تعلیم سے مراد وہ رسمی اور غیر رسمی طریقے ہیں جن سےکسی قوم کا علم، ثقافت،تہذیب، تمدن، نظریات، عادات و اطوار ، معاشرت،تجربہ اور طرز زندگی وغیرہ، شعوری اور لا شعوری طور پر، ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیے جاتے ہیں۔ دنیائے علم میں اہل یونان کا اپنے وقت میں کوئی ثانی نہ تھا۔فلسفہ،منطق، ریاضی، ہیئت، جغرافیہ،سیاست،صنعت، تجارت، فنونِ تعمیر،زراعت، ادب،تاریخ نویسی اور ان جیسے دیگر بہت سےعلوم کی ابتداء کے متعلق جب بھی کوئی تاریخ کے اوراق ٹٹول کردیکھتا ہے تو اسے ان کی ابتداء کرنے اور ترقی دینے والے لوگوں میں یونان کے اہلِ علم نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔سقراط(Socrate) ، افلاطون (Plato)، ارسطو(Aristotle)، فیثاغورث (Pythogoras)، طالیس(Thales)،ہیراکلیتس(Heraclitus)، اناکساغورث(Anaxagoras)، اقلیدس (Euclid) جیسی شخصیات کی بدولت عہد یونان انسانی تاریخ کادنیاوی اعتبار سے ایک درخشاں باب ہے لیکن یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ تمام شخصیات اپنی ذاتی زندگیوں کے حوالے سے نہ صرف ادھوری تھیں بلکہ ایسی شخصی کمزوریوں کا بھی شکار تھیں جنکی وجہ سے ان سے صرف جزوی فیض ہی حاصل کیا جاسکتا تھا کیونکہ کسی بھی قوم یا شخص کو مقتدیٰ بنانے کے لیے اس کا ذاتی کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو ان تمام شخصیات میں تقریباً ایک جیسا یعنی نقائص عیوب سے بھرا ہوا تھا۔دوسری اہم بات یہ تھی کہ ان میں سے اکثر نے اپنے علم کی بنیاد صرف عقلی دلائل اور حواس کے علم پر رکھی جو علم کا حتمی ذریعہ نہیں ہو سکتے اور نہ ہی حقیقتِ مطلقہ تک رسائی دلا سکتے ہیں۔
عہدِ عروج میں یونان کی متعدد ریاستوں میں علم و دانش کے چرچے بڑھے اور تہذیبی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تھا۔ علم و فن کے اہم مراکز نے خوب ترقی کی تھی۔ مثلاً سیلیوک (Seleucus)کی سلطنت کا دار الحکومت انطیو (Antioch) اوربطلیموسی مصر(Ptolemaic Egypt) کادار الخلافہ اسکندریہ (Alexandria)علم کے اہم مراکز کے طور پر سامنے آئے تھے۔اسکندریہ میں ایک شاندار علمی ادارے کی بنیاد قائم ہوئی جس نے آگے چل کراس شہرکو عالمگیر شہرت بخشی تھی۔ یونانی عہدنے دنیا کوممتاز ریاضی داں، ہیئت داں، علم جغرافیہ اور دیگر علوم کے ماہرین دیے جن میں اقلیدس(Euclid)،ایراٹوستھینز (Eratosthenes)، ارشمیدس (Archimedes) اور ہپارکس (Hipparchus) قابل ذکر ہیں۔ اس دور میں یونانی زبان بحیرۂ روم کے پورے مشرقی ساحل کی بین الاقوامی زبان بن چکی تھی۔ معاشی اور تہذیبی شعبوںمیں عہدِ یونانی کی ریاستوں کی ان تمام کامیابیوں نے بحیرۂ روم کے گرد کی تمام ریاستوں کے اتحاد کے لیے راہ ہموار کردی تھی۔ 1
اہل یونان جہاز سازی، دھاتوں سے مختلف اشیاء بنانے کے فن، عظیم الشان عمارتیں بنانے، مجسمہ سازی، فلسفہ، شاعری، قصہ گوئی اور کئی دیگر فنون میں ماہر تھے جو انہوں نے نسل در نسل آگے منتقل بھی کیے تھے۔ 2 آج کی ترقی یافتہ دنیا کے بہت سے علوم کی عمارت یونانی اساس پر ہی قائم ہے۔ یہ وہاں کا نظام تعلیم ہی تھا جس نے اہل یونان کے دلوں میں علم و فن کی لگن اوران میں مہارت کی جستجوپیدا کی تھی۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اہلِ علم مادہ پرست تھے نیز ان کی فکر اور فلسفے میں بنیادی غلطیاں موجود تھیں۔کہیں نفس پرستی اور ذاتی خواہشات غالب تھیں تو کہیں حواس اور عقل کے محدود علم نے انکی فکر اور فلسفے کو ایک ایسا گورکھ دھندہ بنا دیا تھا جسے کہیں کہیں تو وہ خود بھی سمجھنے سے قاصرنظر آتے ہیں۔خالق و مالک کی رضا کے حصول کے بجائے انسان کی خواہشات و تخیلات و افکار کو مقصد بنا کر تہذیبِ یونان کی علمی اساس گمراہی کا شکار ہوئی اسی وجہ سے ان کا فلسفہ اور کلام عالمی آفاقی عملی نتائج مرتب کرنے سے قاصر رہا۔
تاریخی ریکارڈ سے شواہد ملتے ہیں کہ 600قبل مسیح میں یونان کے زیادہ تر مرد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔اس کی بنیادی وجہ تجارت کے سلسلے میں پڑھنے لکھنے کی ضرورت خیال کی جاتی ہے۔3 یونان میں تعلیم اور تعلیمی نظام کو دو واضح ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ فارس کے ساتھ جنگوں اور فلسفے کے عروج سے ماقبل دور میں تعلیم عملی زندگی کی تیاری سمجھی جاتی تھی جبکہ بعد کے ادوار میں تعلیم مکالماتی زندگی(Dialogic Life) کی تیاری کا ذریعہ سمجھی جانے لگی تھی۔ یونان کے ثقافتی دور(Hellenistic Period) میں بھی دوسرا رجحان غالب رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل یونان کی عملی زندگی اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی اسی وجہ سے حصول تعلیم کا مقصد بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدل گیا تھا۔4
پال مونرؤے(Paul Monroe) یونانی تعلیم و تعلّم کو دو ادوار میں تقسیم کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ادوار کی تقسیم ہمیں یونان کی سماجی، اخلاقی، ادبی اور فلسفیانہ تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظریات اور عوامل کو سمجھنے اور بیان کرنے میں مدد یتی ہے۔تاریخی دور کے عہدِ جدید میں سپارٹا(Sparta)اور ایتھنز(Athens) یونانی علم وحکمت کے دو اہم سرچشمے تھے جہاں سے یونانیوں کے نئے عہد میں اخلاقی و مذہبی تعلیم کو فروغ ملا اورفلسفیانہ افکار کی نمو ہوئی، جس سے تعلیم و تعلّم میں بھی کئی نئے طریقوں اور جہتوں کو فروغ ملا تھا۔5
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام سے کافی پہلے ہی یونانیوں نے اپنے نو جوانوں کی تعلیم پر توجہ دیناشروع کر دی تھی۔یونانی تاریخی ورثہ میں دوسری شہری ریاستوں کے مقابلے میں ایتھنز (Athens)کے تعلیمی نظام کے بارے میں زیادہ معلومات محفوظ ہیں۔تیسری صدی قبل مسیح تک کا ایتھنز (Athens)یونانی علم وحکمت اور فلسفے کا مرکز بن چکا تھا۔یہاں کا تعلیمی نظام اتنا موٴثر اور قابل عمل سمجھا جاتا تھا کہ آنے والے عہد میں ایتھنز(Athens) کے تعلیمی نظام کے اصولوں کو دیگر ریاستوں نے بھی مشعل راہ بنایا تھا۔
پانچویں صدی قبل مسیح میں ایتھنز (Athens)کی تعلیم ایک سخت قسم کی تربیت پر مشتمل ہوتی تھی ۔اس تعلیمی عمل میں دو طرح کی تربیت شامل ہوتی تھی جس کی وجہ سے ان کے تعلیمی نظام میں ذہن و کردار کی تربیت اور نشوونماکے ساتھ جسمانی تربیت پر بھی زور دیا جاتا تھا۔ لکھنا، پڑھنا، ریاضی،گانا اور موسیقی نصاب تعلیم میں شامل تھے۔6یونان کے اہم تعلیمی مراکز ایتھنز (Athens)اور سپارٹا (Sparta)میں قائم تھے اور ہر ایک کی الگ الگ ترجیحات ، مقاصد اور طریق ہائے تعلیم تھے۔مگرتمام شہری ریاستوں کی تعلیم کا ایک مشترکہ مقصد ایسے شہری تیار کرنا تھا جو امن و جنگ دونوں طرح کے حالات میں بہترین طریقے سے معاشرے اور قوم کی خدمت کر سکیں۔ان کے نزدیک ایک صحت مند جسم میں ہی ایک بہترین ذہن تیار کیاجا سکتا تھا۔اہل یونان کے نزدیک تعلیم کا مقصد صرف صحت مند جسم کی تیاری نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شخصیت میں مکمل توازن پیدا کرنے پر بھی زور دیا جاتا تھا۔
ایتھنز (Athens)میں تمام افرادکو ایک ہی جیسے سانچے میں ڈھال کر ، جذبات اور خوشیوں سے محروم رکھ کر صرف جسمانی مشقوں تک محدود رکھنے والے تعلیمی نظام کا تصور موجود نہ تھا۔ بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری والدین پر تھی جس کے اصول واضح تھے۔ ہر بچے کو جسمانی تربیت اور موسیقی کی تعلیم دینا لازمی تھا۔7
فریڈریک(Frederick) نے ایتھنز (Athens)کی درس گاہوں کے مندرجہ ذیل پہلو ذکر کیے ہیں:
اس سے واضح طور پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہاں کی تعلیم تکنیکی حوالے سے انتہائی ناقص تھی ۔ثانیاً وہ دی بھی صرف ان مخصوص افراد کوجاتی تھی جو معاشی طور پر اس کے حصول کی استطاعت رکھتے تھے البتہ انہوں نے تعلیم و تربیت کے خاص مراکز کا قیام کیا تھا جن میں بھی بعض اوقات بچوں کے ساتھ نازیبا حرکات کی شکایات موصول ہوتیں رہتی تھیں۔
عہد قدیم کی یونانی درس گاہوں میں طلباء کو پڑھنا لکھنا اور ریاضی کا فن سکھایا جاتا تھا۔ مغربی دنیا کے سب سے اوّلین اسکول کا ذکر ہیروڈوٹس (Herodotus)کے ہاں ملتا ہے۔ اس نے چیئوس (Chios) کے جزیرے پر 494قبل مسیح میں ایک درس گاہ کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔اس کے علاوہ 500قبل مسیح کے دور کے ایک مرتبان پر موجود درس گاہ کی تصویر بھی عہد قدیم کی یونانی درسگاہوں کے متعلق اب تک ملنے والا قدیم ترین ثبوت ہے۔درسگاہیں نجی نوعیت کے ادارے تھے جہاں تعلیم دینے کی اجرت (Tution Fee) وصول کی جاتی تھی۔ریاست کی طرف سے تعلیم کےلیےادارے موجودنہیں تھے اور نہ ہی اس سلسلے میں واضح قانون سازی موجود تھی۔لڑکیوں کی درس گاہیں الگ تھیں مگر لڑکیو ں کو تعلیم دلانے کا رجحا ن لڑکوں کی بہ نسبت کم تھا9 جسکی وجہ اتالیق اور اساتذہ کی بدکاریاں بیان کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے معصوم بچیوں کی عزت و آبرو کو خطرہ رہتا تھا۔
محفوظ شدہ تاریخی ریکارڈ میں اس دور کی درسگاہوں کی عمارتوں اور ساز و سامان کے بارے میں واضح تذکرہ نہیں ملتا ہے۔یہ واضح نہیں کہ درس گاہیں تعلیمی مقاصد کے لیے بنائی گئی خاص عمارتوں میں قائم تھیں یا کرائے پر لی گئی نجی عمارتوں میں؟ ہیروڈوٹس (Herodotus)نےبھی اس حوالے سے واضح تذکرہ نہیں کیا ہے۔ تھوسی ڈائڈذ (Thucydides) نے بھی ایک اسکول کا تذکرہ کیا ہے مگر عمارت کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں دی ہے۔تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ اس دور میں درسگاہوں کی تعداد 60 سے لے کر 120کے درمیان تھی۔مگر یہ واضح نہیں کہ درسگاہوں کی یہ تعداد صرف ایتھنز (Athens)میں ہی تھی یا پورے یونان میں تھی، نیز یہ واضح نہیں کہ ان اسکولوں میں کتنے اساتذہ تعلیم دے رہے تھے۔ درسگاہوں میں موجود سامان کی بھی وضاحت نہیں ہے۔استاد کے لیےکرسی اور طلباء کے لیے تپائیوں کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ ان اسکولوں میں میزیں نہیں ہوتی تھیں ۔طلباء اپنے گھٹنوں پر تختیاں رکھ کر لکھا کرتے تھے۔روشنائی اور دوات درسگاہ کی طرف سے فراہم کیے جاتے تھے۔10
اہل یونان ابتدائی عمر سے ہی بچے کاخیال رکھتے تھے۔اس کے کپڑوں اور صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔بچوں کی خوشی اور چاہت کو مد نظر رکھا جاتا تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی دی جاتی تھی۔ مائیں اور انّائیں7 سال کی عمر تک بچے کی تعلیم کی مضبوط بنیاد رکھ دیتی تھیں۔ وہ انہیں نظمیں اور روایتی کہانیاں سناتی تھیں جن میں جانور وں اور پرندوں کا ذکر بھی ہو تا اورقبیلے اور قوم کے بہادر اور نامور افراد کی کہانیاں بھی ہوتیں تھیں۔ ان کہانیوں میں اکثرافسانوی کرداروں کا تذکرہ بھی ہوتاتھا جو اخلاق و کردار اور بہادری کا نمونہ ہوتے تھے۔ ان کہانیوں اور نظموں کے ذریعے بچے کو کم عمری سے ہی غیر شعوری طور پر اعلیٰ اخلاق، قبائلی روایات، جرأت و بہادری اور اولوالعزمی کا درس دیا جاتا تھا۔ساتھ ہی ساتھ ان کہانیوں سے بچے کے ذہن کی شاعرانہ اور ادبی صلاحیتوں کی نمو بھی ہوتی تھی۔ شاعری اور ڈرامہ نگاری کی صلاحیتوں میں عوامی تھیٹر اورمختلف مواقع پر منعقد ہونے والے تہوار مزید نکھار پیدا کردیتے تھے۔ کریٹ(Crete) میں بھی 14سال کی عمر تک بچے کو گھر پر ہی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی، اس کے علاوہ لکھنے پڑھنے سے زیادہ موسیقی پر بھی زور دیا جاتا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ قانون ، مذہب،تاریخ ،معاشیات اور سماجیات وغیرہ پر بحث مباحثہ عام تھا۔11 موسیقی کی تعلیم پیشہ ورانہ مقاصد کے لیے نہیں بلکہ اپنے اندرونی جذبات اور روح کی تسکین کے لئے دی جاتی تھی۔12
اہل یونان کے ہاں پڑھنا سکھانے کے لیے پہلے بچے کو حروف یاد کرائے جاتے پھر ان کی آواز نکالنا، اس کے بعد ان کے جوڑ اور پھران سے تشکیل پانے کا طریقہ سکھایا جاتا تھا۔ڈا ئیونیسی(Dionysius)لکھتا ہے کہ پہلےطلباء کو حرف سکھائے جاتے تھے پھر ان کی شکلیں، ان کے استعمالات، الفاظ کے مختلف حصّے،ان کی خاصیتیں،ان کے تلفظ،مختلف الفاظ کا جوڑ اور ان کے نشیب و فراز سکھائے جاتے تھے۔اس کے بعد کلام کے مختلف حصّے، ان کی خاصیتیں ، ان کا استعمال اور انشاء کے دیگر قواعد وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ ریاضی کے مختلف قواعد اور اصول بھی سکھائے جاتے تھے۔ اس طرح آہستہ آہستہ طلباء پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جاتے تھے۔ اس عمل کے دوران استاد لکھتا تھا جبکہ شاگرد اس کو دیکھ کر نقل کرتے تھے۔ مٹی کی پکی ہوئی تختیاں بھی استعمال کی جاتی تھیں جن پر حروف اور ان سے بننے والے الفاظ نقش ہوتے تھے۔الفاظ کے تلفظ، ادائیگی، لب ولہجے کے اتار چڑھاوٴ اور تاثرات کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔الفاظ اور جملوں کے آہنگ اور تال کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ان کے نزدیک قواعد کے مطابق الفاظ کی ادائیگی بہت اہمیت رکھتی تھی اس لیے ابتدا سے ہی اس کا خیال رکھا جاتا تھا۔لکھنے کے لیےلکڑی کی تختیاں استعمال کی جاتیں جن پر موم لگایا جاتا تھا۔ان پر تحریر کے لیےخاص انداز کے نوکیلے آلات یا کندہ کار(Stylus or Graver) استعمال کیے جاتے تھے۔یہ تختیاں عموماً دو لوحی(Diptychs) اور سہ لوحی(Triptychs) ہوا کرتی تھیں۔لکھائی کو سیدھا رکھنے کے لیے رولر سے لائنیں لگانے کا رواج بھی عام تھا۔افلاطون(Plato) کے خیال میں اچھی لکھائی پر زیادہ توجہ اور وقت صرف کرنا ضروری نہیں تھا بلکہ صرف صحیح لکھنا آنا کافی تھا۔بڑی عمر میں پہنچ کر طلباء پپائرس (Papyrus) یا چرمی کاغذ (Parchment) پر لکھا کرتے تھے۔ان کی قیمت کافی زیادہ ہونے کی وجہ سے پتوں پر بھی مشق کی جاتی تھی۔ افلاطون (Plato)اورارسطو (Aristotle) نے اسکول میں جیومیٹری کی تعلیم کو بہت ضروری قرار دیا تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے اختتام تک جیو میٹری تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہو چکی تھی۔13
عموماً 14سال کی عمر تک پڑھنے لکھنے کی تعلیم مکمل ہو جاتی تھی۔لگ بھگ 475 قبل مسیح تک یہ دستور رہا کہ طلباء اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی مرضی کے مالک ہوتے تھے۔ امیرزادے زیادہ تر کھیلوں کی طرف راغب رہتے جبکہ غریب زیادہ ترتجارت میں مشغول ہو جاتے تھے۔مگر بعد میں پیراکلیین عہد(Periclean Age) میں دانشورانہ تعلیم(Intellectual Study)کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اسکول کی تعلیم اور ریاست کی طرف سے عسکری تربیت کے لیے بلائے جانے کے درمیان جو 4 سال کا وقفہ تھا اس میں ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سےبہت ذوق و شوق پایا گیا تھا۔ یہ تعلیم باقاعدہ اداروں میں اساتذہ سے حاصل نہیں کی جاتی تھی بلکہ صرف فلسفے اور مناظرے کے خاص معلمین ہی،جنہیں سوفسطائی (Sophists) کہا جاتا تھا،ثانوی تعلیم دیتے تھے۔ سوفسطائی (Sophists) کی اس اصطلاح میں اکثر ریاضی اور فلکیات کے ماہرین کو شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ ثانوی تعلیم میں طلباء اپنی مرضی سےجو مضامین پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے تھے۔اس حوالے سے چوتھی صدی قبل مسیح میں افلاطون(Plato) اور بعد میں ارسطو(Aristotle) کی درسگاہوں اور اینٹی شینز (Antisthenes)کےمدرسین نے طلباء کو اپنی طرف زیادہ راغب کیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ آئیسوکریٹز (Isocrates) کی سیاسیات کی تعلیم کا بھی شہرہ تھا۔ طلباء کو تعلیم کے معاملے میں ہرممکن حد تک مدد فراہم کی جاتی تھی تاکہ وہ عملی طور پر تعلیم کو سمجھ سکیں۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قانو ن کے طلباء کو مقدمات کی سماعت دکھانے کے لیےعدالتوں میں لے جایا جاتا تاکہ انہیں عملی طور پر قانونی طریقہ کار کا اندازہ ہو سکے۔14
ایتھنز(Athens) میں عورتوں کی ذمہ داریاں گھریلو نوعیت کہ ہوتی تھیں۔ان کے شوہر اکثر سفر میں رہتے تھے جبکہ بیٹے صرف 7سال کی عمر تک ان کی سرپرستی میں رہتے تھے۔ عموما لڑکیوں کی شادی جلدی کردی جاتی تھی۔ لڑکیاں گھریلو امور میں ماہر ہوتی تھیں۔گھر میں ان کی تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری شوہر کی ہوتی تھی۔ وہ ان کو جیسے چاہتے ڈھال سکتے تھے۔ عورتوں کی تعلیم کے لیے باقاعدہ ادارے نہیں تھے تاہم سپارٹا(Sparta) میں عورتوں کی تعلیم پر توجہ دی جاتی تھی مگر وہ اسے پیشہ ورانہ مقاصد یا مالی فائدہ کے لیے استعمال نہیں کر سکتی تھیں۔ سپارٹا میں عورتوں کو مردوں کی طرح برہنہ جسمانی مشقوں کی بھی اجازت تھی۔ وہ کھیلوں میں بھی حصہ لے سکتی تھیں جو کہ باقی یونان میں ممکن نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر عورتیں صحت مند ہوں گی تو ان کی اولاد بھی صحت مند ہو گی اور ان کے بیٹے اچھے جنگجوثابت ہوں گے۔15 اس کے مقابلے میں پائتھاگورئو(Pythagoreio) کی شہری ریاست میں لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی اور انہیں ریاضی اور موسیقی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ کافی عورتوں نے یونان کی شہری ریاستوں میں اہم مقام حاصل کیا مگر ان کا ذکر تاریخ میں زیادہ تفصیل سے موجود نہیں ہے۔16
قدیم یونان میں عورتوں کو برہنہ حالت میں جسمانی مشقوں اور کھیلوں میں شرکت کی اجازت دینے سے معاشرے میں اخلاقی مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ دن بدن اخلاقی پستی میں اضا فہ ہوتا گیا ۔ خواتین کی جسمانی مشق کے لیےالگ جگہ مختص کی جاسکتی تھی نیز جسمانی مشق کے لیےبرہنہ ہونا لازمی بھی نہیں تھا،لباس پہن کر بھی یہ کام باآسانی کیا جاسکتا تھا لیکن اہل یونان جو کچھ کر رہے تھےوہ ان کے فلسفہ زندگی کا لازمی نتیجہ تھا جس میں صحیح اور غلط اور خیر و شر کا پیمانہ کسی خارجی حقیقت پر مبنی ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ خود ان کے وضع کردہ سیرت، اخلاق و کردار کے پیمانہ تھے جن کی بنیاد پر وہ ہر طرح کے فیصلے کرنے میں خود مختار تھے ۔ اس طرح کے طرزِ عمل نے حیا اوراخلاق کا جنازہ نکال دیا اور خالقِ کائنات نے عورت کو جو عزت و وقار اور عفت و عصمت کی چادر عطا فرمائی تھی اس کی حفاظت نہیں ہو پائی ۔ یونانی اس بات کو شاید نہیں جانتے تھے کہ شیطان نے انسان کا لباس اتروا کر ہی انہیں حق کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی تھی ۔ حیاء اور بے لباسی شیطان کا سب سے قدیم ، آزمودہ اور پسندیدہ ہتھیا ر ہے۔ اپنے آپ کو اہلِ علم و دانش سمجھنے والوں کو آج شرم و حیاء کے معاشرتی پہلو پر بھی بہت زیادہ توجہ دینےکی ضرورت ہے تاکہ خلق خدا کو شیطان کے فریب سے بچا سکیں۔اپنے آپ کو ترقی یافتہ خیال کرنے والے بہت سے معاشروں میں عورتوں کو اظہارِ رائے ، فطرتی طرزِ زندگی ، فیشن اور دیگر عوامل کے نام پر اکسا کر ، ان کا لباس کم سے کم کر کے ، انہیں منڈی (Market)میں ترغیبا ت اور مال کی تشہیر کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔اسی طرح مزدورں اور انسانی سرمائے کی رسد میں اضافے کے لیے عورتوں کو بھی ملازمت کرنے اور خود مختار ہونے کا لالچ دیا گیا جس کا بھرپور فائدہ توسرمایہ داروں نے اٹھایا تاہم عورت ظلم وستم کی چکی میں پستی رہی اور ساتھ ساتھ خاندانی نظام کی بھی اینٹ سے اینٹ بج گئی یوں عورت نوکری، پیشہ ورانہ زندگی ،خاندانی ذمہ داریوں ، اولاد کی پرورش اور شوہر کے حقوق کے دائروں میں ا س طرح پھنس کر رہ گئی اور اپنی عفت و پاکیزگی، معصومیت ، حیا،فطرتِ سلیمہ، جمالیاتی حس، ذوقِ سلیم اور ذہنی و قلبی سکون سب کچھ گنوا بیٹھی جیسا کہ خود قدیم یونان میں بھی دیکھا گیا اور آج کی جدید دنیا میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔
یونانی جامعات فلسفہ اور علم البیان کی درسگاہوں کی ترقی یافتہ شکل تھیں۔یونان کی بے شمار درسگاہوں میں سےدو درسگاہیں بہت اہم ہیں جنہیں جامعہ کا اعزاز دیا گیا تھا۔ان میں سے ایک ایتھنز(Athens) کی جامعہ(University of Athens) تھی جوفی الحقیقت تین درسگاہوں کا مجموعہ تھی۔ ان درسگاہوں میں ارسطو(Aristotle) کی درسگاہ ِمشائیت (The Peripatetic School)، افلاطون (Plato) کی درسگاہ دی اکیڈمی(The Academy) اور زینو(Zeno) کا مکتب ِ رواقیت (Stoicism) شامل تھے۔ اس جامعہ کے رئیس کا تقرر ایتھنز(Athens) کی ایوان ِ حکومت کرتی تھی۔ طلباء کو فلسفہ کے ان تین مکاتب کے ساتھ ساتھ علم البیان اور علم الکلام کے دروس بھی لینا ہوتے تھے۔ بہت سے طلباء باہر کےدور دراز علاقوں سے تعلیم حاصل کرنے یہاں آتے تھے۔
عیسائیت کے ابتدائی دور میں اسکندریہ نے علم و دانش کے مرکز کے طور پر ایتھنز(Athens) کی جگہ لے لی تھی۔ بطلیموس (Ptolemies) کے بقول سکندر(Alexander) اس شہر کو یونانی علم وحکمت، قوت اور اثر و رسوخ کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔ اس جامعہ کے ساتھ یہاں دار الکتب(Library) اور عجائب گھر(Museum) بھی تھا۔اہل علم یہاں حکومتی اخراجات پر قیام کرتے، غذائی ضروریات پوری کرتے اور علم کی پیاس بجھاتے تھے۔یہاں یونانی،مصری، یہودی اور مشرقی کتب اور مخطوطات کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ صرف اسی جامعہ میں ہی نہیں بلکہ اعلی ٰ تعلیم کے تمام اداروں میں ارسطو (Aristotle)اور دیگر فلاسفہ کی کتب موجود رہتی تھیں نیز ارسطو(Aristotle) کے طریقہءِ تحقیق کو بھی اپنایا گیا تھا۔ اس جامعہ نے کئی نابغہ روزگار شخصیات کو جنم دیا تھا۔بطلیموس (Ptolemies)کا نظریہءِ کائنات بھی یہیں تشکیل پایاِ تھا۔ارشمیدس (Archimedes)نے یہیں تحقیق کی اور طبیعیات کے اہم اصول دریافت کیے تھے۔ اقلیدس (Euclid) نے علم الہندسہ کی بنیادبھی یہیں رکھی تھی اور یہیں یونان کے مشہور فلسفیوں کے فلسفےاورنظریات کی شروحات لکھی گئیں تھیں۔17
یونان میں پیشہ ورانہ تعلیم پر بھی توجہ دی جاتی تھی۔طب، تدریس اور وکالت کی تعلیم پیشہ ورانہ مہارت کے طور پربھی لی جاتی تھی۔ بقراط(Hippocrates) نے طب کو ایک اہم فن قرار دیا اور اس کی تعلیم کو بہت ضروری قرار دیا تھا۔تاہم افلاطون (Plato) نے اطباء کو باقی اہل فن کی طرح شمار کیا ہے اور باورچی ، کسان، موچی یا جہاز کے کپتان کی طرح ہی قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں یونانی علاج صرف امیروں کی دسترس میں تھا جبکہ غریب اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ تعلیم و تدریس بھی ایک اہم پیشہ تصور کیا جاتا تھا اور اسے بھی علم طب کی طرح ایک اچھےاستاد کے ساتھ رہ کر، اس کی نقل کرکے اور مشق کرکے سیکھا جاتا تھا۔ اعلیٰ تدریسی قابلیت کے لیے مشہور تعلیمی اداروں میں پیشہ ورانہ شاگردی (Apprenticeship) اختیار کی جاتی تھی جن میں افلاطون(Plato) اور آئسوکرٹیز (Isocrates)کے ادارے زیادہ شہرت رکھتے تھے۔ہر مکتبہ فکر کے تدریس کے الگ الگ فنی طریقے تھے جو وہ اپنے نو آموز اساتذہ کواور طلباء کو سکھاتے تھے۔
وکالت کا پیشہ یہاں روم کی طرح مقبول نہیں تھا کیونکہ یونانی قانون کے مطابق وکیل عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا تھا۔وکیل صرف اپنے مؤکلین کےلیے نکات اور تقاریر لکھ کر دیتے تھے۔ ان وکلاء کولوگوگرافس (Logographos) کہا جاتا تھا۔اس پیشےکے لیے قانون اور انسانی نفسیات کا علم ہو نا ضروری تھا۔اس پیشے کی تربیت تعلیمی اداروں اور تجربہ کار وکلاء کے ساتھ رہ کر لی جاتی تھی۔ عدالت میں ہونے والی گفتگو کا خاکہ تیا ر کیا جاتا تھا اوراس خاکے میں الزامات، ان کے جوابات، ان جوابات پر ہونے والے اعتراضات اور ان اعتراضات کے جوابات شامل ہوتے تھے۔ نوجوانوں کے پاس اختیار تھا کہ وہ ان میں سے یا ان کے علاوہ کوئی پیشہ چن لیں۔ تقریبًا تمام ہی نوجوان تعلیم کے اس تجربے سے گزرتے تھے جو اس معاشرے کے نظام کا لازمی جزء تھا۔18
یونانیوں کے قدیم تعلیمی نظام نے مختلف شعبوں میں بہت ترقی کی ، لیکن یہ بہت سے پہلوؤں سے نامکمل اور غیر منصفانہ تھا کیونکہ یہ صرف ان لوگوں کے لیے قابل رسائی تھا جو معاشی طور پر اس کے متحمل تھے۔ تعلیم ہمیشہ سے ہی بنیادی ضرورت رہی ہے جس کو بیشتر قدیم اور جدید معاشروں میں عام آدمی کی رسائی سے دور رکھا گیا ہے ۔تعلیم کو مادی فوائد سے جوڑ دیاگیا جسکی وجہ سےصرف وہی لوگ تعلیم حاصل کرسکتے تھے جو دولت مند تھے۔ اسی وجہ سے عدم مساوات پھیلنا شروع ہوگئی اور امیر مزید امیر ہونے لگے جبکہ غریب ،غریب تر ہوتا چلاگیا۔ مزید یہ کہ یہ تعلیمی نظام اخلاقی تعلیمات سے بالکل عاری تھا اور قدیم اور جدید معاشروں میں وحشت و خون خواری پھیلانے کے حوالے سے ایک اہم عنصر بنارہا۔اس نظام ِ تعلیم نے ایسا معاشرہ تخلیق کیا جہاں نہ ہی چھوٹے بڑوں کا احترام کرتے تھے اورنہ ہی بزرگ بچوں سے شفقت و محبت سے پیش آتے تھے۔ اخلاقیات کو اس حد تک تباہ کردیا گیا تھا کہ یہ عام سی بات سمجھی جانے لگی کہ لڑکا اور لڑکی اپنی حدود و قیود کا خیال بالکل نہ رکھیں ۔ ہم جنس پرستی جیسے غیر فطری رجحان کو نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ اس کی تعریف کی جاتی تھی۔ اس نظام ِ تعلیم نے ترقی اور روشن خیالی کے نام پر معاشرے کو سیرت و کردار کے اندھیروں میں دھکیل دیاتھا ۔
عسکری فنون، فلسفہ، ریاضی اور جسمانی ورزش ہر شہری ریاست کے تعلیمی نظام کا لازمی حصہ تھی مگر ان کی تعلیمی ترجیحات، ان کی ضروریات ، جغرافیائی حالات اور دیگر عوامل کے تحت بدلتی رہتی تھیں۔ جن افراد کے پاس اچھی تعلیم اور اچھا ہنر ہوتا ان کی آمدنی بھی دوسروں سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ تعلیم کو صرف مادی فائدے سے جوڑ دینے اور اخلاقیات کے تقاضوں کو یکسرنظرا نداز کر دینے سے یونانی تہذیب میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں تھیں۔ آوارگی اور بے حیائی نے معاشرے کے نظام کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا تھا۔ نفس پرستی، خواہش پرستی، عیش پرستی اور ہوس پرستی نے افراد کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور وہ عظیم خواص جو ایک قوم کو عظیم بناتے ہیں ایک ایک کرکے رخصت ہو چلے اور یوں گزرتے وقت کے ساتھ وہ عظیم تہذیب جو اقوام عالم کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتی تھی حقائق و نتائج کے منہ زور تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے کی سکت سے عاری ہوگئی اور بالآخر چادرمعدومیت اوڑھ کر دنیاوی منظر سے غائب ہوگئی۔
یونانی تہذیب میں شعراء کی حیثیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ یونان کی زیادہ ترتاریخ ہومر(Homer) کی لکھی ہوئی نظموں پرمشتمل ہے۔ اس لیے اگر کہا جائے کہ یونانی تاریخ کا مآخذ ہومر(Homer) کی زرمیہ نظمیں ہیں تو غلط نہ ہوگا۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یونانی شعراء فنون لطیفہ اور ادب میں ماہر تھے ۔19 ہومر کی نظموں میں دیوتاؤں کو انسانوں کی مانند لڑتا جھگڑتا ، دھوکے باز ، مکار، سفاک اور بدکار دکھایا گیا ہے جو ہر وقت جنگ و جدل اور سازشوں میں مشغول رہتے تھے ۔وہ ضیافتیں اڑانے، کھیل کود اور موسیقی کے رسیا تھے۔وہ مے نوشی کرتے، غل غپاڑہ کرتے اور اپنے خدمت گزاروں پر شورو غوغا کرتے تھے۔ ہومر (Homer)کے انسانی سورماؤں کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔دھوکہ دہی،قتل و غارت گری، اولاد کی دیوتاؤں کے سامنے قربانی، بھائی کی بیوی سے ناجائز تعلقات ، بیوی کے عاشق کے ہاتھوں شوہر کے قتل اور دشمن کو دھوکے سے اس کے ہی بیٹوں کا گوشت کھلانےجیسے گھناؤنےجرائم ان نظموں میں جا بجا نظر آتے ہیں۔20
ہومر (Homer) کی نظموں کے نوجوان اذہان پر پڑنےوالے منفی اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ افلاطون (Plato) نے ہومر (Homer) کی نظموں کو اپنی خیالی ریاست میں ممنوع قرار دیا تھا۔اس کی پہلی وجہ ان نظموں میں دیوتاوں کا ایسا چہرہ پیش کیا گیاتھا جو بدی کے طرزِ عمل سے معمور تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ نظمیں بزدل بناتی تھیں اور دل میں موت کا خوف پیدا کرتی تھیں۔تیسری وجہ یہ تھی کہ ان میں ہوس پرستی،پرتعیش زندگی اور غیرسنجیدگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔21 افلاطون (Plato) کے خیالات کے برعکس یونانی معاشرے میں ہومر (Homer) کی نظموں کا شہرہ تھا اور نوجوان انہیں یاد کرتے اور سینے سے لگائے پھرتے تھے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یونانی ادب، کس طرح نوجوانوں کے ذہن پر اثر انداز ہوتا اور انہیں اچھے برے ، صحیح اور غلط اور حق و باطل کی تمیز سے غافل کر دیتا تھا اوروہ دانستہ و غیر دانستہ طور پر وہ تخریبی سرگرمیوں اور غیر فطری رویوں کی جانب مائل ہو جاتے تھے نتیجتاً معاشرے کی فکری اور اخلاقی اساس دیمک زدہ ہوتی جا رہی تھی جس میں شاعری اور ادب کا بڑا گہرا ہاتھ تھا۔
یونانی ڈرامہ نویسوں میں تین نام خاص شہرت رکھتے تھے۔ جنہوں نے حزنیہ ڈراموں کو عروج تک پہنچادیا تھا۔ ان کے نام ایس کائلس(Aeschylus)،سفوکولیس(Sophocles)اور یوری پڈیز(Euripides)ہیں۔یونانی ڈراموں میں مذہبی عناصر کو اہمیت حاصل رہی اور اس میں کورس (مشترکہ گیت)کے انداز میں گائے جانے والے نغمے اور مکالمے شامل کیے جاتے تھے۔ رقص اور گیتوں کو کورس (مشترکہ گیت)کے انداز میں بہتر سے بہتر طور پر پیش کیا جاتاتھا،مکالموں کو ادا کرنے کے لیے اداکاروں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی، ڈرامہ کھیلنے کے لیے باقاعدہ تھیڑبنائےگئے تھے۔تھیٹر(Theater) کےبیچ میں اسٹیج بنایا جاتا اور اس کے چاروں طرف دائرےکی شکل میں بیٹھنےکے لیے نشستیں بنائی جاتی تھیں۔ پچھلی سیڑھی اگلی سیڑھی سے نسبتاً اونچی رکھی جاتی تھی تاکہ پیچھے بیٹھنے والوں کو اسٹیج بالکل واضح نظر آسکے۔ 22
ڈرامے کا آغاز شراب کے دیوتا کی تعریف میں گیت گانے سے کیا جاتا تھا۔ ہر سال شراب کے دیوتا کے مندر میں گیت گانے والوں کی ایک ٹولی جمع ہوتی تھی اورہر شخص باری باری گیت گاتا تھا۔ گانے والوں کی جماعت اداکاروں سے الگ ہوتی تھی۔ ہر ایکٹ (Act)کے اختتام پر کورس (مشترکہ گیت) کی صورت میں نغمہ گایا جاتا تھا۔ یونانی تہذیب کی عکاسی اس کے ڈراموں سے ہوتی ہے ۔ حزنیہ اور فرحیہ مکالمات اور مناظرکے پردوں میں لپٹی ہوئی زندگی کبھی روشن ہو جاتی ہے اور کبھی مدھم۔ ایس کائلس(Aeschylus)رحم اور خوف کے جذبات ابھارتا تھا تو سفوکولیس(Sophocles) دنیا سے علیحدگی کی طرف لے جاتا تھا۔یوری پڈیز (Euripides)عدل و انصاف کے لیے پکارتا تھا تو ارستوفینس (Aristophanes)ذہنی فرحت کا سامان بہم پہنچاتا تھا۔23
یہ بھی حقیقت ہے کہ یو نانی ڈراموں میں شامل وحشت انگیزی اور جنسی آوارگی جیسے عناصر نے ناظرین کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کیے تھے۔ مثال کے طور پر یوری پڈیز (Euripides)کے ڈرامے بیکی (Bacchae)میں باکسی پجاریوں کا کورس (مشترکہ گیت) شاعری اور وحشت کا ایسا اتصال کیا گیا تھا جو متانت کے قطعی خلاف تھا۔وہ ایک جنگلی جانور کے ایک ایک عضو کو الگ الگ چیر پھاڑ کر کے اور اسی وقت اسے کچا کھا کرخوشی مناتے تھے۔24 افلاطون (Plato) بھی ڈراموں میں کام کرنے والے ادارکاروں کو اچھا نہیں سمجھتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ برے لوگوں کی نقل کرنا انتہائی گھٹیا کام ہے اس لیے اگر ڈرامہ بنانا ہی ہے تو اس میں صرف ہیروز کے کردار رکھیں اورمنفی کردار نہ دکھائیں۔یونان میں عورتوں کے ڈرامے میں شامل ہونے پر پابندی تھی اس لیے ان کے کردار بھی مرد ادا کرتے تھے۔ 25
جوان کارلوس(Juan Carlos) کے مطابق لفظ فلسفہ کا لفظی معنی " عقل وفہم سے محبت" ہے۔ یونانی زبان میں فلسفہ کے لیے استعمال ہونے والا لفظ فلاسفیہ دراصل دو الفاظ کا مجموعہ ہے، پہلا لفظ’’فیلیا‘‘ہے جس سے مراد محبت ہے اور دوسرا لفظ’’سوفیا‘‘ہے جس کے معنی عقل و فہم کے ہیں۔ 26تاہم یونانی فلسفیوں میں سے اکثر نے صرف محدود عقل اور حسی تجربات کے پیمانوں سے اس لامحدود کائنات کو ناپنے کی کوشش کی اور ناکام ہوکر مصوّرِ کائنات کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھے جواس زمان و مکاں کے حساب وکتاب اور ادراک کے ان مادّی و حسّی پیمانوں سے بالا اور پاک ہے۔تاہم اہل یونان کی فلسفیانہ روش کو بعد میں آنے والے بہت سے فلسفیوں نے اپنایا اسی لیےبے تحاشہ خامیوں کے باوجود ان کا فلسفہ باقی رہا۔
یونانی فلسفیوں نے مختلف فلسفوں کو رواج دیااور بہت سےلوگوں نے انہی کواپنی زندگی کا نصب العین بھی قراردیا۔ان کے فلسفیانہ افکار کی چندمثالیں ذیل میں مذکور ہیں:
ان فلسفوں میں ایک رواقیت یا سٹوئس ازم(Stoicism) تھا، جسے زینو (Zeno)نے جنم دیا ۔ اس فلسفہ کے اصولوں میں سے چند یہ تھے کہ خدا انسان کی طرح جسم رکھتا ہے(استغفر اللہ) ۔ ہر رنج و راحت خدا کی طرف سے ہے ۔ رنج و مصیبت کے موقع پر صبر کرنا چاہیے اور برداشت کی قوت پیدا کرنی چاہیے۔ خوشی ایک عارضی چیز ہے، اس کی پرواہ نہ ہونی چاہیے ۔ قسمت پر شاکر رہنا چاہیے۔ دنیا پر نیکی اور بدی کی طاقتیں حکمران ہیں ۔ جس طاقت کا نام خدا ہے ، وہ بدی کا خالق نہیں وغیرہ۔
دوسرا فلسفہءِ کلبیت جو اسکندر اعظم کے عہد کے مشہور فلاسفردیوجانس کلبی(Diogenes the Cynic) کا نظریہ حیات تھا اس کے مطابق خوشی سے ارادۃً کنارہ کرنے ہی کا نام نیکی تھا ۔ اس نظریہ کے مطابق انسان کو عیش و آرام، خوشی ، دولت، علم ، عزت وغیرہ سب سے نفرت کرنی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ مشقت وریاضت کی عادت ڈالنی چاہیے۔ دیو جانس کلبی(Diogenes the Cynic) نے خود اس پر پورا پورا عمل کرکے دکھایا۔ وہ گرم ریت پر لیٹتا، سردی میں برف سے ہم آغوش ہوتا، دنیا والوں سے الگ تھلگ ایک گمنام جگہ وقت گزارتا ، کسی سے بات تک کرنا پسند نہ کرتا، حتیٰ کہ اسکندر اعظم نے اس کے پاس جاکر جب اس سے پوچھا کہ آپ کی کیا خدمت انجام دوں تو اس نے بے پرواہی سے جواب دیا: ایک طرف ہٹ جاؤ!دھوپ نہ روکو ۔
ایک اور فلسفہ ایپی کیورس (Epicureanism)کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی ماہیت یہ تھی کہ انسان کی راحت نیکی اور حسنِ اخلاق پر مبنی ہے۔ یعنی جب ہم کہتے ہیں راحت نیکی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ شراب و کباب ، رقص و سرور، یا عورتوں سے اختلاط رکھا جائے۔ بلکہ سنجیدگی سے غور کرکے ان چیزوں کو حاصل کرنا ہے جو مستقل طور پر نیکی ہیں اور ساتھ ہی ان چیزوں کو چھوڑ دینا ضروری ہے جو عارضی مسرت یا عارضی کیفیت کا باعث ہیں ۔ ایپی کیورس (Epicurus)کا فلسفۂ لذّتیت کہتا ہے کہ لذّت کا حصول ہی خیر ہے اور یہی انسان کا مقصدِ حیات ہونا چاہیےلیکن وہ لذّات میں فرق کرتا ہے۔ اُس کے خیال میں نفسانی لذّات گریز پا ہوتی ہیں۔ ان میں مداومَت کرنے سے انسان اُکتاہٹ اور بے زاری کا شکار ہو جاتا ہے اس لیے دانشمندافراد ذوقی و فکری لذّات کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں جو ہمیں فنونِ لطیفہ اور تدبّر و تفکّر سے میسر آتی ہیں۔ یہ لذّات دیر پا ہوتی ہیں اور سادہ زندگی گزارنے سے میسّر آتی ہیں۔27
ہومر(Homer) کی نظم نگاری کے تقریباً 200سال بعد یونان میں نثر نگاری کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے تاریخ نویسی کی طرف توجہ دی گئی۔ یونان میں کئی مشہور تاریخ نویس پیدا ہوئے جنہوں نے تاریخ نویسی کے فن سے دنیا کو روشناس کرایا ور واقعات کو ادبی اور دلچسپ انداز میں پیش کیا۔28 ا ن کی تاریخ نہ صرف واقعات کو پیش کرتی تھی بلکہ وہ اسے دلچسپ اور تعلیمی انداز میں بیان کرتے تھے۔ یونانیوں کی تاریخ نگاری کے دو پہلو تھے، بیانیہ اور سائنسی۔ دونوں پہلوؤں میں یونانیوں نے اچھے تاریخ نگار پیدا کیے۔ تاہم کچھ تاریخ دانوں نے حقائق سے زیادہ قاری کی طبع کو نظر میں رکھا اور واقعات کو خوب بڑھا چڑھا کر دلچسپ انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی۔یہاں تک کے انہوں نے سنے سنائے قصے و افسانےبیان کیے اور شہروں اور مظاہرِفطرت کی غیر حقیقی روداد بھی اپنی کتابوں میں ڈال دی جو بعد کے ادوار میں تحقیق سے غلط ثابت ہوئی۔ ہیروڈوٹس (Herodotus) اس کی واضح مثال ہے ۔
تقریرمیں یونانی بڑےماہرتھے۔ جمہوری اسمبلی میں جہاں تمام شہری موجودہوتےتھے ہرمقرر کواپنا نقطہءِ نظر سمجھانےکےلیے تقریرکے جوہردکھانے پڑتےتھے۔29 بڑے بڑے خطیب اپنی تقریروں کو لکھ کر تیار کرتے تھے اور نثر میں خطیبانہ انداز پیدا کرتے تھے۔ پر کلیز (Pericles)نے اپنی خطابت کے زور سے ایتھنز(Athens) میں جمہوری نظام قائم کیا تھا۔
یونان کے اہلِ علم میں وقائع نگاروں کی حیثیت واہمیت بھی اپنا خاص مقام رکھتی تھی۔ جنگوں کی حکایات ہوں یا جنگجؤوں کے حادثات ہوں یا واقعات، وقائع نگار اسے سطور کی زینت بناکرتاریخ کی کتب میں محفوظ کرلیتے تھے۔ ہکاتایوس ساکن ملطہ (Hecataeus of Miletus)نے نہ صرف اناکسی ماندر(Anaximander) کے نقشے میں اضافےکیے بلکہ ایک رسالہ زمین، اس کے سمندروں، دریاؤں، پیداوار، آبادی، قصبوں، شہروں کے موضوع پر لکھا اور اس کا نام "سفرنامہ زمین"رکھا۔30
المیّہ کا آغاز یونانی تمثیل سے ہوا۔ ایس کائلس(Aeschylus)، سوفوکلیز (Sophocles)اور یوری پڈیز (Euripides)کو دُنیا کے عظیم المیّہ نگاروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ ایس کائلس(Aeschylus) کا پرومیتھیس (Prometheus)، سوفوکلیز کا ایڈپس ریکس (Oedipus Rex)اور یوری پڈیز (Euripides) کا "ٹروجن عورتیں" (Trojan Women)مشہور المیے ہیں۔ المیہ یا ٹریجیڈی کی ابتداء اُن گیتوں سے ہوئی تھی جو بیکس (Bacchus)کے پجاری اس کے تہوار پر گاتے تھے۔ یونانی المیے کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ اس میں کسی بطل ِجلیل(Superhero) کی تقدیر (یونانی اسے موئر ا31 (Moira)کہتے تھے) سے آمیزش دکھائی جاتی تھی۔ اُسے اپنے المناک انجام کا علم تھا لیکن وہ تقدیر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا بلکہ مردانہ وار جدّو جہد کرتا ہوا موت سے ہمکنار ہوتا تھا۔ اُس کی دلیرانہ کشمکش اور المناک موت سے ناظرین کے دلوں میں بقول ارسطو(Aristotle) کے رحم اور خوف کے جذبات اُبھرتے تھےجس سے اُن کے ذہن و قلب کی تنقیح ہو جاتی تھی۔یونانی المیے کا ہیرو بسا اوقات کوئی بادشاہ یا سردار ہوتا تھا۔ یُونانیوں کے بعد روم کے تمثیل نگاروں نے بھی المیے لکھے لیکن وہ یُونانی المیے کی بلندیوں تک نہ پہنچ سکے ۔32
اہلِ یونان کو فنونِ لطیفہ میں جو کمال حاصل تھا اس کا اثر آج کی دنیا پر بلا واسطہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے دوسری قوموں کو دیکھتے ہوئے اس میں قدم رکھا مگر اس فن میں مہارت نے انہیں اس کا بانی متعارف کروادیاتھا۔پروفیسر ایڈولف ہولمز (Adolf Holmes)کے بقول یونانی فنونِ لطیفہ میں مشرقی ممالک کے اثرات کی وجہ سے جوش پیدا ہوا، لیکن ساتھ ہی اس میں بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ بہت پہلے ہی فنّی اعتبار سے یونان خود استقلال پیدا کرچکا تھا جس کے بعد اس نے اپنے ہی اصولوں پر ترقی کی اور اپنے ہی اختراعی طریقوں کواستعمال کرنا شروع کیا۔ایشیائی فنونِ لطیفہ کا یونانی فنون پرجو اثر پڑا تھاوہ سب سے زیادہ ظروف سازی کے نقش و نگار سے ظاہر ہوتا ہے۔ نقّاشی جیسے اہم فن کے میدان میں ان ظروف کےعلاوہ کچھ باقی نہیں رہا۔ 33
دنیا بھر میں یونانی دواخانوں اور یونانی طبیبوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ طبی لٹریچر میں بقراط(Hippocrates) اور جالینوس(Galenus) کے نام بار بار آتے ہیں۔ یونان کے ان طبیبوں کےنام عربی طبی ادب کے ذریعے ازمنہ وسطی کی یورپی قوموں تک پہنچے۔یونانیوں کی طب میں مہارت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ طب کے میدان میں یورپی قوموں کی ترقی کا آغاز یونانی طب سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد ہی ہوا تھا۔ دنیا کی دوسری پرانی قوموں کی طرح یونانیوں نے بھی شروع میں انسانی صحت کی خرابی کو مافوق الفطرت ہستیوں کے حملے یا انسانی جسم میں ان کے دخول پر محمول کیا تھا۔ یونانیوں میں طب کا آغاز ایشیائے کوچک کی یونانی ریاستوں سے ہوا۔ اناکسی مینس(Anaximenes) امپیڈاکلیز(Empedocles)، فیثا غورث (Pythogoras)الکمایون (Alcmaeon) کی طبّی صلاحیتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بقراط(Hippocrates) (چوتھی صدی قبل مسیح ) تک پہنچتےہیں۔ بقراطی نقطہِ نظر کےحامل طبیبوں کے نزدیک انسان کی صحت کا انحصار چار عناصر آگ، پانی، ہوا اور مٹی کے متوازن رہنے پرہے۔34 کہا جاتا ہے کہ بقراط(Hippocrates) طِبّ یونانی کا بانی تھا۔آج تک بقراط(Hippocrates) کا حلف نامہ طبیبوں کے لیے مشعل ِ راہ ہے۔ بقراط(Hippocrates) نے اپنے اصولِ علاج انہیں سے اخذکیے تھے۔بعدمیں اس کے اصول علاج کوجالینوس(Galenus)نےاپنالیااوران پراضافےبھی کیے۔35
بطلیموس اول (Ptolemy-I)نے نہ صرف علم کے حالات کو منظم کرنے کی کوشش کی بلکہ اس نے اسکندریہ کے کتب خانہ میں قامو س العلوم کی طرز پر علوم کا ایک مال خانہ قائم کرنے کی سعی بھی کی۔ تاہم یہ محض ایک گودام ہی نہ تھا۔ یہ کتابوں کی فروخت اور کتابت کا ایک بڑا ادارہ تھا ۔ کاتبوں کی ایک جماعت وہاں مسلسل کتابوں کی تعداد میں اضافہ پرجتی رہتی۔ اس کتب خانہ اور عجائب گھر کا یہ ادارہ بنی نوع انسان کی تاریخ کے عظیم ابواب میں سے ایک مانا جاتا ہے ۔ یہ جدید تاریخ کا حقیقی آغاز تھا۔کاغذ کے نام پر ان کے پاس فقط پیپرس(Papyrus) کے پتے کی دھجیاں اور ٹکڑے تھے جنہیں کناروں سے آپس میں جوڑا جاتا تھا۔ ان پارچوں کو لپیٹ کر رکھا جاتا جسے بڑی بے ترتیبی سے کھولا اور لپیٹا اور پڑھا جاتا تھا ۔ اس میں حوالے کی تلاش کوئی سہل کام نہ تھا۔اسکندر یہ میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں ، لیکن یہ سستی نہیں تھیں۔ اس طور پران کتابوں کی حکمت اہلِ ثروت اور اہلِ اثر لوگوں کے طبقہ سے نیچے عوام تک کبھی نہ پہنچ سکی۔36
یونانیوں نے علم الحساب اور طبعی علوم کو بھی بہت ترقی دی۔ انہوں نے روزمرہ کی زندگی اور ضروریات کےلیے سائنس کی ایجادات کیں۔ انہوں نے مشینیں اور کل پرزے ایجاد کیے اور پانی اور ہوا کے دباؤ سے مختلف مشینیں چلائیں۔تیل نکالنے کی مشین، پتھر ڈھونے کی مشین اور بڑی مقدار میں پانی نکالنے کی مشین عام طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ دوران جنگ دشمنوں پر پتھر بھی مشین کے ذریعہ برسائے جاتے تھے۔ ان مشینوں اور کل پرزوں کی ایجادات اسی وقت ممکن تھی جب طبیعات اور علم الحساب پر کافی دسترس حاصل ہوگئی ہو۔ ان سائنس دانوں میں سب سے اہم نام ارشمیدس(Archimedes) کا ہے۔ جس نےحیرت انگیز مشینیں ایجاد کی تھیں۔
ارشمیدس(Archimedes) کا زمانہ سکندر کے بعد کا تھا۔ جب اسکندریہ(Alexandria) یونانی علوم کا مرکز بن چکا تھا اور بطلیموسی (Ptolmios) حکمرانوں نے اسکندریہ کے میوزیم کو سائنسی تحقیقات کا مرکز بنا دیا تھاتب اسکندریہ کے میوزیم میں تجربہ گاہیں اور لائبریریاں اور تحقیقاتی ضرورت کی تمام چیزیں جمع ہو گئی تھیں۔ریاضی اور جیومیٹری میں نہایت اہم کام کیے گئے اور اسکندریہ میں ہی اقلیدس(Euclid)نے جیومیٹری کے علم کو اس انتہا تک پہنچادیا کہ اب تک اس کے بنائے ہوئے نظریات اسکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔37
ریاضی کویونان کی پیداوار کہا جاتاہے۔ تھیلز(Thales)یونانی ریاضی دانوں میں اوّلین ریاضی داں ہے۔اس نے کئی خیالات مصریوں سےسیکھےلیکن خودبھی بہت اضافےکیے۔اس نے نقطہ اورلکیرکا تصوردنیاکودیا۔اس نےثابت کیاکہ قطر (Diameter) دائرہ کو دوبرابرحصوں میں تقسیم کردیتاہے۔اس نےیہ بھی ثابت کیاکہ اگردومثلثوں کےہردوزاویےاورایک ضلع آپس میں برابرہوں تو مثلث مماثل ہوں گے۔ فیثا غورث (Pythogoras)بھی ایک ماہریونانی ریاضی دان گزراہے۔اس نے بابل اورمصرمیں ریاضی کی تعلیم حاصل کی اورپھراپنےنظریےپیش کیے۔اس نے سمجھایاکہ کس طرح ایک زاویہ پرقائم مثلث اور ایک ضلع پربنایاہوامربع دوسرےدونوں ضلعوں پر بنائے ہوئے مربعوں کےبرابرہوتاہے۔اس نے طاق اورجفت عددوں کےنظریہ کو ترقی دی اوران عددوں کے علم کوموسیقی پرمنطبق کیا۔اس نےریاضی سےیہ بھی ثابت کیاکہ دنیاگول ہے۔ ارشیمیدس (Archimedes)نے ثابت کیاکہ جب ہم کوئی شےپانی میں ڈالتےہیں تووہ اپنا وزن اس قدر کھوتی ہےجس قدر وہ پانی کو ہٹا دے۔اس نے حجم کو ناپنےکےطریقےبھی ایجادکیے۔ ارسٹراشس (Aristarchus)نےثابت کیاکہ زمین سورج کے گردگھومتی ہے۔ابرخس (Hipparcus)نے مساحت(Trignometry) کےاصول بنائےاورعرض البلداورطول البلدکا حساب بھی قائم کیا۔ 38
ریاضیات اور جیومیٹری کے علاوہ جغرافیہ اور علمِ فلکیات پر بھی یونانیوں نے بہت کام کیا۔ زمین کے قطر کو ناپاگیا دنیا کا نقشہ بنایا گیا اور سمندری راستوں کو دریافت کیا گیا۔ مصرکی یونانی حکومت میں بطلیموس (Ptolemies)نے اسکندریہ میں ایک رصدگاہ (Observatory)بنوائی تھی جس میں اگرچہ کوئی دور بین وغیرہ نہیں تھی پھر بھی وہ علم فلکیات کا مرکز بن گئی تھی، ایرسٹارکس(Aristarchus)نے یہ معلوم کیا تھا کہ سورج زمین سے تقریباً 300 گنا بڑا ہے اور زمین اپنے محور میں گھومتی ہے اور سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ علم جغرافیہ میں اراتستھنز (Eratosthenes)کا نام سب سے اہم ہے جو علم ِ ہیئت میں بھی ماہر تھا۔ اس نے سورج کی شعاعوں کے عکس کی مدد سے زمین کا قطر ناپا جو 7850 میل تھا۔39
یونان کے اہلِ علم نے اپنے طور پرقدیم یونان میں علم و شعور کی روشنی پھیلانے کی کوشش کی تاہم ان میں سے اکثر کے علم کی بنیاد صرف مادی ذرائع ، حسی علم اور محدود انسانی عقل پر تھی اس لیے وہ حقیقت ِ مطلقہ تک نہ پہنچ سکے اور فلسفے، منطق اور شاعری کی وادیوں میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے ۔مثال کے طور پر ہیراکلیتس (Heraclitus)اس کائنات کا بنیادی عنصر آگ کو قرار دیتا ہے تو اناکسی مینس(Anaximenes) ہوا کو ۔جبکہ طالیس (Thales)پانی کو کائنات کا جوہرِ اول قرار دیتا ہے۔ ان میں سے اکثر کے نظریات نہ صرف گمراہ کن بلکہ مضحکہ خیز حد تک عجیب و غریب بھی تھے۔وحی الہی اور الہامی شعور و ہدایت سے دوری کی روش نےان میں سے اکثر اہلِ علم کو نفس کا غلام اور حوس کا پجاری بنا دیا تھا۔ان کے نزدیک حق و سچ کا پیمانہ خود ان کی سوچ و فکر تھی۔ جس بھی فلسفی نے جس نظریہ کو بزعم خو یش صحیح جانا اس کو ہی ”الحق“ قرار دیا اور پھر پوری زندگی اس کی ترویج و اشاعت اور تعلیم و تبلیغ میں گزاری۔ یونان کے کسی بھی فلسفی نے کبھی یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ دائیں بائیں یا دور و نزدیک میں موجود وحی الہی پر مبنی کسی دانش کی روایت کا کھوج لگائیں حالانکہ یونانی فوج قومی عصبیت کے پرچم کو سر بلند رکھنے اور دوسری اقوام کو مغلوب کرنے کے لئے نِت نئے محاظ کھولتی رہتی تھی اور یہ فلسفی بھی اکثر و بیشتر اس فوج کا حصہ ہوا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود مغلوب یا مفتوح قوم میں موجود اہل حق اور مردان خدا سے استفادہ کے بجائے ان کو تاراج کرنا ہی بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا چنانچہ یونانی اہل علم نے اپنی سوچ و فکر کی بنیاد پر اپنا تعلیمی نظام قائم ضرور کیا جس کے نتیجے میں فلسفہ و منطق اور غور وفکر کا دبستاں خوب پھلا پھولا لیکن چمن ہدایت کی آبیاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ عظیم المرتبت اور جلیل القدر انسان پیدا نہ ہوسکے جو نبی کریم ﷺ کی چند سالہ تعلیم و تربیت کے نتیجے میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام کی صورت میں رہتی دنیا تک قافلہ انسانیت کے سرخیل و رہنما کے طور پر مدتوں تک انسانوں کی قیادت و رہنمائی کا شاندار فریضہ سرانجام دیتے رہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اہلِ یونان کی لطیف ، نرالی اور دلکش جمالیاتی حس اپنی فطری خصوصیت کھو بیٹھی اور اس کی جگہ لبھانے والی امرد پرستی اور رذیل لواطت نے لے لی۔دیوتا زئیس (Zeus)جو پہلے حسین عورتوں کا دیوانہ تھا اب ایک حسین لڑکےگینیمڈ (Ganymede) کا بھی عاشق ہو گیاتھا۔وہ بہت سارے جذبات جو عورتوں اور مردوں کے درمیان جاری رہا کرتے تھے اہل ِ یونان کے ہاں مردوں کے درمیان ابھرنے لگے۔انہوں نے دوستی، قربت اور وفاداری کو وہ شکل عطا کی جو عموماً عورتوں سے محبت کے دوران رونما ہوتی ہے۔مردوں کے درمیان پیدا ہونے والے اس شیطانی پیار کے جذبے کا خالص جنسی اور جسمانی روپ بھی تھا۔ اہل ڈوریہ (Dorians) سے آنے والی ہم جنس پرستی کی واہیات پر مبنی روایت ارسطو(Aristotle) کے عہد میں پورے یونان میں پھیل گئی تھی۔40حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اہل علم، فلسفی، منطقی، دانشور اور مذہبی رہنما کہلانے والے نام نہاد صاحبان ِ فکر و دانش کی بھی اکثریت ہر اخلاقی بدی و برائی کا شکار تھی اور نہ صرف وہ اسے فطری میلان قرار دیتے تھے بلکہ اسے فخریہ بیان بھی کرتے تھے۔
یونانی فلسفی طالیس(Thales) 620 قبل مسیح کی دہائی کے دوران ایونیا (Ionia)کے شہر ملیتس (Miletus)میں پیدا ہو ا ۔ اسے سقراط(Socrate) سے پہلے کے سات دانا آدمیوں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے۔ ارسطو (Aristotle)، اِسے پہلا ایسا شخص قرار دیتا ہے جس نے مادّے کے بنیادی سر چشموں پر تحقیق کی اور یوں فطری فلسفہ کے مکتبہ کی بنیاد رکھی ۔ طالیس(Thales) اپنے نظریہ ءِکائنات کی وجہ سے مشہور تھاجس کے مطابق پانی ہر مادّے کا جو ہر ہے اور زمین ایک وسیع و عریض سمندر کی سطح پر تیرتی ہوئی چپٹی تھالی ہے۔
مؤرخ ہیر وڈوٹس(Herodotus) کے مطا بق طالیس(Thales) ایک عملی ریاست کارتھاجس نے ایجیائی خطے کے آیونیائی شہروں کی فیڈریشن بنانے کی تجویزدی۔ ایک روایت کے مطابق طالیس (Thales) نے جہاز رانوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ دُبِّ اکبر 41 کے بجائے دُبِّ اصغر سے راہنمائی لیں۔ کہا جاتا ہےکہ طالیس(Thales) نے اس سورج گرہن کی پیشں گوئی کردی تھی جس کی وجہ سے لیڈیا (Lydia)کے بادشاہ الیاتیس ( Alyattes)اور میڈیا کے بادشاہ سائیکسارس (Cyaxares)کی جنگ رُک گئی تھی۔ طالیس(Thales) کو جیو میٹری کے پانچ کلیوں کا دریافت کنندہ قراردیاگیا ہے:
طالیس(Thales) نے پانی کو اساسی جو ہر کے طور پر منتخب کیا اور علتوں کو دیوتاؤں کی بجائے فطرت کے اندرتلاش کیا۔ اُ س نے اسطورہ اور استدلال کی دنیاؤں کے درمیان پُل بنایا۔42 یوں اس نے توہم پرستی اور دیوتا ؤں کے نظام کے خلاف بات ضرورکی مگر واضح انداز میں باطل خدا ؤں کا انکار نہ کر سکا یہی وجہ ہے کہ اس نے استدلال کے ساتھ ساتھ قدیم دیو مالا اور اساطیر کو ہم آہنگ کرنے کی کو شش کی نہ کہ مطلقاً ان توہم پرستانہ روایتوں کا رد و انکار کیا۔
یونانی فلسفی اور ریاضی دان فیثا غورث (Pythogoras)جزیرہ ساموس (Samos)میں پیدا ہوا۔اس نے ابتدائی ایونیائی فلسفیوں طالیس(Thales) ، انا کسی مینڈر (Anaxi Mander) اور اناکسی مینس(Anaximenes) کی تعلیمات کا مطالعہ کیا۔تقریباً 530 قبل مسیح میں وہ جنوبی اٹلی میں ایک یونانی کالونی کروٹونا( Crotona)میں رہنے لگا اور وہاں مذہبی،سیاسی اور فلسفیانہ مقاصد رکھنے والی ایک تحریک بنا ڈالی جسےلوگ فیثا غورث اِزم(Pythogorasism) کے نام سے جانتے ہیں ۔فیثا غورث ازم کا مکتبہ تحریک کی صورت میں مختلف فلسفیوں کے ہاں فروغ پاتا رہا لہٰذا اس میں با لکل مختلف فلسفیانہ نظریات شامل ہوگئے۔
فیثا غورث(Pythogoras) نے تناسخ(Transmigration)کے عقیدے کی تعلیم دی۔ یہ انسانوں اور جانوروں کو زمین کے بچّے ہونے کے ناتے ایک جیسا خیال کرنے کے قدیم اعتقاد کی تر قی یا فتہ صورت تھی ۔ اس کی بنیاد مخصوص اقسام کی خوراک ممنوع قرار دینے پر تھی، یعنی جانوروں کے گوشت سے پرہیز ۔ اس کی اساس انسانیت پسندی یا مرتا ضانہ43 وجوہ نہیں تھیں ۔فیثا غورث (Pythogoras) کے ماننے والے دیوتاؤں کو بھینٹ کیا ہوا گوشت کھایا کرتے تھے۔ارسطو(Aristotle) کہتا ہے کہ فیثا غورث(Pythogoras) نیکی پر بحث کرنے والا پہلا شخص تھا اور اسی نے اس کی مختلف صورتوں کو اعداد کے ساتھ شناخت کرنے کی غلطی کی ۔44مذہب کی تاریخ گواہ ہے کہ ارسطو(Aristotle) کا یہ قول صراحتاً غلط تھا کہ فیثا غورث(Pythogoras) نیکی پر بحث کرنے والا پہلا شخص تھاکیونکہ اس سے پہلے ہزاروں انبیاء ِ کرامگزرے تھے جنہوں نے تفصیل کے ساتھ نیکی اور برائی کے فرق کو واضح کیا تھا تاہم جس غلطی کی طرف ارسطو(Aristotle) نے اشارہ کیا تھا یقیناً وہ اس سے صادر ہوئی تھی۔ فیثا غورث(Pythogoras) عورتوں کو جنسی لحاظ سے مردوں کے مقابلہ میں فطری طور پر زیادہ پارسا سمجھتا تھا۔ 45اس کے ساتھ ساتھ فیثا غورث (Pythogoras) فلسفے،ریاضی اور دیگر کئی علوم کا ماہر ہونےکے باوجود انسان کے اعلیٰ و ارفع مقام کو نہ پہچان سکا اور ہندوستان کے بت پرستوں کی طرح تناسخ(Transmigration) کے عقیدے کا قائل ہو گیاتھا۔اس کے نزدیک احسن تقویم انسان کی حیثیت ایک جانور سے زیادہ نہ تھی اسی لیے وہ انسانوں اور جانوروں کی جبلتوں میں فرق نہ کر پایا حالانکہ اللہ عزوجل نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر خاص ذمہ داریاں سونپی ہیں جن کا شعور صرف الہامی علم سے ہی ممکن ہے۔
سولن(Solon) قوانین تشکیل دینے والے سات عقل مند انسانوں میں سے ایک اہم شخص اور ایتھینی جمہوریت (Athenian Democracy) کا بانی سمجھا جاتا تھا۔اس کا شمار اس دورکے باخبر اور عقل مند انسانوں میں کیا جاتا تھا۔46سولن (Solon)کو قوانین مدوّن کرنے اوران میں ترامیم کر کے بہتری لانے کےلیے مقرر کیا گیا تھا۔ اس کو سونپے گئے اختیارات میں کسی قسم کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی تھی ۔ ریاست کے تمام امور جن میں میجسٹریٹی، عوامی اجلاس، عدالت اور شوریٰ شامل تھی،اسےمرتب کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کے سپرد تھی۔ اس کو جائیداد اور ملکیت کی حد بندی مقرر کرنے، معاملات کے تعیّن کے لیے متعدد مجالس ترتیب دینے یا موجودہ کمیٹی کو تحلیل کرنےکے مکمل اختیارات حاصل تھے ۔سب سے پہلے سولن(Solon) نے ان تمام ظالمانہ قوانین کو منسوخ کردیا جو درشتگی و سفاکی اور بے تحاشا بھاری سزاؤں پر مشتمل تھے ، صرف ان سزاؤں کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا جو آدم کشی سے متعلق ہوا کرتیں تھیں۔ 47
سولن(Solon) نے نئے قوانین درختوں کے تنوں پر تحریر کیے تھے، بعد ازاں انہیں پتھروں کو تراش کر اُن پرکندہ کیا گیا تھا۔یہ تمام موجودہ اور بعد میں مرتب کردہ قوانین اگلے 200 سالوں تک سولن(Solon) کے ساتھ ہی منسوب رہے اور اس کی شہرت نامورقانون دان کے طور پر رہی۔ سولن(Solon) نے قوانین کو جس شکل میں ترتیب دیا تھا بعد ازاں ایتھینز کے لوگوں (Athenians) نے متفرق معاملات جیسے وراثت، جنازہ، بدکاری، چوری اور چھینا جھپٹی، ہرجانہ، اور متحرک سیاسی اداروں کے حوالے سے قوانین مرتب کرکے اس کا دائرہ کار وسیع کیا اور ساری تعریف اپنے حصہ میں سمیٹ لی۔ سولن کے تجارتی معاملات کی بہتری سے متعلق قوانین نے معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔48تاہم سولن کے قوانین کی بنیاد چونکہ محض عقل انسانی، تجربات، مشاہدات اور نظائر پر تھی اس لیے وہ انسانیت کو ایک جامع نظام فراہم نہ کر سکے۔ان میں بار بار تبدیلیاں ہوتیں رہیں اور چند صدیوں میں ہی ان میں سے اکثر قوانین پر عمل ترک کر دیا گیا۔سولن (Solon)کے قوانین میں ایسی کوئی خوبی نہیں جو انہیں غیر متبدل آفاقی قوانین کا مرتبہ دے سکے۔نیز سولن کے (Solon)قوانین خود اسی کے ذاتی مشاہدے، جرم و سزا کی انسانی نفسیات کے محدود مطالعے پر مشتمل تھے اس لیے ان کی خامیاں بارہا عیاں ہوتیں رہیں جنہیں دور کرنے کے لیے اس دور کے نام نہاد قانونی ماہرین کو ان میں ترامیم کرنا پڑتیں تھیں یوں یہ قوانین ایک تماشہ بن کر رہ گئے۔
مادیت پسند اور جدلیاتی طریقہء کار اپنانے والا یونانی فلسفی ہیراکلیتس (Heraclitus) ایشیائے کو چک میں ایک قدیم یونانی شہرایفیسس(Ephesus) میں تقریبا 585 قبل مسیح میں پیدا ہوا تھا۔ ہیراکلیتس(Heraclitus) کی ما بعد الطبیعاتی خیال آرائیوں کی بنیاد ایک طبعی تھیوری (Physical theory)پر تھی۔ وہ ایک ہی جملے میں اپنی تکوینیات کے اصول بیان کردیتا ہے:
"This world order, the same for all, no god made or any man, but it always was and is and will be an ever-living fire, kindling by measure and going out by measure"49
یہ نظام عالم جو ہر کسی کے لیے یکساں ہےکسی خدا یا انسان کا تخلیق شدہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی آگ کی مانند ہےجو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ جلتی رہے گی۔
ہیراکلیتس (Heraclitus)کے بقول یہ نظام دنیا کسی دیوتا اور نہ ہی کسی انسان نے تخلیق کیا،لیکن یہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا"۔یہاں اس نے پہلی مرتبہ لفظ کوسموس(Cosmos)استعمال کیا جس سے نظام دنیا مراد تھا۔اس بارے میں کچھ اختلافِ رائے پایا جاتا ہے کہ آیا ہیراکلیتس (Heraclitus)ایک فطری فلسفی تھایا انسانی حالت پر سوچ بچارکرنے والا فلسفی ۔ در حقیقت وہ فطرت اور انسانی حالت کے نظریات کو باہم مربوط سمجھتا تھا۔ ہیراکلیتس (Heraclitus)نے دیگریونانی فلسفیوں کی نسبت زیادہ گہرائی میں جاکر فلسفہِ فطرت کا مطالعہ کیا ۔ اس نے پہلی بار فلسفہ میں انسانی اقدار کو مرکزِ بحث بنایا۔ اس کا تشبیہاتی انداز اور عمومی سچائیوں پر تحقیق کرنے کاطریقہ بے مثال تھا۔ افلاطون(Plato) نے حسیاتی دنیا کو ہیراکلیتس (Heraclitus)کے پیش کردہ نظریہ ءِبہاؤ کی روشنی میں ہی دیکھا۔ رواقیوں(Stoics) نے ہیراکلیتس (Heraclitus)کے طبعی اصولوں کو اپنے نظریات کی بنیاد بنایا تھا۔50 ہیراکلیتس (Heraclitus) کا کردارہر دل عزیز نہ تھا تاہم وہ نفرت کا سخت عادی تھا اور جمہوریت کا مخالف تھا۔اس نے آگ کو اس کائنات کا جوہرِ اول قرار دیا۔وہ ٹیٹامس (Teutamus)کےعلاوہ کسی کو پسند نہیں کرتا تھا اور وہ فیثاغورث کو شرارتی اور بے وقوف سمجھتا تھا۔اسے عوام سے نفرت تھی اور اس کا یہ خیال تھا کہ صرف ڈنڈے کے زور سے ہی انہیں راہِ راست پر رکھا جا سکتا ہے۔وہ جنگ کو سب سے اعلیٰ شے تصورکرتا تھا۔اس کی اخلاقیات متکبرانہ رہبانیت کی تھی اوروہ جذبات سے نفرت کرتا تھا۔ 51
ہیراکلیتس(Heraclitus) وحیِ الہی سے دوری کی وجہ سے یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ دنیا (Cosmos) ایک عظیم ذات کی تخلیق کردہ ہے جو قادرِ مطلق ہے۔ صرف اسی کی ذات مطلق، ازلی و ابدی ہے۔اس دنیا (Cosmos) کو ازلی و ابدی (Eternal)اور مطلق (Absolute)سمجھنا اس کی ایک بہت بڑی غلطی تھی جس نے اسے حق شناسی سے دور رکھا اور یوں وہ مخلوق کو’’ہمیشہ سے اور ہمیشہ رہنے والی‘‘سمجھ کر خالق کے وجودکا ہی انکار کربیٹھا۔ خالق اور مخلوق کی صفات میں فرق اور مخلوق کی صفات کی حدود کو سمجھانا ہی تمام انبیاءِ کرام کا مشن رہا جسےسمجھنے سے ہیرا کلیتس (Heraclitus) یکسر ناکام رہا تھا ۔
سقراط(Socrate) مجسمہ ساز سوفرونیکس(Sophronicus) اور دائی فئیناریٹ(Phaenarete)کے گھر469/470 قبل مسیح میں پیدا ہوا تھا۔موسیقی، جمناسٹک، اور گرامر کے فنون جو اس دور میں عام طور پرنوجوان یونانی بچوں کو سکھائے جاتے تھے،ان کی تعلیم سقراط (Socrate) نے اپنے بچپن ہی میں حاصل کرلی تھی۔بعد ازاں اس نے بطور مجسمہ ساز اپنے والد کا پیشہ اختیار کرلیا تھا۔ روایات کے مطابق سقراط(Socrate) نہایت باصلاحیت ماہر فن تھا۔ سقراط(Socrate)کے تعمیر کیے ہوئے گریسس کے مجسمہ(Statue of the Graces) کی فنکاری کو دوسری صدی عیسوی تک بہت سراہا گیا۔ سقراط(Socrate) نے فوج میں امتیازی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کی تھیں اور پوتیدیا (Potidaea)کے معرکہ میں جنرل السیبیادس (General Alcibiades)کی جان بچائی تھی۔جب سقراط (Socrate) اپنی عمر کے متوسط حصہ میں پہنچ گیا تو اس کے دوست چئیریفون(Chaerephon) نے قدیم یونانی شہر ڈیلفی (Delphi)کے معروف کاہن سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا بھی شخص موجود ہے جو سقراط(Socrate) سے زیادہ عقل مند ہو، جس کے جواب میں کا ہن نے کہا کہ "نہیں"۔سقراط(Socrate) کاہن کے اس جواب سے بہت گھبرا گیا اور اسے غلط ثابت کرنے کے لیے سقراط(Socrate) نے ان لوگوں سے سوالات کرنا شروع کردئے جو اپنی دانست میں خود کو بہت عقل مند سمجھا کرتے تھے اور دیگر لوگ بھی ان کی عقل مندی کے قائل تھے۔ اس کو یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ جو افراد اپنی عقل مندی اور دانائی کے حوالے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے ان میں ان چیزوں کی بہت کمی تھی، جبکہ وہ افراد جو بظاہر کم حیثیت رکھنے والے اور عام لوگ تھے ان کی عقل و فراست شہرت پانے والے لوگوں سے کافی زیادہ تھی۔ ایتھنز (Athens)کے نوجوان سقراط(Socrate) کو بازاروں میں بڑوں سے سوالات کرتا دیکھ کر بہت محظوظ ہوتے تھے۔
اس کی تعلیمات اور واقعات سے متعلق مثالوں کی وجہ سے جوانوں کی کافی تعداد اسے ماننے لگی تھی اور انہوں نے اپنی سابقہ بنیادی تعلیمات اور جذبات جن کو یونانیوں کی علمی بنیاد تصور کیا جاتا تھا ، چھوڑ کو سقراط (Socrate)کے فلسفہ کو قبول کرلیاتھا۔ان افراد میں اینٹی شینز (Antisthenes) بھی شامل تھا جو کلبیت کا بانی تھا۔اس کے علاوہ ارسطفوس(Aristippus) بھی ان میں شامل تھا جس کی تحریروں نے رواقی مکتبہءِ فکر(Stoicism)کے بانی زینو (Zenu)کو بہت متاثر کیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر فلسفیوں کے مقابلے میں زیادہ شہرت کا حامل مشہور فلسفی افلاطون (Plato) بھی اس کے شاگردوں میں شامل تھا۔ افلاطون (Plato) کے بارے میں تعریفی کلمات ہمیں سقراط(Socrate) کے ملفوظات میں بھی ملے ہیں ۔ قدیم مصنفین کے مطابق فلسفیوں کے تمام بڑے مکتبہء فکر سقراط(Socrate) کی موت کے بعد اس کے کسی نہ کسی شاگرد سے شروع ہوئے۔ ان مکتبہء فکر کے مابین جداگانگی سقراط(Socrate) کی افکار و نظریات کے وسیع اثرات اور اس کی تعلیمات کی مختلف تاویلات و تشریحات کو ظاہر کرتی ہے۔ سقراط(Socrate) کی تعلیمات کا اہم پہلو لوگوں کی توجہ طبعی سائنس سے ہٹانا اور عقلی دلائل اور تحقیق کا رخ اخلاقیات و بھلائی کی طرف کرنا تھا۔ 99 قبل مسیح میں میلیٹوس (Meletus)نامی شاعر، اینیٹس(Anytus) نامی سیاست دان اور لیکون (Lycon) نامی ایک خطیب نے سقراط(Socrate) پر فسق اور لادینیت کا الزام لگا دیا جس کی بنیاد پر سقراط(Socrate) کو موت کی سزا دی گئی تھی۔ سقراط(Socrate) کے آخری ایام کی روداد افلاطون (Plato) کے ملفوظات یوتھیفرو (Euthyphro)، اپولوجی(Apology)، کریٹو(Crito) اور فئیڈو(Phaedo) میں درج ہے۔سقراط(Socrate) کی موت کا منظر ایک تصویری خاکہ میں بھی دکھایا گیا ہے۔سقراط(Socrate) کو موت کی سزا کے طور پر زہریلی شیکران پلائی گئی جبکہ اس کے دوست چاروں طرف موجود تھے۔ 52
یونانی فلسفی اور شاعر بارامانیاس(Parmenides)515اور510قبل مسیح کے درمیان زیریں اٹلی میں ایلیا (Elea)کے مقام پر ایک اعلیٰ گھرانے میں پیدا ہوا۔ وہ ایلیا ٹک(Eleatic)فلسفہ کا سر کردہ نمائندہ تھا ۔عام طور پر اسے ژینوفینز (Xenophanes)کا شاگرد بتایا جاتا ہے۔ بارامانیاس (Parmenides) 65برس کی عمر میں کسی سفر کے دوران ایتھنز (Athens)میں ٹھہرا اور وہاں جوان سقراط(Socrate) کا واقف بنا۔ بارامانیاس (Parmenides)نے پرانی ایوینائی نثری روایت (Ionian Prose Tradition)سے انحراف کرتے ہوئے بحرِمسدس میں لکھا۔ اس کی نا صحانہ نظم(فطرت کے بارے میں)کے محض کچھ ٹکڑے ہی ہم تک پہنچے ہیں۔ البتہ ابتدائی وعظ محفوظ رہا۔ بارامانیاس(Parmenides) نے یہ نظم اپنے عہد جوانی میں لکھی۔ اِس تحریر کو غیر آرٹسٹک خیال کیا جاتا ہے ۔ بارامانیاس (Parmenides) نے کہا کہ موجودات، ان کی متغیر صورتیں اور حرکت محض واحد ابدی حقیقت (وجود)کا ظاہری روپ ہیں۔ لہٰذا تبدیلی یا لاوجود کے تمام دعوے غیر منطقی ہیں۔ درحقیقت وہ ایک ہستیٴ مطلق کو مانتا تھا جس کی عدم موجودگی قابل تصور نہیں تھی۔ حسیاتی شہادت پربارامانیاس (Parmenindes)کے عدم یقین اور قیاسی علم کی بہت زیادہ قدر افزائی نے اس کی تعلیمات میں عینیت اور حتیٰ کہ استدلالیت کا ایک عنصر متعارف کروایا، جبکہ ترقی (حرکت) سے انکار نے اسےقدیم یونانی مابعد الطبیعات کا بانی بنا دیا لہٰذا وہ مادّیت اور عینیت دونوں قسم کے نظام ہائے فکر کو متاثر کرنے کا باعث بناتھا۔53
افلاطون،قدیم یونانی فلسفی سقراط(Socrate) کا شاگرد، ارسطو(Aristotle) کا استاد اور مدارس کا بانی تھاجو کہ باختلاف روات428قبل مسیح سے 423قبل مسیح کے درمیان میں پیدا ہوا ۔وہ فلسفیانہ ادب کےبے نظیر اثرات مرتب کرنے والے شخص کے طور پر مشہور تھا۔ افلاطون (Plato) نے اہل یونان کی توجہ اس امر کی طرف دلائی کہ وہ انصاف، خوبصورتی اور برابری میں مکمل طور پر ربط قائم نہ کر سکے جن کو فارمز(Theory of Forms) کہا جاتا تھا۔ دیگر فلسفی اور بذات خود افلاطون (Plato) نےاپنے مختلف متون میں بغیر کسی مقررہ فنی طاقت کے ان اصطلاحات کو ذکر کیا تھا۔ الٰہیات میں افلاطون (Plato) نے مرحلہ وار تصوراتی مفہوم بیان کیا، فارمز (Forms)اور اس کے متعلقہ تصورات کو ترتیب دینے کے معقول طریقے وضع کیے اور ان کی شروعات انہیں تصورات کے بنیادی اہم اصول جیسے اچھائی اور وحدت سے کی تھی۔
اخلاقیات اور بہتر رویوں سے متعلق فلسفہ میں افلاطون (Plato) نے یہ تصور پیش کیا کہ سقراط (Socrate) نے بہتر اور اچھی زندگی کے حصول کے لیے خاص قسم کی معلومات حاصل کرنے کا جو تصور پیش کیا تھا صرف وہ تصور ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک صحت مند اور تندرست جسمانی رد عمل کی عادت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اسی لیے افلاطون (Plato) کے نزدیک روح کےتین جزئیات معقولیت، جذبہ اورمیلان کے مابین ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ افلاطون (Plato) کے متون میں جمالیات، دینیات، تکوینیات، علمیات، اور زبانی فلسفہ کے حوالے سے بھی ابحاث موجود ہیں۔ 54
افلاطون (Plato) نے ری پبلک نامی اپنی کتاب میں مثالی ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔اس کے مطابق ایک مثالی ریاست میں گروہی جنسی ملاپ کے ذریعے بچے پیدا کیے جانے چاہئیں جنہیں اپنے ماں باپ کا علم ہی نہ ہو اور نہ ہی والدین کو اپنے بچوں کا علم ہو ۔انہیں والدین سے لیکر سرکاری نرسری میں بھیج دیا جائے۔بہترین مرد صرف بہترین عورت سے ملاپ کرے تاکہ بہتر قسم کے بچے پیدا ہوں ۔وہ شادی اور خاندانوں کے بجائے ایک گروہی مادر پدر آزاد ریاست کی بات کرتا تھا جہاں جب جس کا دل چاہے کسی سے بھی جنسی تعلق قائم کرلے۔ مرد و عورت دونوں جنسی پابندیوں سے آزاد تھے۔وہ جنسی آوارگی اور خاندانی نظام کے خاتمے کا داعی تھا۔اس نے مخلوط تعلیمی نظام کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ برہنہ ہو کر ورزش کرنا بھی نظام ِ تعلیم کا حصہ ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ایک ساتھ حصہ لیں ۔اس نے کہا کہ مثالی ریاست کے شہری نیکی کے لباس میں ملبوس ہوں گے اور ان کے لیے یہی لباس کافی ہے۔ان میں احمقانہ شرم وحیاء کا کوئی احساس ہونا چاہیے اور نہ ہی برہنہ انسانی جسم دیکھ کر گنواروں جیسی ٹھٹھا بازی ہونی چاہیے۔ وہ عاجزی و انکساری اور ادب و احترام پیدا کرنے کا بھی قائل نہ تھا۔ وہ بھی اکثر یونانی فلسفیوں کی طرح ٹھوس علم پر تجریدی قیاس آرائی کو ترجیح دیتا تھا۔ وہ مرد و عورت کی مکمل مساوات کا داعی تھا اور انسانی مصائب کے خاتمے کے لیے صرف ایک فلسفی کےحکمران بننے کا قائل تھا۔وہ نجی جائیداد کے حق کا بھی مخالف تھا ۔وہ تجارت کو اچھا نہیں سمجھتا تھا اورا س کا خیال تھا کہ کاروباری لوگ بیک وقت کامیاب و دیانت دار نہیں ہو سکتے۔وہ اپنی مثالی ریاست میں وکلاء کو غیر ضروری شر سمجھتا تھا۔ا س نے ریاست کے شہریوں کو عقل و شعور اور تعلیم کی بنیاد پر تین طبقوں میں تقسیم کیا تھا۔55
افلاطون (Plato)نےاپنی مثالی ریاست میں اپاہج اور کمتر صحت اور ذہن کے حامل بچوں کو پر اسرار طریقے سے ٹھکانے لگا نے کا نقطہِ نظر پیش کیااور ریاست کی منظوری کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کو ناجائز بچے قرار دیا۔56اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ صاحب ِ عقل و خرد سمجھا جانے والا افلاطون (Plato)درحقیقت کتنا سفاک انسان تھا ۔ اگر اسے طاقت و اقتدار مل جاتاتواپنے خود ساختہ تصورات کی تکمیل کے لیے بے گناہ بچوں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا حالانکہ وحی کی روشنی کے مطابق ایک انسان کا بلاوجہ قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔نیز وہ انسانی نفسیات سے بالکل نابلد بلکہ شاید اس کے ساتھ کھلواڑ کا مرتکب ہوا تھا تب ہی اس نے ایسا ناقابلِ عمل میکانکی تصور پیش کیا جس کے مطابق ریاست میں ایک فردکی حیثیت ایک پیداواری عضو سے زیادہ نہ تھی۔یعنی جہاں کوئی شخص معاشی، پیداواری عمل میں اپنی بیماری،ضعف یا پھر مجبوری کی وجہ سے عضو معطل بنا تو اس کی حیثیت ناکارہ پرزہ کی سی ہوگئی لہذا اسے پھینک دینا جانا چاہئے۔ یہی معاملہ اس نے مذکورہ بالا بچوں کے ساتھ کیا اور انہیں بس ایک ناکارہ پرزہ سمجھ کر پھینک دینے کا باطل نظریہ پیش کیا۔ اسی طرح افلاطون (Plato) اللہ تعالی کے اس دنیا میں قائم کردہ نظامِ آزمائش سے بھی بالکل نابلد تھا۔انسانی معاشرے میں اس آزمائشی نظام کے قیام اورتوازن (Equilibrium) کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں عہدے، مرتبے، جسمانی ساخت اور دیگر خصوصیات کےلحاظ سے فرق موجود ہو۔معذور اور کمتر صلاحیتوں کے افراد بھی اس نظم ِ دنیا کا حصہ ہیں جن کے بغیر یہ نظام ِ حیات متاثر ہو جائے گا۔ تاہم تصوراتی دنیا(Utopia) میں رہنے والےافلاطون کی توجہ شائد ان امور کی طرف نہیں گئی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ افلاطون (Plato) نے ہی مادر پدر آزادی ، بے حیائی،آوارگی، بے باکی، مرد و عورت کی غیر حقیقی مساوات ، خاندانی نظام کی بیخ کنی اور زیادہ سے زیادہ مادی لذت کے حصول کو زندگی کا مقصد بنانے کی کوشش کی فلسفیانہ بنیاد رکھی اورفلسفے کی آڑ لے کر زیادہ سے زیادہ مادی اور جسمانی لذت کے حصول کی راہ ہموار کی۔
ایشیائے کوچک میں کلازومینئے(Klazomenai) سے تعلق رکھنے والے یونانی فلسفی انیکسا غورث (Anaxagoras) نے ماخذوں(Origins)کے فلسفہ میں ذہن یااستدلال کا نظریہ متعارف کروایا۔ ارسطو(Aristotle) بتاتا ہے کہ وہ عمر میں امپیڈاکلیز(Empedocles)سے بڑا تھالیکن اُس نے مؤخرالذ کر کے بعد لکھنا شروع کیا۔ انیکسا غورث(Anaxagoras)کا تعلق ایک اعلیٰ گھرانے سے تھا لیکن مکمل طور پر سائنس سے وابستگی کی خواہش میں اُس نے اپنی جائیداد رشتہ داروں کے حوالے کردی اور ایتھنز(Athens) چلا گیا۔ وہاں اُس نے پیری کلیز(Pericles)کے ساتھ قریبی تعلق میں زندگی گزاردی۔ پیلو پو نیسیائی جنگ چھڑنے سے کچھ ہی عر صے پہلے پیری کلیز(Pericles) کے سیاسی مخالفین نے اُسے ناپارسائی کے جرم کا مرتکب ٹھہرایا۔ ناپارسائی سے مراد ریاست کے تسلیم شدہ دیوتاؤں کو ماننے سے انکار تھا۔در حقیقت اُس نے کہا تھا کہ سورج محض پیلوپویشیا کے خطے جتنے سائز کا ایک روشن پتھر ہے اور چاند مٹی سے بنا ہے۔پیری کلیز(Pericles)کے اثر ورسوخ کے ذریعے بری ہوجانے کے باوجود اُسے مجبوراً لیمپساکس (Lampsacus)جانا پڑا۔
انیکسا غورث(Anaxagoras)کا پیش کیا گیا نوٴس(Nous)کا تصور ہی فلسفے میں اُس کا حقیقی حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ ذہن نے دو مرحلوں میں کائنات تشکیل دی : اول ، ایک گردشی اور تر کیبی (Mixing) عمل کے ذریعہ جو ہنوز جاری ہے:اور دوم ، جان دار اشیاء کی ترقی کے ذریعے۔ پہلے مرحلے میں تمام تاریکی نے مل کر رات بنائی ، تمام مائع کے ملنے سے سمندر بنے، وغیرہ۔ ایک جیسے عناصر کی باہمی کشش کا یہی عمل دوسرے مرحلے میں بھی واقع ہوا جب ذہن نے بڑی مقدار میں گوشت اور دیگر عناصر کو مجتمع کیا۔ یہ مرحلہ جانور اور پودے کے بیجوں کے ذریعہ عمل میں آیا جو اصل مرکب خلقی تھے۔ اناکساغورث کے مطابق ، جان دار اشیاء کی نشو نمانامیاتی اجسام کے اندر ذہن کی طاقت پر منحصر ہے۔ یہی طاقت اُنہیں اردگرد کے مرکبات سے غذا اخذ کرنے کے قابل بناتی ہے۔
انیکسا غورث(Anaxagoras)یونانی فلسفہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے: ارسطو(Aristotle) نے اُس کا نوٴس (Nous)کا تصور اپنایا جبکہ اُس کے نظریہ بیج (یا جوہر/ایٹم) نے فلسفی ڈیما کریٹس(Democritus) کے ایٹمی نظریہ کی راہ ہموار کی ۔ اُس کے شاگردوں میں یونانی ریاست کا ر پیری کلیز(Pericles)، یونانی ڈرامہ نگار یوری پڈیز (Euripides) اور غالباً سقراط(Socrate) بھی شامل تھا۔ وہ 30سال تک ایتھنز(Athens) میں تعلیم دیتا رہااور اس شہر کو آئندہ تقریباً ایک ہزار سال کے لیے فلسفہ کا گہوارہ بناگیا۔57
ارسطو(Aristotle) 384 قبل مسیح میں یونان میں پیدا ہوا ۔ اس کے والد کا نام نیکوماچس(Nicomachus)تھا۔ وہ بادشاہ امینٹس آف میسیڈون(King Amyntas of Macedon) کا طبیب تھا۔ 18سال کی عمر میں ارسطو(Aristotle) پڑھائی کی تکمیل کے لیے ایتھنز(Athens) میں افلاطون (Plato) کے مدرسے گیا۔ اس نے وہاں تقریباً 20سال تعلیم حاصل کی اور پھر 347 قبل مسیح میں افلاطون (Plato) کی موت تک وہیں رہا۔ اس کے بعد ارسطو(Aristotle) نے زینوکریٹس (Xenocrates)کے ساتھ ایشیا کے جنوب مشرقی حصہ میں ہرمیاس آف اتارنیوس (Hermias of Atarneus)کی عدالتوں کی طرف سفر اختیارکیا ۔ ارسطو(Aristotle) نے تھیئوفراسٹس (Theophrastus)کے ساتھ لیس بوس(Lesbos) کے جزیرے کی طرف بھی سفر کیا جہاں انہوں نے اس جزیرے کی نباتیات اور حیوانیات پر تحقیقات کیں تھیں۔ ہرمیاس (Hermias) کی موت کے فوراً بعد ارسطو(Aristotle) کو مقدونیا (Macedonia)کے فلپ نے سکندر اعظم کا معلم بننے کی دعوت دی۔ سکندر کو کچھ عرصہ پڑھانے کے بعد ارسطو(Aristotle) واپس ایتھنز(Athens) لوٹ آیا۔ 334 قبل مسیح میں اس نے اپنے ذاتی مدرسے کی بنیاد رکھی جس کا نام لائسیوم (Lyceum)رکھا۔ ارسطو(Aristotle) نے اس مدرسے میں اگلے 11 سال نصابی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ذرائع اس طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ ارسطو(Aristotle) نے اپنے کام کا بیشتر حصہ اسی دورانیے میں ترتیب دیا تھا ۔ ارسطو(Aristotle) نے کثیر مکالمے تحریر کیے جس میں سے بہت کم ضائع ہونے سے بچ سکے۔ اس کا جو کام ضائع ہونے سے بچ گیا ، وہ رسالے کی صورت میں موجود ہے ۔ اس کے مقالوں کے کثیر حصے کی اشاعت بڑے پیمانے پر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔
ارسطو(Aristotle) نے نہ صرف اس دور کے مروجہ تمام علوم کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان میں سے اکثر علوم میں خاصی اہم خدمات بھی سر انجام دیں تھیں۔ طبعی علم میں ارسطو(Aristotle) نے علم تشریح الاعضاء، علم النجوم، معاشیات، علم الارض، ارضیات، علم آب و ہوا، طبیعات اور حیاتیات کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ فلسفہ میں اس نے جمالیات، اخلاقیات، حکومت، منطق، الٰہیات ، سیاسیات، نفسیات، مبالغہ آمیزی اور دینیات پر مواد تحریر کیا تھا۔ اس نے تدریس، دیگر قومیتوں کے ساتھ مراسم استوار رکھنے، ادبیات اور شاعری کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ 58 فلکیات کے سلسلے میں ارسطو سب سے زیادہ فاش غلطیوں کا شکار ہوا تھا۔وجہ یہ تھی کہ فلکیات میں حساب کی بے تحاشہ ضرورت پڑتی ہے اور اس مضمون میں ارسطو کا دماغ اتنا بہتر نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ زمین رکی ہوئی گیند نما شے ہے جو کائنات کا مرکز ہے اور سورج ، چاند ، ستارے اس کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ 59
ارسطو کے مطابق خدا اس کائنات کا خالق نہیں بلکہ صرف اس کا نظام چلانے والا یا اس کی حرکت کا سبب و علت ہے۔وہ یہ سمجھتا تھا کہ خدا کو دنیا کے نظام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ انسانوں کے مقدر سے بے نیاز ہے۔ارسطو نے افلاطون کے اشتراکیت کے تصور کو مسترد کر دیا اور ہر فرد کے کردار کی انفرادی نشونمااور ہر فرد کی جائیداد کی نجی ملکیت کی وکالت کی۔اس نے خوش ہونے کو انسانی زندگی کا مقصد قرار دیا۔ 60 ارسطو(Aristotle) کی وحی سے دوری نے اسے خالق کی صفات کی حقیقی پہچان سے دور رکھااور وہ خدا کو اس کائنات کا خالق ماننے کی بجائےصرف اس کے آغاز کی علت سمجھ بیٹھا۔اس نے صرف مادی اور تجرباتی پیمانوں کو سامنے رکھ کر اپنے نظریات استوار کیے اور حقیقی علم اور روح کی دنیا تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔
یونانی فلسفی، ریاست کاراور شاعر امپیڈاکلیز (Empedocles)،سسلی(Sicily) میں پیدا ہوا۔ وہ قبل از سقراط (Socrate) فلسفیوں میں ممتاز مقام رکھتا تھا۔ بطور شاعر بھی اُس نے بعد میں آنے والے شعراء مثلاً لوکر یٹیئس (Lucretius)پر عمیق اثرات مرتب کیے۔ غالباً اُلو ہی حیثیت اور معجزاتی قوتوں کا حامل ہونے کا دعویٰ کرنے کے باعث ہی وہ متعدد حکایات کا موضوع بن گیا تھا۔ اُس کاتعلق ایک اہم اور امیر اشرافی خاندان سے تھا۔ اُس کے دادا نے 496قبل مسیح کے اولمپک کھیلوں میں گھڑدوڑ جیتی تھی ۔ کچھ روایات میں اُسے فیثا غورث(Pythagorus) زینوفینز (Xenophanes)، انیکسا غورث(Anaxagoras) اور انا کسی مینڈر (Anaxi Mander) کا شاگرد بھی بتایا جاتا ہے۔قرائن سے پتا چلتا ہے کہ امپیڈاکلیز(Empedocles)نے جمہوریت مخالف شہریوں کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ مساوات کی حمایت میں اُس کی دو تقریریں بھی ملتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی تمام روایات اُسے ایک مقبول سیاستدان ، فصیح وبلیغ مقرر اور جمہوریت و مساوات کا ماہرظاہر کرتی ہیں۔ وہ فلسفی،شاعر اور سیاست دان کے علاوہ طبیب اور شافی کے طور پر بھی مشہور تھا۔
تناسخِ ارواح (آواگون) پر کڑا ایمان رکھنے والے امپیڈاکلیز(Empedocles)نے اعلان کیا کہ گناہ گاروں کو30,000موسموں تک مختلف فانی جسموں میں جنم لینا ہوگا ۔ اس سزا سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اُس کے خیال میں تقویٰ اختیار کرنے کے لیےجانوروں کا گوشت کھانے سے اجتناب لازمی ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ اُن کی روحیں کبھی انسانی جسموں میں مقیم رہ چکی ہوں وہ جانوروں کا گوشت کھانے کو خوف ناک ترین گناہوں میں شمار کرتا تھا۔ایک روایت کے مطابق خود ساختہ دیوتا امپیڈاکلیز(Empedocles) نے پیروکاروں کو اپنی اُلو ہیت کا یقین دلانے کےلیے ایتنا(Etna)پہاڑ کے آتش فشانی گڑھے میں کود کر جان دے دی تھی۔ معاصرین کے خیال میں وہ واقعی محض ایک فانی انسان سے بڑھ کر تھا۔ کہتے ہیں کہ ارسطو(Aristotle) نے اُسے علم بدیع کا موجد قرار دیا اور جالینوس(Galenus) اُسے اطالوی طِب کا بانی سمجھتا تھا۔ لوکر یٹیئس (Lucretius)نے اُس کی مسدس شاعری کو سراہا۔ آج اُس کی نظم فطرت کی کوئی 400سطریں اور تطہیرات کے کوئی 100 اشعارہی ہم تک پہنچے ہیں ۔ لیکن طب ، فلسفہ ، سائنس اور تکوینیات میں اُس کے اثرات واضح ہیں۔61 امپیڈاکلیز(Empedocles) فلسفے اور دیگر کئی علوم کا ماہر ہونے کے باوجود علم ِوحی سے دور ہونے کی وجہ سے ٹھوکر کھا گیا اور نہ صرف تناسخ ِ ارواح کے فلسفے پر ایمان لا بیٹھا بلکہ خود کو دیوتا قرار دے دیا۔ اس کی خود پسندی اور خود فریبی نے اسے دماغی ہیجان اور خلفشار میں مبتلا ء کر دیا تھا وہ روح اور جسم کےتعلق کو نہ سمجھ پایا تھا اور انسان اور جانور کو ایک ہی طرح کی روح کے مختلف روپ کہتا تھا ۔یوںوہ اشرف المخلوقات اور جانوروں میں موجود فرق کا ادراک کرنے سے قاصر رہا۔
زینوفینز(Xenophanes)چھٹی صدی قبل مسیح کا ایک شاعر تھا۔ بنیادی طور پر وہ روایتی مذہب میں خدا کو انسانی شکل سے تشبیہ دینے پر سخت تنقید کے حوالے سے مشہور تھا، اور اس حقیقت کی نشاندہی کی بنیاد پر کثیر لوگوں کی نظر میں مذہب میں اصلاح پسند شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اوائل دور میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اس کی اصلاح پسندی کو مزید بڑھاوا صرف خدا کو انسانی شکل سے تشبیہ دینے کےروایتی نظریے کو مٹانے کے طور پر نہیں ملا ، بلکہ وحدانیت کے تصور کی ترویج و اشاعت کی صورت میں بھی سامنے آیا تھا۔
بہر کیف زینوفینز(Xenophanes) کو مسلسل مذہب میں اصلاح پسند شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، بعض اوقات اس کی مذہبی اصلاح پسندی گھٹ کر ایک خاص صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی جس سے یہ تاثر بھی ملتا تھا کہ اصلاح پسند ی سے اس کا خاص مقصد اپنے اسلاف کے غلط تصورات کی تصحیح کرنا نہیں بلکہ ایک نیا دین متعارف کروانا تھا۔زینوفینز (Xenophanes)نے وحدانیت کی ترویج کے لیے ایک کامیاب تحریک تشکیل دی جو ہیلینیائی (Hellenistic) اور یونانی دور کے تصورات کی بہ نسبت ایک بلند منفرد نظریے کی حامل تھی۔ اس نے صرف ایک خدا کے موجود ہونے پر زور دیا تھا۔62
زینوفینز(Xenophanes) دیوتاؤں کے خلاف تھا اور ایک خدا کو مانتا تھا تاہم وحی سے دوری کی وجہ سے وہ خدا اور کائنات کو ایک ہی اور ہم وجود سمجھتا تھا۔جب وہ کائنات کو دیکھتا تھا تو کہتا تھا کہ سب کچھ ایک ہےاور تمام وجود خداہے۔افلاطون کے خیال میں تمام اشیاء کی وحدت کی تعلیم سب سے پہلے اسی نے دی تھی۔وہ کائنات کو ازلی و ابدی (Eternal, Timeles and Everlasting) سمجھتا تھا۔ اس کے خیال میں زمین سمندر سے بنی تھی اور اسی میں چلی جائے گی،ستاروں کو وہ مستقل بخارات قرار دیتا تھا جو روز بنتے رہتے ہیں۔وہ زمین کے دوبارہ پیدا ہونے اور انسان کے اس سے دوبارہ تخلیق ہونے پر یقین رکھتا تھا۔ 63
کائنات کا ایٹمی نظریہ پیش کرنے والا یونانی فلسفی ڈیما کریٹس (Democritus)ابدیرا(Abdera) میں پیدا ہوا۔ کچھ محققین اُس کا سنِ پیدائش 490 قبل مسیح بھی بتاتے ہیں۔اُس کے باپ کاتعلق ایک اعلیٰ اورامیر کبیر خاندان سے تھا جس نے شاہِ فارس خشا(Xerxes)کی ایشیاواپسی پر اُس کی فوج کی بھرپور ضیافت کی اور اس کے لیے کافی رقم خرچ کی تھی۔ ڈیما کریٹس (Democritus)نے کا ہنوں(Magi)کے پاس فلکیات اور الہٰیات کا مطالعہ کیا۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد وہ دانش کی تلاش میں سفر پر روانہ ہوا اور ترکہ میں ملنے والی ساری دولت اسی مقصد میں لگالی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مصر، ایتھوپیا، فارس اور ہندوستان گیا۔ زندگی کے ایک مرحلے پر اُس نے فیثا غورث ازم (Pythogorasism)کی تعلیم حاصل کی اور لیوسی پس(Leucippus) کا شاگرد بنا۔ کئی سال تک سفر کر نے کے بعد وہ واپس ابدیرا آیا تو ساری دولت صرف ہوچکی تھی۔ ڈیما کریٹس (Democritus)نے عوامی لیکچربھی دئے۔ پیڑونیئس(Petronius) بتاتا ہے کہ وہ جڑی بوٹیوں ، نباتا ت اور پتھروں کی خوبیوں سے واقف تھا اور اس نے اپنی زندگی قدرتی اجسام پر تجربات کرنے میں گزاری۔ قدرتی مظاہر کے علم نے اُسے شہرت دلائی اور وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش گوئیاں کرنے لگا۔ اس قابلیت نے لوگوں کو اس یقین کی جانب مائل کیا کہ وہ مستقبل کے واقعات کی پیش گوئی کرسکتاہے۔ وہ نہ صرف اُسے عام فانی انسانوں سے برتر سمجھنے لگے،بلکہ انہوں نےاپنے عوامی امور بھی اُس کے کنٹرول میں دینے کی خواہش ظاہر کرڈالی۔ڈیماکریٹس (Democritus)نے عمومی سرگرمی سے بھر پور زندگی پر تفکر انہ زندگی کو تر جیح دی اور عوامی اعزازات کو قبول کرنے سے انکار کر کے اپنی باقی زندگی عزلت (گوشہ نشینی) میں گزاری۔
ڈیما کریٹس (Democritus)کے طبیعی اور تکوینیاتی نظریات اپنے اُستاد لیوسی پس (Leucippus) کے نظریات کی ہی تفصیل تھے۔ اُس نے کائنات کی ابتداء کی وضاحت یو ں کی کہ آغاز میں ایٹم تمام سمتوں میں حرکت کرتے تھے۔ یہ ایک قسم کی حالت ِارتعاش تھی۔ چنانچہ تصادم ہوئے اور ایک چکر دار حرکت کے باعث ایک جیسے ایٹم اکٹھے ہوگئے اور متحد ہوکر انہوں نے زیادہ بڑے اجسام اور دنیاؤں کو تشکیل کیا۔ یہ سب کچھ کسی مقصد یا خاص منصوبے کے تحت نہیں ہوا، بلکہ محض ضرورت کا نتیجہ تھا، یعنی یہ ایٹموں کی فطرت کا عمومی اظہار تھا۔ڈیماکریٹس (Democritus) ہی پہلاشخص تھا جس نے رنگ کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ اُس کے خیال میں رنگ مرکبات کے مشتملہ ایٹموں کی پوزیشن کی وجہ سے بنے تھے۔ مثلاً سفیدی کا احساس ہموار اور چپٹے ایٹموں کا نتیجہ ہے جن کا کوئی سایہ نہیں ہوتا۔ جبکہ کالے رنگ کا احساس کھر درے اور غیر ہموار ایٹموں سے پیدا ہوتا ہے۔64
ڈیما کریٹس (Democritus) زمین کو ہوا پر تیرتا ہوا ایک گول تشت سمجھتا تھا۔ا س کا خیال تھا کہ سورج اور چاند ہمارے عالم میں اس وقت داخل ہوئے جب زمین بننا شروع ہو چکی تھی۔وہ روح کو ایک جسمانی چیز سمجھتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ روح چکنے گول ذرات یعنی آگ سے بنی ہے۔اس کا یہ خیال تھا کہ کرہِ ہوا کے اندر بعض ہستیاں ایسی ہیں جو انسانی صورت رکھتی ہیں لیکن ان کے جسم بہت بڑے اور عمر بہت دراز ہے۔ان کے ہماری دنیا پر کبھی اچھے اور کبھی برے اثرات پڑتے ہیں۔ان کی شبیہیں بعض اوقات خواب میں اور بعض اوقات بیداری میں انسانوں کو نظر آتی ہیں۔انہی کو انسان دیوتا قرار دیتے ہیں۔اس نے اپنے نظریہ شبیہات و اخراجات سے رویائے صادقہ اور نظرِ بد کی بھی فطری توجیہ کی کوشش کی تھی۔ 65 ڈیما کریٹس (Democritus)نے بھی صرف مادی اسباب اور حواس کو مشعل راہ بنایا اس لیے علم ِ حقیقی تک نہ پہنچ پایا ۔گو اس نے ایٹمی نظریئے کی بنیاد پر مادی اسباب و علل کی تشریح کی اچھی کوشش کی لیکن وہ روح اور روحانی معاملات سمجھنے سے قاصر تھا۔
اٹلی میں ایلیا(Elea)کا رہنے والا زینو بارامانیاس (Parmenides) کا پسندیدہ شاگرد تھا۔ وہ48 برس کی عمر میں بارامانیاس(Parmenides)کےہمراہ ایتھنز(Athens)گیا۔ کہتے ہیں کہ اُس نے پیسوں کےعوض پیریکلیز(Pericles) اور کالیاس (Callias)جیسے لوگوں کو اپنے عقائد کے متعلق بتایا ۔ زینو(Zeno) نے بارامانیاس کو قانون سازی میں مدد دی۔ 66
وہ انسان کے عمل کو نیکی کے پیمانے سے ناپتا تھا۔ اس کے نزدیک انسان کی زندگی کا مقصد تھا کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے چاہے اسے ان فرائض کی ادائیگی میں کتنی ہی مشکلات اور تکالیف کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔اسکے مطابق انسانی خواہشات و جذبات کو حقائق کا پابند ہونا چاہیے۔ زینو(Zeno) کے فلسفے کو جنہوں نے قبول کیا وہ رواقی (Stoics)کہلائے۔یہ رواقی بھی زندگی میں مسرت حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن یہ لذّتیت کے بجائے فرائض کو پورا کرنے میں زندگی کی مسرّت کو پوشیدہ سمجھتے تھے،لذّتیت اور رواقی فلسفہ(Stoicism) کا اثر زیادہ تر اٹلی میں رہا۔67زینو(Zeno)مادہ پرست تھا اور دنیا کے حقیقی ہونے کا دعویدار تھا۔اس کا خیال تھا کہ اتفاق نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،فطری قوانین ہی فطری روش سختی سےمتعین کرتے ہیں۔ابتداء میں آگ تھی پھر باقی عناصر وجود میں آئے اور دوبارہ کائناتی آتشزدگی ہوگی اور ہر شے آگ بن جائے گی۔اس کے خیال میں قطعی آخرت وقوع پذیر نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک دورانیہ کا اختتام ہو گا۔یہ کُل عمل دائمی طور پر دہرایا جاتا رہے گا۔ جو کچھ ہوتا ہے وہ پہلے ہو چکا ہے اوروہی دوبارہ ہوگا۔ایسا صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ بےشمار دفعہ ہوتا رہے گا۔فطرت کی روش ایک ایسے خالقِ قانون کی متعین کردہ ہے جو ایک مہربان رب العالمین ہے۔ہر شے کا مقصد ہے جو صرف انسان سے وابستہ ہے۔بعض جانور ہماری جرأت کا امتحان ہوتے ہیں۔ رواقی فلسفہ(Stoicism) میں بعض اوقات قادرِ مطلق ذات کو خدا کہا گیا ہے تاہم کہیں کہیں زیوس(Zeus) نامی دیوتاکو بھی خدا کے رتبے پر پہنچا نے کی کوشش کی گئی ہے۔ان کے نزدیک خدا دنیا سے جدا نہیں ہے بلکہ وہ دنیا کی روح ہے۔افراد کی زندگی اس وقت خیر ہے جب یہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔انسانی زندگی صرف اس صورت میں فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے جب انفرادی ارادہ ان مقاصد کی سمت چلتا ہے جو فطرت کے مقاصد میں شامل ہیں۔وہ دیوتاوں اور مندر بنانے کا بھی مخالف تھا۔ 68
ہیروڈوٹس(Herodotus) کا تعلق ایشیا کے جنوب مشرقی حصہ (Asia Minor)کے شہر ہالیکارناسس (Halicarnassus)سے تھا جو موجودہ دور میں ترکی کا شہربودروم (Bodrum)ہے۔ شہر ہالیکارناسس ہیروڈوٹس کے دور میں ایرانی سلطنت میں داخل تھا۔ ہیروڈوٹس میں یونان اور کارین دونوں کا خون تھا ۔ اس سے متعلق بھی بعض شواہد ملے ہیں کہ وہ زرمیہ نظمیں لکھنے والا آخری شاعر تھا، جس نے آیونیا کے رستم اور دیگر شہ زوروں کے حوالے سے ایک طویل نظم لکھی لیکن اس نظم کے اشعارزرمیہ نظموں کے طریقہ کار سے ہٹ کر تھے۔ اس نے کچھ سال ساموس (Samos)اور ایتھنز(Athens) کے جزیروں میں گزارے ۔ ان جزیروں میں رہنے کی روداد اس کی تاریخ میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔ اس بارے میں بھی شواہد ملے ہیں کی ہیروڈوٹس جنوب اٹلی میں واقع تھوریی (Thurii)کے قصبہ میں موجود پین ہیلینک فاؤنڈیشن (Panhellenic Foundation)سے منسلک ہوگیا تھا، جو 444/443 قبل مسیح میں ایتھنز(Athens) کی زیر کفالت آگئی تھی۔ ہیروڈوٹس کی زندگی کا بیشتر حصہ سیر وسیاحت پر مبنی تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بحیرہ روم کے مشرقی حصہ کے ساتھ یورپ اور ایشیا کے درمیان موجود سمندر کو بلاواسطہ جانتا تھا۔ ہیروڈوٹس نے جن مقامات کی سیر کی ان میں سردیس (Sardis) ، ایشیا کے جنوب مشرقی حصہ میں موجود لیڈیا(Lydia) کا دارلخلافہ ، ٹائر کا فونیشیائی شہر (Phoenician city of Tyre)، مصراور ایلیفینٹائن (Elephantine) میں موجود نیل کے پہلے آبشار تک کا سفر شامل تھا۔ اس کے علاوہ یورپ اور ایشیاکے درمیان موجود سمندر کے طول و عرض کی سیر کی اس جگہ کا جائزہ لیتے ہوئے روس کے جنوبی حصہ میں پھیلے ہوئے ہائپانس(Hypanis) کے دریا تک سفر کیا۔اس نے یونان کے کثیر مقامات کی سیر کی جن میں ڈیلفی (Delphi)میں واقع یونانیوں کا مذہبی مقام ،دیوتا اپالو (Temple of Apollo) کا مندربھی شامل تھا ۔تاہم ہیروڈوٹس نے مشرقی جغرافیہ کے حوالے سے بنیادی غلطیاں کیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ ان جگہوں کو بہتر انداز میں نہیں جانتا تھا۔ 69
ہیروڈوٹس کو نقادوں کی جانب سے ' جھوٹوں کا باپ ' بھی کہا گیا ہے۔ جن کا دعوی ہے کہ اس کی پیش کردہ تاریخ کی حیثیت طویل اساطیر سے بس تھوڑی سی ہی زیادہ ہے۔یوں سمجھ لیں کہ ہیروڈوٹس نے اپنے مشاہدات اور مقامی لوگوں سے مذاکروں کو محفوظ کیا تاہم اس نے تاریخ کے بہت سے حصوں کو بڑھا چڑھا کر من گھڑت انداز میں پیش کیا ہے۔اسی وجہ سے حقیقت کوافسانے سے اور سچ کو تعصب سےجدا کرنا انتہائی مشکل ہے۔70 ہیروڈوٹس کی بیان کردہ بہت سی تفصیلا ت موجودہ دور کی تحقیق سے غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر بابل اور مصر کے بارے میں اس کے بیان سے یوں لگتا ہےگویا وہ خود یہاں آیا ہی نہیں اور سنی سنائی باتوں ، افسانوں اور داستانوں کو ہی بڑھا چڑھا کراسے پیش کر دیا اندازِ تحریر سے یہ تاثر دینے کی اس نے صرف کوشش ہی کی ہے جیسے وہ خود بنفسِ نفیس وہاں موجود تھا۔یہی وجہ ہےکہ بطورِ تاریخ دان اسکی صداقت و دیانت انتہائی مشکوک ہو چکی ہے اور سنجیدہ علمی حلقوں کی جانب سے اسکی تاریخ کے ایک بڑے حصےکو دیو مالا اور اساطیر کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔
ایپی کیورس(Epicurus ) 342 قبل مسیح میں ساموس(Samos) کے جزیرہ میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ ایتھنز(Athens) کے ایک تعلیمی ادارے میں استاد تھا۔ ایپی کیورس کی ماں روحانی معالج ہونے کا ڈھونگ رچاتی تھی۔ وہ گلی گلی پھیرے لگاتی اور جادو ٹونے کے ذریعے علاج کرتی تھی۔ وہ ایک چالاک اور فریب کار عورت تھی۔ بچپن میں ایپی کیورس اس کے ساتھ گلی گلی چکر لگانے پر مجبور تھا اور وہ مقدس فریب کاریوں میں ماں کی مدد کیا کرتا تھا۔ اس تجربے سے فائدہ اس کو یہ ہوا کہ اس کے دل میں اوہام پرستی کے خلاف صحت مند نفرت پرورش پانے لگی۔
لڑکپن میں ہی اس نے فلسفے میں دلچسپی ظاہر کردی تھی۔ جب اس کی عمر بارہ سال تھی توایک روز استاد نے دنیا کی تخلیق کی وضاحت کرنا چاہی۔ چنانچہ استاد نے کہاکہ ہر شے بدنظمی سے پیدا ہوئی ہے"بہت خوب" ایپی کیورس (Epicurus)نے استاد کی بات سن کر کہا، " لیکن ذرا یہ تو فرمایئے کہ خود یہ بدنظمی کہاں سے پیدا ہوئی تھی"استاد اس کا یہ سوال سن کر چکرا گیا۔یہی وہ لمحہ اور موقع تھا کہ جب ایپی کیورس (Epicurus )نے اپنے دل میں طے کرلیا کہ وہ یہ بھید جانے گا۔ وہ ساری عمر اس ہیولے کا منبع ڈھونڈے گا جو بعد میں اس دنیا کا منبع بن گیا تھا۔
اٹھارہ سال کی عمر میں ایپی کیورس (Epicurus )ایتھنز(Athens) آیا۔ اس نے بدنظمی کا منبع ڈھونڈنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کرلیاکہ وہ اس بدنظمی سے نجات پانے کا طریقہ بھی ڈھونڈے گا۔یہ مقصد اس کو سیاست کی بازیوں میں ملا اور نہ ہی الٰہیات کی تجریدات میں، البتہ چند طبعی اور مابعد الطبیعاتی اصول اس کے ہاتھ لگ گئے جن کی بنیادوں پر وہ وجود کی طوفان اٹھاتی ریتوں پر اپنے لیے امن وشانتی کا نخلستان تعمیر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس دریافت سے لیس ہوکر وہ ایتھنز(Athens) واپس آیا اور شہر کی ایک نواحی بستی میں ایک مکان اور باغ خریدا۔ وہیں اس نے فلسفے کی تدریس کے لیے بیرون دَرْ ایک اکیڈمی قائم کردی۔ اس اکیڈمی میں مخلوط تعلیم رائج تھی۔ تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد، یہاں تک کہ غلام اور طوائفیں بھی فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں آسکتی تھیں۔ ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی اور وجہ اس کی ایپی کیورس کا یہ اعتقاد تھا کہ علم کی دنیا میں کوئی طبقاتی امتیاز نہیں ہوتا۔ 71
ایپی کیورس (Epicurus )کے نزدیک جینے کا مقصد زندگی سے لطف اٹھانا تھا۔ مگر زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہمیں اسے سمجھنا بھی ضروری ہے۔وہ کہتا تھا کہ گرد و پیش کی دنیا کو سمجھیں اور اس کے باشندوں کی فطرت کا فہم حاصل کریں۔ایپی کیورس یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا تھاکہ ہم کسی خدا کی مخلوق نہیں بلکہ بے نیاز فطرت کے سوتیلے بچے ہیں۔ زندگی کسی خدائی فن کار کا بنایا ہوا منصوبہ نہیں ہے یہ تو میکانکی کائنات کا محض ایک حادثہ ہے۔ تاہم ہم چاہیں تو اس کو نشاط انگیز، یا کم از کم دلچسپ حادثہ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔یہ کام ہم کس طرح کرسکتے ہیں؟ یہ کام ہم اس وقت کرسکتے ہیں جب ہم اپنے دماغوں سے ان دو خوفوں کو نکال پھینکیں جنہوں نے نسلِ انسانی کو پریشان کر رکھا ہے۔ ان میں سے ایک دیوتاؤں کا خوف ہے اور دوسرا موت کا خوف ہے۔
ایپی کیورس (Epicurus )کو بد نظمی کے بارے میں اپنے پرانے سوال کا جواب اس مفروضے میں مل گیا تھا جس کی رو سے کائنات کی تعمیر ذرات کے ملاپ سے ہوئی ہے۔ اس مفروضے نے بدنظمی کے منبع کی تشریح کرنے کے بجائے خود بدنظمی کے تصور کا ہی خاتمہ کردیا۔ چنانچہ ایپی کیورس یہ کہنے لگا تھا کہ بدنظمی یا لاشئیت (Nothingness)جیسی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی۔ اس نے اپنے اس نئے دعوے کے لیے تین دلائل پیش کیے۔
زندگی کے اواخر میں ایپی کیورس گو ناگُوں امراض میں مبتلا ہوگیا لیکن کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لایا۔ اُس نے 100 کے قریب رسائل لکھے جو دست بُردِ زمانہ کا شکار ہوگئے۔ ایپی کیورس مذہب کا مخالف تھا اور کہتا تھا کہ مذہب دہشت کی تخلیق ہے۔ انسان قدیم زمانے سے موت اور فنا سے خائف رہا ہے۔ اس دہشت سے نجات اُسے روح کی بقاء اور حیات بعدالموت کے تصوّرات سے ملی۔73
ایپی کیورس (Epicurus )نے جو خانقاہ قائم کی اس میں اس نے" جو جی چاہے کرو"کا اصول لاگو کیا تھا۔راہبوں اور راہبات کو باہم ہنسنے کھیلنے ، شادیاں کرنے ، مال و زر جمع کرنے اور آزادی کی زندگی بسر کرنے کی کھلی چھٹی تھی۔یہاں عبادت کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔یہ خانقاہ خوشی اور دل لگی کے زندہ دل پروانوں کا مرکز بن گئی۔یعنی ایسے مردوں کےلیے جو لطف و مسرت کے دیوانے تھے اور ایسی عورتوں کے لیے جو خوش کرنے کے قابل تھیں ۔اس خانقاہ کے احوال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگریزی لغت میں ایپی کیورین (Epicurean) کا لفظ بھی عیاش ، عشرت پسنداور نفسانی خواہشات کے غلام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔74 اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ درویشی اور رہبانیت کے نام پر کس طرح فسق و فجور اور عیش پرستی کا بازار گرم تھا اور دنیا کی عارضی مسرت اور خوشی کو ہی زندگی کا مطمعِ نظر سمجھ لیا گیا تھا۔
یونانیوں کی اکثریت شدید جذباتی اور باہم برسرِ پیکار رہنے والی تھی ۔ ایک طرف وہ تعقل پرست تھے تو دوسری طرف وہ فوری جذبات کی رو میں بہہ جانے والے روئیے کے حامل تھے۔ وہ تصور میں جنت کا تخیل رکھتے تھے لیکن اپنی سرکشی سے جہنم تخلیق کر لیتےتھے۔" کوئی چیز حد سے زیادہ نہیں " ان کا مقولہ تو تھا لیکن درحقیقت وہ ہر چیز میں تجاوز کرتے تھے۔ نظری فکر ،شاعری ، مذہب اور گناہ سمیت ہر چیز میں وہ حد سے تجاوز کر گئےتھے۔جب وہ عظیم رہے تو جس چیز نے انہیں عظمت بخشی وہ جذبے اور فکر کا ملاپ تھا 75لیکن حقیقتا ً وہ اس میں توازن قائم نہیں رکھ سکے تھے ۔
یونانی قوم ایک ایسی قوم تھی جس نے فنون کو کمال و عروج تک پہنچا یا۔یونان کے اہل علم، حکماء، دانشمند، عقلاء، اصحابِ فلسفہ، علماء منطق، معمار، صنعت کار، مجمسہ ساز، مصور،موسیقار، مؤرخین، وقائع نگار، ڈرامہ نگاروغیرہ سب نے اپنی استطاعت کے مطابق آنے والی اقوام کے لیے علوم و فنون، عقل ودانش اور تہذیب وتمدن کی راہ ہموارکرنے کی کوشش کی جویقیناً مشقّت طلب اور ہمت وعرق ریزی کا کام تھالیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنے قابل ہونے کے باوجود یہ لوگ حقیقی علم کو جان نہ سکے اور نہ ہی اپنے خالق کو پہچان سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ فکری طور پر ماّدہ پرست تھے۔ جب انسان کی سوچ صرف مادّیت تک ہی محدود رہے اور روحانیت سے عاری رہے تو وہ حقیقی علم تک پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کے لیے کوئی بڑا کام اخلاقی بنیادوں پر کرسکتا ہے۔ یہی حال یونانیوں کے ساتھ ہوا۔ فلسفی اور حکماء ہونے کے باوجود وہ ایک مستحکم معاشرے کی بنیاد رکھنے میں ناکام رہے کیونکہ انہوں نے اپنے درمیا ن آنے والے انبیاء ِ کرام کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کرصرف دنیاوی و مادی علو م اور لغویات میں خود کو مشغول رکھا اس لیے وہ توحید ،نبوت ، مابعد الموت اور دیگر مبنی بر وحی علوم کے علاوہ ہر چیز میں ماہر ہو گئےنتیجتا ً فکری کجی، نظریاتی گمراہی اور مقصد حیات کے بارے میں صریح گمراہی نے پوری زندگی ان کا تعاقب کیا اور بالآخر عمدہ و شاندار افکار و نظریات کا بھنا جنگل اگانے کے باوجود وہ وحی الہی کے دائمی سایہ سے محروم رہے ۔