Encyclopedia of Muhammad

قدیم یونان کا سیاسی نظام

یونان کا نظام سیاست و حکومت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا تھا۔اہل یونان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ تھے اس لیےان اہم سوالات کے جوابات کی تلا ش میں رہے کہ حکومت کسے اور کیسےکرنی چاہیے۔کیا اصل اقتدار اعلی ٰقانون کی حکمرانی میں پوشیدہ ہے یا پھر اس کا مرکز آئین یا ریاست کے شہری ہیں یا پھر منتظمہ کے ادارے ہیں؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات کے حتمی جوابات تک نہ پہنچ پانے کی وجہ سے مختلف شہری ریاستوں میں حکومت کی مختلف اقسام رہی تھیں۔کہیں حکومت ایک مطلق العنان حکمران کے پاس تھی تو کہیں اشرافیہ کے ہاتھ میں۔ کہیں تمام مرد شہری حکومت میں شرکت کے روادار سمجھے جاتے تھے1 اورجمہوری طرز حکومت کو بھی عام طور پر یونان کا تحفہ سمجھا جاتا تھا۔لیکن اس کے باوجود یونانیوں کے پاس قوم کے رہنما کو منتخب کرنے کا کوئی واضح اصول موجود نہ تھا۔ یونان بھی باربار لوٹ مار اور تباہی کا نشانہ بنتا رہاجس کی وجہ یہاں موجود فرسودہ سیاسی نظام تھا جو صرف حکمرانی کرنے والے اشرافیہ کے طبقے کو فائدہ پہنچانے کےلیےبنایا گیا تھا۔

یونانی معا شرے کا ذکر سیاست کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو تا۔چاہے قدیم یونان کا کوئی چھوٹا سا قصبہ ہو یا کوئی بڑا شہر، چاہے امیر ہو یا غریب، جب بھی دو افراد آپس میں ملتے تو ان کی گفتگو میں سیاست کا ذکر ضرور آتا تھا۔ایتھنز(Athens) سے آنے والے شخص سے یہ سوال ضرور پوچھا جاتا کہ حکومت کیسی جا رہی ہے۔یہ اس نظام کی عملی صورت کی طرف اشارہ تھاکہ وہاں کاسیاسی نظام صرف نظریاتی حد تک نہیں تھا بلکہ عملی صورت میں بھی عام شہریوں پر اثر انداز ہوتا تھا۔اسی وجہ سے آج کے دور میں بھی یونان کی زندگی کا ابتدائیہ اسی ذکر سے ہوتا ہے۔2

یونانی سیاست کی شکل و صورت آٹھویں صدی قبل مسیح کے بعد کی تین صدیوں میں واضح ہوئی۔ابتدائی دور میں حکومت شہری ریاستوں کی اکائیوں کے گرد گھومتی تھی۔یہ مقامی حکومت ہوا کرتی تھی جس کا مرکز بڑا شہر تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ ارد گرد کا ایک بہت بڑا زرعی علاقہ بھی ریاست میں شامل ہوتا تھا۔ان میں سے کچھ ریاستیں چھوٹی بھی تھیں اور کچھ اسپارٹا(Sparta) کی طرح کی بڑی ریاستیں بھی تھیں۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں ایتھنز(Athens) کی ریاست کا رقبہ رھوڈ(Rhode) کے جزیرے کے برابر تھا۔ زیادہ تر شہری ریاستیں وادیوں میں یا خلیج کے کنارے آبادہوئی تھیں جن میں ایک شہری حکومت اپنے اردگر د موجود ایک بڑےزرعی رقبے کے معاملات کی نگرانی کرتی تھی۔600 قبل مسیح کے قریب یونان میں 300کے آس پاس خودمختار شہری مملکتیں موجود تھیں۔تاہم شہری ریاستوں کے نظام میں طاقتور مرکزی قوت نہ ہونے کی وجہ سے جنگ و جدال بھی بڑھ گیا تھا۔ شہری ریاستوں کے اس نظام میں وسیع پیمانے کی سیاسی سرگرمیاں نہ تھیں۔شہری یاستوں کےلیے استعمال ہونے والے لفظ پولس(Polis)سے ہی انگریزی زبان کا لفظ پولیٹکس (Politics)نکلا ہے جو موجودہ دور میں سیاست کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔3

شہروں میں موجود سیاسی ادارے شہروں کے ساتھ ہی وجود میں آگئے تھے ۔4 یونانی شہری ریاستوں کا نظام وقت اور جگہ کے حساب سے مختلف النوع تھا۔تقریبا ان تمام ہی ریاستوں نے اپنے سفر کا آغاز ملوکیت(Monarchy) سے کیا جو اشرافیہ کی حکومت (Aristocracy) میں تبدیل ہو گیا تھا۔آگے چل کر یہ طرز حکومت چند افراد کے حکومتی نظام (Oligarchy) میں تبدیل ہوا اور پھروقت کے ساتھ ساتھ جمہوری طرزحکومت کی بنیاد پڑ گئی ۔

نظام ملوکیت

ملوکیت جسے باسیلیا(Basileia)بھی کہا جاتا تھا، اس کا نظام حکومت ایک بادشاہ باسیلئس (Basileus) چلاتا تھا۔وہ بادشاہ اکثر اپنے مشیروں کے مشورے سے فیصلے کرتا تھا۔یہ نظام عہدِ قدیم سے چلتا آرہا تھا۔یونانی زبان میں بادشاہ کےلیے باسیلئس (Basileus) کا لفظ استعمال ہوتا تھا جس کا مطلب منتظم یا نگران تھا۔ کچھ ریاستوں میں موروثی بادشاہت کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ ان ریاستوں میں سیکیون(Sicyon)،میسینیاء(Messenia)،اسپارٹا(Sparta)اور کورینتھ(Corinth)قابل ذکر ہیں ۔کلاسیکی دور کی بادشاہت کا تذکرہ اسی دور کی اساطیر کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔5

خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ شروع میں شہر کے مذہبی سربراہ ہی ہوتے تھے۔ شہر کا سب سے بڑا مذہبی رہنما جسے عوام قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی ،اسے بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔انہیں یہ بات فطری سی معلوم ہو تی تھی کہ جو شخص شہری ریاست کے مذہب کا نمائندہ ہے اسے ہی ایوان کا سربراہ، منصف یا قاضی اور فوج کا سربراہ بھی بنادینا چاہیے۔اس اصول کے تحت ریاست کےتمام اختیارات بادشاہ کے ہاتھ میں آگئے تھے۔6 کچھ ریاستوں میں یہ بھی خیال کیا جاتا تھا کہ بادشاہ دیوتاوٴں کے خاندان سے ہیں اس لیے عام لوگوں سے اشرف و اعلیٰ ہیں اوراسی لیے اقتدار کے حقدار بھی یہی ہیں۔بادشاہ عموما بزرگوں اور دانشمند لوگوں (Council of the Elders)کی جماعت اور مجلسِ حکومت کے مشورے سے فیصلے کرتے تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ عوام سے بھی ایک بڑی مجلس میں رائے لیتے تھے۔ بعد کے ادوارمیں ریاستوں کے جمہوریہ اور دولت مشترکہ بننے کی وجہ سے بادشاہ کے اختیارات کم ہوتے گئے تھے۔ 7

یونانی عہد ِ شجاعت(Heroic Age) میں یونان بہت سی خودمختار شہری ریاستوں میں تقسیم ہو چکا تھا نیز ہر ریاست پر ایک بادشاہ حکمران تھا۔بادشاہ کا اختیار اور طاقت کسی قانون یا ضابطے کے پابند نہیں تھی۔ وہ عوام کو نہیں بلکہ صرف جوودیوتا(Jove) کوجوابدہ تھا۔ان کے خیال میں بادشاہوں کے آباوٴاجداد کو اولمپئین دیوتا نے اقتدار بخشا تھاجو ایک مقدس وراثت کی صورت آگے اولاد کو منتقل ہوتاہے۔زمانہء جنگ میں قیادت کرنا، زمانہ ءامن میں لوگوں میں انصاف کے ساتھ انتظامی معاملات چلانا اور عوام کی دعاوٴں اور قربانیوں کو دیوتا کے سامنے پیش کرنا ،بادشاہ کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔بادشاہ سپہ سالار بھی تھا، حکم اور مذہبی پیشوا بھی تھا۔لوگ اسے قدرو تعظیم اور الوہیت کی نظر سے دیکھتے تھے اور اس کی تقرری کو بھی دیوتا کی طرف منسوب کرتے تھے۔ 8 یونان کے اس عہد میں سرداروں کی کونسل بوول(Boule) اور آزاد لوگوں کا ایوان اگورا(Agora) دو ایسے ڈھانچے تھے جو بادشاہ کے اختیارات عملی طور پر محدود کرتے تھے۔بادشاہ کے اردگرد موجود سردار بھی اپنے آپ کو مافوق البشر ظاہر کرتے تھے اور اپنا سلسلہ نسب دیوتاوٴں کی طرف منسوب کرتےتھے۔ 9

ایتھنز(Athens) کی شہری ریاست پر بھی بہت عرصے تک بادشاہوں کی حکومت قائم رہی۔روایات کے مطابق پہلا بادشاہ کیکروپس (Cecrops) تھا جبکہ آخری بادشاہ1050 قبل مسیح میں مارا جانے والا کودرس (Codrus) تھا۔10 سرداروں اور اشرافیہ نے بادشاہ کے اختیارات کو محدود کردیا تھا اور اس عہدے کا نام بھی تبدیل کرکے آرکن (Archon) کر دیا جوکہ مجسٹریٹ یا گورنر کے معنی ٰ میں استعمال ہوتا تھا۔یوں بادشاہ کو مطلق العنان حکمران بننے کے بجائے عوام کی خدمت کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔11

طبقہ ءاشرفیہ کی حکومت کا نظام

اس سے مراد ایسا نظام حکومت جس میں ایک چھوٹا مراعت یافتہ طبقہ پوری ریاست پر حکومت کرتا تھا۔اس طبقے کے افراد کے بارے میں یہ سمجھا جاتاتھاکہ یہ حکمرانی کے لیے قابل ترین ہیں۔ افلاطون اور ارسطونے اس طرز حکومت کو اخلاقی اور عقلی طور پر دوسروں سے ممتاز افراد کی حکومت قرار دیا تھاجو تمام افراد کے مفاد کوسامنے رکھ کر فیصلہ کرتی تھی۔12

نظام حکومت میں آنے والی یہ تبدیلی آہستہ آہستہ رونما ہوئی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ذمہ دار اشرافیہ کی کونسل تھی جسے اس نظام حکومت کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا تھا۔ 13ایتھنز(Athens) کے آخری بادشاہ کی وفات کے بعد وہاں کی اشرافیہ آہستہ آہستہ نظام کو بدلنے میں کامیاب ہو گئی۔ شروع میں شاہی خاندان سے ایک آرکون (Archon) منتخب کیا جاتا جس کے عہدے کی معیاد تا حیات ہوتی تھی۔بعد ازاں 752 قبل مسیح میں آرکون کے عہدے کی مدت 10 سال مقرر کر دی گئی۔683 قبل مسیح سے سالانہ9 آرکون منتخب کیے جانے لگے ۔ان کا انتخاب معزز خاندان سےہی کیا جاتاتھا۔ یوں اشرافیہ کے کچھ نمائندوں نے عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے اور ان کی شکایات یا اعتراض کا جواب سخت قانون سازی سے دیا جانے لگا تھا۔14

ڈراکو(Draco) کو قدیم ایتھنز(Athens) کا پہلامحفوظ شدہ قانون ساز سمجھا جاتا ہے۔ اس نے زبانی قانون کے بجائے لکھے ہوئے قوانین کا نظام متعارف کرایا جس میں قانون پر عملدرآمد کا حق صرف عدالت کو دیا گیا تھا۔ڈراکو(Draco) نے ایتھنز(Athens) کی درخواست پر قوانین بنائے تھے مگر اس وقت وہاں کے شہریوں کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنے سخت قوانین بنائے گا۔15ڈراکو (Draco) کی اصلاحات سے اشرافیہ اور اہل ثروت طبقے کے ظلم و جبر کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ انہوں نے ان سخت قوانین کو عوام پر مزید ظلم کےلیے استعمال کیا۔انہوں نے قرض سے متعلق قوانین کے ذریعے غریب آزاد لوگوں کو ان کی زمین سے محروم کرنے یا ان کو غلامی کی حالت تک لے جانے کےلیے استعمال کیا تھا۔غریب طبقے کا رد عمل اتنا شدت اختیار کرنے لگا کہ بالآخر حکومتی طبقے کو چوکنّا ہونا پڑا۔594 قبل مسیح میں دونوں طبقات نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ سولن (Solon) نامی شخص کو آرکون (Archon) منتخب کیا جائے اور اسے موجودہ عدم اطمینان کی فضا سے نمٹنے کےلیے اختیارات دیے جائیں تاکہ وہ ایک نئے اندازکی حکومت قائم کر سکے۔16

سولن (Solon) کا شمار یونان کے 10 مشہور عقلمند افراد میں ہوتا تھا۔ اس نے اشرافیہ کےظالمانہ اقتدار اور بے لگام اختیارات کاخاتمہ کر کے امراء کے اقتدار کا ایک نظام وضع کیا اور انسانیت کے اصولوں پر مبنی ایک نیا ضابطہء قانون تشکیل دیا تھا۔17سولن نے قانون اور اداروں پر بحث و مباحثہ کرنے اور ان کے فائدے اور نقصانات کو دیکھتے ہوئے انہیں باقی رکھنے یا تبدیل کرنے یا ان میں کسی قسم کی ترمیم کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی تاہم اس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ وہ 10سال تک اس کے بنائے ہوئے ادارو ں کو تبدیل نہیں کریں گے۔ اس نے تما م موجودہ قرضے معاف کردیے ۔جو لوگ غلام بنا لیے گئے تھے ان کی آزادی کو بحال کرایا، یوں اس نے گزشتہ سیاسی نظام کی خامیوں اور اثرات کی تلافی کرنے کی کوشش کی تھی۔ 18

سولن (Solon) نےاعتدال پسندی پر مبنی مقبول عام نظام کی بنیاد رکھی جسے ارسطو نے بعد میں پولائیٹی(Polity) کا نام دیا تھا۔یہ ایک مقبول نظام ثابت ہوا کیونکہ اس میں زیادہ تر شہریوں کے پاس اختیارات تھے اور یہ اعتدال پسندی پر بھی مبنی تھا کیونکہ اس نظام میں کوئی ایک طبقہ نظام اور قوانین کو اپنے مفاد کےلیے استعمال نہیں کر سکتاتھا۔اس کے بنائے گئے نئے اداروں میں مقبول عام عدالتیں، شہریوں کی مجالس اور 400 افراد پر مشتمل کونسل وغیرہ شامل تھیں۔ سولن نے لوگوں کو ہر سال آرکونز(Archons)کو چننے کےلیے ہونے والی رائے شماری میں شریک ہونے کی ترغیب دی۔ 4 قدیم قبیلوں میں سے ہر قبیلہ اپنے دس دس امیر ترین افراد آرکونز(Archons) کےعہدے کےلیے پیش کرتا تھایوں20 افراد سامنے آتے جن میں سے 9 افراد کو قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب کر لیا جاتا تھا۔ اسمبلی کے امور کی نگرانی کےلیے 400 افراد پر مشتمل مجلس قائم تھی جس میں ہر قبیلے کی طرف سے 100افراد کی نمائندگی تھی۔ کوئی بھی معاملہ کونسل کی منظوری کے بغیر مجلس(Assembly)میں نہیں آسکتاتھا۔حکومتی عہدوں کی اہلیت کےلیے اس نے شہریوں کو ان کی دولت کے حساب سے 4طبقات میں تقسیم کردیا تھا۔19جس کے پاس جتنی زیادہ دولت اورآمدنی ہوتی اسےحکومت میں اتنا ہی بڑا عہدہ دیا جاتاتھا ۔اس طرح محنت کش طبقے کو ہر طرح کے حکومتی عہدوں سے محروم رکھا گیا تاہم انہیں شہریوں کی مجلس میں شمولیت کا حق دیا گیا تھا۔20

شہریوں کی دولت اور مال و زر کی بنیاد پر تفریق اور معاشرے میں مقام و مرتبے کے تعین کےلیے دولت کے اس مادی پیمانے نے لوگوں میں مادہ پرستی کو فروغ دیا جس کی جھلک ان کے عمل اور سوچ میں نظر آنے لگی تھی۔اخلاق و کردار،سچائی و ایمانداری، خوفِ خدا اور شخصیت کےاعلیٰ اوصاف کی وہاں کوئی اہمیت نہ رہی اسی لیے ان کے اکثر رہنما اعلیٰ اخلاقی اوصاف اور فہم و فراست سے محروم تھے۔مال و دولت کے بل بوتے پر اس معاشرے میں سب کچھ حاصل کیا جاسکتا تھا جس کی وجہ سے وہاں دولت کے حصول کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہو گئی تھی جس نے جلد ہی معاشرے کی اسا س کو کمزور کردیا تھا۔

غاصب حکمران

اشرافیہ کی حکومت کا خاتمہ عوام نے نہیں بلکہ ان حکمرانوں نے کیا جنہیں یونانی تاریخ میں ٹائرینٹس (Tyrants) یاغیر ذمہ دار حکمران کہا گیا ہے۔21یونان میں ملوکیت کئی مرتبہ بحال ہوئی مگر ان حکمرانوں نے اپنے آپ کو بادشاہ نہیں کہلوایا بلکہ وہ ٹائرینٹ (Tyrant) کہلوانے سے ہی مطمئن تھے۔دور قدیم کے بادشاہ مذہبی پیشوا بھی تھے اور ان کو مقدس ہستیاں بھی سمجھا جاتا تھا جبکہ ٹائرینٹ حکمران ایسے بادشاہ تھے جو صرف سیاسی قائد تھے اور طاقت یا انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آئے تھے۔22

جن ٹائرینٹس (Tyrants) حکمرانوں نے اپنا اقتدار خود قائم کیا تھا ان میں سےاکثر مکار اور عیار انسان تھے جنہوں نے اپنے عہد اور تہذہب کے تقاضوں کو سمجھا،معاشی استحصال اور ریاستوں کے تعلقات کی خرابیوں کو سمجھا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے فن اورلوگوں کی جہالت سے فائدے اٹھائے۔ان کی کامیابیوں نے ان کی بظاہر عزت اور ریاست کی شان میں اضافہ کیا تھا23لیکن حقیقتا وہ چالاکی ،عیاری اور استحصال کے ذریعے حکومت میں آتے تھے اور مال بٹور کر اور قوم کو نقصان پہنچا کر رخصت ہو جاتے تھے ۔ارسطو کے مطابق ان میں سے زیادہ تر حکمران کم عرصہ تک ہی اقتدار قائم رکھ سکے۔سب سے زیادہ عرصہ چلنے والا عہد سیکیون (Sicyon) کی ریاست میں اورتھا غورث (Orthagoras) اور اس کے جانشینوں کا تھا جو بمشکل ایک صدی ہی چل سکا۔ ان کی کامیابی کی وجہ اعتدال تھی۔اکثر دوسری ہی نسل میں اقتدار کی ہوس اور طاقت کا نشہ غالب آنے لگتا جس کا نتیجہ اکثر ظلم و نا انصافی کی صورت میں سامنے آتا اور یوں نظام کی بساط لپیٹ دی جاتی تھی۔24

جمہوریت

500 قبل مسیح سے لے کر 338 قبل مسیح تک یونان کی زیادہ تر ریاستوں میں ایسا نظامِ حکومت قائم رہا جس میں تمام لوگ مل کر حکومت چلاتے تھے۔جبکہ بعض ریاستوں میں کچھ امیر لوگوں یا اشرافیہ کی ایک جماعت حکومت کا نظم ونسق سنبھالتی تھی جس کی پالیسیاں اکثر صرف امیروں اور اشرافیہ کے طبقے کو فائدہ پہنچاتی تھیں۔ایسا نظام جس میں تمام شہری حکومتوں کاحصہ ہو یا حکومت کے زیادہ تر کاموں میں شامل ہوں جمہوریت(Democracy)کہلاتی تھی۔25 جمہوریت کا بنیادی نظریہ یہ تھاکہ تما م شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ ریاست کا نظم و نسق چلانے کے عمل میں برابر ی کے حقدار ہوں، مگر حقیقت میں اس طرح کی کامل برابری بہت کم شہروں میں پائی جاتی تھی۔ اس طرح کی برابری عموماحکومتی مجالس میں شرکت اور عدالتوں تک ہی محدود تھی۔ اگر کسی ریاست میں غریب طبقے کو تما م حکومتی عہدوں سے محروم رکھا جاتا اور ان کے ووٹ کو اسمبلی میں کم اہمیت دی جاتی تب بھی ریاست جمہوری ریاست ہی کہلاتی تھی۔26

کلیستھینس (Cleisthenes) ریاست ِایتھنز(Athens) میں الکمیونیڈیٹ (Alcmeonidate) خاندان کا فرد تھا جس نے508 قبل مسیح میں ایتھنز کے قانون میں اصلاحات کیں اور اسے جمہوری راستے پر ڈالا تھا۔ اس عمل میں اسے اسپارٹا(Sparta) سے بھی مدد ملی مگر جمہوری عمل شروع ہونے کے بعد انتخابات میں کلیستھینس (Cleisthenes) کے مقابلے میں ایساغورث (Isagoras)کو آرکون (Archon)بنا دیا گیا تھا۔ کلیستھینس (Cleisthenes) نے عام لوگوں سے مدد مانگی جن کی حکومت میں نمائندگی نہیں تھی۔اس کے مقابلے میں ایساغورث (Isagoras) نے سپارٹا کے بادشاہ سے مدد کی درخوست کی جس کے نتیجے میں کلیستھ نیس (Cleisthenes) کو جلا وطنی کا سامنا کرناپڑا تھا۔ ایساغورث(Isagoras) نے سینکڑوں لوگوں کو مختلف الزامات کے تحت جلا وطن کردیا اور کونسل تحلیل کرنے کی کوشش کی تاہم کونسل نے مزاحمت کی اور ایتھنز(Athens) کے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا نتیجتا ً کلیستھ ینس (Cleisthenes) کواپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت واپس بلا کرایتھنز کااقتدار حوالے کردیا گیا ۔27

کلیستھ نیس(Cleisthenes) کو آرکون(Archon)بنا دیا گیا۔ اس نے اٹیکا(Attica) کے تما م آزاد لوگوں کو شہریت دلائی۔اس نے چار قبیلوں اور طبقہ اشرافیہ کی اجارہ داری ختم کرنےکےلیے اور عوام کے وسیع تر مفاد میں ریاست کو انتظامی ضلعوں میں تقسیم کردیا اور 10 نئے قبائل کو بھی منظم کیا۔ہر قبیلے کے سینیٹ(Senate) میں 50نمائندے شامل کیے، اس کے علاوہ ہر قبیلے سے ایک فوجی جنرل بھی منتخب کیا جاتا تھا۔ مہینے میں 4مرتبہ ایتھنز(Athens) کے تمام لوگ جمع ہوتے اور اہم مسائل پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ 28

اہل ایتھنز(Athens) نے اسے جمہوری نظام کا نام دیا۔اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ یہ ایک اہل علم اور ایک عام آدمی میں فرق نہیں کرتا تھا اور دونوں کی رائے کو برابر قرار دیتا تھا نیز اس نظام میں حکمران کے انتخاب کےلیے بھی کوئی واضح پیمانہ وطریقہ کار موجود نہیں تھا۔ آج بھی جہاں جہاں یہ نظام موجود ہے ان میں سے اکثر ممالک کی حالت خستہ ہے۔ ایتھنز(Athens) میں یہ منتخب افراد مہینے میں کم ازکم 3مرتبہ ملتے اور اہم امور پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔یہ اجتماع پنیکس (Pnyx) نامی کھلی عمارت میں منعقد ہوتا تھا۔ اس عمارت میں شہریوں کےلیے مخصوص نشستیں لگائی جاتی تھیں جبکہ سامنے چبوترے پر مجسٹریٹ بیٹھتے تھے۔کاروائی کا آغاز مذہبی رسوم اور دعا سے کیا جاتا تھا۔اس کے بعد ایک شخص بلند آواز میں جمع ہونے کا مقصد بتاتا اور پوچھتا کہ کون کون اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہے۔ہر ایک شہری کو بولنے کا حق دیا جاتا جس کے بعد صدر مجلس لوگوں کےسامنے سوال رکھ کران کی رائے مانگتا اور لوگ ہاتھ اٹھا کر اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔29

اگرچہ 460 قبل مسیح میں ایتھنز(Athens) میں جمہوریت کا نظام آچکا تھا تاہم دیگر ریاستوں میں بھی اس سے ملتا جلتا نظام موجود تھا۔ان ریاستوں میں آرگوس(Argos)،سایراکیوس(Syracuse) ،رھوڈس(Rhodes) اور اریتھارائی (Erythrai) قابل ذکر ہیں تاہم تاریخ میں ایتھنز کے نظام کی ہی زیادہ تفصیلات محفوظ ہیں۔ 30

چند لوگوں کی حکومت

اس طریقہءحکومت میں چند افراد کی حکومت ہوتی تھی جو اشرافیہ کی حکومت کے نظام کی ہی ایک شکل تھی۔اس میں خاندان کے بجائے صرف دولت کو معیار سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ قدیم یونان میں بہت سےکامل شہری اس نظام حکومت میں شامل ہوتے تھے تاہم انکو بنیادی سیاسی حقوق تک حاصل نہ ہوتے تھے مثلا حق رائے دہی وغیرہ ۔ سیاسی طاقت عموما ایک کونسل کے پاس ہوتی جس کی ایک مثال قدیم ایتھنز(Athens) کی آریوپاغوث (Areopagus) کی کونسل ہو سکتی ہے جس کے ممبران (Oligarchs)کی تعداد مخصوص تھی۔411 قبل مسیح میں400افراد پر مشتمل شدت پسند انقلابی کونسل نے جمہوریت پسندوں کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب ان 400افراد کی کونسل کو ہٹایا گیا تو اس کی جگہ 5000 افراد پر مشتمل ایک آلگورک (Oligarchic) کونسل تشکیل دی گئی تھی۔31

اس نظام کی ایک اور مثال 30 افراد پر مشتمل کونسل ہے جو پیلو پونیسیا ء کی جنگ(Peloponnesian War) کے بعد ایتھنز(Athens) میں تشکیل دی گئی تھی۔تیرہ مہینے کے عرصے میں اس کونسل نے ظلم و بربریت اور طاقت کے بےدریغ استعمال کی وہ تاریخ رقم کی کہ چند لوگوں کی حکومت (Oligarchy) کو ایتھنز میں ظلم وبربریت کا مترادف سمجھا جانے لگا۔اہل ایتھنز نے اسے جمہوریت کے متبادل کے طور پر مسترد کرتے ہوئے 13 ماہ بعد ہی دوبارہ جمہوریت کا نظام رائج کردیا تھا۔32

ان 30افراد نے اسپارٹا(Sparta) کے حکمران کی مدد سے شہر کی پانچ فیصد آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور جمہوریت کے نظام کے حامیوں کی تمام جائداد ضبط کرکے ان کو جلا وطن کر دیا تھا ۔33اس نظام کی بنیاد مال ودولت کے پیمانوں پر رکھی گئی تھی۔ مال دار ترین لوگوں کو حکومت میں شامل کر لیا گیا جنہوں نے پیسے اور اسپارٹا(Sparta) کی بیرونی امداد سے اپنے ہی لوگوں کا کشت و خون کیا اور بربریت اور سفاکیت کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال یونان کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔34

اسپارٹا کا نظام حکومت

اسپارٹا(Sparta) کا سماجی اور سیاسی نظام دونوں ہی یونان کی باقی ریاستوں کےلیے ایک عجوبہ تھے جسے انہوں نے سراہا تو بہت مگر اپنی ریاستوں میں نافذ نہیں کیا۔اس غیر مستحکم دور میں بھی اسپارٹا(Sparta) کا آئین صدیوں تک تبدیل نہیں ہوا اور تیسری صدی قبل مسیح تک یہاں کو ئی غاصب حکمران بھی نہیں گزرا تھا۔چھٹی صدی قبل مسیح میں حاصل کی گئی قوت نے سلطنت فارس کے خلاف 480 قبل مسیح میں ہونے والی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اسپارٹا نے ایتھنز(Athens) کوبھی پیلوپونیسیاءکی جنگ (Peloponnesian War) میں شکست دی جس سے اس زمانے کے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایتھنز کی جمہوریت کے مقابلے میں اسپارٹا میں موجود اشرافیہ کی حکومت کا نظام (Spartan Oligarchy) زیادہ موثر ہے۔35

عہد قدیم میں اسپارٹا(Sparta) کا نظام مملکت ایک ساتھ دو بادشاہ چلایاکرتے تھے ۔وہ بادشاہ وہیں کے دو شاہی خاندانوں کی نمائندگی کرتے تھے۔اس نظام کو دہری بادشاہت (Dual Heroic Kingship) کا نام دیا گیا تھا۔ اس نظام میں مزید تبدیلیاں کی گئیں جس کا سہرا لیکورگوس (Lycurgus) نامی قانون دان اور دانشمند کے سر باندھا جاتا ہے۔ یوں اسپارٹا میں لیکورگوس (Lycurgus) کے آیئن کی بنیاد پڑی ۔اس نظام کے تحت لوگوں کو قبیلوں میں تقسیم کیا گیا اور30دانشمند افراد پر مشتمل سینیٹ کا ادارہ بنایا گیا۔ سینیٹ مقررہ وقت پر مجلس منعقد کرتی اور اہم امور پر فیصلے لیتی تھی جبکہ اہل اسپارٹا ان فیصلوں کی پابندی کرتےتھے۔36

لیکورگوس (Lycurgus) کا مقصد اسپارٹا(Sparta) کو ایک عسکری ریاست بنا نا تھا جہاں کا ہر شہری سپاہی ہو ۔اسی وجہ سے یہاں کے شہریوں کےلیے سفر اور تجارت کرنامنع تھا۔اگرچہ دو بادشاہوں کا نظام برقرار رکھا گیا تاہم ان کے اختیارات سینیٹ کی وجہ سے محدود ہوگئے تھےجس میں 28افراد اور دونوں بادشاہ شامل ہوتے تھے ۔سینیٹ کے ممبران کے لیے 60 سال سے زیادہ عمر ہونے کی بھی شرط تھی۔37سینیٹ کے ممبران کا تقرر اعلیٰ اشرافیہ سے کیا جاتا جو اپنی ساری زندگی فوج کے اعلیٰ عہدوں پر گزارتے تھے۔کسانوں، ہنر مندوں اور معاشرے کے نچلے درجات سے تعلق رکھنے والے افراد کو کسی قسم کے سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔38 ہر سال اسمبلی سے 5نگران چنے جاتے تھے جو حکومت کا انتظام چلاتے تھے ۔اصل اقتدار انہیں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس ایوان میں عوامی معاملات پر گفتگو کی اجازت نہیں تھی اورایک عام شہری جو اسمبلی کا ممبر نہیں ہوتا تھا مجسٹریٹ کی خصوصی اجازت کے بغیر بات نہیں کر سکتا تھا۔39

بظاہر دلکش نظر آنے والا یہ نظام حقیقت میں ایک ظالمانہ و جابرانہ اور سماجی تناظر میں ایک غیر منصفانہ نظام تھا جو انسانوں کے جذبات و احساسات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے مکینیکل روبوٹس کی طرح برتاوٴ کرتا تھا۔ عام شہریوں کےلیے ہر طرح کے احکامات کی بجا آوری ضروری تھی چاہے وہ ان کی شخصی آزادی سے کتنے ہی متصادم کیوں نہ ہوں۔

مقدونیا کا عروج

مقدونیا (Macedonia)میں مختلف نسلوں کے لوگ آباد تھے جو یونانی زبان بولتے اور یونانی خداوٴں پر یقین رکھتے تھے۔ 400 قبل مسیح سے پہلے مقدونیا کی کوئی خاص سیاسی اہمیت نہیں تھی اور اس کا اہم حوالہ یونانی دنیا کو ٹمبر کی لکڑی اور چاندی فراہم کرنا تھا۔359 قبل مسیح میں فلپ دوئم(Phillip-II) یہاں کا بادشاہ بنا جس کے دور میں مقدونیا یونان کی اہم قوت بن کر ابھرا۔40فلپ (Phillip)نے نظام حکومت اور افواج دونوں کو منظم کیا۔اس نے اپنی پیادہ افواج کو مشکل اور تنگ جگہ پر منظم انداز سے لڑنا سکھایا نیز گھڑ سوار دستوں کی ابتدا کی اور انہیں پیادہ افواج کے ساتھ مل کر لڑنے کی تربیت دی۔41

فلپ دوئم (Phillip-II) نے سپاہ کی تعداد 10,000سے بڑھا کر 24,000کردی ، جبکہ گھڑ سوار سپاہیوں کی تعداد 600 سے بڑھا کر 3500 کر دی جو کہ سب کے سب پیشہ ور سپاہی تھے۔اس نے ہتھیار بنانے کےلیے مھندسوں کو فوج میں شامل کیا جن کا کام منجنیقیں اور دشمن پر حملہ کرنے کےلیے ستون بنانا تھا۔فوجیوں کو وردی دی گئی او ربادشاہ سے وفا داری کا حلف بھی لیا گیا۔42 357 قبل مسیح میں فلپ (Phillip) نے اپنے عہدِ حکومت کے دوسرے سال شمالی ایجئین (Aegean) کے شہر ایمفی پولیس (Amphipolis) پر قبضہ کر لیا جو کہ ایتھنز(Athens) کی کالونی ہونے کے ساتھ ساتھ سونے اور چاندی کی کانوں کا مرکز بھی تھا۔ایتھنز کی حکومت نے اپنی ریاست سے اتنی دور جنگ شروع کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ ان کانوں سے سالانہ ایک ہزار ٹیلنٹ(یونان میں رائج کرنسی) کے قریب آمدنی ہونے لگی ۔ فلپ (Phillip) نے 357قبل مسیح میں اپائرس (Epirus)کے علاقے کی ایک عالی نسب عورت اولمپیس (Olympias) سے شادی کر لی جس سے سکندر (Alexander) پیدا ہوا۔ فلپ (Phillip) نے جلد ہی یونان کے بڑے علاقے پر اپنا اثرورسوخ قائم کر لیا۔اس نے چالسایئدیوں کےپایہ تخت (Chalcidic Capital)اولیئن تھوس (Olynthos)کا محاصرہ کر لیا۔ ایتھنز نے فلپ (Phillip) کے خلاف اعلان جنگ کردیا مگر اولیئن تھوس کی مدد کےلیے سپاہ نہیں بھیجی۔مقدونیوں نے اولیئن تھوس (Olynthos) کے شہر کو زمین بوس کردیا۔ 338 قبل مسیح میں فلپ نے ایتھنز اور تھیبیز(Theban) کی مشترکہ افواج کو شکست دے کر یونان کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔فلپ کے قتل کے بعد اس کے بیٹے سکندر نے اس کے جنگی منصوبوں کو آگے بڑھایا تھا۔43

یونانی ریاستیں اپنے اپنے قوانین کے مطابق نظام حکومت چلاتی رہیں جن میں مختلف نوعیتوں کی کمزوریاں تھیں۔ان ریاستوں میں کبھی دیرپا اتحاد نہیں ہو سکا اور نہ ہی کوئی مشترکہ سیاسی نظام وضع ہو سکا۔ 44 امیرو غریب میں جنگ تقریبا 3 صدیوں تک جاری رہی۔بہت سے شہری قتل اور جلا وطن کردیے گئے۔ جلا وطن ہونے والے اکثر واپس نہ لوٹ پاتے تھے۔ خاندان سکڑنے لگے اور مردوں میں شادی اور بچوں کی پرورش کا رجحان کم ہونے لگا نتیجتا شہروں کی آبادی کم ہونے لگی یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آ گیا کہ شہروں کی حفاظت کےلیے لوگ کم پڑنے لگے۔45197 قبل مسیح میں سلطنت روم نے یونان پر حملہ کر دیا اور مقدونیا کے حکمران فلپ کو شکست دی۔رومی افواج اور بحری جہاز تباہ کردیے گئے اور بادشاہ کو گرفتار کر لیا گیا۔یونانی تب بھی متحد نہ ہوئے اور اپنے اختلافات برقرار رکھے۔رومیوں کو وہاں کی عوام نے اپنا نجات دہندہ سمجھا اور ان کی راہ میں پھول برسا کر شاندار طریقے سے ان کا استقبال کیا۔ 147 قبل مسیح میں ڈیموکریٹک پارٹی نے روم کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں رومیوں نے مردوں کا قتل عام کیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا تھا۔46

یونانیوں کی رومیوں کے ہاتھوں شکست کی وجہ یونانیوں کی افواج کا کمزور ہو نا نہیں تھا بلکہ آپس کی جنگیں ، تقسیم اور اپنے ہی لوگوں پر روا رکھا جانے والا ظلم و ستم تھا جس نے انہیں کھوکھلا کر دیا تھا۔حکمرانوں کے ظلم وستم کی وجہ سے عوام کے دل سے ان کی وفا داری ختم ہو گئی تھی اور انہوں نے اپنے حکمرانوں کے خلاف بیرونی حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا۔ عوام ایسا حکمران چاہتی تھی جو ان کا خیال کرے نہ کہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے۔اسی لیے ملوکیت سے لے کرجمہوریت تک یونان میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہیں اور کوئی بھی نظام دیرپا نتائج مرتب نہ کر سکا ۔ اگر حکمرانوں نے اپنی آسائشات اور تعیشات اور ذاتی فوائد پر توجہ دینے کی بجائے کسانوں، محنت کشوں اور غریب طبقے کے لوگوں کا تھوڑا سا بھی خیال کیا ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔آرنلڈ ہیرن (Arnold Heeran)کی یہ بات یقینی حد تک درست ہے کہ تقدیر کسی بھی قوم کو دھوکہ نہیں دیتی یہاں تک کہ وہ قوم خود اپنے آپ کو فریب نہ دے۔47

 


  • 1 تمام مردوں یا پھر عوام کو شریک اقتدار اور حکومت میں حصہ دار سمجھنا تاریخ کا سب سے بڑا فکری و نظریاتی دھوکہ ہے کیونکہ دنیا کی ہر جمہوری حکومت کے منتخب نمائندے صرف ووٹ لینے اور اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے کی حد تک عوام اور ان کی رائے (vote) کو اہم سمجھتے ہیں لیکن منتخب ہوجانے کے بعد صدر، وزیراعظم، وزراء اور اراکین پارلیمان خود کو ہر قانون سے بالاتر اور عوام کی پکڑ سے دور سمجھتے ہیں ۔ اس نظام میں عوام جو کچھ اپنے ان نمائندوں سے چاہتے ہیں یہ نمائندے اس کے بالکل برعکس کرتے ہیں جس کے لئے کوئی عوامی تائید و حمایت کسی بھی درجے میں موجود نہیں ہوتی مثلا عوام مہنگائی کو کبھی اور کسی بھی شکل میں پسند نہیں کرتے لیکن یہ عوامی نمائندے مسلسل ان پر مختلف حیلوں بہانوں سے مہنگائی کا عذاب مختلف شکلوں میں اتارتے رہتے ہیں۔ عوام اپنے بنیادی مسائل روٹی، کپڑا مکان، صحت اور تعلیم کے لئے احتجاج اور مظاہرے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن ان عوامی نمائندوں کو یہ ساری باتیں نہایت فضول اور انتہائی غیر ضروری لگتی ہیں۔ عوام اپنی جان و مال کا تحفظ چاہتے ہیں لیکن یہ عوامی نمائندے پورے ملک کی سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف اور صرف اپنے اور اپنے بچوں کے تحفظ کے لئے لگائے رکھتے ہیں ۔ عوام فوری انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن عوامی نمائندوں اور پارلیمان کا بنایا ہوا نظام عدل و قانون فوری انصاف صرف اپنے اور اپنے پیاروں کے لئے ہی فراہم کرنے کے قائل ہوتے ہیں۔ رہی عوام اور ووٹر ، تو ان کے لئے علامتی عدالتی نظام موجود ہوتا ہے جہاں ہر شخص اپنی مالی استطاعت کے مطابق انصاف خرید سکتا ہے۔
  • 2 John M. Hall (1908), Greek Life: An Account of Past and Contemporary Conditions and Practices, Bay View Reading Club, Michigan, USA, Pg. 120.
  • 3 Robert Guisepi (1998), A History of Ancient Greece (Online): http://history-world.org/greece%20legacy.htm: Retrieved: 31-03-2017.
  • 4 Fustel de Coulanges (1877), The Ancient City : Religion, Laws and Institutions of Greek and Rome (Translated by Williard Small) Lee and Shepard, Boston, USA, Pg.231.
  • 5 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 30.
  • 6 Fustel de Coulanges (1877), The Ancient City, Religion, Laws and Institutions of Greek and Rome (Translated by Williard Small), Lee and Shepard, Boston, USA, Pg. 314.
  • 7 Joel Dorman Steele (1883), Brief History of Greece : Reading from Promient Greek Historians, A.S Bames & Company, New York, USA, Pg.5.
  • 8 William Smith (1854), History of Greece Reading from the Earliest Times to the Roman Conquest (Revised by George W. Greene), Harper & Brothers, New York, USA, Pg.25.
  • 9 Ibid, Pg, 26.
  • 10 Joel Dorman Steele (1883), Brief History of Greece Reading from the Prominent Greek Historian s, A.S Bames & Company New York USA, Pg. 104.
  • 11 Lord Lython (1874) Athens Its Rise and Fall, George Routledge and Sons, London, U.K, Pg.94-95
  • 12 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/aristocracy: Retrieved : 31-03-2017.
  • 13 George Wills Bothford (1926), Hellenic History, The Macmillan Company, New York, USA, Pg.104
  • 14 John M. Hall (1908), Life :An Amount of Past and Contemporary Conditions and Practice Bay View Reading Club, Detroit, Michigan, USA, Pg.27.
  • 15 Michael Gagrin (2010), The Oxford Encyclopedia of Ancient Greece and Rome, Oxford University Press, Oxford, U.K, Vol.3, Pg.448.
  • 16 Basil Edward Hammod(1895), The Political Instituation of Ancient Greek, C.J, Clay and Sons, Cambridge University Press, London, U.K, Pg. 59-61.
  • 17 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/biography/Solon: Retrieved: 31-03-2017.
  • 18 William Mitford (1795), The History of Greece, T. Wright London, U.K, Vol.1, Pg.268
  • 19 Basil Edward Hannond (1895), The Political Institution of Ancient Greek C.J. Clay and Sons, Cambridge University Press, London, U.K. Pg. 59-61.
  • 20 Thomas R. Martin, An Overview of Classical Greek History from Mycenae to Alexander (Online Version): http://www.perseus.tufts.edu/hopper/text?doc=Perseus%3Atext%3A1999.04.0009%3Achapter%3D6%3Asection%3D25: Retrieved: 31-03-2017.
  • 21 William Smith (1854), History of Greece: From the Earliest Times to the Roman Conquest (Revised by George W. Greene) Harper & Brothers Publishers, New York, USA, Pg.81.
  • 22 Fustel de Coulange (1877), The Ancient City: Religion Laws and Institution of Greek and Rome (Translated by Williard Small ), Lee and Shepard, Boston, USA, Pg. 239.
  • 23 Adolf Holm (1894), The History of Greece from its Commencement to the Close of the Independence of the Greek Nation, Macmillan and Co, New York, USA, Vol. 1, Pg: 262-263.
  • 24 Alfred E. Zimmern (1911), The Greek Commonwealth Politics and Economics in Fifth Century Athens, Oxfords Clarendon Press, Oxford, U.K, Pg.122-123.
  • 25 Basil Edward Hammond (1895), The Political Institution of Ancient Greek C.J. Clay and Sons Cambridge University Press, London, U.K., Pg: 24-25.
  • 26 George Bancroft (1824), Reflection on the Politics of Ancient Greece, Cumming Hilliard & Co. Boston, USA, Pg.164.
  • 27 Athens Info Guide (Online): https//www.athensinfoguide.com/history/t2-1historical.htm Retrieved: 31-03-2017.
  • 28 Joel Dorman Steele (1883), Brief History of Greece: Reading from Prominent Greek Historians, A.S. Bames & Company .New York, USA, Pg.12.
  • 29 Charles Seignobos (1906), History of Ancient Civilization (Translated by Arthur Herbert Wilde ), Charles Scribner’s Sons, New York, US, Pg.142-143.
  • 30 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.worldhistory.org/Greek_Government/: Retrieved :27-03-2017.
  • 31 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2015), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc, New York, USA, Pg.3
  • 32 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/The_Thirty_Tyrants/: Retrieved :31-03-2017
  • 33 Andrew Wolpert (2002), Remembering Defeat : Civil War Memory in Ancient Athens, The Johns Hopkins University Press, Maryland, USA, Pg.22
  • 34 John Gillies (1827), The History of Ancient Greece: Its Colonies and Conquests, Jones & Co., London, U.K., Vol. 2, Pg: 244.
  • 35 A.Andrewes (1956), The Greek Tyrant, Hutchinson's University Library. London. U.K, Pg.66..
  • 36 Basil Edward Hammond (1895), The Political Institution of Ancient Greeks, C.J. Clay and Sons, Cambridge University Press, London, U.K., Pg.44-45.
  • 37 Joel Dorman Steele (1883), Brief History of Greece: Reading from Prominent Greek Historians, A.S Bames & Company. New York, USA, Pg.8.
  • 38 Sparta: Government and Classes (Online): https://www.pbs.org/empires/thegreeks/background/8b.html#:~:text=Because%20the%20helots%20were%20constantly, helot%20suspected%20of%20encouraging%20subversion.: Retrieved: 27-03-20.
  • 39 Joel Dorman Steele (1883), Brief History of Greece Reading from Promient Greek Historians, A.S Bames & Company, New York, USA, Pg. 8
  • 40 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc, New York, USA, Pg.11-12..
  • 41 H.G Wells (1922), A Short History of the World, Penguin Books, London, U.K., Pg.99-102.
  • 42 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Philip_II_of_Macedon/: Retrieved:01-04-2017
  • 43 David Sacks (2005), Encyclopedia of the Ancient Greek World (Revised by Lisa R. Brody).Facts on File Inc, New York, USA, Pg.282-283.
  • 44 Arnold H. L. Heeren (1824), Politics of Ancient Greece (Translated by George Bancroft), Cunning Hilliard & Co, Boston, USA, Pg.344..
  • 45 Charles Seigobos (1906), History of Ancient Civilization (Translated by Arthur Herbert Wilde) Charles Scriber’s Sons, New York, USA, Pg.192..
  • 46 Charles Seignobos (1906), History of Ancient Civilization (Translated by Arthur Herbert Wilde), Charles Scriber’s Sons, New York, Pg.193-195.
  • 47 Arnold H. L. Heeren (1824), Politics of Ancient Greece (Translated by George Bancroft), Cummings Hilliard & Co., Boston, USA, Pg. 350.