قدیم یونان کثیر چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں پر مشتمل ایک ملک تھا ۔ہر ریاست کے اپنے داخلی اور خارجی قوانین تھے ۔ ابتدا میں ان ریاستوں کےقوانین تحریری صورت میں مدون نہیں تھے بلکہ قانون بنانے کا عمل اور اس کانفاذ وقت کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا تھا۔ ان قوانین کو بنانے کا بنیادی مقصد معاشرے کو ظلم و ستم سے پاک کرنا اور امن و امان کا ماحول پیدا کرنا تھا۔ قوانین کوتشکیل دینے والے ایسے افراد ہوتے جنہیں اس وقت کے مقتدر اداروں کی جانب سے ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیں۔ ماہر قاضی یا وکلاءان قوانین کو نہیں بنایا کرتے تھے۔قانون بنانے والے یا تو معتبر مذہبی اشخاص ہوتے یا بادشاہ ِوقت یا پھر ان کے علاوہ کوئی دوسری مجاز شخصیات ہوا کرتی تھیں۔ قوانین بنانے میں مدد کے لیے ان کے پاس ایسا کوئی خدائی پیغام یا تعلیمات موجود نہیں تھیں جو انہیں قوانین کو ترتیب دینے میں معاون ومددگار ثابت ہو، یہی وجہ تھی کہ درندگی و سفاکی اور ظلم و ستم یونانی قوانین کاحصہ بن چکا تھا۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یونانی دور میں نئے قوانین کی تشکیل ہوتی رہتی تھی۔ ہر آنے والا نیا بادشاہ اپنی رائے اور سوچ کے مطابق اپنے شاہی سلسلہ کو برقرار رکھنے، اور اپنے صحیح اور غلط پیروکاروں کو مد نظر رکھتے ہوئے قوانین میں تبدیلی کرتا رہتاتھا۔
یونانیوں اور رومیوں کے نزدیک ہندوؤں کی طرح یہ تصوّر قائم تھا کہ کسی بھی نئے قانون کی تشکیل کے لیے مذہب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ قدیم دور میں شہری قوانین کی تدوین اصل میں مذہبی رسومات، دعائیہ تقاریب، اور مختلف عبادتوں سے متعلق قانون سازی کے فرمان کی مجموعی صورت ہوا کرتی تھی۔ جائیداد اور جانشینی سے متعلق قوانین قربانیوں، مردے کو دفنانے، اور مرنے والے کی پوجا کرنے کے اصولوں کی طرح ابتر اور بے ربط تھے۔ 1وہ دشمن جو قتل کردئیے جاتے ان کی لاشوں کو ہمیشہ مثلہ نہیں کیا جاتا تھا۔ مغلوب جماعت قید سے رہائی کے لیے فدیہ ادا کرتی جس کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کا حق فاتح پر منحصر تھا ۔2 لیکن اکثر مئورخین نے لاشوں کے مثلہ کئے جانے اور فدیہ لے کر بھی قیدیوں کو چھوڑنے کے واقعات کو نقل کیا ہے ۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، شہریوں کی مختلف جماعتیں ان معاملات کا حل جاننے کے لیے منظم ہونا شروع ہوگئیں کہ لوگوں کو کس طرح قانون شکنی سے باز رکھا جائے ،دوسرےمقامات سے تعلق رکھنے والے مجرموں کو کیسےسزا دی جائے اور طویل خونریز جنگوں کو کس طرح روکا جائے؟ اس وقت کی مشہور و معروف انجمنوں کو ان مقاصد کے لیے طلب بھی کیا گیا تاکہ ان کی عملی کاروائی مکمل طور پر معاشرے پر اثر انداز ہوسکے۔اس تمام عرصہ میں ایتھنز(Athens) کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ان قوانین کو جاری کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ نظام بھی مکمل طور پر ناانصافیوں سے پاک نہیں تھا، کیونکہ وہاں کے نگراں بعض اوقات رشوت بھی وصول کیا کرتے تھے۔3
ساتویں صدی کے مشہور قوانین کی تدوین کرنے والے اشخاص آئین سازی بھی کیا کرتے تھے۔ ان معتبر لوگوں میں سب سے مشہور آئین ساززا زالئوکس(Zaleucus) کے دور کے کچھ مبہم اشخاص بھی تھے جنہوں نے مغربی لوکرینز (Locrians)کے لیے قوانین تشکیل دیے تھے۔اس کے علاوہ آئین سازوں میں کاٹانے (Catane)کا مقنن کیرنڈاس(Charondas) بھی تھا، اس کے علاوہ ڈراکو (Draco)بھی ان قانون دانوں میں شامل تھا ۔ یونان کے بڑے حصہ میں پائے جانے والے مختلف شہروں میں بھی متعدد قانون ساز موجود تھے، اس کے علاوہ ان میں کثیر تجربہ کار اور معلومات رکھنے والے اشخاص بھی شامل تھے۔ ان ناموں میں سے جن کو محفوظ کرلیا گیا تھا ان کی تعداد بہت کم تھی۔ 4
یونان کے شہروں میں قانون اور انصاف اہم اور ضروری عناصر کی حیثیت رکھتے تھے، ہر شہر کے اپنے وضع کیے ہوئے قوانین تھے۔ ان میں سے اکثر قوانین ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ ہر شہر اپنے قوانین بنانے اور اس پر عمل کے سلسلے میں خود مختار تھا۔ وہاں کوئی پولیس نہیں تھی، لیکن ایتھنز(Athens) اور دوسری ریاستوں میں غلاموں کو قوانین پر عمل کروانے کے لیے میجسٹریٹس تعینات تھے جوانہیں ضرورت کے مطابق استعمال کرتے تھے۔مثلاً ان غلاموں کو عوامی اجتماعات میں نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے بروئے کا ر لایا جاتا تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں قانون کے لیے سب سے مشہور لفظ "نوموس" (nomos) استعمال کیا گیا جس کا معنی قانون یارواج تھا، جبکہ "ایونومیا" (eunomnia)کا معنی قانون اور اس کا نفاذ تھا۔ قوانین کومدون کرنے والا ایک مشہور قانون دان "نوموتھیٹس (nomothetes)" کہلاتاتھا۔ بہر کیف، بعد ازاں قوانین کو مکمل آبادی کی مشترکہ رائے سے ترتیب دیا گیا تھا۔ ان قانون دانوں میں سے کچھ شخصیات بہت مشہور تھیں اور اس فن میں رہنما کی حیثیت رکھتی تھیں، جن میں زلئوکس(Zaleucus)، چرونداس(Charondas)، ڈراکو(Draco)، اور سولن(Solon) شامل تھے۔ 5
621 قبل مسیح میں ڈراکو(Draco) کو قانون وضع کرنے کے حوالے سےاہم منصب پرفائز کیا گیا۔ اس کو جرائم سے متعلقہ قوانین کو مدون کرنے کےغیر معمولی اختیارات بھی سونپے گئے تھے۔ اس کے بنائے ہوئے قوانین کافی عرصہ تک زبانی کلام کے انداز میں آگے منتقل ہوتے چلے گئے تھے۔ ڈراکو(Draco) نے 624قبل مسیح میں قوانین اور ضوابط وضع کیےتاکہ عوام ان قوانین سے آگاہ ہوجائیں اورکسی جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہی سزا کو اچھی طرح جان لیں۔ ڈراکو (Draco) نے ان قوانین کوتشکیل دینے میں کسی قسم کی کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہونے دی تھی۔ 6
ڈراکو کی تعیناتی کی وجہ تفصیل سے بریف ہسٹری آف گریس(Brief History of Greece) میں یوں بیان کی گئی ہے:
"قوانین تحریری شکل میں نہ ہونے کی وجہ سے آرکونز(Archons) اپنے من مانے قوانین طاقت کے زور پر منوایا کرتے تھے ، جن سے زیادہ تر اپنی ذات اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو ہی فائدہ پہنچایا جاتا تھا، اور شہریوں کی جنرل باڈی(General Body)ہی مستفید ہوتی تھی۔ اس طرح کے حالات و واقعات نے بہت زیادہ بے چینی اور عدم اطمینان کی فضا پیدا کردی تھی، جو بڑھتے بڑھتے اتنی شدت اختیار کرگئی کہ ڈراکو(Draco) کو 624 قبل مسیح میں قوانین کو تحریری صورت میں مدون کرنےکی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی ۔ ڈراکو نے ایتھنز کے سیاسی آئین میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ اس کے مرتب شدہ قوانین میں حیرت انگیز امر یہ بھی تھا کہ جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزا انتہائی شدت اور درشتگی سے دی جاتی تھی۔ ڈراکو نے تمام اقسام کی چھوٹی چوریوں کے لیے بھی موت کی سزا کو قانونی شکل دے دی تھی۔ یعنی یوں کہا جاسکتا ہے کہ ڈراکو نے قوانین کو سیاہی سے نہیں بلکہ خون سے تحریر کیا تھا ۔ اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ قوانین میں شدت اور درشتگی کی وضاحت اس نے یہ کہتے ہوئے دی تھی کہ چھوٹی نوعیتوں کے جرائم موت کی سزا کے حقدار ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ بڑے جرائم کے ارتکاب کا اتنی سخت سزاؤں میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔"7
ابتداء میں اسپارٹا(Sparta) میں کسی بھی قانون کو تحریری شکل نہیں دی گئی تھی۔ساتویں صدی قبل مسیح کے رہیٹرا (Rhetra) یا گریٹ رہیٹرا (Great Rhetra ) نامی جو قدیم سیاسی آئین باقی رہ گئے تھے ممکنہ طور پر قانون دان لیکرگَس(Lycurgus)کے مرتب شدہ تھے ۔8
ہیروڈوٹس (Herodotus)کا یہ دعوی تھا کہ قانون دان لیکرگَس(Lycurgus)اسپارٹا کےبادشاہوں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جن کی یونان میں دوہری حکومت تھی۔ اس کے دور میں اسپارٹا کے باسی یہ دعوی کرتے تھے کہ لیکرگَس(Lycurgus) کے سدھار کا طریقہ کریٹ (Crete)کے تخلیقی اور نفیس دستور کا نتیجہ تھا۔9
اسپارٹا میں زمینی تقسیم کے طریقہ کار میں انتہائی خوفناک قسم کی نا انصافیاں اور بدعنوانیاں پائی جاتی تھیں۔ وہ شہر گداگروں اور لاچار و بے بس لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ دولت اور معاش کا نظام صرف وہاں کے ایک خاص طبقے کے ہاتھوں میں تھا۔ اسی وجہ سے بدعنوانیوں کو جڑ سے اکھاڑنے اور ساتھ ہی دولت کی لالچ، اس کے حصول کے لیے جرائم کا ارتکاب، پرتعیش زندگی، اور اسی طرح ریاست کو کھوکھلا کردینے والی دردناک اور تکلیف دہ بیماریاں جیسے غربت اور دولت مندی کے خاتمے کا لیکرگَس(Lycurgus) نےمصمم ارادہ کیا تھا ۔ اس نے اپنے شہریوں کو اس جانب راغب کیا اور کہا کہ" اپنے تمام علاقے کو ایک زمین تصوّر کریں اور پھر اس کی تقسیم نئے روپ میں گزارہ کرنے کے طور پر کریں۔ اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ یکسانیت اور برابری کے طور طریقوں کے ساتھ زندگی بسر کرتےرہیں۔ایک دوسرے پر فوقیت صرف اچھائی کی بنیادپر کریں۔ اس بات کا یقین کرلیں کہ انسانوں کے مابین کسی قسم کا ایسا کوئی فرق اوررتبہ میں تفاوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر بہتان تراشیاں کی جائیں یا داد وصول کی جائے۔" لیکن اسکی باتیں بھی محض باتیں ہی تھیں کیونکہ وہ خود بھی جب اپنی ذات اور اپنے احباب پر کوئی آنچ آتی دیکھتا تو یہ ساری اچھی اچھی باتیں بھلا کر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے خود کو اور اپنے محبین کو بچالیاکرتا تھا یعنی کہنے میں کچھ اور تھا مگر کرنے میں عام حکمران کی طرح تھا ۔
اس کے علاوہ لیکرگَس(Lycurgus) نے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والے اموال کی تقسیم کے نظام کو بھی اپنے ماتحت کرلیا تھا تاکہ کسی بھی قسم کی غیر متوازی اور غیر مساواتی تقسیم کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ جب اسے یہ اطلاع پہنچتی کہ کوئی شخص اپنی جائیداد کی حفاظت کرنے کا اہل نہیں رہا تو ایسے شخص سے اس کی ملکیت براہ راست لے لی جاتی تھی۔لیکرگَس نے عوام کی حرص اور لالچ کوقابو میں کرنے کے لیے سیاسی طریقہ کار بھی استعمال کیا۔ پہلے مرحلے میں اس نے سونے اور چاندی کو بطور رائج الوقت ثمن کے طور پر استعمال کرنے سے منع کردیا اور اس کی جگہ لوہے کو قیمت کے طور پر استعمال کرنےکا حکم صادر کردیا تھا۔ اس نے لوہے کی ایک بھاری وزن دار مقدار کی حیثیت قیمتاً کم رکھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دس مناس کی قیمت کا لوہا رکھنے کے لیے ایک بڑا کمرہ درکار ہوتا ، اور اسے ایک مقام سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیےجانوروں کی جوت کی ضرورت پڑتی تھی۔ جب اس مال کو رائج الوقت کا درجہ دے دیا گیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ناجائز دولت اکھٹا نہیں کر پاتے تھےاوراسی وجہ سے رشوت اور دوسری ناانصافیاں لیسی ڈیمن(Lacedaemon) سے دم توڑ گئیں۔نہ تو وہ اس رقم کو چرا سکتے تھے، اور نہ ہی رشوت کے طور پر لے سکتے تھے۔ راہ زنی کرنا، غبن کرنا بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ نہ تو اتنے حجم کا مال چھپایا جاسکتا تھا اور نہ ہی مکمل اعتماد کے ساتھ اس پر قابض ہونا ممکن تھا، اور نہ ہی اس کو کاٹ کر کوئی منافع حاصل کیا جاسکتا تھا۔
دوسرے مرحلے میں لیکرگَس(Lycurgus) نےغیر ضروری فنون کو بالکل ختم کروادیا تھا۔عیش وعشرت اور دولت کی حوس کی خواہش کےدوبارہ حملہ آور ہونے کی ممکنہ صورت کو مد نظر رکھتے ہوئے لیکرگَس(Lycurgus) نے اپنا تیسرا اور انتہائی نایاب سیاسی آلہ استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد كے ليے اس نے ایک ادارہ بنایا جس کا نام اس نے "عام لنگرخانہ" (Institution of Common Masses)رکھا تھا۔ اس ادارے میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر خاص اور عام ہر طرح کی غذا کھایا کرتے تھے10جس سے ان میں بظاہر قربت پیدا ہونے لگی تھی مگر جلد ہی وہ سارا نظام خود بخود درہم برہم ہوتا چلا گیا اور وہ یونانی جو شراب ،عورت ،دولت اور عیاشی کے رسیا تھے جلد ہی اپنی اصل کی طرف لوٹ گئے اور یہ نظام جلد ہی مفقود الخبر ہو گیا ۔
قدیم یونان میں درج ذیل مشہور قوانین رائج تھے:
قدیم یونانی قانون دانوں کے نزدیک بچوں کی نگہداشت کا آغاز ان کی پیدائش سے پہلے ہی شروع کردیا جاتا تھا۔ حاملہ ہونے کے دورانیے میں بچوں کی ماؤں کے لیے مختلف قواعدو ضوابط مرتب کیے گئے تھے۔ ان کی غذائیں اور ورزشوں کے لیے منظم طریقہ کار موجود تھا ، اور بعض صورتوں میں قانون اور قواعد و ضوابط کی روشنی میں انہیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ اس امرپر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی کہ انہیں سکون و اطمینان کا ماحول میسر کیا جاسکے۔ 11
غیر مہذب ریاستوں پر جنگوں کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا تھا، اگر کوئی جنگی قیدی بنا لیا جاتا تو اس کی آزادی کے لیے فدیہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ مقتول کے ہتھیار اور جائیداد مالِ غنیمت کے طور پر فاتح کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ لاشوں کے ساتھ توہین اور ذلت آمیز رویہ اختیار کیا جاتا تھا اور انہیں گِدھوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔ جب کسی شہر پر قبضہ کیا جاتا تو وہاں کے مَردوں کو قتل کردیا جاتا، عورتوں کو کنیز اور بچوں کو غلام بنا دیا جاتا تھا۔ انہیں بھی مال غنیمت کی طرح مختلف فوجیوں میں تقسیم کیاجاتا تھا۔ 12یہ وہ قوانین تھے جو یونان میں عام تھے اور وہ اپنی اس درندگی پر فخر بھی کیا کرتے تھے ۔
قدیم یونان میں معلّم کو طالب علموں کی ہرزہ سرائی سے بچانے کے لیے ایک قانون تشکیل دیا گیا تھا۔ مسٹر آڈونس(Mr. Adonis) اس قانون کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں کہ:
استاد تعلیم گاہ کو سورج نکلنے سے پہلے نہ کھولتا اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے بند کردیتا۔ تیرہ سال سے بڑی عمر کا کوئی بھی لڑکا بچوں کی موجودگی میں اسکول میں داخل نہیں ہو سکتا تھا، یہاں تک کہ معلم کے بیٹے اور بھائی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے موت کی سزا تھی۔ ہرمیس(Hermes) دیوتا کی رسومات کے دوران فن جمناسٹک کی مہارتوں کی تعلیم دینے والوں کی یہ ذمہ داری ہوا کرتی تھی کہ کوئی بھی شخص بچوں کے قریب نہ آنے پائے۔ جو جمناسٹی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نہیں پکڑتے تھےاور جمنازیم سے باہر نہیں نکالتے تھے، وہ آزاد بچوں سے بدکاری کرنے کےمتعلق قانون میں مجرم کہلاتے تھے۔ 13
اس قانون سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم دور کے ایتھنز میں بچوں کی دیکھ بھال اور انہیں بدکاری جیسی ناپاکی سے تحفظ کے لیے کسی قسم کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تھی۔ اس حوالے سے جو بھی احتیاطی تدابیر کی جاتی تھیں وہ طبعی حد سے متجاوز تھیں۔ قدیم دورکے ایتھنز میں اسکول کے اندرکسی بھی غیر متعلقہ شخص کی موجودگی بھی اس کے لیے موت کی سزا تجویز کرنے کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی۔ اس طریقہ کار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اغلام بازی کی غیر اخلاقی عادتیں قدیم یونانی معاشرے کی بنیادوں میں رچی بسی ہوئی تھیں۔ یونانی باشندے بچوں کے ساتھ جنسی چھیڑ چھاڑ اور اغلام بازی جیسی غلیظ اور گندی حرکتوں کے عادی ہوچکے تھے۔ یہ گندگی اور غیر فطری عادتیں اس وجہ سے رائج تھیں کہ ان میں سے کوئی بھی شخص پیغمبرانہ تعلیمات سے آگاہ نہیں تھا،نہ ہی ان میں روحانیت نام کی کسی چیز کا کوئی تصوّر موجود تھا جس کے باعث شرم و حیا اور اجتناب ِگناہ سے ان کو آگاہی حاصل ہو اہل یونان کیونکہ عقل کے دلدادا تھے اس لیے ہر کام کو عقلی طور پر ہی حل کرنے کی کوشش کرتے تھے جس کے نتیجے میں وہ مسئلہ تو حل نہ ہوتا بلکہ کئی نئے مسائل جنم لے لیا کرتے تھے۔
اٹیکا ئی قانون (Attic Law)یونانیوں کےافکار کو ظاہر کرتا تھا۔ ان کے قانون دان عوام الناس کی حفاظت اور شہریوں کے وقار اور رتبہ کو برقرار رکھنے کے لیے بہت مشتاق اورانتہائی سنجیدہ تھے۔وہ ہر صورت میں قانون کی بالادستی چاہتے تھے۔ اگر کسی شخص کو بد تہذیبی سے چھو بھی لیا جاتا، یا اس کی مرضی کے خلاف بھی اسے ہراساں کیا جا تا، تو اس فعل کو ایک حملہ تصوّر کیا جاتا تھا اور اس کے مطابق سزا دی جاتی تھی۔اس کے علاوہ اگر کوئی شخص ریاست کی طرف سے سونپے گئے فرائض کے دوران کسی سرکاری افسر کو چھیڑتا تو اسے غداری کے قوانین کی روشنی میں سزا دی جاتی تھی 14یہ الگ بات تھی کہ زنا بالرضا اور بالرضا ہم جنس پرستی وہاں پر عام تھی نہ تو اس کو برا سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی اسکے لیے کوئی قانون تھا مطلب زنا بالجبر قابلِ سزا جرم تھااور زنا بالرضا عام معمول تھا جس میں کم و بیش سب ملوث تھے۔
یونانیوں کی قوم میں قدیم ادوار سے ہی ذاتی جائیداد کا تصوّر موجود تھا۔سولن (Solon)کے مرتب شدہ قوانین کی روشنی میں سات یا آٹھ نسلوں بعد کورنتھ (Corinth)کے بادشاہ فیڈون(Phaedon)نے بھی کسی شخص کو اپنی ذاتی زمین کو فروخت کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی لیکن ایسا کرنےیعنی بیچنے والے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا اور اسے شہریت کے حق سے بھی دستبردار کردیا جاتا تھا۔ آخرکار ارسطو نے عمومی ڈھنگ میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ بہت سے شہروں میں قدیم قوانین کی رو سے زمین کی خرید و فروخت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ تصوّر اس وجہ سے قائم تھا کہ وراثت مذہب کی بنیادوں پر مبنی ہوا کرتی تھی اور اس کا ایک دوسرے کے ساتھ الحاق بہت زیادہ طاقتور ہوا کرتا تھا، اور کوئی بھی شخص اپنی زمین نہیں بیچ سکتا تھاتاکہ وارث تک وہ بآسانی منتقل ہوجائے ۔
جائیداد رکھنے کے حق کا تصوّر آباء پرستی کے حصول کے لیے مرتب کیا گیا تھا۔ ایسا ممکن نہیں تھا کہ یہ حق کسی ایک شخص کی مختصر سی زندگی کے اختتام پر ختم ہوجائے۔ گھریلو مذاہب میں موروثیت مرد سے مرد کی طرف منتقل ہوتی اور اسی طرح جائیداد بھی ایک فرد سے دوسرے کی ملکیت میں آجاتی تھی۔ جیسا کہ یہ امر واضح ہے کہ بیٹا مذہب کے تسلسل کا قدرتی وارث تھا، اسی طرح وہ جائیدادکو بھی ورثے میں پاتا تھا۔یوں وراثت کا قانون دو اشخاص کے مابین کیے گئے عام معاہدے کے نتیجے میں نہیں بلکہ ان کی مذہبی تعلیمات كو مد نظر ركهتے ہوئے ترتیب دیا جاتا تھا ۔ کیونکہ مذہبی تعلیمات کا لوگوں کے ذہنوں پر بہت طاقتور اثر ہوتا ہے۔ یہ کسی کے والد کی ذاتی خواہشات پر مبنی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کسی بھی بیٹے کو چاہے وارث بنالے۔ یہاں تک کہ بیٹا لازمی جانشین ہوا کرتا تھا ، اسے نہ وارث بننے کی حیثیت کو قبول کرنے کی اور نہ ہی رد کرنے کی ضرورت تھی۔ جائیداد کی منتقلی آباء پرستی کے تصوّر کی مثل ایک اہم فرض اور ساتھ ہی ساتھ حق بھی تھا۔ چاہے بیٹے کو اسے قبول کرنے کی خواہش ہو یا نہ ہو، وراثت اسی کی جانب منتقل ہوتی تھی۔15
جو خاندان بیٹوں سے محروم ہوتے وہاں وراثت جاری رکھنے کی ذمہ داری ان کی بیٹیوں پر عائد ہوتی تھی۔ اس صورت کو "اوئکوس(Oikos) "کہا جاتا تھا۔اس طرح کے خاندانوں میں بیٹی کو "خاندانی ملکیت سے منسلک" کے طور پر ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ اسی مناسبت سے بیٹی کو ایپک لیروس(Epikleros) کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ خاندان کی جائیداد اسی کے ساتھ اس کے شوہر کی جانب منتقل ہوتی تھی اور اسی طرح اس کے بچوں کی طرف بھی۔اس طرح کی ترتیب سے واضح ہوتا ہے کہ مرد شادی کے لیےان ہی عورتوں کو ترجیح دیا کرتےتھےجن کے پاس جائیداد ہوتی تھی۔ایتھنز میں جانشینی کے تسلسل میں جدی نسل سے ہونے پر اس حوالے سے کوئی سختی نہیں کی جاتی تھی کہ وراثت کا حقدار ہونے کے لیے مرد ہونا ہی ضروری ہے۔ البتہ ایپک لیروس کبھی بھی حقیقی معنوں میں والد کی جائیداد کی مالکہ نہیں ٹھہرتی تھی۔اس معاملے میں کسی بھی مرد قریبی عزیز پر یہ ذمہ داری یا اس کا یہ حق ہوتا تھا کہ وہ وارثہ سے شادی کرے۔16یعنی عورت صرف نام کی مالک ہوتی تھی ورنہ اصلاً اسکی دولت آگے منتقل کر دی جاتی تھی اور يونانی اس ظالمانہ نظام کو وہ اپنی حکمت گردانتے تھے اور عورت کا استحصال کرتے تھے ۔
جمہوری ایتھنز کے 400 قبل مسیح کے درمیانی اور اس کے بعد والے دور میں ایرئوپیگوس(Areopagus) نام کی سابقہ آرکون(Archon) پر مشتمل 200 سے 300 ممبران کی ایک خاص عدالت ہوا کرتی تھی۔ ایتھنز کے اصل باشندے ہونے کی بناء پر ایرئوپیگوس(Areopagus) قدیم ایتھنز کےحکومتی اشرافیہ خاندانوں کی باقی رہ جانے والی نسل تھی۔ ایرئوپیگوس(Areopagus) یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی " یونانی جنگی دیوتا کا پہاڑ" ہے۔ یہ نام ان جگہوں کو ظاہر کرتا تھا جہاں عدالت کی عمارتیں تعمیر ہوا کرتی تھیں۔ یونان میں قریباً 600 سے 900 قبل مسیح میں جب اشرافیہ کی بادشاہی کا دور تھا، ممکنہ طور پر شہر کی قانون سازی اور عدالتی نظام ایرئوپیگوس(Areopagus) ہی چلایا کرتے تھے۔ آنے والے ادوار میں جیسے جیسے اہل ایتھنز جمہوریت کی طرف قدم جماتے گئےاسی ترتیب سے ایرئوپیگوس(Areopagus) کی پکڑ نظام پر کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی تھی۔ 594 قبل مسیح میں سولن (Solon)کی چھتری کے نیچے ایک نئی شورٰی نے ایرئوپیگوس(Areopagus) قانون ساز ماہرین کو قانونی ذمہ داریاں سونپنے میں پہل کروائی، اور پھر نئے تعمیر شدہ عدالتی نظام میں ایرئوپیگوس(Areopagus) کے قانونی فیصلوں کو حتمی فیصلہ کے طور پر قبول کرنے سے روک دیا گیا۔500 سے 400قبل مسیح میں جیسے جیسے ایتھنیائی آرکونز کی ذمہ داریاں کم ہوتی چلی گئیں اور ان کی ضرورت میں بھی کمی آتی گئی، ایرئوپیگوس (Areopagus) نے بھی حکومتی فرائض کی انجام دہی سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کردی تھی۔ 462 قبل مسیح میں ایفییلٹس (Ephialtes)کی بنیادی اصلاحات کی تشکیل نے ایرئوپیگوس(Areopagus) کو اکثر اہم قانونی عہدوں سے محروم کردیا اور ان عہدوں کو دیگر شہری انجمنوں، شوری، اور قانونی عدالتوں کے حوالے کردیا گیا۔ اس وقت سے ایرئوپیگوس صرف دانستہ قتل و غارت، زخمی کردینے والے اورآتش زدگی جیسے جرائم کے مقدمات سنا کرتے تھے۔17
ہمارے موجودہ جدیددور کے قانونی ضابطوں کے برعکس ،یونان میں الگ سے عدالت کا محکمہ خود مختار حیثیت سے قائم نہیں تھا۔ یونان کے عدالتی ادارے گزرتے وقت اور حالات کے مطابق بہتر ہوتے چلے گئے تھے۔ ہیروئیک دور(Heroic Age) میں، بادشاہ عدالت میں خود موجود ہوتے تھے18جو بعض اوقات دھاندلی بھی کر لیا کرتے تھے ۔اتھینیائی دور میں عدالتی فیصلوں کے حوالے سےکئی تحاریر موجود ہیں۔ یہ کاروائیاں یونان کی مختلف عدالتوں ، شورٰی اور اہم اداروں میں ہوا کرتی تھیں۔ تقریباً 100 ایتھیائی عدالتِ انصاف کی کاروائیوں کی تحاریر ہم تک پہنچی ہیں، جن میں بعض اوقات مخالف ٹولہ طاقتور محسوس ہوتاتھا ۔ دراصل فیصلہ دینے والے ایک سے زائد آرکون ہوا کرتے تھے جن میں تھیس مو تھیٹائی بھی(Thesmothetai) شامل ہوا کرتے تھے۔ ایرئوپیگوس(Areopagus) قتل و غارت گری ، زخمی کردینے والے اورآتش زدگی جیسے جرائم کے مقدمات کے فیصلے دیا کرتے تھے۔ایفٹائی(Ephetai) نادانستہ طور پر ہوجانے والے قتل اور کسی اور ملک کے شہری کو قتل کرنے والے مقدمات دیکھا کرتے تھے۔ یہ کمیٹی 51 شہریوں پر مشتمل تھی جن کی عمریں 50 سال سے زیادہ تھیں، اور تمام عدالتی کاروائی آرکون بیسیلیس(Archon Basileus) کی زیر صدارت ہوا کرتی تھی۔ انصاف پسندی کے فروغ کےطریقہ کار میں ایک بہتری سولن (Solon) کے تعارف میں یہ ہوئی کہ قاضی کے فیصلے کے خلاف دوبارہ درخواست کی جاسکتی تھی۔ ان اپیلوں کو عدالت دوبارہ سماعت کے لیے قبول کرلیا کرتی تھی جس کو ہیلیائیا (heliaia) کہا جاتا تھا، جسے ممکنہ طور پر اصلاً اسمبلی کہا جاتا تھا۔ یہ اپیل کورٹ ممکنہ طور پر ججوں کی جماعت سے مرتب ہوتی تھی۔ عدالتی کاروائی میجسٹریٹ کے بجائے ججوں کی جماعت کیا کرتی تھی۔ یہ ادارے پانچویں صدی قبل مسیح میں قائم کیے گئے تھے۔ ہر مقدمے میں اس کی نوعیت کے مطابق ججوں کی جماعت موجود ہوتی تھی جن کی تعداد 200 سے 1000 تک ہوا کرتی تھی۔ اتنی بڑی تعداد رشوت کے عمل سے بچنے کے لیے رکھی گئی تھی۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں ججوں کی تعداد طاق اعداد پر رکھی گئی تاکہ ووٹنگ کے عمل میں نتیجہ برابر نہ آنے پائے۔ ہر سال 6000 ججز کی ایک فہرست مرتب کی جاتی جن کو ججوں کی جماعت کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔ اہلیت پر پورا اترنے والے ججز کو لکڑی یا کانسی کا ایک ٹوکن دیا جاتا تھا۔ ٹوکن کے دائرے کے اندرونی حصے میں اس شخص کا نام ، محلّہ باعتبار حروف تہجی کنندہ ہوا کرتا تھا ۔ مقدمہ سننے کی اجرت پیریکلز (Pericles)نے رضا کارانہ طور پر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے متعارف کروائی تھی۔ ابتداءًیومیہ اجرت دو ابولز (obols) تھی، اور 425 قبل مسیح تک کلیون (Cleon) کی پیشکش پر اس رقم کو تین(obols) کردیا گیا تھالیکن اس کے باوجود یہ رقم ایک عام روزگار رکھنے والے شخص سے کم ہی تھی۔ اسی وجہ سے بڑی عمر کے وہ لوگ جو کوئی اور کام نہیں کیا کرتے تھے، منصف کا پیشہ اپنا لیا کرتے تھے۔ تقریباً تمام قانونی معاملات انہیں عدالتوں سے ذریعے حل ہو اکرتے تھے جنہیں ڈائےکاسٹیریس(Dicasteries) کہا جاتا تھا۔یہی لفظ ڈکٹیٹس ثالث اور جج دونوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ میجسٹریٹس کو ایک متعین حد تک جرمانہ عائد کرنے کی اجازت تھی، اس کے بعد مقدمہ جج سنا کرتے تھے۔ آرکون اور دیگر میجسٹریٹس کی یہ ذمہ داری بھی تھی کہ خاص مقدمات میں وہ عدالتوں کے صدر ہونے کے طور پر کام کریں، لیکن جج کے طور پر کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر اسٹراٹیگوئی (Strategoi) بحری اور زمینی فوج کے مقدمات کی صدارت کیا کرتے تھے۔پولیمارچ (Polemarch)غیر شہریوں کے مقدمات دیکھتے تھے۔ آرکون بیسیلیس (Archon Basileus)مذہبی اور قتل و غارت کے مقدمات کی سماعت کیا کرتے تھے اور تھیس مو تھیٹائی(Thesmothetai) عام نوعیتوں کے مقدمات کی صدارت کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کثیر کم درجہ کے میجسٹریٹس خصوصی مقدمات جیسے بازار سے متعلق کیسز کی صدارت کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد ہیلیائیا(Heliaia) صرف تھیس مو تھیٹائی (Thesmothetai) کی عدالت کے طور پر مختص کردی گئی، اپیل کورٹ کے زمرہ سے اسے خارج کردیا گیا تھا۔ ایرئوپیگوس(Areopagus) ڈائےکیسٹریس (Dicasteries)سےمتعلق چھان بین کے فرائض انجام دیتےتھےاس کے علاوہ بول (Boule)نامی 500 شہریوں پر مشتمل کمیٹی ایرئوپیگوس (Areopagus) کا کرداراس کے میجسٹریٹس کے غیر قانونی رویوں پر نظر رکھ کر ادا کیا کرتی تھی۔
عدالتی کاروائی کے دوران مدعی اور مدعا علیہ کو اپنا بیان دینے کے لیے ایک ہی مقدار کا وقت دیا جاتاتھا، یہ وقت پانی کی ایک گھڑی کلیپسی درا(Klepsydra)کے ذریعے ناپا جاتا تھا ۔ وکیلوں کو ان کی طرف سے کچھ کہنے کی بالکل اجازت نہیں تھی البتہ ایک بیان تحریر کرنے والے ماہر شخص کی خدمات لازمی لی جاتی تھیں۔ مدعی کو پہلے بولنے دیا جاتا اس کے بعد مدعاعلیہ کو اپنا بیان دینے کی اجازت دی جاتی تھی۔ مدعا علیہ کے عورت یا بچہ ہونے کی صورت میں اس کے قریبی مرد رشتہ دار کو اس کی طرف سے بولنے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ الزام کی نوعیت چاہے جتنی بھی سخت ہو اس سے مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔تمام سامعین کے لیے کوئی ایک دن مختص تھا۔ گواہان میں عورتوں، بچوں اور غلاموں کو قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ گواہوں کو پیش کرنے کا ایک مختص وقت تھا ۔ غلاموں کے صرف تحریری ثبوت کو کاروائی میں شامل کرلیا جاتا تھا ۔ یہ اسی صورت میں ہوتا جب انہیں سخت اذیت دی جاتی تھی۔ کیس کی سماعت میں ججوں کی جماعت فیصلہ دینے میں دیر نہیں لگاتی تھی۔ اس صورت میں نہ مشورہ کیا جاتا اور نہ کیس کے تمام پہلوؤں کو ایک جگہ جمع کرنے کا انتظار کیا جاتا اور نہ ہی جج کے فرمان کا انتظار کیا جاتا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں کی جاتی تھی۔ رائے دہی کے لیے ججز کنکر یوں کو ایک برتن میں ڈالا کرتے، اگر ججز کی اکثریت سزا یا آزاد کرنے کے لئے اس برتن میں کنکریاں ڈال دیتے، وہی فیصلہ لاگو ہوتا۔ کچھ عرصے بعد کنکر اور اس برتن کی جگہ کانسی کی دائروی پلیٹیں استعمال کی جانے لگیں تھیں۔ بعض مقدمات میں کسی خاص قسم کی سزا کے لیے بھی رائے دہی کا عمل ہوا کرتا تھا۔ 19
قتل و غارت گری کی روک تھام کے لیے ڈراکو (Draco)کا قانون پرانے طریقوں پر مبنی انتشار اور تعصب کو ختم کرنے اور اس میں سدھار لانے میں ایک جزوی کردار کے طور پر اور درشتی و کرختگی میں تخفیف کرنے کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔ ڈراکو کے قوانین بے رحمی اور شدید سخت فیصلوں کے حوالے سے قابل توجہ تھے، ان قوانین کی سختی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مؤرخین کے مطابق انہیں گویا سیاہی کے بجائے خون سے لکھا گیا تھا ۔ تمام جرائم میں تقریباً مقررہ سزا موت ہی تھی۔ سولن (Solon)نے بعد کے ادوار میں ڈراکو کے قوانین کو منسوخ کرکے نئے قوانین مرتب کیے تھے۔ اس نے ڈراکو (Draco)کے صرف قتل و غارت سے متعلق قوانین کوباقی رکھا کیو نکہ اس کی سزا موت ہی بہتر تھی۔20 یعنی قتل کی سزا قتل ہی ہوا کرتی تھی۔
عموماً سزائیں جرمانہ ، ملک بدری، شہری حقوق کے نقصان، جائیداد کی ضبطی یا موت کی صورت میں ہوا کرتی تھیں۔ کچھ جرائم کے لیے سزا قانون کے مطابق طے کی جاتی تھی۔ قید کی سزا بہت کم ہی دی جاتی تھی۔ زیادہ تر قید انہیں کو کیا جاتا جو تفتیش کے عمل سے گزر رہے ہوتے تھے یا جنہیں موت کی سزا سنا دی جاتی تھی۔ بہرحال لوگوں کو سزا کے طور پر ان کے اصل وطن سے نکال دیا جاتا تھا۔ ملک بدری کی سزا زیادہ تر مردم کشی کے صورت میں دی جاتی تھی۔ اسی لفظ سے"بھاگ جانا" بھی مراد لیا جاتا تھا۔ ایسی صورتحال غیر مطمئن حالات میں ہوا کرتی تھی۔ انسان کا قتل اور گرجا گھروں میں چوری جیسے جرائم کے ارتکاب پر موت کی سزا بھی دی جاتی تھی ۔21
ان مذہبی، قومی، بین الاقوامی، شہری اور ریاستی قوانین کی تدوین کے بعد بھی یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ناانصافی، ظلم و ستم، دھوکہ بازی اور اسی طرح کے مزید جرائم قدیم یونانی معاشرے سے ختم نہیں ہوگئے تھے۔ ان قوانین نے بہتر معاشرہ تشکیل دینے میں مدد ضرور کی تھی، لیکن رشوت خوری، تعلقات، بدعنوانی، ناانصافیوں اور بےجا ظلم و بربریت پر مبنی جرائم اس دور میں بھی موجود تھے، جو صحیح قوانین کو نافذ کرنے میں مشکلات پیدا کرتے تھے اور انصاف پر مبنی قوانین کو رد کرتےتھے۔ بااثر افراد اپنے ذاتی مقاصد ،فوائد اور اپنی حکومت کی حفاظت کو لوگوں کو انصاف پہنچانے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیا کرتےتھے۔ اسی لیے یونان بھی وقت کے ساتھ ساتھ تباہ ہوتا گیا اور پھر وہ وقت آیا جب روم اس پر مسلط ہو گیا اور یونانی عوام نے اس کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر قبول کر لیا ۔