قدیم یونانی معاشرے میں جہاں سادگی، بہادری، دانشمندی اورقومی یکجہتی جیسی صفات پائی جاتی تھیں وہیں عریانیت، عصمت دری اورہم جنس پرستی جیسی نامناسب و قبیح عادات بھی سرائیت کرچکی تھیں ۔ایک طرف یونان کے دانشمند اپنی حکمت ودانائی کا لوہا منوارہے تھے تودوسری جانب وہ عقل وشعور سے بے بہرہ حماقت کے مجسمے نظر آتے تھے۔ حکمت ودانائی کا عالم یہ تھا کہ سقراط، افلاطون اورارسطوکا شہرہ چاردانگ عالم تھااس کے برعکس نادانی کا یہ حال تھا کہ افلاطون جیسا حکیم مضبوط معاشرے کے قیام کے لیے کمزور اور ناتواں بچوں کے قتل کا نسخہ تجویز کرتاتھا۔ ایک طرف تو عورت محبت کی دیوی تھی دوسری طرف کسبی اورفاحشہ تھی۔یونانی مرد ایک طرف شجاع وفاتح تھے تو دوسری جانب ہم جنس پرست اور دیوثیت کے دلدل میں غرق تھے۔
قدیم ادوار میں یونان ایک متحدہ ریاست نہیں تھی بلکہ شہری ریاستوں کا مجموعہ تھی۔ شہری ریاست ایک خودمختار ریاست کو کہتے تھے جس کا اپنا مکمل سیاسی اور سماجی نظام تھا۔ یونانی باشندے اسے پولِس(Polis) کہتے تھے۔ اسی لفظ سے پولیٹیکس(Politics) اور پالیسی (Policy) مشتق ہیں۔ 1
ان شہری ریاستوں میں سب سے زیادہ رہنے والے لوگ یا تو ڈورین(Dorian) نسل کے تھے یا بھر ایونین (Ionian) نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان دونوں نسلوں کا یونان پر گہرا اثر تھا۔ ڈورینز (Dorians) اکھڑ مزاج ، پرانے رواجوں کے ماننے والے اور تجارت کے دشمن تھےجبکہ ایونینز(Ionians) تبدیلی کو پسند کرنے اور جمہوری نظام کو ماننے والے تھے۔ اس کے علاوہ وہ موسیقی اور مجسمہ سازی کے فن کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔ ایتھنز (Athens)میں ایونینز(Ionians) کی اکثریت تھی جبکہ اسپارٹا (Sparta)میں ڈورینز (Dorians)کی۔چونکہ ان دونوں نسلوں میں ہر عادت کا اختلاف پایا جاتا تھا اسی وجہ سے ان کے مابین جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔2ان اختلافات اور جنگوں کے باوجود یونان ایک مضبوط ریاست تھی جس کے پاس ہر طرح کے وسائل کی فراوانی تھی۔3
یونان کی تمام شہری ریاستوں کی جنتری میں 12مہینے تھے۔ جس میں اگر ایک مہینہ29دن کا ہوتا تو دوسرا 30دن کا ہوتا تھا۔ تمام مہینے نئے چاند سے شروع ہوتے تھے۔ ان مہینوں کے نام درج ذیل تھے:
ہیکاٹومبیون(Hekatombaion) جون-جولائی(June–July)
میٹاگیتنیون(Metageitnion) جولائی-اگست(July–August)
بوڈرومیون(Boedromion) اگست-ستمبر(August–September)
پیانوپسیون (Pyanopsion) ستمبر-اکتوبر(September–October)
میماکٹریون (Maimakterion) اکتوبر –نومبر(October–November)
پوسائڈن (Poseideon) نومبر-دسمبر(November–December)
گمیلیون(Gamelion) دسمبر-جنوری(December–January)
اینتھیسٹریون(Anthesterion) جنوری-فروری(January–February)
ایلافیبولیون(Elaphebolion) فروری-مارچ (February–March)
مونیکیون(Mounichion) مارچ –اپریل(March–April)
تھارگیلیون (Thargelion) اپریل –مئی(April–May)
سکیروفورین(Skirophorion) مئی – جون(May–June) 4
قدیم یونان میں طبقاتی نظام دو قسموں کا تھا۔ ایک وہاں کے مقامی رہائشیوں کا جن میں مرد، عورت اور بچےشامل تھے اور دوسرا اجنبیوں کا جن میں میٹکس(Metics) ، وحشی قبائل اور غلام شامل تھے۔ 5 ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
قدیم یونان میں مردانگی کی تعریف غیر عورت ہونا تھی، یعنی مردانگی برقرار رکھنے کے لیے ایک شخص کو عورتوں والی تمام خصلتوں سےدور رہنا لازمی تھا۔ ان کے نزدیک اصل مرد وہی تھاجو دوسروں پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو اور خودمختار بھی ہو۔ ان کے نزدیک خواتین رتبے میں کمتر، کمزور ، احساسات کا اظہار کرنے والی، اور اپنے ظاہری حلیے کی بہت زیادہ پرواہ کرنے والی جنس تھی۔ جبکہ مرد میں یہ کمزوریاں نہیں پائی جاتیں ، لہٰذا مردکو ہر حال میں عورت سے برتر و اولیٰ سمجھا جاتا تھا۔
جسمانی طور پر بھی مرد کے جسم کو بہترسمجھا جا تا تھا کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مرد گرم، سخت اور پختہ جسم کے مالک ہوتے ہیں جبکہ عورتوں کا جسم نرم اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔ ان کے اہل علم جسم کی گرمی کی کمی کی بناء پر عورتوں کو ناقص قرار دیتے تھے ۔ ارسطو نے تو یہاں تک کہ دیا تھاکہ عورتیں مردوں کی بگڑی ہوئی شکل ہیں۔
یونان میں مردوں کو افضل مانا جاتا تھا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ مردوں کے پاس دخول کرنے کی طاقت ہے اور دوسروں کے دخول سے بچنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مرد اس وقت تک ہی مرد کہلاتا تھا جب تک وہ دوسروں میں دخول کرتا رہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اگر کسی مرد کے اندر دخول ہوجاتا تو وہ بھی اپنی مردانگی کھوبیٹھتا اور اس کو دوسرے مردوں جیسے تمام حقوق نہیں دیے جاتے تھے۔ مرد اپنے آباؤ اجداد کی جائیداد کے وارث تھے ، ان کے پاس زمین کی خرید و فروخت اور کاروبار کرنے کا بھی حق تھا۔ مرد اپنے گھر کا سربراہ ہوتا، اس کے بیوی ، بچوں اور غلاموں پر لازم تھا کہ اس کی اطاعت کریں۔ تاریخی کتب میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ ان پاس اپنی اولاد اور غلاموں کو جان سے مارنے کا بھی حق تھا۔ 6آج کے معاشرے میں وہ تمام لو گ جو عورتوں کو حقوق دینے کی بات کرتے ہیں اور اسکی دلیل یورپ اور امریکا میں عورت کی آزادی اور خود مختاری سے لاتے ہیں انکے لیے یقینا یونانیوں کی یہ تاریخ قابل غور ہے کیونکہ یورپی اور امریکی دانشور ہمیشہ سے ہی قدیم یونان اور روم کو اپنا امام اور رہنما مانتے چلے آئے ہیں اور انکے نزدیک آج سے سو سال پہلے تک عورت کی یہی حیثیت تھی جو قدیم یونان میں تھی اس لیے حقوق نسواں سے متعلق جتنے جائز مطالبے ہیں وہ یقینا قرآن و سنت میں موجود ہیں اور انکے علاوہ جتنی نازیبا حرکات اور خود مختاریاں آج کے نام نہاد روشن خیال مطالبہ کرتے ہیں وہ قدیم یونان اور روم میں بھی نہیں پائی جاتی تھیں بلکہ عورت کے جائز حقو ق تک وہاں موجود نہ تھے جیساکہ ولسن (Wilson)کی پیش کردہ تحقیق میں اسکی وضاحت ہے بلکہ عورت کو کم تر ،حقیر اور گھٹیا مخلوق سمجھا جاتا تھا جس کا کام مشین کی طرح صرف نفسانی خواہشات کی تکمیل اور بچے پیدا کرنا تھا ورنہ اس کے لئے نہ تو جائیداد میں حصے داری ممکن تھی نہ معاشرے میں عزت بلکہ اس کا کام فقط مرد کی نوکری کرنا تھا اسکے علاوہ کچھ نہیں ۔
یونان میں غلامی کی ابتداء کانسی کے دور(Bronze Age) کے بعد ہوئی تھی۔ غلام اور ان کی اولادیں اپنے مالکوں کی ملکیت تصوّر کی جاتی تھیں ۔ انہیں کبھی بھی خریدا یا فروخت کیا جاسکتا تھا۔ غلاموں کے باقاعدہ بیوپاری ہوا کرتے تھے جو ان کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے۔یہ غلام زیادہ تر جنگی قیدی ہوتے یاوہ غیر یونانی افراد جنہیں جبراً یونان لایا جاتا تھا۔ غلاموں کے کوئی حقوق نہیں تھے ۔ ان کو زندہ اوزار (Living Tools) تصوّر کیا جاتا تھا ۔
قدیم تہذیبیں بالخصوص یونان میں غلامی کاعام رواج تھا۔ارسطو کے مطابق بعض لوگ اپنی پیدائش سے ہی حقیر ہوتے ہیں اور صرف غلامی کے ہی لائق ہیں۔ یونانی یہ سوچ بھی رکھتے تھے کہ تمام غیر یونانی جاہل ہیں اور اس جہالت کی وجہ سے وہ نیچ ہیں، لہٰذا تمام غیر یونانی صرف غلامی کے ہی لائق ہیں ۔ 7 غلاموں میں جنگی قیدی، غریب اور نادار لوگ، جرائم پیشہ جو سزائیں بھگتتے تھے، اس کے علاوہ عورتیں، مقروض اور کمزور حیثیت رکھنے والے افراد شامل تھے۔ ارسطو کاکہنا تھا کہ"غریب لوگ امیروں کے پیدائشی غلام ہیں،وہ بھی ان کی بیویاں بھی، اور ان کے بچے بھی۔ شہری وہ ہے جو ماں اور باپ دونوں کی طرف سے شہری پیدا ہو، نہ کہ صرف ماں کی طرف سے یا باپ کی طرف سے"۔ 8
غلامی کی اس تعریف کے نتیجے میں یونانی ریاستوں میں آزاد شہری کم اور غلام زیادہ تھے۔ ریاست کورنتھ(Corinth) میں ساڑھے چار لاکھ سے بھی زیادہ غلام موجود تھے۔ ایجنییا(Aegeana) میں غلاموں کی تعداد شہریوں کی نسبت دس گنا اور ایتھنز (Athens)میں پانچ گنا تھی۔ اسپارٹا (Sparta)اور دوسری ریاستوں میں بھی یہی کیفیت تھی۔یونان کی اس صورتحال پر طنز کرتے ہوئے رابرٹ ای ڈیوی(Robert E. Davie) کہتا ہے کہ:"تین لاکھ غلاموں اور 90 ہزار نام نہاد آزاد شہریوں کے شہر میں بیٹھ کر افلاطون نے کیسے کیسے شاندار اور پُرشکوہ الفاظ میں آزادی کے گُن گائے ہیں"۔ 9ایتھنز (Athens) میں غلام اہل ایتھنز میں سے نہیں تھے بلکہ غیر ملکی تھے۔ غلام یا تو غیر ملکی جنگی قیدی تھے یا یونان کے دشمنوں کی بیوی بچے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتاکہ ایک یونانی دوسرے یونانی کو بھی کسی معرکے میں ہرا کر غلام بنا لیا کرتا تھا۔10
یونان میں غلامی کا ظہور دواسباب سے ہوا تھا۔ایک جنگ ،دوسراضرورت۔11 دونوں اسباب کی مطابقت سے غلاموں کے قسمیں بھی دو تھیں۔ ایڈولف ہولم(Adolf Holm) لکھتاہے: غلاموں کی دو قسمیں تھیں: دموئیس یعنی مفتوح اور اوئے کیس (Oikos)یعنی خانگی غلام۔ 12دونوں طرح کے غلاموں کی حالت قابل رحم تھی ۔وہ مکمل طورپر آقاؤں کے رحم وکرم پرہوتے تھے۔ 13
یونان میں عدل و انصاف اور مساواتِ انسانی جیسی چیزیں آزاد شہریوں کے لیے تو ضروری خیال کی جاتی تھیں مگر غلاموں کے لیے نہیں۔ افلاطون کا کہنا تھا کہ:"میں اعلان کرتا ہوں کہ انصاف طاقتور کے مفاد کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا میں ہر جگہ انصاف کا بس ایک ہی اصول ہے اور وہ ہے طاقتور کا مفاد اور یہ کہ غلاموں کو وہی سزا ملنی چاہیے جس کے وہ مستحق ہیں۔ انہیں آزاد شہریوں کی طرح صرف سرزنش نہیں کرنی چاہیے ورنہ ان کا دماغ خراب ہوجائے گا"۔ 14 افلاطون جسے صدیوں سے دانشور عظیم فلسفی کی حیثیت سے متعارف کرواتے آرہے ہیں وہ بھی انسانوں کو ذلیل کرنے اور غلاموں کو یرغمال رکھنے کا حامی تھا اور دولت و طاقت کو معیار بنا کر انسانیت سوز مظالم ڈھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔
ارسطو جمہوریت کو اس بناء پر ناپسند قرار دیتا تھاکہ اس میں تمام لوگوں کی حیثیت مساوی تسلیم کی جاتی تھی۔ اس کا موقف تھا کہ:" جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جس میں اقتدار نیچ، مفلس اور بے ہودہ لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ وہ آخری مکروہ ترین طرزِ حکومت ہے جو ہر شہری کو حکومت میں حصہ دار بنادیتا ہے"۔ 15
بعض یونانی مفکرین نے غلاموں پر رحم کھانے اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنے کی بات بھی کی تھی۔ اس کو دیکھ کر یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیےکہ وہ غلامی کے خلاف تھے۔ ایسا نہیں تھا،غلاموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی بات اس لیے کرتے تھے کہ اس میں خود آقاؤں کا ہی مفاد تھا۔ جس طرح ایک زمیندار کے جانوروں کا صحت مند ہونا خود زمیندار کے مفاد میں ہوتا ہے اسی طرح غلاموں کا اچھی حالت میں ہونا خود ان کے مالکوں کے مفاد میں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ غلاموں کے ساتھ بہتر سلوک کی بات کی جاتی تھی ورنہ جہاں تک غلامی کا تعلق ہے تو وہ اس کے زبردست حامی تھے۔
غلام یونان کے ہر شعبے میں کام کیا کرتے تھے۔ فنی کاریگر اور تاجر کم سے کم ایک غلام ضرور اپنی ملکیت میں رکھتے تھے، جو ان کے تمام امور سرانجام دیتا تھا ۔ وہ انہیں اپنے کام کی تربیت دیتے تھے تاکہ اگر وہ بوڑھے ہوجائیں تو ان کے کاروبار اور کام کی روانی میں کوئی خلل واقع نہ ہو ۔ غلام کرائے پر بھی حاصل کیے جاسکتے تھے۔ کارخانے چلانے والے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتےتھے، کیونکہ اس طرح ان لوگوں کو غلام کے کھانے پینے، اور رہن سہن کے خرچوں سےنجات مل جاتی تھی۔ شہری اور علاقائی حکومتیں عوامی معاملات اور امور کی انجام دہی کے لیے بھی کچھ غلام اپنی ملکیت میں رکھتے تھے۔16غلام صرف سرکاری اور تجارتی کاموں کے لیے مختص نہیں تھے بلکہ ان کو گھریلو امور، تفریحی مشاغل اور جسم فروشی جیسےقبیح کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اگر غلام کسی گھر میں کام کرتا تو اس کے ساتھ نسبتا بہتر سلوک کیا جاتا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کچھ ایسے بھی مالک تھے جو اپنے غلاموں کو مارتے اور زبردستی ان کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرتے تھے۔ غلام اگر پڑھا لکھا ہوتا تو اس کو امیر لوگ خرید لیتے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رکھ لیتے تھے۔ جو غلام طاقتور ہوتےوہ فوج کا اسلحہ اٹھانے کا کام کرتے تاکہ فوجی آخری وقت تک تازہ دم رہیں ۔ سب سے برا حال ان غلاموں کا تھا جو کانوں میں کام کرتے تھے۔ یہ زیادہ تر اسپارٹا(Sparta) میں رہائش پذیر تھے۔17
قدیم یونان میں غلام عورتیں (لونڈیاں) گھروں میں کام کیا کرتی تھیں۔ گھروں میں صفائی، کھانا پکانا، پانی بھرنا، کپڑے بننے میں گھریلو خواتین کی مدد کرنا اور بچوں کی دیکھ بھال کرناان کے فرائض میں شامل تھا۔ تمام ترگھریلو کام کاج کے علاوہ وہ اپنے مالک کی جنسی ضرورت کو بھی پورا کرتی تھیں۔ تاہم مرد غلاموں کے مقابلے میں ان کا کام زیادہ سخت نہیں تھا۔ غلام مرد کھیتوں میں، دھات سے برتن بنانے والے کارخانوں اور سونے اور چاندی کی کانوں میں کام کرتے تھے۔ ان کا کام بہت سخت ہوتا تھا۔ مالک انہیں بہت سخت سزائیں بھی دیتے تھے۔ حتیٰ کہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ یونانیوں کو کسی قانونی سزا کا خوف نہیں ہوتا تھا کیونکہ غلام کے قتل کو غیر قانونی اور نامناسب سمجھنے کے باوجود قتل کرنے والے مالک کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا ایک رسمی صفائی دینا تھی۔ 18
یونانی تہذیب میں غلاموں کا کام کھیتی باڑی کرنا، محنت مزدوری کرنا، تعمیراتی کاموں کو سر انجام دینا، صفائی کرنا، مردے اٹھانا اور ہر وہ خدمت بجالاناتھا جس کا آقا انہیں حکم دیا کرتا تھا۔ جنگوں میں غلاموں کو بطور ڈھال استعمال کیا جاتا تھا۔غلام چونکہ آزاد شہریوں کی ملکیت تصوّر کیے جاتے تھےاس لیے مالک ان کو فروخت بھی کردیا کرتے تھے۔ غلاموں کی کثرت آقاوٴں کی بڑائی تصوّر کی جاتی تھی۔ البتہ ان کی دیکھ بھال آقاوٴں کا صوابدیدی مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ ان کو نہ تو آقا کی ملکیت سے نکل جانے کا حق تھا اور نہ ہی اپنی مرضی سے کوئی کاروبار کرنے کرانے کی اجازت تھی۔ وہ صرف اپنے مالکوں کا حکم ماننے اور ان ہی کی خدمت پر مامور رہنے کے پابند تھے۔ یونانی تہذیب نےغلاموں کو یہ باور کرنے پر مجبور کردیا تھاکہ ان کا زندگی کے آخری لمحہ تک یہی مقدر ہے ا ورنا چاہتے ہوئے بھی اسی پر ان کو راضی رہنا ہے۔ 19
یونانی تہذیب کی رو سے غلام کو قتل کردینا کوئی جرم نہ تھا۔ لہٰذا شہریوں کی طرف سے ان کا عموماً قتل عام کیا جاتارہتا تھالیکن بعض اوقات انفرادی سطح سے ہٹ کر اجتماعی طور پر بھی قتل عام کی نوبت آجاتی تھی۔یونان میں غلاموں کی ایک قسم ایسی بھی تھی جو نیم غلامی کے زمرے میں آتی تھی۔ ان میں ہیلاٹ (Helot)بھی شامل تھے۔ یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے اور حکومت کو اپنی پیداوار کا ایک حصہ لازمی ادا کرنے کے پابند تھے۔ اسپارٹا(Sparta) سے تعلق رکھنے والے ہمیشہ ان غلاموں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے رکھتے تھے۔ ایک جنگ میں اسپارٹائی باشندوں کو غلاموں کی مدد کی ضرورت پڑی۔ لہٰذا ان کے بلاوے پر کثیر غلام ہیلاٹ (Helot)جنگ میں شریک ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑے لیکن بعد میں اسپارٹنز(Spartans) کو خیال پیدا ہوا کہ یہ غلام اپنی بہادری کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکر کہیں ہم پر ہی نہ حملہ آور ہوجائیں۔ لہٰذا اسپارٹنزنے اعلان کیا کہ ہیلاٹوں (Helots)میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ملک کی خدمت کی ہے وہ سامنے آئیں تاکہ انہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے۔ اس کے نتیجے میں 2000 ہیلاٹ (Helots)سامنے آگئے۔ تھوسی ڈائڈیز (Thucydides)کے بیان کے مطابق "شہریوں نے انہیں پھولوں کے ہار پہنائے اور جلوس نکالا، پھر خفیہ طور پر ان غلاموں کو قتل کردیا گیا کیونکہ شہریوں کاخیال تھا کہ ملک کی خدمت کرنے کے تصوّر نے ان کے دلوں میں اپنی بڑائی اور ا ہمیت کا خیال پیدا کردیا ہوگا جو شہریوں کے لیے خطرے سے خالی نہیں تھا"۔ 20
یونان میں انینا نامی ایک بڑا بازار تھا جہاں غلاموں کی تجارت ہوتی تھی۔ یہاں سے جو غلام خریدے جاتے تھے مالک ان سے اپنا ذاتی کام لیتا اور ان کو کرائے پر بھی دے سکتا تھا۔ یونان کی مختلف ریاستوں کے علاوہ شام،مصر، ایتھوپیااوراٹلی غلاموں کی تجارت کی اہم منڈیاں تھیں۔ ان منڈیوں میں یونانی غلاموں کی قیمت سب سے زیادہ ہوتی تھی۔ قیمت کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ایشیائی غلام ہوتے تھے۔21
یونا ن میں غلاموں کو آزاد کرنے کا رواج برائے نام ہی تھا کیونکہ آزادی کا راستہ بہت مشکل تھا۔آزادی کے بعد بھی ایک غلام کبھی بھی یونان کے شہری ہونے کا درجہ نہیں پاسکتا تھا ۔آزادی کا پہلا طریقہ یہ تھا کہ مالک گواہوں کے سامنے غلام کی آزادی کا اعلان کرتا۔ مالک کے اس اعلان سے پہلے کچھ شرائط کا پورا ہونا ضروری تھا جیسے کہ ایک طویل مدت تک مالک کی خدمت ۔ کچھ مالکان غلاموں کو اس وقت آزاد کرتے جب وہ بوڑھا ہوجاتا تاکہ مالک پر بوجھ نہ بن جائے۔ 22کچھ مالکان پیسے کو شرط رکھتے کہ غلام ایک مخصوص رقم کما کر اپنے آقا کو ادا کرے تو آزاد ہوجائے گا۔ یہ غلام آزاد ہونے کے بعد بھی نہ ہی زمین خرید سکتے تھے اور نہ ہی انتخابات میں حصّہ لے سکتے تھے۔ 23
غلاموں کی آزادی کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ اگرحکومت کوضرورت ہوتی تو فوجی خدمت کے لیے جتنے چاہتی غلام آزاد کرالیتی تھی۔ آزاد ہونے کے بعد ان غلاموں کو فوج میں بڑا عہدہ دیا جاتاتھا۔ آزاد ہونے کے بعد وہ چند مصائب میں گرفتار ہوجاتے تھے۔ رہنے کے لیے ان کو کسی شخص کی سرپرستی حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی۔ پھر انہیں ایک بھاری ٹیکس بھی ادا کرناپڑتاتھا۔ نیزغلاموں پر آزاد ہونے کے بعد بعض قوانین لاگو ہوجاتے تھے جن کی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں بطور سزا دوبارہ غلام بنادیا جاتاتھا۔ 24اسمبلی کا کوئی غیر معمولی ووٹ ہی اس غلام کو شہری حقوق دلاسکتا تھا۔ 25
یونان کے ملکی دستور کے مطابق کوئی اجنبی کسی کے غلام کو نہیں مار سکتا تھا۔ لیکن آقا کو معمولی معمولی خطاوٴں پر سخت سے سخت سزا دینے کا اختیار کلی حاصل تھا۔ صرف ایتھنز (Athens) میں یہ قاعدہ تھا کہ غلام اپنے آقا کی غیر انسانی حرکت کے خلاف احتجاج کرکے کسی ایک جائے پناہ میں پناہ لے سکتا تھا۔
غلاموں کی عام سزا کوڑے تھی جس کی تعداد50 تک تھی۔ دوسری قسم کی سزا حبس (قید)تھی جس کی مختلف صورتیں تھیں ۔ پاؤں میں بیڑیاں ڈال دینا تو اس قدر عام تھا کہ مذہب و اخلاق کے انسائیکلو پیڈیا کے بقول اس کو سزا ہی نہ کہنا چاہیے۔ایک قسم کی سزا یہ بھی تھی کہ غلام سے کانوں میں یا چکیوں پر بڑی ہی سخت محنت لی جاتی تھی یہاں تک کہ بعض اوقات یہی محنت ان کی حسرت ناک موت کا سبب بن جاتی تھی۔
جہاں تک یونانی دانشوروں کے نظریات کا تعلق ہےتو وہ غلامی کو انسانی المیہ سمجھنے کے بجائے، قانون فطرت سمجھتے تھے۔یہاں تک کہ ارسطوغلامی کو فطرت کا قانون سمجھتا تھا اور ریاست کی ضرورت کے لیے غلاموں کی موجودگی ضروری سمجھتا تھا۔افلاطون کا بھی یہی خیال تھا اوراس کے خیال میں زیادہ شدّت تھی۔
ارسطو(Aristotle) کے نزدیک غلامی ایک فطری اور طبعی امر تھا۔ اس لیے فطرت نے بعض کو حاکم اور بعض کو محکوم پیدا کیا ہے۔ وہ یہ رائے رکھتا تھاکہ آقا اور غلام کا امتیاز دونوں کے لیے مفید ہے ۔ ارسطو یہ بھی کہتا تھا کہ آقا کی تو اپنی ایک مستقل ہستی ہے مگر غلام کی غلامی سے الگ نہ ہستی ہے نہ زندگی۔ اس کے خیال میں غلام قوتِ ارادی سے محروم ہوتے ہیں۔ ارسطو(Aristotle) غلاموں کو محض ایک آلہ سمجھتا تھا لہٰذا وہ اس بات کا قائل تھا کہ ضرورت پڑنے پر مالک غلام کو رہن بھی رکھ سکتا ہے۔
ارسطو کے زمانے میں غلامی کے جواز و عدم جواز کے بارے میں بحثیں جاری تھیں۔ خود اس کے معاصرین میں بعض نے غلامی کی مذمت کی تھی مثلاً شاعر، فلیمیون(Phelmeon)اور میٹروڈورس(Metrodorous)نے۔ غلامی کے جواز اور عدم جوازکے بارے میں ہونے والی بحثوں کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یونانی ریاستوں کی باہمی جنگوں کے نتیجے میں جب یونانی بھی غلام بنائے جانے لگے تو بعض لوگوں نے اس پر احتجاج کیا۔ انہوں نے کہاکہ فطرت نے سب کو آزاد پیدا کیا ہے، یہ صرف قانون یا رسم و رواج ہے جس کی بناء پر ہم دوسروں کو غلام بنالیتے ہیں۔
ان ابحاث کا ارسطو(Aristotle) کی فکر پر یہ اثر ضرور پڑا کہ اس نے اہلِ یونان کو غلامی سے مستثنیٰ رکھا۔ اس کے علاوہ وہ سمجھتا تھاکہ غلامی ایک ضروری رسم ہے جو بہرحال قائم رہے گی۔ ارسطو غیر یونانی اقوام کو وحشی اورغیر متمدّن (Barbarians)سمجھتا تھا اور کہتا تھا کہ ان سے جنگ کرنی چاہیے اور انہیں اپنا غلام بنالینا چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتاتھا کہ "جس کسی کو غلامی سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اسے غلام بنالینا ہی انسب ہے اور عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔" غلاموں کا حصول بذریعہ جنگ ہی نہیں بلکہ ارسطو ان کی خرید و فروخت کا بھی جواز پیدا کرتا تھا۔
یہی نہیں ان غلاموں کے لیے آزادی کا ہر راستہ بھی ارسطو(Aristotle) نے بند کردیا تھا۔وہ کہتا تھاکہ غلام ہمیشہ غلام رہیں گے اور غلام کا کمال "غلامی"ہی ہے۔ یعنی جس طرح اشرافیہ اپنے شرف و فضیلت میں شجاعت، سخاوت، عدالت اورحکمت کے ذریعہ اضافہ کرسکتے ہیں، اسی طرح غلاموں کو خوئے اطاعت میں کمال حاصل کرنا چاہیے۔ ارسطو(Aristotle) غلام کو ذی روح آلے سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا تھا اور یہ سمجھتا ہے کہ غلام کی ہستی ریاست کے لیے ہے، ریاست اس کے لیے نہیں ہے۔26
یہ عجیب بات ہے کہ ارسطو(Aristotle) جس کے نظریات صدیوں تک مغرب کی رہنمائی کرتے رہے، انسان کو بحیثیت انسان کے نہیں دیکھ سکا۔ اس کی نظرانسان پر نہیں بلکہ انسانوں کے مختلف طبقات اور گروہوں پر تھی۔ یہ وہ طبقات اورگروہ تھے جومال و دولت یا پیشوں کے سبب بن گئے تھے۔ لہٰذا وہ انسان کو شریف اور رذیل، حاکم اور محکوم، آزاد اور غلام، کاریگراور دستکار کے طور پر دیکھتا تھااور یہ سمجھتا تھاکہ جو جس طبقے میں ہے اسے وہیں کام کرنا چاہیے، اسے اس امکان (طبقے) سے باہر قوم میں نہیں رکھنا چاہیے۔ ارسطو(Aristotle) کی اس سوچ کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ فطرت میں نہ ارتقاءکی گنجائش ہے نہ کسی ایسی تبدیلی کی کہ جس میں معاشرے کے تمام افراد کسی مشترک اور عالمی نصب العین کی طرف بڑھ سکیں جو کہ اسکے فلسفے کی خطا کا واضح ثبوت ہے ۔
یونانی تہذیب میں غلامی ضرورت کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ارسطو اور افلاطون جیسے قد آوریونانی حکماء بھی اس کی ضرورت کا دم بھرتے ہوئے نظر آتے تھے۔اگرچہ یہ اوران جیسے دیگر حکماء نے غلاموں سے حسن سلوک کرنے کی ضرورت کومحسوس کیا تھا مگر غلامی ختم کر نے کے متعلق کوئی بھی نہ سوچ پایا۔انسانیت سوزسلوک ، عصمت دری، عزت نفس کی پامالی اورفطری حقوق سے محرومی جیسے دیگر ہتک آمیزرسم ورواج اورمعاشرتی ناسور نے اس قوم اور اسکی فکر کو خاک آلود کر دیا تھا ۔
بچوں کی پیدائش قدیم یونانیوں کے لیے بہت اہم معاملہ تھا۔ اگر بیٹی پیدا ہوتی تو ایک روئی کا ٹکڑا گھر کے باہر لٹکادیاجاتا جس سے ہر باہر والا جان لیتا کہ یہا ں ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے اور جب ایک لڑکا پیدا ہوتا تو گھر کے باہر زیتون کے درخت کی بہت ساری شاخیں لگادی جاتیں اور پورے دروازے کو سجا دیا جاتا جو کہ ایک خوشی کی علامت بھی تھی کیونکہ یہ لڑکا آگے جاکر اس گھر کا وارث بننے والا تھا۔
ایتھینز (Athens)میں جب بھی کوئی اولاد پیدا ہوتی تو اس کو نیم گرم پانی اور خالص تیل سے نہلایا جاتا تھا۔ پھر کپڑے پہناکر ایک گرم سے بسترپر لٹادیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسپارٹا(Sparta) میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اس کو ایک ماہر دائی کے حوالے کردیا جاتا تھا تاکہ وہ اس بچے کی بہترین پرورش کرے۔27
جب یہ بچے تھوڑے بڑے ہوجاتے تو ان کو پڑھنے لکھنے کے لیے اسکول بھیجا جاتا تھا۔ بنیادی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کو جسمانی ورزش بھی کروائی جاتی تاکہ ان کا جسم مضبوط و توانا رہے۔ جب لڑکے 18 سال کی عمر کو پہنچ جاتے تو انہیں فوج میں بھرتی کرلیا جاتا اور مشق کرائی جاتی تھی۔ یہ تعلیمی سلسلہ صرف مردوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ عورتوں کو بھی تعلیم کے عمل میں شامل کیا جاتا تھا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو ناچنا ، گانا اور جیمناسٹیکس بھی سکھائی جاتی تھی تاکہ وہ تہواروں اور محافل میں ناچ سکیں۔ 28
قدیم یونانی تہذیب میں باپ خاندان کا مذہبی اور قانونی سربراہ تھا ۔اسے یہ حق حاصل تھا کہ اپنی بیٹیوں کو چاہے تو فروخت کردے۔ اسی طرح بھائی کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ بہن کو فروخت کرسکتا تھا۔قدیم یونانی تہذیب میں باپ کے انتقال کے بعد جائیداد کی وارث نرینہ اولاد ہوتی تھی۔ عورت کا اس میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ یونانی جو تہذیب قدیم میں سب سے زیادہ مہذب اور شائستہ تصوّر کیے جاتے تھے بیوی کو محض ایک اثاثہ سمجھتے تھے، جس کی خرید و فروخت کی جاسکتی تھی، بلکہ وصیت میں کسی اور کو منتقل بھی کیا جاسکتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ ایک بری چیز سمجھی جاتی تھی۔ایتھنز(Athens) کے شہریوں کو بے حد و حساب بیویاں رکھنے کی اجازت تھی۔29 عباس محمود العقّاد لکھتے ہیں:
وقد كان أرسطو يعيب على أهل اسبرطة أنھم يتساهلون مع نساء عشيرتھم ويمنحون من حقوق الوراثة والبائنة وحقوق الحرية والظهور ما يفوق أقدارهن، و يعزو سقوط اسبرطة و اضمحلالها إلى هذه الحرية وهذا الإسراف في الحقوق. 30
ارسطو اہل اسپارٹار پراعتراض کرتا تھا کہ وہ اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ نرمی کرتے ہیں اور انہوں نے انہیں وراثت، طلاق اور آزادی کے حقوق ان کی حیثیت سے زیادہ دے رکھے ہیں۔ جس کی بدولت انہیں بلند مقام مل گیا ہے، وہ اسپارٹا کے زوال کو عورتوں کی بے جا آزادی اور مذکور حقوق کو قرار دیتا تھا۔
احمد عبد العزیز الحصین سقراط کا قول نقل کرتےہیں:
إن وجود المرأة هو أكبر منشأ ومصدر للأزمة والانھيار في العالم وإن المرأة تشبه شجرة مسموة ظاهرها جميل ولكن عندما تأكل منھا العصافير تموت حالاً.31
دنیا میں عورت کا وجود تنگی اورتنزلی کا سب سے بڑا منبع ہے۔ اورعورت اس زہریلے درخت کی مثل ہے جس کاظاہر خوبصورت ہے مگر جب چڑیا اسے کھاتی ہے تو فوراً موت کاشکار ہوجاتی ہے۔
شاہ معین الدین ندوی سقراط کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوےئ لکھتے ہیں کہ اس نے کہا کہ:
"میں نے جس مسئلہ پر غور کیا اس کی گہرائیوں کو با آسانی سمجھ لیا۔ لیکن میں آج تک عورت کی فطرت کو کما حقہ نہیں سمجھ سکا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ عورت فتنہ انگیزی کی کس قدر طاقت رکھتی ہے۔ اگر دنیا میں عورت کا وجود نہ ہوتا تو دنیا امن و سکون کا گہوارہ ہوتی۔ لیکن آہ !بدنصیب عورت نے ساری دنیا کے امن و سکون کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ جب ہم عورت سے وابستہ ہوتے ہیں یا عورت ہم سے وابستہ ہوتی ہے تو ہماراسکون قلبی و اطمینان دلی رخصت ہوجاتا ہے۔ ہم تفکرات کے سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں، اور طرح طرح کی پریشانیاں ہم سے دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ ہم اپنے ملک اور قوم کی خدمات کا فرض سکون کے ساتھ انجام نہیں دے سکتے ہیں۔ کیونکہ عورت کی فتنہ انگیزیوں کے مقابلے سے فرصت ہی نہیں ملتی، اور اس کی سحر کاریاں ہمارے دل کو بے چین اور بے قرار کردیتی ہیں اور ہمیں فائدوں سے زیادہ نقصانات پہنچتے ہیں، پھر ان مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد بھی عورت وفاداری کااظہار نہیں کرتی ہے۔ ہمارے دلی جذبات کا لحاظ نہیں رکھتی اور ہماری روح کو تباہ کرنے سے باز نہیں آتی ہے۔ اگر وہ خوبصورت ہے تواپنی خوبصورتی کے خنجر سے، اور اپنے مکر و فریب کی چھری سے ہزاروں سادہ لوح انسانوں کو تباہ کردیتی ہے ۔اس کی بے پناہ طاقت کاکوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ وہ ایک ہی زہر آلود خنجر سے بعض کی دلنوازی کرتی ہے اور بعض کو ہلاک کردیتی ہے۔جن کو اپنی مہربانیوں کا مرکز بناتی ہے وہ بھی ابدی راحت حاصل نہیں کرپاتے۔ ان کی عافیت بھی غیر مستقل ہوتی ہے ۔غرض میرے نزدیک عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی محرک کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر یہ خیال صحیح ہے کہ نتائج کے عالم میں تغیر وتبدل ہوتا ہے، تو میں یہ کہتاہوں کہ جتنے بے رحم مرد ہیں وہ سب نتائج کے عالم میں عورت ہوجاتے ہیں۔ان خیالات کے ساتھ میں اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ حتی الامکان عورت کی سحرکاریوں اور شرارتوں سے محفوظ رہیں۔ اس کے جذبات کا احترام نہ کریں کہ وہ اپنے مکر و فریب میں کامیاب ہوجائے۔"32
قدیم یونان میں ولادت کے بعد نفاس کی وجہ سےعورتوں کو بذات خود ناپاک اور دوسرے کو ناپاک کرنےکا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔اس وجہ سے نہ صرف عورت ناپاک تصوّر کی جاتی بلکہ اس کا پورا گھر ناپاک خیال کیا جاتاتھا۔ اگر کوئی شخص اس عورت کے گھر داخل ہوجاتا تو وہ شخص بھی 3 دن کے لیے ناپاک متصوّر ہوتا تھا۔
عورت کے نکاح کے معاملات اس کا نگہبان یا والد ہی طے کرتا تھا۔ سب سے پہلے وہ شوہر کا انتخاب کرتا پھر اس مرد کے ساتھ جہیز اور دیگر معاملات طے کرتا تھا۔ اس کے بعد عورت کا نکاح کردیا جاتا اور سختی سے تاکید کی جاتی کہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق نہ رکھے۔ شوہر کو اپنی بیوی کے علاوہ کئی خواتین کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت تھی،جن میں غلام، باندیاں اور چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اگر ان حرکتوں کی وجہ سے بیوی شوہر کو چھوڑ کر چلی جاتی تو شوہر کے پاس یہ حق تھا کہ اپنی اس ناراض بیوی کو زبردستی گھر واپس لے آئے 33حالانکہ اس قوم میں جس کے علم و دانش کے چرچے زبان زد ِعام ہیں کوئی بھی یہ سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا کہ جب مرد اپنی بیوی کے علاوہ بھی کئی عورتوں سے تعلقات رکھ سکتا ہے تو وہ لازما کسی کی بہن ،بیٹی یا بیوی ہی ہوگی تو اگر ایک مرد نے کسی اور کی بیوی ،بہن یا بیٹی سے ناجائز تعلق بنائے تو لازما کوئی نہ کوئی اسکے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی کرتا ہوگا ۔یہ سادہ سا فطری اور عقلی قانون اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اہل یونان کو یہ معلوم تھا کہ انکی بیویاں ،بیٹیاں اور بہنیں سب ہی اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں مگر اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ اس فعلِ قبیح کو چھوڑنے کے لیے کسی صورت بھی تیار نہ تھے ۔
قدیم یونان میں عورتوں کو قانونا کسی قسم کی جائیداد رکھنے کا حق نہیں تھا خاص کر ایتھنز (Athens) میں۔ 34حد تو یہ تھی کہ شادی کے وقت جو جہیز ملتا، وہ بھی عورت کے قابو میں نہیں ہوتا بلکہ شوہر کے قبضہ میں چلا جاتا تھا ۔ اگر شوہر طلاق دیتا تو جہیز دوبارہ لڑکی کو ملنے کے بجائے اس کے والد یا نگہبان کو واپس کردیا جاتا تھا۔ جب عورتیں بوڑھی ہوجاتیں تو ان کو بھلا دیا جاتا تھا۔ ان سے گھر کے چھوٹے چھوٹے کام لیے جاتے لیکن عزت بلکل نہیں کی جاتی تھی۔ ان کو شہوانی لذّت پوری کرنے والی اور شراب کی بھوکی بوڑھی چڑیلیں سمجھا جاتا تھا ۔ 35
شہری ریاستوں میں تقریبا ایک تہائی اجنبی آزاد لوگ قیام پذیر تھے۔ ان لوگوں کو میٹکس (Metics)کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ ایتھنز (Athens) میں بہت خوش رہتے تھے۔ ان کے پاس تمام شہری حقوق تھے لیکن سیاسی حق ایک بھی نہ تھا اور قانونی طور پر نہ ہی وہ کوئی زمین اپنے نام پر رکھ سکتے تھے، نہ ہی کسی رہائشی عورت سے شادی کرسکتے تھے۔ عام لوگوں کے مقابلے میں ان کے اوپر زیادہ لگان مسلط کیا گیا تھا ۔تمام عسکری و معاشرتی فرائض پورے کرنے کے باوجود وہ کبھی بھی یونان کے باسی نہیں بن سکتے تھے۔
خوراک کے طور طریقے یونان کے علاقوں اور لوگوں کی مالی استعداد کے اعتبار سے بدلتے رہتے تھے۔ سب سے برا کھانا اسپارٹا(Sparta) کا سمجھا جاتا تھا۔ عمومی طور پر لوگوں کی خوراک زیتون کا تیل، شراب، جَواورگندم پر مشتمل تھی۔ گندم کا آٹا گوندکر بھی روٹی بنائی جاتی تھی اور کبھی بغیر گوندھے بھی۔
قدیم ادوار میں یونانی سورج طلوع ہوتے ہی ناشتہ کرلیتے تھے۔ اس کے بعد دوپہر میں ڈٹ کر کھانا کھاتے اور پھر رات میں کھاتے تھے۔ بعدازاں ناشتے کو خارج کردیا گیا لیکن چوتھی صدی قبل مسیح میں لوگوں نے ناشتہ کرنا دوبارہ شروع کردیا تھا۔ کھانے کے لیے یہ لوگ اپنی انگلیوں اور روٹیوں کا استعمال کرتے تھے۔ان کے ہاں رواج تھا کہ عورت اور مرد الگ الگ کھانا کھاتے تھے۔36
روٹی ان کی غذا کا اہم حصہ تھی ، اسے ہر کھانے کے وقت ساتھ رکھا جاتا تھا۔ روٹی دو طرح کی تھی ایک کا نام مازا(Maza) تھا ، اس کو بنانے کے لیے جَو، شہد ، پانی یا تیل کو ملا کر ایک آٹا بنایا جاتا پھر آگ پر پکایا جاتا تھا۔ دوسری روٹی آرٹوس(Artos) کہلاتی تھی۔اسےخالص گندم سےبنایا جاتا تھا۔
اس روٹی کے ساتھ جو بھی خوراک کھائی جاتی اسے اپسن(Opson)کہتےتھے،چاہے وہ سبزی، زیتون، انڈا ہو یا گوشت۔ اس دور میں سبزیاں دالوں سے زیادہ مہنگی ہوا کرتی تھیں، لہٰذا غریبوں کے ہاں دالیں زیادہ پکائی جاتی تھیں۔ ایتھنز (Athens) میں لوگ ناشتے میں مازا یا آرٹوس کو شراب اور زیتون یا پھر انجیر کے ساتھ تناول کرتے تھے۔
گوشت صرف خاص تہواروں میں کھایا جاتا یا پھر اس وقت جب چڑھاوے کے لیے جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی۔ اس وجہ سے یونانی گوشت کم کھایا کرتے۔مچھلیاں بھی خوراک میں شامل تھی۔ جو لوگ دیہاتوں میں رہتے، وہ شہر یوں کی نسبت زیادہ گوشت کھاتے تھے۔ اسپارٹا(Sparta) کے لوگ عجیب طرح کے کھانے کھاتے جو شراب، جانور کے خون اور سرکہ سے تیار کیےجاتے تھے۔37
قدیم یونان میں شراب ایک عام مشروب کی طرح پی جاتی تھی۔ کچھ شرابوں میں خاص مصالحے ملائے جاتے تھے تاکہ الگ الگ ذائقے کی شراب تیار کی جاسکے۔ شراب میں اگر کوئی پانی ڈال کر پیتا تو اس شخص کو جاہل سمجھا جاتا تھا۔ جو اچھی شرابیں تھیں ان کی قیمت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اسی لیے غریب گھٹیا قسم کی شرابیں پیا کرتےتھے۔ شراب کے علاوہ بکریوں اور بھیڑوں کا دودھ بھی پیا جاتا تھا۔ 38
اس زمانے میں گھر خاص لکڑی، چکنی مٹی اور پتھروں سے تعمیر کیے جاتے تھے ۔ گھر صرف ان چیزوں کا مجموعہ نہیں تھا بلکہ اسے منصوبہ بندی کے بعد بنایا جاتا تھا۔ ایتھنز (Athens) میں امیروں یا متوسط طبقہ کے مکانات اکثر ایک منزلہ ہوا کرتے تھےلیکن غریب لوگ اور غلام تین اور چار منزلہ عمارتوں میں ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔ جو ایک منزلہ گھر ہوتےان کے ساتھ ایک صحن بھی ہوتا جہاں گھروالے کام سے فارغ ہونے کے بعدتازہ ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لیے بیٹھتے تھے۔ ان گھروں میں عورتوں کے لیےبھی مخصوص کمرے ہوتے جہاں کسی بھی باہر کے آدمی کو داخل ہونے کی اجاز ت نہیں ہوتی تھی۔39
یونان کے ماینون(Minoan) دور میں کچھ خواتین زمین تک لمبے کپڑے پہنتی تھیں جبکہ کچھ خواتین اپنا سینا مکمل برہنہ رکھتیں اور صرف ایک تہبند اپنی ناف سے تھوڑا اوپر باندھتی تھیں۔ ان کپڑوں کے اوپر وہ خواتین مختلف اقسام کی ٹوپیاں بھی پہنا کرتی تھیں۔ مائی سینین (Mycenaean) دور میں خواتین بھی لمبے کپڑے پہنا کرتیں جن کی لمبائی زمین تک رکھی جاتی تھی لیکن فرق یہ تھا کہ ان کے لباس کے بازو چھوٹے ہوتے تھے کبھی کبھی عورتیں اوپر چادر بھی پہنا کرتی تھیں۔
اس دور کی خواتین ایک اور لباس زیب تن کرتیں جس کا نام پیپلوس(Peplos) تھا ۔ اسےاون کی چادر سے بنایا جاتا تھا ۔ اس کو پہننےکا طریقہ یہ تھا کہ اس کپڑے کو عورت کے جسم کے گرد لپیٹا جاتا پھر ایک ایپومس(Epomis) نامی کپڑے سے کاندھوں کو ڈھانپا جاتا اور مضبوطی کے لیے پن لگادی جاتی تھی۔ اس لباس کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے عورتیں اس کے اوپر بھی ایک خوبصورت چادر پہن لیا کرتیں جس کو ہمیشن (Himation) کہا جاتا تھا۔
مرور زمانہ کے ساتھ ان کے لباس میں تبدیلی آئی اور انہوں نے پیپلوس(Peplos)سے چیٹون(Chiton) کی طرف عدول کیا۔ اس لباس کو دو کپڑوں کو ایک ساتھ سی کر بنایا جاتا تھا جس کے بازو نہیں بنائے جاتے تھے،یہ لباس وہاں کی خواتین اور مرد دونوں پہنتے تھے۔ ان لوگوں کے ہاں یہ رواج بھی تھا کہ جب بھی خواتین گھر سے باہر جاتیں تو اوپر چادر اوڑھ کر جاتی تھیں جو کہ باریک اون سے بنائی جاتی تھی۔ اگلے زمانوں تک یہ لباس پہنے جاتے رہے لیکن زمانے کے اعتبار سے ان میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی چلی گئی تھیں۔40
اسپارٹا (Sparta)میں خواتین عمر کے اعتبار سے فیشن اپناتی تھیں ۔ کنواری لڑکیاں کم کپڑے پہن کر گھومتیں تاکہ ان کو شوہر مل سکے جبکہ شادی شدہ خواتین اپنے چہروں کو ڈھانپ کر باہر جاتی تھیں ۔ اسپارٹا میں باقاعدہ قانون تھا کہ جوان کنواری لڑکیاں بالکل باریک اور کم کپڑے پہنیں اور وہاں کے قومی تہواروں میں جوان لڑکوں کے سامنے برہنہ ناچیں تاکہ ان کے اندر شادی کی خواہش پیدا ہو۔ قانون دان لیکرگس(Lycurgus) کے مطابق ان کپڑوں سے اسپارٹا کی لڑکیوں کو دوڑنے، اور دیگر ورزشوں میں آسانی محسوس ہوتی تھی کیونکہ ان کی اسکرٹس دونوں ٹانگوں سے کھلی تھی اور چلنے دوڑنے میں خلل نہیں بنتی تھی۔ 41
اس دور کے مرد چیٹون (Chiton) پہنا کرتے جو کہ صحیح طریقے سے سلی ہوئی ہوتی اور اس کے بازو بھی ساتھ سلے ہوتے تھے۔ امیر اور بڑی عمر کے لوگ ٹخنوں تک لمبی چیٹون پہنتے جبکہ جوان لڑکے وہ چیٹون پہنتے جو رانوں تک لمبی ہوتی تھی۔ یہ چیٹون لینن کا ہوتا لیکن سستے اون سے بنایا جاتا تھا جوگرم بھی ہوتا تھا۔ اس لباس کے اوپر مرد چادر بھی اوڑھا کرتے اور اس کے نیچے ایک چھوٹی سی لنگوٹی بھی پہنا کرتے تھے۔
اکثر لوگ گھر کے اندر اور باہر برہنہ پیر ہی پھرا کرتے تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان لوگوں کے پاس جوتے نہیں تھے۔ ان کے پاس مختلف اقسام کے جوتے اور چپل موجود تھے جو گائے یا بھیڑ کے چمڑے سے بنائے جاتے تھے۔ کچھ جوتوں کا نچلا حصّہ تو لکڑی سے بھی بنایا جاتا تھا۔ ان کے ہاں خاص قسم کے سینڈل بنائے جاتے جن کو سینڈلیہ (Sandalia)یا پیڈیلا(Pedila) کہا جاتا تھا ۔ جس میں ایک پٹی ہوتی جو صرف پیر کے ساتھ باندھی جاتی تھی یا پھر اتنی لمبی ہوتی کے رانوں تک باندھی جاتی تھی۔42
قدیم یونانی معاشرے میں نکاح کے معاملات لڑکی کے والد یا اس کے نگہبان کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ اس سماج میں شادی کرنے کی ایک وجہ سیاسی بھی تھی۔ امراء اور سیاستدان عموما امیرو ں میں ہی شادی کرتے تھے تاکہ تعلقات بہتر ہوں اور دولت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔
سب سے پہلے لڑکی کا وارث لڑکے سے یا اس کے وارث سے رشتہ طے کرکے منگنی کرتا تھا۔ لڑکی کو اس فیصلہ سے انکار یا کچھ بھی فیصلہ کرنے کا حق نہیں تھا۔ لڑکی کی غیر موجودگی میں ہی رشتہ طےکیا جاتا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ لڑکی کا رشتہ بالکل بچپن کی عمر میں ہی طے کردیا جاتا تھا۔ جب رشتہ ہوجاتا تو لڑکی کا جہیز لڑکے کو پہنچادیاجاتا تھا ۔جہیز زمین، رقم، دیگر سامان اور غلاموں پر مشتمل ہوتا تھا۔
شادی کے وقت دولہا دلہن سے عمر میں دگنا ہوتا تھاحالانکہ افلاطون کے مطابق مردوں کو شادی جلدی کرنی چاہیے تاکہ اولاد پیدا ہو ۔ لڑکیوں کی عموما 14 سے 18 سال میں شادی کردی جاتی تھی۔ ایک اور فرق ان کے حقوق میں یہ تھا کہ لڑکا شادی سے پہلے بھی دوسری لڑکیوں کے ساتھ کئی بار ناجائز تعلق رکھ چکا ہوتا تھا 43 جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جس لڑکی سے شادی کرتا وہ بھی کسی اور کے ساتھ پہلے تعلق استوار کرچکی ہے ۔
شادی بیاہ کے موقع پر یونانیوں کے ہاں بھی ضیافت کا اہتمام کیا جاتاتھااورلڑکی رخصت ہوکر اپنے شوہر کےگھر جاتی تھی۔اس بارےمیں کیتھرین چیمبرز تحریر کرتی ہے:
A wedding ceremony in an ancient Greece consisted of a series of rituals. One of the most important events was the wedding procession, which took the bride from her father's house to her new husband's home, before leaving the bride took a special bath and sat veiled while a great feast took place. 44
قدیم یونان میں شادی بیاہ کی تقاریب رسومات کے طویل سلسلوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ شادیوں کی مجالس بہت اہمیت کی حامل تھیں جس میں نو بیاہتہ دلہن کو اپنے والد کے گھر سے اپنے شوہر کے نئے گھر میں منتقل کیا جاتا تھا۔ رخصت ہونے سے پہلے دلہن ایک خاص غسل کرتی اور پردے میں بیٹھ جایا کرتی تھی، اس دوران ایک بہترین ضیافت کا انتظام ہوا کرتا تھا۔
شادی کی دعوت تین دن تک چلتی رہتی جس میں مختلف قسم کی رسومات ادا کی جاتی تھیں۔ شادی سے قبل دن کو پراؤلیہ(Proaulia) ، شادی کے دن کو گاموس (Gamos)، اور شادی کے بعد والے دن کو ایپاؤلیا (Epaulia) کہا جاتا تھا۔ ان تین دنوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
شادی سے پہلےایک دن بہت سی رسومات ادا کی جاتی تھیں جن میں چڑھاوے، دعائیں اور غسل کرنا شامل تھا۔ یہ چڑھاوے دلہا اور دلہن کے نام پر دیوتاؤں کے سامنے پیش کیے جاتے تھے تاکہ رشتے میں دیوتاؤں کی رضامندی بھی شامل ہوجائے۔ ان چڑھاووں کو پروٹیلیہ(Proteleia)کہا جاتا تھا۔یہ رسم معبدکے باہر ادا کی جاتی تھی۔ چڑھاوے کسی خاص دیوتا کے لیے نہیں بلکہ آرٹیمیس(Artemis)، ایفروڈائیٹ(Aphrodite)، ہیرا(Hera)، ایتھینا (Athena)، مقامی دیوتا اور ان کے آباؤاجداد کے نام پر بھی دئے جاتے تھے۔
شادی کے دن دلہن کو ایک خاص طریقے سے غسل دیا جاتا تھا۔ یہ غسل شادی کی صبح دیا جاتا جو اس بات کا ثبوت ہوتا کہ لڑکی شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہے۔ اگر کوئی لڑکی شادی سے پہلے مرجاتی تو اس کو دفنانے سے پہلے یہ غسل دیا جاتا تھا۔ اس خاص غسل کے بعد دلہن کو مہنگے ترین کپڑے پہنائے جاتے۔ مہنگے کپڑے پہنانے کے بعد ایک ماہر عورت کو بلایا جاتا جس کو نیمفوکوموس (Nymphokomos) کہا جاتا تھا تاکہ وہ دلہن کو تیار کرے۔ ان لوگوں کے نزدیک دلہن پر ایک پتلے کپڑے کا نقاب ہونا ضروری تھا جس کو دولہا اٹھاتا تھا۔ یہ نقاب ایک پتلے کپڑے کا بنا ہوتا جس کی سجاوٹ پر بہت کام ہوتا اور انتہائی مہنگا ہوتا تھا۔
دلہن کے ساتھ ساتھ دولہا بھی بہترین طریقے سے تیار ہوتا تھا۔ اس کے کپڑے سب سے اعلیٰ معیار کے سفید رنگ کے ہوتے، کیونکہ ان کے نزدیک سفید رنگ اچھے شگون اور خوشی کی علامت تھی۔ اس کے علاوہ زرخیزی کے لیے دولہے کو ایک تیل کا بنا ہوا ہار پہناتے جس میں ایک خاص پودا لگا ہوتا جو زرخیزی کے لیے مشہور تھا۔
جب دلہا اور دلہن موجود ہوتے تو پھر دعوت کا آغاز ناچنے اور گانے سے کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد خوب کھانا کھایا جاتا اور شراب پی جاتی تھی۔ یہ دعوت دولہا یا دلہن میں سے کسی کے گھر پریا پھر معبد میں کی جاتی تھی۔ ان دعوتوں میں کئی طرح کے کھانے رکھے جاتےجسے مہمان سیر ہوکر کھاتے تھے۔ جب سب کھا نے اور ناچنے سے فارغ ہوجاتے تو پھر ایک بارات کی شکل میں دلہن کو اپنے نئے گھر لے جایا جاتا تھا۔ جب بارات جارہی ہوتی تو دولہا دلہن پر سفرجل کے پھل پھینکے جاتے تاکہ اس نئے جوڑے کی اولاد ہونے میں کوئی مشکل نہ ہو۔
شادی کے اگلے دن ایک اور دعوت کا اہتمام کیا جاتاجس میں مرد و خواتین دل کھول کر ناچتے اور کھاتے پیتے تھے۔ اس دن مہمان دولہا دلہن کو تحائف دیتے تھے۔ دلہن کو عموما وہ چیزیں دی جاتیں جس سے اس کی خوبصورتی قائم رہے اور اس میں مزید اضافہ ہو، جیسے صابن ، عطر وغیرہ۔ اس تحفہ کے علاوہ دلہن کو ایک خاص طرح کا برتن بھی دیا جاتا تھا۔ برتن دینے کا مقصد یہ ہوتا کہ دلہن کو یاد دلایا جائے کہ وہ ایک خالی برتن ہے تو وہ جلد از جلد اپنے شوہر کے نطفے کو قبول کرلے تاکہ نطفہ بڑھنا شروع ہو اور بچے کی شکل کو اختیار کرکے اس برتن کو بھرلے۔ یہی وجہ تھی کہ بچے کو عورت نہیں بلکہ مرد کی ملکیت سمجھا جاتا تھا کیونکہ بغیر شوہر کے نطفے کے ،عورت کا برتن خالی ہی تصوّر کیا جاتا تھا ۔ 45
اسپارٹا میں شادی کا رواج سب سے عجیب تھا۔ ان کےہاں رخصتی کا طریقہ یہ تھا کہ دولہا دلہن کو زبردستی اٹھا کر اپنے گھر لے جاتا تھا۔ ان کے ہاں دلہن کی عمر14 سے 18 سال نہیں بلکہ وہ پکی عمر کی ہوتی تھیں۔ان کو نفاست سے تیار کرنے کے بجائے مرد کے کپڑے پہنائے جاتے، بال بلکل چھوٹے کردیے جاتے کہ ان کا سر نظر آنے لگتا تھا اور ایک بستر پر اندھیرے کمرے میں لٹا دیا جاتا جہاں سے دولہا اسے اٹھا لےجاتا تھا۔ 46
یونان میں یہ قانون تھا کہ جب بھی کسی عورت کو طلاق ہوتی تو اس کا سارا جہیز اس کے والد یا پھر نگہبان کے پاس چلا جاتا تھا۔ اس قانون کی وجہ سے شوہر عورت کے ساتھ بدسلوکی کرنےاور طلاق دینے میں کتراتا تھا۔ اکثر طلاقیں مرد ہی دیا کرتے تھے جس کی وجہ یا تو عورت خود ہوتی یا اس کے رشتہ دار ٹھہرائے جاتے تھے ۔ 47
بعض قدیم یونانیوں میں یہ تصوّر بھی تھا کہ بچے کی ولادت ایک دشمن کی آمد ہےکیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر بچہ زندہ رہ جائے تو وہ والدین کی قلیل کمائی کو ختم کردے گا جس سے والدین کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ لہٰذا والدین پر واجب تھا کہ وہ اس کے ساتھ جنگ کریں اور اسے اپنے گھر سے خارج کردیں تاکہ وہ سسک سسک کر مر جائے یا پھر خود ہی قتل کردیں کیونکہ اسی میں والدین اور تمام یونانی معاشرے کی بھلائی تھی۔48اس حوالے سے ابو النصر فارابی رقمطراز ہیں:
فإن ولد للشعب وللحراس أطفال فى غیر زمن المحدد إعدموا وكذلك یعدم الطفل ناقص التکوین والولدفاسد الأخلاق والرجل الضعیف عدیم النفع والمریض الذي لایرجى له شفاء.49
اگر عوام الناس اور محافظوں کے بچے مقررہ وقت پر پیدانہ ہوں تو انہیں قتل کردیا جاتا تھا۔ اسی طرح وہ بچہ جو جسمانی طور پر ناقص ہوتا، وہ لڑکا جس کے اخلاق بگڑے ہوئے ہوتے، وہ کمزور مرد جس سے کوئی نفع نہیں پہنچتا یا وہ بیمار جس کے تندرست ہونے کی کوئی اُمید نہ ہوتی، ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا تھا۔
قدیم یونانی باشندے نسل کشی کی ایک خاص شکل کو اپنائے ہوئے تھے۔ اپنی اس ناقص اور اپاہج اولاد کو قتل کرنے کے بجائے ان کو مرنے کے لیےچھوڑ دیتے تھے ۔ ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ جو بچہ بھی ناقص ہو، اسے گھر کے باہر چھوڑ دیا جائے تاکہ ان کا کوئی بھی دیوتا اس بچے پر ترس کھا کر اسے بچالے جو کہ بجا طور پرایک غلط سوچ، بے وقوفی اور ظلم و زیادتی تھی۔ ان میں اکثر بچے مارے جاتےتھے ۔ 50 بچیوں کی نسل کشی ایتھنز (Athens) میں بہت عام تھی کیونکہ ان کے ہاں اولاد کے رکھنے کا فیصلہ والد کیا کرتا تھا۔ کثیر مرد بیٹوں کی طرف زیادہ رغبت رکھتے تھےکیونکہ بیٹے کھیتی باڑی اور دیگر کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے اور ان کے وارث ہوتے تھے۔ 51
اسپارٹا میں نوجوان عورتوں کے برہنہ جلوس نکالنے کا رواج تھا جس میں وہ ناچتی اور ورزش کرتی نظر آتی تھیں۔مردوں کو تاکید تھی کہ وہ ان برہنہ جلوسوں کا نظارہ کریں تاکہ انہیں دیکھ کر ان میں شادی کا شوق پیداہو۔ جومرد زیادہ عرصہ شادی نہیں کرتا اس کے حقوقِ شہریت ساقط کردیے جاتےتھے۔52شادی کے بعد بیوی محض ایک اثاثہ تصوّر کی جاتی تھی جس کی خریدوفروخت بھی کی جاسکتی تھی بلکہ وصیت کے ذریعے منتقل بھی کی جاسکتی تھی۔ڈیموسیتھنز (Demonsthenes)فخریہ بیان کرتاہےکہ اس قوم میں عورتوں کے تین طبقات تھے جن میں سے دوطبقےنکاحی بیاہی اورنیم نکاحی بیاہی عورتیں مہیا کرتے تھے۔53ارسطو(Aristotle)بھی ایک معنوں میں عورت کو پست چیز ہی قرار دیتاتھا۔وہ عورتوں اورغلاموں میں کوئی فرق نہیں کرتاتھا بلکہ وہ سمجھتاہےکہ عورتوں پربھی آقاکی طرح ہی حکومت کرنی چاہیے۔54
چھٹی صدی قبل مسیح میں یونان میں عوامی حمام قائم کیے گئے جہاں مرد اور عورتیں ورزش کرنے کے بعد نہایا کرتے اور آپس میں بات چیت اور جسمانی تعلق قائم کرتے تھے۔ بعد ازاں یہ سب دیواروں کے اندر محدود کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مزید چیزیں جیسے کہ نیم برہنہ خواتین کے ہاتھوں سے مالش اور پانی سے بھاپ لینے والے کمروں کا اضافہ کردیا گیا تھا۔ سب سے پہلے مرد کو گرم پانی سے ایک یا ایک سے زائد لڑکیاں نہلاتیں اور پھر اس کے جسم پر تیل ملا جاتا تاکہ وہ لطف اندوز ہو اور اس کی جلد اچھی ہوجائے۔ 55
ہم جنس پرستی، جسے جاں بازانہ مطمح حیات نے فروغ دیا، یونانیوں کو اس بات پر مجبور کردیا تھا کہ وہ بہت سارے جذبات جو عورتوں اور مردوں کے درمیان جاری رہا کرتے تھے، انہیں مردوں کے درمیان ابھرنے دیں۔ یونانیوں نے دوستی، قربت اور وفاداری کو وہ شکل دی جو کہ عموماً عورتوں سے محبت کے دوران رونما ہوتی ہے۔ پیار کا یہ جذبہ جو یونانی مردوں میں ایک دوسرے کے لیے پیدا ہوا، اس کا خالص جسمانی اور جنسی روپ بھی تھا اور یہ بھی جاں بازانہ طرز زیست کا پروردہ تھا ارسطو(Aristotle) نے کہاتھا: روایت رہی ہے کہ ہم جنس پرستی کو اہل ڈوریہ(Dorians) نے یونان میں رائج کیا تھا اور (امردپرستی)کی یہ عادت سارے یونان میں پھیل گئی تھی۔56یونان میں ہم جنس پرستی کی ایک اور قسم بھی رائج تھی جسے پیڈیرسٹی(Paederasty) کہا جاتا تھا۔اس کے متعلق رابرٹ(Robert) لکھتا ہے:
The term paederasty is often applied somewhat loosely to any sexual relationship between older and younger males. It defined in ancient Greek tradition a publicly acknowledge relationship in which an adult male citizen educated and formed a founder freeborn male in the context of an erotic bond. 57
پیڈیرسٹی کو اصطلاحی طور پر کسی جوان مرد کے بچوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے عمل کو کہا جاتا تھا۔ قدیم یونان میں اس فعل کو اعلانیہ طور پر قبول کیا گیا تھاجس میں ایک جوان مرد شہری تعلیم کے حصول کے ساتھ ایک آزاد مرد کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کر سکتا تھا۔
قدیم یونان کی کتب اور تصاویر اس بات پر شاہد ہیں کہ ہم جنس پرستی کو یونانی معاشرے میں قبول، بلکہ کچھ مقامات پر پسند بھی کیا جاتا تھا ۔ خاص کرمردوں کے درمیان ہم جنس پرستی کی حمایت بھی کی گئی تھی۔ان کے نزدیک مردوں کے درمیان یہ رشتہ یونانی معاشرتی اصولوں کے عین مطابق تھا۔ اس رشتے میں یونانی مرد اتنے ملوث ہوگئے تھے کہ عورتوں کے ساتھ صحبت کرنا ان کے نزدیک زیادہ اہم نہیں رہا تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عورتیں ان کے نزدیک مرد کےمقابلے میں ذہنی اور اخلاقی طور پر پست ہیں۔
زیادہ تر امراء اس قبیح فعل میں ملوث تھے اور اپنی شہوانی لذت کے حصول کے لیے 12 سے 20سال کے لڑکوں کا انتخاب کرتے تھے۔ جو لڑکے16 سے 17 سال کے ہوتے، انہیں سب سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔وہ سب سے زیادہ خوبصورت تصوّر کیے جاتے تھے۔ ان لڑکوں کا کام یہ ہوتا کہ وہ امراء کی خواہشات کو پورا کرتے جیسے کہ ان کے ساتھ ہم بستر ہونا، ان کے جذبات کو ابھارنے والی حرکتیں کرنا وغیرہ وغیرہ، اور اس کے بدلے وہ انہیں تحائف سے نوازتے تھے۔ایسےلڑکوں کو پسند نہیں کیا جاتا جن کی کچھ عادات یا جسم عورتوں سے مشابہت رکھتے ہوں۔58
ان کے اہل علم و حکماء بھی اس قبیح فعل میں جتے ہوئےتھے۔ افلاطون کے مطابق اس کا استاد سقراط تو لڑکوں کا دیوانہ (Boy Crazy) تھا اور جب وہ لڑکوں سے گھرا ہوتا تو اپنے ہوش کھو بیٹھتا تھا۔ اکثر سقراط کی یہ شکایت تھی کہ وہ بچوں سے دور نہیں رہ پاتا تھا۔ ژینوفون (Xenophon) بیان کرتا ہے کہ سقراط اپنی اس عادت پر مکمل قابو تو نہیں پا سکا لیکن اس عادت کو اپنے اوپر مکمل حاوی بھی نہیں ہونے دیا ۔ اس عادت کا حل سقراط نے یہ نکالا کہ کبھی بھی کسی بچے کے ساتھ نہ لیٹتا بلکہ صرف ان کے ساتھ بوس و کنار کرتا تھا ۔59
قدیم یونان میں نسوانی ہم جنسیت کا رواج بھی موجود تھا۔60 بعض علاقوں میں یہ قبیح فعل بہت عام تھا۔ کچھ علاقوں میں تو یہ فعل بہت پسند کیا جاتا تھا، خاص کر لیسبوس (Lesbos) میں، جہاں کی ریت و روایات یونان کے دیگر علاقوں سے بالکل مختلف تھیں۔ 61
اس علاقے میں عورت کو بے پناہ آزادی دی گئی تھی اور خواتین کھلے عام ایک دوسرے سے جنسی تعلق قائم کرتی تھیں۔ اسی شہر کے نام پر ہی عورت کےعورت سے جنسی تعلق قائم کرنے کے عمل کو لیسبئنزم (Lesbianism) کا نام دیا گیا ہے۔62پلوٹارک (Plutarch) کے مطابق اسپارٹا(Sparta) میں اکثر ادھیڑ عمر کی خواتین کنواری لڑکیوں کےساتھ ناجائز جنسی تعلقات قائم کرتی تھیں ۔ان لوگوں کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں تھی۔63
یونانی اپنے دور عروج میں اخلاقی خرابیوں کا شکار تھے۔ مرداخلاقی اعتبار سے آزاد تھے۔ ان سے پاکیزگی اور عصمت کی توقع نہیں کی جاتی تھی۔ طوائفوں سے تعلق رکھنا ان کے ہاں معیوب نہ تھا البتہ گھریلو عورتوں سے عصمت و شرافت کی توقع کی جاتی تھی۔ اس دور میں عورتیں گھروں میں رہتیں اور مخلوط مجالس میں شریک نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے گھروں میں مرد اور عورتوں کے الگ حصے تھے۔ یونانیوں کے ہاں جب اخلاقی تنزل شروع ہوا تو پھر ان میں زنا کاری عام ہوئی۔ یہ وہ دورتھا جس میں طوائف کلچرکو خوب فروغ حاصل ہوا ۔ 64
اس کلچر سے معاشرے کی حالت کیا ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بدکار عورتوں کوایک خاص مقام حاصل تھااوران کومختلف ناموں سے پکارا جاتا تھانیز مرد زِنا کرنے کو برا ہی نہ جانتے تھے بلکہ ان کے نزدیک عیش ونشاط اور اولاد پیداکرنے والی عورتوں میں تفریق ہو جاتی تھی۔ اس تناظر میں گلیزربروک (Glazerbrook) لکھتا ہے:
The oldest attested Greek word for brothel is "ergasterian" (workshop) and appears in the early sixth-century BCE law of solon which effectively legalized prostitution by defining the groups of women with whom one could have intercourse without fear of legal consequences.65
چکلے کے لیے قدیم تصدیق شدہ یونانی لفظ "ارجرتیرین" تھا جس کا معنی کارخانہ کے تھے۔ یہ لفظ چھٹی صدی قبل مسیح کے اوائل میں سامنے آیا،جس میں رنڈی بازی کو باضابطہ طور پر مکمل قانونی حیثیت دے دی گئی تھی۔ اس قانون میں ان عورتوں کے گروہ کا تعین کیا گیا جس کے ساتھ کوئی بھی شخص قانونی پیچیدگیوں میں گھرنےکے خوف سے آزاد ہوکر مباشرت کر سکتا تھا۔
طوائف کا کوٹھا یونانی سماج کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقوں تک ہر ایک کا مرکز و مرجع بنا ہوا تھا۔فلسفی ، شعراء، مؤرخین، اہلِ ادب اورماہرینِ فنون، غرض تمام ہی اس کے گردگھومتے تھے۔ فاحشہ عورتیں نہ صرف علم و ادب کی محفلوں کی صدر نشین ہوتیں ، بلکہ بڑے بڑے سیاسی معاملات بھی اس کے حضور طے ہوتے تھے۔ قوم کی زندگی و موت کا فیصلہ جن مسائل کے ساتھ وابستہ تھا ان میں اس عورت کی رائے وقیع سمجھی جاتی تھی جس کی دو راتیں بھی کسی ایک شخص کے ساتھ وفاداری میں بسر نہ ہوتی تھیں۔ 66
سولن (Solon) نے ہر والد کو یہ اجازت دے رکھی تھی کہ اپنی ہر اس بیٹی کو بیچ دے جو شادی سے پہلے اپنا کنواراپن کھو بیٹھے۔ اُ س کے اِس اقدام کی وجہ سے ایتھنز (Athens) ایک بڑے چکلے میں تبدیل ہوگیا جہاں پر رنڈیوں کی بھرما ر تھی اور پورے یونان کے تاجر یہاں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے آتے تھے۔67ان عصمت فروش عورتوں کے یونانیوں نے کئی نام رکھے ہوئے تھے جیسے کہ پورن (Porne) اور ہیٹائرہ(Hetaira) ۔ دونوں میں فرق یہ تھا کہ پورن اس عصمت فروش عورت کا نام تھا جو گلیوں میں عصمت فروشی کرتی یا پھر کسی سستے چکلے میں کام کرتی جبکہ ہیٹائرہ ایک اونچے درجے کی رنڈی تھی جو چھوٹے گاہکوں کو منہ نہ لگاتی بلکہ امراء کو اپنا جسم سپرد کیا کرتی تھی۔68مزید یہ کہ ہیٹائرہ کی کچھ اقسام اور بھی تھیں جو ناچنے ، گانے اور شراب پلانے میں بھی ماہر تھیں۔ ان دونوں میں ایک اور بنیادی فرق یہ تھا کہ پورن چکلوں کے باہر اپنا سینا کھول کر کھڑی ہوتی تاکہ جس شخص کو بھی پسند آئے وہ اس کے ساتھ ہمبستری کرے جبکہ کچھ تو بلکل برہنہ گھومتی تھیں اور جب ان کا دل کرتا تو کسی بھی مرد کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں گھسیٹ لاتی یا وہیں عمل قبیح شروع کردیا کرتی تھیں۔
عصمت فروشی صرف خواتین تک محدود نہ تھی بلکہ مرد بھی پیسے کمانے کے لیے اپنے جسم کو اس فعل قبیح میں بیچا کرتے تھے۔ یہ مرد عورتوں کی طرح بازاروں میں کام نہ کرتے بلکہ بند دروازوں کے پیچھے کیا کرتے تھے۔ یہ مرد ان کی نجی محفلوں میں شرابیں پلایا کرتے، گانے بجاتے، ناچتے اور صحبت کیا کرتے تھے69گویا دور ِحاضر میں ہونے والی ہر طرح کی زناکاری اور ہم جنس پرستی کے اصل استاد اور مرشد یونانی تھے جنہوں نے پوری دنیا کے لیے رنڈی بازی اور حرام کاری کے عمل کو باقاعدہ صنعت کے طور پر متعارف کروایا تھا ۔
قدیم یونان میں شراب بنانے کے ساتھ ساتھ موسیقی اور ناچنا بھی ایک اہم سماجی رکن سمجھا جاتا تھا۔ ان لوگوں کے ہاں ناچنے، گانے اور شاعری کے لیے موسیقے (Mousike) کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ ناچنا گانا ان کے تمام مذہبی و سماجی تہواروں کا اہم حصہ تھا ۔خصوصا شادیوں اور جنازوں میں تو عام رواج تھا۔ عام لوگوں کے علاوہ یونان میں ماہر ناچنے والیاں بھی موجود تھیں جو عموما لونڈیاں اور عصمت فروش عورتیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ عورتیں اپنے فحش کپڑوں میں امراء کی دعوتوں میں ناچ کر مہمانوں کے دل بہلاتی تھیں۔ ناچنے کو اتنا پسند کیا جاتا کہ 200 سے زائد ناچنے کے طور طریقے اور تہوار منائے جاتے تھے70 جن پر بہت سی اقوام آج بھی عمل پیرا ہیں اور فخریہ ناچ گانے کے مختلف اندازوں کو قابل تعریف ہنر اور فن سمجھتے ہیں ۔
سمپوزیا(Symposia) یا سمپوزیون (Symposion) ایک یونانی لفظ تھا جس کا معنی لغت کے اعتبار سے"ساتھ پینے" کے تھے۔ اصطلاح میں یہ ایک پینے پلانے کی دعوت ہوا کرتی تھی جس کا اہتمام گھروں میں کیا جاتا تھا۔ یہ دعوت صرف امراء یا سیاست دانوں کے لیے محدود تھی۔ اس دعوت کی شروعات شراب پینے سے کی جاتی پھر کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ کچھ شراب کو بطور چڑھاوا اپنے دیوتاؤں کو پیش کرتے اور پھر شراب پینے اور اونچے درجے کی طوائفوں کے ساتھ ہم آغوش ہونے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ یہاں ان کا ایک نگران بھی ہوتا جس کی ذمہ داری تھی کہ شراب میں تھوڑا سا پانی ملا دے تاکہ پینے والے کم وقت میں مدہوش نہ ہوجائیں۔ کبھی تو ان دعوتوں میں لوگ اتنا بدمست ہوجاتے کہ وہ لڑکوں کے ساتھ بھی کھلے عام بدفعلی شروع کردیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ناچنے والیاں بھی موجود ہوتیں جو اپنے فحش کپڑوں اور رقص سے مہمانوں کے جنسی جذبات کو تسکین پہنچاتی تھیں۔71
عصمت فروشی، ہم جنس پرستی، دغابازی، ظلم وستم، عریانیت اورقتل وغارت گری جیسی صفات سے متصف یونانی معاشرہ اخلاقیات کی اعلی اقدار سے یکسر محروم تھا۔ اس کے دانشمنداورحکماء دوسری اقوام کے لوگوں کو غلام بناکر رکھنا پسند کرتے تھے۔ اپنی عورتوں کو صحت مند اولاد پیدا کرنے کے لیے دوسرے صحت مند مردوں کے پاس بھیجنے میں کوئی شرم و عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ نوجوان لڑکوں کو معلّم کے سپرد کردیا جاتا جو تربیت کے ساتھ ساتھ اس سے اپنی خواہش بھی پوری کرتا تھا۔ان کے مردوں میں آپسی تعلقات ایسے ہوتے جیسے میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں۔ دانشمند، تعلیم یافتہ، تخلیقات کی صلاحیتیں رکھنے والے ذہین و فطین، حکمران اور بادشاہ سب کے سب اخلاقیات کی پستیوں میں غرق ہوچکے تھے۔ یہ وہ نشیب و فراز تھے جو یونانی معاشرے کے ہر طبقہ میں رَچے بسے ہوئے تھےجنہوں نے بالآخر یونانی ثقافت کو تباہ وبرباد کردیا تھا اور وہاں کے لوگ اس بیچارگی کے عالم میں کسی ایسے مصلح کے منتظر تھے جو انہیں ان کو نور ہدایت کے ذریعے ظلمت سے نکال کر فلاح کے راستے پر گامزن کرسکے۔