت نہیں گزری جس نے زندگی میں کسان یا سپاہی کا پیشہ اختیار نہ کیا ہو۔ان میں سےاکثر کھیتی باڑی بھی کرتے تھے اور سپاہی بھی تھے۔اسی طرح یونانی فلسفی ہراکلیٹس (Heraclitus) بھی جنگ کو سب سے اہم اور عظیم کا م قرار دیتا تھا۔ 2

قدیم یونانی کلاسیکی دور میں یونان کے زیادہ تر حصوں میں مستقل جنگی صورتحال رہی اوریونانی ریاستیں صرف دوہی مرتبہ مشترکہ مفاد کے لیےفارس کے خلاف متحد ہوسکیں۔ یونانی ریاستیں مستقل اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑتی رہتی تھیں۔جب ایک ریاست بہت زیادہ طاقتور ہوجاتی تو اس کے مقابل دوسری ریاستیں آپس میں مل کر وقتی اتحاد قائم کرلیتیں تاکہ طاقتور ریاست کی قوت کو کم کیا جاسکے۔490 قبل مسیح سے لے کر 338 قبل مسیح تک ایتھنز(Athens) جنگوں میں گھرا رہا اوراس مدت کا دو تہائی عرصہ جنگ کی نظر ہوگیا۔ ان کے اس طرز عمل کی وجہ ایک قادر مطلق ذات کی پرستش کی بجائے اپنی خواہشات کی غلامی تھی۔ ان میں قوت و اقتدار ، مال و دولت اور جاہ و منصب جیسی فانی چیزوں کی ہوس تھی جو انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی۔

یونانی آپس میں صرف مشترکہ زبان اور مذہب کے سبب یکجا نہیں تھے بلکہ ان کی خود کو سب سے بہترین کہلانے کی خواہش اورآپس کی رقابت بھی انہیں مشترک رکھنے کی وجہ تھی ۔ شہری ریاستوں کے مابین جھگڑوں اور رقابت کی ایک بڑی وجہ اپنی قوم کے وقار کو برقرار رکھنے اور اس میں مسلسل اضافے کی خواہش تھی۔ شہری ریاستیں ہمہ وقت اپنی پڑوسی ریاستوں پر اپنی برتری ثابت کرنے اور اپنے آپ کو ان سے ممتاز ظاہر کرنے کی کوششوں میں لگی رہتی تھیں ۔ 3

یونان میں جمہوری آئین کے قیام کے بعد، زیادہ تر افواج قومی رضاکار فوجیوں (Militia)پر مشتمل ہوگئی تھیں۔ ہر شہری پر فوج میں شمولیت واجب تھی سوائےان لوگوں کے جنہیں ریاست خود رعایت دے دیا کرتی تھی۔ایتھنز(Athens) میں یہ پابندی 18 برس کی عمر سے لے کر 58برس کی عمر کے مردوں پر لاگو تھی۔ اس قانون کے مطابق ہر شہری فوجی تھا حتٰی کہ اجنبی لوگ جنہوں نے ایتھنز(Athens) میں رہائش اختیار کی ہو،انہیں بھی بعض اوقات نہیں بخشا جاتا تھا۔ حالات زیادہ خراب ہوجانے پر غلاموں کو بھی اس شرط پر فوجی دستوں میں شامل کرلیا جاتا کہ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دیں تو وہ آزاد کردیے جائیں گے۔ 4

افواج

یونانی افواج کی تنظیم سےمتعلق زیادہ تر شواہد اسپارٹا(Sparta) سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ ایتھنز (Athens) اور میسیڈونیا(Mecedonia) کی افواج کی عسکری تنظیم وتشکیل سے متعلق بھی کافی تفصیلات ملتی ہیں۔ تاہم دیگر ریاستوں کی افواج کے بارے میں بہت کم شواہد منظر عام پر آئے ہیں نیز ان ریاستوں اور افواج کے احوال بیان کرنے والے مصنفین ان کے ہم عصربھی نہیں تھے ۔چوتھی صدی قبل مسیح سے قبل دور کےبارے میں صرف یہی ثبوت ملتا ہے کہ اسپارٹائی افواج باقاعدہ تربیت یافتہ ہوا کرتی تھیں۔5

یونانی افواج کی ترتیب و تشکیل حسب ذیل تھی:

ہوپلائیٹ سپاہی (Hoplites)

یونانیوں میں 700 قبل مسیح سےلےکر 300 قبل مسیح کے دور تک مسلح پیادہ سپاہی کے لیے ہوپلائیٹ(Hoplite) کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی جسے بھاری بھرکم ہتھیار اٹھا کر پیدل سفر کرنے والے فوجیوں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ شروع کے ادوار کے ہوپلائیٹ کو ان کی خاص حفاظتی ڈھالوں ہو پلون (Hoplon) کی نسبت سے ہوپلائیٹ کہاجانے لگا تھا۔ یہ گول ڈھال تھی جس کاقطر 3 فٹ اور وزن تقریباً 16 پاؤنڈ تھا۔ حفاظتی ڈھال اندرونی طور پرگہری قو سی ہوا کرتی تھی۔اسے لکڑی سےبنایا جاتااوراس کی بیرونی سطح کانسی کی بنائی جاتی تھی۔ فوجی اس ڈھال کو اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے لے کر کلائی تک اندر کی طرف ایک ہینڈل سے پکڑا کرتے تھے۔ یہ ترتیب انہیں ڈھال کو اپنے سینے سے مکمل قوت کے ساتھ دور کرنے میں آسانی فراہم کرتی تھی۔ اس فوجی ڈھال کو دیر تک اٹھا ئے رکھناانتہائی مشکل تھا اسی لیے جب سپاہی میدان جنگ سےبھاگتےتو اپنی بھاری اور بوجھل کردینے والی ڈھال کو پھینک دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ جنگ جیتنے والے فوجی بھی جنگ کے بعد کے ہنگامے کے دوران ڈھالوں کو اتار دیا کرتے تھے۔عسکری علاقوں ، جیسے اسپارٹا(Sparta) وغیرہ میں اپنی حفاظتی ڈھال کو سنبھال کر رکھنے کا مطلب اپنے وقار کو قائم رکھنا تھا۔اس کی نشاندہی اسپارٹائی فوجی کی ماں کے ایک مثالی جملہ سے ہوتی ہے جو اس نے اپنے بیٹے کوکہا تھا کہ "جنگ سے واپس اپنی حفاظتی ڈھال کے ساتھ ہی آناورنہ اپنی لاش کو اس پر رکھوا کر لانا۔"

ہوپلائٹ(Hoplite) فوجیوں کے بقیہ ہتھیار یا یوں کہا جائے کہ ان کے مکمل فوجی لباس میں ہیلمٹ (Helmet)بھی شامل تھاجسے کانسی کی پتلی چادر پر ہتھوڑوں سےضرب لگا لگاکر تیار کیا جاتا تھا۔ ہیلمٹ کو اوپر سے کانسی کی چادر یا گھوڑے کے بالوں سے مزین کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ سینے کی حفاظت کے لیے کانسی کی چادراور گھٹنوں سے نیچے ٹانگوں کی حفاظت کے لیے دھات سے بنے خوداستعمال کیے جاتے تھے۔ فوجی سینے کی حفاظتی پلیٹ کے اندر کپڑے کی ایک غلافی جھلی بھی پہنا کرتے تھے۔

حملہ کرنے والے ہتھیاروں میں 6 سے 8 فٹ لمبا نیزہ شامل تھا۔ یہ نیزہ دور پھینکنے کے لیے نہیں بلکہ دشمن پر سامنے سے حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مضبوط دھات سے بنی ہوئی ایک تلوار بھی ہتھیاروں میں شامل تھی۔ سپاہی تلوار کو میان میں کمر کی جانب باندھا کرتے تھے ۔ حالیہ تحقیقات کے مطابق ان پیادہ سپاہیوں کےسازوسامان اور فوجی لباس کا وزن تقریبا 50 سے 70 پاؤنڈ کے قریب تھا۔ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ جنگ شروع ہونے تک اکثر سپاہیوں کے ہتھیاران کے نوکر یا غلام اٹھاکر لاتے تھے۔ ایک ہوپلائٹ (Hoplite)سپاہی عموماً اکیلے نہیں لڑتا تھا۔ اسے اس بات کی تربیت دی جاتی تھی کہ وہ میدان میں ہمت اور جوش کے ساتھ کھڑا رہے اور اپنے اردگرد لڑنے والے فوجی ساتھیوں کے ساتھ عسکری درجہ بندی اور تشکیل کے مطابق منظم انداز سے لڑے ۔ہوپلائٹ لڑنے کے لیے زیادہ تر نیزے پر انحصار کیا کرتے تھے ،اس سے وہ دشمن پر حملہ کرتے اور حفاظتی ڈھال کے ذریعے دشمن کے نیزے سے اپنا بچاوٴ کیا کرتے تھے ۔نیزہ ٹوٹ جانے یا گر جانے کی صورت میں تلوار کا استعمال کیا جاتا تھا۔

جنگ کے دوران فوجی لڑنے کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کا بوجھ بھی برداشت کرتےتھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عسکری ترتیب برقرار رکھنے میں بھی مصروف رہتے تھے جس کی وجہ سے انہیں سرعت کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں مشکلات پیش آتی تھیں ۔200 گز کا فاصلہ ہوپلائٹ (Hoplite)سپاہیوں کے لیے ایک انتہائی حد سمجھی جاتی تھی کہ جس کے متعلق ایک فوجی کے لیے یہ تصوّر کیا جا سکتا تھا کہ وہ بھاگ کر اتنا فاصلہ طے کرنے کے باوجود اسی چستی اور قوت کے ساتھ میدان میں دشمن سے لڑنے کے قابل رہے گا۔مسلح پیادہ سپاہی بھاری بھرکم ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود خطرے سے محفوظ نہ تھے کیوں کہ اس عسکری لباس کی بناوٹ ایسی تھی کہ سپاہیوں کی رانیں،گردن اور پیٹ سے ران تک کا حصہ نہیں ڈھکا جاتا تھا ۔ قدیم دور کے اشعار ، مصوری اور آرٹ کے نمونوں سے اس بات کے شواہدبھی ملتے ہیں کہ جنگ کے دوران گردن اور رانوں سے پیٹ کے درمیانی حصے پر زخم ا ٓنا عام بات تھی ۔ اسی طرح ان سپاہیوں کے سر پر مہلک اور کاری ضرب کا لگنا بھی عام تھا جو ممکنہ طور پر ہیلمٹ (Helmet)پر شگاف پڑنے کے سبب ہوتا تھا۔ حال ہی میں جنگوں کے مقام پر دفن شدہ اسپارٹائی سپاہیوں کی باقیات سے اس بات کے شواہد بھی ملے ہیں کہ بعض اوقات کانسی کے بنے ہوئے سینہ بند(Bronze Breastplate)کی نوکیلی اندورنی سطح بھی نیزہ لگنے سے اندر کی جانب دھنس کر سینے کو زخمی کردیا کرتی تھی۔

مسلح پیادہ سپاہی ہموار زمین پر مؤثر طریقے سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔پہاڑی خطے سپاہیوں کی صف بندی اور نظم و ضبط کو بکھیر دیا کرتے تھے۔ عموماکچھ سپاہی دستوں سے علیحدہ ہوجاتے جو دشمن کے چھوٹی جھڑپ میں حصہ لینے والے کم ہتھیاروں سے لیس سپاہیوں کا شکار بھی بن جایا کرتے تھے۔ اسی طرح ایسے مسلح پیادہ سپاہی جو پیچھے ہٹ جاتے یا دستوں سے علیحدہ ہوجایا کرتے تھے، دشمن کے گھڑ سوار فوجی دستوں کے لیے ایک آسان شکار ہوا کرتےتھے۔

جنگی جہازوں میں مسلح سپاہی بحری فوج کے طور پر کام کرتے تھے۔ بحری جنگوں میں سپاہی زیادہ تر برچھی اور دوسرے جہازوں میں موجود دشمنوں پر پھینکنے والے نیزے سے لیس ہوا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ دشمن کے جہاز کو قابو میں لاکر اور ان میں سوار ہوکر بھی حملہ کیاجاتا تھا۔ جو بد قسمت سپاہی دوسرے جہاز میں منتقل ہونےکے دوران سمندر میں گرجاتے،اپنے بھاری بھرکم عسکری لباس اور ہتھیاروں کی وجہ سے سمندر کی تہہ میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ مسلح پیادہ سپاہیوں کی تاریخ کی ابتداء شہری فوج کے طور پر ہوئی تھی۔ یونان کے زیادہ تر شہروں میں جو بھی شخص عمر کے درمیانی حصہ میں پہنچ جاتااور زرہ بکتر کی قیمت ادا کرنے کے قابل جاتا،ایسے شخص کے لیے ضروری تھا کہ اگر اس کا شہر جنگ کی لپیٹ میں آرہا ہے تو وہ مسلح پیادہ سپاہی کے طور پر اپنی خدمات فراہم کرے ۔ اس کے برعکس جو امیر افراد تھے انہیں گھڑ سوار دستوں میں شامل ہو کر جنگ میں شریک ہونا لازمی تھا۔6

اسپارٹائی افواج بادشاہ کے احکامات کے مطابق عمل کیا کرتی تھیں۔یہ افواج 6دستوں (Regiments)میں منقسم تھیں جنہیں مورائے (Morae)کہا جاتا تھا۔ ہر رجمنٹ 576 سپاہیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ فوج کے ان 6 منقسم حصوں میں سے ہر ایک حصے کوان کے علم بردار کمانڈر احکامات دیا کرتے تھے ۔ہر مورائے (Morae)4 مزید حصوں میں تقسیم تھی جسے لوچوئی(Lochoi)کہا جاتا تھا ۔ ہر لوچوس میں 144 سپاہی شامل ہوا کرتے تھے۔لوچوس کو ایک فوجی دستہ (Phalanx) کی معیاری اکائی بھی سمجھا جاتا تھا ۔ان فوجی دستوں کے کماندار کو لوچیگوس (Lochagos) کہا جاتا تھا۔ ہرایک لوچوس کودو پینٹےکوسٹائیز (Pentekostyes) میں تقسیم کیا جاتاتھا ۔ ہر پینٹےکوسٹائیز میں 72 سپاہی شامل ہوتےجن کا نگراں ایک پینٹے کونٹر(Pentekonter) ہوا کرتا تھا۔ پھر ایک پینٹے کوسٹائیز مزید دو حصوں میں تقسیم ہوتا جسے اینوموٹیائی (Enomotiai)کہا جاتا تھا۔ اینوموٹیائی فوج کا سب سے چھوٹا حصہ ہوا کرتا تھا جس کی کمان ایک اینوموٹارک (Enomotarch) کرتا تھا۔ ہر اینوموٹیائی چار چار کی تین یا دود و کی چھ قطاروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ فوج کے محافظ عقبی دستوں کے عہد یدار بھی ہوا کرتے تھے جنہیں اوراگوئی(Ouragoi) کہا جاتا تھا، یہ عہد یدار دستوں میں نظم و ضبط اور ان کی پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا کرتے تھے اور ہر اینوموٹیا (Enomotia)کی تشکیل میں بھی خاص کردار ادا کرتے تھے۔ فوجی دستوں میں موجود دیگر عہد یدار سیدھے ہاتھ کی جانب قطار کے اگلے حصہ میں دشمن سے نبرد آزما ہوا کرتے تھے ۔

بادشاہ کی حفاظت کے لیےخاص دستے (Hippeis)مامور ہوتے تھے جو 300بہادر ترین سپاہیوں پر مشتمل ہوتے تھے جنہیں خاص طور پر اسی مقصد کے لیےفوج میں سے چنا جا تا تھا۔ یہ فوج کا سب سے بہترین دستہ ہوتا تھا۔ ان خاص دستوں کو چننے کے لیے3 افیسر مقرر تھے جن کا انتخاب ہر سال کیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر مورائے میں گھڑ سواروں کے دستے بھی شامل ہوتے تھے ۔ان میں 60 گھڑ سوار شامل ہوتے تھے۔گھڑ سوار دستوں کی فوج میں شمولیت کا آغاز پانچویں صدی قبل مسیح میں پیلپونیشیاء(Peloponesia)کی جنگ کے دوران ہوا تھا۔ فوج کی پیش قدمی کے دوران آگے گھڑسوار دستے چلا کرتے تھے ۔7

گھڑ سوار سپاہی (Cavalry)

گھڑ سوار دستے کانسی کے آخری عہد کی افواج(Mycenaean Armies) میں بہت اہمیت کے حامل تھے۔ بہت سے تاریخ دان نویں صدی قبل مسیح کی آشوریوں کی گھڑ سوار فوج کو قدیم ترین فوج مانتے ہیں۔یونان کی گھڑ سوار فوج کی تاریخ کافی پیچیدہ ہے کیونکہ قدیم یونانی افواج سے متعلق زیادہ شواہد دستیاب نہیں ہیں۔اس کے علاوہ ہوپلائیٹ سپاہی بھی عام حالات میں گھوڑوں پر سفر کرتے تھے حالانکہ وہ جنگ میں گھوڑے استعمال نہیں کرتے تھے۔اسی وجہ سے عہدقدیم میں ایتھنز(Athens) کی افواج کے گھڑ سوار دستوں کے بارے میں شبہات پائے جاتے ہیں۔کلاسیکی دور میں تھی سیلی (Thessalians) کی افواج میں گھڑ سوار دستوں کی موجودگی کا ثبوت آٹھویں صدی قبل مسیح سے ملتا ہے۔دیگر ریاستوں کی افواج میں بھی گھڑ سوار دستوں کی موجودگی بعید از قیاس نہیں ہے۔ ریاست اسپارٹا(Sparta) کے مشہور زمانہ گھڑ سوار دستے جو کہ ہپّییز(Hippeis) کہلاتے تھے کلاسیکی عہد تک ایک انتہائی ممتاز فوجی رہے۔

اسلحہ اور جنگی سازوسامان ان گھڑ سوار دستوں کی اقسام کے مطابق مختلف ہوتا تھا۔یہاں تک کہ ایک ہی دستے میں بھی مختلف ہتھیار استعمال کیے جاتے تھے۔کلاسیکی ایتھنز(Athens) میں کچھ سوارو ں کے پاس دور سے پھینکنے والے نیزے ہوتے تھے اور کچھ کے پاس لڑنے والے نیزے جبکہ بعض فوجی دونوں طرح کے نیزے استعمال کرتےتھے۔اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی تیز دھارتلوار بھی تھی کیونکہ اتنے سامان کے ساتھ بڑی تلوار رکھنا مشکل تھا۔ تیر انداز گھڑ سوار، کمان اور تیروں سے لیس ہوتے تھے۔431 قبل مسیح میں ایتھنز(Athens) کے 1000گھڑ سواروں میں200تیر انداز بھی شامل تھے۔حفاظت کے لیےگھڑ سوار سپاہی ڈھال استعمال کرتے تھےاور گھوڑے پر سوار ہونے کی وجہ سے ڈھال کا وزن بھی ان کی نقل و حرکت میں رکاوٹ نہیں بنتا تھا، لیکن ایک ہاتھ سے گھوڑے کی باگ پکڑنے کی وجہ سے ڈھال کا استعمال کافی مشکل بھی ہوتا تھا۔گھڑ سوار کے لیےڈھال کا استعمال کم تھا تاہم سوار کاسر ، سینہ ، بازو اور ٹانگیں وغیرہ آہنی ڈھالوں اور خود سے ڈھکے ہوتے تھے۔

پیلٹاسٹ سپاہی(Peltasts)

عموما ہوپلائیٹ(Hoplite) سپاہی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا تھے مگر اکثر دوسرے سپاہی بھی جنگ میں بہت اہم سمجھے جاتے تھے اور اکثر جنگ میں فتح انہیں کی مرہون منت ہوا کرتی تھی۔پیلٹاسٹ (Peltasts)سپاہیوں کا شمار بھی انہیں اہم ترین سپاہیوں میں ہوتا تھاجو کم ساز و ساما ن اور ہلکے آلاتِ حرب کی وجہ سے تیزی سے آگے بڑھتے تھے اور نا ہموار اور خطرناک راستوں پر بھی باآسانی سفر کرتے تھے۔ یہ پھینکنے والے ہتھیار (Missile Weapons) استعمال کرتے تھے جو زیادہ مہلک ثابت ہوتے تھے۔ ان سپاہیوں کو تھیوسیڈائیڈس(Thucydides) نے کم سامان ِحرب والے ہمہ وقت تیا ر سپاہیوں کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ سپاہی شہریوں کے عام طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور اکثر دشمن کے علاقے کوسبو تاژ کرنے کے لیےاستعمال کیے جا تے تھے۔ یہ بہترین تربیت یافتہ ہوتے تھے خاص طور پر نیزے سے نشانہ لگانے کے ماہر تھے۔ ان کے پاس ہلال کی شکل کی ڈھال ہوتی جسے پیلٹئی (Peltˆe)کہا جاتا تھا۔یہ ڈھال بازو اور کندھے کی حفاظت کرتی تھی۔ یہ ڈھال تراکیانی عہد (Thracian Era)سے استعمال ہوتی آرہی تھی۔یہ وزن میں ہلکی اور بازو کی حفاظت کے لیےبہترین تھی۔نیزوں کو اکونتیا (Akontia) اور ان کو پھینکنے والوں کو اکونت ایستائی(Akontistai) کہا جاتا تھا۔ پیلٹاسٹ سپاہی کبھی کبھار دست بدست لڑائی میں بھی شریک ہو تھے تھے اور دشمن کےگھڑ سوار دستوں کو روکنے کے لیےدفاعی لائن بھی بنالیتے تھے۔یہ سپاہی ضرورت پڑنے پردشمن کے ہوپلائیٹ سپاہیوں کا بھی مقابلہ کرسکتے تھے۔ ان کے پاس چھوٹی تیز دھار تلوار بھی ہوتی تھی۔یہ سپاہی دشمن کے ساتھ چھوٹی جھڑپوں کے لیے، مخبری کے مشن کے لیےاور فوج اور راستوں کی حفاظت کے لیےبھی شہرت رکھتے تھے۔

تیر انداز سپاہی

ہلکے ہتھیاروں سے لیس فوجی دستوں میں سب سے زیادہ مہلک اور تباہ کن تیر انداز ہی ہوتے تھے تاہم حفاظتی ڈھال نہ ہو نے کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ غیر محفوظ بھی سمجھے جاتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ہوپلائیٹ (Hoplite) سپاہیوں کی حفاظتی ڈھالیں ہلکی ہوتی گئیں اورتیر اندازوں کا خطرہ بڑھتا گیا۔میدانی علاقوں میں گھوڑوں پر سوار تیر انداز دشمن کی فوج سے مناسب فاصلہ رکھ کر ان پر تیر چلاتے تھے۔شہروں کے محاصرے کے دوران فصیل خالی کرانے اور دشمن کو دور رکھنے کےلیے تیر انداز بہت موثر تھے۔ایتھنز(Athens) کے بحری جہازوں پر چار چار تیر انداز ہوا کرتے تھے جو دشمن کے جہازوں پر تیر برسا کر ان کے جہازرانی کے عملے کو نشانہ بناتے تھے۔تیر اندازوں سے بچاؤکے لیےجہازوں پر خاص قسم کا کپڑے یا چمڑے کا پردہ لگایا جاتا تھا ۔تیر انداز ڈوبتے ہوئے جہازوں کے عملے کو قتل کرنے یا دشمن کے جہازوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کےلیے بھی استعمال ہوتے تھے۔

گوپھن انداز سپاہی (Slingers)

گوپھن(Slingers)چمڑے کے ٹکڑوں اور ڈوریوں سے بنے ہوئے کم قیمت ہتھیار تھے اور ان کا استعمال بھی آسان تھا۔ اس میں گول پتھر یا پکی ہوئی مٹی کی گولیاں چمڑے کے ٹکڑے پر رکھی جاتی تھیں۔انہیں گھمایا جاتا تھا اور ایک ڈوری چھوڑنے کے ساتھ ہی اس میں سے پتھر تیزی سے نکل کر نشانے کی طرف جاتا تھا۔بڑے پتھر جو کے ہتھیلی کے برابر ہوتے تھے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے تھے۔قدیم ذرائع کے مطابق ان کی وار کرنے کی صلاحیت200میٹر کے قریب تھی اور ان سے پھینکے گئے پتھر تیروں سے بھی آگے نکل جا تے تھے۔ تیر اندازوں کی طرح ان کے بھی فائدے اور کمزوریاں تھیں۔ یہ دشوار گزار علاقوں میں ہلکے ہتھیاروں والے سپاہیوں یا گھڑ سوار دستوں کے خلاف زیادہ موثر رہتے تھے۔یہ تیر اندازوں کی طرح قریب قریب رہ کر ترتیب قائم نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ انہیں اپنے ہتھیاروں کو گھما کراستعمال کرنے کے لیےزیادہ جگہ درکار ہوتی تھی۔یہ شہروں کی فصیلوں پر بھی زیادہ موثر تھے اسی طرح سمندری جہازوں پر خوف و ہراس پھیلانے کے لیے بھی موثر تھے۔ اس ہتھیار کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ افلاطون جیسے فلسفی نے بھی اس کی تربیت کو اوائل عمر سے ہی بچوں کے لیےلازمی قرار دیا تھا۔8

بحری افواج

تھیوسیڈائیڈس (Thucydides) نے یونانی بحریہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ہیلاس (Hellas) یا ارض یونان میں تین قابل ذکر بحری قوتیں تھیں جن میں ایتھنز(Athens) ، کورکائرا(Corcyra) اور کورنتھ(Corinth) شامل تھے۔ یقینا پیلپونیسی جنگ(Peloponnesian War)کے زمانے میں ایتھنز(Athens) کی بحریہ یونان کی سب سے بڑی بحری فوج تھی جس میں300سے زیادہ یونانی سہ طبقہ جہاز(Triremes)موجود تھے۔ کورکائرا (Corcyra) کی بحری فوج 120جہازوں پر مشتمل تھی جبکہ یہ ایتھنز(Athens) کے اتحادی بھی تھے۔ اس کے علاوہ ایتھنز(Athens) کی بحریہ جزیرہ خیوس(Chios) اور لیسبوس (Lesbos) سے مزید 50یونانی سہ طبقہ (Triremes) جہازوں کا انتظام کر سکتی تھی جیسا کہ 450 قبل مسیح میں ایپی داروس(Epidauros) کی جنگ میں ہوا تھا۔ان 300 جہازوں میں 60,000افراد کی گنجائش تھی نیز بحری جہازوں کے اخراجات کے لیے سالانہ 6000ٹیلنٹ (Talent)کا بجٹ مختص تھا۔ 9

بحری جنگی جہاز

چھٹی صدی قبل مسیح تک بحر روم(Mediterranean Sea) میں سب سے زیادہ ٹرائریمز(Triremes) کہلانے والے سہ طبقہ جہاز استعمال ہوتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ ان جہازوں میں چپووٴں کی تین قطاریں ہوتی تھیں۔ ایتھنز(Athens) کی افواج کا مرکز پیرائیوس (Piraeus) میں تھا جہاں 370کے قریب جہاز تین بندرگاہوں پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ جہازوں کی دریافت شدہ باقیات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی لمبائی عموما121.5 فٹ یا37میٹر ہوتی تھی جبکہ نیچے سےچوڑائی 9.9فٹ یا تین میٹر رکھی جاتی تھی۔ ایتھنز(Athens) کے بحری ریکارڈ کے مطابق چپووٴں کی لمبائی 13.2 فٹ (4 میٹر ) سے لے کر14.7 فٹ(4.5 میٹر) تک ہوتی تھی۔ چپو چلانے والوں کے تین درجات ہوتے تھے جنہیں تھرانائیٹ(Thranite) ، زیگیان (Zygian)اور تھالامیان(Thalamian)کہا جاتا تھا۔ سب سے نچلے درجے میں دونوں طرف 27,27 چپو بردار ہوتے تھے جنہیں تھالامیان(Thalamian)کہا جاتا تھا۔درمیانی درجے میں بھی دونوں جانب 27,27چپو بردار ہوتے تھے جنہیں زیگیان(Zygian) کہا جاتا تھا۔ جبکہ سب سے بالائی درجے میں دونوں طرف 31,31چپو بردار ہوتے تھے جنہیں تھرانائیٹ(Thranite)کہا جاتا تھا۔ ابتدائی عہد کے جہازوں میں عرشے نہیں ہوتے تھے جبکہ بعد کے عہد میں زیادہ سپاہیوں کو جہاز میں سوار کرنےکے لیےعرشے بنائے جانے لگے تھے۔جہاز کی رفتار کا دارومدار چپو برداروں پر ہوا کرتا تھا۔ان جہازوں پر اضافی سامان نہیں لے جایا جا سکتا تھا اسی لیےجہاز کھانا، پانی اور دیگر ضروریات کے لیےرات کو واپس بندرگاہ پر لنگر انداز ہو جایا کرتے تھے۔ یہ جہاز جنگ کے دوران ایک دوسرے پر حملہ کرکے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ جہاز ایک دوسرے سے ٹکرا کر نقصان پہنچانےاور دشمن کے جہاز کو اپنے علاقے کی طرف دھکیل کر لے جانے کی حکمت عملی پر کام کرتے تھے۔جہاز جب ایک دوسرے کے قریب آجاتے تو ان کے سپاہی ایک دوسرے کے جہازوں پر اترنے اور قبضہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔یوں زمینی جنگ کی طرح جہاز پر بھی دست بدست جنگ شروع ہو جاتی تھی۔اس کے علاوہ جہازوں کی جنگ میں دشمن کے جہازوں کی تنظیم اور دفاعی لائن کو توڑنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی۔جس فریق کے زیادہ جہاز تباہ ہو جاتے یا دشمن کے قبضے میں چلے جاتے وہ شکست خوردہ ہوتا تھا۔10

دستہ بندی کی حکمت عملی

جارج گروٹ (George Grote) یونانی افواج کی دستہ بندی کے بارے میں لکھتاہے:

  ہوپلائیٹ(Hoplite) جو کہ یونان کی بھاری اسلحے سے لیس پیادہ فوج تھی ،ایک دوسرےسے مناسب فاصلے پر ترتیب وار قطاروں میں کھڑے ہوتے اور دشمن کو اپنے نیزے سے نشانہ بناتے تھے۔دست بدست لڑائی میں بھی اپنی ترتیب برقرار رکھتے تھے۔ان دستوں میں خاص تربیت یافتہ سپاہی، تیر انداز، کم اسلحے سے لیس سپاہی،اور نیزہ بردار سپاہی شامل ہوتے تھے۔11

ساتویں صدی قبل مسیح کے آس پاس ہوپلایئٹ(Hoplite) سپاہیوں کے لیےمتعارف کرائی گئی دہری گرفت والی ڈھال اور دستوں کی مضبوط طرزِتشکیل سے جنگ کے انداز میں تبدیلی آگئی۔ اب دو پھینکنے والے نیزوں کی جگہ ایک بھاری نیزے نے لے لی تھی جو دست بدست لڑنے کے کام آتا تھا۔ نئی ڈھال زیادہ چوڑی، بھاری اور مضبوط تھی اور اس سے پہلے استعمال ہونے والی یک دستی ڈھال کے مقابلے میں اس کو نقصان پہنچانا زیادہ مشکل تھا۔اس کے ذریعے سپاہی اپنے ساتھ والے سپاہیوں کے ساتھ مل کر ایسی ترتیب بناتے تھے جس سے ان کی ڈھالیں نہ صرف ان کی حفاظت کرتیں بلکہ ان کے ساتھ سیدھے ہاتھ والے سپاہیوں کی بھی حفاظت کرتی تھیں۔سپاہیوں کے درمیان 3 فٹ کا فاصلہ ہوتا اورہر فوجی قطار میں 8 سپاہی ہوتے تھے۔ دستہ بندی میں عہد قدیم کی بے قاعدہ لڑائی کے مقابلے میں سپاہیوں کی زیادہ تعداد اور زیادہ باہمی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی تھی۔اس ترتیب میں ہر سپاہی کودستے میں اپنی جگہ اور ترتیب کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوتی تھی جس کی وجہ سے وہ اور اس کے ساتھ موجود سپاہی دشمن سے محفوظ ہوتے تھے۔دستے کے تمام سپاہیوں کو مل کر اور باہم مربوط ہو کر آگے بڑھنا ہوتا تھا جس سے وہ دشمن کے مخالف دستوں کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوتے تھے۔ 12

ہوپلائیٹ (Hoplite) سپاہیوں پر مشتمل دستہ دشمن کے گھر سوار دوستوں اور ہلکے ہتھیاروں سے لیس سپاہیوں کا مقابلہ با آسانی کر سکتی تھا لیکن ان کے مقابلے میں ان کی رفتار بہت سست تھی اس لیے ہوپلایئٹ دستوں میں بھی گھڑسوار اور ہلکے ہتھیاروں سے لیس دستے شامل کیے گئے جن کی بدولت یہ دستے زیادہ برق رفتار اور محفوظ ہو گئے تھے۔ ہلکے اسلحے سے لیس سپاہیوں کے حملے دشمن کو پریشان کرنے اور دشمن کےحملے سے محفوظ رکھنے کے لیےمفید تھے۔ یہی حال گھڑسوار دستوں کا تھا۔ تاہم جنگ کا فیصلہ پیادہ سپاہیوں کے دستوں کی کارکردگی پر ہی منحصر ہوتا تھا۔13

افواج کے ساتھ درجنوں نو جوان بھی سفر کرتے تھے جو سپاہیوں کے روزمرہ کےمعاملات میں ان کی مدد کرتے تھے، وہ ان کے ساتھ کھاتے پیتے اور سوتے بھی تھے۔یہ نوجوان سپاہیوں کی جنسی ہوس کی تسکین بھی کرتے تھے اور اعتماد حاصل ہو جانے کی صورت میں انہیں گروہ کا قابل قدر ممبر سمجھا جاتا تھا اور انہیں اسلحہ بھی دےدیا جاتا تھا۔اسی طرح لونڈیاں وغیرہ بھی فوج کے ساتھ سفر کرتی تھیں جو زیادہ تر شکست خوردہ دشمنوں کی عورتیں ہوتی تھیں جنہیں لونڈی بنا لیا جاتا تھا۔ ان سے مختلف کام لینے کے ساتھ ساتھ جنسی تسکین بھی حاصل کی جاتی تھی۔14 یونانی معاشرے میں جنسی ہوس پرستی عام تھی۔ہر طرح کی بے ہودہ اور قبیح جنسی حرکات کی آزادی تھی۔شرم وحیا سے عاری اور تہذیب وتمدّن سے دور یہ قوم اپنی جنسی تسکین کے لیےمرد و عورت میں بھی کوئی تفریق نہیں کرتی تھی۔ہم جنس پرستی اور لواطت نے ان کے اخلاق اور حیا کا جنازہ نکال دیا تھا اوربے لگام خواہشات کی تسکین ہی ان کا مقصد حیات بن گیا تھا۔یہ اخلاقی بگاڑ آہستہ آہستہ معاشرے کے دوسرے شعبوں میں بھی تخریب کا سبب بنا جس کی وجہ سے رومی تہذیب کا پورا ڈھانچہ زمیں بوس ہو گیااور یوں یہ تہذیب بھی عہد قدیم کی باقی تہذہبوں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

مشہور جنگیں

اہل یونان کی مشہور جنگوں میں 490 قبل مسیح میں ہونے والی میراتھن کی جنگ (The Battle of Marathon)، 480 قبل مسیح میں ہونے والی تھرموپیلائے کی جنگ(Battle of Thermopylae) اور 480 قبل مسیح میں ہونے والی سلامس کی جنگ(The Battle of Salamis) شامل ہیں۔ یہ جنگیں فارس کے خلاف لڑی گئی تھیں اس لیے ان کے احوال تفصیل کے ساتھ سلطنت فارس کی جنگوں میں مذکور ہیں ۔اہل یونان ان جنگوں میں انتہائی ثابت قدم رہے اورانہوں نے فارس کے حملوں کو پسپا کر دیا۔فارس کی افواج کو عددی برتری کے باوجود بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

پیلوپونیسی جنگیں (Peloponnesian Wars)

اس جنگ کا شمار یونان کی طویل ترین جنگوں میں ہوتا ہے جو 431 قبل مسیح سے 404 قبل مسیح تک جاری رہی تھیں۔ یہ جنگ ایتھنز(Athens) اور اس کے اتحادیوں اور اسپارٹا(Sparta) اور اس کے اتحادیوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔27 سال کے عرصے پر محیط اس جنگ میں دونوں اطراف سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے۔اس جنگ میں ایتھنز(Athens) کے حکمران پیری کلیز(Pericles)نے دفاعی جنگ کی حکمت عملی اپنائی۔ دشمن کو بحری افواج سے ہراساں کرنے کے بعد پیری کلیز نے اسپارٹا(Sparta) پر پیادہ افواج سے حملہ کرنےکا منصوبہ بنایا۔ اسپارٹاکی افواج نے ایتھنزکا محاصرہ کرلیا ۔ ایتھنزکی افواج نے شہر کے دروازے بند کر لیے اور مقابلے کے لیےنہیں آئے۔ یہ جنگ جاری تھی کہ اگلے سال ایتھنز(Athens) میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی جس سے شہر کی ایک تہائی آبادی لقمہ اجل بن گئی۔اس دوران کچھ لوگوں نے مصالحت کی اور کچھ نے پیری کلیز کو ہٹانے کی کوشش کی مگر یہ کوششیں سود مند ثابت نہ ہو سکیں۔ اسی دوران پیری کلیز کا انتقال ہو گیا۔15

10سال تک جنگ جاری رہی۔ نیکیاس(Nicias) نامی ایتھنیائی جنرل کی کوششوں سے بالآخر 421 قبل مسیح میں دونوں ریاستوں میں نہ صرف صلح ہو گئی بلکہ وہ ایک دوسرے کے اتحادی بن گئے مگر یہ امن زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکا۔ شروع میں ایتھنز(Athens) کا پلہ بھاری تھا مگر413 قبل مسیح میں اہل اسپارٹا (Spartans) کے ہاتھوں ایتھنزکی بحری اور بری فوج کی تباہی کے بعد پھر اسپارٹنز (Spartans)کو برتری حاصل ہو گئی۔بالآخر 404 قبل مسیح میں اسپارٹا(Sparta) کی فتح کے ساتھ یہ جنگ اختتام پذیر ہوئی۔ ایتھنز(Athens) کے 12 جہازوں کے علاوہ باقی تمام بحری جہاز تباہ کردیے گئے تھے۔16

یونانی فوج کے اہم جرنیلوں میں سکندر اعظم (356قبل مسیح تا 323 قبل مسیح)، پرائیکلیس( 494 قبل مسیح تا 429قبل مسیح)، لیونیڈاس (540 قبل مسیح تا 480 قبل مسیح)، سولون (630 قبل مسیح تا 560 قبل مسیح)، کلیس تھنز (570 قبل مسیح تا 508 قبل مسیح) ، ڈیموستھنز( 384 قبل مسیح تا 322 قبل مسیح )اور ڈراکو( 650 قبل مسیح تا 600 قبل مسیح)وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یونانی فوج نظم و ضبط اور جسمانی قوت و مہارت اور جنگی صلاحیتو ں کی حامل نہایت مضبوط عسکری نظام پر مشتمل تھی۔اسی سبب سے یونان کی فوج نے اپنے عروج کے وقت میں دنیا کی دوسری طاقتو ر اقوام اور ان کی افواج کو مغلوب کرکے کئی ممالک اور ریاستوں کو اپنا باج گزار بنایا لیکن مضبوط عسکری نظام اور مستقل جنگی فتوحات کے باوجود یونانی ریاست کا مطمحِ نظر اور عسکری مہمات کا مقصد کسی خیر کا غلبہ اور شر کا ازالہ نہیں تھا بلکہ عسکری فتوحات دوسری اقوام سے جلبِ منفعت ،اخذِوسائل اور زمین پر قبضے کے ساتھ ساتھ ان اقوام کو اپنا غلام بنانا تھا۔

 


  • 1 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 94.
  • 2 Victor Davis Hanson (1999), The Wars of the Ancient Greeks, London, U.K., Pg. 18.
  • 3 Paul Robinson (2006), Military Honour and the Conduct of War, Routledge Taylor and Francis Group, New York, USA, Pg. 14.
  • 4 Arnold H. Heeran (1842), Ancient Greece (Translated by George Bancroft), John Childs and Son Printers, London, U.K., Pg. 154-155.
  • 5 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 94.
  • 6 David Sacks (2005), Encyclopedia of the Ancient Greek World (Revised by Lisa R. Brody), Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 163-164.
  • 7 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 96.
  • 8 Phillip Sabin, Hans Van Wees and Michael Whitby (2007), The Cambridge History of Greek and Roman Warfare, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Vol. 1, Pg. 117-124.
  • 9 Nic Fields (2007), Ancient Greek Warship, Osprey Publishing, New York, USA, Pg. 33.
  • 10 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 128-131.
  • 11 George Grote (1846), A History of Greece, New York, USA, Vol. 2, Pg. 106.
  • 12 Donald Kagan and Gregory F. Viggiano (N.D.), Hoplite Warfare in Ancient Greece, Princeton University Press, New Jersey, USA, Pg. Xi-Xii.
  • 13 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 106.
  • 14 John W. I. Lee (2007), A Greek Army on the March, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 267-270.
  • 15 Sarah B. Pomeroy (2004), A Brief History of Greece: Politics, Society and Culture, Oxford University Press, New York, USA, Pg. 200-204.
  • 16 M. Rostovtzeff (1926), A History of the Ancient World (Translated by J. D. Duff), Oxford at the Clarendon Press, Oxford, U.K., Vol. 1, Pg. 278-281.